Share:
Notifications
Clear all

Dasht e Junon ke Sodaai Episode 3

1 Posts
1 Users
0 Reactions
292 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

آہ! نہیں ۔۔" اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔

"مجھے دادو سے بات کرنی ہوگی ۔۔" اس نے دل ہی دل میں سوچتے فوراً ہی ان کے پاس جانے کا ارادہ کرلیا اور اپنا موبائل فون لیتا کمرے سے نکل گیا۔دادو کا کمرہ زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔اسی راہداری میں پہلا کمرہ ان کے زیر استعمال تھا۔اس نے دروازے پر دستک دی پھر اندر جھانکا تو دادو قرآن پاک کی تلاوت کرتی نظر آئیں۔

"میں پھر آتا ہوں ۔۔" اس نے وہیں کھڑے کہا۔وہ مخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔بات کرنے کا ارادہ کسی اور وقت پر ٹال دیا۔دادو نے مسکراتے ہوئے اثبات میں گردن ہلائی تو وہ بھی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیتا آگے بڑھ گیا۔اب اس کا رخ نیچے کی طرف تھا۔سیڑھیاں اترتے لاونج میں پہنچا اور چند لمحے کچھ سوچ کر پھر باورچی خانے کی طرف چلا آیا۔اندر وسیع باورچی خانہ جو امریکی انداز میں بنا ہوا تھا۔جدید سازو سامان لیس خوبصورتی سے سجا تھا۔گلاب خان وہیں تھا۔اسے دیکھ کر سلام کیا۔

"آج چچا بیمار ہیں ۔۔ناشتہ میں بناؤں گا۔۔"اس نے اطلاع دی۔

"کیا ہوا انھیں ؟" داؤد نے پوچھا۔

"بخار ہے ۔۔آپ ناشتہ کرے گا ابھی ؟"

"نہیں میں اس وقت صرف جوس پیتا ہوں ۔۔"

"آپ کا دوست لوگ سورہا ہے ابھی ؟نماز نہیں پڑھتا ؟"

داؤد آہستگی سے مسکرا دیا۔مسکراہٹ میں ایک ہلکا سا افسوس اترا۔

"اللّٰہ توفیق دے ۔۔دعا کیا کرو تم بھی !" وہ فقط اتنا ہی بولا۔

"آمین ! ویسے نماز کیوں نہیں پڑھتا؟ اتنا بڑا ہوگیا ۔۔"

"اب بھی اکثریت گھرانوں میں بچوں پر نماز کے لیے سختی نہیں کی جاتی گلاب خان ! اس لیے نماز کی اہمیت اور فرض کا انھیں احساس نہیں ۔۔قصور ان کا نہیں۔۔ شاید ان کے بڑوں کا ہے ۔۔آج کل کے والدین بچوں کو ہر چیز کی سہولت دیتے ہیں ۔۔مہنگی تعلیم ! دینی تعلیم ! لیکن مہنگی اور دینی تعلیم دلوانے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔ بچہ زیادہ تر گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے ۔۔شعور اور تربیت تو گھر سے ہوتی ہے ناں!" وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔

"تو آپ ان کو بولو! آپ کا بھی تو فرض ہے ۔۔دوست لوگ ہیں  آپ کا۔۔"

"میں ان کے سامنے نماز پڑھتا ہوں،ازان ہوتے ہی کہتا ہوں کہ نماز پڑھنے جارہا ہوں ۔۔کبھی کبھار کہہ بھی دیتا ہوں کہ وہ بھی میرے ساتھ نماز پڑھ لیں ۔۔ لیکن میں ان پر بار بار دباؤ نہیں ڈالتا۔۔ہمارے دین میں ترغیب ہے زبردستی نہیں ۔۔زبردستی والدین کو کرنی چاہیے سختی کا حکم بھی ان کو ہے۔۔میں نہیں چاہتا کہ میرے بار بار کہنے سے وہ نماز کو ایک بوجھ اور دین کو بھاری سمجھنے لگیں۔" داؤد نے کہا۔اس کی نگاہیں گلاب خان کے تیزی سے چلتے ہاتھوں پر تھیں۔

"آپ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔" گلاب خان نے سرہلاتے ہوئے کہا اور جوسر مشین کا بٹن دبایا۔ فضا میں تیز آواز گونجنے لگی۔داؤد نے ہاتھ بڑھا کر گلاس اٹھایا اور اسے دھونے لگا۔جوسر مشین بند ہوئی تو گلاب خان نے اس کی طرف دیکھا۔

"آپ رہنے دیتا ۔۔"

"کوئی بات  نہیں ۔۔" داؤد نے گلاس اس کے سامنے رکھا تو شربت گلاس میں انڈیلنے لگا۔

"شکریہ گلاب خان! " داؤد نے گلاس اٹھاتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور باورچی خانے سے نکل گیا۔گلاب خان وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

                  *********

داؤد متناسب قدموں سے چلتا لان میں  آیا اور کچھ فاصلے پر رکھی سنگی بینچ پر آکر بیٹھا اور اپنے چپل اتار دیے۔نیم تر آسٹریلوی گھاس کو اپنے پیروں کے تلوؤں پر محسوس کرتا وہ تازہ دم محسوس کرنے لگا۔ اب وہ شربت کے گھونٹ بھرتا سامنے دیکھ رہا تھا۔تازگی بھرا خوشگواری کا احساس اندر تک اترتا محسوس ہورہا تھا۔

قدرت کے مناظر میں کتنی روح خیز خوبصورتی ہے ایسی خوبصورتی جس کے ہوتے روح کو خوشی کے لیے کسی اور وجہ کی ضرورت نہ پڑے۔لیکن انسان کتنا ناشکرا ہے جو خوشیوں کے لیے ہر پل وجوہات کی تلاش میں رہتا ہے۔یہی سوچتے اس نے نگاہیں سامنے نظر آتے صنوبر کے بوڑھے درخت کو دیکھا جس پر پرندے بیٹھے پر سکون دکھائی دے رہے تھے۔ابھی وہ سوچ کی گہری پرچھائی کو خود پر اوڑھتا اس سے قبل ہی اس کا فون بجنے لگا۔اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر فون نکالا۔اسکرین پر آغا جان  لکھا تھا۔داؤد کو اپنے کانوں سے گرمائش نکلتی محسوس ہوئی۔رات والی گفتگو من و عن ذہن کے پردے پر تازہ ہوئی۔اس نے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔

"صبح بخیر آفندی صاحب!"

"صبح بخیر آغا جان ! کیسے ہیں آپ ؟"

"بالکل فٹ! دادو کہاں ہیں تمہاری ؟"

"وہ اپنے کمرے میں ہیں ۔۔میں یہاں باہر لان میں بیٹھا ہوں ۔۔" اس نے کہا۔

"اچھا! اپنی تنہائی سے لطف اندوز ہورہے ہو ہمیشہ کی طرح!"

"کہہ سکتے ہیں ۔۔" وہ کہہ کر ہنس دیا۔

"میں نے تمہارے حوالے سے ایک فیصلہ کیا ہے ۔۔" انھوں نے تمہید باندھتے ہوئے کہا۔

"کیسا فیصلہ آغا جان؟" داؤد کو اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگی۔

"دائم خان کی بیٹی سیام تمہیں پسند ہے ناں ؟"

داؤد کو پھر اپنی سماعت پر شک ہوا۔آغا جان کو کیا ہوگیا تھا ؟وہ آخر ایسی باتیں کیوں کررہے تھے۔داؤد تو خود سے بھی اس بات کا اعتراف کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا چہ جائیکہ کسی کے منہ سے اس کے متعلق براہ راست سوال سننا!

"آغا جان !"داؤد کو سمجھ نہ آیا کیا کہے؟

"میں تمہارا کم عمری میں اس سے نکاح کر دیتا ہوں ۔۔تاکہ تم لندن جاکر اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر لگا سکو اور تمہارا دھیان بھٹک نہ جائے۔"

"مجھے اپنا دھیان جگہ پر رکھنے کے لیے نکاح کی ضرورت نہیں ۔۔کم از کم اتنی جلدی تو نہیں ۔۔میری ابھی عمر ہی کیا ہے؟ صرف سولہ سال ؟وہ خود بھی  چھوٹی ہے ۔۔اس کے بھی مستقبل کو لے کر بہت سے خواب ہوں گے ۔۔ آپ پلیز یہ ساری باتیں ذہن سے نکال دیں ۔۔میرا لندن جانے سے ہچکچانے کی وجہ صرف سیام نہیں تھی ۔۔"

"صرف سیام ؟مطلب ایک وجہ تو وہ۔۔"

"آغا جان !" داؤد روہانسی شکل بناتا بولا۔

"فکر نہ کریں۔میری تعلیم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔یقین کریں میرا۔۔"

"لیکن دین اسلام میں تو یہ ایک اچھی چیز ہے تمہیں پسند ہے سیام تو۔۔"

"آغا جان کیوں شرمندہ کررہے ہیں ۔۔میں مانتا ہوں اسلام اس کی اجازت دیتا ہے پر ابھی نہیں ۔۔پلیز؟" آخر میں اس کا لہجہ التجایہ ہوا تھا جس پر دوسری طرف سے بآواز ہنکارا بھرنے کی آواز آئی۔

"آپ پلیز کسی سے اس بارے میں کوئی بات نہ کریں۔" داؤد نے منت کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے۔۔"

"آہ!" داؤد نے سکھ کی سانس لیتے سر بینچ کی پشت سے ٹکایا۔دھڑکنیں ہنوز اتھل پتھل تھیں۔

"شکریہ سمجھنے کے لیے!" اس نے کہا۔

"اچھا یہ موضوع چھوڑو ۔۔میں سوچ رہا تھا گلاب خان کو تمہارے ساتھ ہی لندن بھیجوں ۔۔تاکہ  کام کاج کے لیے تمہیں زیادہ مشکل نہ ہو ۔۔پھر میں زیادہ مطمئن بھی رہوں گا۔۔"

"جیسا آپ کو ٹھیک لگے آغا جان !" داؤد نے کوئی اعتراض نہ کیا۔اعتراض کی کوئی وجہ نہ تھی۔

"دادو سے آپ نے اس موضوع پر بات کی تھی ؟"

"ہاں وہ مشورہ بھی تمہاری دادو کا تھا۔۔"

"ہیں؟" داؤد بھونچکا رہ گیا۔

"اور ہاں ! میں نے تمہاری کتاب کا کوئی مواد نہیں پڑھا!"

یہ ایک اور بڑا دھچکا تھا۔

"آغا جان!یہ سب آپ سے دادو نے کہا ہے؟ہے ناں؟" اس نے سخت خفا انداز اپناتے ہوئے پوچھا۔دوسری طرف آغا جان نے ہنستے ہوئے رابطہ منقطع کیا۔لیکن داؤد اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ساری دادو کی کارستانی ہے۔فون

"لیکن دادو کیسے جانتی ہیں کہ اس میں سیام کے بارے میں لکھ رہا ہوں میں؟" وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا۔وہ بے طرح زچ ہوا تھا۔

                     *********

"زیارت بلاشبہ خوبصورت ترین ہے میں یہ نہیں کہہ رہا ! لیکن ہمیں مزید آگے جانا چاہیے ۔۔"کہنے والا دانیال تھا۔یہ منظر ناشتے کی میز کا تھا۔سب تروتازہ چہرے لیے نئے دن کو سر کرنے کے لیے تیار تھے۔

"آج ہم صنوبر کے جنگلات کی طرف جارہے ہیں ۔۔وہاں سے قائد اعظم ریزیڈنسی جائیں گے ۔۔ اس کے بعد تو ہمارے پاس کوئی ایسی خاص جگہ نہیں جہاں جایا جائے۔اس لیے کہہ رہا ہوں ۔۔زیارت سے آگے جاتے ہیں ۔۔داؤد ! دادو سے بات کرو ناں ؟" دانیال نے ٹوسٹ چباتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔جس پر داؤد نے باقی سب کے چہرے دیکھے جیسے ان کے تاثرات کا اندازہ لگانا چاہ رہا ہو۔

"ہاں دانیال بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔" عمیر بولا۔

"لیکن دادو تم سب کی فیملی کو صرف زیارت کا کہہ کر آئی ہیں اور وہ ان کی اجازت کے بغیر ہمیں آگے جانے نہیں دیں گی۔۔" داؤد نے کہا۔

"بالکل ! اور مجھے لگتا ہے فی الحال ہمیں زیارت پر اکتفا کرنا چاہیے ۔۔"سیام نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

"گلاب خان ہمیں یہاں کی اور اچھی اچھی جگہوں پر لے جائے گا۔۔" داؤد نے کہا۔

"زیارت میں صرف صنوبر کے جنگلات اور قائد اعظم ریزیڈنسی ہی نہیں ہے ۔۔" داؤد نے مزید کہا۔

"پھر کیا ہے ؟" نہال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"ایک پرانی آسیب زدہ حویلی ہے جو بہت خوبصورت ہے۔۔" اس نے سنسنی خیز لہجے میں کہتے سب کی طرف دیکھا۔سب کے چباتے منہ اور چلتے ہاتھ رکے۔

"خوبصورتی کا اچار ڈالیں گے جب وہ آسیب زدہ ہے تو؟" ماہ رنگ نے بدمزہ ہوتے کہا۔

"ہم وہاں جائیں گے!" نہال نے میز پر ہاتھ مارتے پرجوشی سے کہا۔

"تمہارا دماغ خراب ہے ؟"ماہ رنگ نے اسے گھورا۔

"چڑیل ہوتے ہوئے  تمہیں آسیب زدہ حویلی میں جانے سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔۔شش چپ !داؤد تم ہمیں وہاں لے چلو ۔۔"

ماہ رنگ جو اتفاق سے اسی کے برابر میں تھی اس کو زوردار مکا کندھے پر جڑ کر اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی۔اس کے مکے کا نہال پر کوئی اثر نہ ہوا تھا۔

"وہ جگہ گلاب خان جانتا ہے۔۔"

"لیکن گلاب خان نے کہا تھا کہ  اب وہ ہمارے ساتھ کہیں نہیں جائے گا۔۔" دعا نے ان سب کو یاد دلایا۔

"میں کہوں گا گلاب خان کو ۔۔گلاب خان ! تمہیں چمیلی کی قسم ہمیں وہاں لے چلو ۔۔" نہال نے ڈرامائی انداز میں ہاتھ پھیلا کر کہا۔

"یہ چمیلی کو تم کیسا جانتا ہے ۔۔" اسی پل گلاب خان کی حیرت میں ڈوبی آواز پر سب نے پلٹ کر دیکھا۔وہ گرم دودھ کا جگ لیے پیچھے کھڑا حیرت زدہ نظروں سے نہال کو دیکھ رہا تھا۔

"Do we have a jasmine too ?"

وہ داؤد کی طرف دیکھ بڑبڑایا۔داؤد نے لاعلمی سے گردن ہلائی۔

"بتاؤ ہم کو ہمارا منگیتر کا نام تم کیسا جانتا ہے ؟"

"So we do !"

نہال ہلکا سا ہنس دیا۔

"میں رات کو برتنوں کا پوچھنے آیا تھا کوارٹر میں ۔۔تم سورہے تھے اور نیند میں چمیلی کا نام لے رہے تھے۔۔اورمیں سمجھ گیا کہ ہمارے گلاب خان کے پاس ایک چمیلی ہے۔۔"وہ دانت نکالتا بولا۔وہاں سب اپنی ہنسی کو قابو کرنے کی پرزور کوشش کررہے تھے۔

"بس کرو ! ہم ایسا نہیں کرتا ہے ۔۔" گلاب خان کسی گلاب کی مانند سرخ پڑتا بوکھلاہٹ کا شکار ہوا تھا۔جلدی جلدی میں دودھ کا جگ میز پر رکھتا پلٹنے لگا۔

"نیند میں ہم کیا کہہ جائیں ہمیں کہاں پتا چلتا ہے گلاب خان ! شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔ہم کسی کو نہیں بتائیں گے ۔۔بس تم ہمیں اس حویلی تک لے جانا ۔۔"

گلاب خان کے بھاگتے قدم رکے اور وہ پلٹ کر ان کی طرف دیکھنے لگا۔

"کون سا حویلی؟"

"وہیں جہاں سیب کے درخت ہیں ۔۔" داؤد نے کہا جس پر گلاب خان کی رنگت اڑی۔

"وہاں کا تو راستہ بھی سالوں سے بند پڑا ہے ۔۔جھاڑیوں اور پتھروں سے گزرنا پڑتا ہے ۔۔"

"تو کیا ہوا ؟ہم چلے جائیں گے ۔۔"

"ہم دور سے دکھائے گا ساتھ نہیں آئے گا!" اس نے رونی شکل بناکر شرط رکھی۔جس پر ان سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔کسی کو اعتراض نہ تھا۔

"یہ بھی ٹھیک ہے۔۔" نہال نے کاندھے اچکائے۔گلاب خان موقع پاتے ہی تیزی سے غائب ہوا تھا۔

"کتنے شاطر ہو تم ۔۔" روفائیل نے ہنستے ہوئے کہا۔

"شاطر نہ ہوتا تو تم جیسوں کا دوست کیسے ہوتا۔۔"

"ہاہاہا ! " عمیر بھی ہنس دیا۔

"لیکن ہم وہاں جاکر کریں گے کیا ؟" دعا الجھے انداز میں بولی۔یہ پلان اسے کچھ خاص پسند نہیں آرہا تھا۔

"ہم جنات کو آیت الکرسی سنائیں گے۔۔" نہال نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"مجھے یقین ہے کہ وہاں جنات جیسی کوئی شے نہیں ہوگی۔۔"

"اور اگر ہوئی تو؟" ماہ رنگ نے دانیال کی طرف دیکھا۔

"ہوئی تو تم ہو ناں! اپنی ملکہ کے سامنے اچھے اچھوں کی  بینڈ بج جاتی ہے۔۔ "

"کیا مطلب ؟" وہ اسے گھورنے لگی۔

"دانیال ! " روفائیل نے اسے تنبیہ کی جس پر اس نے کندھے جھٹک کر ایک انگلی لبوں پر رکھ دی۔جیسے کہہ رہا ہو کہ اب کچھ نہیں کہے گا۔

"تو بس طے ہوا کہ آج شام کے بعد ہم اس آسیب زدہ حویلی میں جائیں گے۔۔"

"واپس آئیں گے یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی ہے ؟" سیام نے اپنی ہتھیلی کو گال پر ٹکاتے سوال کیا۔

"نہیں !" نہال نے کہا تو سب اس نے غصیلے انداز میں اسے گھورا سوائے داؤد کہ وہ مطمئن سا بیٹھا تھا۔

"لیکن وہ حویلی آسیب زدہ کیسے مشہور ہوئی۔۔؟" دعا نے سوال کیا۔اس کی توجہ داؤد کی طرف تھی۔

"کہتے ہیں سب سے آخری منزل کی سب سے آخری کھڑکی پر ہر رات ایک خاتون نمودار ہوتی ہے جس کے بال انتہائی لمبے اور گھنے ہیں ۔۔کئی لوگوں نے اس کے بالوں کو حویلی کے احاطے میں دور دور تک لہراتے ہوئے دیکھا ہے۔۔"

وہ سب سنجیدگی اور توجہ سے اس کی بات سن رہے تھے۔تاثرات میں سنسنی خیزی چھائی ہوئی تھی اور تب ہی !

"وہ راپنزل کی روح تو نہیں ؟" نہال نے معصومیت سے سوال کیا۔وہ سب پلٹ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔جبکہ عمیر ہنس دیا۔

"ہاں ! راپنزل کی روح ہی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب تم اس کے گھنے کالے بالوں پر لٹک کر حویلی کی اس کھڑکی تک پہنچ کر اسے قید سے آزاد کروگے ۔۔" روفائیل نے ہنستے ہوئے کہا۔

"خیال اتنا برا بھی نہیں !" نہال نے تھوڑھی کھجاتے ہوئے کہا۔

"سوچا جاسکتا ہے۔۔" اس نے کہا۔

"لیکن میرا کیمرہ کون پکڑے گا؟"

"کیا تم سب کو ڈر نہیں لگ رہا؟" ماہ رنگ ان سب کی بے نیازی اور لاپروائی سے تنگ آکر بولی۔

"نہیں ! کیوں کہ تم ہمارے ساتھ ہو!" دانیال نے مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کی طرف اشارہ کیا۔

"Very funny!"

ماہ رنگ نے تنک کر کہا۔

"ماہ رنگ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے کیا تم سب کو ڈر نہیں لگ رہا ؟" اب کے پوچھنے والی سیام تھی۔

"نہیں ! ہم آٹھ لوگ ہیں؟ کیا ایک چڑیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے ؟ اپنے ساتھ ایک چڑیلوں کی سردارنی کے ہوتے ہوئے ؟" نہال نے آخر میں مسکراتے ہوئے ماہ رنگ کی جانب دیکھا۔

"آہ! اب تو دل چاہ رہا ہے واقعی چڑیل بن کر تمہارا خون پی جاؤں اور تمہارے جسم کی بوٹی بوٹی نوچ لوں ۔۔"ماہ رنگ نے دونوں مٹھیاں بھینچتے ہوئے اسے گھورا۔آنکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے۔

"اب مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔" نہال نے جھرجھری لینے کی اداکاری کرتے کہا تو وہ سب کے سب کھلکھلا کر ہنس دیے۔

                            *******

شام میں نیلاہٹ اتر رہی تھی۔ہواؤں کی خنکی  خوشگوار تاثر دیتی تھی۔فضا میں صنوبر کے درختوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔آسمان میں ہر طرف پرندوں کے غول دکھائی دیتے جو اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف رواں تھے۔یہ سڑک زیادہ استعمال میں نہ ہونے کے باعث دونوں طرف سے گھنی جھاڑیوں میں گھری تھی۔گلہریاں گاہے بگاہے جھاڑیوں سے سر نکال کر ان سب کو دیکھتی پھر اچھلتی کودتی اندر جنگل میں جا چھپتی۔

"یہ کتنی کیوٹ ہیں ناں؟"

"بالکل تمہاری طرح !" نہال نے دعا کی طرف دیکھ کر کہا جس پر وہ خفگی سے نہال کو دیکھنے لگی۔

"کیا میں گلہری ہوں ؟"

"نہیں کیوٹ ہو وہ اس لیے کہہ رہا ہے ۔۔ہے ناں ؟" دانیال نے نہال کو دھمکاتی ہوئی نظروں سے دیکھتے تائید چاہی۔نہال نے دانیال کو گھورا اور پھر اثبات میں گردن ہلائی۔دعا معصوم چہرہ لیے نہال کو دیکھنے لگی۔

"دوستوں یہ ہمارے گروپ کی واحد کنیا کماری ہے جس کو ہم پھولوں کی طرح رکھتے ہیں ۔۔"

"ہاں ؟پھولوں کی طرح ؟اس کی چیزیں چرا کر کون کھاتا ہے؟" روفائیل نے ہنستے ہوئے کہا۔

"اب یہاں سے سیدھا سیدھا جائے گا تو وہ نیلا حویلی آجائے گا۔۔"

"الٹا الٹا جائے گا تو کیا آئے گا گلاب خان ؟ چمیلی خان کا گھر ؟" نہال نے مسکراہٹ دباتے پوچھا۔

"اس سے مذاق مت کرو نہال !برا مان جائے گا۔۔" ماہ رنگ نے سنجیدگی سے کہا جبکہ گلاب خان انار کی مانند سرخ ہورہا تھا۔وہ سب اس کے شرمیلے تاثرات پر مسکرائے تھے۔

"ویسے تمہاری منگنی کب ہوئی گلاب خان ؟"

"جب ہم ایک سال کا تھا !" وہ جھینپے ہوئے انداز میں بولا۔

"ہیں ؟" وہ سب کے سب یک زباں ہوکر بولے۔ان کے چلتے قدم رکے تھے۔

"تم نے ایک سال کی عمر میں انگوٹھی پہنادی ؟"

"نہیں ہمارا اماں پہنایا ۔۔" اس نے شرماتے ہوئے بتایا۔اس کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ اس موضوع پر گفتگو کرنا اسے پسند ہے۔

"تو کیا تم اپنی چمیلی سے کبھی ملے ؟"

"ہاں ! بچپن میں ۔۔" وہ مسکرارہا تھا۔

"کیسی دکھتی ہے وہ ؟" پوچھنے والی سیام تھی۔

"گلابی رنگ کا فٹ بال جیسا دکھتا تھا ۔۔"اس کی آنکھوں میں چمک تھی وہ بڑی خوشی سے بولا تھا۔

What ?"

فضا ایک دم قہقہوں سے گونج اٹھی۔

"تمہیں اس سے تشبیہ دینے کے لیے ایک فٹ بال ہی ملی؟ پھر ناراض ہوتے ہو کہ تمہاری باتوں پر ہنستے ہیں سب !" داؤد نے ہنسی پر قابو پاتے گلاب خان کی طرف دیکھا۔

"وہ تو ہم بچپن کا بات کررہا تھا ۔۔اب تو آسمان سے اترا افسرا ہوگا ہمارا چمیلی ۔۔" اس نے ان کی ہنسی کو خاطر میں نہ لاتے فخریہ انداز میں کہا۔

"افسرا؟"

"یقیناً اس نے اپسرا کہا ہے !" نہال نے مسکراتے ہوئے کہا۔فضا میں پھر دبی دبی ہنسی گونجی تھی۔

"اب تم لوگ جانو!یہ نیلا حویلی جانے ۔۔ہم جارہا ہے ۔۔ہم نے اپنا قسم پورا کیا ۔۔" حویلی کی چھت دکھائی دینے لگی تو وہ وہیں ٹھہر گیا۔ان سب نے نگاہیں اٹھا کر کچھ دور دکھائی دیتی مینار نما چھت کو دیکھا۔

"سیدھا سیدھا جاؤ!ابھی سے ڈر لگ رہا ہے تو ہمارا ساتھ الٹا الٹا واپس آجاؤ ۔۔" گلاب خان نے ساتھ ہی مشورہ دے ڈالا۔

"نہیں اب اتنا سیدھا سیدھا آئے ہیں تو سیدھا سیدھا ہی جائیں گے۔۔لیکن کسی کو الٹا الٹا واپس جانا ہے تو جاسکتا ہے ۔۔" نہال نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔

گلاب چند پل وہیں رکا رہا کہ اگر ان میں سے کسی کا ارادہ بدل جائے تو اسے ساتھ ہی لیے واپس جائے لیکن سب جانے کے لیے تیار تھے تو وہ کاندھے اچکاتا پلٹ گیا۔

"واپسی کا راستہ تو یاد ہے ناں نہال ؟" سیام نے تسلی کرنا چاہی۔

"ہاں ! یاد ہے ۔۔چلو چلتے ہیں ۔۔دوستوں ہم پہنچ چکے ہیں ۔۔یہ سامنے چھت ہے ۔۔اب آگے بڑھتے ہیں۔۔"

اندھیرا بڑھنے لگا تھا۔سامنے لگے درختوں کے جھنڈ میں وہ حویلی مزید پراسرار لگ رہی تھی۔احاطے کا بیرونی دروازہ ٹوٹا ہوا تھا۔موت کی سی خاموشی کا عالم تھا۔

"سیام تمہارا پیر درد تو نہیں کررہا تم کب سے چل رہی ہو۔" داؤد نے سیام کی طرف دیکھتے پوچھا۔

"نہیں ! درد نہیں کررہا وہ تو رات ہی ٹھیک ہوگیا تھا۔۔" سیام نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

"سب اپنی ٹارچ جلا لیں۔۔"داؤد نے کہا تو سب اپنی اپنی ٹارچ نکالنے لگے۔

"ویسے وہ راپنزل کی روح والی کھڑکی اِس طرف سے کونے والی تھی یا اُس طرف سے؟" نہال نے دونوں طرف ٹارچ کا رخ کرتے پوچھا۔

"یہ تو راپنزل بہن ہی جانتی ہوں گی ۔۔" روفائیل نے کہا۔

"مجھے تو یہ کہیں سے بھی آسیب زدہ نہیں لگ رہی ۔۔" عمیر نے کہا ہی تھا جب اس کے پیر سے ایک بلی ٹکرائی۔

"آہ ۔۔" اس نے ایک خوفناک چیخ ماری اور اچھلتا ہوا دوسری جانب ہوا۔اچھلنے کے باعث وہ دانیال سے ٹکرایا اور دانیال روفائیل سے۔اسی ہڑبڑی میں بلی بھی شور مچاتی ادھر ادھر اچھلتی یہاں سے نکلنے کی کوشش میں کبھی ماہ رنگ کے پیروں پر آتی تو کبھی دعا کے۔داؤد صورتحال سمجھتا سیام کو اپنی آڑ میں لیے پیچھے ہوا جبکہ باقی سب بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے تھے۔بلی بچتے بچاتے جیسے تیسے کرکے وہاں سے نکل کر ہوا کی رفتار سے بھاگی تو وہ سب بھی سنبھلنے لگے۔

"عمیر تم نے ہماری جان نکال دی ۔۔"ماہ رنگ نے غصیلے لہجے میں کہا۔

"پتا تو تھا تم لوگوں کو کہ بلی ہے پھر کیوں سب کے سب یوں اچھل رہے تھے بلی کو بھی ڈرا دیا ۔۔" عمیر نے تنک کر کہا۔

"اور تم دونوں!" ماہ رنگ نے شہادت کی انگلی باری باری ان دونوں پر اٹھائی۔

"ہم نے کیا کیا؟" داؤد اور سیام نے ماہ رنگ کی طرف دیکھتے حیرت سے کہا۔

"تم دونوں کو بھی ہمارے ساتھ اس دھینگا مشتی میں شریک ہونا چاہیے تھا ۔۔اس کا یہ مطلب ہے ۔۔ہم تو ڈوبے سنم تم کیوں نہ ڈوبے سنگ؟" نہال نے ہنستے ہوئے کہا۔

"لو ! تم نے شعر کی ٹانگ توڑ دی ۔۔"

"Whatever !"

نہال نے کاندھے اچکاتے کہا۔

"سیام کے پیر پر چوٹ ہے اس لیے میں نے اسے اس دھینگا مشتی سے دور کیا ۔۔ورنہ تو ہمیشہ ہی ساتھ ڈوبتے ہیں ۔۔" داؤد نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی۔

"خیر اب آگے چلنا ہے یا نہیں ؟" ماہ رنگ نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں پوچھا۔

"چلو ! پر آنکھیں کھلی رکھنا !"

                   **********

وہ حویلی کے اندرونی احاطے میں داخل ہوئے سب کی ٹارچ کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے سب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں تھیں ایک عجیب سی پراسراریت ہر سوں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی۔دھول مٹی سے اٹا حویلی کا وسیع صحن کچرے اور ٹوٹے فرنیچر سے بھرا ہوا تھا۔

"بہن راپنزل ؟" نہال نے آہستگی سے آواز دی۔

"کیا کررہے ہو ؟" سیام ہنسی نہ روک پائی۔

"دیکھ رہا ہوں کیا پتا یہیں کہیں موجود ہو ؟"

 

 

 

 

"ہاں وہ تو تمہارے ہی انتظار میں ہوگی ناں کہ تم آؤ اور اتنے پیار سے پکارو تو وہ تمہیں جواب دے۔۔" عمیر نے اسے چھیڑا۔وہ سب سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے۔جھینگروں کی آوازیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔

"راپنزل نام رکھ کر تم ہمارا ڈر کم کرنا تو چاہ رہے ہو ۔۔پرانے زمانے کی مائی جینا نکل آئی ناں تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔۔" روفائیل نے آس پاس دیکھتے ہوئے کہا۔

"یہ آسیبوں والی وائبز نہیں آرہیں یار !" دانیال بور ہونے لگا۔

"وہ بھی آجائیں گی ایسی کیا جلدی ہے۔۔" نہال کو اچانک ہی ترکیب سوجی۔اس نے اپنا فون نکالا اور یوٹیوب پر ایک آسیب زدہ ٹیون ڈھونڈنے لگا۔

"چلو آگے !" نہال نے مسکراہٹ دباتے کہا۔ وہ صحن سے آگے بڑھتے ایک بڑی لمبی راہداری میں آئے جو دائیں جانب سے کھلی تھی۔وہ سب آگے نکل گئے تو نہال نے اپنی ٹانگ سے گیٹ بند کردیا۔چرچراتی سی آواز آئی تھی۔

"ی۔۔یہ گیٹ کس نے بند کیا؟" ماہ رنگ کی منمناہٹ سنائی دی۔

"ہوا سے بند ہوا ہوگا ۔۔" داؤد نے کہا۔

"لیکن ہوا تو نہیں چل رہی ۔۔" سیام نے دوسری طرف نظر آتے  بوڑھے درختوں کی جانب دیکھا۔اس کے جسم میں عجیب سی سنسنی پیدا ہوئی تھی۔اس نے دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کردیا۔

"ہم جا کہاں رہے ہیں؟" روفائیل نے موت کے سے سناٹے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی  لیکن احساس بڑھتا جارہا تھا۔

"ڈروگے تو اور ڈر لگے گا ! نارمل رہو کچھ بھی نہیں ہے ۔۔" داؤد نے کہا۔

"میں ڈر نہیں رہا ۔۔" روفائیل نے بمشکل ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔

"دکھ رہا ہے ۔۔تمہاری تو گگھی بندھ گئی ہے۔۔" نہال ہنس دیا۔وہ واحد تھا جو بھوت پریت پر یقین نہ رکھتا تھا اور اس جگہ سے تو وہ بالکل بھی خوف نہیں کھا رہا تھا۔یہ جگہ سنسان اور خالی ضرور تھی لیکن جانے کیوں نہال کو کچھ اور یا پراسرار محسوس نہیں ہورہا تھا۔وہ اس راہداری میں مزید آگے آئے تو نہال نے اپنے فون میں وہ ٹیون چلادی۔غیر محسوس انداز میں دھیمی مگر بہت ہی عجیب قسم کی آواز سنائی دی نہال جو سب سے پیچھے چل رہا تھا ایک لمحہ بعد ہی وہ ٹیون بند کردی۔

"کسی کو کوئی آواز آئی ؟"کہنے والا عمیر تھا۔

"نہیں تو۔۔"نہال نے کہا۔

"پر مجھے تو آئی ۔۔" عمیر نے کہا۔

"مجھے بھی ہلکی سی ۔۔" سیام نے بھی اس کی تائید کی۔

"وہم ہے تم سب کا !" نہال نے انھیں پچکارا۔

"ہم اوپری منزل پر نہیں جائیں گے ؟" پوچھنے والا دانیال تھا۔

"نچلی منزل پر یہ حال ہے اوپر جاکر تو ان کی روحیں پرواز کر جائیں گی ۔۔" نہال نے ہنسی دباتے ہوئے کہا ۔

"تم  تو مجھے آسیب کی نسل سے لگ رہے ہو ۔۔"سیام نے اس کی نہ رکنے والی تبصرہ نگاری پر چوٹ کی۔

"نہیں ! میں ماہ رنگ کے خاندان کا نہیں ہوں۔۔"

"یہاں سے نکلنے دو ذرا ہمیں ! بتاتی ہوں تمہیں ۔۔" ماہ رنگ نے اسے دھمکایا۔

"کیا بتانا ہے ابھی بتادو ۔۔" نہال نے اسے چڑانے کی خاطر کہا۔

"شٹ اپ !"

نہال نے مسکراتے ہوئے اندھیرے میں سامنے دیکھنے کی کوشش کی اور پھر اسکرین کو اپنی پیٹھ کی طرف کرتے وہ ٹیون پھر چلادی۔قدم سست کردیے۔

ایک عجیب سی آواز فضا کو اپنے حصار میں لینے لگی۔

"وہ۔۔وہ کھڑکی ۔۔" نہال نے دوبارہ تیزی سے ٹیون بند کی اور ہکلاتے ہوئے کہا۔

"ک۔۔کیا ہوا؟"

"اور یہ آواز ۔۔"

"اس کھڑکی پر کوئی کھڑا ہے ۔۔" نہال نے اداکاری کرتے کہا۔

"اسے کہو بیٹھ جائے۔۔" اب کے داؤد نے کہا انداز ہلکا پھلکا تھا۔

"میں سیریس ہوں ۔۔"

"بالکل ! اور یہ فون پر کون سی ٹیون ڈھونڈی ہے جو بالکل اصلی لگ رہی ہے؟" داؤد نے اس کی چوری کا راز فاش کرتے کہا۔

"کیا مطلب ؟" نہال ایک دم گڑبڑایا۔

"ٹیون ؟" وہ سب ایک ساتھ بولے۔

"اتنا نہ چلاؤ! آسیب واقعی میں آجائیں گے۔۔"

"چھوڑو آسیبوں کو ۔۔تم یہ بتاؤ اس ٹیون کا کیا کہ رہا ہے ؟"

"داؤد جھوٹ کہہ رہا ہے میں نے کوئی ٹیون نہیں لگائی ۔۔"

"تم ہمیں بے وقوف بنارہے ہو؟"روفائیل اس پر چڑھ دوڑا۔

"ارے ارے ! میں تو بس ماحول بنا رہا تھا۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولا ۔

"کہیں سے لگ بھی نہیں رہا ہم بھوتوں کی حویلی میں آئے ہیں ۔۔" دعا نے بے چارگی سے کہا۔اس کے انداز میں خفگی تھی۔

" جہاں ان جیسے نمونے داخل ہو جائیں وہاں کے بھوت پریت ویسے ہی بھاگ جائیں گے ۔۔"سیام بھی منہ بناکر بولی

"اب ایسی بھی آفت نہیں مچائی ہم نے ۔۔"نہال نے کاندھے اچکاتے کہا۔

"زبان کسی آفت سے کم ہے؟ تمہاری چک چک بند ہوگی تو کسی بھوت کو موقع ملے گا ناں اپنی کاروائی کا۔۔" ماہ رنگ نے چڑھ کر کہا۔

"ان کی باتوں سے لگ رہا ہے انھیں واقعی بھوت ہی دیکھنا تھا ! بھوتوں کی کاروائی دیکھنے کے لیے ان تینوں کو یہیں چھوڑ کر ہم نکلتے ہیں یہاں سے ۔۔" عمیر نے ہنستے ہوئے کہا۔

"کتنا اچھا آئیڈیا ہے بھاگو!" نہال نے کہہ کر دوڑ لگانا چاہی لیکن ماہ رنگ اور دعا ان سے قبل ہی بھاگنے لگی۔جبکہ سیام بے چارگی سے داؤد کو دیکھنے لگی۔

"میں کیسے بھاگوں گی ۔۔"

"ہم اس راستے سے نہیں آئے تھے۔۔" داؤد نے بلند آواز میں کہا۔ان دونوں کو بھاگتے دیکھ سارے لڑکے ہنس پڑے۔وہ دونوں بھاگتے بھاگتے رکیں اور پھر اگلے ہی پل پلٹ کر واپس اسی طرف چلی آئیں۔

"اور تمہیں یہاں چھوڑ کر کیا میں ان کے ساتھ بھاگوں گا ؟" داؤد نے سیام کی طرف دیکھ کر کہا تو نہال  باآواز کھنکارا جس پر داؤد نے اچنبھے سے اس کی طرف دیکھا۔

"کیا تمہارے گلے میں کچھ پھنس گیا ہے؟" سیام نے چڑ کر کہا۔نہال داؤد کے جملے پر کھنکارا تھا یہ بات اسے بہت واضح طور پر محسوس ہوئی تھی۔

"ہاں !" نہال نے بے چارگی سے کہا۔

"ہم یہاں اپنا وقت ہی ضائع کررہے ہیں ۔۔اب ہمیں یہاں سے چلنا چاہیے۔۔" داؤد نے ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"اوپر نہیں جائیں گے؟" دانیال نے پوچھا۔

"کچھ ہوتا تو یہیں محسوس ہوجاتا!"عمیر بولا۔

"تو پھر چلتے ہیں۔"

"ہاں ! چلتے ہیں ۔۔"

وہ سب جانے کو پلٹے۔وہ سب اس دروازے کی طرف جارہے تھے جہاں سے وہ اس راہداری میں داخل ہوئے تھے لیکن وہ جوں ہی دروازہ پار کرکے صحن میں آئے صحن والا دروازہ بند ملا۔

"یہ کس نے بند کیا؟" عمیر نے الجھن آمیز لہجے میں کہا۔

"ہوا سے ہوا ہوگا! ابھی کھل جائے گا۔۔" روفائیل نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنا چاہا تو وہ دروازہ بند ملا۔

"یہ تو بند ہے ۔۔" اس نے آہستگی سے کہا۔

"ک۔کیا مطلب؟"

"ہم سب ساتھ تھے اور یہ پیچھے سے کیسے بند ہوسکتا ہے ؟"داؤد نے آگے بڑھ کر دروازے پر زور لگانا چاہا لیکن وہ واقعتاً پیچھے سے بند تھا۔

"یہ کیسے ہوا؟" نہال کی آواز حلق میں پھنستی محسوس ہوئی۔

"میں نے تو وہ دروازہ بند کیا تھا لیکن کنڈی وغیرہ نہیں لگائی تھی۔۔"

"تب تمہیں میں نے دیکھا تھا ۔۔لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔"داؤد کی آواز میں فکرمندی تھی۔ماحول پر عجیب سی وحشت طاری ہونے لگی۔ان سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

"ہم واپس اس راہداری کی طرف جاتے ہیں ۔۔" داؤد نے مشورہ دیا۔

"لیکن وہاں سے کہاں جائیں گے؟راہداری کے آگے تو کچھ نہیں تھا۔۔"

"وہاں کچھ دور مجھے دیوار ٹوٹی ہوئی لگی تھی۔۔"

وہ لوگ سرگوشی میں باتیں کررہے تھے تب ہی اوپری منزل پر کچھ گرنے کی آواز آئی۔یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے بہت بڑا پتھر فرش پر دے مارا ہو۔

"مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔" دعا کی روہانسی آواز سنائی دی

"ڈرو مت ! کچھ نہیں ہوگا ۔۔" عمیر نے اسے تسلی دی۔

"آیت الکرسی کا ورد شروع کرو سب !"داؤد نے کہا اور وہ دبے قدموں دوبارہ پلٹ کر راہداری والے حصے کی طرف جانے لگے۔ایک اور آواز آئی۔

"اوپر کوئی ہے ۔۔" نہال کی سنجیدہ آواز آئی۔

"اور وہ نہیں چاہتا کہ ہم یہاں رکیں۔۔" روفائیل نے کہا۔

"وہ کوئی انسان بھی ۔۔"

اسی پل دیوار پر کچھ ٹھوکنے کی آواز آنے لگی۔

ان سب نے اپنے قدم تیز کردیے۔وہ سب اب کی بار بری طرح ڈرے ہوئے لگ رہے تھے۔خوف ان کی تیز سانسوں سے ظاہر تھا۔دیوار کو ہتھوڑی سے ٹھوکا جارہا تھا۔وہ راہداری پر نکل آئے۔ان کا رخ سامنے کی جانب تھا۔یوں لگ رہا تھا اوپر کی راہداری سے کوئی ان کے ہمراہ چلتا ساتھ ساتھ دیوار کو ہتھوڑی سے ٹھوکتا ہوا چل رہا تھا۔ان لوگوں نے چلنے کی رفتار تیز کی اور یونہی اوپری منزل سے ہتھوڑی برسنے کی رفتار تیز ہوئی۔

"تم انسان ہو یا کوئی دوسری مخلوق ! ہم یہاں سے جارہے ہیں ۔۔ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچاؤ۔۔ہم تمہیں نقصان پہنچانے نہیں آئے۔۔" داؤد نے تیز آواز میں کہا تھا۔

"چپ رہو داؤد پلیز ! " ماہ رنگ کی لڑکھڑاتی آواز آئی۔

راہداری لمبی تھی۔سیام کے پیر میں تیز تیز چلنے کے باعث تکلیف ہورہی تھی لیکن اس پل ڈر تکلیف کے احساس پر بھاری تھا۔ہتھوڑی ہنوز اسی رفتار سے دیوار پر برس رہی تھی۔

وہ چلتے ہوئے عقبی دیوار کے پاس نکل آئے جو واقعتاً ٹوٹی ہوئی تھی۔

"یہاں سے نکل جاتے ہیں ۔۔" عمیر نے سراسیمگی کی حالت میں کہا وہ سب ایک ایک کرکے وہاں سے نکلتے گئے۔ہتھوڑی کا برسنا پیچھے حویلی میں رہ گیا تھا لیکن اس کا برسنا ہنوز جاری تھا۔سامنے نہر تھی راستہ بے حد دشوار گزار تھا۔

"کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے ۔۔" داؤد نے ان کو ہدایت کی تھی۔وہ سب خاموشی سے قدم آگے بڑھاتے رہے انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ راستہ کس طرف جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی آگے بڑھتے گئے۔تقریباً دس منٹ چلنے کے بعد وہ حویلی کی حد سے دور نکل آئے تھے۔ان سب کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں وہ سب وہیں پر تھک کر بیٹھ گئے۔کسی نے زمین پر بیٹھنے کو ترجیح دی تو کوئی کسی پتھر پر براجمان تھا۔

"وہ کوئی انسان تھا کیا ؟" روفائیل کے انداز میں خوف کے ساتھ ایک الجھن بھی تھی۔

"مجھے انسان نہیں لگ رہا تھا ۔۔"داؤد نے آہستگی سے کہا۔

"ہمیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔۔" ماہ رنگ نے کہا۔

"ٹھیک کہہ رہی ہے ماہ رنگ !" دعا نے کہتے ہوئے اپنا سر پکڑ لیا۔

"میرا سر بہت بھاری ہورہا ہے۔۔"

"درد ہورہا ہے ؟" دانیال نے فکرمندی سے کہا۔

"نہیں صرف بھاری ہے۔۔"

"میرے رونگھٹے ابھی تک کھڑے ہیں ۔۔" روفائیل نے کہا۔

"اب تم کیوں چپ ہو ؟" نہال کو خاموش دیکھ دانیال نے فکرمندی سے پوچھا۔

اس نے کوئی جواب نہ دیا فقط سامنے کی جانب دیکھتا رہا۔

"اسے کیا ہوا؟" سیام نے اچھنبے سے پوچھا۔

"کچھ نہیں! میرا جسم بہت درد کررہا ہے۔۔" نہال نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔

"تم ٹھیک ہو ؟" دانیال فکرمند ہوتا بھائی کے قریب آیا۔

"داؤد پلیز گھر فون کرکے بلوالو کسی کو ۔"نہال بالکل نڈھال سا لگ رہا تھا۔اس کے لیے بیٹھنا بھی مشکل ہونے لگا۔اس کا دل چاہا یہیں لیٹ کر گہری نیند سوجائے

"میں گلاب خان کو فون کر دیتا ہوں۔۔" داؤد نے آہستگی سے کہا۔وہ سب مکمل طور پر خاموش تھے۔

                      *********

نہال کو رات بھر بخار نے نڈھال کیے رکھا اس کا جسم تندور بنا ہوا تھا۔قریبی کلینک سے ڈاکٹر کو بلوایا گیا لیکن اس کا بخار کسی صورت کم نہ ہوا۔وہ سب ساری رات جاگے اس کے پاس رہے۔دادو بھی پڑھ کر اس پر پھونکتی رہیں لیکن اس نے آنکھیں نہ کھولیں بس ساری رات کراہتا رہا۔وہ سب اس کے لیے فکر مند تھے۔یہاں تک کے گلاب خان بھی رات بھر اسی کمرے میں رہا۔

"میں نہال کے پاس ہوں ۔۔ تم سب جاکر سوجاؤ ۔۔" دانیال نے ان سب کو کہالیکن کسی نے بھی اس کی بات پر کوئی ردعمل نہ دیا۔جیسے وہ وہاں سے اٹھ کر جانا ہی نہیں چاہتے تھے۔

۔دادو کچھ دیر قبل ہی فجر کی نماز کے لیے وہاں سے اٹھیں تھیں۔

"کیا تم نے اپنی ممی کو فون کیا ؟" داؤد نے بے سدھ پڑے نہال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"نہیں ! وہ پریشان ہو جائیں گی صرف بابا کو بتایا ہے ۔۔انھوں نے ممی کو بتانے سے منع کیاہے۔۔"

تب ہی کمرے میں سیام آئی۔ ہاتھ میں دودھ کا گلاس اور کچھ بسکٹس تھے۔

"اسے اٹھا کر کچھ کھلانا ہے ۔۔ایسے تو اور کمزوری ہو جائے گی ۔۔"

"میں کوشش کرتا ہوں ۔۔" دانیال نے کہا اور جھک کر اسے جگانے لگا۔

"نہال ! نہال ! اٹھو ۔۔آنکھیں کھولو۔۔"

نہال ذرا سا کسمسایا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ذرا سی ہی کھلی تھیں کہ آنسو بہے گئے۔شاید بخار کی تیزی کے باعث آنکھیں جلنے لگیں تھیں۔

"کچھ کھا لو ۔۔"

"نہیں۔۔" وہ بمشکل بول سکا اور آنکھیں پھر موند لیں۔

"اچھا دودھ ہی پی لو ۔۔" اس نے بے چارگی سے کہا۔

نہال نفی میں گردن ہلاتا کروٹ لینے لگا۔

"میں نماز پڑھ کر آتا ہوں ۔۔" داؤد آہستگی سے کہتا وہاں سے اٹھا۔سیام وہیں کھڑی تھی۔روفائیل ایک طرف اتنا سا منہ لے کر بیٹھا تھا۔دعا بھی قریب صوفے پر سن سی بیٹھی تھی۔ماہ رنگ تین بجے کے قریب سر درد کی شکایت کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔

عمیر پلنگ کے اس طرف بیٹھا نہال کی ٹانگیں دبا رہا تھا کیوں وہ ساری رات جسم درد کی شکایت کرتا رہا تھا۔تب سے ہی عمیر کبھی اس کی ٹانگیں دباتا تو کبھی کاندھے دبانے لگتا۔

"مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ سب ہوگا تو میں یہ نہ ہونے دیتا ۔۔" دانیال کا لہجہ بجھا ہوا تھا۔کسی نے کچھ نہ کہا فقط اسے دیکھتے رہے۔وہ سب بری طرح فکرمند تھے۔

"فکر مت کرو۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔" روفائیل نے اسے تسلی دی۔ماحول کی سوگواری اور تناؤ ناقابل بیان تھا۔نہال ایسا لڑکا تھا کہ بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی بولنا نہیں چھوڑتا تھا۔ہر وقت فعال رہتا،اس کے پاس ہر وقت کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔اگر یوں کہا جائے کہ نہال اس گروہ کے انجن کی حیثیت رکھتا تھا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

                     *******

یہ اس رات کے ایک ہفتے بعد کا منظر تھا۔وسیع لان بارش کے بعد خوبصورت اور تروتازہ ہوگیا تھا۔درخت اور پودوں کا سبزہ دیکھنے والی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا باعث بن رہا تھا۔پرندوں کی شوخیاں معمول سے بڑھ کر تھیں۔آسمان اب بھی سرمئی بادلوں کے گھیرے میں تھا لیکن بارش نہیں ہورہی تھی۔وہ سب لان میں جگہ جگہ نظر آرہے تھے ماہ رنگ نے فاؤنٹین کے قریب ڈیرہ ڈالا ہوا تھا اور دعا ایک طرف رکھی سنگی بینچ پر بیٹھی اپنی امی سے باتیں کررہی تھی۔نہال وسط میں رکھی میز پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔پہلے سے کمزور لگ رہا تھا۔آنکھیں بھی خشک اور مرجھائی ہوئیں تھیں لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

"کسی نے کہا تھا وہ اس ٹرپ کو زندگی کا یادگار ٹرپ بنانے والا ہے۔۔" روفائیل نے اسے چھیڑنے کی خاطر کہا۔

"اور یقیناً اس نے اپنی کہی بات سچ کر دکھائی ہے ہم اسے الزام نہیں دے سکتے۔۔"

"شکر ہے اللّٰہ کا اب بہتر ہے ۔۔ہم تو بہت پریشان تھا۔۔" گلاب خان بولا۔

"آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تمیز دار،تہذیب والا ہینڈسم لڑکا نہال تو ہو نہیں سکتا ؟ دراصل میں دانیال ہوں ۔۔ اور نہال صاحب یہ رہے۔۔کسی آسیب کا تھپڑ کھا کر ایک ہفتے ہم سب کو سولی پر چڑھائے خود گہری نیند سوتے رہے ۔۔ اس نے اپنی سولہ سالہ زندگی کی وہ ساری نیندیں پوری کرلی ہیں جو کبھی نہ کبھی رہ گئی تھیں۔۔ خود ہی دیکھ لیں۔۔سو سو کر کسی فرعون کے زمانے کی مدفون ممی جیسا ہوگیا ہے۔۔"

"تم مجھ سے مار کھاؤگے دانیال !" نہال اب کے چڑ گیا۔

"تو یہ وہ انسان ہے جو کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا اور اسی کی شے پر ہم اس آسیب زدہ حویلی میں گئے اس کا آدھا حصہ میں اسی ولاگ میں ڈالوں گا۔۔دیکھنا نہ بھولیے گا اور ہاں اس مسخ شدہ ممی کو دعاؤں میں یاد رکھیں ۔۔اس حویلی میں جاکر کافی دیر تک یہ صاحب بھوتوں کا مذاق اڑاتے رہے جس کا بدلہ انھوں نے ایک ہفتہ ایک سو چار بخار کی صورت میں لیا ! آپ بھی اگر نہال کی طرح ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تو پھر اپنا اس جیسا حشر کروانے کے لیے تیار رہیں ۔۔"

"داؤد اس سے کیمرہ لو ناں!" نہال نے داؤد کو اشارہ کرتے کہا۔

"لاؤ کیمرہ مجھے دے دو !" داؤد نے کہا۔

"اسے تنگ مت کرو اب ! وہ تم ہی نہیں تھے جو پچھلے ایک ہفتے سے چھپ چھپ کر رو رہا تھا ۔۔میرا بھائی کب ٹھیک ہوگا ۔۔"سیام نے اسے ڈپٹا۔

"کیا واقعی یہ میرے لیے رویا تھا ؟" نہال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں ! "

"بکواس نہ کرو ۔" دانیال نے تپ کر کہا۔

"ماہ رنگ تمہاری ٹک ٹاک ویڈیو بن گئی ہو تو پلیز  ٹرائی پوڈ ادھر لے آؤ۔۔"دانیال نے وہیں کھڑے کھڑے اسے پکارا۔

"صبر نہیں ہے ؟" ماہ رنگ چڑ گئی۔اتنی مشکل سے یہ شاٹ اچھا بن رہا تھا دانیال کی پکار نے بگاڑ دیا۔

"اور کتنا صبر ؟اب تو تمہارے فون کا کیمرہ بھی لاحول ولاقوۃ الاباللہ کررہا ہوگا ۔۔"دانیال نے ہنستے ہوئے ہانک لگائی۔ماہ رنگ کڑوا سا منہ بنایا۔

"تم اب بھی کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہو ؟تمہارے لیے میں نے اتنی زبردست ولاگنگ کی ۔۔اپنا قیمتی وقت دیا ۔۔۔اب بھی خوش نہیں ہو؟" دانیال نے نہال کی طرف دیکھتے کہا۔انداز میں خفگی تھی۔

"اسے ولاگنگ نہیں اپنی تعریف کرنا کہتے ہیں ۔۔"

"ایک جملہ اگر اپنے تعارف میں بول لیا تو کیا ہوا ۔۔"وہ مزے سے گردن ہلاتا بولا۔

"ایک جملہ ؟ آدھے سے زیادہ ولاگ تم نے اپنی تعریف میں بولا ہے ۔۔"

"تو کیا ہوا ؟ اپنی تعریف کرنا کوئی بری بات تو نہیں ؟"

"کرنج لگتا ہے ۔۔لوگ ٹرول کریں گے" نہال نے منہ بنایا۔

"کرنج آج کل ٹرینڈ پر ہے ۔۔اقر ٹرولنگ کی خیر ہے اسی بہانے تمہارا چینل مشہور ہو جائے گا۔۔"

"بڑی مہربانی! ٹرولنگ سے مشہور ہونا نہیں چاہتا میں ۔۔" نہال نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تو دانیال ہنس دیا۔

"ناشکرے۔۔" دانیال نے اسے گھورا اور وہاں سے اٹھ گیا۔

"اس نے تمہاری خوشی کے لیے اتنی محنت کی ! ایک شکریہ ہی کہہ دیتے ۔۔" سیام نے نہال کی طرف دیکھ کر خفگی سے کہا۔

"کیا اسے بھی شکریہ کہتا ؟" نہال لاپروائی سے بولا جس پر سیام گہری سانس بھرتی رہ گئی۔

                *********

اسی روز کی شام تھی گہری پڑتی دھند میں لپٹی سرد اور بالکل خاموش تھی۔کل ان سب کو یہاں سے کوچ کر جانا تھا۔سوچ کر تو وہ بہت کچھ آئے تھے لیکن نہال کی شدید حالت اور ناگہانی صورتحال میں سارے پلان دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔

وہ سب ہی باورچی خانے میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔نہال کی صحت یابی پر ایک چھوٹی سی پارٹی کا انعقاد کیا جارہا تھا۔کیک کی تیاری کا زمہ سیام،ماہ رنگ اور دعا کا تھا یہ الگ بات تھی کہ ماہ رنگ نے انڈے پھینٹںے اور کریم پھینٹے کے سوا کچھ اور نہ کیا تھا۔اسے اپنے تراشیدہ خوبصورت ناخنوں کی فکر ستائے رکھتی تھی۔تبھی وہ ایک طرف اپنا فون لیے بیٹھی تھی۔دانیال اور عمیر چکن روسٹ کررہے تھے داؤد اور روفائیل پر بیف برگر کی زمہ داری تھی۔

"دانیال ! عمیر ! " اسی پل نہال کے چیخنے کی آواز آئی وہ اسی طرف آرہا تھا۔سب اپنے کام چھوڑ کر باہر کو بھاگے۔جلدی جلدی میں سیام کے ہاتھ سے کچھ برتن چھوٹے تو پورا باورچی خانہ گونج اٹھا۔

"یا خدا ! اب کیا ہوگیا۔۔" ماہ رنگ نے کانوں پر ہاتھ رکھتے بیزاری سے کہا۔

"روفائیل ! داؤد ! سیام دعا ۔۔ جلدی ادھر آؤ ۔۔"

"آرہے ہیں ہوا کیا ہے ۔۔" وہ سب تقریباً بھاگتے ہوئے لاؤنج میں آئے۔وہ لیپ ٹاپ کی اسکرین ان کی طرف کرتا حد سے زیادہ خوش اور پرجوش لگ رہا تھا۔

"میری ویڈیو دس لاکھ لوگوں نے دیکھ لی ۔۔۔اور سبسکرائبرز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔۔"

"یا خدا! میں تو سمجھا موت کا فرشتہ ارادہ بدل کر واپس تمہیں لینے آگیا ہے۔۔"دانیال نے تنک کر کہا۔ماہ رنگ نے بمشکل ہنسی روکی مگر باقی سب ہنس دیے تھے۔نہال نے ان کو یوں ہنستے دیکھا تو بھڑک اٹھا۔

"دفع ہو جاؤ! پتا نہیں کیسے دوست ملے ہیں ۔۔ایک خوشی میں خوش نہیں ہوسکتے ۔۔" وہ تپے ہوئے لہجے میں کہتا لیپ ٹاپ دوبارہ میز پر رکھ کر بیٹھ گیا۔

"تو ایسے کون چلاتا ہے ۔۔ہم ڈر گئے تھے۔۔"

"میں نے کہا دفع ہوجاؤ سب !" نہال نے غصیلے لہجے میں ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"خوش تو ایسے ہورہے ہو جیسے ملین سبسکرائبر ہوگئے۔۔میری ویڈیوز پر تو ویسے ہی  دس ملین سے زیادہ ویوز آتے ہیں ۔۔" ماہ رنگ نے سرسری انداز میں کہا۔

"ہاں ! بھلا ٹک ٹاک کا یوٹیوب سے کیا مقابلہ ! ٹک ٹاک پر تو ایک ہر ایرا غیرا ملین ویوز لے رہا ہوتا ہے۔۔"

"تم نے مجھے ایرا غیرا کہا؟"

"تمہیں لگا میں نے تمہیں کہا؟ تم خود پر کیوں لے جارہی ہو ؟ تم کیا ایری غیری ہو؟"نہال کی حاضر جوابی کے آگے ماہ رنگ تلملا اٹھی۔

"تم سے بحث بیکار ہے ۔۔"وہ چڑ کر کہتی وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔نہال بھی کاندھے اچکا کر صوفے پر نیم دراز ہوا۔وہ سب دوبارہ باورچی خانے کی طرف مڑ گئے۔

                          ******

سیام اور دعا کیک بیک کرکے فریج میں ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ چکے تھے۔دعا کو کچھ تھکن محسوس ہوئی تو وہ آرام کی غرض سے باورچی خانے سے نکل گئی جب کہ سیام روفائیل اور داؤد کے پاس چلی آئی وہ دونوں اس کام میں مہارت تو نہیں رکھتے تھے لیکن اپنی پوری کوشش کررہے تھے۔روفائیل اب سبزیاں کاٹ رہا تھا۔جبکہ داؤد ساس بنانے میں مگن نظر آتا تھا۔

"تین دن بعد شام کو تمہاری فلائٹ ہے ناں ؟" سیام نے داؤد کی طرف دیکھتے پوچھا۔

"ہاں ! تم سب ائیرپورٹ تو آؤگے ناں ؟" داؤد نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔

"ضرور کیوں نہیں آئیں گے۔۔" روفائیل نے فوراً کہا تھا۔

"تم وہاں جاکر ہمیں بھولوگے تو نہیں ؟" سیام نے ایک کھیرا اٹھاتے وہیں کرسی پر بیٹھتے سوال کیا

داؤد ایک پل کو ٹھہرا اور ایک اداس نگاہ اس پر ڈالی۔

"کبھی بھی نہیں!" اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے نفی میں گردن ہلائی تھی۔

"وہاں تم نئے دوست بنا بھی لو تو ہمیں یاد ہی رکھنا!" سیام نے مسکراتے ہوئے ہدایت کی۔

"ویسے تم سب سے زیادہ کسے یاد کروگے ؟" روفائیل نے ٹرے میں کٹی ہوئی سبزیاں رکھتے پوچھا تو داؤد ہلکا سا ہنس دیا۔

"تمہیں کیا لگتا ہے ؟"داؤد نے اسی سے سوال کر ڈالا۔

"تمہاری دوستی سیام سے زیادہ رہی ہے ۔۔اور یہ تمہارے مزاج کی بھی ہے مجھے لگتا ہے تم اس بل بتوڑی کو زیادہ مس کروگے ۔۔"

"کیا کہا ؟" سیام کا پارہ بل بتوڑی لفظ پر ہائی ہونے لگا۔

"بل۔۔بتوڑی ۔۔"روفائیل نے ٹھہر ٹھہر کر یہ لفظ ادا کیے اور سیام اس کے پیچھے لپکی۔وہ باورچی خانے کے باہر کو دوڑا۔داؤد کی مسکراتی نگاہوں نے ان کا پیچھا کیا تھا۔

"بہت یاد آئیں گے یہ سارے پل !" وہ سر جھٹک کر ہنس دیا۔

"رکو تم !" سیام بپھری ہوئی اس کو پکڑنے کی کوشش کررہی تھی جو خود صوفے کے اوپر چڑھا یہاں سے وہاں کود رہا تھا۔

"میں کیوں رکوں ۔۔آکر پکڑ لو ۔۔"

"پتا ہے مجھے یہ لفظ زہر لگتاہے ۔۔"

"پتا ہے تبھی تو بول رہا ہوں ۔۔بل بتوڑی ۔۔"وہ زبان نکالتا اسے چڑھانے لگا۔نہال جو وہیں بیٹھا تھا فوراً کیمرہ نکال کر ان کی ریکارڈنگ شروع کردی۔

"بل بتوڑی ہوگی تمہاری ہونے والی بیوی !"

"وہ تو بعد کی بات ہے ابھی تو تم ہی ہو ۔۔" وہ اس کے چڑنے پر مزید لطف لے رہا تھا۔

"روفائیل ! جیسے تم اچھل رہے ہو نا صوفے پر اللّٰہ کرے گر جاؤ ہڈی ٹوٹے تمہاری ۔۔"

"بل بتوڑی ،ناساں چوڑی ادھی مٹھی ادھی کوڑی آئی ایم سوری آئی ایم سوری ۔۔" وہ وہی صوفے پر کھڑا ناچ کر اسے تنگ کرنے لگا۔

"الو الو ہیلو ! اسی چار سو بیس ! تسی چار سو بیس ۔۔اسی نو دو گیارہ ۔۔تسی نو دو گیارہ ۔۔" نہال بھی ساتھ ساتھ گنگنانے لگا۔

"بس کرو روفائیل اور تنگ مت کرو اسے۔۔" داؤد بھی وہیں چلا آیا۔سیام کی سرخ ناک اور غصیلی آنکھیں دیکھ اس سے مزید نہ رہا گیا تو بول پڑا۔

"سیام تم ایسے غصے میں لال چہرے کے ساتھ واقعی بل بتوڑی لگ رہی ہو ۔۔لیکن میں پھر بھی تھمب نیل پر تمہاری تصویر ایڈٹ کرکے اصلی بل بتوڑی کو لگاؤں گا ۔۔"

"اور اس کی پر زکوٹا جن کی لگا دینا۔۔بھاڑ میں جاؤ ۔۔"وہ تپ کر کہتی پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔

پیچھے وہ دونوں بری طرح ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔

                              *******

رات کے پہر وہ سارے لان میں جمع تھے۔لکڑی کی میز کے گرد اندر سے مزید کرسیاں لا کر لگائی گئی تھیں۔قریبی درختوں پر رنگ برنگی بتیوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔ماحول خاصا خوشگوار تھا۔گلاب خان بھی وہیں موجود ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن تھا۔وہ گزرے چند دنوں میں آپس میں تکلف کی حدیں پار کرچکے تھے۔اب سن میں گاڑھی چھنتی تھی۔اختلاف بھی ہوتا تو ہنسی خوشی گزار دیتے تھے۔

"گلاب خان سنا ہے تم بھی داؤد کے ساتھ لندن جارہے ہو ۔۔"

"ہاں ! ہم بھی جارہا ہے ۔" وہ خوشی سے چہک اٹھا۔

"پھر تمہاری چمیلی کا کیا ہوگا؟ کسی مدھو مکھی نے تمہاری غیر موجودگی میں حملہ کردیا ۔۔"

"کیا بات کرتا ہے ۔۔" وہ فوراً ہی بدک گیا۔

"ہمارا چمیلی ہم کو کبھی دھوکا نہیں دے سکتی۔۔"

"لیکن اگر تمہیں ہی وہاں جاکر کوئی اور گوری پسند آگئی ۔۔"

"ہم نہیں دیکھتا کسی گورا۔۔ کالا۔۔نیلا۔۔ پیلا ۔۔ہمارا چمیلی خود بہت  خوبصورت ہے۔۔"

"اتنی ہی خوبصورت ہے تو اسے گلابی فٹ بال کیوں بولا تھا؟" نہال نے اسے چھیڑنے کی خاطر کہا۔

"او تو ہم پیار سے اس کو بولتا۔۔"

"کوئی پیارا نام لو گلاب خان پیار سے ۔۔بھلا یہ فٹ بال کوئی نام ہے؟" ماہ رنگ نے اسے لتاڑا۔

"پنکی کیوں نہیں کہتے ؟" دانیال نے مشورہ دیا۔

"یا گلاب خان کی گلابو۔۔"

"وہ چمیلی ہے بدھو! گلابو سوٹ نہیں کرے گا۔۔" روفائیل نے عمیر کے مشورے پر لات مارتے کہا۔گلاب خان الجھا سا کبھی کسی کو تو کبھی کسی کو دیکھ رہا تھا۔

"ویسے کیا یہ نام اس کے والدین نے ایسے ہی رکھا تھا چمیلی؟" سیام کے ذہن پر نیا سوال کوندا۔

"ہاں ! جب ہمارا ہونے والا ساس امید سے تھا تو چمیلی کا بو پسند کرتا تھا اس لیے ہمارا سسر نے اس کا نام چمیلی رکھا !"

"اور اگر لڑکا ہوجاتا ؟ تو کیا تب  اس بے چارے کا نام بھی چمیلی رکھتے؟" دعا نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔چہرے پر الجھن صاف ظاہر تھی۔عمیر بے اختیار ہنس دیا۔جس پر دعا سبکی محسوس کرتی خفا ہوئی۔

"کیوں ہنس رہے ہو ؟"

"تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے جیسے ہم مسئلہ چمیلی نہیں مسئلہ کشمیر پر گفتگو کررہے ۔۔"

اس کے جواب پر ناک چڑھا کر رہ گئی۔عمیر نے خود کو کوسا۔اسی وقت ہی ہنسی کو بے قابو ہونا تھا۔لو بنا لیا ناں اس نے منہ! لیکن خیر ہے وہ منہ بناتو لیتی تھی لیکن اگلے پانچ منٹ میں اسے خود بھی یہ بات یاد نہ رہتی کہ وہ کسی بات سے  غصہ تھی یا کسی سے ناراض ہوئی تھی۔

"یار تم لوگ باتوں میں لگ جاتے ہو اور پیٹ بددعائیں دے رہا ہوتا ہے؟کھانا بھی لگا ہی دو ۔۔" عمیر کو اچانک ہی بھوک یاد آئی۔

"لگا دیتے ہیں صبر نہیں ہے؟ ویسے ہی کھانے کے بعد سب کو پھر نیند آنے لگتی ہے۔۔" سیام اٹھتے ہوئے بولی۔وہ اس گروپ میں ایک زمہ دار سگھڑ ناظم کی حیثیت بھی رکھتی تھی۔کسی قسم کی تقریب ہو یا کوئی بھی موقع ہو ایسی چیزوں کو وہی ٹھیک سے سنبھال پاتی تھی۔دعا بھی اس کا ساتھ دینے کو آگے آئی۔

"تم یہ ساسز نکال لو ۔۔"

"کیک لے آؤں ؟" گلاب خان کو کیک کی خوبصورتی اور اس کے ذائقے نے شام ہی سے بے صبرا کیا ہوا تھا۔

"جب تک کھانا کھائیں گے وہ پگھل جائے گا گلاب خان ! کھانے کے بعد لے آنا!"

"وہ جو اوپر گلاب بنایا ہے وہ حصہ ہم کھائے گا ۔۔" اس نے پہلے ہی خبردار کردیا۔

"کھا لینا۔۔تم ہی کھانا ! ویسے بھی تمہارا زیادہ حق ہے ایک تو تم خود بھی گلاب خان ہو ۔دوسرا اتنی دور بازار جاکر ضرورت کی اشیاء لاتے ہو ۔۔تم نہ ہوتے تو ہم کرتے ہی کیا !"

گلاب خان کا سینہ سیام کی بات پر مزید چوڑا ہوا۔

"بس بس !سیام اتنا نہ چوڑا کرو اسے یہ پھیل پھیل کر اپنا سینہ نہ پھاڑ دے۔۔" نہال ہنستے ہوئے بولا۔

"تم بھی ناں ۔۔ کیا بات کرتا ہے۔۔" گلاب خان اس کی بات پر بری طرح جھینپ گیا۔

                       *********

آج  یہاں ان کا آخری دن تھا۔وہ سب رات کو دیر سے سوئے تھے لیکن پھر بھی صبح سب جلدی اٹھ گئے تھے۔ناشتے کی میز پر تروتازہ چہرے لیے بل دار پراٹھے اور انڈوں سے لطف اندوز ہوتے سب خوش نظر آرہے تھے۔بقول ان کے یہ ٹرپ بہت شاندار نہ ہوکر بھی اپنے ساتھ بہت سی یادیں جوڑ گیا تھا جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا باعث بن سکتا تھا۔لیکن ایک چہرہ ایسا تھا جس کی مسکراہٹ میں کئی راز افشاں تھے۔اس کی مسکراہٹ ان کے یکساں مستقبل کے ارادوں پر پھیکی پڑتی تھی جسے وہ فوراً چھپا لیتا تھا۔وہ جانتا تھا مستقبل قریب کے کسی لمحے،کسی تقریب یا کسی مرحلے پر وہ اپنے ان دوستوں کے ہمراہ نہ ہوگا۔یہ دوست جو زندگی کے رنگوں سے بھرپور ہیں جن کی سنگت میں وہ ہر پریشانی ہر الجھن سے بے نیاز ہوجاتا تھا پھر وہ چہرہ جس کی کشش کے دائرے میں وہ قید تھا۔اس کا معصوم دل اس چہرے کے نقوش کی روشنی میں چمک اٹھتا تھا۔وہ اسے براہ راست دیکھنے کی سہولت کھو دے گا۔

"داؤد ! کن سوچوں میں گم ہو تمہارا پراٹھا ویسا کا ویسا رکھا ہے۔"

"شاید یہ آج ہی لندن کی سر زمین پر پہنچ گیا ہے ۔۔ بیٹے ابھی تم پاک سر زمین پر ہی ہو۔۔" دانیال نے اس کے کاندھے پر دھپ لگاتے کہا۔وہ سر جھٹک کر ہنس دیا۔

"تمہیں تو ویسے بھی اپنے باپ دادا کا کاروبار سنبھالنا ہے کوئی ملازمت تو کرنی نہیں ہے پھر ضرورت ہی کیا ہے باہر کی تعلیم کی!" نہال کی بات پر داؤد نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔یہ سوال تو اس کے ذہن میں بھی تھا۔

"گھونچو ! باہر کی تعلیم کی اہمیت بہت ہے ۔۔چاہے ملازمت کرنی ہو یا کاروبار!"روفائیل نے کہا۔

"میں ہمارے کام کو باہر پھیلانا چاہتا ہوں اس کے لیے تم ایک بہترین انتخاب ہو ۔۔وہاں کے معیار کے مطابق پڑھ کر وہاں کے ماحول کو جان کر تم وہاں کام کو بہتر انداز میں سمجھ اور سنبھال پاؤگے۔۔" دادا کی بات یاد آئی۔

"یہ بورنگ باتیں چھوڑو ! ناشتہ ہوچکا تو وادی کی سیر پر نکلتے ہیں۔۔بارش کا موسم ہورہا ہے ۔۔" سیام نے داؤد کے بجھتے چہرے کو دیکھتے ان کا دھیان اس کی طرف سے ہٹاتے ہوئے کہا وہ سب فوراً ہی اٹھنے کی تیاری کرنے لگے۔اس پل داؤد نے سیام کا چہرہ دیکھا اور مسکرایا۔سیام بھی مسکراتی ہوئی میز سے اٹھی تھی۔

                          ********

باہر دھوپ نہیں نکلی تھی۔آسمان کو سیاہی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ہر طرف کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔باہر سڑکیں،کچی سڑکیں پہاڑیاں سبزہ سب کچھ بھیگا ہوا تھا۔خنکی سے لبریز یہ موسم انتہا کی کشش لیے ہوئے تھا۔وہ سب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں پیدل ہی باہر نکل آئے تھے۔کسی کے پاس چھتری تھی تو کوئی بارش میں بھیگنے کا منتظر تھا۔دفعتاً گلہری اپنا بھیگا جسم لیے ان کے سامنے سے اچھلتی کودتی پانی چھڑکاتی گزری۔

"What a Beautiful shot !"

نہال اس وقت اپنا کیمرہ آن ہونے کی خوشی سے چہک اٹھا۔

"مجھے بھی دکھاؤ!" سیام سمیت باقی سب بھی اس کے گرد جمع ہوئے۔

"زبردست! یہ تو کسی بہت اعلیٰ پائے کے فوٹوگرافر کا کام لگ رہا ہے۔۔"

اس نے واقعتاً اس منظر کو بہت خوبصورتی سے اپنے کیمرے میں قید کیا تھا۔وہ کچھ دیر مزید چلے تو صنوبر کے جنگلات کا سلسلہ آن پہنچا۔ریتیلی زمین پر مختلف قسم کے پودے بھی اگے ہوئے تھے۔درخت اونچے اونچے قد لیے شان سے کھڑے تھے۔مزید اندر جانے پر درختوں کا سلسلہ مزید گھنا ہوتا چلا جارہا تھا۔وہ سب سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے۔

"مجھے ایک بہت زبردست آئیڈیا آیا ہے۔۔"

وہ سب جو احتیاط سے قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے رک کر اسے دیکھنے لگے۔

"سب کسی نہ کسی درخت پر ایک دوسرے کے لیے یا پھر اپنے لیے ہی کوئی نشانی درج کرلے۔۔"

"مطلب ؟" ماہ رنگ نا سمجھی سے پوچھنے لگی

"میں سمجھ گیا ۔"دانیال فوراً پرجوش سا بولا۔

"یہ نشانی کچھ بھی ہوسکتی ہے۔۔ کوئی جملہ ! کوئی خواہش ۔۔ کوئی لفظ کوئی نشان یا کوئی نام ! زندگی میں اگر کبھی نہ کبھی ہم ساتھ یا تنہا بھی یہاں دوبارہ آئے تو ان نشانیوں کو ڈھونڈیں گے ۔۔"

"پھر کیا کریں گے ,اس سے کیا ہوگا ؟" دعا نے معصومیت سے سوال کیا۔

اس کے سوال پر نہال نے اسے تنک کر دیکھا۔

"بدھو ! ہر چیز کی کوئی وجہ ہو ضروری نہیں ۔۔کچھ چیزیں ہم یادیں وابستہ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔۔"

"تم بدھو بولے بغیر بھی تو سمجھا سکتے تھے ۔۔" وہ ناک چڑھا کر کہتی آگے بڑھنے لگی اس کے انداز پر دانیال بے اختیار ہنسا تو وہ پلٹ کر اسے گھورنے لگی۔

"سوری ! " اس نے فوراً ہنسی پر قابو پاتے زبان دانتوں تلے دبائی اس کی آنکھوں میں چمکتی شوخی نہال سے چھپی نہ رہ سکی۔نہال نے اسے کہنی مار کر آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔

" کوئی کسی کو بتائے گا نہیں کہ وہ کس درخت پر کیا نشان چھوڑ کر آیا ہے ۔۔ڈن ؟"

"ڈن!" وہ سب یک زباں ہوکر بولے اور الگ الگ سمتوں میں آگے بڑھنے لگے۔داؤد چند قدم چلتے ہی ایک درخت کے آگے رکا۔اسے رکا دیکھ روفائیل سمجھ گیا کہ وہ کچھ لکھنے لگا ہے تو اس نے اپنے قدم آگے بڑھا لیے۔

داؤد نے روفائیل کو جاتے دیکھا اس کے پیچھے باقی سب بھی اگے بڑھتے گئے۔داؤد نے مخالف سمت میں مزید گھنے درختوں کا رخ کیا اور بہت دیر جائزہ لینے کے بعد ایک درخت کا انتخاب کیا جو قدرے چھپا ہوا تھا اس نے  جیب میں ہاتھ ڈالتے ایک چابی نکالی  اور اسے درخت کی چھال پر رگڑنے لگا۔وہ بہت نفاست سے کچھ تحریر کررہا تھا۔اس نے کئی منٹ لگا کر ایک جملہ درخت پر کندہ کردیا تھا۔

Allah,Keep her soul happy forever!"

24_8_2024

                         ***********

کراچی کی شامیں مئی کے آغاز کا عندیہ دیتی دکھائی دے رہی تھیں۔موسم میں گرمی کا زور دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا۔خان منزل کا لاونج کسی اجڑے چمن کا سا منظر پیش کررہا تھا۔پس منظر میں ردابہ خاتون روفائیل کے عقب میں کھڑیں اس پر چیخ رہی تھیں۔

"یہ تم نے تین سوٹ کیس جس طرح پھیلائے ہیں ناں روفی ! میں نے ایک ایک چیز تم سے اٹھوانی ہے۔۔"وہ تپی ہوئی تھیں۔

"یہ امشل آپی کی شال ! اور یہ آپکی!" اس نے ان کی بات کو نظر انداز کرتے شال کے شاپر انھیں پکڑائے۔

"کیا ضرورت تھی شال لینے کی جب سیام پہلے ہی ہم سب کے لیے شال لے چکی تھی ۔"

"کیا؟ سیام بھی شال لے کر آئی ہے ؟میں نے اسے کہا تھا جوتے لے لے شالیں میں نے لینی تھیں۔۔" وہ فوراً تپ کر بولا۔

"چلو کوئی نہیں! وہ تو شکر ہے کہ ڈیزائین مختلف ہیں ۔۔" وہ شالیں کھولتے ہوئے کہنے لگیں۔

"کپڑا بھی اچھا لگ رہا ہے ۔۔"وہ تبصرہ کرتیں وہیں بیٹھ گئیں۔

"اوہ ! یہ لاونج میں سوٹ کیس کی ساتھ کشتی کیوں لڑی ہوئی ہے ؟کیا تم نے سب کے تحفے الگ الگ سوٹ کیس میں رکھ لیے تھے۔۔"سیام نے بکھرے لاونج کی حالت دیکھتے تاسف سے کہا

"تمہاری طرح سمجھدار تھوڑی ہے ۔۔یہی کیا ہے اس لاڈلے نے اب سمیٹے گا سارا سامان !"

"ممی !تحفوں کے لیے شکریہ تو دور آپ تو الٹا میری بے عزتی ہی کررہی ہیں۔۔نہ ہی آتا تو اچھا تھا وہیں چائے کا ہوٹل کھول لیتا ۔۔ویسے بھی کیا ہی خوبصورت موسم رہتا ہے وہاں کا۔۔" روفائیل وہیں صوفے سے ٹیک لگاتے خفگی سے کہنے لگا۔

"لو تو اب تمہیں شکریہ بھی بولیں۔۔تم تو جیسے ساری عمر ہماری خدمتوں اور لاڈ پیار پر شکریہ ممی کی گردان کرتے رہے ہو ۔۔" وہ بڑبڑائیں تو سیام کی ہنسی چھوٹ گئی جس پر روفائیل نے اسے نگاہوں سے ہی تنبیہہ کرتے باز رہنے کا اشارہ کیا۔

"موسم تو واقعی بہت خوبصورت ہے وہاں کا ! اور تم آرام کیوں کررہے ہو جلدی سمیٹو سب ہمیں داؤد کے لیے تحفہ لینے جانا ہے شام کو پارٹی ہے بھول گئے۔"وہ فوراً بات بدل کر اصل موضوع پر آئی

"کیسی پارٹی بھئی؟" اسی پل راحم صاحب وہاں آئے۔

"یہ لاونج کی کیا حالت بنارکھی ہے۔۔"

"آپ کے لاڈلے کا کام ہے اور کیا ۔۔"

"داؤد کی آج رات لندن کی فلائٹ ہے ناں تو ہم نے اس کے لیے شام ایک پارٹی رکھی ہے ۔۔"

"ہائے بیچارا بچہ ابھی عمر ہی کیا ہے اس کی۔۔کیسے ماں کا دل چاہا ہوگا اسے پردیس میں اتنی دور اکیلے بھیجنے کا۔۔"

"ایسی دوریاں اور پردیس کاٹنے والے لوگ ہی تو کندن بنتے ہیں بیگم !"راحم صاحب وہیں بیٹھتے ہوئے بولے۔

"ایک ہمارا لاڈلہ ہے جو پچاس فیصد سے اوپر کے نمبر تو خود پر حرام ہی سمجھ کر بیٹھا ہے مجال ہے جو اس کی گنتی پچاس سے کبھی اوپر گئی ہو ۔۔"

روفائیل اپنی بے موسم تعریف پر سیام کو اشارہ کرتا کھسیائے انداز میں وہاں سے اٹھا۔

"اچھا ممی ! میں جارہا ہوں ۔۔بابا پیسے دے دیں تحفہ بھی لینا ہے اور جیب خرچ بھی ختم ۔۔"

"زیادہ دور نہ نکل جانا قریبی مارکیٹ تک ہی جانا ۔۔" انھوں نے والٹ نکالتے پانچ پانچ ہزار کے پانچ چھ نوٹ اس کی طرف بڑھائے۔

"سیام بیٹے یہ لو تم بھی رکھ لو۔۔"پھر اتنے ہی نوٹ سیام کی طرف بڑھائے۔

"میرے پاس تو ہیں بڑے بابا ! ممی سے لے کر آئی ہوں۔۔"سیام نے جھینپ کر کہا۔

"لائیں بابا مجھے دے دیں ۔۔اس کے پاس تو ہیں۔ " روفائیل دانت نکالتا اس کے بھی خود لینے کے چکر میں آگے بڑھا۔

"ہاں ہاں سب اسے دے دو ۔۔" ردابہ خاتون اس کی حرکت پر ہنس پڑیں۔

"نہیں نہیں ۔۔سیام رکھو شاباش !انکار نہیں کرتے ایسے ۔۔ " انھوں نے روفائیل کو گھورتے سیام کو اشارتاً پاس بلایا۔اس نے جھجھکتے ہوئے پیسے رکھ لیے جس پر روفائیل ناک چڑھاتا باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

"ممی یہ سامان میں واپس آکر سمیٹوں گا ابھی دیر ہورہی ہے ۔۔" ساتھ ہی بلند آواز میں اطلاع دی جس پر انھوں نے افسوس سے سرہلایا۔

"جیسے کہ میں تمہیں نہیں جانتی ۔۔" وہ خود ہی اٹھ کر پھیلا ہوا سامان سمیٹنے لگیں۔

                           »»»»»»»»»»»

رات کا آخری پہر تھا۔کراچی ائیرپورٹ کے باہر وہ سب سیاہ گاڑی کے گرد جمع گھٹا لگائے کھڑے تھے۔داؤد وسط میں کھڑا تھا۔پیچھے والی گاڑی میں اس کے والدین اور دادا دادی تھے۔

"تم سب کا بہت شکریہ ! تم لوگ آئے ۔۔"

"تو تمہیں کیا لگا ؟ہم خالی خولی تمہیں کالونی سے ہی تڑخادیں گے؟"

"نہیں ایسا تو نہیں لگتا تھا ۔۔مجھے معلوم تھا تم لوگ ائیرپورٹ ضرور آؤگے۔۔"

"ہاں ہمارا بس چلے تو جہاز کے پنکھوں پر لٹک کر لندن تک آجائیں ۔۔" دانیال بے چارگی سے بولا تو سب کے سب ہنس دیے۔ابھی وہ باتوں ہی میں مگن تھے جب اچانک کئی سے کسی بچے کی آواز آئی۔

"مما ڈورے مون !"

ان سب نے پلٹ کر اس بچے کی طرف دیکھا جو ماں کا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتا ان کی طرف بڑھنا چاہ رہا تھا۔

"ڈورے مون ماما!" وہ بری طرح مچل رہا تھا

سیام نے الجھ کر اپنے نائلون کے ڈورے مون کارٹون کی شکل کے چپلوں کو دیکھا جو اس کے پسندیدہ تھے۔

اسے ایسی ہی چیزوں کا شوق تھا۔ گلابی رنگ کی ہر پیاری چیز چاہے وہ بچوں کے لیے ہو اس کے دل میں اتر جاتی تھی۔کی چینز،ڈائریز پیارے پیارے ڈیکوریشن پیسز کھلونے ایسی چیزیں وہ شوق سے جمع کرتی تھی۔

"مجھے یہ چاہیئے ۔۔"

"بیٹا وہ چپل ہیں ۔۔" اس کی ماں پریشان سی کبھی ان سب کو دیکھتی تو کبھی بچے کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔

"پہلا بچہ دیکھ رہا ہوں جو خود اپنے منہ سے چپل مانگ رہا ہے ہم تو بن مانگے فلائینگ چپلیں کھاتے ہیں۔۔" نہال بڑبڑایا۔

سیام کبھی اپنے چپل دیکھتی تو کبھی اس بچے کا بلکنا۔

" اگر میں یہ اسے دے دوں تو کیا ننگے پیر واپس جاؤں گی؟"

"تمہیں کہا کس نے تھا کہ ائیرپورٹ پر ایسے نائلون پہن کر آؤ ۔۔وہ بھی ڈورے مون والے۔۔" ماہ رنگ طنز کرنے سے باز نہ آئی۔

"مما! مجھے ڈورے مون چاہیے ۔۔" وہ اسی اثنا میں مان کا ہاتھ چھڑاتا اس کے قریب چلا آیا۔

"یہ تو چپل ہیں بیٹا!" سیام کھسیانی ہنسی ہنستے بولی

"احتشام ادھر آؤ ۔۔اب دو تھپڑ لگیں گے تمہیں ۔۔"ماں بھی اس افتاد سے بیزار ہوتی اس پر جھپٹنے کو تھی

"اچھا اچھا روؤ مت ! لے لو ۔۔آنٹی رہنے دیں ماریں نہیں چھوٹا بچہ ہے۔۔"سیام نے اس کی ماں کا بپھرا انداز دیکھا تو چپل اتار لیے۔

"پاگل ہو !چپل پر کتنے جراثیم ہوں گے۔۔"

"تو یہ اور کرے بھی کیا! یہ چھوٹا جراثیم تو ٹلنے والی بلا نہیں لگ رہی ۔۔چپل دو جان چھڑاؤ۔۔" نہال نے ماہ رنگ کی بات پر تیزی سے کہا۔وہ اتنے میں ہی بیزار ہوا تھا۔روتے ہوئے بچے اسے سخت ناپسند تھے۔

اس بچے نے چپل ہاتھ میں لینے کے بجائے اپنے جوتے اتارے اور وہی چپل پہن لیے۔ چہکتا ہوا ماں کو دکھاتا وہ پرجوش تھا۔

"معذرت خواہ ہوں ! لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی۔۔یہ تو ایسے ہی ہر چیز کو دیکھ کر ضد کرنے لگتا ہے۔۔"

"کوئی بات نہیں ۔۔بچے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔" وہ مروت کے ماری نرمی سے کہہ رہی تھی۔وہ عورت اگلے چند منٹ مزید دو تین رسمی جملے کہتی وہاں سے چلی گئی تھی۔

"اب کیا تم ننگے پاؤں جاؤگی؟" دعا نے اس کے پیروں کو دیکھتے کہا۔اسی پل داؤد نے اس کے نازک صاف ستھرے کٹے ہوئے ناخنوں والے پیروں کو دیکھا۔اس کی انگلیوں کی پوریں ہمیشہ گلابی رہتی تھی۔ہاتھ بھی ایسے ہی تھے داؤد کے لیے یہ منظر ہمیشہ سے دلکش رہا تھا۔اس نے نظریں پھیرتے گاڑی کے اندر جھانکا اور کچھ ڈھونڈنے لگا۔

"کیا کر رہے ہو ؟" سیام کچھ کچھ سمجھ رہی تھی۔کیوں کہ وہ اپنے بیگ کو کھول رہا تھا۔اگلے ہی لمحے وہ پلٹا تو اس کے ہاتھ میں جوتوں کا جوڑا تھا۔ایسی ہی ملتی جلتی نائلون کی نرم چپل۔

"یہ تم پہن لو ۔۔" داؤد نے جھجھکتے ہوئے کہا۔

"لیکن یہ میرے پیر میں کیسے آئیں گے ۔۔تمہارا سائز بڑا ہے ۔۔"

"نہیں ٹھیک ہوں گے۔۔۔پہن لو" اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔وہ بتا نہیں سکا کہ وہ اسی کا سائز ہے اور چپل اس نے بہت عرصہ قبل خریدی تھی لیکن کبھی دے نہ سکا اور یہ اتفاق اسے انھیں نکالنے پر مجبور کرگیا۔وہ ہلکے نیلے رنگ کے چپل تھے جن کے کناروں پر بھالوں بنا تھا۔یہ اسی طرح کے تھے جس طرح کے سیام پسند کرتی تھی۔اس نے جھک کر وہ چپل زمین پر رکھے سیام نے اپنا پاؤں اس میں ڈالا۔

"یہ تو میرے ناپ کا ہے۔۔" وہ الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔

"تمہارے ناپ کا؟ اوہ ! میں نے اپنے والے شائد گھر چھوڑ دیے اور ماما کے ساتھ لے آیا ۔ان کی اور میری ایک جیسی تھی ۔۔" اس نے کوئی اور بہانہ نہ بن سکا تھا۔نہال بہت غور سے اس کی ہڑبڑی اور جھجھک کو دیکھ رہا تھا۔

"ویسے یہ بہت پیارے ہیں پانڈا والے ۔۔"سیام چپل پہنے خوش نظر آرہی تھی۔اسے اپنے مطلب کی چیز ملنے پر ایسے ہی خوشی ہوتی تھی۔داؤد اس کے چپل میں قید پیروں کو دیکھتا مطمئن انداز میں مسکرایا۔

"ہاں !" وہ فقط اتنا ہی بولا

"داؤد بیٹے اب ہمیں اندر جانا چاہیے بورڈنگ کا وقت قریب آرہا ہے۔۔"

دادا کی آواز پر اس کا دل ایک پل کو بیٹھا تھا وہ بمشکل مسکرایا اور ان سب سے ملنے لگا۔کسی ایمرجنسی کی وجہ سے ساتھ آئے لوگوں کا اندر جانا منع تھا۔گلاب خان کے کچھ کاغذات نامکمل تھے اس لیے اس کی روانگی کچھ دن بعد تھی تب تک کے لیے داؤد دادا کے پرانے دوست کے ہاں رکنے والا تھا۔ان سب سے ملتے ہوئے وہ جیسے جذباتی ہورہا تھا وہ سب بھی اپنے آنسو نہ روک پارہے تھے۔سارے لڑکے آپس میں ایک دوسرے کو گلے لگاتے مستقبل کے ارادے بیان کررہے تھے۔دوستی تاحیات قائم رکھنے کے وعدے ایک دوسرے کو بھول نہ جانے کے دعوے۔دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سائے میں اسے رخصت کردیا گیا تھا۔وہ سب اس کے جاتے بے حد اداس اور افسردہ تھے۔

واپسی کا سفر ایک دم خاموش تھا۔وہ اٹھ سے سات ہوچکے تھے اور یہ کمی ابھی سے محسوس ہونے لگی تھی۔

٭٭٭

فاطمہ نیازی  کے سلسلہ وار ناول کی اگلی قسط انشاء اللہ جلد

مصنفہ کی دیگر تحریریں پڑھنے کے لیئے ناولز حب  ویب سائٹ وزٹ کریں


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?