Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 18

1 Posts
1 Users
0 Reactions
229 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

آپ یہ سوال کرنے والے ہوتے کون ہیں ؟"

حیدر نے ہاتھ نیچے کرتے گہری نظروں سے دیکھا تھا ۔تنے ہوئے چہرے اور غصے بھری آنکھوں کے ساتھ ،ضبط کی کوشش میں ہلکان وہ جیسے صبر کی آخری سیڑھی پر کھڑی تھی ۔صلہ کو لگا وہ مبہم سا مسکرایا ہو ۔

"اتنی جلدی کوئی اپنا کہا کیسے بھول سکتا ہے ۔"وہ محظوظ سے انداز میں سر جھٹک رہا تھا ۔

"غالباً ابھی پانچ سات منٹ پہلے تم نے ہی میرے اپنے  شوہر ہونے کا اسی منہ سے اعتراف کیا تھا نہیں ؟"

اب کی بار وہ واضح طور پر مسکرا رہا تھا ۔بلکہ نہیں وہ صلہ کا ضبط آزما رہا تھا ۔

"کاش آپ جان سکتے یہ حوالہ میرے لئے کتنا شرمناک ہے تو یوں مسکرا نہ رہے ہوتے ۔کسی بھی غیرت مند مرد  کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے جب اس سے جڑی عورت اسکے نام کو اپنے ماتھے پر لگی کالک سمجھنے لگے ۔"

ٹھنڈے برفیلے تاثر میں ڈوبے اسکے الفاظ حیدر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ نوچ کر لے گئے تھے ۔مسکراتے لب سمٹے تھے ،ماتھے پر بل نمودار ہوئے تو صلہ کے جلتے بجھتے دل کو یک گونہ سکون کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ۔(بڑا آیا مسکرا مسکرا کر میرے الفاظ مجھے ہی لوٹانے والا ۔)

"تم اندر جاؤ ۔میں کہیں بھاگا نہیں جا رہا ہم صبح بات کریں گے ۔"نظریں اس پر سے ہٹا کر دور تک پھیلی تاریک سڑک پر جمائے وہ سپاٹ سی آواز میں بولا ۔صلہ کی مدهم سی ہنسی گونجی تو وہ بے اختیار اسے دیکھنے لگا تھا جو سر جھٹک کر ہنس رہی تھی ۔

"آپ جیسے بھگوڑے کے منہ سے اس طرح کی بات اچھی نہیں لگتی ۔"اپنی ہنسی روکتی وہ بولی تو اب کی بار حیدر نے اسے کینہ توز نظروں سے گھورا تھا ۔

"تم اندر جاتی ہو یا میں ۔۔۔۔"

"مجھے چھوڑیں حیدر صاحب ۔میری فکر میں اتنے ہلکان مت ہوں ۔مجھے عادت نہیں ہے ۔اپنے باپ کی موت کے بعد سے پیچھلے سات سال میں نے بنا کسی مرد کے گزارے ہیں ۔اس لئے اپنی حفاظت کرنا میں خوب جانتی ہوں ۔آپ سے بس ایک گزارش ہے جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس چلے جائیں ۔میری پر سکون زندگی میں مزید شر انگیزی کی اجازت میں آپ کو اس بار نہیں دوں گی ۔بہتر ہو گا پلٹ کر واپس چلے جائیں ۔یوں سڑک چھاپ غنڈوں کی طرح سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے اور لوگوں کو مارنے پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔"دو ٹوک انداز اور کٹیلا لہجہ جس میں اسکے لئے کوئی رعایت نہیں تھی ۔وہ کافی کڑوا بولتی تھی کہ شہد کی چاشنی کے ساتھ بھی اس کڑواہٹ کو حلق سے نیچے انڈیلنا مشکل ہو ۔پتہ نہیں حیدر میں اتنا تحمل کہاں سے آ گیا تھا اسے خود بھی اپنے آپ پر حیرت ہوئی تھی ۔

"اچھا ۔۔۔ ۔۔۔۔اگر اتنی ہی بے پرواہ ہو تم مجھ سے تو آدھی رات کو میری وکیل بنی دوڑی کیوں چلی آئی ؟نہ آتی وہیں سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتی اور خوش ہوتی ۔آفٹر آل میں تو ہوں ہی بہت برا ۔تمہارے ساتھ کتنا ظلم کیا ہے میں نے ۔مجھے پٹتے دیکھ کر کچھ تمہارے دل کو بھی قرار آتا ۔"

وہ طنز نہیں کر رہا تھا ۔بس یوں ہی سادگی سے پوچھ رہا تھا ۔نجانے کیا سننے کا متمنی تھا ۔صلہ جو چہرے پر سختی لئے اسے سن رہی تھی ۔تمسخر سے مسکرا دی ۔

"واہ رے آپ کی خوش فہمی ۔آپ کو کیا لگا آپ کی محبت میں دوڑی چلی آئی ہوں ؟"آنکھیں چھوٹی کیے وہ اسکی آنکھوں میں براہ راست دیکھ رہی تھی ۔"تو مجھے آپ کی خوش فہمی کے اس غبارے سے ہوا نکال لینے دیجئے ۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔میں بس یہ چاہتی ہوں آپ یہاں کوئی تماشہ نہ لگائیں ۔آپ کی وجہ سے میرا کردار مشکوک نہ ہو اسی لئے میں نے آپ کو اپنا شوہر تسلیم کیا ۔باقی دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی آپ کو ٹھوک کر بھی چلا جائے ،آپ جئے یا مریں میری بلا سے ۔"تنفر سے سر جھٹکتی وہ کس قدر سفاکیت سے کہہ گئی تھی ۔

حیدر کچھ پل کے لئے اسے دیکھتا رہ گیا ۔کچھ یاد آیا تھا ،نو سال پہلے وہ آخری ملاقات ،اسکی نم نم سی آنکھیں اور بھرائی ہوئی آواز ۔نو سال کا فرق بڑا واضح تھا ۔

"کتنی ظالم ہو گئی ہو تم صلہ ۔کیوں اپنے بیٹے کو یتیم کرنے پر تلی ہوئی ہو ۔"مصنوئی تاسف سے سر جھٹکتے وہ نجانے کس موڈ میں تھا جو ہلکے سے مذاح پر اتر آیا تھا ۔

"میرا بیٹا پیدائشی یتیم ہے ۔"دو بدو جواب آیا تھا ۔حیدر کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔

"جیتے جی انسان کو مارو تو مت ۔"وہ اسے چھیڑ رہا تھا ۔

"یہ کام تو آپ کرتے ہیں ۔"

حیدر اسے دیکھتا رہ گیا پھر نظریں چرا لیں ۔کچھ الفاظ دل یوں ہی خالی کرنے لگتے ہیں ۔رات کے اس پہر ،تاریکی میں لپٹی ٹھنڈی فضا میں سانس لیتے وہ دو نفوس ارد گرد سے قطعی بے نیاز اک لا حاصل سی بحث میں الجھے کھڑے تھے ۔شاید کہ اس الجھن میں کچھ دهاگے سلجهنے کو تھے ۔

"کوئی گنجائش نکل سکتی ہے کیا ؟"کہتے ہوئے حیدر کی آواز مدهم سی تھی ۔کچھ فیصلے لمحوں کی زد میں آ کر خود بخود سرزد ہو جاتے ہیں یا پھر کیا معلوم وہ آفاقی ہوتے ہیں ۔صلہ کو لگا شاید اس نے غلط سنا ہو ۔اچنبھے بھری نظروں سے اسے دیکھتے وہ چپ کھڑی رہی تو حیدر نے مزید کہا ۔

"میں نو سال واپس نہیں لا سکتا ۔نہ ہی وقت کو پیچھے لے جانے پر قادر ہوں ۔مگر ۔۔۔۔میں شہیر کے لئے وہ سب کرنا چاہتا ہوں جو ایک باپ اپنے بیٹے کے لئے کرتا ہے ۔وہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتا ۔اسکا پورا حق ہے وہ ایک مکمل اور خوش حال خاندان میں بڑا ہو ۔جہاں کوئی محرومی اسکے حصے میں نہ آئے ۔تم اسکی ماں ہو صلہ ۔مجھ سے کہیں گنا زیادہ اس سے محبت کرتی ہو گی ۔میں تو اب اسکے وجود سے آشنا ہوا ہوں ۔تم نے تو اتنے سال اسکی محبت میں جئے ہوں گے ۔کیا ضروری ہے ہم دونوں کے آپسی تناؤ کی زد میں وہ معصوم بھی آئے ؟"

مکمل سنجیدگی سے وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتا ساتھ اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو بھی نگاہ میں رکھے ہوئے تھا ۔جو دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

"اپنی اولاد کے لئے دل میں کیسے درد اٹھ رہا ہے نا ۔میں بھی کسی کی اولاد تھی حیدر ۔میرے ساتھ جو کچھ آپ نے کیا ، کیا میں وہ ڈیزرو کرتی تھی ؟کیا میرا ایک مکمل اور خوش گوار زندگی پر حق نہیں تھا ۔کیا میرا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ مجھے اپنی نفرت اور انتقام کی جنگ میں استعمال کرتے کم از کم حقیقت سے آشنا کیا جاتا تاکہ میں امیدوں کے محل تعمیر کرنے سے اپنی آنکھوں کو روک دیتی ؟نو سال پہلے میں جہانگیر مراد کی بیٹی تھی تو کسی رعایت کے قابل نہیں تھی ۔نو سال بعد اب میں شہیر کی ماں ہوں تو آپ کی نظر کرم مجھ پر آن ٹھہری ۔صلہ نو سال پہلے بھی کہیں نہیں تھی اور نو سال بعد بھی کہیں نہیں ہے ۔"

آہستہ آواز میں بولتے اسکا لب و لہجہ ہر احساس سے عاری تھا ۔یوں جیسے میکانکی انداز میں بول رہی ہو ۔مگر الفاظ چینخ چینخ کر اسکے ساتھ ہوئی زيادتی کا اعلان کر رہے تھے ۔حیدر ساکت و جامد کھڑا سن سا اسے دیکھتا رہ گیا ۔کچھ دیر یوں ہی خاموشی کی نذر ہو گئی تھی ۔اک بوجهل پن سا تھا جو آسمان سے اس خنکی کے ساتھ اترتا دل بھاری کرنے لگا تھا ۔

"صلہ میں ۔۔۔"اسکے لب ہلے تھے ۔جب ہاتھ اٹھا کر وہ اسے روک گئی ۔

"اب کچھ نہیں بچا ۔نو سال پہلے میں نے آپ سے کہا تھا ہم بات کریں گے ۔باوجود اس کے حیدر کے آپ نے مجھے دھوکے میں رکھا ،آپ نے میرے ساتھ زيادتی کی میں پھر بھی آپ کو ایک موقع دینا چاہتی تھی ۔میں ہمارے رشتے کو ایک موقع دینا چاہتی تھی ۔تب آپ نے کیا کیا ۔بنا میری سنے ،بنا ایک بھی لمحے کے لئے ہمارے تعلق کے بارے میں سوچے آپ چلے گئے ،آپ نے نہیں سوچا پیچھے میں کیسے سروائیو کروں گی ۔لوگوں کی باتیں ،انکی طنزیہ نظریں کیسے سہوں گی یہ خیال تک نہیں گزرا آپ کے دل و دماغ سے ۔تو اب میں کیوں سوچوں ؟میں کیوں خیال کروں ؟کیا میری اپنی کوئی مرضی نہیں ،کوئی عزت نفس نہیں ؟صرف شہیر کے لئے میں گنجائش کیسے نکالوں؟معذرت کے ساتھ میں اس کے لئے بھی ایسا نہیں کروں گی ۔وہ ایک بہت بہتر اور معیاری زندگی جی رہا ہے ۔باپ کے بغیر بہت سے بچے زندگیاں گزارتے ہیں اور بہت اچھی گزارتے ہیں وہ بھی سیکھ جائے گا ۔آپ کو اتنا ہلکان ہونے کو ضرورت نہیں ہے ۔وہ ٹھیک ہو جائے گا مگر اس کے لئے ضروری ہے آپ ہماری زندگیوں سے بہت دور چلے جائیں ۔"

کہتے ہوئے اسکی آواز کس قدر ہموار اور مستحکم تھی ۔اسے دیکھ کر لگتا تھا یا تو وقت نے سارے زخم بھر دیے تھے یا تکلیف محسوس کرنے کی حس اس سے چھین لی تھی ۔

"مگر ایک آخری احسان کرتے جائیے گا ۔پچھلی بار کی طرح غائب ہونے سے پہلے مجھے اس بوجھ سے آزاد  ضرور  کر جائیے گا جو آپ کے نام کی صورت میرے کندھوں پر دھرا ہے ۔میں اپنی زندگی میں آپ کے نام تک کی گنجائش نہیں رکھتی ۔"

الفاظ تھے یا کوئی چابک جو سیدھے جا کر حیدر کی انا و ضد کے بت کو تار تار کر گئے تھے ۔اس رات کا فسوں کہیں کھو سا گیا ۔دل میں جلتے جذبوں کی دهیمی آنچ بجھ سی گئی ۔ قطعیت بھرے انداز میں کہتے وہ جانے کے لئے پلٹی تھی جب وہ اسکی کلائی پر گرفت کرتا اسے روک گیا تھا ۔

"آزاد تو تمہیں تب بھی نہیں کیا تھا صلہ بی بی جب تم جہانگیر مراد کی بیٹی تھی ۔اب تو شہیر کی ماں ہو اس لئے آزادی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اپنے بیٹے کے لئے میں جھکا ضرور ہوں مگر تمہارے قدموں میں بچھا نہیں ہوں جو یوں ٹھوکروں میں رکھ لو گی ۔"کچھ دیر پہلے جو دل اس کے لئے پگھلنے لگا تھا اسکے مطالبے پر پھر سے پتھر بن بیٹھا تھا ۔دبے دبے انداز میں وہ غرایا تھا ۔

"ہاتھ چھوڑیں ۔"

ایک تیز کاٹ دار نظر اسکے چہرے پر ڈالتی وہ دانت پیس کر رہ گئی ۔

"نہیں چھوڑتا کیا کر لو گی تم ؟اب بھی اس دن کی طرح چلا کر سب کو بلانے کی دهمكی دو گی تو میں تمہیں یاد دہانی کروا دوں کچھ دیر پہلے ہی تم مجھے اپنا شوہر ڈکلئیر کر چکی ہو اب ایسا ویسا کچھ کرو گی تو لوگ پاگل سمجھیں گے تمہیں ۔"

وہ استہزائیہ انداز میں گویا ہوا ۔صلہ کے پورا وجود غم و غصے کی آگ میں جلتا خاکستر ہونے لگا ۔

"پتہ ہے کیا ۔میری غلطی تھی جو یہاں چلی آئی ۔وہ چاروں مل کر اچھے سے آپ کی خاطر تواضع کرتے تو ہی اچھا ہوتا ۔آپ ہیں ہی اسی قابل ۔"سلگتے لہجے میں کہتی وہ ایک جھٹکے سے اسکی گرفت سے اپنی کلائی آزاد کروا چکی تھی ۔تنفر بھری ایک آخری نگاہ اسکے چہرے پر ڈالی اور تیز تیز قدم چلتی اس سے دور ہوتی چلی گئی ۔پیچھے وہ دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے گردن نیچے پهینک کر اسکی آخری بات پر ہونٹوں پر در آنے والی مسکراہٹ نہیں روک سکا تھا ۔نگاہوں نے ایک بار پھر سے اسکا تعاقب کیا تھا یہاں تک کہ وہ بلڈنگ کے اندر داخل ہوتی نظروں سے اوجهل ہو گئی تھی ۔

کمرے میں آ کر چادر اتارتے اس نے گہرے گہرے سانس لیتے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی ۔شہیر پر سکون سویا پڑا تھا وہ بھی ساتھ آ کر دراز ہو گئی ۔اب اسے اپنے نیچے جانے پر افسوس ہو رہا تھا ۔نیند نہ آنے کے باعث وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگی تھی جب بے ارادہ ہی پردہ ذرا ہٹا کر نیچے دیکھا تھا ۔وہ جنگلے کے پاس کھڑا ان لڑکوں سے بات کر رہا تھا ۔آواز نہیں آ رہی تھی مگر پھر بھی اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا کچھ دیر بعد جب وہ چاروں تن فن کرتے اسکی طرف گئے تھے تو نجانے کیوں اسکا دل زور سے دھڑک اٹھا تھا ۔اسے اکیلے ان چاروں کے ساتھ الجھتے دیکھ وہ خود کو روک نہیں پائی تھی ۔جو بھی تھا وہ اسکے بیٹے سے کیے ایک وعدے کے لئے اس سرد رات میں یوں نیچے کھڑا تھا اتنا تو وہ کر ہی سکتی تھی ۔مگر اس سے ہونے والی منہ ماری کے بعد اب اسے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا ۔نیند پہلے بھی روٹھی ہوئی تھی اب تو اور بھی آنکھوں میں جلن کا احساس ہونے لگا تھا ۔اٹھ کر وہ واش روم منہ دھونے چل دی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

"تمہیں ضرورت ہی کیا تھی یوں منہ اٹھا کر نیچے چلے جانے کی ۔ہونے دیتی ٹھکائی اسکی ۔بلکہ مجھے بھی آ کر جگاتی ۔دونوں مل کر لطف اندوز ہوتے ۔"

صبح ناشتے کی میز پر سرسری سے انداز میں خالہ کو بتانے پر ان کا جواب سنتے وہ انکا منہ دیکھتی رہ گئی ۔

بلکہ میں تو کہتی ہوں ایک بار مجھے جانے دو نیچے پھر دیکھنا دوبارہ کبھی وه یہاں آس پاس بھٹکتا بھی دکھائی دیا تو ۔"

"نہیں خالہ رہنے دیں ۔کل رات کو جتنی کھری کھری اسے میں سنا کر آئی ہوں نا ذرا بھی شرم ہوئی تو دوبارہ نظر نہیں آئے گا یہاں ۔"کہتے ہوئے اسکی نظر کمرے کے دروازے میں کھڑے شہیر پر پڑی تھی جو آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا ۔صلہ اپنی جگہ ساکت سی ہو کر رہ گئی تھی ۔

"آپ نے جھگڑا کیا انکے ساتھ ؟آپ نے بابا سے کہا وہ چلے جائیں ؟"وہ شاکی نظروں سے اسے دیکھتا آگے بڑھا تھا ۔

"شہیر میری بات سنو ؟"اسکی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ کر وہ بے چینی سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی ۔"آنکھیں ملتا ہوا چینخ نما آواز میں کہتا وہ دروازے کی جانب بھاگا تھا اور جب تک صلہ اسکے پاس پہنچتی وہ فلیٹ سے باہر نکل گیا تھا ۔

"میں دیکھتی ہوں خالہ ۔"خالہ کو اپنی جگہ سے اٹھتا دیکھ وہ ہاتھ کا اشارہ کرتی اسکے پیچھے لپکی تھی ۔

"ماما ۔"شہیر کی دلخراش چینخ نے فلیٹ سے نکلتے ہی اسکے قدم زنجیر کیے تھے ۔سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی اپنی چینخ نما آواز بے ساختہ تھی ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

"شہیر ۔"

شل ہوتے اعصاب کے ساتھ ،ہراساں نظروں سے وہ اسے سیڑھیوں سے لڑھکتا نیچے جاتا دیکھ دیکھ رہی تھی اور وہ کچھ نہیں کر پائی ۔نیچے آخری سیڑھی پر وہ اوندھے منہ پڑا كراه رہا تھا ۔

بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ وہ بمشکل خود کو گهسیٹتی نیچے تک آئی تھی ۔اسکے پاس بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے شہیر کو سیدھا کیا تو ماتھے سے نکلتے خون کو دیکھ کر رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے تھے ۔

"شہیر ۔۔۔شہیر ۔"روتے ہوئے اسے پکارتے اسکا ذہن ماؤف ہو چکا تھا ۔اسے کیا کرنا ہے وہ یہ فیصلہ تک نہیں کر پا رہی تھی ۔شہیر کی ہلکی ہلکی كراہیں بھی بند ہو گئی تو اسے جیسے ہوش آیا تھا ۔بنا سوچے سمجھے بمشکل اسے کندھے سے لگا کر اٹھایا تو شہیر کی پاؤں اسکے گھٹوں سے نیچے آ رہے تھے ۔ہانپتی کانپتی وہ بڑی مشکل سے اسے نیچے بلڈنگ کے باہر تک لائی تھی ۔

متلاشی نظروں سے مخصوص سمت میں دیکھا اور پھر وہ حلق کے بل چلائی تھی ۔

"حیدر ۔"

وہ خود نہیں جانتی تھی اس نے اسے ہی صرف کیوں پكارا ۔مگر یہ سچ تھا اس لمحے شہیر کو ایسے خون میں لت پت دیکھ کر اسے صرف اسی کا خیال آیا تھا ۔وہ جو اب شہیر کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہوتا ہوٹل جانے کے لئے پر تول رہا تھا ۔اسکی آواز پر گاڑی کا ڈور کھولتے پلٹا تھا ۔تیز تیز چلنے کی کوشش کرتے وہ شہیر کو کندھے سے لگائے بازوؤں میں سمیٹے مین گیٹ کی جانب بڑھ رہی تھی ۔کچھ نا سمجھتے ہوئے بھی کسی خدشے کے تحت وہ بھاگتا ہوا اسکی جانب گیا تھا ۔ابھی وہ گیٹ سے باہر ہی نکلی تھی جب وہ اس تک پہنچ گیا ۔

"شہیر ۔۔۔"آنسوؤں سے تر زردی مائل وحشت زدہ چہرے کے ساتھ وہ نیم سرگوشی نما بھیگی ہوئی آواز میں بولنے کی کوشش کر رہی تھی ۔حیدر نے سرعت سے ہاتھ آگے بڑھاتے شہیر کو اسکے کندھے سے الگ کیا تھا جو نیم بے ہوش سا اسکے ہاتھوں میں جھول کر رہ گیا ۔خون اب بھی تیزی سے اسکے ماتھے سے نکل رہا تھا صلہ کا دوپٹہ بھی کندھے کی جگہ سے سرخ ہو گیا تھا ۔صلہ سے اسے لے کر وہ بھاگنے کے سے انداز میں آگے بڑھا تھا ۔کب ،کیوں ،کیسے جیسا کوئی بھی

 سوال کیے بنا وہ گاڑی کی طرف بڑھا تو وہ اسکے پیچھے لپکی تھی ۔پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولتے اس نے صلہ کے بیٹھنے کا انتظار کیا تھا پھر شہیر کو اسکے حوالے کرتے آگے آیا ،ڈش بورڈ سے رومال لیتے وہ واپس پیچھے آیا تھا۔

"اس کے ماتھے پر کس کے باندھو ۔"جھک کر اسے رومال دیتے وہ تشویش سے شہیر کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔

"مجھ سے نہیں ہو گا ۔"بنا شہیر پر سے نظر ہٹائے کہتے ،گیلی سی آواز میں بے بسی بول رہی تھی ۔حیدر نے ایک نظر اسکے بھیگے گالوں والے چہرے کو دیکھا پھر وہیں باہر کھڑے کھڑے جھک کر رومال کو زور سے  کستے شہیر کے ماتھے پر باندھا ۔اس تمام وقت میں وہ بنا آواز روتی ، ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے تمام کاروائی کرتے دیکھتی رہی تھی ۔

گاڑی فل سپیڈ سے چلاتے وہ دس منٹ میں ہوسپٹل پہنچ چکے تھے ۔ڈاکٹر نے معائنے کے بعد اسٹیچز کا کہا تھا صلہ میں اتنی ہمت نہیں تھی وہ دیکھ پاتی ۔حیدر نے بھی اسکی غیر ہوتی حالت بھانپ کر اسے باہر جانے کا کہا تھا اور وہ جیسے اسی انتظار میں تھی جھٹ سے باہر آ گئی تھی جب کہ حیدر اندر اسکے ساتھ ہی رہا تھا ۔دس پندرہ منٹ وہ یوں ہی باہر کوریڈور میں بے چینی سے ٹہلتی رہی تھی ۔

حیدر کے باہر آنے پر وہ بے صبری سے اسکی طرف لپکی تھی ۔

"وہ ٹھیک ہے ۔بینڈیج ہو گیا ہے ۔بس ڈاکٹر تھوڑی دیر اسے انڈر آبزویشن رکھنا چاہ رہے ہیں پھر ہم اسے گھر لے جا سکتے ہیں ۔"اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ تسلی آمیز انداز میں اسے بتانے لگا تھا ۔صلہ کا کانپتا ہاتھ ماتھے تک گیا تھا ۔آنکھیں موند کر اک تشکر آمیز گہری سانس لی۔حیدر ہنوز اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔وہ اتنی بھی مضبوط نہیں ہوئی تھی جتنی بنتی تھی  ۔پچھلے آدھے پونے گھنٹے میں اس نے اسے روتے ،لرزتے ہی دیکھا تھا ۔شہیر کے ماتھے سے نکلتا خون دیکھ کر اسکے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے ۔

"تم بیٹھو ۔میں آتا ہوں ۔"اسے سامنے لگی چیئرز کی طرف اشارہ کرتے وہ چلا گیا تو وہ بھی نڈھال سی  خاموشی سے وہاں بیٹھ گئی تھی ۔شہیر کی طرف سے دل کو ذرا سکون آیا تو خالہ کا خیال آیا تھا ۔وہ انہیں کچھ بھی بتائے بنا آ گئی تھی وہ پریشان ہو رہی ہوں گی ۔ایک بار پھر سے دھیان شہیر کی حالت کی طرف گیا تو اس نے جھرجهری سی لی تھی ۔اگر حیدر باہر موجود نہ ہوتا تو وہ سب اکیلے کیسے کرتی ؟ ٹیکسی کرنے اور پھر ہوسپٹل آنے میں کتنی دیر لگ جاتی۔اس نے شہیر کو پہلے کبھی یوں نہیں دیکھا تھا اور یہ بھی سچ تھا وہ زیادہ کبھی بیمار بھی نہیں پڑا تھا ۔بچپن میں ہلکے پھلکے بخار ،نزلا زكام میں خالہ کے گھریلو ٹوٹکے ہی زیادہ تر ایمرجنسی میں کام آ جاتے تھے ۔ اپنی ہی سوچوں میں الجھی وہ بیٹھی تھی جب پاس کسی اور کی موجودگی محسوس کرتی گردن موڑ کر دیکھنے لگی ۔وہ پانی کی بوتل اسکی طرف بڑھائے ہوئے تھا ۔

"پانی پی لو ۔"

اسکے کہنے پر باوجود طلب کے اس نے سر نفی میں ہلا دیا تھا ۔

حیدر نے بھی مزید اصرار نہیں کیا تھا پانی کی بوتل وہیں پاس چیئر پر رکھتے سیدھا ہوتا بیٹھ گیا ۔

"شہیر کو چوٹ کیسے آئی ؟"بنا اسکی طرف دیکھے وہ سرسری سے انداز میں پوچھ رہا تھا ۔

"سیڑھیوں سے گر گیا تھا ۔"پست سی آواز میں کہتے وہ اسے یہ نہیں بتا پائی وہ اس کی طرف آتے اور صلہ سے ناراض ہوتے سیڑھیوں سے گرا تھا ۔یہ تکلیف ده تھا ۔

"تم نے اسکے پاس چلنا ہے ؟"

سر ہلا کر بنا کوئی مزید سوال کیے وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔صلہ نے وہیں بیٹھے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا جو اسی کی جانب دیکھ رہا تھا ۔کل والے کپڑوں میں ملبوس ، جہاں اسکی سفید شرٹ پر اب شہیر کے خون کے سرخ دهبے بڑے واضح نظر آ رہے تھے ۔ماتھے پر بکھرے سیاہ بال ،اور بے آرامی کے باعث سرمئی آنکھوں میں ہلکے ہلکے گلابی ڈورے لئے وہ تهكن زدہ سا لگتا تھا ۔بے ساختہ اسے اسکے براؤن بال اور بھوری آنکھیں یاد آئی تھیں تو دل کی ساری نرمی سختی میں بدلتی چلی گئی ۔تیزی سے رنگ بدلتی آنکھوں کا زاویہ بدل کر وہ لب بھینچے اٹھ کھڑی ہوئی ۔حیدر اسکے آگے چل رہا تھا اور اسکے چہرے پر صلہ کے بدلتے تاثرات کی وجہ سے ناسمجھی بھری کیفیت رقم تھی ۔

کمرے میں داخل ہو کر وہ شہیر کی طرف بڑھ گئی تو وہ وہیں سے واپس مڑ گیا تھا ۔سفید پٹی نے پورے ماتھے کو کور کر لیا تھا ۔چہرے پر سے خون کے دهبے صاف کر دیے گئے تھے اور اب ہلکی سی زردی مائل رنگت کے باوجود وہ کافی بہتر لگ رہا تھا ۔صلہ آہستگی سے بیڈ پر اسکے پاس بیٹھی تھی ۔اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے لیتے سب ٹھیک ہے کا خود کو یقین دلاتے اسکی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگی تھیں ۔

کچھ دیر وہ یوں ہی چپ چاپ اسے دیکھتی رہی تھی جب وہ ہلکا سا کسمسا کر بیدار ہوا تھا ۔ساتھ ہی چہرے پر تکلیف کے آثار بھی امڈ آئے تھے ۔

"شہیر تم ٹھیک ہو ؟"اس پر جھکی وہ بے تابی سے پوچھ رہی تھی ۔

"ماما درد ہو رہا ہے ۔"ماتھے کی طرف ہاتھ لے جاتے اس نے کمزور سی آواز میں کہا تھا ۔صلہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔

"ابھی ٹھیک ہو جائے گا ۔میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں ۔"اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگا کر کہتی وہ اٹھنے لگی جب دروازہ کھول کر حیدر اور ڈاکٹر اندر داخل ہوئے تھے ۔شہیر کا ہاتھ چھوڑتے وہ ایک طرف ہو گئی تھی  جو حیدر کو دیکھ کر درد کے باوجود مسکرایا تھا ۔ڈاکٹر اسکا چیک اپ کر رہے تھے ۔ساتھ چھوٹے چھوٹے سوال پوچھ رہے تھے ۔جس کے بعد انہوں نے اسے گھر لے جانے کی اجازت دے دی تھی ۔

"بابا ۔"

ڈاکٹر کے ساتھ باہر نکلتے حیدر کو اسکی آواز پر رکنا پڑا تھا ۔پلٹ کر وہ واپس اس تک آیا تھا ۔

"میں آپ کے ساتھ جاؤں گا ۔"

ماں کو مکمل نظر انداز کیے وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔صلہ بس اسے دیکھتی رہ گئی ۔دل اسکی اس قدر طوطا چشمی پر بھر بھر آنے لگا تھا ۔

"ہاں تو میرے ساتھ آئے ہو تو جاؤ گے بھی میرے ساتھ ہی ۔"بنا اسکا مطلب سمجھے وہ مسکرا کر اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتا بولا تھا ۔

"نہیں ۔میں آپ کے ساتھ جاؤں گا جہاں آپ جائیں گے ۔"اس بار اس نے ذرا زیادہ واضح کر کے بتانا چاہا تھا ۔حیدر نے رک کر اسے اسے دیکھا پھر صلہ کی طرف نگاہ گئی جو سپاٹ چہرے کے ساتھ شہیر کو ہنوز دیکھ رہی تھی ۔

"مطلب تم میرے ساتھ آفس جاؤ گے ۔وہ بھی اس حالت میں ۔"ہلکا سا ہنس کر وہ اسکی بات کو مذاق کے معنی میں لیتا ٹال رہا تھا ۔اتنا تو اسے اندازہ ہو گیا تھا دونوں ماں بیٹے کی کوئی ناراضگی چل رہی ہے اور وجہ سو فیصد اسکی ذات ہی ہو گی ۔

"شہیر یار کیوں مروانے لگے ہو ۔تمہاری ماں کی آنکھوں میں پہلے ہی بری طرح کھٹکتا ہوں میں ۔یوں کرو گے تو تمہیں ورغلانے کا الزام بھی میرے سر دھر دے گی یہ عورت ۔"کن اکھیوں سے صلہ کو دیکھتے وہ دل ہی دل شہیر سے مخاطب تھا جو اسکی غیر سنجیدگی پر اب کچھ خفا خفا ہونے لگا تھا ۔

"چلو اب اترو نیچے اور گھر چلو ۔اتنی بھی زیادہ چوٹ نہیں آئی ۔"اسکے کہنے پر شہیر نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

"میں کیسے چلوں گا ۔یہ دیکھا نہیں آپ نے میرے گھٹنے پر بھی چوٹ آئی ہے ۔"وہ اسے خفگی سے اپنے گھٹنے کی طرف متوجہ کر رہا تھا جہاں سے ٹراؤزر اوپر کر کے ڈاکٹر نے پٹی کی تھی ۔

"چھوٹی سی چوٹ ہے ۔مرد بنو مرد ۔"حیدر نے کوئی خاطر خواہ اثر نہیں لیا تھا ۔صلہ خاموشی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی ۔

"میں مرد نہیں ہوں ابھی بچہ ہوں ۔آپ اٹھا لیں نا مجھے ۔"اب کی بار وہ جهنجهلا کر کہہ رہا تھا۔حیدر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے جھک کر اسے اٹھایا تھا ۔

"کافی بھاری قسم کے بچے ہو تم ویسے ۔"اسے اٹھاتے مصنوئی پن سے كراہا تو شہیر دهیما سا ہنسا تھا ۔

"صلہ آ جاؤ ۔"آگے بڑھتے صلہ کو دوستانہ انداز میں کہا تو وہ بھی چپ چاپ پیچھے چل پڑی تھی ۔باپ کے کندھے سے لگے شہیر نے پیچھے سر جهکائے آتی ماں کو متعدد بار چور نظروں سے دیکھا تھا مگر وہ اسکی طرح متوجہ نہیں تھی ۔

گاڑی میں بیٹھتے بھی جب وہ اسے پچھلی سیٹ پر صلہ کے حوالے کرنے لگا تو اس نے ضد لگائی تھی اسے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا ہے ۔نا چار اسے آگے بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبهال لی ۔سارا راستہ خاموشی میں کٹا تھا ۔

گاڑی سے اتر کر بھی وہ ہی اسے اٹھا کر اوپر تک لے کر گیا تھا ۔فلیٹ کے دروازے پر اسکے قدم تھم سے گئے ۔صلہ جو اسے پیچھے آ رہی تھی ۔آگے ہو کر ڈور بیل بجائی ،خالہ بھی جیسے انہیں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھیں جھٹ سے دروازہ کھول دیا ۔

"صلہ منا ٹھیک ہے نا ؟"صلہ کو دیکھتے ہی وہ بے تابی سے پوچھنے لگیں نظر پیچھے کھڑے حیدر اور اسکے بازوؤں میں اٹھائے شہیر پر گئی تو باقی کے الفاظ دم توڑ گئے ۔ان دونوں کے باہر جانے کے کافی دیر بعد جب واپسی نہ ہوئی تو وہ خود نیچے گئی تھیں تب واچ مین سے شہیر کے بارے میں پتہ چلا تھا ۔تب سے وہ جلے پیر کی بلی بنی ہوئی تھیں ۔

"ٹھیک ہے خالہ ۔سیڑھیوں سے گر گیا تھا تھوڑی چوٹ آئی ہے ۔"انہیں تسلی دیتے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ۔خالہ چپ ہوتی ایک سائیڈ پر ہو گئی تھیں ۔

"چلو شہیر ماما پاس جاؤ اب ۔"حیدر نے احتیاط سے اسے خود سے الگ کرتے صلہ کی طرف بڑھانا چاہا تھا مگر وہ اور اس کے شانے پر اپنے بازو سے گرفت مضبوط کر گیا تھا ۔

"آپ چلے جائیں گے ۔"بے اعتباری سے اسے دیکھتے وہ رو دینے کو تھا ۔حیدر نے اسکا گال چوما تھا ۔

"میں کہیں نہیں جا رہا ۔تم ابھی جاؤ اور آرام کرو ورنہ پھر زخم درد کرنے لگے گا ۔"پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر بے سود ۔وہ زور و شور سے سر نفی میں ہلاتا رہا تو حیدر نے بے بسی بھری نظروں سے اسے گھورا ۔اسے لینے کے لئے آگے بڑھائے ہاتھ صلہ نے بوجهل دل کے ساتھ واپس پیچھے لے لئے تھے ۔

"آپ اندر لے آئیں اسے ۔"

انکی بے نتیجہ بڑھتی بحث پر صلہ کو مجبوراً کہنا پڑا تھا ۔خود وہ اندر چلی گئی تھی ۔حیدر جب اندر آیا تو خالہ نے سر تا پیر اسے بھرپور نظروں سے گھورا تھا ۔بے آرام سا انکے خطرناک تیوروں سے نظریں بچاتا وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا تھا ۔

صلہ کے پیچھے چلتے چلتے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا ۔خود وہ ایک سائیڈ پر ہو گئی تھی ۔حیدر نے شہیر کو آرام سے بستر پر ڈالا تب تک وہ غیر محسوس انداز میں باہر نکل چکی تھی ۔

"یہ کیا کر رہا ہے یہاں ؟"

خالہ اسے باہر آتے ساتھ ہی سرگوشی نما آواز میں تیکھے چتون لئے پوچھنے لگیں ۔تو وہ تهكن زدہ سی صوفے پر بیٹھ گئی ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?