Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 17

1 Posts
1 Users
0 Reactions
210 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے تو ہم انکے ساتھ رہ لیتے ہیں ماما ۔"وہ جلدی سے بولا تو صلہ اسکا منہ تکتی رہ گئی ۔بچوں کے پاس ہر مشکل کا کتنا آسان حل ہوتا ہے ۔کاش بڑوں کے پاس بھی ایسے جھٹ پٹ مسائل کا حل پائے جاتے تو زندگی کتنی آسان ہو جاتی ۔

"ہم بھی نہیں رہ سکتے ۔"قطعیت سے انکار کیا گیا ۔شہیر کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا ۔

"اب مزید کوئی سوال جواب نہیں ۔سونے کا ٹائم ہو گیا ہے سوئے ہوئے نظر آؤ تم مجھے ۔"

صلہ کے کہنے پر اس نے کافی سے زیادہ شرافت کا مظاہرہ کیا تھا ۔آنکھیں بند کیے لیٹتے اسکے چہرے پر الوہی سی خوشی تھی جسے دیکھ کر صلہ نے نظریں چرائی تھیں ۔اسکی اور حیدر کی آپسی چپقلش اور تناؤ میں جو فریق سب سے زیادہ پسا تھا وہ شہیر تھا اور فلحال اس معصوم کو اس بات کا ادراک تک نہیں تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

 

 

 

 

 

ناولزحب ادارہ نئے لکھاریوں کو موقع فراہم کر رہا ہے اپنی قابلیت دنیا تک پہنچانے میں۔

اگر آپ لکھتے ہیں یا لکھنا چاہتے ہیں تو ہم سےدرج ذیل اکاونٹس پر    رابطہ کریں  ۔

Facebook.com/novelshub.pk

Instagram.com/novelshub

[email protected]

 

 

اگلی صبح وہ ایک بار پھر وہاں موجود تھا ۔شہیر نے کسی موہوم سی امید پر کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر نیچے جھانکا تھا اور اسے دیکھ کر اس نے پلک جهپکتے ہی باہر کی طرف دوڑ لگائی تھی ۔

صلہ کچن میں کھڑی تھی ۔اسے اندھا دھند بھاگتا آتا دیکھ کر حیرانگی سے اسے دیکھا تو وہ قدم روکتا اسکی طرف مڑا ۔

"ماما میں ایک بار بابا سے مل آؤں کیا پلیز ؟"انگلی اٹھا کر ایک بار کا اشارہ کرتے وہ معصوم صورت بنائے التجا کر رہا تھا ۔لفظ بابا پر اپنے کمرے سے نکلتیں خالہ کا منہ کھلا تھا ۔

"جاؤ مل آؤ ۔مگر جلدی آ جانا ۔"سپاٹ سی آواز میں اجازت دیتی وہ دوبارہ ناشتہ بنانے کی جانب متوجہ ہو گئی تھی ۔شہیر کو اس سے اتنی جلدی مان جانے کی توقع نہیں تھی ۔اپنی حیرانگی چھپاتا وہ شش و پنج میں مبتلا آہستہ سے چلتا ہوا باہر نکل گیا تھا دروازہ ے سے نکلتے ہی ایک بار پھر اس نے خوشی سے چہکتے دوڑ لگائی تھی ۔

"یہ کیا کیا صلہ ؟شہیر کو بتا دیا سب اور اسے ملنے کی اجازت بھی دے دی ۔"خالہ کو شدید صدمہ لگا تھا ۔صلہ نے انکی طرف دیکھتے آٹا فریج سے نکالا ۔

"یہ ضروری تھا خالہ ۔میں نہ بھی بتاتی تو وہ خود شہیر کو سب بتا دیتا ۔اور میں کیوں اپنے بچے کی نظر میں بری اور ظالم بنوں ؟اب شہیر خود اس سے نمٹ لے گا اس کے پاس کتنے سوال اکٹھے ہو چکے ہیں اتنے سالوں میں ۔میں چاہتی ہوں وہ سارے سوال شہیر اس سے کرے ۔بڑی امنگیں جاگ رہی ہیں نا باپ بننے کی اسکے دل میں تو بنے اب باپ ۔اور دے اپنے بیٹے کے سبھی سوالوں کے جواب ۔اپنی اولاد کا دکھ سینہ کیسے چھلنی کرتا ہے اسے بھی تو پتہ چلے ۔میں ہی کیوں اکیلے سہوں ؟ اسے بھی تو کچھ تکلیف کا مزہ چکھنا چاہیے نا ۔"

مصروف سے انداز میں پراٹھے کے لئے پیڑہ بناتے وہ عام سے لہجے میں یوں کہہ رہی تھی جیسے کوئی معمول کی بات کر رہی ہو ۔خالہ نے تاسف سے اسے دیکھتے سر ہلایا تھا ۔کبھی کبھی اسکی مضبوطی انہیں ڈرانے لگتی تھی ۔جیسے وہ باہر سے صرف چٹان ہونے کا ثبوت دیتی ہو ۔اندر پھوٹتی دکھوں کی نہریں اسکے وجود میں تلاطم مچائے رکھتی ہوں مگر وہ کہتی نہ ہو ۔

وہ دور بھاگتا ہوا آتا نظر آ رہا تھا ۔حیدر جو سست روی سے یوں ہی سڑک کنارے چل رہا تھا ۔اسے دیکھ کر رک سا گیا ۔

پھولے ہوئے سانس کے ساتھ وہ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر رک کر دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتا ، گہرے گہرے سانس لے رہا تھا ۔کچھ توقف کے بعد جب سانس ذرا بحال ہوئی تو سیدھا ہوا ساتھ ہی آنکھوں کا نرم سا تاثر معدوم ہوا ۔آنکھوں میں خفگی کے رنگ لئے اب وہ منہ پھلا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔

"آپ نے مجھے پہچانا بھی نہیں ؟کیسے بابا ہیں آپ ؟میں نے نہیں پہچانا کیوں کہ میرے پاس آپ کی کوئی تصویر جو نہیں تھی مگر ۔۔۔آپ بڑے ہیں بابا تو اپنے بچوں کو پہچان لیتے ہیں آپ کو کیسے نہیں پتہ چلا میں آپکا بیٹا شہیر ہوں ۔"

یک ٹک اسے دیکھتے اسکے منہ سے اپنے لئے پہلی بار بابا کا لفظ سنتے اسکے احساسات عجیب سے ہو رہے تھے ۔دل میں بیک وقت خوشی و چھبن سی محسوس ہوئی تھی ۔

اور بچوں کے معصومیت میں پوچھے سوال کیسے چھبتے ہیں کوئی اس وقت مرتضیٰ حیدر سے پوچھتا ۔بے اختیار اس نے نظریں چرائی تھیں ۔

"جب پارک میں ، میں نے آپ سے کہا تھا مجھے بابا چاہیے ۔تب بھی آپ نے مجھے نہیں بتایا آپ ہی میرے بابا ہیں ۔اور جب نانو نے آپ سے پوچھا آپ کے بچے ہیں تب بھی آپ نے جھوٹ بولا۔آپ نے ایسا کیوں کیا ؟میں اچھا نہیں لگتا آپ کو ؟"

بولتے ہوئے وہ روہانسا ہو رہا تھا ۔حیدر کی گردن کی ہڈی ڈوب کر ابھری تھی ۔وہ آگے بڑھ کر اسے اپنے گلے لگانا چاہتا تھا مگر قدم اٹھ نہیں پا رہے تھے ۔ندامت ،احساس غفلت ،ملال کہیں بوجھ ایک ساتھ مل کر اسکے دل کے ساتھ ساتھ قدموں کو بھی بوجهل کر رہے تھے ۔

"اور اب آپ میری طرف دیکھ بھی نہیں رہے ۔ماما کہتی ہیں ہم نظریں تب چراتے ہیں جب ہمارے پاس سامنے والے کے سوالوں کے جواب نہیں ہوتے ۔"

وہ خود چلتا ہوا اسکے قریب آ کھڑا ہوا تھا ۔حیدر کے لئے اسکا چہرہ دیکھنا محال تھا کجا کہ اسکے سوالوں کے جواب دینا ۔اور وہ کیا جواب دیتا ۔اس کے سوالوں کے جواب اس کے پاس تھے ہی کب ؟اور جو جواب تھے انہیں دینے کے بعد وہ پھر کبھی اس سے نظریں ملانے کے قابل رہ سکتا تھا کیا ؟

نو سال بعد وہ پہلی بار اس عورت کا مشکور ہوا تھا جس نے اسکے بیٹے کے سوالوں کے جواب نہ دے کر مرتضیٰ حیدر کا بت شہیر حیدر کی نظروں میں پاش پاش ہونے سے بچا لیا تھا ،سالوں بعد جو پہلا جذبہ اسکے دل میں اس عورت کے لئے جاگا تھا وہ تشکر کا تھا ۔

"میں آپ سے سخت والا ناراض ہوں ۔مگر پھر بھی میں آپ کو زور سے ہگ کرنا چاہتا ہوں ۔کیا میں کر لوں بابا ؟"اسکا پہلو میں گرا ہاتھ اپنے ننھے ہاتھ میں لئے وہ کس قدر حسرت بھرے بھیگے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا ۔حیدر ششدر سا برف کے مجسمے میں ڈھل گیا ۔ہجر یاراں ۔

ام عبّاس ۔

قسط ۔14۔ پہلا حصہ ۔

شہیر کے معصوم جذبوں کی لپک اسے اب پانی میں ڈھالنے لگی تھی ۔بنا اسکے جواب کا انتظار کیے اپنے دونوں ہاتھ اسکی کمر گرد حائل کرتے وہ اب اس کے ساتھ لگا کھڑا تھا ۔حیدر نے اپنے بے جان ہوتے وجود میں اک نئی روح پھونکتی محسوس کی تھی ۔پلکیں  جهپک کر دونوں ہاتھ اس کے گرد حصار کرتے جھک کر اسکا بالوں سے بھرا سر چوما تو اسکے اپنے لئے یہ احساس اچھوتا اور بالکل نیا تھا ۔شہیر کے سبھی سوال ہوا میں گم ہو گئے تھے ۔فلحال اسے بھی جیسے کسی سوال کا جواب نہیں چاہیے تھا ۔وہ بچہ تھا فقط باپ کا احساس چاہتا تھا مگر اندر پھیلی ناراضگی کے اظہار کے ساتھ ۔

"اب آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے ؟"چہرہ اس سے الگ کرتے ٹھوڑی اٹھائے وہ کسی خوف کے زیر اثر سوال کر رہا تھا ۔اور مرتضیٰ حیدر کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ثابت ہو رہا تھا ۔اولاد کی آنکھ میں تیرتی بے اعتباری کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے ۔دل زخم زخم ہونے لگتا ہے ۔حیدر نے سر کو نفی میں ہلایا تھا ۔

"وعدہ ؟"

ایک ہاتھ اس کے گرد سے کھول وہ سامنے پھیلائے کھڑا تھا ۔تھوک نگل کر گلے میں گھلتی نمی کو اندر اتارتے حیدر نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا تھا اور تب اسے احساس ہوا تھا اسکا ہاتھ غیر محسوس کن انداز میں ہلکی سی لرزش لئے ہوئے ہے ۔

"جو وعدہ توڑتا ہے اسے اللّه تعالی پنیش کرتے ہیں ۔یاد رکھیے گا آپ ۔"آخر میں پھر بھی تنبیہ کرنا وہ بالکل نہیں بھولا تھا ۔اتنی جلدی شاید وہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا ۔حیدر اس بار دکھی دل کے ساتھ مسکرایا تھا ۔ایک پھیکی سی مسکراہٹ ۔

"میں وعدہ کرتا ہوں تم سے کیا کوئی وعدہ کبھی نہیں توڑوں گا شہیر ۔"اسکے گال کو محبت سے تهپتهپاتا وہ دھیمی مگر بجهی ہوئی آواز میں بولا تھا ۔اس بار شہیر  کو کچھ اطمینان ہوا تھا ۔سر ہلاتا وہ اس سے الگ ہوتا اپنی آنکھیں رگڑ کر صاف کر رہا تھا ۔

"مجھے اب چلنا چاہیے ۔ماما نے کہا تھا میں جلدی واپس آ جاؤں ۔ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا اور وین بھی آنے والی ہو گی ۔"اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتا وہ تیز تیز بول رہا تھا ۔

"آپ نے ناشتہ کیا ؟"بولتے ہوئے اسے اچانک یاد آیا تھا ۔اسکی اتنی فکر مندی پر حیدر اس بار دل سے مسکرایا تھا ۔خون کی کشش ہزار گلے ،شکؤؤں ،اور فاصلوں کے باوجود ہنوز قائم رہتی ہے ۔یہ بھی تو ایک معجزہ ہی ہے ۔اللّه دلوں کو باندھے رکھتا ہے ۔

حیدر نے سر ہاں میں ہلا دیا ۔

"پھر میں اب جاؤں ؟"اسکی طرف دیکھتا وہ پوچھ رہا تھا جیسے وہ نہ کہے گا تو وہ رک جائے گا ۔حیدر مسلسل مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔

"جاؤ ۔"آنکھ کے اشارے سے جانے کا عندیہ دیا ۔شہیر نے ایک مسکراتی نظر اس پر ڈالی کچھ کہنے کے لئے منہ کھولنا چاہا ۔

"میں کہیں نہیں جاؤں گا شہیر ۔ابھی یہاں سے آفس جاؤں گا اور شام کو تمہیں یہی نظر آؤں گا ۔"بن کہے اسکے دل کی آواز اس تک پہنچ گئی تھی ۔یقین دلاتی نظروں سے اسے دیکھتے اسکے دونوں کندھوں پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر وہ دو قدم پیچھے ہو گیا تھا ۔

پھر وہ جس طرح دوڑتا ہوا آیا تھا اسی طرح دوڑ کر واپس پلٹ گیا تھا ۔دل پر دھرے کچھ بوجھ ہلکے ہوئے تھے اور کچھ نئے بوجھ تھے جو آن بھی پڑے تھے ۔

کتنی دیر وہ خالی نظروں سے سڑک پر پاس سے گزرتی اکادکا گاڑیوں کو دیکھتا رہا تھا ۔وہ مین شاہراہ نہیں تھی ۔کمپاؤنڈ کی طرف آنے والی سڑک تھی اس لئے اس پر گاڑیوں کی آمد و رفت بھی قدرے نہ ہونے کے برابر تھی ۔ٹائم کا احساس ہوتے وہ مڑتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

آفس سے آتے ٹیکسی سے جوں ہی وہ اتری تھی پہلی نظر گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے حیدر پر ہی پڑی تھی وہ بھی ٹیکسی رکنے پر بلا ارادہ متوجہ ہوا تھا ۔اسے اترتا دیکھ کر ایک سرسری سی نگاہ کرتے نظروں کا زاویہ بدل کر پھر سے گردن نیچے جھکائے پہلی پوزیشن میں چلا گیا تھا ۔صبح والے پینٹ ٹراؤزر اور شرٹ کے ساتھ گلے میں ڈ ھیلی سی ٹائی جھول رہی تھی ۔اسے ارد گرد دیکھنا ،برداشت کرنا کتنا مشکل تھا ،صلہ کی آنکھوں کا رنگ بدلا تھا مگر چہرہ یوں ہی بے تاثر رہا ۔ٹیکسی والے کو كرايه دے کر فارغ کرتے وہ مضبوط اور ہموار چال کے ساتھ آگے بڑھی تھی ۔مسئله یہ تھا وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا اور چار و ناچار صلہ کو اس کے پاس سے گزر کر ہی جانا تھا ۔

اس کے پاس سے گزرتے وہ ایسی بن گئی تھی جیسے دور دور تک انکی کوئی جان پہچان نہ ہو وہ بھی نظریں نیچے کیے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے ،سڑک پر پڑے چھوٹے چھوٹے کنکر اپنے جوتے کے نیچے مسلتا رہا تھا ۔آگے بڑھتے ہوئے لاشعوری طور پر وہ الرٹ تھی کہ ابھی وہ اسے پیچھے سے پکارے گا ۔مگر خلاف توقع  ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور یہ اس کے لئے عجیب تھا ۔اوپر فلیٹ کے دروازے تک آتے وہ نادانستہ طور پر اسکے بارے میں سوچتی رہی تھی ۔دروازہ کھول کر اندر قدم رکھتے اس نے شعوری کوشش کرتے اسے ذہن سے دهکیلا اور اندر چلی آئی ۔لیونگ ایریا میں ہی شہیر ٹی وی کے آگے بیٹھا ہوا تھا ۔اسے دیکھ کر بڑے جاندار انداز میں مسکرایا ۔کل رات سے ساری خفگی ہوا ہو گئی تھی ۔بلکہ وہ نوٹ کر رہی تھی صبح حیدر سے ملنے کے بعد وہ کس قدر خوش تھا اب بھی اسکی چمکتی ستارہ آنکھیں دیکھ کر وہ نظریں چرا گئی تھی ۔دل میں کچھ ڈوب ڈوب سا گیا تھا کہیں اسے بتا کر اس نے کوئی غلطی تو نہیں کر دی تھی ۔

پھر وہ ہر تھوری دیر بعد بالکنی میں جاتا رہا تھا اور کچھ دیر بعد جب واپس آتا تو چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ کھیل رہی ہوتی ۔صلہ بظاہر اپنے کاموں میں لگی تھی مگر اس سے بے خبر ہرگز نہیں تھی ۔رات کو سونے سے پہلے وہ واش روم سے واپس آئی تب بھی وہ اسے کھڑکی کا پردہ کھسکائے نیچے جھانکتا ملا تھا ۔اسے دیکھ کر جھٹ سے پردہ چھوڑتا بیڈ کی طرف بڑھ گیا ۔

"کیا ہو رہا ہے یہ سب ؟"ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں پر موسچرائیزر لگاتے وہ سرسری سے انداز میں پوچھ رہی تھی ۔

کمبل سینے تک تان کر لیٹتے شہیر نے آنکھیں میچ ڈالی تھیں ۔

"کچھ نہیں ماما ۔"گڑبڑا کر کہتے اس نے کمبل دونوں ہاتھوں میں زور سے دبوچ رکھا تھا ۔صلہ نے سر کو ہلکی سی جنبش دی ۔شہیر نے کچھ دیر اسکی مزید باز پرس کا انتظار کیا پھر اسے خاموش دیکھ کر خود ہی سیدھا ہو کر بیٹھتا اسے دیکھنے لگا ۔

"نیچے بابا ہیں ۔"ڈرتے ہوئے اسکی طرف دیکھتا وہ منمنایا تھا ۔صلہ نے ایک گہری نظر اسکی کی تو وہ فوری نظریں پھیر گیا ۔

"جانتی ہوں ۔لیکن وہ کیوں ہیں تم مجھے صرف اتنا بتاؤ ۔"اطمینان سے کہتی وہ سٹول سے اٹھی تھی ۔

"میں نے ان سے وعدہ لیا ہے وہ مجھے چھوڑ کر اب نہیں جائیں گے ۔"کچھ دیر بعد سر جھکائے وہ کہہ رہا تھا ۔

صلہ کا ماتھا ٹھٹکا ۔ساکت کھڑی وہ کچھ دیر اسکی بات کا مطلب سمجھتی رہی تھی پھر کھڑکی کی طرف بڑھی ۔پردہ ذرا سا ہٹا کر نیچے نگاہ کی ۔پولز کی جلتی زرد روشنی میں وہ گاڑی کے پاس ٹہلتا دکھائی دیا ۔ایک گہرا بے بسی کا شکار سانس خارج کرتے اس نے تاسف سے سر جھٹکا تھا ۔شہیر تو بچہ تھا وہ کیوں بچپنے پر اتر آیا تھا ۔پردہ چھوڑ کر وہ شہیر کی طرف مڑی تھی ۔

"شہیر یہ کیا حرکت ہے ۔اس طرح کون کرتا ہے ۔وہ نیچے روڈ پر کیسے ساری رات رہ سکتے ہیں ؟ہم ابھی نیچے جا رہے ہیں ۔تم انکے پاس جا کر انہیں بولو وہ واپس چلے جائیں ۔"ذچ ہوتی، آواز میں ذرا سختی لئے وہ اسے ڈانٹ رہی تھی ۔اسکے کڑے تیوروں سے خائف ہونے کے باوجود وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تھا ۔صلہ جو اپنی شال اٹھانے لگی تھی اسے یوں ہی بیٹھا دیکھ کر رکی ۔

"کچھ کہا ہے میں نے ؟"

"میں نہیں جاؤں گا ۔"سر نفی میں ہلاتے وہ ضدی پن لئے بولا ۔

"شہیر ۔"صلہ نے غصے بھری بے بسی سے اسے دیکھا ۔

"وہ پھر سے کھو جائیں گے ماما ۔آگے ہی کتنی مشکل سے ملے ہیں ۔"وہ روہانسا ہوا تھا ۔صلہ اپنی جگہ بالکل جامد ہو کر رہ گئی ۔سارا غصہ ،ساری جهنجھلاہٹ عنقا ہوئی تھی ۔اسکا دل سکڑ کر پھیلا تھا ۔شہیر کا اسے پھر سے کھو دینے کا خوف اسے اپنی لپیٹ میں لیتا بے چین کرتا چلا گیا ۔لمحے کے ہزارویں حصے میں اپنے فیصلے کے غلط ہونے پر اسے یقین سا ہونے لگا تھا ۔اپنے تئیں حیدر سے چھڑی سرد مہری کی اس جنگ میں وہ شہیر جذبات داؤ پر لگا بیٹھی تھی ۔حیدر یہاں نہیں تھا تو وہ اس کی صرف کمی محسوس کرتا تھا ۔اب اسے باپ کا سایا عرصے بعد پہلی بار میسر آیا تھا تو پھر سے کھو جانے کے خدشے کے ساتھ ۔وہ سکتے کی حالت میں جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی ۔

"انکے پاس اپنی اتنی بڑی گاڑی ہے وہ گاڑی میں رہ لیں گے ماما ۔وہ کمفرٹیبل ہے ۔نانو کے پاؤں میں جب موچ آئی تھی تب ہم اسی میں بیٹھ کر گھر آئے تھے ۔"اسکی خفگی اور ناراضگی کے پیش نظر وہ اب اسے تاویلیں دے رہا تھا ۔صلہ چونک کر اپنی سوچوں کے بھنور سے باہر آئی تھی ۔

مزید کچھ بھی کہے بنا وہ بیڈ کی جانب آئی ۔

"تم سو جاؤ ۔"اسکے بال سہلا کر کہتے ہوئے آواز میں نرمی تھی ۔شہیر کی جان میں جیسے جان آئی تھی ۔مسکرا کر اسے دیکھتا وہ جلدی سے لیٹ گیا تھا ۔کچھ ہی دیر میں وہ سو بھی گیا تھا ۔مگر وہ نہیں سو سکی تھی ۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور لا متناہی سوچوں کا اک جال تھا جو اسکے ذہن و دل کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

گاڑی میں بیٹھ بیٹھ کر بھی وہ اکتا گیا تو یوں ہی دروازہ کھولتا باہر نکل آیا ۔موبائل سکرین روشن کر کے ٹائم دیکھا تھا ۔رات کے پونے بارہ بج رہے تھے ۔یوں سڑک کنارے گاڑی میں رات گزارنا نا صرف خطرناک تھا بلکہ اچھی خاصی خنکی میں سراسر بیوقوفی بھی تھی ۔اور یہ بیوقوفی وہ بڑے جی جان سے کر رہا تھا ۔شہیر کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا اسکا اندازہ اسے دو دن میں ہی ہو گیا تھا ۔اسکی آنکھوں میں تیرتی بے یقینی کو مات دینے کے لئے وہ ساری عمر بھی یوں سر راہ بیٹھ کر گزار سکتا تھا ۔شام میں متعدد بار تو وہ بالکنی میں آ کر اسے دیکھ چکا تھا اور ہر بار ہاتھ ہلا کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنا بالکل نہیں بھولتا تھا ۔

ایسا کرتے ہوئے اسکے چہرے کی مسکراہٹ کس قدر روح افزا ہوتی تھی کہ روح کا صحرا سیراب ہونے لگتا تھا ۔

باہر نکلتے ہی اچھی خاصی یخ بستہ فضا نے اسکا خیر مقدم کیا تھا ،گاڑی کے اندر پھر سردی کا احساس کم تھا ۔دونوں ہاتھ باہر رگڑتے وہ چلتا ہوا چند قدموں کے فاصلے پر آیا تھا ۔جہاں سے بلڈنگ کا احاطہ کیے آہنی جنگلے کے اس پار کھڑے دو موٹر سائیکلوں کے ارد گرد وہ تین چار منچلوں کا گروپ تھا جو ابھی ابھی کہیں سے واپس آئے تھے ۔

سردیوں کی اس گھمبیر خاموشی کی تہہ میں لپٹی رات میں انکی مدهم آوازیں بھی بڑی واضح اسکے کانوں تک کا سفر طے کر رہی تھیں ۔

"یہ صبح سے یہیں منڈلا رہا ہے ۔"ان میں سے ایک نے اسکی طرف دیکھتے دوسروں کو متوجہ کیا تھا ۔حیدر یوں ہی سست روی سے چلتا ہوا وہاں ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا تھا ۔کچھ اس طرح کہ انکی جانب اسکی پشت تھی اور درمیانی فاصلے کے باعث انہیں لگتا تھا وہ انکی باتیں سننے سے قاصر ہو ۔

"ہاں میں نے بھی دیکھا تھا ۔صبح یہی تھا پھر کہیں چلا گیا اور شام میں پھر واپس آ گیا ۔بلکہ یہ کل بھی آیا تھا اور وہ فلیٹ نمبر سات والی ہٹلر سے کھڑا باتیں بھی کر رہا تھا ۔"اب کی بار دوسری آواز سنائی دی تھی ۔حیدر اگنور کر جاتا اگر موضوع بحث فقط اسکی ذات ہوتی ۔مگر اب کہ وہ پورے دھیان سے انکی باتوں کی طرف متوجہ تھا ۔ماتھے کے بل زرد روشنی میں بھی واضح ہونے لگے تھے ۔

"اور تو اور اسکا بیٹا بھی دو تین بار اس سے باتیں کرتا نظر آیا ہے ۔لگتا ہے بھائی صاحب فاختہ کو دانہ ڈال رہے ہیں مگر شاید جانتے نہیں ہیں بڑی سخت جان ہے اتنے سالوں سے ہمارا پهینكا دانہ تو چگا نہیں اس کی دال کہاں گلنی ہے ۔"ایک اور تبصرہ اور ساتھ ہی ان سب کا بے ہنگم قہقہہ ۔حیدر کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا تھا ۔دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر وہ پلٹا تھا ۔ان چاروں کو شعلے برساتی نظروں سے دیکھتے وہ قدم قدم چلتا جنگلے کے بالکل قریب آن رکا ۔وہ بھی اسے متوجہ ،اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر یک دم چپ ہوئے تھے ۔دو انگلیوں کے اشارے سے انہیں پاس بلايا تھا ۔وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پھر موٹر سائیکل کے اوپر بیٹھے لڑکے نے پاس کھڑے دوسرے لڑکے کو اسکی بات سننے آگے جانے کا اشارہ دیا تو وہ کچھ متذبذب سا شانے جھٹکتا آگے بڑھا ۔

"میں مفت مشورہ کسی کو دیتا نہیں ہوں مگر تم لوگوں کو دے رہا ہوں ۔شہر کے حالات بڑے خراب چل رہے ہیں ۔دن دیہاڑے لوگ گولیوں سے مارے جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔اور موٹر سائیکلز کے ایکسیڈنٹ تو اور بھی جان لیوا ثابت ہوتے ہیں ۔یوں رات گئے تک مٹر گشت کرنا ،ادھر ادھر تانک جھانک کرنا ،فاختائیں دیکھنا اور انہیں دانے ڈالنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے ۔شکلیں تو پہلے ہی کچھ خاص نہیں ہیں کہیں سے دو چار ڈینٹ پڑ گئے تو اگلے حال سے بھی جاؤ گے ۔اس لئے بچ کے رہو اور فلیٹ نمبر سات والی ہٹلر اور اسکے بیٹے سے کوسوں دور رہو ۔"

اس رات کی خنکی زیادہ تھی یا اسکی آواز میں بولتی سرد مہری ،اندازہ لگانا مشکل تھا ۔دهیمی آواز میں وہ پھنکارا تھا ۔سامنے کھڑے لڑکے نے متعجب انداز میں اسے دیکھتے گردن گھما کر اپنے دوسرے ساتھیوں کو دیکھا تھا جو اب بگڑے تیوروں کے ساتھ اسکی طرف بڑھ رہے تھے ۔

"ہماری ہی گلی میں آ کر ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہے ہو ۔ہو کون تم ؟"

سامنے کھڑے لڑکے کو پیچھے کرتے ان میں سے ایک غصیلے انداز میں کہتا آگے بڑھا تھا ۔آواز سے معلوم ہوتا تھا یہ وہی تھا جس نے صلہ کے لئے فاختہ کا لفظ استعمال کیا تھا ۔حیدر کی گردن کی رگیں تنی ۔

"گلی اپنی ہو یا پرائی ۔شیر ،شیر ہی ہوتا ہے ۔کتوں کا جهنڈ بھی ہو تو بھی وہ اکیلا ہی سب پر بھاری ہوتا ہے ۔"

حیدر کی استہزائیہ آواز میں کہی بات پر آگ بگولا ہوتے اس نے جنگلے پر زور سے ہاتھ مارا تھا ۔

"تیری تو میں ۔۔۔۔رک ذرا ۔میں آتا ہوں اپنے باپ کے بیٹے ہوئے تو بھاگنا مت ۔"انگلی اٹھا کر طیش بھرے انداز میں کہتا وہ ایک زور دار ہاتھ جنگلے اس آہنی باڑ پر مارتا تن فن کرتا ہوا مڑا تھا اسکے پیچھے باقی لڑکے بھی تلملاتے ہوئے بڑھے تھے ۔حیدر وہیں کھڑا رہا تھا ۔جب وہ گیٹ سے نکل کر اسکی طرف بڑھے ۔اور اگلے چند سیکنڈز میں وہاں گھمسان کا رن پڑ چکا تھا ۔وہ چار تھے ۔حیدر اکیلا تھا مگر اس کے باوجود وہ ان سے اچھا خاصا نمٹ رہا تھا ۔ایک دو گھونسے اس نے بھی کھائے تھے مگر اس سے زیادہ درگت وہ انکی بنا چکا تھا ۔گھونسوں سے لے کر لاتوں تک وہ ہر داؤ آزما چکا تھا ۔بچپن میں لی گئی سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ کافی مددگار ثابت ہوئی تھی ۔شور سن کر واچ مین بھی بھاگا چلا آیا تھا ۔بلڈنگ کے اندر سے کچھ مرد بھی بھاگے دوڑے آئے تھے ۔جو اب بیچ بچاؤ کی کوشش کر رہے تھے ۔آپس میں گتهم گتها ہوئے حیدر اور ان چاروں کو الگ کرتے ان میں سے قدرے بڑی عمر کے ایک آدمی نے کہا تھا  ۔

"کیا ہو رہا ہے یہ اور یوں بیچ سڑک کیوں لڑ رہے ہو تم لوگ ؟"

اپنی بلڈنگ کے چاروں لڑکوں سے وہ اچھی طرح واقف تھے البتہ حیدر سے غیر شناس تھے ۔

"چاچو بات ہم نے نہیں اس نے شروع کی ہے ۔پتہ نہیں کون ہے کہاں سے آیا ہے اور یہاں آ کر ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہا ہے ۔"وہی لڑکا ناک سے نکلتے خون کے ساتھ ایک بار پھر غصے سے بولا تھا ۔

حیدر کچھ فاصلے پر پر سکون کھڑا اسے کینہ توز نظروں سے اب بھی گھور رہا تھا ۔

"کون ہو تم ؟اور کیوں جھگڑا کر رہے ہو ؟"وہی آدمی اب حیدر کی طرف مڑے قدرے رسان سے پوچھ رہے تھے ۔

"میں جھگڑ نہیں رہا ۔انکی زبانیں بہت لمبی ہیں بار بار آ کر میرے قدموں سے لپٹ رہی تھیں ۔دوسروں کی عزتوں پر یوں سر راہ فقرے کسے گے تو جواب تو دینا پڑے گا ۔"

اسکی بے تاثر آواز میں عجیب سی کاٹ تھی ۔

"کون سی عزت ؟کس کی عزت ؟آپ لوگ پوچھیں اس سے یہ ہے کون ۔اور یہاں کر کیا رہا ہے ؟"

وہی لڑکا ایک بار پھر سے آگ بگولا ہو رہا تھا ۔

"یہ شوہر ہیں میرے ۔"

اس سے پہلے کہ حیدر کوئی جواب دیتا پیچھے سے آتی تیز اور اونچی نسوانی آواز نے سب کو چونک کر پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا ۔

سامنے کھڑے انہی بزرگ آدمی کے کندھے کے پیچھے کے پیچھے سے حیدر نے اسے دیکھا تھا جو سیاہ چادر لئے پر اعتماد سی کھڑی تھی ۔

ارد گرد سارے میں اک خاموشی سی چھا گئی تھی ۔کچھ دیر پہلے جن آنکھوں سے آگ اگل رہی تھی اب بالکل خالی سی ہو کر رہ گئی تھیں ۔اسے لگا تھا جیسے وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہو اور صلہ کی آواز پلٹ پلٹ کر آ رہی ہو ۔

وہ خاموش اب بھی نہیں ہوئی تھی ۔آہستہ آواز میں کچھ بول رہی تھی یہاں تک کہ سبھی لوگ آہستہ آہستہ وہاں سے ہٹتے چلے گئے ۔ان لڑکوں نے جانے سے پہلے حیدر کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا مگر وہ صلہ کے سوا کچھ اور دیکھ ہی کہاں پا رہا تھا ۔سب کے جانے کے بعد وہ چلتی ہوئی اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ۔

"کیا تماشہ لگا رکھا ہے ؟یہاں رہتی ہوں میں ۔یہ سب لوگ جانتے ہیں مجھے کیوں مجھے مشکوک کرنے والی حرکتیں کرتے پھر رہے ہیں ؟یا پھر دوسروں کے لئے نئی راہیں کھول رہے ہیں کہ کل کو کوئی بھی ایرا غیرا یوں ہی میرے فلیٹ کے سامنے آ کر اپنا ڈیرہ ڈال لے ۔"

حسب عادت سینے پر بازو باندھ کر وہ چھبتی نظریں اس پر گاڑھے شروع ہو چکی تھی ۔کچھ دیر پہلے کا طلسم جس میں وہ اسے قید کر بیٹھی تھی ٹوٹ کر رہ گیا ۔پلکیں جهپک کر ایک گہرا سانس خارج کرتے اس نے اپنے نچلے ہونٹ کا کنارہ دبایا تھا جہاں خون کی ننھی سی لكیر بنی ہوئی تھی ۔

"تم اس وقت نیچے کیوں آئی ؟"اسکے کہے کا ذرا برابر اثر لئے بنا وہ اکھڑے لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔صلہ نے خود کو بے بسی کی انتہا پر محسوس کیا تھا کہ اسکا لہجہ تک غصے بھری لاچارگی سے چٹخ گیا ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?