Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaraan by Umme Abbas Episode 28

1 Posts
1 Users
0 Reactions
184 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

اس دن حیدر سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا تھا ۔صلہ اپنی گڑیا اٹھائے اسکے پاس آئی تھی ۔اسکی ہر وقت کی چپ کے باعث وہ زیادہ تر اسکے پاس آنے سے كتراتی تھی ۔ٹی وی لاؤنج میں صلہ اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہی تھی زینب اسکے پاس بیٹھی تھی ۔حیدر کو کمرے سے نکلتے دیکھ کر اپنی طرف بلايا مگر وہ نظر انداز کرتا سیڑھیوں پر جا بیٹھا ۔آج کل وہ اتنا ہی ماں سے بد ظن ہونے لگا تھا کہ اس سے بات تک نہیں کرتا تھا  ۔زینب اس سے پوچھ پوچھ کر تھک گئی تھی مگر وہ کچھ کہنے کو آمادہ نہیں تھا ۔

کچھ دیر بعد زینب کے کچن میں جانے پر صلہ اٹھ کر اسکے پاس گئی تھی ۔

"مون بھائی آؤ کھیلیں ۔"وہ بہت دھیما بولتی تھی ۔اب بھی منتظر نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔بدلے میں حیدر نے اسے گھورا تھا ۔وہ اسے ذرا اچھی نہیں لگتی تھی جس نے اس سے اسکی ماں بھی چھین لی تھی ۔اوپر سے جہانگیر ہر وقت اسے صلہ سے دور رہو کہہ کہہ کر اسے صلہ سے اور بھی متنفر کر گیا تھا ۔

"مجھے نہیں کھیلنا ۔تم جاؤ یہاں سے ۔"وہ بگڑ کر بولا تھا ۔

"میں آپ کو اپنے ٹوائز بھی دوں گی ۔"اسکے موڈ سے قطعی نظر اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔

"مجھے نہیں چاہیے تمہارے ٹوائز ۔"وه اپنی جگہ سے اٹھتا چینخ پڑا ۔ صلہ سہم کر پیچھے ہوئی تھی ۔اس سے پہلے کہ اسکا پاؤں پهسلتا ، آفس سے واپس آئے جہانگیر نے اسے سرعت سے تھام کر گرنے سے بچا لیا تھا ۔ ۔طیش بھری نظروں سے حیدر کو دیکھتے صلہ کو اٹھا کر کندھے سے لگایا  ۔

"تم صلہ سے اس طرح کیسے بات کر سکتے ہو ۔"

بہت سارا غصہ ضبط کرنے کے باوجود اسکی آواز میں نا گواری تھی ۔

"میں ایسے ہی بات کرتا ہوں ۔اگر آپ کو پسند نہیں تو آپ لوگ مجھ سے بات مت کیا کریں ۔"جواب میں وہ بھی ویسے ہی درشت لہجے میں بولا تھا ۔کچن کی دہلیز سے حیدر کو چلاتے دیکھ کر زینب دوڑتی چلی آئیں ۔

 

"کیا ہوا ہے مون ۔ایسے کیوں چلا رہے ہو ۔"

وہ سیڑھیوں کے نیچے کھڑے گرل پر ہاتھ رکھے چوتھی سیڑھی پر تن کر کھڑے حیدر سے پوچھ رہی تھیں جو ایک تیز نگاہ ماں پر ڈال کر وہاں سے ہٹتا  اپنے کمرے کی طرف دوبارہ بڑھ گیا تھا ۔زینب نے شرمندگی سے جہانگیر کی طرف دیکھا ۔

"وہ ایسے بات نہیں کیا کرتا ۔شاید کسی بات کی وجہ سے ڈسٹرب ہے ۔میں بات کروں گی اس سے ۔"

زینب کے کہنے پر جہانگیر کے تنے جبڑے کچھ ڈھیلے پڑے تھے ۔

"اس سے پوچھو زینب ۔اسے کیا مسئله ہے ۔تمہارے سامنے میں پوری کوشش کرتا ہوں وہ یہاں جلد از جلد ایڈجسٹ ہو جائےمگر صرف میری کوشش سے کیا ہو گا ۔کچھ لچک تو اسے بھی دکھانی ھو گی ۔ابھی میں نہیں آتا تو صلہ گر بھی سکتی تھی اسے چوٹ لگ سکتی تھی ۔"وہ غصہ نہیں ہوا تھا مگر آواز میں سرزنش سی تھی ۔اپنی کہہ کر وہ صلہ کو اٹھائے اوپر چلا گیا تھا ۔زینب وہیں پریشان سی کھڑی رہ گئی ۔یہ پہلی بار ہوا تھا جب حیدر اور جہانگیر کے درمیاں تناؤ سامنے آیا تھا اور اس میں بظاہر جہانگیر بے قصور لگتا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

اور پھر جیسے معمول بن گیا جہانگیر جان بوجھ کر زینب کے سامنے حیدر کو طیش دلاتا تاکہ وہ غصہ ہو ۔زینب اسکے رویے پر نادم ہوتی اور جہانگیر دل ہی دل میں مسرور ہوتا ۔

اس دن حیدر بوبی سے کال پر بات کر رہا تھا ۔وہ انہیں بھی کچھ نہیں بتاتا تھا ۔بس روٹین کا حال احوال بتا کر کال بند کر دیتا ۔اپنے اندر کا لاوا اس نے اندر ہی دبا لیا تھا ۔

بات کر کے وہ پلٹا تو پیچھے جہانگیر کھڑا تھا ۔کہنی کترا کر وہ نکل جانا چاہتا تھا مگر جہانگیر نے اسکا راہ روکا ۔

"تم اپنے دادا کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے ۔"اب بھی وہ بس کاٹ دار نظروں سے جہانگیر کو دیکھتا رہا تھا ۔کچھ کہا نہیں ۔

"انسان کو غیرت مند ہونا چاہیے ۔پتہ نہیں کیسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو دوسروں کے در پر پلنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ۔تمہارے دادا کو خیال کرنا چاہیے آخر تم انکے مرحوم بیٹے کی واحد نشانی ہو ۔مگر نہیں میں بھول رہا ہوں تم انکے مرحوم قاتل بیٹے کی نشانی ہو شاید انھیں شرمندگی ہوتی ہو گی ۔"وہ استہزائیہ نظروں سے اسے دیکھتا اسکی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ گیا تھا ۔حیدر نے غصے بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔اسکا تیز ہوتا تنفس بتا رہا تھا وہ کس قدر ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

"کیا ہوا غصہ آ رہا ہے مجھ پر ؟چینخنے کا دل کر رہا ہو گا ۔مگر سچ تو یہی ہے ناں تمہارا باپ ایک کرمنل تھا۔"

جھک کر اسکی سرد تاثر لئے آنکھوں میں جھانکتے وہ اسکی حالت سے حظ اٹھا رہا تھا ۔

"منہ بند کریں اپنا ۔میرے بابا بہت اچھے تھے انکے بارے میں کچھ برا مت بولیں ۔آپ برے ہیں ۔بہت برے ۔"اس نے ہاتھ مار کر ٹیبل پر رکھا گلدان گرايا تھا جو زمین پر گر کر چکنا چور ہوتا چلا گیا ۔آنکھوں میں آئی نمی کو آنکھوں سے مسلتے وہ وہاں سے بھاگا تھا ۔راہداری میں پریشان سی زینب آتی دکھائی دے رہی تھی ۔جسے دیکھ کر جہانگیر نے تفکر بھرے انداز میں جاتے ہوئے حیدر کو پیچھے سے پکارا تھا ۔

"مون میری بات تو سنو یار ۔"اسکے ان سنا کر کے آگے بڑھ جانے پر وہ مایوس سا پلٹا تھا اور زینب کو دیکھ کر یوں تاثر دیا جیسے اسکی آمد سے ابھی آگاہ ہوا ہو ۔

"کیا ہوا جہانگیر ؟"وہ نیچے بکھرے کانچ اور صبح اپنے ہاتھوں سے سجائے گلدان میں گلاب کے رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ رہی تھی ۔

"پتہ نہیں مون کب مجھے اپنے باپ کے طور پر قبول کرے گا ۔میں جب بھی کوشش کرتا ہوں وہ یہی کہتا ہے میرے بابا بہت اچھے تھے ۔آپ برے ہیں ۔"اسکا لہجہ اداسی سے تر تھا ۔زینب نے ندامت سے سر جھکا لیا ۔

"خیر بچہ ہے تم پریشان مت ہو ۔آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا ۔اور یہ دھیان سے صاف کرنا تمہارے ہاتھ نہ زخمی ہو جائیں ۔"اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے مسکراتا ہوا فکر جتاتا ، وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔

زینب اسکے جاتے ہی حیدر کے کمرے کی جانب بڑھی تھی ۔دروازہ کھولا ۔سامنے بیڈ پر وہ اوندھے منہ پڑا تھا ۔آہٹ پر سیدھا ہو کر بیٹھتا ماں کے قریب آنے سے پہلے پہلے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالیں ۔اب تو اس نے زینب کے سامنے بھی رونا چھوڑ دیا تھا ۔

"کیوں کر رہے ہو مون ایسا ۔کیوں میرے لئے زندگی مزید تنگ کرتے جا رہے ہو ۔پہلے ہی تمہارے باپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اب تم عذاب بنا دو میری سانسیں میرے لئے ۔"

پہلی بار غم و غصے میں اس نے حیدر کے سامنے شجاعت کے لئے ایسے الفاظ بولے تھے ۔وہ شکایتی نظروں سے ماں کو دیکھنے لگا جیسے اسکی امید نہ ہو ۔

"اب آپ بھی بابا کو برا کہہ رہی ہیں جیسے وہ آدمی کہتا ہے ۔"اس نے تیز آواز میں کہا تھا ۔

"کون آدمی ؟اب باپ ہے وہ تمہارا ۔کچھ تو لحاظ کر لیا کرو ۔"اسکی آواز کے بر عکس زینب نے اپنی آواز دهیمی رکھی تھی مگر سختی برقرار تھی ۔

"وہ میرا باپ نہیں ہے ۔وہ اچھا آدمی نہیں ہے ۔سنا آپ نے ۔"اسکی آواز اور بلند ہوتی جا رہی تھی ۔

"آواز آہستہ رکھو ۔تمیز بالکل بھولتے جا رہے ہو تم ۔اگر یہی سب چلتا رہا تو مجھے تمہیں ہاسٹل بھیجنا پڑے گا ۔"زینب نے سرزنش کی تھی جس کا الٹا اثر پڑا تھا ۔

"آپ مجھے بوبی پاس بھیج دیں ۔"وہ تو جیسے پہلے سے سوچ کر بیٹھا تھا ۔زینب کی آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے تھے ۔اسکے قدموں میں بیٹھتے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے وہ بے بس نظر آتی تھی ۔

"مون ۔۔۔۔کیوں کر رہے ہو ایسا ۔تمہیں مجھ پر رحم کیوں نہیں آتا ۔میں کیسے رہوں گی تمہارے بغیر ۔"

بھرائی آنکھوں سے اسکا چہرے دیکھتے وہ رونے لگی تھی ۔حیدر نے سختی سے لب بھینچ لیے ۔

"تم میرے پیارے بیٹے ہو نا ۔تم مجھے بتاؤ کیا مسئله ہے ۔ہم اسے حل کرنے کی کوشش کریں گے بیٹا ۔"وہ نرم پڑ گئی تھی مگر حیدر کی چپ نہیں ٹوٹی تھی ۔وہ جانتا تھا وہ کچھ بھی کہے گا اسکی ماں اس وقت اس پر یقین نہیں کرے گی ۔وہ اپنا یقین کھو چکا تھا ۔آج کل وہ وہی دیکھتی ،وہی سنتی تھی جو اسے جہانگیر دکھانا اور سنانا چاہتا تھا ۔اور اس میں غلطی زینب کی بھی نہیں تھی ۔حیدر کا غصہ اور جہانگیر کی کامیاب ایکٹنگ اسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہے تھے ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

اس دن کے بعد اکثر ایسا ہونے لگا تھا ۔جہانگیر جان بوجھ کر اسے غصہ دلاتا اور پھر اسکے اشتعال میں چینخنے یا کسی قسم کی توڑ پھوڑ کرنے پر زینب کے اس سے بد ظن ہونے پر دل ہی دل اپنی کامیابی پر مسرور ہوتا ۔آہستہ آہستہ اس نے زینب کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ حیدر کو کسی ہاسٹل میں شفٹ کرنا اس کے لئے زیادہ بہتر ھو گا ۔زینب بھی اس کے دن بدن بگڑتے رویے سے جیسے تنگ آنے لگی تھی ۔وہ پوچھ پوچھ کر تھک گئی تھی مگر حیدر کچھ بتانے پر آمادہ بھی تو نہیں تھا ۔ایسے میں اسے بھی لگنے لگا تھا شاید ہوسٹل جا کر اسکی جارحیت پسندی میں کچھ کمی واقع ہو جائے ۔

وہ زیادہ تر بس خاموش رہتا ۔صلہ زینب سے اس حد تک مانوس ھو چکی تھی کہ سارا سارا دن اسکا پلو پکڑے اسکے پیچھے پیچھے چلتی رہتی تھی ۔زینب بھی اسکا بہت خیال کرتی تھی ۔جہانگیر کو اس طرف سے پورا اطمینان تھا ۔ایسے میں کسی نے بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ حیدر پر اس کا کتنا منفی اثر پڑا ہو گا ۔اس کے پاس رشتوں کے نام پر ایک ماں ہی تھی جو اسکے پاس تھی اور اب اس میں بھی صلہ شراکت دار بن بیٹھی تھی ۔وہ بھی ایسی صورت حال میں جب جہانگیر اسے اپنانے کا روادار تک نہیں تھا ۔اگر کبھی ایسا ہوتا بھی کہ زینب حیدر اور صلہ کو ساتھ بٹھاتی ،کبھی کھانا کھانے کے دوران یا کھیلنے کے لئے تو جہانگیر غیر محسوس کن انداز میں صلہ کو حیدر سے دور کر لیتا ۔اور یہ بات حیدر اچھے سے جان لیتا تھا ۔اس سب نے حیدر کے اندر بہت سارا اشتعال بھر دیا تھا ۔

ایسے میں اسکی گهٹن زدہ زندگی میں بوبی کی پاکستان آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی تھی ۔وہ اسکے لئے بہت سارے کھلونے لے کر آئے تھے ۔ہر روز اس سے ملنے آتے تھے اور اسے ساتھ بھی لے کر جاتے تھے ۔اپنا گھر تو رہا نہیں تھا ۔کرائے پر ایک چھوٹا سا گھر لے رکھا تھا جہاں وہ رہائش پزیر تھے ۔حیدر کبھی کبھی پورا پورا دن انکے ساتھ جا کر وہاں گزارتا ،اور اس دن وہ بہت خوش پاش رہتا ۔

  انہی دنوں ایک اور حادثہ رونما ہوا تھا ۔وہ شام کا وقت تھا ۔باہر لان میں سائے گہرے ہو رہے تھے ۔حیدر ہاتھ میں بیٹ لئے ،بال کو ہٹ کرتا ،جو سامنے دیوار سے ٹکرا کر واپس آتی اور وہ پھر سے اسے ہٹ کرتا ۔اس نے اکیلے کھیلنا سیکھ لیا تھا ۔ایسے میں صلہ بھی لان میں چلی آئی تھی ۔کتنی دیر وہ اشتیاق سے اسے اکیلا کھیلتے دیکھتی رہی پھر اسکے قریب چلی آئی ۔حیدر نے اسے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا تھا ۔وہ بنا رکے اپنے شغل جاری رکھے رہا ۔

"بھائی مجھے بھی کھیلنا ہے ۔"صلہ نے اسکی طرف دیکھتے کہا تھا ۔مگر وہ آگے سے ہنوز چپ رہا ۔

"مجھے بھی کھیلنا ہے بیٹ بال کے ساتھ ۔"اس نے کچھ دیر کے بعد پھر سے دوہرایا ۔

"جاؤ یہاں سے ۔تمہارے پاپا آتے ہوں گے ۔پھر تمہاری وجہ سے مجھے ڈانٹ پڑے گی ۔"

حیدر نے ہاتھ روک کر اسے دیکھتے بگڑ کر بولا تو وہ اسے خفا نظروں سے دیکھتی اسکا پاس گرا بال اٹھا چکی تھی ۔

"مجھے نہیں کھیلاؤ گے تو میں بال بھی نہیں دوں گی ۔"

بال ہاتھ میں پکڑ کر رعب جمانا چاہا ۔حیدر نے اسے تیز نظروں سے گھورا ۔

"یہ میری بال ہے ۔میرے بوبی نے لے کر دی تھی ۔واپس کرو ۔"وہ اسکی طرف بڑھا تھا ۔صلہ پیچھے کی طرف قدم لیتی نفی میں سر ہلاتی ہنسی تھی ۔اور اس کا ہنسنا حیدر کو طیش دلا گیا تھا ۔اس نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے بال چھینی چاہی تھی جسے وہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھی ۔اسی چھیننا چھپٹی میں حیدر کے ہاتھ میں پکڑا بیٹ صلہ کو لگا تھا وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹتی منہ کے بل گری تھی اور پاس رکھے گملے کی کناری کی نوک اسکے ماتھے پر آنکھ کے قریب لگی تھی ۔حیدر کے ہاتھ ساکت ہوئے تھے وہ بھی خوف زدہ نظروں سے اسے روتا دیکھتا آگے جھکا تھا ۔صلہ سیدھی ہوئی تھی اور اسکے ماتھے سے ابلتا خون بہتا چہرے پر آنے لگا تھا ۔حیدر کے ہاتھ سے بیٹ اور بال بیک وقت چھوٹ کر نیچے گرے تھے ،تھوڑا اور قریب ہوتے وہ اسے اٹھنے میں مدد دینے کو تھا پر ہمت نہیں ہوئی ۔اندر سے زینب اسکی چینخ و پکار پر دوڑی باہر آئی تھی اور اسکا خون سے تر چہرہ دیکھتے حواس باختہ سی اسکے پاس زمین پر بیٹھی تھی ۔

"ماما !مون بھائی نے مارا ہے مجھے ۔"زینب اسکے زخم کا جائزہ لے رہی تھی جب روتے ہوئے صلہ نے بتایا تھا اور اسی وقت آفس سے آئے جہانگیر نے گھر میں قدم رکھا تھا ۔صلہ کی آواز اس نے بھی سنی تھی ۔وہ دوڑ کر بیٹی کو اٹھائے ہوسپٹل کی طرف بھاگا تھا ۔زینب ساتھ گئی تھی ۔پیچھے وہ اکیلا گھر میں رہ گیا تھا ۔پہلی بار اسے خوف محسوس ہوا تھا ۔اس نے جان بوجھ کر صلہ کو نہیں مارا تھا ، اسے برا لگ رہا تھا ۔اسکی پٹی کروا کر جب زینب اور جہانگیر واپس آئے تو جہانگیر کچھ بھی کہے بنا صلہ کو لے کر اوپر روم میں چلا گیا تھا مگر زینب وہیں رک گئی ۔اس دن پہلی بار زینب سے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا ۔حیدر کو تهپڑ مارا تھا ۔وہ کتنی دیر اپنے کمرے میں بند روتا رہا تھا۔شام سے رات ہو گئی تھی ۔کسی نے اسکے کمرے میں جھانک کر دیکھا تک نہیں تھا ۔زینب صلہ کے ساتھ  تھی جب جہانگیر اسکے کمرے میں آیا تھا ۔اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے نیچے بیسمنٹ میں لاتے زمین پر پٹخ ڈالا ۔

دروازہ لاک کرتے وہ اسکے سامنے آ کر بیٹھا تھا جو سر جھکائے زمین پر بیٹھا تھا ۔چہرے پر خشک آنسوؤں کی لكیریں  سی کھچ گئی تھیں  ۔

"کیا کہا تھا میں نے میری بیٹی سے دور رہنا ۔آج تمہاری وجہ سے اسکا اتنا خون بہا ۔میری بیٹی نے اتنی تکلیف سہی ۔"اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑے وہ دهیمی مگر غصیلی آواز میں چنگاڑا تھا ۔حیدر نے تکلیف سے آنکھیں میچ لیں ۔

"میں نے جان بوجھ کر نہیں مارا اسے ۔آئی ایم سوری ۔"

روتے ہوئے اس نے شرمندگی سے کہا تھا ۔مگر جہانگیر اسے معاف کرنے کو تیار ہی کب تھا ۔

"اسی لئے میں نہیں چاہتا تم یہاں رہو ۔تمہارا غصہ تمہیں بے قابو کرنے لگتا ہے ۔ابھی سے یہ حال ہے تو بڑے ہو کر تو تم بہت بڑے مجرم بنو گے ۔تمہارا باپ بھی ایک قاتل تھا تم بھی ایک قاتل ہی بنو گے ۔"اسکے چہرے پر ایک زناٹے دار تهپڑ رسید کیا ۔وہ لڑھک کر ایک سائیڈ پر ہوتا زمین پر ڈھے سا گیا تھا ۔

"میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ۔"روتے ہوئے بار بار وہ یہی دوہرا رہا تھا ۔

"ٹھیک کہا تم نے ۔آئندہ تم ایسا کرنے کا سوچو گے بھی نہیں ۔میں ابھی پولیس کو کال کروں گا ۔جب جیل میں تمہیں بھوکا پیاسا اکیلے اندھیرے کمرے میں بند کریں گے اور تمہیں الٹا لٹکا کر ڈنڈے ماریں گے تب تمہاری عقل ٹھکانے لگے گی اس ۔تب تمہیں پتہ چلے گا غصہ کرنے اور کسی کا سر پھاڑ نے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔"

وہ اسے ڈرا رہا تھا اٹھ کر اسے پاس سے جانا چاہا تھا مگر حیدر نے اسکی ٹانگ پکڑ لی تھی ۔

"آپ پولیس کو مت بلائیں ۔میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا پلیز ۔"وہ گڑگڑا رہا تھا مگر سامنے کھڑے جہانگیر کو اس پر ذرا برابر ترس نہیں آیا ۔

"اب اگر تمہارے منہ سے آواز نکلی تو میں صبح کے بجائے ابھی پولیس کو کال کر دوں گا ۔"

اسکے زور دار لات مارتے پیچھے کرتا وہ تیز قدم لیتا باہر نکل گیا تھا ۔جاتے ہوئے اس نے کمرہ باہر سے لاک کیا تھا اور پھر باہر کی جانب لگے بیسمنٹ میں جلتی لائٹ کا بٹن بھی بند کر دیا تھا ۔

پورے بیسمنٹ میں اندھیرا چھا گیا تھا ۔حیدر کے ہونٹوں سے اک سسکی سی برآمد ہوئی ۔اندھیرے میں اسے ڈر لگنے لگا تھا مگر اس ڈر پر پولیس کا ڈر اس قدر حاوی تھا کہ اس نے منہ پر دونوں ہاتھ جما کر اپنی آواز کا گلہ گھونٹ دیا تھا ۔رینگتا ہوا وہ دروازے تک آیا تھا اور پھر وہیں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔نجانے کتنی دیر گزری تھی اس ٹھنڈے فرش پر بیٹھا وہ کپكپاہٹ کا شکار ہونے لگا تھا ۔

نجانے کتنے گھنٹے گزرے تھے جب باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی ،پھر دروازہ ان لاک ہونے کی آواز آئی تھی ۔وہ پیچھے ہو کر اٹھ کھڑا ہوا ۔مگر کوئی اندر نہیں آیا تھا ۔کچھ دیر اور بیتی تو اس نے دروازے کی ناپ پر ہاتھ رکھ کر گھمایا ،دروازہ كهلتا چلا گیا ۔

وہ باہر نکلا تھا ۔پورا گھر سنسان پڑا تھا ۔کوئی بھی نہیں تھا اس نے قدم آگے بڑھائے ،رخ اپنے کمرے کی جانب تھا ۔مگر پھر جہانگیر کی کہی باتیں یاد آنے لگیں ۔وہ صبح پولیس کو بلا لے گا اور پولیس اسے پکڑ کر لے جائے گی ۔اس سے آگے وہ کچھ نہیں سوچ سکا تھا ۔خوف و ہراس کے گہرے سائے زرد پڑتے چہرے پر لئے اسکے ذہن میں بس بوبی کا خیال آیا تھا ۔ایک وہی تھے جو اسے بچا سکتے تھے ۔اور وہ کچھ بھی مزید سوچے بنا ،برہنہ پیروں کے ساتھ ہی گھر سے باہر کی طرف جاتے دروازے کی جانب بڑھا تھا اور تبھی اس نے اوپر والی منزل کی طرف نگاہ اٹھائی تھی ۔اسے وہاں کھڑا دیکھ کر کچھ اور بھی خوف زدہ ہوتے وہ سر پٹ بھاگا تھا  ۔

سیڑھیوں سے اوپر کھڑے جہانگیر نے اسے جاتا دیکھا تھا مگر بے فکری سے واپس کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا ۔

 

مین گیٹ کھول کر جب اس نے قدم باہر رکھا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا ۔اوائل دسمبر کی سرد ،ٹھٹھرتی ہوئی دهند کی تہہ میں لپٹی وہ سیاہ رات عام دنوں کی نسبت زیادہ تاریک معلوم ہوتی تھی ۔آسمان سے اترتی خنکی بھری سیاہی میں وہ سرمئی تارکول کی لمبی و سنسان سڑک بھیانک سی لگتی تھی مگر اس کے شل ہوئے حواس پر صرف اور صرف پکڑے جانے کا خوف سوار تھا ۔باقی سبھی خوف زائل ہوتے چلے گئے ۔سڑک کی پتھریلی سطح پر کہیں کہیں ابھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے کنکر اسکے پاؤں میں چھبن کا احساس پیدا کرتے تھے ۔وہ ذرا بھر لڑکھڑاتا اور اگلے ہی لمحے ذرا رک کر غیر ہوتے تنفس کے ساتھ پھر سے تیزی سے بھاگنے لگتا ۔

بھاگتے ہوئے وہ بار بار دونوں ہاتھوں سے اپنا گیلاچہرہ صاف کر رہا تھا ۔کچھ آگے جا کر موڑ کاٹتے وہ کسی سے بری طرح ٹکرایا تھا ۔اس تیز رفتاری کے باعث وہ کچھ قدم پیچھے کی جانب گرا ۔سامنے والے شخص نے اپنی غیر متوازن چال پر قابو پاتے آنکھیں چھوٹی کر کے غور سے اسکو دیکھا ۔ہاتھ میں پکڑے موبائل کی ٹارچ حیدر کے چہرے پر مارتے وہ جھکا، اسے بغور دیکھ رہا تھا جو اب اپنی کہنی کو سہلاتا ہوا چہرے پر تکلیف ده تاثرات لئے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔شکل و صورت سے وہ خوب صورت اور لباس سے کسی اچھے گھر کا لگتا تھا ۔چہرے پر آنسوؤں کے نشان ، خوف و ہراس کے گہرے سائے اپنی سرمئی آنکھوں میں لئے وہ ٹارچ کی روشنی سے نظریں چرا رہا تھا ۔اس شخص کی بری خصلت بھوکے بھیڑیے کی طرح شکار سامنے دیکھ کر چمک اٹھی ۔

"کون ۔۔۔ہو تم بیٹا ؟کہاں جا رہے ہو ؟"لہجے میں نرمی کا تاثر لئے آواز کی لڑکھڑاہت روکتے ارد گرد اک نگاہ ڈالے وہ شخص اسے اٹھ کر کھڑا ہونے میں اب مدد دے رہا تھا ۔بدلے میں حیدر نے اسکا ہاتھ جھٹک کر خود اٹھنا چاہا تھا ۔اس وقت وہ کسی پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا ۔

"گھر سے بھاگ کر آئے ہو ؟یا کہیں گم ہو گئے ہو ۔مجھے بتاؤ میں تمہاری مدد کرتا ہوں ۔"

ارد گرد سے مطمئین ہوتے اب وہ پوری طرح حیدر  پر توجہ کیے اس کے اور قریب کھڑا پوچھ رہا تھا ۔

"مجھے گھر جانا ہے۔میرے بوبی کے پاس  ۔"تیز سانسوں کے درمیان رک کر وہ سرعت سے بولتا آگے بڑھنے کو تھا جب اس شخص نے اسکا بازو پکڑ کر اسے روکا ۔

"رکو ۔۔۔۔یہ راستہ آگے خطرناک ہے ۔آگے جنگل کا علاقہ ہے جنگلی جانور رات کو سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔تم میرے ساتھ آؤ میں تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ آتا ہوں ۔"اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے وہ کہہ رہا تھا ۔حیدر نے  ایک نظر سامنے دور تک پھیلے اندھیرے کو دیکھا تھا ۔کسی کا ساتھ پا کر پہلی بار اسے اب اندھیرے کا احساس ہو رہا تھا اور اپنے اکیلے ہونے کا بھی ۔اگلے لمحے اس نے سر ہلا کر حامی بھر لی تھی ۔

"آ جاؤ میرے ساتھ ۔میرا گھر یہاں پاس ہی ہے ۔میرے پاس گاڑی بھی ہے میں تمہیں گاڑی پر چھوڑ آؤں گا ۔"

اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں جکڑے وہ شخص آگے بڑھ گیا تھا ۔ساتھ چلتے حیدر  کے پاؤں میں چھبے کنکر اب تکلیف کا احساس پیدا کرنے لگے تھے ۔مگر جہانگیر اور پولیس کا خوف اب پہلے جیسا محسوس نہ ہونے کے باعث وہ کچھ بہتر محسوس کر رہا تھا ۔کچھ دیر میں وہ بوبی پاس پہنچ جائے گا اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔یہ سوچ کتنی تسکین آمیز تھی ۔

"تمہیں اپنے گھر کا راستہ معلوم تو ہوگا ؟کہاں رہتے ہو ؟"برق رفتاری سے آگے بڑھتے ساتھ ساتھ وہ اس سے سوال کرتا جاتا تھا جس کا وہ سنجیدگی سے بہت واضح جواب دے رہا تھا اس کا سانس اب پہلے سے ہموار تھا مگر پوری طرح متوازن نہیں ۔سوچ سمجھ کر بولتے اس نے اپنے گھر کا پورا پتہ سمجھایا تھا ۔۔موبائل ٹارچ کی پتلی سی لكیر میں راستہ کچھ واضح نظر آ رہا تھا ۔کچھ آگے جا کر اچانک سے اس شخص نے سڑک چھوڑ کر جھاڑیوں میں نیچے ڈھلوان کی جانب بڑھنا شروع کر دیا تھا ۔

"ہم کہاں جا رہے ہیں ؟"ارد گرد جھاڑیوں کے جھنڈ اور پاؤں میں چھبتی تیز نوکیلی سی شے پر وہ بول اٹھا تھا ۔

"تم آؤ تو سہی ۔یہاں سے ہم جلدی پہنچ جائیں گے ۔"پیچھے مڑ کر اسے پچکارا گیا تھا ۔اگلے ہی لمحے اسکی کلائی پر گرفت اور مضبوط کرتے وہ تقریباً اسے گهسیٹتا چلا گیا تھا ۔اس بار اسکے اسکے پاؤں میں کوئی کانٹا سا چھبا تھا ۔تکلیف بڑھی تھی ۔بے ساختہ وہ کراہا ۔

"آہ انکل ۔۔۔میرے پاؤں میں کچھ لگا ہے ۔"اسکی بھینچی ہوئی سی آواز میں درد کا احساس نماياں تھا ۔مگر دوسری جانب اسکی پکار کا کوئی مطلق اثر نہیں لیا گیا تھا ۔پہلی بار حیدر کو کچھ برا ہو جانے کا احساس ہوا تھا ۔وہ چہرہ جہاں کچھ دیر پہلے تک ایک سہارا پا کر خوف و ہراس کا غلبہ کچھ کم ہوا تھا ۔ایک بار پھر شدید سراسیمگی کا شکار ہوتا چلا گیا ۔اپنی پوری قوت صرف کرتے اس نے اپنی کلائی اسکے ہاتھ سے آزاد کروائی تھی وہ شخص بھی شاید اسکی جانب سے ایسی کسی پیش رفت کی توقع نہیں کر رہا تھا اتنے زور دار جھٹکے پر ذرا برابر ڈگمگایا تھا اور اگلے ہی لمحے حیدر  الٹے قدم پیچھے کی جانب بھاگا تھا ۔اونچی نیچی جگہ اور اندھیرے کے باعث جب تک وہ سنبهل کر پلٹا تھا وہ اسکی پہنچ سے دور ہو چکا تھا ۔اسے ایک غیر اخلاقی گالی سے نوازتا وہ بھی شرافت و شفقت کا چولا اتار پهینكتا اسکے پیچھے خونخوار تیور لئے لپکا ۔پاؤں میں ہو رہی تکلیف کی وجہ سے وہ لڑکھڑا کر چل رہا تھا اس کے باوجود وہ اپنی پوری قوت کا استعمال کر رہا تھا ۔اپنے پیچھے کسی جنگلی بھیڑیے کی مانند تعاقب کرتے اس انسان نما شیطان کو گردن موڑ موڑ کر دیکھتے وہ آگے بڑھ رہا تھا جب اسکا پاؤں کہیں الجھا تھا ۔وہ منہ کے بل زمین پر گرا تھا ۔تب تک وہ شخص اس تک پہنچ چکا تھا ۔

"حرام کے پلے ۔۔۔کتنا بهگایا تو نے میرے کو ۔"پھولے ہوئے سانس کے درمیان وہ ایک ہاتھ پہلو پر جمائے دوسرے ہاتھ سے اسکے بالوں کو جکڑے زور سے جھٹکا دے رہا تھا ۔ہوس بھری نظروں سے اسے دیکھتے وہ آنکھوں میں شیطانیت اور ہونٹوں پر مکروہ ہنسی لئے اس کالی رات میں اپنے اندر کی سیاہ کاری سمیت کچھ اور بھی بھیانک لگتا تھا ۔قوم لوط میں بھی بچوں کا لحاظ کیا جاتا تھا مگر موجودہ انسان کی بے راہ روی کا عالَم یہ ہے کہ یہاں معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا جاتا ۔اس کی بے رحم گرفت میں وہ چینخ رہا تھا ، چلا رہا تھا اس کے بھاری وجود کے نیچے دبے اس کے دبلے پتلے سے وجود کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں ۔اسکی چینخ و پکار پر اس شخص نے بے طره اسکی گردن  دونوں ہاتھوں سے زور ڈالتے دبائی تھی جس سے آنسو سے لبریز وہ سرمئی مائل آنکھیں ابل پڑی تھیں۔وہ سانس نہیں لے پا رہا تھا ،اس شخص کی کی مکروہ حرکتیں بڑھتی جا رہی تھیں اور وہ تکلیف اور صدمے کے درمیان گھرا سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا  ۔ شیطان ذرا دور کھڑا ابن آدم کی پستی پر مسرور ہو رہا تھا ۔

گھٹتے سانس کے ساتھ اپنے بچاؤ کے لئے اس نے آگے پیچھے ہاتھ مارا تھا جب اسکا کانپتا ہاتھ کسی سخت شے سے ٹکرایا تھا ۔ہاتھ روک کر ٹٹولا ۔وہ ایک درمیانے سائز کا پتھر تھا ۔بنا سوچے سمجھے اس نے وہ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑتے پوری شدت سے خود پر جھکے اس شخص کے سر پر دے مارا تھا ۔وہ جو اپنے مکروه فعل میں مست و مسرور سا مگن تھا اس اچانک ہوئے حملے پر چینخ کر پیچھے ہٹا تھا ۔اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے وہ زمین پر درد سے دہرا ہو رہا تھا ۔اس لڑکے نے ایک ہی ضرب پر بس نہیں کی تھی ۔وہ تیر کی تیزی سے اٹھ کر بیٹھا تھا اور پھر پے در پے کہیں وار اسکے سر پر کیے تھے یہاں تک کہ اسے سنبھلنے اور اپنے دفاع تک کرنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔پتہ نہیں اتنی قوت اتنا غصہ اس کے اندر کہاں سے آ گیا تھا کسی سانپ کی مانند اس نے اس شخص کا سر کچل ڈالا تھا ۔پہلے تو وہ تکلیف سے كراهتا رہا تھا ۔پھر وہ بالکل خاموش ہو گیا ۔اسکا وجود ساکت ہو چکا تھا ۔مگر اسکا ہاتھ ابھی بھی نہیں رکا تھا ۔چہرے پر بنتی آنسوؤں کی لکیر کے ساتھ اس کا ہاتھ اب بھی مسلسل چل رہا تھا ۔خون کے کہیں چھینٹے اس کے چہرے اور کپڑوں پر پڑے تھے ۔اسکا ہاتھ خون سے لت پت ہو چکا تھا ۔یہاں تک کہ اسکا ہاتھ اور بازو مسلسل پوری قوت صرف کرنے کے باعث تکلیف محسوس کرنے لگے تھے ۔ہانپتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ روکا تھا ۔رک کر تھوڑی دیر سانس لی ۔پاس خشک پتوں پر پڑے موبائل کی ٹارچ کی روشنی سیدھی اس شخص کے چہرے پر پڑ رہی تھی جس کا پورا چہرہ خون سے تر ہو چکا تھا ۔دور سے دیکھنے پر اسکا وجود بے جان معلوم ہوتا تھا ۔

"تمہارا باپ بھی ایک قاتل تھا تم بھی ایک قاتل ہی بنو گے ۔"کوئی اس کے کان کے قریب چنگھاڑا تھا ۔اور وہ دہاڑے مار مار کر رویا تھا ۔کتنی دیر یوں ہی گزر گئی تھی ۔وہ ایک بڑے خطرے سے خود کو محفوظ کر چکا تھا ۔اپنی بقا کی جنگ ابھی ابھی وہ جیت چکا تھا ۔اب کوئی اور چیز اسے ہراساں نہیں کر پا رہی تھی ۔نہ ہی وہ تاریک رات ،نہ اس جنگل کی پرسرار خاموشی اور نہ ہی اپنے اکیلے ہونے کا احساس ۔ زور زور سے روتے اس نے اپنے شرٹ کے ٹوٹے بٹن دیکھے تھے ۔اپنا لباس ٹھیک کرتے وہ اٹھ کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں وہ پتھر اب بھی پوری مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔اگلے کچھ لمحوں میں وہ بے جاں وجود وہاں اکیلا پڑا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

صلہ کو کہانی سناتے کہیں بار زینب کو حیدر کا خیال آیا تھا ۔اس نے پہلی بار اس پر ہاتھ اٹھایا تھا اور اب اسے افسوس ہو رہا تھا ۔کاش وہ اسے اتنی سختی سے پیش نہ آئی ہوتی ۔دل ہی دل صلہ کے سونے کے بعد اسکی طرف جا کر اسے منانے کا سوچتی وہ صلہ کے سونے کی منتظر تھی جس کا چہرہ کچھ ہی دیر میں زرد پھول سے مشابہہ دکھائی دینے لگا تھا ۔جہانگیر کچھ وقت پہلے ہی کمرے میں آیا تھا اور کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھا اپنا آفس کا کام کر رہا تھا ۔کچھ دیر بعد صلہ کو نیم غنودگی میں جاتا دیکھ زینب نے اسے پکارا تھا ۔

"جہانگیر ذرا مون کو ایک نظر دیکھ آئیں گے پلیز ۔میں نے شام سے نہیں دیکھا اسے ۔"

اور جہانگیر نے بے ساختہ نظریں چرائی تھیں ۔مسکرانے کی کوشش کرتے سر ہلاتا وہ باہر نکلا ۔حیدر کے کمرے میں جھانکا ،وہ نہیں تھا ۔پورے گھر میں تلاش کرنے کے بعد وہ باہر لان کی طرف جاتے پہلی بار متفکر نظر آیا تھا ۔اسے لگا تھا وہ باہر لان تک گیا ہے اور کچھ دیر بعد واپس آ جائے گا مگر وہ تو باہر بھی کہیں نہیں تھا ۔مین گیٹ کی کنڈی کھلی تھی ۔جہانگیر کو صحیح معنوں میں تشویش نے آن گھیرا ۔زینب تب تک باہر آ گئی تھی ۔

"کیا ہوا جہانگیر ۔مون کہاں ہے ؟"کسی خدشے کے احساس سے اسکی آواز کانپی ۔جہانگیر چونک پکر پیچھے مڑا ۔چہرے پر حواس باختگی کے تاثرات چھپائے نہ چھپتے تھے ۔

"وہ گھر پر نہیں ہے ۔"اندر سے کسی نے ملامت کی تھی ۔اسے باہر نکلتے دیکھ کر ہی روکا کیوں نہیں ۔

"گھر پر نہیں ہے ؟اتنی رات کو کہاں جا سکتا ہے ۔"زینب کا ہاتھ دل پر پڑا تھا ۔روتے ہوئے وہ آگے بڑھی ۔

"تم گھر پر رکو زینب ۔صلہ اکیلی ہے ۔میں ڈھونڈ کر لاتا ہوں اسے ۔"

ہاتھ اٹھا کر اسے منع کرتے وہ جلدی سے مین گیٹ عبور کر گیا تھا ۔زینب روتے ہوئے وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئی ۔

کتنی دیر گزر گئی تھی ۔وہ سردی میں روتے اسکے محفوظ ہونے کی دعائیں کرتی وہیں بیٹھی رہی ۔یہاں تک کہ جہانگیر مایوس چہرہ لئے واپس آ گیا تھا ۔اسے دیکھ کر وہ اسکی جانب لپكی تھی ۔

"مون کہاں ہے ؟"اسکی متلاشی نظریں اسے ڈھونڈ رہی تھیں ۔جہانگیر نے نظریں چراتے سر نفی میں ہلایا تھا ۔

زینب کی آنکھوں سے آنسو ابل ابل کر گر رہے تھے ۔وہ ہراساں نظروں سے اسے دیکھتی دو قدم شاک کی کیفیت میں گری پیچھے ہٹی تھی ۔

"زینب تم ایک بار اسکے دادا کو کال کر کے پوچھ لو ۔ھو سکتا ہے وہ انکی طرف چلا گیا ہو ورنہ میں پولیس میں جا کر کمپلین کرتا ہوں ۔"جہانگیر کو بروقت خیال آیا تھا ۔اور یہ آخری امید تھی جسے پا کر زینب اندر کی طرف بھاگی تھی ۔بوبی کو کال کی اور بدلے میں انہوں نے حیدر کی اپنے پاس موجودگی کی تصدیق کی تواس خبر نے  اسکے نیم مرده وجود میں نئی روح پھونکی تھی ۔

"شکر ہے وہ صحیح سلامت ہے ۔میں صبح صبح ہی جا کر اسے منا لاؤں گی ۔میں نے پہلی بار اس پر ہاتھ اٹھایا ہے نا مجھ سے ناراض ہوگا ۔"

آنسوؤں سے تر چہرہ اپنی چادر سے صاف کرتے وہ اپنے ہی مفروضوں کی آپ ہی تصدیق کر رہی تھی ۔پاس کھڑے  جہانگیر کا چہرہ بجھ سا گیا ۔ابھی تو زینب اسے اپنی سختی کا خميازہ خیال کر رہی تھی ،اگر اس نے ساری حقیقت بتا دی تو وہ کیا کرے گا ؟پریشانی سے اسکا ہاتھ اپنے ماتھے تک گیا تھا ۔اسے ایک نئی فکر لاحق ہو چکی تھی ۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?