وہ فلیٹ میں داخل ہوئی تھی اور چلتی ہوئی آ کر خالہ کے ساتھ صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی ۔آج صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی تھی جس کے باعث صبح صبح اچھی خاصی ہڑبڑی مچ گئی تھی ۔ابھی ابھی بھاگم دوڑ وہ شہیر کو نیچے اسکول وین میں بٹھا کر آئی تھی ۔
"اف خالہ اگر آپ نہ جگاتیں تو شہیر کا اسکول آج مس ہو جانا لازمی تھا۔"
انکی طرف دیکھتی وہ سر صوفے کی پشت پر گرائے اب پر سکون سی بیٹھی تھی ۔
"کوئی نہیں ہو جاتا ہے کبھی كبهار ۔ " چائے کا سپ لیتے خالہ نے کہا ۔
"ہو نہیں جاتا خالہ ۔یہ سب شہیر کی مہربانیاں ہیں ۔ویک اینڈ پر اسکی باتیں ہی ختم نہیں ہوتیں ۔رات ساڑھے گیارہ بجے تک تو وہ گپیں ہانک رہا تھا ۔اسکی وجہ سے میرے سونے کا ٹائم بھی نکل جاتا ہے اور پھر اتنی دیر سے نیند آئی مجھے ۔پتہ نہیں اتنی باتیں اسے آتی کہاں سے ہیں اور روز اتنی باتیں ایک ہی انسان سے کوئی کر بھی کیسے سکتا ہے ۔"
وہ بس عام سے انداز میں کہہ رہی تھی ۔کوئی غصہ نہیں تھا ، نہ خفگی تھی ۔وہ کس کی بات کر رہی تھی خالہ کو سمجھنے میں دقت تو بالکل نہیں ہوئی تھی ۔
"جہاں محبتیں ہوں وہاں باتوں سے باتیں نکلتی آتی ہیں ۔بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔"خالہ نے اسکی طرف دیکھتے کچھ اس انداز میں کہا کہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ آنکھیں چرا گئی ۔
"کیوں خود پر ظلم کر رہی ہو صلہ ۔"انکے لہجہ مغموم ہونے لگا ۔
"اب ایسا کیا کر دیا ہے میں نے ؟"وہ سنبهل كر خفیف سا مسکرائی تھی ۔
"زندگی خوشیوں کے در کھولے منتظر کھڑی ہو اور انسان اپنے ہاتھوں سے وہ سارے دروازے بند کر دے یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ۔"انکا انداز سمجھانے جیسا تھا ۔
"آپ کو کیوں لگتا ہے خالہ میں خوش نہیں ہوں ۔اور کیسے خوش رہا جاتا ہے آپ مجھے بتائیں ؟میرے پاس اچھی جاب ہے ،رشتوں کے نام پر کم سہی مگر اچھے اور مخلص لوگ ہیں ۔سر پر اپنی چھت ہے ۔میرا بیٹا زندگی میں بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔اس کی زندگی میں کوئی خلا نہیں رہی اب ۔ماں باپ دونوں کی محبت ،وقت اور توجہ مل رہی ہے اسے ۔ اور کیا چاہیے مجھے ؟"
انکی طرف نگاہیں کیے سیدھے ہو کر بیٹھتی ،دوبدو سوال کر رہی تھی ۔
"تم سمجھ نہیں رہی یا سمجھنا چاہ نہیں رہی ۔اتنی نا سمجھ کب سے ہو گئی ہو تم بھلا؟ تمہیں کیا لگتا ہے ساری عمر ایسا ہی چلتا رہے گا ۔یہ جس چھت کی تم بات کر رہی ہو یہ صرف ایک مکان ہے گھر نہیں ہے ۔عورت کے لئے اسکا گھر وہ ہوتا ہے جہاں اسکا شوہر ہو ،بچے ہوں ۔چار دیواری میں احساس تحفظ ہو ۔اور شہیر کا جو حوالہ تم دے رہی ہو نا بیٹا۔تمہیں کیا لگتا ہے آج اگر اسکی زندگی میں کوئی دوسری عورت آ جائے تو بھی سب ایسے ہی چلتا رہے گا ۔آخر کب تک وہ تمہارا انتظار کرتا رہے گا ۔جوان جہان ہے ساری زندگی ایسے ہی تو نہیں گزار سکتا ۔دوسری عورت آئے گی تو بچے بھی ہوں گے،توجہ بٹے گی ،زمینی فاصلے رشتوں میں بہت سی دوریوں کا باعث بننے لگتے ہیں اور دوسری آنے والی پہلی عورت کی اولاد کے لئے وہ نرم گوشہ نہیں رکھے گی ۔آہستہ آہستہ سب ریت کی طرح تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔پھر پوچھوں گی تم سے کتنی خوش ہو تم ۔ابھی تو سب تمہارے ہاتھ میں ہے ۔تم بھی جانتی ہو وہ منتظر ہے تمہارا اس لئے اتنا سکون ہے تمہیں ۔آج وہ کسی اور طرف متوجہ ہو گیا تو پوچھوں گی تمہارا سکون کہاں جاتا ہے ؟"
خالہ بھی کبھی کبھی بڑا سفاک تجزيہ کرنے لگتی تھیں ۔صلہ کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔آنکھوں میں بے چینی سی ہلکورے کھانے لگی ۔
"ایک بار پوری سچائی کے ساتھ اپنے دل سے پوچھ کر بتاؤ کیا تم تب بھی خوش رہ سکو گی ؟"انکی تیز جانچتی نظریں اسکے اندر تک کھبتی چلی گئیں ۔اس بار اسکے چہرے پر تغیر سا برپا ہوا تھا ۔
"کیا خالہ آپ بھی ۔دل کی گواہیوں پر یقین کرنے بیٹھ جاتی ہیں ۔دل تو بس ہمیشہ خوار ہی کرتا ہے ۔میں نے عرصہ ہوا اسکی سننا چھوڑ دی ہے اور سچ بتاؤں اگر آپ زندگی میں پر سکوں اور خوش رہنا چاہتے ہیں تو دل کی بالکل نہ سنیں ۔بہت سی مفت کی پریشانیوں سے جان چھوٹ جاتی ہے ۔"اس نے مسکرا کر کہتے بات مزاح میں ٹال دی تھی ۔اٹھ کر کھڑے ہوتے گھڑی کی جانب نگاہ کی ۔
"میں بھی اب آفس کی تیاری پکڑوں ۔دیر ہو گئی تو اس دل نے نہیں بچانا سر کی ڈانٹ سے مجھے ۔"ہنس کر سر جھٹکتے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی ۔خالہ کی متاسف نظروں نے اسکا پیچھے کیا تھا ۔پتہ نہیں وہ کیا چاہتی تھی ۔
آفس آ کر بھی خالہ کی باتوں نے اسکا پیچھا نہیں چھوڑا تھا ۔دھیان تھا کہ بار بار بھٹک کر اسی کی جانب جاتا تھا ۔
"ٹھیک ہے میں نے کون سا اسکے ساتھ رہنا ہے تو بھلے کوئی دوسری عورت آتی رہے یا تیسری چوتھی آئے جائے اسکی زندگی میں ۔میری بلا سے ۔"سرجھٹک کر سوچتے لاپرواہی دکھانی چاہی مگر چہرے پر صاف بے سکونی دکھائی دیتی تھی ۔
"محبتوں کے بس بلند و بانگ دعوے ہی کرنے ہوتے ہیں ان مردوں نے ۔باقی تو بس یہاں پہلی گئی نہیں ، اسکی جگہ دوسری آ جاتی ہے اور پھر پہلی سے زیادہ شدید محبت دوسری سے ہو جاتی ہے ۔پتہ نہیں کیسی چائنا کے ماڈلز جیسی محبتیں ہوتی ہیں جنکی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہوتی اور ہر نیا آنے والا ماڈل پچھلے سے زیادہ بہتر ہی معلوم ہوتا ہے ۔"
مجھے فرق نہیں پڑتا کے اپنے مخصوص سلوگن کے باوجود وہ کلس کر رہ گئی ۔
اپنی ہی سوچوں میں غلطاں وہ موبائل اٹھا کر اس پر انگلیاں چلانے لگی تھیں ۔
"خالہ نے بھی تو اتنی بڑی بات ایسے ہی نہیں کہہ دی ہو گی ۔ضرور اسی نے کوئی ایسا اشارہ دیا ہو گا ۔آخر اتنی لمبی لمبی كالز کی جاتی ہیں ۔دوغلا انسان،جانے سے پہلے کیسے اپنی محبتوں کا یقین دلا رہا تھا اور اب اتنی جلدی سب ختم ہونے لگا ۔محبت نہ ہوئی کوئی میڈیسن ہو گئی جس کی ڈیٹ اب ایکسپائر ہونے لگی ہے ۔"
خالہ کی سرسری پیرائے میں کی باتوں کو وہ خاص رنگ دیتی اس سے بھی متنفر ہو رہی تھی ۔واٹس ایپ کھولتے سب سے اوپر اسی کا نام جگمگا رہا تھا ۔ڈی۔پی پر شہیر کی ہنستی مسکراتی تصویر جگمگا رہی تھی ۔یوں ہی بے دلی سے کلک کرتے چیٹ کھولی ،لاسٹ سین صبح کا آ رہا تھا ۔ شہیر اور حیدر کی صبح کی گڈ مارننگ کی چھوٹی سی ٹیکسٹ میسجز کی صورت ہوئی بات چیت سامنے تھی ۔اوپر کی جانب اسکرول کرتے وہ تمام میسجز اور تصویریں جو وہ کہیں بار دیکھ چکی تھی دوبارہ دیکھ رہی تھی ۔
ایک جیسی شرٹس پہن کر بنائی تصویروں کے ہوئے تبادلے ،ایک دوسرے پر کیے گئے کمنٹس ،اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ سی آن ٹھہری ۔
پچھلے سات ماہ میں اس نے شہیر کے لئے کوئی چیز نہیں خریدی تھی ۔اسکے کپڑوں سے لے کر کھلونوں تک ہر چیز وہ خود بھیجتا تھا اور اس تواتر سے بھیجتا تھا کہ اسکے لئے وارڈ روب میں جگہ کم پڑنے لگتی تھی ۔
اسکی انگلی مسلسل اسکرول کر رہی تھی جب ایک دم سے اوپر لاسٹ سین کی جگہ آن لائن لکھا آیا تھا ۔صلہ کے ہاتھ سے موبائل چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا ۔دل اس قدر زور سے دھڑکا تھا جیسے وہ اسکی چوری اتنے دور بیٹھے بھی پکڑ گیا ہو ۔ہوائیاں اڑے چہرے کے ساتھ تیزی سے انگلیاں چلاتے اس نے واٹس ایپ بند کرتے موبائل ٹیبل کی سطح پر رکھ دیا تھا ۔اور خود سامنے کھلے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہونے کی سعی میں جت گئی تھی ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
صلہ کے کہنے پر بھی وہ شہیر کو اس سے الگ کرتے اپنے ساتھ لے جانے جیسا سنگین جرم نہیں کر پایا تھا ۔شہیر کو اپنے جانے پر آمادہ کرنا ایک مشکل امر تھا مگر اس نے کر لیا تھا ۔
یہ اسکے اپنے لئے بھی مشکل تھا مگر جانتا تھا شہیر وہ واحد خوشی تھی جو انجانے میں سہی اسکی ذات سے صلہ کو ملی تھی اب اسے اس سے دور کرنا اپنے جرائم کی فہرست میں ایک اور جرم کے اضافے جیسا تھا ۔
پچھلے سات ماہ میں اس نے پوری کوشش کی تھی یہ فاصلہ شہیر اور اسکے تعلق پر اپنا اثر نہ ڈالیں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا تھا ۔انکے درمیان ایک مضبوط تعلق تھا ،وہ اسے پورا وقت دیتا تھا ،اپنی موجودگی کا احساس دلاتا تھا اور اسی باعث شہیر بھی جلد ہی نارمل ہو گیا تھا ورنہ اسکے چلے جانے کا سن کر وہ کس قدر اداس ہوا تھا۔
جس رات وہ گھر سے بھاگا تھا اسکے تین دن بعد حیدر پاکستان سے واپس شارجہ آ گیا تھا ۔
"شہیر اگر تمہیں ماما یا مجھ میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنا پڑے تو کس کے ساتھ رہو گے ؟"
وہ آخری بار اسے لے کر پارک آیا تھا ۔اسی جگہ جہاں وہ پہلی بار اس سے ملا تھا ۔
"مجھے دونوں کے ساتھ رہنا ہے ۔"اداسی سے کہتا وہ زور دے کر بولا ۔
حیدر نے اسکا بازو پکڑ پر اپنے پاس سے اٹھاتے اپنے گھٹنوں پر بٹھایا تھا ۔
"لیکن مجھے تو واپس جانا پڑے گا ۔"دل کی کیفیت کے بر عکس وہ مسکرایا ۔
"ماما نے کہا اس لئے ۔"شہیر اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا ۔گردن جھکا کر مدهم آواز میں بولا ۔
"نہیں ماما نے نہیں کہا ۔یاد ہے جب ھم یہاں اسی پارک میں ملا کرتے تھے تب میں نے تمہیں بتایا تھا میں شارجہ میں رہتا ہوں میری وہاں جاب ہے ،بوبی ہیں گھر ہے ۔تو ظاہری بات ہے یار یہاں کام ختم کر کے مجھے واپس تو جانا پڑے گا نا ۔"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں اسے سمجھانے لگا تھا ۔
"تو میں اور ماما بھی آپ کے ساتھ چلے چلتے ہیں ۔"اسکی طرف دیکھتے امید سے کہا ۔حیدر مسکرا تک نہ سکا ۔کاش زندگی کے سبھی مسائل ایسے ہی حل ہونے لگتے جیسے شہیر سوچتا تھا ۔
"ماما کی تو یہاں جاب ہے تو وہ کیسے جا سکتی ہیں ۔"
"ماما جاب چھوڑ بھی تو سکتی ہیں ۔"اسکا جواب تیار تھا ۔
"لیکن ماما چھوڑنا نہیں چاہتی ناں ۔"اسکے ماتھے پر آئے بال آہستگی سے پیچھے کئے ۔
کچھ دیر وہ بالکل چپ کر گیا تھا ۔
"تو پھر آپ پہلے کی طرح چلے جائیں گے ۔"اسکی آنکھوں میں نمی سی آنے لگی تھی ۔حیدر کے اسکے بالوں میں چلتے ہاتھ کی جنبش رکی ۔
:یہ کس نے کہا تم سے ؟میں کہیں نہیں جاؤں گا ۔شارجہ پتہ ہے کتنا قریب ہے ۔میں تم سے ملنے آیا کروں گا ۔تم میرے پاس آیا کرو گے ۔ہم مل کر پورا شارجہ گھومیں گے ۔موبائل پر بہت ساری باتیں کیا کریں گے ۔یہ بالکل ایسے ہو گا جیسے بہت سارے بچوں کے بابا دوسرے ملک جاب کرتے ہیں ،وہ دور ہوتے ہیں کام کی وجہ سے مگر اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ دور رہیں گے اور نہ ہی اس میں اتنی کوئی بڑی بات ہوتی ہے ۔"وہ اسے بہلا رہا تھا ۔
"اب تم مجھے بتاؤ کس کے ساتھ رہنا چاہو گے ۔میرے ساتھ یا ماما ساتھ ؟"وہ ایک بار پھر سے پوچھ رہا تھا ۔شہیر نے الجھن بھرے انداز میں لب کاٹے ۔کچھ دیر سوچنے کو وقت لیا پھر بولا ۔
"میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں بابا مگر میں ماما کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔اس لئے میں ماما پاس رہوں گا ۔"سر جھکا کر وہ کچھ شرمندہ سا کہہ رہا تھا جیسے اسے لگتا ہو اسکے باپ کو اسکا ماں کو اس پر فوقیت دینا برا لگے گا ۔اور اسکے جواب نے حیدر کو عجیب خوشی سے ہمكنار کیا تھا ۔بے ساختہ اسے گلے سے لگاتے اسکے بالوں کو چوما ۔
"ایم پراؤڈ آف یو شہیر ۔تم میرے بہت پیارے بیٹے ہو ۔چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنی ماما سے کبھی ناراض مت ہونا یار اور نہ ہی اسے کسی کے لئے چھوڑنا پھر بھلے وہ میں ہی کیوں نہ ہوں ۔دنیا میں سب سے زیادہ اگر تمہیں کوئی پیار کرتا ہے تو وہ تمہاری ماما ہیں ۔"
کہتے ہوئے اسکا لہجہ بھلے بشاش تھا مگر آنکھوں میں ہلکی سی نمی نجانے کیوں آ ٹھہری تھی ۔اسکی ساری کوشش رائیگاں گئی تھی اور آخر میں اسکے ہاتھ خالی رہ گئے تھے ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
شارجہ واپس آ کر اسکے رویے میں آنے والا بدلاؤ بوبی نے بہت جلدی بھانپ لیا تھا ۔اسکی چپ بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہی تھی ۔نو سال اس نے یہ سچائی ان سے چھپا کر رکھی تھی ۔نو سال بعد وہ انکے سامنے بیٹھا سر جھکائے ،نگاہیں چرائے جب اپنے کیے ہر عمل کا اعتراف کر رہا تھا تو انہیں یوں بے یقینی نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا کہ وہ اسکے منہ سے نکلے لفظوں پر اعتبار کرنے کو تیار تک نہ تھے ۔وہ بھروسہ جو انہیں اس پر تھا وہ بار بار انکی راہ کاٹ رہا تھا مگر کب تک ،کب تک وہ انکاری رہ سکتے تھے جب کہ اعتراف جرم وہ خود کر رہا تھا ۔کوئی اور آ کر کہتا تو اور بات تھی ۔
اور وہ جو اتنے سال انہیں نہیں بتا سکا تھا ،جو شہیر اور aصلہ کے مل جانے پر بھی اپنے اندر ہمت جتا نہیں پایا تھا کہ انہیں حقیقت سے آشنا کر سکے ،اب بھی واپس شارجہ آ کر اس نے پانچ دن لئے تھے انہیں سب بتانے اور انکا رد عمل برداشت کرنے کی خود میں سکت پیدا کرنے میں ،اسے لگتا تھا بوبی اس کو بہت سنائیں گے ،خود کو وہ دو چار تھپڑوں کے لئے بھی تیار کر چکا تھا مگر انکا رد عمل تو بالکل مختلف تھا ۔
اسکی ساری بات سن کر وہ کتنی دیر دنگ سی کیفیت میں بیٹھے رہے تھے ۔یہاں تک کہ اسے شبہ گزرا کہیں وہ اٹھ کر چلے ہی نہ گئے ہوں ۔جھکا سر اٹھا کر سامنے دیکھا تھا درمیانی میز کے دوسری طرف موجود سنگل صوفے پر بیٹھے وہ اسے غیر مانوس نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔یہ تاثر جو اس وقت انکی آنکھوں میں تھا بڑا اجنبی سا تھا ۔
"کون ہو تم ؟"
اور وہ اعتراف کر کے سچ میں غیر آشنا ہو گیا ۔
"میں تو نہیں جانتا ۔جس مرتضیٰ کو اتنے سال میں نے دیکھا ہے وہ تو اتنا کینہ پرور اور منتقم المزاج ہرگز نہیں تھا کہ اپنے غصے اور عناد میں کسی بے گناہ کو سولی پر چڑھا دیتا یہ سب تو نہیں سیکھایا تھا اسے میں نے ؟پھر کہاں سے سیکھا ۔وہ اتنا بے حس اور خود غرض بھی نہیں تھا کہ اتنا سب کر کے اتنے سالوں تک یوں سکون اور اطمینان سے زندگی گزارتا رہا یہ جانتے بوجھتے بھی کہ خود وہ کسی کی زندگی تباہی کے دہانے پر کھڑی کر آیا ہے ۔یا تو میں تمہیں پہلے نہیں جانتا تھا یا پھر اب نہیں جانتا ایک ہی انسان کے دو چہرے وہ بھی اتنے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں مرتضیٰ ؟یہ روپ بدلنا کب سیکھا تم نے ؟مجھے تو پتہ بھی نہیں چلا ۔میں کہاں چونک گیا تمہاری پرورش کرتے ،کہاں غلطی رہ گئی ۔"
اسکی طرف دیکھتے ہاتھ نا سمجھی سے ہلایا ۔آواز میں بے یقینی کے ساتھ اضمحلال تھا ۔
وہ غصہ نہیں تھے بس وہ شاک میں تھے،دھچکا بھی تو زوردار لگا تھا ۔الجھے ہوئے تھے اور اس سب سے بڑھ کر دل گرفتہ تھے ۔اور اس سب میں وہ اپنی غلطی ڈھونڈ رہے تھے ۔وہ سیاہ پڑتے چہرے کے ساتھ سر جھکا گیا ۔بولنے کو کچھ بچا ہی کب تھا ۔
"تمہیں میں نے خود پر ترس کھانا نہیں سیکھایا تھا نہ ہی ماضی میں جینا سیکھایا تھا ۔میری طرف دیکھو مرتضیٰ حیدر تا کہ میں تمہیں پہچان سکوں ۔اب نظریں مت چراؤ ۔اتنا سب کرنے کے بعد تو بالکل نہیں ۔"
اس بار ذرا آگے کو ہو کر بیٹھتے وہ بولے تو آواز میں سخت پن تھا ۔وہ انکی طرف دیکھنے کا ظرف اپنے اندر بھلا اب کہاں سے لاتا تو بس حکم عدولی کا مرتكب ہوا ۔
"دیکھو میری طرف مرتضیٰ ۔"اس بار آواز جذبات سے مغلوب ہوتی کانپ کر رہ گئی تھی ۔بمشکل چہرہ اٹھا کر اس نے انکی طرف دیکھا تھا ۔سرخ پڑتا چہرہ لئے انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا ۔
"میں نے اپنا جوان سال بیٹا کھویا تھا ،یہ دکھ کم نہیں تھا وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا تھا میں ،ٹوٹ گیا تھا اندر سے بالکل ۔وہ جو تمہارا باپ تھا میری اکلوتی اولاد تھا ۔جوان سال بیٹے بوڑھے باپ کے لاشے کو کندھا دیتے اچھے لگتے ہیں ۔بوڑھا باپ جب جوان اولاد کی لاش کو کندھوں پر اٹھاتا ہے تو وہیں قبر میں اسکے ساتھ اپنا آپ بھی دفن کر آتا بے ۔مگر تمہارے لئے میں نے خود کو مرنے نہیں دیا ،اپنے مردہ وجود کو پھر سے جوڑا جو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا ۔تمہارے لئے ہنسا ،جیا ،اپنا سارا غم اپنے سینے میں چھپا لیا کہ تم پر کوئی غلط اثر نہ پڑے ۔تاکہ تم زندگی میں کامیاب بنو ،اور آج اپنی کامیابیوں کے میڈلز جو تم مجھے دکھا رہے ہو انکے بعد میرا جی چاہ رہا ہے میں اپنی اتنی سالوں کی ساری محنت پر دو حرف بھیج کر اپنا گریبان آپ پکڑ لوں ۔یہ تھی میری تربیت ،یہ تھی میری پرورش ؟میرا وہ پوتا جو میرا فخر تھا جس کی کبھی کسی نے ذرا سی شکایت تک نہ کی تھی،جس کا کردار ،جس کے اکیڈیمک ریکارڈ کی لوگ راہ چلتے مجھ سے تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ۔جس نے اپنی زندگی میں بہت کم عمری میں ہوئے حادثوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا ،جسے دیکھ کر میں سینہ تان کر کہتا تھا یہ ہے میری عمر بھر کی کمائی ، اس نے یوں بڑھاپے میں کالک ملنی تھی میرے منہ پر ۔"
آواز میں پسپائی اور آنکھوں میں صدمے بھری ،تکلیف ده نمی لئے وہ بول رہے تھے ۔
اس نے آج سے پہلے انکا یہ روپ نہیں دیکھا تھا ۔انکی آنکھوں میں تیرتی بےبسی ،یہ افسوس ،یہ ملال اسے کچوکے لگانے کو کافی تھا ۔
وہ آہستگی سے اپنی جگہ سے اٹھا ،شکست خورده چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا انکے قریب آرکا ،گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ انکے صوفے کی ہتھی پر رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ،ہاتھ نہیں جھٹکا گیا بس نگاہیں ناگواری سے پھیر لیں ۔اور نگاہوں کا پھر جانا بھی اک قیامت ہوتا ہے ۔
"آپ اس دنیا میں واحد ہستی ہیں بوبی جنہیں میں کبھی کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا ۔آپ کا اعتبار نہیں توڑنا چاہتا تھا ،بھلے ساری دنیا کے لئے میں برا بن جاؤں ،لوگ مجھے برا سمجھیں کوئی فرق نہیں پڑتا ،بس آپ مجھے کبھی غلط نہ سمجھیں ۔اور دیکھیں میں نے آج یہ بھی کھو دیا ۔میرے خساروں کی فہرست تو طویل ہوتی جا رہی ہے ۔"
وہ دکھی سے انداز میں مسکرا دیا ۔
"آپ خود کو مت الزام دیں ۔آپ کی تربیت ،آپ کی پرورش میں کوئی جھول نہیں تھا ،کوئی کمی نہیں تھی ،یہ میرے اندر کا شر تھا بوبی جسے میں نے بڑی خموشی اور محنت سے سینچا ۔جب جب میں نے تکلیف سہی ،جب جب میرے برے خوابوں نے میرا دم گھونٹا ۔تب تب میں نے خود سے عہد کیا میں اس شخص کو بھی ایسے ہی تڑپاؤ گا جیسے میں تڑپا تھا۔ہم انسان کبھی کبھی خدا بننے لگتے ہیں ۔اپنے ساتھ ہوئے غلط کا بدلا خود لینا چاہتے ہیں ۔خدا پر چھوڑنا گوارہ نہیں کرتے ،اسے خدا پر ایمان کی کمی کہہ لیں یا خود پر یقین کی زيادتی ۔مگر ہم منصف بن جاتے ہیں ۔سزا اور جزا کا ترازو اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں ۔اور پھر بھول جاتے ہیں اپنے لئے انصاف کے حصول کی راہ میں کتنوں کے لئے نا انصافی کے مرتكب ہوتے جا رہے ہیں ۔اور ایک وقت آتا ہے جب خدا ہمیں منہ کے بل گرا کر باور کرواتا ہے کہ تم بندے ہو خدا نہیں ہو ۔اپنی اوقات میں رہو ۔اور اس وقت کبھی کبھی بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔"
جھکے سر اور مدہم آواز میں کہتا وہ انکی طرف اب بھی نہیں دیکھ رہا تھا انکے ہاتھ پر نظریں جمائے ہوئے تھا جو اسکے ہاتھ کے نیچے دبا ہلکی سی لرزش کی زد میں تھا ۔
"میں نے بدلا لے لیا بوبی ۔بالکل ویسے جیسے میں نے سوچا تھا ۔مگر وہ خوشی نہیں ملی جو میں نے سوچی تھی ۔وہ سکون بھی ہاتھ نہیں آیا جو مجھے لگتا تھا میرے پورے وجود میں پھیل کر میرے سارے زخم بھر دے گا ۔زخم تو وہیں کے وہیں رہے ،میرے برے خوابوں نے میرا پیچھا تو پھر بھی نہیں چھوڑا ۔ہاں حساب کتاب کے اس چکر میں نا انصافی اور زيادتی کی ایک گٹھڑی میں اپنے اعمال نامے پر اضافی بوجھ کی صورت ضرور لاد لایا تھا ۔آپ کہتے ہیں بوبی آپ مجھے نہیں جانتے ؟میں تو خود بھی خود کو نہیں جانتا ۔آپکا مرتضیٰ ایسا نہیں ہے ،یہ تو کوئی بونا ہے پست قامد ،جس کی سوچ ،جس کے احساسات کبھی بڑھ ہی نہیں سکے اس رات کے آگے ۔اس رات کی سیاہی نے اس سے آگے بڑھنے کی بینائی چھین لی تھی بوبی ۔وہ میرے اندر کہیں قید تھا ،روتا تھا چینختا تھا ،اپنا سر پٹختا تھا ۔وہ میرے ساتھ بڑا نہیں ہوا ،اتنا ہی رہا ،وہ قید تھا بوبی اور مجھے اسے آزاد کرنا تھا ۔اور جب میں نے اسے آزاد کیا تو جانتے ہیں اس نے اتنے سال مجھے تهپکی دیے رکھی کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ،کوئی شرمندگی ،کوئی ملال اس نے میرے اندر کبھی پیدا ہی نہیں ہونے دیا ۔میں تو اپنے ضمیر کی عدالت میں ہمیشہ سرخرو رہا ہوں کیوں کہ وہ مجھے اپنی اندھی آنکھوں سے اتنا ہی دکھاتا تھا جتنا میں دیکھنا چاہتا تھا ۔اسکے آگے اندھیرا چھا جاتا ۔اتنے سال صلہ کا چہرہ تو دیکھا ہی نہیں میں نے ۔پھر کوئی پچھتاوا کیسے ہوتا ؟آپ کو پتہ ہے جب میں نے اتنے سالوں بعد صلہ کو دیکھا ،شہیر کو اپنے بیٹے کے روپ میں دیکھا تو اس وقت یہ ایک دم سے غائب ہو گیا ،میں نے اتنے سال اسے اپنے آپ میں زندہ رکھا ،پناہ دی ،اسکے لئے کیا کچھ نہیں کیا اور میرا برا وقت آیا تو سب سے پہلے ہاتھ چھڑا لیا ۔میں نے اسے کتنا تلاش کیا کہ وہ اب بھی آئے مجھے بتائے میں ٹھیک تھا ،میں نے کچھ غلط نہیں کیا مگر وہ تو میرے اندر بہت ساری خالی پن چھوڑ کر خود کہیں ہوا میں تحلیل ہو گیا ۔اور اسکے چھوڑے خالی پن میں بہت سارا پچھتاوا ،احساس گناہ ،ملال اور افسوس میرے اندر بھرتا چلا گیا ۔"
وہ کچھ دیر کے لئے رکا ،بوبی جو اسکا لفظ لفظ باوجود ناراضگی کے سن رہے تھے ۔اسکی طرف دیکھنے لگے ۔دکھ سے ،ملال سے ،اپنے غلط بھی ہوں تو بھی انکی تکلیف سہی نہیں جاتی ۔
"صلہ نے میری طرح بدلے پلان نہیں کیے بوبی ۔اس نے سب اللّه پر چھوڑ دیا ،اور آپ دیکھیں قدرت نے کیسا برا انتقام لیا مجھ سے ۔مجھے میرے ہی بیٹے کا گناہ گار بنا دیا ۔میں آٹھ سال تک اسکے وجود تک سے بے خبر رہا ،میرا بیٹا باپ کے ہوتے ہوئے یتیموں کی طرح احساس محرومی میں جیتا رہا ،یہ انتقام کیا کم ہے بوبی ؟اسکے حصے میں ویسی محرومیاں آئیں جن سے مجھے نفرت تھی ۔میں نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی تھی ،اس بار بھی نہیں مانی ۔غلطی ہوئی تھی ،زيادتی ہوئی تھی کوئی تو راہ ہو گی سب ٹھیک کرنے کی ۔میں نے پوری کوشش کی بوبی ،مگر سب رائیگاں گیا ۔ ،پچھلی غلطیوں کے سائے اب بھی اتنے بڑے ہیں کہ میری صاف نیت ،میرا جهكنا ،میرا احساس ندامت کچھ نہیں دیکھا گیا یہ سب اب بھی پست قامت ہی دکھائی دیتے ہیں انکے سامنے ۔"
اسکا ٹوٹا بکھرا انداز اسکے اندر کے انتشار کا گواہ تھا ۔وہ استہزائیہ سا ہنسا تھا ۔
"اور میری سب سے بڑی سزا پتہ ہے کیا ہے ؟مجھے محبت بھی ہوئی تو اسی عورت سے جسے اتنے سال پہلے میں نے اپنا کر میں نے خود چھوڑ دیا تھا ۔محبت میں سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے ؟جسے آپ چاہتے ہیں وہ ہمیشہ خوش رہے اور اسے ملنے والی ساری خوشیوں کی راہ آپ سے ہو کر جائے ۔آپ چاہتے ہیں اسے خوش رکھنا ،خوش دیکھنا ۔آپ جانتے ہیں صلہ نے مجھ سے کیا کہا ؟"
اس سب میں پہلی بار چہرہ اٹھا کر وہ انہیں دیکھ رہا تھا ۔بوبی نے حیرت بھری زيادتی سے اسکا ضبط کے مارے سرخ پڑتا چہرہ دیکھا ،انکی حیرانگی کی وجہ وہ چہرہ نہیں تھا بلکہ اس کی آنکھوں میں دکھتی وہ نمی تھی ، اسکے گالوں پر بہتے آنسو تھے ۔انہوں نے اسے عرصہ ہوا روتے نہیں دیکھا تھا اور آج وہ کسی چھوٹے بچے کی مانند رو رہا تھا اس طرح کہ اپنی ٹھوڑی کی لرزاہٹ کو چھپانے کی تگ و دو میں اس نے اپنے جبڑے زور سے بھینچ ڈالے تھے ۔
"اس نے کہا میرا ساتھ اسے سوائے تکلیف کے اور کوئی احساس نہیں بخشتا ۔مجھے اپنے ارد گرد دیکھنا اسکے لئے اذیت کا باعث ہے ۔میرا یہ معافی مانگنا ،شرمسار ہونا اب کوئی معنی نہیں رکھتا ۔اس عورت نے مجھے اپنی ساری تکلیفوں کے لئے معاف تو کر دیا مگر میرا ساتھ گوارا نہیں کیا ۔اور یہ سب وہ تب کہہ رہی ہے بوبی جب میرے دل میں صرف اور صرف اسکے ساتھ کی شدید طلب جاگ اٹھی ہے،دل چاہتا ہے تو بس اسے چاہتا ہے ۔مجھے اپنا آپ اسکے ساتھ ہونے سے مکمل لگنے لگا ہے ،جب اسکی کہی تلخ سے تلخ بات بھی میں مسکرا کر سننے لگا ہوں ۔میرے اندر باہر بس وہی بسنے لگی ہے ۔مجھے بے بس کرنے کے بعد ،مجھ سے میری " میں " تک چھین لینے کے بعد وہ یہ کہتی ہے کہ میں اسکے لئے کوئی نہیں ہوں ،کوئی معنی نہیں رکھتا ۔"
اسکی آواز میں آنسوؤں کی ذرا برابر آمیزش نہیں تھی مگر لہجے میں بسی یہ پسپائی ،اسکی بے بسی کا انت تھی ۔
ساری دنیا میں کوئی ایک تو ایسا ہوتا ہے جس کے سامنے اپنی کمزوریاں عیاں کرنا ہمیں کبھی شرمندہ نہیں کرتا ،جس کے سامنے رونے ،اپنا حال دل بیان کرنے میں ہمیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی اور مرتضیٰ کے لئے وہ ایک شخص اسکے بوبی تھے ۔
اس دن وہ بہت سارا رویا تھا ۔اپنا آپ پوری طرح سے بوبی پر کھولتے ،اپنی غلطياں تسلیم کرتے ،اپنی ناکام کوششوں کا حوالہ دیتے ،اپنی محبت کی تہی دامنی کا احوال سناتے ۔وہ بری طرح بکھرا تھا ، منتشر ہوا تھا ۔بوبی نے بس خاموشی سے اسکی تمام باتیں سنی تھیں ۔اسکے كتهارسس کا عمل پورا ہوا تھا ۔اور اگلے دن وہ پھر سے اپنے پہلے والے خول میں سمٹ گیا تھا ۔بوبی نے اسے کچھ نہیں کہا تھا ۔بس خاموشی اختیار کر لی تھی ۔اور وہ جانتا تھا یہ انکی تجویز کردہ سزا ہے ۔اور صلہ کی سنائی سزا کی طرح اس نے اس پر بھی سر تسلیم خم کر دیا تھا ۔اور یہ سزا کچھ دنوں پر محیط نہیں تھی ۔اس نے مہینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .