کمرے سے نکلتے اسکی نگاہ شہیر پر گئی تھی جو لیونگ ایریا میں سنٹرل میز پر دونوں بازو رکھے ہاتھوں پر اپنا چہرہ ٹکائے نیچے کشن پر بیٹھا ہوا تھا ۔نظریں سامنے شیشے کے میز پر رکھے آئرن اور لکڑی سے بنائے اس چھوٹے سے سائیکل رکشہ پر جمی ہوئی تھیں جسے ٹوٹنے کے بعد دوبارہ مرمت کیا گیا تھا مگر اب وہ پہلے کی طرح بےعیب نہیں رہا تھا ۔
صلہ کے ذہن نے ماضی قریب کا سفر بڑی تیزی سے طے کیا تھا حیدر کو اپنے سارے کھلونے اس نے بڑے شوق سے دکھائے تھے اور ان میں ایک دس انچ کا وہ سائیکل رکشہ بھی تھا جسے شہیر نے بڑا سنبھال کر رکھا ہوا تھا ۔حیدر کو دکھاتے وہ اسے بتا رہا تھا یہ کھلونا اسکا فیورٹ ہے اور تین سال سے اسکے پاس ہے ۔وہ بھی مسکرا کر اسے سنتا اسے ہاتھ میں احتیاط سے لئے دیکھ رہا تھا۔مگر پھر ساری احتیاط کے باوجود وہ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا ۔نیچے سفید ماربل پر گرا وہ ٹوٹ چکا تھا اور پھٹی آنکھوں میں بے یقینی لئے شہیر کا منہ صدمے سے کھلا تھا ۔حیدر نے خفت کا شکار ہوتے سرعت سے جھک کر اسے اٹھایا جو درمیان میں سے دو حصوں میں بٹ گیا تھا ۔باپ کی شرمندگی محسوس کرتے شہیر نے مسکرانے کی کوشش کی تھی ۔
"کوئی بات نہیں بابا ۔ویسے بھی یہ بہت پرانا ہو گیا تھا ۔اور میں تو اسکے ساتھ کھیلتا بھی نہیں ہوں ایسے ہی پڑا ہوا تھا ۔"
وہ اسے یہ نہیں بتا پایا تھا کہ اسکے ٹوٹ جانے کے ڈر سے وہ اس کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا ۔
اسکے کہنے کے باوجود حیدر نے دو گھنٹے لگا کر اسے مختلف طریقوں سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا ۔فرق صرف یہ تھا اب وہ پہلے جتنا پرفیکٹ نہیں رہا تھا ۔
صلہ ماضی سے واپس حال میں آئی تو ایک گہرا سانس خارج کرتے اسکے پیچھے صوفے پر آ کر بیٹھی تھی ۔
"ہم اس شاپ پر دوبارہ پتہ کریں گے شہیر ۔شاید ایسا مل ہی جائے اور اگر نہ ملا تو ہم شاپ کیپر سے کہیں گے وہ ہمیں ایک ایسا ارینج کر دیں ۔"
اسکے پیچھے بیٹھے اسکے بالوں میں ہاتھ چلایا ۔شہیر ذرا بھر چونک کر پیچھے گردن گھماتے اسے دیکھنے لگا ۔پھر مسکرا کر سر نفی میں ہلایا ۔
"مجھے نیا نہیں چاہیے ماما ۔یہ اب زیادہ precious ہو گیا ہے ۔"
"ٹوٹنے کے بعد ؟"صلہ ہلکا سا ہنسی ۔شہیر نے ایک بار پھر سر کو نہ میں جنبش دی تھی ۔
"نہیں ٹوٹ کر جڑنے کے بعد ۔چیزیں تو بہت ساری ٹوٹتی ہیں ماما مگر ہم پهینک دیتے ہیں ،انکی جگہ نئی لے آتے ہیں ،جوڑتے صرف ان کو ہیں جو ہمیں زیادہ پیاری ہوتی ہیں یا مہنگی ہوتی ہیں ۔بابا سے یہ غلطی سے ٹوٹا تھا ۔وہ گلٹی تھے ماما ۔میں نے کہا بھی کوئی بات نہیں مگر پھر بھی انہوں نے اتنی دیر تک اسکو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ،کتنی محنت کی ۔میرے منع کرنے پر بھی لگے رہے ۔اور دیکھیں انہوں نے اسے جوڑ بھی لیا ۔اور مجھے دیتے کہا تھا وہ میرے لئے ایسا ایک نیا بھی لا دیں گے مگر میں نے انہیں بھی منع کر دیا تھا ۔انہوں نے میرے لئے اتنی محنت کی تھی نا کیوں کہ یہ ٹوائے میرا فیورٹ تھا ۔تو مجھے بھی تو چاہیے تھا انکی اتنی کوشش پر انہیں اسپیشل فیل کراؤں ۔میں نے بابا سے کہا تھا میرے لئے تو اب یہ اور بھی اسپیشل ہو گیا ہے کیوں کہ اسے جوڑنے میں بابا کی میرے لئے جو فیلنگز تھیں وہ بھی ساتھ جڑ گئیں ہیں ۔"
اسکی اتنی گہری بات پر وہ ڈھنگ سے مسکرا بھی نہ سکی ۔شہیر آہستہ سے وہ سائیکل رکشہ اٹھائے وہاں سے چلا بھی گیا تھا اور وہ پیچھے گم صم سی بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی ۔بچے کبھی کبھی اپنی معصومیت میں بڑوں کو کتنی بڑی سیکھ دے جاتے ہیں ۔انکے پاس مسئلے یا تو بہت پیچیده نہیں ہوتے یا وہ انہیں پیچیده رہنے نہیں دیتے ۔وہ ہر شے کے مثبت پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں جو ہم بڑے ڈھونڈنا نہیں چاہتے یا دیکھ کر بھی اپنی بڑائی میں ان دیکھا کر دیتے ہیں ۔
کمرے میں آ کر اس نے الماری کھولی تھی ۔اندر سے وہی بریسلٹ نکالا تھا جو اب جڑ چکا تھا ۔جس رات شہیر بھاگا تھا اس سے اگلی صبح یہ اسے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا ملا تھا ۔
اسے ہاتھ میں لئے دیکھتے اسے شہیر کی باتیں یاد آ رہی تھیں ۔آج اسکے بیٹے نے اسے نیا سبق پڑھایا تھا ۔بعض چیزویں ٹوٹ کر جڑ نے کے بعد زیادہ انمول ہو جایا کرتی ہیں ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رات وہ شہیر کے صبح کے اسکول یونیفارم کی تیاری مکمل کر رہی تھی جب بیڈ پر رکھا اسکا موبائل بجا تھا ۔وہ جانتی تھی کس کی کال ہے ۔شہیر اسکی کال کا انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا ۔متذبذب سی وہ بیڈ کی جانب آئی تھی ۔موبائل ہاتھ میں اٹھایا ،کال ریسیو کرے یا نہ کرے ؟ابھی فیصلہ ہوا نہیں تھا کہ کال بند ہو گئی ۔بے دلی سے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھنا چاہا جب ایک بار پھر سے وہ بج اٹھا تھا ۔اور اس بار اس نے سوچنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کیا تھا ۔
"سو گئے تھے کیا ؟"کال ریسیو ہوتے ہی دوسری جانب سے اسکی آواز سنائی دی تو نجانے کیوں صلہ کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوئی تھی ۔اتنے مہینوں بعد وہ اس سے براہ راست بات کر رہی تھی ۔اپنی کیفیت خود اسکے لئے عجیب سی ہو رہی تھی ،سمجھ سے بالاتر ۔
"وہ سو گیا ہے ۔"ایک نظر سوئے شہیر پر ڈالی ،بڑی ہمت مجتمع کرتے آواز کو ہموار رکھتے اس نے کہا تو اسکی آواز سن کر دوسری طرف بالکل خموشی چھا گئی تھی ۔
اور کتنے لمحے تھے جو اس بولتی خاموشی میں پهسل گئے ۔اپنی اپنی جگہ وہ دونوں چپ تھے مگر اس کے باوجود دونوں میں سے کسی نے بھی کال نہیں کاٹی تھی ۔کہنے کو کچھ نہیں تھا جانتے تھے ،مگر سننے کی خواہش ہنوز برقرار تھی ۔
"کیسی ہو ؟"
بہت دیر بعد اسکی مدہم آواز صلہ کے کان سے ٹکرائی تھی ۔بے یقینی کے بادل دوسری طرف جھٹنے لگے تھے ۔
"میں ٹھیک ہوں ۔"موبائل یوں ہی کان سے لگائے وہ کھڑکی کے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔آدھا ادھورا چاند ،آسمان پر جگمگا تو رہا تھا مگر مکمل تو نہیں تھا ۔
سو تو نہیں رہی تھی ۔میں نے ڈسٹرب ۔۔"
"نہیں ۔"
اسکا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی وه بول اٹھی ۔اپنی بے صبری پر خود کو سرزنش کرتے آنکھیں میچیں ۔
"میں سونے جا رہی تھی ۔ابھی سوئی نہیں تھی ۔"ذرا توقف کے بعد آرام سے جملا مکمل کیا ۔
"مجھ سے نہیں پوچھو گی میں کیسا ہوں ؟"
پتہ نہیں کیوں اس نے ایسے کہا تھا ۔اتنے عرصے بعد اسکی آواز سن کر دل خوش فہم ہونے لگا تھا یا ان لمحوں میں وہ کچھ خوشی کے پل دل ناداں کے کہنے پر کشید کرنا چاہ رہا تھا ۔
صلہ نے اسکے لہجے میں بولتی بے خودی پر بے اختیار تھوگ نگلا تھا ۔
"آپ بھی ٹھیک ہوں گے روز شہیر سے بات کرتے تو ہیں تو مجھے پتہ ہے ۔"
دل پگھلنے لگا تھا ،مگر اس نے خود کو سنبھال لیا تھا ۔
"ٹھیک تو نہیں ہوں میں ۔طبیب جانتا تو ہے مگر جان کر انجان بن رہا ہے ۔"حفیف سا ہنس کر اس نے جیسے شکوہ کیا تھا ۔
بے بسی سے لب کاٹتے صلہ نے اپنی آنکھوں میں آنے والی نمی کو پیچھے دهكیلنا چاہا تھا ۔وہ کتنی دیر سے چاند کو یک ٹک دیکھ رہی تھی تبھی آنکھوں کے سامنے دهند سی چھانے لگی تھی ۔ہاں ایسا ہی ہوا ہو گا ۔
"مت کرو صلہ ایسا ۔اور کتنی سزا کاٹوں ؟ تم بہادر تھی اتنے سال جھیل گئی میری تو ابھی سے بس ہونے لگی ہے ۔تم تک آنا چاہتا ہوں بس ایک بار یہ پابندیاں ہٹا دو ۔تمہاری ایک آواز کا منتظر ہوں یار ۔صرف ایک بار پکار لو زندگی بھر تم سے کچھ اور کی تمنا نہیں کروں گا ۔میں تو یہ بھی نہیں کہتا مجھے بدلے میں چاہو ،میری چاہتوں کا جواب چاہت سے دو ۔تم بھلے ساری عمر مجھ سے محبت نہ کرنا ،بس میری محبت ،میری چاہت قبول کر لو ۔"
اسکے لب خاموش تھے مگر دل تھا کہ دہائی دے رہا تھا ۔اور یہ اسکے دل کی ہی آواز تھی جو صلہ کے دل کو بے چین کرنے لگی تھی ۔
"رات کافی ہو گئی ہے ۔میں فون رکھتی ہوں ۔"
"ہوں ۔"
"اچھا سنو ۔"موبائل کان سے ہٹانے کو تھی جب اسکی آواز پر رک سی گئی ۔اسکی مخصوص "سنو "سے صلہ کو کچھ یاد آیا تھا ۔ہونٹوں پر اک افسرده سی مسکراہٹ آن ٹھہری ۔
"شہیر سے کہنا میں کل شاید کال نہ کر سکوں ۔صبح کی فلیٹ ہے میری ۔وہاں پہنچ کر کال کروں گا ۔اللّه حافظ ۔"
جلدی سے کہہ کر وہ کال کاٹ چکا تھا ۔اور صلہ کو لگا تھا اسکے وجود کا کوئی ایک حصہ ایک بار پھر سے اس سے جدا ہو گیا ہو ۔ارد گرد اداسی رقصاں تھی ،دل کا بھاری پن بڑھتا چلا گیا ۔آنکھوں کی بے نام نمی ایک آنسو کی صورت گال پر بہتی چلی گئی ۔
کچھ فیصلے مشکل ہوتے ہیں ۔جنہیں کرتے ہوئے دل دو حصوں میں بٹ جاتا ہے ۔حیدر کو مایوس کرنا ،اس سے ایک بار پھر سے جدا ہونا اسکی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا ۔اسے لگتا تھا وہ ایک بار کر گزرے گی تو آگے آسانی ہو جائے گی مگر وہ غلط تھی ۔بعض فیصلے لینا جتنا مشکل ہوتا ہے ان پر قائم رہنا اس سے بڑا عذاب بن جاتا ہے ۔وہ اسکی ضد تھی ،خود داری تھی ،عزت نفس تھی جو اس نے حیدر کا بڑھا ہاتھ سختی سے جھٹک دیا تھا اور اپنے کیے پر اسے افسوس ہرگز نہیں تھا ۔وہ خوش نہیں تھی تو بھی کیا غم تھا کم از کم مطمئین تو تھی ۔مگر دل کی دنیا تو الگ بستی تھی ۔وہاں یہ سب حکایتیں نہ سنی جاتی ہیں نہ تسلیم کی جاتی ہیں ۔اسکا دل بھی نہیں سنتا تھا اور وہ دل کی نہیں سنتی تھی ۔دونوں ضد کے پکے تھے اور اس میں نقصان بہر صورت صلہ کا ہی ہوا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
زندگی اک جمود کا شکار پھر سے ہو گئی تھی ۔سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا مگر پھر بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا ۔شہیر سے اسے پتہ چلا تھا وہ کوریا گیا ہوا تھا اور آج کل اپنی ورک شاپس میں اس قدر مصروف تھا کہ شہیر سے بھی اسکی بات کم کم ہونےلگی تھی ۔
وہ بھی معمول کے جیسا ایک عام سا دن تھا ۔پیپرز کے بعد شہیر کو چھٹیاں تھیں ۔اور اس دن اس نے بھی آفس سے آف لے لیا تھا ۔دوپہر کے وقت ڈور بیل پر دروازہ شہیر نے ہی کھولا تھا اور پھر اسکی چہکتی پکار پر صلہ جو کمرے سے نکل رہی تھی ۔آگے بڑھتی تجسس سے دیکھنے لگی تھی ۔وہ کبھی ان سے ملی نہیں تھی ،نہ کبھی بات ہوئی تھی مگر شہیر انکے فوٹوز اکثر دکھاتا رہتا تھا اس لئے غائبانہ وہ انہیں جانتی تھی ۔اور پہلی نظر دیکھ کر ہی انہیں پہچان بھی گئی تھی ۔شہیر ان سے یوں لپٹا تھا جیسے صدیوں کی آشنائی ہو ۔وہ اکثر ان سے بات کرتا رہتا تھا ۔یہی وجہ تھی ویسی اجنبیت نہیں رہی تھی اور خون کی کشش تو بہرحال اپنا آپ دکھاتی ہی تھی ۔
خود سے الگ کرتے شہیر کا ماتھا چوم کر سیدھا ہوتے انکی نگاہ صلہ پر پڑی تھی ۔انکی شخصیت کا وہ پر وقار نرم سا تاثر تھا یا انکا احترام وہ اپنے بڑھتے قدم روک نہیں پائی تھی ،بدلے میں خلوص سے انہوں نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر اپنا دست شفقت رکھا تھا ۔
ڈرائنگ روم میں خالہ اور شہیر انکے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔صلہ نے کھانے پر اچھا خاصا اہتمام کر لیا تھا ۔اپنی پھرتیوں پر اسے ہنسی بھی آ رہی تھی ۔شوہر کا کوئی اتہ پتہ تھا نہیں اور سسرال والوں کی خد متیں کی جا رہی تھیں ۔اسکا واحد سسرالی رشتہ اپنی سوچ سے وہ خود ہی محظوظ ہوئی تھی ۔
کھانے کے بعد انہوں نے صلہ سے اکیلے میں بات کرنے کی استدعا کی تو وہ کچھ تذبذب کا شکار ہوتی انکے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔خالہ شہیر کو لے کر وہاں سے چلی گئی تھیں ۔عبدالرحمان کاظمی نے مسکرا کر آنکھوں میں پر شفیق تاثر لئے اسے دیکھا تھا ۔
"یہ مت سمجھنا بیٹا میں یہاں مرتضیٰ کے حوالے سے تم سے ملنے آیا ہوں ۔تم میرے لئے زینب کی بیٹی ہو اور زینب میرے لئے میری بیٹی جیسی تھی ۔"
انہوں نے آغاز میں جیسے تمہید باندھی تھی ۔صلہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر اثبات میں ہلا دیا ۔
"سب سے پہلے میں تم سے معافی مانگتا ہوں بیٹا ۔تمہارے ساتھ جو بھی ہوا غلط ہوا اور اس میں کہیں نہ کہیں قصور میرا بھی نکلتا ہے ۔ہمارے چھوٹے جب کوئی غلطی کرتے ہیں تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہیاں بھی کارفرما ہوتی ہیں ۔ہماری غفلت کا عمل دخل بھی ہوتا ہے ۔"
وہ شرمندہ نظر آتے تھے ۔صلہ کو برا لگا تھا ۔
"آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں ۔اس سب میں آپ کی غلطی تو نہیں تھی ۔"
"میری غلطی تھی بیٹا ۔وہ گدھا میری ذمہ داری تھا ۔میں اپنے اندھے اعتماد میں چونک گیا ۔مجھے پتہ ہونا چاہیے تھا وہ کیا کرتا پھر رہا ہے ۔اور نو سال تک میں بے خبر رہا یہ غفلت کوئی کم تو نہیں ہے ۔" اس بار وہ جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی تھی ۔یوں ہی سر جھکا دیا ۔وہ اب بھی بول رہے تھے ۔
"مجھے تو خود اس نے یہاں سے جانے کے بعد بتایا ہے ۔میں تب سے آنا چاہ رہا تھا مگر ہمت نہیں ہو پا رہی تھی ۔اب بھی بڑی مشکل سے جرات کر سکا ہوں ۔شہیر ہر بار کال پر آنے کا کہتا تھا اور میں ہر بار اسے ہنس کے ٹال دیا کرتا تھا ۔مگر اب لگنے لگا تھا ،جیسے میرا آنا ضروری ہو گیا ہے ۔یہ مت سمجھنا میں اسکی سفارش کرنے آیا ہوں ۔تم اسے معاف کرتی ہو یا نہیں ،آنے والی زندگی کو لے کر تمہارا جو بھی فیصلہ ہو گا اس میں میں مرتضیٰ کا نہیں بلکہ تمہارا ساتھ دوں گا ۔مگر مجھے لگتا ہے اب فیصلہ ہو جانا چاہیے ۔آخر کب تک تم دونوں یوں ہی اپنی اپنی زندگیاں برباد کرتے رہو گے ۔شاید آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے ۔"
صلہ نے نا سمجھی بھرے انداز میں آنکھیں اٹھا کر انکی طرف دیکھا تھا ۔گود میں رکھے ہاتھ کی مٹھی کسی خدشے کے تحت زور سے بھینچی ۔وہ کس فیصلے کی بات کر رہے تھے ؟تو کیا خالہ کی اس دن کہی باتیں سچ تھیں ؟کیا وقت آ گیا تھا وہ کسی نئی راہ کا مسافر بننے جا رہا تھا اور اس سے پہلے پچھلے سارے راستے بند کرنے کا خواہاں تھا ۔دل بہت سے وسوسوں کی آماجگاہ بننے لگا تھا ۔
"لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں تم وہ سب جان لو جو وہ تمہیں کبھی نہیں بتائے گا ۔اور یہ بھی مت سمجھنا کہ میں یہاں اسکے کہنے پر آیا ہوں ۔اسے میری یہاں موجودگی کا علم تک نہیں ہے ۔تم دونوں کے رشتے کا مستقبل کیا ہو گا میں نہیں جانتا بیٹا مگر میں ایک کوشش کرنا چاہتا ہوں اسے جوڑنے کی ۔جانتی ہو کیوں ؟"وہ کچھ توقف کے لئے رکے ۔صلہ انہیں یوں ہی آنکھوں میں بہت ساری الجھن لئے دیکھتی رہی ۔
"پچھلے بیس سالوں میں کسی خوشی ،کسی غمی پر میں نے اسکی آنکھوں کو نم تک نہیں ہوتے دیکھا ،مگر تم وہ ہو جس کے لئے وہ میرے سامنے کسی بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا ۔"
صلہ نے بے ساختہ اپنی نظریں چرا لی تھیں ۔وہ رویا تھا اور اس کے لئے رویا تھا ۔یقین کرنا مشکل تھا مگر بوبی اسے وہ یقین دلانا چاہتے تھے ۔
اور یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ کہانی جس نے آگے جا کر ایک اور کہانی کو جنم دے دیا تھا ۔مرتضیٰ حیدر کاظمی کے بچپن کی کہانی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
عبدالرحمان کاظمی کو ایک کال گئی تھی زینب کی جس میں اس نے کہا تھا وہ جتنی جلدی ہو سکے پاکستان آ جائیں ۔وہ سب سنبهالتے سنبهالتے تھکنے لگی ہے اور حالات تھے کہ ٹھیک ہونے کے بجائے بگرڑتے ہی جا رہے تھے ۔اور انہوں نے یقین دہانی کروائی تھی وہ پہلی فرصت میں آئیں گے ۔مگر انہیں دیر ہو گئی تھی ۔
شجاعت کاظمی انکی اکلوتی اولاد ،جذباتی ،غصے کا تیز ،جلد باز بنا سوچے سمجھے کر گزرنے والا ، خوابوں کی اونچی پرواز ،اور شارٹ کٹ کا حامی ۔انہیں اکثر اسکی ان خوبیوں سے خوف محسوس ہوتا تھا ۔مگر زینب کی اسکی زندگی میں موجودگی کا احساس کسی حد تک اطمینان کا باعث تھا ۔وہ ایک سمجھ دار اور ٹھہرے مزاج کی لڑکی تھی ۔پھر انکی زندگی میں مرتضیٰ حیدر کی آمد نے جیسے چار چاند لگا دیے تھے ۔زینب اور شجاعت اسے پیار سے مون کہہ کر بلاتے تھے ۔صرف بوبی تھے جو اسے مرتضیٰ کہا کرتے تھے ۔عبدلرحمان کاظمی کو لگتا تھا اولاد کے ہونے سے شجاعت کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ جائے گا مگر ہوا اس کے الٹ تھا ۔مرتضیٰ کے بعد تو اسکے خوابوں کی پرواز میں اور بھی بلندی در آئی تھی ۔خواب دیکھنا بری بات نہیں ہے ۔مگر ان خوابوں کو پورا کرنے کے لئے کسی جادوئی چھڑی کے گھومنے کی طلب انسان کو اوندھے منہ زمین پر لا پٹختی ہے ۔
شجاعت کاظمی اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر بزنس پارٹنر شپ کرنا چاہتا تھا ۔بوبی نے بارہا سمجھایا ،زینب نے منتیں ترلے کر دیکھے ۔اسے ابھی مزید سیکھنے کی ضرورت تھی اتنا بڑا قدم بنا کسی تجربہ کاری کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے مگر اس پر تو جیسے دھن سوار تھی ۔جاب چھوڑ دی ،عبدلرحمان کاظمی نے بھی ہار مان لی ۔جو تھا اسی بیٹے کا تھا تو چپ سادھ لی ۔خود وہ شارجہ میں شعبن تدریس سے منسلک تھے ۔شجاعت نے جو کوئی آبائی جائیداد تھی سب بیچ ڈالی ۔
اور بات یہاں ختم نہیں ہوئی یہاں تک کہ گھر تک گروی رکھ ڈالا ۔دو سال اس نے دن رات ایک کر دیے ۔بزنس اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں ۔اس دوران بوبی نے اسے کتنی دفع سمجھا یا بزنس میں کسی پر بھی اندھا اعتبار نہیں کرتے مگر اسے تو اپنے دوستوں پر آنکھ بند کر کے یقین تھا ۔جس کا نتیجہ ایک بہت بڑے فراڈ کی صورت نکلا تھا ۔دو سال کی کڑی محنت اور سارا سرمایہ لگانے کے بعد جب بزنس اپنے پیروں پر کچھ کچھ جمنے لگا تو پتہ چلا اسکے دوست کاغذی کاروائی میں سب اپنے نام کروا چکے تھے ۔اسکا پچاس فیصد حصہ گول ہو چکا تھا اور وہ اپنے اندھے اعتماد میں سب کچھ ہار بیٹھا تھا اور اسے دودھ میں سے مكهی کی طرح نکال باہر کیا گیا تھا ۔لڑائی جھگڑے ،عدالتوں کے چکر مگر کچھ ہاتھ نہ آیا ۔دن بدن وہ مایوس،چڑچڑا اور غصیلا ہوتا جا رہا تھا ۔زینب نے اس کرائسس میں اسکا بہت ساتھ دیا ۔بوبی چھٹی لے کر پاکستان بھی آئے ۔گھنٹوں بیٹھ کر اسے سمجھاتے اور وہ چپ چاپ سنتا رہتا ۔بینک کا قرض ادا کرنے کے لئے گھر بیچنا پڑا ۔وہ کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گئے ۔شجاعت حیدر سے نظریں تک نہیں ملاتا تھا ۔وہ ایک بہت پیار کرنے والا باپ تھا ۔بیٹے کے منہ سے نکلنے والی ہر بات پوری کرنے والا اور اب اسی بیٹے کو اسکی وجہ سے در در رلنا پڑ رہا تھا ۔ایسے میں بوبی نے انکے اخراجات اٹھا لئے تھے ۔شجاعت نے دوبارہ جاب سٹارٹ کر دی تھی مگر جو کماتا تھا وہ عدالت اور وکیل کی فیس میں نکل جاتا تھا ۔
جس دن وہ عدالت میں ڈیڈھ سال دھکے کھانے کے بعد کیس ہارا اس دن وہ گھر واپس آ کر زینب کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا ۔ساری رات وہ اس سے معافیاں مانگتا رہا ۔وہ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکا ،وہ مون کو محفوظ مستقبل فراہم نہیں کر سکا ،پچھتاتا رہا،روتا رہا ۔اور وہ اسکی ڈھارس بڑھاتی رہی ۔اور بظاہر سویا مرتضیٰ حیدر آنسوؤں سے تکیہ بھگوتا رہا ۔اس رات اسکی ابتر ہوئی حالت دیکھ کر زینب نے بوبی کو کال کی تھی ۔انہیں جلد آنے کا کہا تھا ۔مگر دیر ہو گئی تھی ۔
اگلے دن کا سورج قیامت لے کر طلوع ہوا تھا ۔شجاعت نے اپنے دونوں دوستوں کو دن دهاڑے آفس کی بلڈنگ سے نکلتے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اسکے بعد جائے وقوعہ پر ہی خود کشی کر لی تھی ۔
زینب اور حیدر لمحوں میں کھلے چھت کے نیچے آ کھڑے ہوئے تھے ۔پے در پے مشکلات نے زینب کو نہیں توڑا تھا مگر شجاعت کے جانے نے اسکی روح تک جهنجھوڑ کر رکھ دی تھی ۔وہ بالکل چپ ہو کر رہ گئی ۔بوبی کا اپنا غم بڑا تھا ۔جوان سال بیٹے کی ایسی درد ناک موت نے انکے کندھے ڈھلکا دیے تھے ۔اور معصوم حیدر نے اپنا نا صرف بہت پیار کرنے والا باپ کھویا تھا بلکہ پرسہ دینے آنے والوں کی چہ میگوئیاں بھی سنی تھیں ۔اپنے پیارے باپ کے لئے قاتل جیسے الفاظ سنے تھے ۔زمین جب کسی کے لئے تنگ ہونے لگے تو سفاکی کی انتہا کر دیتی ہے ۔اور یہ اس بچے کے لئے صرف شروعات تھی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
زینب کے گھر والے اسے ساتھ لے جانے پر مصر تھے ۔بوبی انہیں ساتھ شارجہ لے جانا چاہتے تھے مگر وہ نہیں مانے ۔زینب کی اپنی مرضی تو جیسے رہی ہی نہیں تھی وہ مٹی کا مادھو بن بیٹھی تھی ۔بوبی نے بھی دور اندیشی سے کام لیتے زینب کو اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا تھا ۔واپس شارجہ جا کر وہ متواتر ان دونوں کے لئے خرچہ بھیجتے رہے تھے ۔باپ کی موت کے بعد حیدر ان سے اور بھی قریب ھو گیا تھا ۔وہاں اپنے ننھیال میں اپنے ماموؤں کو اپنے بچوں سے پیار کرتے ،کھیلتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں اداسی گھلنے لگتی تھی ۔وہ خاموش طبع ہو گیا تھا ۔بجھا بجھا اور کھچا کھچا سا رہتا اور اسی وجہ سے رفته رفته اسکے کزنز نے اسکا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا ۔زینب بھی جلد ہی گھر کے کاموں میں مگن ہو گئی تھی کہ بھابھیاں تمام عمر بستر پر بٹھا کر کھلانے کی متحمل نہیں تھیں ۔اسکا سارا سارا دن گھر کے کاموں اور بھابھیوں کی چاکری کی نذر ہو جایا کرتا تھا ایسے میں وہ حیدر کو بھی وہ توجہ اور پیار نہیں دے پا رہی تھیں جس کی اسے اس وقت اشد ضرورت تھی ،حیدر کا اچھے اسکول میں داخلہ ہوا تھا کہ اسکا خرچہ اسکے دادا بھیجتے تھے ۔زینب کی ماں بیٹی کی اجڑی حالت پر دل برداشتہ ہوتی رہتی تھیں ۔ایک سال میں ہی اسکے بھائیوں کو بہن بوجھ لگنے لگی تھی ۔گھر میں اسکی شادی کا موضوع زیر غور آنے لگا تھا ۔
اور ڈیڈھ سال مسلسل انکار کے بعد بلا آخر زینب نے ماں کے جڑے ہاتھوں کے آگے ہار مان ہی لی تھی ۔جہانگیر مراد اسکے بھائی کے جاننے والوں میں سے تھا ۔ خود ایک بیٹی کا باپ تھا بیوی کا انتقال ہو چکا تھا ۔یہ رشتہ ہر لحاظ سے مناسب تھا ۔سب کا یہی خیال تھا وہ خود بیٹی والا ہے تو زینب کے بیٹے کو بھی شادی کے بعد کھلے دل سے تسلیم کر لے گا ۔کہ شادی کی صرف یہی شرط زینب نے رکھی تھی کہ وہ حیدر کو اپنے ساتھ رکھے گی ۔بوبی نے بھی زینب کے گھر والوں کے اس اقدام کو سراہا تھا ۔اسکی ابھی عمر ہی کیا تھی آگے ایک لمبا سفر تھا زیست کا جو تنہا عورت کے لئے طے کرنا بہر حال محال ھو ہی جایا کرتا ہے ۔یا پھر ہمارا معاشرہ اسے مشکل بنا دیتا ہے ۔
زینب کی جہانگیر سے شادی کے بعد حیدر کی زندگی کے نئے اور سب سے مشکل دور کا آغاز ہوا تھا ۔دو سالوں نے اس سے بہت کچھ چھینا تھا ،محبت کرنے والا باپ ،لوگوں کی ترحم آمیز نظریں ،اپنے باپ کے لئے کی گئی چہ میگوئیاں ،اپنے ننھیال میں اپنی ماں کی بے وقعتی سے لے کر ملازموں کی طرح سارے گھر کے کام کرنا ۔وہ ماں جسے اسکے باپ نے رانی بنا کر رکھا ہوا تھا ۔اور ان دو سالوں نے اسے وہ کچھ نہیں دکھایا تھا جو آئندہ چند دن اسے دکھانے والے تھے ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جہانگیر سے شادی کے بعد زینب نے کھلے دل سے اسکی بیٹی صلہ کو اپنایا تھا ۔پانچ سالہ خوب صورت نقوش ،سبز آنکھوں اور بھورے بالوں والی صلہ بھی جلد ہی اس سے مانوس ہو گئی تھی ۔اور نئے گھر میں جگہ بنانے ،صلہ کو خود سے مانوس کرنے میں زینب کی توجہ کچھ اور حیدر پر سے بٹ گئی تھی ۔وہ دس سال کا ہونے کو تھا ۔اور زینب کو لگتا تھا اب وہ بڑا ہو گیا ہے ،سمجھ دار ھو گیا ہے جب کہ وہ تو اپنے خول میں سمٹ کر رہ گیا تھا ۔
مگر اس عورت جتنی وسعت اور ظرف اس مرد میں نہیں تھی ۔زینب نے صلہ کو قبول کر لیا تھا مگر جہانگیر کے لئے حیدر کا وجود برداشت کرنا مشکل ھو رہا تھا ۔ایک تو وہ بولتا نہیں تھا ۔انکے درمیان گهلتا ملتا نہیں ۔زینب کو صلہ کے ساتھ دیکھ کر اسکی آنکھوں کا تاثر بدلنے لگتا تھا اور یہ بات جہانگیر کی نظروں سے مخفی نہ رہ سکی تھی ۔وہ اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا تھا ۔بجائے اسکے کہ وہ مون (زینب اسے مون پکارتی تھی تو جہانگیر کے لئے بھی وہ مون ہی تھا ۔اسکا اصلی نام جاننے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ) کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر بناتا اس نے دل ہی دل اسکے لئے خار پال لی تھی ۔
وہ جانتا تھا حیدر کے باپ نے قتل کے بعد خود کشی کر لی تھی اور اسے لگتا تھا ایسے کرمنل ماں باپ کی اولاد بھی اپنے اندر تخریب کاری کا رجحان رکھتی ہے ۔یہاں آ کر وہ جان بوجھ کر صلہ کو حیدر سے دور رکھنے کی کوشش کرنے لگا تھا ۔اسکا رویہ عجیب سا تھا ۔زینب کے سامنے وہ مون سے بہت اچھے سے برتاؤ کرتا اور اسکی غیر موجودگی میں اسکی چھبتی نظریں حیدر پر ہوتیں ۔کہیں مرتبہ وہ اسے اکیلے میں بازو سے پکڑ کر جهنجھوڑتے صلہ سے دور رہنے کا کہہ چکا تھا ۔حیدر کا دل اس سے متنفر ہو چکا تھا ۔ایک دو بار اس نے جہانگیر کے رویے کے بارے میں ماں کو بتانے کی کوشش کی تھی مگر زینب نے خاص توجہ نہیں دی ۔آخر دیتی بھی کیسے اسکے سامنے تو جہانگیر مون کے لئے کتنا کنسرن شو کرتا تھا ۔وہ اکیلے میں بھی جب بھی صلہ کے مستقبل کے حوالے سے بات کرتا تو حیدر کے بارے میں بھی اسکے پاس پلانز ہوتے تھے ۔اور زینب اسکے شیشے میں اترتی چلی گئی ۔وہ دل سے اس شخص کی شکر گزار تھی جو اسکے بیٹے کو اپنی اولاد کی طرح دیکھتا اور سوچتا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .