Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaraan by Umme Abbas Last Episode

1 Posts
1 Users
0 Reactions
222 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

اسکا پیپر ورک مکمل ہونے تک وہ پاکستان میں جتنے دن رہا گھر سے باہر نہیں نکلا تھا ۔کتنے دن تک تو وہ آہٹ پر بھی بری طرح سے چونک جایا کرتا تھا ۔گلی میں سے ،یا ٹی وی پر بھی پولیس کی گاڑی حتی کہ اس سے مشابہہ ایمبولینس کے سائرن پر بھی اسکی حالت غیر ہونے لگتی تھی ۔بوبی جانتے تھے وہ ایک بڑے ٹراما سے گزرا ہے ۔وہ اسے کسی سائیکاٹرسٹ کو دکھانا چاہتے تھے مگر وہ کسی پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا ۔وہ جب بھی ڈاکٹر کا نام لیتے وہ دهاڑے مار مار کر روتا تھا بلا آخر انہوں نے یہ موضوع ہی بند کر دیا ۔

شارجہ آ کر اسکی طبیعت پر اچھا اثر پڑا تھا ۔وہ اب پہلے کی طرح ڈرتا نہیں تھا ۔انکے ساتھ باہر جایا کرتا تھا ۔اسکا اسکول میں داخلہ بھی ہو گیا تھا ۔اور انکی توقع کے بر عکس اتنا سب ہونے کے باوجود اسکی اکیڈیمک پرفارمنس بہت اچھی جا رہی تھی ۔پچھلا سارا کورس اس نے کور کر لیا تھا ۔وہ ہنستا تھا ،ان سے باتیں کرتا تھا اور ایسے لگتا تھا جیسے وہ اس ٹراما سے نکل آیا ہو ۔بوبی بھی اسکی طرف سے مطمئین ھو گئے تھے ۔انہوں نے تو جیسے اپنا آپ اس کے لئے وقف کر دیا تھا ۔ساری توجہ کا مرکز کوئی تھا تو مرتضیٰ حیدر کی ذات تھی یا شاید زندگی کا محور ہی وہ بن گیا تھا ۔

سب ٹھیک تھا سوائے اسکے ڈراؤنے خوابوں کے ۔جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے ۔مگر انہیں یقین تھا کبھی نہ کبھی وہ بھی اسے ڈرانا بند کر دیں گے ۔وہ کچھ اور بڑا ہوا تو پھر اس نے اپنے خوابوں کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیا اور بوبی کو لگا وہ زندگی میں اپنے تکلیف دہ ماضی کو مات دے کر آگے بڑھ گیا ہے ۔مگر وہ غلط تھے ۔وہ نہیں جانتے تھے انکا پوتا سمندر کی مانند ھو چکا تھا ۔اوپر سے شانت ،سکوت لئے ہوئے اور اندر بپهری ہوئی لہروں سے سب تہس نہس کرنے کے درپے ۔اور ان شوریده لہروں کی زد میں صلہ جہانگیر نے آنا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

ہائیر اسٹڈیز کے لئے وہ لندن گیا تھا ۔بوبی نے اسکی ہر خواہش کی طرح اس بار بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور وہ تین سال اس نے وہاں پر اسٹڈیز کے علاوہ پارٹ ٹائم جاب بھی کی تھی ۔اسکے سارے اخراجات بوبی اٹھاتے تھے مگر پھر بھی وہ دو دو پارٹ ٹائم جابز کرتا رہا تھا اور بوبی کو اس نے اس بارے میں بے خبر رکھا تھا ۔اپنی تعلیم کے آخری سال میں اس نے چھٹیوں میں بوبی کے پاس جانے کے بجائے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تھا ۔یہ اسکے پاس آخری موقع تھا وہ نہیں جانتا تھا اسے کیا کرنا تھا مگر ایک بات طے تھی وہ جہانگیر مراد کو تباہ و برباد کر دینا چاہتا تھا ۔ایسی تکلیف سے دوچار کرنا چاہتا تھا جو وہ اپنی آخری سانس تک سہتا رہے مگر اسے کہیں کوئی دوا نہ ملے  ۔بوبی سے اس نے کہا تھا وہ دوستوں کے ساتھ گھومنے کے لئے پیرس جا رہا ہے ۔

اور انہوں نے بخوشی اجازت بھی دے دی تھی ۔اسکے پاس ڈیڈھ مہینہ تھا ۔جو کرنا تھا اسی کم مدت میں کرنا تھا ۔شروع کے چار پانچ دن تو اس نے جہانگیر مراد کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کرنے میں صرف کیے تھے ۔زینب کی موت کی اطلاع بوبی نے اسے دی تھی تب وہ لندن میں تھا ۔اسے دکھ ضرور ہوا تھا کہ وہ اسکی ماں تھی ۔مگر اتنے سالوں کی دوری نے اسکی اپنی ماں سے ویسی جذباتی واسبتگی مقفود کر دی تھی جیسی ایک بیٹے کی اپنی ماں کے لئے ہونی چاہیے تھی ۔

کتنے دنوں تک وہ مناسب فاصلے سے جہانگیر اور صلہ کو واچ کرتا رہا تھا ۔جہانگیر صلہ کے لئے رشتے کی تلاش تھا اور یہاں اس نے ایک اور پلان تیار کیا تھا جس میں جہانگیر کے ساتھ صلہ بھی شامل ہو گئی تھی ۔سب سے پہلے اس نے اپنے لئے کرائے کا گھر تلاش کیا تھا اور اسکے ساتھ ہی کرائے کے والدین بھی ۔میرج بیورو کے توسط سے جہانگیر مراد کے گھر تک رسائی حاصل کی تھی ۔اور آگے کا پروسیجر اسکی سوچ سے بڑھ کر آسان ثابت ہوا تھا ۔صلہ سے ملاقات کے دوران اسے لگا تھا شاید وہ اتنی جلدی آمادگی ظاہر نہ کرے مگر یہاں وہ غلط ثابت ہوا تھا ۔

شادی جلدی ہوئی تھی ۔اس نے خود کو ایک بہت ہی لونگ اور کئیرنگ شوہر کے طور پر متعارف کیا تھا ۔وہ چاہتا تھا صلہ جلد از جلد اس سے جذباتی طور پر مانوس ہو جائے تاکہ جب وہ اسے چھوڑے تو یہ چوٹ زیادہ کاری ثابت ہو ۔تبھی تو جہانگیر مراد بھی تڑپے گا  ۔اور ایسا ہوتا چلا گیا کبھی کبھی صلہ کی معصومیت اور بے ضرر پن اسے گلٹی کرنے لگتا تھا۔بھلا جو ہوا تھا اس میں اسکی کیا غلطی تھی ، مگر جلد ہی وہ اس کیفیت سے باہر نکل آتا تھا ۔اگر غلطی صلہ کی نہیں تھی تو مرتضیٰ حیدر کی کیا غلطی تھی ۔اندر سے آنے والی یہ ایک آواز باقی ہر آواز کا گلہ گھونٹ دیتی تھی ۔

اس نے جیسا چاہا تھا سب ویسا ہی ہوا تھا ۔بدلے کا چکر پورا ہوا ،اور اپنی طرف سے وہ یہ باب بند کرتا واپس بھی چلا گیا تھا مگر اس آدھی ادھوری کہانی کے بطن سے ایک نئی کہانی نے جنم لینا تھا کچھ سالوں کے بعد ۔اوراس وقت کون جانتا تھا وہ کہانی کتنے زندگی کے خوب صورت پنوں پر مشتمل تھی ۔دو لوگوں کے بچھڑنے سے لے کر دو دلوں کے جڑنے تک کی کہانی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں ۔ہمیں عادت ہوتی ہے زیادہ تر اپنی من منشاء کے مطابق صرف وہی رخ دیکھنے کی جو ہم دیکھنا چاہتے تھے ۔صلہ کو اس سے ہمیشہ ایک ہی گلہ رہا تھا اس نے اسے کیوں اپنے انتقام کا حصہ بنایا ،بھلا اسکی کیا غلطی تھی ؟

مگر بوبی کی زبانی ساری کہانی سننے اور تصویر کے دوسرے رخ سے آشنا ہونے کے بعد اس نے جانا تھا ۔دس سالہ مرتضیٰ حیدر کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی ۔یہ زہر اس کے اپنے باپ کا گھولا ہوا تھا جو اسکی رگوں میں بہتا وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا تھا اور آپ کسی کے اندر زہر بھریں اور پھر یہ امید کریں کہ وہ زہر اگلے گا نہیں نری حماقت ہی تو ہے ۔

اسے حیدر سے اب بھی گلہ تھا اس نے ایک بار بھی اسے سب بتانے کی کوشش نہیں کی تھی ،اس نے ندامت کا اظہار کیا تھا ،محبت کا راگ بھی الانپا تھا بس اسکا دل صاف کرنے کی ذرا برابر کوشش نہیں کی ۔اور دل کے میلے آئینے میں اسکا صاف شفاف عکس بھلا وہ دیکھ سکتی بھی کیسے تھی ۔اس نے یہ کیوں نہیں سوچا ؟

بوبی نے اسے سوچنے کے لئے وقت دیا تھا ۔وہ ابھی کچھ دن پاکستان میں ہی تھے اور وہ چاہتے تھے وہ کوئی ختمی فیصلہ کر لے ۔اور اس ختمی فیصلے سے انکی کیا مراد تھی وہ اچھے سے جانتی تھی ،تب سے دل کی بے کلی اور دو چند ہو گئی تھی ۔

وہ اسے کھونے کی سکت بھی نہیں رکھتی تھی تو ساتھ رہ بھی تو نہیں سکتی تھی وہ بھی اس صورت میں جب اسکے ہاتھ بڑھانے پر وہ اسے دهتکار چکی تھی ، اپنے منہ سے اسے انکار کر چکی تھی ۔اب اپنے الفاظ واپس کیسے لے لیتی ۔اسکی "میں" بری طرح اسکے آڑے آ رہی تھی ۔اور اپنی "میں "مارنا آسان کب ہوتا ہے ۔

اس دن بھی وہ شام کو آئے ہوئے تھے ۔صلہ آفس سے واپس آئی تو وہ آگے پہلے سے موجود تھے ۔شہیر اور خالہ کے ساتھ لیونگ ایریا میں بیٹھے تھے ۔میز پر کھانے پینے کے لوازمات رکھے ہوئے تھے ۔یعنی کہ وہ کافی دیر سے آئے بیٹھے تھے ۔

صلہ سلام دعا کے بعد اٹھ کر کمرے میں گئی تھی ۔آدھ کھلے دروازے سے ان دونوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔

"میں تو چاہتا ہوں بچے کم از کم ایک بار ضرور صلح کے بارے میں سوچیں ۔بات ان دونوں کی نہیں ہے ۔ساتھ میں شہیر بھی ہے ۔ایک تلخ تجربہ زینب اور مرتضیٰ کی صورت میں ماضی میں ہو چکا ہے ۔سب اپنی اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ گئے تھے ۔بس مرتضیٰ کہیں پیچھے رہ گیا تھا ۔مگر شہیر کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔ اسکے ماں باپ دونوں اس پر جان چھڑکتے ہیں ۔مجھے پورا یقین ہے اسکے ساتھ انشاء اللّه کچھ برا نہیں ہو گا ۔مگر میں یہ بھی نہیں چاہوں گا شہیر کی وجہ سے صلہ اکیلی رہ جائے ۔اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے ۔جو فیصلہ کرے گی مجھے اور مرتضیٰ دونوں کو منظور ہو گا ۔مگر زندگی اس طرح بھی نہیں گزرتی جس طرح یہ دونوں چاہتے ہیں ۔میں نے مرتضیٰ سے بھی دو ٹوک بات کی ہے ۔اگر صلہ اسکے ساتھ رہنے پر آمادہ ہوئی تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بھلا کیا بات ہو سکتی ہے ۔لیکن اگر اس نے اس سے الگ رہنے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا تو پھر میں چاہوں گا مرتضیٰ زندگی میں آگے بڑھے ۔اس سے غلطی ہوئی ضرور ہے اور اس نے اسکا كفارا ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی ہے ۔اب اگر حالات بہتر نہیں ہوتے تو میں اسے اسکی زندگی یوں ہی برباد کرنے نہیں دے سکتا ۔اتنے سالوں تک وہ شادی کے نام پر مجھے ٹالتا رہا ہے تب مجھے پورا سچ معلوم نہیں تھا ۔مگر اب میں بھی اسکی نہیں سنوں گا ۔بس صلہ ایک بار اپنا فیصلہ سنا دے ۔"

اور اندر دم سادھے انکی باتیں سنتی صلہ اپنی انگلیاں چٹختی رہ گئی ۔

"صحیح بات ہے بھائی صاحب ۔آج کل کے بچے تو اپنی کرنے والے ہیں ۔ہم بڑے تو بس نصیحت ہی کر سکتے ہیں ۔باقی فیصلے تو انکے اپنے ہی ہوتے ہیں ۔اور ویسے بھی یہ ان دونوں کی ذاتی زندگی کا فیصلہ ہے بہتر ہو گا وہ خود ہی لیں ۔ویسے اگر صلہ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تو کوئی لڑکی ہے آپ کی نظر میں مرتضیٰ بیٹے کے لئے ۔"

کن اکھیوں سے آدھ کھلے دروازے سے نظر آتی صلہ کی پشت کو گردن اچک اچک کر دیکھتے خالہ نے قدرے بلند آواز میں کہا تھا ۔

"بہن جی رشتے تو بہت ہیں وہ بھی تو کسی پر آمادگی ظاہر کرے ۔لیکن اب ایک بچی ہے نظر میں ۔لگتا ہے بات بن جائے گی ۔مرتضیٰ کے ساتھ ہی جاب کرتی ہے ۔خاندان بھی دیکھا بھالا ہے ۔اسکے باپ سے اچھی سلام دعا بھی ہے یوں سمجھیں خاندانی مراسم ہیں ۔"

اور اس سے زیادہ سننا اسکے لئے اب ممکن نہیں رہا تھا ۔وہ اٹھ کر واش روم میں چلی گئی تھی اور واش روم کا دروازہ جس قدر غصے سے بند کیا گیا تھا آواز باہر تک آئی تھی ۔ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا ۔خالہ کی جتاتی نظریں بوبی پر ٹکی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں میں نے کہا تھا نا۔

"بہن جی کیا لگتا ہے آپ کو یہ پلان کام تو کرے گا ناں ؟"

عبدلرحمان کاظمی ذرا آگے کو جھکتے دھیمی آواز میں کہہ رہے تھے ۔جواب میں رقیہ خالہ نے مطمئین انداز میں مسکراتے سر کو اثبات میں جنبش دی تھی ۔

"بے فکر رہیں بھائی صاحب یوں سمجھیں گرتی دیوار کو دیا جانے والا یہ آخری دھکا ہے ۔"

خالہ کو اپنے بنائے منصوبے پر جیسے پورا یقین تھا ۔

"ذرا دیکھ کر ۔کہیں میرا پوتا ہی اس گرتی دیوار کے نیچے نہ دب جائے ۔"

"ہائے ہائے بڑے مزاحیہ ہیں بھائی صاحب آپ بھی ۔"خالہ انکی بات پر ہنسی تھیں اور وہ بے چارے اب بھی شش و پنج میں مبتلا پھیکا سا مسکرا دیے تھے ۔

"شہیر کہاں گیا ہے ؟"

"یہ ساتھ والے فلیٹ میں اسکا دوست رہتا ہے اسکی طرف گیا ہے۔کہہ رہا تھا کچھ پوچھنا ہے اسکول کے کام کے بارے میں ۔ ابھی آتا ہو گا ۔"

انکے کہنے پر وہ سر ہلا کر چپ ہو گئے تھے ۔خالہ اٹھ کر میز پر رکھے برتن اٹھانے لگی تھیں ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

پارک میں موجود کینٹین سے شہیر کے لئے جوس اور چپس لیتے وہ مڑی تو اپنی بے دھیانی میں پیچھے مناسب فاصلے پر کھڑے اس خوبرو سے  شخص سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی ۔غلطی اسکی اپنی تھی اس لئے معذرت کی ،جواباً اس شخص نے بھی رسمی سی مسکراہٹ کے ساتھ سائیڈ پر ہوتے اسے جانے کا راستہ دیا تھا ۔اسکے ساتھ شہیر کا ہم عمر ہی ایک بچہ تھا جو اسکا ہاتھ پکڑے ہوئے کھڑا تھا ۔

یہ شہیر کی مخصوص جگہ تھی ۔عموماً  وہاں اور کوئی نہیں آ کر بیٹھتا تھا ۔مگر آج وہاں اسکے آنے سے پہلے ہی بینچ پر کوئی بیٹھا ہوا تھا ۔اور اسکا بیٹھنا خلاف توقع اسے برا بھی نہیں لگا تھا ۔وجہ تھی اس کی گود میں گول مٹول گپلو سے اس آٹھ نو ماہ کے بچے کا ہونا ۔جو بار بار اپنی انگلی منہ میں ڈالتا اور وہ لڑکی اسکے منہ سے اسکا ہاتھ نکال کر سر نفی میں ہلاتی ۔جس پر وہ بچہ کلکاری مارتا ۔بینچ کے پاس اپنا بیگ نیچے سبزه زار پر رکھتے وہ وہیں کھڑا مسکرا کر انہیں دیکھ رہا تھا ۔جب سیاہ کڑھائی والی چادر لئے وہ لڑکی اسکی طرف متوجہ ہوئی تھی اور اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر مسکرائی تھی ۔

شہیر کچھ جھجکتا ہوا اس کے پاس گیا تھا ۔جھک کر اس کی گود میں بیٹھے بچے کو دیکھا پھر کچھ جهینپے سے انداز میں اسکے گال کو انگلی سے نرمی سے چھوا تھا ۔

"اسٹاپ اٹ ۔پیچھے کرو اپنا ہاتھ ۔"پیچھے سے آتی غصے بھری پتلی سی آواز پر وہ بدک کر سیدھا ہوتا ہاتھ پیچھے ہٹا چکا تھا ۔گردن موڑ کر دیکھا وہ اسی کی ہم عمر دبلی پتلی سی سیاہ آنکھوں اور لمبے بالوں والی لڑکی تھی ۔جو چہرے پر نا پسندیدگی کے تاثرات لئے اسے گھور رہی تھی ۔

"حریم ۔"بینچ پر بیٹھی اس لڑکی نے اسے ذرا تنبیہی انداز میں پكارا تھا ۔

"کیا ماما آپ بھی ۔یہ منصب کو ٹچ کر رہا ہے اور آپ منع بھی نہیں کر رہیں ۔کیا پتہ اس نے اپنے ہاتھ دھوئے بھی ہیں یا نہیں ۔منصب کو جراثیم لگ سکتے ہیں وہ بیمار پڑ سکتا ہے ماما ۔"

اسکی عمر بھلے کم تھی مگر انداز دادی اماں والا تھا ۔شہیر نے اسکی بات پر جز بز ہوتے اپنے دونوں ہاتھ سامنے پھیلا کر  دیکھے ۔صاف شفاف ہتھیلیاں سامنے تھیں ۔

"ہاؤ روڈ شی از ۔"

بنا آواز کے اس نے اس لڑکی کو دیکھتے پہلی رائے قائم کر لی تھی ۔

"ایسے نہیں کہتے حریم ۔وہ بس منصب کو پیار کر رہا تھا ۔"

دعا نے شہیر کا خفت کے مارے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر بیٹی کو ڈانٹا تھا ۔

"تو اپنے بےبی کو پیار کرے نا ۔یہ تو میرا اور مزمل کا بےبی ہے ۔ہم نے اللّه پاک سے مانگا تھا ماما ۔"

بنا کوئی اثر لئے وہ تنک کر بولی تھی ۔دعا کا جی چاہا وہ یہی اپنا ماتھا پیٹ ڈالے ۔یہ حریم بھی ناں اسے اکثر و بیشتر یوں ہی ناکوں چنے چبوا دیا کرتی تھی ۔

وہاں آتی صلہ نے ناسمجھی سے شہیر کا سرخ پڑتا بھینچے ہونٹوں والا چہرہ دیکھا تھا اور پھر ان اجنبی چہروں کو ۔صلہ کو دیکھ کر شہیر کی آنکھوں میں شکایت سی ابھری تھی ۔

"کیا ہوا ہے ؟"اسکے بالوں پر ہاتھ رکھتے اس نے بینچ پر بیٹھی لڑکی کی مسکراہٹ کا جواب مسکرا کر دیتے شہیر کی طرف دیکھا تھا ۔

"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوتا ہے ماما ۔آپ ہی مجھے نہ خود بےبی لا کر دیتی ہیں اور نہ اڈاپٹ کرنے دیتی ہیں ۔اب دیکھیں یہ کتنی پراؤڈ ہو رہی ہے کیوں کہ اسکے پاس بے بی ہے اور میرے پاس نہیں ہے ۔"حریم کی طرف اشارہ کرتے اس نے ماں سے شکوہ کیا تھا اور حریم نے اپنی ٹیل پونی کو یوں تفاخر سے جھٹکا تھا جیسے وہ کہیں کی پرنسس ہو ۔

دعا نے اسکی بات پر اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کو چہرہ جھکا لیا تھا ۔اور صلہ خفت کے مارے زبردستی مسکرائی تھی ۔

"شہیر ہم گھر جا کر بات کریں گے بیٹا ۔"اس نے اسکی ناراضگی دور کرنی چاہی ۔

"نہیں اب میں بابا سے بات کروں گا ۔وہ شارجہ سے میرے لئے بے بی بھیج دیں گے ۔آپ رہنے دیں ۔"

حریم کو دیکھتے اسے رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا اس کے پاس بے بی نہیں تھا ۔ایک عرصے بعد اسے پھر سے دورہ پڑا تھا ۔

"شہیر یہاں بیٹھو بیٹا ۔میں بےبی آپ کی گود میں دیتی ہوں ۔"دعا نے شہیر سے کہتے ذرا سخت نظروں سے حریم کو وارن کیا تھا اور ماں کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر وہ منہ پھلائے چپ ہی رہی تھی ۔

شہیر نے صلہ کی جانب دیکھا ،اسکے آنکھ کے اشارے سے اجازت دینے پر وہ دعا کے ساتھ بینچ پر بیٹھ گیا تھا ۔

احتیاط سے منصب کو اسکی گود میں بٹھایا تو شہیر کی آنکھوں کی چمک میں اور اضافہ ہونے لگا تھا ۔

کچھ دیر بعد وہاں مزمل بھی آ گیا تھا اسکے ہاتھ میں کھانے پینے کی اشیا تھیں ۔صلہ نے اسے دیکھا ،یہ وہی بچہ تھا جو کینٹین پر اس شخص کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا ۔اور ان سے کچھ فاصلے پر وہ شخص بھی کھڑا نظر آیا تھا ۔تو یہ اسکی فیملی تھی اور وہ صلہ کی موجودگی کے باعث وہاں فاصلے پر ہی رک گیا تھا ۔

اگلے پانچ منٹ میں شہیر ،مزمل اور حریم کا آپسی تعارف ہو چکا تھا ۔مزمل نے دوستانہ انداز میں مسکرا کر شہیر سے ہاتھ ملايا تھا ۔حریم اور مزمل فارس کے ساتھ پلے ایریا میں جانے لگے تو مزمل نے شہیر کو بھی آنے کی آفر کی تھی ۔اور پہلی بار ایسا تھا وہ بھی یہاں بیٹھ کر ڈرائنگ کرنے کے بجائے انکے ساتھ کھیلنے جانا چاہ رہا تھا ۔صلہ کی اجازت پا کر خوشی خوشی مزمل کے ساتھ آگے بڑھ گیا تھا ۔فارس انکے ساتھ گیا تو صلہ وہیں بینچ پر بیٹھ گئی ۔

ہاتھ بڑھا کر دعا کی گود میں موجود منصب کا گال چھوا ۔

"میرا نام دعا ہے ۔دعا فارس ۔"دعا نے مسکرا کر پہل کی تھی ۔

"میں صلہ ہوں ۔"

"آپ کا بیٹا بہت کیوٹ ہے ماشاءالله ۔"دعا نے شہیر کے بارے میں کہا تھا ۔صلہ سر جھٹک کر مسکرا دی ۔

"اسے چھوٹے بچے بہت اچھے لگتے ہیں ۔"

"تبھی تو اس عمر میں وہ بے بی اڈاپٹ کرنے کا سوچ رہا ہے ۔"

دعا کے کہنے پر وہ دونوں ایک ساتھ ہنسی تھیں ۔

"وہ اکیلا ہے تو زیادہ فیل کرتا ہے ۔مگر صرف کبھی کبھی ۔"

"آپ کے ہسبنڈ آ ؤٹ آف کنٹری ہوتے ہیں کیا ؟"

دعا کے پوچھنے پر صلہ نے سر ہاں میں ہلایا تھا ۔

"مشکل ہوتا ہے ہسبنڈ کے بغیر بچوں کو پالنا ۔میرے ہسبنڈ بھی پانچ سال باہر رہے ہیں اور وہ ٹف ٹائم تھا ۔بچے مس کرتے ہیں بہت ۔"

دعا اسے دیکھتی بول رہی تھی ۔پتہ نہیں کیوں اس میں تین سال پہلے والی دعا کی جهلک نظر آئی تھی ۔

"پتہ نہیں کیوں سب کو لگتا ہے شوہر کے بغیر اکیلی عورت سروائیو نہیں کر سکتی ،اپنے بچے کی اچھے سے تربیت نہیں کر سکتی ۔حالانکہ میرے خیال میں وہ سب کچھ کر سکتی ہے ۔"

آج کل وہ جس کشمکش کا شکار تھی ۔کوئی سننے والا چاہیے تو تھا اور ایک اجنبی سامع سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس سے آپ نے دوبارہ ملنا نہ ہو ۔جو آپ کو جج نہ کرے ۔

"اکیلی عورت سب کچھ کر سکتی ہے،میں اتفاق کرتی ہوں آپ کی بات سے  ۔مگر اس سب کچھ کے چکر میں وہ خود کہیں کھو جاتی ہے صلہ ۔بہت سی ذمہ داریاں اسکے کندھوں پر آ گرتی ہیں جنہیں نبهاتے نبهاتے اسکی اپنی خوشی ،اپنی ذات کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے ۔"دعا نے منصب کے منہ سے اسکی انگلیاں نکالتے،ہاتھ میں پکڑے ٹشو سے اسکا منہ صاف کرتے  ہوئے کہا تھا ۔

"اور اگر ان خوشیوں کی قیمت اسکی عزت نفس ہو تو ؟خوشیوں کے چکر میں اپنی عزت نفس داؤ پر لگا دینی چاہیے ؟"

وہ اس سے وہ سوال پوچھ رہی تھی جس میں آج کل وہ خود الجھی ہوئی تھی ۔دعا نے نظر اٹھا کر اسکا الجھن آمیز چہرہ دیکھا ۔

"برا مت مانئیے گا صلہ ۔لیکن اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے شئیر کر سکتی ہیں ۔ہو سکتا ہے کوئی راہ نکل آئے ۔میں ہر ایک سے ایسے نہیں کہتی مگر آپ میں مجھے اپنا آپ دکھائی دے رہا ہے ۔"اس کا دوستانہ انداز اور خیر سگالی مسکراہٹ ۔صلہ نے اسکا بے ریا چہرہ دیکھا تھا ۔

"میرے مسئلے الگ ہیں آپ سے ۔اللّه نہ کرے وہ مسائل کبھی آپ کو دیکھنے پڑیں ۔ماشاءالله آپ کی ایک مکمل اور ہیپی فیملی ہے ۔دراصل میں آج کل ایک الجھن میں گھری ہوئی ہوں ۔سمجھ نہیں آ رہا دل چاہتا کیا ہے ۔آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تو اپنے کیے فیصلے اور الفاظ راہ کاٹنے لگتے ہیں ۔پیچھے قدم کھینچتی ہوں تو بھی دل بے چین سا ہونے لگتا ہے ۔آج سے پہلے اتنی کنفیوز کبھی نہیں رہی میں ۔" وہ مغموم سی مسکرائی ۔

دعا اسے بغور دیکھ رہی تھی ۔وہ صحیح تھی صلہ وہیں کھڑی تھی جہاں تین سال پہلے وہ خود کھڑی تھی ۔دو عورتیں ،دو مختلف کہانیاں ،بالکل الگ حالات مگر پھر بھی کچھ تھا جو مشترک تھا اور وہ تھا دل کا دو ٹکڑوں میں بٹ کر حالت جنگ میں ہونا ۔چناؤ کا مشکل فیصلہ ۔

"میں نہیں جانتی صلہ آپ کے کیا مسائل ہیں ،میں یہ بھی نہیں جانتی آپ کس قسم کے حالات سے گزر رہی ہیں ، مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں  آپ کشمکش کا شکار ہیں ۔ہر انسان ہوتا ہے چناؤ کے وقت دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ۔کبھی یہ وقت مجھ پر بھی آیا ہے ۔آج مجھے دیکھ کر لوگ رشک کرتے ہیں ،محبت و عزت کرنے والا شوہر ،بچے ،گھر ،غرض ہر نعمت ہے میرے پاس ۔مگر اس سب کے لئے میں نے کہاں کہاں اپنا آپ مارا ہے ،کیا کچھ نظر انداز کیا ہے یہ کسی کو نظر نہیں آتا ۔ہر عورت کو کرنا پڑتا ہے ،اس لئے نہیں کہ وہ کمزور ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ زیادہ مضبوط ہوتی ہے ۔وہ وہ باتیں سہہ جاتی ہے جنہیں برداشت کرنا مرد کے ظرف سے باہر کی بات ہوتی ہے ۔بہت کچھ دیکھ کر ان دیکھا کر جاتی ہے ۔جہاں برداشت کرنا مشکل ہو وہاں صبر کر جاتی ہے ۔میں یہ نہیں کہوں گی کہ عورت اپنی عزت نفس پر خوشیوں کو ترجیح دے ۔ایسا کرے گی تو بھی خوش نہیں رہ سکے گی ۔مگر بیچ کی بھی تو کوئی راہ ہو گی ۔اسے تلاش کرنے کی کوشش کرے ۔کوئی ایسی راہ جہاں اسکی خود داری بھی قائم رہے اور خوشیاں بھی نصیب بن جائیں تو وہاں بے جا ضد پر اڑ کر سب اپنے ہاتھوں تباہ بھی نہ کرے ۔کبھی کبھی جسے ہم اپنی ہار تصور کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری قدر و منزلت میں اضافے کا باعث ہوتا ہے ۔اور یہ وقت ثابت کرتا ہے ۔"

صلہ نے اسے تعجب سے دیکھا تھا ۔دیکھنے میں کتنی کم عمر اور چہرے سے ہر غم سے آزاد لگتی تھی ۔مگر اپنے حصے کی تکلیفیں شاید اس نے بھی اٹھائی تھیں ۔زندگی نے کچھ نہ کچھ سیکھ اسے بھی دی تھی ۔

اور وہ دل پر پڑے بہت سارے بوجھ سے آزاد ہو گئی تھی ۔شاید اب فیصلہ لینا آسان ہو گیا تھا ۔یہ عزت نفس اور محبت کے بیچ کی جنگ نہیں تھی ۔عزت نفس تو کب کی سرخرو ہو گئی تھی ۔یہ اب اسکی میں اور محبت کے درمیان چناؤ کا فیصلہ تھا ۔اسکے لئے جھکنا مشکل ہو رہا تھا ۔اپنی بات سے پیچھے ہٹنا ،وہ برملا اسے باور کروا چکی تھی وہ اسکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔اب اسکا ہاتھ تھامتے جھجک کا شکار ہو رہی تھی ۔مگر اب وہ بیچ کی راہ تلاش کر لے گی ۔دل پر سکینت سی طاری ہوتی چلی گئی ۔

۔بچے واپس آ گئے تھے ۔فارس اس بار بھی ان سے کچھ فاصلے پر رک گیا تھا ۔

"آپ سے مل کر بہت اچھا لگا دعا ۔کبھی کبھی راہ چلتے بھی ملنے والے ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں ۔اور وہ ہمارے لئے وہ کر جاتے ہیں جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے ۔"

شہیر کو آتا دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔

"مجھے بھی بہت اچھا لگا صلہ ۔زندگی بھی کہاں کہاں کس کس سے ملا دیتی ہے ۔ہم اسلام آباد کے رہائشی ہیں ۔میرے ہسبنڈ کا کچھ کام تھا یہاں تو بس فیملی ٹور بھی ہو گیا ساتھ ۔شاید آپ سے ملنا یوں ہی لکھا تھا ۔"وہ بتاتے ہوئے دهیما سا ہنسی تھی ۔

"زندگی میں دوبارہ کبھی شاید ملاقات نہ ہو مگر میں دعا کروں گی آپ کے لئے ۔آپ کی آسانیوں کے لئے ۔"

وہ جتنی پیاری تھی اتنے ہی پیارے دل کی بھی مالک تھی ۔اور یقیناً وہ زندگی کی ہر خوشی ڈیزرو کرتی تھی ۔صلہ نے مسکرا کر اسے دیکھتے الوداعی کلمات کہے تھے ۔اور شہیر کو لے کر وہاں سے چلی گئی ۔

اسکے جانے کے بعد فارس اسکے پاس آ کر بیٹھا تھا ۔دعا اب بھی دور جاتی صلہ اور شہیر کو دیکھ رہی تھی ۔اسے دیکھتے اس کے دل نے اسکے لئے دعا کی تھی ۔

"بڑی شناسائیاں نکل آئی تھیں دعا فارس ۔میں تو اب جیلس ہونے لگا تھا ۔"

منصب کو اسکی گود سے لیتے وہ اسکا مسکراتا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔پہلے سے تھوڑا صحت مند مگر متناسب سراپا لئے ،اسکے چہرے کی رعنائیاں آج بھی ویسی ہی تھیں ۔یا پھر فارس کے لئے وہ ہمیشہ ایسے ہی رہنے والی تھی ۔دعا نے چونک کر رخ اسکی طرف موڑا ،ساتھ  اسے ہلکا سا گھورتے تاسف سے سر جھٹکا تھا ۔

"میں اس بات پر ضرور خوش ہوتی اگر ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہوتی ۔شادی کے آٹھ سال بعد ،تین بچوں کے ہوتے ہوئے آپ کے منہ سے یہ سن کر مجھے اب جھوٹ موٹ کا گمان ہونے لگتا ہے ۔"

وہ آج بھی اسکے ذرا سے اظہار الفت پر سرخ پڑنے لگتی تھی اور پھر فارس اسے چھیڑتا تھا اس لئے یہ تکنیک اسکے لئے کار آمد ثابت ہوتی تھی وہ اس کا خود پر سے دھیان بٹانے کو کچھ نہ کچھ ایسا بول دیا کرتی تھی ۔

منصب کا گال چومتے اوپر کی طرف کرتے اس نے دعا کو خشمگیں نظروں سے دیکھا تھا ۔

"قدر ہی نہیں میری محبتوں کی تمہیں ۔کبھی جو آگے سے کوئی خوب صورت جواب دیا ہو تم نے ۔"

"یہ تین خوب صورت جواب میرے ہی دیے ہوئے ہیں فارس احمد ۔انہی پر اکتفا کریں آپ ۔"

گزرتے وقت کے ساتھ فارس کی محبت اور اعتماد نے اسے اچھا خاصا پر اعتماد بنا دیا تھا ۔کہتے ہوئے اٹھ کر وہ حریم اور مزمل کی طرف بڑھی تھی ۔فارس نے اسکے جواب سے محظوظ ہوتے مسکراتی نظروں سے اسکی پشت کو دیکھا تھا اور تبھی دعا نے پلٹ کر اسے نرم تاثر لئے چمکتے جگنوؤں سی روشنی آنکھوں میں سمائے ،مسکراتے ہونٹوں سے دیکھا تھا ۔اسے لفاظی اظہار کی بھلا کیا ضرورت تھی ۔وہ تو خاموشی میں بھی با کمال تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . .

بوبی اس وقت گھر پر نہیں ہوں گے یہی سوچ کر اس نے اپنے پاس موجود كیز سے ڈور ان لاک کیا تھا ۔اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے اسے کچھ عجیب لگا ضرور تھا مگر اس نے سر جھٹک دیا ۔

اپنا لیگج سائیڈ پر رکھتے وہ وہیں ٹی وی لاؤنج میں ہی صوفے پر ڈھے سا گیا تھا ۔

ماتھے پر بکھرے بال اور چہرے پر تهكن کے آثار لئے ، آنکھیں موند کر سر پیچھے پشت پر گرا دیا ۔

"بابا ۔"شہیر کی آواز پر اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں ۔کرنٹ کھا کر پیچھے مڑتے دیکھا ،جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی کیفیت لئے وہ اسے دیکھ رہا تھا جو مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا تھا ۔گھوم کر اسکے سامنے آ کھڑے ہوتے اب اسکے گلے لگ رہا تھا ۔اور وہ دنگ سی حالت میں اب بھی آنکھوں میں بے یقینی لئے بیٹھا تھا ۔اپنے بازو تک اس نے شہیر کے گرد نہیں باندھے تھے کہ وہ وہم  اور حقیقت کے درمیان فرق کرنے سے اس وقت قاصر تھا ۔

ڈرتے ڈرتے اس نے ہاتھ اٹھا کر اسکے سر کے بالوں کو چھوا تھا ۔اسکا وجود ہوا میں تحلیل نہیں ہوا تھا ۔وہ اب بھی اسکے گلے لگا ہوا تھا اور مرتضیٰ حیدر نے خوشی سے نہال ہوتے ہنستے ہوئے اسے خود میں زور سے بھینچ ڈالا تھا ۔

"یہ تم ہو شہیر ؟مجھے یقین نہیں آ رہا ۔تم یہاں کیسے ؟"جذبات سے بوجهل ہوتی آواز کے ساتھ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کہے اور کیا نہیں ۔

شہیر اسکے ساتھ سے الگ ہوتا مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے حیران دیکھ کر اسے دیا سرپرائز کامیاب ہونے پر اترا رہا ہو ۔

بوبی بھی تب تک وہاں آ چکے تھے ۔انہیں دیکھ کر مرتضیٰ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔اتنے ماہ بعد انہوں نے اسے ویسی ہی چہرے پر  مسکراہٹ اور آنکھوں میں نرم تاثر لے کر دیکھا تھا جس کا وہ ہمیشہ عادی رہا تھا ۔اسکے پاس آ کر اپنے دونوں بازو وا کیے تو وہ بے اختیار انکے گلے جا کر لگا تھا ۔بوبی نے فرط جذبات سے اسکی پشت تهپتهپائی تھی ۔

"آئی ایم سوری بوبی ۔"انکے کندھے پر ٹھوڑی رکھے اس نے نیم سرگوشی کی تھی ۔

"اتنی شرافت تم پر اوپری اوپری سی لگتی ہے کھوتے ۔"

اسکے شانے پر چپت رسید کرتے کہا تو وہ ہنستا ہوا ان سے جدا ہوا تھا ۔

"یہ یہاں کیسے ؟"وہ انکی طرف دیکھتے اب شہیر کی طرف مڑا پوچھ رہا تھا ۔بو بی دوسرے صوفے پر بیٹھ گئے تھے ۔وہ بھی اپنی جگہ واپس بیٹھتا شہیر کو اپنی ٹانگ پر بٹھا چکا تھا ۔حیرت و انسباط کا کوئی انت نہیں تھا ۔پھر کچھ یاد آیا ۔

"ماما کی اجازت سے آئے ہو ناں ۔"اسکی طرف جھکے وہ کچھ پریشانی سے پوچھ رہا تھا ۔

"پانی لے لیں ۔"اور اس آواز نے اس سے اسکے سارے حواس سلب کر لئے تھے ۔جیتا جاگتا وجود پتھر کے مجسمے میں کیسے ڈھلتا ہے کوئی مرتضیٰ حیدر کو اس لمحے دیکھ لیتا تو یقین کر لیتا ۔

فق چہرے اور بے اعتبار آنکھوں کے ساتھ اس نے اسکی طرف دیکھنے سے بھی گریز برتا تھا ۔اگر یہ خواب تھا تو وہ اس خواب میں ساری عمر گزار دینا چاہتا تھا ۔اور اگر صرف وہم تھا تو اسے حقیقت سے دوبارہ کوئی واسطہ نہیں رکھنا تھا ۔

"پانی تو لے لو ۔میری بیٹی کب سے کھڑی ہے ۔"اسے یوں ہی چہرہ جھکا کر گم صم بیٹھا دیکھ کر بوبی کو کہنا پڑا تھا ۔خوف و آس کے بیچ جھولتے اس نے نگاہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا ۔اور ان آنکھوں میں اترتی اس چمکتی نمی نے لمحے کے ہزارویں حصے میں صلہ کو احساس دلایا تھا وہ اس نمی کی خاطر اسے ہزار بار معاف کر سکتی ہے ۔

حیدر کی نگاہیں اسکے سراپے میں کہیں بھٹک سی گئی تھیں ہاتھ میں پانی کا گلاس لئے وہ آج بھی سفید لباس میں ملبوس تھی ۔صاف شفاف چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی جسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔بے خودی کی کیفیت میں گرا وہ اب بھی یقین اور بے یقینی کے درمیان محو سفر تھا ۔ ہاتھ بڑھا کر اسکے ہاتھ سے گلاس لیتے نظر اسکی کلائی میں الجهی تھی ،اسکا دیا بریسلٹ اسکی کلا ئی کی زینت بنا اسکے دل کو کچھ اور بھی گداز کرنے لگا تھا ۔گردن کی گلٹی ڈوب کر ابھری تھی ،گلاس پر گرفت مضبوط کی تھی ۔

 

سرخ پڑتی گردن کے ساتھ وہ ایک بار پھر سے گردن جھکا گیا تھا ۔

ماتھے کی تنی رگوں اور شدت جذبات سے متغیر رنگت لئے وہ سب کی نظروں کا مرکز تھا ۔اور یہ بات اسے اور بے آرام کر رہی تھی ۔آنکھوں میں آئی نمی کو حلق سے نیچے اتارتے وہ عجب مشکل میں پھنس گیا تھا ۔

"صلہ بیٹا گلاس لے لینا اس کے ہاتھ سے ، ورنہ ٹوٹ جائے گا ۔اسے اب پانی پینے کی حاجت نہیں رہی ۔"صوفے سے اٹھتے اسکی مشکل بوبی نے کچھ آسان کر دی تھی ۔صلہ نے جھک کر گلاس سچ میں واپس لیتے وہاں سے پلٹ گئی تھی ۔

"شہیر تم آؤ میرے ساتھ کچھ دکھانا ہے تمہیں ۔"

بوبی کے کہنے پر وہ اٹھ کر انکے ساتھ چل دیا تھا ۔سب واپس چلے گئے تو بھی وہ کتنی دیر وہاں بیٹھا رہا تھا ۔آہستہ آہستہ پتھر کا مجسمہ چٹخنے لگا تھا ۔

ان سب نے مل کر اسکی اچھی خاصی درگت بنائی تھی حواس بحال ہونے پر اسے خفت نے آن گھیرا تھا ۔اور پھر اس نے یقین کی انگلی تھامے ، مدهم سی ہنسی کے ساتھ  اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرے تھے ۔

اگلے لمحے وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار اٹھا تھا ۔قدموں کا رخ بوبی کے کمرے کی طرف تھا ۔

"بوبی یہ غلط بات ہے ۔ابھی اگر مجھے ہارٹ اٹیک آ جاتا تو کون ذمہ دار تھا ۔ابھی تو میرے جینے کے دن شروع ہوئے ہیں ۔"وہ بلند آواز میں خفگی لئے کہتا ہوا انکے کمرے کی طرف جا رہا رہا تھا ۔اور ساتھ والے کمرے میں نروس سی ادھر ادھر چکر لگاتی صلہ اسکی بات پر بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی تھی ۔

 "تم سے مجھے یہی امید تھی۔پہلے مجھ سے لڑ لو تم عقل سے پیدل انسان ۔"دندناتا ہوا وہ اندر داخل ہوا تھا ۔بوبی نے اسے دیکھ کر ملامتی نظروں سے اسے دیکھ کر گھرکا ۔

"تو اور کیا کروں ؟"انکے سامنے کھڑا دونوں ہاتھ پہلو پر جمائے وہ عرصے بعد اپنے ازلی موڈ میں واپس آیا تھا ۔

"اب یہ بھی تمہیں میں بتاؤں ؟"انکا انداز ایسا تھا وہ شرمندہ ہو کر رہ گیا ۔شہیر جو فوٹو البم دیکھ رہا تھا نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگا ۔

مرتضیٰ نے جز بز ہو کر پہلو بدلا ۔

"نہیں مجھے پتہ ہے ۔"

الٹے قدموں وہ واپس مڑا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

وہ گلاس ونڈو کے سامنے کھڑی تھی ۔ارد گرد کھڑی قد آور عمارتیں روشنی سے جگمگا رہی تھیں ۔نیچے سڑک پر تیز روشنیاں لئے گاڑیاں یوں ہی رواں دواں تھی جتنی تیزی سے زندگی ۔اوپر کھلا آسمان تاروں سے جگ مگا رہا تھا ۔ہر طرف روشنی تھی یا صرف اسے ہی نظر آ رہی تھی ۔بازو سینے پر باندھے وہ گردن پر ڈ ھلکے بھورے بالوں کے ڈھیلے سے جوڑے کے ساتھ کھڑی تھی ۔جب اپنی پشت پر اسکی موجودگی کا احساس پا کر بھی بے خبری کا تاثر جاری رکھا تھا ۔

"میں ابھی تک بے یقین ہوں ۔کیا معجزے اب بھی رونما ہوتے ہیں ؟کوئی مجھ سے اب یہ پوچھے تو میں ایک لمحہ ضائع کیے بنا کہوں گا ہاں ایسا ہوتا ہے ۔"

صلہ نے سانس تک روکتے اسکی بھاری گھمبیر آواز سنی تھی ۔دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں ۔لیکن نہیں وہ صلہ حیدر تھی ۔اتنی جلدی کیسے اپنا آپ اس پر عیاں کر دیتی ۔

وہ پلٹی تو چہرے کا تاثر بالکل نارمل تھا ۔انگلی اٹھا کر اسکی طرف کرتے اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھیں ۔

"پہلے میری بات سنیں ۔"خود کو مضبوط کرتے اسکی آواز بھی معمول کے جیسی تھی ۔کمپوزڈ ،ہر احساس سے مبرا ۔حیدر نے بنا اسکے چہرے پر سے نظریں ہٹائے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا ۔

"آج بھی تمہاری سنوں صلہ حیدر ؟"بے بس سی مسکراہٹ ،اور آنکھوں کی نرم سی جوت ۔خود پر چڑھایا سختی کا خول صلہ کو چٹختا محسوس ہونے لگا تھا ۔

"آج اپنی نہ سناؤ ،بھلے میری بھی نہ سنو۔اس دل کی سن لو بس ۔"

اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے حیدر نے اپنے دل کے مقام پر رکھا تھا ۔اسکی شوریده دھڑکنوں کی آواز صلہ کے  ہاتھ سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچی تھی ۔

اور دل پگھلنے پر آ جائے تو ایک لمحہ بھی کافی ہوتا ہے ۔

"تم نہیں تھی تو پتہ بھی نہیں چلتا تھا سینے میں یہ موجود بھی ہے یا نہیں ۔تم ہو تو ایسے دھڑک رہا ہے کہ مجھے ڈر ہے پورے شارجہ کو خبر ہو جائے گی میری دلی مراد بھر آئی ہے اور بوبی کہتے ہیں اپنی خوشیوں کو سارے ذمانے سے چھپا کر رکھنا چاہیے ورنہ نظر لگ جاتی ہے ۔"

نمی ایک بار پھر سے اسکی آنکھوں میں جگہ بنانے لگی تھی مگر اس بار اس نے چہرہ نہ تو جھکایا تھا اور نہ ہی اس سے اپنی نظروں کو چرایا تھا ۔اور صلہ کو بوبی کے کہنے پر یقین اس گھڑی آیا تھا ۔ہاں وہ اس کے لئے رویا ہو گا ۔صرف وہی تو تھی جس کے لئے وہ رو سکتا تھا ۔

کب اسکی اپنی آنکھوں سے سیل روا ہوا تھا اسے خبر تک نہیں ہوئی تھی ۔

اسکا ہاتھ اب بھی اسکے ہاتھ میں مقید دل کے مقام پر رکھا تھا ۔اور دوسرے ہاتھ سے وہ اسکے گالوں پر پهسلتی نمی کو اپنی انگلیوں کے پوروں پر چن رہا تھا ۔

"کتنا برا ہوں نا میں ۔ہر بار یہ خوب صورت آنکھیں میری وجہ سے بھیگنے لگتی ہیں ۔بھلے انہیں بارشوں کی نذر ہونے سے میں کتنا بھی بچانے کی کوشش کر لوں ناکامی ہمیشہ میرا مقدر بنتی ہے ۔"

وہ پر ملال سا بولتا ،اسکا ہاتھ چھوڑ ،دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ لئے جھک کر اسکی آنکھیں چوم رہا تھا ۔مسیحائی کا وہ پہلا لمس ،صلہ حیدر کے اندر دور تک سرایت کرتا چلا گیا تھا ۔

اسے اپنے سینے سے لگائے وہ اسکے گرد اپنا حصار مضبوط کرتا چلا گیا ۔اسکے دل کے مقام پر اپنا چہرہ رکھے صلہ نے پورے استحقاق سے اسکے گرد اپنے بازو پھیلائے تھے ۔کہیں لمحے بیتے تھے ۔لب خاموش تھے ،آنکھیں برستی تھیں اور خاموشی کی زبان میں دو دلوں کی دھڑکنیں باهم گفت و شنید کرتی تھیں ،تجدید وفا کے سر بکھیرتیں ،نئے دنوں کا پيام لاتیں ،محبتوں کے راگ گاتیں ،باهم ایک ہی لہہ پر دھڑکتی جاتی تھیں ۔

حیدر نے اسے خود سے الگ کرتے اسکے ماتھے پر اپنی عقیدتوں کا لمس چھوڑا تھا ۔وہ عورت اسکے لئے قابل تعظیم تھی جس نے اسکی ہر خطا اسے معاف کر دی تھی  ۔مگر اب جب وہ اسے اپنا ساتھ بخش رہی تھی  تو جیسے اس نے اسے بے دام خرید لیا تھا ۔اس روئے زمین پر اس وقت اگر کوئی قسمت کا دهنی تھا تو مرتضیٰ حیدر کاظمی تھا ۔

کچھ کہنے کے لئے اس نے لب کھولنے چاہے تھے مگر صلہ نے سر نفی میں ہلا کر اسے منع کر دیا تھا ۔

"مجھے بیتے کل کے بارے میں کچھ نہیں سننا ۔کہنے سننے کو ہمارے درمیان کچھ باقی نہیں رہا حیدر ۔میں سب بھول کر آئی ہوں ۔بھولنا مشکل تھا مگر یاد رکھنا عذاب بن گیا تھا ۔میں نے کم مشکل میں خود کو ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔دو لوگ جب آگے بڑھنے کا عہد کر لیں تو ماضی کو دہرانا نہیں چاہیے ۔اس سے آگے بڑھتے قدم پھر سے پیچھے آنے لگتے ہیں ۔اور میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں ۔آپ کے ساتھ ،شہیر کے ساتھ ۔اتنے سال اکیلے سفر کرتے کرتے تھک سی گئی ہوں اب اپنی ساری ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ڈال کر سکون سے سونا چاہتی ہوں ۔جہاں مجھے یہ ڈر نہ ہو میں اکیلی ہوں ۔بلکہ یہ احساس مجھے راحت دے کہ کوئی ہے جو میری ساری فکریں سمیٹ لے گا ،میری حفاظت کرے گا اور مجھ تک آنے والی ہر سرد و گرم ہوا کے سامنے میری ڈھال بن کر کھڑا ہو جائے گا ۔"

گلابی ہوتی برستی آنکھوں کے ساتھ اسکی طرف دیکھتی وہ بھیگے لہجے اور کانپتی آواز میں بول رہی تھی ۔حیدر نے بمشکل اسکی بہتی آنکھوں سے نظریں چرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا ۔

"تم نے کچھ کہنا تھا ؟بلکہ کچھ سنانا تھا ۔"

فضا میں رقص کرتا بوجهل پن زائل کرنے کی کوشش کرتے حیدر نے کہا تھا ۔صلہ بے اختیار ہلکا سا ہنس دی ۔

پھر سر کو ہاں میں جنبش دی ۔

"ہاں کہنا تو تھا ۔"

"تو پھر کہو ۔"

صلہ اپنا پر نم چہرہ صاف کر رہی تھی جب اسے پر شوق نظروں کے حصار میں رکھتے اس نے کہا تھا ۔

"مجھے یہ کہنا تھا آپ زیادہ خوش فہم مت ہو جائیے گا ۔میں اگر آ گئی ہوں تو صرف اور صرف اس لئے کہ بوبی خود مجھے لینے گئے تھے ۔اور میں اتنی بد تہذیب  ہرگز نہیں ہوں کہ انہیں خالی ہاتھ لوٹا دیتی ۔اور ہاں میں نے شہیر کے لئے بھی یہ فیصلہ لیا ہے ۔کہ اسکا پورا حق ہے وہ اپنے باپ کے ہوتے ہوئے اسکے زیر سایہ بڑا ہو ۔اور جہاں تک میری بات ہے تو ٹھیک ہے میں آپ کو ایک چانس دے رہی ہوں ۔دیکھتے ہیں آپ میرے دل تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں ۔"

دونوں ہاتھ حسب عادت سینے پر باندھے وہ گردن اٹھائے اک شان تفاخر سے کہہ رہی تھی ۔اسکی اٹھی ٹھوڑی ،سبز بھیگی مسکراتی آنکھیں اور چہرے پر پھیلی نرمی ۔حیدر کا دل وہیں کہیں اٹک کر رہ گیا تھا ۔دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیبوں میں ڈالے وہ اپنی نظریں ایک پل کے لئے بھی اسکے چہرے پر سے ہٹانے کا روادار نہیں تھا ۔

اسکی کی گئی تقریر کے آخر میں حیدر نے  سر کو متفق انداز میں ہلایا تھا ۔

"بالکل صلہ بی بی ۔میں آپ کی زبان سے نکلے حرف حرف پر یقین لاتا ہوں ۔آنکھوں کا کیا ہے وہ تو جھوٹ بولتی ہیں ۔

اس نے جس انداز میں کہا تھا صلہ نے اپنے ہونٹوں پر امڈ آتی مسکراہٹ کو چھپانے کے لئے رخ ایک بار پھر سے گلاس ونڈو سے باہر دکھائی دیتی دنیا پر ٹکا دی تھیں ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

وہ آفس کے لئے تیار ہو رہا تھا ۔شہیر ابھی ابھی جاگا تھا اور اسکول جانے کے لئے تیار ہوئے بنا ہی اسکے کمرے میں آن موجود تھا ۔بیڈ پر کسلمندی سے بیٹھا وہ اسے تیار ہوتے دیکھ رہا تھا ۔

"بابا ۔"

"ہوں ۔"حیدر نے آئینے سے نظر آتے اسکے عکس پر نگاہ کرتے خود کو الرٹ کیا تھا ۔اکثر و بیشتر صبح کے وقت اسکے پوچھے سوالات سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں ۔

"کھوتے کا کیا مطلب ہے ؟"

اور ٹائی کی ناٹ حیدر نے کچھ زیادہ ہی کس دی تھی ۔بے اختیار اسے تھوڑا ڈھیلا کرتے وہ کھانسا تھا ۔

"کھوتے کا مطلب کسی چیز کو کھو دینا ،گم کر دینا ۔"سنبھل کر پیچھے مڑتے جواب دیا ۔مگر شہیر کچھ خاص مطمئین نہیں نظر آتا تھا ۔

"نہیں وہ والا کھوتا نہیں بابا ۔وہ والا کھوتا جو بوبی آپ کو کہتے ہیں ۔کیا یہ بھی کوئی فرنچ لینگویج کا ورڈ ہے ۔"

حیدر نے صبر کا بڑا سا گھونٹ پیتے اپنی اولاد کو خشمگیں نظروں سے دیکھا کم گھورا زیادہ تھا ۔

"پتہ نہیں ۔بوبی سے ہی پوچھ لینا تھا نا تم نے ۔"

"پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا اپنے باپ سے پوچھ لینا وہ زیادہ بہتر جانتا ہے ۔"

شہیر بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا ۔اسکا پیپر ورک ہمیشہ مکمل ہوا کرتا تھا ۔

"اٹھ کر تیار ہو ۔اسکول سے لیٹ ہو رہے ہو ۔"

اب کی بار ذرا اسے ڈپٹ کر کہا تھا ۔

"لیکن آپ بتا تو دیں ۔"

اٹھ کر کھڑا ہوتا وہ بضد تھا ۔

"شام کو بتاؤں گا بیٹا ۔ابھی دیر ہو رہی ہے ۔شاباش جلدی جاؤ ۔"

اسے بهگاتے وہ خود بھی باہر نکل آیا تھا ۔ناشتے کی میز پر بوبی پہلے سے موجود تھے ۔صلہ انکے سامنے ناشتہ چن رہی تھی ۔رک کر اسکا ناراضگی لئے چہرہ دیکھا ۔آج سے کچھ ماہ پہلے تک وہ اسے دیکھنے کی روا دار نہیں تھی اور اب اسے دیکھے بنا دن کا آغاز نہیں ہوتا تھا ۔اس چہرے نے چاہت سے نفرت اور نفرت سے محبت کا سفر طے کیا تھا ۔سالوں کا سفر ،اور صلہ کا دل چاہتا تھا اب وہ صدیوں پر محیط ہو ۔

وہ تھوڑا عجیب تھا مگر پیارا تھا یہ صلہ نے اسکے ساتھ رہ کر اسے دل سے اپنا کر جانا تھا ،وہ اب بھی کبھی کبھی ڈراؤنے خواب دیکھتا تھا ۔مگر انکی شدت اب پہلے سی نہیں رہی تھی۔صلہ نے کبھی اس پر ظاہر نہیں کیا تھا وہ ان خوابوں کی حقیقت جانتی ہے ۔اگر تو یہ اک بھرم تھا مرتضیٰ حیدر کاظمی کی ذات کا تو وہ اسے ہمیشہ قائم رکھنا چاہتی تھی  ۔

وہ اب بھی چیزیں توڑتا تھا مگر اسکے ارد گرد کے لوگ اس کی اس عادت پر ہنس دیا کرتے تھے ۔کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا وہ بھی نہیں تھا اور صلہ نے اسے اسکی خامیوں سمیت اپنا لیا تھا ۔

"میری کوئی عزت ہے کہ نہیں بوبی ؟"

انکے سامنے کھڑا ہوتا وہ خفا ہو رہا تھا ۔

"اب میں کیا کہہ سکتا ہوں اس بارے میں ۔"

چائے کا گھونٹ لیتے وہ شانے اچکا گئے تھے ۔حیدر نے ہاتھ ہوا میں پھیلاتے گہرا سانس لیا تھا ۔

"آپ آج کے بعد شہیر کے سامنے مجھے وہ نہیں کہے گے ۔"

ختمی انداز میں کہتا وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تھا ۔صلہ اور بوبی نے بیک وقت سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

"کیا نہیں کہوں گا  ؟"انہوں نے نا سمجھی سے سوال کیا تھا ۔حیدر نے بے آرامی سے پہلو بدلا ۔

"وہی جو آپ کہتے ہیں ۔"دودھ میں شہد ڈالتے وہ انکی طرف بنا دیکھے کہہ رہا تھا ۔

"ارے کیا کہتا ہوں میں ؟"بوبی اب کی بار زچ ہوئے تھے ۔

"کھوتا ۔"انکی بات کاٹتے وه سرخ ہوتے کانوں کے ساتھ جلدی سے بولا تو صلہ نے اپنی ہنسی کا بمشکل گلہ گھونٹا ۔جبکہ بوبی نے یہ تردد بھی نہیں کیا تھا ۔

"بوبی یار نہ کریں ایسا ۔وہ مجھ سے آج اسکا مطلب پوچھ رہا تھا ۔"

وہ بے بسی بھرے انداز میں کہہ رہا تھا ۔

"تیرے کام ہی ایسے ہوتے ہیں ۔میں کیا کر سکتا ہوں اب ۔"

انکی لاپرواہی اپنے عروج پر تھی ۔

"مطلب آپ نہیں مانیں گے ۔"چمچ ہلاتا ہاتھ رکا تھا ۔

بوبی بنا کچھ کہے مسکراتے ہوئے اپنا چائے کا کپ اور اخبار اٹھا کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔انکے جانے پر اسکی نگاہ پیچھے کھڑی اپنی ہنسی ضبط کرتی صلہ پر گئی تھی ۔اسکا موڈ کچھ اور بگڑا تھا ۔

صلہ بوبی کی چھوڑی جگہ پر بیٹھ گئی تھی ۔ہمدردانہ نظروں سے اسے دیکھتے تھوڑا اسکی طرف جھکی ۔

"کوئی بات نہیں حیدر ۔آپ اسکا بھی کوئی فرنچ مطلب ایجار کر لیجئے گا ۔یہ تو آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے ۔"

صاف لگ رہا تھا وہ صلح کی آڑ میں اس کی ٹانگ کھینچ رہی ہے ۔

"بالکل تمہارے اور بوبی کے ہوتے ہوئے مجھے اپنے بیٹے کی نظر میں اپنی عزت بچانے کے لئے ایک پوری ڈکشنری ایجاد کرنی پڑے گی ۔"

اسکے کسل کر کہنے پر صلہ ہنستی چلی گئی تھی ۔

اور ہنسی تو حیدر کو بھی آئی تھی مگر وہ دودھ کا گلاس لبوں سے لگا گیا تھا ۔

کچھ دیر بعد اسکول کے لئے تیار شہیر بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا ۔ناشتے کی ٹیبل پر رونق سی لگی ہوئی تھی ۔شہیر کچھ کہہ رہا تھا اور حیدر اسے جواب میں کچھ بول رہا تھا ۔صلہ ایک ہاتھ کی مٹھی بند کیے مسکرا کر ان دونوں کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ٹی وی لا ؤنج میں بیٹھے بوبی نے گردن گھما کر ان تینوں کو مسکراتی نظروں سے دیکھا تھا ۔ایک مکمل اور خوش باش خاندان کی تصویر پیش کرتا وہ منظر جس میں کوئی کمی نہیں تھی ،کوئی خلا نہیں تھی ۔

ختم شد


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?