Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 16

1 Posts
1 Users
0 Reactions
166 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

خالہ پریشان سی اسکے پاس ہی بیٹھ گئیں ۔

"کیا بات ہے صلہ ۔اتنی پریشان کیوں ہو بیٹا ۔دیکھو اگر میری اور شہیر کی وہ بات تمہیں بری لگی ہے تو ہم شرمندہ ہیں بیٹا ۔میں نے تو پہلے ہی منا سے کہا تھا وہ یہ سب تمہارے علم میں لائے بغیر نہ کرے مگر جانتی تو ہو نا اسکو ۔ضد کا کتنا پکا ہے ۔میری تو نہیں مانی البتہ اپنی منوا کر چھوڑی ۔اسکی معصوم سی خواہش کے آگے میں نے بھی گھٹنے ٹیک دیے کہ میں خود تم دونوں کی خوشی چاہتی ہوں بیٹا ۔اپنی خالہ کو معاف کر دو ۔"دلگیر سی آواز میں کہتے وہ نادم دکھائی دیتی تھیں ۔مگر صلہ انکو سن ہی کہاں پا رہی تھی جو انکے لفظوں یا لہجے پر غور کرتی ۔

"وہ واپس آ گیا ہے خالہ ۔وہ وہی ہے ۔"سرسراتی ہوئی کھوئی کھوئی ،بھیگی آواز پر خالہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا ۔

"کیا کہہ رہی ہو ؟کس کی بات کر رہی ہو ۔"اسکی طرف جھکتے اسکا چہرہ دیکھا ۔

"حیدر کی بات کر رہی ہوں خالہ وہ واپس آ گیا ہے ۔اسے شہیر کا بھی پتہ چل گیا ہے خالہ ۔میں کیا کروں اب ۔"انکی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے وہ تیزی سے کہتی متفکر سے انداز میں اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائے ہونٹوں پر رکھ گئی تھی ۔

انداز سے بے چارگی جهلک رہی تھی ۔آنکھیں پھر سے بھیگنے کو بے تاب ہوئی تھیں ۔

"کیا وہ خبیث کہاں سے آ گیا اتنے سالوں بعد ۔اور تمہیں کہاں ملا ؟منا کو کب دیکھا اس نے ؟"ہق دق سی کیفیت میں گھری خالہ نے بہت سارے سوال ایک ساتھ داغ دیے تھے ۔

صلہ نے ماتھے پر ہاتھ لے جاتے ہلکی سی لرزش کے ساتھ بالوں کو پیچھے کی جانب کیا تھا ۔

"مرتضیٰ ہی حیدر ہے ۔"نیم سرگوشی میں بھی اسکی آواز بھرا گئی تھی ۔اسکی آواز خالہ کے کانوں تک بمشکل پہنچ پائی تھی اور اس کے ساتھ ہی انکا دماغ بھک سے اڑتا چلا گیا ۔

"کیا ؟"تیز چینخ نما آواز انکے حلق سے برآمد ہوئی تھی ۔بے یقینی تھی کہ جس کی کوئی حد نہیں تھی ۔بھلا وہ مرتضیٰ کیسے حیدر ہو سکتا تھا ۔

صلہ نے بنا کچھ کہے سر ہلا کر آنکھیں میچتے انکی بے یقینی پر یقین کی مہر ثبت کر دی تھی ۔خالہ کا ہاتھ انکے کھلے منہ پر جا کر رکا تھا ۔کتنی دیر تک تو وہ کچھ کہنے سننے کے قابل بھی نہ رہی تھیں ۔

وہ کیسے یقین کر لیتیں ۔بھلا وہ پارک میں ملنے والا سلجھا ہوا ،خوش مزاج ،مہذب اور تمیز دار سا مرتضیٰ کیسے بھلا کیسے وہ واہیات شخص ہو سکتا تھا جس نے انکی پھولوں سی بھانجی کی زندگی کانٹوں سے بدتر کر کے رکھ دی تھی ۔

"ہائے میرے اللّه ۔اتنا بڑا دھوکہ اتنا بڑا فراڈ ۔"

اور جب کچھ دیر بعد انکے حواس کچھ ٹھکانے پر آئے تھے تو ہاتھ دل پر جا پڑا تھا ۔

صلہ نے کچھ نہیں کہا تھا ۔یوں ہی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کے ناخن بے کلی سے کھرچتی رہی ۔

"یہ کیا ہو گیا صلہ ۔شکل سے کیسا معصوم اور بھلا لگتا تھا مگر دل کا اتنا کالا ہو گا مجھے کیا پتہ تھا ۔اگر پتہ ہوتا تو منا کو اسکے سائے سے بھی دور رکھتی ۔اپنی خالہ کو معاف کر دے بیٹا ۔غلطی ہو گئی مجھ سے جو شہیر کے معاملے میں اس پر بھروسہ کر بیٹھی ۔"خالہ کا ملال تھا کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔بے یقینی اب افسوس ،ملامت اور مرتضیٰ پر بہت سارے غصے کی صورت اختیار کرنے لگی تھی ۔ساتھ وہ اب بھی کسی مجسمے میں ڈھلی بیٹھی تھی ۔

 

"خالہ اگر ۔۔۔۔اگر اس نے شہیر کو مجھ سے چھین لیا تو میں کیا کروں گی ۔"انکی طرف مڑتے ،انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام ،وہ میکانکی انداز میں آنکھوں میں ڈھیر سارا خوف لئے بول رہی تھی ۔رقيه خالہ کے دل پر گھونسا سا پڑا تھا ۔وہ یوں خوفزدہ سی ،بھیگی آنکھوں کے ساتھ غمزدہ سی کب اچھی لگتی تھی ۔وہ تو باتیں سناتی ،غصے سے چہرے کے رنگ بدلتی اور تیز نظروں سے ہلکا سا گھورتی ہی انہیں پیاری لگتی تھی ۔بے ساختہ اسکے وجود کو اپنی آغوش میں سمیٹتے انہوں نے اسکا سر اپنے سینے سے لگایا تھا ۔

"ارے ایسے کیسے چھین لے گا اتنی بھی انی نہیں مچی ہوئی اب ۔اسکی طبیعت تو میں خود سیٹ کرتی ہوں ۔تم دیکھو تو سہی صلہ ۔اور یہ تم کب سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر یوں رونے دھونے لگی ۔تو تو میری شیرنی بیٹی ہے ۔اب یوں بھیگی بلی بن کر خبردار جو اسے شہ دی تو ۔میں ہوں تیرے ساتھ ۔دیکھتی ہوں کیسے چھین لے گا تجھ سے تیرا بیٹا وہ موا کہیں کا ۔غضب خدا کا اتنا عرصہ بیٹے کا پتہ تک نہیں تھا ابیٹا نہ ہوا پیڑ کے ساتھ لگا آم ہوا جو وہ لے لے گا ۔"اسکے کندھے کو ہولے ہولے تهپتهپاتے وہ دھیمی سی آواز میں مسلسل بول رہی تھیں ۔اور صلہ آنکھیں موندے آنسوؤں کو ضبط کرنے کی جہد میں نڈھال ہوئی جاتی تھی ۔اسکے سامنے اسے کھری کھری سنا دینا اور بات تھی مگر یہ بھی سچ تھا اسے یوں اچانک سے سامنے اتنے عرصے بعد دیکھ برسوں پہلے ٹوٹے دل کا کرب ایک بار پھر سے جاگ اٹھا تھا ۔پرانے زخم نئے سرے سے تازہ ہوئے تھے ۔اور سب سے بڑھ کر اک خوف تھا اس نے شہیر کو دیکھ لیا تھا ۔صلہ نے اسکی آنکھوں میں شہیر کے لئے جو محبت و متانت بھرا نرم تاثر دیکھا تھا وہ اسے اندر تک کاٹ کے رکھ گیا تھا ۔اسکے پاس ایک شہیر ہی شہیر تو تھا اور اسے وہ کسی صورت کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

ہوٹل کے تھرڈ فلور پر واقعہ اس کمرے کی گلاس ونڈو کے سامنے کھڑا وہ نیچے سڑک پر بھاگتی نظر آتی گاڑیوں پر نظریں جمائے ہوئے تھا ۔بلیک ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے اسکی سوچیں  کہیں کی کہیں پرواز کر رہی تھیں ۔ایک بار پھر سے اس نے شام کا واقعہ دوہرایا تھا ۔ذہن کے پردے پر پچھلے چار گھنٹوں میں وہ کہیں بار یہ منظر دوہرا چکا تھا اور ہر بار بے یقینی کی ایک اور گرہ کھلتی جاتی ۔وہ ابھی بھی یقین و گمان کے درمیان کسی پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا ۔اس وقت اسکی سوچوں کا محور صرف ایک ہی ذات تھی اور وہ شہیر تھا ۔دل ہر بار اسکا سوچ کر نئے سرے سے گداز ہو رہا تھا ۔خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے اور وہ گاڑھا پن اپنا آپ منوا رہا تھا ۔وہ ہمیشہ سوچتا تھا آخر صرف شہیر ہی کیوں ؟اور بھی تو دن میں وہ کہیں بچے دیکھتا تھا پر کبھی دل اس انداز میں انکی طرف کھچا نہیں تھا ۔وقتی لگاؤ سا محسوس ہوتا تھا ۔بچے کسے اچھے نہیں لگتے ۔ان پر پیار بھی آتا تھا ۔مگر پھر آنکھ اوجهل پہاڑ اوجهل کی مصداق کے تحت انکے سامنے سے ہٹ جانے پر انکے چہرے بھی بھول جایا کرتے تھے ۔مگر شہیر کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا تھا اور کیوں نہیں ہوا تھا ۔اسکا جواب بھی اسے مل گیا تھا ۔دل کو جہاں اک انہونی سی خوشی اور بے تحاشہ سکون آ ملا تھا وہیں اندر کچھ بری طرح چھبا بھی تھا ۔ 

"مجھے بابا بھی تو چاہیے نا ۔"

شہیر کی حسرت میں ڈوبی آواز اسکے دل میں خنجر کی طرح کھبی تھی ۔

"وہ مجھے کبھی میرے بابا کے بارے میں نہیں بتاتی ہیں ۔۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں پتہ وہ کون ہیں کیسے دکھتے ہیں ؟کہاں رہتے ہیں اور مجھ سے کبھی بات کیوں نہیں کرتے ،ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے جیسے باقی سب بچوں کے بابا ساتھ رہتے ہیں ۔وہ دیکھیں سامنے ۔۔۔۔وہ سب بچے بھی تو اپنے بابا کے ساتھ رہتے ہیں ،انکے ساتھ پارک آتے ہیں ،انکے ساتھ کھیلتے ہیں تو پھر میں کیوں نہیں ؟"

اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں نے اسے تب بھی تکلیف سے ہمكنار کیا تھا اور اس وقت یہ الفاظ یاد آتے اسے اور بھی زیادہ تکلیف کا احساس ہوا تھا ۔نچلا ہونٹ بری طرح کچلتے اس نے آنکھیں سختی سے بند کرتے ایک گہرا تھکا تھکا سا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا ۔

اتنے سالوں میں اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا تھا بدلے کے چکر میں وہ اپنے وجود کا کوئی حصہ صلہ کے پاس چھوڑ کر جا بھی سکتا ہے ۔اتنے سال اس نے خود کو یہ کہہ کر مطمئین کیے رکھا تھا  اس نے کچھ غلط نہیں کیا ۔اور اب شہیر کے معاملے میں یہ تاویل اسے کوڑے کی طرح لگ رہی تھی ۔خوشی کے احساس پر اپنی غفلت کا ملال کسی تہہ کی صورت بیٹھتا جا رہا تھا ۔اسے ایک بار تو پلٹ کر دیکھنا چاہیے تھا ۔اس نے کیوں نہیں دیکھا ؟مختلف سوچیں اسکے ارد گرد گھیرا تنگ کرتی سکون غارت کرنے لگی تھیں ۔

اور اب بھی اگر تقدیر اسے خود شہیر سے نہ ملواتی تو وہ ساری عمر اپنے بیٹے کے وجود تک سے لا علم رہتا ۔ایک تهپڑ شام کو صلہ نے اسکے چہرے پر رسید کیا تھا اور ایک گھونسا اس وقت تقدیر اسکے منہ پر مار کر کھڑی تمسخر سے مسکرا رہی تھی ۔اسکا پلان پرفیکٹ تھا ۔اس نے جو چاہا وہ کیا بھی تھا ۔بدلا پورا ہوا تھا یہی تو چاہتا تھا وہ ۔جہانگیر مراد سے انتقام اس نے صلہ جہانگیر کی صورت لیا تھا ۔

اور ایک انتقام قدرت نے بھی مرتضیٰ حیدر کاظمی سے شہیر حیدر کی صورت میں لیا تھا ۔دونوں میں سے بڑا کون سا تھا ،زیادہ زیاں کس کے حصے میں آیا تھا ناپ تول کرنے سے پہلے ہی اسکا دل خالی خالی ہونے لگا تھا ۔

 

سورج کے طلوع ہوتے ہی نئے دن کا آغاز ہو چکا تھا ۔مگر پچھلی رات کا بوجهل پن اب بھی کہیں فضا میں سانس لے رہا تھا ۔عام دنوں سے ہٹ کر فلیٹ میں کچھ زیادہ ہی خاموشی گونج رہی تھی ۔دکھتا سر ہاتھ میں گرائے خالہ بھی وہیں صوفے پر چپ چپ سی بیٹھی ہوئی تھیں ۔کل رات کے صلہ کے حکم نامے پر شہیر کا منہ الگ لٹکا ہوا تھا جس کا صلہ اور خالہ دونوں ہی نے خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا تھا اور اس وجہ سے اسکے گال کچھ اور پھولنے لگے تھے ۔صلہ اسکا بیگ اٹھانے کمرے میں گئی تھی اور وہ اسکے لئے رکنے کے بجائے فلیٹ سے نکل آیا تھا ۔نیچے آتے ہوئے اس نے سڑک پر اسکول وین کی تلاش میں نگاہ دوڑائی تھی ۔سامنے دیکھتے اسکی بجهی آنکھوں کی لو پھر سے لوٹ آئی تھی ۔اک بھرپور مسکراہٹ چہرے پر لئے وہ سرپٹ بھاگا تھا ۔سنگلاخ بڑا سا دروازہ كراس کرتے وہ دائیں جانب کھڑی کار کے پاس آ کر رکا تھا جس کے ساتھ ٹیک لگائے مرتضیٰ کھڑا اسے اپنی طرف بھاگتا ہوا آتا دیکھ رہا تھا ۔

"آپ یہاں وہ بھی اتنی صبح صبح ۔"چہک کر کہتا وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا ۔مرتضیٰ کی نگاہیں اسکے چہرے پر سے ایک پل کے لئے بھی ہٹنے کو انکاری تھیں ۔گاڑی کی ٹیک چھوڑتا وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا تھا ۔اسے دیکھ کر اندازہ تو ہو گیا تھا صلہ نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا ۔اسکے عین سامنے ایک گھٹنہ زمین پر موڑ کر بیٹھتے اسے ذرا برابر بھی اپنے کپڑوں کے خراب ہونے کی پرواہ نہیں تھی ۔شہیر اسکے کھوئے کھوئے سے عجیب رویے پر دونوں بھنویں آپس میں جوڑے نا سمجھی سے دیکھ رہا تھا جب اس  نے اپنے دونوں ہاتھ اسکے کندھوں پر رکھے تھے ۔وہ مسلسل اسے دیکھتا اب بھی کچھ نہیں بولا تو شہیر کو اچانک کوئی خیال آیا جس نے اسکی مسکراہٹ کو غائب کر دیا تھا ۔

"ماما نے کل آپ کو بھی ڈانٹا ہو گا نا ۔آئی ایم سوری فار دیٹ ۔مجھے بھی ڈانٹ پڑی ہے ۔اور ماما نے کہا ہے میں اب کبھی آپ سے نہیں ملوں گا ۔"نظریں جھکا کر وہ منہ بسورتا ہوا اسے ہمیشہ سے کہیں زیادہ پیارا لگا تھا ۔اتنا کہ مزید ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا ۔اگلے ہی لمحے اسے کھینچ کر خود سے لگاتے وہ اسے اپنے دونوں بازوؤں میں نرمی سے بھینچ چکا تھا ۔جھک کر اسکے کندھے پر سر رکھے کھڑا شہیر حیران و پریشان سا تھا ۔اس نے مرتضیٰ سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کی تھی ۔

"آئی ایم سوری شہیر ۔"نیم سرگوشی نما اسکی آواز پر بھی وہ الجھن بھرے تاثرات چہرے پر لئے گم صم سا تھا ۔وہ کس بات کے لئے سوری کر رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھا جب مرتضیٰ نے اسے خود سے الگ کرتے اسکے دونوں بازو تھام کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا جو اسکول یونیفارم میں تیار پیارا مگر اب کچھ کنفیوز لگتا تھا ۔اگر صلہ نے اسے نہیں بتایا تھا تو اپنی حقیقت اس پر آشکار کرنے کی ہمت وہ بھی اپنے آپ میں پیدا نہیں کر پا رہا تھا ۔چہرے کو دائیں طرف کرتے اس نے اپنے بازو سے نم ہوتی آنکھیں صاف کی تھیں ساتھ ہی ہلکا سا ہنسا۔اور تب ہی بلڈنگ سے باہر نکلتی صلہ کی نگاہ انکی طرف اٹھی تھی اور وہ اپنی جگہ پتھر کی ہو کر رہ گئی تھی ۔

کھڑے ہو کر اب وہ شہیر کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لئے جھکتا اسکا ماتھا چوم رہا تھا ۔اور یہ منظر صلہ کی آنکھوں میں چنگاریاں سی بھر گیا تھا ۔ہاتھ میں تھامے اسکے اسکول بیگ پر اپنی گرفت مضبوط کرتی وہ تیر کی سی تیزی سے آگے بڑھی ۔

"آپ مجھے گڈ بائے کرنے آئے ہیں ۔"اسکا ملنے کا انداز ،آنکھوں کی نمی اور کچھ نہ کہنا ۔شہیر نے اپنی سمجھ کے مطابق مغموم ہو کر پوچھا تھا ۔مرتضیٰ نے سر نفی میں ہلایا تھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا صلہ کی چنگاڑتی آواز نے بیک وقت دونوں کو چونکایا تھا ۔

"شہیر ۔"

حیدر نے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تو شہیر اپنی جگہ سے پوری طرح ہل کر رہ گیا ۔سٹپٹا کر پیچھے مڑ تے صلہ کے سپاٹ چہرے کو دیکھ اسکا خون خشک ہوا تھا ۔متوقع ڈانٹ ڈپٹ کی ابھی وہ تیاری ہی کر رہا تھا جب اسکول وین آ کر صلہ سے کچھ فاصلے پر رکی ۔

شہیر بنا پیچھے مڑے مرتضیٰ کو دیکھے بغیر تیز قدم لیتا صلہ تک پہنچا تھا ۔اسے وین میں بٹھاتے وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ بالکل خاموش رہی تھی ۔البتہ شہیر نے منمناتے ہوئے اسکے چہرے کی جانب نگاہ کیے بنا اللّه حافظ ضرور کہا تھا ۔اور وین میں بیٹھتے وہ کن اکھیوں سے مرتضیٰ کو بھی ایک اچٹتی نظر دیکھنا نہیں بھولا تھا ۔

وین کے چلتے ہی صلہ نے اپنے قدم موڑ لئے تھے ۔

"مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔"بنا اسے مخاطب کیے ، پیچھے سے اسکی قدرے اونچی آواز سنائی دی تھی ۔اس کے قدم آپ ہی آپ رک گئے تھے ۔ایک نظر ارد گرد دوڑائی ۔صبح صبح کا وقت تھا تو کمپاؤنڈ میں اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے ۔

"نہیں ہو سکتی ۔"دو ٹوک لہجہ اور کھدرے سے انداز میں کہتی وہ پلٹی نہیں تھی ۔یوں ہی رک کر کہتی پھر سے آگے بڑھنے لگی ۔جب وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس سے گزرتا عین اسکے سامنے آ کھڑا ہوتا اسے بھی رکنے پر مجبور کر گیا تھا ۔صلہ نے ماتھے پر نا گواری کے بل لئے اسے تیز نظروں سے گھورا تھا جس کا اس پر کوئی خاص اثر ہوا نہیں تھا ۔

"کیوں نہیں ہو سکتی ۔بات تو کرنی پڑے گی ۔اب یہ تم پر منحصر ہے تم آرام سے میری بات سن لیتی ہو یا مجھے کورٹ سے آرڈر لینے پڑے گے ۔"ڈھیٹ پنے اور بے حسی کی اگر کوئی عملی تفسیر تھی تو وہ اس وقت صلہ جہانگیر کے عین سامنے کھڑی تھی ۔چہرے پر ملامت و ندامت کا ایک ذرا سا جھوٹا تاثر بھی لئے بنا وہ سر راہ اسے ایک نئی کہانی سنا رہا تھا ۔صلہ کے خدوخال میں تناؤ کی سی کیفیت گھلنے لگی تھی ۔

ارد گرد دیکھتے اس نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کی جو سامنے کھڑے شخص کی موجودگی میں عنقا ہونے لگتی تھی ۔

"اپنی بات پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے آپ ۔"

دانت پیس کر کہتی وہ کچھ بے کل سی ہوئی تھی ۔مرتضیٰ حیدر نے سر کو ہلکا سا خم دیا پھر ٹھہرے ہوئے سے انداز میں گویا ہوا ۔

"تم مجھے شہیر سے ملنے سے نہیں روک سکتی ۔اس کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں ۔بہتر یہ ہوگا تم مجھے اس سے ملنے دو ورنہ میں کورٹ آرڈرز لینے سے بھی دریغ نہیں کروں گا ۔قانوناً تم اسے مجھ سے ملنے سے نہیں روک سکتی صلہ بی بی ۔وہ میرا بیٹا ہے ۔"

"یہ اسکی بد نصیبی ہے ۔"اسکی بات کاٹتی وہ دوبدو بولی ۔حیدر کا ماتھا ٹھٹکا ،چہرے کے نقوش تن سے گئے تو رنگت میں ضبط کی لالی چھلکی ۔

"سنا آپ نے ۔یہ میرے بیٹے کی بد نصیبی ہے کہ اسکا بائیو لوجیکل باپ آپ جیسا کم ظرف انسان ہے ۔اس کے علاوہ آپکا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔کمال بات ہے آج سے ایک دن پہلے تک آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپکا کوئی بیٹا بھی ہو سکتا ہے اور آج آپ  اچانک سے آٹھ سال کے بچے کے باپ ہونے کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں ۔شرم نام کی ایک چیز ہوتی ہے مگر شاید آپ کو اسکے بارے میں پتہ نہیں ہے اسی لئے یوں تن کر میرے سامنے کھڑے اپنے خوب صورت عزائم کا یوں سر تان کر اظہار کر رہے ہیں ۔"

ٹھنڈے ٹھار انداز میں کہتی وہ حیدر کو بری طرح سلگا گئی تھی ۔اسے ٹھہرے پانیوں میں آگ لگانے کا ہنر خوب آتا تھا ۔

"جو کرنا ہے کر لیں ۔دنیا کی کسی بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا لیں ۔مگر پھر یاد رکھیے گا خاموش میں بھی نہیں رہوں گی ۔اتنے سال تک شہیر آپ کے کالے کرتوتوں سے نا واقف رہا ہے ۔میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا بیٹا اس کا کوئی ذرا سا بھی برا اثر لے ۔مگر شہیر میرے لئے میری بقا کی جنگ ہے اور بقا کی جنگ میں اچھے برے تاثر بے معنی ہو جایا کرتے ہیں ۔میں عدالت اسے ساتھ لے کر آؤں گی اور اسکے سامنے آپ نے جو کیا وہ سب بتاؤں گی ۔کیس تو آپ ہاریں ہی ہاریں گے ، عدالت میں ذلت الگ اٹھائیں گے اور بیٹے کی نظروں میں اپنی عزت بھی گنوا بیٹھیں گے ۔ابھی اسے شاید اس طرح سمجھ نہ آئے مگر کچھ سالوں بعد وہ سب سمجھنے لگے گا تو آپ سے بے پناہ نفرت کرے گا ۔آج سے کہیں سال پہلے کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ اولاد جب حساب مانگتی ہے تو بے رحم ہو کر مانگتی ہے اور آپکا وقت شروع ہوا چاہتا ہے اب ۔اس لئے جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا ۔اس بار میں آپ کے ہر وار کے لئے پہلے سے تیار ملوں گی ۔"

اس کے ہر ایک لفظ کے ساتھ حیدر کے چہرے نے اپنا رنگ بدلا تھا اور آخری رنگ جو وہاں آ کر ٹھہرا تھا وہ سیاہی کا تھا ۔یوں جیسے جلتے چراغوں کی روشنی گل کر دی گئی ہو ۔حیدر نے خود کو اتنا بے بس شاید ہی کبھی محسوس کیا ہو ۔اولاد بھی کیا چیز ہوتی ہے انسان سے وہ کروا لیتی ہے جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو ۔اپنی سنا کر ایک آخری چھبتی نگاہ اس پر ڈالتے وہ اسکے پاس سے گزر کر چلی بھی گئی تھی ۔

بجھے چہرے کے ساتھ وہ وہاں تنہا کھڑا رہ گیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

"سمجھتا کیا ہے خود کو ۔یوں آ کر مجھے سنائے گا تو ڈر جاؤں گی میں ۔"گلابی ہوتی رنگت کے ساتھ غصے سے بڑبڑاتی ہوئی وہ فلیٹ میں داخل ہوئی تو خالہ نے چائے کا کپ رکھتے اسے دیکھا ۔

"کیا ہوا ہے ؟"اسکی آواز تو سنائی نہیں دی مگر چہرے کے بگڑے تاثرات بڑے واضح تھے ۔

"ہونا کیا ہے خالہ ۔اپنی اوچھی حرکتوں پر اتر آیا ہے وہ ۔نیچے کھڑا ہے ۔خیر میں نے بھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی ۔"گہرا سانس لے کر خود کو نارمل کرتے وہ آگے بڑھی ۔

"میں آفس کے لئے نکلنے لگی ہوں ۔آپ فلیٹ اچھے سے لاک کر لیجئے گا اور شہیر کے آنے کے بعد اسے باہر مت نکلنے دیجئے گا ۔"انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہہ کر وہ اندر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔

"تم فکر مت کرو ۔خود دھیان سے جانا بس ۔"ماتھے پر بل لئے کہتیں وہ اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گئی تھیں ۔کھڑکی سے پردہ کھسکا کر نیچے جھانکا ۔ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دیا ۔

"دفع ہو گیا ہو گا ۔اچھا ہی ہوا ورنہ آج میں نے اسکے ساتھ دو دو ہاتھ کر ہی لینے تھے ۔بڑا آیا کیسے بھولی صورت بنا کر کہہ رہا تھا نہیں میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی لکھ دی لعنت ایسے جھوٹے اور مکار انسان پر ۔"پردہ واپس سے برابر کرتے وہ جلے بھنے انداز میں اؤنچی آواز میں بڑبڑا بھی رہی تھیں ۔

صلہ کے جانے کے بعد بھی وہ دن میں کہیں بار بالکنی سے نیچے نظر دوڑاتی رہی تھیں ۔مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا تھا ۔شہیر کے اسکول سے آنے پر وہ وین کے انتظار میں پہلے سے ہی نیچے کھڑی تھیں ۔یہ خلاف معمول تھا اس لئے شہیر کو بھی کھٹکا تھا ۔

"میں روز خود آتا ہوں اوپر نانو ۔آپ کیوں نیچے کھڑی ہیں ۔"وین سے اترتے ہی اس نے اپنی حیرت کا اظہار کیا تھا ۔

"بس ویسے ہی منا ۔میں نیچے آئی ہوئی تھی تو سوچا تمہارا ٹائم بھی ہو گیا ہے آنے کا تو دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔"انہوں نے بات بنائی ۔شہیر نے سر ہلا دیا ۔پھر کچھ یاد آنے پر صبح جس جگہ مرتضیٰ حیدر کی گاڑی کھڑی تھی وہاں نگاہ کی ۔مگر اب وہ جگہ خالی تھی ۔

"آپ کو پتہ ہے آج صبح میں کس سے ملا ؟"انکے ساتھ سیڑھیاں چڑھتا وہ پر جوش سا بتانے لگا تو خالہ نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔

"مرتضیٰ سر آئے تھے مجھ سے ملنے ۔"انکی عدم توجہ سے بے خبر وہ بتا رہا تھا ۔خالہ نے بمشکل خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا ۔

"صلہ نے منع کیا ہے ۔اب ہم نہ تو اسکے بارے میں بات کریں گے اور نہ ہی اس سے ملیں گے ۔"

آواز کو ہموار اور آہستہ رکھتے انکا انداز سمجھانے جیسا تھا ۔

"لیکن کیوں ؟"چلتے چلتے وہ احتجاجاً ركتا انہیں دیکھنے لگا ۔خالہ کو بھی بادل نخواستہ رکنا پڑا تھا ۔

"اتنے سوال مت کیا کرو ۔کیا یہ کافی نہیں ہے کہ صلہ نے منع کیا ہے شہیر ۔وہ تمہاری ماں ہے تمہارے بھلے کے لئے ہی روک ٹوک کر رہی ہو گی ۔"اس بار انکا انداز ذرا سخت ہو گیا تھا ۔شہیر کی خفگی بڑھی ۔

"نانو اب آپ بھی ماما کی سائیڈ ہو گئی ہیں ۔مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی ۔"پاؤں پٹخ کر وہ انکے پاس سے گزرتا بھاگتا ہوا تیسری منزل کی سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا ۔پہلی بار اسکی ناراضگی کا خالہ نے کوئی خاطر خواہ اثر نہیں لیا تھا ۔سر جھٹک کر وہ بھی اوپر جانے لگیں ۔

صلہ آفس سے آئی تو خالہ نے اسے شہیر کی بھوک ہڑتال کے بارے میں بتایا تھا ۔وہ اسکول سے واپس آ کر بنا یونیفارم بدلے اپنے کمرے میں منہ پھلائے بند تھا ۔خالہ نے ایک دو بار اسے کھانے کا کہا تھا پھر انہوں نے بھی چپ سادھ لی تھی ۔

"یونیفارم کیوں چینج نہیں کیا ؟اور کھانا کیوں نہیں کھا رہے ؟"

وہ پہلے ہی پریشان تھی ۔آج پورا دن آفس میں نا چاہتے ہوئے بھی حیدر اسکے حواسوں پر طاری رہا تھا اوپر سے گھر آتے ساتھ ہی شہیر کا سنتے پارہ مزید ہائی ہوا تھا ۔

"وہ جو بیڈ پر آڑھا ترچھا لیٹا تھا ۔اٹھ کر بیٹھتا اپنے مخصوص انداز میں ٹھوڑی سینے سے لگا گیا تھا ۔بیگ رکھ کر چادر اتارتی صلہ اسکے قریب آئی تھی ۔

"تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں شہیر ۔"اسکے انداز اسے زچ کرنے لگے تو آواز میں جهنجھلاہٹ سمٹ آئی ۔

وہ اس بار بھی خاموش رہا تھا ۔صلہ نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی ۔

"ٹھیک ہے مت بولو ،مت کھاؤ کچھ بھی ۔ہو تو اسی ڈھیٹ کی اولاد ۔کرو جو کرنا ہے ۔مگر یہ مت سمجھنا میں تمہاری ضد کے آگے ہار مان لوں گی ۔دیکھتی ہوں میں کتنے دن تک بھوکے رہتے ہو تم ۔"تلخی سے کہتے وہ واش روم میں بند ہو گئی تھی ۔شہیر نے چہرہ اوپر اٹھایا تو آنکھوں میں پانی چمک رہا تھا ۔اسکی ناراضگی پر بھی صلہ اسکے کھانے پینے سے غافل نہیں ہوا کرتی تھی ۔وہ پہلے سے ہرٹ تھا مزید ہوتا چلا گیا ۔ہمیشہ دلیل دے کر سمجھانے والی ماں کی اس بار ایک بھی لفظ کہے بنا لگائی گئی یہ پابندی اسے گراں گزر رہی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

 

رات کھانے میں صلہ نے جان بوجھ کر اسکی پسند کی ساری چیزیں بنائی تھیں ۔جنکی اشتہا انگیز خوشبو پورے فلیٹ میں پھیلتی شہیر کے نتھنوں سے بھی ٹکرا چکی تھی اور اب اسکے پیٹ کے چوہے بے صبرے پن پر اتر آئے تھے ۔

"آ جائیں خالہ ۔کھانا تیار ہے اور کسی نے بھی آنا ہے تو وہ آ سکتا ہے ۔"آدھ کھلے دروازے سے صلہ کی آواز اسکے کانوں تک پہنچ چکی تھی ۔مزید صبر کرنا اسکے بس کی بات نہیں تھی ۔تبھی سر جھکائے خاموشی سے وہ کھانے کی میز پر آ موجود تھا ۔یونیفارم چینج کر لیا گیا تھا اور ریڈ ٹی شرٹ میں وہ بجھا بجھا سا لگتا تھا ۔

خالہ اور صلہ نے ایک دوسرے کی طرف مسکراتی نظروں کا تبادله کیا تھا ۔بنا کچھ بولے صلہ نے اسکی پلیٹ میں پاستا نکالا تھا ۔اور وہ بھی چپ چاپ بنا سر اٹھائے کھانے میں مگن ہو گیا تھا ۔خالہ اور صلہ ایک دوسرے سے یوں باتیں کرتی رہی تھیں جیسے وہ سرے سے وہاں موجود ہی نہ ہو ۔

اپنا کھانا ختم کرتے وہ اسی خاموشی سے اٹھ کر اندر واپس چلا گیا تھا ۔

"صلہ بچہ ہے ذرا پیار سے سمجھاؤ گی تو سمجھ جائے گا ۔دیکھو کیسے چہرہ اتر گیا ہے میرے منے کا ایک ہی دن میں ۔اب جاؤ گی کمرے میں تو اسے منا لینا ۔"ٹیبل سے اٹھنے سے پہلے خالہ نے لاچارگی بھرے لہجے میں کہا تھا ۔

صلہ بنا کچھ کہے برتن سمیٹتی رہی ۔البتہ رات سونے سے پہلے اسکی اتری شکل دیکھ کر اسکا دل پسیج گیا تھا ۔

"شہیر یہاں آؤ ماما پاس ۔"بیڈ پر بیٹھتے ہاتھ آگے کیے اسے بلايا جو سست روی سے چلتا ہوا اس تک آیا تھا ۔

اسکے ماتھے پر آئے بال پیچھے کرتے صلہ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا تھا ۔پھر اسکے خفا چہرے کو پیار سے دیکھا ۔

"شہیر کو اب ماما اچھی نہیں لگتیں کیا جو وہ یوں بات بے بات اپنی ماما سے ناراض ہونے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے ۔"نرمی سے کہتے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا ۔شہیر کی شکایتی نظریں اٹھیں ۔

"ماما کو شہیر اب اچھا نہیں لگتا جو وہ اسے بنا بات کے ڈانٹتی رہتی ہیں ۔"اسکا شکوہ صلہ کے دل پر جا کر لگا تھا ۔

"یہ کس نے کہا آپ سے ۔شہیر تو اپنی ماما کی پوری دنیا ہے ۔وہ اچھا نہیں لگے گا تو پھر کون اچھا لگے گا ۔"اسکی آنکھوں میں تیرتی نمی کو اپنی انگلیوں کے پوروں پر چنتے وہ اس وقت کس قدر دھیمی آواز میں بول رہی تھی ۔شہیر کا دل اور بھر بھر آیا ۔

"تو پھر اب آپ مجھے اتنا ڈانٹتی کیوں ہیں ۔پہلے تو ایسا نہیں کرتی تھیں ۔"وہ گلہ کر رہا تھا ۔صلہ نے اسکی طرف دیکھا اور پھر وہ فیصلہ جو وہ پورا دن کرنے میں ناکام رہی جھٹ سے ہو گیا ۔

"میں تمہیں سب بتاؤں گی مگر ایک شرط پر ۔تم آگے سی کوئی سوال نہیں کرو گے ۔"شہیر نے کچھ دیر ماں کا سنجیدہ چہرہ دیکھا پھر تائید میں سر ہلا دیا ۔

"تم ہمیشہ پوچھتے تھے نا تمہارے بابا کون ہیں ؟"وہ رکی تھی ۔شہیر بے چین ہوتا اسکی طرف دیکھتا سر اثبات میں ہلا گیا ۔

صلہ نے ایک گہرا سانس خارج کیا تھا ۔یہ مشکل تھا مگر اسے ہی کرنا تھا اس سے پہلے کہ شہیر کو یہ بات اس شخص کے منہ سے سننے کو ملتی ۔

"مرتضیٰ ہی تمہارے بابا ہیں ۔"اس پر سے نظریں ہٹا کر  بے تاثر انداز میں بدقت اس نے کہہ دیا تھا ۔شہیر اپنی جگہ سے اسپرنگ کی طرح اچھلا تھا ۔آنکھوں کی پھیلی پتلیوں کے ساتھ وہ منہ کھولے حیرت کا مجسمہ بن گیا تھا ۔

"وہ میرے بابا ہیں ۔"پھنسی ہوئی سی آواز حلق سے نکلی تھی ۔جس میں شاک تھا ،بے یقینی تھی ۔

صلہ نے کچھ نہیں کہا تھا یوں ہی اس کے چہرے پر سے نظریں چراتی بت بنی بیٹھی رہی ۔

"مرتضیٰ سر میرے بابا ہیں ۔"کچھ دیر بعد اس نے پھر ٹرانس کی سی کیفیت میں دوہرایا تھا ۔اس بار آواز میں دبی دبی سی خوشی تھی ۔

"تو پھر انہوں نے ۔۔۔"

"میں نے کہا تھا تم کوئی سوال نہیں کرو گے ۔"اسکی طرح دیکھتے صلہ نے تنبیہ کی تھی ۔شہیر کا کھلا منہ جھٹ سے بند ہوا تھا ۔کچھ دیر تک خاموشی رہی ۔

"وہ میرے بابا ہیں ۔"اب وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔صلہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا ۔

"اب کیا ساری رات یہی ریپیٹ کرتے رہو گے ؟"اس سے زیادہ سننے کی سکت اس میں نہیں تھی ۔شہیر پہلی فرصت میں سنبھلا ۔

"کچھ مسئلے ہیں جن کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتے اور نہ ہی رہ سکتے ہیں ۔ابھی آپ چھوٹے ہیں میں آپ کو سمجھا نہیں سکتی کہ ایسا کیوں ہے مگر جب آپ تھوڑے بڑے ہو جاؤ گے تو سب سمجھنے لگو گے ۔"

وہ رسان سے اب اسے سمجھا رہی تھی ۔ا


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?