Share:
Notifications
Clear all

Dasht e Junon k Sodai Episode 1

1 Posts
1 Users
0 Reactions
305 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

 

”انتساب “

اس کہانی کو سوچنے کا آغاز میں نے کب کیا میں خود بھی نہیں جانتی۔مجھے اسے لکھتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ اس کے کئی منظر میرے ذہن میں جیسے کئی صدیوں سے بسے ہوئے تھے۔ان مناظر کو یکجا کرنے کے بعد جو تخلیق پایا آپ کے سامنے ہے۔ان سب کا شکریہ جنھوں نے مجھے رہنمائی بخشی ۔مجھے سراہا۔مجھے حوصلہ دیا۔خاص طور میرے وہ قاری جن کی  حوصلہ افزائی مجھے الفاظ کو کہانی کی مالا میں پرونے میں مدد دیتی ہے ۔ میرے تمام قارئین اور دوستوں کی دعاؤں کا شکریہ

 

 

 

 

ہم دشت جنوں کے سودائی

ہم گرد سفر ،ہم نقش قدم

ہم سوز طلب ،ہم طرز فغاں

ہم رنج چمن ،ہم فعل خزاں

ہم حیرت و حسرت ،یاس الم

ہم دشت جنوں کے سودائی

یہ دشت جنوں یہ پاگل پن

یہ پیچھ کرتی رسوائی

یہ رنج و الم ،یہ حزن و ملال

یہ نالہ ء شب ،یہ سوز کمال

 

 

 

 

دل میں کہیں بے نام چبھن

اور حد نظر تک تنہائی

ہم دشت جنوں کے سودائی

اب جان ہماری چھوٹے بھی

یہ دشت جنوں ہی تھک جائے

جو روح بدن کا رشتہ تھا

کئی سال ہوئے وہ ٹوٹ گیا

اب دل کا دھڑکنا رک جائے

اب سانس کی دوڑی ٹوٹے بھی

ہم دشت جنوں کے سودائی

 

 

 

  ات کی وحشت ناک خاموشی نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ٹھنڈی ہوائیں سرسراتی ہوئیں فضا کو چیرکر گزر رہی تھیں۔آفندی ہاؤس میں ہرجانب فقط خاموشی کا راج تھا۔راہداریوں میں نیم اندھیرا چھایا ہوا تھا جبکہ تمام کمرے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔لیکن کچھ تھا جو اس گہری خاموشی میں مخل ہورہا تھا۔ دوسری منزل پر موجود پہلے کمرے میں گونجتی سسکیاں!پرسکوت خاموشی اس کمرے کی سحرخیز فضا سے گھبرا کر دبے قدموں باہر بالکنی کے راستے باہر نکل آئی۔وہ وجود ماربل کے ٹھنڈے سفید فرش پر سجدے میں گرا سسک رہا تھا۔سفید کاٹن کے کرتے میں ملبوس وہ بھرا بھرا مردانہ وجود تھا۔کئی لمحے وہ یوں ہی سجدے میں سسکتا رہا پھر  سیدھا ہوا۔نگاہیں جھکی ہوئی تھی۔گھنی پلکوں پر اشک ٹھہرے ہوئے تھے۔دفعتا اس نے پلکیں جھپکائیں اور یہی لمحہ تھا جب دونوں آنکھوں سے اشکوں کی دھارا بہتی گال پر پھسلتی اس کی گھنی داڑھی میں جذب ہوگئیں۔وہ بالکنی کے عین سامنے بیٹھا تھا۔چاند کی چمکتی روشنی اس کے سرخ وسفید چہرے پر پڑتی اس کے دلکش چہرے کو  نور بخش رہی تھی۔سلام پھیرنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔

"میرے مالک! میرے مولا! یاارحم الراحمین! میرا سب کچھ تیرے لیے قربان ۔۔"ایک درد بھری ہچکی اس کے لبوں سے آزاد ہوئی۔

"میں جانتا ہوں میرا دل نہیں توڑ سکتا تو!کیسے توڑ سکتا ہے میرے دل کو تو؟ اس میں تو  تو رہتا ہے نا میرے مالک! بس امید کو دھچکا لگا ہے ذرا سا۔لیکن میں جانتا ہوں میری بھلائی اسی میں ہے۔تو تو میرا رب ہے مجھ سے بہتر میری بہتری جانتا ہے ۔بس تکلیف ہے یہ میرے مولا میرے آنسوؤں کو میرا شکوہ نہ سمجھنا۔مجھے تجھ سے شکایت نہیں ۔تو نے اسے میرے نصیب میں نہیں لکھا تو صبر کو میرے مقدر میں مستحکم کردے۔میری تکلیف کو کم کردے۔مجھے ہمت دے۔مجھے ہمت دے کہ میں اس تکلیف کو سہہ سکوں۔میں تیرے فیصلے سے خفا نہیں ہوں۔مجھے یقین ہے میرے لیے تونے میری سوچ سے بڑھ کر بہترین سوچ رکھا ہے۔پس تو میری تکلیف کم کردے۔مجھے صبر دے کہ میں اس امتحان پر پورا اترسکوں۔مجھے صبر دے۔میرے مالک اسے اس بار ٹوٹنے نہ دینا۔اور اسے جہاں بھر کی خوشیاں عطاکرنا۔اسے سبزوآباد رکھنا۔آمین! "دعا مکمل کرکے وہ اٹھا۔جائے نماز طے کرکے مخصوص مقام پر رکھی اور الماری کے قریب آکر اس کا دروازہ سرکایا۔ہاتھ اندر ڈال کر سنہری مخملی ڈبیا نکالی۔دل میں درد کا اک بے ہنگم طوفان امڈ آیا۔آنکھوں کی سرخی بڑھنے لگی۔منظر دھندلانے لگا۔ایک اشک آنکھ سے پھسل کر چہرے پر بہہ گیا۔یہ فقط ایک ہیرہ جڑی انگوٹی ہی تو نہ تھی ۔اس سے جڑا ایک ایک جذبہ اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔وہ بچپن کی چاہت! دل میں بسے  انمول جذبات  اس آدھ انچ کے ہیرے میں جھلکتے تھے۔وہ جذبات جن کو محسوس کرتے ہوئےاس نے اس انگوٹھی کو خریدا تھا۔پھر وہ لمحہ جب وہ اس انگوٹھی کو لے کر گھر آیا تھا۔

"تمہیں پتا ہے آج میں کتنی خوش ہوں۔بہت خاص بات بتانی ہے تمہیں۔"ایک معصوم سی چہکتی آواز نے سماعت کے پردے پر دستک دی ۔اس پل وہ بھی تو اتنا ہی خوش تھا ۔یا شاید اس سے زیادہ خوش! لیکن اگلے ہی پل اس کی امید کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔اس نے یہ انگوٹھی اسی طرح بند کرکے دوبارہ رکھ دی تھی کبھی نہ دیکھنے کے لیے۔لیکن شاید قدرت نے اسی پر اس داستان کا انجام نہیں لکھا  تھا۔اس کو امید کا دیا بار بار تھماکر اس کے صبر کو آزمایا گیا تھا۔اس کی امیدوں کا شیرازہ ایک بار ہی تو نہیں بکھرا تھا۔بار بار وہ ادھیڑا گیاتھا۔اور آج پھر ایک بار اس کی امید ٹوٹ گئی تھی۔وہ آج پھر سے بکھر گیا تھا۔ایک بار پھر اس نے رب سے صبر مانگا تھا۔اسے رب سے شکوہ کرنے کی عادت نہیں تھی۔وہ اپنے رب کی رضا میں راضی رہنا جانتا تھا ۔لیکن دل بھی تو تھا ایک! اس دل نے اسے کہاں کب کس موڑ پر کس بل گرایا تھا اس کی داستاں الگ تھی۔یوں ہی تو دشت جنوں میں وہ جل کر انگار نہیں ہوگیا تھا۔

کمبخت دل کو کیسی طبیعت عطا ہوئی

جب جب دکھ اٹھائے مسرت عطاہوئی

فارس رحمان

٭٭٭

آغاخانی کالونی میں چہل پہل اپنے معمول کے مطابق شروع ہوچکی تھی۔یہ چالیس پچاس گھروں پر مشتمل ایک متوسط طبقے کی کالونی تھی۔جہاں زیادہ تر گھر اور ان کے مکین یہاں سالوں سے رہائش پذیر تھے۔کالونی کے آغاز پر بنے تین گھروں خان منزل،جوہر منزل اور دلشاد ہاؤس میں مثالی یارانہ تھا۔خان منزل ایک سرخ اینٹوں سے بنا دو منزلہ مکان تھا۔ جس میں راحم خان اور دائم خان اپنے بچوں سمیت رہائش پذیر تھے۔چھوٹے سے باغیچے میں پچھلی جانب سبزیاں اور پھل  اگائے گئے تھے۔ جبکہ سامنے کی طرف پھول اور کیاریاں تھیں۔

سیام اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بھورے بالوں کو اونچی پونی میں قید کررہی تھی۔بیڈ پر اس کا جارجٹ کا موتیوں جڑا بڑا سا ڈوپٹہ پھیلا ہوا تھا۔بیڈ کے قریب ہی اس کی سیاہ سینڈل رکھیں تھیں۔

"بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل…"وہ گنگناتے ہوئے کانوں میں ٹاپس ڈال رہی تھی۔

"غزل بھی وہ جو کبھی کسی کو سنائی نہ تھی۔"اسی پل وہ کمرے میں شرٹ پکڑے داخل ہوا۔

سیام نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔اگلے ہی پل تاثرات بگڑگئے۔

روفائیل گھنگرالے بال ماتھے پر بکھرائے سیاہ ٹی شرٹ اور نیلی گھٹنوں سے اوپر شارٹ میں ملبوس تھا۔

"تم نے ابھی تک چینج نہیں کیا ؟"سیام نے منہ بناکر کہا۔

"نہیں! یہ لو میری شرٹ پریس کردو جلدی !"اس نے شرٹ سیام کے منہ پر پھینکتے ہوئے کہا۔

سیام نے چڑ کر شرٹ چہرے سے ہٹاکر زمین پر پھینکی۔

"جہالت اپنے کمرے تک چھوڑ کر آیا کرو۔نظر نہیں آرہا میں تیار ہوچکی ہوں اور اتنی تیاری کے بعد۔۔

"ہاں اتنی تیاری کے بعد بھی بندریا ہی لگ رہی ہو۔چلو جلدی پریس کرو۔"روفائیل نے ہنستے ہوئے کہا۔

"پریس کرتی ہے میری جوتی! نیچے جاؤ دائیں طرف اسٹوروم ہے۔وہاں استری بھی پڑی ہے۔بجلی بھی ہے جاؤ کرو خود!"وہ تپ کر بولی۔

"کردو یار! بہن نہیں ہو؟"روفائیل نے اسے پچکارا۔

"نہیں تمہاری بہن نہیں ہوں۔چلو نکلو اب یہاں سے!"سیام نے صاف ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے اسے باہر کا رستہ دکھایا۔روفائیل غصے سے اسے گھورتا اپنی شرٹ اٹھانے لگا۔اسی پل بیڈ کے قریب اسے سیام کی سینڈل پڑی دکھائی دی۔وہ شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سیدھا ہوا۔اب سینڈل کا ایک پیر اس کے ہاتھ میں تھا۔سیام کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے سینڈل اس کے سامنے لہرائی۔

"نائس سینڈل ڈئیر! "

"روفائیل میری سینڈل مجھے واپس دو! "سیام اس کے پیچھے لپکی ۔روفائیل تیزی سے چھت کی جانب دوڑا۔سیام بھی فراک کو دونوں ہاتھوں سے اونچاکرتی اس کے پیچھے دوڑی۔

"ماما! بابا!دادو!بھائی جان! میری سینڈل پھینکنے جارہا ہے یہ! "وہ ہلک کے بل چلاتی اس کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔

"کیا قیامت آگئی اب! "ردابہ خاتون اسی پل کچن سے نکل کر چیخیں۔

"ضرور اس بیغیرت نے پھر کوئی شرارت کی ہے۔"دادو تخت پر لیٹے لیٹے بڑبڑائیں۔

"روفائیل! او روفائیل! "منیزہ خاتون نے غصیلے لہجے میں  اپنے پورشن سے نکلتے ہوئے بیٹے کو آواز دی تھی۔لیکن سب بے سود وہ چھت پر پہنچتے ہی سینڈل کو پوری قوت سے پچھلی گلی میں اچھال چکا تھا۔سینڈل ہوا میں قلابازیاں کھاتی پچھلے باغیچے سے ہوتی دوسری گلی میں جاگری تھی۔سیام چھت پر پہنچی تو روفائیل مطمئن کھڑا مسکرارہا تھا۔

"جاہل!ہو تم!"وہ روہانسی ہوکر بے بسی سےچلائی۔

"شرٹ پریس کردیتی تو کتنا اچھا ہوتا نا تمہارے حق میں۔"روفائیل مسکراتا ہوا نیچے اتر گیا۔

٭٭٭

"روفائیل! تم نے اس کی سینڈل کہاں چھپائی ہے ؟"

"دادو چھپائی نہیں ہے پچھلی گلی میں پھینک دی ہے۔"سیام نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

"روفائیل! "راحم خان نے بیٹے کو سخت نگاہوں سے گھورا۔

"کتنی دفعہ کہا ہے میری بچی کو تنگ نہ کیا کرو۔"

"بڑے بابا یہ میری چیزوں سے کچھ زیادہ ہی چھیڑ خانیاں کرتا ہے اس دن جو آپ میرے لیے چاکلیٹس لائے تھے وہ  بھی اس نے چرالی تھیں۔"سیام کو موقع مل گیا تھا۔سو اس نے خوب فائدہ اٹھایا۔

"ایک شرٹ پریس کرنے کا کہا تھا۔"روفائیل نے اسے نگاہوں نگاہوں میں ہی کھاجانے کا ارادہ کرلیا تھا۔

"تو کیا ہوا سیام! کردیتیں ایک شرٹ ہی تو تھی۔"ردابہ خاتون نے سیام کو گھوری ڈالی۔

"ماما! اتنا تیار ہوکر میں اتنی گرمی میں اسٹورروم کا چکر لگاتی ؟کپڑے پریس کرنا مجھے ویسے ہی پسند نہیں۔۔  اس لیے میں نے تو اپنے بھی مشال آپی سے کروائے تھے۔"سیام نے لاپرواہی سے کہا۔

"چڑیل! "روفائیل نے چڑ کر کہا۔

"جن! "اس نے بھی فورا جواب دیا۔

"بس خاموشی سے ناشتہ کرو دونوں!اور روفی اسے اپنے ساتھ ہی لے کر جانا۔"دائم خان نے کہا۔

"جی چاچو! "روفائیل نے تابعداری سے کہا اور ناشتہ کرنے لگا۔سیام بھی منہ بنائے ناشتہ کرنے لگی۔دن کے آغاز میں ہی روفائیل نے اس کا مزاج بگاڑ دیا تھا۔

روفائیل اور مشال راحم اور منیزہ کے بچے تھے۔مشال یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی طالبہ تھی۔جبکہ سولہ سالہ روفائیل میٹرک میں تھازوریز،عمر اور سیام دائم خان اور ردابہ کے بچے تھے۔زوریز نے حال ہی میں ایم بی اے مکمل کیا تھا اور اب ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کررہا تھا۔عمر سیکنڈ ائیر کا اسٹوڈنٹ تھا اور پندرہ سالہ سیام روفائیل کی ہم جماعت تھی۔وہ دونوں ایک ہی اسکول میں تھے۔دونوں میں ہمہ وقت چھتیس کا آکڑا رہتا۔وہ دونوں خان منزل کی رونق تھے۔جتنے لاڈلے تھے اتنے ہی سب کی ڈانٹ کے زیادہ تر حق دار بھی یہی بنتے ۔وجہ ان کا ہر وقت لڑتے رہنا تھا۔

٭٭٭

آفندی ہاؤس میں معمول کے مطابق مقدس سی خاموشی کا راج تھا۔یہ گھرانہ سخت اصولوں کے زیرسایہ چل رہا تھا۔یہاں حسن آفندی کے دو بیٹے اسفندیار آفندی اور شاہنواز آفندی اپنی آل اولاد سمیت آباد تھے۔اسفندیار کے تین بیٹے اصفہان ،فاران اور داؤد تھے۔شاہنواز آفندی کے تین بچے راحیل ،رامین اور حنال تھے۔

اصفہان کی شادی رامین سے ہوئی تھی۔ان کا ایک بیٹا تھا۔فاران تعلیم کے سلسلے میں ملک سے باہر رہ رہا تھا۔داؤد میٹرک میں تھا۔راحیل کی شادی اس کی خالہ زاد مریم سے ہوئی تھی ۔ان کا ایک تین سالہ بیٹا تھا۔جبکہ حنال بھی میٹرک میں تھی۔

صبغہ اور رومانہ کچن میں ملازموں کی نگرانی کررہی تھیں افراد خانہ کی تعداد کثیر ہونے کے باوجود یہاں ہر پہر ایسے خاموشی چھائی رہتی تھی۔

داؤد ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنے بال بنارہا تھا۔وہ سرخ و سفید رنگت کا حامل بھرے جسم کا سولہ سالہ لڑکا تھا۔تیکھی ناک اور ہلکی سنہری رنگ کی آنکھیں،بھرے بھرے ہونٹ اور بھورے بالوں والا داؤد اس عمر میں بھی سنجیدہ اور پراثر شخصیت کا مالک تھا۔پرفیوم چھڑک کر اس نے خود پر آخری نگاہ ڈالی۔اچانک ہی  ایک  معصوم چہرے کو تصور کیااگلے ہی پل شرمگی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا تھا۔

٭٭٭

"ماہ رنگ! اتنا گہرا میک اپ! "زرینہ نے سخت ناگواری سے اس کے چہرے کو دیکھا۔

"ممی پلیز! کوئی گہرا میک اپ نہیں ہے۔اگر آپ وہاں باقی لڑکیوں کو دیکھیں گی تو آپ کو پتا چلے گا ایکچویلی گہرا میک اپ کہتے کسے ہیں۔"وہ چڑ کر بولی اور جھک کر سینڈل پہننے لگی۔

"سیام بھی تو ہے وہ تو کبھی تمہاری طر۔۔

"کم آن ممی! مجھے سیام سے کمپیئر نہ کریں۔"وہ تپ کر بولی اور سیدھی ہوکر سیاہ ریشمی بالوں کو جھٹکے سے پیچھے کیا۔سامنے لگے شیشے میں ایک نگاہ اپنے وجود پر ڈالی۔

وہ بلا کی حسین تھی۔سیاہ بڑی بڑی آنکھیں،پتلی سی ناک اور نازک سے لب۔ملائی سی سفید رنگت والی ماہ رنگ حقیقی معنوں میں چاند سی چمکتی صورت لیے لاکھوں میں بھی نمایاں رہتی ۔مزید آج کی تیاری نے اس نوخیز کلی کو مزید قیامت خیز بناڈالا تھا۔

"اوکے ممی میں چلتی ہوں ۔"اس نے اپنا کلچ اٹھایا اور باہر کی جانب بڑھی۔

"میں چھوڑ آؤں ؟"

"نہیں ممی! پارک میں فرینڈز ویٹ کررہے ہیں ہم سب ساتھ جائیں گے۔"وہ لاپرواہی سے کہتی باہر نکل گئی۔زرینہ کو اس کے رنگ ڈھنگ ہولاتے تھے ۔سے گہری سانس لی۔اسے اچھی زندگی دینے کی تگ و دو میں اچھی تربیت دینے میں ناکام ہوگئیں تھیں شاید ! تبھی تو وہ اتنی خود سر اور ضدی بن گئی تھی۔۔ ۔ماہ رنگ  کے والد سے ان کی شادی والدین کی رضامندی کے بغیر تھی۔ماہ رنگ سات سال کی تھی جب کامران کا انتقال ہوا۔کامران کی موت کے بعد زرینہ کا کڑا امتحان شروع ہوا۔ملازمت،بچی کی دیکھ بھال گھر کے کام کاج ان سب کے درمیان وہ بری طرح پھنس گئیں۔زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چل پڑی تھی۔لیکن آہستہ آہستہ انھیں احساس ہونے لگا کہ ماہ رنگ ، ضدی،خودسر اور بلا کی بدتمیز ہوچکی تھی۔سمجھانا بجھانا ڈانٹ ڈپٹ سب بیکار وہ کبھی نہیں سنتی تھی۔وہی کرتی جو اس کا دل کہتا۔

٭٭٭

دانیال،نہال اور عمیر کافی دیر سے پارک میں باقی دوستوں کا انتظار کررہے تھے۔آج ان سب کا اسکول میں آخری دن تھا۔فئیرویل پارٹی میں بھی ان سب نے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا اور سب کو ہدایت کی تھی کہ تیار ہوکر ان کے مخصوص جائے مشاورت برائے واردات(جہاں بیٹھ کر وہ سب اپنی تمام کارگزاریاں طے کرتے اور ان پر بحث کرتے) پر پہنچ جائیں۔ابھی تک وہاں صرف یہ تین ہی پہنچے تھے۔باقی ٹولی غائب تھی۔

"یار یہ سب کیا اپنے ولیمے کے لیے تیار ہورہے ہیں ؟جو ابھی تک نہیں پہنچے؟"عمیر منہ بگاڑ کر بولا۔

"یہ تو جاکر تو ان سے ہی پوچھ!"نہال نے خفگی سے کندھے اچکائے۔

"یوں نہ روٹھو صنم"دانیال نے اس کی گردن میں بازو حمائل کیے۔

"بکواس مت کر! چل دور ہٹ!"نہال نے تپ کر اس کا ہاتھ جھٹکا۔

اسی پل سامنے سے داؤد آتا دکھائی دیا۔

"گڈ مارننگ فرینڈز!"اس نے قریب پہنچ کر کہا۔

"مہربانی آپ کی  !آپ اتنی جلدی تشریف شریف لے آئے۔"نہال نے طنزیہ لہجہ اپنایا۔

"ویسے بڑا چمک رہے ہو کا  بات ہےٹھاکر؟"دانیال نے معنی خیزی سے کہا۔

"لگتا ہے آفندی صاحب کسی کو پروپوز کرنے والے ہیں۔"عمیر اشتیاق سے بھرپور لہجے میں بولا۔

"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔"داؤد جھینپ کربولا۔اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔

"شرمانا تو دیکھو۔۔"نہال نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ٹہوکہ دیا۔

"کچھ تو بات ہے۔"دانیال بضد تھا۔اسے پورا یقین تھا کہ آج وہ بھی کسی کو پروپوز کرنے والا ہے۔

اسی پل سامنے سے روفائیل اور سیام ماہ رنگ کے ہمراہ اس طرف آتے دکھائی دیے۔

"اب بھی کیوں آئے ہو؟نہ آتے!ہم تو پیدا ہی تمہارے انتظار کے لیے ہوئے ہیں۔۔سارا سال یہیں انتظار کرتے رہتے کوئی مسئلہ تھوڑی ہے۔"دانیال نے کہا۔

"ٹھیک ہے چلو ہم واپس چلتے ہیں۔"روفائیل نے سیام اور ماہ رنگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

دانیال نے انھیں کھاجانے والی نگاہوں سے گھورا۔

"اب یہ دعا کہاں رہ گئی؟"دانیال نے بولا۔۔

"یاراب دعا میڈم کا انتظار کریں۔"ماہ رنگ نے ناک بھوں چڑائی۔

"تو ؟ہم بھی تو پچھلے ایک گھنٹے سے تم سب کا انتظار کررہے ہیں مزید کچھ دیر اس کا بھی انتظار کرلیں گے تو قیامت تھوڑی آجائے گی ۔"عمیر تنک کر بولا۔

"ہاں ہاں! اس کے انتظار میں تو تم کو صدیوں تک کھڑا کردو تم تھوڑی تھکوگے۔جلے سڑے منہ تو بس  ہمارے لیے بناتے ہو۔"ماہ رنگ طنز کرتے بولی تو عمیر کھسیا کر ہنس دیا۔

٭٭٭

اسکول میں ہر طرف چہل پہل کا منظر تھا۔جہاں نظر جاتی زرق برق ملبوسات میں خوشی سے چمکتے چہرے لیے طلبہ و طالبات لمحوں کو یادگار بنانے کی تگ و دو میں نظر آتے تھے۔یہ شاید زندگی کا سب سے خوبصورت وقت ہوا کرتا ہے۔جب بچپن اور لڑکپن تک کی ساری یادیں ایک عمارت اور اس کے مخلتف حصوں سے جڑی ہوں۔ڈھیروں شرارتیں،مسکراہٹیں اور خوشیاں اس عمارت سے جڑی ہوں۔

وہ آٹھوں بھی ایسے ہی تھے۔یہ اسکول ان کا دوسرا گھر تھا۔ان کی شرارتیں پرائمری سے لے کر سیکنڈری تک عروج پر ہی رہیں۔خاص طور پر روفائیل،عمیر،دانیال اور نہال! جتنی سزائیں ان چاروں کو ملیں شاید ہی کسی کو ملی ہوں۔یہ ان کی خوش قسمتی کہہ لیں یا اتفاق کہ انھیں ہر بار ایک موقع دے دیا جاتا تھا۔اس سوسائٹی کے معززین ان کے ورثاء تھے اس لیے بھی انھیں رعایت دے دی جاتی تھی۔اسکول میں ہونے والی ہر واردات کے ماسٹر مائینڈ وہ چاروں تھے۔یعنی روفائیل, دانیال،نہال اور عمیر! داؤد ان کا دوست ہوتے ہوئے بھی ان سے یکسر مختلف تھا۔جبکہ وہ چاروں شرارتی بلاؤں کے نام سے جانے جاتے۔وہ اکثر پرائمری کے فوڈ کارٹ میں داخل ہوکر ننھے بچوں کا لنچ کھائے پائے جاتے تھے۔وہ اکثر مختلف پرینک اور کھیل کھیلتے ۔کھیلوں کے اصول بھی خود بناتے اور جیت بھی اپنی ہوتی ۔جیتنے کے بعد یہ ہارنے والوں سے زبردستی کی ٹریٹ لیتے۔خوب ڈٹ کر کھاتے اور اگلا بندہ ایک ہفتے تک خالی جیب کی بنا پر کینٹین کا رخ کرنے سے محروم رہتا۔ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ ان سے فاصلہ رکھا جائے لیکن ان کی کوشش کامیاب کبھی نہ ہوتی۔کیوں کہ وہ فاصلوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

"اوۓ ملّا چشماٹو! آج تو بڑا لش پش کررہا ہے تو!"قریب سے گزرتے سیکشن B کے صفدر کو عمیر نے آواز دے کر روکا۔

صفدر رکا اور زبردستی مسکرایا۔

"ادھر آ نا کہاں جارہا ہے؟"نہال نے اسے قریب آنے کا اشارہ کیا۔صفدر کی رنگت متغیر ہوئی۔اس نے بے اختیار نفی میں گردن ہلائی۔

"کیا یار کبھی تو مسکرا کر مل لیا کر۔۔آ نا!"دانیال نے نے اسے خفگی سےگھورا۔صفدر نے داؤد کو مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔

"کم آن بوائز! لیٹ ہم گو!"داؤد نے ان چاروں کو گھورا۔

"یار تو چپ نا !"روفائیل نے داؤد کو خفگی سے دیکھا۔

"جاؤ تم صفدر! "داؤد نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔صفدر تیر کی تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

"داؤد!"نہال نے اسے گھورا۔داؤد نے کندھے اچکادئیے۔

"ہر وقت شرارتیں اچھی نہیں لگتیں اب تم سب بڑے ہوچکے ہو۔"

"ٹھیک کہہ رہا ہے داؤد!"سیام نے ہمیشہ کی طرح داؤد کی حمایت کی ۔سیام اور داؤد ہم مزاج تھے۔امن پسند اور سنجیدہ مزاج!

"تم چپ کرو داؤد کی چمچی! "روفائیل نے اپنی چچازاد سیام کی طرف غصیلی نگاہوں سے دیکھا۔

"تمہیں نرمی سے بات کرنی چاہیے لڑکیوں سے ۔"داؤد نے روفائیل کی طرف دیکھ کر کہا۔

"یار اب تم دونوں پھر شروع مت ہوجانا!"ماہ رنگ نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔روفائیل نے ماہ رنگ کی طرف دیکھا ۔اس کی آنکھیں پل بھر کو جھلملائیں۔ ماہ رنگ یا کا کہا وہ ٹالنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا سو فقط داؤد کو گھور کر رہ گیا۔

"آج ہمارا یہاں آخری دن ہے۔اور آج کسی کو بھی تنگ مت کرنا "داؤد نے ان چاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"آج ہمارا آخری دن ہے اسکول میں! اس لیے ہم ہمیشہ سے زیادہ انجوائے کریں گے !کیوں یاروں؟"روفائیل نے اپنے ہم مزاج یاروں کی تائید چاہی۔

"ہاں ہاں! بالکل! "نہال نے اثبات میں سرہلایا۔

"لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے دوستوں! "داؤد نے خفگی سے کہا۔

"تو تم مت آؤ ہم تو جارہے ہیں۔چلو چلیں!"روفائیل عمیر،نہال اور دانیال کے ہمراہ وہاں سے چل دیا۔

"جانے دو ان شیطانی چیلوں کو!ہم ہال میں چلتے ہیں۔"دعا نے کہا۔

"ابھی تقریب شروع ہونے میں کافی وقت ہے۔"داؤد نے کہا۔

"لیکن پھر سیٹ نہیں ملے گی ۔"سیام نے کہا۔

"تو کیا تم میرے لیے ایک سیٹ بچاکر نہیں رکھوگی ؟"داؤد مسکرایا۔

"ٹھیک ہے تمہارے لیے ایک سیٹ سنبھال کر رکھوں گی لیکن جلدی آنا۔"سیام نے کہا۔داؤد نے مسکراکر اثبات میں سرہلایا۔وہ تینوں آگے بڑھ گئیں۔داؤد اپنا فون  جیب سے نکالتا درخت کے چبوترے پر جابیٹھا۔کان میں ہیڈ فون لگائے اور اپنی پسندیدہ سورہ الرحمٰن لگاکر آنکھیں موندلیں۔اس کے چہرے پر سکون پھیلنے لگا۔ وہ قرآن پاک کا جنون کی حد تک دیوانہ تھا۔حافظ قرآن ہونے کے ساتھ وہ ایک خوبصورت آواز کا مالک بھی تھا۔

٭٭٭

وہ چاروں ساتھ چلتے ہوئے کینٹین کے عقبی حصے تک آئے۔نہال کو بھوک لگی تھی۔وہ کینٹین میں لمبی قطار کا حصہ بننا کبھی پسند نہیں کرتے تھے۔عقبی حصے سے کینٹین کے کچن میں داخل ہوکر رحمان بابا کا ہاتھ بٹاتے بٹاتے کھانے پینے کی اشیاء بطور انعام حاصل کرلیتے۔اب بھی ان کا یہی ارادہ تھا۔

کینٹین کے عقبی حصے میں ہی پارکنگ ائیریا تھا۔جہاں پرنسپل روبینہ کے ڈرائیور اصغر  کاکا کار کے بونٹ پر جھکے نظر آرہے تھے۔

"السلا و علیکم کاکا!"

"وعلیکم اسلام! "جواب خاصا روکا سا تھا۔پچھلی دفعہ کار کو دھکا لگانے کے چکر میں ان لوگوں کے اسے فٹ پاتھ سے جاٹھوکا تھا اور اس کے نتیجے میں کار کا بمپر ناکارہ ہوگیا تھا۔اس دن کے بعد سے اصغر کاکا نے ان چاروں سے قطع کلامی کرلی تھی۔

"کاکا !آپ کی کوئی مدد کردیں؟"پوچھنے والا روفائیل تھا۔

"ہاں کیوں نہیں۔۔  مجھ پر ایک چھوٹا سا  احسان کرو!"کاکا سیدھا ہوتے ہوئے بولے۔

"جی بولیں ؟"وہ چاروں اشتیاق سے کہتے قریب آئے۔

"یہاں سے اگلے ایک منٹ میں دفع ہوجاؤ۔"وہ دھاڑے۔وہ چاروں فورا کانوں پر ہاتھ رکھتے پیچھے سرکے۔

"مدد کردیں!بڑے آئے خدائی فوجدار! ہنہ! کبھی مصیبت بڑھانے کے سوا کوئی کام کیا بھی ہے ؟"وہ درشتی سے بولے۔

"بس بس اصغر کاکا! "نہال خفگی سے بولا۔

"ایک تو نیک نیتی سے مدد کو آگے آئے۔"روفائیل نے منہ بنایا۔

"ارے تم جیسے مدد کو نکل پڑے تو ہوگیا کام ہم جیسوں کا!"انھوں نے باقائدہ ہاتھ اٹھا کر ان کی طرف پھر اپنی طرف اشارہ کیا۔

"اب آپ ہماری توہین کررہے ہیں۔"عمیر جذباتی ہوا۔

"ارے جاؤ جاؤ! "کاکا نے رکھائی سے ہاتھ جھلایا۔

"چلو یار !بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا۔"دانیال نے ہاتھ ہلاکر کہا۔

"ابے چل ادھر سے زیادہ ملکہ جذبات نہ بن! "روفائیل نے اس کا بازو کھینچا۔

"کیا زمانہ آگیا ہے۔ایک تو ہم کتنی نیک نیتی سے ان کی مدد کو آئے اور یہ جناب ہیں کہ توہین پہ توہین! "دانیال کو تو گویا پتنگے ہی لگ گئے تھے۔

وہ  پھر کینٹین کے عقبی حصے کی جانب بڑھنے لگے۔

"ویسے آج کل مرزا غالب اور اکبر عثمان آبادی کو پڑھ کر اس کے اندر خالص اردو کے کیڑے جنم لے رہے ہیں "نہال نے دانیال کی جانب دیکھ کر طنز کیا۔

وہ چاروں کینٹین کے پچھلے حصے میں داخل ہوئے۔

"یار! وہ اکبر عثمان آبادی نہیں تھا۔شاید الہ آبادی تھا۔"عمیر نے تصیع کی۔

"وہاٹ ایور! "نہال نے ہاتھ جھلایا اور وہ سب کینٹین کے کچن میں داخل ہوگئے۔

٭٭٭

تقریب کا آغاز ہوچکا تھا۔وہ چاروں ابھی تک غائب تھے۔سامنے کی کرسیوں میں سے ایک پر داؤد بیٹھا تھا۔اس کے برابر میں سیام پھر ماہ رنگ اور دعا براجمان تھیں۔

"داؤد تلاوت تم کروگے نا؟"سیام نے سوال کیا۔

"ہاں! "وہ مسکرایا۔

"تمہیں میم روشی نے سنڈریلا والے ایکٹ میں پرنس بننے کی آفر کی تھی۔تم پرنس کیوں نہیں بنے؟"سیام نے خفگی سے کہا۔

"کیا تم چاہتی تھیں کہ میں پرنس بنوں؟"

"ہاں نا!"سیام نے منہ بسورا۔داؤد نے ایک نظر اسے دیکھا پھر ہنس دیا۔

"تم دونوں کیا کھسر پھسر کررہے ہو؟"ماہ رنگ ذرا آگے ہوکر ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔

"داؤد کہہ رہا ہے کہ ماہ رنگ آج ہمیشہ سے زیادہ حسین دکھ رہی ہے۔"سیام مسکرائی۔

"میں جانتی ہوں۔"ماہ رنگ کے چہرے پر فخریہ تاثرات چھائےوہ مسکرادی تھی

۔داؤد خفگی بھری نگاہوں سے سیام کو گھورتا رہ گیا

"سیام کتنی جھوٹی ہو تم! "داؤد نے دبے لہجے میں خفگی سے کہا۔

"ہاہاہا آئی ایم سوری! "سیام نے شرارت سے آنکھ دبائی۔داؤد نے فورا سٹپٹاکر نگاہیں پھیر لیں وہ بلا کا شرمیلا واقع ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد اس کا نام پکارا گیا۔وہ اپنا کوٹ ٹھیک کرتا اٹھا اور سرجھکائے اسٹیج کی جانب بڑھنے لگا۔ڈائس پر پہنچ کر اس نے شائستگی سے سلام کیا۔تسمیہ پڑھنے کے بعد اس نے سورہ الرحمن کی تلاوت شروع کی۔جیسے جیسے وہ تلاوت کرتا گیا ہال میں سحر سا چھاگیا تھا۔ہر جانب اس کی دلکش آواز گونج رہی تھی۔

٭٭٭

وہ چاروں شاکر بابا کے قریب بیٹھے تھے۔شاکر بابا اسکول کے چپڑاسی تھے۔چھوٹے سے قد اور باریک آواز کے مالک شاکر بابا کی ان چاروں سے خوب بنتی تھی۔

"بابا آپ ہمیں یاد کریں گے یا باقی لوگوں کی طرح شکر کا کلمہ پڑھیں گے ؟"پوچھنے والا دانیال تھا۔اس کی بات سن کر بابا مسکرائے۔

"بھلا تم شریر شیطانوں کو بھی کوئی بھول سکتا ہے؟"

"واہ بابا واہ! لائیں اسی بات پر آخری دفعہ پان ہی کھلادیں۔"نہال نے مسکراتے ہوئے ندیدے پن سے کہا۔

"بدمعاشوں!"بابا نے تاسف سے گردن ہلائی اور جیب سے پان نکالنے لگے۔

نہال سے قبل ہی روفائیل نے ان کے ہاتھ سے پان جھپٹ لیا۔

"چار حصے کرنا شرافت سے ورنہ تیرے چار ٹکرے کردوں گا۔"نہال نے اسے گھورا۔

"اچھے بچے نہیں کھاتے۔"روفائیل نے دانت دکھاتے ہوئے کہا۔

"دے مجھے واپس! "نہال اس پر جھپٹنے لگا۔

"اچھا نا دے رہاہوں ندیدے رک! "روفائیل نے اسے گھورا اور پان کھولنے لگا۔

وہ تینوں اس کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے۔قریب کرسی پر بیٹھے شاکر بابا کو پورا یقین تھا کہ وہ پورا پان خود منہ میں لے کر یہاں سے لمحوں میں غائب ہوجائے گا۔اور یہی ہوا اس نے پان توڑنے کے بجائے جھٹ سے منہ میں ڈالا اور تیر کی تیزی سے راہداری کے چبوترے پر چھلانگ لگا کر اندر غائب ہوگیا۔وہ تینوں ہکا بکا چہرہ لیے وہیں ہاتھ پھیلائے کھڑے رہ گئے۔

"کمینے! ذلیل !"دانیال پیچھے سے دھاڑا تھا۔نہال اور عمیر بھی غصیلے تاثرات لیے وہیں کھڑے تھے۔

شاکر بابا بمشکل ہنسی دبائے دوسری جانب دیکھ رہے تھے۔وہ چاروں ہی کئی مرتبہ یہ حرکت کر چکے تھے۔وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔

٭٭٭

تقریب ختم ہونے کے بعد وہ چاروں دوبارہ اپنے مخصوص مقام پر موجود تھے۔بینچ پر ماہ رنگ بیٹھی چپس کھارہی تھی ۔برابر میں دعا اپنے بیگ پر جھکی چیونگم تلاش کررہی تھی۔اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ نہال دانیال اور روفائیل جو چیونگم چبارہے ہیں وہ اسی کے بیگ سے چرائی گئی ہے۔

"کیا ڈھونڈ رہی ہو دعا ؟"عمیر نے پوچھا۔اس کی بات پر سب نے دعا کی جانب دیکھا۔

"چیونگم رکھی تھی بیگ میں!"دعا نے زپ بند کرتے ہوئے کہا۔

"بیگ میں ڈھونڈنے کے بجائے تمہیں کچھ لوگوں کے منہ میں ڈھونڈنی چاہیے۔"داؤد نے ان تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

دعا نے چونک کر ان تینوں کی طرف دیکھا۔ جو انجان بنے بیٹھے تھے۔

"کیا تم لوگوں نے دعا کی چیونگم چرائی ہے ؟"عمیر نے ان تینوں کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔

"اتنے انجان بن کر کیا پوچھ رہے ہو تم نے ہی تو ہمیں اس کے بیگ سے نکال کر دی تھی۔"نہال نے صریحاً جھوٹ بولا۔عمیر اس کھلے الزام پر گھبرا کر دعا کی طرف دیکھنے لگا۔

"توبہ اللّٰہ  !جھوٹے  میں نے کب دی ؟دعا اس کی باتوں میں مت آؤ یہ ایک نمبر کا مکار ہے۔"عمیر نے ایک زوردار لات اسے رسید کی ۔

دعا خاموشی سے ان کی طرف دیکھتی رہی۔

نہال مسکراہٹ دبائے چیونگم چباتا رہا۔

"کتنے ندیدے ہو تم لوگ ! "ماہ رنگ نے  بینچ پر بیٹھے قریب بیٹھے نہال کو پیر سے ٹہوکا۔

"یار مجھے کیوں بیچ میں لارہی ہو میں نے تھوڑی کی ہے۔"روفائیل نے ماہ رنگ کے سامنے معصومیت کا چولا زیب تن کیا۔

"ہنہ !تم ہی ان سب کے سردار ہو سمجھ آئی! "سیام جو اس کی عادت سے بخوبی واقف تھی چڑ کر بولی۔

"تم چپ کرو چڑیل! "

"تم کیا ہو؟ مستنڈے ! پتا ہے دوستوں یہ بھکڑ رات کو ہمارے  فریج سے کھانا چراتا ہے ۔"سیام نے اس کا راز فاش کیا۔سارے منہ پھاڑ کر ہنسنے لگے۔

روفائیل کھسیاکر رہ گیا۔

"اچھا بس لڑنا بند کرو۔کوئی بات نہیں چیونگم ہی تو تھی۔لیکن اگر تم لوگ مجھ سے مانگ لیتے تب بھی میں منع تھوڑی کرتی ۔"دعا مخصوص نرم لہجے میں بولی۔وہ نرم خو لڑکی تھی۔

"ہائے رے معصومیت !لیکن پیاری دعا جو مزہ ایسے کھانے میں ہے وہ مانگ کر کھانے میں کہاں؟"

"تو مطلب ساری عمر کھانے چراتے رہوگے ؟"داؤد نے تاسف سے گردن ہلائی۔

"شکل تو ایسی ہے نہیں کہ  دل چراسکیں! مجبورا کھانا ہی صحیح! "عمیر نے دانت نکوسے۔

وہ سب ایک بار پھر ہنس دئیے۔

"اچھا بس بہت باتیں ہوگئیں اب کام کی بات پر آتے ہیں۔"دانیال سنجیدہ ہوا۔

"کون سے کام کی ؟"

"یہی آگے کا کیا پلان ہے؟"دانیال نے سوال کیا۔

"ہم کسی ٹرپ پر جانے والے تھے۔"نہال نے کہا۔

"کون سا ٹرپ ؟"داؤد نے سوالیہ انداز اپنایا۔

"پاکستان ٹور! "

"اور گھر سے اجازت ؟"دعا نے الجھن آمیز لہجے میں پوچھا۔

"لڑکیاں گھر بیٹھیں صرف لڑکے جائیں گے۔"نہال نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟لڑکیاں گھر کیوں بیٹھیں؟ہم بھی چلیں گے۔"ماہ رنگ نے فورا منہ بناکر کہا۔

"تو کیا تم بھی آنا چاہتی ہو؟"روفائیل خوشی چھپاتے ہوئے پوچھنے لگا۔

"تو؟ تم لوگوں نے میرے بغیر جانے کا پلان بنایا ہے؟"معمول کے مطابق اس کے تیوری فورا چڑھ گئی۔

"ارے نہیں !بس یوں ہی ہمیں لگا شاید تم لوگوں کو پرمیشن نہ ملے۔"روفائیل نے بات بنائی۔وہ دل سے چاہتا تھا کہ ماہ رنگ ساتھ آئے۔

"ہاں! پرمیشن تو واقعی نہیں ملے گی ۔"دعا نے بیچارگی سےکہا۔عمیر نے اس کی طرف دیکھا۔وہ خود بھی دعا کی سنگت کا متمنی تھا۔لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے والدین اجازت نہیں دیں گے سو دل مسوس کر رہ گیا۔

"یار بات تو یہ ہے کہ پرمیشن ہم میں سے کسی کو بھی نہیں ملے گی ۔"داؤد نے کہا۔

"ہم تو جیسے تیسے کرکے لے ہی لیں گے ہاں تمہارا کچھ کہہ نہیں سکتے ۔کیوں کہ تم ٹھہرے گڈ بوائے!ماماز بوائے ڈیڈیز بوائے اینڈ لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ! اپنی گرینی کے ننھے سے معصوم فرشتے!" روفائیل نے ہمیشہ کی طرح داؤد کا مذاق بنایا۔داؤد کی تیوری چڑھی وہ کچھ کہتا اس سے قبل ہی ماہ رنگ نے ان دونوں کو خاموش کروایا۔

"بس اب لڑنے مت لگ جانا!" ماہ رنگ اپنے مخصوص لہجے میں بولی۔نرمی کا عنصر اس میں رتی برابر بھی نہ تھا۔وہ بلا کی مغرور اور خود پسند تھی۔

"دیکھو میری بات غور سے سنو! اگر میں بھی ضد کروں گا تو اجازت مل ہی جائے گی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں پاکستان ٹور پر جانا چاہیے۔"داؤد نے بات کا آغاز کیا۔

"کیوں ؟"نہال نے سوال کیا۔

"کیوں کہ اب ہم اتنے بھی بڑے نہیں ہیں کہ اتنے دنوں کے لیے اتنے لمبے ٹرپ پر اکیلے نکل پڑیں۔ایڈونچر اپنی جگہ لیکن ہمیں خیال رکھنا چاہیے ہماری چھوٹی سی غلطی بھاری پڑ سکتی ہے۔"داؤد نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک کہہ رہا ہے داؤد!"عمیر نے حمایت سے نوازا۔

"تو پھر کیا کریں ؟"روفائیل نے پوچھا۔

",دو راستے ہیں۔یا تو کسی روڈ ٹرپ پر چلتے ہیں۔گھر سے کسی بڑے کو ساتھ لے لیں گے یا ایسا کرتے ہیں زیارت چلتے ہیں۔گرینی ویسے بھی کافی دن سے وہاں جانے کا سوچ رہی ہیں۔اور جب گرینی ساتھ ہوں گی تو تم میں سے کسی کے پیرنٹس کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔اور اس طرح ہم سب اس ٹرپ کو یادگار بناسکتے ہیں۔"

یہ سچ تھا آفندی ہاؤس اس سوسائٹی کا ایک مثالی گھرانہ تھااور سوسائٹی میں عزت و احترام سے جانا جاتا تھا۔یہ خاندان وہاں کے ہر گھر کے لیے ایک مثال تھا۔

"بلکل ٹھیک! یہ اچھا آئیڈیا ہے۔"سیام خوشی سے چہک اٹھی۔

"آئی تھنک گرینی ساتھ ہوں گی تو میرے بابا بھی مان جائیں گے۔"دعا مسکرائی۔عمیر کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔

"چلو پھر ڈن! شام کو پھر ملتے ہیں اور باقی باتیں پھر کریں گے یہاں سے جاکر سب اپنے اپنے پیرنٹس سے بات کریں گے ۔ڈن ؟"

"ڈن! "

سب متفق تھے۔تین بجنے کو تھےوہ سب اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔

ان سب کے مزاج ایک دوسرے سے کافی حد تک مختلف تھے۔داؤد سنجیدہ طبیعت کا دھیمے مزاج کا حامل لڑکا تھا۔جسے قرآن پاک سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔قرآن پاک کی ہر سورت اسے زبانی یاد تھی۔وہ جس انداز سے تلاوت کرتا سننے والے ساری دنیا سے بےنیاز ہوکر اس کی  آواز اور قرآن پاک کے سحر میں کھوجاتے تھے۔نہال اور دانیال دونوں جڑواں تھے۔بلا کے شرارتی اور ہنس مکھ! عمیر کسی حد تک سلجھا ہوا تھا لیکن شرارتوں کے معاملے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ہر شرارت میں اپنا حصہ ضرور ڈالتا۔روفائیل! اس کے مزاج کو کوئی نام دینا ممکن نہ تھا۔نرم گرم! کبھی بلا کا شرارتی تو کسی وقت سنجیدگی میں حد پار کرجاتا۔ماہ رنگ بے حد مغرور اور تند مزاج واقع ہوئی تھی۔کب کس بات پر منہ سوج کر کپا ہوجائے کسی کو خبر ہی نہ ہوتی ۔دعا کم گو اور معصوم سی تھی۔اول تو وہ کسی سے خفا نہ ہوتی لیکن اگر ہو بھی جائے تو فورا مان جاتی تھی۔سیام! اسے اس گروہ کی دادی کہا جائے تو کچھ غلط نہ تھا۔وہ اکثر سب کے جھگڑے سلجھاتے ہوئے پائی جاتی ۔ایسا تھا ان کا مختلف مزاجوں سے سجا دوستی کا عجب سا رشتہ! وہ آپس میں اکثر بری طرح بھڑ جاتے تھے لیکن ان میں جدائی کبھی نہیں آئی ۔وہ لڑ کر بھی ساتھ ہی رہتے تھے۔یا یوں کہنا درست تھا کہ وہ الگ رہ ہی نہیں پاتے تھے۔

٭٭٭

روفائیل دادی کے کمرے میں ان کے پلنگ پر بیٹھا ان کی ٹانگیں دبارہا تھا۔ اسی اثنا میں سیام گنگناتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔روفائیل پر نگاہ پڑتے ہی اس کا منہ بن گیا۔

"اسلام و علیکم دادو!"

"وعلیکم اسلام!"دادو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔روفائیل نے بھی اسے دیکھ کر منہ بنا لیا تھا۔شرٹ استری نہ کرنے اور سینڈل پھینکنے کا غم دونوں کے دلوں میں تازہ تھا۔

"دادو! میں آپ کی ٹانگیں دبادیتی ہوں ۔اسے بھیج دیں۔"سیام نے دادو کی طرف دیکھ کر کہا۔

"کیوں میرے یہاں ہونے سے تمہیں کانٹے چبھ رہے ہیں ؟"

"نہیں!خیر کانٹے تو نہیں چبھ رہے لیکن ہاں یہ ضرور ہے کہ تمہاری زکوٹے جیسی شکل دیکھ دیکھ کر میرا موڈ خراب ہورہا ہے۔"سیام نے ناک چڑھاکر کہا۔

"اور تمہاری یہ سڑی بھینڈی جیسی شکل دیکھ کر میرا! "

"بس!"دادو نے دونوں کی طرف دیکھ کر سختی سے کہا۔وہ دونوں خاموش ہوئے لیکن آنکھوں سے گولہ باری ہنوز جاری تھی۔

"ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم روفی!"

"دادو زیارت ٹرپ !"روفائیل نے یاد دلایا۔سیام کی  آمد سے قبل وہ اسی بارے میں انھیں آگاہ کررہا تھا۔

"سیام تم بھی جاؤگی ؟"

"جی دادو! "سیام فورا پرجوش ہوئی۔

"ماہ گل بھی جارہی ہیں؟"دادو نے پوچھا۔ماہ گل آفندی داؤد کی دادی کا نام تھا۔

"اچھا میں کرتی ہوں پھر دائم اور راحم سے بات! لیکن خیال رہے کوئی شرارت نہیں کرنی وہاں روفی! "

"جی دادو جان آپ بالکل بے فکر ہوجائیں میں کوئی شرارت نہیں کروں گا"

"ہنہ! اور وہ قیامت کا دن ہوگا۔"سیام نے طنز کیا۔

"شٹ اپ! "

"یو شٹ اپ !"سیام تپ کر بولی۔

روفائیل نے دادو کی ٹانگیں چھوڑ کر اپنی ٹی شرٹ اوپر کرلی۔

"لو ہوگئی شرٹ اپ!"

"کانوں کا میل نکوالو ۔۔" سیام نے دانت بھینچتے کہا۔

"تم نکال دو!" روفائیل نے کان آگے کیے۔

"بس کرو تم دونوں کتنا لڑتے ہو؟"دادو نے ان کو ڈپٹتے ہوئے کہا۔

"دادو! میں نہیں یہ روفائیل مجھ معصوم کے پیچھے لگا رہتا ہے"سیام منہ بسور کر بولی۔

"معصوم ؟معصوم لفظ کی بے عزتی نہ کرو خود کو معصوم کہہ کر! "روفائیل استہزایہ انداز میں بولا۔ان کو خاموش نہ ہوتا دیکھ دادو نے سر پکڑ لیا تھا۔

٭٭٭ 

وہ ماہ گل آفندی کے قریب سر جھکائے بیٹھا تھا۔اس کے چہرے کے تاثرات سے وہ کچھ پریشان لگ رہا تھا۔بات ہی ایسی تھی جس کا تصور ہی اس کے لیے وبال جان تھا ۔وہ لمحہ قریب آپہنچا تھا۔

"میرے بچے! میں جانتی ہوں تم یہی رہنا چاہتے ہو یہیں پڑھنا چاہتے ہو لیکن تمہارے آغاجان  کی یہی خواہش ہے کہ تم بقیہ تعلیم لندن جاکر مکمل کرو۔"انھوں نے اس کے چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

داؤد کا دل ڈوب کر ابھرا۔

"گرینی! "

"گرینی کی جان! مجھے معلوم ہے تمہارے لیے یہ مشکل ہے لیکن یہ فیصلہ تمہاری بھلائی کے لیے ہے ۔"

"لیکن گرینی  !میں نہیں جانا چاہتا۔"وہ اداسی سے بولا۔وہ یہاں کے جانے سے تصور سے ہی گھبرارہا تھا۔جانے کیوں اسے لگتا تھا یہاں سے جانے کے بعد وہ کچھ بہت قیمتی کھودے گا۔

"جب تم چاہو گے ہم وہاں آکر تم سے مل لیا کریں گے۔اور یوں بھی انٹر نیٹ کا دور ہے دوریاں کہاں اتنی محسوس ہوتی ہیں۔کچھ وقت تک تمہیں عجیب لگے گا لیکن پھر عادت ہوجائے گی بیٹے! "ماہ گل آفندی نے نرمی و محبت سے سمجھانا چاہا۔داؤد کچھ کہے بغیر ان سے لپٹ گیا۔وہ  اس فیصلے سے انحراف کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتا تھا۔آفندی ہاؤس میں ہر فیصلے کا حق آغاجان محفوظ رکھتے تھے۔ان کی منشاء کے خلاف اس گھر میں تنکا برابر تبدیلی بھی ممکن نہ تھی۔

٭٭٭

فاروقی صاحب کی بیٹی ردا کی سالگرہ تھی۔ردا ان سب کی کلاس فیلو تھی۔یوں تو ان سب کی جماعت میں کسی سے بھی کوئی خاص دوستی نہ تھی ۔لیکن اس کے باوجود وہ ایسی تقریبات کو رد نہیں کرتے تھے۔ان کا دل چاہتا تو اکثر وہ بن بلائے بھی سوسائٹی کی کسی بھی تقریب میں آدھمکتے تھے۔اب بھی وہ وہاں موجود تھے۔ردا نے ساری جماعت کو مدعو کر رکھا تھا۔وہ سب ایک طرف کھڑے مذاق مستی میں مگن تھے۔داؤد قدرے خاموش اور بجھا بجھا سا لگتا تھا۔

"داؤد تم پریشان ہو ؟"سیام نے اس کی  اداسی کو محسوس کیا اور پوچھ بیٹھی۔

"نہیں! ایسا کچھ نہیں۔"سب کی توجہ کا رخ اپنی طرف مڑتے دیکھ کر فورا بولا۔

"پکا نا؟"سیام نے پھر کہا۔داؤد نے مسکرا کر اثبات میں سرہلایا۔اور سرسری نگاہ اس پر ڈالی۔

وہ گلابی لباس میں ملبوس تھی۔بالوں کی  اونچی پونی بنائے سادہ سا میک کیے پیاری اور معصوم لگ رہی تھی۔

قریب ہی ماہ رنگ کھڑی تھی۔ ہمیشہ کی طرح سلیقے سے کیا میک اپ اور جدید فیشن  کے لباس میں وہ بے حد حسین دکھائی دے رہی تھی۔

سیام گندمی رنگت کی حامل تھی۔بھوری آنکھیں،ننھی سی ناک ،نازک سے لب! اس کی ٹھوڑی کا خم اس کے چہرے کو مزید پرکشش بناتا تھا۔وہ ماہ رنگ جتنی حسین تو نہ تھی لیکن پیاری لگتی تھی۔

دعا سانولی سی معصوم صورت لڑکی تھی۔اس کی گہری سیاہ آنکھیں بلا کی کشش رکھتی تھیں۔ کہ دیکھنے والا پل بھر کو ٹھٹک کر رہ جاتا تھا۔

وہ آج ہلکا نیلا رنگ پہنے ہوئے تھی۔عمیر کے دل میں پلتا معصوم سا جذبہ جس کے احترام میں وہ ہمہ وقت دعا کے سامنے نظریں جھکائے رکھتا تھا۔کسی پل اسے چھپکے سے دیکھ لیتا تھا ورنہ نگاہیں جھکی ہی رہتیں۔اس گروہ میں اس کی پسندیدگی سے سب ہی واقف تھے سوائے دعا کے۔جبکہ روفائیل کی ماہ رنگ کے لیے پسندیدگی سے ماہ رنگ سمیت تمام لوگ واقف تھے۔ماہ رنگ خود بھی روفائیل کو باقی تمام دوستوں سے زیادہ اہمیت دیتی تھی۔

"ویسے ایک بات تو بتاؤ!"نہال نے رازدارانہ انداز اپنایا۔

"کیا؟"وہ سب متوجہ ہوئے۔

"ہم برتھ ڈے پارٹی میں آئے ہیں یا کسی بیکری میں ؟"

"کیا مطلب ؟"

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

"مطلب ؟" وہ سب اس کے سوال پر الجھ کر اسے دیکھنے لگے۔

"یار دیکھو نا!کتنے سارے فلیورز ہیں کیک کے!اسٹرابیری،وینیلا،چاکلیٹ۔۔"اس کا اشارہ میک اپ سے لت پت چہروں کی جانب تھا۔

اس کی بات سنتے ہی سب کے قہقہے ابل پڑے۔

"تم کس خوشی میں دانت نکال رہی ہو؟تم بھی کسی پیسٹری سے کم نہیں لگ رہیں"نہال نے ہنستے ہوئے کہا۔

ماہ رنگ نے تپ کر اسے گھورا۔جبکہ روفائیل نے اس کے پیر پر اپنا پیر مار کر متنبع کیا۔

"ویسے روفائیل تجھے کچھ زیادہ ہی پرواہ نہیں اس بے حیا کی! "نہال نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔

"تمیز سے بات کر بیغیرت بھابھی ہے تیری !"روفائیل نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

"کون ؟کس کی بھابھی ہے؟"دانیال جو قریب ہی کھڑا تھا روفائیل کی سرگوشی سن کر فورا پوچھنے لگا۔

نہال کی بات پر سب نے نہال اور روفائیل کی طرف دیکھا۔

"کلثوم نواز شہباز شریف کی بھابھی ہیں۔یہ بتارہا تھا اسے! "روفائیل مسکراکر بولا۔

"ہاں تو کیا وہ نہیں جانتا تھا یہ بات ؟"دانیال نے حیرت انگیز لہجے میں پوچھا۔

"ابے تو جا یار کیک کھا!وہ دیکھ کیک کٹ گیا ہے ۔"نہال نے اسے دور دھکیلتے ہوئے کہا۔

"خبیث!دھکے کیوں دے رہا ہے جارہا ہوں نا!"دانیال نے اسے تھپڑ مارتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گیا۔

"کیا آپ سب نے پیرنٹس سے بات کرلی ؟"دفعتا نے دعا نے پوچھا۔

"ہاں! کیا تمہارے بابا مان گئے؟"عمیر نے سوال کیا

"ہاں! وہ مان گئے ہیں۔"وہ خوشی سے بولی۔عمیر کے چہرے پربھی چمک ابھری ۔اس نے مسکراکر روفائیل اور نہال کی طرف دیکھا وہ دونوں آنکھ دباکر مسکرادئیے۔

ماہ رنگ سب سے بے نیاز فون پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔

"داؤد !سچ بتاؤ کچھ ہوا ہے کیا ؟"سیام نے پھر پوچھا اس بار اس نے دھیمی آواز میں پوچھا تھا۔

داؤد اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور نفی میں گردن ہلائی۔

سیام مطمئن نہ ہوئی تھی لیکن سرہلاکر دعا کی جانب متوجہ ہوئی جو بتارہی تھی کہ اسے اپنے والد کو منانے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑے تھے۔

"ٹھیک ہے دوستوں میں چلتا ہوں۔"دفعتا داؤد نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔

"کیوں تیرے آغاجان نے ڈرائیور بھیج دیا کیا؟"روفائیل نے مسکراہٹ دبائی۔وہ اکثر ہی ایسی باتوں پر اسے چھیڑا کرتا تھا۔

"ہاں شاید! "داؤد نے جواب دیا۔

"ٹھیک ہے جاؤ بھئی! ویسے بھی بچوں کا اتنی دیر تک باہر نہیں رہنا چاہیے۔بچے بگڑ بھی سکتے ہیں۔"روفائیل ہنسا۔

"گرینی جب تک تلاوت نہ سن لیں انھیں نیند نہیں آتی ۔اس لیے میں نے ہی ڈرائیور کو جلدی آنے کا کہا تھا۔گرینی کے سونے کا وقت ہونے والا ہے ۔"وہ تحمل سے بولا۔

"اور ہاں! گرینی کہتی ہیں کہ کسی کو بگڑنا ہو تو دن رات معنی نہیں رکھتے،انسان کا اپنے نفس پر اختیار ہونا چاہیے۔جب انسان کا اپنے نفس پر اختیار نہیں ہوتا نا تو وہ اپنی شخصیتی خامیوں کا زمہ دار وقت اور ماحول جیسے عناصر کو ٹھہراتا ہے۔"گہرے لہجے میں گہری نگاہوں سے روفائیل کی طرف دیکھ کر اس نے اپنی بات مکمل کی اور سوسائٹی کے واحد" ایٹی ایٹ " ہال کے بیرونی حصے کی جانب بڑھ گیا۔

"کیا وہ برا مان گیا ؟"دعا نے سیام کی طرف دیکھ کر کہا۔

"اس کی عادت ہے چھوڑو !" روفائیل بولا۔سیام نے منہ بناکر اس کی طرف دیکھا۔لیکن خاموش رہی۔

٭٭٭  

"دل کا بوجھل پن کسی ان چاہے ان دیکھے لمحے کی  آمد کے خوف سے بڑھتا جائے،روشن چہرہ کسی انہونی کے ہونے کا ڈر لیے اپنے آپ سے ہی چھپنے کی ناکام کوشش کرتا رہے، دن کے ہر لمحے میں کسی نا کسی کونے کھدرے سے لاشعور کی ڈوریں الجھتی سلجھتی گرتی پڑتی اس کے ارد گرد گھومتی رہیں۔کسی سے کچھ کہ سکے اتنی ہمت ہی کہاں  ہے ؟ وہ تو خود سے بھی کہنا چاہے تو جھجھک آڑے آجاتی ہے۔پر خوف ہے کہ پل پل اپنی گرہیں تنگ کرتا جاتا ہے۔وہ چہرہ لاشعور کے کسی قدرے کونے کے ستون کی آڑ لیے ان گنت سوال لبوں کے کنارے پر سجائے اس کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتا رہتا ہے۔وہ کہتا جائے چاہ جسے!وہ کہنا چاہے بھی تو کہہ نہ پائے ۔وہ انمول رتن سا جذبہ جو اس کی  ذات کی گہرائیوں میں تہہ در تہہ کئی سالوں سے دبا تھا۔بھلا کتنے سالوں سے ؟شاید تب سے جب اس نے پہلی دفعہ اس کو دیکھا تھا۔ وہ معصوم چہرہ اس کے معصوم دل کو اسی پل بھاگیا تھا۔ننھا سا دل تھا۔ننھی سی وہ پری ! شریر سی! چلبلی گڑیا جیسی! اس کے وسیع و عریض گھر کے بے حد وسیع لان میں جھومتی پھرتی تھی۔ اسے خوب بھاتی تھی۔وہ معصوم سا داؤد جسے ننھی گڑیا پسند آگئی تھی۔وہ جو کسی کو اپنے کھلونوں کی جھلک تک نہ دکھاتا تھااس کے سامنے سارے کے سارے لاکر رکھ دیتا۔وہ کھیلتی رہتی وہ دیکھتا رہتا۔"

ڈائری پر چلتا اس کا ہاتھ رکا۔اس نے گہری سانس لی ۔ہلکا سا مسکرایا اور ڈائری بندکردی ۔میز پر پین دھرا ۔قریب رکھے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر گھونٹ گھونٹ حلق میں اتارتا وہ کرسی سے اٹھ گیا۔کل ان کی روانگی تھی۔

کچھ خوش کچھ افسردہ سا داؤد پلنگ کے قریب چلاآیا۔تصور میں چھن سے ایک معصوم چہرہ اترا۔وہ افسردگی سے مسکرادیا تھا۔دل کے  کسی کونے میں  دبا خوف پھر سراٹھانے لگا۔مستقبل میں آنے والے لمحے اسے ابھی سے خوف زدہ کررہے تھے۔

٭٭٭

آج کے دن ان کی زیارت روانگی تھی۔وہ سب معمول سے کئی زیادہ پرجوش تھے۔سیام اپنے کمرے میں اپنا بیگ تیار کررہی تھی۔چہرے پر پھیلے خوش نما رنگ اس کے اشتیاق کو بیان کرنے میں مکمل طور پرکامیاب تھے۔

دفعتا کمرے میں زوریز داخل ہوا۔زوریز گندمی رنگت کا حامل خوش شکل اور دراز قد نوجوان تھا۔چہرے میں سیام کی ہلکی سی شبہیہ بھی موجود تھی۔

"بھائی! کوئی کام ہے ؟"سیام نے پلٹ کر سوال کیا۔

"ہاں! "زوریز نے ایک شاپر اس کی طرف بڑھایا۔

"یہ امشل آپی کو دینا ہے؟"سیام نے مسکراہٹ دباتے ہوئے آنکھیں مٹکائیں۔زوریز نے اسے گھورا۔سیام مسکرادی ۔

"اچھا لائیں دیں۔"سیام نے شاپر تھامتے ہوئے کہا۔

"ویسے کیا ہے اس میں ؟شاندار کی چاٹ؟"سیام نے اندازہ لگانے کی کوشش کی ۔

"نہیں!"

"پھر پپو کے گول گپے؟"سیام نے ابرو اچکایا۔

"تم جاتی ہو یا میں خود دے آؤں؟"زوریز نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔

"اچھا نا جارہی ہوں،ویسے آپ میں اتنی ہمت ہوتی تو میرے کمرے میں آنے کے بجائے بڑے پاپا کے پورشن میں جاتے۔"سیام زبان دانتوں میں دبا کر شرارت سے کہتی باہر کی جانب بڑھ گئی۔زوریز نے مسکرا کر سر جھٹکا اور اس کے کمرے سے نکل آیا۔

٭٭٭  *

وہ ایشال کے کمرے میں شاپر واپس پہنچاکر آرہی تھی جب سامنے سے آتے روفائیل پر اس کی نظر پڑی۔وہ نظر انداز کرتی آگے بڑھنے لگی۔

"ہائے لومڑی!"روفائیل کی شرارت کی رگ پھڑکی۔

"بائے چھچھوندر!"سیام پلٹ کر بولی تھی۔

"بونی بطخ!"روفائیل نے وہیں کھڑے کھڑے آواز کسی ۔

سیام بھناکر پلٹی اور ایک سلگتی نگاہ اس پر ڈالی

"ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل والے!"سیام نے بھی حساب برابر کرنا ضروری سمجھا۔

"باؤلی اماں!"روفائیل نے ہنستے ہوئے مزید چڑایا۔

"تم خود ہوگے۔جو بولتا ہے وہی ہوتا ہے۔"سیام سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو چیخ کر بولی اور پیر پٹخ کراپنے پورشن کی طرف بڑھ گئی۔روفائیل وہیں کھڑا ہنستا جارہا تھا۔

٭٭٭    

راحم صاحب ان دونوں کو چھوڑنے آفندی ہاؤس تک آئے تھے۔اسفندیار آفندی پورچ میں کھڑے تھے۔انھیں دیکھ کر مسکرائے۔

"اسلام و علیکم راحم صاحب!"

"وعلیکم اسلام! کیسے ہیں آفندی صاحب؟"

روفائیل اور سیام اپنے بیگ سنبھالتے اندر کی جانب بڑھ گئے تھے۔

"آغا جان ٹھیک ہیں؟"

"جی بلکل! ٹھیک ہیں وہ بھی، ہم بھی! آپ سنائیں ؟"

"بس اللّٰہ کا کرم ہے۔"

"چلیے اندر چلتے ہیں نا!"

"ارے نہیں بس نکلتا ہوں۔بی جان جارہی ہیں نا ساتھ؟"

"ہاں جی بالکل! آپ فکر نہ کریں بی جان ساتھ ہیں۔"اسفندیار آفندی نے تسلی دے کر انھیں مطمئن کرنا چاہا۔راحم صاحب چند مزید ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد واپس چلے گئے تھے۔

٭٭٭     

داؤد گرینی کے قریب ہی بیٹھا تھا۔دانیال اور نہال وہاں پہلے ہی موجود تھے۔چہرے پر گہری سنجیدگی اور معصومیت دیکھ کر لگتا تھا جیسے ان سا معصوم اور شریف انسان دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا۔

"اسلام وعلیکم گرینی! "سیام نے سلام کیا اور خود بھی گرینی کے قریب چلی آئی۔روفائیل بھی سلام کرتا خاموشی سے دانیال اور نہال کے قریب چلا آیا۔

ماہ گل آفندی کی بارعب شخصیت کے سامنے ان سب کی بولتی ہمیشہ ہی بندہوجایا کرتی تھی۔لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اسی دھماکہ گینگ کے کارندے ہیں جس نے ساری سوسائٹی کو ناک تک پہنچارکھا تھا۔داؤد بظاہر مسکراتے ہوئے ان سب سے ملا تھا لیکن اس کے انداز میں ایک غیر محسوس سا بوجھل پن چھایا ہوا تھا۔جسے صرف وہی محسوس کرسکتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی معمولی سی سرخی ظاہر تھی۔سر جھکائے قالین پر کسی نادیدے نقطے کو گھورتا وہ کسی اور جہان میں ہی پہنچا ہوا تھا۔کچھ دیر مزید گزری تو ماہ رنگ،دعا اور عمیر بھی پہنچ گئے۔رات کا کھانا کھاتے وہ لوگ روانہ ہوئے۔

دو لینڈ کروزر تھیں ۔ایک میں ماہ گل آفندی سیام ،دعا، ماہ رنگ اور ڈرائیور تھے۔

دوسری میں وہ پانچوں ڈرائیور سمیت محو سفر تھے۔

٭٭٭*

دشوار گزار گھاٹیوں اور اونچے نیچے راستوں سے ہوتے وہ سب کئی گھنٹے کا سفر طے کرکے زیارت پہنچے ۔حسن ولا میں چاک و چوبند ملازم پورچ میں ہی ان کے استقبال کو موجود تھے۔نہایت پرجوشی اور احترام سے ان کا استقبال کیا گیا۔تھکن سے برا حال تھا یہی وجہ تھی کہ سب  پہنچتے ہی اپنے لیے تیار کیے گئے کمروں کی جانب بڑھ گئے تھے۔

٭٭٭  

کراچی کی نسبت یہاں ٹھنڈ زیادہ تھی۔ہلکی بارش نے ہوا میں نمی کا تاثر بھردیا تھا۔ٹھنڈی ہوائیں کسی قدر خنک ہوتے ہوئے بھی مزاج کو شگفتگی بخش رہی تھیں۔وہ ڈائننگ ہال میں سجی طویل میز کے گرد بیٹھے تھے۔میز پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔یہ وسیع و عریض مکان ان سب کو بے حد پسند آیا تھا۔سفید اور سیاہ رنگ کے امتزاج سے کی گئی سجاوٹ نے اس گھر کے حسن کو دوبالا کیا ہوا تھا۔وہ سب خاموشی سے کھانا کھارہے تھے۔

"کیا ابھی ہم باہر جائیں گے؟"ماہ رنگ نے گرینی کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔

"بیٹا بستی کے باہر صبح آپ سب کو گلاب خان لے جائے گا پھر آپ لوگ وہاں سیر سیرابی جی بھر کر کیجئیے گا۔ابھی تو رات سیاہ پڑتی جارہی ہے۔اس لیے صرف ہواخوری کے لیے لان تک جاسکتے ہیں۔"گرینی نے نرم لہجے میں جواب دیا۔

"گرینی! کیا آپ نے گلاب خان کہا؟"نہال بھرپور کوشش کے باجود بھی اس سوال کو زبان کی نوک پر آنے سے نہیں روک سکا۔

"بالکل میں نے یہی کہا،کیوں کیا ہوا؟"وہ دھیمے انداز میں مسکرائیں۔

"کافی یونیک نام ہے۔گلاب خان! فی میل فی میل سا لگ رہا ہے۔"نہال مسکراکر بولا۔

ان سب نے بمشکل مسکراہٹ دبائی تھی۔

"دن کے آغاز سے شام کے اختتام تک! آپ لوگ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں لیکن خیال سے۔گلاب خان ہر جگہ ساتھ رہے گا۔وہ زیارت کے چپے چپے سے واقف ہے ۔معلومات کے زخیرے کے ساتھ ساتھ تفریح بھی خوب ہوگی۔"

"آئی ایم سو ایکسائیٹڈ!"سیام پرجوشی سے بولی۔

"می ٹو !"ماہ رنگ کھلکھلائی۔

"می تھری! "نہال بولا۔

"می فار! "روفائیل بھی بولا۔

"ارے اچھا،اچھا! بس جلدی سے کھانا ختم کریں۔اور داؤد آپ کیوں نہیں کھارہے؟"وہ داؤد کی بے دھیانی کافی دیر سے دیکھ رہی تھیں۔

"کھارہا ہوں گرینی! "داؤد نے فورا توجہ اپنی پلیٹ پر مرکوز کردی۔ماہ گل آفندی پوتے کے چہرے کو گہری نگاہوں سے جانچنے لگیں۔وہ انھیں اسی روز سے کچھ گم سم لگ رہا تھا لیکن چاہ کر بھی وہ کچھ نہ کر سکتی تھیں۔

٭٭٭    

اندھیرا چھٹ گیا تھا۔ہلکی ہلکی روشنی نے آسمان کو اپنے گھیرے میں لیا ہر طرف تازگی کا احساس پھیلتا محسوس ہورہا تھا۔وہ سب  ناشتے کی میز پر پھر اکھٹے تھے۔کھلے کھلے چہرے مسکراتے لب ان کی  خوشی اور اشتیاق کے مظہر بنے ہوئے تھے۔

"نیند اچھے سے آئی سب کو؟"

"جی گرینی! "

"میرا تو ابھی بھی دل نہیں تھا کمبل چھوڑنے کا!"عمیر مسکرایا۔

"تم تو ہو ہی پیدائشی نیستی! "روفائیل نے دانت نکوستے ہوئے کہا۔

"تم سے کم!"عمیر نے دانت کچکچائے۔

"ارے بس! خاموشی سے ناشتہ کریں ابھی کچھ دیر میں گلاب خان آجائے گا۔"

"گلاب خان ہی کیوں گرینی  ؟کوئی چمیلی یا سورج مکھی دستیاب نہیں تھا؟دراصل مجھے گلاب سے الرجی ہے تھوڑی سی۔"نہال معصومیت اور سادگی سے بولا۔

بےتکلفی کی فضا قائم ہوتے ہی وہ کچھ کچھ اپنا  رنگ دکھانے لگا تھا۔باقی سب ابھی بھی شرافت کے لبادے میں لپٹے تھے۔

ماہ گل آفندی آہستگی سے ہنستی انھیں میز پر چھوڑ کر اٹھ کھڑیں ہوئیں ۔

"کہاں جارہی ہیں؟"داؤد نے فورا پوچھا۔

"میں یہیں روشن آپا کہ گھر تک جارہی ہوں۔رات سے تین دفعہ فون کر چکیں۔"وہ مسکراکر بولیں۔

"میں چھوڑ آؤں؟"داؤد جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔

"نہیں تم ناشتہ کرو۔میں رشید کے ساتھ جارہی ہوں۔اور بچوں کوئی شرارت نہیں کرنی سنا سب نے؟"

"جی گرینی  !"سب یک زبان ہوکر بولے۔داؤد نے حیرانی سے ان سب کی جانب دیکھاوہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ سب باز آنے والوں میں سے ہرگز نہیں تھے۔وہ شاید کھائے پیے بغیر زندہ رہ سکتے تھے لیکن شرارتوں کے بغیر ناممکن!

٭٭٭

"تو دوستوں کہاں جانے کا پلان ہے؟"نہال نے دریافت کیا۔

"یہ تو مسٹر روز ہی بتائیں گے ۔"دانیال مسکرایا۔

"مسٹر روز ؟"ماہ رنگ  الجھی ۔

"یہ گلاب خان کی بات کررہا ہے۔"روفائیل نے ماہ رنگ کی الجھن تمام کی۔

"اوہ!تو ڈھنگ سے نام نہیں لے سکتے؟"ماہ رنگ منہ بناکر بولی۔

"ڈھنگ سے ہی تو لیا ہے گلاب بولو یا روز بات تو ایک ہی ہے۔"اس نے کندھے اچکائے۔

"میرے بیگ سے کوکیز کس نے چرائی ہیں؟"اسی پل دعا نے ان سب کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔

داؤد نے خفگی سے روفائیل اور نہال کی طرف دیکھا۔وہ کچھ دیر قبل ان دونوں کو کوکیز کھاتا دیکھ چکا تھا۔

"عمیر نے!"نہال نے شہادت کی انگلی سے عمیر کی جانب اشارہ کیا۔

"کیا؟جھوٹے مکار! نہیں دعا یہ جھوٹ کہہ رہا ہے آئی پرامس!"عمیر گھبرا کر بولا۔

"دعا! نہال اور روفائیل کا کام ہے یہ!"داؤد نے دعا کی طرف دیکھ کر کہا۔

"بے شرموں!"سیام نے تاسف سے کہا۔

"ہاؤ چیپ !کیا تم لوگوں نے کبھی کوکیز نہیں کھائیں ؟"ماہ رنگ بھی تپ کر بولی۔

"یہ نہال لایا تھا۔"روفائیل ماہ رنگ کے سامنے فورا معصوم بنتا ہوا بولا۔دعا خاموشی سے اب کو بحث کرتے ہوئے دیکھتی رہی۔

"کتنا جھوٹا ہے یار تونے ہی تو کہا تھا۔"نہال چڑ کر بولا۔

"اسی پل وہاں ایک دراز قد نوجوان آن وارد ہوا۔وہ سب خاموش ہوکر اسے دیکھنے لگے۔سرخ و سفید رنگت کا حامل خوش شکل سا جوان مقامی لگتا تھا۔

"میں گلاب خان ہوں۔گل بی بی نے آپ سب کو سنبھالنے کی زمہ داری مجھے سونپی ہے۔"اس کا لہجہ کافی حد تک صاف تھا۔

"کیا آپ ہمیں سنبھالیں گے؟"نہال کی ہنسی چھوٹ گئی۔

"ہمیں تو ہماری ماں بھی نہیں سنبھال پائی۔"دانیال نے لقمہ دیا۔

گلاب خان نےابرو اچکا کر ان کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔

"بچے اچھے اچھوں کو سنبھالا ہے۔"وہ ہنستے ہوئے بولا۔

"لیٹس سی! "عمیر نے دانت نکالے۔

"ویسے میں تعارف کروادوں پہلے؟"نہال نے اجازت چاہی ۔اور فورا ہی بولنے لگا۔

"یہ دانیال ہے میں نہال ہوں۔یہ مجھ سے پانچ منٹ چھوٹا ہے۔ہم دونوں کی شکل دیکھ کر ہر کوئی الجھ جاتا ہے کبھی کبھار ہماری ماں بھی ہم میں فرق نہیں کرپاتی اور یہ میرے حصے کی ڈانٹ یا مار کھالیتا ہے۔"

گلاب خان سمیت باقی سب کے لب بھی مسکراہٹ میں ڈھلے۔

"لیکن ہماری ایک جیسی شکلوں کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔وہ یہ کہ ہم کبھی کبھار ایک دوسرے کے حصے کی تعریف اور جیب خرچ بھی بٹور لیتے ہیں۔لیکن ایمان سے کہوں نوے فیصد کارنامے میرے ہوتے ہیں یہ بیچارا فضول میں گھس جاتا ہے۔"

گلاب خان ہنس دیا۔

"اور یہ روفائیل خان ہے۔انتہا کا بدتمیز اور جھگڑالو انسان ہے۔"

روفائیل کا دل کیا اس کا گلا گھونٹ دے۔باقی سب ہنس دئیے تھے۔

"اس کی شکل کچھ معصوم ہے اسے سچ مچ کا معصوم ہر گز مت سمجھ لیجیئے گا۔اس جیسا شیطانی دماغ ہم میں سے کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔اس کے بال دیکھ کر یہ مت سمجھ لیجئیے گا کہ یہ کنگھی نہیں کرتا ہوگا۔اس بے چارے کا سر پیدائشی گھونسلے کی شکل کا ہے۔"نہال چپ ہوا تو باقی سب ہنس دئیے سوائے روفائیل کے۔

"یہ داؤد آفندی ہے۔بلا کا تمیزدار اور نیک دل لڑکا ہے اگر کبھی اس کے منہ سے کوئی فلسفیانہ بات نکل آئے تو حیران مت ہوجائیے گا ہمارا داؤد ہمیں بھی ایسے ہی حیران و پریشان کرتا ہے رہتا ہے۔"

داؤد جھینپ کر کان کھجانے لگا۔

"He Is the best in our gang.."

سیام نے پرجوشی سے کہا اسی پل داؤد کا چہرہ پوری طرح سرخ ہوا تھا۔

"یہ ہماری ماہ رنگ  ہے جس کے حسین چہرے پر ہمیشہ چوبیس بج رہے ہوتے ہیں۔۔یہ کسی نوے سالہ دنیا سے بیزار بوڑھیا کا دماغ لیے گھومتی ہے۔۔"

"ماہ رنگ کی آنکھیں غصے اور حیرت سے پھیلی وہ ناک پھلائے اسے کچا چبا جانے کے در پہ تھی۔

"دیکھیں ابھی بھی کسی خونخوار ڈائن کی طرح گھوررہی ہے۔۔مجھے ابھی اسی سال اور جینا ہے اور میں مرنا نہیں چاہتا چلیں آگےبڑھیں۔۔"نہال نے اپنا رخ اب کے سیام کی جانب موڑا۔

"یہ ہماری دادی ماں سیام ہے۔یہ گرینی کے بعد سب سے زیادہ بزرگانہ حرکتیں کرتی ہے۔اس کا بس چلے تو ہم سب کے منہ میں فیڈر ڈال کر ہمیں بے بی کاٹ میں سلاکر لوریاں سنائے۔۔"

اب کے ایک ہنسی کا زبردست طوفان امڈا تھا۔داؤد بھی کھل کر ہنس رہا تھا۔سیام نہال کو خفگی سے گھوررہی تھی

"یہ دعا ہے ہمارا معصوم فرشتہ! یہ اتنی کم عقل ہے کہ چاکلیٹ کے ریپر میں پتھر لپیٹ کردیں تو یہ سوچ کر کھالے گی کہ شاید چاکلیٹ کی نئی قسم ہو۔۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم ایسا کئی دفعہ کربھی چکے ہیں۔۔یہ ہر وقت چاکلیٹ اور کوکیز لیے پھرتی ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے پیٹ میں بیس فیصد بھی نہیں جاتیں۔۔"

ہنسی کا طوفان جو لمحوں قبل تھما تھا پھر مچل اٹھا۔روفائل سر صوفے پر گرائے زور زور سے ہنستا برابر بیٹھے عمیر کو کہنی مار گیا جس پر عمیر نے لحاظ بالا طاق رکھتے دو کہنیوں سے بدلہ لیا۔

"اور یہ عمیر ۔۔میسنا عمیر۔۔چھپا رستم عمیر۔۔اگر آپ پچھتانا نہیں چاہتے تو کبھی بھی اس پر بھروسہ نہ کریں۔۔یہ جتنا بے وقوف شکل سے لگتا ہے اتنا ہی چالاک انسان ہے۔۔ایگزامز کے دوران پڑھائی نہ کرسکنے کا رونا رو کر سب سے اچھے نمبروں کے ساتھ ہماری پیٹھ پر چھراگھونپنا اس کا پسندیدہ کام ہے۔۔"

"یہ ہم ہیں ۔۔آٹھ مختلف مزاج کے پکے دوست۔۔ہماری دوستی بچپن سے اب تک نہیں ٹوٹی اور اسے ہم پچپن تک نہیں توڑیں گے۔۔ڈیل۔۔؟"نہال آخر میں جذباتی ہوا۔

"ڈیل۔۔"وہ سب یک زبان ہوکر چلائے تھے۔گلاب خان نے بےاختیار کانوں پر ہاتھ دھرے تھے۔آواز پورے گھر میں گونجی تھی۔

          **********

وہ سب بستی کے قریب ہی ٹولی کی شکل میں گھوم پھر رہے تھے۔نہال ہاتھ میں کیمرہ لیے آس پاس کی تصاویر اور ویڈیو بنارہا تھا۔سیام دعا اور ماہ رنگ ایک ساتھ چلتی باتوں میں مگن تھیں۔

داؤد بھی ایک جانب خاموش سا کسی سوچ میں گم چل رہا تھا۔

"داؤد تم اتنے اداس کیوں لگ رہے ہو؟"

"ایسا تو کچھ نہیں ہے۔۔"

"ایسا ہے میں نے بھی نوٹ کیا ہے تم اداس ہو۔۔"سیام جو آگے چل رہی تھی پلٹ کر بولی۔

عمیر نے بھی گردن ہلا کر تائید کی۔

"دیکھا اب تو سب ہی کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہوا ہے اب بتادو تم کیا ہوا ہے؟"

روفائیل نے سوال کیا۔

"میں پندرہ دن بعد لندن جارہا ہوں۔۔"داؤد نے آہستگی سے کہا۔

"کیا مطلب؟"

"واقعی؟

"لیکن کیوں؟"

وہ سب چلتے چلتے رکے تھے۔سب کا ردعمل ایک دوسرے سے مختلف تھا لیکن سب ہی حیران ہوئے تھے۔

"دادا چاہتے ہیں کہ میں باقی تعلیم باہر جاکر مکمل کروں۔"وہ بولا تو لہجہ بجھا ہوا تھا۔وہ سب لاجواب سے کھڑے تھے۔

"تو تم ہم سب کو چھوڑکر چلے جاؤگے؟"نہال بے یقینی سے بولا۔داؤد کا دل بری طرح کرلایا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح چہرے سے ظاہر نہ کرسکا۔نچلا لب دانتوں میں دبا کر مضطرب انداز میں عادتاً کنپٹی کو شہادت کی انگلی سے مسل کر اثبات میں گردن ہلادی۔

"میں رابطے میں رہوں گا۔"وہ فقط اتنا ہی کہہ سکا گوکہ کہنے کو بہت کچھ تھا لیکن الفاظ اس کے قلم سے تو بہت خوبصورتی سے پھسلتے تھے لیکن زبان پر آکر ٹھہر جاتے۔۔

"مہربانی!" روفائیل نے طنزیہ انداز میں کہا۔داؤد اسے فقط دیکھ کر رہ گیا۔

"کوئی بات نہیں۔فاصلوں اور دوریوں کا ہماری دوستی پر کبھی اثر نہیں پڑے گا۔ہم دنیا کے آٹھ مختلف کونوں میں جاکر بھی ایک دوسرے کے دوست ہی رہیں گے تم پریشان کیوں ہو؟تمہیں تو خوش ہونا چاہیے اور ہمیں بھی۔۔تمہاری بدولت ہم بھی باہر کی دنیا کے بارے میں جانیں گے۔۔تمہیں زندگی کے نئے تجربوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔۔اور ویسے بھی تمہیں واپس تو یہیں آنا ہے۔۔"سیام پرجوشی سے کہہ رہی تھی۔

"ٹھیک کہہ رہی ہے سیام!"دعا بھی مسکرائی۔

"داؤد کے جانے سے پہلے ہم ان دنوں میں خوب یادیں بنائیں گے۔۔بہت انجوائے کریں گے ہماری زندگی کا سب سے یادگار ٹرپ ہوگا یہ۔۔"سیام نے پھر کہا۔داؤد اسے ہی دیکھتا رہا۔وہ سب اب بھی خاموش کھڑے تھے۔

"Come on... Let's cheer up guys?"

سیام نے ان سب کو باری باری جھنجھوڑا تو وہ سب بھی موڈ میں لوٹ آئے۔

"Okey... Lets go.. "

داؤد بھی نرمی سے مسکرا دیا تھا۔لیکن دل اندر ہی اندر بوجھل پن کی بیڑیوں میں الجھا ہوا تھا۔

٭٭٭

 

فاطمہ نیازی کے سلسلہ وار ناول کی


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?