وہ دن کے اجالے میں اکیلا کبھی باہر نہیں نکلا تھا ۔بنا ماں کو بتائے وہ بلڈنگ کے نیچے بنے گراؤنڈ تک نہیں آتا تھا اور رات کے اس پہر وہ ننگے پاؤں ،بنا سردی اور اندھیرے کی کوئی پرواہ کیے آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ فلیٹ کا بیرونی دروازہ عبور کر آیا تھا ۔سیڑھیاں اترتے وہ اندھا دھند بھاگتا جا رہا تھا ۔آنسو متواتر اسکے گالوں کو بھگو رہے تھے ۔اور دبی دبی سسکیاں اسکے لبوں سے خارج ہو رہی تھیں ۔آنکھوں کے سامنے چھائی آنسوؤں کی دهند اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے کانپتے ہاتھوں سے صاف کی اور بلڈنگ سے باہر نکلا ۔سامنے سنگلاخ بڑے سے دروازے پر اس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا وہ دوڑتا ہوا باہر سڑک کی طرف بڑھا ۔کافی دور نکل کر اپنے پیچھے اس نے واچ مین کی آواز سن کر بھی ان سنی کر گیا تھا ۔اس کے کانوں میں وہی فقرے گونج رہے تھے جن میں صلہ حیدر کو واپس چلے جانے کا کہہ رہی تھی ۔اس کے دل کو جھٹکا لگنا غیر فطری تو نہیں تھا ۔اسکے سامنے وہ دونوں کس قدر خوش باش رہا کرتے تھے ،ایک دوسرے سے اچھے سے بات کیا کرتے تھے کہ اسکے معصوم ذہن نے تسلیم کر لیا تھا اب سب ٹھیک ہو گیا ہے ۔اسکے ماں باپ ہمیشہ ایک ساتھ رہیں گے اور یہ احساس ہی کس قدر تحفظ کا باعث تھا یہ وہ چھوٹا بچہ بھی جانتا تھا ۔مگر ایسا صرف وہ سوچتا تھا ۔وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ٹھیک نہیں تھے یہ تو اسے آج پتہ چلا تھا ۔مین سڑک آگے جا کر دائیں طرف ایک تنگ گلی کی طرف مڑتی تھی وہ وہاں کچھ دیر رکا ،پھولے سانس کے ساتھ مزید بھاگنا محال ہونے لگا تھا ۔چند گہرے سانس لئے ۔اور آس پاس سے گزرتی چند اکا دکا گاڑیوں کو دیکھا ۔وہ کوئی معروف شاہراہ نہیں تھی اس لئے رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی خاص کر سردیوں کی راتیں تو اس روڈ پر اور بھی سنسنان ہو جایا کرتی تھیں ۔اپنے پاس ایک رکشہ کھڑا ہوتا دیکھ وہ جو حیرانگی سے اپنے اتنے دور نکل آنے پر گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھے جھکا ہوا سر اٹھا کر ارد گرد دیکھ رہا تھا ۔پہلی بار خوفزدہ ہوا تھا ۔ٹھنڈے ٹھار فٹ پاتھ پر جمے اسکے ننگے پاؤں سردی کے باعث شل ہونے لگے تھے اور یہ احساس بھی اسے پہلی بار ہوا تھا ۔حسیات رفتہ رفتہ فعال ہونے لگی تھیں ۔جس کے بعد اسے اپنی غلطی کا اندازہ ہونے لگا تھا ۔اور اب وہ الٹے پاؤں واپس بھاگ جانا چاہتا تھا ایک بھی لمحہ مزید ضائع کیے ۔
"کہاں جا رہے ہو چھوٹے ؟"
رکشے سے باہر نکل کر وہ تیس پینتیس سالہ آدمی ارد گرد محتاط نظروں سے دیکھتا اسکی طرف بڑھا ۔وہ کتنی دیر سے اسکا پیچھا کر رہا تھا ۔اسکے اکیلے ہونے کا یقین کرتے موقعے کی تاک میں تھا ۔بنا کوئی جواب دیے شہیر نے خطرہ بھانپتے اس گلی کی طرف بھاگنا شروع کر دیا تھا ۔اسے بھاگتا دیکھ کر اس شخص نے غصے سے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور جلدی سے واپس رکشے میں سوار ہوتے رکشہ سٹارٹ کرتے اسکا تعاقب کرنے لگا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
وہ ابھی ابھی اسکے سامنے سے ہٹ کر گیا تھا ۔اور اس کے جاتے ہی ماحول میں چھائی اداسی کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی ۔قطرہ قطرہ پگھلتے دل سے قطعی نظر اس نے وہی کیا تھا جو اسے کرنا چاہیے تھا ۔بیڈ کے کونے پر ٹکتے اسے اپنے آنسوؤں پر بے پناہ غصہ آیا جنہوں نے اس شخص کے سامنے اسکی کمزوری عياں کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔
دل اداس تھا ،اندر کہیں کچھ کھونے کا شدید احساس تکلیف کا باعث بھی بن رہا تھا مگر اپنے اندر کی عورت کے سامنے وہ سرخرو تھی ۔عزت نفس اور خود داری نے مغموم مگر مسکرا کر اسکی پیٹھ تهپتھپائی ۔دل کا کیا تھا اسکی یہ غیر مانوس سی کسک کبھی نہ کبھی ختم ہو ہی جانی تھی ۔اور نہ بھی ہوتی تو بھی اسے پرواہ نہیں تھی ۔
اپنے گالوں پر سے نمی کی تہہ صاف کرتے اس نے باہر سے اسکی آواز سنی تھی ۔وہ شہیر کو آوازیں دے رہا تھا اور آواز اس قدر اؤنچی اور متفکر تھی کہ وہ خود کو روک نہیں پائی ۔دروازہ کھول کر دیکھا وہ چہرے پر پریشانی لئے اسی کی طرف آ رہا تھا ۔
"شہیر کمرے میں نہیں ہے ۔"
اس نے بتایا تھا ،صلہ نے اچنبھے سے اسکی جانب دیکھا ۔
"کیا مطلب کمرے میں نہیں ہے ۔واش روم میں ہو گا ۔"وہ باہر نکل آئی تھی ۔
"سب جگہ دیکھ چکا ہوں کہیں نہیں ہے ۔"
صلہ تیز قدم لیتی اپنے کمرے کی طرف گئی تھی ۔حیدر مضطرب چہرہ لئے فلیٹ کے باہر کی طرف جاتے دروازے کی طرف بڑھا ۔کچھ سیکنڈز کے بعد وہ واپس آئی تو چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔
وہ اسکی طرف گئی تھی ۔
"تم نے ڈور بند نہیں کیا تھا کیا ؟"اور اگلے ہی پل وہ کسی خدشے کے تحت باہر کی جانب لپکا تھا ۔صلہ اسکے پیچھے تھی ۔
"تم واپس جاؤ صلہ میں دیکھ کر آتا ہوں ۔"
سیڑھیاں اترتے وہ قدرے تیز آواز میں بولا ۔
"میں ساتھ جاؤں گی ۔"وہ بھی اسی کے انداز میں بولی تھی ۔دل کسی انہونی کے احساس سے بیٹھا جاتا تھا ۔
آگے پیچھے نظر دوڑاتے وہ تیز رفتاری سے چل رہا تھا ۔پیچھے چلتی صلہ بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ کچھ اور بھی پیچھے رہ گئی تھی ۔
تبھی واچ مین بھاگتا ہوا انکی طرف آتا دکھائی دیا ۔چہرے سے کچھ متفکر لگتا تھا ۔
"اچھا ہوا آپ لوگ خود ہی آ گئے ۔ابھی ابھی میں نے شہیر کو باہر روڈ کی طرف بھاگتے دیکھا ہے ۔میں واش روم گیا تھا واپس آیا تو وہ گیٹ سے نکل رہا تھا ۔میں نے آوازیں بھی لگائیں ،تھوڑے دور تک پیچھے بھی گیا مگر وہ نہیں رکا ۔۔۔۔۔۔"
صلہ پھٹی آنکھوں کے ساتھ منہ پر ہاتھ رکھے ششدر سی سنے جا رہی تھی ۔حیدر نے اسکی بات پوری ہونے کا انتظار تک نہیں کیا تھا ۔
"کس طرف گیا ہے وہ ۔"
پہلی بار اسکی آواز پہلی بار کچھ غیر ہموار ہوئی تھی ۔
واچ مین کی نشان دہی پر وہ اندھا دھند بھاگا تھا ۔صلہ اسکے پیچھے بھاگتی آ رہی تھی مگر ایک تو پہلے ہی وہ اسکی رفتار سے ہم آهنگ نہیں ہو سکتی تھی دوسرا اسکی ٹانگیں یوں لگتا تھا جیسے مفلوج ہونے کے قریب تھیں ،بے جاں ہوتی ،لرزش کا شکار ۔اسکے وجود کا ساتھ دینے سے انکاری ۔
سڑک کے کناروں پر لگے پولز کی روشنی میں ارد گرد سے بے نیاز بھاگتے اس شخص کے چہرے کی رنگت یوں سپید ہوئی تھی جیسے کوئی بے جان وجود ہو ۔وقت پیچھے بھاگ گیا تھا ۔ایسی ہی ایک رات وہ بھی گھر سے نکلا تھا ۔یہ بھی ویسی ہی ایک رات تھی اور شہیر گھر سے نکلا تھا ۔کردار بدلے تھے ،منظر بدلا تھا ،مگر کہانی شاید وہی تھی ۔اس کے آگے کچھ سوچنے کی اسکی ہمت نہیں پڑ رہی تھی ۔
"چھوڑو مجھے ۔۔۔"
بھاگتے بھاگتے اسکے قدم زنجیر ہوئے تھے ۔دائیں جانب مڑتی سٹریٹ میں سے اسے شہیر کی چینخ نما آواز سنائی دی تھی ۔گردن گھما کر دیکھا تھا ۔اور نظر آتے منظر نے اسے بیک وقت بہت سی خوشی اور اشتعال سے ہمکنار کیا تھا ۔شہیر کی اسکی جانب پشت تھی مگر پھر بھی وہ اسے پہچان چکا تھا ۔اور سامنے کھڑا کرتے شلوار میں ملبوس وہ شخص اسکے منہ پر اپنا ہاتھ رکھتے اسکی آواز کا گلہ گھونٹتا گهسیٹنے کے انداز میں اسے تھوڑے فاصلے پر کھڑے رکشے کی جانب دهكیل رہا تھا ۔
"شہیر ۔"وہ حلق کے بل چلایا تھا یہاں تک کہ اسکے گلے میں خراش سی پڑی تھی ۔
شہیر اور اس آدمی نے بیک وقت اسکی طرف دیکھا تھا ۔سٹپٹائے ہوئے اس آدمی کی گرفت کچھ کمزور ہوئی تھی اور موقعے سے فائدہ اٹھاتے شہیر نے اپنے دانت اسکے ہاتھ پر گاڑھ دیے تھے ۔
وہ اپنا ہاتھ اسکے دانتوں سے آزاد کرتے گڑبڑاہٹ کا شکار خود کی طرف بھوکے شیر کی طرح بڑھتے حیدر کو دیکھ رہا تھا ۔جس نے قریب آ کر اسکے گریبان کو جکڑتے شہیر کو اس سے دور کیا تھا ۔چہرے پر آنسوؤں کی لكیر لئے شہیر نے بے فکری سے مسکراتے حیدر کو دیکھا ۔جسے اس نے اپنے پیچھے آ کر کھڑی ہوتی حالات کی سنگینی اور متوقع ٹل گئے خطرے سے شل ہوئے اعصاب لئے صلہ کی طرف دھکیلا تھا ۔جس نے اسے خود سے لگا کر اپنی آغوش میں کسی متاع حیات کی طرح سمیٹ لیا تھا ۔
"چھوڑو مجھے ۔میں صرف اسکی مدد کر رہا تھا ۔"
تیز آواز میں وہ آدمی اپنا آپ حیدر سے چھڑانے کی کوشش میں چلایا تھا ۔
بدلے میں حیدر نے سرد برفیلی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔اگلے پل وہ زمین پر پڑا تھا اور حیدر اپنے گھٹنے سے اسکے سینے پر دباؤ ڈالے پے در پے کہیں گھونسے اسکے چہرے پر رسید کر چکا تھا ۔وہ آدمی اپنے بچاؤ کی کوشش کرتے ساتھ چینخ رہا تھا مگر سرد رات کے اس پہر اس سنسان گلی میں کوئی نہیں تھا جو اسکی آہ و بكا سنتا ۔کوئی جنون سا تھا جو اس لمحے حیدر پر طاری تھا ۔آنکھوں کا لہو رنگ انکی وحشت میں اضافہ کر رہا تھا ۔تیز ہوتے تنفس کے ساتھ اسکا ہاتھ رکنے کو تیار نہیں تھا یہاں تک کہ آدھ موا ہوئے اس آدمی کا چہرہ منہ اور ناک سے آتے خون میں بھیگنے لگا تھا ۔صلہ نے خود سے لگے شہیر کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ۔اور خود وہ گنگ سی کھڑی،خوف زدہ آنکھوں سے حیدر کا آپے سے باہر وہ وحشی پن دیکھ رہی تھی ۔
اس آدمی کی چینخیں كراهوں میں بدل گئی تھیں ۔جیسے مزید چینخ و پکار کی سکت باقی نہ رہی ہو ۔
"وہ میرا بیٹا ہے ۔تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی اسے ہاتھ لگانے کی ۔اسکی طرف اٹھنے والا ہر ہاتھ میں تن سے جدا کر دوں گا ۔"اسکا چہرہ چھوڑتے وہ اب اسکا وہی ہاتھ مروڑتا چلایا تھا جس سے اس نے شہیر کا منہ زور سے دبا رکھا تھا ۔یہاں تک کہ اسکے ہاتھ کی ہڈیاں چٹخنے لگی تھیں ۔اک درد میں ڈوبی كراه اس آدمی کے منہ سے نکلی تھی ۔
"حیدر چھوڑ دیں وہ مر جائے گا ۔"اسکی گردن دونوں ہاتھوں سے دبانے پر کھانسنے کی گھٹی گھٹی آواز سنتے صلہ صدمے سے باہر آتی زور سے چلائی تھی ۔
"مر ہی جانا چاہیے ایسے لوگوں کو ۔جب میں خود کے لئے کسی کی جان لے سکتا ہوں تو اپنے بیٹے کے لئے تو پوری دنیا کو آگ لگا سکتا ہوں ۔"غرا کر کہتے اسکی گرفت اب بھی کمزور نہیں ہوئی تھی ۔
صلہ نے شہیر کو خود سے الگ کرتے دہشت بھری نظروں سے اسے دیکھتے چند قدم بڑھا کر اسکی شرٹ کو پیچھے سے مٹھی میں جکڑتے کھینچا تھا ۔
"چھوڑ دیں حیدر ۔ہم ۔۔۔ہم پولیس کو کال کر لیتے ہیں وہ دیکھ لیں گے اسکو ۔آپ ہٹ جائیں پلیز ۔"
اسکی آواز کی کپكپاہٹ واضح تھی ۔نظر بار بار پیچھے خوف زدہ کھڑے شہیر تک جاتی تھی جو سہمی ہوئی نظروں سے سارا منظر دیکھتا اب رو دینے کو تھا ۔
"حیدر شہیر دیکھ رہا ہے ۔"بے بسی بھری التجا پر حیدر کے ہاتھوں کی گرفت کمزور پڑی تھی ۔ہوش کی دنیا میں واپس قدم رکھتے اپنے خون سے رنگے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر سامنے نیم جان ہوئے وجود کو ۔وہ اٹھ کھڑا ہوتا پیچھے گردن گھما کر اب شہیر کو دیکھ رہا تھا ۔
یقیناً وہ بھی باپ کے ہر وقت کے ہنستے مسکراتے۔ٹھنڈے مزاج اور نرم انداز سے ہٹ کر اسے اس روپ میں دیکھ کر شاک میں تھا ۔جس کا اظہار اسکا پیلا پڑتا چہرہ کر رہا تھا ۔
"تم شہیر کو لے کر جاؤ ۔میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں ۔"نظریں اس پر سے ہٹا کر صلہ کو دیکھتے کہا ۔
"ہم آپ کے ساتھ جائیں گے ۔"صلہ نے دوبدو جواب دیا تھا ۔
"میں اسے پولیس کے حوالے کر کے آتا ہوں صلہ ۔"زمین پر پڑے وجود کو دیکھتے اسکی بے تاثر آواز نے صلہ کو عجیب انداز میں ڈرایا تھا ۔
"میں نے کہا نا حیدر ہم ایک ساتھ واپس جائیں گے ۔"اسکا ایک ہاتھ اب حیدر کے شانے پر ٹکا تھا ۔بولتے ہوئے اس نے ہاتھ نیچے گرانا چاہا تو وہ کسی چیز سے ٹکرایا تھا ۔لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے احساس ہوا تھا وہ اس وقت خالی ہاتھ نہیں کھڑا تھا ۔اسکی پینٹ میں اڑسی گن نے اسکے حواس اور بھی خطا کیے تھے ۔اور یہ اس وقت کس قدر خطرناک ہو سکتا تھا یہ سوچ کر ہی اسے جھرجهری سی آئی تھی ۔
"حیدر چلیں پلیز میرے ساتھ ۔ہم پولیس کو کال کر دیں گے ۔واچ مین کو یہاں بھیج دیں گے وہ پولیس کے حوالے کر دیں گے اسے ۔صبح ہم جا کر ایف آئی آر کٹوا آئیں گے مگر فلحال آپ کو لئے بغیر کہیں نہیں جاؤں گی میں ۔"
سر زور سے نفی میں ہلاتے پہلی بار اسکے سامنے روتے ہوئے وہ ملتجی انداز اور رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہہ رہی تھی ۔
"بابا گھر چلیں ۔"شہیر کی آواز پر وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا تھا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رات کے دو بج رہے تھے ۔شہیر اسکی آنکھوں کے عین سامنے پر سکون سویا ہوا تھا اور وہ ابھی بھی ٹکٹکی باندھے اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔ہاتھ میں اسکا ہاتھ قید کیے اسکے اپنے پاس محفوظ اور صحیح سلامت موجودگی کا یقین دلاتے کتنی دفعہ منہ سے تشکر بھرے کلمات آپ ہی آپ ادا ہوئے تھے ۔اور کتنی بار اسکے رونگٹے اس سوچ کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اگر وہ بروقت نہ پہنچ پاتے تو شہیر کے ساتھ کیا ہوتا ؟کیا وہ نہیں جانتی تھی اس طرح سے اغوا شدہ بچوں کے ساتھ کیا کیا بھیانک واقعات رونما ہوتے ہیں ۔
حیدر نے وہیں کھڑے ہو کر پولیس کو کال کی تھی ۔کچھ ہی دیر تک بلڈنگ کا واچ مین اور چند دوسرے مرد بھی ان تک پہنچ گئے تھے ۔حیدر انہیں گھر چھوڑ کر خود دوبارہ واپس گیا تھا ۔اور کافی دیر بعد لوٹا تھا ۔اور لوٹنے کے بعد وہ بس ایک بار کمرے میں شہیر کو دیکھنے آیا تھا جس کے بعد وہ واپس کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔
اور صلہ تھی کہ اسکے ذہن میں اب بھی شہیر کے جملے گونج رہے تھے ۔
"میری آنکھ کھل گئی تھی ماما ۔آپ نہیں تھیں ،بابا نہیں تھے ۔میں تو آپ دونوں کو دیکھنے آیا تھا ۔نانو کے روم میں آپ بابا سے لڑ رہی تھیں ماما ۔ان پر غصہ ہو رہی تھیں ۔انہیں چلے جانے کا کہہ رہی تھیں ۔مجھے برا لگا ،مجھے سمجھ بھی نہیں لگی میں کیسے روتے ہوئے باہر نکل گیا ۔میں نے تو جوتے بھی نہیں پہنے ہوئے تھے ۔مجھے اندھیرے سے ڈر بھی نہیں لگا ۔مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا مجھے جانا کہاں ہیں ۔وہ رکشے والے گندے انکل کتنی دیر میرا پیچھا کرتے رہے پھر انہوں نے رکشہ روک کر مجھے فورس کرنے کی کوشش کی میں انکے ساتھ چلوں ۔میرے منع کرنے پر انہوں نے مجھے پکڑ لیا ماما ۔مجھے تهپڑ بھی مارا ۔میرے منہ پر اتنے زور سے ہاتھ رکھا ۔مجھے چلانے بھی نہیں دیا ۔تبھی بابا آ گئے وہاں ۔آئی ایم سوری ماما میں آئندہ کبھی ایسے اکیلے باہر نہیں نکلوں گا ۔"
کمرے سے باہر نکلتے دروازہ بالکل آرام سے بند کرتے وہ سست روی سے چلتی اسکے برابر آ کر مناسب فاصلہ رکھے صوفے پر بیٹھی تھی ۔اسکی اکڑوں بیٹھی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی ۔بس ایک بار گردن موڑ کر اسکی طرف دیکھا تھا ۔پھر دوبارہ چہرہ جھکا لیا ۔
کتنی دیر انکے درمیان خاموشی رہی ،اس دوران صلہ کے ناک سکیڑ کر سانس لینے کی آواز آتی تھی اور پھر سے وہی بوجهل ،غمگیں خاموشی چھا جاتی تھی ۔
بہت دیر بعد صلہ کی زكام زدہ سی ،گیلی ہوئی آواز گونجی ۔
"میں اسکی حفاظت نہیں کر سکی حیدر ۔وہ آدھی رات کو یوں گھر سے نکل گیا اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا ۔اسکے ساتھ کچھ برا ہو جاتا تو کیا کرتی میں ؟"بہت سے آنسو تھے جو گلے میں پهندے کی صورت آ کر اٹک گئے تھے ۔حیدر اسکی طرف نہیں دیکھ پا رہا تھا مگر اسکا پورا دھیان اسی کی جانب تھا ۔
"وہ میری وجہ سے گھر سے نکلا ۔میری آپ سے کہی باتوں نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ۔میں ایک اچھی ماں نہیں ثابت ہو سکی اس کے لئے ۔میں اسکی حفاظت نہیں کر سکی ۔"
سر نفی میں ہلاتے وہ رو رہی تھی ۔حیدر نے اپنا ہاتھ اسکی گود میں رکھے یخ ٹھنڈے ہوتے ہاتھوں پر رکھا تھا ۔
"کس نے کہا تم سے تم اچھی ماں نہیں ہو ۔شہیر کو دیکھ کر کوئی راہ چلتا بھی بتا سکتا ہے اسکی ماں اسے کتنے اچھے سے پروان چڑھا رہی ہے ۔وہ اتنے سال تمہارے ساتھ رہا تو یوں مت کہو تم اسکی حفاظت نہیں کر سکی۔تم ایک بہترین ماں ہو صلہ ۔یہ سب جو غلط ہو رہا میری وجہ سے ہو رہا ہے ۔"
یہ اسکا پہلا اعتراف شکست تھا ۔اسکے ہاتھوں پر ہلکا سا دباؤ ڈالے وہ دلجوئی کرنے کی جہد میں تھا ۔تھوڑا جھک کر اسکی پر نم آنکھوں میں دیکھنا اب بھی مشکل لگ رہا تھا ۔رات کے اس پہر وہاں سردی سے بے نیاز بیٹھے وہ دو نفوس بھول چکے تھے کچھ دیر پہلے کی آپسی رنجشیں ،سبھی تلخياں ۔کیوں کہ اس وقت وہاں وہ صلہ اور حیدر کے طور پر نہیں بیٹھے تھے شہیر کے ماں باپ کی حیثیت سے بیٹھے تھے ۔
"میں نہیں چاہتی ایسا دوبارہ ہو ۔ہم کبھی بھی ایک ساتھ نارمل زندگی نہیں جی سکتے حیدر ۔میں اپنا آپ مار کر یہ فیصلہ کر بھی لوں تو نہ کبھی خود خوش رہ سکوں گی نہ آپ کو کوئی خوشی دے سکوں گی ۔پھر کیا ہو گا یہی سب جو آج ہوا ؟اس لئے کہتی ہوں چلے جائیں آپ ۔مزید برداشت کی سکت نہیں رہی مجھ میں اب ۔"
اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ ختمی انداز اپنائے ہوئے تھی ۔حیدر فریز ہوتا نگاہ تک نہ چرا سکا ۔
"آپ چاہیں تو شہیر کو بھی ساتھ لے جا سکتے ہیں ۔میں خوشی خوشی بھیجنے کو تیار ہوں ۔وہ آپ کے ساتھ زیادہ محفوظ رہے گا ۔"
وہ دل برداشتہ تھی تبھی اتنا بڑا فیصلہ پلک جهپكتے کر گئی تھی ۔حیدر سکتے کی سی کیفیت میں گھرا اسے دیکھتا رہ گیا ۔کیا وہ جانتی بھی تھی وہ کیا کہہ رہی تھی ؟
نو سال پہلے اس کہانی کا آغاز ہوا تھا اور اس وقت اس کا اختتام حیدر نے کیا تھا ۔they lived happily ever after , اسکی کمی اس اختتام میں بھی رہ گئی تھی ۔نو سال بعد وہی کہانی ایک بار پھر وہیں سے شروع ہوئی تھی جہاں ادھوری رہ گئی تھی اور اس بار اس کا دی اینڈ صلہ نے کیا تھا اور they lived happily ever after اس کہانی کے نصیب میں اب بھی نہیں آیا تھا ۔کچھ کہانیاں ادھوری رہ جانے کو ہی بنی ہوتی ہیں ۔ہر کہانی کا ایک اختتام ضرور ہوتا ہے مگر وہ خوش گوار ہو ، یہ ضروری بھی نہیں ہوتا ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سات ماہ بعد ۔۔۔۔۔۔
نئے دن کا آغاز ہوا چاہتا تھا ۔شارجہ کا روشن چمکتا نیلا آسمان ،سورج کی کرنوں سے منور ہوتا اسکے کمرے کی کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔کلائی پر بندهی گھڑی کا بكل بند کرتے وہ اپنا آفس بیگ اٹھا کر باہر کی جانب بڑھا ۔ٹو پیس ڈریس شرٹ پینٹ میں گلے میں آج ٹائی نہیں تھی ۔چہرے پر حد درجہ سنجیدگی جو کچھ مہینوں سے خاموشی کی تہہ میں لپٹی اسے اور بھی باوقار بنانے لگی تھی ۔مگر صرف باہر کی دنیا کے لئے ۔بوبی کے لئے اسے ایسے دیکھنا تکلیف دہ تھا ۔مگر وہ کیا کر سکتے تھے یہ سب بھی تو اسکا اپنا بویا تھا کاٹنا بھی اسے خود ہی تھا ۔اسکے باہر نکلنے پر انہوں نے ناشتہ شروع کر دیا تھا ۔یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کہ انہیں اسکا انتظار نہیں تھا ۔مگر آہستگی سے سلام کرتے میز کے گرد رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھتے وہ جانتا تھا ہمیشہ اسکے آنے پر ہی چائے کا پہلا گھونٹ انکے حلق سے نیچے اترتا تھا ۔انکی ناراضگی کی یہ ادا بھی اسے اب ازبر ہو گئی تھی ۔
اس گھر کے در و دیوار ان دونوں کے ایک ساتھ ہونے پر اتنی خاموشی اور سنجیدگی کے عادی نہیں تھے مگر کچھ عرصے سے اب عادتیں بدل رہی تھیں ۔
ناشتہ خاموشی سے کیا گیا تھا ۔وہ اٹھنے کو تھا جب کچھ یاد آنے پر دوبارہ ٹک گیا ۔
اگلے ہفتے میں تین ہفتوں کی ورک شاپ کے لئے کوریا جا رہا ہوں بوبی ۔"اسکا انداز مطلع کرنے جیسا تھا ۔بوبی نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔
"تم نے پہلے نہیں بتایا ؟"
"میں نے سوچا ایک بار سب ڈن ہوجائے تو پھر بتاؤں گا ۔"وہ مدھم سا بول رہا تھا ۔
"ہاں یہ بھی ہے ۔عرصہ ہوا تمہیں عادت ہو گئی ہے سب کچھ کر گزرنے کے بعد مجھے بتانے کی ۔خیر یہ کوئی چونکانے والی بات نہیں رہی اب میرے لئے ۔"
میز سے اٹھ کر برتن اٹھاتے انہوں نے بنا کسی خفگی کے معمول کے انداز میں کہا تھا مگر پھر بھی مرتضیٰ کے لئے ان سے نظریں ملانا دوبھر ہو گیا تھا ۔لب کاٹتا وہ جہاں کا تہاں بیٹھا رہ گیا ۔
"بوبی ۔"انکے کچن ایریا میں جانے پر پیچھے سے اس نے پکارا تھا ۔اس پکار میں بھی کوئی عرضی تھی جس نے انکا دل نرم کرنا چاہا تھا ۔
"آپ ایک ہی بار مجھے بتا کیوں نہیں دیتے میں ایسا کیا کروں جس سے آپ مجھے معاف کر دیں ۔یہ چپ بھری ناراضگی کب تک چلے گی ؟اتنے مہینے کافی نہیں ہیں کیا ؟میرے پاس پہلے ہی رشتوں کے نام پر چند گنے چنے لوگ ہیں ۔اور وہ سب کسی نہ کسی وجہ سے مجھ سے دور ہیں ۔"وہ پر ملال سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لئے گردن موڑ کر انھیں دیکھ رہا تھا ۔اسکی یہ عاجزی ، یہ شکستگی بھرے انداز وہ اس سب کے کہاں عادی تھے ۔ انکا دل پسیج کر رہ گیا ۔
"تو ان دوریوں کی وجہ کون ہے مرتضیٰ حیدر کاظمی ؟"سنک میں برتن رکھتے وہ پلٹے بنا بولے ۔اسے یوں دیکھنا آسان نہیں تھا ۔اور یہاں آ کر اسکی ساری دلیلیں آج بھی جواب دے جایا کرتی تھیں ۔
"آپ کو پتہ ہے بوبی جب اپنا کیا خود بھگتا جائے تو یہ دوہرے عذاب جیسا ہوتا ہے ۔کوئی دوسرا آپ کے ساتھ غلط کرے تو وکٹم کارڈ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے آپ اسے یوز کر سکتے ہیں ،سامنے والے کو کوس سکتے ہیں مگر جب آپ کے اپنے ہاتھوں آپ کے ساتھ غلط ہو جائے تو پھر ہاتھ ،زبان باندی بن جایا کرتے ہیں ۔آپ کچھ نہیں کر سکتے سوائے چپ چاپ سہنے کے ۔"
اپنی بات مکمل کرتا وہ اٹھا تھا ۔آہستگی سے اللّه حافظ کہتا آگے بڑھ گیا ۔پیچھے وہ کتنی دیر اسکے قدموں کے نشان دیکھتے رہ گئے ۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .