Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 13

1 Posts
1 Users
0 Reactions
191 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

اور ایک میری بچی ہے ۔ارے یہی اپنے شہیر کی ماں ۔مانو اتنی بھولی کہ دنیا کی چالاکیاں مکاریاں ذرا جو چھو کر گزری ہوں ۔"اپنی بات پر زور دیتے وہ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر چٹکی بھرتے اسے دکھا رہی تھیں ۔مرتضیٰ گومگوں سی کیفیت میں انکی طرف خالی خالی پریشان کن نظروں سے بے چارگی بھرے انداز میں دیکھ رہا تھا ۔خالہ نے کن اکھیوں سے شہیر کی جانب دیکھا تھا جو كلر پینسلز میں الجھا ہوا تھا پھر سرگوشی نما آواز میں کہا ۔

"مانو جیسے دنیا کی ہوا تک نہ لگی ہو تبھی تو وہ کم بخت مارا اسے دھوکہ دے کر چلتا بنا ۔ارے اسکے شوہر کی بات کر رہی ہوں ۔"اسے نا سمجھی سے اپنی طرف دیکھتے انہوں نے ذرا واضح کیا تو وہ بمشکل اپنا سر ہلاتا پیچھے کی جانب ٹیک لگا گیا تھا ۔دونوں بازو سینے پر باندھ کر اس نے خود کو مزید سننے کے لئے تیار کر لیا تھا کیوں کہ یہ تو طے تھا رقیہ خالہ اسے سب سنانے کی ٹھان  چکی تھیں ۔

"بڑی صبر والی ہے میری بچی ۔چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا دکھ جھیل کر بھی کبھی جو زبان سے شکوہ نکلا ہو ۔اور سگھڑ اتنی کہ میرا گھر یوں شیشے کی طرح چمک رہا ہوتا ہے حالاںکہ جاب بھی کرتی ہے ۔آج کل کمانے والی لڑکیاں کہاں گھر کے کاموں میں ہاتھ ڈالتی ہیں ۔بھئی نخرے ہی ختم نہیں ہوتے مگر میری بچی ہے کہ بس ہر کام میں تاک ۔خوب صورت بھی اتنی کہ کہیں سے ایک بچے کی ماں تو اب بھی نہیں لگتی پڑھی لکھی،ہاتھ میں ذائقہ ایسا کہ بندہ انگلیاں چاٹتا رہ جائے  ،اور مجال ہے جو کبھی اسے غصہ آیا ہو بہت ہی شانت مزاج کی  ۔"خالہ اپنی ہی دھن میں اپنی بچی کی تعریفوں کا پل باندھ رہی تھیں اور اسی پل کے نیچے کھڑا مرتضیٰ بے زاری سے سب بے دھیانی سے سن رہا تھا ۔

"تم سن رہے ہو نا میری بات بیٹا ۔"خالہ کو بھی جیسے اسکی غائب دماغی کا شبہ ہوا تھا ۔

"جی بالکل سن رہا ہوں ۔آپ کی بچی تو واقع ہی بہت اچھی ہوں گی پھر تو ۔"تائیدی انداز میں سر ہلاتے اس نے بھی جھٹ سے کہہ دیا تھا ۔خالہ کی تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی ۔

"ہاں بالکل یہی تو کہہ رہی ہوں میں ۔بندہ شادی کرے تو ایسی لڑکی سے ۔تاکہ بعد کی زندگی سہل گزرے ۔"خالہ نے اس پر سے نظریں ٹھہرا کر ٹھہر ٹھہر کر کہا تھا اور مرتضیٰ کو سچ مچ اپنے گرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دینے لگی تھیں ۔اس بار اس نے کسی قسم کا کوئی ری ایکشن نہ ہی دینے میں اپنی بھلائی جانی تھی ۔مگر خالہ کون سا اثر لینے والی تھیں ۔

"بس اب میری بھی ایک ہی فکر ہے کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر اسے بياه دوں ۔آخر کب تک اکیلے اس بچے کی ذمہ داری اٹھا سکے گی ۔اور میں بھی کب تک ساتھ رہوں گی ۔زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے بیٹا ۔سات سال ہو گئے ہیں ان ماں بیٹے کے لئے میں نے اپنے بچے تک چھوڑ دیے ۔خیر سے دو بیٹے ہیں میرے ایک امریکا ہوتا ہے اور دوسرا یہی کراچی میں ۔بڑا اصرار کرتے ہیں اماں ان دونوں کو بھی ساتھ لے کر آ جائیں مگر اسکی ماں بڑی خود دار ہے کہتی ہے خالہ مجھے کسی پر بوجھ نہیں بننا ۔آپ چلی جائیں کب تک ہماری وجہ سے اپنے بیٹوں سے دور رہیں گی مگر میرا دل نہیں مانتا ان دونوں کو یوں بے آسرا چھوڑ کر چلی جاؤں ۔دنیا کہاں اکیلی عورت کو چین سے جینے دیتی ہے ۔"مغموم سے لہجے میں بولتی اب وہ افسرده سی دکھائی دیتی تھیں ۔

"آپ فکر مت کریں زیادہ ۔سب بہتر ہو گا ۔"مرتضیٰ نے ہمدردی بھرے انداز میں کہا تھا ۔

"ہاں بیٹا بس اسی امید کے سہارے تو چل رہی ہوں ۔خدا ان دونوں ماں بیٹے کے نصیب اچھے کرے ۔میرا شہیر بڑا پیارا ہے اب بڑا ہو رہا ہے تو باپ کی کمی محسوس کرتا ہے ۔بس کوئی اچھا انسان ہی ٹکرے میری بچی سے اس بار ۔جو اس بن باپ کے بچے کو بھی اپنی شفقت اور باپ کا پیار دے سکے ۔"آنکھوں کی نمی دوپٹے سے صاف کرتے وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہی تھیں کہ بمشکل مرتضیٰ سن پا رہا تھا ۔اور ایسا وہ یقیناً شہیر کی وجہ سے کر رہی تھیں ۔

مرتضیٰ نے بنا کچھ کہے اپنی پر سوچ نظریں شہیر پر گاڑھ دی تھیں ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 غصے میں بری طرح کھولتی وہ واپس آئی تھی ۔حیدر اس بار اسے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا نظر آیا تھا ۔گھونٹ گھونٹ آرام سے پانی پیتا ہوا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا جو تلملائی ہوئی رنگت کے ساتھ اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ۔

"سمیرا آپ جائیں کواٹر میں ۔ضرورت پڑی تو بلا لوں گی ۔"پانی کا گلاس لینے کھڑی سمیرا کو بنا دیکھے کہا ۔وہ اگلے ہی پل وہاں سے چل کھڑی ہوئی ۔اسکے جانے کی یقین دہانی کے بعد وہ اسکی طرف مڑی تھی جو اب گلاس ٹیبل پر رکھے صوفے پر پیچھے کی جانب ٹیک لگائے آرام ده حالت میں بیٹھا تھا ۔

"یہ کیا حرکت تھی حیدر ؟"

آنکھوں کے گلابی ہوتے گوشے اسکے ضبط کی گواہی دے رہے تھے ۔اندر ابلتے آنسو اس نے بڑی مشکل سے ہی سہی مگر روک لئے تھے ۔

"کون سی حرکت ؟"سوال کے جواب میں کمال بے نیازی سے سوال کیا گیا تھا ۔صلہ کی برداشت اپنی آخری حد کو چھونے لگی تھی ۔یا تو وہ خود پاگل تھا یا اسے پاگل کرنے پر تلا ہوا تھا ۔

"ابھی ابھی جو آپ نے کیا وہ کیا تھا ؟میرے پاپا سے اس طرح سے بات کیسے کر سکتے ہیں آپ ؟"دبی دبی آواز میں وہ غرائی تھی ۔حیدر کے سکون میں رتی برابر فرق نہیں پڑا تھا ۔بس اک طنز آمیز تبسم تھا جو اسکے ہونٹوں پر آ رکا تھا ۔

"کیوں نہیں کر سکتا ؟تمہارے پاپا کوئی مقدس ہستی ہیں کیا ؟ "ایک بھنو اٹھا کر وہ استہزائیہ انداز میں گویا ہوا تو صلہ کے دماغ کی طنابیں چٹخنے لگی ۔

"حیدر ۔"وہ چلائی تھی ۔

"برا لگا ؟ایسے ہی برا لگتا ہے جب کوئی آپ کے باپ کے بارے میں برے الفاظ کہے تو جی چاہتا ہے سامنے والے کا منہ توڑ دیں ۔تمہیں بھی برا لگا ہو گا نا ۔اور میں چاہتا ہوں یہ بات تم اپنے باپ کو ضرور بتاؤ تاکہ اسے احساس ہو اپنے گھٹیا پن کا ۔"کمال معصومیت اور بھولے پن سے تائیدی انداز میں سر ہلاتے  وہ بول رہا تھا تو آواز میں چہرے کے تاثرات کی نسبت کافور کی مہک رچی بسی تھی ۔

"حیدر بس کر دیں ۔"وہ حلق کے بل پوری شدت سے چلائی تھی ۔

 

"آواز نیچے صلہ جہانگیر ۔عرصہ ہوا اس لب و لہجے کا عادی نہیں رہا میں ۔اب کوئی ذرا بھی اؤنچی ٹون میں بات کرے تو کانوں کو ناگوار گزرتی ہے ۔"بدلے میں سیدھا ہوتا ہاتھ کا اشارہ نیچے کی جانب کرتا وہ اس سے زیادہ بلند آواز میں درشتگی سے کہہ رہا تھا ۔

"اور خود جو آپ کی باتیں دوسروں کے احساسات کو مجروح کرتی ہیں انکا کیا ؟"لاشعوری طور پر اس بار اسکی آواز دھیمی تھی مگر اسکی سختی ہنوز چٹانوں کو مات دے رہی تھی ۔

"اب بہتر ہے ۔گڈ گرل ۔تم پر سختی کرنا مجھے اچھا نہیں لگتا ۔یہ میری اور تمہاری جنگ نہیں ہے ۔تم صرف اس جنگ میں ایک مہرہ ہو ۔اور مہروں کا کام صرف جنگ جیتنے کے لئے استعمال ہونا ہوتا ہے ۔اصل کھیل کھیلنے والے تو کوئی اور ہیں  اس لئے اپنی توانائیاں صرف مت کرو ۔تم اس کا حصہ بھی نہیں ہو اس لئے میں چاہتا ہوں تمہارا نقصان کم سے کم ہو  ۔"کسی اچھے خیر خواہ کی طرح وہ اسے تنبیہ کر رہا تھا ۔چہرے پر کچھ کچھ سختی کے آثار کم ہوئے تھے جیسے وہ نرمی برتنے پر خود کو مجبور کر رہا ہو ۔

صلہ نے گلے میں اٹکتے آنسوؤں کے گولے کو بڑی مشکل سے نگلا تھا ۔ابھی تو آغاز تھا پہلے ہی مرحلے میں ہمت جواب دے جائے گی تو وہ تو بالکل ہی ڈھے جائے گی ۔جو اسے گوارا نہیں تھا ۔

"ٹھیک ہے ۔"اس نے سمجھنے کے سے انداز میں سر کو جنبش دی ۔ذرا سا وقفہ لیا ۔پلکیں جهپکا كر بہت ساری نمی کو اندر ہی اندر جزب کرتے وہ مضبوط نظر آتی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گویا ہوئی ۔

"تو آپ یہ بتا دیں آپ کی اصل جنگ ہے کس کے ساتھ ؟"ایک لمحے کے لئے وہ رکی پھر سر نفی میں ہلایا ۔"لیکن نہیں میرے خیال میں مجھے میرے سوال میں ترمیم کر لینی چاہیے ۔آپ یہ بتائیں کہ آپ کی میرے پاپا سے کیا دشمنی ہے ؟کیا بگاڑا ہے انہوں نے آپکا ؟"بے خوفی سے کہتے اسکی آواز میں ذرا بھر آنسوؤں کی نمی کا شائبہ تک نہیں تھا ۔دل پر جو قیامتیں ٹوٹی سو ٹوٹی ۔چہرہ ہر توڑ پھوڑ کے آثار سے مبرا تھا ۔

حیدر کی آنکھوں میں دھواں سا بھرتا چلا گیا ۔چہرہ چند ساعتوں کے لئے بجھ سا گیا تھا ۔چند لمحوں کا کھیل تھا وہاں کرب کا دھواں سا پھیلا تھا اور پھر سب ختم ہو گیا ۔وہ چہرہ بالکل بے تاثر پڑ گیا تھا ۔کسی مجسمے میں ڈھلا ہوا ،برف کا مجسمه جو بظاہر یخ بستہ ہوتا ہے مگر جلانے کی تاثیر رکھتا ہے ۔

"میرا جو بگڑا ہے نا صلہ جہانگیر اسکی بھرپائی ممکن نہیں ہے ۔ہاں پہلے سوال کا جواب میں ضرور دوں گا ۔میرے پلان کے مطابق تو ابھی کچھ وقت باقی تھا مگر ۔۔۔۔۔خیر کچھ حقیقتیں ابھی بھی واضح ہو جائیں تو برائی نہیں ہے ۔پوچھو صلہ بی بی جو پوچھنا ہے پوچھو ۔میں ہر سوال کا جواب دوں گا ۔"اٹھ کر اسکے سامنے کھڑے ہوتے وہ کٹیلی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ہوئے تھا ۔

صلہ کا دل کسی گہری کھائی میں لمحہ بہ لمحہ گرتا چلا جا رہا تھا ۔اسکا جی چاہ رہا تھا وہ سب چھوڑ کر کہیں بھاگ جائے جہاں بھرم ٹوٹنے کی کرچیاں اسے زخم زخم کرنے سے عاجز رہیں ،جہاں اسکا دل ٹوٹ کر بکھرنے سے بچ جائے ۔

"آپ کون ہیں ؟"دل کی دہائی کو نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔یہ پوچھتے ہوئے اسکی آواز سرسرا سی گئی تھی ۔

وہ اسکے خوف کو پا گیا تھا ۔ایک عجیب چھبتی ہوئی مسکراہٹ ہونٹوں کے کناروں میں کھیلنے لگی تھی ۔گہرا سانس اندر کھینچ کر اس نے سر کو دو بار جھٹکا تھا ۔

"ایک کہانی سناؤں تمہیں صلہ ۔بچپن میں بڑا شوق ہوتا تھا تمہیں کہانیاں سننے کا ۔تم بڑی ہو گئی ہو مگر مجھے لگتا ہے شوق اب بھی باقی ہو گا ۔"اسکے ماتھے پر بنے چاند نما نشان کو چھوتے وہ پر سرار سے لہجے میں دهیمی آنچ لئے کہہ رہا تھا ۔صلہ کا گلہ خشک ہونے لگا تھا ۔

"ایک لڑکا تھا ۔تھوڑا ضدی تھا ۔کچھ بد تمیز بھی تھا ۔اس نے اپنے بہت پیار کرنے والے باپ کو کھویا تھا تو ڈسٹرب تھا ۔ مگر اتنا برا نہیں تھا جتنا وہ تمہارے عظیم باپ کو لگتا تھا ۔تمہارا تنگ دل باپ اس بچے کے لئے محبت تو کیا اپنے دل میں رحم کا جذبہ تک پیدا نہیں کر سکا ۔آتے جاتے وہ بچہ اسکی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتا تھا ۔ان آنکھوں میں جن آنکھوں کا اکلوتا ستارہ تم تھی ۔"اپنا ہاتھ پیچھے کرتے وہ اب اسکی زرد پڑتی رنگت کو بغور دیکھ رہا تھا ۔اس لمحے ان بھوری آنکھوں میں کسی قسم کی رعایت نہیں تھی ۔اک غیر محسوس کن آگ تھی جس کے شعلے اسکی آنکھوں سے لپک لپک کر رفته رفته اسکے وجود کو خاکستر کرتے جا رہے تھے ۔

"اس بچے کا کل سرمایا اسکی ماں تھی ۔اور تم صلہ اپنی معصومیت اور بھولپن میں اس واحد اثاثے پر قابض ہو بیٹھی تھی ۔ایک سنگین غلطی تو تمہارے کھاتے میں بھی درج ہے ۔لیکن میں اسے معاف کرنے کو تیار ہوں ۔تم چھوٹی تھی نا سمجھ تھی ۔مگر تمہارا باپ وہ تو نا سمجھ نہیں تھا نا ۔اس وقت جب وہ مجھے بیسمنٹ میں بند کرتے پولیس کا ڈراوا دے رہا تھا ،وہ اس وقت بھی نا سمجھ نہیں تھا جب وہ بار بار میرے سامنے میرے باپ کو قاتل کہہ کر مجھے غصہ کرنے پر اکساتا تھا ،اور اس وقت اسکی عقل کیا مفلوج ہو گئی تھی جب آدھی رات کو ننگے پاؤں اس بچے کو گھر سے نکلنے پر مجبور کیا گیا تھا وہ بچہ اسکے سامنے گھر سے بھاگا تھا اور اس نے دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لی تھیں ۔اسے لگا اس طرح وہ اس ان چاہے بوجھ سے نجات حاصل کر لے گا مگر اپنی خوشی میں یہ سوچنا بھول گیا کہ آدھی رات کی تاریکی اس بچے کو نگل بھی سکتی ہے ۔اور اس تاریکی نے سچ میں اس بچے کو نگل لیا تھا صلہ جہانگیر ۔"

اسکی آواز میں سفاکیت کے ساتھ ساتھ کوئی كسک بھی گھلتی چلی گئی تھی خود وہ بری طرح سے ہانپ رہا تھا ۔اسکے منہ سے الفاظ نہیں کوئی پگھلا ہوا سیسہ نکل رہے تھے جو سامنے کھڑی صلہ کی قوت سماعت سلب کرنے کے درپے تھے ۔

"آپ ۔۔۔۔آپ زینب ماما کے ۔"اسے بولنے میں دقت ہو رہی تھی ۔آنسو جو کب کے تھمے ہوئے تھے اب آنکھوں نے انکا بوجھ اٹھانے سے انکار کیا تو پلکوں کی باڑ پھلانکتے گالوں پر بہنے لگے ۔

حیدر نے سپاٹ چہرے اور جلتی سرخ آنکھوں کے ساتھ  اسکی مشکل آسان کر دی تھی ۔سر اثبات میں ہلا دیا ۔صلہ نے اپنے ہونٹوں پر اپنی ہتھیلی جما کر سسکاری کا گلہ گھونٹا تھا ۔

"آپ جھوٹ بول رہے ہیں ۔میرے پاپا ایسے نہیں ہیں ۔وہ ایک بچے کے ساتھ ۔۔۔۔ایسا نہیں کر سکتے ۔آپ ۔۔۔آپ خود گھر سے بھاگے تھے ۔زینب ماما نے مجھے خود بتایا تھا ۔اب سارا الزام میرے پاپا کو مت دیں ۔"بے جان ہوتی ٹانگوں پر بمشکل کھڑی ہوئی وہ نخیف سی آواز میں مسلسل سر نفی میں ہلاتے اسکی کہی ہر بات کی تردید کر رہی تھی ۔حیدر نے بالکل اچانک اسکا بازو پکڑ کر اسے جھٹکا تھا اور وہ پورے وجود سے کانپ کر سراسیمگی بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔

"میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟ کیا تمہیں سچ میں ایسا لگتا ہے صلہ ؟تمہارا اپنا انداز چینخ چینخ کر گواہی دے رہا ہے کہ تمہیں خود اپنے کہے پر یقین نہیں ہے ۔دل کی تسلی کے لئے اب جو مرضی کہو مگر سکون تو رخصت ہو چکا ۔تمہارے باپ کا جو عظیم مجسمہ پورے قد سے تمہاری نظر میں کھڑا تھا وہ ڈھے گیا ہے اور یہی میری جیت ہے ۔اس شخص کو کسی اور کی اولاد پر رحم نہیں آیا تھا نا آج اسکی اپنی اولاد جب اس سے حساب مانگے گی تو بے رحم ہو کر مانگے گی اور یہی میرا بدلا ہو گا ۔اس لئے میرے کہے پر یقین کی مہر ثبت کرنے کے لئے جاؤ اور جا کر اپنے باپ سے پوچھو اور میرا حوالہ دے کر پوچھنا ۔اسے بتانا حیدر شجاعت زینب کا بیٹا ہے اور اسکے کیے کا خراج تمہاری صورت میں وصول کر چکا ہے  ۔ وہ ضرور تمہیں سچ بتائے گا ۔لیکن ایک کام کرنا جب وہ بول رہا ہو تو اسکے الفاظ سے زیادہ اسکے بولتے چہرے اور تم سے نظر نہ ملا سکتی آنکھیں پڑھنا وہ زیادہ سچ بتائیں گے تمہیں ۔"

 

اسکا بازو چھوڑتے وہ چھبتی آنکھوں سے اسے گھورتا رہا تھا ۔وہ ذرا بھر لڑ کھڑائی تھی ۔مگر زمین بوس اب بھی نہیں ہوئی تھی ۔اتنی مضبوط وہ پتہ نہیں کب ہو گئی تھی ۔آنسو متواتر آنکھوں سے بہتے اسکی گردن بھگوتے  گریبان تر کرنے لگے تھے ۔حیدر غصے سے گہرے گہرے سانس لیتا وہیں کھڑا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا تھا پھر اسے یوں ہی شکست خورده اجڑی کیفیت میں گھرا چھوڑ کر اندر کمرے میں بڑھ گیا ۔

اسکے جانے کے دیر تھی ۔صلہ وہیں نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتی چلی گئی تھی ۔ہونٹوں میں دبی سسکیاں اب آزاد ہونے لگی تھیں ۔وہ ایک بند گلی میں کھڑی تھی جس کے ایک کونے پر اسکا باپ اور دوسرے پر اسکا شوہر کھڑا تھا ۔دونوں میں سے جس کا کردار بھی سیاہی لئے ہو اسکے حصے میں دونوں صورت خسارہ ہی آنا تھا ۔اور اس خسارے کے لئے وہ اپنے اندر سکت نہیں رکھ پا رہی تھی ۔

.......................................................................  ...

 

رات کے نو بجنے والے تھے ۔ایسے میں بیڈ پر  وہ لیپ ٹاپ سامنے رکھے ،کروٹ کے بل لیٹا ،کہنی بستر پر جمائے اور ہاتھ گردن کے نیچے رکھے ہوئے تھا ۔سامنے سکرین پر بوبی کا چہرہ جگمگا رہا تھا ۔

"کچھ کمزور کمزور لگ رہے ہو ۔ہوٹل والے کھانا اچھا نہیں دیتے کیا ؟"

ان کے اندر اسکے لئے پنپتی ممتا تڑپ کر باہر آئی تھی ۔مرتضیٰ نے تاسف بھری نظریں سکرین پر جما دیں ۔

"ابھی تین چار دن پہلے ویٹ چیک کیا ہے ۔تین کلو بڑھ گیا ہے ۔میں ورک آؤٹ کا سوچ رہا ہوں اور آپ کو ابھی بھی کمزور لگ رہا ہوں ۔کیا چاہتے ہیں آپ سانڈ بن جاؤں اب میں ۔"

حسب توقع وہ بری طرح تپا تھا ۔

"ایک منٹ ۔۔۔آپ کے چشمے کا نمبر بڑھ تو نہیں گیا ؟چیک کروانے گئے تھے ڈاکٹر پاس کہ نہیں ۔اس مہینے آپکا وزٹ تھا نا ؟"آنکھیں چھوٹی کرتے وہ یاد کرتے بول رہا تھا ۔اب کی بار عبدلرحمان کاظمی نے پہلو بدلا تھا ۔

"وہ میں سوچ رہا تھا ،۔۔۔ "

"مطلب کہ آپ نہیں گئے ۔بوبی یار حد کرتے ہیں آپ بھی ۔ڈاکٹر نے کیا کہا تھا ہر چھ ماہ میں ایک بار لازمی چیک کروانی ہے آئی سائیڈ اور آپ ہیں کہ ۔۔۔۔اب چیک اپ کروانے کے لئے بھی مجھے آنا پڑے گا ۔اور میں آ رہا ہوں چاہے ایک دو دن کے لئے ہی سہی ۔"وہ اچھا خاصا خفا ہو رہا تھا ۔

"آرام سے بیٹھے رہو جہاں بیٹھے ہو ۔میں تمہارا دادا ہوں ۔تم میرے باپ بننے کی کوشش مت کرو ۔بڑا آیا میں آتا ہوں ۔جیسے اس کے بغیر میرا کوئی کام ہوتا نہیں ہے ۔"نخیف سا سر جھٹک کر وہ اسے ڈپٹ رہے تھے ۔چہرے کے تاثرات بھی کچھ بگڑے ہوئے لگتے تھے ۔

"یہ سکیم بھی کافی پرانی ہو گئی ہے آپ کی ۔اپنی غلطی پر بھی مجھے ڈانٹ کر خاموش کروا دینے والی ۔"اس نے بھی آگے سے کوئی خاص الخاص اثر نہیں لیا تھا ۔منہ بنا کر فوری باور کروانا ضروری خیال کیا ۔

"میں کل پرسوں تک جا کر چیک کروا آؤں گا ۔تم مجھے چھوڑو اپنی سناؤ ۔"

وہ مفاہمتی انداز اپناتے بیک فٹ پر چلے گئے تھے ۔ورنہ یہ بحث طول پکڑتی جاتی ۔مرتضیٰ کو تو ویسے بھی بہانہ چاہیے ہوتا ہے ۔

"میں کیا سناؤں ؟سب ٹھیک ٹھاک ۔۔۔۔"دروازے پر ہونے والی دستک پر نظریں سکرین سے ہٹا کر دروازے کی جانب دیکھتے اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔

"ہاں یار وہ کلین کر دینا پلیز میں نے بڑے ٹکڑے تو اٹھا لئے تھے لیکن کچھ چھوٹے چھوٹے کانچ ابھی بھی بکھرے پڑے ہیں دیکھ لو تم یہاں میز کی رائٹ سائیڈ ۔"وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کسی سے کہہ رہا تھا اور کیا کہہ رہا تھا بوبی کو سمجھنے میں دو سیکنڈ نہ لگے تھے ۔

"پھر کچھ توڑ دیا کیا تم نے ؟"سرگوشی نما متاسف آواز میں وہ آہستگی سے استفار کر رہے تھے ۔مرتضیٰ جو ابھی تک دوسری جانب دیکھتا شاید صفائی کا جائزہ لے رہا تھا ۔ہوٹل بوائے کو انکی بات پر مسکراہٹ ضبط کرتے دوسری طرف رخ پھیرتا دیکھ کر  کچھ خفا سا ہوا تھا ۔

"میں نے ہینڈ فری نہیں پہن رکھے آپ کو نظر تو آ رہا ہو گا بو بی ۔"سکرین کی طرف دیکھتے اس نے گلہ کیا تھا ۔

"اچھا مجھے کیا پتہ میرے تو شاید چشمے کا نمبر بڑھ گیا ہے ۔"وہ کمال بے نیازی سے بڑبڑائے تھے ۔

اگلے چند سیکنڈز میں وہ لڑکا چلا گیا تو مرتضیٰ تسلی سے دوبارہ سکرین کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔

"ویسے کیا توڑا ہے اس بار ؟"راز داری سے پوچھا گیا ۔

"گلاس چھوٹ گیا تھا ہاتھ سے ۔اور میں چیزیں جان بوجھ کر نہیں توڑتا بوبی ۔"کڑوا سا منہ بناتے وہ ساتھ وضاحت بھی دے رہا تھا ۔

"ہاں بالکل ۔مجھے پتہ ہے تمہارے تو ہاتھ میں سوراخ ہے چیزیں خود بخود زمین بوس ہونے کو بے چین ہوتی رہتی ہیں ۔میری کراکری کا کوئی سیٹ جو تم نے پورا رہنے دیا ہو ۔سب کا کچھ نہ کچھ  توڑ پھوڑ چکے ہو تم ۔ہوٹل والوں سے کہو تمہارے روم سروس کے لئے سٹیل کے برتن استعمال کریں ۔"اپنی عینک درست کرتے وہ کچھ زیادہ ہی حقیقت پسندانہ تبصرہ کر رہے تھے ۔مرتضیٰ کے ہونٹوں کے کناروں میں مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی ۔

"اب تو روم سروس بوائے بھی عجیب نظروں سے دیکھنے لگے ہیں مجھے جب بھی کچھ ٹوٹتا ہے تو ۔"

اس بار وہ خود بھی بو بی کے ساتھ ہنسا تھا ۔

"میں جہیز کے حق میں نہیں ہوں ورنہ تمہاری دولہن کو پہلے ہی تنبیہ کرتا جہیز میں سارے برتن دهات کے لانا تاکہ وہ تم سے بچے رہیں ۔"

بوبی اب اسکا مذاق اڑا رہے تھے ۔مگر اس بار اس نے برا نہیں منایا تھا ۔بلکہ اسے کوئی یاد آیا تھا ۔

"اب آپ کچھ کچھ شہیر کی نانو جیسے ساؤنڈ کر رہے ہیں بوبی ۔آپ کی طرح انکی بھی ہر بات شادی پر ہی آکر ختم ہوتی ہے ۔پچھلے کچھ دنوں میں وہ روز مجھے شادی کرنے اور کس طرح کی لڑکی سے شادی کرنے پر سیر حاصل نصیحتیں کرتی نظر آ رہی ہیں ۔"وہ محظوظ سا انہیں بتا رہا تھا ۔بو بی کی دلچسپی یک دم کہیں گنا بڑھ گئی تھی وہ کچھ اور سکرین کے قریب کھسک آئے تھے ۔

"اللّه ان خاتون کا بھلا کرے ۔پھر کوئی افاقہ بھی ہوا یا حالات اب بھی وہیں کے وہیں ہیں ۔"

مرتضیٰ کچھ سنبھل کر سیدھا ہوتا بیٹھا تھا ۔کچھ دیر سوچنے کو وقت لیا ۔پھر انکی طرف دیکھتے ٹھہر ٹھہر کر بولنے لگا ۔

"بوبی میں نے آپ کو بتایا تھا نا شہیر کے پیرنٹس کی علیحدگی ہو چکی ہے ۔اسکی مدد سنگل پیرنٹ ہیں ۔بالکل واضح تو نہیں مگر خالہ کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا ہے جیسے وہ چاہ رہی ہوں میں اس رشتے کے بارے میں سوچوں مطلب شہیر کی مدر کے بارے میں ۔وہ بھی آج کل انکے لئے رشتہ تلاش کر رہی ہیں ۔"کہتے ہوئے وہ محتاط انداز میں انھیں دیکھ رہا تھا ۔اسکا چہرہ الجھن کا شکار لگ رہا تھا ۔عبدالرحمان کاظمی نے سوچتی نظریں اس پر جمائی ہوئی تھیں ۔کچھ دیر کا وقفہ آیا تھا پھر انہوں نے ہنکارا بھرا ۔

"ہوں ۔۔۔۔تو پھر کیا خیال ہے تمہارا ؟"

"میرا خیال ۔۔۔"وہ جیسے سوچ میں پڑ گیا تھا ۔"بو بی یہ ایک مشکل فیصلہ ہے ۔مجھے شہیر سے خاص لگاؤ ہے ۔اسکا ایک بروکن فیملی سے ہونا اور اسکی یہ محرومی مجھے تکلیف بھی دیتی ہے مگر ۔۔۔۔۔کسی اور کی اولاد کی ذمہ داری اٹھانا بہت مشکل کام ہے ۔ہو سکتا ہے ابھی میں جذباتی ہو کر کوئی فیصلہ لے لوں ۔کیوں کہ شادی تو بہرحال مجھے کرنی ہی ہے مگر کچھ ٹائم بعد میں شہیر کے حق میں اچھا ثابت نہ ہو سکوں یا اسکی ذمہ داری سے اکتا جاؤں تو یہ زيادتی ہو گی ۔"وہ جس قدر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا لگتا تھا وہ کافی سوچ و بچار کر چکا تھا ۔عبدلرحمان کاظمی نے اسے مطمئین انداز میں دیکھتے بات آگے بڑھائی تو انکی آواز میں شفقت و متانت تھی ۔

"مجھے تم پر پورا یقین ہے مرتضیٰ کم از کم تم اس بچے کے ساتھ کوئی زيادتی نہیں کرو گے ۔اس لئے یہ بات ذہن سے نکال دو اور اب اگر اس بارے میں سوچ ہی رہے ہو بیٹا تو اچھے سے سوچو ۔مجھے قطعی کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر تم ایک بچے کی ماں سے بھی شادی کرتے ہو تو ۔بلکہ اچھا ہی ہے پلا پوسا پڑ پوتا مل جائے گا مجھے ۔"آخر میں اپنی بات پر وہ خود ہی ہنسے تھے ۔

"آپ بھی نا بوبی کافی ایڈوانس جا رہے ہیں ۔"مرتضیٰ بھی خلاف توقع چڑنے کے بجائے سر جھٹک کر مسکرا رہا تھا ۔

"آثار دکھائی دیتے ہیں بیٹا ۔انشاء اللّه اس بار تو تمہارے سر سہرا سج کر ہی گا ۔"مرتضیٰ نے کسی قسم کی تردید نہیں کی تھی اسکے چہرے پر اب بھی دبا دبا سا تبسم بکھرا ہوا تھا ۔بوبی اور بھی کچھ کہہ رہے تھے ۔اور وہ پر سکون سا انہیں سن رہا تھا ۔اک اطمینان تھا جو اسکے وجود پر طاری ہوتا چلا گیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

اسے یاد نہیں تھا وہ کتنی دیر وہیں زمین پر ایسے ہی بیٹھی رہی تھی ۔سمیرا جو گئی تو واپس نہیں آئی تھی اور حیدر بھی کب کا کمرہ نشین ہو چکا تھا ۔اکڑو حالت میں بیٹھنے کے باعث اسکی کمر درد کرنے لگی تھی ۔سرخ پڑتی متورم آنکھیں اب پوری طرح خشک ہو چکی تھیں ۔آنسو تھم چکے تھے مگر اسکی گريه و زاری کے آثار بڑے واضح اسکے ستے ہوئے چہرے پر دکھائی دیتے تھے ۔

اٹھ کر کھڑی ہوتی اپنے بال پیچھے کرتے وہ کمرے کی جانب بڑھی تھی ۔دروازہ کھلنے کی ہلکی سی چرچراہٹ پر گلاس ونڈو کے سامنے کھڑے حیدر نے گردن گھما کر دیکھا تھا ۔اور تبھی صلہ کو نگاہ بھی اسکی طرف اٹھی تھی ۔کچھ لمحوں کا تصادم تھا مگر جان لیوا تھا ۔حیدر نے نجانے کس احساس کے تحت نظریں چرا لی تھیں وہ سمجھ نہیں پایا تھا مگر صلہ کتنی دیر وہیں ہینڈل پر ہاتھ سختی سے جمائے اسے خالی مگر چھبتی نظروں سے دیکھتی رہی تھی ۔گلے میں ایک بار پھر سے لگتے آنسو کے پهندے کو نگلتے وہ مضبوط چال چلتی وارڈروب کی جانب بڑھی تھی ۔باہر پھیلی تاریکی سے نظریں ہٹا کر حیدر نے گردن ترچھی کرتے اسے دیکھا تھا جو اب اپنا شولڈر بیگ کندھے پر ڈالے الماری کا پٹ بند کر رہی تھی ۔

"اس وقت مت جاؤ ۔اندھیرا پھیل گیا ہے ۔صبح چلی جانا ۔"واپس خلاؤں میں کچھ تلاشتے اسکی آواز ہر احساس سے عاری تھی ۔وہ کوئی حکم نہیں تھا ،نہ ہی استدعا تھی ۔کچھ اور احساس تھا اور بے نام تھا ۔

اسکی بات کو سرے سے نظر انداز کرتی لب بھینچے وہ آگے بڑھ گئی ۔حیدر نے بند ہوتے دروازے کو سخت نظروں سے گھورا ،پھر ہتھیلی کا مکا بنا کر آنکھیں موندے ضبط کا گھونٹ بھرتے خود کو کمپوز کرتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسکے پیچھے گیا تھا ۔باہر پورج میں وہ اسے گیٹ کی جانب بڑھتی نظر آئی تھی ۔

"صلہ ۔"اس کی آواز تیز تھی ۔صلہ کے قدم آپ ہی آپ رک سے گئے ۔بیگ پر ہاتھ کی گرفت مضبوط کرتے وہ بنا مڑے کھڑی رہی ۔

"تم نے سنا نہیں اندر میں نے کیا کہا ؟"اپنا غصہ دبائے وہ اسکے سامنے آ کر ركتا بولا تو لہجہ سختی لئے ہوئے تھا ۔وہ کچھ دیر باہر جلتی روشنی میں اسے کٹیلی نظروں سے دیکھتی رہی تھی ۔پھر ایک گہرا سانس لبوں سے آزاد کرتے گویا ہوئی ۔

"ہمیشہ آپ ہی تو کہتے ہیں اور میں ہی تو سنتی ہوں ۔لیکن اب سے ایسا نہیں ہو گا ۔مجھے پاپا سے بات کرنی ہے اور اسکے بعد میں بولوں گی اور آپ سنیں گے سنا آپ نے حیدر ۔جہانگیر اور حیدر کے قصے میں بھلے آپ قصور وار ہوں یا نہیں مگر صلہ اور حیدر کی کہانی میں لازمی طور آپ قصور وار ہیں ۔اور اس بارے میں ،میں آپ سے واپس آ کر بات کروں گی ۔"

مضبوط لہجے میں کہتے وہ ایک پل کے لئے بھی ڈگمگائی نہیں تھی ۔حیدر کے چہرے پر کوئی سایہ سا آ کر ٹھہرا تھا جو اگلے ہی پل معدوم ہو کر رہ گیا ۔وہاں اب تمسخر آمیز زہر خند مسکراہٹ تھی ۔بیک وقت سلگتی اور سلگاتی ہوئی ۔

"ہمارے درمیان کہنے سننے کو اب کچھ باقی نہیں رہا ۔مجھے جو کہنا تھا میں کہہ چکا اور جہاں تک سننے کی بات ہے صلہ بی بی تو ۔۔۔۔خود کو سنانے کا حق میں نے تمہیں کبھی نہیں دیا ۔یہ قصہ شروع دن سے جہانگیر اور حیدر کا ہی تھا ۔صلہ اور حیدر کی نہ تو کوئی کہانی ہے اور نہ ہی کبھی ہو گی ۔تمہارا کوئی خسارہ میری طرف نہیں نکلتا ۔جو ہوا اس سب کا ذمہ دار تمہارا باپ ہے لہذا اب باقی کی ساری عمر اسی کو سنانا تم ۔مجھے اچھا لگے گا ۔"وہ کس قدر سفاکیت سے اپنا دامن جھاڑ چکا تھا ۔خود کو ہر خطا سے بری الذمہ قرار دیتے کتنے سکون سے اسے سنا رہا تھا ۔اس درجه بے نیازی پر وہ دنگ سی کھڑی اسے دیکھتی رہی تھی ۔اتنی کم مائیگی ،اتنی بے اعتنائی ۔کیا وہ اسکے لئے اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی تھی کہ خود کے ساتھ کی گئی اسکی ستم ظریفی کا کم از کم اس سے گلہ ہی کر سکتی ۔وہ اسے اتنا حق تک دینے کا روادار نہیں تھا تو وہ کیوں رو کر ،گڑگڑا کر اپنا قد اس کی نظر میں اور چھوٹا کرتی جو پہلے ہی کروفر کی میناروں کو چھو رہا تھا ۔

"میں یہ ہمیشہ یاد رکھوں گی ۔"آنکھ سے گرنے والا واحد آنسو اپنی ہتھیلی سے رگڑتے وہ سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔

حیدر نے شانے اچکا کر سر کو خم دیتے اسکی تائید کی تھی ۔

"بالکل ۔تمہیں یاد رکھنا چاہیے ۔"

صلہ نے ایک آخری کاٹ دار نظر اسکے شانت چہرے پر ڈالی تھی ۔پھر اسکے پاس سے گزرتی چلی گئی ۔

"صلہ ۔"اسے گیٹ کی جانب بڑھتا دیکھ وہ دانت کچکچا کر رہ گیا ۔سرعت سے مڑتے اس نے اسکی کلا ئی پیچھے سے تھامی تو اتنی دیر سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے صلہ کے ہاتھوں سے برداشت کا دامن چھوٹتا چلا گیا ۔پیچھے مڑ کر دوسرے ہاتھ سے پوری قوت صرف کرتے اس نے حیدر کو پیچھے کی جانب دھکا دیا تھا ۔وہ اسکے اس قدر شدید رد عمل کی توقع نہیں کر رہا تھا اسی لئے اسکی کلائی پر گرفت ڈھیلی ہوتی چھوٹ گئی ،خود وہ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوا۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?