قسط نمبر : 11
صبح دس کے قریب کمرے میں ہونے والے مدهم سے شور پر اسکی آنکھ ہڑبڑا کر کھلی تھی ۔سامنے حیدر تھا جو اپنا سوٹ کیس بند کر رہا تھا اسے اٹھتے دیکھ کر ہاتھ روکے اسکی طرف نرم سی مسکراہٹ لئے دیکھنے لگا ۔وہ مندی مندی سی آنکھوں کے ساتھ بیٹھی سوئی جاگی کیفیت کے زیر اثر تھی ۔
"اٹھ گئی تم ؟حالانکہ میں نے کافی کوشش کی تھی بنا کسی آواز کے پیکنگ مکمل کر لوں ۔"افسوس بھرے لہجے میں کہتا وہ سوٹ کیس سائیڈ پر رکھ رہا تھا ۔صلہ کے سوئے حواس بحال ہونے شروع ہوئے تو رات کا سارا منظر ایک دفع پھر سے ذہن کو اپنے شکنجے میں جکڑنے لگا ۔دل ایک بار پھر سے اسکے بارے میں بد دل ہونے لگا تھا ۔
بیڈ سے نیچے اترتے اسکی نظر یونہی سائیڈ ٹیبل پر پڑی تھی ۔جہاں پینسل کے نیچے دبا کاغذ اسے اپنی جانب متوجہ کر گیا تھا ۔بے ساختہ ہاتھ بڑھا کر اس نے وہ کاغذ اپنے ہاتھ میں لیا تھا ۔کچھ دیر کے لئے باقی ہر بات ذہن سے مخفی ہو کر رہ گئی تھی ۔اسکی سبز آنکھوں میں ستائش سی جاگی تھی ۔سفید صفحے کی سطح کے اوپر کچی پینسل سے بنایا گیا اسکا اسکیچ ہر لحاظ سے مکمل اور قابل دید تھا ۔وہ مبہوت سی دیکھے گئی ۔
"اچھا بنا ہے ناں ؟حالانکہ آج سے پہلے میں نے کبھی کسی انسان کا اسکیچ نہیں بنایا تھا ۔اس لئے خود بھی شیور نہیں تھا اچھا بنے گا یا نہیں ۔"اسکی پاس آتی آواز پر اس نے چونکتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو اب اسکے پہلو میں آ کر ٹک گیا تھا ۔اسکی باتوں سے ،چہرے کے تاثرات حتی کہ لب و لہجہ تک ،کہیں سے بھی انکے درمیان ہونے والی گزشتہ رات کی تلخی کا کوئی شائبہ تک نہ تھا ۔جیسے کچھ ہوا ھی نہ ہو ۔وہ بالکل ایک نارمل صبح ہو جو انکے درمیان طلوع ہوئی ہو ۔صلہ نے بھی اپنے آپ کو نارمل رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
"اچھا بنا ہے ۔"سر ہلا کر تین لفظی جملے میں اس نے بات ختم کرتے وہ کاغذ واپس وہیں رکھا اور خود اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"صلہ ؟"
اسکی اچانک پکار پر اسکے بڑھتے قدم تھم سے گئے تھے ۔وہ مڑی نہیں تھی ۔حیدر خود اٹھ کر اسکے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔
"تم نے میری معذرت قبول نہیں کی شاید ؟"وہ مایوس کن لہجے میں قياس آرائی کر رہا تھا ۔
صلہ نے اسکی طرف بغور دیکھا ۔اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے رات اسکی آنکھ صبح صادق کے قریب لگی تھی تب تک وہ باہر ہی تھا ۔اتنی سردی میں بھی وہ باہر ہی رہا تھا یقیناً اسکے ساتھ کچھ تو مسئله تھا ۔رات کا اندھیرا جھٹا تھا تو خوف بھی کہیں جا سویا تھا جس نے کل رات تک اسے حال سے بے حال کئے رکھا ہوا تھا ۔اب وہ اس سب کو ایک اور طرح سے دیکھنا چاہ رہی تھی ۔صلہ کی صلح جو طبیعت نے جوش مارا تھا ۔دونوں ہاتھ عادتاً سینے پر لپیٹ کر اس نے جانچتی نظریں اسکے چہرے پر یوں ہی جمائے رکھے بات شروع کی ۔
"بات معذرت کی نہیں ہے حیدر ۔بات آپ کے عجیب و غریب رویے کی ہے ۔آپ مجھے بتائیں اگر میں اس طرح کا بی ہیویر شو کروں تو آپکا ری ایکشن کیا ہو گا ۔آپ کی بہت سی باتیں نارمل نہیں ہیں ۔مجھے کھٹکتی بھی ہیں مگر میں نظر انداز کر جاتی ہوں ۔مگر کب تک ؟کب تک صرف میں ہی نظر انداز کرتی رہوں گی ؟میرے خیال میں ہمیں بیٹھ کر بات کر لینی چاہیے ۔اس دن بھی میں نے آپ کی گردن کو چھوا تھا تو آپ نے کتنا شدید رد عمل دیا تھا اور کل رات ۔۔۔۔۔۔۔کل رات مجھے سچ میں آپ سے خوف محسوس ہوا حیدر ۔مجھے لگا اتنے دن سے جس شخص کے ساتھ میں رہ رہی ہوں وہ کوئی اور ہے اور کل رات جو حیدر سامنے آیا وہ کوئی اور ۔۔۔۔جسے کم از کم میں نہیں جانتی ۔لیکن اب میں جاننا چاہتی ہوں ۔آیا جس انسان کے ساتھ میں رہ رہی ہوں اسے جاننے کا حق مجھے حاصل بھی ہے یا نہیں ؟"
وہ بول رہی تھی اور حیدر چپ چاپ اسکی طرف سپاٹ چہرہ لئے دیکھ رہا تھا ۔صلہ کے لئے اندازہ کرنا مشکل ہو رہا تھا آیا وہ اسکی کہی کسی بات کا اثر لے بھی رہا ہے یا نہیں ۔بلا آخر وہ بازو کھولتے خود ہی نرم پڑ گئی تھی ۔ہاتھ اسکی کہنی پر رکھتے اس نے سر کو ذرا سا خم دیا ۔
"دیکھیں حیدر ۔۔۔۔میں آپ کی بیوی ہوں اگر آپ کے ساتھ کوئی بھی ۔۔۔۔۔کسی بھی قسم کا ایشو ہے آپ کی ہیلتھ کے متعلق تو آپ مجھ سے شئیر کر سکتے ہیں ۔ہم کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے کنسرن کر سکتے ہیں ۔اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے اکثر ہمارے ساتھ کچھ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جن کا اثر ہمارے ذہنوں کے لئے نا قابل قبول ہو جاتا ہے تو اس طرح کے چھوٹے موٹے مسائل جنم لے لیتے ہیں ۔"متانت بھرے لہجے میں کہتے وہ چاہ کر بھی "مینٹل ہیلتھ" نہیں کہہ پائی تھی۔حیدر پہلے تو اسے بے تاثر سی نگاہوں سے تکتا رہا تھا پھر ان بھوری آنکھوں میں کوئی چمک سی آن کوندی ۔اگلے پل وہ بڑا مبہم پن لئے مسکرایا تھا ۔اپنی کہنی سے اسکا ہاتھ نرمی سے الگ کرتے ہوا میں معلق چھوڑ کر اس نے سر کو دو تین بار جنبش دی تھی ۔
"تو تم یہ کہنا چاہ رہی ہو میں پاگل ہوں ۔پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں مجھے اور تمہیں اپنا آپ میرے ساتھ محفوظ محسوس نہیں ہوتا ۔"اپنے دونوں ہاتھ ٹراؤزر کی جیب میں ڈالے وہ برفیلے لہجے میں کچھ اس قدر قطعیت لئے بولا کہ صلہ نے بے اختیار اپنا ماتھا چھو لیا تھا ۔ممکن ہوتا تو وہ اپنا سر پیٹ بھی لیتی ۔لیکن بات پہلے ہی غلط رخ اختیار کر چکی تھی مزید بگاڑ کی گنجائش نہیں تھی ۔اپنی بے صبری و جلد بازی پر اسے تاسف نے آن گھیرا ۔شاید یہ موقع مناسب نہیں تھا ۔
"میرا وہ مطلب نہیں تھا حیدر آپ سمجھ نہیں رہے ۔"
"تم اس سب سے دور رہو صلہ ۔میرا ذہن پہلے ہی منتشر سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔مجھے مزید مت الجھاؤ ۔میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں میرا رویہ تمہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے ۔تو مجھے میری بات پر قائم رہنے دو ۔۔۔۔اسے میرے لئے مشکل مت بناؤ ۔ہوں ۔"دو انگلیوں سے اسکا گال تهپتهپاتے قطعیت سے کہتا وہ مسکراتا مڑا تھا ۔مگر اسکی آنکھوں کی تنبییہ صلہ کو اپنی جگہ منجمد کر گئی تھی ۔سانس ساكن ،دھڑکتے دل اور ٹھنڈے پڑتے ہاتھ پاؤں کے ساتھ اسے شدت سے ایک ہی احساس اپنے آپ میں جکڑے ہوئے تھا ۔کچھ بہت غلط ہو گیا تھا یا پھر ہونے والا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
"آج کیا بنا رہے ہو ؟"سنگی بنچ کے دوسرے کونے پر گردن نیچے پهینکے وہ تیز تیز کچھ ہاتھ چلا رہا تھا جب مانوس سی آواز پر سر اٹھا کر اپنے دائیں جانب دیکھا ۔چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے وہ اب اپنا لیپ ٹاپ بیگ درمیان میں بینچ پر احتیاط سے رکھ رہا تھا ۔شہیر کے چہرے پر مسکان روشنی بن کر پھیلی تھی ۔ہاتھ روکتے نوٹ بک بند کرتا وہ سر نفی میں ہلاتا اسکی طرف رخ کر چکا تھا جو اب گردن موڑ کر اسے دیکھتا ساتھ میں ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر رہا تھا ۔
"آج کچھ بنا نہیں رہا ۔بس ایسے ہی کچھ امپورٹنٹ کام کر رہا تھا ۔"اپنے مخصوص انداز میں بتاتا وہ اب اسکے ماتھے پر بکھرے بالوں کو دیکھ کر پر اسرار انداز میں ہنسا تھا ۔
"ایسے کیوں ہنس رہے ہو ۔بلکہ تم اکثر مجھے دیکھ کر ایسا کرتے ہو ۔"بینچ کی پشت پر بازو دراز کرتے ہوئے وہ ریلیکس ہو کر بیٹھا تھا ۔
"کچھ نہیں ۔"وہ اب ہنسی روکتا ٹال رہا تھا ۔
"شہیر ۔"
"اوکے اوکے ۔ بتا دیتا ہوں ۔گھوریں تو مت ۔آپ کے بال دیکھ کر مجھے ہنسی آ جاتی ہے ۔"اسکے کندھے اچکا کر کہنے پر مرتضیٰ کے ہاتھ بے ساختہ اپنے بالوں تک گئے تھے ۔
"میرے بال دیکھ کر ۔کیوں اچھے نہیں ہیں کیا ؟"تهكن زدہ چہرے پر تبسم سا بکھرا تھا ۔اب وہ بالوں کو ہاتھوں کی انگلیوں کی مدد سے ماتھے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا جو اسکے ہاتھ پیچھے کرتے ہی ڈھیٹوں کی طرح واپس ماتھے پر بکھر چکے تھے ۔
"میں نے کب کہا اچھے نہیں ہیں مگر میری مما کو بکھرے بال پسند نہیں ہیں وہ اریٹیٹ ہوتی ہیں ۔میرے بال بھی جب کبھی ایسے فار ہیڈ پر آ جائیں تو مجھے بھی ڈانٹ پڑتی ہے ۔مجھے یہ سوچ کر ہنسی آتی ہے اگر آپ مما کے سامنے ہوں تو آپ کو اس پر کتنی ڈانٹ پڑے ۔"وہ ایک بار پھر ہنس رہا تھا ۔مرتضیٰ نے بھی اس بار اسکا ساتھ دیا ۔آج صبح وہ لیٹ اٹھا تھا جلدی جلدی تیار ہوتے وہ بالوں میں جیل نہیں لگا پایا تھا ۔اور پورا دن وہ آفس میں بال ہی سنوارتا رہا تھا ۔کبھی كبهار اسے اپنے حد زیادہ سلكی اور سیدھے ماتھے پر پڑتے بال صحیح معنوں میں خوار کرنے لگتے تھے ۔
"سچ کہوں تو میں خود بڑا اریٹیٹ ہوتا ہوں ۔تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟"بھوک کا احساس ہونے پر بے دھڑک پوچھا گیا تھا ۔عجیب بات تھی وہ کسی سے پانی تک لے کر پینے کا مجاز واقع نہ ہوا تھا اور کہاں وہ اس چھوٹے سے بچے سے چیزیں مانگ کر کھانے لگا تھا ۔شہیر نے سے اثبات میں ہلاتے ہوئے پاس پڑے اپنے بیگ میں سے ٹفن برآمد کرتے اسکی جانب بڑھایا تھا ۔
"سینڈوچ ہے ۔"
"تم نہیں کھاؤ گے ؟"
اسکے ہاتھ سے لیتے وہ کھول کر سینڈچ نکال چکا تھا ۔شہیر جو ایک بار پھر نوٹ بک کھولے اس پر جھک چکا تھا مصروف سے انداز میں بولا ۔
"میں گھر سے کھا کر نکلا تھا یہ تو آپ کے لئے ہے ۔"
"لیکن تم لکھ کیا رہے ہو ؟"کھاتے ہوئے اسے تجسس ہوا ۔
"میں اپنے اگلے ٹاسک کے پوائنٹس تیار کر رہا ہوں ۔"اس کے بتانے پر سمجھنے کے سے انداز میں مرتضیٰ نے سر ہلایا ۔
"اور وہ ٹاسک کیا ہے ؟"کہتے ہوئے اس نے آخری بڑا سا بائٹ منہ میں رکھا تھا ۔شہیر نے ذرا برابر سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔پھر ارد گرد نظر دوڑائی ۔آس پاس کوئی اور فرد موجود نہیں تھا چلنے کے لئے بنائی گئی راہداری کے دوسری طرف اکا دکا لوگ بیٹھے تھے ۔
"مجھے مما کی شادی کرنی ہے ۔"واپس سر جھکاتے راز داری سے بتایا گیا تھا ۔جسے سن کر آخری نواله مرتضیٰ کے حلق میں بری طرح اٹکا تھا ۔وہ ہلکی آواز میں کھانستا سیدھا ہوتا آگے کی جانب جھکا تھا ۔شہیر نے چونک کر چہرہ اٹھاتے اسے کھانستے دیکھا پھر جھکتے ہوئے اپنی ٹانگوں کے پاس رکھی پانی کی بوتل اٹھا کر اسکی جانب بڑھائی تھی ۔مرتضیٰ نے بوتل پکڑ کر کھولتے تیزی سے ہونٹوں سے لگائی تھی ۔کھانسی رکی تو سانس بحال کرتے وہ مشکوک سے انداز میں اسکی طرف مڑا ۔
"یعنی کہ تمہاری مما کی شادی ؟"کچھ جھجک کر اس نے تصدیق کرنی چاہی تھی ۔بدلے میں مصروف مگر
پر یقین انداز میں سر ہلایا گیا تھا ۔ آخری گھونٹ پیتے بوتل کا ڈھکن لگاتے ہوئے وہ اب اس بات کو ہضم کرنے کی تگ و دو میں تھا ۔
"مما کو پتہ ہے اس ٹاسک کے بارے میں ؟"اس نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی اسکی بچگانہ سی سنجیدگی پر ۔
"نہیں ابھی نہیں ۔پہلے میں کوئی اچھا لڑکا تو ڈھونڈ لوں ۔"سمجھ داری سے کہتے ایک نظر اسے دیکھ وہ اب پنسل ٹھوڑی پر رکھے سبھی نکات بغور دیکھ رہا تھا پھر کچھ تشفی کے ساتھ مسکرا کر اسکی جانب متوجہ ہوا جو اس کے دیکھنے پر چہرے پر موجود دبا دبا سا تبسم بھی چھپا گیا تھا ۔
"اچھا دکھاؤ تو سہی شاید میں مدد کر سکوں لڑکا ڈھونڈنے میں ۔تمہیں کیسا لڑکا چاہیے ؟"ہاتھ بڑھا کر نوٹ بک کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ۔شہیر نے بنا تردد کے نوٹ بک اسکی جانب بڑھا دی تھی اور خود بھی کھسک کر تھوڑا نزدیک ہو کر بیٹھا تھا ۔
"تو سب سے پہلے لڑکا گڈ لکنگ ہونا چاہیے ؟"پہلا پوائنٹ پڑھ کر اس نے شہیر کی جانب دیکھا تھا جو شد و مد سے گردن ہلا رہا تھا ۔
"میری مما اتنی بیوٹی فل ہیں تو لڑکا بھی ہینڈسم ہونا چاہیے نا ۔"وہ اترا کر بولتا اسے تائیدی انداز میں سر ہلانے کے لئے مجبور کر گیا تھا ۔
"اور وہ بہت اچھی سیلری والی جاب بھی کرتا ہو ۔"دوسرا پوائنٹ بڑا مضبوط تھا ۔
"لڑکے کی جاب اچھی ہو گی تو مما کو جاب نہیں کرنی پڑے گی پھر وہ آرام سے گھر میں رہیں گی ریسٹ کریں گی ۔ابھی تو انہیں بہت کام کرنا پڑتا ہے وہ جاب پر جاتی ہیں ۔گھر کا کام کرتی ہیں ۔مجھے پڑھاتی ہیں تو تھک جاتی ہیں ۔"اس کے لب و لہجے میں ماں کے لئے کس قدر فکر اور محبت تھی ۔یک دم مرتضیٰ کو احساس ہوا جیسے اسکے سامنے کوئی نو سالہ بچہ نہیں بلکہ ادھیڑ عمر کوئی باپ بیٹھا ہو جو رشتہ دیکھتے ہوئے اپنی بیٹی کی ممکنہ آسائشوں اور آرام ده زندگی کو سیکیور کرنا چاہتا ہو ۔
وہ واپس نیچے دیکھتا اگلے نقطے پر آیا تھا ۔اور یہاں اسکی ہنسی نہیں رکی تھی ۔
"لڑکا زیادہ غصہ نہ کرتا ہو اور اسکا ٹالرینس لیول بہت ہائی ہو ۔"زبان بچگانہ تھی مگر بات پتے کی تھی ۔شہیر نے ایک بار پھر وضاحت کے لئے منہ کھولا تھا ۔
"میری مما کو غصہ نہیں آتا مگر جب آتا ہے تو بہت زور کا آتا ہے تب وہ مجھے بھی اتنی باتیں سنا دیتی ہیں حالانکہ وہ مجھے سب سے زیادہ پیار کرتی ہیں ۔اس لئے لڑکے میں ٹالرینس ہونی تو ضروری ہے تاکہ وہ بھی میری طرح چپ چاپ مما کی باتیں سن سکے ۔اور آگے سے غصہ نہ ہو ۔"مرتضیٰ نے جلدی جلدی دیگر نکات پر نظر دوڑا کر نوٹ بک بند کرتے اسکی جانب ستائشی انداز میں دیکھا تھا ۔
"لسٹ تو اچھی ہے یار مگر ایسا لڑکا ملے گا کہاں سے ؟جس میں اتنی ساری کوالٹیز ایک ساتھ ہوں ۔مشکل نہیں ہو جائے گا ۔"نوٹ بک بند کرتے واپس اسکی جانب بڑھائی جسے تھام کر مطمئین سا وہ اب بیگ میں ڈال رہا تھا ۔
"میں نے سب پتہ کر لیا ہے ۔میرج بیروز اس کے لئے کام کرتے ہیں ۔وہ لڑکا ڈھونڈ دیں گے ۔مگر وہ فیس لیتے ہیں جو کہ ابھی میرے پاس نہیں ہے مگر میں اپنی پاکٹ منی سے جمع کر لوں گا ۔"وہ پر جوش سا دکھائی دیتا تھا ۔یعنی اسکا ہوم ورک مکمل تھا ۔مرتضیٰ کو اسکی سنجیدگی دیکھ کر اب اچنبها ہونے لگا تھا اس نے تو کھیل کھیل میں بات شروع کی تھی مگر شہیر کی مستحکم آواز اسے اب بے سکون کرنے لگی تھی ۔
شہیر یہ بڑوں کی باتیں ہوتی ہیں یار ۔تم اس سب میں انوالو مت ہو ۔تمہاری ماما بڑی ہیں وہ بہتر جانتی ہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں ۔"نپے تلے الفاظ میں اس نے اس چھوٹی سی مخلوق کو باز رکھنے کی سعی کی تھی ۔
"میں اپنی ماما کا گارڈئین ہوں ۔نانو کہتی ہیں میں انکے گھر کا وہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔"بولتے بولتے وہ بدمزگی کا شکار ہوا تھا جیسے کچھ بھول رہا ہو ۔"ہاں یاد آ گیا نانو کہتی ہیں میں اپنے گھر کا اکلوتا مرد ہوں ۔اس لئے اپنی ماما کے بارے میں میں نہیں سوچوں گا تو اور کون سوچے گا ۔"
مرتضیٰ اسکے بردباری کے مظاہرے پر اپنے ہونٹوں پر امڈتی مسکراہٹ روک نہیں پایا تھا ۔اس وقت شہیر میں اسے بو بی کا عکس نظر آیا تھا ۔اسکی شادی کو لے کر وہ بھی تو ایسے ہی تفکرات کا شکار رہتے تھے ۔
"اوکے ۔۔۔۔جیسے تمہاری مرضی ۔مگر پھر میری صلح یہ ہے کہ اپنی كوالٹی لسٹ میں کچھ چینجز کر لو ۔یہ ساری كوالٹیز کسی ایک ہی شخص میں ہونا تھوڑا مشکل ہے ۔"
"اب ایسی بات بھی نہیں ہے ۔میں نے دیکھا ہے ایسا لڑکا ۔"شہیر نے نظریں چرا کر کچھ شرمیلے لہجے میں کہا تھا ۔مگر اسکا چہرہ روشنی سے جگمگا اٹھا تھا ۔مرتضیٰ جو پیچھے ٹیک لگائے بیٹھا تھا یک دم سیدھا ہوا تھا ۔
"کہاں دیکھا ہے ؟"اسکی طرف دیکھتے اسکی آواز میں اتاؤلا پن تھا ۔
"بس دیکھ رکھا ہے ۔آپ کو ابھی نہیں بتا سکتا ۔بلکہ میں نے یہ لسٹ ہی انہیں دیکھ کر بنائی ۔مجھے اپنے لئے بالکل ویسے بابا چاہیے ۔"وہ اسکی طرف دیکھ نہیں رہا تھا ۔ اسکے انداز میں اک جھجک سی تھی جو بالکل نئی تھی ۔مرتضیٰ نے ابرو اچکا کر نچلا لب کاٹتے پر سوچ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔اسکی چھٹی حس اسے جو اشارہ دے رہی تھی وہ فلحال اس پر یقین کرنے کی سکت اپنے اندر نہیں رکھ پا رہا تھا ۔پہلی بار اسے یہ خیال بے آرام کرنے لگا تھا آیا اسکی شہیر کے ساتھ اس قدر انوالومنٹ صحیح بھی ہے یا نہیں ؟
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
واپسی کا سفر بہت خموشی سے کٹا تھا کم از کم صلہ کی طرف سے تو بالکل خاموشی رہی تھی ۔حیدر بھی زیادہ تر چپ رہا تھا مگر کبھی بات کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اس قدر نارمل سے انداز میں اس سے بات کرتا کہ وہ اپنی جگہ ششدر رہ جاتی ۔
گھر واپسی تک کچھ سفر نے تهكن سے بے حال کر دیا تھا اور کچھ وہ جس ذہنی تناؤ کا شکار تھی اس کی عطا کردہ مژدگی تھی ۔اسکا چہرہ مرجھایا سا لگتا تھا ۔جس کا سب سے پہلے تزکرہ اسکی ملازمہ نے کیا تھا ۔
"بی بی لگتا ہے آپ کو کسی کی نظرلگ گئی ہے چہرہ کیسا کملایا سا لگتا ہے ۔کیسی ترو تازہ سی گئی تھیں یہاں سے آپ ۔"گہری ہمدردی سے اسے دیکھتی سمیرا نے کہا تھا ۔صلہ مسکرا کر اسے ٹال گئی تھی ۔حیدر نے آتے ساتھ ہی اعلان کر دیا تھا وہ کچھ دیر آرام کرے گا ۔صلہ کا دل اسکی طرف سے اس قدر وہموں کا شکار ہو رہا تھا کہ اسکی موجودگی میں بیڈ روم کی طرف جانا بھی اسے برزخ میں جانے کے مترادف لگ رہا تھا ۔وہیں لیونگ ایریا میں بیٹھ کر چائے پیتے اسے جہانگیر کا خیال آیا تھا ۔
انہیں کال کرتے اسے یاد آیا پچھلے کہیں دن سے اسکی ان سے بھی بات نہیں ہو پائی تھی ۔انہیں اپنی آمد کی اطلاع دی تو وہ کچھ ہی دیر تک آنے کا کہتے اگلے آدھے گھنٹے میں اسکے گھر کے ڈرائنگ روم میں موجود تھے ۔اور جو بات وہ اسے بتا رہے تھے اسے سن کر صلہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین آہستہ آہستہ سرکتی محسوس ہونے لگی تھی ۔وہ پھٹی پھٹی بے یقین نظروں سے باپ کا چہرہ دیکھ رہی تھی جہاں تفکر کے گہرے بادل منڈلا رہے تھے ۔
"میں تو خود پریشان ہو گیا تھا صلہ ۔تم سے رابطہ ہو نہیں رہا تھا اور حیدر وہ کال تک ریسیو نہیں کرتا تھا ۔ایک بار کال ریسیو بھی کی تو اتنے عجیب سے انداز میں بات کی کہ میرا دل تب سے بیٹھا جا رہا تھا ۔اس نے کہا مجھے کس بات کا ڈر ہے وہ تمہیں کسی کھائی سے دھکا نہیں دے دے گا ۔نہ ہی تمہیں کسی تہہ خانے میں بند کر دے گا جہاں گهپ اندھیرے کا راج ہو ۔اور یہ کہ میں بار بار اسے کال نہ کروں ۔اسکا رویہ بہت الگ سا تھا صلہ ۔میں واقع ہی ڈر گیا تھا ۔پہلے پہل مجھے لگا وہ مذاق کر رہا ہے شاید مگر پھر میری متواتر کالز کے جواب میں بھی اس نے میری کال ریسیو نہیں کی تھی ۔کہاں ہے وہ ۔اسے بلاؤ مجھے اس سے بات کرنی ہے ۔"
وہ حد درجه مضطرب لگتے تھے ۔پریشانی سے بار بار اپنے ماتھے کو چھوتے تھے ۔صلہ کی فق ہوئی رنگت دیکھ کر انہیں احساس ہوا تھا شاید انہیں اسے بنا پوری بات کی تہہ کے جائے یہ سب نہیں بتانا چاہیے تھا ۔
"ارے بیٹا تم کیوں اتنی پیلی پڑ رہی ہو ۔دیکھو ہو سکتا ہے وہ صرف مجھ سے ہلکا پھلکا مذاق کر رہا ہو ۔آج کل کے بچے ایسے مذاق بڑوں سے کر لیتے ہیں اس میں ایسی کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔"
اپنی دلیل انھیں خود بڑی بودی سی لگی تھی تو صلہ کیسے مطمئین ہو پاتی ۔نچلا لب کچلتے وہ اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ سوچ رہی تھی آیا اسے حیدر کے بارے میں جہانگیر سے بات کرنی چاہیے یا نہیں ۔اپنی سوچوں کے بھنور سے باہر اسے حیدر کی اچانک آمد نے نکالا تھا جو دروازے سے اندر داخل ہو رہا تھا ۔جہانگیر اور صلہ کی بیک وقت اس پر نگاہ پڑی تھی ۔جہانگیر اپنی جگہ سے اٹھے تھے مگر وہ کمال درجه اطمینان سے انکا اٹھنا نظر انداز کرتا صلہ کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا تھا ۔