کس بات کا ؟"
اسکے سوال کے جواب میں وہ تھوڑا جھجكا تھا ۔
"میں آپ سے روڈ ہو کے بات کی تھی ۔اور پھر ہوسپٹل میں میں نے آپ سے بات ہی نہیں کی ۔آئی ایم سوری ۔"
"اٹس اوکے شہیر ۔مجھے برا نہیں لگا اب تم ٹھیک ہو تو ماما بھی ٹھیک ہے ۔"
اسکے زرا سے مسکرا کر کہنے سے شہیر کا چہرہ کھل سا گیا تھا ۔
"دیکھا میں ٹھیک تھا ۔میں نے بابا سے بھی کہا تھا آپ تو اتنا جلدی معاف کر دیتی ہیں ۔"
اسکے پر جوش ہو کر کہنے پر صلہ فقط مسکرا ہی سکی ۔
"ماما ۔"
"ہوں ۔"
"بابا سوری کریں گے تو آپ معاف کر دیں گی نا ۔ورنہ میری کتنی بے عزتی ہو گی ۔بابا کو لگے گا شہیر جھوٹ بولتا ہے ۔"
آنکھوں میں منت لئے کس قدر سمجھداری سے وہ اسے گھیر کر اپنے مدعے پر لے آیا تھا ۔اسکی اس عام سی کہی بات میں اسکی کتنی بڑی حسرت چھپی تھی وہ جانتی تھی ۔
"ہاں کر دوں گی ۔شہیر کے لئے تو ماما کچھ بھی کر سکتی ہے ۔"
"سچی ماما ۔"چہک کر وہ اٹھنے کو تھا جب صلہ نے اسکے کندھے پر زور ڈالتے اسے لیٹے رہنے دیا ۔وہ بھی "اوہ "کے انداز میں ہونٹ گول کیے اپنی جلد بازی پر حجل سا ہوتا جھینپتا مسکرا دیا ۔
"آئی لو یو ۔"اور اب کی بار وہ ہنسی تھی ۔
"اچھا ۔"
"آپ ہنس کیوں رہی ہیں ؟"منہ بنا کر پوچھتے شہیر کو لگا تھا جیسے صلہ کو اس پر یقین نه ہو ۔
"صبح تو کوئی مجھے چھوڑ کر بابا ساتھ جانے کی بات کر رہا تھا ۔"
اس وقت وہ مذاق میں کہہ رہی تھی مگر حقیقت یہ بھی تھی شہیر کی اس بات نے اسکے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی ۔
"وہ تو میں ویسے ہی کہہ رہا تھا میں آپ کو چھوڑ کر جا سکتا ہوں کیا ماما ؟"
اسکی طرف کروٹ لیتے ہوئے اپنا بازو صلہ کے گرد پھیلا کر وہ لاڈ بھرے انداز میں کہہ رہا تھا ۔صلہ نے سر جھٹکا ۔
"پورے ڈرامے ہو تم ۔"
مسکراتے ہوئے اس نے اسکے کندھے پر زرا سی چپت رسید کی تھی ۔
"پر آپ تو کہتی ہوتی ہیں میں فلم ہوں ۔"ڈھٹائی سے کہتے ہوئے وہ ہنسا تھا اور اس بار اسکی ہنسی کا ساتھ صلہ کی دبی دبی ہنسی نے بھی دیا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بستر پر آڑ ھا ترچھا لیٹا وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا ۔پورے وجود پر جیسے مژدگی سی چھائی ہوئی تھی ۔کل رات کے بعد سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔دن کا پہلا حصہ تو پہلے ہوسپٹل کی بھاگ دوڑ اور پھر شہیر اور صلہ کو چھوڑنے میں نکل گیا تھا ۔آفس سے وہ لیٹ ہو گیا تو ہوٹل واپس آ کر اس نے آف کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ویسے بھی وہ دو تین دن سے شہیر سے کیے اپنے وعدے کی پاسداری میں بری طرح خوار ہوتا رہا تھا ۔نیند پوری نہیں ہو پا رہی تھی مگر مسئله نیند کا نہیں تھا وہ راتیں آنکھوں میں کاٹنے کا اس قدر عادی ہو گیا تھا کہ اب اگر رات کو صرف دو ڈھائی گھنٹے کی ہی نیند لے لیتا تو صبح تروتازہ ہوتا تھا ۔اس تھکاوٹ کی اصل وجہ تو کوئی اور تھی ۔کیا ہو اگر آپ ایک عرصے تک خود کو صحیح ہونے کی تهپکی دیتے رہیں اور کوئی آ کر لمحوں میں آپ کی سب تاویلوں کو پانی کا بلبلا ثابت کر کے رکھ دے ۔
نو سال پہلے بھی اس رات صلہ کے جانے سے پہلے اسکی کہی باتوں سے اسے اپنا دل ڈگمگاتا محسوس ہوا تھا ۔
"ہمیشہ آپ ہی تو کہتے ہیں اور میں ہی تو سنتی ہوں ۔لیکن اب سے ایسا نہیں ہو گا ۔مجھے پاپا سے بات کرنی ہے اور اسکے بعد میں بولوں گی اور آپ سنیں گے سنا آپ نے حیدر ۔جہانگیر اور حیدر کے قصے میں بھلے آپ قصور وار ہوں یا نہیں مگر صلہ اور حیدر کی کہانی میں لازمی طور آپ قصور وار ہیں ۔اور اس بارے میں ،میں آپ سے واپس آ کر بات کروں گی ۔"
اسکی بھیگی خاموش شکوہ کرتی آنکھیں اور ان جملوں میں چھپی تکلیف کے ساتھ اک موہوم سی آس ،سب ٹھیک ہو جانے کی ،کوئی در کوئی روزن کھلا ہونے کی امید ۔وہ تب بھی ڈرا تھا اپنے ارادوں کے پسپا ہونے سے ۔اتنے سالوں تک اس نے اپنا انتقام پلان کیا تھا اب جب سب ٹھیک ویسے ہی ہو گیا تھا جیسے وہ چاہتا تھا تو پیچھے ہٹ کر اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنا اسکے اندر کے اس بچے کو بالکل نا منظور تھا جس کے کہیں سال خود کو سمیٹنے میں دھول ہوئے تھے ۔
یہاں سے جانے کے بعد وہ دوبارہ اسکا سامنا کبھی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔اور جب ہوا تھا تو اسکی باتوں نے اسے بے چینی کے ساتھ ساتھ جهنجهلاہٹ کا شکار بھی کیا تھا ۔اتنے سالوں بعد اپنا غلط ہونا ،یہ اعتراف خود سے کرنا بھی دل کو پاتال میں دهكیلنے کے مترادف تھا کجا کہ صلہ کے سامنے ۔اس نے خود کو ان چند دنوں میں ہزارہا بار وہ سبھی دلیلیں دی تھیں جو اتنے عرصے سے کارآمد ثابت ہوئی تھی پھر اب کیوں بودی لگنے لگی تھیں ۔شہیر کے سامنے اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کسی مشینی انداز میں کیا تھا بنا سوچے سمجھے ،دل سے نکلی بات ۔وہ دل جو کبھی اسکی مشیت سے باہر نہیں ہوا تھا اب اپنے فیصلے خود کرنے لگا تھا .
موبائل کی رنگ پر اسکا ارتکاز ٹوٹا تھا ۔بوبی کی کال تھی ۔یوں ہی لیٹے لیٹے ریسیو کرتے اسے خیال آیا تھا وہ کتنے دن سے ان سے بھی ٹھیک سے بات نہیں کر پایا تھا ۔
"اسلام علیکم ۔"
""وعلیکم سلام ۔جیتے رہو ۔"
انکی پر شفیق آواز نے تنے ہوئے اعصاب کو فرحت بخش احساس سے دوچار کیا تھا ۔
"کیسے ہیں آپ بو بی ۔"آواز کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔
"میں تو ٹھیک ہوں تمہیں کیا ہوا ہے ؟"سوال غیر متوقع تھا اسکا اچنبھا بنتا تھا ۔
"میں بھی ٹھیک ہوں ۔"ایک ایک لفظ توڑ توڑ کر کہتے وہ الجھا سا تھا ۔
"پھر مجھے کیوں نہیں لگ رہے ؟"اگلے سوال پر وہ کرنٹ کھا کر بستر سے اٹھ بیٹھا تھا ۔اتنے دور نظروں سے اؤجهل ہونے کے باوجود وہ اس کو جانتے تھے ،پہچانتے تھے کہ اسکی آواز سے ہی اسکے دل کا حال معلوم کر لیا کرتے تھے ۔
کچھ دیر کے لئے بالکل سکوت چھا گیا تھا ۔اسے بولنے میں دقت ہوئی تھی ۔ہر انسان کی زندگی میں کم از کم ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو اسکا آئینہ دار ہوتا ہے اور جس سے جھوٹ بولتے زبان لاکھ کوشش کے باوجود لڑکھڑانے لگتی ہے ۔مرتضیٰ حیدر کاظمی کی زندگی میں وہ واحد انسان عبدالرحمان کاظمی تھے ۔
"میں تو بالکل ٹھیک ہوں بوبی ۔پتہ نہیں آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے ۔"پھیکی سی ہنسی کے ساتھ انہیں مطمئین کرتے وہ خود بے اطمینانی کا شکار ہوا تھا ۔صد شکر وہ صرف اسکی آواز سن سکتے تھے اگر روبرو ہوتا تو ۔۔۔
"اچھا ۔پھر شاید میں بوڑھا ہو گیا ہوں ۔میری حسیات کمزور پڑنے لگی ہیں ۔"وہ خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوئے ۔مطمئین ہوئے یا نہیں حیدر جانچ نہیں سکا تھا ۔بو بی بات کے پیچھے پڑ جانے والوں میں سے نہیں تھے نه ہی بار بار دوہرانے والوں میں انکا شمار ہوتا تھا ۔
"بو بی ؟"
کچھ توقف کے بعد یوں ہی بیٹھے ہوئے سر جھکائے اس نے بنا سوچے سمجھے انہیں پكارا تھا ۔
"کیا بات ہے مرتضیٰ ؟کوئی کام کی پریشانی ہے ؟یا پھر ہاں۔۔۔۔ وہ تمہارا ننها دوست اسکی وجہ سے اپ سیٹ ہو ۔"
"پریشانی تو کوئی نہیں ہے ۔آپ سے بس کچھ پوچھنا تھا یوں ہی جنرلی اور اس کا اطلاق آپ مجھ پر نہیں کریں گے ۔آج مجھ سے کسی نے یہ سوال کیا میرے پاس جواب نہیں تھا ۔آپ کو پتہ ہے نا زیادہ گہری باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں ۔"
وہ زخمی سے انداز میں مسکرایا تھا ۔
"اچھا پوچھو بھئی ۔"انکے کہنے پر اس نے نیم وا لبوں کے ساتھ لفظ تلاشے تھے ۔
"اگر ۔۔۔۔اگر کبھی آپ جان بوجھ کر کسی بے گناہ کے ساتھ زيادتی کے مرتکب ہو جائیں تو ؟کسی کی زندگی آپ کی وجہ سے جمود کا شکار ہو جائے ،کسی کا دل ٹوٹ جائے تو ؟انجانے میں کسی کو ہرٹ کرنے کی معافی ہو سکتی ہے کیا جان بوجھ کر کسی کا دل توڑنے کی بھی معافی مل جاتی ہے بوبی ؟"
کہتے ہوئے اسکی آنکھوں کے سامنے صلہ کا عکس سا لہرایا تھا ۔اور اس نے پلکیں جهپک ڈالی تھیں ۔
"انجانے میں ہوئی غلطياں تو ویسے بھی معاف ہو جایا کرتی ہیں ۔ہاں جان بوجھ کر کی گئی غلطیاں کبھی کبھی گناہ کا روپ دھار لیتی ہیں ۔انسان غلطی کا پتلا ہے مرتضیٰ ۔بار بار غلطیاں کرتا ہے ،بار بار گرتا ہے پھر سنبهلتا ہے اور عہد کرتا ہے آئندہ اس سے بچے گا اور کچھ وقت بعد پھر سے بھول جاتا ہے ۔اور پھر سے کوئی غلطی سرزد کر بیٹھتا ہے ۔یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔مگر کسی کا جان بوجھ کر دل توڑنا یہ تو غلطی نہیں ہوئی یہ تو گناہ بن جاتا ہے ۔ٹوٹے دل بڑی مشکل سے جڑتے ہیں ،رکی ہوئی زندگی بڑی مشکل سے آگے بڑھتی ہے ۔اور تم کہتے ہو تمہیں اس سوال کا جواب نہیں آیا ۔میں مان ہی نہیں سکتا ؟تم سے بہتر اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے ؟"
گفتگو کا رخ ایک دم سے اسکی ذات کی طرف مڑا تھا ۔حیدر نے بوجھل دل کے ساتھ انہیں سنتے خود کو اگلے پلوں کے لئے تیار کیا تھا ۔
"ٹوٹے دل کیسے ہوتے ہیں مرتضیٰ تم جانتے ہو ؟زندگی پر سکوت طاری ہو جائے تو سانسیں کیسے دوبھر ہوتی ہیں تم اس سے گزرے ہو ۔ٹوٹا دل جوڑنے میں کتنی محنت لگتی ہے یہ تو صرف جوڑنے والا ہی جانتا ہے اور میں نے کہیں سال لگا کر ایک ٹوٹا دل جوڑا تھا مرتضیٰ ۔اس دوران کتنی بار میرا دل ٹوٹا وہ تکلیف بھی میں نے سہی ہے ۔اور تم صحیح کہتے ہو اس سوال کا اطلاق تم پر نہیں کیا جاسکتا ۔جن کے اپنے دل ٹوٹے ہوں وہ ہاتھوں میں سنگ لئے نہیں پھرتے ،وہ کسی دوسرے کا دل نہیں توڑتے ۔اور میرا مرتضیٰ ایسا کسی کے ساتھ کر ہی نہیں سکتا جانتے ہو کیوں ؟کیوں کہ اسکے اپنے سینے میں ٹوٹ کے جڑا دل دھڑکتا ہے ۔"
کسی کا مان ،یقین ،اور بھروسہ آپ کے وجود سے روح کھینچ لے جائے تو وہ تکلیف کیسی ہوتی ہے ۔زلزلوں کی زد میں آئے مرتضیٰ حیدر کے چہرے پر وہ دیکھی جا سکتی تھی ۔
"مطلب اس گناہ کی کوئی تلافی کوئی معافی نہیں ؟لیکن بوبی یہ بھی تو ہو سکتا ہے نا وہ شخص خود بھی گھائل ہو ۔اسکا اپنا دل بھی زخم زخم ہوا ہو ۔ایسے شخص کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسکے ہاتھ سے پڑنے والا پتھر کسی دوسرے کو کس طرح تکلیف سے دوچار کرتا ہے ۔"
ایک آخری کوشش ۔کوئی تاویل ڈھونڈنے کی ،ڈوبتے دل کو سہارا دینے کی ۔مگر ہر بار سہارے میسر بھی تو نہیں آتے ۔
"تم نے بے گناہ کہا تھا مرتضیٰ ۔مجھے نہیں پتہ پوچھنے والے نے یہ کس پس منظر میں پوچھا تم سے ۔مگر جہاں تک میری سمجھ کہتی ہے وہ خود بھی جانتا ہے وہ غلط ہے ۔اگر تو کوئی آپ کے ساتھ زيادتی کرتا ہے اور آپ اسکا اتنا ہی بدلا اسی انسان سے لیں تو دل میں ایسے سوال جنم نہیں لیتے ۔اسے مکافات عمل کا نام دے کر دل پر سکون ہو نه ہو بے سکون کبھی نہیں ہوتا ۔یہ بے سکونی تو وہاں نصیب بنتی ہے جب کسی کی غلطی کی سزا کسی دوسرے کو دی جائے ۔اور اگر ایسا کیا جائے تو یہ ظلم ہے اور ظلم کی کبھی بھی کسی صورت بھی کوئی جسٹی فیکیشن نہیں ہوا کرتی ۔"
اور یوں کسی کی ساری تاویلیں ،ساری دلیلیں ریت کی بھربھری دیوار ثابت ہوئیں ۔وہ دیوار جس کے پیچھے بہت سے پچھتاوے ،ندامت اور افسوس کے گھنے جنگل تھے جہاں تاریکی تھی ۔جہاں وہ تن و تنہا کھڑا تھا ۔اور وہ سارے بونے جو مختلف حجتوں کے روپ میں اتنے سال اس نے اپنے ارد گرد دل کی تسلی کے لئے کسی حصار کی صورت کھڑے کر رکھے تھے اسے چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے ۔اور وہاں اب بو بی کے کہے الفاظ بازگشت کر رہے تھے ۔
"یہ بے سکونی تو وہاں نصیب بنتی ہے جب کسی کی غلطی کی سزا کسی دوسرے کو دی جائے ۔اور اگر ایسا کیا جائے تو یہ ظلم ہے اور ظلم کی کبھی بھی کسی صورت بھی کوئی جسٹی فیکیشن نہیں ہوا کرتی ۔"
دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا ۔بوبی کچھ اور بھی کہہ رہے تھے اور وہ غائب دماغی سے ہوں ہاں میں فقط جواب دے رہا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
"تم پاگل ہو گئی ہو ۔"
یہ پہلا اور آخری جملا تھا جو خالہ نے اپنے منہ سے بڑے تاسف بھرے انداز میں سر جھٹکتے ادا کیا تھا ۔سامنے صلہ کھڑی تھی ۔اور دس منٹ پہلے ہی مرتضیٰ حیدر اپنے سازو سامان کے ساتھ انکے فلیٹ میں اپنے قدم رکھ چکا تھا ۔اور خالہ اسے یوں دیکھ کر بس کھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہ گئی تھیں ۔اب جب انکے کمرے میں کھڑے ہو کر صلہ نے انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا تھا تو انہیں اسکی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا ۔
"پتہ نہیں خالہ مگر اس وقت مجھے یہی صحیح لگا ۔"
مدهم سی آواز میں کہتی وہ اب بھی کشمکش کا شکار تھی ۔
"ماما ؟"
شہیر کی پکار پر وہ مڑ کر دیکھنے لگی ۔پھر بنا کچھ کہے خالہ کے کمرے سے نکل گئی ۔
اپنے کمرے میں آئی تو شہیر کی خوشی دیدنی تھی جو کبھی حیدر کو تو کبھی اسکے سامان کو دیکھ رہا تھا ۔
"بابا اپنے کپڑے کہاں رکھیں گے ۔ہماری الماری میں جگہ ہو گی کیا ؟"
اس وقت اس کی کیفیت گھر کے اس بزرگ جیسی تھی جو کسی مہمان کے آ جانے پر اسکی خاطر تواضع اور آرام کے لئے ہر ممکن کوشش کر لینا چاہتے ہوں ۔
صلہ خاموشی سے آگے بڑھی تھی الماری کھولی ،ایک سائیڈ خالی کرتے پیچھے ہٹ گئی ۔اس ساری کاروائی میں وہ ایک خاموش تماشائی کا کردار نبها رہا تھا ۔شہیر اسے کچھ کہہ رہا تھا اور وہ مسکرا کر اسے دیکھتے توجہ سے اسکی بات سننے کے باوجود کن اکھیوں سے دو تین بار نگاہ بے نیاز نظر آتی صلہ پر بھی ڈال چکا تھا ۔اسکے کمرے سے نکلنے پر اس نے پتہ نہیں کیوں سکھ کا سانس لیا تھا ۔
"آپ کچھ کھائیں گے بابا ؟"
اچانک سے شہیر کو یاد آیا تھا ۔حیدر جو اٹھ کر اپنا سوٹ کیس بیڈ پر رکھتے کھولنے لگا تھا بستر میں دبکے شہیر کو دیکھ کر رہ گیا ۔پھر اسکی فکر پر ہلکا سا مسکرا کر سر نفی میں ہلا دیا ۔
"ٹھیک ہے دشمنی اپنی جگہ مگر گھر آئے نہیں بلکہ گھر بلائے شوہر کو بندہ جھوٹے منہ پانی کا ہی پوچھ لیتا ہے ۔"
اپنی ہینگ کی ہوئی شرٹس نکال کر دیکھیں ،کہیں کہیں پڑی سلوٹوں کے ساتھ انکی استری خراب ہو چکی تھی ۔لیکن پھر بھی وہ انہیں الماری میں لٹکانے لگا تھا ۔
کمرے میں صلہ کی ایک بار پھر سے واپسی ہوئی تھی اور اسے دیکھ کر حیدر کو خوش گوار سی حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔
"بلا آخر میڈم کو خیال آ ہی گیا ۔"
اسکے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں سینڈوچ اور جوس کا گلاس دیکھ کر وہ جھک کر سوٹ کیس میں سے کپڑے نکالتے رک سا گیا ۔
"یہ لو شہیر ۔فنش کرو اسے ۔صبح ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا تھا تم نے ۔"
اور یہ حیدر کی خوش فہمیوں پر صلہ نے بالٹی بھر کے پانی گرايا تھا۔ماتھے پر تیوری چڑھائے وہ جھپٹنے کے سے انداز میں کپڑے اٹھائے الماری کی طرف پلٹا تھا ۔بنا اسکی طرف دیکھے وہ سیدھی شہیر کی طرف بڑھی تھی ۔
"آپ بابا کے لئے نہیں لائیں ؟"
سرگوشی نما آواز میں کچھ خفگی کے ساتھ شہیر ماں کو آداب میزبانی سکھانے کی کوشش کر رہا تھا جو شاید وہ بھول رہی تھی ۔
حیدر کے کانوں تک بھی اسکی آواز نے سفر طے کر ہی لیا تھا ۔اور اب وہ اسکے جواب کا منتظر تھا ۔
"بابا کوئی مہمان تھوڑی ہیں بیٹا انہیں جو چاہیے ہو گا وہ خود لے لے گے ۔"
حد درجه آواز میں نرمی کا تاثر قائم رکھتے وہ اسے سینڈوچ پکڑا رہی تھی ۔حیدر کے منہ کے زاویے بگڑے ۔
"اس سے اچھا تو میں ہوٹل میں ہی تھا ۔یہ عورت تو اپنے بدلے کی آگ میں مجھے بھوکا مارے گی ۔"
ایک گھنٹے میں ہی اسے گھر داماد والی فیلنگ آنے لگی تھی ۔
"بابا آ جائیں ۔آپ کو ماما کے ہاتھ کے بنے سینڈوچز اچھے لگتے ہیں ناں ۔آپ کو پتہ ہے ماما میں بابا کے لئے پارک میں لے کر جایا کرتا تھا ۔"
شہیر ہر ممکن حد تک اسکا خیال کرنے کی سعی میں تھا ۔اور وہ اندر ہی اندر اس نئے انکشاف پر سلگ کر رہ گئی ۔یعنی وہ اسکے اتنی محبت اور محنت سے بنائے سینڈوچز اس شخص کو ٹھونسنے کے لئے دیتا رہا تھا ۔
"نہیں تم کھاؤ یار ۔میں یہ کام نمٹا لوں ۔"بنا مڑے وہ ہنوز اپنے کپڑوں سے الجھتا بولا ۔
"آپ رہنے دیں ماما کر دیں گی ۔آپ ٹھیک کرنے کے بجائے اور خراب کر رہے ہیں ۔"
شہیر نے الماری سے زمین بوس ہوتی اسکی شرٹ دیکھ کر کھلکھلا کر کہا تھا ۔اور صلہ نے اس چھوٹی دنیا کو خشمگیں نظروں سے گھورا تھا ۔
"آپ کر دیں گی نا ماما ؟"
لجاجت بھرے انداز میں ماں کو دیکھا ۔صلہ نے اندر کی کھولن پر قابو پاتے ہونٹوں کو مسکراہٹ کے انداز میں کھینچا ۔
"کیوں نہیں ۔میں کر دیتی ہوں ۔"
نرمی سے کہتے وہ جوں ہی پلٹ کر حیدر کی طرف مڑی تھی ۔چہرے پر دنیا جہاں کی سختی اور بے زاری نے جگہ لے لی تھی ۔اسکے پاس آ کر اسکے ہاتھ سے شرٹس لیتے اس نے آگ برساتی نظروں سے اسے گھورا تھا ۔
"سائیڈ پر ہو جائیں اب ۔"دانت کچکچا کر کہا تو وہ چپ چاپ ایک طرف ہوتا شہیر کی طرف آ گیا تھا ۔
اور صورت حال اب کچھ یوں تھی کہ وہ جلتی کڑھتی اسکے کپڑے الماری میں سیٹ کر رہی تھی اور وہ مزے سے شہیر کے ساتھ بیٹھا سینڈوچ انجوائے کر رہا تھا ۔ساتھ ہی ساتھ ایک ہی گلاس سے باری باری دونوں جوس کا سپ بھی لے رہے تھے ۔
"بابا آپ کی آئیز کتنی بیوٹی فل ہیں ۔گرے كلر واؤ ۔"باتیں کرتے کرتے اچانک سے شہیر نے ستائش سے اسے دیکھتے تعریف کی تھی۔حیدر مسکرایا تھا ۔الماری کا پٹ صلہ نے زور سے بند کیا تھا ۔وہ دونوں ہی بیک وقت اسکی طرف دیکھنے لگے تھے ۔
"شہیر اپنے بابا کی آنکھوں اور بالوں کا رنگ چیک کر لینا امید کرتی ہوں اس بار اصلی ہو گا ۔"
بازو سینے پر لپیٹ کر وہ بولی اور یہ سینڈوچ کا آخری نواله حیدر کے گلے میں اٹکا تھا ۔شہیر نا سمجھی بھری نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگا تھا ۔
"کیوں بابا کی آنکھیں اور بال نقلی ہیں کیا ؟"
اور اس سے زیادہ وہاں بیٹھنا اب اسکے لئے ممکن نہیں رہا تھا ۔تنے ہوئے چہرے کے ساتھ اٹھ کر اس نے صلہ کو دیکھا تھا جو اسکی حالت سے محظوظ ہوتی مسکراتی ،طنزیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
"بابا ؟"
شہیر کو اپنی بات کا جواب نہیں ملا تو وہ کچھ چڑ کر اسے اپنی طرف مٹوجہ کرنے لگا تھا ۔
"میرا کچھ بھی نقلی نہیں ہے شہیر ۔تمہاری ماما مذاق کر رہی ہیں ۔"
گلے میں اٹکے نوالے کے ساتھ بولتے کچھ دقت ہوئی تھی ۔ساتھ ہی صلہ کو تنبیہی نظروں سے دیکھا گیا تھا جو اسکی بے بسی سے خوب حظ اٹھا رہی تھی ۔
"میں آتا ہوں تھوڑی دیر تک ۔"بمشکل لہجے کو کسی تلخی کی نذر ہونے سے بچاتے وہ سرعت سے کمرے سے ہی نکل گیا تھا ۔
اور باہر اگر وہ سوچ رہا تھا سکون ہو گا تو وہ سراسر غلط تھا ۔کیوں کہ لیونگ ایریا میں ہی رقيه خالہ بیٹھی ہوئی تھیں اسے کمرے سے نکلتا دیکھ کر ہی انکی چھبتی نظریں اس پر ٹھہر سی گئی تھیں ۔
"آہ ۔"اسکا دل بے بسی بھری کوفت سے کراہا ۔
کچن ایریا میں جا کر گلاس میں کولر سے پانی انڈیلتے ہوئے بھی اپنی پشت پر انکی نظروں کی تپش اسے بے آرام کرتی رہی تھی ۔
"نوالے گنتے تو سنا تھا مگر یہاں تو پانی کے گھونٹ بھی گنے جا رہے ہیں ۔کہاں پھنس گیا ہوں میں ۔"
جهنجهلا کر گلاس رکھتے وہ باہر کی جانب بڑھنے لگا تھا ۔
"بات سنو میاں ۔"
خالہ کی تیکھی آواز پر وہ رکا ضرور تھا مگر پلٹا نہیں ۔
"میرے سامنے کم کم آیا کرو تمہیں دیکھ کر میرا بی پی ہائی ہونے لگتا ہے ۔"
کڑے تیوروں سے اسے گھورتے انکا انداز بھی بڑا تیکھا سا تھا ۔حیدر پہلے ہی جلا بھنا تھا مزید کسر اس نئے ارشاد نے نکال دی تھی ۔(ایک تو ان خالہ بھانجی نے ٹھیکہ اٹھا لیا تھا اسے قدم قدم پر ذلیل کرنے کا ۔)
زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ پلٹا تھا ۔
"یہ تو اب ممکن نہیں ہے ۔پہلی بات میرے پاس کوئی سلیمانی ٹوپی تو ہے نہیں جسے پہن کر آپکا سامنا ہوتے ہی میں غائب ہو جاؤں ۔دوسری بات یہ فلیٹ کافی چھوٹا ہے اور اس میں چلتے پھرتے آپ کو معذرت کے ساتھ مجھے برداشت تو کرنا پڑے گا ۔اس لئے خالہ آپ یہ کریں بی پی کی دوائی ہر وقت پاس رکھا کریں جوں ہی نظر مجھ پر پڑے ساتھ ہی لے لیا کریں ۔ٹھیک ہے ؟"
بڑے سکون آمیز لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولتا ،ساتھ ہی اپنے نایاب مشورے سے انہیں مستفید کرتے ،وہ صحیح معنوں میں انکا بی پی ہائی ہی کر رہا تھا ۔
"ہائے ہائے ۔کتنی لمبی زبان ہے تمہاری توبہ توبہ ۔کندھے پر لٹکائے پھرتے ہو تم تو ۔اور خبر دار جو مجھے خالہ کہا تو ۔مجھ سے رشتے داریاں نہ ہی نکالو تو بہتر ہو گا تمہارے لئے ۔"ہاتھ ہلا کر کہتیں وہ اسے کینہ توز نظروں کے ریڈار پر رکھے ہوئے تھیں ۔حیدر نے ایک گہرا سانس خارج کیا پھر سر کو ذرا سا خم دیا ۔
"جیسے آپ کہیں رقيه خاتون ۔"ادب سے تھوڑا سا جھک کر کہتا وہ یہ جا وہ جا ۔پیچھے خالہ منہ کھولے اسکی چھوڑی جگہ کو دیکھتی رہی تھیں ۔آنکھیں جھپک گھومتا سر ہاتھ میں تھاما ۔ساتھ ہی كراهتے ہوئے اؤنچی آواز میں پكارا تھا ۔
"صلہ ۔۔۔۔۔جلدی آؤ میرا بی پی چیک کرو آ کر ۔یہ چلتی پھرتی بلا جو تم اس گھر میں لے آئی ہو میرا بی پی شوٹ کر کے ہی دم لے گی ۔"
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
"صلہ ؟"
وہ اپنا لیپ ٹاپ لئے بیٹھی تھی جب اسکی پکار پر سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔وہ کچھ دیر پہلے ہی واپس آیا تھا اور تب سے شہیر کے ساتھ تھا ۔صلہ نے تین دن کے لئے آفس سے لیو لے لی تھی ۔
"مجھے کچھ کہنا ہے ؟"ہنوز اسے دیکھتے وہ دو قدم اور آگے بڑھا۔
"فرمائیے ؟"دوبارہ سے نیلی سکرین پر نظریں جما دی ۔حیدر نے یوں ہی کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے اسکے جھکے سر کو دیکھا تھا ۔
""کیا ایسا نہیں ہو سکتا جب تک ہم ساتھ ہیں ۔ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سے رہیں ۔۔۔۔"
ابھی اسکی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب صلہ نے نظریں اٹھا کر اسے کٹیلے پن سے دیکھا تھا ۔
"شہیر کے سامنے ۔ہمارا آپسی تعلق اس پر برا اثر نہ ڈالے صرف اس لئے کہہ رہا ہوں ۔"اور ان نظروں کے جواب میں وہ فوری بول اٹھا تھا ۔صلہ نے ایک گہری سانس خارج کرتے پیچھے ٹیک لگائی تھی ۔
"تو اب آپ مجھے پیرنٹگ کے اصول سکھائیں گے ۔"سر کو ہلاتی وہ ہنکارا بھرتی اسے سر سے پیر تک دیکھ رہی تھی ۔
"حیدر صاحب میں جانتی ہوں میرے بچے کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔میں آپ کی طرح کوئی منجھی ہوئی اداکار نہیں ہوں مگر پھر بھی کوشش کروں گی شہیر کے سامنے ہم اچھے ٹرمز کے ساتھ رہیں ۔لیکن آپ ایک بات اچھے سے ذہن نشین کر لیجئے گا آپ یہاں صرف شہیر کے لئے ہیں ۔اس لئے اپنی حد میں ہی رہیے گا ۔"آواز زیادہ سخت نہیں تھی مگر لہجے کی قطعیت اپنے عروج پر تھی ۔ڈھکے چھپے الفاظ میں وہ اسے وارننگ دے گئی تھی ۔اور ان الفاظ میں کون سے معنی پوشیدہ تھے کیا اسے بتانے کی ضرورت تھی ؟
"جی بہتر ۔"
منہ کے زاویے بگاڑتا وہ وہاں سے واپس ہو لیا تھا ۔صلہ نے اسکے کمرے میں گم ہونے تک اسکی پشت کو سخت نظروں سے گھورا تھا ۔اسے برداشت کرنا اتنا آسان تو ہرگز نہیں تھا ۔وہ چاہے جتنا مرضی "مجھے فرق نہیں پڑتا "کا سائن بورڈ چہرے پر سجائے پھرتی مگر حقیقت تو یہ تھی نا چاہتے ہوئے بھی اسے فرق تو پڑتا تھا ۔خفیف سا سر جھٹک کر دوبارہ لیپ ٹاپ کی سکرین کی طرف توجہ مبذول کی ۔