شہیر کو ہوسپٹل وہی لے کر گئے تھے خالہ ۔آج ایک اور حقیقت آشکار ہوئی ہے مجھ پر ۔میں جتنی چاہے بہادر بن جاؤں شہیر کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی ۔زندگی میں ہر رشتے کا اپنا خانہ ہے خالہ ۔میں شہیر کے لئے اسکے باپ کے خانے میں فٹ نہیں آ سکتی ۔چاہے جتنی مرضی کوشش کر لوں میں اسکی ماں ہی رہوں گی باپ نہیں بن پاؤں گی ۔"
اپنے ہاتھوں کو دیکھتی وہ بہت آہستہ آواز میں بول رہی تھی کہ بمشکل پاس بیٹھیں خالہ سن پا رہی تھیں ۔
"صلہ تم نے اس کے لئے بہت کچھ کیا ہے ۔کیا کمی آنے دی ہے آج تک اسے ۔اچھے سے اچھا کھلایا ،پلايا ،شہر کے مہنگے ترین اسکول میں پڑھ رہا ہے وہ ۔۔۔۔"
خالہ اسے یوں دل برداشتہ دیکھ کر خود کو کہنے سے روک نہیں پائی تھیں ۔
"یہ سب تو ضرورتیں ہیں خالہ ۔کوئی بھی پوری کر سکتا ہے ۔مگر سر پر باپ کی موجودگی ،اسکی شفقت ،اسکی محبت یہ سب بھی تو ضروری ہے نا ۔آپ نے دیکھا تھا نا صبح وہ کس قدر خفا ہو کر نکلا تھا ۔اگر اسے کچھ ہو جاتا خالہ یا خدا نخواستہ زیادہ چوٹ آتی تو میں کیا کرتی ؟آپ کو پتہ ہے وہاں ہوسپٹل میں وہ حیدر کے ساتھ جانے کی ضد کر رہا تھا ۔دو تین دن پہلے ملنے والا باپ اسے مجھ سے زیادہ عزیز ہو گیا ہے ۔"
آنکھوں میں نمی لئے انکی طرف دیکھتے ہوئے وہ خود کو بہت بے وقعت محسوس کرنے لگی تھی ۔شہیر نے اسے اسکی اپنی نظروں میں ہلکا ہی تو کر دیا تھا ۔خالہ نے اسے دکھ بھری نظروں سے دیکھا تھا ۔
"یہ بات نہیں ہے صلہ ۔اسے آج بھی تم سے پہلے جتنی ہی محبت ہے ۔بس انسانی فطرت ہے جو چیز پاس نہیں ہوتی دل اسکی جانب کھینچا چلا جاتا ہے بھلے پاس اس سے کہیں گنا بہتر متبادل موجود کیوں نہ ہو ۔محرومی انسان کو باغی بنا دیتی ہے۔اور وہ تو پھر بچہ ہے ۔بچوں کو اپنی ضد کے آگے کوئی دلیل کوئی تاویل دکھائی کب دیتی ہے ۔انہیں تو بس جو چاہیے سو چاہیے ۔"
انکی بات سنتے گال پر بہہ آنے والے واحد ننھے سے آنسو کو صاف کرتے وہ بمشکل مسکراتے سر ہلا گئی تھی ۔اس وقت اپنا دل بچہ بنا ہوا تھا ہر دلیل ،ہر تاویل کو رد کر دینے والا ۔
"میں اس کے لئے دودھ لے کر جاتی ہوں ۔کمزوری محسوس کر رہا ہو گا ۔"بنا ان سے نظریں ملائے وہ اٹھ کر کچن کی طرف چل دی تھی ۔خالہ نے اسکے جاتے ہی دل پر بڑی سی سل رکھتے ایک خفگی بھری نظر کمرے کی جانب ڈالی تھی ۔وہ ابھی تک باہر نہیں آیا تھا ۔اور انکا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر گھر سے باہر کر دیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
دودھ میں شہد ڈال کر وہ کمرے میں داخل ہوئی تو شہیر کی آواز پر اسکے قدم تھم سے گئے ۔وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور اسکے بالکل سامنے قدرے آگے کی جانب جھکے بیٹھے حیدر کی پشت کے باعث وہ اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔
"مجھے پتہ ہے ماما نے آپ کو بولا ہے آپ یہاں سے چلے جائیں اور اب آپ چلے جائیں گے ۔"اسکی آواز میں صلہ کے لئے کس قدر بد گمانی تھی ۔وہ شل سی سنتی رہ گئی ۔
"ماما نے مجھے ایسا کچھ نہیں بولا شہیر ۔"
حیدر کی آواز پر وہ چونکے بنا نہیں رہ سکی تھی ۔
"آپ جھوٹ بول رہے ہیں بابا ۔میں نے خود سنا صبح ماما کو ایسا کہتے ۔تبھی تو میں آپ کے پاس بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور سیڑھیوں سے گر گیا ۔"
حیدر کی غلط بیانی اسے اچھی نہیں لگی تو صاف اظہار نا پسندیدگی کر دیا گیا ۔وہ کچھ دیر بالکل ساکت سا ،متحیر نظروں سے اسے دیکھتا رہا تھا ۔وہ بچہ ضرور تھا مگر اسے مطمئین کرنا بچوں کا کھیل بالکل نہیں تھا ۔
"میرا کلاس فیلو ہے محب ۔آپ کو پتہ ہے وہ بھی آج کل اپ سیٹ رہتا ہے ۔اسکی ماما اسے چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور اس نے مجھے خود بتایا اسکے پیرنٹس آپس میں فائٹ کرتے تھے پھر ایک دن اسکی ماما ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ کر اسکے نانا گھر چلی گئی ہیں اور اسکے پاپا نے اسے بتایا ہے وہ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گی کیوں کہ انکی ڈائیورس ہو گئی ہے ۔اور جب ڈائیورس ہوتی ہے تو پھر بچے پیرنٹس میں سے کسی ایک کے ساتھ ہی رہ سکتے ہیں دونوں کے ساتھ نہیں ۔کیا آپ کی اور ماما کی بھی ایسے فائٹ ہوئی تھی اور آپ گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔"
اداسی بھرے انداز میں اسے دیکھتے وہ جو سوال پوچھ رہا تھا اس نے حیدر کے ساتھ ساتھ صلہ کو بھی ششدر چھوڑ دیا تھا ۔وہ کیا کچھ سوچتا پھر رہا تھا اور کس ذہنی کیفیت سے گزر رہا تھا ۔
"نہیں میری اور تمہاری ماما کی کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی شہیر ۔اور نہ ہی میں تمہاری ماما کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گیا تھا ۔"
وہ بہت آہستہ آواز میں بول رہا تھا یہاں تک کہ صلہ کو سانس روک کر اسکے کہے الفاظ سننے پڑ رہے تھے ۔دم سادھے ،کسی مجسمے میں ڈھلی وہ یوں ہی کھڑی رہی ،ساکت و جامد ۔نا چاہتے ہوئے بھی اسکا رواں رواں اسکے جواب کا منتظر تھا ۔
"وہ میری غلطی تھی شہیر ۔تمہاری ماما کی کوئی غلطی نہیں تھی ۔نہ تب تھی اور نہ ہی آج ہے ۔تم اپنی ماما سے کبھی مجھے لے کر ناراض مت ہونا ۔میں اگر تمہارے ساتھ نہیں ہوں تو اس کی وجہ میں خود ہوں تمہاری ماما نہیں ۔"
نو سال لگے تھے ،پورے نو سال اس شخص کو خود سے بھی یہ اعتراف کرنے میں جس سے اتنا عرصہ وہ نظریں چراتا رہا تھا ۔صحیح غلط کے ہر مفروضے سے بے نیاز اس نے ہمیشہ خود کو درست سمجھتے کسی دوسری سوچ کو ذہن و دل میں بھٹکنے کی اجازت تک نہیں دی تھی اور آج ، اس وقت بھاری ہوتے دل کے ساتھ وہ آٹھ سالہ بچے کے سامنے اقرار کر رہا تھا ۔اپنی غلطی تسلیم کر رہا تھا ۔قدرت انسان کو کب کب ،اور کیسے کیسے زیر کر کے رکھ دیتی ہے ۔گلاس پر اپنی گرفت مضبوط کرتے صلہ نے اپنے ہاتھوں کی لغزش کو دبانا چاہا تھا ۔نگاہوں کے سامنے کا منظر دهندلانے لگا تھا ۔یہ وہ اعتراف تھا جو وہ نو سال پہلے اسکے منہ سے سننے کی متمنی تھی ۔وہ آج کر رہا تھا تو دل خالی خالی سا ہونے لگا تھا ۔
"تو آپ سوری کر لیں نا ماما سے ۔وہ بہت جلدی معاف کر دیتی ہیں ۔میں بھی جب کبھی کوئی غلطی کرتا ہوں تو ایک ہی بار سوری کرنے پر وہ مجھے معاف کر دیتی ہیں ۔"
وہ شہیر تھا اسکے پاس ہرمسئلے کا فوری حل موجود رہتا تھا اور اگر نہیں ہوتا تھا تو اسے ڈھونڈنا آتا تھا ۔حیدر نے بجهی آنکھوں کے ساتھ اسکا امید سے روشن چہرہ دیکھا پھر پھیکا سا مسکرا دیا ۔
"ہر غلطی اتنی جلدی معاف نہیں ہو جایا کرتی ۔تم چھوٹے ہو چھوٹوں کی غلطیاں بھی چھوٹی ہوتی ہیں شہیر ۔مگر بڑے جب غلطیاں کرتے ہیں تو وہ غلطیاں اتنی جلدی معاف کر دینے والی نہیں ہوتیں ۔انکی سزا ہوتی ہے ۔"
اسکی بات پر شہیر کچھ بے چین سا ہوا تھا ۔
"تو ماما بھی اب آپ کو سزا دیں گی ۔آہ بابا ۔۔۔۔پچھلی بار جب میں نے نانو کے نئے وائٹ دوپٹے پر پینٹنگ بنا دی تھی تو مجھے مرغا بننے کی سزا ملی تھی ۔آپ مرغا بن لیں گے کیا ؟"
سزا کے نام پر اسے اپنے لئے تجویز کردہ صلہ کی سزا یاد آئی تھی اور اسے تصور کی آنکھ سے باپ کو مرغا بنا دیکھ کر برا لگنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہمدردی بھی ہوئی تھی ۔دل کے بوجهل پن کے باوجود حیدر خود کو خفیف سا ہنسنے سے روک نہیں پایا تھا ۔
"اتنی سخت سزا دیتی ہیں تمہاری ماما ؟"
صلہ خود نہیں جانتی تھی ان دونوں کی باتیں سن کر گلے میں گھلتی نمی کے باوجود اسکے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے تھے ۔شہیر نے برا سا منہ بنایا ۔
"اور نہیں تو کیا ۔ماما کا رول ہے مرغا بننے کے بعد آپ بول بھی نہیں سکتے ۔اور کبھی کبھی ماما مرغا بنا کر بھول جاتی ہیں انہوں نے مجھے دوبارہ شہیر بھی بنانا ہے تب آپ کو چپ چاپ صرف دعا کرنی ہوتی ہے کہ اللّه تعالی پلیز ماما کو یاد آ جائے ۔"
اس بار حیدر کا قہقہہ گونجا تھا ۔ساتھ میں شہیر کی کھلکھلاہٹ ۔گلے میں گھلتی ساری نمی کو حلق سے نیچے انڈیل کر وہ آنکھیں متعدد بار جهپکتی آگے بڑھی تھی ۔
"شہیر یہ دودھ پی لو ۔"
وہ دونوں ایک ساتھ اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے ۔حیدر نے نگاہ اٹھا کر اسکا چہرہ دیکھا تھا ۔وہ بالکل ویسا ہی تھا ۔پر سکون ،بے تاثر سا ۔یعنی کہ اس نے کچھ نہیں سنا تھا ۔دل کے چور کو کچھ تشفی سی ہوئی تھی ۔
کچھ دیر پہلے حیدر کی کہی باتوں کا اثر تھا وہ بنا چوں چرا کیے کہنی کے بل اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔
دودھ کا گلاس اسے پکڑا کر وہ دو قدم پیچھے ہو گئی تھی ۔اور حیدر کو تو اس نے سرے سے جیسے دیکھا بھی نہیں تھا ۔
"اب میں جاؤں ۔آفس سے پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے ۔میں شام کو آؤں گا تم سے ملنے ۔"اٹھ کر کھڑا ہوتا وہ اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔گلاس منہ سے ہٹاتے اس نے کچھ دیر اسے خاموش نظروں سے دیکھا تھا پھر سر ہاں میں ہلا دیا ۔
حیدر نے مسکرا کر ایک آخری نظر اس پر ڈالی تھی ۔نکلتے نکلتے ایک اچٹتی نگاہ صلہ پر بھی دانستہ ڈالی گئی تھی جو اس سے بے نیاز شہیر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔
کمرے سے نکلتے اس نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔خالہ کی سی آئی ڈی والی نظریں کہیں نظر نہیں آ رہی تھیں ۔
"حیدر ۔"
پیچھے سے پڑی پکار پر دروازے کی ناپ پر رکھا اسکا ہاتھ وہیں جم کر رہ گیا ۔۔۔۔
وہ پلٹا ،کمرے کے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر وہ کھڑی تھی ۔
"بات کرنی تھی اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو ۔"
وہ پوچھ رہی تھی اور آفس سے دیر ہونے کے باوجود وہ انکار کرنے نہیں کر سکا تھا ۔
ڈرائنگ روم میں صوفے پر وہ اکڑوں حالت میں بیٹھا تھا ۔سامنے کرسی پر وہ بیٹھی تھی اسکی طرف دیکھتے، اس نے بولنا شروع کیا ۔
کل رات آپ نے پوچھا تھا کیا کہیں کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟"
وہ لمحہ بھر کے لئے رکی ،حیدر مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔یک ٹک ،بنا پلکوں کی جنبش کے ۔
"میرا جواب نہ تھا اور اب بھی نہ ہے ۔صلہ اور حیدر کی کوئی کہانی نہ تھی نہ ہے ،اور نہ ہی ہوگی ۔"
بنا اس پر سے نظریں ہٹائے وہ پر اعتماد سی نظر آتی تھی ۔حیدر نے ذرا بھر پہلو بدلا۔بہت کچھ یاد آیا تھا ۔لفظ کبھی گونگے نہیں ہوتے وہ بولتے ہیں ،اپنے ہونے کا احساس سالوں بعد بھی کروانے سے باز نہیں آتے اور اپنے کہے الفاظ جب دامن پکڑنے لگیں تو نہ دامن چھڑایا جاتا ہے ،نہ بچایا جاتا ہے ۔
"یہ کہانی جب آپ لکھ رہے تھے تب اس میں تین کرداروں کی تکون تھی ۔حیدر ،صلہ اور جہانگیر ۔آپ کی پوری اسكرپٹ انہی کرداروں کے گرد گھومتی رہی ۔مگر ایک اسکرپٹ اوپر بھی لکھی جاتی ہے اور اس کے مطابق اس کہانی میں ایک اور کردار بھی تھا ۔شہیر کا کردار ۔جو آپ کے جانے کے بعد منظر پر آیا اور ساری کہانی کا رخ بدل کر رکھ دیا ۔"
نو سال بعد وہ بولنے پر آمادہ ہوئی تھی ۔اسکے جانے کے بعد اس نے چپ سادھ لی تھی ۔جہانگیر مراد کے لاکھ اصرار پر بھی اس نے کبھی لندن میں موجود پاکستانی ایمبیسی سے حیدر کی بابت رابطہ نہیں کیا تھا ۔جانے والوں کے قدموں کے نشان كهوجنے پر وہ یقین نہیں رکھتی تھی ۔اسے جانا تھا وہ چلا گیا ۔وہ پیچے سے پکارنے کی قائل نہیں تھی ۔
اس نے حیدر کی خود کے لئے منتخب سزا پر واویلا کرنے کے بجائے چپ میں پناہ اختیار کر لی تھی ۔اور یہ چپ جہانگیر مراد کے لئے ویسی ہی سزا ثابت ہوئی تھی جیسی حیدر چاہتا تھا ۔صلہ نے یونیورسٹی ایڈمشن لے لیا تھا ۔پڑھائی پھر سے شروع کر دی اس طرح وہ مصروف ہوتے بہت سی سوچوں سی فرار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔صلہ نے انکے سامنے کبھی جھوٹ موٹ کی خوشی کا ڈھونگ رچانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ اسکے باپ تھے ۔انہیں چھوڑ نہیں سکتی تھی ،ان سے محبت کرنا بھی ختم نہیں ہو سکتی تھی مگر دل میں انکے لئے بال تو پھر بھی آ گیا تھا ۔وہ پہلے کی طرح انکا خیال رکھتی تھی ،گھنٹوں انکے پاس بیٹھتی تھی ،سب پہلے جیسا ہی تھا مگر پھر بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا ۔
شہیر کی آمد اسکی سکوت زدہ زندگی میں تازہ بہار کا جھونکا ثابت ہوئی تھی ۔وہ سنبهل گئی تھی ۔جہانگیر مراد کو اس سے خاص انسیت تھی اور کبھی کبھی ملال کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی بے بسی پر ہنسی بھی آتی تھی ۔حیدر کے لئے وہ دل میں تھوڑی سی جگہ نہیں بنا پائے تھے اور اسی کی اولاد کے لئے وہ جان تک دینے کو تیار تھے ۔وہ ہارٹ پیشنٹ پہلے بھی تھے کچھ صلہ کے دکھ نے انہیں وقت سے پہلے ہار ماننے پر مجبور کر دیا تھا ۔شہیر دو سال کا تھا جب انہیں دوسرا ہارٹ اٹیک آیا تھا وہ ایک ہفتہ ہوسپٹلائزڈ رہے ۔قریبی رشتے داروں میں سے صرف رقيه خالہ تھیں جنہوں نے صلہ کا ساتھ دیا ۔وہ بیٹے کے پاس کراچی آئی ہوئی تھیں فوری صلہ کے پاس پہنچیں ۔جہانگیر مراد جانبر نہ ہو سکے تھے ۔اور انکی وفات کے بعد صلہ کے لئے اس گھر اس شہر میں رہنا دوبھر ہو گیا تھا ۔رقيه خالہ کا بیٹا بھی آگیا تھا ۔اسی کی مدد سے گھر سیل کرتے وہ لاہور شفٹ ہو گئی تھی ۔
خالہ اور یاور بھائی نے بڑا اصرار کیا تھا وہ انکے ساتھ کراچی چلی چلے مگر اس نے نہیں مانی تو مجبوراً خالہ کو اسکے ساتھ لاہور کا ہو کر رہنا پڑا تھا ۔
ماضی کی بھول بھلیوں کا سفر دشوار گزار تھا ۔کہیں تلخ ،تکلیف ده یادیں جڑی تھیں ۔اس کے اکیلے کی طویل مسافتوں کی اک داستان تھی جو نو سال کے عرصے پر محیط تھی ۔چہرے پر کسی بھی تکلیف بھرے تاثر کو آنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑکی کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ۔
باہر دن کا اجالا پوری طرح پھیل گیا تھا ۔مگر ہر نظر آنے والی روشنی ضروری تو نہیں ہمارے لئے ہی ہو ۔کبھی کبھی اجالوں کے مكین بھی اندر سے تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔
اپنے پیچھے کچھ فاصلے پر اسکے آ کر کھڑا ہونے پر بھی اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔اور پیچھے مڑ کر دیکھنا وہ اب بھی نہیں چاہتی تھی ۔
"آپ کی اصلیت جاننے کے بعد میں ایک بار بھی نہیں روئی ۔ایسا میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا ۔بلکہ میری آنکھیں خود ہی خشک ہو گئیں تھی۔ہر طرح کی نمی سے بے زار ۔کتنے دن تک تو مجھے خود عجیب لگتا رہا تھا ۔مجھے رونا چاہیے تھا ۔پھر رونا آتا کیوں نہیں تھا ؟اور ایک دن مجھے اس کا جواب مل گیا ۔"
کھڑکی کے سامنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے وہ باہر نظریں جمائے ہوئے تھی ۔اسکے خود سے تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے ہونے ،اسکے باڈی اسپرے کی مہک ،حتی کہ اسکی سانس لینے کی مدھم سی آواز تک اسکے احساسات پر جمی برف کی تہہ کو ہٹانے میں ناکام رهی تھی ۔حیدر یک ٹک اسکا ہر احساس سے عاری چہرہ دیکھتا رہا تھا ۔وہاں کچھ بھی تو نہیں تھا ۔بے زاری ،نفرت ،نا پسندیدگی یہاں تک کہ کوئی دکھ کی ہلکی سی رمق ۔اسے اپنا چہرہ ،اپنی آنکھیں بے تاثر لگتی تھیں ۔مگر اس لمحے صلہ کا چہرہ اسکا اپنا عکس تک دهندلانے کو کافی تھا ۔اتنی بے مہری و بے نیازی تو مرتضیٰ حیدر کو اپنے چہرے پر بھی کبھی دکھائی نہیں دی تھی ۔
"اور اس جواب نے پھر دوبارہ میرے اندر کسی سوال کو جنم تک نہ لینے دیا ۔وہ صرف ایک احساس باقی سب احساسات پر سبقت لے گیا ۔ایک ایسا شخص جس نے مجھے اپنے انتقام کے لئے استعمال کیا ،جس کی منافقت کا عالَم یہ تھا کہ اس نے محبت اور نرمی کی آڑ میں اپنی نفرت کا کچھ یوں برملا اظہار کیا کہ میں آخری وقت تک اسکے مکر و فریب کو پہچان تک نہ سکی ۔جس کے لئے میں صرف ایک مہرہ تھی ۔اس کے سوا میری اسکے دل و نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی ۔کیا وہ اس قابل تھا کہ میں اسکے لئے آنسو بہاتی ؟میرے اندر کی عورت نے گوارہ نہیں کیا اس شخص سے آنکھوں کی نمی تک کا تعلق رکھے ۔تو بس مجھ پر اسکے احساسات کا احترام واجب سا ہو گیا ۔"
وہ اب بھی اسے نہیں دیکھ رهی تھی اور وہ اب بھی صرف اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔اسکی بے لچک آواز ،اسکے لب و لہجے کی سرد مہری چینخ چینخ کر بتا رہی تھیں وہ اسکے لئے "کوئی نہیں "تھا ۔بے یقینی کی سرحد پر کھڑا اپنا آپ حیدر کو خود ٹھٹکا رہا تھا ۔وہ غلط نہیں تھی مگر پھر بھی اسکا صحیح ہونا اسکے دل کو اچھا نہیں لگا تھا ۔
"میرے لئے اب آپکا ہونا نه ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔مگر شہیر کے لئے رکھتا ہے ۔اور میں اپنی وجہ سے اسکے ساتھ کوئی زيادتی نہیں کرنا چاہتی ۔بچے معصوم ہوتے ہیں انہیں ماں باپ کی لڑائیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔انہیں تو بس اپنے لئے دونوں کا احساس ،پیار اور توجہ ایک جیسی چاہیے ہوتی ہے۔میرے بس میں ہوتا تو ساری زندگی اپنے بیٹے پر آپکا سایا بھی نہیں پڑنے دیتی ۔مگر خیر ۔۔۔۔۔اب جب آپ منظر عام پر آ ہی چکے ہیں اور آپ کے دل میں بیٹے کی محبت جاگ ہی گئی ہے تو میں شہیر کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کرنا چاہتی ۔اسکا پورا حق ہے باپ کی محبت پر ۔مجھے نہیں پتہ اس بار آپ کتنے وقت کے لئے ہماری زندگیوں میں وارد ہوئے ہیں ،یہ بھی نہیں جانتی کہ کون سا کھیل کھیلنے کے متمنی ہیں مگر اس بارمقابل آپ کی "اپنی اولاد "ہو گی لہٰذا مجھے یقین ہے آپ کافی محتاط ہو کر رہیں گے ۔اس لئے میں اپنی ذات ایک طرف رکھتے آپ سے شہیر کے لئے ایک ڈیل کرتی ہوں ۔"
بنا رکے ،بنا جھجکے جس سکون آمیز لہجے اور ٹھہراؤ کے ساتھ وہ بول رہی تھی یوں لگتا تھا جیسے بہت سوچ سمجھ کر اس نہج تک پہنچی ہو ۔
"کیسی ڈیل ؟"
بولتے ہوئے اسکی آواز بھی کھوئی کھوئی سی تھی ۔صلہ یوں ہی بازو سینے کے گرد لپیٹے پلٹی ۔ایک نظر بغور اسکا چہرہ دیکھا ،زندگی بھی کبھی کبھی آپ سے کیا کیا کرواتی ہے ۔دل نے احتجاج کرنا چاہا تو وہ اسکی طرف سے کان لپیٹ گئی ۔ذہن کے پردے پر صبح کے شہیر کا خون سے تر چہرہ لہرایا تو باقی کی مشکل سہل ہوتی چلی گئی ۔
"شہیر آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ۔"
حیدر نے اسکی باتپر یوں بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا جیسے اسکے منہ سے ان الفاظ کی ادائیگی اس کے لئے غیر متوقع ہو ۔
"میں بھی ایسا ہی چاہتا ہوں مگر وہ تم سے الگ ہو کر میرے ساتھ رہے یہ نہیں چاہتا ۔"
اس پر سے نظریں ہٹاتے ،حیدر نے آنکھیں چرائی تھیں ۔صلہ چند سیکنڈز اسے دیکھتی رہی تھی ۔اسکے چہرے پر کوئی تاثر آ کر معدوم ہوا تھا ۔اور وہ نظریں چراتی آنکھیں بولتی تھیں ۔مگر صرف اتنا ہی جتنی اجازت وہ انہیں دیتا تھا ۔اسکے بعد بالکل بے تاثر اور ٹھنڈی ہو جایا کرتی تھیں ۔وہ آج بھی انہیں پڑھنے سے قاصر تھی اور وہ پھر بھی اس پر یقین کرنے چلی تھی ۔اندر سے کسی نے تنبیہ کی تھی ۔
"آپ کو کیوں کر لگا میں اسے خود سے الگ کرتے آپ کے حوالے کر دوں گی ؟
ایک طنز بھری مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی گئی ۔
"تو پھر ؟"
نا سمجھی بھری نظریں ایک بار پھر صلہ کی طرف اٹھی تھیں ۔
"آپ شارجہ میں ہوتے ہیں ۔پاکستان کسی پروجیکٹ کے سلسلے میں آئے ہیں وہ بھی چند ماہ کے لئے ۔"
سپاٹ سی آواز میں اسکا انداز خبر نامہ نشر کرنے جیسا تھا ۔حیدر اب بھی بنا بے زاری ،کوفت اور طعنطنے کے اس کے سامنے کھڑا تھا ،اثبات میں سر ہلا گیا ۔
"میں چاہتی ہوں جب تک آپ یہاں ہیں ۔شہیر کے ساتھ رہیں ۔"
اور اسے لگا تھا اس نے کچھ غلط سن لیا ہو ۔بے یقینی بھرا شاک اسکی سرمئی آنکھوں میں صاف نظر آ رہا تھا ۔
"لیکن میں شہیر کو مکمل طور پر آپ کے آسرے چھوڑنا بھی نہیں چاہتی اس لئے ۔۔۔۔"وہ کچھ توقف کو رکی ۔"آپ یہاں اس فلیٹ میں رہ سکتے ہیں ۔اس طرح میرا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے رہے گا ۔اور آپ اسے مجھ سے دور لے جانے کی کوئی بودی حرکت یقیناً نہیں کریں گے کہ اس طرح آپ شہیر کی نظروں میں اپنا آپ گرانا نہیں چاہیں گے ۔آپ کے پروجیکٹ ختم ہونے پر شہیر کو مطمئین کرنا اور اپنے لئے ایک سیو ایگزٹ تلاش کرنا آپکا اپنا درد سر ہو گا ۔مگر ۔۔۔۔۔جانے کے بعد بھی آپ شہیر سے رابطے میں رہ سکتے ہیں اس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔"
وقت بدلا تھا ،چہرے وہی تھے ،انداز بدل گئے تھے ۔نو سال پہلے اس نے اپنی شرائط پر ایک کھیل کھیلا تھا ۔فرق صرف یہ تھا صلہ اس سے لا علم تھی اور اسی لا علمی میں اسکا نا قابل تلافی نقصان ہو گیا تھا ۔نو سال بعد آج وہی صلہ اس کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی شرائط بتا رہی تھی ۔اس بار کی بازی کے سارے پتے اس کے ہاتھ میں تھے فرق صرف یہ تھا وہ کھلے عام اسے سارے پتے دکھا کر چال چل رہی تھی اور وہ پھر بھی بے بس تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رات سونے کےلئے لیٹتے باوجود دن بھر کی تهكن اور اعصاب شکن سوچوں کے نیند پھر بھی اس پر مہربان ہونے کو تیار نہیں تھی ۔اک نظر ساتھ سکون آمیز نیند سوئے شہیر پر ڈال کر اس نے آہستگی سے کروٹ بدلی تھی ۔نائٹ بلب کی مدهم سی نیلگی روشنی میں کھڑکی کے آگے سے زرا بھر ہٹے پردوں کے باعث چاند کی سفید نرم لو بھی کمرے میں اپنا وجود بر قرار رکھے ہوئے تھی ۔
یہ بے کلی ،یہ اضطراب کم از کم اب اسے کوفت زدہ کر رہا تھا ۔جب سب طے کر ہی لیا تھا تو اب دل مضطر کو بھی چپ ہو کر بیٹھ جانا چاہیے تھا مگر ۔
"کیا میرا فیصلہ صحیح ہے یا میں اپنے ہاتھوں اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کی سنگین غلطی کر رہی ہوں ۔میں ایک بار پھر اس انسان پر اعتبار کرنے کی ہمت بھی کیسے کر پا رہی ہوں ؟کیا پتہ شہیر سے یہ محبت صرف اسکا ڈھونگ ہو ؟کیا پتہ اس بار وہ کوئی نئی پلاننگ کر کے آیا ہو ؟"
ذہن و دل میں کلبلاتے سوالات اسکا سکون غارت کیے ہوئے تھے ۔چہرے پر پریشانی بھرے الجھے تاثرات کا جال سا بچھا ہوا تھا ۔
"لیکن وہ ایسا کیوں کرے گا ؟وہ بھی اتنے سالوں بعد ۔اور وہ آیا بھی تو ہماری تلاش میں نہیں ہے ۔یہ تو ۔۔۔۔۔"آنکھیں سختی سے میچ کر اس نے ایک تهكن زدہ سی سانس خارج کی تھی ۔
نگاہوں کے سامنے کہیں منظر دوڑ نے لگے تھے ۔پارک میں ہونے والی وہ ملاقات ،جس میں شہیر کو دیکھتے اس کے چہرے پر بے یقینی کی جگہ نرماہٹ نے لے لی تھی ۔صلہ کے تهپڑ کے بعد اسکا ضبط سے سرخ پڑتا چہرہ ۔
"شہیر کی ماں ہو اس لئے چھوڑ رہا ہوں ورنہ اپنی جانب اٹھنے والا ہاتھ میں سلامت رہنے دینے کا قائل نہیں ہوں ۔"
اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی تھیں ۔
اسکا شہیر کے لئے یوں ساری رات سڑک پر گزار دینا ،اسکی کھری کھری سنانے پر خاموشی سے سب سن لینا ۔
"میں نو سال واپس نہیں لا سکتا ۔نہ ہی وقت کو پیچھے لے جانے پر قادر ہوں ۔مگر ۔۔۔۔میں شہیر کے لئے وہ سب کرنا چاہتا ہوں جو ایک باپ اپنے بیٹے کے لئے کرتا ہے ۔وہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتا ۔"
وہ چاہ کر بھی یہ سب سوچنے سے خود کو روک نہیں پا رہی تھی ۔
اور شہیر کی صبح زخمی حالت دیکھ کر اس نے بھی تو لاشعوری طور پر صرف اسے ہی پکارا تھا ۔
صلہ کی اپنی حالت غیر ہونے لگی تھی ۔حیدر مرد تھا اسکی طرح پینک نہیں ہوا تھا مگر پھر بھی ایک باپ کے چہرے پر جو تفكر و تکلیف کے گہرے بادل اولاد کی تکلیف پر امڈنے لگتے ہیں انکی جهپ صلہ نے دیکھی تھی ۔
چت ہو کر لیٹتے اس نے اپنی نگاہیں چھت پر ٹکا دی تھیں ۔
"وہ میری غلطی تھی شہیر ۔تمہاری ماما کی کوئی غلطی نہیں تھی ۔نہ تب تھی اور نہ ہی آج ہے ۔تم اپنی ماما سے کبھی مجھے لے کر ناراض مت ہونا ۔میں اگر تمہارے ساتھ نہیں ہوں تو اس کی وجہ میں خود ہوں تمہاری ماما نہیں ۔"
اسکی آواز یہی کہیں آس پاس ہی گونجی تھی ۔نچلا لب دانتوں سے کاٹتے اس کے تاثرات میں سختی سی گھلتی چلی گئی ۔ اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے کے سامنے کیا گیا اسکا یہ اعتراف اسے اپنا مذاق اڑاتا ہی تو محسوس ہوا تھا ۔
"ماما ۔"
نیند میں ڈوبی شہیر کی آواز پر وہ چونکے بنا نہیں رہ سکی تھی ۔
"جی ماما کی جان ۔"کہنی کے بل تیزی سے اٹھتی وہ اس پر جھکی تھی ۔
"درد ہو رہا ہے ۔"مندی مندی آنکھیں کھولے وہ بتا رہا تھا ۔
"بہت زیادہ ہو رہا ہے ۔"تشویش بھرے لہجے میں بولتے وہ اٹھ کر سائیڈ لیمپ روشن کرنے لگی تھی ۔
"تھوڑا تھوڑا ہو رہا ہے ۔"
ماں کو یوں پریشان ہوتا دیکھ کر وہ منمنایا تھا ۔صلہ نے جھک کر اسکے ماتھے کی بینڈیج کو بغور دیکھا تھا ۔پھر اسکے سر پر پیار دیا ۔
"میں دوائی پلاتی ہوں اپنے بیٹے کو ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔"سائیڈ ٹیبل سے پین ریلیف سیرپ اٹھاتے اس نے دلاسا دیا تھا ۔دوا پی کر وہ دوبارہ لیٹ گیا تھا مگر صلہ یوں ہی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے گھٹنے موڑے بیٹھی رہی تھی ۔
"ماما ۔"
اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسکا سارا دھیان اس وقت صرف اور صرف شہیر پر تھا ۔جو تھوڑی دیر آنکھیں بند کیے رکھنے کے بعد اب کھولے اسے دیکھ رہا تھا ۔شام تک وہ سویا رہا تھا ۔رات بھی جلدی سو گیا تھا اب نیند ٹوٹی تھی تو دوبارہ آنے میں مشکل ہو رہی تھی ۔
"ہوں ۔"
"آپ کو برا لگا ہو گا ؟"کچھ شرمسار سا وہ دهیما سا بولا ۔