Share:
Notifications
Clear all

Hijr e Yaraan BY Umme Abbas Episode 24

1 Posts
1 Users
0 Reactions
232 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

لیونگ ایریا میں سوٹ کیس رکھا ہوا تھا ۔خالہ شہیر سے مل رہی تھیں اور پیچھے کھڑی صلہ کے چہرے پر کچھ ناراضگی بھرے تاثرات رقم تھے ۔حیدر ابھی ابھی آفس سے واپس آیا تھا اور اب خالہ کو ایئر پورٹ چھوڑنے جا رہا تھا . 

"اے بی بی اب یوں منہ لٹکا کر مجھے رخصت کرو گی تو سارا وقت دھیان تم ہی میں اٹکا رہے گا ۔خوشی خوشی جانے دو مجھے آخر میرا بھی تو اپنے بیٹے ،بہو اور پوتے کی بابت کوئی فرض بنتا ہے کہ نہیں ۔یہ تو ثانیہ کی ماں کی بڑی مشکور ہوں میں جو اس مشکل وقت میں بیٹی کی دیکھ بھال کر رہی ہے مگر میرا وہاں ہونا بھی تو ضروری ہے ناں ۔"

اسکے پاس آ کر خالہ نے ذرا سمجھاتے ہوئے کہا ۔

"تو خدا نخواستہ میں کب منع کر رہی ہوں آپ کو جانے سے خالہ ۔اتنی بری بھی نہیں ہوں اب کہ آپ کی اتنی قربانیوں کا یہ صلہ دوں گی ۔میں تو بس یہ کہہ رہی تھی اتنی اچانک جانے کی بھلا کیا تک بنتی ہے ؟کل رات تک تو ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا آپکا ۔اور آج میں آفس سے آئی ہوں تو آپ سامان پیک کیے تیار کھڑی ہیں ۔ایک دو دن رک جاتیں تو میں اور شہیر بھی چلے چلتے آپ کے ساتھ ۔"

وہ شکوہ آمیز نظروں سے انہیں دیکھتی خفا سی بولی ۔خالہ نے ہنستے ہوئے اسکے گال پر ہلکی سی چپت رسید کی ۔

"تو تمہیں آنے سے منع کون کر رہا ہے پگلی ۔آفس سے چھٹی ملنے اور شہیر کے اسکول سے چھٹی لینے میں کچھ دن تو لگیں گے ہی پھر تم بھی آ جانا بلکہ اپنے شوہر کو بھی ساتھ لانا یاور مل بھی لے گا ۔"خالہ کے مشورے پر صلہ نے انہیں خفیف سا گھورا تھا ۔

"خالہ ۔"احتجاجی لہجے میں پكارا ۔

"صلہ میری بات سنو اور بیٹا اس پر غور ضرور کرنا ۔شہیر کے لئے اگر اتنی مفاہمت دکھائی ہے تو بیٹا تھوڑا اور سوچ کر دیکھ لو ۔وہ اپنے کیے پر شرم سار ہے ،اپنے کیے کی تلافی بھی کرنا چاہتا ہے ۔اور وہ سچ کہہ رہا ہے میں نے جانچا ہے ،پرکھا ہے اسے ۔یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے بیٹا ۔لوگوں کو پرکھنے کا ہنر عمر اور تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔اسی لئے کہہ رہی ہوں اپنے لئے ،اپنے بیٹے کے لئے ایک بار دل تھوڑا بڑا کر لو ۔زخم وقت کے ساتھ بھر جائیں گے مگر اپنی آنے والی خوشياں کسی جھوٹی انا و ضد کو نگلنے مت دینا ۔"

کمرے سے نکلتے حیدر کو دیکھ کر خالہ چپ کر گئی تھیں ۔صلہ ہونٹ بھینچ کر رہ گئی ۔

"چلو اب ملو خالہ سے ۔منہ پھلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔"

انکے کہنے پر وہ بے دلی سے مسکراتی انکے گلے لگی تھی ۔حیدر اور شہیر دونوں انھیں ایئر پورٹ چھوڑنے جا رہے تھے ۔صلہ کو خالہ نے جان بوجھ کر منع کر دیا تھا یہ کہہ کر کہ وہ ابھی آفس سے تھکی لوٹی ہے ۔

 

ڈیپارچر سے پہلے خالہ شہیر سے مل کر حیدر کی طرف متوجہ ہوئی تھیں ۔

"اللّه حافظ ۔"

اس نے خوش اخلاقی سے مسکراتے الوداع کیا تھا ۔بدلے میں خالہ نے کھل کر مسکراتے ہوئے اسکا شانہ تهپکا تھا ۔

"میں نے کہا تھا نا یقین كمانا پڑتا ہے ۔اور تم نے میرا یقین جیتا ہے بیٹا ۔اب اسکی لاج بھی رکھنا ۔میں دعا کروں گی صلہ اور تمہارے درمیان جلد سب اچھا ہو جائے ۔"

انکے الفاظ پر حیدر حیرت و انسباط کا بیک وقت شکار ہوتے سر اثبات میں ہلا گیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

رات وہ شہیر کے سونے کے بعد کمرے سے نکلی تو کافی دیر بعد بھی واپس نہیں آنے پر حیدر اسکی تلاش میں باہر نکلا تھا ۔کچن اور لیونگ ایریا خالی پڑا تھا پیچھے بس خالہ کا روم ہی بچا تھا ۔یوں ہی خالہ کے کمرے کا رخ کرتے اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی بیڈ پر وہ دراز آنکھوں پر بازو رکھے سونے کی تیاری میں تھی ،آہٹ پر بازو ہٹا کر اسے دیکھنے لگی ۔کمرے میں جلتے زیرو بلب کی روشنی میں اسکا چہرہ دھندلا سا دکھائی دیتا تھا ۔

"یہاں کیوں آ گئی تم ؟"حیدر نے اچنبھے سے پوچھا تھا ۔

"تین لوگ بیڈ پر مشکل سے ایڈجسٹ کرتے ہیں ۔اب خالہ نہیں ہیں تو روم موجود ہے ۔اس لئے خالہ کی غیر موجودگی تک میں یہی سویا کروں گی ۔"

کافی سکون سے یوں ہی لیٹے ہوئے اس نے جواب دیا تھا ۔حیدر کا حلق تک کڑواہٹ کا شکار ہوتا چلا گیا ۔

"لگتا ہے خالہ کا جانا میرے لئے کوئی نیک شگون ثابت نہیں ہوا ۔"اس نے شکوہ کیا تھا جیسے ۔

"ہو گا بھی نہیں ۔بہتر ہو گا جا کر سو جائیں ۔اور ہاں کل شہیر کے اسکول فنکشن کے ساتھ پیرنٹس میٹنگ بھی ہے ۔"اس نے یاد دہانی کروائی تھی ۔حالانکہ شہیر اسے پہلے ہی بتا چکا تھا ۔

"جانتا ہوں ۔آ جاؤں گا آفس سے جلدی واپس ۔تم جاؤ گی یا آف کرو گی صبح ۔"وہیں دہلیز پر کھڑا ہاتھ ناپ پر رکھے وہ پوچھ رہا تھا ۔

"نہیں میں آف کروں گی صبح ۔"

وہ آنکھیں موند گئی تھی یعنی کہ اب وہ جا سکتا تھا ۔

حیدر جانے کے لئے پلٹا پھر رک گیا ۔

"اچھا سنو !"

اور پتہ نہیں کیوں اب جب بھی وہ ایسا کہتا تھا صلہ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی تھیں ۔

پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے گھورا ۔

"میں کیا سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔"

"آپ کچھ بھی سوچنے سے اجتناب کیجئے گا حیدر ۔"

اسکے فقرہ پورا کرنے سے پہلے ہی وہ اسکی بات تیزی سے کاٹ گئی تھی ۔

"سن تو لو ایک بار ۔۔۔۔"

اسکا انداز شرارت سے لبریز تھا ۔صلہ اسکی مزید گوہر فشانی سے پہلے ہی تیزی سے بیڈ سے اتر کر دروازے کی جانب بڑھی تھی ۔

"نہیں مجھے کچھ نہیں سننا ۔"

اکھڑے سے انداز میں کہتی وہ دروازے تک آتی دروازہ بند کرنے کے در پے تھی ۔اس بات سے قطعی بے خبر کہ اسے بهگانے کی جلدی میں وہ بنا شال کے ہی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ۔

"لیکن مجھے تو حال دل سنانا ہے ۔"بڑی چاہ سے گھمبیر آواز میں کہا گیا تھا ۔صلہ کا دل زور سے دھڑکا ،چہرے کی رنگت میں سرخياں سی دوڑ گئیں جنہیں مدهم روشنی نے چھپا لیا تھا ۔

صلہ نے دروازہ بند کرنے کے لئے زور لگایا تھا اور وہ تھا کہ ناپ پر ہاتھ جمائے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا ۔

"اپنا حال دل جا کر اپنی کسی ہوتی سوتی کو سنائیں ۔میرا دماغ مت خراب کریں ۔"دانت پیس کر اسے سخت نظروں سے گھورا تھا ۔

"اپنی ہوتی سوتی کو ہی سنا رہا ہوں یار ۔قسم سے تمہارے علاوہ جو کبھی کسی کو ایسی ویسی نظر سے دیکھا ہو ۔ایسا شریف قسم کا شوہر ملا ہے تمہیں ۔"اسکے سراپے پر بھرپور نظر ڈالتے اس نے جس انداز میں کہا تھا صلہ نے گڑبڑا کر اپنی حالت زار پر نگاہ کی تھی اور پھر شرمندگی سے  بے اختیار دروازے کی اؤٹ میں پناہ لی تھی ۔

"میری ہی قسمت پھوٹی تھی جو ایسا شوہر ملا مجھے ۔اب آپ یہاں سے جاتے ہیں یا میں آپ کو رات کے اس وقت فلیٹ سے باہر کی راہ دکھاؤں ؟ویسے بھی روڈ پر رات بسر کرنے کا تجربہ تو پہلے سے ہے آپ کو ۔کوئی دقت نہیں ہو گی ۔"

اس کے دوٹوک قطعیت بھرے انداز پر وہ بد مزہ ہوتا اسے ملامتی نظروں سے گھور کر رہ گیا ۔

"گھر داماد بھی اللّه کسی دشمن کو نہ بنائے ۔چند ہفتوں میں ہی مجھے ایسے شوہروں کا غم سمجھ آ گیا ہے ۔اور تم جو یہ مجھے ہر دو منٹ بعد فلیٹ سے چلتا کرنے کی تڑی لگاتی رہتی ہو نا صلہ بی بی ۔فرشتے ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں ۔روز محشر اس کا الگ سے حساب ہو گا تم سے ۔"وہ اسے دھمکا رہا تھا یا ڈرا رہا تھا مگر صلہ نے مطلق اثر نہیں لیا تھا ۔

"آپ اپنے حساب کی پرواہ کریں میری فکر میں ہلکان مت ہوں ۔خود تو جیسے دودھ کے دھلے ہیں ۔"سر جھٹک کر طنز آمیز لہجے میں کہتے حساب برابر کیا ۔

"ارے شہیر تم کیوں اٹھ گئے ۔"حیدر نے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ صلہ کی متعجب آواز پر پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھنے لگا ۔دھیان بھٹکا ،دروازے پر گرفت ڈھیلی ہوئی اور اگلے ہی پل ٹھاہ کر کے دروازہ بند ۔صد شکر وہ سرعت سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا تھا ورنہ اسکے چہرے کی خیر نہیں تھی ۔

اسکی چالاکی سمجھنے میں کچھ وقت لگا تھا ۔اور اپنے بیوقوف بنائے جانے پر حیدر نے دروازے کو یوں گھورا تھا جیسے سامنے بنفس نفیس صلہ خود کھڑی اسے چڑاتی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہی ہو ۔

"چالاکی میں لومڑی کو بھی مات دے دی اس نے ۔اور خالہ کہہ رہی تھیں میری بچی تو اتنی بھولی ،اتنے ٹھنڈے مزاج کی ،غصہ کبھی آتا ہی نہیں ۔اونہہ ۔خالہ کا بھی اتنے جھوٹ بولنے پر الگ سے حساب ہو گا ۔"

سر جھٹک کر چہرے کے بگڑے زاویوں کے ساتھ وہ پلٹتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

"ماما اور کتنی دیر لگائیں گے بابا ۔"لیونگ ایریا میں صلہ اور شہیر تیار بیٹھے تھے ۔حیدر ابھی ابھی آفس سے واپس لوٹا تھا اور اب تیار ہونے کمرے میں بند ہو گیا تھا ۔شہیر بیٹھ بیٹھ کر اکتائے ہوئے انداز میں اب اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھا ۔تبھی دروازہ کھلا تھا اور خوشبوؤں میں بسا مرتضیٰ حیدر مسکراتا ہوا باہر نکلا تھا ۔بلیک پینٹ کوٹ اور اندر بلیک ہائی نیک ،بالوں کا سائیڈ پف ،اور چہرے پر تر و تازہ سی مسکراہٹ ۔وہ ضرورت سے زیادہ اچھا لگ رہا تھا ۔صلہ کو اسے دیکھتے تیوری چڑھی ۔

"یہ شخص کیا کسی کے ولیمے کے فنکشن میں جا رہا ہے ۔"

اسکی تیاری دیکھ کر وہ کڑھ کر رہ گئی تھی ۔البتہ حیدر کو پہلی بار اپنے فرینڈز اور ٹیچرز سے ملوانے کی ایکسائٹمنٹ لئے شہیر کا چہرہ کھل اٹھا تھا ۔

"اوہ گاڈ ! بابا آپ کتنے ۔۔۔۔"وہ کہتے رکا ،کنپٹی پر انگلی سے ناک کیا اور پھر جیسے یاد آ گیا ۔

"بھگوڑے لگ رہے ہیں ۔میرے سارے فرینڈز تو دیکھتے رہ جائیں گے ۔شہیر کے بابا کتنے بھگوڑے ہیں ۔"

حیدر کے قدم رکے ،چہرے پر سے مسکراہٹ رخصت ہوئی ،اٹھ کر جھکتے ،صوفے سے بیگ اٹھاتی صلہ نے تیزی سے پلٹ کر شہیر کو دیکھا ۔اسے لگا اس نے کچھ غلط سن لیا ہو ۔

"کیا کہا ابھی تم نے شہیر ؟"بے یقینی سے پھیلی آنکھیں شہیر پر ٹکی تھیں ۔آواز میں کچھ ناگواری سی در آئی تھی ۔حیدر کے بگڑتے تیور تو اس نے ابھی دیکھے ہی نہیں تھے جو اسے خون آشام نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔

"وہی ماما جو اس دن آپ نے بابا کو کہا تھا ۔اینڈ ڈونٹ وری بابا نے مجھے بتا دیا تھا بھگوڑے کا مطلب ہینڈسم ہوتا ہے ۔"صلہ کی طرف دیکھتے ہاتھ اٹھا کر  سمجھداری سے کہتے انداز تسلی دینے جیسا تھا ۔ حیران و پریشان سی کھڑی صلہ نے ضبط کے گھونٹ پیتے حیدر کی جانب دیکھا تھا اور اسکا چہرہ دیکھتے ہی اسکی ہنسی چھوٹ گئی تھی ۔گرے اور بلیک کھدر کے سوٹ میں ،سیاہ حجاب اور ایک شانے پر لی سیاہ رنگ کی گرم شال ،منہ کے آگے ہاتھ رکھے وہ سبز آنکھیں سکیڑ کر بے فکری سے ،بے ساختہ پن لئے ہنستی بے حد پیاری لگ رہی تھی ۔

"ہینڈسم بھگوڑا ۔۔۔۔"ہنسی کے درمیان رک کر کہتے وہ پھر سے ہنس رہی تھی ۔شہیر نا سمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا اور حیدر تندہی بھری نظروں سے ۔

ضبط کے باوجود کانوں کی لو سرخ پڑ گئی تھی ۔زبردستی ہونٹوں کو مسکراہٹ کے انداز میں کھینچ کر شہیر کے سامنے کھڑے ہوتے اسکے سلیقے سے بنائے بال بگاڑے ۔

"کیا کہا تھا میں نے ۔کسی اور کے سامنے ایسے مت کہنا ۔"دانت پیس کر مگر نرمی سے کہا تو شہیر کچھ خفگی سے پیچھے ہٹا ۔

"کیا کر رہے ہیں بابا ۔میرے بال خراب مت کریں ۔"

ریڈ ٹی شرٹ پر بلیک جیکٹ پہنے وہ اپنے بال ہاتھوں کی مدد سے ٹھیک کرنے لگا تھا ۔

"تمہیں بڑی ہنسی آ رہی ہے ۔"تیوری چڑھا کر صلہ کو دیکھا ۔جو اب اپنی ہنسی ضبط کرنے کی تگ و دو میں تھی ۔اسے ایک جتاتی نگاہ سے دیکھ کر وہ شہیر کی طرف متوجہ ہوئی ۔

"شہیر آپ کے بابا نے آپ کو غلط انفارمیشن ۔۔۔۔"

"شہیر گاڑی کی كیز لاؤ ڈریسنگ ٹیبل سے ۔دیر ہو رہی ہے ۔"

اسکی بات تیزی سے کاٹتے شہیر کو حیدر نے پكارا تو صلہ ایک بار پھر چہرہ نیچے کیے اسکی بے بسی بھری جهنجهلاہٹ پر ہنسی تھی ۔

شہیر ہونقوں کی طرح ان دونوں کو دیکھتا سر ہلاتا کمرے کی طرف بڑھ گیا تو حیدر تیز قدم لیتا اسکے سامنے آ کھڑا ہوا ۔

"میرے بیٹے کو میرے خلاف ورغلاؤ مت صلہ بی بی ۔"دانتوں پر دانت جمائے کہا ۔

"میں نے کب ورغلایا ہے ۔الٹا آپ اسے ورغلا رہے ہیں بھگوڑا کب سے ہینڈسم ہونے لگا ۔"صاف لگ رہا تھا وہ اب صرف اسکی ٹانگ کھینچ رہی تھی ۔مگر سامنے والا بھی کہاں باز آنے والا تھا ۔

"ہینڈسم تو میں ہوں صلہ حیدر ۔ابھی کمرے سے جب میں نکلا تھا تو چوری چوری دیکھ رہی تھی تم مجھے اب زیادہ بنو مت ۔"

بڑے سٹائل سے بالوں پر ہاتھ پھیرتے اس نے دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا شانہ اسکے کندھے سے ٹکرا یا تو صلہ کی ساری شوخی ہرن ہوئی تھی ۔سلگتی نظروں سے اسے سر تا پیر دیکھتے وہ کچھ سخت کہنے کو ہی تھی کہ شہیر کے آنے پر اسے اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑا ۔

ایک مکمل فیملی کا منظر پیش کرتا وہ چھوٹا سا قافلہ روانہ ہوا تھا ۔اسکول میں شہیر نے حیدر کو سب سے بڑے فخر سے ملوایا تھا اسکا بس چلتا تو واچ مین سے لے کر ایک ایک فرد کو پکڑ کر حیدر کا انٹروڈکشن کرواتا ۔حیدر مسلسل مسکراتا ہوا اسکے فرینڈز اور ٹیچرز سے ملتا رہا تھا ۔اس سب کے دوران بظاہر مسکراتی صلہ کے دل میں پہلی بار خیال آیا تھا ۔حیدر کے چلے جانے کے بعد شہیر کو وہ کس طرح سنبھالے گی ؟ یہ سوال نہیں تھا ایک نئی فکر تھی جو کسی اژدھے کا روپ دهارتی اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ۔دل ابھی سے مضطرب اور بوجهل سا ہونے لگا تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . .

اس دن اتوار تھا ۔چھٹی کے باعث انکی صبح قدرے تاخیر سے ہوئی تھی ۔ناشتے کے بعد شہیر اور حیدر باہر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے تھے اور وہ کمرے کی صفائی میں مصروف ہو گئی تھی ۔کچھ دیر بعد حیدر کمرے میں آیا تو وارڈروب کا پٹ کھولے وہ کچھ جهنجھلائی ہوئی سی معلوم ہوتی تھی ۔آہٹ پر پلٹ کر دیکھا تھا ۔اور حیدر سے نظر ملتے ہی نگاہ چرا لی تھی ۔تیز تیز ہاتھ چلاتے وارڈ روب بند کرتے وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی ۔حیدر کو اچنبھا سا ہوا تھا ۔وہ صبح سے کچھ بجهی بجهی سی تھی اور ابھی اسے ایک نظر دیکھنے پر بھی اسکی سبز آنکھیں بھیگی بھیگی سی لگی تھیں ۔کمرے میں کوئی کام تو تھا نہیں ۔وہ بس ایسے ہی اسے دیکھنے آیا تھا جو کافی دیر سے نظر نہیں آئی تھی ۔اور اپنی آج کل کی حرکتوں پر اسے ہنسی آتی تھی ۔اپنا آپ اسے کسی محلے کے اس نو عمر عاشق کی طرح لگنے لگا تھا جو اپنی محبوبہ کے گھر کی گلی کے سارا دن چکر کاٹتا ہو اسکی ایک جهلک پانے کے لئے ۔زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا دل کسی چہرے کو نظروں کے حصار میں رکھنے کا متمنی ہوا تھا اور وہ چہرہ اسکی اپنی بیوی کا تھا ۔بیوی بھی وہ جو نئی نویلی تو ہرگز نہیں تھی نو سال پرانی تھی اور اسے ذرا لفٹ کروانے کی مجاز نہیں تھی ۔اور اس سوچ کے ساتھ اسے اور بھی زیادہ خود پر ہنسنے کا جی چاہتا تھا ۔

صلہ پہلے تو اسے نظر انداز کرتی رہی مگر پھر اسے یوں ہی بے مقصد بیڈ کے کنارے ٹکا،موبائل سکرین پر انگلیاں چلاتے دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی ۔

اسکے باہر جانے پر وہ بے دلی سے اٹھ کر وارڈروب کی طرف آیا تھا ۔ارادہ کپڑے بدلنے کا تھا ۔وارڈ روب کھولی تو اندر کا لاکر کھلا ہوا تھا ۔صلہ شاید یہی کھولے کھڑی تھی اور اسکے آنے پر جلد بازی میں اسے بند نہیں کیا تھا ۔یوں تو کسی کی پرسنل چیزیں چھیڑنا اخلاقیات کے منافی تھا مگر تجسس کے مارے اس نے اپنے ضمیر کو شٹ اپ کال دی تھی جو اسے مینرز کا سبق یاد دلا رہا تھا ۔

"کون سا کسی غیر کی ہیں ۔میری اپنی ذاتی بیوی کی چیزیں ہیں یار ۔"

کندھے اچکا کر خود کو تسلی دی اور اندر جھانکا جہاں صرف کچھ ڈاکومنٹس اور ایک جیولری باکس رکھا ہوا تھا ۔اور اس آدھ کھلے جیولری باکس سے کچھ باہر جھانک رہا تھا اور اسکی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔ہاتھ بڑھا کر اس چین نما چیز کو باہر نکالا اور پھر اسکی آنکھوں کی پتلیاں ساکت رہ گئیں ۔چہرے کے تاثرات بدلتے چلے گئے ۔بھلا اس ٹوٹے ہوئے بریسلٹ کو وہ کیسے بھول سکتا تھا ۔چیزیں جب سامنے آتی ہیں تو خود سے جڑی اچھی ،بری یادیں بھی ساتھ ہی لے آتی ہیں ۔اسکا ہاتھ ذرا سا کانپا تھا ۔آنکھوں میں در آئے ملال کے ساتھ اس نے اسے مٹھی بند کرتے بھینچ ڈالا تھا ۔اس باکس کے نیچے دبی فائل سے جھانکتے پیپر کو عجیب سے ہو رہے دل کے ساتھ باہر نکالا تھا ،اور پھر وہ اس پر سے نظریں ہٹا نہیں پایا تھا ۔کتنی دیر ٹکٹکی باندھ کر اس پر لکھی سطریں دیکھتے اسے اب سمجھ آئی تھی صلہ صبح سے اتنی چپ چپ کیوں تھی اور ابھی کچھ دیر پہلے اسے اسکی آنکھیں نم سی کیوں معلوم ہوئی تھیں ۔نکاح نامے پر درج شدہ تاریخ آج کی تھی ۔یعنی کہ نو سال پہلے اسی دن وہ اس رشتے میں بندھے تھے اور اسے یاد تک نہیں تھا ۔دل پر ایک اور بوجھ کا اضافہ ہوا ۔خود کو ملامت کرتے اس نے آنکھیں متاسفی انداز میں میچ ڈالی تھیں ۔نکاح نامہ واپس رکھتے فائل بند کی ۔باکس واپس اپنی جگہ پر رکھا اور لاکر بند کیا ۔وارڈروب بند کرتے ہاتھ کی مٹھی میں جکڑے بریسلٹ کو سامنے کیا تھا ۔اسکی چین ابھی تک ٹوٹی ہوئی تھی ۔وہ زخمی سے انداز میں مسکرایا ۔

"بوبی کہتے ہیں چیزیں وہیں سے ٹھیک ہوتی ہیں جہاں سے خراب ہوئی ہوں ۔نو سال پہلے آج کے دن ہی میں نے تمہاری زندگی خراب کرنے کا آغاز کیا تھا صلہ ۔نو سال بعد میں وہیں سے ایک نیا آغاز لینے جا رہا ہوں ۔اس بار کچھ بگاڑنے نہیں سب ٹھیک کرنے جا رہا ہوں ۔پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکا مزید نہیں کرنا چاہتا ۔آج کے دن مرتضیٰ حیدر کاظمی تم سے یہ عہد کرتا ہے وہ تمہاری خوشی کے لئے کسی بھی حد تک جائے گا ۔اتنے سال جو بھی تکلیفیں میری وجہ سے تم نے جھیلی ہیں ان سب کا مداوا مجھے اپنی جان دے کر بھی کرنا پڑا تو اف تک نہیں کروں گا ۔تمہیں ہر وہ خوشی ،سکون اور راحت دوں گا جس کی تم حق دار ہو ۔"

کچھ دیر بعد وہ چینج کر کے باہر نکلا تو وہ شہیر کے ساتھ بیٹھی اسے ہوم ورک کروا رہی تھی ۔اپنے باہر جانے کا بتا کر وہ جس لمحے فلیٹ سے نکلا تھا اسکی آنکھوں میں بہت سارے دیپ روشن تھے ۔کون جانتا تھا انکی لو بجھنے کو تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

پورا دن اسکے احساسات عجیب سے ہوتے رہے تھے ۔یہ دن ہمیشہ اس کے لئے بہت سا بوجهل پن اور اداسی لے کر آیا کرتا تھا ۔حیدر کے لئے وہ تعلق بھلے انتقام کی سیڑھی رہا ہو ۔مگر اس نے تو پورے دل سے یہ رشتہ بنایا تھا ۔اور یہی رشتہ اسکے لئے سب سے بڑا درد گر ثابت ہوا تھا ۔جس نے اسے سوائے اداسیوں ،تکلیف ده یادوں اور اکیلے پن کے ۔مگر جب وہ شہیر کی طرف دیکھتی تھی تو وہی آنکھیں جو اذیت سے بھیگتی تھیں تشکر کے پانی سے نم ہونے لگتیں ۔وہ اسکے لئے تنگ و تاریک بند گلی میں کسی روشنی کی لكیر کے جیسا تھا جو زندگی کی نوید سناتی تھی ۔جو اسے بتاتی تھی کہ اس کے لئے بھی سارے در بند نہیں ہوئے ۔اسکے حصے کی روشنی ،اسکے حصے کی آسودگی شہیر کے وجود میں رکھ دی گئی تھی ۔

کتنی عجیب بات تھی وہ بر ملا اس سے قطعی تعلقی کا اظہار کرتی تھی ،اتنے سال اس نے خود کو یہی باور کروایا تھا وہ اس سے کوئی وابستگی نہیں رکھے گی ۔اس نے کبھی اسکے لوٹ آنے کی نہ دعا کی تھی نہ کوئی امید باندھی تھی ۔کوئی انتظار نہیں کیا تھا مگر پھر بھی یہ دن یہ تاریخ اسے ہمیشہ خود سے جڑی یاد تازہ کروا دیا کرتی تھی ۔اسے یادوں کے اس اصول سے اختلاف تھا ۔بھلا یہ کہاں کا انصاف تھا چھوڑنے والا پلٹ کر بھی نہ دیکھے اور اس سے جڑی یادیں ہمیں اپنی قید سے آزاد تک نہ کریں ۔ہمیں غلام بنائے رکھیں ۔چاہے وہ غلامی ہمیں منظور ہو نہ ہو ۔یہ تو سفاکیت تھی ان یادوں کی جو حاکم بن جایا کرتی ہیں ۔مسلط ہو جایا کرتی ہیں ۔

کھڑکی کے سامنے کھڑی ،گرم شال شانوں پر لئے وہ ڈھیلی سی چوٹی میں بال قید کیے ، دور آسمان پر چمکتے چاند کو خالی خالی نظروں سے تک رہی تھی ۔ چہرے پر حزن کے گہرے سائے اسکے چہرے کی روشنی کو نگل رہے تھے ۔سبز آنکھوں کی چمک آج کچھ اور بھی ماند سی پڑتی محسوس ہوتی تھی ۔

اپنے سود و زيان کے گرداب میں جکڑی وہ ارد گرد سے اتنی غافل تھی کہ اسکے ساتھ آ کر کھڑے ہونے کا احساس تک نہ ہو سکا ۔چونکی تو تب جب اسکے وجود سے پھوٹتی باڈی اسپرے کی بھینی سی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی ۔متعجب نظریں اسکی جانب اٹھی تھیں جو اسی کی جانب دیکھتا دهیما سا مسکرا دیا تھا ۔اگلے ہی پل صلہ نے نگاہ ہٹا لی ۔

"کیا دیکھا جا رہا ہے ؟"اسکے سوال پر صلہ نے گردن نفی میں ہلا دی ۔آج اس سے ہم کلام ہونے کا جی بھی تو نہیں چاہ رہا تھا ۔آہستگی سے وہاں سے ہٹ جانا چاہا ،مگر حیدر اسکی راہ میں حائل ہوتا یہ کوشش بھی ناکام بنا گیا ۔

"صلہ ۔"اک جزب کے عالَم میں اسکا نام پکارا تھا ۔خالی کاسہ دل میں اسکے لبوں سے ادا ہوتے اپنے نام کی گونج صلہ نے بڑے دور تک جاتی سنی تھی ۔وہ ویران آنکھیں اسکے چہرے پر ٹکا گئی ۔

حیدر نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے وہ سبھی الفاظ تلاشے جو اتنی دیر سے اس نے اپنے حق میں اسے کہنے کو جمع کیے تھے مگر اب احساس ہوا وہ سب تو اسے تن تنہا چھوڑ کر کہیں دور جا نکلے تھے ۔اور نئے الفاظ بنانے میں اسے دقت آ رہی تھی بالکل اس بچے کے جیسے جس نے نیا نیا بولنا شروع کیا ہو ۔یہی وجہ تھی جب اس نے بات کا آغاز کیا تو وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر الفاظ ادا کر رہا تھا ۔

"جانتا ہوں آج کا دن ،یہ تاریخ تمہارے لئے کوئی خوش کن یاد ساتھ نہیں لاتی ہو گی ۔میری وجہ سے تمہارا نا قابل تلافی نقصان ہوا ہے یہ بھی جانتا ہوں ۔میں تمام عمر اسکی بھرپائی میں لگا دوں تو بھی وہ مداوا ممکن نہیں ہو گا ۔اس سب کے باوجود پتہ نہیں کیوں دل اب چاہتا ہے سب ٹھیک ہو جائے ۔میں ،تم ،شہیر ،ہمارا رشتہ سب ایک معمول کی ڈگر پر آ جائے ۔یہ وہی دن ہے جب میں نے دھوکے سے تمہاری زندگی میں قدم رکھا تھا ۔آج اسی دن اپنی پوری سچائی کے ساتھ تم سے ایک نئے سفر کی استدعا کر رہا ہوں ۔جو گزر چکا اسے بدلا نہیں جا سکتا مگر جو آنے والا کل ہے اسے بہتر تو بنایا جا سکتا ہے ۔میں تم سے صرف ایک موقع چاہتا ہوں صلہ ۔تم بس وہ ایک موقع مجھے دے دو ۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا ۔تمہاری ہر کہی بات کا مان رکھوں گا ۔تم بھلے مجھے معاف مت کرنا جتنے سال چاہو ،بھلے تمام عمر مت کرنا ،ایسے ہی مجھے طعنے دیتی رہنا ،اپنی جلی کٹی سناتی رہنا میں اف تک نہیں کروں گا ،بس اپنا ساتھ مجھے دے دو ،میرے ساتھ رہو ،بھلے خفا رہو ،لیکن مجھے تمہیں اپنے آس پاس محسوس کرنا ہے اب ساری زندگی ۔یہ دورياں ،یہ تلخياں انہیں مٹانا ہے ۔"وہ رکا ،چند سانسیں لیں ۔اسکے سپاٹ چہرے اور گہری خاموشی سے خدشوں میں گرے دل کو دلاسا دیا ۔اسکی بے تاثر آنکھیں اسے بے چین کرنے لگی تھیں مگر وہ آج اسے سب کہہ دینا چاہتا تھا ۔وہ سب جو وہ خود سے بھی نہیں کہہ پایا تھا ۔

"اگر میں یہ کہوں کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے تو مجھے پتہ ہے تم کبھی میرا یقین نہیں کرو گی ۔اور تمہیں یقین دلاؤں بھی کیسے یہ میرے خود کے لئے نا قابل یقین ہے ۔یہ میرے لئے نا شناسا سا جذبہ ہے ۔میں نے کبھی اس بارے میں سوچا نہیں ،کسی کے بارے میں اس طرح سے محسوس نہیں کیا کہ اسے محبت کا نام دے سکوں ۔نو سال پہلے جب میں آیا تھا تو میرے دل و دماغ پر بس ایک ہی دھن سوار تھی ۔مجھے اپنے ساتھ ہوئی زيادتی کا بدلا لینا تھا ۔صحیح کیا ہے غلط کیا ہے یہ بے معنی تھا ۔تم سے شادی میرے لئے بس میرے مقصد کے حصول کی حیثیت رکھتی تھی ۔مگر صلہ میرا اللّه گواہ ہے میں کہیں بار تمہارے سامنے تب بھی بے بس ہوا تھا ۔کہیں بار تمہارے چہرے کی معصومیت ،تمہارے دل کی شفافیت ،تمہاری سبز آنکھوں کی مسکراہٹ اور نمی ،سب نے میری راہ کاٹنے کی کوشش کی تھی ۔مگر کیا کرتا یار اتنے سال لگا کر جس نفرت و عناد کو پالا پوسا تمہاری چند دنوں کی رفاقت پر کیسے قربان کر دیتا ؟بہت حوصلہ چاہیے تھا ،بہت اعلی ظرفی جو مجھ میں نہیں تھی صلہ ۔اس رات تم نے کہا تھا نا تم واپس آؤ گی اور ہم بات کریں گے ۔سچ پوچھو تو اس رات مجھے لگا تھا اگر تم واپس آ گئی اور کوئی ایک سوال بھی کر لیا ،ایک بار صرف ایک بار ہی میرا ہاتھ تھام کر روتی آنکھوں نے میرا راستہ روکا تو میں تمہارے سوا کہیں کا نہیں رہوں گا۔یہ میرا خوف تھا صلہ جو اس وقت مجھے تم سے محسوس ہوا تھا۔میں نے کبھی خود کو بے بس نہیں ہونے دیا اور تم مجھے بے بس کرنے لگی تھی  ۔"

اسکے چہرے پر سے نظریں چراتے اس نے کھڑکی سے باہر اداس نظر آتے چاند کو دیکھا تھا ۔صلہ کی آنکھوں میں جلن کا شدید احساس جاگا تھا ۔یک دم آنکھوں میں بھرتا پانی تکلیف کا باعث بننے لگا تھا ۔دل یوں کرلایا تھا کہ اسے اس کے پھٹ جانے کا گمان گزرنے لگا ۔نو سال لگے اس شخص کو اعتراف جرم کرنے میں اور اس سے بڑی قیامت ، نو سال لگے اسے صلہ سے محبت کرنے میں ۔

"تمہیں پتہ ہے میرا مسئله کیا ہے میں اپنے خوف خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا ۔بھلے وہ کتنے بڑے ہوں مجھے ان سے لڑنا آتا ہے ۔اور اس خوف سے آزادی میں نے فرار میں جانی تھی ۔تم سے فرار ،خود سے فرار ۔نو سال میں نے خود کو ایک کامیاب دھوکے میں رکھا ۔کہ میں ٹھیک تھا ،میں نے کسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا ۔تمہارا کبھی خیال آیا بھی تو جھٹک دیا اور یہ شعوری کوشش اتنی پر اثر ٹھہری کہ تمہارا سایا میرے لاشعور تک کا پیچھا نہ کر سکا ۔لیکن تقدیر کا لکھا تو پیچھا نہیں چھوڑتا نا ۔مجھے بے بسی سے لا چارگی سے نفرت تھی اور دیکھو قدرت نے مجھے کہاں آ کر بے بس کیا ۔شہیر کے روپ میں ۔تمہیں پتہ ہے پارک میں پہلی بار اسے دیکھ کر اسکی آنکھوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا تھا ۔سبز آنکھیں بالکل تمہارے جیسی ۔اتنے سالوں بعد اسے دیکھ کر مجھے تمہارا خیال آیا تھا ۔اسکے وجود کی مقناطیسیت نے مجھے اپنی طرف کھینچا تھا۔اور میں جھوٹ نہیں بولوں گا تم سے مصالحت کی کوشش شروع میں میں نے صرف شہیر کے لئے کرنی چاہی تھی ۔خالہ نے کہا تھا اگر میں ایک بار صرف ایک بار ، صلہ کو سبھی حوالوں سے قطعی نظر صرف صلہ کے روپ میں دیکھتا تو کبھی تمہیں چھوڑنے کی حماقت نہ کرتا ۔تمہارے ساتھ رہ کر صلہ مجھے خالہ کی بات پر یقین سا آگیا ہے ۔تم اس قابل ہو کہ تمہیں چاہا جائے ،اس دن آفس سے دیر ہونے پر جب میں تمہیں تلاشنے کو نکلا تھا تو تمہارے آفس سے واپس آتے میرے دل میں جب یہ خیال آیا کہ مجھے ایمرجنسیز میں تمہیں دیکھنا چاہیے ۔میری روح تک کانپ گئی تھی ۔ میں نے آس پاس کے سبھی ہوسپٹلز چیک کیے ، اندر جاتے وقت میرے قدم اٹھنے سے انکاری ہوتے تھے ،اور جب میں وہاں تمہیں نہ پا کر واپس نکلتا تو میرے وجود میں جیسے نئی روح پھونک دی جاتی ۔اس دن میں نے حقیقت میں جانا تھا تم میرے لئے کیا معنی رکھنے لگی ہو ۔ورنہ اس سے پہلے تک تو مجھے بھی یہی لگتا تھا میں یہ ساری کوشش صرف شہیر کے لئے کر رہا ہوں یا اپنی غلطی سدھارنے کے لئے ۔مگر میں غلط تھا صلہ ۔میں یہ سب اس لئے کر رہا تھا کیوں کہ میں تمہیں اپنے آس پاس دیکھنے کا عادی ہو گیا ہوں ۔تمہیں چاہنے لگا ہوں ،کب ،کیوں ،کیسے یہ سارے سوال بے معنی ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ صلہ اب میرے اندر کہیں سانسیں لینے لگی ہے ۔  "

اور صلہ کی سانسیں یہاں رکنے لگی تھیں ۔آنکھوں سے نکلتا نمکین پانی گالوں کو بھگونے لگا ،وہ کہہ رہا تھا وہ اسکا یقین نہیں کرے گی ۔وہ اسے کیسے بتاتی اس نے ہمیشہ اسکا یقین کر کے ہی تو نقصان اٹھایا تھا ۔نو سال پہلے بھی جب اس نے اپنی حقیقت اسے بتائی تھی اسکے لفظ لفظ پر یقین کر لیا تھا اس نے ،اور اب بھی جب اپنے جذبات آشکار کر رہا تھا ،اپنی ندامت کا احوال سنا رہا تھا ،اپنی محبتوں کا یقین دلا رہا تھا تو دل ایمان لے آیا تھا۔وہ ہمیشہ سے اسکا یقین کر لیا کرتی تھی فاصلوں کے باوجود ،رنجشوں کے درمیان ،عداوتوں کے ساتھ ،یقین کی ڈوری تو کبھی نہیں ٹوٹی تھی ۔حیدر نے یک دم نگاہ باہر کے منظر سے ہٹا کر صلہ کے چہرے پر ٹکائی تھی اور وہ بھیگی آنکھیں اسے اندر تک گهائل کرتی چلی گئیں تھیں ۔ششدر سا گنگ زبان لئے وہ بے کل سا ہوتا ہاتھ اسکے چہرے تک لایا تھا مگر فقط دو انچ کے فاصلے سے ہاتھ روک لیا تھا ۔بے بسی بھرے تاثرات تھے جو اسکے خدوخال میں گھلتے چلے گئے ۔

ہاتھ کی مٹھی بھینچ کر پہلو میں گراتے وہ آنکھیں بند کرتا ایک گھٹن آمیز سانس لبوں سے خارج کرتا کس قدر لاچار لگتا تھا ۔

"اب یوں تو مت کرو میرے ساتھ ۔جانتا ہوں آنسو پونچھنے کا حق بھی نہیں دو گی تم ۔تو پھر اتنی ظالم تو مت بنو ۔"التجا بھرے انداز میں کہتے حیدر نے اپنا نچلا ہونٹ زور سے کاٹا تھا ۔

ہر گزرتے لمحے صلہ کے رونے میں آتی شدت اب اسے بے آرام کرنے لگی تھی ۔وہ صلہ تھی ،نرم دل ،جلدی پگھل جانے والی مگر آج نہیں ۔اگر یہ ظلم تھا تو وہ ظالم سہی اور اگر بے رحمی تو اسے اس پر بھی کوئی افسوس نہیں تھا  ۔

"یاد کریں حیدر نو سال پہلے آپکے گھر کی دہلیز پار کرتے ایسی ہی ایک التجا میں نے بھی کی تھی ۔غلطی تب بھی آپ کی تھی میں تو بے قصور تھی مگر پھر بھی میں جھکی تھی ۔تب رحم آیا تھا آپ کو مجھ پر ؟نہیں ناں تو اب مجھ سے کس رحم کی امید لگائے بیٹھے ہیں ؟مر گئی وہ صلہ جو آپ کے قصور وار ہونے پر بھی جھکنے کو تیار تھی ،نو سال پہلے آپ خود مار کر گئے تھے اسے ۔اب مرده وجود سے کس زندہ دلی کی آس لگا رہے ہیں ۔کوئی کہانی چل رہی ہے ،فلم ہے تین گھنٹے کی کیا ۔جہاں آخر میں سب بھلا کر ہنسی خوشی نیا آغاز ہو گا اور ہیپی اینڈنگ لکھ دیا جائے گا ۔میری زندگی ہے حیدر جسے آپ نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔" آخری جملے پر وہ حلق کے بل چلائی تھی ۔

وہ خود نہیں جانتی تھی اتنی مشتعل وہ کیوں ہو رہی تھی ۔اندر کوئی لاوا پک کر باہر کی راہ پا گیا تھا ۔بھری آنکھوں سے آنسو اب بھی متواتر نکل رہے تھے مگر اسکی آواز میں ذرا انکی آمیزش کا شائبہ تک نہیں تھا ۔

نہ آواز کانپی ،نہ لہجے میں کوئی جھول آیا ۔

"میں بتاؤں آپ کو آپ کے منہ سے یہ محبت نامہ سن کر ،پچھتاوں کی داستان سن کر مجھے کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟جیسے صلہ آپ کے لئے کوئی مذاق ہو ،میرے کوئی احساسات نہیں ،کوئی جذبات نہیں ۔میں کاغذ کی گڑیا ہوں یا موم کی بنی ہوئی ۔جسے جب جیسے آپکا جی چاہے ویسے موڑ لیا جائے ۔اتنی تکلیف تو تب بھی نہیں ہوئی تھی جب آپ نے بے جرم سزا وار قرار دے دیا تھا ۔جتنی اس وقت آپ کو یوں سراپا ندامت بنا دیکھ کر ہو رہی ہے ۔نہیں چاہیے یہ معافی اب ،نہیں چاہیے یہ محبت ۔کچھ نہیں چاہیے سنا آپ نے ۔"نفی میں زور سے سر ہلاتے اسکے چہرے پر پتھر کے مجسمے کا گمان ہوا تھا ۔حیدر کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا ۔آنکھوں میں اداسی کا موسم کچھ اور گہرا ہوا ۔

"مت کرو ایسے ۔مجھے تکلیف دینے کے لئے خود کو آگ میں مت جھونکو ۔خود پر رحم کھاؤ صلہ ۔"سرگوشی سے مشابہہ آواز میں کوئی کرب تھا جو ماتم سا کرتا تھا ۔وہ ایک بار پھر سے اسکی وجہ سے تکلیف میں تھی ۔سب صحیح کرنے کی کوشش کے باوجود سب غلط ہوتا جا رہا تھا ۔

صلہ نے پرتپش آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔حیدر کے چہرے پر رقم اذیت دیکھ ان میں کوئی بجلی سی جیسے کوندی تھی ۔اور پھر وہ عجیب سے انداز میں مسکرائی تھی ۔ایسی مسکراہٹ جس نے حیدر کو خوف زدہ کیا تھا ۔

"میری تکلیفوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں نا آپ ؟سب ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ۔میری خوشی چاہتے ہیں ، یہی سب کہا ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے ؟"

اور جب وہ بولی تو یوں لگا جیسے ختمی فیصلے پر پہنچ گئی ہو ۔حیدر نے اسکے کٹیلے انداز دیکھتے دل کے منع کرنے کے باوجود سر ہاں میں ہلایا تھا ۔آنکھیں اب بھی اسی کے چہرے کے گرد طواف کرتی تھیں ۔

"تو چلے جائیں یہاں سے ۔"اسکی سرسراتی آواز میں کوئی رعایت نہیں تھی ۔

"یہاں اب کچھ بھی نہیں رکھا آپ کے لئے ،آپکا ہونا ،آپ کی میرے ارد گرد موجودگی صرف اور صرف تکلیف اور ذہنی اذیت دیتی ہے مجھے ۔نو سال آپ نہیں تھے تو میں خوش تھی یا نہیں پر سکون ضرور تھی آپ کے ہونے نے یہ نعمت بھی چھین لی مجھ سے حیدر ۔"

سختی سے گال پر بہتے آنسو صاف کرتی وہ اتنی ہی درشتگی سے بول رہی تھی ۔آمنے سامنے کھڑے وہ دونوں نفوس اس وقت بھول گئے تھے اسی چھت کے نیچے کوئی تیسرا بھی موجود تھا جو اس وقت ان دونوں کو اپنے پاس نہ پا کر ننگے پیر انکی تلاش میں بستر چھوڑتا اب تھوڑے سے کھلے دروازے کے باہر کھڑا صلہ کو رو کر اس طرح سے چلاتے حیرت بھری پریشانی سے دیکھ رہا تھا ۔

"صلہ میں ۔۔۔"کچھ کہنے کی چاہ میں اسکے لب پھڑپھڑائے ۔

"چلے جائیں یہاں سے حیدر ۔چلے جائیں میرے لئے زندگی اور محال مت بنائیں ۔نو سال پہلے میرے روکنے پر بھی نہیں رکے تھے آپ ۔اس بار میرے کہنے پر چلے جائیں ۔ہر بار آپ کی ضد ہی کیوں پوری ہو ؟میں بھی تو جیتی جاگتی انسان ہوں چابی والا کھلونا تو نہیں ۔میری چاہت میری مرضی ،کوئی اہمیت رکھتی ہے کہ نہیں ۔"

خود ترسی کا شکار وہ وحشت زدہ سی تھی ۔

"صرف ایک موقع دے دو پلیز ۔میں سب ٹھیک کر لوں گا ۔"اونچا لمبا وہ مرد جھکے سر کے ساتھ خود کے سینے تک آتی اس عورت کے سامنے گڑگڑایا تھا ۔وقت کہاں کہاں کیسے کیسے پلٹا کھاتا ہے کوئی اس وقت ان دونوں کو دیکھ لیتا تو یقین کر لیتا ۔

اسکی تڑپ کر کی گئی التجا پر صلہ نے اپنی سبز آنکھوں میں بہت سارا کرب لئے ضبط کرنے کی کوشش کی تھی ۔

"ٹھیک ہے ۔میں آپ کو ایک موقع دینے کو تیار ہوں ۔"سر کو ہلکی سی جنبش دیتے کہا تو حیدر نے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا ۔اور پھر وہ بے یقینی خوشی میں بدلنے کو تھی کہ صلہ کے الفاظ اسے نگل گئے ۔

"آپ وقت کو نو سال پیچھے لے کر جائیں ۔اس رات تک کی مسافت طے کریں جب میں آپ کے گھر سے نکلی تھی ۔پھر اپنے کیے کا افسوس کریں ،بھلے معافی نہ مانگیں ۔اس وقت کی صلہ کا موم ہوا دل آپ کو ایک منٹ کی دیر کیے معاف کرنے کو تیار ہے ۔مگر یہ صلہ جو سامنے کھڑی ہے نا آپ کے ۔اسے نو سال کی نارسائی اور تکلیفوں نے اتنا پتھر دل بنا دیا ہے کہ اب اس پر کوئی جذبہ اپنا اثر دکھانے میں ناکام ہے ۔پتھروں سے سر ٹکرانے پر سوائے زخموں کے اور کچھ وصول نہیں ہوتا ۔اور میرا دل چاہتا ہے ایسا ہی ایک زخم آپ کے دل پر بھی ہمیشہ کے لئے ہرا رہ جائیں ۔آپ بھی خالی ہاتھ رہیں جیسے میں رہ گئی تھی ۔آپ کی معافی مجھے نہ تب چاہیے تھی حیدر نہ اب چاہیے ۔تب سزا آپ کی سنائی گئی تھی آج میں سناؤں گی ۔اور جانتے ہیں آپ کی سزا کیا ہے ۔"پانیوں سے لدی پلکیں ذرا سا لرزی ۔کچھ پلوں کی خاموشی اور پھر اسکی سرسراتی ہوئی آواز ۔

"میں آپ کو معاف کرتی ہوں ۔آپ کے کیے ہر ظلم سے آپ کو بری کرتی ہوں مگر ۔۔۔۔۔میری زندگی میں آپ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔مجھے آپکا ساتھ نہیں چاہیے ۔جائیے معاف کیا آپ کو ۔مگر اب کچھ ٹھیک نہیں ہو گا ۔میری اور آپ کی راہیں کبھی ایک نہیں ہوں گی ۔"

وہ ہذیانی انداز میں دبا دبا سا چینخی تھی ۔اور وہ جو  اسکے غصے ،نفرت ،طنز و حقارت کسی سے نہیں ہارا تھا اتنی آسانی سے اسکے آنسوؤں سے مات کھا گیا ۔

اندر کی توڑ پھوڑ کے سبھی اثرات اسکے چہرے پر آن رکے تھے ۔جس کی ساری روشنی جیسے کھڑکی کے باہر پھیلی رات کی سیاہی میں قید ہو کر رہ گئی تھی ۔اسکی جیب میں رکھا ٹوٹا بریسلٹ تو جڑ گیا تھا مگر ٹوٹے رشتے اور ٹوٹے دل جوڑنے میں اسکے ہاتھ فقط ناکامی ہی آئی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?