Share:
Notifications
Clear all

Dasht e Junon k Sodai Episode 2

1 Posts
1 Users
0 Reactions
274 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

زیارت کی خوبصورتی کسی ایسے چراغ کی مانند تھی جس کے گرد چمکتی روشنی نے ہالہ کر رکھا ہو۔سوندھی نم سی مہک جو روح میں اترتی محسوس ہوتی تھی۔ڈھلوانی راستے جن پر چلنے کی دشواری محسوس ہی نہ ہوتی تھی،ہوتی بھی کیوں یہاں کے دلکش نظاروں نے وہاں آنے والوں کو اپنے طلسم میں قید جو کر رکھا تھا کہ وہاں تک پہنچنے کی تھکن راستوں کی کٹھن اتار چڑھاؤ بھی حسین لگنے لگتے تھے۔وہ سب ایک ہی ٹولے کی صورت میں نکلے تھے لیکن آگے چلتے چلتے وہ سب دو دو کی جوڑیوں میں بٹ گئے تھے۔نہال کے ہاتھ میں کیمرہ تھا۔

"تو دوستوں ہم آج نکلے ہیں زیارت کی سیر پر مسٹر روز کے ہمراہ ! اگر ان کا نام گلاب خان نہ ہوتا تو میں انھیں پہلی نظر میں دیکھنے پر ہالی وڈ کا ہیرو ہی سمجھتا۔۔" اس نے کیمرے کا رخ اب کے گلاب خان کی طرف کیا۔

"گلاب خان ! ماڑا کیا کرتا ہے ۔۔سلام تو کرو ۔۔"

گلاب خان نے اس کے کہنے پر کیمرے کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔

"گلاب خان تمہاری ایک تصویر لوں گا اور اسے تھمپ نیل پر لگاؤں گا ۔۔"

"تھپ نیل؟  وہ کیا ہوتا ہے ؟" گلاب خان اب کے رخ موڑے سوال کرتا ہے۔

"وہ ویڈیو کا کور ہوتا ہے ۔۔ جب ہم یوٹیوب میں اپنی ویڈیو ڈالتے ہیں تو اس کے لیے ایک کور چاہیے ہوتا ہے جسے دیکھ کر لوگ آپ کی ویڈیو کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔۔"

"اور تم اس کے لیے گلاب خان کی خوبصورتی کا استعمال کروگے ؟" روفائیل نے ہنستے ہوئے کہا۔اس کی بات پر گلاب خان کسی گلاب کی مانند سرخ پڑا تھا۔

"تمہیں لگتا ہے تمہاری فضول گوئی کو لوگ ایک اچھا ولاگ سمجھ کر دیکھیں گے ؟"

"کیا تمہیں نہیں پتا میری پچھلی ویڈیوز ساری ایک ایک ہزار سے زیادہ دفعہ دیکھی جاچکیں۔۔" نہال نے بے نیازی سے کہا۔

"اور ویسے بھی ! کوئی دیکھے نہ دیکھے ! آج سے کئی سال بعد جب ہم زندگی میں الگ راہوں پر ہوں گے تو ایک جگہ ہوگی جہاں ہماری یادیں محفوظ ہوں گی ؟"نہال نے اپنی سوچ پر جیسے فخر کیا ہو۔

"اور وہ تمہارا یوٹیوب چینل ہوگا۔۔" عمیر نے کہا۔

"ظاہر ہے ! داؤد تو ہماری زندگی کو اپنی کتاب کا حصہ تو نہیں بنائے گا ۔۔" نہال نے پیچھے کھڑے داؤد کی طرف دیکھتے کہا۔

"ویسے تم جو کتاب لکھ رہے ہو اس کا موضوع کیا ہے؟" عمیر نے اچانک ہی سوال کرتے داؤد کو غیر آرام دہ کیا تھا۔

"وہ ایک کتاب نہیں ہے ابھی!" اس نے جھینپ کر وضاحت کی۔

"لیکن کبھی تو ہوگی ؟جتنا تم لکھتے ہو اس حساب سے تو تمہاری کئی کتابیں ہونی چاہیے تھیں۔۔ویسے تم ہمیں اپنا لکھا کیوں نہیں پڑھاتے ؟" روفائیل نے پوری سنجیدگی سے سوال کیا تھا۔

"کیوں کہ اسے میں ابھی خود بھی نہیں پڑھ پاتا ۔۔صرف الجھے خیالات ہیں جنھیں میں کاغذ پر قید کرتا ہوں ۔۔" وہ مسکرایا۔دائیں گال کا کھدا گہرا ہوا۔

"ایسا کیا ہے اس میں ؟" ماہ رنگ نے سینے پر ہاتھ باندھتے پوچھا۔داؤد کی نگاہ بے اختیار سیام کی طرف اٹھ کر جھکی وہ کئی پل سوچتا رہا۔

"یا وہ ایک بے لمبا تھکا دینے والا راستہ ہے ۔۔ یا ایک بہت خوبصورت منزل !" داؤد نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔سیام اسے دیکھتی رہی۔

"چلیں اب آگے بڑھتے ہیں ۔۔" داؤد نے سب کی توجہ اپنی طرف دیکھی تو ان کا دھیان بٹانے کی خاطر کہا۔

"تم نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟" سیام نے داؤد کی طرف متوجہ تھی۔جانے کیوں اس نے یہ سوال کیا تھا ؟ داؤد اس کے سوال پر سوچ میں پڑنے لگا۔

"میرا مطلب ہے کہ کیا تم ایک رائٹر بننا چاہتے ہو ؟" سیام نے اسے الجھن میں گھرا دیکھا تو سوال کو مزید واضح کیا۔

"میں ایک مشہور مصنف بنوں جس کی کتابوں کو لاکھوں لوگ پڑھیں ۔۔میں نے ایسا تو کوئی خواب نہیں دیکھا ۔۔ میں اس لیے لکھتا ہوں کیوں کہ مجھے لکھتے ہوئے اپنا آپ پر سکون لگتا ہے ۔۔"

"تم مجھے اپنی کہانیاں کب پڑھاؤ گے ؟" سیام نے پوچھا۔داؤد کے قدم ڈگمگائے تھے اس نے گردن گھماکر اس کا چہرہ دیکھا۔ کہانی کا مرکزی کردار ہی تم ہو۔کہانی کے ہر صفحے پر تم ہو۔تم خود کو پڑھ کر کیا کروگی ؟

"اچھا بابا ! نہ پڑھاؤ! ایسے تو نہ دیکھو جیسے میں نے تم سے جائیداد میں حصہ مانگ لیا ہو ۔۔" سیام اس کے کاندھے پر دھپ لگاتی ہنس پڑی۔داؤد کا چہرہ سرخ پڑا وہ نظریں چرا کر ہنس دیا تھا۔

"یہاں قریب ہی چیری کے باغات ہیں ۔میں آپ سب کو وہاں لے کر جاؤں گا ۔۔" گلاب خان نے ان کو مطلع کیا۔اس کی بات پر سب گلاب خان کی جانب متوجہ ہوئے۔

"وہ باغ کس کے ہیں ؟"

"کیا ہمیں چیری کھانے کو ملے گی ؟" نہال نے اپنے کیمرے کا رخ گلاب خان کی طرف موڑا۔

"ہاں چیخ چیخ کے سب کو بتا دو کہ تم کتنے ندیدے ہو ۔۔"ماہ رنگ نے اس کی بلند آواز پر چڑ کر کہا۔

"تم ہمیشہ ہماری بے عزتی کرواتے ہو ۔۔" مزید سیخ پا ہوتے اس نے نہال پر چڑھ دوڑنے کا فیصلہ کیا۔

"تمہاری وجہ سے ہر جگہ ہماری ناک کٹتی ہے ۔۔"اب کہ تو اس نے نہال کو اپنی آنکھوں سے نگلنے کا ارادہ ہی کرلیا تھا۔

"تو دیکھ رہے ہیں آپ ناظرین ؟ جس کو اپنا کرش کہہ کر آپ لوگ پسند کرتے ہیں اس کا اصل چہرہ ! " نہال نے موقع کا فائدہ اٹھاتے کیمرہ ماہ رنگ کے سامنے کیا۔

عمیر اور دانیال اپنی مسکراہٹ چھپاتے دکھائی دیے۔

"نہال ! اسٹاپ اٹ!" روفائیل نے اسے گھور کر باز رہنے کا اشارہ کیا۔

"اگر تم نے میری یہ کلپ اپنے گھٹیا چینل پر ڈالی ناں تو میں تمہارا خون پی جاؤں گی ۔۔"

"دیکھا آپ نے ناظرین ؟ ماہ رنگ سے خون پینے والی ڈائن بننے میں ۔۔"

"آہ! نہال آہ! تم اب نہیں بچوگے ۔۔" ماہ رنگ نے باقاعدہ اس پر جھپٹنے کی کوشش کی۔

"ارے ارے ! بس کرو ۔۔ " سیام نے فوراً بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی۔

"انھیں روکو ناں! آتے جاتے ٹورسٹ ہمیں دیکھ رہے ہیں ۔۔"دعا نے دہائی دی۔

"دیکھنے دو ! ان کا بھی انٹرٹینمنٹ ہوجانے دو ۔۔" دانیال ہنسا۔وہ لطف اندوز ہوتا مزے سے نہال کو ادھر سے ادھر اچھلتا دیکھ رہا تھا۔جبکہ ماہ رنگ غصے سے لال پیلی ہوتی اسے پکڑنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔روفائیل سے مزید صبر نہ ہوا تو بیچ میں کود کر نہال کو دبوچ ہی لیا۔

"آہا! اب مزہ آئے گا!" عمیر نے ہانک لگائی۔

داؤد سینے پر ہاتھ باندھے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔سیام نے ماہ رنگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے اس کا ہاتھ تھاما۔لیکن اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور نہال سے کیمرہ چھین لیا۔

"پکڑو اسے ذرا اور فریم میں یہ پورا منظر قید ہونا چاہیے۔۔۔" اس نے سیام کو ہدایت کی۔

"اب ذرا اس کے ولاگ میں اس کی بھی درگت۔۔بلکہ نہیں ! تم یہ میرا فون لو۔۔" اب کے ماہ رنگ ہنستی خود بھی لطف اندوز ہورہی تھی۔روفائیل نہال کو مضبوطی سے پکڑے کھڑا تھا۔

"چھوڑ دے روفی !"

"چپ کرکے کھڑا رہ!"روفائیل نے اپنا آپ چھڑانے کی کوشش کرتے نہال پر اپنی گرفت مزید سخت کی۔

"دیکھ لے!"

"لڑکی کا چکر بابو بھیا!" دانیال نے تیزی سے ہانک لگائی۔

"تم اپنے فلمی ڈائیلاگز بند کردو ورنہ تمہاری بھی شامت آ جائے گی ۔۔آج ماہ رنگ پر بھوت سوار ہے ۔۔" عمیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"چھوٹے خان ! آپ یہ شیطان کا ٹولہ کہاں سے لایا ہے ؟ کیا کراچی کا عوام ایسا پاگل ہے ؟" گلاب خان نے ہنستے ہوئے دونوں ہاتھوں سے ان کی طرف اشارہ کیا۔

"اب میں آپ کو کیا بتاؤں گلاب خان !میرے دوست بس ایسے ہی ہیں۔۔" وہ خود بھی ہنس دیا۔اس کے گال پر پڑھتے کھدے اس پل مزید گہرے ہوتے اس کے چہرے کی خوبصورتی کو بڑھا گئے تھے۔

سامنے ہنوز دھینگا مشتی کا منظر تھا۔سیام خود بھی اب ان میں جاملی تھی۔سب ہنستے مسکراتے چہرے لیے زندگی کے اس پل میں موجزن تھے۔ان کے درمیان یوں ہی چلتا تھا۔کسی ایک سے شروع ہونے والی شرارت چلتے چلتے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی اور پھر سب ہی اس میں اپنا اپنا کردار نبھاتے نظر آتے تھے۔

٭٭٭

وہ سب چلتے چلتے باتیں کرتے ہنستے مسکراتے چیری کے باغات تک آ پہنچے۔پہنچتے ساتھ ہی نہال نے اپنا کیمرہ پھر ریکارڈنگ پر لگا دیا۔

"یہ پھر شروع ہوگیا ۔۔" روفائیل بڑبڑایا۔

"یہ کیسی چیری ہے ؟کچی ہیں کیا؟ "عمیر نے درخت پر لگی چیری کو دیکھتے سوال کیا۔

"نہیں ! پکی ہوئی ہیں۔۔یہ چیری کی ایک قسم ہے۔۔اس کا نام رینئیر ہے۔۔کھا کر دیکھو ۔۔" داؤد نے ہاتھ بڑھا کر کچھ چیریاں توڑیں۔عمیر نے چیری منہ میں رکھی اور ستائشی انداز میں گردن ہلانے لگا۔

"واقعی ہے تو میٹھی !"

"تو دوستوں ! ہم نے ابھی یہاں چیری کی نئی قسم دریافت کی ہے ۔۔"

"توبہ ہے ! تم نے کہاں سے دریافت کرلی ۔۔بڑے آئے ۔

کرسٹوفر کولمبس!" ماہ رنگ ہنستے ہوئے اس کا مذاق اڑانے لگی۔

"وہ سب چیریاں توڑ کر کھا رہے تھے۔۔"

داؤد نے سیام کو یوں ہی کھڑا دیکھا تو اس کے لیے چیریاں توڑنے لگا۔پھر لاکر اس کے سامنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔

"شکریہ !" سیام نے مسکراتے ہوئے ایک چیری اٹھائی۔

"ساری تمہارے لیے ہیں۔۔" داؤد نے اسے ہاتھ آگے کرنے کا اشارہ کیا۔

"تم نہیں کھاؤگے ۔۔" سیام نے اپنی مٹھیاں بھرتے ہوئے سوال کیا۔جس پر داؤد نے نفی میں گردن ہلائی۔

"ویسے میں سوچ رہا ہوں کہیں پر باربی کیو پلان کرتے ہیں ۔۔ یہاں بہت اچھی اچھی جگہیں ہیں۔۔" دانیال نے چیری کھاکر گھٹلی نہال پر تھوک دی۔

"یہ تم کب سے مجھ پر گھٹلیاں کیوں برسارہے ہو ۔۔"

"میں تو نیچے ہی پھینک رہا ہوں ۔۔تم ہی کیمرہ لیے منہ کو آرہے ہو ۔۔" دانیال نے کاندھے اچکاتے ایک اور گھٹلی پریشر سے اس کی طرف پھینکی۔نہال کی تیوری چڑھی

"بتاؤ بھئی سب ! باربی کیوں کریں ؟"

"رات کو ؟" سیام نے سوال کیا۔

"ظاہر ہے۔۔ویسے بھی  باربی کیو دن میں کون کرتا ہے ۔۔" روفائیل نے کہا۔

"کرتے ہیں پھر !" عمیر نے رائے دی۔

"لیکن کریں گے کہاں ؟"

"چھت پر ؟"دعا نے مشورہ دیا۔

"چھت پر خاک مزہ آئے گا ؟"

"ہم بتاتا ہے ۔۔"گلاب خان نے گفتگو میں حصہ ڈالتے کہا۔

"تمہیں پتا ہے باربی کیو کیا ہوتا ہے ؟"

" ہاں ہاں ہم کو پتا ہے ۔۔گڑیا کو بولتے ہیں ناں باربی ! پھر ہوتا ہوگا کوئی گڑیوں گڈوں کا ناچ گانا ! " اس نے کہہ کر  فخریہ انداز میں گردن اکڑائی۔سب کے سب بھونچکا رہ گئے اور اگلے ہی پل وہ سب زوردار انداز میں ہنس دیے۔گلاب خان نے آنکھیں سکیڑتے ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے ان سب کو باری باری گھورا۔اس کا چہرہ سرخ پڑا۔

"آہ ! معاف کرنا گلاب خان !" داؤد نے ہنسی پر قابو پاتے کہا۔

"باربی کیو میں گوشت کو کوئلے پر سیخ لگاتے ہیں ۔۔پھر ۔۔"

"واللہ؟ کھانا پکانے کا رسم کو باربی کیو؟ ہم کیا جانیں تم شہر کا لوگ ہم کو ویسے ہی آدھا پاگل لگتا ہے ۔۔"وہ کھسیا کر ان کو پیچھے چھوڑتا آگے بڑھنے لگا۔بڑبڑاہت جاری تھی۔

"یہ تو سیدھا سیدھا ہماری ہی بے عزتی کرگیا ۔۔" روفائیل کو ہنوز ہنسی آرہی تھی۔

"اور دوستوں جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اب ہم نے باربی کیو کی نئی تعریف بھی دریافت کرلی ہے جس کے مطابق ۔۔گڑیا گڈوں کے ناچ گانے کی رسم ہوتی ہے ۔۔"

"بس بھی کرو ۔۔وہ برا مان جائے گا ۔۔" داؤد نے اس کے کاندھے پر دھپ لگائی۔

"ارے گلاب خان ! کدھر چلے ۔۔ خیر تم وہ جگہ بتا ہی سکتے ہو جہاں ہم نے یہ رسم کرنی ہے ۔۔"عمیر گلاب خان کے پیچھے لپکا۔

"نہیں ۔۔بابا جاؤ ہم نہیں جانتا ۔۔ " وہ ہاتھ جھلاتا آگے بڑھتا رہا۔وہ سب بھی عقب میں مسکراہٹیں چھپاتے چل رہے تھے۔

"کبھی ہم کو گولی بڈ کا ہیرو بولتا ہے تو کبھی ہمارا مذاق اڑاتا ہے ۔۔" وہ واقعی میں برا مانے سیدھا سیدھا چل رہا تھا

"گولی بڈ کون سی مووی ہے ؟" عمیر نے الجھے انداز میں پوچھا۔

"یقیناً وہ ہالی وڈ کہہ رہا ہے اب سب ہنسنے مت۔۔" داؤد کی بات مکمل ہوتی اس سے قبل ہی وہ سب پھر قہقہہ لگا کر ہنس دیے۔گلاب خان ان کے یوں ہنسنے پر اپنی جگہ پر رکا اور پلٹ کر ان سب کو گھورنے لگا۔

"جارہا ہے ہم ! جاؤ خود سیر کرلو اکیلے جنگلوں کی۔۔"وہ تپ کر بولا اور وہاں سے جانے لگا۔

"ارے ارے ہم تم پر تھوڑی ہنس رہے تھے ۔۔"

"ہم جانتا ہے ہم پر ہنس رہے تھے۔۔بہت پشوری کرنا آتا ہے تم شہر کے لوگوں کو ہم گاؤں والوں کا ۔۔"

"یہ تم بات کو کہاں لے جارہے ہو ؟ اس میں شہر اور گاؤں کی بات کہاں سے آئی؟" ماہ رنگ نے منہ بناکر کہا۔

جس پر گلاب خان کو مزید غصہ آنے لگا۔

"دیکھو کیسے بات کررہا ہے ہم سے ۔۔ہم جارہا ہے۔۔" وہ تلخی سے کہتا تیزی سے جانے لگا۔

"ہاں تو جاؤ دفعہ ہو جاؤ ۔۔" ماہ رنگ چڑ کر بولی۔

"پلیز ماہ رنگ؟ یہ کیا طریقہ ہے؟" داؤد کو برا لگا۔

"وہ ہم سے بڑا ہے اور ہم مذاق اپنی جگہ لیکن بدتمیزی ؟ تم ایسے کسی کو بے عزت نہیں کرسکتیں۔۔" اس کا انداز سنجیدہ تھا۔ماہ رنگ کو عادت کے مطابق اپنی غلطی کی نشاندھی بری طرح چبھی۔

"تم اب ایک ملازم کے لیے مجھے لیکچر دوگے؟" اس نے غصیلے لہجے میں کہا۔نہال نے ریکارڈنگ روکی اور ان کے پاس چلا آیا۔روفائیل نے داؤد کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔وہ نہیں چاہتا تھاکہ بات بڑھے۔

"ملازم انسان نہیں ہوتے کیا ماہ رنگ ؟" داؤد کا انداز سنجیدہ مگر دھیما ہی رہا۔لیکن آنکھوں میں دیکھیں تو ناگواری چھپی ہوئی نہ تھی۔

"تو تم دیکھ نہیں رہے تھے اتنی چھوٹی بات کا کتنا بتنگڑ بنا رہا تھا وہ ۔۔" ماہ رنگ کی آواز بلند ہونے لگی۔

"ماہ رنگ اتنا غصہ مت کرو ۔۔" سیام نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے اس کا کاندھے پر ہاتھ رکھا جسے اس نے فوراً جھٹک دیا۔

"تم تو فوراً کود پڑتی ہو اس کی حمایت میں ۔۔"

"بس کرو اب ! چلو گھر چلتے ہیں ۔۔" عمیر نے کہا۔

داؤد خفگی اور ناگواری سے ماہ رنگ کو دیکھتا وہیں سے پلٹ گیا۔وہ سب بھی اس کے پیچھے چل دیے۔

٭٭٭

ماہ گل آفندی کے سامنے وہ سب بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ماحول کی خاموشی میں معنی خیزی کا عنصر نمایاں تھا۔قریب ہی گلاب خان بھی موجود تھا۔

"مذاق کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔ لیکن حد چیز ایک حد میں رہتے ہوئے ہی اچھی لگتی ہے ۔۔" وہ نرمی سے کہہ رہی تھیں۔ہاتھ میں سفید موتیوں کی خوبصورت تسبیح تھی اور چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ ساتھ  متانت کا تاثر شامل تھا۔

"ہم صرف مذاق کررہے تھے ۔۔" ماہ رنگ نے آہستگی سے وضاحت کی ۔

"یہ ہی بپھر کر وہاں سے چلا آیا ۔۔ "

"اور آپ نے بدتمیزی کی ؟ " انھوں نے انداز نرم ہی رکھا۔

"مجھے غصہ آگیا تھا۔۔" وہ اب کے سرجھکاتے اپنی صفائی پیش کرنے لگی۔

"انسان  کی اصل بدصورتی اس کا غصے میں بے قابو ہوکر اپنے اخلاق کو برا کردینا ہے ۔۔انسان کا اخلاق اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔۔۔"

وہ سب خاموشی اور ادب سے ماہ گل  آفندی کی باتیں سن رہے تھے۔سب کی پوری توجہ ان پر تھی وہ سب ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔سوائے ماہ رنگ کے۔وہ اب سرجھکائے بیزار نظر آرہی تھی۔جانے کب ان کا یہ لیکچر ختم ہوگا۔ وہ سوچنے لگی

"آئیندہ خیال رکھوں گی ۔۔" ماہ رنگ نے جان چھڑانے کی خاطر کہا۔

"اور گلاب خان ! تم کب اپنی حساسیت چھوڑو گے ۔۔چھوٹی چھوٹی باتیں دل پر تھوڑی لیتے ہیں ۔۔" وہ اب کے نرمی سے گلاب خان کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں۔

"میں ذرا چینج کرلوں ۔۔" ماہ رنگ کہتی وہاں سے اٹھ گئی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

"اسے ذرا بھی فرق نہیں پڑا ہوگا ۔۔"

کچھ لمحوں بعد ماہ گل آفندی کے جانے کے بعد عمیر نے کہا۔ جس پر روفائیل نے اسے ناپسندیدگی سے دیکھا۔

"وہ معذرت کرچکی ۔۔بہتر ہوگا ہم اس موضوع کو ختم کریں۔" روفائیل نے کہا۔

"کھانا لگ گیا ہے ۔۔" تب ہی ایک ملازم نے آکر اطلاع دی۔

"چلو ڈائننگ روم میں چلتے ہیں ۔۔" داؤد نے ان سب کی طرف دیکھتے کہا تو وہ سب ایک ایک کرکے اٹھنے لگے۔

"میں ماہ رنگ کو بلا کر لاتی ہوں ۔۔" سیام کہہ کر اوپری جانب بڑھ گئی۔باقی سب کا رخ مخالف سمت میں ڈائننگ روم کی جانب تھا۔

سیام ماہ رنگ کے کمرے میں آئی تو وہ پلنگ پر اوندھے منہ پڑی اپنے فون پر مگن دکھائی دے رہی تھی۔

"تم نے ابھی تک چینج نہیں کیا؟ کھانا لگ گیا ہے سب تمہارا انتظار کررہے ہیں۔۔"سیام نے کہا۔

"میرا موڈ نہیں ۔۔" وہ لاپروائی سے بولی۔

"ایسے کیسے موڈ نہیں ۔ناشتہ کیے اتنے گھنٹے ہوچکے۔۔"

"کہا ناں بھوک نہیں ! اور ویسے کیا ملتا ہے تمہیں ہر کسی کے آگے نمبر بڑھا کر؟" ماہ رنگ اپنا فون ایک طرف رکھتی سیدھی ہوکر بیٹھی۔چہرہ پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔سیام نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

"کیا مطلب ؟"

"ویسے تو ہر معاملے میں مطلب معلوم ہوتا ہے ۔۔کب کیا کہنا ہے ۔۔کب کس کی طرف داری کرنی ہے ؟اور یہ داؤد آفندی خود کو کوئی بہت عالم فاضل سمجھتا ہے ۔۔ جب دیکھو لیکچر ۔۔جیسا خود ہے ویسی ہی اس کی دادی ! "وہ جلے ہوئے لہجے میں کہتی سیام کو گہری سانس لینے پر مجبور کرگئی۔

"تمہارا ابھی موڈ ٹھیک نہیں ہے ۔۔تم ایسا کرو فریش ہو جاؤ کھانا میں تمہارے روم میں بھجوادیتی ہوں ۔۔" سیام نے اس کی تلخ باتوں کو نظر انداز کرتے لہجہ نرم ہی رکھا۔

"ضرورت نہیں ! ایسے پیش مت آؤ جیسے تم اس بنگلے کی مالکن ہو ۔۔روم میں بھجوادیتی ہوں ۔۔" اس نے کہہ کر آخر میں اس کی نقل اتاری تھی۔

"تم سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔۔" سیام نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔

"دادی اماں کہیں کی!" ماہ رنگ نے ناک چڑھائی اور دوبارہ پلنگ پر گر کر اپنا فون استعمال کرنے لگی۔

٭٭٭    

"کیا ہوا ؟ ماہ رنگ نہیں آئی ؟" دعا نے سیام کو اکیلے آتے دیکھ پوچھا۔

"نہیں ! ابھی اسے بھوک نہیں بعد میں کھائے گی۔۔" سیام نے  کرسی گھسیٹی اور سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ان سب نے ابھی تک کھانا شروع نہیں کیا تھا۔

"دادو کھانا نہیں کھائینگی؟" سیام نے داؤد کی طرف دیکھ کر کہا۔

"وہ جلدی کھا لیتی ہیں۔" داؤد نے اسے بتایا۔

کھانے کی اشتہا انگیز خوشبوئیں ڈائننگ ہال میں پھیلی ہوئی تھیں۔

"خوشبو تو بہت زبردست آرہی ہے ۔۔کھانا کون بناتا ہے ؟"

"رحیم بابا ! گلاب خان کے والد ! ان سے پہلے کریم بابا تھے جو کہ گلاب خان کے دادا تھے۔" داؤد نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"اچھا! اس کا مطلب وہ کافی سالوں سے یہاں ہیں ۔۔"

روفائیل نے پختونی پلاؤ کا چمچ بھرتے کہا۔

"ہاں ! آغا جان یہاں آتے ہیں تو کئی کئی دن رکتے ہیں اس دوران گلاب خان ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔وہ تو پیدا بھی یہیں ہوا ہے اسی گھر میں ۔۔اور یہ فیملی ہمارے ساتھ ایسے رہتی ہے جیسے ہمارے ہی خاندان کا حصہ ہو ۔۔درمیان میں یہ ملازم یا مالک والا کوئی نظریہ نہیں۔۔٫"

"شاید اس لیے تمہیں ماہ رنگ کا بدتمیزی کرنا برا لگا۔۔"

داؤد نے اثبات میں سرہلاتے کھیرے کا ٹکرا منہ میں ڈالا۔

"ویسے تم وہاں جاکر رہوگے کہاں ؟میرا مطلب ہے لندن جاکر؟"

"یہ سب تو میں نے نہیں پوچھا ۔۔"داؤد بجھ سا گیا۔

"تم کیا بالکل بھی خوش نہیں ہو ؟" نہال نے اچھنبے کا اظہار کیا۔

"یہ ایک اچھا تجربہ رہے گا ۔۔میں افورڈ کرسکتا تو ضرور جاتا !"

"پڑھنے ؟" دانیال نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔

"تو کیا ؟" نہال نے تپ کر پوچھا۔

"پڑھنے والی تیری شکل ہوتی تو پینتیس چالیس نمبر نہ آرہے ہوتے یہاں ! وہاں تو تجھے داخلہ دیں گے بھی نہیں۔۔"

دانیال کی بات پر سب کی ہنسی چھوٹی۔

"تو خود تو جیسے سارے مضامین میں سر فہرست ہے ؟"نہال کب چپ رہنے والوں میں سے تھا۔

"پینسٹھ اور پینتیس میں فرق ہوتا ہے ۔۔" دانیال نے طنزیہ انداز میں اپنی برتری کا اظہار کہا۔

"بہت ہی بڑا فرق ہے ۔۔اور حساب میں تو میرے زیادہ ہوتے ہیں ہمیشہ !" نہال نے اپنے بچاؤ کی کوشش کی۔

"دو تین نمبر زیادہ لے کر تو کون سا تیر مار لیتا ہے۔۔"

"بس بھی کرو ۔۔کھانا کھاؤ خاموشی سے ۔۔" سیام نے ماحول کی گرمی کو بڑھتے دیکھ انھیں چپ کروایا۔

"تو رات کو باربی کیو کررہے ہیں ہم؟"داؤد نے سب کی طرف دیکھتے پوچھا۔

"ہاں ! کرتے ہیں۔۔" عمیر نے فوراً اثبات میں گردن ہلائی۔

"جگہ ؟" سیام نے پوچھا۔

"میرے پاس ہے ایک بہترین جگہ ۔۔۔" داؤد نے ان سب کی طرف دیکھتے کہا۔اس کے چہرے پر اشتیاق تھا۔یعنی  وہ ایک خوبصورت جگہ کا انتخاب کرچکا تھا۔

"کہاں پر ؟"

"گاؤں کے اس پار ایک نہر ہے ۔۔سامنے جنگل ۔۔پیچھے پہاڑ!"

"زبردست!" وہ سب یک دم پرجوش نظر آرہے تھے۔

"میں تو کھا چکا ۔۔دادو سے اجازت لے کر تم لوگوں کو بتاتا ہوں ۔۔پھر تیاری شروع کرتے ہیں۔۔" وہ نیپکن سے منہ پونچھتا اٹھ گیا۔

"منا کر ہی واپس آنا ۔۔" نہال نے پیچھے سے ہانک لگائی۔جس کا جواب داؤد نے ہاتھ ہلا کر تسلی دیتے ہوئے دیا۔

"سیام ؟ تم میری شرٹ پریس کردوگی ؟" روفائیل نے چہرے پر معصومیت سجاتے ہوئے پوچھا جس پر سیام نے ہاتھ روک ایک گہری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر سوچنے کی اداکاری کرنے لگی۔

"کیا تم نے پلیز کہا ؟"

"ہاں میں نے کہا۔۔" روفائیل نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔جس پر باقی سب مسکرائے۔

"پر مجھے سنائی نہیں دیا ۔۔"

"پلیز! سیام میری شرٹ پریس کردوگی ؟"

"آہاں ! یہ ہوئی نہ بات ! شرٹ تو کیا سارے کپڑے کردوں گی۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے سر خم دیا۔جس پر روفائیل اسے گھورتا رہ گیا۔

"تمہاری نک چڑھی مغرور کرش کو بھوک لگی ہوگی ۔۔پر وہ غصے میں میز پر نہیں آئی۔۔جاکر اسے کھانا دے دو ۔۔میں نے داؤد کے سامنے نہیں کہا کہیں اسے یہ نہ لگے کہ ماہ رنگ دادو کی باتوں سے دل برداشتہ ہوکر کھانے پر نہیں آئی۔" سیام نے روفائیل کی طرف دیکھ کر کہا۔

"اچھا !" روفائیل فقط اتنا ہی بولا اور اٹھ کر اس کے لیے ٹرے میں کھانا نکالنے لگا۔وہ سب پہلے تو خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔وہ سارے لوازمات بڑی ہی نفاست سے ٹرے پر سجارہا تھا۔

"جوروں کا غلام !" دانیال نے دانت نکوسے۔

"منہ بند رکھو۔۔جوروں کا غلام ! کون سا ہماری شادی ہوچکی ہے ۔۔" روفائیل نے تپ کر کہا۔جس پر وہ سب ہنس دیے۔روفائیل کھانے کی ٹرے لیے ڈائننگ ہال سے نکل گیا۔

"سیام کیا ہوگا تم لوگوں کا اگر ماہ رنگ کی شادی سچ میں روفی سے ہوگئی ؟"

"ہونا کیا ہے ۔۔روز نیا تماشہ ہوگا ۔۔" وہ ہنس دی اور ہاتھ صاف کرتی اٹھ گئی۔

"سیام ! تم جوتوں کے کتنے جوڑے لے کر آئی ہو؟" دعا نے اسے اٹھتے دیکھ پوچھا۔

"دو جوڑے ! کیوں کیا ہوا ؟"

"میں ایک ہی لائی تھی ۔۔اور وہ مجھے چبھ رہا ہے زخم کردیا پاؤں ۔۔"

"ارے کہاں؟ دکھاؤ زیادہ گہرا ہے کیا؟" عمیر جو اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے پیروں کی طرف متوجہ ہوا۔

"نہیں اتنا نہیں ہے۔۔" وہ یک دم جھینپ کر بولی۔سیام مسکراہٹ دبائے عمیر کو دیکھتی رہی۔

"اچھا ! چلو میرے ساتھ میں تمہیں دکھاتی ہوں۔۔آرام دہ ہیں۔۔" سیام نے اسے کہتے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔

"تم نے اسے اکورڈ کردیا۔۔" دانیال نے عمیر کی طرف دیکھتے عام سے لہجے میں کہا۔

"میں نے؟ میں تو بس پوچھ رہا تھا۔۔" وہ یک دم کان کی لو کھجانے لگا۔

"مجھے لگتا ہے وہ جانتی ہے کہ تم اسے پسند کرتے ہو۔" نہال نے مسکراتے ہوئے کہا تو دانیال چونکا۔

"تمہیں ایسا کیوں لگا؟" عمیر کے بجائے دانیال نے پوچھا انداز جانچنے والا تھا۔

"تمہارا وہم ہوگا ۔۔" عمیر جان چھڑاکر وہاں سے جانے لگا۔

"خیر مجھے تم یہ بتاؤ تمہیں کیوں اتنی دلچسپی ہورہی ہے ان کے معاملات میں ؟"

"کیا مطلب؟" دانیال نے تیزی سے پوچھا نہال اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔دانیال نے دوبارہ گردن کے اشارے سے سوال کیا۔نہال ہنوز اسے گھورتا رہا یہاں تک کہ دانیال اسے ایک طرف دھکیلتا خود بھی وہاں سے چلا گیا۔اس کے جاتے نہال نے کاندھے اچکایے۔

"خیر مجھے کیا! میں تو ولاگ کی ایڈیٹنگ کرنے جارہا تھا۔۔"

٭٭٭         

"چلو کسی کو تو میری فکر ہے۔۔" وہ روفائیل کو دیکھ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔روفائیل ٹرے میز پر رکھی۔

"ویل ! سب کو تمہاری فکر ہے۔ان فیکٹ مجھے سیام نے کہا کہ تمہیں بھوک لگی ہوگی لیکن موڈ ٹھیک نہیں ہے تو اس لیے ٹیبل پر نہیں آئی تم!" روفائیل نے نرمی سے کہا۔

"چلو آؤ اب کھانا کھالو!" روفائیل نے اس کے گلابی مائل گالوں کو دیکھتے کہا۔وہ بہت خوبصورت تھی اتنی خوبصورت کہ دیکھ کر ہی جی کھل اٹھے۔کم از کم روفائیل کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔ماہ رنگ نے کوئی جواب نہ دیا اور صوفے پر آگے کی طرف ہوتے ٹرے اپنی طرف کھسکالی۔

"ہم باربی کیو کرنے گاؤں کے باہر جارہے ہیں۔۔"روفائیل نے اسے آگاہ کیا۔

"اچھا! میں یہیں رہوں گی۔۔"ماہ رنگ نے ناک چڑھائی۔

"کیا مطلب تم ہمارے ساتھ نہیں آؤ گی؟" روفائیل کو لگا ہی تھا کہ ایسا ہی کوئی جواب ملے گا۔

"نہیں ۔۔"

"کیوں نہیں ؟تم ضرور آؤگی ۔۔تمہارے بغیر ہم نہیں جائیں گے۔۔"

"ہم؟ سب کی بات کررہے ہو ؟ یا صرف تم؟" اس نے اٹھلاتے ہوئے پوچھا۔

"ظاہر ہے۔۔تم نہیں چلو گی تو کوئی نہیں جائے گا۔۔"

"ایسا کس نے کہا؟" ماہ رنگ کھاتے ہوئے بے نیازی سے کہہ رہی تھی۔

"میں کہہ رہا ہوں ۔۔" روفائیل نے اپنی طرف اشارہ کرتے پرزور لہجے میں کہا۔ماہ رنگ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور ایک جتاتی نگاہ اس پر ڈالی۔وہ روفائیل کے لیے اپنی خاص اہمیت سے بخوبی واقف تھی لیکن اکثر انجان بننے پر ہی اکتفا کرتی تھی۔روفائیل کچھ پل کے لیے اس کی ہنسی میں ہی گم رہ گیا پھر سر جھٹک کر سیدھا ہوا۔

"کیوں ہنس رہی ہو؟کیا تمہیں میری بات پر یقین نہیں ؟"روفائیل نے خفیف انداز میں کہا۔اس کے گھنگرالے بال جو ماتھے پر بکھرے تھے انھیں اس نے ہاتھ سے پیچھے کیا لیکن وہ کسی اسپرنگ کی طرح پھر پیشانی پر آگرے۔

"یقین تو تب ہی آئے گا ناں جب تم اپنی بات سچ کرکے دکھاؤگے؟"

روفائیل نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

"میں کہہ دیتی ہوں کہ نہیں آرہی تم باقی سب کا پلان کیسنل کرواؤ۔۔اگر ایسا ہوگیا تو میں چلوں گی۔۔" ماہ رنگ مزے سے بولی۔

"یہ کیا بات ہوئی ۔۔" روفائیل بدمزہ ہوا۔

"اگر آدھے لوگوں نے بھی کہہ دیا کہ چلو ٹھیک ہے نہیں جاتے جب تک ماہ رنگ کا موڈ ٹھیک نہیں ہوجاتا ۔۔تو میں خود ہی سب کو کہہ دوں گی کہ میں باربی کیوں کے لیے تیار ہوں۔۔"اس کی عجیب و غریب شرط پر روفائیل الجھ کر رہ گیا۔جانے کیا کیا چلتا رہتا ہے اس کے دماغ میں ! وہ فقط سوچ ہی سکا۔کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔روفائیل سوچ میں گھرا وہاں سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھا۔نیچے پہنچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب اتری تھی جس پر عمل کرنے کا ارادہ کرتا وہ داؤد کے کمرے میں آیا۔داؤد میز کے گرد اپنی بھوری چمڑے کی ڈائری لیے بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔روفائیل کو دیکھ کر ڈائری بند کردی۔

"تم نے دادو سے بات کی ؟"

" ہاں ! وہ فوراً مان گئیں ۔۔" داؤد مسکرایا۔

روفائیل نے اثبات میں گردن ہلائی اور وہیں قریب بیٹھ گیا ۔

"وہ میں نے ماہ رنگ کو بتایا کہ ہم باربی کیو کے لیے جارہے ہیں ۔۔"روفائیل نے تمہید باندھی۔

"اچھا کیا ۔۔ میں نے بھی رحیم بابا سے کہہ دیا ہے وہ گوشت کے ٹکرے کرکے اس پر مصالحہ جات لگارہے ہیں۔۔"

"وہ تو ٹھیک ہے مگر ایک پریشانی ہے ۔۔"

"کیسی پریشانی ؟" اب کے داؤد پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"یہ کہ وہ سمجھتی ہے ہمیں اس کی پرواہ نہیں ۔۔"

"یہ کیا بات ہوئی ۔۔" داؤد نے ناسمجھی سے کہا۔

"تو میں نے اسے کہا کہ ایسا نہیں اور۔۔۔" روفائیل اسے بتانے لگا

داؤد کے تاثرات بدلتے رہے یہاں تک کہ روفائیل کہہ کر چپ ہوا۔داؤد بے اختیار ہنسا۔

"یہ کیسی بچوں جیسی ضد ہے ۔۔"

"تم تو جانتے ہو اسے !تم سب کو کہہ دو اس بارے میں ہوشیار رہیں تم کہوگے تو کوئی اعتراض نہیں کرے گا ۔۔پلیز!" روفائیل نے بیچارگی سے کہا۔داؤد اسے دیکھتا رہا۔

"آہ ! یہ ماہ رنگ اور اس کے نئے نئے تماشے !ویسے اچھا ہے بور نہیں ہونے دیتی !"'داؤد کاندھے اچکاتا وہاں سے اٹھا۔

"شکریہ یار !" روفائیل نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے کہا اور وہ دونوں باہر نکل گئے۔

٭٭٭       

"یہ بھلا کیا بات ہوئی ؟"نہال کی ہنسی چھوٹی۔

"کیا خود کو مس ورلڈ سمجھتی ہے یہ محترمہ ؟" عمیر تپ سا گیا۔

"اب تم سب تو جانتے ہی ہو اسے ۔۔" سیام نے سب کی طرف دیکھتے کہا۔

"اس لیے کوئی اعتراض اٹھائے بغیر وہی کرنا جو داؤد کہہ رہا ہے ۔۔اس کا مزاج ہی ایسا ہے لیکن وہ ہماری دوست ہے تو ۔۔"

"لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ وہ بہت بدلتی جارہی ہے۔۔"کہنے والا دانیال تھا۔

"ظاہر ہے ہم بڑے ہورہے ہیں ۔۔بڑھتی عمر کے ساتھ مزاج بھی بدلتا ہے۔۔ "سیام نے مصلحت پسندی سے کام لیتے انھیں سمجھانا چاہا۔

"ٹھیک کہہ رہی ہے سیام ! ہم اسے اکیلا چھوڑ کر تو نہیں جاسکتے ۔۔" دعا نے اپنی رائے دی۔

وہ سب مزید کچھ نہ بولے یعنی کہ وہ اس بات پر راضی تھے۔ ماہ رنگ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے انھیں وہ ڈرامہ منظور تھا۔ورنہ حقیقت میں یقیناً وہ ماہ رنگ کے اتنے نخرے برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔لیکن روفائیل اسے ناراض کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔اس کے دل میں ماہ رنگ کے لیے ایک خاص جذبہ پنپ رہا تھا۔

"اور ہاں روفائیل ! کیا تم مجھے پریس کرنے کے لیے کوئی دوسری شرٹ دے سکتے ہو۔۔"سیام کو جیسے اچانک یاد آیا تھا۔روفائیل نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

"دوسری کیوں ؟وہ اچھی نہیں ؟"

"اچھی تو تھی۔۔" سیام ذرا ہچکچائی اور ان سب کی طرف دیکھا۔

"تھی ؟مطلب اب  فوت ہوگئی ؟" نہال جو پورا معاملہ سمجھ چکا تھا مزے لیتے ہوئے پوچھنے لگا۔سیام نے اسے گھورتے تنبیہہ کی۔

"کیا تم نے میری شرٹ جلادی ؟" روفائیل کی بلند آواز در و دیوار سے جاکر ٹکرائی تھی۔سیام اس کے ردعمل پر مزید گھبرائی اور گھبراہٹ کے مارے انگلیاں چٹخانے لگی۔

"تمہارا ہاتھ تو نہیں جلا ؟تم ٹھیک ہو؟" داؤد نے روفائیل کی چیخ نظر انداز کرتے سیام کی جانب دیکھ کر پوچھا۔نگاہیں اس کے نازک اور بے داغ ہاتھوں پر تھیں۔

"ہاں میرا ہاتھ نہیں جلا!"

"ہاتھ جلادیتی ۔۔میری شرٹ کیوں جلائی ۔۔ بس عید پر ایک دفعہ پہنی تھی میں نے ۔۔بالکل نئی تھی۔۔" وہ پھٹ پڑا۔سیام جو پہلے ہی شرمندہ تھی سب کے سامنے یوں  خود پر بے قابو ہوتے روفائیل کو دیکھ مزید افسردہ ہونے لگی۔

"سوری ! دوسری دے دو میں دھیان سے کروں گی۔۔"وہ آہستگی سے بولی۔

"بہت بہت شکریہ ! نہیں کروانی مجھے ! تمہیں کرنی ہی نہیں تھی تو پہلے ہی مجھے منع کردیتی ۔۔فیورٹ شرٹ تھی میری۔۔"

"بس بھی کرو روفی !ایک شرٹ ہی تو تھی۔۔" داؤد نے سیام کے بجھے چہرے اور نم آنکھوں کی طرف دیکھتے کہا۔

"کیا ہوا؟ سیام پر کیوں چلا رہے ہو ؟" ماہ رنگ پوچھتے ہوئے وہاں آئی۔سب جو بالکل چپ سے کھڑے تھے فقط اسے دیکھ کر رہ گئے۔سیام پر روفائیل کا یوں چلانا کسی کو بھی پسند نہ آیا تھا۔سیام لب بھینچتی آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے تیز تیز قدموں سے چلتی لاونج سے نکل گئی۔

"اب جاکر پہلی کال اپنے بابا کو دوسری میرے بابا کو اور تیسری دادو کو لگائے گی۔۔" وہ بڑبڑایا۔

"یہ کام تو بہت اچھا کرے گی وہ ۔۔تم ایک شرٹ کے پیچھے جو اتنے خونخوار ہورہے تھے۔۔"

"رونے والی ہورہی تھی وہ ۔۔" عمیر نے روفائیل کی دیکھا۔

"یقیناً رو رہی ہوگی ۔۔" اب کے دعا پریشان سی بولی۔

"میں جاکر دیکھتا ہوں ۔۔" داؤد کہتا ہوا سیام کے پیچھے گیا۔

ماہ رنگ بیزار سی ان کے چہرے دیکھ رہی تھی جو سیام کی فکر میں گھلے جارہے تھے اس کی اتنی فکر تو ان میں سے کسی کو نہیں۔وہ سوچنے لگی۔وہ توجہ کی بھوکی تھی اسے ہر وقت نگاہوں اور توجہ کا مرکز رہنے کا شوق تھا۔توجہ کا رخ ذرا بھی کسی اور کی طرف ہوتا وہ خود کو پس منظر پر محسوس کرنے لگتی اور خود کو پس منظر میں کم از کم ماہ رنگ تو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔

روفائیل خود پر ان سب کی خفا  نگاہیں محسوس کرتا پیر پٹختا اوپر کی جانب بڑھا تھا۔

٭٭٭   

سیام کمرے میں پلنگ پر بیٹھی اپنے آنسو پینے کی کوشش کررہی تھی۔وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن آنسو باہر آنے کو بے تاب تھے۔روفائیل کو یوں سب کے سامنے مجھ پر چلانا چاہیے تھا؟ کیا میں نے اس کی شرٹ جان بوجھ کر جلائی تھی؟اس نے تیزی سے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالیں۔ہتک کا شدید احساس اس کے رگ و جاں پر پھیلا ہوا تھا۔دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔

"کون ہے؟" اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے پوچھا۔

"داؤد!"

سیام نے سنتے ہی تیزی سے آنکھیں رگڑتے اپنے بال سنوارے اور اٹھ گئی۔

"آجاؤ ۔۔" خود کو نارمل ظاہر کرتے اس نے آواز پر قابو پایا۔داؤد نے اندر داخل ہوتے ہی اس کے چہرے کا گہرائی سے جائزہ لیا۔وہ چہرے پڑھنے میں ماہر تھا اور سیام کا چہرہ ایک کھلی کتاب تھا۔

"رو رہی تھی تم ؟"نرمی سے پوچھا۔

"نہیں تو !"

"لیکن تمہارا چہرہ تو کچھ اور کہہ رہا ہے۔۔ بھلا اتنی سمجھدار لڑکی اتنی سی بات پر روتی ہے؟ "

"میں نے معذرت کی اس کے باوجود وہ کتنی بدتمیزی کررہا تھا۔۔"سیام نے پھر زور سے آنکھیں رگڑیں۔

"اتنی سختی سے ان معصوم آنکھوں کو تو نہ رگڑو ۔۔دیکھو کیسے لال ہورہی ہیں ۔۔" وہ تاسف سے سرہلاتا بولا۔

"وہ بدتمیزی کررہا تھا تو تم چپ کیوں رہیں ۔۔جواب دے دیتیں۔۔"

"جب میری غلطی ہوتی ہے تو مجھ سے جواب نہیں دیا جاتا ! نہ بحث ہوتی ہے نہ صفائی پیش کی جاتی ہے۔۔"وہ بے بسی سے بولی۔

"ایک سڑی ہوئی شرٹ کے لیے مجھے اتنا سنایا اس نے۔۔میں اس کی بابا سے شکایت لگاؤں گی اور بڑے بابا سے بھی ۔۔" اس نے تلخی سے کہتے پھر آنکھیں رگڑیں۔داؤد اسے دیکھ کر رہ گیا۔اس کے آنسو امڈ امڈ کر آرہے تھے لیکن وہ رونا نہیں چاہتی تھی تبھی بار بار آنکھیں رگڑتی لب چباتی جاتی تھی۔۔

"چلو چھوڑو میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔۔بیٹھو۔۔"داؤد نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ اس کا دھیان بٹانا چاہتا تھا۔

"خود کی لکھی ؟"

"ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں نے درجنوں ناول لکھ ڈالے ہوں ۔۔" وہ ہنس دیا۔

"ہمیشہ ہی لکھتے رہتے ہو ۔۔" سیام نے کہا۔

داؤد نے مسکراتے ہوئے فقط کاندھے اچکادیے۔

"اچھا یہ بتاؤ جو کہانی تم لکھ رہے ہو اس کی سب سے خاص بات کیا ہے؟" سیام کو اس کے لکھے میں بہت زیادہ دلچسپی تھی اتنی کہ اس کا اظہار وہ برملا کرتی تھی۔وجہ اس کا اپنا ادب سے لگاؤ ہونا تھا۔

"سب سے خاص بات !" داؤد نے آنکھیں سکیڑتے خلا میں کچھ ڈھونڈنا چاہا۔چہرے پر سوچ کی گہری پرچھائی تھی۔

"اس کہانی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسے میں نہیں لکھ رہا ۔۔" داؤد نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ہیں؟ پھر کون ؟کیا خلائی مخلوق" سیام اس کی بات پر کھلکھلائی۔اس کا دھیان بٹ چکا تھا۔وہ مطمئن سا ہوکر خود بھی مسکرایا۔

"نہیں ! میری روح ؟"

"تمہاری روح ؟ مطلب تم اسے بہت دل سے لکھ رہے ہو ؟یہی ناں؟" وہ مسکرائی اور آنکھیں مٹکاتے ہوئے پوچھنے لگی۔اس کے انداز پر داؤد کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"اور ایک خاص بات یہ ہے اسے مکمل ہونے میں بہت وقت لگے گا ۔۔۔" وہ پل کو ٹھہرا پھر کہنے لگا

"کیوں ؟" سیام نے الجھ کر پوچھا۔

"کیوں کہ میں نے اس کہانی کو نہیں سوچا ۔۔اسے قسمت لکھ رہی ہے۔۔"

"کیا تم اپنی کہانی لکھ رہے ہو ؟ جس کا اہم کردار تم خود ہو؟ " سیام کی ذہانت پر وہ ایک پل کو چپ رہ گیا۔

" ایسا بھی ہوسکتا ہے۔۔" اس نے تائید یا تصدیق نہیں کی۔

"میں چلتا ہوں ۔۔تیار ہوجاؤ۔۔" اس نے مزید کچھ نہ کہا کیوں کہ جانتا تھا وہ اب اس کہانی کے بارے میں سوچے گی ناکہ روفائیل کی بدسلوکی اور بے عزتی کو۔

"تم مجھے اپنی کہانی تو پڑھاؤ گے ناں جب ختم ہو جائے گی ؟"

"ضرور کیوں نہیں ؟" وہ دھیمے لہجے میں کہا کمرے سے نکل گیا۔سیام نے سامنے دیوار گیر گھڑی پر وقت دیکھا اور سر جھٹکتی اپنے بیگ کی طرف بڑھ گئی۔

"اب اس جاہل روفی سے میں کبھی بات نہیں کروں گی۔۔" خود سے کہتے وہ اپنا بیگ کھولنے لگی تاکہ رات کے لیے لباس منتخب کرسکے۔

٭٭٭         

دوستوں یہ منظر اتنا حسین ہے کہ کیمرے کی آنکھ تو انصاف کر ہی نہ پائے گی۔۔۔نہ میرے پاس ایسے لفظ ہیں جن سے میں بیان کرسکوں ۔لیکن ایک انسان ہے جو الفاظ کا ماہر ہے ۔۔۔" نہال نے کیمرے کا رخ داؤد کی طرف موڑا۔جس پر وہ ایک پل کے لیے بوکھلا گیا۔سیاہ سویٹر پہنے بالوں کو سلیقے سے بنائے نفیس انداز میں بڑے سے پتھر پر  خاموش بیٹھا وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھا اور نہال نے اس کے خیالوں کا ہجوم اپنے کیمرے کی فلیش سے منتشر کیا تھا۔

"ابھی کچھ دیر پہلے جو تم نے کہا تھا وہ دوبارہ کہوگے ؟" نہال نے مسکراتے ہوئے منت کی۔

"نہیں !کیمرہ ہٹاؤ۔۔" داؤد جذبذ ہوتا بولا۔

"کیمرہ ہی ہے تمہیں نگل نہیں جائے گا۔۔" نہال نےاب کے اسے گھورا۔

"میں بتاتی ہوں ۔۔" سیام نے ہاتھ اٹھاتے کہا۔داؤد نے سکھ کی سانس لیتے اسے کیمرے ہٹانے کا اشارہ کیا۔نہال نے گھوری سے نوازتے کیمرہ ہٹادیا۔

"ویسے تو آپ دیکھ ہی سکتے ہیں کہ چاند کی دودھیا روشنی کے سائے میں ہمیں ساتھ لائی بتیاں بھی لگانی نہیں پڑیں۔سامنے پہاڑ سے آبشار کے ٹھنڈا پانی کوئی گانا گاتا ہوا نہر میں گر رہا ہے ۔۔"

"گانا گاتا ہوا؟" داؤد دلکشی سے ہنس دیا۔

"آبشار کا ٹھنڈا ٹھار پانی ساز کے ردھم پر مچلتا ایک سنگھم کی صورت میں نہر سے آکر ملتا ہے سیام ! " داؤد نے اپنے کہے لفظوں کی یوں ٹانگ ٹوٹتی دیکھی تو چپ نہ رہ سکا۔

"بات تو وہی ہے ۔۔ساز۔۔ردھم۔۔سنگھم ۔۔گانے کو ہی کہتے ہیں۔۔" سیام نے گردن گھماکر اسے گھورا تو وہ بے اختیار ہنس دیا۔

"نہر کی پر سکون سطح ٹھنڈے میٹھے پانی کی سنگت میں مچل کر ایک مست سا شور بلند کرتی ہے ۔۔اور اسی سنگھم سے مل کر خوبصورت بہاؤ کی صورت میں بہتی جاتی ہے ۔۔" داؤد نے نہر کے پانی کو دیکھتے کہا۔نہال نے کیمرے کا رخ پھر داؤد کی طرف کیا۔داؤد اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔

"سامنے تاریک جنگل ہے جو اس پہاڑی آبشار اور نہر کے خوبصورت ملن پر حسد کے مارے گہری خاموشی اوڑھے ساکت کھڑا ہے ۔۔"

"آسمان  اپنی تمام تر شفقت لیے منظر کو اپنے سائے تلے سمیٹے مسکراتے ہوئے زمین کو دیکھتا ہے۔۔"

"واؤ! تم تو شاعر ہو ۔۔"

"یہ شاعری نہیں ! نثر کہلائی جائے گی ۔۔"

اس کی بات پر ماہ رنگ نے سرسری نگاہ اس پر ڈالی اور دوبارہ فون پر اسنیپ بنانے لگی۔اس نے سیاہ شال لپیٹ رکھی تھی۔چہرے پر ہلکا پھلکا میک اپ تھا۔ناخن سیاہ نیل پالش سے رنگے تھے۔گورے ہاتھوں پر یہ یہ سیاہ رنگ اتنا جچ رہا تھا کہ وہ خود بھی بار بار اپنے ہاتھوں کی تصویر بنانے لگتی۔اس کے تہی باربی کیو میں شریک ہوکر اس نے تمام افراد پر احسان کیا تھا جب سے آئی تھی خاموش تھی۔موبائل پر مصروف نہ کسی گفتگو یا حصہ بنی تھی نہ کوئی کام میں حصہ ڈالا تھا۔

جبکہ دعا اور سیام نے برتن صاف کرتے وہاں دریاں بچھائی تھیں۔

"تم نے اتنے مشکل لفظ کہاں سے سیکھے ؟" دانیال بھی حیران سا تھا۔

"آغا جان کی لائبریری سے ۔۔" وہ دھیما سا مسکرایا۔

"اور یہاں ہمارے روفائیل خان صاحب اپنا گھونسلہ سر لیے ہمارے لیے کوئلوں پر کباب سیخ رہے ہیں۔۔وہ عمیر صاحب دوسری انگھیٹی پر بوٹیاں سیختے مسلسل آنسو بہا رہے ہیں ۔۔"

"ہمیں آج سے پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ محترم اتنی نازک آنکھوں اور جلد کے مالک ہیں۔۔"

عمیر نے گردن گھمائے اسے خونخوار نگاہ سے نوازتے تنبیہہ کیا۔

"منہ بند رکھو !مجھے دھوئیں سے الرجی ہے ۔۔"

"تو ہٹ جاؤ ناں اس کے آگے سے میں دیکھ لیتا ہوں ۔۔"دانیال نے پھر پیشکش کی ۔

"میں تم پر بھروسہ نہیں کرتا تم کچا گوشت کھانے کے شوقین ہو۔۔"وہ پھر چمٹے سے گوشت کو اِدھر اُدھر کرتا بولا۔

اس کی بات پر قہقہوں کا طوفان اٹھا۔

"دوستوں اس کی بکواس کو سنجیدہ لینے کی قطعی ضرورت نہیں ۔۔یہ سرار جھوٹ ہے۔۔"

"جھوٹ ہے ؟ کہہ دو کہ تم نے فریج سے کچا گوشت نکال کر نہیں کھایا تھا؟"

"میں صرف تین سال کا تھا ؟" دانیال نے تپ کر وضاحت کی۔

"میں پھر بھی تم پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔۔"

"نہ کر! مجھے کیا ! " دانیال نے بے نیازی دکھائی۔

"عمیر لاؤ میں مدد کروں ؟" داؤد کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"مجھے تو صرف الرجی ہے تمہیں استھما ہے۔۔ہر گز نہیں وہیں بیٹھے رہو اور اپنی شاعرانہ گفتگو جاری رکھو ۔۔" عمیر نے صاف انکار کیا تو داؤد کاندھے اچکاتا دوبارہ بیٹھا۔

"نہال کیمرہ رکھو اور جاکر اس کی مدد کردو۔۔" سیام نے نہال کو لتاڑا ۔

"میرے ناظرین ناراض ہو جائیں گے ۔۔" اس نے صاف انکار کیا۔

"تمہارے ناظرین ؟ آہ! کتنے لاکھ سسکرائبر ہیں تمہارے ؟"

"دس ہزار! سے دس لاکھ میں زیادہ وقت نہیں لگے گا!"اسے خود پر اعتماد تھا۔

"کیا تم اپنے مستقبل میں صرف ایک کامیاب یوٹیوبر بننا چاہتے ہو؟" سیام نے پوچھا۔روفائیل نے کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔ان کی تب سے ہی بول چال بند تھی۔روفائیل کو گھر سے کوئی کال موصول نہیں ہوئی تھی لیکن اسے یقین تھا یہ بات گھر تک پہنچے گی ضرور!

"ایک کامیاب یوٹیوبر"صرف" تو نہیں رہ جائے گا ۔۔"اس نے ابرو سمیٹتے ہوئے کہا۔

"اور تم دانیال ؟"

"میں تو کاروبار کروں گا ۔۔" اس نے اپنا خواب بیان کیا۔

"کیسا کاروبار ؟" داؤد نے پوچھا۔

"کوئی بھی چھوٹا موٹا !" اس نے جیسے جان چھڑائی تھی۔

"اور تم روفائیل ؟"

"میں بابا کا بزنس سنبھالوں گا ۔۔" اس نے بے نیازی سے کہا۔راحم خان اور دائم خان ایک چھوٹی کنسٹریکشن کمپنی کے مالک تھے۔اس خاندان کا مالی حوالے سے بے فکر اور خوشحال طرز زندگی تھا۔اس حساب سے روفائیل کی بے نیازی کچھ عجیب بھی نہ لگتی تھی۔

"میرے ابو چاہتے ہیں میں تعلیم مکمل کرکے ان کی زمین پر کاشت کاری کرنے پنجاب چلا جاؤں۔۔۔لیکن میں ایک اچھی جاب کرنا چاہتا ہوں ۔۔" عمیر نے اپنا پلان بتایا۔

"تم کیا کرنا چاہتی ہو سیام زندگی میں ؟" یہ سوال کرنے والی ماہ رنگ تھی۔انداز میں بلا کی دلچسپی اور تجسس تھا۔وہ سب سیام کی طرف دیکھنے لگے۔

"ماہر فنِ تعمیر!" وہ مسکرائی۔اس کی آنکھیں چمکیں تھیں۔

"یا پھر ایک انٹیریئر ڈایزائنر؟ایسا ہی کچھ!اسی شعبہ سے متعلقہ ۔۔"

"It doesn't suit your personality?"

"مطلب ؟" سیام الجھی۔باقی سب بھی سوالیہ نظروں سے ماہ رنگ کی طرف دیکھنے لگے۔

"تمہیں نہیں لگتا تمہارا فیملی بیک گراؤنڈ اور تمہاری اپنی شخصیت اس پیشے سے میل نہیں کھاتی ! مطلب کیا وہ تمہیں اس پیشے میں جانیں دیں گے ؟ وہ تو تمہیں روفی کے بغیر گلی کے کونے تک نہیں جانے دیتے؟ تمہیں ذاتی طور پر کوئی آزادی حاصل نہیں پھر ایسے خواب ہی کیوں دیکھنے جو پورے نہ ہوسکیں۔۔تم گھرپر بیٹھ کر کپڑے سی سکتی ہو ۔۔ یہ تمہارے لیے بہتر رہے گا۔۔" وہ ہنس دی۔اس کے کہنے کا انداز بہت ہی عام سا تھا لیکن الفاظ چبھنے والے تھے۔

وہ سب سیام کی طرف سے جواب کے منتظر تھے۔وہ کچھ بھی نہ بولی فقط سامنے دیکھتی رہی۔

"ابھی ہم چھوٹے ہیں اور لڑکے ہوتے ہوئے ہمیں باہر جاتے سوال جواب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ظاہر ہے اس کی فیملی اس کے لیے حساس ہے۔۔اب ہر کوئی تمہاری طرح آزاد اور خودسر نہیں ہوسکتا ناں کہ جہاں دل کیا چلا جائے ۔۔نہ کوئی پوچھنے والا نہ کوئی روکنے والا ۔۔" عمیر قدرے منہ پھٹ واقع ہوا تھا سو اب بھی چپ نہ رہ سکا۔

روفائیل گردن گھمائے ماہ رنگ کی طرف دیکھنے لگا آیا کہ اس نے عمیر کی بات کا کیا اثر لیا  لیکن وہ فخریہ انداز میں ہنس دی۔

"یہ ایک آئیڈیل زندگی ہے۔۔کھل کر جینا  پوری آزادی کے ساتھ ! یہ روک ٹوک سوال جواب پرانے زمانے کے کام ہیں۔۔آج کی لڑکی کو پر اعتماد اور آزاد ہی ہونا چاہیے۔۔" وہ کہہ کر اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔جیسے اب مزید گفتگو میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہ ہو۔

"سب نے تو اپنے خواب بتادیے۔تم بتاؤ ؟ تمہارا کیا خواب ہے؟"عمیر نے دعا کی طرف دیکھتے سوال کیا۔

"میں خواب نہیں دیکھتی !میں نے کبھی نہیں سوچا کہ مجھے کیا کرنا ہے آگے زندگی میں ۔۔" وہ سادگی سے بولی۔

"امی کہتی ہیں میری جیسی شخصیت کی لڑکیاں دنیا کی بھیڑ میں ٹھوکریں کھاتی رہ جاتی ہیں۔۔"

"ایسا نہیں ہے ۔۔"

"بالکل بھی نہیں !"

عمیر اور دانیال نے ایک ہی وقت میں اس کے جملے کی نفی کی تھی۔نہال نے چونک کر دانیال کی طرف دیکھا۔

"تمہاری شخصیت میں ایسی خوبصورتی ہے جو دنیا میں بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے۔۔" سیام نے نرمی سے کہا۔

"ایسا ہی ہے ۔۔سیام بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔" داؤد نے کہا۔

دعا ان سب کے ردعمل پر جھینپ سی گئی تھی۔اس کی ماں بھی اس کی طرح سادہ سی عورت تھی۔معاشرے کی ستائی ہوئی بے بس عورت جو ساری عمر سسرال اور شوہر کے بیچ کسی چکی کی مانند پستی رہی تھی۔

شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اب مثبت سوچ سے مکمل پور نابلد ہوچکی تھی یا پھر منفی حالات نے انھیں مثبت رہنے نہ دیا تھا۔دنیا اور معاشرے کی اچھائی سے اس کا یقین اٹھ چکا تھا۔

"خیر ہم سب نے یہ تو جان لیا ہے کہ ہم سب کو اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے۔اب یہ دیکھ لیتے ہیں کہ ہمارے بھوجن کا کیا احوال ہے ۔۔روفائیل ،عمیر بتاؤ بھئی؟ کیا ساری رات بھوکے پیٹ گپیں ہی ہانکتے رہیں گے؟"

"میرا تو بس یہ آخری ہے ۔۔" روفائیل نے انگھیٹی کی طرف اشارہ کرتے کہا۔

"پھر ہم برتن لگا دیتے ہیں؟"

"ہاں ۔۔ سیام سلاد تیار ہے ناں ؟"دعا نے پوچھا۔

"بالکل !" سیام نے جواب دیا۔

داؤد بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر نیچے برتن سجانے لگا اس کی دیکھا دیکھی دانیال بھی مدد کرنے لگا۔روفائیل کے کباب تیار تھے سو وہ ٹرے لیے وہاں سے اٹھا۔

"آجاؤ ماہ رنگ !" روفائیل نے اسے بلایا۔جس پر سر ہلاتی وہاں سے اٹھی۔

"خوشبو تو بہت زبردست آرہی ہے ۔۔" ماہ رنگ نے روفائیل کی طرف ستائشی نگاہوں سے دیکھتے کہا۔اس کی  بات پر روفائیل خوش ہوتا مسکرایا۔

"میرے ہاتھ بہت جل رہے ہیں۔۔ شاید مرچ کاٹنے کی وجہ ہے۔۔میں نہر پر ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔۔"

"یہاں سے پانی لے لو ۔۔" داؤد نے کہا۔

"نہیں ! نہر پر ہی جاؤں گی ۔۔میں بھی دیکھوں ٹھنڈا میٹھا پانی بقول تمہارے کیسے مزاج سنوارتا ہے ۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولی۔

"خیال سے جانا۔" داؤد نے ہدایت کی ۔وہ سرہلاتی اس طرف بڑھنے لگی۔ابھی وہ کچھ دور ہی چلی تھی جب اس کی کراہ بھری چیخ سنائی دی۔چیخ پر سب اس جانب متوجہ ہوئے۔داؤد اور روفائیل تیزی سے اس طرف بھاگے تھے۔ان کے پیچھے باقی سب بھی گئے۔ماہ رنگ نے عجیب سا منہ بنایا۔

"Attention seeker!"

بڑبڑائی اور ناچار اٹھ کر خود بھی اس جانب بڑھی۔

سیام کسی پتھر سے ٹکرا کر گری تھی اس کا پاؤں مڑ گیا تھا۔داؤد فکر مندی سے اس کا چہرہ دیکھتا  جوتا اتارنے لگا۔

"دھیان کہاں تھا تمہارا ؟" روفائیل گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھا  تھا۔ اس کے گھٹنوں پر لگی مٹی جھٹکتے ہوئے ڈپٹ کر بولا۔جس پر وہ روہانسی سی اسے دیکھنے لگی۔

"مجھے پہلے ہی چوٹ لگی ہے ۔۔ڈانٹو مت !"

"ڈانٹ نہیں رہا ! " روفائیل کچھ نرم پڑا۔ماہ رنگ کو یہ منظر ایک آنکھ نہ بھایا تھا وہ ہنکارا بھر کر رہ گئی۔

"کوشش کرکے دیکھو چل سکتی ہو ؟" داؤد نے اس کا ہاتھ پکڑتے اسے اٹھانے کی کوشش کی۔اس کے چہرے پر جھلکتی فکر و پریشانی پر نہال کی گہری نظر تھی۔وہ بہت غور سے اس کو دیکھ رہا تھا۔روفائیل نے کہنی سے اس کا ہاتھ تھامتے اسے سہارا دیا تو وہ لنگڑاتے ہوئے چلنے لگی۔داؤد پیروں سے  سامنے مٹی پر گرے ننھے کنکر اور پتھر ایک طرف کرنے لگا کہیں چلتے ہوئے وہ اسے چبھ نہ جائیں۔

"درد ہورہا ہے کیا ؟" دعا نے اس کا ایک ہاتھ تھامتے سہارا دیا۔سیام کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔

"مجھے لگتا ہے میری ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔۔" وہ تکلیف کی شدت سے رونے والی ہورہی تھی۔

"بس موچ ہوگی چھوٹی سی ۔۔تم ہمت کرو ۔۔" روفائیل نے اسے تسلی دیتے کہا۔شام والا غصہ اور ناراضی ہوا میں زائل ہوئی تھی اس وقت اس کا چہرہ فقط فکرمندی ظاہر کررہا تھا۔داؤد کے ہاتھ میں سیام کا جوتا تھا۔وہ آگے آگے چلتا راستے سے پتھر ہٹا رہا تھا۔اس کا یہ عمل بھی نہال کی توجہ کے زیر اثر رہا۔

٭٭٭     

چوٹ اسے لگی اور بے چینی میرے رگ و جاں میں سرائیت کررہی ہے۔۔آج بھی تکلیف میں اس کا ردعمل ویسا ہی تھا جیسے بچپن میں ہوا کرتا تھا۔۔آنسو پینے کی کوشش میں لبوں کو چبا ڈالنا! میں کہنا چاہتا تھا کہ تکلیف سہن نہیں ہورہی تو بہنے دو آنسو! لیکن اپنے ہونٹوں کو یوں بے دردی سے مت کاٹو۔۔ مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔ لیکن یہ بات میں تب کہہ سکتا تھا ! آج نہیں کہہ سکا ۔۔ اس کی آنکھوں میں ٹھہری سرخی اور تیرتے آنسوؤں کو فقط بچپن میں پونچھ سکتا تھا۔۔اب جوانی کی دہلیز پر قدم دھر دیے ہیں تو بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔۔جذبات کی معصومیت کو جوانی کی پہچان مل جاتی ہے تو بہت سنبھالنا پڑتا ہے خود کو ۔۔بہت ٹوکنا پڑتا ہے دل کو ۔۔" اس کا قلم بہت تیزی سے چل رہا تھا جب اچانک اس کا فون بجنے لگا۔اس نے اپنا سنہرے قیمتی قلم ایک طرف رکھا۔اس قلم پر داؤد آفندی  نام بڑی نفاست اور خوبصورتی سے کندہ ہوا تھا۔اس نے فون اسکرین پر چمکتا نام دیکھا۔آغا جان کی کال تھی۔

"اسلام و علیکم آغا جان !"

"وعلیکم السلام میرا بیٹا! کیسے ہو؟سیر و سیاحت کیسی چل رہی ہے؟"

"میں بالکل ٹھیک ہوں آغا جان ! آپ کیسے ہیں ؟سیاحت سے بھی خوب لطف اندوز ہورہا ہوں ۔۔"

"چلو یہ تو اچھی بات ہے ۔۔لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق تو ہمارے شہزادے کچھ بجھے بجھے سے ہیں۔۔دل نہیں لگ رہا کسی چیز میں ؟"

داؤد نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔

"آہ دادو ! آغا جان کو بتا دیا۔۔"

"نہیں ! ایسی بات نہیں ہے۔۔"

"پھر کیسی بات ہے ؟ کیا لندن نہیں جانا چاہتا میرا لاڈلہ ؟" داؤد خاندان کا وہ بچہ تھا جو سب کو بہت عزیز تھا۔اس کی شخصیت,رکھ رکھاؤ,ادب و تہذیب سے گندھی باتیں سوچ کا انداز ہر چیز دل موہ لینے والی تھی۔اس سے سب کو بہت امیدیں تھیں۔وہ اس عمر میں اس قدر منظم اور ٹھہری ہوئی شخصیت کا حامل تھا تو جوانی کے چند سال بعد وہ کیسا ہوگا یہ صرف ایک سوال نہیں تھا۔امید کا ایک خوبصورت سرا تھا جو آفندی خاندان نے تھام رکھا تھا۔

"دراصل میں کبھی گھر سے دور نہیں رہا۔اکیلا تو کبھی نہیں ۔۔ نئی جگہ،نیا ماحول، نئے لوگ ۔۔بس یہی ایک فکر ہے۔۔"

"اور تمہاری کتاب کا وہ قیمتی کردار ؟"سوال تھا کہ پگھلتا ہوا گرم سیسہ ! داؤد نے یک دم فون کان سے ہٹا کر دیکھا کہ آیا دوسری طرف سے یہی کہا گیا ہے یا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔اس کی ہلکی بھوری آنکھیں بے یقینی سے کھلی ہوئی تھیں جبکہ دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔

"ج۔۔جی کیا ؟"

"میں نے تمہاری کتاب کا مواد پڑھا ہے ۔۔"

"آغا جان !" وہ دبا دبا سا چیخ اٹھا۔چہرہ سرخ پڑا۔اس کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔

"میں تمہیں جج نہیں کررہا شہزادے۔۔"وہ متبسم لہجے میں گویا ہوئے۔

"تہجد کا وقت ہورہا ہے آغا جان !" اس کے پاس کہنے کو اور کچھ نہ رہا تو گھڑی پر وقت دیکھتے نماز کا بہانہ بنایا۔

"چلو پڑھ لو !میں تمہیں صبح کال کروں گا ۔۔"

"پر ہم اس موضوع پر بات نہیں کریں گے۔۔"اس نے پہلے ہی خبردار کیا۔دوسری طرف وہ آہستگی سے ہنس دیے تھے۔

"جیسا تمہیں بہتر لگے شہزادے۔۔"

"اللّٰہ حافظ آغا جان !" اس نے جلدی سے کہہ کر فون بند کردیا اور کرسی کی پشت پر سر گرادیا۔وہ ہنوز بے یقین تھا۔یہ کیا ہوگیا تھا؟ میری کتاب کا مواد دادا نے کہاں دیکھا؟ کب دیکھا؟ کتنا دیکھا ؟ کہاں تک دیکھا ؟سوال ایک ایک کرکے ذہن کے پردے پر اتر رہے تھے۔وہ اس حوالے سے عجیب احساسات کا شکار تھا۔

٭٭٭

فاطمہ نیازی  کے سلسلہ وار ناول کی اگلی قسط انشاء اللہ جلد

مصنفہ کی دیگر تحریریں پڑھنے کے لیئے ناولز حب  ویب سائٹ وزٹ کریں

 

 

This topic was modified 9 months ago by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?