Share:
Notifications
Clear all

Hiijr e Yaran by Umme Abbas Episode 10

1 Posts
1 Users
0 Reactions
167 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

قسط نمبر :10

دیکھو صلہ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔تمہیں اپنے پاپا سے بات کرتے دیک مجھے خیال آیا میں نے بھی دو دن سے اپنے موم ڈیڈ سے بات نہیں کی تو مجھے انہیں کال کر لینی چاہیے ۔میرے موبائل کا نیٹ ورک نہیں چل رہا تھا ۔تمہارا چل رہا تھا تو میں نے تمہارا موبائل یوز کر لیا ۔باہر بالکونی میں کھڑے بات کرتے تمہارا موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے پتھریلی راہداری پر جا گرا اور ۔۔۔۔۔ٹوٹ گیا ۔"اسکے چہرے کی طرف دیکھتے وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا ۔ہاتھ جینز کی جیب کی طرف بڑھا تھا ۔وہاں سے اسکا چکنا چور ہوئی سكرین والا موبائل بر آمد ہوا تھا ۔آنکھیں پھاڑے ،منہ کھولے وہ حیرت بھرے صدمے سے اپنا خستہ حالی کا شکار دو ماہ پہلے ہی پاپا کی طرف سے گفٹ کیا موبائل دیکھ رہی تھی ۔

"تم چاہو تو میرا رکھ لو ۔مجھے کچھ دقت تو ہو گی مگر میں مینج کر لوں گا ۔یہاں سے واپس جاتے ہی میں تمہیں نیا موبائل دلا دوں گا ۔"اسے شاک بھری نظروں سے اپنے ہاتھ پر سے موبائل اٹھاتے دیکھ کر وہ مزید کہہ رہا تھا ۔

"یہ تو اب ٹھیک نہیں ہو گا۔پاپا نے میری برتھ ڈے پر گفٹ کیا تھا ۔"سرگوشی نما لہجے میں کہتی وہ الٹ پلٹ کر اسے دیکھ رہی تھی ۔

"آئی ایم سوری ۔مجھے پتہ ہوتا یہ ٹوٹ جائے گا تو میں اسے اٹھاتا ہی نہیں ۔"اسکی پر ملال آواز پر صلہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا جس کے چہرے پر ندامت کے ساتھ ساتھ خفت کے اثرات بھی گھل سے گئے تھے ۔بدقت دل کا غم ایک سائیڈ پر کرتی وہ مسکرائی ۔

"کوئی بات نہیں آپ نے کون سا جان بوجھ کر توڑا ہے ۔چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔مجھ سے بھی میرا پہلے والا موبائل ٹوٹ گیا تھا اسی لئے پاپا نے یہ گفٹ کیا تھا ۔"اسکا دل رکھنے کو وہ اسکی کہنی پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہہ رہی تھی ۔

"میں تمہیں ایسا ہی نیا لے کر دوں گا آئی پرامس ۔"اسکے کہنے پر سر ہلاتی وہ موبائل سائیڈ پر رکھنے لگی تھی ۔حیدر نے ایک گہرا سانس اندر کھینچا ۔

"تم چاہو تو میرا موبائل رکھ سکتی ہو ۔"حیدر کی تشفی نہیں ہو رہی تھی ۔ایک بار پھر سے اپنی آفر دوہرائی ۔

"نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے ۔مجھے پاپا سے ہی بات کرنی ہوتی ہے وہ آپ کے موبائل سے کر لیا کروں گی ۔"

"اوکے ایز یو وش۔میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر چلتے ہیں نیچے کھانا کھانے ۔"

اسکے جانے کے بعد صلہ نے ایک بار پھر سے تاسف بھرے دکھ کے ساتھ اپنے موبائل کو دیکھا تھا ۔اتنا دکھ اسے شاید نہیں ہوتا اگر یہ جہانگیر کی طرف سے اسکی برتھ ڈے کا گفٹ نہ ہوتا ۔سر جھٹک کر اپنی سوچوں کی دھارا موڑنے کی خاطر وہ اپنے سوٹ کیس کی جانب متوجہ ہو گئی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 

"نانو ؟"

انکے بستر پر دونوں کہنیاں اپنی رانوں پر ٹکائے ، ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ رکھے وہ پر سوچ سی آواز میں انہیں پکار رہا تھا ۔تسبیح کے دانے رولتے آنکھیں موند کر نیم دراز سی ہونٹوں کو جنبش دیتیں، رقيه خالہ نے اسکی طرف دیکھا ۔

"عمر کی ماما تو اللّه تعالیٰ پاس چلی گئی تھیں پھر نئی ماما کہاں سے آ گئیں ؟"وہ معصومیت سے آنکھیں بڑی کیے استفار کر رہا تھا ۔اور ایسا کرتے ہوئے وہ الجھن کا شکار لگتا تھا ۔رقيه خالہ نے ذرا بھر پہلو بدل کر اسکی طرف مسکراتی آنکھوں سے دیکھا ۔

"اسکے پاپا نے دوسری شادی کر لی ہے اس طرح اسکی نئی ماما آ گئی ہے ۔"

وہ آج ہی تو انکے ساتھ ، ساتھ والے فلیٹ میں رہتے احسن کو شادی کی مبارکباد دینے گیا تھا ۔احسن کی پہلی بیوی کی وفات ڈیڈھ سال پہلے ہوئی تھی ۔اسکے دو بچے تھے ۔عمر تو تھا بھی شہیر کا کلاس فیلو ۔احسن کی والدہ کی رقيه خالہ سے اچھی بنتی تھی ۔وہ اکثر بیٹے اور پوتی پوتے کے لئے فکر مند رہتی تھیں ۔کچھ دن پہلے ہی احسن کی کی دوسری شادی ہوئی تھی ۔کیوں کہ شادی انکے آبائی گاؤں میں ہوئی تھی اس لئے رقيه خالہ جا نہیں سکی تھیں ۔اب ان لوگوں کے واپس آنے پر مبارک باد دینے گئیں تو شہیر بھی ساتھ ہو لیا تھا ۔نئی نویلی سجی سنوری دولہن اسکے لئے اشتیاق کا باعث تھی ۔جب کہ عمر شرمیلی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے صدف کے پہلو میں بیٹھا کبھی اسکی چوڑیوں سے کھیلتا تو کبھی اسکے زرتار دوپٹے کو چھیڑتا ۔

"عمر کی نئی ماما کتنی پیاری لگ رہی تھیں نا نانو ۔کتنا كلر فل ڈریس تھا انکا ۔اور ہاتھوں پر بھی پھول بنے ہوئے تھے ریڈ كلر کے ۔اور انہوں نے جیولری بھی پہنی ہوئی تھی ۔کتنی بیوٹی فل لگ رہی تھیں وہ ۔"تصور کی آنکھ سے جیسے وہ اب بھی صدف کو دیکھ رہا تھا ۔

"ہاں بھئی نئی نویلی دولہن ہے سجے سنورے گی تو سہی ۔"

سر ہلاتے رقيه خالہ اسکے انداز پر ہنس دیں ۔یکایک  اسکی آنکھوں میں کوئی چمک سی کوندی ۔دونوں ہاتھ نیچے گود میں گراتے وہ چمک کر بولا تھا ۔

"ایسا نہیں ہو سکتا میری ماما بھی دولہن بن جائیں ۔عمر کو نئی ماما مل گئی ہیں مجھے نئے بابا بھی تو مل سکتے ہیں نا؟"

یہ نیا آئیڈیا اسے اس قدر پسند آیا تھا کہ اسکی آواز جوش میں کچھ بلند ہو گئی تھی ۔رقيه خالہ نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے آواز نیچی رکھنے کا اشارہ کیا تھا ۔

"کیا کرتے ہو منا ۔اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی مرواؤگے تم ۔تمہاری ماں کے کانوں میں اس بات کی بھنک بھی پڑ گئی نا تو تمہارے ساتھ ساتھ میری بھی خیر نہیں رہے گی ۔"

گردن ذرا اچک کر کھلے دروازے کو محتاط نظروں سے دیکھتے انہوں نے ساتھ شہیر کو جھڑکا تھا ۔جسکا سارا جوش جھاگ کی مانند بیٹھا تھا ۔آنکھوں کی چمک ماند پڑی تھی ۔

"عمر کے پاپا نے اسے کیسے نئی ماما لا کر دے دی ۔اور ایک میری ماما ہیں مجھے ایک نئے بابا تک لا کر نہیں دے سکتیں ۔"منہ بنا کر اس نے یوں کہا تھا جیسے نئے بابا مارکیٹ سے ملتے ہوں اور اسکی ماں اسے لا کر دینے سے انکاری ہو ۔

"میں تو خود چاہتی ہوں ایسا ہو جائے مگر تمہاری ماں جو ہے نا منا بڑی ضدی ہے کبھی نہیں مانے گی ۔"رقيه خالہ کو بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع ملا تھا ۔کتنے سالوں سے وہ بھی تو یہی رونا رو رہی تھیں ۔

"لیکن اب ایسا نہیں ہو گا ۔شہیر سب کر سکتا ہے ۔آپ دیکھیے گا نانو میں کیسے اپنے لئے نئے بابا ڈھونڈتا ہوں ۔"مسکراتی آنکھوں میں اک نیا سا عزم جاگا تھا ۔رقيه خالہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھیں ۔

"کیا ڈھونڈا جا رہا ہے بھئی ؟"کمرے میں داخل ہوتی صلہ کے کانوں میں اسکے آخری الفاظ ہی پڑے تھے تبھی چہرے پر خوش گواریت بھرا تاثر بدستور قائم تھا ۔البتہ بیڈ پر بیٹھے دونوں نفوس اپنی اپنی جگہ دہل کر رہ گئے تھے ۔

"کچھ نہیں ماما ۔ہم عمر کی نئی ماما کی بات کر رہے تھے ۔یو نو ماما وہ بہت پریٹی لگ رہی تھیں ۔انہوں نے میک اپ بھی کیا ہوا تھا ،اتنے پیارے کپڑے بھی پہن رکھے تھے اور ہاں انکے ہاتھوں پر پھول بھی بنے ہوئے تھے ۔"پاس بیٹھی صلہ کی طرف رخ موڑ کر وہ ایک بار  پھر جوشیلا انداز اپناتے شروع ہو چکا تھا ۔

"اسے مہندی کہتے ہیں ۔ہاتھوں پر پھول بنے ہوئے تھے ۔"وہ ہنس کر اسکی معلومات میں اضافہ کر رہی تھی ۔

"آپ بھی لگایا کریں نا ۔آپ کے ہاتھ اور بھی اچھے لگے گے ۔"اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹ سے نئی فرمائش داغی گئی ۔

"میں لگاؤں گی نا جب میرے شہیر کی شادی ہو گی تب ۔"مسکراہٹ روک کر اسکے گال پر چٹکی کاٹی ۔شہیر کے چہرے پر مایوسی سی پھیلی تھی ۔

"اوہ ۔۔۔۔۔پھر تو ابھی بہت ٹائم ہے ۔اس سے پہلے کسی اور کی شادی نہیں ہو سکتی کیا ؟"رقيه خالہ کی طرف دیکھتے وہ بولا تو انہوں نے یوں بے خبری کا تاثر دیا تھا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہوں ۔

"اور کس کی ہو گی بھلا ؟"صلہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسکی جانب دیکھا ۔

"ماما آپ ۔۔۔" اس سے پہلے کہ شہیر کے منہ سے کوئی میزائل گرتا اس کمرے کے امن و امان کو راکھ کرتا رقيه خالہ نے اسکے الفاظ اچک لئے تھے ۔

"ارے صلہ تم بھی نا ۔بچہ کہہ رہا ہے تو کہہ دو لگا لوں گی مہندی ۔اسکی خواہش ہی پوری ہو جائے گی ۔اور یہ چونچیں تم دونوں ماں بیٹا اپنے کمرے میں جا کر لڑاؤ اب ۔مجھے سونے دو ۔"عاجز آ کر بحث سمیٹنے کے سے انداز میں کہتے انھوں نے اپنی تسبیح سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھی ۔

"آ جاؤ شہیر نانو کو آرام کرنے دو اب ۔آپ سو جائیں خالہ اب ۔صبح ملتے ہیں ۔شب بخیر ۔"مسکرا کر کہتی وہ شہیر سے پہلے ہی کمرے سے نکل گئی تھی ۔وہ بھی سر ہلاتا بستر سے اترنے لگا تو رقيه خالہ نے اسکی کہنی پکڑ کر اسے روکا ۔

"کیوں اس گھر کے امن و امان کو مٹی میں ملانے چلے ہو منا ۔خبردار جو اپنے کسی نادر خیال سے اپنی ماں کو آگاہ کیا تو ۔میں بتا رہی ہوں تمہیں ہم دونوں ہی بے موت مارے جائیں گے ۔"انگلی اٹھا کر اسے سمجھایا کم ڈرایا زیادہ تھا ۔شہیر نے بھی جیسے تیسے منہ ناک بھنو چڑھاتے سر ہاں میں ہلا دیا تھا ۔رقيه خالہ نے کھچے ہوئے اعصاب ڈھیلے چھوڑتے ساتھ اسکی بازو بھی چھوڑ دی تھی ۔

"لیکن تمہارا آئیڈیا اتنا برا بھی نہیں ہے ۔ہم دونوں مل کر اس پر کام کر سکتے ہیں ۔کیا پتہ اللّه ہماری دلی مراد بھر لائے ۔"دونوں ہاتھ باہم ملائے وہ دبے دبے جوش و مسرت سے کہہ رہی تھیں ۔شہیر کا چہرہ کھل سا گیا ۔"مگر ابھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔صحیح وقت کا انتظار کرنا ہو گا ٹھیک ہے ۔"ساتھ ہی ایک بار پھر سے اسے تنبیہ کی ۔سب سمجھنے کے سے انداز میں زور و شور سر ہلاتا وہ انکے گلے ملتا تیز تیز باہر کی جانب لپکا تھا کیوں کہ صلہ اسے آواز دے رہی تھی ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

 .

 

رات کا نجانے کونسا پہر تھا جب پیاس کے باعث اسکی آنکھ کھلی تھی ۔اپنی سائیڈ کا لیمپ جلاتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔پانی کی بوتل حیدر کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھی اور خود وہ کروٹ دوسری طرف کیے گہری نیند میں تھا ۔صلہ نے آنکھیں سکیڑ کر دیوار گیر گھڑی پر نظر دوڑائی تھی ۔دو بجنے میں دس منٹ باقی تھے ۔کسلمندی سے اٹھ کر چہرے کے گرد پڑے بال پیچھے کرتی وہ ننگے پاؤں ہی گھوم کر دوسری طرف آئی تھی ۔گلاس میں پانی انڈیل کر ،وہیں حیدر کی سائیڈ پر بیٹھتے وہ گھونٹ گھونٹ پانی پی رہی تھی جب وہ نیند میں ہی کچھ کسمسایا تھا ۔صلہ نے اسکی طرف دیکھا جس کے سوئے ہوئے چہرے پر نیم اندھیرے میں بھی بے چینی اور اضطراب کے گہرے ہوتے سائے بڑے واضح تھے ۔کچھ اچنبھے کے عالَم میں صلہ نے اسکی سائیڈ کا لیمپ بھی روشن کر دیا ۔اتنی ٹھنڈ میں بھی اسکے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں ۔ہاتھ بڑھا کر اسکا ماتھا چھوا تو وہ یخ ٹھنڈا پڑ رہا تھا ۔گلاس واپس رکھتے وہ اٹھنے لگی تھی جب اس نے اپنا سر ہیجانی انداز میں دائیں بائیں سرہانے پر پٹکا تھا ۔اتنا تو وہ جان چکی تھی وہ کسی برے خواب کے زیر اثر ہے ۔صلہ نے بنا ایک بھی پل کی دیری کیے اسکا کندھا جهنجھوڑ ڈالا تھا ۔

"حیدر ۔۔حیدر "نرمی بھری آہستہ آواز میں وہ اسے پکار رہی تھی ۔ایک گہرا سانس اسکے لبوں سے اٹک کر جیسے خارج ہوا تھا جھٹ سے پوری آنکھیں وا کیے چھت کو گھورتے وہ یوں ہانپ رہا تھا جیسے ایک لمبی مسافت طے کر کے آیا ہو ۔

"آپ ٹھیک ہیں ؟"اسکی پکار پر معمول سے پھیلی پتلیوں کے ساتھ اس نے اجنبی نظروں سے اسکی طرف دیکھا تھا ۔اگلے ہی لمحے سختی سے اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتے وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھ بیٹھا تھا ۔حیدر نے اسکا ہاتھ اس قدر جارحیت  سے جھٹکا تھا کہ وہ منہ کے بل نیچے گرتے گرتے بچی تھی ۔

"دور رہو مجھ سے ورنہ جان سے مار دوں گا ۔"بنا اسکی طرف دیکھتے وہ غرایا تھا ۔اسکی اتنی کاٹ دار آواز پر وہ اٹھ کر دو قدم بیڈ سے پیچھے ہٹی تھی ۔خود وہ اب میکانکی انداز میں اپنے ہاتھوں کو گھور رہا تھا جن کی لرزش بڑی نمایاں تھی ۔وہ اب بھی گہرے گہرے سانس لے رہا تھا ۔چہرہ بالکل فق پڑ رہا تھا ۔اور پھر وہ تیر کی تیزی سے بستر سے نکلا ،صلہ نے دو قدم اور پیچھے ہوتے اسکے لئے راستہ چھوڑ دیا تھا ۔وہ سیدھا واش روم کی جانب بڑھا تھا ۔تشویش کے عالَم میں ہونٹ کاٹتی صلہ نے سہمی ہوئی نظروں سے گردن موڑ کر اسے دیکھنے کی کوشش کی تھی جو آدھ کھلے دروازے سے واش بیسن پر جھکا نظر آ رہا تھا ۔اک جنون سا تھا جس کے زیر اثر وہ اپنے ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کر صابن سے دھو رہا تھا ۔ایسا کرتے ہوئے اسکا چہرہ کسی اذیت کا شکار لگتا تھا ۔پھر اس نے اپنا چہرہ بھی ایسے ہی مل مل کر دھویا تھا ۔اور ایسا کرتے ہوئے وہ کوئی نیم پاگل خبطی انسان لگتا تھا ۔صلہ دم سادھے اسے دیکھے جا رہی تھی ۔خوف کی سرد سی لہر اسکے پورے وجود میں سرایت کرتی اسکے حواس مفلوج کر رہی تھی ۔اسے پہلی بار خود سے چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے شخص سے خوف محسوس ہوا تھا ۔کیا وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار تھا ؟ یا اسکے ساتھ کوئی مسئله تھا ؟ وہ کون تھا ؟وہ تو صحیح سے یہ تک نہیں جانتی تھی ۔اور پہلی بار اسکی بہت سی عجیب باتیں اسے صحیح معنوں میں عجیب لگی تھیں ۔ اسکے ذہن میں کہیں سوالیہ نشان جنم لے رہے تھے ۔ٹانگوں میں مزید کھڑا رہنے کی سکت باقی نہیں رہی تھی ۔

وحشت سے اسکی طرف دیکھتے اسکے جی میں آیا تھا وہ یہاں سے بھاگ جائے مگر اتنی ہمت اپنے اندر لاتی کہاں سے ۔اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ وہ بمشکل خود کو بیڈ تک لائی اور گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی ۔

اسے یاد نہیں تھا کتنی دیر گزر گئی تھی ۔کمرے میں بالکل سکوت چھا گیا تھا ۔پہلے نل سے پانی گرنے کی آواز آتی رہی پھر وہ آنا بھی بند ہو گئی ۔وہ یوں ہی بت بنی بیٹھی رہی ۔گردن موڑ کر اس طرف دیکھنا بھی جیسے محال ہو گیا تھا ۔وہ واش روم سے باہر نہیں آیا تھا وہیں واش بیسن کے اطراف میں ہاتھ جمائے گردن جھکائے کھڑا رہا ۔

بہت دیر بعد وہ بیڈ روم میں واپس آیا تو اسکے بال قدرے خشک تھے جیسے وہ ٹاول سے سر رگڑتا رہا ہو ۔جو ٹی شرٹ اس نے پہن رکھی تھی اسکا گریبان پوری طرح سے بھیگ چکا تھا ۔آنکھیں سرخ اور چہرہ قدرے ستا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔

صلہ کو دیکھ کر وہ کچھ ٹھٹکا ،پھر چونک کر سیدھا ہوا ۔تھوگ نگل کر گلہ تر کرتے وہ کچھ دیر وہیں دونوں ہاتھ پہلو میں گرائے اسکا جھکے سر والا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتا رہا جو اب بھی سراسیمگی کی حدوں کو چھو رہا تھا ۔اپنی پیشانی کو چھوتے وہ دهیمی چال کے ساتھ اسکی طرف بڑھا تھا ۔صلہ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا نہیں تھا مگر گود میں دھرے ہاتھوں کی مٹھياں سختی سے بھیچ ڈالی تھیں اور یہ عمل حیدر کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکا ۔

وہ اسکے برابر میں آ کر بیٹھا تھا کچھ یوں کہ اسکا بازو صلہ کے کندھے کو چھونے لگا تھا ۔غیر محسوس انداز میں لاشعوری طور پر صلہ نے اپنے اور اسکے درمیان فاصلہ بڑھانا چاہا تھا ۔اسکی اس کو شش کو حیدر نے اپنا بازو اسکے شانے پر پھیلا کر ترک کر دیا تھا ۔وہ سانس روک کر سمٹی سی بیٹھی رہ گئی ۔

"تم مجھ سے ڈر رہی ہو ؟"

اسکی آواز کچھ عجیب سا بھاری پن لئے ہوئے تھی ۔حزن و ملال کے بیک وقت زیر اثر ۔مگر صلہ کی اپنی ذہنی حالت اس وقت ایسی نہیں تھی جو اسکے لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ پر غور کرتی ۔

جواب میں اس نے کچھ نہیں بولا تھا ۔یوں ہی پتھر کا مجسمہ بنی بیٹھی رہی ۔حیدر کا ہاتھ اسکا بازو آہستگی سے سہلا رہا تھا اور اسکی ساری جان اسی لمس میں اٹکی ہوئی تھی ۔شعور ابھی بھی اسکی "دور رہو مجھ سے ورنہ جان سے مار دوں گا ۔"کی دهاڑ میں قید تھا ۔وہ سانس تک ٹھہر ٹھہر کر لے رہی تھی ۔رات کے اس آخری پہر اسے اپنے اسکے ساتھ اتنے دور اس سنسان وادی میں آنے پر افسوس ہوا تھا ۔

"صلہ ؟"

اس بار اسکا نام پکارتے اس نے جھک کر اسکا چہرہ دیکھنا چاہا تھا ۔اور ایسا کرنے پر صلہ کا جھکا چہرہ کچھ اور بھی جھکتا ،اسکی ٹھوڑی سینے سے جا لگی تھی ۔بہت سارا گرم سيال اسکی آنکھوں میں جمع ہونے لگا تھا ۔حواس کچھ بحال ہونے لگے تھے ۔

"مجھے واپس جانا ہے ۔"ایک ہی سانس میں تیز تیز کہا گیا تھا ۔اسکا گلہ رندھا ہوا تھا ۔حیدر نے اسکے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ کچھ اور بڑھایا تھا ۔

"ٹھیک ہے ہم جلدی واپس جانے کی کوشش کریں گے ۔"مفاہمتی انداز اپناتے وہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوا ۔

"نہیں ۔۔۔۔ہم کل ہی واپس جائیں گے ۔"سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھتے وہ زور دیتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔چہرہ اب بھی خوف کے حصار میں جکڑا زرد ہو رہا تھا ۔آنکھیں چھلک اٹھی تھیں ۔اک ٹرانس کی سی کیفیت میں حیدر نے اسکے چہرے پر جھکتے باری باری اسکی دونوں آنکھوں کو نرمی سے چھوا تھا ۔اک سسکی اسکے کانپتے ہونٹوں سے آزاد ہوئی تھی ۔حیدر نے اسے خود سے لگاتے اسکی پشت کو نرمی سے تهپکا تھا ۔

"تم ڈرو مت ۔بخدا میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔"اپنا چہرہ اسکے سر پر ٹکائے وہ نیم سرگوشی کی سی کیفیت میں کہتا بار بار اسکے بالوں کو چھو رہا تھا ۔

"میں نیند میں تھا صلہ ۔خواب کے زیر اثر تھا اس لئے سمجھ نہیں لگی ۔آئی ایم سوری اگر میں نے تمہیں ہرٹ کیا ہو تو ۔میں تمہیں کبھی بھی ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔نہ ہی اب کرنا چاہتا ہوں ۔میں بہت جلد یہ سب ختم کر دوں گا ۔"

مبہم سے انداز میں وہ سرگوشی نما آواز میں اب بھی بول رہا تھا مگر کیا بول رہا تھا صلہ سمجھنے سے قاصر تھی ۔

"مجھے سونا ہے ۔"اپنے چہرے کو صاف کرتے وہ اس سے الگ ہوتی اکھڑے سے لہجے میں منمنائی تھی ۔اسکے بازو کو جھٹکنے کی طاقت اس میں نہیں تھی ورنہ کب کا جھٹک چکی ہوتی ۔کہیں نہ کہیں اسکی دہشت اسکے اندر دور تک اپنے پنجے گاڑھ چکی تھی ۔اب اسکی معذرت ،نرمی اور دھیمی آنچ دیتی قربت کچھ بھی اس کا اثر اتنی جلدی زائل کرنے میں ناکام ٹھہرے تھے ۔

"ٹھیک ہے تم سو جاؤ ۔"اسکے بال چہرے کے گرد سے ہٹاتے سر ہلا کر تائید کرتے اس نے اسے اپنے حصار سے آزاد کیا تو صلہ کو سچ میں لگا جیسے وہ موت کے منہ سے بال بال بچ نکلی ہو ۔

تیزی سے اسکے پاس سے اٹھ کر وہ دوسری سائیڈ بڑھ گئی تھی ۔اپنے بستر پر سکڑی سمٹی حالت میں لیٹتے اس نے کمبل خود پر تانا تھا ۔وہ کچھ دیر گردن موڑ کر اسے دیکھتا رہا تھا اور صلہ کو اسکی آنکھیں جیسے اپنی پشت پر گڑھی محسوس ہو رہی تھیں ۔سختی سے آنکھیں موندے وہ مٹھی میں کمبل دبوچے پڑی رہی ۔جب بالکونی میں کھلتے دروازے کی آواز پر اس نے آنکھ کی جهلی سے اسے بالکونی میں جاتے اور پیچھے دروازہ بند کرتے دیکھا تھا ۔جس دروازے سے وہ باہر نکلا تھا اسی دروازے سے ڈھیر سارا سکون اندر داخل ہوتے اس کے خوف کو تهپک تهپک کر سلانے میں کسی حد تک مؤثر ثابت ہوا تھا ۔

دونوں سائیڈ لیمپس روشن ہونے سے کمرے میں اچھی خاصی روشنی تھی جسے گل کرنے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔اس نے سر اٹھا کر وقت دیکھنا چاہا تھا ۔گھڑی تین بج کر پانچ منٹ کا عندیہ دے رہی تھی ۔یعنی صبح کی روشنی پھوٹنے میں ابھی کافی وقت باقی تھا ۔اسے کچھ مایوسی نے آن گھیرا ۔آنکھیں موند کر ہر سوچ ،ہر خوف کو جھٹکنے کی کوشش کرتے اس نے سونا چاہا تھا ۔ایک خیال تھا جو اسکے ذہن و دل میں پنجے گاڑھ کر بیٹھ گیا تھا حیدر نارمل انسان نہیں تھا ۔

 . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . .


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?