Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 14

1 Posts
1 Users
0 Reactions
145 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

چپ ایک دم چپ ۔مزید ایک لفظ نہیں سننا مجھے آپ کے منہ سے ۔کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں آپ ۔یہ پرواہ دکھا کر ،مجھے اس وقت جانے سے روک کر کیا ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں بہت اچھے ہیں آپ ؟بہت عظیم ہیں ؟میرا برا نہیں چاہتے یہی نا ؟لیکن مجھے آپ کو بتانے دیجئے حیدر صاحب ۔آپ بدلے کے اس چکر میں ایک نفسیاتی مریض بن چکے ہیں جہاں آپ برے ہو کر بھی اچھا ہونے کا ڈھونگ رچا کر میرے ساتھ ساتھ خود کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں  ۔آپ کے بقول میرے باپ نے آپ کو آدھی رات گھر سے نکلتے دیکھ کر بھی نہیں روکا تھا یہ انکی سب سے بڑی بے حسی تھی اور آپ میرے باپ جیسے نہیں بننا چاہتے اسی لئے مجھے رات کو جانے سے روک رہے ہیں۔اس طرح آپ اپنے دل کو تسلی کی تهپکی دے رہے ہیں کہ آپ جہانگیر مراد جیسے سنگدل نہیں ہیں ۔رائٹ ؟"پانیوں سے لدی پلکوں کے بر عکس اسکا لب و لہجہ کس قدر مستحکم تھا کہ کچھ دیر کے لئے حیدر بھی ششدر سا اسے دیکھے گیا ۔

" تو مجھے آپ کی آنکھوں پر جو یہ خود پسندی کی پٹی بندهی ہے اسے کھول لینے دیجئے ۔آپ میں اور میرے باپ میں رتی برابر فرق نہیں ہے ۔میرے باپ نے ایک بچے سے عناد پالا تو آپ نے بھی ایک بے قصور لڑکی کو فقط اپنے بدلے کے لئے استعمال کیا ۔دھوکہ دیا ،محبت کا ڈرامہ کیا اور اب جب ۔۔۔جب آپ کا کھیل ختم ہونے کو ہے تو آپ چاہتے ہیں میں آپ کو برا بھی نہ سمجھوں ۔بلکہ ایک مظلوم انسان گردان کر آپ کے ہر غلط عمل کو بھی درست مانتے ہوئے آپ سے همدردی بھی رکھوں ۔واہ واہ ۔کیا کمال کے گیمر ہیں آپ ۔یعنی ہر طرف سے اپنا دامن بچا کر نکل جانا چاہتے ہیں آپ ۔"

اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ بے خوفی و درشتگی سے کہتی چلی گئی تھی ۔اندر کا جمع سارا نہیں تو کچھ غبار اس نے باہر نکال ہی دیا تھا ۔اور حقیقت کا جو تلخ آئینہ اس نے حیدر کے سامنے رکھا تھا اس میں اپنا عکس دیکھنا اسکے لئے مشکل ہو رہا تھا ۔

"بھاڑ میں جائے تمہاری ہمدردی ۔میں کمزور نہیں ہوں جو تمہاری ہمدردیاں بٹورنے کی خواہش رکھوں گا ۔تم مجھے اچھا سمجھو یا برا مجھے فرق نہیں پڑتا صلہ جہانگیر ۔تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو اور کیا نہیں میرے لئے بے معنی ہے ۔میرا تم سے کوئی تعلق واسطہ یا جذباتی وابستگی نہیں ہے جو تمہاری سوچیں مجھے متاثر کرتی پھریں گی ۔اس لئے اس خوش فہمی سے نکل آؤ ۔میرے لئے تم صرف جہانگیر مراد کی بیٹی تھی اس سے زیادہ یا کم کچھ بھی نہیں ۔"

دو قدم اسکی طرف بڑھتے وہ انگلی اٹھا کر اسے جهلسا دینے والی نگاہوں میں تپش لئے بول رہا تھا ۔کوئی آتش فشاں سا تھا اسکے اندر جو باہر کی راہ دیکھ گیا تھا اور اب اسکے وجود کے ساتھ ساتھ صلہ جہانگیر کے وجود کو بھی راکھ بنا گیا تھا ۔سلگتی ہوئی راکھ ۔

وہ چاہے کتنی ہی مضبوطی کا مظاہرہ کر لیتی ۔کتنی ہی بہادر بن جاتی مگر اسکے منہ سے نکلتے الفاظ نے دل کا خون تو کیا تھا ،زخم تو آئے تھے ،تکلیف بھی ہو رہی تھی مگر اسکا پر چار کرنا ضروری تو نہیں تھا ۔ہر زخم دکھائے جانے والا ہوتا بھی نہیں ہے ۔اس نے بھی چھپا لیا تھا ۔بس آنکھوں سے نکلتا پانی کچھ بے اختیار سا ہوا تھا ۔

"تو پھر مسئله کیا ہے ۔میں آپ کے لئے کوئی نہیں ہوں تو مت روکیں مجھے ۔جہانگیر مراد کی بیٹی ہی ہوں نا فقط آپ کے لئے تو جانے دیں مجھے ۔یہاں سے نکل کر جیوں یا مروں آپ کو پرواہ نہیں ہونی چاہیے ۔ویسے ایک بات بتاؤں آپ بے فکر رہیں ۔آپ کی اس کریہہ صورت کو دیکھنے کے بعد خود کشی نہیں کروں گی میں ۔نہ ہی ایک کونے میں بیٹھ کر جو ہوا اس پر صبر کر لوں گی ۔میں ظالم نہیں ہوں تو مظلوم بھی نہیں بنوں گی ۔مجھے کمزور مت سمجھیے گا حیدر صاحب ۔میں واپس آؤں گی اور آپ سے اپنے ساتھ کی زيادتی کا حساب بھی مانگوں گی اور آپ کو حساب دیناہو گا ۔"تندہی سے ایک ایک لفظ پر زور دیتی کہہ کر وہ ایک جھٹکے سے مڑی ، آگے بڑھتے اب وہ مین گیٹ کھول رہی تھی ۔وہ سن سا وہیں کھڑا اسے باہر نکلتا دیکھتا رہا تھا ۔دماغ سنسنا رہا تھا ۔بہت سارے احساسات ایک ساتھ اعصاب پر حاوی ہوتے انہیں بوجهل کرنے لگے تھے ۔جی میں آیا لعنت بھیجے سب پر اور واپس اندر کی جانب بڑھ جائے ۔اور اس نے ایسا کرنا بھی چاہا تھا ۔واپس مڑا ،دو قدم لئے مگر تیسرا اٹھنے سے انکاری ہو گیا تھا ۔ایک اور سیاہ رات ،ایک اور ٹوٹا ،کہیں اندیشوں میں گھرا دل ۔کچھ یاد آیا تھا ۔آنکھیں جل سی اٹھی تھیں ۔وہ برا تھا مگر اتنا کٹھور نہیں بن پایا تھا ۔تیزی سے اندر کی جانب بھاگا ۔کچھ دیر بعد باہر آیا تو ہاتھ میں گاڑی کی چابی تھی ۔چوکیدار کواٹرسے آتا دکھائی دے رہا تھا ۔

"شفیق گیٹ کھولو ۔"گاڑی میں بیٹھتے وہ ذرا تیز آواز میں بولا تھا ۔

گاڑی باہر روڈ پر نکالتے ٹرن لینے سے پہلے اس نے متلاشی نظروں سے دونوں طرف دیکھا تھا اور وہ اسے آخری کونے میں موڑ مڑتے نظر آ گئی تھی ۔گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھی ،صلہ کے بالکل پاس ٹائر زور سے چرچرائے تھے ۔وہ اپنے ہی دھیان میں بار بار گیلا ہوتا چہرہ صاف کرتی آگے بڑھ رہی تھی چونکے بنا نہ رہ سکی ۔دل میں کہیں خوف نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا ۔دن کے وقت اکیلے سفر کرنا اور بات تھی رات کے پہر تن تنہا کسی ٹیکسی میں سوار ہونے کا سوچ کر ہی اسے ہول اٹھنے لگے تھے ۔بنا سوچے سمجھے وہ گھر سے نکل تو آئی تھی مگر اب اسکے اوسان خطا ہونے لگے تھے ۔ابھی وہ جہانگیر کو کال کرنے کا سوچ ہی رہی تھی جب پاس ایک گاڑی آ کر رکی تھی اور اسکی جان حلق میں آ ہی گئی تھی ۔

کھڑکی کا شیشہ نیچے ہوا تھا اور جو چہرہ نظر آیا تھا اسے دیکھ کر اسکی رکی ہوئی سانس جیسے بحال ہوئی تھی ۔

"گاڑی میں بیٹھو میں چھوڑ آتا ہوں ۔"بنا اسکی طرف دیکھے سامنے نظریں گاڑھے وہ آواز میں سپاٹ پن لئے ہوئے تھا ۔صلہ نے تھوک نگل کر اپنا خشک ہوتا گلہ تر کیا ۔

"اسکی ضرورت ۔۔۔"

"تم بیٹھتی ہو یا میں خود باہر آؤں ۔"ایک کٹیلی نگاہ اسکی طرف کرتے وہ چھبتی آواز میں بولا تو صلہ کے باقی کے الفاظ منہ کے اندر ہی دم توڑ گئے ۔ہلکی سی لرزش لئے ہاتھ کے ساتھ اس نے دروازہ کھولا اور چپ چاپ کھڑکی کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی ۔گاڑی ایک بار پھر سے چل پڑی تھی ۔گھمبیر ،بوجهل سی خاموشی تمام راستے گونجتی رہی تھی ۔نہ وہ کچھ بولا تھا نہ صلہ مزید کچھ کہنے کی روادار تھی ۔اپنی اپنی سوچوں میں غلطاں وہ سفر کب تمام ہوا پتہ بھی نہ چلا تھا ۔گاڑی ایک جھٹکے سے اسکے گھر کے سامنے آ کر رکی تھی ۔صلہ نے چونک کر جھکا سر اٹھایا تھا ۔سامنے گیٹ کے لیمپ روشن تھے ۔نگاہ غیر ارادی طور پر اسکی جانب سفر کر گئی تھی جو رخ موڑے دوسری طرف کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا ۔وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی ۔برق رفتاری سے دروازہ کھولتی وہ باہر نکلی تھی ۔ایک زور دار آواز سے دروازہ واپس بند کیا تھا اور آگے کی جانب بڑھ گئی ۔حیدر نے ایک آخری نگاہ اسے دور جاتے دیکھا تھا آنکھوں میں تیرتی سرد مہری میں کوئی آگ کا بگولا سا آ کر کوندا تھا اور اگلے ہی لمحے بجھ کر ٹھنڈا ہو گیا تھا ۔

جس لمحے گیٹ کھلا تھا اسی پل گاڑی زن سے اسکے پاس سے گزرتی ہوا سے باتیں کرتی آگے بڑھ گئی تھی ۔صلہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا ۔وہ آخری ملاقات بنا الوداع کے ادھوری سی ہی سہی  مکمل ہوئی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

جہانگیر مراد اسے اس وقت گیٹ پر کھڑا دیکھ متفکر سے ادھر ادھر دیکھنے لگے تھے ۔شام کی اہانت بھری سبکی پل میں ذہن سے محو ہوئی تھی ۔

"صلہ بیٹا تم اس وقت یہاں ؟حیدر کہاں ہے ؟"اسے کہنی كترا کر اندر داخل ہوتے دیکھ اک مو ہوم سی امید پر انہوں نے ایک اور نگاہ باہر دوڑائی تھی مگر وہ ساتھ ہوتا تو دکھائی دیتا ۔

انکی تعجب بھری پریشان آواز کو نظر انداز کرتی وہ چپ چاپ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی ۔اسکے پیچھے دروازہ بند کرنے اور اندر آنے تک جہانگیر مراد کو اندیشوں کے کہیں ناگ ڈس چکے تھے ۔فکروں کا جال سا تھا جو چند منٹوں میں ہی انکے چہرے کو اور بھی بوڑھا کرنے لگا تھا ۔

اندر لاؤنج میں وہ بیگ ساتھ صو فے پر رکھے عجیب سے انداز میں اکڑو حالت میں بیٹھی تھی ۔باہر اندھیرے میں اسکا چہرہ ٹھیک سے نظر نہیں آیا تھا اب روشنی میں جو حال وہ بیان کر رہا تھا اس نے انکے دل کو تشویش کا مرکز بنا دیا تھا ۔

"کیا ہوا ہے صلہ ۔اتنی رات گئے کیوں آئی ہو وہ بھی اس طرح اکیلی ؟"اسکے ساتھ بیٹھتے وہ بے چین سے تھے ۔

صلہ نے اپنی سرخ پڑتی آنکھیں ان کے چہرے پر مرکوز کرتے ایک زكام زدہ سی سانس اندر کھینچی تھی ۔پھر انکا ہاتھ آہستگی سے اٹھا کر اپنے سر پر رکھا تھا ۔

"قسم کھائیں میری میں جو پوچھوں گی سچ سچ بتائیں گے ۔بنا کسی جھوٹ کی ذرا برابر ملاوٹ کے ۔"اسکا انداز ایسا تھا کہ ایک پل کے لئے منہ کھولے جہانگیر بھی بھونچکا کر رہ گئے تھے ۔

"صلہ ۔۔۔"

"قسم کھائیں پاپا ۔"قطعی پن لئے وہ اب کی بار تیز آواز میں بولی تھی تو آواز گلوگیر سی تھی ۔صورت حال کو سمجھنے کی کوشش میں وہ پریشان سے سر ہلا گئے ۔

"زینب ماما کا بیٹا ہمارا گھر چھوڑ کر کیوں گیا تھا پاپا ؟"

جہانگیر مراد کا ہاتھ اسکے سر پر سے ہٹتا چلا گیا تھا ۔دنگ نظروں سے اسے دیکھتے وہ حیرت کا مجسمہ بن گئے تھے ۔صلہ کا سوال غیر متوقع تھا تو انداز کھٹکنے والا تھا ۔انہوں نے بے اختیار نظریں چرائی تھیں ۔

"تم کیوں ایسے پوچھ رہی ہو ۔اسکا ذکر کہاں سے آ گیا ؟"چور نظروں سے اسے دیکھتے انہوں نے اپنی شہ رگ کو چھوا تھا ۔چہرے کا رنگ فق ہوا تھا ۔

"آپ نے میری قسم کھائی ہے آپ مجھے سب سچ سچ بتائیں گے پاپا ۔اور مجھے سننا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا جو حیدر آدھی رات کو گھر چھوڑ کر بھاگے تھے ۔آپ نے کیا کیا تھا انکے ساتھ ؟"باوجود کوشش کے وہ اپنے لہجے کی تلخی پر قابو نہیں رکھ پائی تھی ۔باپ کا نظریں چرانا اسکے دل کو اور بھی بری طرح گھائل کرنے لگا تھا ۔اور جہانگیر کی سوئی حیدر کے نام پر اٹکی تھی ۔بھلا اسکا یہاں کیا ذکر ؟

"تم نے ابھی حیدر کا نام کیوں لیا ؟"بہت سے خدشے تھے جو حقیقت کا روپ دھارنے لگے تھے مگر وہ جھٹلانے پر بضد تھے ۔آنکھوں میں خوف و ہراس نے اپنی جگہ بنائی تھی ۔

"کیوں کہ حیدر ہی زینب ماما کے بیٹے ہیں ۔"اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اسکی آواز گیلی گیلی سی تھی ۔جہانگیر کا ٹھٹکنا لازم تھا ۔چہرے کی رنگت زردی مائل ہوتی چلی گئی ۔پھٹی آنکھوں میں بے یقینی ہلکورے لینے لگی تھی ۔۔ 

"حیدر نے خود کہا تم سے ؟"کتنی دیر بعد وہ بولنے کے قابل ہوئے تو آواز کپكپا سی گئی تھی ۔صلہ نے دھیمے سے سر کو ہاں میں جنبش دے ڈالی تھی ۔اور جہانگیر مراد کا دماغ بھگ سے اڑتا سائیں سائیں کرنے لگا تھا ۔کبھی یوں بھی ہو گا ایسا تو انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کجا کہ ایسا ہو جانا ۔بھلا وہ چھوٹا سا لڑکا کیسے اتنے سالوں بعد یوں آ سکتا تھا جس نے ایک بار اس گھر کی دہلیز پار کرنے کے بعد کبھی اپنی ماں تک سے رابطہ نہیں رکھا تھا ۔

"وہ تمہارے ساتھ ایسے کیسے کر سکتا ہے ؟"خود کلامی میں دانت پیس کر کہتے انکا لہجہ غصیلا ہو گیا تھا ۔

"آپ اسکے ساتھ ایسا کیسے کر گئے پاپا ؟وہ ایک بچہ تھا ۔اسکا باپ مرا تھا ۔اسکی ماں نے آپ کی بیٹی کو اپنی بیٹی مان لیا تھا تو تھوڑا سا ظرف آپ بھی بڑا کر لیتے ۔"صلہ نے انکی بات سنی ان سنی کر دی تھی ۔وہ دهیمی آواز میں دکھ سے کہہ رہی تھی ۔آنکھیں پھر سے بہنے لگی تھیں ۔اتنا رونے کے بعد بھی ہر بار نئے سرے سے رونا آ رہا تھا ۔دل نئے سرے سے دکھتا تھا ۔جہانگیر مراد نے بے بسی سے بیٹی کو دیکھا تھا ۔

"وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔"کہتے ہوئے انکا انداز کس قدر کھوکھلا تھا کہ انہیں خود بھی اپنی کہی بات پر یقین کرنا مشکل لگا تھا ۔صلہ نے زور سے سر نفی میں ہلایا ۔

"جھوٹے یوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے پاپا ۔وہ یوں ڈنکے کی چوٹ پر سب کر نہیں گزرتے ۔حیدر کا لفظ لفظ سچا تھا میرے دل نے تبھی گواہی دے دی تھی مگر بیٹی کا مان تھا جو چینخ چینخ کر واویلا کر رہا تھا اسکے سپر ہیرو اس کے پاپا کسی بچے کے ساتھ کم از کم ایسا نہیں کر سکتے ۔نہیں برداشت ہو رہا تھا انکا اپنے گھر میں وجود تو سیدھا سیدھا بھیج دیتے انہیں واپس ۔یوں ذہنی اذیت دینے کی کیا ضرورت تھی ۔"وہ انکی طرف دیکھ نہیں رہی تھی ۔انہیں نظریں چراتا دیکھنا ،انکا كتراتا انداز اور متغیر پسینے سے تر چہرہ دیکھنا آسان تھا بھی کب ؟مگر وہ گلہ کر رہی تھی ۔اپنے لئے نہیں ۔حیدر کے لئے ۔

جہانگیر کے کندھے جھک سے گئے تھے ۔بیٹی کی نگاہوں میں گرتا اپنا بت پاش پاش ہوتا دیکھنا کرب آمیز تھا اور آج وہ اس تکلیف سے بھی گزر گئے تھے ۔

"میں تمہیں اس سے بچانا چاہتا تھا بیٹا ۔وہ ہمارے گھر رہتا تو تمہارے لئے اچھا نہیں ہوتا ۔مجھے وہ شروع دن سے پسند نہیں آیا تھا ۔وہ غصہ کرتا تھا ،چیزیں توڑتا تھا ،بدتمیزی پر اتر آتا تھا ۔مجھے لگا وہ تمہیں نقصان پہنچائے گا ۔نہیں تو اسکا ایسا رویہ تمہیں متاثر کرے گا اور تمہاری عادتیں بھی خراب ہونے لگے گی ۔میں تو صرف تمہیں محفوظ رکھنا چاہتا تھا صلہ ۔اس دن اس نے تمہیں بیٹ مارا تھا یہاں آنکھ کے قریب ماتھے پر ۔اتنا خون بہا تھا تمہارا میں ڈر گیا تھا ۔مجھے اس دن اس پر شدید غصہ آیا تھا اور غصے میں میں نے اسے نیچے بیسمنٹ میں بند کر دیا ۔پولیس سے صرف ڈرایا تھا میرا مقصد قطعی طور پر اسے پولیس کے حوالے کرنا نہیں تھا بس میں چاہتا تھا آئندہ وہ ایسا کچھ نہ کرے تو صرف ایک سزا دینا چاہی تھی ۔بیس منٹ کا دروازہ بھی کچھ دیر بعد میں نے خود کھولا تھا تاکہ وہ باہر نکل آئے مگر وہ بھاگ جائے گا یہ مجھے گمان تک نہیں تھا ۔میں نے اسے بھاگتے دیکھا تھا مگر روکا نہیں کیوں کہ مجھے لگا وہ واپس آ جائے گا ۔اتنی رات کو اکیلا کہیں کیسے جا سکتا ہے مگر وہ تو سچ میں چلا گیا ۔بخدا صلہ میں اسکی تلاش میں اسکے پیچھے بھی گیا تھا مگر وہ مجھے نہیں ملا ۔کہیں گھنٹے میں نے اسے سنسان سڑکوں پر ڈھونڈا تھا ۔واپس آ کر میں نے زینب کو بتایا اس نے اسکے دادا کو کال کی تو انہوں نے بتایا وہ انکے پاس پہنچ گیا ہے ۔تب جا کر مجھے بھی سکوں آیا تھا ۔میں مانتا ہوں بیٹا میں اس کے لئے اسکا باپ نہیں بن سکا ۔بن بھی نہیں سکتا تھا ۔اتنا ظرف واقع ہی میں مجھ میں نہیں تھا مگر میں نے کبھی اسکا برا نہیں سوچا تھا ۔اسکے بعد اس نے خود کہا تھا وہ اپنے دادا کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور وہ انکے ساتھ بیرون ملک چلا گیا ۔دوبارہ کبھی زینب سے بھی نہیں ملا ۔میں بھی کہیں نہ کہیں خود غرض تھا مطمئین ہو گیا اچھا ہے جان چھوٹ گئی ۔مگر وہ یوں واپس آ ئے گا اور تمہارے ساتھ یہ سب کرے گا ۔اسے کوئی بدلا لینا تھا تو مجھ سے لیتا تمہیں کیوں استعمال کیا ۔"

اولاد کی تکلیف بڑے بڑوں کے کس بل نکال دیتی ہے ۔انکی بھی بس ہو گئی تھی ۔صلہ کی آنکھوں میں تیرتی اپنے لئے بے اعتباری کو وہ مزید جھوٹ بول کر بڑھانا نہیں چاہتے تھے ۔تبھی جھکے سر اور شکستہ لہجے میں اعتراف کرتے چلے گئے ۔حیدر کی حقیقت منکشف ہونے پر لگنے والا شاک بڑا تھا تو صلہ کا سوچ کر دل ہول رہا تھا ۔اب اسکا کیا ہو گا ؟نجانے اس نے انکی معصوم بیٹی کے ساتھ کیا کیا تھا ؟

"آپ مجھے بچانا چاہتے تھے پاپا ۔دیکھیں کیسے بچایا ہے آپ نے مجھے ؟آپ کی وجہ سے میری زندگی مذاق بن کر رہ گئی ہے ۔اب میں کیا کروں گی پاپا ؟حیدر کا سامنا بھی کیسے کروں گی ۔مجھے لگتا ہے اب سب ختم ہو جائے گا ۔وہ مجھے چھوڑ دے گا ۔اسکا بدلا تو یونہی پورا ہو گا ۔ساری زندگی آپ مجھے یوں ہی اجڑا ہوا دیکھیں اور میری تکلیف محسوس کریں یہی تو چاہتا ہے وہ ۔دیکھیں پاپا بچا لیا آپ نے مجھے اس سے ۔"اپنے ماتھے پر ہتھیلی رکھتی وہ ضبط کھو کر اس بار روئی تھی جہانگیر مراد نے اسکے نڈھال ہوتے وجود کو اپنی آغوش میں سنبھالا دینے کی کوشش کی تھی جو اب با آواز رو رہی تھی ۔

"تم چپ کرو صلہ میں خود اس سے بات کروں گا ۔وہ میری غلطی کی سزا تمہیں مت دے ۔"انکی اپنی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں ۔وہ انکی وہ بیٹی تھی جسے کبھی کانٹا تک چھبنے نہ دیا تھا اور اب انکی ایک غلطی کی وجہ سے اسکا دامن کانٹوں سے بھر گیا تھا ۔

وہ وہیں انکے سینے سے لگی روتی رہی تھی اور وہ نخیف سی آواز میں اسے دلاسے دیتے رہے تھے ۔رات باہر اپنی سیاہی کے ساتھ مغموم سی بیتتی جا رہی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . .

اگلی صبح کا انتظار جہانگیر مراد نے بڑی جان کنی سے کیا تھا ۔اندھیر منہ وہ اسکے در پر موجود تھے ۔چوکیدار نے انہیں دیکھ کر دروازہ نہیں کھولا تھا بلکہ اندر اطلاع دینے گیا تھا ۔تو سارے لحاظ سارے بھرم گویا کھو چکے تھے ۔

کچھ دیر بعد چوکیدار نے آ کر گیٹ کھولا ،انہیں ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔

"صاحب کہہ رہے ہیں آپ یہاں انتظار کریں وہ آتے ہیں تھوڑی دیر تک ۔"

کہہ کر وہ واپس چلا گیا تھا اور وہ صبر کرتے وہیں بیٹھ گئے ۔اتنے بے بس وہ کبھی نہ ہوتے اگر معاملہ صلہ کا نہ ہوتا ۔مگر فلحال وہ صرف تحمل سے کام ہی لے سکتے تھے ۔

انہیں وہاں بیٹھے گھنٹہ ہونے کو آیا تھا مگر وہ ابھی تک نہیں آیا تھا ۔اندر ہی اندر اب غصہ پنپنے لگا تھا جس کے باعث انکا چہرہ بھی سرخ پڑنے لگا تھا ۔اور پھر وہ اندر داخل ہوا تھا ۔انہیں دیکھ کر فاتحانہ چال چلتا گہرے تبسم کے ساتھ وہ آگے بڑھا تھا ۔

"لگتا ہے رات بھی مشکل سے کاٹی ہے سسر جی نے ۔کہیے کیسے آنا ہوا اتنی صبح صبح ؟"انکے دائیں طرف رکھے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جماتے بیٹھتا وہ تمسخر آمیز نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔

جہانگیر مراد نے اپنے اندر جلتے الاؤ کو بمشکل ضبط کیا تھا ۔صلہ کے ساتھ جو اس نے کیا تھا اور جس طرح انہیں دھوکہ دیا تھا اس پر انہیں شدید غصہ تھا مگر اس وقت وہ مفاہمتی انداز اپنائے سب کچھ پس پشت ڈال گئے تھے ۔

"میں بات بڑھانے نہیں آیا ۔تم نے یہ سب کیوں کیا ،کیسے کیا یہ بھی نہیں پوچھوں گا ۔دشمنی مجھ سے تھی تو بدلا بھی مجھ سے لیتے صلہ کا استعمال نہ کرتے یہ گلہ ضرور ہے مگر میں یہ بھی نہیں کروں گا ۔صرف ایک درخواست ہے تم سے میرے سے ہوئی کوتاہیوں کی سزا یوں میری بیٹی کو مت دو ۔وہ معصوم ہے اسکی کوئی غلطی نہیں ۔تم کہو گے تو میں تم سے معافی مانگنے کو بھی تیار ہوں مگر یہ کھیل ختم کر دو ۔"اسکے سامنے اعتراف کرنا جان جوکھوں کا کام تھا ۔اپنی انا کو روندنا آسان نہیں تھا ۔مگر صلہ کے لئے وہ یہ بھی کر گئے تھے ۔صوفے کی ہتھی پر کہنی جمائے وہ انگلی سے ٹھوڑی کو رگڑتا محظوظ نظروں سے انہیں دیکھتا اب بھی مسکرا رہا تھا ۔تمسخر میں ڈوبی مسکراہٹ ۔

"اچھا لگ رہا ہے آپکا غرور سے تنا سر جھکا دیکھ کر ۔صلہ کا پتہ کھیلنے کا میرا فیصلہ کس قدر درست تھا اب مجھے اس کا سو فیصد یقین ہو گیا ہے ۔اور یہ جو سکون مجھے آپ کو یوں ہارا ہوا دیکھ کر ہو رہا ہے نا لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں میں ۔آہ "ایک گہرا سکون آمیز سانس اندر کھینچتا وہ سر پیچھے کی جانب کیے مسرور سا نظر آ رہا تھا ۔

جہانگیر مراد نے ہونٹ بھینچ کر اسکی یہ بکواس بھی سن لی تھی ۔

"چلیں کچھ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔تاکہ آپ کو جو اپنا آپ بہت معصوم و مظلوم اور میں بڑا کوئی ولن نظر آ رہا ہوں یہ سنیریو تھوڑا بدلے ۔اس طرح تو مجھے خود اپنا آپ بڑا شیطان سا محسوس ہو رہا ہے ۔تو جہانگیر مراد صاحب ۔"وہ ٹیک چھوڑتا ،ٹانگ نیچے کرتے آگے کی جانب ہو کر بیٹھا تھا ۔

"یاد ہے کس طرح آپ ایک بچے کو ٹارچر کیا کرتے تھے ۔میرے باپ کا حوالہ دے کر ۔میرا باپ ایک قاتل ہے یہ کتنی بار آپ نے بتایا مجھے ۔گنتی تو مجھے بھی یاد نہیں مگر ہر بار جب آپ آنکھوں میں طنز لئے یہ کہتے تھے تو بڑی تکلیف ہوتی تھی ۔ہوگا وہ قاتل مگر دنیا کے لئے میرے لئے تو وہ صرف میرا باپ تھا جو مجھ سے بہت محبت کرتا تھا ۔"شروع میں اسکی آواز جتنی دھیمی اور پر سکون تھی ۔آخر میں اتنی ہی تیز اور درشت ہوتی چلی گئی تھی ۔جہانگیر مراد یک ٹک اسکا تلخی میں ڈوبا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔

"میری ماں آپ کی بیٹی کی ماں تو بن گئی مگر آپ میرے باپ نہیں بن سکے ۔ٹھیک ہے آپ نہیں بن سکتے تھے آف کورس انسانیت کا اتنا اعلی درجہ کہاں ملا تھا آپ کو جو یہ کر پاتے ۔مگر مجھے انسان تو سمجھ سکتے تھے نا آپ ۔میرے احساسات کی پرواہ تو کر ہی سکتے تھے لیکن نہیں ۔۔۔۔ آپ بے حسی پر اتر آئے ۔مجھے جان بوجھ کر طیش دلاتے غصے دلاتے تاکہ میں بدتمیزی کروں اور ماما مجھے ڈانٹیں ۔اور آپ کو بھی موقع مل جائے میرے خلاف بولنے کا ۔یاد ہے کیسے صلہ کے پاس میرا سایا بھی برداشت نہیں ہوتا تھا آپ سے ۔اب میرا کالا سایا اس پر ہمیشہ کے لئے رہے گا اور آپ کچھ نہیں کر سکیں گے ۔چہ چہ چہ ۔۔۔۔آپ نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں ہو گا ۔اس وقت مجھ سے دشمنی پالتے آپ بھول گئے تھے میں چھوٹا ہوں ،کمزور ہوں آپکا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔مگر آپ یہ بھی بھول گئے کہ میں نے ہمیشہ کمزور نہیں رہنا تھا ۔تو دیکھیں آج پانسا پلٹ گیا ہے ۔کل میرے باپ کا طعنہ دیتے تھے آپ مجھے آج میں نے آپ کی بیٹی کے سامنے آپ کا امیج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خراب کر دیا ۔اب ساری زندگی آپ اس سے نظریں چراتے پھریں گے اور یہ سوچ مجھے کتنا ریلیف دے رہی ہے آئی سوئیر میں آپ کو بتا نہیں سکتا ۔"

جہانگیر مراد ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔مزید اسکی گوہر فشانی انکے لئے برداشت سے باہر تھی ۔

"بڑے بزدل نکلے تم اپنے نام کی ہی لاج رکھی ہوتی ۔اتنے ہی طاقتور ہو گئے تھے تو مجھ سے مقابلہ کرتے ۔صلہ کو کیوں درمیان میں لائے ۔ایک عورت کا سہارا لے کر کون سی مردانگی دکھائی تم نے ۔"وہ بھی اب غصے سے ہانپتے پھنکارے تھے ۔حیدر نے یونہی بیٹھے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا ۔

"بزدل نہیں ہوں میں ۔آپ سے بدلا لینا تو بڑا آسان تھا اگر آپ کو ٹارگٹ کرنا ہوتا تو یہ تو کوئی مشکل کام ہی نہیں تھا ۔اتنی لمبی چوڑی پلاننگ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ۔پاکستان میں بندہ ٹپکانا کون سا مشکل کام ہے ۔یا کسی کی پراپرٹی کو نذر آتش کرکے اسے بیچ سڑک پر لے آنا ۔مگر اس سے کیا ہوتا ۔مر جاتے آپ تو میری تکلیف کا ازالہ کیسے ہوتا ۔میں بھی تو مرا نہیں تھا زندہ رہا تھا ۔اپنے سبھی خوف ،تکلیف اور اذیت کے ساتھ ۔تو آپکا زندہ رہنا بھی ضروری تھا ۔رہا سوال صلہ کا تو میں آپ کو احساس کروانا چاہتا تھا جو دوسروں کی اولاد کے ساتھ برا کرتے ہیں ۔ایک وقت آتا ہے جب انکی اپنی اولاد انکے کیے کا قرض سود سمیت چکاتی ہے ۔میں سود کا حامی نہیں ہوں اسی لئے صرف قرض ہی وصولا ہے سود نہیں ۔اور رہی بات مردانگی کی جہانگیر صاحب "وہ کمال اطمینان سے کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔چھبتی آنکھیں ابھی بھی انکے لال بھبھوکا چہرے پر گڑھی ہوئی تھیں ۔

"تو مردانگی کا یہ لیول بھی تو آپ ہی کا سیٹ کیا ہوا ہے ۔میں نے تو صرف آپ کے لیول پر آ کر آپکا ہی کھیل کھیلا ہے ۔آپ نے بھی تو ایک بچے سے دشمنی پال لی تھی ۔میں نے تو پھر آپ کی بالغ بیٹی کا سہارا لیا ہے ۔"اسکی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ جہانگیر بپھرے ہوئے شیر کی مانند اس پر جھپٹے ،اسکے گریبان کو اپنے ہاتھوں میں دبوچے وہ غرائے تھے ۔

"بکواس بند کرو تم ذلیل انسان ۔میں نے ٹھیک کیا تھا تمہارے ساتھ ۔تم تھے ہی اسی قابل ۔دکھا دی نا اپنی اوقات ۔خبردار جو اب میری بیٹی کا نام بھی تمہاری زبان پر آیا تو ۔میں دیکھ لوں گا تمہیں ۔"اسے جهنجھوڑنے کی تگ و دو میں انکا اپنا سانس پھول گیا تھا ۔مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تھا ۔اور نہ ہی اسکے چہرے پر پھیلے سکون میں کوئی تغیر آیا تھا ۔

"مجھے ترس آ رہا ہے آپ پر ۔آپ ایک بار پھر سے بھول رہے ہیں کہ وقت بدل چکا ہے ۔آپ جوان سے بوڑھے ہو گئے ہیں اور میں اب وہ پہلے والا دس گیارہ سال کا بچہ نہیں رہا ۔"انکے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹاتے اسکی آواز میں چٹانوں کو مات دیتی سختی تھی ۔آنکھوں سے آگ سی لپکنے لگی تھی ۔ایک جھٹکے سے انکے ہاتھ پیچھے ہٹائے تو وہ ذرا بھر لڑکھڑا کر پیچھے ہوئے تھے ۔

اپنی بے بسی کا احساس ان کے چہرے پر سیاہی بن کر پھیلنے لگا تھا ۔

"شفیق ۔۔۔۔شفیق ۔۔۔"کٹیلی نظریں ان پر جمائے ہوئے اس نے بلند آواز میں چوکیدار کو پكارا تھا ۔کچھ ہی دیر میں وہ بھاگتا ہوا وہاں آ موجود تھا ۔

"انہیں باہر کا راستہ دکھاؤ ۔بھول گئے ہیں شاید ۔اور آئندہ کوئی بھی ایرا غیرا آ جائے تو منہ اٹھا کر اسے ڈرائنگ روم میں مت بٹھا دینا ۔"کرختگی سے کہتے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا تھا اور جہانگیر کی زبان جیسے تالو سے الگ ہونے سے انکاری ہو گئی تھی ۔

"چلیے صاحب ۔آپ کو باہر تک چھوڑ دوں ۔"کہتے ہوئے اسکی نظریں جھک سی گئی تھیں ۔شفیق خود حیدر کے رویے پر انگشت بدیداں تھا ۔مگر وہ صاحب لوگ تھے اسے کیا غرض ۔وہ تو حکم کی تعمیل کرنا جانتا تھا ۔مرے ہوئے قدموں سے کسی لٹے ہوئے جواری کی طرح جہانگیر مراد اس گھر سے اپنی ہر امید کھو کر نکلے تھے ۔

دو دن بعد شام کے وقت شفیق جہانگیر مراد کے گھر آیا تھا ۔باہر پورج میں کھڑا وہ آنکھیں جھکا کر صلہ سے کہہ رہا تھا ۔

"صاحب نے کہا تھا انکے جانے کے بعد آپکا سامان آپ تک پہنچا دوں ۔"پاس پڑے دو بڑے سوٹ کیس صلہ کا منہ چڑھا رہے تھے مگر اسکی ساری توجہ تو شفیق کے الفاظ نے کھینچ لی تھی ۔

"جانے کے بعد ؟"وہ زیر لب جیسے بڑبڑائی تھی ۔

"آج صبح ہی صاحب چلے گئے اپنے ملک واپس ۔میں اور سمیرا بھی جا رہے ہیں اور گھر بھی آج ہی خالی کرنا تھا مالک مکان صبح دوپہر کو آیا تھا ۔"وہ نجانے کیا کیا تفصیل بتا رہا تھا مگر صلہ پہلے جملے کے آگے کچھ سن ہی کہاں پائی تھی ۔تو وہ اتنی آسانی سے سب ختم کر کے واپس بھی ہو لیا تھا ۔بنا کوئی بات کیے ،بنا اسے کچھ بتائے ۔وہ سچ کہتا تھا صلہ اور حیدر کی کوئی کہانی نہیں تھی ۔ایک افسانہ تھا شاید اور افسانے مختصر ہی ہوا کرتے ہیں ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . .

اس دن پارک میں رقيه خالہ کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی ۔درد بہت زیادہ تھا کہ وہ چلنے سے قاصر تھیں ۔مرتضیٰ انکے لاکھ اصرار پر بھی انہیں ٹیکسی میں گھر بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوا تھا ۔انہیں سہارا دے کر پارکنگ تک لاتے وہ اپنی گاڑی میں انہیں پہلے قریبی كلینک لے کر گیا تھا ۔چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے کہا تھا پاؤں مڑنے کی وجہ سے موچ آئی ہے دو تین دن تک ٹھیک ہو جائے گی ۔وہاں سے ہو کر اسی نے انہیں گھر تک بھی چھوڑا تھا بلکہ فلیٹ کے اندر تک چھوڑ کر گیا تھا ۔صلہ ابھی تک واپس نہیں آئی تھی ۔خالہ کے اصرار پر بھی وہ پانچ منٹ سے زیادہ رکا نہیں تھا ۔شہیر نے آداب میزبانی نبھاتے اسے جوس لا کر دیا تھا ۔جسے ختم کرتے ہی وہ واپس چلا گیا تھا ۔صلہ کچھ دیر بعد آفس سے آئی تو پہلے تو خالہ کا پاؤں دیکھ کر پریشان ہوئی مگر جیسے ہی مرتضیٰ کے آنے کا سنا تو اسکا پارہ ہائی ہو گیا تھا  ۔

 "حد کرتی ہیں خالہ آپ بھی ۔اسے گھر تک لے آئیں آپ ۔شہیر تو بچہ ہے آپ ہی خیال کرتیں ۔ہر ایرا غیرا یوں منہ اٹھا کر ہمارے گھر آیا کرے گا اب کیا ؟"انکے بیڈ پر انکی ٹانگوں کی طرف بیٹھی وہ گرم پٹی خالہ کے پاؤں پر لپیٹتے ساتھ برابر تاسف سے سر جھٹکتی خفگی سے بولے بھی جا رہی تھی ۔خالہ چہرے پر تکلیف کے آثار لئے چپ چاپ آنکھیں موندے پڑی تھیں اور شہیر ماں کے پیچھے کھڑا خاموشی سے سن رہا تھا ۔اس وقت کچھ کہنا آ بیل مجھے مار کے مترادف تھا جو وہ بالکل نہیں چاہتا تھا اس لئے چپ میں ہی عافیت جانی ۔

"مجھے کال کر لی ہوتی ۔"وہ ایک دفعہ پھر سے بولنے لگی تو اس بار خالہ نے کراہتے ہوئے اپنے ہاتھ اسکے سامنے باندھ کر اسکی بات درمیان میں کاٹ ڈالی تھی ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?