Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaran by Umme Abbas Episode 12

1 Posts
1 Users
0 Reactions
145 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

قسط نمبر : 12

تو ایک دن کا انتظار بھی نہیں ہوا آپ سے ۔ہمارے آتے ہی فوراً  آ دھمکے آپ ۔"تمسخرانہ سا لہجہ لئے وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے انگلی ہونٹوں پر رکھے گویا ہوا تھا ۔صلہ نے گردن موڑ کر اسے یوں دیکھا تھا جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو ۔جہانگیر مراد کا چہرہ سبکی کے احساس سے سرخ پڑنے لگا تھا ۔

"حیدر یہ کس طرح بات کر رہے ہیں آپ پاپا سے ؟"صلہ کی گھٹی گھٹی آواز حلق سے نکلی تھی ۔جواب میں حیدر نے اپنی کٹیلی نگاہیں اس پر گاڑھ ڈالی تھیں ۔

"کس طرح بات کر رہا ہوں صلہ ؟کیا کچھ غلط کہا ہے میں نے ۔مطلب تمہارے پاپا کو اتنا تو خیال رکھنا چاہیے کہ شادی شدہ بیٹی کے گھر وقت بے وقت یوں ہی منہ اٹھا کر نہیں آیا جاتا ۔دوسروں کی پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔"ٹھنڈے ٹھار انداز میں وہ صحیح معنوں میں انہیں بھگو بھگو کر مار رہا ٹھا ۔جہانگیر کو آج تک اتنی ذلت کا کبھی سامنا کرنا نہیں پڑا ٹھا ۔اس پر مستزاد بیٹی کے سامنے ۔انکی پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمؤ دار ہونے لگے تھے ۔

"یہ میرے پاپا ہیں حیدر مجھ سے ملنے آئے ہیں اور آپ اس طرح سے انکی تذلیل کر رہے ہیں ۔"اپنی جگہ سے اٹھتی وہ اس بار دبا دبا سا چینخ اٹھی تھی ۔اپنی حد تو ٹھیک ہے مگر اپنے باپ کی طرف وہ اسکی کوئی بھی ایسی ویسی حرکت برداشت نہیں کرنے والی تھی ۔حیدر نے ایک کٹیلی نگاہ نظریں چراتے بے بسی کی مورت بنے جہانگیر پر ڈالی تھی ۔

"میں کسی کی تذلیل نہیں کر رہا بس ایک بات کہہ رہا ہوں ۔انہیں سمجھنا چاہیے کہ انکی بیٹی اب کسی کی بیوی بھی ہے ۔یوں وقت بے وقت کی کالز اور آمد سے یہ مجھے کیا جتانا چاہ رہے ہیں میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔میں تنگ آ گیا ہوں ان کے اس نان سینس ایبل ایٹی ٹیوڈ سے ۔میرے بھی پیرنٹس ہیں مگر وہ انکی طرح بچگانہ رویہ شو نہیں کرتے ۔یا یہ مجھے یہ باور کروانا چاہ رہے ہیں کہ انہیں اپنی بیٹی سے کوئی انوکھی سی محبت ہے ۔"اٹھ کر اسکے سامنے تن کر کھڑے ہوتے وہ اب بھی ہر لحاظ بالاتر رکھے ہوئے تھا اس سے پہلے کہ صلہ کچھ کہتی جہانگیر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔

"تم دونوں میری وجہ سے جھگڑو مت بیٹا ۔حیدر ٹھیک ہی کہہ رہا ہے شاید میں ہی کچھ زیادہ تمہاری فکر کر رہا ہوں ۔اب تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے تو دل کو تسلی ہو گی ہے میں چلتا ہوں ۔"کھسیانی سی زبر دستی کی مسکراہٹ کے ساتھ وہ مرے ہوئے سے انداز میں کہتے آگے بڑھ کر اسکا سر تهپتهپا رہے تھے ۔صلہ کے  ہونٹ ہلے تھے مگر الفاظ کہیں کھو گئے تھے ۔باپ کی آنکھوں میں تیرتی نمی نے اسے بے کل کیا تھا ۔حیدر رخ پھیر کر بے نیاز بنا کھڑا تھا وہ شکست خوردہ قدموں سے باہر کی جانب چل دیے تھے ۔چال ایسی تھی جیسے خود کو گهسیٹ رہے ہوں ۔انہیں دیکھتے حیدر کی آنکھوں میں بڑا سفاک سا تاثر ابھر کر معدوم ہوا تھا ۔صلہ نے غصے و افسوس سے ملی جلی ایک تیز نگاہ اس پر ڈالی تھی اور پھر جہانگیر کے پیچھے تیز قدموں کے ساتھ لپکی تھی ۔پیچھے حیدر مدهم سا گنگناتا اک فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے دهپ سے صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا ۔

"اپنی لگائی آگ میں جلنے کو تیار ہو جاؤ جہانگیر مراد ۔حیدر شجاعت تمہیں خوش آمدید کہتا ہے ۔"صوفے کی پشت سے سر ٹکائے ،آنکھیں موند کر ایک گہرا سکون آمیز سانس اندر کھینچتے وہ ہنسا تھا ۔

وہ جگہ کچھ جانی پہچانی سی لگتی تھی ۔ایسے لگتا تھا وہ یہاں آ چکا ہو ۔مگر کونسی جگہ تھی خواب میں یہ اندازہ لگانے سے وہ قاصر دکھائی دیتا تھا ۔شام کے بڑھتے سائے درختوں کی چھاؤں میں اضافے کا باع ث بن رہے تھے ۔ایسا ہی ایک گھنا سایا دار درخت تھا جو اپنی مہر بان چھاؤں اسکے اوپر کیے ہوئے تھا ۔جھیل کنارے بیٹھا وہ کسی گہری سوچ میں تھا ۔بے دھیانی میں پاس پڑے چھوٹے چھوٹے کنکر پانی میں پھینکتے لہروں کا ہلکا سا دائروی ارتعاش اسکی نگاہوں کا مرکز تھا ۔

"حیدر ؟"

آواز پر ہوا میں بلند ،پانی میں اچھالنے کو ہاتھ میں پکڑا کنکر وہیں معلق رہ گیا ، وہ پلٹا تھا ۔سفید کپڑوں میں ملبوس وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی ۔سبز آنکھوں میں ستاروں کی سی چمک تھی ۔خلاف معمول بال کھلے ہوئے کمر پر بکھرے پڑے تھے جو ہوا کے مدهم سے شور سے منتشر ہوئے جاتے جاتے تھے مگر اسے پرواہ نہیں تھی ۔وہ مبہوت سا اسے دیکھے جا رہا تھا ۔سانس ساکن تھی یا روانی اب بھی باقی تھی اندازہ لگانا مشکل تھا ۔وہ بنا کچھ بھی کہے یوں ہی ہاتھ روکے متعجب نگاہیں اس پر جمائے ،گردن ترچھی کیے بیٹھا رہا تھا ۔یہاں تک کہ وہ دھیمی چال چلتی اسکے پاس آئی تھی ۔اسکے پہلو میں کھڑے ہو کر وہ تھوڑا سا جھکی تھی۔بھورے بالوں کی آبشار پھسل کر کندھے سے آگے کی جانب ڈھلک آئی ۔آنکھیں اسکے برف کے مجسمے میں ڈھلے چہرے پر نرمی سے جمی تھیں ،ہاتھ بڑھا کر آہستگی سے اسکے ہاتھ سے کنکر نکالا ،پھر اسی دهیمی ،پر سکون مسکراہٹ کے ساتھ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ذرا سا کھینچا ۔

"مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے ۔"نیم سرگوشی میں اسکے کان کے قریب اپنا چہرہ کیے کہتی وہ سیدھی ہوئی تھی ۔اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں مقید کیے وہ اسے اٹھانے کے درپے تھی ۔اس خواہش کا احترام جیسے اس پر واجب سا ہو گیا تھا ۔کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں وہ اٹھتا چلا گیا ۔اسکے ہمراہ ہونے پر بھی اس نے ہاتھ چھوڑنے کا تردد نہیں کیا تھا اور اسکے دو قدم پیچھے کسی مقناطیسی قوت کے زیر اثر چلتے شخص نے بھی اپنا ہاتھ نہیں کھینچا تھا ۔وہ اسے کہاں لے کر جا رہی تھی وہ لا علم تھا ۔کیا دکھانا چاہتی تھی وہ جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔وہ تو بس اسکی موجودگی پر یقین و بے یقینی کی درمیانی سرحدوں میں راستہ کھوتے بھٹک رہا تھا ۔

کچھ دور جا کر اس نے قدم روک دیے تھے ۔بالکل اچانک کہ پیچھے چلتے شخص کو اپنے قدم روکنے میں کچھ دیری ہوئی تھی ۔نتیجتاً وہ اس سے فقط چند انچ کا فاصلہ رکھ سکا تھا جو اس لڑکی کی ذرا سی جنبش پر بالکل معدوم ہوتا چلا گیا ۔

وہ پیچھے مڑ کر گردن گھمائے سر اونچا کیے اسے دیکھنے لگی تھی ۔صبیح ،پر اطمینان چہرہ ہر فکر ،ہر رنج سے آزاد تھا ۔وہاں کھلی کھلی سی مسکراہٹ کا ہنوز راج تھا ۔آنکھوں کی چمک میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا ۔

 ایک گہری نظر اسکے الجھے ہوئے چہرے پر ڈال کر انگلی سے اشارہ کرتے ساتھ گردن موڑتے نگاہوں کا مرکز تبدیل کیا تھا ۔ساکت پتلیوں میں حرکت ہوئی تھی ،نقطہ نظر بدلا تھا ۔نگاہوں نے اسکی بتائی سمت کی جانب سفر کیا تھا اور پھر وقت تھم سا گیا تھا ۔اسکے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا ۔گردن سرخ ہونے لگی تھی ۔آنکھوں میں تحیر کا اک جہاں آباد کیے وہ ایک جھٹکے سے اسکی طرف مڑتا بے یقینی سے دیکھ رہا تھا ۔اور اسکے رد عمل پر وہ ہونٹوں پر دونوں ہاتھ رکھے کھلکھلا کر ہنستی ذرا برابر جھکی تھی ۔جس کے ساتھ ہی تیز روشنی کی لپک نے اسکی آنکھیں چندها دیں ۔سوتے ہوئے اپنا بازو اپنی آنکھوں کے سامنے کرتے اس نے خود کو اس تیز ،آنکھوں کی بینائی کو مات دیتی روشنی سے بچنے کی کوشش کی تھی ۔اور اس کے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی ۔خواب ٹوٹ کر بکھرا تھا اور ادھورا ہی ہوا میں تحلیل ہوتا چلا گیا ۔وہ کوئی ڈراؤنا خواب نہیں تھا جیسا دیکھنے کا وہ عادی تھا ۔جس کے بعد ہمیشہ وہ خود سے بیگانہ ہو جایا کرتا تھا ۔مگر یہ کوئی خوش گوار نوعیت کا خواب بھی تو نہیں تھا ۔کم از کم اس کے لئے تو ہرگز نہیں تھا ۔اتنے سالوں بعد اچانک سے اسکا چہرہ دیکھا تھا جس کے بارے میں اسکا خیال تھا اب اسکے ذہن و دل سے محو ہو گیا ہو گا ۔اور اس کے لئے اس نے دانستہ بہت سی کوششیں بھی تو کی تھیں ۔اور وقت گواہ تھا جس چیز کے لئے اس نے پورے دل سے کوشش کی ہو اس میں کامیابی لازم و ملزوم ہو جایا کرتی تھی ۔

کچھ دیر یوں ہی ڈھیلے وجود کے ساتھ بستر پر پڑے رہنے کے بعد وہ اٹھ کر دونوں ہاتھ بستر پر ٹیکتا بیٹھ گیا تھا ۔

ذہن کے پردے پر زور ڈالا تھا ۔وہ اسے کچھ دکھانا چاہتی تھی ۔اور خواب میں اس نے وہ دیکھا بھی تھا مگر وہ کیا تھا اسے یاد کرنے میں دشواری ہو رہی تھی ۔یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے کوئی فلم چل رہی ہو پردے پر دکھائی دینے والے سین میں اس نے سامنے کا منظر تو دیکھا تھا مگر کیمرہ مین نے وہ منظر ناظریں کو نہ دکھایا ہو ۔اسکے دل کی دھڑکن اب بھی منتشر تھی ۔بے چینی تھی کہ اسکے اندر تک کہیں پھیلتی چلی گئی تھی ۔بے بسی کے احساس سے اس نے اپنی مٹھی کا مکا بنا کر بستر پر رسید کیا تھا ۔

بستر پر واپس دراز ہوتے اس نے اپنی پلكیں سختی سے موند لی تھیں ۔ذہن اسے ایک بار پھر وہی چہرہ دکھانا چاہتا تھا مگر اس نے سختی سے تردید کر دی ۔کچھ باب تھے جو وہ بہت پہلے بند کر چکا تھا ۔اب انہیں کھولنے کی اجازت اسکے اپنے ذہن و دل کو بھی نہیں تھی ۔اور نہ ہی کسی خواب کو ۔

اگلی صبح وہ ایک بار پھر پہلے جیسا پر سکون نظر آتا تھا مگر اس سکون کی لہر کے نیچے کچھ تھا جو اسے بار بار تنگ کر رہا تھا ۔

آئینے میں اپنا عکس دیکھتے پتہ نہیں اس نے کسے اور کیوں یہ باور کروانا ضروری سمجھا تھا ۔ضمیر کی بعض اوقات  آہ و پکار کو زیادہ سختی اور تیز آواز سے دبا دیا جاتا ہے ۔اور یہ تکنیک اس کے لئے اتنے سالوں میں کافی کار آمد ثابت ہوئی تھی ۔

"میں نے زندگی میں جو بھی کیا ہے سیاہ یا سفید ۔مجھے اپنے کسی عمل پر رتی برابر بھی نہ تو افسوس ہے اور نہ ہی پچھتاوا ۔"اسکے اندر سے کوئی دبا دبا سا احتجاج کرنے سامنے آیا تھا ۔

"کسی ایک عمل پر بھی نہیں ؟؟؟"کوئی تھا جو آئینہ دکھا رہا تھا ۔وہ سرد سا مسکرایا تھا اس انداز میں کہ اسکی آنکھیں جل اٹھی تھیں ۔

"تمہاری اس طرح کی یاد دہانی سے میری نہ ہاں میں نہیں بدلے گی ۔میں اپنا کیا اون کرتا ہوں ،میں نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔وہ کسی کے ساتھ زيادتی نہیں تھی بلکہ میں نے کافی سے زیادہ رحم دلی کا مظاہرہ کرتے اپنے نقصان کا بہت کم خراج وصول کیا ہے  ۔"بال جیل کی مدد سے اچھے سے سیٹ کرتے وہ کروفر سے اپنا عکس دیکھ رہا تھا ۔اس تردید میں اتنی شدت تو ضرور تھی کہ اس دبی ہوئی آواز کا گلہ گھونٹ کر رکھ سکے ۔

آئینے میں دکھائی دیتے اپنے شاندار سراپے کو مطمئین نظروں سے دیکھتا وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

"نانو !مجھے لگتا ہے آج وہ نہیں آئیں گے ۔"سامنے راہ داری پر ایک نگاہ کرتے ساتھ بیٹھیں خالہ کو وہ مایوسی بھری آواز میں کہہ رہا تھا ۔

"کہیں تمہاری بات کا برا تو نہیں منایا اس نے ؟"خالہ کے چہرے پر تفکر کا جال سا بچھ گیا تھا ۔جب سے شہیر نے اپنی خواہش کا انکے سامنے اظہار کیا تھا وہ خود بھی دیوانوں کی طرح ہوا میں ایک عظیم الشان محل تعمیر کر چکی تھیں ۔تصور میں کہیں بار مرتضیٰ اور صلہ کو ایک ساتھ دیکھتے من ہی من انکی نظر بھی اتار چکی تھیں ۔

"نہیں نانو ۔میں نے ان سے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی ۔آپ سے بات کیے بنا ان سے تھوڑی کہہ سکتا تھا ۔"اس نے یقین دلانا چاہا ۔خالہ نے بے دھیانی میں ہی سر ہلا دیا ۔کچھ توقف کی خاموشی کے بعد انہوں نے تھوگ نگل کر گلہ تر کرتے ساتھ بیٹھے شہیر کو دیکھا ۔

"منا میں تو کہتی ہوں ایک بار پھر سے سوچ لیتے ہیں ۔تمہاری ماں کو پتہ چل گیا تو وہ زمین آسمان ایک کر دے گی ۔"پچھلے دو دن سے وہ ہر رات سر جوڑ کر پلاننگ کر رہے تھے اور اب جب عمل درآمد کا وقت آیا تھا تو خالہ کے ہاتھ کے طوطے عین وقت پر اڑنے لگے تھے ۔شہیر نے کچھ شکایتی نظروں سے انکی طرف گھورا تھا جیسے یہ بزدلی اسے پسند نہ آئی ہو ۔پھر گہرا سانس اندر کھینچ کر دونوں ہاتھ اٹھاتے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں ۔دوبارہ کھول کر انکی طرف دیکھتا وہ بولا ۔

"کیا نانو ؟آپ اتنی بڑی ہو کر ڈر رہی ہیں ۔اور آپ یہ کیوں بھول جاتی ہیں ماما آپ سے چھوٹی ہیں ۔آپ بڑی ہیں ان سے اپنا رعب ڈالیں ۔اور میں تو ویسے بھی آپ کے ساتھ ہی ہوں ۔ہماری ٹیم کے سامنے ماما اکیلے کیا کر لیں گی ۔آپ بس ایزی رہیں اور مرتضیٰ سر سے ایک بار بات کر لیں ۔ورنہ ۔۔۔۔ورنہ میں خود بات کر لوں گا ۔"آخر میں خفا ہوتے اس نے دهمكی بھی دے ڈالی تو منہ بناتے بے دلی کے ساتھ خالہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملا ہی دی ۔پھر خود کو مضبوط ظاہر کرتے گلہ کھنگار کر ذرا سخت آواز میں گویا ہوئیں ۔

"ڈرتی تو نہیں ہوں میں کسی سے ۔اللّه جنت نصیب کرے تمہارے نانا کو ۔ساری دنیا پر انکا رعب تھا بس ایک میں تھی جس سے وہ بھی بڑا سوچ سمجھ کر نرم انداز میں بات کیا کرتے تھے ۔میری ساس اللّه انکے درجات بلند کرے تو انہیں رن مریدی کے طعنے دیتے نہ تھکتی تھیں ۔اپنی نانو کو کم مت سمجھنا تم ۔بڑے بڑے میرے رعب میں آ جاتے ہیں تمہاری ماں کیا چیز ہے ۔ "شہیر نے راستے پر نگاہ ٹکائے ہی سر اثبات میں ہلاتے انکی بات سن کر انکی طرف انگوٹھے سے "تھمز اپ "کا سائن دیا تھا ۔تبھی اسے مرتضیٰ آتا دکھائی دیا تو وہ ایک دم سے مسکراتا ہوا خالہ کی طرف مڑا ۔

"وہ آ گئے ہیں ۔چہکتے ہوئے کہہ کر وہ انکے پاس سے اٹھتا نیچے آلتی پالتی مارتا بیٹھ گیا تھا ۔گود میں اپنی ڈرائنگ بک رکھتے ہاتھ میں پینسل پکڑ کر یوں انہماک سے ہاتھ چلانے لگا جیسے وہ کتنی دیر سے یہی تو کر رہا ہو ۔رقيه خالہ نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس چھوٹے اداکار کی بڑی فنکاری کو دیکھا تھا ۔تب تک مرتضیٰ انکے قریب پہنچ چکا تھا ۔سلام کرتے وہ آگے بڑھا ۔شہیر نے اسکی آواز پر سر اٹھا کر ایک بھر پور مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی اور دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گیا ۔

خلاف معمول خالہ کی موجودگی پر وہ ذرا سا مسکراتا آگے بڑھا تھا ۔بینچ کی دوسری سائیڈ پر بیٹھتا وہ ایک نظر شہیر کو دیکھ کر انکی طرف متوجہ ہوا تھا جو اب اس کی طرف پوری طرح سے توجہ دیے ہوئے تھیں ۔

"آج بہت دیر کر دی بیٹا آنے میں ۔سب خیریت ہے نا ؟"

"جی سائیڈ پر جانا تھا آج تو کام تھوڑا بڑھ گیا تھا آپ سنائیں کیسی ہیں ؟"رواداری سے کہتے وہ تھوڑا الرٹ سا بیٹھا ہوا تھا ۔خالہ کی خاص مسکراہٹ اور نرم انداز اسے کھٹکنے لگے تھے ۔

"میں بھی ٹھیک ہوں اللّه کا شکر ہے ۔آج واک کر کے جلدی واپس آ گئی کہ چلو تم سے تھوڑی گپ شپ ہو جائے ۔شہیر تو اتنا ذکر کرتا ہے تمہارا گھر میں بھی کہ پوچھو مت ۔ہر بات میں مرتضیٰ سر یہ مرتضیٰ سر وہ ۔"وہ ہنس کر بتا رہی تھیں ۔بدلے میں مرتضیٰ فقط ہونٹوں کو مسکراہٹ کے انداز میں کھینچ ہی پایا تھا ۔ہاتھ بڑھا کر پہلے سے ڈھیلی ٹائی کو کچھ اور ڈھیلا کیا تھا ۔

"اور بیٹا اپنے بارے میں کچھ بتاؤ ۔کون کون ہے گھر میں کیا کرتے ہو کہاں سے ہو ؟اتنے ماہ سے روز ملاقات ہوتی ہے تم سے کبھی یہ پوچھنے کا خیال ہی نہیں آیا ۔"شہیر کے کان خرگوش کی طرح کھڑے ہوئے تھے ۔ہاتھ لمحے بھر کے لئے رک سا گیا تھا ۔مگر وہ بے خبری کا تاثر ہنوز قائم رکھے ہوئے تھا ۔مرتضیٰ چونکے بنا نہیں رہ سکا ۔نا سمجھی سے خالہ کی طرف دیکھا پھر انکے چہرے پر شفقت بھرے تاثر کو دیکھ کر ہر خیال ذہن سے جھٹک دیا ۔

"جی میں شارجہ سے ہوں ۔گھر میں صرف دادا ہیں والدین حیات نہیں ہیں ۔یہاں ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں آیا ہوں ۔کچھ ماہ کی بات ہے مکمل ہو جائے گا تو واپس چلا جاؤں گا ۔"ٹھہرے ہوئے انداز میں آرام سے بتایا گیا تھا ۔خالہ نے گردن کو ذرا سا خم دیا ۔

"اچھا اچھا ۔اور بیوی بچے ؟"

"وہ نہیں ہیں ۔"اسکے جواب پر خالہ کے ہاتھ جیسے ہفت اقلیم لگ گیا تھا ۔

"اچھا اچھا کنوارے ہو ابھی ۔یہ تو بہت اچھی ۔۔۔۔"خوشی میں وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائی تھیں ۔مرتضیٰ اور شہیر کی نظریں بیک وقت خود پر محسوس کرتے انہوں نے جیسے خود پر قابو پایا تھا ۔

"یہ تو کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے ۔شادی کی عمر ہے وقت پر شادی ہو جانی چاہیے ۔آج کل کے بچوں کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ایک ہمارا وقت تھا جب لڑکا ذرا قد کاٹھ نکالتا تھا ۔کمانے لگتا تھا تو والدین شادی کر دیا کرتے تھے کچھ عرصے بعد بیٹا ساتھ باہر نکلتا تھا تو چھوٹا بھائی لگتا تھا ۔اور آج کل دادا بننے کی عمر میں لوگ باپ بن رہے ہوتے ہیں ۔"جذباتی انداز میں تقریر کرتے انہوں نے مبالغہ آرائی کی بھی حد کر دی تھی ۔شہیر نے آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں ٹوکا تھا ۔(نانو اب آپ اوور ایکٹنگ کر رہی  ہیں ۔)انکی پر فارمنس سے وہ زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتا تھا ۔

دوسری طرح مرتضیٰ نے انکی بات پر ذرا بھر پہلو بدلا تھا ۔پتہ نہیں بو بی کی یاد اچانک سے کیوں ا گئی تھی ۔

"تمہارے دادا تمہیں کچھ نہیں کہتے کیا ؟خیر سے اچھا کماتے ہو ،اچھی شکل و صورت کے ہو تو شادی کیوں نہیں کی ابھی تک ؟"خالہ کے سوالات کی بوجھاڑ بڑھتی جا رہی تھی ۔مرتضیٰ کا چہرہ تو نہیں البتہ گردن ضرور سرخ ہونے گی تھی ۔

"وہ تو کہتے رہتے ہیں ۔۔۔"

"ہائے کیسی بری بات ہے بے چارے ضعیف انسان کہتے رہتے ہیں اور تم انکی بات پر کان نہیں دھرتے بیٹا ۔"

وہ اسے گھور کر لتاڑ رہی تھیں ۔یوں لگتا تھا جیسے صلہ کا غصہ بھی اسی بے چارے پر نکل رہا تھا ۔مرتضیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے چاہتے تھے ۔خالہ اس نے ذاتی نوعیت کے سوالات کریں گی اور وہ بھی اس درجه بے تکلفی سے اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔مدد طلب نظروں سے شہیر کی جانب دیکھا جو اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر گڑبڑا کر سر نیچے جھکاتے اپنے کام میں ایک بار پھر سے جھٹ گیا تھا ۔

"نہیں خالہ ایسی بات نہیں ہے ۔دراصل میں اب سنجیدگی سے اس بارے میں سوچ رہا ہوں ۔"مسکرانے کی کوشش کرتے انکی طرف ایک پل کے لئے دیکھتے وہ کہتا نظریں چرا گیا تھا ۔

"یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ۔اچھے سے سوچو بیٹا ۔یہی وقت ،عمر ہے ایک دو سال اور گزر گئے تو بالوں میں سفیدی آنے لگے گی ۔"

انکا جوش ایک بار پھر عود کر آیا تھا ۔مرتضیٰ نے بے اختیار اپنے بالوں میں ہاتھ چلایا تھا ۔کچھ دیر کی خاموشی چھائی تو اس نے سکون کا سانس لیا ۔صد شکر جان چھوٹ گئی مگر یہ اسکی خام خیالی ثابت ہوئی ۔اگلے چند لمحوں میں وہ ایک بار پھر سے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑ چکی تھیں ۔

"تو پھر کوئی لڑکی وغیرہ دیکھی ؟"کن اکھیوں سے اسے دیکھتے اگلا سوال تیار تھا ۔

مرتضیٰ نے ایک گہرا سانس خارج کرتے خود کو نئے سرے سے وائیوا کے لئے تیار کیا تھا ۔

"جی ابھی تک تو نہیں ۔"

اسکے جواب نے خالہ کو یک گونہ اطمینان سے ہمکنار کیا تھا ۔

"میری بات غور سے سنو بیٹا ۔تم اچھے گھر کے لگتے ہو ۔مجھے تو اپنے بیٹوں کی طرح عزیز ہو ۔اس لئے سمجھا رہی ہوں ۔"انکی آواز میں چاشنی سی گھل گئی تھی ۔تھوڑا اسکی طرف جھکتے ہوئے رازداری سے کہا تو وہ پہلے سے زیادہ محتاط ہوتا چلا گیا ۔سر کو ہاں میں ہلاتے انکی طرف یوں دیکھا جیسے کسی نئے میزائل کے گرنے کی پیش گوئی ہو ۔

"آج کل کی لڑکیاں مانو ہاتھی کی طرح ہیں کھانے کے دانت اور ،دکھانے کے اور ۔شادی سے پہلے ستی ساوتریاں بنی ہوتی ہیں اور شادی کے بعد "انہوں نے ذرا آہستہ آواز میں کہتے ڈرامائی وقفہ لیا ۔تاسف سے سر ہلاتے دونوں ہاتھ کانوں کو لگائے ۔"اللّه کی پناہ ۔۔۔۔اپنے اصلی رنگ ڈھنگ دکھاتی ہیں جب تو گرگٹ بھی شرما جائے ۔اس لیے سوچ سمجھ کر ۔بڑی چالاک ہو گئی ہیں آج کل کی لڑکیاں ۔تمہارے جیسے بھولے بھالے لڑکوں کو پھنساتی ہیں اور پھر گلے میں پٹا ڈالے پالتو کتا سمجھ لیتی ہیں جو انکی انگلی کے اشارے پر اٹھے بیٹھے ،کھائے ،سوئے ۔تم ذرا محتاط رہنا ۔"جو بھیانک نقشہ خالہ نے کھینچا تھا وہ بے ساختہ جھرجهری لیتا سیدھا ہوا تھا ۔خالہ نے شفقت بھرے انداز میں اسکا کندها ذرا سا تهپتھپایا تھا ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?