Share:
Notifications
Clear all

Dasht e Junon k Sodai Episode 4

1 Posts
1 Users
0 Reactions
204 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  
NOVELS HUB SPECIAL NOVEL
 
EPISODE 4

چار سال بعد!

شہر لندن۔ جنوب کین سنگھٹن (Kensington)

ستمبر کے اوائل دن تھے۔موسمِ خزاں کی زردی ہر منظر پر قابض تھی۔شاہ بلوط کے درختوں کے پتے ذرا سی ہوا چلتے ہی سڑکوں پر پھیلے دکھائی دینے لگتے۔وہ ہلکے جامنی رنگ کی بنی ہوئی سوئٹر پہنا ہوا تھا جو دادو خاص طور پر اس کے لیے بن کر پاکستان سے بھیجا کرتی تھیں۔کشادہ پیشانی پر بکھرے بال ،سنہری آنکھیں جو روشنی کا پیکر معلوم ہوتیں۔نفاست سے ترشی ہوئی شیو اس کے خوبصورت نقوش کو ابھار رہی تھی۔سیاہ بیگ پیٹھ پر لٹکائے ،سائیکل کے ہینڈل تھام پیدل چل رہا تھا۔سوکھے پتے اس کے پیروں تلے آکر چرمرارہے تھے۔ایگرٹن گارڈن سے ایمپیریل کالج لندن تک کا راستہ وہ روز سائیکل پر طے کیا کرتا تھا۔سائیکل پر بھی یوں کہ دیر نہ ہورہی ہوتی تو پیدل چلتا جاتا اور اسے لندن رہتے پیدل چلنے کی عادت ہوگئی تھی۔اس نے پچھلے چار سال میں یہاں رہ کر بہت کچھ سیکھا تھا روز اول یہاں پہنچتے اسے کئی چیزوں نے الجھایا تھا۔داخلے سے لے کر اینٹری ٹیسٹ،یہاں کے تعلیمی نظام کو سمجھنے سے لے کر یہاں کی ثقافت و رہن سہن میں ڈھلنے تک کا سفر اس کے لیے کم عمری میں ہی ایک اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے وجود میں سے اپنے اصل کو نکال نہیں پایا تھا۔اس کی دنیا کا آغاز و اختتام اب بھی وہیں پاکستان کی شام و صبح وہاں کے منظر اور وہاں بسے اس کے خاص لوگوں سے ہوتا تھا۔یوں بھی نہ تھا کہ یہاں رہ کر اس نے نئے دوست نہ بنائے تھے لیکن وہ دوست جو اس کے ساتھ بچپن سے تھے ان کا اپنا ایک مقام تھا جن سے وہ ہر پل رابطے میں رہا کرتا تھا۔اس کبھی ختم یا کم ہونے والے رابطے کی بڑی وجہ وہ ہستی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے وجود کا ایک بہت اہم حصہ بن گئی تھی۔جس کو وہ ہر منظر میں تصور کرتا تھا جس کے ساتھ دیکھنے کو اس کے ہزاروں منظر طے کر رکھے تھے۔جسے وہ مختلف رنگوں میں سوچا کرتا تھا۔

"Hey!"

چہکتی سی  نرم آواز پر اس نے گردن گھمائی۔فلورا پیچھے کھڑی ہانپ رہی تھی۔چہرہ سرخ پڑا ہوا تھا سانس پھول رہی تھی۔وہ دونوں گھٹنوں پر ہاتھ دھرے دہری ہوئی اپنی نبض بحال کرنے کی کوشش میں تھی اسی کوشش میں اس کی ڈھیلی کھلے گریبان والی شرٹ نے اس کا اندرونی جسم عیاں کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔داؤد نے اس کے وجود پر نگاہ نہ ڈالی۔

"تم سائم کے خیالوں میں اتنے گم رہتے ہو کہ ساری دنیا بھول جاتے ہو ۔۔آوازیں دے دے کر میرا حلق خشک ہوگیا ۔۔" وہ اب سیدھی کھڑی تھی۔

"سائم نہیں ہے سیام ہے مادام فلورا!"داؤد نے نرمی سے تصحیح کی جانتے ہوئے بھی کہ چاہے وہ کتنی دفعہ ہی نام درست کیوں نہ کرلے فلورا اسے سائم ہی کہے گی۔

اب وہ دونوں ہم قدم چل رہے تھے۔

"ڈیڈ نے کہا کہ وہ مجھے ڈراپ کردیں گے لیکن تمہارے ساتھ رہ کر مجھے بھی اب پیدل چلنے کی عادت ہوگئی ہے ۔۔صرف ایک تم ہو جسے یاد نہیں رہتا کہ میں تمہارے ساتھ جاتی ہوں اتنا نہیں ہوتا کہ گزرتے ہوئے ایک رنگ دے دو ۔۔" اب کے اس نے شکوہ کیا جس کا داؤد پر کوئی اثر نہ ہوا لیکن پھر بھی معذرت خواہانہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

"میں بھول جاتا ہوں ۔"

"اور تمہیں یاد کیا رہتا ہے؟وہ لڑکی ؟جس پر تم نثر لکھتے ہو؟" وہ ہنستے ہوئے بولی۔

داؤد کچھ نہ بولا فقط مسکراتے ہوئے چلتا رہا۔

"ویسے تم ایک بائیک یا کار کیوں نہیں لے لیتے؟ تمہارے امیر ماں باپ کو معلوم ہے کہ تم ایک سائیکل پر روز کالج جاتے ہو ؟ "

"مجھے سائیکل پر سفر کرنا پسند ہے۔"

"بیس سال کے ہوچکے ہو تم ڈیوڈ!"

"داؤد فلورا! میرا نام داؤد ہے؟ کیا تم فرنگیوں کو میرا نام بگاڑنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ؟" وہ اب کے تنک کر بولا تھا۔فلورا بدمزہ سی کاندھے اچکا گئی۔

"ڈیوڈ زیادہ اچھا ہے۔"

"یہ میرا نام ہے۔۔اور اس کے لیے تمہارے پاس کوئی انتخاب نہیں۔۔اچھا یا برا ۔۔اسے ٹھیک طرح سے بولا کرو ۔۔"اس کے ابرو بھینچے ہوئے تھے۔

"بالکل ٹھیک ! اور کوئی حکم آفندی صاحب ؟" اس نے ہنستے ہوئے ایک کینڈی بائٹ اس کی طرف بڑھائی جسے داؤد نے بلا تردد تھام لیا۔وہ دونوں باتیں کرتے پیدل چلتے اپنی منزل یعنی امپیریل کالج لندن کی طرف جارہے تھے۔داؤد گھر سے گلاب خان کے ہاتھ سے بنا ناشتہ کر کے نکلا تھا۔گلاب خان بھی یہیں تکنیکی شعبہ میں زیر تعلیم تھا لیکن وہ پیدل جانے کے بجائے میٹرو پر سفر کرتا تھا۔داؤد کے برعکس اسے پڑھائی کا کچھ خاص شوق نہ تھا لیکن باپ کی درخواست پر آفندی خاندان نے اسے بھی یہی داخلہ دلوایا تھا یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ گلاب خان درحقیقت آفندی خاندان کے ملازمین میں سے ہے اور یہاں خاص طور پر داؤد کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔داؤد نے کبھی اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا۔ان گزرے سالوں میں ان کی بیچ یوں بھی ملازم و مالک والا تعلق نہیں رہا تھا لیکن اس کے باوجود گلاب خان اسے عزت دیتا تھا۔

                        *************

شہر کراچی کا منظر تھا جہاں ستمبر کا آغاز تھا لیکن فضا میں حبس کی شدت گرمی کے موسم کو بھی مات دیتی دکھائی دے رہی تھی۔وہ آج پھر رکشے میں اکیلی واپس آئی تھی۔لان پار کرتے اندر داخل ہوئی گھر کے باہر ہی زوریز بھائی مل گئے جو شاید کسی کام سے گھر آیا تھا اور ہاتھ میں فائلیں لیے واپس آفس کی طرف جارہا تھذ۔آتے ہوئے سیام اس کی گاڑی دیکھ چکی تھی۔

"اکیلی آرہی ہو؟ روفی کہاں ہے ؟"اس نے تیوری چڑھائے سوال کیا۔جس پر سیام نے گہری سانس لیتے نفی میں سرہلایا۔

"نہیں آیا!"سیام کے تھکے انداز پر زوریز نے سوالوں کا ارادہ ترک کرتے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا لیکن چہرہ سپاٹ ہوچکا تھا۔دل ہی دل میں شام واپسی پر روفائیل کی کلاس لینے کا ارادہ کرتا وہ باہر نکل گیا۔سیام اندر کی جانب بڑھ گئی۔لاونج میں قدم رکھتے ہی اس نے اپنا بیگ ایک طرف پھینکا اور صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔

"رشیدہ آپا! ایک گلاس پانی پلادیں۔۔" اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے آواز لگائی۔

"ارے آگئی تم ! روفائیل کہاں ہے ؟" اس کی ماں ردابہ خاتون نے پوچھا۔سیام نے گہری سانس لی اور ماں کی طرف دیکھا۔آئے دن ایک ہی جواب دے کر وہ تو تھک چکی تھی لیکن گھر والے وہی سوال بار بار پوچھ کر نہیں تھکتے تھے۔

"ماما ! میں فریش ہوکر آتی ہوں ؟ بہت بھوک لگی ہے؟ کھانا تیار ہے ؟" اس نے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔

"ہاں ! تم فریش ہوکر آؤ۔۔کھانا لگنے ہی والا ہے ۔۔" ردابہ خاتون نے کہا تو وہ سرہلاتی اوپر کی جانب بڑھنے لگی۔ردابہ خاتون نے خاموش نگاہوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔وہ بڑی ہوگئی تھی۔قد و کاٹھ میں متناسب،سڈول جسم خوبصورت ملائم بالوں کی چوٹی کمر پر جھول رہی تھی۔سیام کی شخصیت میں وقت کے ساتھ مزید ٹھہراؤ آیا تھا۔وہ یونیورسٹی میں بی ایس سی کی طالبہ تھی۔پڑھائی میں ہمیشہ کی طرح لائق اور سنجیدہ اس کے امتحانات میں شروع سے متاثر کن نتائج رہے تھے وہی روایت ہنوز قائم تھی۔

کھانے کی میز پر سب موجود تھے۔مرد حضرات دوپہر کا کھانا فیکٹری میں ہی کھاتے تھے جبکہ عمر اور زوریز اپنے اپنے دفتر میں لنچ کرتے۔گھر کی خواتین اور روفائیل ہی تھا جو دوپہر کا کھانے میں شریک ہوتے لیکن روفائیل کی سرگرمیوں کے باعث وہ آئے دن وہ میز پر سے غائب رہتا تھا۔

"تمہیں بتا کر نہیں گیا کہ کہاں جارہا ہے اس لڑکی کے ساتھ؟" دادو نے سنجیدگی سے پوچھا۔لہجے میں ناپسندیدگی صاف ظاہر تھی۔یہ ناپسندیدگی ماہ رنگ کے لیے تھی جس کے پیچھے روفائیل آئے دن گھر سے غائب رہتا تھا۔

'دادو شاید کسی ایونٹ میں ۔۔"سیام نے دانستہ بات اُدھوری چھوڑ دی۔وہ ایک سوشل میڈیا سلیبرٹی تھی جو اکثر ویڈیو شوٹنگ،کسی ایونٹ یا فوٹو شوٹ کے لیے کہیں نہ کہیں جاتی رہتی تھی۔

"منیزہ تم نے اس دن روفائیل کو سمجھایا نہیں تھا؟" دادو نے تلخی سے سوال کیا جس پر منیزہ خاتون بے طرح شرمندہ ہوئیں۔

"ماما نے بھی اور میں نے بھی ۔۔ بہت سمجھایا اچھی خاصی لمبی کلاس لی اس کی ۔۔مگر مجال ہے جو اس کے ذہن میں ایک بات بھی رہی ہو ۔۔" امشل گود میں ننھے عفان کو سنبھالتی منہ بنائے کہہ رہی تھی۔اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کی سرگرمیوں کو لے کر وہ آئے دن ماں کو شرمندہ ہوتے دیکھتی خود بھی تنگ آچکی تھی۔

"اس مسئلے کا اب حل نکالنا ہی پڑے گا ۔۔ورنہ وہ لڑکی روفائیل کا پیچھا یوں نہیں چھوڑے گی۔۔مفت کا ڈرائیور ملا ہوا ہے ۔۔خود کو کوئی اچھا نام نہیں کما رہی ہمارے خاندان کی عزت بھی مٹی میں ملانے پر تلا ہے ی روفائیل؟ کہتی ہوں راحم کو لے کر جایا کرے اسے یونیورسٹی کے بعد فیکٹری ۔۔ بہت ہوگئی پیار سے بات ! اب سختی کرنی پڑے گی ۔۔" وہ بری طرح ناراض دکھائی دے رہی تھیں۔کھانا تناؤ بھرے ماحول میں کھایا جارہا تھا۔

"اب رات کا کھانا بھی اسی موضوع پر ضائع ہوگا ۔۔" وہ دل ہی دل میں بیزاری سے بڑبڑائی۔

"مجھے اکیڈمی جلدی جانا ہے آج !کل بہت ضروری ٹیسٹ ہے ۔۔ماما مجھے آپ چھوڑ آئیے گا رکشے پر !"سیام نے کہا۔

"کوئی ضرورت نہیں ۔۔رکشے پر !گھر کی ضرورت کے لیے گاڑی موجود ہے ناں لگاؤ فون اس لڑکے کو ایک گھنٹے میں گاڑی لے کر آئے اور اسے لے کر جائے اکیڈمی !" دادو نے تلخی سے کہا۔منیزہ خاتون نے اثبات میں سر ہلایا تھا سیام پھر سے شرمندہ ہوتی لب بھینچ گئی۔کن اکھیوں سے تائی امی کو دیکھا وہ اس سے خفا نہیں لگ رہی تھیں۔لیکن اس سے خفا ہوں گی بھی کیوں ۔۔غلطی تو روفائیل کی ہے ۔۔وہ کیوں برا محسوس کررہی ہے ۔۔اس نے سوچتے ہوئے پانی کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگایا تھا۔وہ کبھی نہیں چاہتی کہ روفائیل اس کی وجہ سے ڈانٹ کھاتا پھرے لیکن نا چاہتے ہوئے بھی روفائیل کی حرکتیں اور عادتیں اسے قصوروار ٹھہرانے کا باعث بنتی تھی۔

                       **********

ہاکس بے کا ساحل تھا جہاں دور دور تک عوام نظر نہ آتی تھی۔سمندر کی ہوائیں بھی خنک تھیں سو گرمی کا احساس نہ ہونے کے برابر تھا۔آسمان نے بھی گلابی چادر اوڑھ لی تھی۔ایک طرف خوبصورتی سے سجاوٹ تھی یوں لگتا تھا جیسے کوئی سالگرہ کی تقریب منائی جارہی ہو۔میک اپ سے لت پت،شوخ و قیمتی لباس پہنے زیورات سے سجے زنانہ ننگ دھڑنگ وجود جو دھیمی سر پر مختلف اداؤں سے لہک رہے تھے۔وہیں ان تمام سوشل میڈیا کے مشہور لوگوں کے بیچ وہ بھی کھڑی تھی۔آڑو رنگ کی بغیر آستین، بغیر گلے اور بغیر کمر کا لمبا لباس پہنے ہوئے تھی۔تھوڑے سے بال آگے کی جانب تھے جبکہ باقی بالوں نے اپنے تہی کمر ڈھانپ رکھی تھی لیکن کمر آدھی سے زیادہ واضح تھی۔نیوڈ لک کا میک اپ کیے نازک زیورات پہنے وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اس کے آس پاس موجود دیگر لڑکیاں پس منظر کا حصہ بن رہی تھیں۔اس کی رنگت سفید کسی دودھ جیسی جلد بے داغ نرم و ملائم تھی۔وہ نگاہوں کا مرکز تھی نگاہیں جن میں مختلف رنگ چمکتے دکھائی دیتے۔کچھ جن میں شوخی تھی تو کچھ میں حوس کی ناپاک جھلک صاف واضح تھی لیکن دکھائی تو تب دیتی جب دیکھنے والی آنکھوں میں پہچاننے کی صلاحیت ہو۔قریب ہی روفائیل کھڑا تھا۔شوخ نیلے رنگ کی شرٹ پر سیاہ پینٹ پہنے نفاست سے ہوئی شیو اور خوبصورت گھنگھرالے بال جو اس کی شخصیت پر خوب جچتے تھے۔وہ دراز قد تھا۔مردانہ وجاہت کی کسی قدر کمی نہ تھی۔جس ویڈیو یا تصویر میں وہ ماہ رنگ کے ساتھ ہوتا اس پوسٹ پر ہزاروں کمینٹس آتے تھے۔لوگ انھیں ساتھ دیکھنا پسند کرتے تھے دوسرا وہ ماہ رنگ کی چاہت میں دم بھرتا تھا اسے کیوں کر یوں کہیں اکیلا جانے دیتا۔خود ماہ رنگ بھی اس پر بھروسہ کرتی تھی۔ماہ رنگ اچھا کمانے لگی تھی لیکن گاڑی ابھی تک نہیں خریدی تھی۔جلد ہی خریدنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن تب تک روفائیل ایک ڈرائیور کی حیثث بھی بخوبی نبھا رہا تھا۔۔وہ ماتھے پر ایک بھی شکن لائے بغیر ہر پل اسے ہر جگہ لے جانے کو تیار رہتا تھا۔ماہ رنگ کو لوگوں کو اپنے قابو میں رکھنا آتا تھا اور ان قابو کیے لوگوں میں روفائیل سر فہرست تھا۔

وہ خوش مطمئن سا ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامے کسی مرد ٹک ٹاکر سے کسی موضوع پر بات کررہا تھا جب اس کا فون بجنے لگا اس نے اسکرین پر نگاہ ڈالی اور نظر بچا کر آس پاس دیکھا۔ماہ رنگ متوجہ نہیں تھی ورنہ ضرور سمجھ جاتی اور اسے کوئی نہ کوئی طعنہ دے مارتی۔اس نے سامنے کھڑے لڑکے سے معذرت کی اور کچھ قدم آگے چلتا خاموش گوشے میں آیا۔

"جی ماما!"

"کہاں ہو تم؟" لہجہ غصیلا تھا۔اسے سمجھنے میں ایک پل نہ لگا کہ کیا ہوا ہوگا۔

"وہ میں ۔۔"

"ماہ رنگ بی بی کے ساتھ کسی پارٹی میں ؟" دوسری طرف سے خود ہی اندازہ لگایا گیا جو ایک سو ایک فیصد درست تھا۔روفائیل نے لب بھینچتے دور کھڑی ماہ رنگ کو دیکھا جو کہ اب اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔اسے اکثر گھر سے فون آتے رہتے جن کا ماہ رنگ کو خوب قلق رہتا تھا۔

"ماما ! ہوا کیا ہے ؟" وہ دبے دبے لہجے میں پوچھنے لگا۔

"اکیڈمی کا وقت ہورہا ہے۔۔فوراً گھر پہنچو۔۔یہاں اور بھی لوگ رہتے ہیں جنھیں باہر آنا جانا ہوتا ہے گاڑی لے کر تم نکل جاتے ہو اس لڑکی کی دم بننے ۔۔"

"ماما!" روفائیل کا لہجہ احتجاجی ہوا۔

"فوراً گھر پہنچو ۔۔تمہاری دادو آج بھری بیٹھی ہیں ۔۔شامت نہیں بلوانی تو شرافت سے گھر کی راہ لو۔۔" انھوں نے کہہ کر فون بند کردیا۔روفائیل کی پیشانی پر پیسنے کے ننھے منے قطرے نمودار ہونے لگے۔اب کیا کرے۔پارٹی شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی۔ماہ رنگ کو میسج کرتے اس نے کئی پل سوچا تھا پھر کوئی اور راہ نہ دیکھتا ٹائپ کرنے لگا۔

"مجھے گھر جانا ہوگا۔!"

"کیوں کیا ہوا؟" فوراً جواب آیا۔

"دادو نے ایمرجنسی میں بلایا ہے ۔۔" اس نے ٹائپ کیا۔

"تمہارے گھر کی ایمرجنسی کب ختم ہوگی ؟" ماہ رنگ کا سوال غیر متوقع ہرگز نہیں تھا۔اس نے موبائل اسکرین سے نگاہ ہٹا کر سامنے ماہ رنگ کو دیکھا جس کے چہرے پر خفگی صاف ظاہر تھی۔وہ نا چاہ کر بھی اسے کسی نہ کسی طرح خفا کر ہی دیتا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے گھر والے تھے۔وہ بدمزہ ہوتا سیدھا ہوا۔

"میں پھر واپس آؤں گا تمہیں پک کرنے ۔۔" اس نے جواب میں لکھا جس پر اس نے "اوکے " کا جواب دیا۔روفائیل کچھ پل وہیں کھڑا اس کے تاثرات دیکھتا رہا لیکن وہ اسے مکمل نظر انداز کیے اپنے دیگر احباب کے ساتھ باتوں میں مگن تھی۔روفائیل گہری سانس بھرتا وہاں سے چلا آیا۔

                   *********

سیاہ چادر کاندھوں پر ڈالے سر پر جارجٹ کا ڈوپٹہ پہنے وہ کسی بھی میک اپ سے عاری تھی۔چہرہ دھو لینا ہی اس کی عام دنوں میں تیاری ہوا کرتی تھی چاہے وہ یونیورسٹی ہو یا پھر اکیڈمی جانا ہو۔اس وقت بھی وہ خاموشی سے کتاب کھولے کسی سوچ میں گم دکھائی دیتی تھی۔روفائیل کا مزاج کچھ بگڑا سا لگتا تھا لیکن اب تک وہ کچھ نہ بولا تھا لیکن گاڑی میں خاموشی زیادہ دیر نہ ٹھہر سکتی تھی سیام کو یقین تھا کہ وہ اس پر ضرور کوئی بات کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔

" تمہیں دس منٹ کے فاصلے پر موجود اکیڈمی تک آنے میں بھی میری ضرورت کب تک رہے گی  سیام ؟" اس کا انداز سنجیدہ اور طنز سے بھرپور تھا۔جس پر سیام کی تیوری فوراً چڑھی اس نے گردن گھما کر روفائیل کو دیکھا۔

"جیسا کہ تم  دادو کی عادت جانتے ہی نہیں ہو۔۔میں کب کہیں اکیلی جا سکی ہوں ۔۔"اس نے جواب میں سوال کیا تھا۔

"کب کہیں اکیلی جاسکی ہوں ۔" روفائیل نے اسی اندازمیں اس کی نقل اتاری۔وہ

"تم جس فیلڈ کے لیے اتنی محنت کررہی ہو تمہیں پتا بھی ہے اس میں تم جیسی دبو ڈرپوک لڑکیوں کا کوئی کام نہیں ہے ۔۔"

"تم مجھے دبو ڈرپوک کہہ رہے ہو ؟" سیام کو ان القابات نے بری طرح تپایا۔

"تو ؟ بیس سال کی ہو چکی ہو تم ! اپنے اندر اعتماد لاؤ۔۔کچھ سیکھو ماہ رنگ سے !کتنی بولڈ اور پر اعتماد ہے وہ ۔۔ "

"بولڈنیس اور اعتماد کے باوجود تمہیں ہی تو ساتھ لے کر گھومتی ہے ۔باڈی گارڈ بنا کر ! پھر مجھے کہیں ڈراپ کردینے پر تمہیں کیا مسئلہ ہے اور نہ میں دبو ہوں نہ ڈرپوک ہوں ۔۔میرا مسئلہ میرے گھر والوں کی روایات ہیں ان کی فکر اور محبت ہے وہ میری حفاظت کے لیے مجھے اکیلے جانے کی اجازت نہیں دیتے اور میں خود بھی اس چیز پر مطمئن ہوں ۔۔"

"تمہارے اطمینان کے چکر میں میری محبت کا باجا بجتا رہے بس!" روفائیل اونچا بڑبڑایا تو سیام نے طنزیہ ہنکارا بھرا۔

"اتنی ٹاکسک محبت کا ایک ہی دفعہ باجا بج جائے تو اچھا ہے ۔۔آخر کو تمہاری دماغی صحت کا سوال ہے ۔۔ وہ لڑکی تمہیں کچھ سالوں میں پوری طرح دماغی مریض بنادے گی ۔۔یقین کرو میرا ۔۔یہ میری پیشن گوئی ہے۔۔"

" بڑی آئی "وانگا بابا" پیشن گوئی کی بچی !چلو اترو اب !"روفائیل نے ہاتھ جھلا کر جھنجھلائے انداز میں کہا۔اکیڈمی پہنچ چکی تھی۔

"تم اکیڈمی نہیں آرہے ؟"

"مجھے ماہ رنگ کو لینے جانا ہے تمہیں تو جیسے پتا ہی نہیں اس کے مزاج کا ۔میں یہاں پڑھنے رک گیا تو وہ اور اچھا سبق پڑھائے گی ۔۔"

"آہ! تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔"

سیام اسے تلخ نگاہوں سے دیکھتی اتر گئی۔روفائیل ایک منٹ بھی وہاں رکے بغیر گاڑی زن سے بھگا لے گیا تھا۔

                        ******

جوہر منزل جو خان منزل کے بالکل برابر میں بنا کائی رنگ کا خوبصورت مکان تھا جس کو ہال ہی میں دوبارہ تراش خراش کر مزید خوبصورت بنایا گیا تھا۔کچھ دیواریں توڑ کر ان میں شیشے لگادیے گئے تھے۔اوپری منزل پر زیادہ توجہ دی گئی تھی ہر چیز کو نئے سرے سے لگایا گیا تھا یہ گھر عامر صاحب کا تھا۔جن کا اپنا اشاعتی ادارہ تھا۔دانیال اور نہال ان کے بچے تھے۔نہال نے اپنے اسی خواب کو تعبیر دی تھی۔یوٹیوب پر بے حد مشہور تھا۔کبھی کبھی اس کے مواد میں ان دوستوں کی ویڈیوز ہوا کرتی جن میں سیام اور دعا شامل نہ ہوتے فقط عمیر،روفائیل اور دانیال ہوا کرتے کبھی موقع محل ہوتا تھا ماہ رنگ بھی شامل ہو جاتی۔نہال اور ماہ رنگ میں زیادہ گاڑھی تو نہیں چھنتی تھی لیکن ایک ہی انڈسٹری میں ہوتے کبھی کبھار تعاون کرلیا کرتے۔اکثر ایونٹس میں بھی ساتھ پائے جاتے تھے۔نہال کے سب ستر لاکھ سبسکرائبرز تھے۔اس کا کونٹینٹ ہر عمر کے افراد میں مشہور تھا۔وہ مزاحیہ انداز میں سڑکوں اور پارکس میں دانیال کے ساتھ مل کر پرینکس کرتا تو کبھی ولاگنگ! اس کی ہر ویڈیو لاکھوں کی تعداد میں دیکھی جاتی تھی۔اسی کی بدولت جوہر منزل کے حالات خوشحال سے خوشحال تر ہوتے گئے تھے۔گھر کے چاروں افراد کے پاس مہنگی گاڑیاں تھیں۔عامر صاحب نے اپنے ادارے کو بند نہ کیا تھا لیکن ساتھ ہی نہال کے توسط سے ریسٹورنٹس کا کام شروع کردیا تھا۔

اس وقت نہال اپنا لیپ ٹاپ لیے اوپری منزل کی چھت پر بیٹھا کام کررہا تھا جب اس کی نگاہ خان منزل کے لان میں رکتی گاڑی اور اس میں سے اترتے روفائیل پر پڑی۔

"اوئے روفی!" اس نے وہی سے ہانک لگائی۔

"ہاں ! " روفائیل نے وہیں سے سر اٹھا کر جواب دیا۔نہال اٹھ کر شیشے کی ریلنگ تک آیا۔

"دو دن سے غائب ہے ۔۔کدھر مرا ہوا تھا؟"

"یہی تھا ! تو سنا ! "

"کیا سناؤں میں تو تیری شامت کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔۔ سنا ہے آج تیری کلاس لگنے والی ہے ۔۔"

"کی ہوگی یہ بکواس اس سیام نے ؟" روفائیل چڑ گیا۔

"دیکھ لے پل پل کی خبر رہتی ہے ۔۔سوچ رہا ہوں اپنا ڈرون بھیج دوں آج خان منزل کے لاؤنج میں ۔۔نئی ویڈیو کا کونٹینٹ مل جائے گا ! روفی کی بے عزت کا فالودہ قسط نمبر 340۔۔"

"دفع ہوجا! " روفی نے اسے گھور کر کہا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔

"میں سوچ رہا ہوں رات کا کھانا تیری طرف کھاؤں ۔۔ساتھ میں فری کی فلم بھی دیکھ لوں گا۔۔"نہال نے اسے مزید چھیڑا روفائیل نے وہیں سے پلٹ کر مکے کا اشارہ کیا۔

"دیکھ تیری محبّت نے کیے کتنے ستم !

اب تو ہر روز میری عزت کا فالودہ ہوتا ہے ۔۔" نہال نے اونچی آواز میں لہک لہک کر گانا گیا جس کے جواب میں روفائیل دانت کچکچاتا اندر داخل ہوگیا۔نہال ہنستا ہوا واپس اپنی جگہ پر آیا ہی تھا جب دانیال وہاں چلا آیا۔دونوں کی شکل میں ہنوز کوئی فرق نہ تھا۔دونوں کے بالوں اور داڑھی کا انداز بھی ایک ہی تھا۔

"کیوں چھیڑ رہے ہو اسے !"

"سیام بتا رہی تھی آج گھر میں سب پھر روفائیل کی پھینٹی کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔۔" نہال مزے لیتا ہوا بولا۔

"اس میں نیا کیا ہے ؟تم نے رضی بھائی  سے بات کی ؟ دعا کی پارٹ ٹائم کے لیے؟"

"دعا نے تم سے خود کہا ہے ؟" نہال نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں ! میں چاہ رہا ہوں وہ وہیں کرے پارٹ ٹائم! جہاں عمیر کے ابو کا دفتر ہے وہ کچھ دور پڑتا ہے تو ۔۔"

"تو ؟عمیر نے بات کرلی ہے اس کی ! اور وہ دلشاد انکل کے ساتھ  واپس آ بھی جائے گی۔۔"نہال نے کہا۔

"تم یہ سب چھوڑو ناں! کہہ تو رہا ہوں رضی بھائی سے بات کرو۔۔"

"ایسے کیسے کرلوں۔۔عمیر پہلے ہی کرچکا ہے اپنے ابو سے بات!اب درمیان میں رضی سے بات کرلوں تو عمیر کیا سوچے گا ؟"

"میں دعا کی آسانی سوچ رہا ہوں بس۔۔" دانیال نے نظریں چراتے کہا۔

"اتنا مت سوچو ۔۔" نہال نے بظاہر عام انداز میں کہا لیکن جانے کیوں دانیال پہلو بدل کر رہ گیا۔کچھ عرصہ پہلے ہی  دعا کے والد کی وفات ہوئی تھی جس کے بعد گھر کے حالات میں بگاڑ آیا تھا۔پیسے کی تنگی خرچ کا مسئلہ یہی وجہ تھی کہ دعا پڑھائی کے ساتھ کسی ملازمت کی تلاش میں تھی۔عمیر نے اپنے ابو کو کہہ کر ان کے دفتر میں ایک آسامی کے لیے دعا کی سفارش کروائی تھی جبکہ دانیال چاہتا تھا کہ وہ نہال کے قریبی دوست  کے بڑے بھائی رضی وقار کی اسٹارٹ اپ کمپنی جوائن کرے جو یہاں سے زیادہ دور بھی نہ تھی۔

"کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرلی ؟" دانیال نے موضوع بدل دیا۔

"بس یہ ویڈیو ایڈٹ کرکے کرتا ہوں۔۔" نہال نے جواب دیا دانیال سرہلاتا وہاں سے اٹھ گیا اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔اس کے اٹھتے نہال نے ایک خاموش نگاہ اس کی پشت پر ڈالی تھیں نگاہوں میں گہری سوچ کا عنصر شامل تھا۔

                      *******

فلک ناز اپارٹمنٹس کی چھٹی منزل پر بنا یہ جدید سہولیات زندگی سے آراستہ شاندار اپارٹمنٹ ماہ رنگ کا تھا۔جس میں دنیا کی ہر اعلیٰ و ارفع شے موجود تھی۔ایک ماسٹر بیڈ روم اس کے قبضے میں تھا۔سیاہ و سفید امتزاج کا معیاری فرنیچر قیمتی پردے خوبصورت ڈیزائن سے آراستہ دیواریں اور ان پر لگیں خوبصورت تصاویر جو اس کی اپنی تھیں۔غسل خانے سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی جو ماحول کی فسوں خیز خاموشی کو توڑنے کا باعث بنی ہوئی تھی۔وسطی میز پر چائے کا بھاپ اڑاتا کپ رکھا تھا۔دفعتاً غسل خانے کا دروازہ کھلا اور وہ باتھ گاؤن میں پہنے سر پر تولیہ لپیٹے باہر آئی۔چہرہ کسی سرخ انار کی مانند ہورہا تھا۔ابھی وہ صوفے کی جانب بڑھی ہی تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔اس نے پلنگ پر رکھا فون اٹھا کر اسکرین کو دیکھا۔اس کی سوشل میڈیا مینیجر زوہا کا فون تھا۔

"بولو زوہا!"

"آپ نے رشیل والی آفر پر جواب نہیں دیا ۔۔ابھی فون آیا ہے ان کا ! کہہ رہے ہیں پوچھ کر جواب دوں ۔۔"

"اب فوراً ہی جواب دوں گی تو پھر وہ مجھے بیکار ہی سمجھ لیں گے ۔۔تھوڑا صبر کرو ۔۔" اس نے بے نیازی سے کہا۔

"جی ! مگر ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے ۔۔وہ کہہ رہے ہیں اگر وقت نہیں ہے تو وہ کسی اور سے رابطہ کرلیں گے پھر انھیں ڈسکاؤنٹ آفر چلانی ہے ۔۔"زوہا نے دبے دبے انداز میں کہا کہ کہیں وہ پھر نہ بھڑک جائے۔

"جب دوسرا آپشن موجود تھا تو مجھ سے رابطہ ہی کیوں کیا اس کھوسٹ بڈھے نے۔۔" وہ حسب توقع بدمزہ ہوئی تھی۔

"پیسے بڑھائے یا نہیں ؟"

"فری سروس کے ساتھ اسی ہزار تک راضی ہوگئے ہیں ۔۔"

"لاکھ تک راضی کرنے کا کہا تھا تم سے ۔۔" وہ بڑبڑائی۔

"اور فارس ہمدان والے اپنا جوڑا واپس لینے آرہے ہیں ۔۔"

"ٹھیک ہے تم آکر لے جاؤ ! کہہ تو دیا تھا ناں کہ ہم نے غلطی سے سامان میں پیک کرلیا تھا۔۔"

"وہ تو کہہ دیا تھا لیکن بعد میں اگر وہ آپ کی تصاویر دیکھ لیں ؟کیا انھیں پتا نہیں چلے گا کہ آپ نے ایونٹ کے بعد بھی اسے استعمال کیا اور فوٹو شوٹ کیا؟"

"تو کیا! ان کا اپنا پروموشن ہوگا ۔۔"

"لیکن آپ کی ریپوٹیشن! آپ تو جانتی ہیں یہ چھوٹا اسٹاف کس قدر تیزی سے باتیں پھیلاتا ہے ۔۔" زوہا نے پھر انداز دھیما ہی رکھا۔

"دیکھو زوہا فضول باتوں پر بحث مت کرو۔۔انڈسٹری میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہیں ہیں۔۔تمہیں اور کچھ نہیں کہنا تو میں فون بند کردوں؟" اس کے تلخی سے کہتے چائے کا کپ اٹھایا۔

"جی ٹھیک ہے ۔پھر اللّٰہ حافظ!"

"سوشل میڈیا مینیجر ہوکر باس والی حرکتیں کرتی ہے۔۔" اس نے فون بند کرتے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔تب ہی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔

"ماہی!"

"جی ممی!آجائیں۔۔" اس نے کہا۔

"لو یہ دیکھو۔۔ ایک گھنٹے سے نہا رہی تھیں ؟"

"نہیں ! کب کی نکل چکی ! "

"تو ڈھنگ کے کپڑے تو پہن لیتی ! پھپھو کب سے منتظر ہیں۔۔"

"منتظر رہنے دیں ۔۔انتظار کرنا بری بات تو نہیں ۔۔" وہ معصوم مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔زرینہ فقط اسے گھور کر رہ گئیں۔

"چلو شاباش جلدی کرو اچھی بات نہیں یوں مہمان کو انتظار کروانا!"

"مہمان یا ضرورت مند ؟" ماہ رنگ نے بے نیازی سے کاندھے اچکائے۔

"بری بات ماہی!" وہ خفا ہوئی تھیں۔

"ممی! یہ آخری دفعہ ہے۔۔ٹھیک ؟ مجھے اپنی گاڑی کے لیے سیونگز کرنی ہیں ۔۔"

"ایسی کون سی گاڑی خریدنا چاہتی ہو تم جس کے لیے تمہیں اتنے پیسے چاہیے۔۔" انھوں نے اس کی بات درمیان میں ہی اچک لی۔

"سات کروڑ کی ہے وہ گاڑی جو مجھے خریدنی ہے ۔۔"

زرینہ کا منہ حیرت کی زیادتی سے کھل گیا۔

"اتنی مہنگی گاڑی کا کیا کروگی ؟"

"ممی ! ایسی ویسی گاڑی لینی ہوتی تو میں بہت پہلے ہی لے لیتی ناں ! میرا ایک معیار ہے جس کے نیچے رہنا مجھے ذرا بھی پسند نہیں۔۔" وہ اترا کر بولی تھی۔

"چیک بنا دو تم مجھے میں خود ہی پکڑا دوں گی رضیہ کو !اور کوئی طنزیہ انداز مت رکھنا ملتے وقت ۔۔ایسے نیکی ضائع ہوتی ہے۔۔"

"Whatever!"

وہ ہنس دی انداز میں تلخی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

"ایک وقت تھا ممی! جب آپ پانچ دس ہزار کے لیے ان کے سو طعنے سنتی تھیں۔۔"

زرینہ کا چہرہ پھیکا پڑا وہ پہلو بدل کر رہ گئیں۔

 اور تب بھی خالی ہاتھ ہی لوٹتی تھیں۔۔میں تو یہ بھی نہیں کہتی پھپھو کو کہ جاکر کسی کے گھر جھاڑو پونچھا کرلیں۔۔" وہ چائے کا گھونٹ بھرتی ہنس دی۔

"پرانی باتیں چھوڑو ماہی !" وہ تیزی سے بولیں۔

"لباس بدل کر ڈرائنگ روم میں آؤ۔۔"

"آتی ہوں ۔۔"وہ چائے کا کپ رکھ کر اٹھی اور ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی۔

                         *******

نفس نفس میں گھلا اس کا احساس اور اس کی تاثیر میں شامل میری ذات کا عنصر۔۔ انتظار کا شوق اور دید کا اشتیاق اسے محسوس کرنے کی یہ عادت اتنی زیادہ ہوگئی ہے لیکن شدت میں اضافہ ہی ہوا جاتا ہے۔محبت واقعی اتنی پرزور ہوتی ہے یا میں نے اس احساس کو خود پر ضرورت سے زیادہ حاوی کر رکھا ہے؟ کسی کو چاہنا واقعی اس قدر خوبصورت ہے یا یہ میرے محبوب کے مقدس وجود کا قصور ہے؟

چاند کی دودھیا روشنی گلاس وال سے چھن کر آرہی تھی۔وہ اسی روشنی میں اپنا قلم چلا رہا تھا۔اس کمرے کو روشن کرنے کے لیے مزید کوئی مصنوعی روشنی کو نہیں جلایا گیا تھا۔پیچھے کی سیاہ دیوار کے ساتھ رکھا کانچ کا مور شیشہ سازی کے فن کا اعلیٰ نمونہ تھا جس نے کمرے کی خوبصورتی کو دو چند کیا ہوا تھا ایک طرف دیوار پوری طرح لکڑی کے ریک سے آویزہ کی گئی تھی جہاں کتابوں کا ڈھیر تھا۔کتابوں کو اس انداز میں رکھا گیا تھا کہ ہر رنگ کا ایک الگ حصہ منتخب تھا یوں رنگوں کا خوبصورت امتزاج اس دیوار کی کشش میں اضافہ کررہی تھا۔قلم رکھتے اس نے دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھا اور پھر انگڑائی لیتا وہاں سے اٹھ گیا۔موبائل اسکرین کو دیکھا کوئی پیغام نہ پاکر گہری سانس بھرتا کچن کی طرف آیا جہاں گلاب خان رات کے کھانے کا بندو بست کررہا تھا۔

"کیا بنارہے ہو؟"

"مچھلی ! " مختصر جواب دیتا وہ مصروف دکھ رہا تھا۔تیزی سے چلتے ہاتھوں سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ جلدی میں ہو۔

"تمہیں کہیں جانا ہے؟" داؤد نے پوچھا۔

"ہاں ! کرسٹینا نے مجھے رات کے کھانے پر بلایا ہے۔۔"

"کیوں ؟" داؤد نے سنجیدگی سے سوال کیا۔کرسٹینا سے اس کی بڑھتی دوستی داؤد کو الجھن میں ڈالتی تھی۔

"ہم اچھے دوست ہیں شاید اس لیے ؟"

"فلورا بھی میری اچھی دوست ہے ۔۔لیکن میں آئے دن اس کے گھر کھانوں کی دعوت پر نہیں جاتا ۔۔" داؤد وہیں کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور نگاہیں کچن میں جھولتے نارنجی روشنی والے لیمپ پر ٹکادیں۔ذہن میں کچھ ترتیب دیتے وہ کئی پل اس لیمپ کو دیکھتا رہا۔

"کیا تمہیں نہیں لگتا تم اپنی منگیتر کے ساتھ بے وفائی کررہے ہو ؟" داؤد کو اس سے زیادہ صاف اور واضح سوال ذہن میں نہ آیا۔گلاب خان کے تیزی سے چلتے ہاتھ ساکت ہوئے وہ داؤد کو دیکھنے لگا۔نگاہیں کچھ عجیب تاثر میں ڈوبیں جیسے اسے اس سوال کی امید نہ ہو۔

"ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے۔۔"

"کیا یقین ہے آگے بھی نہیں ہوگا ؟" فوراً اگلا سوال گلاب خان کو مزید بے چین کرگیا۔

"آپ زیادہ سوچ رہے ہیں ۔۔"

"کیا غلط سوچ رہا ہوں ؟" داؤد نے پھر سوال کیا۔

"مجھے تمہاری ذاتی زندگی میں دخل انداز نہیں ہونا چاہیے لیکن ایک اچھے دوست کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔یا پھر چنبیلی کو سہانے خوابوں کے محل نہ تعمیر کرکے دو ۔۔یا کرسٹینا کی اتنی حوصلہ افزائی نہ کرو ۔۔تم دونوں میں سے کسی ایک کا دل توڑدوگے۔۔"داؤد وہاں سے اٹھنے لگا۔گلاب خان خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

"کوشش کرنا وہ دل چنبیلی کا نہ ہو ۔۔اپنی روایات اور رسم و رواج ذہن میں رکھنا ! تم اسے دھوکہ دوگے یا ۔۔"

"میرے پاس چار شادیوں کا حق ہے ۔۔" گلاب خان کا انداز اب کے تھوڑا کھردرا تھا۔اس نے داؤد کی بات درمیان میں ہی اچک لی تھی۔داؤد ایک پل کو رکا اور پھر ہنس دیا۔ہنسی میں تمسخر اور طنز تھا جسے اس نے چھپانا ضروری نہ سمجھا اور ایک جتاتی نگاہ گلاب خان پر ڈالتا وہاں سے جانے لگا۔گلاب خان لب بھینچے وہیں کھڑا رہا پھر فوراً ایک خیال کے تحت دوبارہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگا۔

                   **********

"ممی کیا یہ زیادتی نہیں لگتی آپ کو ؟میں اب کوئی دس پندرہ سال کا بچہ تو نہیں ہوں کہ میری ہر سرگرمی کی رپورٹ پیش ہوگی ؟ میرے روز مرہ کے معاملات، میرے ذاتی خیالات، میری پسند نا پسند پر میرا حق ہونا چاہئے۔۔ کیا میں ہر آئے دن کٹہرے میں کھڑا کیا جاؤں گا؟" روفائیل کے لہجے میں بلا کی تندی بھری تھی۔غصہ نہ صرف لہجے بلکہ آنکھوں سے لے کر ہاتھوں کی حرکات تک سے واضح تھا۔پلنگ کا ایک تکیہ دروازے پر پڑا باہر جھانک رہا تھا تو دوسرا باتھ روم کے سامنے کشن وسط میں مختلف سمتوں پر پڑے اپنی بے آبروئی پر روتے تھے یوں لگتا تھا جیسے ان پر اپنا غصہ نکالا گیا ہو۔

"دیکھو روفائیل! تم بیس سال کے ہو گئے ہو لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم سے اب ہم اپنی محبت فکر اور حفاظت کا پہرا ہٹادیں۔۔سب کو تمہاری فکر ہے تب ہی تو تمہارے لیے اتنے حساس ہیں ۔۔"انھوں نے مناسب لفظوں اور نرم لہجے کا سہارا لیتے بیٹے کی بدگمانی کا سدباب کرنا چاہا لیکن شاید بات اتنے میں ختم نہیں ہونی تھی۔

"بس ممی بس! فکر حفاظت کے چکر میں آپ لوگ میری زندگی کا ایک ایک پل قابو کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور پھر بعد میں ان بے کار بہانوں سے مجھے رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔" وہ بھڑک کر بولا۔

"تو کیا کریں تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیں اس لڑکی کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیے؟"

"ممی!" روفائیل نے بے یقینی سے ماں کا چہرہ دیکھا۔ کیا یہ الفاظ زیادہ سخت نہیں تھے۔وہ ایک فیصد بھی اس کے جذبات اور ان کے تعلق کو نہیں سمجھتے تھے کل کو وہ اس گھر میں رہنے آئے گی تو بھلا کس انداز میں ماہ رنگ کے ساتھ  پیش آیا جائے گا۔

"وہ میری بچپن کی بہترین دوست ہے۔ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔"روفائیل نے کبھی اپنے جذبات چھپانے کی کوشش نہ کی تھی۔

"تم دونوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔۔" ان کا انداز صاف اور کھرا تھاروفائیل کی آنکھیں مزید پھیلیں۔غصہ مزید بڑھتا گیا۔وہ جو کب سے پلنگ کے کنارے بیٹھا تھا جھٹکے سے اٹھا۔منیزہ دہل کر رہ گئیں۔بیٹے کے انداز میں جارہانہ پن بڑھتا ہی جارہا تھا۔

"میں جارہا ہوں ۔۔"

"کدھر جارہے ہو تم روفی! میری بات سنو۔۔"

"کیا سنوں ممی؟ایسی کوئی بات ہی نہیں کرتی آپ جو سننے لائق ہو۔۔میں تو ایک کٹ پتلی ہوں جنھیں آپ لوگوں کے اشاروں پر ناچنا ہے ۔۔کیا درست ہے کیا نہیں۔۔کیا میرے جوڑ کا ہے کیا نہیں ۔۔یہ سب آپ لوگ ہی تو بہتر جانتے ہیں میں تو انسان ہی نہیں ۔۔پھر کیا کروں گا آپ کی باتیں سن کر میں ۔۔" وہ تلخی سے کہتا جارہا تھا۔آواز بلند اور لہجہ غصیلا۔

"ماہ رنگ کے طرز زندگی میں اور ہمارے خاندانی طور طریقوں میں زمین آسمان کا فرق ہے روفائیل ۔۔تم اسے نظر انداز کیوں کررہے ہو؟ہم خاندانی لوگ ہیں ۔۔ہماری بیٹیاں یوں حسن اور اداؤں کے جلائے بکھیرتی ہر ایرے غیرے کی نظروں میں نہیں رہتیں۔۔ہر دوسرے انسان کی نگاہوں میں ان کے موبائل اسکرین اور ایک ٹچ کے فاصلے پر نہیں رہتیں روفائیل ! "

"ماں وہ ایک کامیاب اور پر اعتماد ۔۔"

"اپنی کامیابی اور پر اعتمادی کی تعریف پر غور کرو ۔۔ہمارے نظریات اور ہمارے تصورات میں کامیابی کی تعریف اپنے حسن کی نمائش ہر گز نہیں ہے ۔۔اس بات کو جتنی جلدی ممکن ہو۔۔ سمجھ لو ۔۔ وہ لڑکی اس گھر میں بہو بن کر نہیں آسکتی ۔۔اگر ایسی کوئی خام خیالی ہے تمہاری تو اسے بھول جاؤ ۔۔نہ میں نہ تمہارے بابا اور نہ ہمارا خاندان اس چیز پر کبھی راضی ہوگا ۔۔" وہ سخت لہجے میں اسے جتاتی اس سے قبل ہی وہاں سے نکل گئیں۔روفائیل ساکت سا وہیں کھڑا رہا۔اتنے صاف لفظوں میں انکار ؟وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔اب کیا ہوگا؟یہ سوال ہر طرف منہ اٹھائے کھڑا نظر آرہا تھا۔اس نے اپنا سر پکڑ لیا اور وہیں صوفے پر دراز ہوگیا۔

                         **********

وہ گھر کے عقبی حصے میں لان کی طرف جاتی پتھریلی روش کے نزدیک بنے چبوترے پر بیٹھی تھی۔گود میں لیپ ٹاپ رکھا تھا۔چاند سامنے جھلمل کرتے ستاروں کے سنگ کھڑا اپنی دودھیا چاندنی پر نازاں نظر آتا تھا۔اسکرین پر دکھائی دیتا منظر اس قدر حسین تھا کہ نگاہیں جامد ہوکر اسی کو تکتے رہنے پر کوشاں تھیں۔وہ ایک چھوٹے سے پل کا منظر تھا کسی ندی پر سے گزرتا ننھا سا پل جس کے نیچے لگائی گئی مصنوعی روشنی نے ندی کے پانی پر چاند کا عکس یوں بنادیا تھا کہ لگتا چاند واقعی اتنا چھوٹا ہوکر ندی کی سطح پر سمٹ آیا تھا۔

"گھر کے معاملات کا بتاؤ ؟سب ٹھیک ہے؟"اسی پل کانوں میں لگے ہیڈفونز پر داؤد کی نرم آواز ابھری۔

"ہاں ! سب ٹھیک ہے ۔۔"

"کیا پھر روفائیل سے کوئی جھگڑا ہوا ہے؟"وہ ویڈیو کال تب ہی کرتی تھی جب اس کا مزاج کچھ بگڑا ہوا ہو اور اس کے بگڑے مزاج کو درست کرنے کی خاطر داؤد فوراً اپنے گھر سے نکل کر کسی ایسی جگہ کا رخ کرتا جہاں کا منظر دیکھ سیام کا بگڑا مزاج درست ہو جائے اور یہ ترکیب ہمیشہ کامیاب رہتی تھی۔

"میں کب جھگڑتی ہوں اس سے ؟ وہ ہی ہر بات  کے لیے مجھ سے منہ پھلا لیتا ہے۔چاہے اس بات کا تعلق براہ راست مجھ سے ہو یا نہ ہو ۔" سیام نے قریب رکھے کپ سے چائے کا گھونٹ بھرا۔

"وہاں کا موسم کیسا ہورہا ہے ؟" سیام نے بات کا رخ تبدیل کرنے کی خاطر سوال کیا۔

"دیکھو شام گہری ہورہی ہے۔۔جیسے جیسے شام گہری ہورہی ہے آسمان کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا ہے۔۔مجھے تو بہت ہی خوبصورت لگ رہا ہے ۔۔اور تمہیں ؟" داؤد نے ایک منٹ کے لیے فون کی اسکرین کا رخ آسمان کی طرف کرتے پھر اسی پل اور ندی کی جانب موڑ دیا تھا۔

"مجھے تو لندن سے ویسے ہی محبت ہوگئی ہے۔۔اور اس کی وجہ تم ہو ۔۔" سیام نے مسکراتے ہوئے کہا۔دوسری طرف داؤد کا دل بے وجہ ہی گدگدایا گو کہ وہ سیام کی بات کا مطلب جانتا تھا۔جانتا تھا کہ اس جملے کا وہ مطلب ہر گز نہیں۔سیام تو فقط ان مناظر کی خوبصورتی سے محبت میں مبتلا ہوئی تھی لیکن یہ احساس بھی اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔وہ اس کی زندگی کے خوبصورت حصوں میں شامل تھا اور یہ احساس داؤد کے لیے ہفت قلیم کی کی حیثیت رکھتا تھا۔

"مجھے خوشی ہے کہ میری وجہ سے تمہاری بوجھل طبیعت میں ذرا تبدیلی آجاتی ہے۔"داؤد نے کہا۔

"ذرا؟ تم نے اپنی منظر نگاری سے میرے ذہن میں پورا لندن تخلیق کرڈالا ہے میں وہاں نہیں گئی لیکن مجھے ہر گلی ہر کوچے کا نام معلوم ہے  کون سا پارک ہے جسے میں نہیں جانتی ! ہر منظر ہی دیکھا بھالا لگتا ہے ۔۔اب تو مجھے بہت شوق ہے لندن جانے کا !"

"تمہارا یہ شوق بھی ضرور پورا ہوگا ۔" داؤد نے جانے کس احساس کے تحت یہ جملہ ادا کیا کہ سیام ایک پل کو کچھ نہ کہہ سکی۔

"دور دور تک آثار نہیں ۔۔اکیڈمی تک جانے میں تو روز ایک نیا تماشہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔۔اب پرسوں کی ہی سن لو ۔۔روفائیل صاحب ماہ رنگ کے ساتھ کسی ایونٹ میں چلے گئے۔۔دادو غصہ ہوگئیں کہ روفائیل گاڑی لیے اسی کی چاکری کرتا رہتا ہے گھر کی سہولت ختم کررکھی ہے۔۔ایمرجنسی میں اسے بلایا وہ آ تو گیا لیکن مجھے سو باتیں الگ سنائیں ۔۔پھر رات کو بڑے بابا سے الگ کلاس لگوائی اپنی ۔۔بعد میں بڑی ممی نے الگ جانے کیا کہا کہ محترم تب سے کھانے کی میز کا بائیکاٹ کیے بیٹھے ہیں ۔۔ بڑے بابا نے اسے یونیورسٹی کے بعد آفس جانے کا کہا تھا لیکن وہاں بھی نہیں گیا آج پھر ان سے کلاس لگی شام سے گیا ہے اب تک نہیں لوٹا!"

سیام کہہ کر چپ ہوئی تو داؤد نے ایک گہری سانس لی۔

"یہ تو واقعی ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔۔ مجھے لگتا ہے تمہارے گھر والے ماہ رنگ سے اس کی دوستی اور تعلقات کو ذرا پسند نہیں کرتے۔۔" داؤد نے کہا۔

"یہ تو بہت ہی واضح ہے۔گھر میں اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ روفی ماہ رنگ سے دوستی کم رکھے ۔۔لیکن وہ اس کے بغیر کہیں جاتی ہی نہیں ۔۔اکثر ساتھ ویڈیوز بھی بنا لیتے ہیں اور پھر وہ ویڈیوز گھر میں کسی کی نظر سے گزر جائیں تو اگلے روز پھر نیا تماشہ ہوتا ہے ۔۔"سیام نے داؤد سے کہا۔

"تم ان سب معاملات میں ڈسٹرب ہوتی ہو ناں ؟" داؤد کو فوراً اس کی فکر نے آلیا۔وہ سکون کی پیاسی طبیعت رکھتی تھی۔تناؤ اور تنازعات اسے شروع سے ذہنی طور پر متاثر کرتے تھے اور یہ بات داؤد اچھی طرح جانتا تھا۔

"ڈسٹرب تو ہوتی ہوں مگر عادت بھی ہوگئی ہے ۔۔" وہ ہنس دی۔

اسی پل دروازے کی گھنٹی بجی تھی۔

"لگتا ہے روفی آگیا ۔۔میں ذرا دیکھتی ہوں۔۔"وہ کہہ کر وہاں سے اٹھی اور ڈوپٹہ کاندھوں پر ڈالتی گھوم کر سامنے والے حصے کی طرف بڑھنے لگی۔تیز قدموں سے چلتے اس نے باہر کا گیٹ کھولا تو سامنے روفائیل کو کھڑا پایا۔

"آگئے تم !"

"نہیں ابھی آرہا ہوں راستے میں ہوں۔۔" اس نے تپے ہوئے انداز میں جواب دیا تو سیام منہ بناتی ایک طرف ہوئی۔

سیام اس کے پیچھے ہی چلتی پھر عقبی لان کی طرف بڑھی تھی۔

"ادھر کدھر جارہی ہو ؟ "روفائیل نے پوچھا۔

"وہ میں داؤد سے بات کررہی تھی تو لیپ ٹاپ وہیں چھوڑ دیا ۔۔"

"بات ہوگئی ہو تو ایک کپ چائے بنادو ۔۔" اس نے کہا۔

"جو حکم!" سیام نے ٹھنڈی سانس بھرتے دونوں ہاتھ اٹھاتے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا اور خود لیپ ٹاپ لینے پچھلی طرف آئی۔

"اچھا داؤد! خیال سے جانا گھر ! میں ذرا اسے چائے بنادوں۔۔تم سے پھر بات ہوگی ۔۔"

"خیال رکھنا اپنا سیام ! اور روفائیل کا موڈ خراب ہو تو زیادہ بات نہ کرنا ۔۔ورنہ اپنا موڈ خراب کرلوگی۔۔" داؤد نے ہدایت کی۔

"ٹھیک ہے فکر مت کرو ۔۔" اس نے سامنے نظر آتے داؤد کے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور پھر رابطہ منقطع ہوگیا۔

"تم نے کھانا کھایا ہے ؟" اسے باورچی خانے کی میز کے گرد بیٹھتے دیکھ سیام نے پوچھا اور پھر فریج کی طرف بڑھتے دودھ نکالا۔

"نہیں ۔۔"

"تو پہلے کھانا گرم کردوں ؟" سیام نے یوں ہی فکر کے تحت پوچھ لیا۔

"مہربانی ہوگی ۔۔" روفائیل فون کی اسکرین کو دیکھتے کہا۔ جس پر سیام نے سرہلاتے دوبارہ فریج کا رخ کیا۔

"کیا کھاؤگے ؟بریانی بھی پڑی ہے ۔۔دال گوشت بھی رکھا ہے اور شام کو دانیال لوگوں کے گھر سے قورمہ آیا تھا ۔۔

"بریانی رہنے دو ۔۔ دال گوشت اور قورمہ گرم کردو۔۔روٹی ہے؟"

"وہ تو نہیں ہے ۔۔" سیام کو فوراً خیال آیا۔

"بنادیتی ہوں آٹا رکھا ہے ۔۔"

"نہیں رہنے دو تم یہ گرم کرو میں باہر سے نان لے آتا ہوں ۔۔جلی ہوئی بنادوگی کھانے کا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔۔"

"واہ نخرے تو دیکھو جناب کے ۔۔" سیام نے اسے گھورتے سالن گرم ہونے کو رکھا روفائیل ان سنی کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔اسے گئے دو منٹ ہی ہوئے تھے جب منیزہ بیگم وہاں آئیں۔

"روفی آگیا ؟"

"جی آگیا ۔۔ہوٹل سے نان لینے گیا ہے ۔۔میں نے کہا تھا روٹی بنادوں لیکن کہ رہے تھے کہ جلی ہوئی روٹی نہیں کھانی محترم کو"سیام نے جلے ہوئے انداز میں کہا تو وہ ہنس دیں۔

"اچھا چلو ٹھیک ہے ۔۔تمہارے سامنے تو کھا لیتا ہے باقی ہمیں تو یہی ظاہر کرواتا ہے کہ محترم بھوک ہڑتال پر ہے"

"بھوک ہڑتال اور روفائیل ؟ اس کی تو شروع سے عادت ہے ۔۔گھر میں لڑکر گھر میں کسی کے سامنے کھانا نہیں کھاتا تھا یا باہر کھالیا یا گھر میں چھپ کے سب سے نظریں بچا کر ۔۔" سیام نے ہنستے ہوئے کہا۔

"چلو پھر تم سمیٹ لینا اور کھانا دوبارہ فریزر میں رکھ دینا ۔۔باورچی کھانے کی بتی بھی بجھا دینا ۔۔"

"جی میں کرلوں گی  ۔۔" وہ فرمانبرداری سے کہتی دوبارہ چولہے کی طرف متوجہ ہوئی۔منیزہ خاتون کے جاتے ہی کچھ دیر بعد وہ نان لیے لوٹا تو سیام نے میز پر کھانا لگادیا اور خود چائے بنانے لگی۔

"ویسے تم تھے کہاں ؟"

"یہیں تھا باہر عمیر کے ساتھ ۔۔"

"تمہاری ممی پریشان ہورہی تھیں ۔۔"سیام نے بتانا ضروری سمجھا۔

"اور تمہیں چوکیداری پر بٹھادیا ہوگا ناں کہ روفائیل آئے تو بتانا یا کھانے کا پوچھ لینا ۔۔اب تم کہہ مت دینا کہ میں نے کھانا کھایا ہے۔۔"روفائیل نے اسے ہدایت دی جس پر سیام نے آنکھیں چڑھاتے کاندھے اچکائے۔

"خیر ایسا تو کچھ نہیں کہا تھا انھوں نے ۔۔میں تو ویسے ہی جاگ رہی تھی کہ کل چھٹی ہے ۔۔"سیام نے کہا۔روفائیل نے کوئی جواب نہ دیا۔جب تک اس نے کھانا کھایا چائے بھی تیار تھی جو سیام نے اس کے سامنے رکھی خود برتن سمیٹنے لگی۔

"کھانا کھا کر یہ برتن وغیرہ  دھو لینا اور لائٹ آف کردینا۔۔"

اس سے پہلے کہ روفائیل کوئی اعتراض کرتا سیام نے مزید کہا۔

"ورنہ صبح تمہاری ممی کو فوراً پتا چل جائے گا کہ رات کو یہاں تم نے بیٹھ کر کھانا نوش فرمایا ہے ۔۔ساتھ میں چائے بھی ۔۔" سیام نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر روفائیل نے سر جھٹک دیا۔

"ہاں ہاں !ٹھیک ہے کرلوں گا ۔۔"

"Good Boy!"

سیام انگھوٹھا اٹھا کر اسے شاباش دیتی باورچی خانے سے نکل گئی۔

 

 

 

 

 

                       ********

لندن کی فضاؤں میں آج کی  پرخزاں صبح کا آغاز گلابی پھو پھوٹنے سے ہوا تھا۔خنک ہوائیں پر لطف ہونے کے ساتھ ساتھ مزاج پر بھی سبک دوشی کا احساس پیدا کررہی تھیں۔وہ ابھی انگڑائی لیتا گلاس وال کے پردے ہٹاہی رہا تھا جب نیچھے فلورا میں گیٹ کے پاس بینچ پر بیٹھی دکھائی دی۔داؤد نے اونگھتے ہوئے پلٹ کر قریب رکھے کلینڈر کو دیکھا۔یقیناً چھٹی کا دن تھا۔

فون اٹھا کر چیک کیا تو فلورا کے ان گنت میسج دکھائی دیے۔

"اوہ ! آج فلورا کی ماں کا جنم دن ہے ۔۔" اس نے فوراً سر پر ہاتھ مارا اور فون ملانے لگا۔

"فلورا ! تم باہر کیوں کھڑی ہو؟ اندر آجاتی ۔۔"

"تم بس جلدی آجاؤ! ناشتہ میں لے کر آئی ہوں ۔۔ہمیں آج بہت زیادہ کام ہے ۔۔بالکل وقت نہیں ہے۔۔" اس نے ایک ہی سانس میں یہ جملے ادا کیے۔ داؤد اس کی جلد بازی پر بوکھلاسا گیا۔

"سانس لو بہن!"

"بہن؟بکواس صبح صبح ! میں تمہاری بہن نہیں ہوں ۔۔"

"آہ! اب پھر مت شروع ہوجانا ! ابھی تو میرا دماغ ٹھیک طرح سے بیدار بھی نہیں ہوا اور تم اسے چوسنے  لگ گئی ۔۔" داؤد نے بیزاری سے کہہ کر فون بند کیا اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔اتوار کا دن تھا تو یقیناً محترم گلاب خان اپنی لگے بندھے معمول کے تحت کرسٹینا کے ساتھ ہی وقت گزار رہا ہوگا۔داؤد نے سوچتے ہوئے اپنے لیے سفید کارڈیگن کا انتخاب کیا ساتھ ہی نہایت ہی ہلکا گلابی جھلک دیتی جینز کو اٹھایا اور غسل خانے میں داخل ہوگیا۔

اگلے پندرہ منٹ میں وہ اور فلورا کینسنگھٹن کی سڑک پر تیز قدموں سے چل رہے تھے۔فلورا نے سیاہ ویسٹ ذیب تن کر رکھی تھی۔سنہرے بالوں کی اونچی پونی اس قدر سخت تھی کہ ماتھا کھنچ سا گیا تھا۔اس کے متعلق داؤد کو اکثر تحفظات رہتے کہ تمہارا سر درد نہیں کرتا ؟ لیکن شاید وہ اب اس پونی ٹیل کی عادی تھی۔

"دعا کرنا کہ آج لیونارڈ گھونچوں شراب پی کر گھر نہ آئے !بلکہ آئے ہی نہ ۔۔ منہوس مارا!" فلورا نے دونوں ہاتھ اٹھاتے دعا کی تھی جس پر داؤد نے سرہلایا۔

"یہ تم اپنا سینڈوچ کیوں نہیں کھارہے ؟کیا کہیں اچھی جگہ ناشتہ کروگے؟"

"تم جس تیزی سے چلارہی ہو ایسے میں سینڈوچ پیٹ میں کیسے جائے گا ؟یہی سوچ کر نہیں کھارہا ۔۔" داؤد نے بے چارگی سے کہا تو وہ ہنس دی۔

"میٹرو پکڑنی ہے ہمیں ۔۔ڈاؤن ٹاؤن والی مارکیٹ میں اسپرنگ سیل لگی ہے ۔۔کینڈرا اسکاٹ سے مام کے لیے ایک خوبصورت نیکلیس لینا ہے جس کے لیے میں نے پورا سال پیسے جمع کیے ہیں۔۔" وہ پرجوش اور خوش نظر آرہی تھی۔داؤد مسکرایا۔

"آنٹی رینا بہت خوش ہوں گی ۔۔"داؤد نے کہا۔

"یقیناً!" وہ دونوں مٹھیاں بھینچ کر ذرا سا اچھلی یہ اس کا اشتیاق ظاہر کرنے کا اپنا الگ انداز تھا۔

"تم میرے ساتھ میرے گھر چلوگے ؟ تم نے پچھلی دفعہ جو بادام والا کیک بنایا تھا ؟ "

"ایک منٹ ؟ کیک بنانے والی بات کب ہوئی ؟میں صرف سجاوٹ میں مدد کرنے والا تھا ؟"داؤد نے اسے آنکھیں دکھائیں۔

"کیا تم میرے اچھے دوست نہیں؟ دیکھو ویسے بھی تو چھٹی کا دن ہے میں اور سائمن ہیں ناں۔۔ مدد کریں گے تمہاری !" اس نے اپنے خالہ زاد کا ذکر کیا۔

"مام آنٹ نیتا کے ساتھ ٹاؤن شپ سے باہر گئیں ہیں ان کے آنے سے پہلے ہمیں سب تیار کرنا ہے اور ۔۔"

"ٹھیک ہے ٹھیک ہے !" اس نے دونوں ہاتھ اٹھائے۔یہ داؤد کی طرف سے کم بولنے کا اشارہ تھا۔جس پر فلورا نے دونوں ابرو ایک ساتھ اچکا کر سرہلایا۔

"ٹھیک ہے میں زیادہ نہیں بولتی ۔۔لیکن پلیز تم میری مدد کررہے ہو آج کا پورا دن ہمارے ساتھ رہوگے ۔۔" وہ قطعیت سے بولی۔

"ویسے کل رات تم مون برج کے پاس کیا کررہے تھے ؟یقیناً سیام سے بات کررہے تھے ؟ ایک تو تمہاری یہ لانگ ڈسٹینس ڈیٹنگ فینٹسی ۔۔"

"What do you mean by long distance dating fantasy?Don't make things  Weird!"

"تو کیا غلط ہے ؟تم اس کی محبت میں یہاں یہاں تک ڈوبے ہوئے ہو ۔۔" اس نے اپنے قد سے اوپر ہاتھ لے جاکر کہا۔

"اس کو لندن کی ہر خوبصورت جگہ جاکر ویڈیو کال کرتے ہو پھر اس جگہ کے حسن کو اپنے شاعرانہ انداز میں بیان کرتے ہو ۔۔کسی قدیم رومانوی داستان کے کرداروں جیسے ۔۔"

"ہم بچپن کے دوست ہیں اور وہ اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں سوچتی اس لیے ہمارا تعلق ابھی اس نہج پر نہیں کہ تم ایسی باتیں کرو۔۔" داؤد نے سرخ پڑتے چہرے کی خفت مٹانے کی خاطر کہا۔

"شاید یہی وجہ ہے کہ تم شرم سا لال ہورہے ہو ۔۔" وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔

"ویسے تم اسے لندن آنے کی دعوت کیوں نہیں دیتے ؟"

"اگلے ماہ میں خود ہی پاکستان جارہا ہوں تو ۔۔"

"ایک منٹ سیمسٹر بریک میں تم پاکستان جارہے ہو ؟کتنے دن کے لیے؟"

"پورے دو ماہ کے لیے!"داؤد کی آنکھیں جہاں انوکھی چمک سے لبریز تھیں وہیں فلورا کو سانس لیتے دشواری محسوس ہوئی اس کا چہرہ بجھ سا گیا تھا۔اس کے بعد داؤد نے اپنے فون پر مصروف ہوتے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔میٹرو میں سوار ہونے سے ویسٹ فیلڈ تک پہنچتے وہ مختلف مناظر میں کھوئی رہی لیکن داؤد کو مخاطب نہ کیا۔میٹرو کے رکتے وہ دونوں مختلف گاڑیوں کو ہاتھ کے اشاروں سے روکتے سڑک پار کرتے دوسری طرف آئے جہاں پیدل چلنے والوں کا رش تھا۔اتوار کی صبح تھی ہر طرف چہل پہل نظر آرہی تھی۔مختلف اسٹالز پر رش دکانیں، چھوٹے بڑے کیفے اور ریستوران میں بھی لوگوں کی کمی نہیں تھی۔

"لندن شہر کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ یہ ہمیں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتا !" داؤد نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے تبصرہ کیا تھا۔

"بالکل ! یہاں کے لوگ بھی ایسے ہی ہیں ۔۔" فلورا مسکرائی۔

"غلط نہیں کہہ رہی ہو ۔۔" ویسٹ فیلڈ کے قریب پہنچتے اس نے تائید کی۔

"لگتا ہے پورا شہر یہیں آ پہنچا ہے ۔۔" فلورا نے الصبح اتنا رش دیکھتے  ہوئے ناک چڑھائی۔اندر داخل ہوتے ہی ہر طرف مختلف آوٹ لٹس اور دکانیں تھیں۔دو منزلوں پر مشتمل یہ وسیع خریداری کا مرکز کینسنگھٹن کے چند مشہور مالز میں سے ایک تھا۔ہیلوین کی آمد آمد تھی اس کے لیے مرکزی ہال میں ہر طرف میٹھے نارنجی کدؤ دکھائی دے رہے تھے۔کاسٹیوم کی دکانوں میں زیادہ رش تھا۔سیل لگنے کی وجہ سے جیسے پورا شہر

 وہیں امڈ آیا تھا لیکن ایسی دھکا مکی کا عالم نہ تھا جو پاکستان میں برانڈز کی سیل کے دوران ہوتا تھا۔

"ویسے تم اس روز اپنے پاکستانی دوستوں کے لیے مردانہ گھڑیاں خریدنے کی بات کررہے تھے ؟ سیل کا فائدہ اٹھا لو ۔۔"فلورا نے مفت کا مشورہ نوازا جس پر داؤد نے سرہلایا۔

"سامنے ہی ہیری ونسٹن ہے ۔۔چلو وہیں چلیں ۔۔"

"وہاں ؟ ایک چھوٹی انگوٹھی بھی بارہ ہزار ڈالر سے کم میں نہیں ملے گی۔۔" اس نے آنکھیں پھیلاتے کہا۔

"لیکن تمہاری خیر ہے تم افورڈ کرسکتے ہو ۔۔پچھلی دفعہ بھی تم نے سیام کے لیے یہیں سے بریسلٹ لیا تھا ناں ؟" فلورا نے سوال پوچھا۔

"کیا اسے پسند آیا ؟"

"میں نے ابھی تک اسے دیا نہیں ۔۔"

"اچھا ! کیوں؟" فلورا ہنس پڑی۔

"کہیں تمہارا دل تو نہیں کانپ رہا کہ اتنا مہنگا تحفہ دینے کے باوجود بھی کہیں بعد میں تمہیں وہ نہ ملی تو ؟"

داؤد کا سارا خون نچڑ کر چہرے پر سمٹا اس نے جیسے تڑپ کر فلورا کی طرف دیکھا تھا۔دل کی حالت ایسی بگڑی کے اس کا سارا موڈ ایک پل میں بگڑ گیا تھا۔ابرو بھنچ گئے تھے اور چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔

"مجھے معاف کردو داؤد! مجھے یہ الفاظ نہیں کہنے چاہیے تھے ۔" فلورا کو فوراً ہی معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔

"کوئی بات نہیں ۔۔کیا تمہیں اپنی ماں کے لیے تحفہ نہیں لینا؟ وقت ضائع ہورہا ہے ۔۔ جلدی کرو ۔۔" اس نے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔

"تم۔۔"

"میں بعد میں واپسی میں دیکھ لوں گا پہلے تم لے لو ۔۔" اس نے سنجیدگی سے کہا تو فلورا سرہلاتی آگے بڑھنے لگی۔

"داؤد پُرسکون ہوجاؤ! وہ صرف ایک مفروضانہ تبصرہ تھا جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ۔۔سیام صرف تمہیں ہی ملے گی۔۔ وہ صرف تمہاری ہے۔۔تمہاری محبت کا طلسم اسے کبھی کسی اور کو نہیں سونپے گا۔سیام خان صرف داؤد آفندی کی ہے۔صرف اسی کے لیے ۔۔" وہ گہری سانسیں لیتا خود کو باور کروا رہا تھا لیکن دل تو اسی جملے کی بدصورتی پر خفا سا پوری طرح بوجھل تھا۔

"کیا ہوسکتا ہے ایسا کہ سیام داؤد خان کے نصیب میں نہ ہو ؟وہ تو اس کے دل کہ بہت پرانی اور نایاب خواہش ہے۔۔" اندر سے کوئی بولا۔

                         ********

خان منزل کی عقبی چھت سے سورج کی سنہری کرنیں پھوٹتی منظر میں سونا بھر رہی تھیں۔پرندے معلوم سے بڑھ کر پرجوش ایک سے دوسرے درخت پر جاکر اٹھکیلیاں کررہے تھے۔دھوپ ٹھیک سے نہیں نکلی تھی اس لیے فضا میں بھی خنکی کا اثر تھا۔ڈائننگ روم کی ساری کرسیاں بھری تھیں مطلب تمام افراد خانہ ناشتے پر موجود دن کی شروعات کے لیے تیار تھے۔روفائیل خود سے تو نہ آیا تھا لیکن بلانے پر تنے تاثرات لیے میز پر آ بیٹھا تھا۔راحم خان بڑی ہی کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

"لاڈلے کے تو مزاج ہی نہیں ملتے آج کل ! دفتر کا چکر تو دور  وہاں سے گزرنے کی زحمت تک نہ کی۔۔"انداز سخت نہ تھا مگر تاسف بھرا ضرور تھا۔روفائیل پہلو بدل کر رہ گیا۔دادو نے ایک تیز نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی۔

"لاڈ پیار کا شاید یہی صلہ لکھا تھا نصیب میں تمہارے راحم !ایک ہی بیٹا وہ بھی ہاتھ سے نکلا جارہا ہے ۔۔"

سیام نے دادو کی تلخی پر روفائیل کے چہرے کی خفگی جو بڑھتے دیکھا تھا۔

"میں نے تو کتنا ہی سمجھایا !" منیزہ خاتون نے آہستہ آواز میں کہا ۔

"ناشتہ کرنے دیں اسے ۔۔ پھر ہوتی رہیں گی یہ  باتیں تو ۔۔" ردابہ خاتون نے اس کی خالی پلیٹ کو دیکھتے کہا تو میز پر خاموشی چھاگئی۔روفائیل نے نگاہیں اٹھا کر متشکر انداز میں چاچی کو دیکھا۔

"بیٹا تم یہ پراٹھہ لو ۔۔ امشل روفی کو چائے نکال دو ۔۔" وہ بہو کو ہدایت دیتی خود بھی چائے پینے لگیں۔

"ہم تو اس کی بھلائی کا کہتے ہیں ۔۔"

"جی امی جان ! لیکن ابھی اتنا بھی بڑا نہیں ہوا روفائیل ! وقت رہتے سمجھ جائے گا ۔۔" ردابہ خاتون نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے خاموش ہونے کی التجا کی۔ کچھ دیر میں ہی روفائیل اور سیام ناشتہ کرکے میڈ سے اٹھنے لگے۔

"یونیورسٹی کے لیے نکل رہی ہوں ۔۔"

"اللّٰہ اپنی امان میں رکھے ۔۔ روفائیل اسے واپسی میں ساتھ ہی لانا اسے چھوڑ کر کہیں اور مت نکل جانا ۔۔" دائم خان نے ہدایت کی۔

"ٹھیک ہے چاچو !" وہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا۔سیام اس کے پیچھے لپکی تھی۔

"آپ لوگ بھی حد کرتے ہیں ۔جوان جہان لڑکا ہے۔۔روز روز کی روک ٹوک اسے باغی کردے گی ۔۔آہستہ آہستہ وہ ان چیزوں کو سمجھ لے گا اسے تھوڑا وقت دیں ۔۔"

"میں تو سوچ رہی ہوں سیام اور روفائیل کی منگنی کردی جائے ۔۔" دادو کی بات پر میز پر بیٹھے سب نفوس یک دم چونکے تھے۔امشل نے بے اختیار اپنی ساس یعنی ردابہ خاتون کو دیکھا جو یک دم ہی چپ سی ہوئی تھیں۔دائم خان بھی بیوی کو دیکھنے لگے۔بچپن میں کبھی کسی موقعے پر یہ بات اٹھائی گئی تھی لیکن وہ سالوں پہلے کی بات تھی پھر دوبارہ کبھی اس موضوع کو نہیں چھیڑا گیا تھا اور آج اچانک یہ ذکر !سب ہی چونک سے گئے تھے۔ہر ایک پر سوچ کا نیا پہلو اجاگر ہوا تھا۔

"ایسے کیا سانپ سونگھ گیا ہے سب کو ۔۔یہ تو سالوں سے طے ہے ناں ؟" وہ باری باری سب کی طرف دیکھتی پوچھنے لگیں۔

"وہ تو ٹھیک ہے لیکن یوں اچانک ؟" راحم اور دائم خان ایک ساتھ گویا ہوئے

"اچانک اس لیے کہ روفائیل کے بہکتے قدموں کو یہ اندازہ ہوسکے کہ ماہ رنگ اس کا مستقبل نہیں ۔۔وہ بچی ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔۔ خودسری اور بگاڑ کا یہ عالم کہ ہر موبائل اسکرین پر اس کے حسن کے جلوے بکھرے نظر آرہے ہیں ۔۔بھلا وہ اس گھر میں بہو بن کر آسکتی ہے؟"

"یہ تو ہم بھی نہیں چاہتے !اس کا ماحول اور سوچ ہمارے گھر کی روایات آپس میں کہاں میل کھاتی ہیں۔۔" ردابہ خاتون نے کہا۔

"مگر بچے ابھی اتنے بڑے بھی نہیں ہوئے ۔۔"

"بہو میں کون سا نکاح کروانے کا کہہ رہی ہوں ۔۔منگنی ہے رسم ہے ذرا سی بس ! تاکہ احساس ہو انھیں اچھے برے جوڑ کا ! روفائیل سمجھے اس چیز کو ۔۔"

"اور سیام ؟" زوریز شاید وہ پہلا فرد تھا جسے لڑکی کی مرضی اور خوشی کا خیال آیا تھا۔

"کیا سیام ؟ وہ تو بہت ہی سمجھدار اور دانا لڑکی ہے اسے بھلا کیا اعتراض ہوگا ۔۔"

"لیکن ہمیں اس کی مرضی اور سوچ کو بھی تو مدِنظر رکھنا ہوگا ناں دادو!"زوریز نے لہجے کو حتیٰ الامکان نرم رکھا تھا۔ورنہ اسے جانے کیوں محسوس ہورہا تھا کہ اس کی لاڈلی چھوٹی بہن کو قربانی کا بکرا نہ بنالیا جائے۔

"تو پوچھ لیں گے ہم رضا مندی جان لیں گے ؟اور کسی کو کوئی اعتراض ہے کیا ؟" وہ پھر سب کی طرف رائے مانگتی نظروں سے دیکھنے لگیں۔

"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔۔" دائم خان نے کہتے ہوئے اپنے بڑے بھائی کی طرف دیکھا جیسے ان کے تاثرات جاننا چاہ رہے ہوں۔

"دیکھ لیں گے ابھی تو فقط ایک خیال ظاہر کیا ہے کرتے ہیں ایک دو ماہ میں ۔۔تب تک تم لوگ بچوں کی ذہن سازی بھی کرلو ۔۔تاکہ کل کو کوئی نئی بات نہ ہو ۔۔" وہ فیصلہ سناتیں وہاں سے اٹھ گئیں۔

                **************

٭٭٭

فاطمہ نیازی  کے سلسلہ وار ناول کی اگلی قسط انشاء اللہ جلد

مصنفہ کی دیگر تحریریں پڑھنے کے لیئے ناولز حب  ویب سائٹ وزٹ کریں


   
Quote
Topic Tags
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?