NOVELS HUB SPECIAL NOVEL
قسط نمبر :۱
کہانی رقص کرتی ہے تو محبت دور دور تک اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
وہ مخصوص طریقے سے تیز چال چلتے ہوے مال کی ایک دکان میں داخل ہوئی۔ کچھ لمحوں بعد وہ باہر نکلی۔ اس کے ماتھے پر پڑی شکنیں منہ چڑھاتی اس بات کا عندیہ دے رہی تھیں کہ اسے دکان کی کوئی بات پسند نہیں آئی۔ پھر کچھ جائزہ لیتے ایک دکان میں داخل ہوئی۔ اس بار وہ دو شاپنگ بیگز لئے اپنی ہیل کی مخصوص اونچی آواز سب آتے جاتے لوگوں کے کانوں میں صور کی طرح پھونکتی دکان کے باہر نکلی اور ایگزٹ کی جانب بڑھنے لگی۔ ابھی کچھ ہی قدم کٹے تھے اور کتنے ہی قدم باقی تھے کہ وہ اچانک رکی۔ کوئی بھلی مانوس سی خوشبو اس کے نتھوں سے ٹکرائی۔ وہ چہرہ گھما گھما کے ادھر ادھر دیکھنے لگی مانو کوئی پاگل راہِ فرار تلاش کر رہا ہو۔ کچھ پل اسی بے خودی یا بے دردی میں گزرے اور وہ اپنے اعصاب تن گئی۔ جیسے ہوش میں آئی ہو۔ اپنے قدم باہر کے جانب کرتی وہ پارکنگ ایریا میں پہنچی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہینڈ بیگ اور شاپنگ بیگز پیسینجر سیٹ پہ رکھتے ہوئے اس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ ایک ہی سپیڈ میں چلاتے ہمیشہ کی طرح خود پر پڑنے والی تمام تر نظروں کو نظر انداز کرتی وہ گھر پہنچی۔ سیٹنگ ایریا میں کسی کو نہ پا کے شکر ادا کیا۔وہ کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہینڈ بیگ اور شاپنگ بیگز بیڈ پر پھینکنے کے انداز میں رکھتی وہ تیزی سے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر سامنے رکھے پرفیوم کو جابجا اپنے اردگرد چھڑکا جیسے کسی نہ ہونے کے ہونے کا احساس پیدا کر رہی ہو۔ کچھ پلوں میں وہ پرسکون ہوئی تو دراز وا کرتے ہوے اس نے سیگریٹ کا ڈبہ نکالا ایک سیگریٹ نکال کر ڈبہ ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکا۔ دراز سے لائٹر نکال کے سیگریٹ جلایا اور صوفے پر نیم دراز ہو گئی۔
وہ روتی نہیں تھی وہ ماتم کرتی تھی۔ وہ اس وقت ماتم ہی کر رہی تھی۔
اور کیا تم نے دیکھی تھیں؟ اُس کے سر پر منڈلاتی کالی تتلیاں؟
______________
وہ بے چینی سے کرسی پر بیٹھا بیل بجنے کا انتظار کر رہا تھا۔ دانتوں سے ناخن کترنا اور مسلسل پاؤں ہلانا اسکی بے صبری کا ثبوت تھا۔ جیسے ہی بیل بجی وہ فوراً اٹھا اور زرجان کا ہاتھ تھام کر کینٹین کی طرف بڑھ گیا۔ باری بھی پیچھے پیچھے پاؤں گھسیٹتا چلنے لگا۔ اس نے زرجان کو بینچ میں بیٹھا کر اسکے چوٹی میں بندھے بال، جو بکھر چکے تھے، کھولے، پھر پاس کھڑے باری کو پینٹ کی جیب سے پیسے نکال کے دیے جس کو تھام کے باری کینٹین کی جانب بڑھا۔ وہ مسکرا کر زرجان کے بال بنانے لگا۔ زرجان بھی پاؤں ہلاتی مسکرا کے ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگی۔ اتنے میں باری لیز کے پیکٹ اٹھاے ان کی طرف بڑھا۔ دو لیز کے پیکٹ زرجان کو پکڑا کر سامنے بینچ میں جا بیٹھا اور لیز کا پیکٹ کھول کے دونوں کو خود میں مگن گھورنے لگا۔ زرجان نے لیز کا پیکٹ کھولا۔ ایک ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالا اور دوسرا ہاتھ اونچا کر کے پیچھے کھڑے اینو کو کھلایا۔
"کیا ہم علیحدہ ہو جائیں گے؟"
باری نے منہ بنا کے سوال کیا۔
"نہیں ہم بریک میں ملا کریں گے"
زرجان نے پاؤں ہلاتے پر سکون انداز میں کہا۔
"مگر ساتھ پڑھ تو نہیں پائیں گے نا؟"
باری کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ مگر اب جواب موصول نہ ہوا۔ اس نے ناگواری سے دونوں کو دیکھا۔ اینو نے چہکتے ہوے زرجان کے بال آگے کیے جس کو اسنے دوبارہ بریڈ کی صورت میں باندھ دیے تھے۔
"اچھے بنے ہیں نا؟"
اسنے تعریف چاہی جو زرجان کی مسکراہٹ کی صورت میں اسکو مل گئی۔ وہ مسکرا کر اسکے ساتھ آ بیٹھا اور لیز کھانے لگا۔
"اینو ہم علیحدہ ہو جائیں گے؟"
باری نے دوبارہ اپنی طرف متوجہ کیا۔
"نہیں"
مختصر دیے گئے جواب سے باری کا منہ مزید لٹک گیا۔ تیسری جماعت کے بچے کو بچھڑنے کے خوف نے آ گھیرا تھا۔
بے فکری کی عمر میں فکریں بڑی بڑی۔
اس سے پہلے کے باری اپنی توتلی زبان سے دوبارہ کوئی سوال کرتا بیل بج گئی۔ اینو اور زرجان نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور کلاس کی جانب بڑھ گئے۔ باری بھی ہمیشہ کی طرح منہ پھلاتا ان کے پیچھے ہو لیا۔
_______________
صبح چھ بجے "عالمگیر ہاؤس" میں ہلکی ہلکی چہل پہل شروع ہوئی۔ وہ بیڈ میں اوندھا لیٹا گہری نیند سو رہا تھا جبھی سورج کی کرن شرارت کرتی اسکے منہ پر گری۔ اسنے بازو اپنی آنکھوں پر رکھا اور اسکی شرارت کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ مگر قدرت کے آگے کون جیتے۔ آفتاب چہرے پر آفتاب کی کرنیں، خوب منظر تھا۔ وہ ایک دم سے اٹھا اور کھڑکی کو گھورنے لگا جو کھلی رہ گئی تھی اور وہ پردے بھی گرانا بھول گیا تھا۔ مانو آنکھوں ہی آنکھوں میں ڈپٹ رہا ہو۔ کچھ لمہے کھڑکی کی نذر کیے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنی چپل اپنے پاؤں میں اڑستا ہوا وہ باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔ آدھے گھنٹے بعد باہر نکلا۔ تولیے سے بال رگڑتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑا ہوا۔ وجیہہ چہرہ، چھوٹی آنکھیں، بڑھی ہوئی داڑھی اور بال، نہ بہت چھوٹے اور نہ بہت لمبے۔۔۔اس نے اپنے بالوں کو پہلے انگلیوں سے پیچھے کیے پھر ڈریسنگ پر پڑی برانڈڈ فیس کریم کو اپنے چہرے پر تھپکا اور پھر برش سے اپنے بالوں کو پیچھے کی طرف سنوارا۔ پھر الماری کی طرف بڑھا اور بلیک کلر کی شرٹ نکال کے پہنی۔ دوبارہ آئینہ کے سامنے آیا اور بٹن بند کرنے لگا۔ سامنے پڑی گھڑی پہنی۔ پھر اپنے بوٹ نکالے اور اپنی پاؤں اُن میں پھنسائے۔ وہ تیار تھا۔ بمشکل آٹھ منٹوں میں وہ تیار ہو گیا تھا۔اور جو چیز اس نے نہیں لگائی وہ پرفیوم تھا۔ اس نے کبھی خوشبو نہیں لگائی۔ کیوں کہ زرجان کو پرفیوم سے الرجی تھی۔
__________________
بلکل سادے سفید سوٹ میں ملبوس ذرجان ہیلز کا شور سب کے کانوں میں ڈالتی اور سب کے سلاموں کا ہلکی آواز میں جواب دیتی، بغیر سر کو یا نظر کو ادھر اُدھر کیے، سیدھا اپنے آفس میں داخل ہوئی۔ اُسکے ہاتھ میں سفید رنگ کا سادہ سا بیگ تھا۔ ہیلز کا رنگ آسمانی تھا۔ جیولری میں ایک انگوٹھی اور گلے میں لاکٹ پہن رکھا تھا۔ اور میک اپ میں سن بلاک اور caramel nude شیڈ کی لپسٹک لگا رکھی تھی۔ اسکا آفس سادہ تھا، بلکل اسکی طرح۔ فلور اور والز پر beige کلر کی ٹائلز لگی ہوئی تھیں۔ آفس نہ بہت چھوٹا تھا نہ بہت بڑا۔ دروازے کے بلکل سامنے والی دیوار کے ساتھ الماری رکھی ہوئی تھی جس میں بکس اور فائلز کی بھرمار تھی، مگر چیزیں رکھنے کا سلیقہ دور سے نظر آ رہا تھا۔ الماری کے آگے تھوڑے فاصلے پر ٹیبل اور چیئر موجود تھے۔ ٹیبل پر ایک گلوب، کیلنڈر، پین ہولڈر اور لیپ ٹاپ پڑا ہوا تھا۔ ٹیبل کی بائیں جانب کچھ فاصلے پر صوفہ پڑا تھا۔ صوفہ سفید رنگ کا تھا اور کُشنز پیرٹ کلر کے تھے۔ کمرے کے دروازے کے بلکل اوپر وال کلاک لٹکی ہوئی تھی جس کا رنگ سفید تھا۔
ذرجان نے روم خود ہی سیٹ کیا تھا اس وجہ سے ہر چیز کا کلر لائٹ تھا۔ اسکو ڈارک کلرز سے وحشت ہوتی تھی۔ کسی کی نا پسند اسکے لیے وحشت بن چکی تھی۔
اُس نے چیئر میں بیٹھتے ہوئے لیپ ٹاپ کھولا۔ وہ کام میں مشغول تھی جب اسکی نظر گھڑی پر پڑی۔
"اوہ۔۔۔ I am late"
ہلکی سی آواز میں خود سے کہتی وہ لیپ ٹاپ بند کر چکی تھی۔ جس ہستی سے وہ ملنے جا رہی تھی، لیٹ ہونا اسکی ناراضگی کا باعث بن سکتا تھا۔ اور اسکی ناراضگی ذرجان کے لیے سزا تھی۔
----------------
وہ فائلز کو دیکھتا۔۔۔کبھی لیپ ٹاپ پر نگاہ ڈالتا
اپنے کام میں مصروف تھا۔ جب کسی نے دروازہ بجایا۔
"یس؟"
براق دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا۔
"ایک تو تم ہر وقت کام، کام، کام۔۔۔"
اُسنے چیئر گھسیٹتے ہوئے کہا۔ وہ آرام سے بیٹھ چکا تھا۔
"کچھ پیو گے؟"
"نہیں۔۔ابھی اپنے آفس سے کافی پی کے آ رہا ہوں"
"کوئی کام نہیں ہے۔۔۔ہر گھنٹے بعد آ جاتے ہو"
اُسنے فائلز سائڈ پر رکھتے ہوئے کہا، ساتھ ہی دراز سے سگریٹ اور لائٹر نکالا۔ سگریٹ جلا کے کش بھرنے لگا۔ وہ چین سموکر تھا۔ گہری نیلی آنکھیں جو کہ قدرے چھوٹی تھیں۔ اسکا قد چھ فٹ تھا۔ ڈارک براؤن بالوں کو اُسنے نفاست سے جیل کے ساتھ پیچھے کو سیٹ کیے ہوئے تھے۔ کلائی پر برانڈڈ گھڑی اور بدن پر برانڈڈ سوٹ۔۔۔ رنگ گندمی۔۔۔گھنی مونچھیں اور ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی۔ وہ انتیس سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا۔ دیکھنے والے کی نظریں خود بہ خود اس پر ٹھہر جاتیں۔ جب وہ مسکراتا تو دائیں جانب کھائی نمایاں ہوتی۔ وہ بلاشبہ کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہو سکتا تھا۔
"تیاری کر لو۔۔۔شاید میری شادی کی خبر تمہیں جلد ہی ملے۔۔۔" گلاس ونڈو سے ہلکی ہلکی دھوپ کی کرنیں اُس کے آفس کے اندر اُس کے آفس ٹیبل کے ذرا پاس آ کر ختم ہو جاتی تھیں۔
اُس کی بات پر براق ہلکا سا مسکرایا اور جانتے ہوئے بھی سوال کیا۔
"کس سے؟"
"اُسی سے۔۔۔جس کو میں اسکے اسکول کے زمانے سے جانتا ہوں۔"
اسکی کھائی واضع ہوئی۔
"بہت اچھے" براق خوش ہوا۔
_________________
"رائد ٹھہرو" چیتے کی سپیڈ سے جاتے رائد کو صوفیہ نے اونچی آواز دی۔
"جی مام" سنجیدگی چہرے پر واضع تھی۔
"کہیں جا رہے ہو؟"
"جی۔۔۔آپکو بھی پتہ ہے میں کہیں جا رہا ہوں"
"بلکل پتہ ہے۔ اور پھر بھی پوچھنے کا مقصد تھا کہ تم جگہ بتا دو، کہاں جا رہے ہو؟" صوفیہ باون سال کی خوبصورت عورت تھی۔ رائد نے خوبصورتی اپنی ماں سے ہی لی تھی۔اُسنے آسمانی رنگ کا ایمبروائڈڈ سوٹ پہن رکھا تھا۔ بال خوبصورتی سے بن کی صورت میں باندھ ہوۓ تھے۔ ہونٹوں کو لائٹ پنک لپ اسٹک سے ڈھانپ رکھا تھا۔ skin tightening treatment کی وجہ سے جھریوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
"دوست کی طرف موم"
رائد نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ لیٹ ہو رہا تھا۔
"مجھے بھی لے جاؤ"
" میرے دوست کے گھر جا کر آپ کیا کریں گی؟" نرمی سے سوال کیا۔
"اوہو۔۔۔دوست کے گھر نہیں۔ شاپنگ مال میں ڈراپ کر دو"
"موم میں اپنی بائک میں جا رہا ہوں۔"
"تو مجھے بھی بیٹھا لو بائک میں۔"
"موم ہیوی بائک ہے۔" رائد نے مختصراً کہا۔ اسکو مختصر بات کرنے کی عادت تھی۔
"کوئی بات نہیں۔ میں بیٹھ جاؤں گی۔"
رائد نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ شریف بابا کو آواز دی جو کہ ڈرائیور تھا۔
"آپ موم کو مال لے جائیں"
"مگر مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے۔ اپنے بیٹے کے ساتھ"
"پھر کبھی موم۔۔۔اللہ حافظ!" کہہ کر صوفیہ کی آوازیں دینے کے باوجود نکل گیا۔
--------------
"شریف کیا ہوا ہے؟"
"میڈم جی۔۔۔ گاڑی لگتا ہے خراب ہو گئی ہے"
دس منٹوں سے شریف گاڑی کی ہُڈ کو اوپر کیے اُس سے الجھ رہا تھا۔
"اچھا تو میں رائد کو کال کر لیتی ہوں۔ تم اسکو ٹھیک کروا کے لے آنا"
جی میڈم"
صوفیہ اپنے باچھیں کھولے رائد کو کال ملانے لگی۔
"ہیلو"
"ہیلو۔۔۔رائد بیٹا۔۔۔میں مال کے پارکنگ ایریا میں ہوں۔ گاڑی خراب ہو گئی ہے۔ میرے پاس اتنا سامان ہے۔ تم آ جاؤ گے مجھے پک کرنے؟"
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اسنے جواب دیا۔
"آتا ہوں" کہہ کر فون بند کر دیا۔
"شکر ہے" صوفیہ خوش ہوئی تھی۔
اسکے بیٹے نے پندرہ سال کی عمر سے اپنی سوشل ایکٹویٹی کو محدود کیا ہوا تھا۔ جس عمر میں ہر طرح کے دوست زندگی میں آتے ہیں، اُس عمر میں اُس نے دوست بنانے ہی ترک کر دیے تھے۔ اسکا صرف ایک ہی دوست تھا۔۔۔۔برہان۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد رائد نے اپنی بائک صوفیہ کے آگے روکی۔ پہلے وہ چونکی پھر مسکرائی۔
"مجھے لگا تھا پھر کسی نہ کسی طرح تم نے مجھے ٹال دینا ہے"
"آپ ٹھیک سمجھ رہی ہیں۔ ادھر ویٹ کریں میں ٹیکسی منگوا رہا ہوں۔" صوفیہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"تم مجھے کم سے کم۔۔۔ادھر۔۔۔باہر تک لے جاؤ۔۔۔گاڑی اندر تک نہیں آئے گی"
"آ جائے گی۔۔۔آپکی بھی تو آئی تھی۔"
"رائد مجھے مال کے باہر سڑک تک چھوڑو۔۔۔چلو"
صوفیہ زبردستی بائک میں بیٹھنے لگی۔
"ہائے کلموہی۔۔۔کیسی بائک بنائی ہے۔۔۔نہ سر نہ پیر۔۔۔" وہ بمشکل سامان لیے بائک پر بیٹھی تھی۔
"موم میں کہیں نہیں جا رہا"
"میں نہیں اتروں گی رائد"
رائد بس سر جھٹک کر رہ گیا۔
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے اتنے میں صوفیہ کا بیلنس بگڑا اور وہ بائک سے دھڑام گری۔
"اوہ گاڈ!" زرجان جو کہ مال شاپنگ کے لیے آئی تھی، صوفیہ کو گرتا دیکھ کر گاڑی سے فوراً اُتری۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" زرجان نے صوفیہ کو سہارا دے کر اٹھایا۔
اُسنے پلین سي گرین ڈریس پہن رکھا تھا۔ لمبی قمیض اور کھلا ٹراؤزر۔ ساتھ میچنگ ہیلز اور دوپٹہ کندھے پر نفاست سے ڈال رکھا تھا۔ جیولری میں ہمیشہ کی طرح بس انگوٹھیاں اور لاکٹ پہنا ہوا تھا۔ ایک انگوٹھی رنگ فنگر میں اور ایک سیدھے ہاتھ کی انڈیکس فنگر میں۔ اسکے بال بمشکل اسکے کندھوں کو چھو رہے تھے۔ اسکے بالوں کی خاص بات یہ تھی کہ اسکے بالوں میں نمایاں سفیدی دکھائی دیتی تھی۔ جو بری نہ لگتی تھی بلکہ ہر آنے جانے والوں کو دیکھنے پر مجبور کرتی تھی۔ براؤن سن گلاسس اسکی شخصیت کو ابھار رہے تھے۔ اپنا وائٹ بیگ سنبھالتی اس نے صوفیہ کو اٹھایا تھا۔ جس کی نظریں ہنوز زرجان کے سفید اور میک اپ سے پاک چہرے پر جمی تھیں۔
"آپ ٹھیک ہیں؟"
زرجان نے دوبارہ سے پوچھا۔ وہ بس صوفیہ کی طرف متوجہ تھی۔ وہ رائد کو اگنور نہیں کر رہی تھی، اسکی عادت تھی وہ مرد زاد پر ایک نگاہ بھی بھرپور نہیں ڈالتی تھی۔ وہ بائک سے اترنے اور مدد کرنے کے بجائے اسکو ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔
"ج۔۔جی میں ٹھیک ہوں بیٹا" صوفیہ کو وہ بڑی بھلی سی لگی۔
"آپ کا دماغ درست ہے؟"
ایک دم وہ رائد کی جانب مڑی۔
"اس طرح کی بائک میں کون اپنی ماں کو بیٹھا کر شاپنگ کرواتا ہے؟ آج کل کی جنریشن کو تو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے؟"
آخری جملہ رائد کو دنیا میں واپس لے آیا۔
آج کل کی جنریشن؟ کیا یہ میری ماں کی ایج کی ہے؟ آج کل کی جنریشن کا کیا مطلب ہوا؟
رائد اسی وچار میں تھا۔ جبکہ صوفیہ مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔ جس کے آگے کوئی نہ بولتا تھا وہ کیسے کسی کے سامنے چپ ہو گیا؟ وہ بھی کسی لڑکی کے سامنے؟ رائد نے نظریں صوفیہ کی طرف کیں جیسے کہہ رہا ہو اب سکون ہے؟ اور صوفیہ کو مسکراتا دیکھ کر اسکو تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔
"اب آپ مجھے اور اپنی مدر کو گھورنے کے بجائے یہ سامان اٹھا لیں گے؟"
زرجان کی بات سے اسکو اپنی پوزیشن کا احساس ہوا۔ بائک سے اتر کر، اسٹینڈ پر لگاتے اُسنے شاپنگ بیگز سمیٹے۔
"ان کو میری گاڑی میں رکھ دیں" انداز حکمی تھا۔
"جی؟"
"آنٹی آپ کو ہسپتال جانے کی ضرورت ہے مجھے لگتا ہے موچ آئی ہے"
"نہیں بیٹا۔۔۔۔" وہ مسکراتے ہوۓ اسکو ٹال رہی تھی جب قدم اٹھانے سے اُس کو درد کا احساس ہوا۔
"آه۔۔۔"
"دھیان سے ۔۔" زرجان نے جھٹکے سے صوفیہ کو کندھے سے تھاما۔ "آنٹی میں آپ کو لے جاتی ہوں" اُس نے اصرار کیا۔
"نہیں بیٹا! تم ابھی تو آئی ہو۔ اپنی شاپنگ وغیرہ کر لو۔۔۔۔۔I will manage"
"جی مجھے یقین ہے۔ اس طرح کے بیٹے کے ہوتے ہوئے آپ manage کر ہی لیں گی۔"
اسکے طنز سے صوفیہ نے مسکراہٹ دبائی۔ جبکہ رائد زرجان کو باقاعدہ گھورتا ہوا اُس پر نظر ٹکائے ہوئے تھا۔ وہ اسکو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا یا شاید پہچان چکا تھا۔
"آپ آ جائیں، میں شاپنگ پھر کبھی کر لوں گی۔ ویسے بھی کوئی ایمرجنسی نہیں ہے"
زرجان کے بے حد اصرار پر صوفیہ کو ماننا پڑا۔ جبکہ رائد خاموش کھڑا رہا۔ رائد کی نظریں اسکے سفید بالوں پر تھیں۔
' اسکے بال سفید کب ہوئے ؟ یہ بڑے ہونے چاہیے تھے؟"
رائد مسلسل سوچ میں تھا۔ زرجان نے صوفیہ کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا اور ڈگی کھول دی۔ رائد نے سامان ڈگی میں رکھا۔ زرجان نے گاڑی موڑ لی۔ رائد سوچ کی ایک نئی دنیا لیے بائک میں اسکے پیچھے ہو لیا۔
" کیا یہ وہی۔۔۔؟"
وہ پورے راستے سوچتا رہا۔
--------------
"آپ کے بال naturally ہی ایسے ہیں؟" صوفیہ نے ہسپتال سے واپسی پر اُس سے پوچھا۔
"جی آنٹی" اُس نے جھوٹ بولا تھا۔ ہر کسی کو وہ اپنی کہانی نہیں سنا سکتی تھی۔
"آپ کوئی جاب کرتی ہو؟
"جی آنٹی"
کم بولنا اسکی عادت نہیں تھی، اب بن چکی تھی۔
"کیا کرتی ہو؟"
" آنٹی میں انٹیریئر ڈیزائنر ہوں"
"اوہ۔۔۔گیس واٹ۔۔۔ہم نے کچھ عرصہ پہلے ہی گھر بنوایا ہے۔ ہمیں اپنے نئے گھر کے لیے کوئی بہترین انٹیریئر ڈیزائنر چاہیے تھا"
"That's great...
میں آپ کو کمپنی کا کارڈ دیتی ہوں اگر آپ کو ضرورت ہوئی تو آپ مجھے کال کر سکتی ہیں یا آپ وزٹ بھی کر سکتی ہیں"
"ضرور بیٹا"
اس نے صوفیہ کے بتانے پر گھر کے سامنے گاڑی روکی۔ اپنا ہاتھ پیچھے پڑے بیگ کی طرف بڑھایا اور اُس میں سے کمپنی کا وزیٹنگ کارڈ نکال کر صوفیہ کو دیا۔ جو صوفیہ نے ایک نگاہ ڈال کے اپنے بیگ میں ڈال دیا۔ ذرجان نے دانستہ طور پر ڈگی کھول دی۔
"میں آپ کو ضرور کال کروں گی۔ اور آج کے لیے بہت شکریہ! اللہ آپ کے نصیب اچھی کرے" زرجان بلکل سپاٹ تھی۔ صوفیہ کے آخری جملے پر وہ شکریہ بھی نہ کہہ سکی۔ اُس کی کہانی ایسی نہیں تھی کہ وہ اس دعا پر خوش ہوتی۔ نصیب تو اُس کے ساتھ کھیل چکا تھا۔ اب وہ ایک ٹوٹا ہوا کھلونا تھی۔
"میں آپ کی کال کا انتظار کروں گی" بدقت اُس نے کہا۔
"شیور بیٹا۔۔۔اللہ حافظ!" صوفیہ نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو بلکل سامنے رائد کھڑا تھا۔ گاڑی سے ذرا فاصلے پر شاپنگ بیگز سڑک پر پڑے تھے جو اُسنے ڈگی کھلنے پر فوراً نکال لیے۔ وہ اُن کے بلکل پیچھے ہی آ رہا تھا۔ اور اب وہ اس گاڑی والی کا پیچھے چھوڑنے بھی نہیں والا تھا۔ رائد نے صوفیہ کو سہارا دے کر نیچے اتارا۔
"تھینکس کرو لڑکی کو" صوفیہ نے گُھور کر اترتے ہوۓ ہلکی آواز میں کہا۔ رائد ہلکا سا جھکا۔
"تھینکس فار ٹوڈے!"
"نو پروبلم!"
مسکرائے بنا کہا۔ اُس نے اُس پر نگاہ نہیں ڈالی تھی۔ ساتھ ہی اُس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ ابھی گاڑی موڑ رہی تھی کہ پچیس چھبیس سال کے نوجوان لڑکا اپنی بائک کو ایک دم سے گاڑی کے سامنے بریک لگاتا رکا۔
"سوری" ہڑبڑا کر اس لڑکے نے زرجان سے معذرت کی۔ زرجان بھی ایک دم چونک گئی تھی۔
"اٹس اوکے بیٹا! دھیان سے چلاو"
وہ نوجوان عجیب سے نگاہوں سے اسکو دیکھتا بائک سائڈ سے لے گیا۔ زرجان بھی گاڑی کو زن سے بھگا لے گئی۔
" کیا وہ ایسی تھی؟ وہ تو نازک سی تھی۔ " رائد کو شبہ نہیں تھا، مگر ایک بار کنفرمیشن ضروری تھی۔ صوفیہ نے سنجیدگی سے سارا تماشا دیکھا۔
"چلیں اندر یا نگل جاؤ گے نگاہوں ہی نگاہوں میں اسکی گاڑی کو؟" صوفیہ کا لہجہ تمسخرانا تھا۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کے رہ گیا۔
"ویسے دنیا جہاں کی باتیں کر لیں میں نے اُس سے مگر نہ نام پوچھا نہ ہی فیملی کے بارے میں کچھ۔ تمہاری ماں بوڑھی ھو گئی ہے رائد، اولڈ ہوم چھوڑ آؤ۔"
صوفیہ کو اچانک یاد آیا کہ اُس نے اُس لڑکی کا نام ہی نہیں پوچھا تھا۔ وہ دونوں مین گیٹ کو پار کر کے اندر آ چکے تھے۔
"تھوڑی اور بوڑھی ہوں جائیں پھر چھوڑ آؤں گا"
صوفیہ کی گھوری کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اسکو اندر تک لے کر گیا۔
_______________
"Hello sir...How can I help you?"
"وعلیکم السلام۔۔۔مسٹر رضوان سے ملنا ہے۔"
"آپکی اپوائنٹمنٹ تھی؟" کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"نہیں"
"اوکے سر۔۔آپکا نام؟" پوچھتے ہوئے اُس نے انٹرکام اٹھایا۔
"رائد عالمگیر"
"اوکے سر" تیزی سے تین نمبرز ڈائل کرتی اُسنے انٹرکام کان سے لگایا۔
"سر آپ سے مسٹر رائد عالمگیر ملنے آئے ہیں"
مگر دوسری طرف سے لائن ڈسکنکٹ ہو گئی۔ ابھی وہ دوبارہ نمبر ڈائل کر ہی رہی تھی کہ ریسیپشن سے کافی فاصلے پر بائیں جانب کا دروازہ تیزی سے کھلا۔ جہاں سے رضوان نمودار ہوا۔ رضوان رائد کو دیکھ کر حیرت سے مسکرایا۔ رائد بھی تکلفاً مسکرا دیا۔
"یار۔۔۔" وہ تیزی سے آتا رائد کے گلے لگ گیا۔
"کدھر غائب ہو گئے تھے؟" علیحدہ ہوتے ہوئے اُسنے پوچھا۔
"کینیڈا چلا گیا تھا۔" رائد نے بس اتنا ہی کہا۔
"ہاں ہاں سنا تھا۔۔اچھا چھوڑو آ جاؤ" اسکے قدم اپنے آفس کی طرف تھے۔ رائد اسکے پیچھے چل دیا۔
"کیا پیو گے؟"
"نہیں کچھ نہیں۔۔۔بس ایک کام تھا" وہ بیٹھ چکا تھا۔
"حکم" تابعداری سے کہتے ہوئے وہ مسکرایا۔
"انٹیریئر ڈیزائنر کی ضرورت ہے"
"ضرور۔۔ہمارا تو کام ہے provide کرنا۔ ادھر ہے ایک بہترین ڈیزائنر۔۔۔سب کلائنٹس اسکے کام سے بہت خوش ہیں۔ تم کہو تو ابھی ہی میٹنگ کروا دوں؟"
"پلیز" رائد نے جواب دیا۔
"اوکے پھر آ جاؤ۔۔۔میٹنگ روم میں چلیں"
وہ اٹھتا اُس کے پیچھے ہو لیا۔ ریسیپشن کی دائیں جانب ایک چھوٹی سی راہداری تھی جہاں ایک آفس تھا اور اُس آفس کے ساتھ کچھ فاصلے پر میٹنگ روم تھا۔ رضوان رائد کو بٹھاتے ہوئے اُسی آفس کی طرف بڑھا۔ اور چند منٹوں میں واپس آیا۔
"السلامُ علیکم" کچھ ہی دیر میں وہ فائلز اٹھاتی میٹنگ روم میں داخل ہوئی۔ اسکی آواز کانوں میں پڑتے ہی رائد مڑا۔
' یہ تو۔۔۔'
وہ فائلز سنبھالتی بیٹھی۔ میٹنگ روم کا سائز اچھا خاصا تھا۔ درمیان میں ایک دس فٹ کا ٹیبل پڑا تھا۔ ٹیبل کے دائیں اور بائیں جانب چار چار چیئرز پڑی تھیں، اور ٹیبل کی سیدھ میں دونوں طرف ایک ایک چیئر تھی۔ وہ رائد کے سامنے دوسری طرف جا بیٹھی۔ جبکہ رائد اور رضوان، دونوں کی پشت روم کے دروازے کی جانب تھی۔ رائد حیرانگی سے اُسکو دیکھ رہا تھا۔ اسکے ذہن میں کچھ دن پہلے کی ملاقات تازہ ہوئی۔
"یہ مسٹر رائد عالم ہیں" زرجان نے ہلکی سے نگاہ ڈالی۔ رائد کو اُس کے چہرے کے تاثرات میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔
' اس نے مجھے پہچانا نہیں؟'
مگر نہ زرجان نے پہلی ملاقات میں اُس کو نگاہ بھر کے دیکھا تھا نہ اس دوسری ملاقات میں۔
' کیا اسکو میرا نام بھی بھول گیا ہے؟'
رائد اسکو غور سے دیکھ رہا تھا۔
"ان کو اپنے گھر کے لیے ڈیزائنر کی ضرورت ہے"
"اوکے سر۔۔" اُسنے سر ہلاتے فائل کھولی۔
" آپکا بجٹ؟" اسکو دیکھے بغیر وہ مخاطب ہوئی۔
" بجٹ کی ٹینشن نہ لیں"
"اوکے مسٹر عالم۔۔۔کتنے مرلے کا گھر ہے؟"
"ایک کنال کا گھر ہے" رائد سنجیدگی سے اسکو جواب دیتا گیا۔ وہ تیزی سے کچھ چیزیں نوٹ کر رہی تھی۔
" اوکے۔۔۔اور کوئی preferred style ؟"
" جی۔۔۔آپ آئیں گی تو میری موم آپکو سٹائل اور اسپیس کے حوالے سے گائیڈ کے دیں گی"
" اوکے مسٹر عالم میں کل صبح نو بجے آپکے گھر آؤں گی۔ آپ مجھے اپنا ایڈریس لکھوا دیں"
اسکی عادت تھی وہ کلائنٹس کو اُنکے سر نیم سے پکارتی تھی۔ رائد نے اسکو ایڈریس لکھوایا۔ ' کیا اب یہ مسکراتی نہیں ہے؟' رائد سنجیدگی سے اسکی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا تھا۔ ایڈریس لکھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
" اللہ حافظ!" وہ جا چکی تھی۔ رائد اسکے جاتے ہی رضوان کی طرف مڑا۔
"انکا نام کیا تھا؟"
"زرجان۔۔" رضوان نے سنجیدگی سے بتایا۔
" پورا نام؟"
"زرجان احمد" رائد کی دل کی دھڑکن تیزی سے شور کرنے لگی۔
" کیا اسکی اور انفارمیشن ہو گی تمہارے پاس؟"
"ہاں شاید اسکی سی وی ابھی تک ہو۔۔لیٹ می چیک" اسکو ایسے رائد کا پوچھنا عجیب تو لگا مگر کچھ پوچھے بغیر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور میٹنگ روم سے باہر چلا گیا۔ تقریباً پندرہ منٹوں بعد وہ ایک فائل لے کر نمودار ہوا۔
" یہ لو"
اسکو فائل پکڑاتا وہ اسکے ساتھ دوبارہ بیٹھ گیا۔ اُسنے اسکی سی وی پر نظر دوڑائی۔ جو جاننا چاہتا تھا وہ جان گیا۔
' یہ زرجان ہی ہے '
دل جیسے بند ہونے کو تھا۔ مگر بظاھر نارمل۔ اُسنے فائل بند کر کے رضوان کی جانب بڑھا دی۔
"تھینک یو"
"نو پروبلم" رضوان نے مسکراہٹ اچھالی۔ کچھ دیر میں وہ اُدھر سے نکل آیا۔
' کیا ایسے ملنا تھا مجھے اس سے؟'
باہر آتے ہی اپنی نارمل ہونے کی اداکاری کو سائڈ پر رکھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اُس نے سر کی پشت سیٹ پر ٹکا لی اور آنکھیں موند لیں۔ وہ حیران تھا۔ جس کو وہ اتنے عرصے سے ڈھونڈ رہا تھا، وہ آج اُس کے سامنے تھی۔ آفس سے گھر تک کے سفر میں اسکے ذہن میں زرجان سوار تھی۔
کیا کبھی اسکی زندگی میں ایسا بھی وقت تھا جب اسکے ذہن میں زرجان سوار نہیں تھی؟
________________
وہ کچن میں کھڑا حساب کتاب کر رہا تھا۔ ریسٹورانٹ کے نئے سٹاف کے انٹرویوز کے لیے آج وہ دیر تک رکا رہا تھا۔
"کیا تمام چیزیں پہنچ گئیں؟"
اُسنے سٹاف چینجنگ روم سے نکلتے ایک ورکر کو پوچھا۔
"جی سر۔۔وہ اُدھر پڑی ہیں۔۔" اُسنے ساتھ والے کمرے کی طرف اشارہ کر دیا۔ برہان اُس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ ہر چیز کا جائزہ لینے کے بعد وہ اُدھر سے نکلا اور جیسے سکون کی سانس لی۔
"اب پتہ چلا، بابا کتنا کام کرتے تھے۔۔۔اب پتہ نہیں کب آنا ہے انہوں نے" وہ منہ میں بڑبڑاتا کچن کی طرف واپس آیا۔ کچن میں سب مصروف تھے۔ ایک نگاہ سب پر ڈالتا اب وہ باہر مین ایریا کی طرف بڑھا۔ ایک نگاہ سارے اطراف میں ڈالتے جب وہ واپس کچن کی طرف جانے لگا تھا تو اسکی نگاہ اُدھر بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی۔ بڑی بڑی آنکھیں جن میں کاجل ڈال رکھا تھا۔ کمر تک آتے بال جو موٹے تو نہ تھے مگر بہت باریک بھی نہ تھے۔ برہان کو خوبصورت لگے تھے۔ اُسنے پنک کلر کا کرتا ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ وائٹ کلر کا سکارف گلے میں ڈالے وہ مسکرا کر اپنے ساتھ بیٹھی کسی لڑکی سے بات کر رہی تھی، ساتھ ہی کافی کی چسکی بھر رہی تھی۔ دوسری لڑکی کا چہرہ واضع نہیں تھا۔ برہان کو وہ بہت خوبصورت لگی۔ اُس کا دل کیا کہ وہ اسکے برابر بیٹھ کر اُس کو قریب سے دیکھے۔ وہ اُس وقت کھڑا اپنی آس پاس کی ہر چیز سے بے خبر تھا۔
اور بے خبری کسی اچھی چیز کا نام نہیں۔
__________________
آئینے میں خود پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے اسکے ہونٹوں میں مسکراہٹ پھیل گئی۔ آئینے میں اپنا عکس وہ ہر پانچ منٹوں بعد دیکھتی اور مسکرا کر دوبارہ بیڈ پر بیٹھ جاتی۔ اُس نے وائٹ اور گولڈن کلر کا ڈریس پہن رکھا تھا۔ لونگ شرٹ جس كا گلا، بارڈر اور بازو گولڈن کام سے بھرا ہوا تھا۔ شرٹ کے درمیانی حصے میں گولڈن کام کا چھٹا تھا۔ ساتھ میں غراره پہن رکھا تھا جس کے پانچوں پر اُسی طرح کا گولڈن کام کیا گیا تھا۔ اسکے لمبے اور ہلکے رنگ کے بھورے بالوں کو خوبصورتی سے بن میں سمیٹ رکھے تھے۔ اسکے بالوں میں لائٹ پڑنے سے گولڈن رنگ کا گمان ہوتا تھا۔ سر پر سفید رنگ کا ڈوپٹہ پہنا ہوا تھا۔ جو دائیں جانب سے آگے ڈال رکھا تھا اور بائیں جانب کندھے پر اُسنے مہرون رنگ کی ویلویٹ کی چادر ڈال رکھی تھی۔ جس کا بارڈر فلورل ڈیزائن سے بھرا ہوا تھا۔ پاؤں پر اُسنے پینسل ہیلز پہن رکھی تھی جو کہ مہرون رنگ کی تھی۔ جس کے اوپری چمڑے پر گولڈن کلر کا ہاتھوں سے ہلکا سا کام کیا گیا تھا۔ مہندی ہاتھوں میں سجائے، دونوں کلائیوں میں گجرے پہن رکھے تھے۔ پوری آستین ہونے کے باعث اُس نے چوڑیاں نہیں پہنی تھیں۔ اس کی وجہ کسی کی ناپسندیدگی بھی تھی۔ کانوں میں گولڈن اور مہرون امتزاج کے کانٹے اور اسی امتزاج کی لمبی مالا کو اپنے گلے کی زینت بنایا ہوا تھا۔ بندیا سر پر ٹکائے وہ بار بار اسکو ہاتھ لگا کہ چیک کر رہی تھی کہ سیدھی ہے یا نہیں۔۔۔میک اپ قدرے ہلکا تھا۔ سر سے لے کر پاؤں تک اس نے سب کچھ 'اُس'کی پسند کا پہنا ہوا تھا۔ وہ خود بھی اُسی کی پسند تھی۔ وہ دوبارہ اٹھی اور آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر مسکرائی۔ وہ خوش تھی۔ آج اسکی شادی تھی۔
آج زرجان کی شادی تھی۔
________________
اینو بے چینی سے بیٹھا تھا۔ بار بار نگاہیں چوتھی قطار میں پانچویں نشست میں بیٹھی زرجان پر جا رہی تھیں۔ وہ سر نیچے کو کیے مسلسل سسکیاں بھر رہی تھی۔ اینو کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھے اور خود جا کر گھنٹی بجا آئے۔ کچھ لمحوں بعد گھنٹی بجی اور وہ بجلی کی تیزی سے زرجان کی طرف بڑھا۔ زرجان نے ابھی تک اپنا منہ نیچے کو گرا رکھا تھا۔ اینو اُس کے پاس گیا اور اسکا سر اٹھایا۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ کوشش کر رہی تھی کہ اسکی آواز کسی دوسرے کے کان میں نہ پڑے۔ مگر جس بچے کی نگاہ پڑتی، وہ گھورنے ہی لگ جاتا۔ زرجان کے آنسوؤں میں روانی آ گئی۔ وہ اُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے اُس کو دیکھے جا رہا تھا۔ پھر اُس نے اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں سے اُس کے آنسو صاف کیے۔۔ اب وہ بری طرح سے ہچکیاں لینے لگی۔
"زری۔۔۔" اینو نے اُس کے بکھرے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے پوچھا۔
"کیا ہوا ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟"
اس دوسری جماعت کے بچے کا انداز ایسا تھا کہ جیسے زرجان کو کچھ کہنے والوں کو وہ اس دنیا سے مٹا دے گا۔
"ن۔۔ن۔۔۔نہ۔۔۔نہیں" بمشکل ہچکیوں کے درمیان اُس نے کہا۔
"زرجان ابھی ٹیچر نے آ جانا ہے۔۔۔مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟" باری بھی اب اینو کے ساتھ کھڑا تھا۔
"دل۔۔۔دلبر۔۔او۔۔۔اور۔۔۔حس۔۔۔حسی۔۔۔حسیب ن۔۔نے پینسل۔۔۔کا۔۔۔سی۔۔سکہ۔۔چبھ۔۔۔چبھویا۔۔ہے"
اُسنے نے مشکل سے بات مکمل کی اور ساتھ ہی اپنے سیدھے ہاتھ کی پشت دکھائی جہاں کالا سا ایک نشان دکھائی دے رہا تھا۔ اور لال رنگ کناروں پر ہلکا سا پھیلا ہوا تھا۔ وہ خون تھا، جو زرجان نے صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ باری نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا۔ البتہ رائد نے غضب ناک نظروں سے بات کرتے دلبر اور حسیب کو دیکھا۔ اتنے میں ٹیچر کلاس میں داخل ہوئی۔
"ابھی چپ ہو جاؤ زری۔۔۔فکر نہ کرو میں تمہارے لیے بدلہ لوں گا۔"
زرجان نے آنسو پونچیں۔
"بیٹھ جاؤ سارے۔۔۔مجال ہے جو سکون سے بیٹھ جائیں یہ بچے۔ اگلی بار اگر میں لیٹ ہو جاؤں کوئی مجھے اپنی جگہ سے ہلا نظر نہ آئے"
اینو کو ٹیچر کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ اپنی جگہ پر جاتے جاتے وہ خونی نگاہوں سے دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے تیسے کر کے اس نے لیکچر نکالا۔ بریک کے لیے بیل بجی تو وہ
زرجان کے پاس پہنچا۔
" چلیں کینٹین؟"
زرجان سوجی آنکھوں سے مسکرائی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ باری بھی اُن کے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کینٹین کی طرف جا رہے تھے۔ کینٹین کے پاس پہنچتے ہی اُسنے زرجان کے لیے بینچ پر جگہ بنائی اور اسکو بیٹھا دیا۔ ہمیشہ کی طرح باری کو پیسے دیے اور وہ کینٹین کی طرف بڑھ گیا۔ اُس نے زرجان کے بال کھولنا شروع کیے۔ آج وہ بہت تیزی سے ہاتھ چلا رہا تھا۔ اب وہ زرجان کے لمبے بالوں کو دوبارہ چوٹی میں باندھنے لگا۔ وہ بہت اچھے بال تو نہیں بنا پاتا تھا لیکن زرجان کے بکھرے بال قدرے سمٹ جاتے تھے۔ اُس نے تیزی سے چوٹی بنائی۔ اور ہمیشہ کی طرح زرجان کو دکھائے جس نے 'اچھے ہیں ' کہہ کر رائد کو خوش کر دیا۔ اتنے میں باری آن پہنچا۔ اور لیز کے پیکٹ زرجان کے حوالے کیے اور خود پاس کھڑا اپنا لیز کا پیکٹ کھول کر کھانے لگا۔ زرجان نے پیکٹ کھولا اور ایک پیس خود کھا کر پیکٹ اینو کے آگے کیا۔ جس نے نفی میں سر ہلا دیا اور ساتھ ہی پیچھے کو دیکھنے لگا۔ باری اور زرجان دونوں نے اس کی تائید میں پیچھے دیکھا جہاں دلبر اور حسیب فٹ بال لیے اسکو اچھال رہے تھے۔ اور آتے جاتے بچوں کو بال مار رہے تھے۔ اینو غصے سے مڑا۔ اور تیزی سے اُنکی طرف بڑھا۔
"کدھر جا رہے ہو؟"
باری نے آواز لگائی مگر اس نے جیسے سنی ہی نہ ہو۔ زرجان بھی ڈرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں کا رخ اب اُن کی جانب تھا۔ اینو اُن کے سر پر پہنچا اور کسی بھی دیری کے بغیر حسیب کے منہ پر مکا مارا، وہ مکے کی تاب نہ لاتے ہوئے نیچے گرا۔ دلبر ابھی سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ابھی ابھی کیا ہوا ہے جب اینو نے اسکے منہ پر بھی مکا جڑ دیا۔ دونوں اب زمین بوس پڑے تھے۔ باری اور زرجان کا ہاتھ بے ساختہ منہ تک گیا۔ اینو اب کہ حسیب کے پیٹ پر بیٹھا اسکے منہ پر ہاتھ مارے جا رہا تھا، تھپڑ یا مکا جو بھی لگتا۔ دلبر نے زمین پر پڑے پڑے حسیب کے پیٹ پر بیٹھے جنونی اینو کو اپنے پاؤں سے دھکا دیا۔ اینو اسکے پیٹ سے دائیں جانب گر گیا اسکی کہنی پر خراش آئی تھی جس کو وہ اگنور کرتا اٹھا اور اب دلبر کی طرف بڑھا جو ڈر کی وجہ سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آس پاس بچوں کا ہجوم لگ گیا۔ اینو اب دلبر کے منہ پر مکوں کی برسات کر رہا تھا۔ اتنے میں زرجان راستہ بناتی ہوئی اُس تک پہنچی۔
"اینو!" اونچی آواز پر اُس نے مڑ کر زرجان کو دیکھا اور مسکرایا۔ زرجان سہمی ہوئی تھی اسکے پیچھے دکھائی دیتا باری سکون سا کھڑا لیز کہہ رہا تھا۔ ابھی اینو کا ہاتھ اُن دونوں پر مزید اٹھنے والا تھا کہ سکیورٹی گارڈ آن پہنچا۔
"یا اللہ!" وہ سر پر ہاتھ مارے اینو کو دیکھ رہا تھا جو کہ دلبر کے پیٹ پر بیٹھا تھا اور حسیب بری حالت میں تھا۔ گارڈ اینو کو پیچھے دھکا دیتا دلبر کو گود میں اٹھانے لگا۔ ساتھ ہی کچھ ٹیچرز بھی بھاگنے کے انداز میں ہجوم میں داخل ہوئیں۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اُن کا بھی سر چکرا گیا۔ اُن دونوں کو ریسٹ روم میں پہنچایا گیا۔
اینو پرنسپل آفس میں کھڑا تھا۔
"یہ کیا حرکت تھی؟" اسکی کلاس ٹیچر پرنسپل کر سامنے اُس سے پوچھ رہی تھی۔ وہ چپ رہا۔
"میں آپ سے بات کر رہی ہوں"
"اُس نے میری فرینڈ کو رُلایا تھا" سنجیدگی سے کہتا اُس نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں۔
"آپکا یہ attitude بلکل بھی اچھا نہیں ہے۔ آپ کلاس کے اچھے سٹوڈنٹ ہو۔ آپ نے اُن کو اتنا کیوں مارا ہے؟ کلاس میں فرینڈز کے درمیان ایسے ہوتا رہتا ہے"
"زرجان بس میری فرینڈ ہے" اب کہ اُس نے غصے سے کہا۔
"اوکے" ٹیچر گہری سانس لیتی اب اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور نرمی سے بولی۔
"حسیب کی ٹھوڑی سے خون بہہ رہا ہے، اسکے دانت ٹوٹے ہیں اور دلبر کی آنکھ سوجی ہوئی ہے اسکے ہونٹوں سے خون نکل رہا ہے۔ آپ کو معلوم بھی ہے آپ نے کیا کیا ہے؟"
وہ خاموش رہا۔
" اب ہم اُنکے پیرنٹس کو کیسے ڈیل کریں گے؟"
"آپکے لیے یہ پہلی اور آخری وارننگ ہے۔ پینلٹی اس لیے نہیں ہے کہ آپ بہت اچھے سٹوڈنٹ ہو۔ نیکسٹ ٹائم کچھ بھی ہوا تو آپ کو اسکول سے نکال دیا جائے گا" پرنسپل نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔ اینو پرنسپل آفس سے نکلا اپنا یونیفارم سیدھا کرتا ہوا کلاس میں داخل ہوا جہاں کلاس ہو رہی تھی۔ زرجان نے بے بسی سے اینو کو دیکھا۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی۔ اینو اُس کو ایک مسکراہٹ اچھالتا اپنی جگہ پر پہنچا اور بیٹھ گیا۔ باری نے اسکو دیکھ کر آنکھیں گھمائیں۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔' فضول آدمی '
چھٹی ہوتے ہی زرجان نے بیگ بند کیا اور بیگ کندھے پر ڈالتی، اینو کی طرف لپکی۔
"کیا ہوا؟"
"کچھ نہیں۔۔وارننگ دی ہے" اُس نے سنجیدگی سے کہا، ساتھ ہی بیگ پہن کر اُس نے زرجان کا ہاتھ پکڑا۔ اور کلاس سے باہر آ گیا۔ باری بھی ساتھ تھا۔ زرجان کو پہلے ہی لینے آ گئے تھے۔ اسکا اٹھارہ سالہ کزن اپنے ڈرائیور کے ساتھ اسکو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتا تھا۔ زرجان ہاتھ ہلاتی گاڑی میں بیٹھی۔ زرجان کے سامنے اگر باری اینو کو کچھ کہتا تو وہ اسکو کچا چبا جاتی۔ اینو نے بھی مسکرا کر ہاتھ لہرایا۔
"تم پاگل ہو؟" باری زرجان کے جاتے ساتھ ہی چلایا۔ اینو نے اسے گھورا۔
"پتہ بھی ہے کتنا خون نکل رہا تھا انکا۔۔۔اور تمہاری کہنی۔۔۔" باری نے اسکا بازو پکڑا جہاں کہنی پر ہلکا سا خون لگا تھا۔
"انہوں نے زرجان کو رُلایا تھا" دبے دبے غصے سے وہ غرایا۔
"تو؟ رُلایا تھا تو؟ " باری اس وقت بڑا بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ زرجان کے ہوتے ہوئے وہ زیادہ بولتا نہیں تھا۔ زرجان اور اینو کو ایک دوسرے میں مشغول بس گھورتا رہتا تھا۔ اب کہ اُس کو موقع ملا تھا۔ اتنے میں باری کو بھی لینے آ گئے۔
"چلتا ہوں" منہ بناتا، حد کے مغرور انداز میں ناک سے مکھی اُڑاتا وہ اپنی گاڑی کی طرف چل دیا جہاں اسکے بابا اسکا انتظار کر رھے تھے۔ اینو پیچھے باری کی باتوں سے کڑھ رہا تھا۔ مگر جو اُس نے آج کیا اُس سے سو فیصد مطمئن تھا۔
" اسکو دیکھ لوں گا میں" باری کا سوچتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔
________________
وہ یونیورسٹی پہنچی اور تیزی سے قدم کلاس کی جانب بڑھائے۔ کلاس میں داخل ہوتی ہے اُس نے وریشہ کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کچھ سیکنڈز بعد وہ زرجان کو ہاتھ لہراتی دکھائی دی۔ وہ تیزی سے اُس کی جانب بڑھی۔ اور اسکو کھینچتی کلاس سے باہر لے آئی۔
"کہاں جا رہے ہیں ہم؟" وریشہ نے اُلجھتے ہوئے پوچھا۔ مگر کوئی جواب دیے بغیر وہ اسکا ہاتھ پکڑتی باہر گراؤنڈ میں لے گئی۔ باہر کا موسم بہت اچھا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے اسکے لمبے بال اڑ کر اسکے منہ پر آ رہے تھے۔ جن کو اُس نے الجھن سے پیچھے کیا۔ اُس نے گراؤنڈ میں ایک بڑے سے درخت کے پاس رک کر اپنا بیگ پھینکا۔ اور وریشہ کو بیٹھنے کا کہا۔ وریشہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔
" کیا ہوا ہے زرجان؟"
"دادی میری شادی کی باتیں کر رہی ہیں"
"واٹ؟؟؟" وریشہ چیخی۔ "واقعی؟؟ یہ تو خوشی کی بات ہے"
"خوشی؟؟؟ وریشہ ابھی میں اٹھارہ سال کی ہوں۔۔۔ابھی ابھی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔۔۔ابھی فرسٹ سمسٹر ہے۔۔ ابھی شادی؟" زرجان کا انداز ایسا تھا کہ بی بی ہوش میں ہو تم؟
"کل تمہارا برتھڈے ہے۔ کل انیس کی ہو جاؤ گی" اُس نے معصومیت سے کہا۔ مگر زرجان کی گھوری سے وہ گڑبڑائی۔
"تو تم کہو گھر میں کہ۔۔۔"
"تم یہ کہہ رہی ہو کہ میں نے کہا نہیں ہو گا؟"
"کہا ہے تو پھر؟" اُس نے متجسس ہو کر پوچھا۔
"پتہ نہیں۔۔۔مگر بابا چاہ رہے ہیں کہ شادی ابھی ھو جائے۔ دادی بھی یہی چاہتی ہیں اور ماما بھی۔" زرجان پریشان تھی۔
" یار کوئی بات نہیں۔۔۔تمہاری آج سے پہلے کسی نے کوئی بات ٹالی ہے؟" وریشہ نے مسکرا کر اسکے پریشان چہرے کو دیکھا۔
"وریشہ۔۔۔اگر بابا نہ مانیں۔۔۔اگر؟" زرجان کی پریشانی صاف اسکے منہ سے ظاہر تھی۔
"زرجان شادی تو ہونی ہی ہے ایک دن۔۔"
"ہاں مگر ابھی تو بہت جلدی ہے وريشہ"
"تو اگر انکل آنٹی نہ مانے تو۔۔۔تو تم بھاگ جانا" وریشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ مگر زرجان کی ہونک نظروں کو دیکھ کر وہ ایک دم سنجیدگی سے سیدھا ہوئی۔
"زرجان۔۔میں مذاق کر رہی تھی۔۔۔کیا سوچ رہی ہو؟" وریشہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ مگر زرجان بس سنجیدگی سے اُسی دیکھے گی۔
' کیا سوچ رہی ہے یہ لڑکی؟' وریشہ کے دل میں ایک خوف سا طاری ہوا۔
___________________
بیل بجنے پر وہ تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھا۔ گیٹ کھولا تو سامنے وہ کھڑی نظر آئی۔
"السلامُ علیکم" وہ جواب دیتا پیچھے ہوا اور اسکو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ گھر میں داخل ہوئی۔ وہ اندر کی جانب چلنے لگا وہ بھی سر ادھر اُدھر ہلاتی اسکے پیچھے چل پڑی۔ مین گیٹ کی سیدھ میں پتھریلی روش تھی جس کے دونوں جانب کھلا میدان تھا۔ کو کہ گارڈن ایریا تھا۔ جہاں گھاس اگائی جانی تھی۔ اندر داخلی ہال کافی جگہ گھیرے ہوئے تھا۔ ہال کے بائیں جانب cantilevered ڈیزائن کی سیڑھیاں اوپر کو جاتی تھیں۔ ہال کے بلکل سامنے سیٹنگ ایریا تھا۔ سیٹنگ ایریا سے بائیں جانب ایک چھوٹی سے راہداری نکلتی تھی۔ راہداری کے بعد ایک چھوٹا سا لاؤنج تھا۔ لاؤنج ایریا میں کل تین کمرے تھے۔ سیٹنگ ایریا کی دائیں جانب ایک کمرہ تھا۔ اس کمرے میں کچن کا دروازہ کھلتا تھا۔ ہال کے دائیں جانب راہداری کے بعد دو کمرے تھے۔ بالائی منزل میں تین بڑے کمرے تھے۔ زرجان گھر کی دیواروں، چھتوں کا غور سے جائزہ لینے لگی۔ سب کچھ دیکھنے کے بعد اُس نے ہاتھ میں پکڑی شیڈ بُک رائد کی طرف بڑھا دی۔
"ہر دیوار پر تو پینٹ نہیں ہو گا مگر جہاں پینٹ کرنا ہے وہاں کے لیے شیڈ کا آئیڈیا دے دیں" رائد نے اسکو دیکھتے ہوئے بُک پکڑی اور صفحے ادھر اُدھر کرتا تیزی سے بغیر دھیان دیے بُک دیکھنے لگا۔ اسکی نگاہ بار بار زرجان کے چہرے پر جا رہی تھی۔
' اس نے بال سفید کیوں کروائے ہیں؟ اور چھوٹے بال؟'
"آپ ہر انجان شخص کو ایسے ہی گھورتے ہیں؟" زرجان کو اسکے بار بار دیکھنے کی وجہ سے کوفت ہو رہی تھی۔
"نہیں بس جان پہچان والوں کو" سامنے بھی رائد تھا۔ شرمندہ ہوئے بغیر اُسنے جواب دیا۔ اور ساتھ ہی بُک اُس کی جانب بڑھا دی۔
"Any light color will work"
کہتا ہوا وہ مسکرایا۔ زرجان نے اُس کو گھورتے ہوئے بُک پکڑی۔
"Sure,
کل سے آفیشلی کام شروع ہو جائے گا"
زرجان کو اُدھر کھڑے الجھن ہو رہی تھی۔ اب وہ ادھر سے نکلنا چاہتی تھی۔
" بہتر" اب زرجان کے قدم باہر کی جانب تھے۔ رائد اُس کے پیچھے ہی تھا۔ وہ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف بڑھی اور بیٹھتے نکل گئی۔
' عجیب آدمی ہے '
________________
کچھ دنوں بعد زرجان اور اینو بریک ٹائم اسکول کے گارڈن میں بینچ پر بیٹھے تھے۔ جب باری لمبے لمبے سانس لیتا اُن کے پاس آ کر رکا۔ اور اُن کو لیز کے پیکٹ پکڑائے۔ اینو زرجان کے بال بنا کر اسکے ساتھ بیٹھا باری کا انتظار کر رہا تھا۔
" کدھر رہ گئے تھے؟" اینو نے باری سے پوچھا۔ باری کا دایاں گال مکا پڑنے کی وجہ سے سوجا ہوا تھا جو کہ اسکول میں آتے ساتھ ہی اینو نے اسکو زرجان کی مدد نہ کرنے پر مارا تھا۔آج اسکو موقع ملا تھا سو بدلا لے لیا۔
"رش بہت ہے آج" باری کہتا ہوا اینو کے ساتھ آ بیٹھا۔ اور لیز کا پیکٹ کھولا۔ اب تینوں لیز کا پیکٹ کھولے، پاؤں ہلاتے ہوئے لیز کھا رھے تھے۔
بریک اوور ہوئی اور وہ کلاس کی جانب بڑھنے لگے۔ اینو نے ہمیشہ کی طرح زرجان کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ جبکہ باری اُنکے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ کلاس میں پہنچ کر سب اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ ٹیچر داخل ہوئی۔
" سب بکس نکالیں اپنی" ٹیچر نے بیٹھتے ہوئے کہا۔ تب ہی۔۔۔
"آ۔۔آہ۔۔۔آ۔۔۔آ۔۔۔۔۔" بچوں کی چیخوںکی وجہ سے ٹیچر گھبرا گئی۔ سب بچے چیختے ہوئے دروازے سے باہر نکلنے لگے۔ سب سے اونچی چیخیں باری کی تھیں جو اینو کے ساتھ چپکا بس چیخی جا رہا تھا۔ جبکہ اینو اسکو ایک نظر نا گواری سے دیکھتا زرجان کو ڈھونڈنے لگا۔ اسکو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب بچوں کے ہجوم میں دھکوں سے وہ کلاس کے باہر پہنچ گیا۔ اسکو زرجان گھبرائی ہوئی ایک سائڈ پر کھڑی نظر آئی۔ اُس نے جگہ بناتے زرجان کو کھینچ کر ہجوم سے باہر نکالا۔ ٹیچر گھبراتی ہوئی اٹھی اور سامنے کا منظر دیکھتی، چیختی وہ بھی بچوں کے ساتھ کلاس سے باہر نکلی۔
"یہ سب کیا ہے؟" ٹیچر چیخی۔ سٹاف روم سے ٹیچرز نکل کر ہجوم تک پہنچیں۔ دوسری کلاس کی ٹیچرز بھی منہ نکالے باہر کا منظر حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔
" پتہ نہیں ٹیچر۔۔۔میرے بیگ سے کیسے۔۔۔؟" پاس کھڑے حسیب نے گھبراتے ہوئے کہا۔
"میرے بیگ سے بھی۔۔۔" دلبر کے ہاتھ، پاؤں ابھی تک کانپ رھے تھے۔
"تم دونوں ابھی کے ابھی پرنسپل آفس چلو" ٹیچر نے غصے سے دلبر اور حسیب سے کہا۔
"کیا شور ہے یہ سب؟" ایک دم پیچھے سے پرنسپل کی آواز آئی۔
"میم۔۔۔وہ۔۔" ٹیچر نے کلاس کی طرف اشارہ کیا۔ پرنسپل ایک غصے کی نگاہ ڈالتی قدم بڑھاتی کلاس کے دہانے تک پہنچی۔ اور کلاس میں لال بیگوں کا ہجوم دیکھتی حیران رہ گئی۔ حسیب اور دلبر کے بستوں سے لال بیگ نکلتے آ رہے تھے۔ کچھ اُڑتے ہوۓ کلاس میں مٹر گشتیاں کر رہے تھے۔
"یہ سب کیا ہے؟" پرنسپل چلائی اور ساتھ ہی وارڈن کو آواز دی۔
" سب کو اُن کے بیگ پکڑائیں اور ہال میں چیئرز ارینج کریں۔۔۔باقی کلاسز ہال میں ہوں گی۔۔اور مجھے یہ کلاس صاف چاہیے" پرنسپل کا غُصہ عروج پر تھا۔
"یہ سب کس کا کیا دھڑا ہے مِس زویا؟" پرنسپل نے دبے دبے غصے سے پوچھا۔
" پتہ نہیں میم۔۔۔ان دونوں کے بیگ سے نکلا ہے یہ سب۔۔۔" مِس زویا نے دلبر اور حسیب کے گھبرائے ہوئے چہروں کی طرف اشارہ کیا۔
"آپ ان دونوں کو لے کر میرے آفس آئیں" پرنسپل کہتی مڑی اور آفس کی طرف چل دی۔ مِس زویا بھی اُن دونوں کو آفس میں لے گئیں۔
"بیٹا سب ہال کی جانب جائیں۔۔" گارڈ سب بچوں کو لیے ہال کی طرف بڑھا۔ ایک ملازم اُن کے لیے باری باری خالی پڑیں چیئرز لا رہا تھا۔
"آپ سب کے بیگ آپکو مل جاتے ہیں" گارڈ اُن کو بٹھاتا نکل گیا۔
"اینو؟" زرجان نے، جو اسکے ساتھ بیٹھی تھی، پُکارا۔ باری بھی گھبرایا ہوا ساتھ بیٹھا تھا۔
"ہوں؟" اُس نے اسکی طرف رخ کیا۔
"یہ تم نے کیا ہے؟" رک رک کر پوچھا۔
"نہیں"
"واقعی؟"
"ہوں۔۔۔"
تھوڑی دیر میں بچوں کے بیگز دو ملازم اٹھا لائے۔ بچوں کے بیگز کو اچھی طرح سے صاف کر کے لایا گیا تھا۔
"یہ بیگ جس کے بھی ہیں پکڑ لیں۔۔۔باقی بیگ آ رہے ہیں" بیگز کو زمین پر رکھتے انہوں نے کہا اور چلے گئے۔ سب نے ڈرتے ڈرتے اپنے بیگ پکڑے۔
اتنے میں اُن کی کلاس ٹیچر ہال میں داخل ہوئی۔ سب بچے خاموش ہو گئے۔
" آپ ادھر آئیں۔۔۔" ٹیچر نے اینو کو آنے کا اشارہ کیا۔ اینو اٹھا اور قدم قدم اٹھاتا ٹیچر تک پہنچا۔
"مجھے کسی کی آواز نہ آئے۔۔۔مِس زویا آ رہی ہیں۔۔آپ نے شور نہیں کرنا۔۔۔" اب وہ اینو کا ہاتھ پکڑتی پرنسپل آفس لے گئیں۔
"بیٹا۔۔۔آپ نے سچ سچ بتانا ہے۔۔۔" کلاس ٹیچر شائستہ نے اینو سے نرمی سے کہا۔
"یہ پرینک آپ نے کیا ہے ان دونوں کے ساتھ؟" پاس کھڑے دلبر اور حسیب اینو کو گھور رہے تھے۔
"نو مِس" اینو نے کہا۔
" Are you sure?"
" يس میم!"
کچھ اور دیر اسکو بیٹھا کر دوبارہ پوچھا گیا مگر اُس نے پھر انکار کر دیا۔
"میں زرجان کے ساتھ تھا گارڈن میں، بریک ٹائم۔۔۔آپ کسی سے بھی پوچھ لیں" اُس نے بلا کے confidence سے کہا۔
"مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس نے کیا ہے میم" مِس شائستہ نے پرنسپل سے کہا۔ پرنسپل نے بھی سر ہلا دیا اور ان تینوں کو جانے کا کہا۔ تینوں خاموشی سے ہال میں واپس آ گئے۔
"اینو تمہیں کیا لگتا ہے یہ کس نے کیا ہے؟"
باری نے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔ اینو نے اسکو مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔
"تم نے" باری پہلے حیران ہوا پھر اسکا منہ لٹک گیا۔
"تمہیں کیسے پتہ لگا؟" مگر اینو نے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔
" Well done"
اور باری کی باچھیں کھل گئیں۔ گھر جا کر بھی وہ دیر تک خوش رہا تھا۔ چاہے بظاھر اسکی اور زرجان کی لگتی تھی، مگر باری کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اسکی دوست کو کوئی کچھ کہے۔
کیا ان کی دوستی ایسے ہی قائم رہنے والی تھی؟
_________________
وہ آج اپنی ٹیم کے ساتھ گھر کا دورہ کرنے آئی تھی۔ اسکی ٹیم کا ہر میمبر گھر کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے آئیڈیاز دے رہا تھا۔ آج اسکو صوفیہ سے ملنا تھا تاکہ کلائنٹ کے ٹیسٹ کا پتہ لگے اور وہ اپنی بھی کچھ تجاویز پیش کرے۔ رائد نے اُن کو ویلکم کیا تھا مگر کافی لوگ ہونے کی وجہ سے وہ زرجان سے بات نہ کر سکا۔ مگر اپنی نگاہوں کی تپش سے اُسے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہا۔ اس کو آج بھی اُس سے کوفت ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں صوفیہ آن پہنچی۔
"السلامُ علیکم" ہمیشہ کی طرح لبوں پر مسکراہٹ سجائے اُس نے سب کو ویلکم کیا۔ زرجان کو دیکھ کر ایک دم وہ حیران سے ہوئی۔ اور رائد کو دیکھا۔ رائد نے کندھے اچکا دیے۔
" میں lead designer ہوں۔۔۔آپ سے چند ایک suggestions لینی تھیں۔" زرجان نے آگے بڑھ کر صوفیہ سے کہا۔
" جی جی ضرور" وہ مسکراتی ہوئی بولی۔ اسکی ٹیم کے سب لوگ اپنے اپنے کام پر لگ چکے تھے۔ کیوں کہ اسکو ایک مہینے کا وقت دیا گیا تھا۔ کوئی آئی پیڈ نکالے ایک رف سا 3D سکیچ تیار کرنے لگا۔ کوئی شیڈ بُک نکالے کلرز دیکھنے لگا اور کوئی گھر کا سادہ سا سکیچ بنا رہا تھا۔ سب کے پاس کوئی نہ کوئی بیگ تھا۔ جس میں measuring tape, ماسک، ٹول کٹ، سٹیشنری کا سامان، لیپ ٹاپ، گلوز, ڈرل مشین جیسی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ اُدھر ہی سیٹنگ ایریا میں فرش پر آمنے سامنے بیٹھے کام کرنے لگے۔ زرجان صوفیہ کو لے کر گھر کا چکر لگانے لگی اور صوفیہ کی رائے لینے لگی۔
" بیٹا ڈارک رنگ تو چبھتا ہے آنکھوں میں۔۔لائٹ کلرز اچھی لگیں گے۔" وہ داخلی ہال میں تھے۔
"جی آنٹی۔۔۔مجھے مسٹر عالم نے بتایا تھا لائٹ کلرز کا۔۔۔تو۔۔۔" وہ اب سیٹنگ ایریا میں پہنچ چکی تھیں۔
" اس دیوار پر" اُس نے سامنے والی دیوار کی طرف اشارہ کیا۔
" wooden wall panelling
بھی اچھی لگے گی۔ اور اگر ہر دیوار کا پینٹ کلر ڈفرنٹ ہو گا تو ذرا unique لگے گا۔۔۔کیوں کہ لائٹ کلرز آپکی ترجیح ہے تو الگ الگ پینٹ اچھا لگے گا۔"
"اس بات سے تو بیٹا مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔آپکو جی مناسب لگے۔۔۔بلکہ اگر کسی وال پر۔۔آپکو لگے کہ ڈارک کلر اچھا لگے گا تو آپ کر سکتی ہیں۔۔۔مگر سب دیواروں پر نہیں۔۔"
"اوکے آنٹی۔۔۔ادھر۔۔۔" وہ دائیں جانب بڑھی۔۔۔
" یہ آپکا ڈائننگ ایریا ہو گا اور ادھر سے ہی کچن کا دروازہ کھلے گا۔۔۔کیوں کہ یہ دونوں روم اٹیچ ہیں۔۔"
"جی جی میں نے بھی یہی سوچا تھا۔۔۔"
"اوکے۔۔۔اور اس طرف۔۔۔" اب وہ بائیں جانب بڑھی اور چھوٹی راہداری میں آئی جہاں دو کمرے تھے۔
" یہ ایریا گیسٹ روم کے لیے بہت اچھا ہے۔۔۔ادھر کتنے لوگوں نے رہنا ہے۔۔؟" کچھ سوچتے ہوئے اُس نے پوچھا۔
" یہ میرے بڑے بیٹے کا گھر ہے۔۔۔میرا بیٹا، اسکی بیوی اور دو بچے۔۔۔"
"اُس لحاظ سے تو گھر بہت بڑا ہے۔۔۔فرنیچر زیادہ ایڈجسٹ ہو سکتا ہے۔۔۔آپکا کیا خیال ہے؟ فرنیچر زیادہ جو گا تو اسپیس ذرا کم کم لگے گی اور گھر بڑا بڑا نہیں لگے گا۔"
"بیٹا آپ کو میں اپنی بہو کا نمبر دے دوں گی، آپ اس معاملے میں اُس سے رابطہ کر لینا۔۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔" کہتی ہوئی وہ اطراف کا جائزہ لینے لگی۔۔۔
"آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟"
"جی؟" زرجان ذرا کو اُلجھی۔
" وہ اُس دن آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔۔۔آپ مجھے ہسپتال لے کر گئی تھیں اور گھر بھی ڈراپ کیا تھا۔۔۔" زرجان پہلے ذہن میں زور ڈالنے لگی پھر ایک دم یاد آیا۔
"جی جی۔۔۔مجھے یاد آیا۔۔۔اب آپ کا پاؤں کیسا ہے؟"
وہ ایسی ہی تھی، اُس ایک انسان کے علاوہ سب انسانوں کو بھول جانے والی۔
"اب تو بہتر ہے۔۔۔اللہ کا شکر ہے۔۔کبھی آؤ آپ میری طرف۔۔۔میرا گھر بلکل بغل والا ہے۔۔"
"پھر کبھی سہی۔۔۔" وہ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔کچھ دیر میں ساری ڈسکشن کرنے کے بعد صوفیہ گھر چلی گئی۔ جب کہ رائد اُدھر ہی کھڑا رہ گیا۔
" آپکے پاس ladder ہو گی؟" زرجان نے بہت کوشش کی کہ اس شخص سے کوئی کام نہ پڑے مگر آخر کو کام آ ہی گیا۔
" جی گھر میں ہے۔۔۔" رائد اپنے مخصوص انداز میں اسکو دیکھتا ہوا بولا۔
" اوکے۔۔۔ویسے تو لائٹ کلرز آپکی مدر نے بھی کہا ہے۔۔انہوں نے کہا تھا کہ میں خود چوز کر لوں کلرز یا آپسے پوچھ لوں۔۔۔رابعہ۔۔۔" رائد کو کہتے ہیں اُس نے رابعہ کو آواز لگائی۔۔۔
"جی میم"
"بیٹا شیڈ بُک لے کر آؤ" رابعہ شکل سے کافی میچور لگتی تھی اور زرجان سے بڑی بھی۔۔ رابعہ بُک لائی، پکڑائی اور واپس چلی گئی۔۔۔
"یہ سارے لائٹ شیڈز ہیں۔۔۔" اُسنے بُک میں اشارہ کیا۔
" آپکو ڈارک کلرز پسند ہے؟" اُسنے بُک میں دیکھتے سرسری سا پوچھا۔
" ادھر آپکی پسند کی بات ہو رہی ہے۔۔"
" تمہیں کونسا شیڈ اچھا لگ رہا ہے؟" رائد نے ایک دم بُک اسکے آگے کرتے ہوئے اپنا لہجہ بدلا۔ زرجان نے اُسی ایسے دیکھا جیسے سامنے کھڑا شخص پاگل ہو۔
" Excuse me???"
" شیڈ پوچھ رہا ہوں۔۔۔"
"مسٹر عالم۔۔۔اپنی حد میں رہیں۔۔۔آپ میرے کلائنٹ ہیں، انجان ہیں اور انجان لوگوں سے تعلق واسطہ بنانے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔۔۔اگر آپ مجھے ' آپ ' کہہ کر ہی مخاطب کریں گے تو ہی بہتر ہے۔۔" رائد کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا۔
" مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔۔ کیا اتنا لمبا شیڈ کا نام تھا۔۔۔ ایسے بھی نام ہوتے ہیں؟" رائد نے بلا کی ایکٹنگ کی۔ زرجان خاموشی سے اُسی دیکھے گی۔ پھر جیسے کچھ سوچ کر نرمی سے بولی۔
" یہ یہ کلرز میں نے ابھی تک سوچے ہیں۔۔۔" اُس نے classic white اور pale yellow کی طرف اشارہ کیا۔
" تمہاری سوچ تو بہت اچھی ہے۔۔" ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس نے کہا۔ زرجان نے جیسے یہ آخری موقع دیا تھا۔ اُس کے الفاظ اور انداز پر وہ بھڑک اٹھی۔
"آپ اپنی حد میں رہیں گے؟ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے لڑکیاں انکمفرٹ ایبل فیل کرتی ہیں۔" رائد کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ در آئی۔
" ہاں جانتا ہوں۔۔۔اب تم میری ان حرکتوں کی وجہ سے مجھے بتائے بغیر چھوڑ کر تو بھاگ تو نہیں جاو گی؟" زرجان کا دل کیا اُس کا سر پھاڑ دے۔
" آپ کا دماغ خراب ہے؟"
" ہاں اس دماغ خراب کی وجہ سے تو لوگ مجھے بتائے بغیر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔" اسکی عجیب سے ہلکی ہلکی مسکراہٹ زرجان کو تپا رہی تھی۔
" دیکھیں مسٹر عالم۔۔۔آپ میرے کلائنٹ ہیں۔۔۔نہ آپ کی طرف سے کوئی بدتمیزی ہونی چاہیے نہ ہی میری طرف سے۔ تو بہتر ہے کہ آپ اپنی فضول باتیں کسی اور کے سامنے کریں۔۔۔"
زرجان اسکو گھورتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی۔ مگر اسکی نظروں کی تپش اسکے ساتھ ہی تھی۔
________________
"کچھ پریشان ہو؟ خیریت؟" براق اسکے آفس میں کچھ ڈسکس کرنے کی نیت سے آیا تھا۔
"نہیں پریشان نہیں ہوں۔۔۔زرجان کے پاس جا رہا ہوں۔۔۔وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔بات کرتا ہوں۔۔۔" وہ اپنے آگے پڑیں فائلز کو بند کرتے ہوئے بولا۔
"مان جائے گی۔۔۔" براق نے تسلی دی۔
"تمہیں کیسے پتہ ہے؟"
"کیوں کہ میں جانتا ہوں اسکو۔۔۔ یاد نہیں اگر وہ تمہاری دوست ہے تو میری بھی ہے۔۔۔" براق مسکرایا۔ وہ بھی مسکرا دیا۔ اسکا ڈمپل واضع ہوا۔
" اُس وقت ہم تینوں نا سمجھ تھے۔۔۔"
"میں اور زرجان ہو سکتے ہیں۔۔۔تم تو کبھی بھی نا سمجھ نہیں تھے۔۔۔" براق جو کہنا چاہ رہا تھا وہ بخوبی سمجھ رہا تھا۔
"ہاں۔۔۔" اب کی بار وہ ہنسا تھا۔
________________
"بہت پیاری بچی ہے ماشاءاللہ!" روزانہ حداد سے بات کرنا انکا معمول تھا۔
"آپ تو کچھ زیادہ ہی فین ہو گئی ہیں اس لڑکی کی۔" حداد نے جب سے کال کی تھی بس وہ لڑکی ایسی، وہ لڑکی ایسی ہی سنی جا رہا تھا۔
"نام کیا ہے اُس لڑکی کا؟" کسی بھی دلچسپی کے بغیر اُس نے پوچھا۔ وہ ایک ایک کر کے بادام منہ میں اچھالنے کے انداز میں رکھ رہا تھا۔
"زرجان۔۔۔" حداد کا بادام اچھالتا ہاتھ فضا میں ہی تھم گیا۔
"ذرجان؟"
"ہوں۔۔پیارا نام ہے نا؟" صوفیہ موبائل پر ساتھ ساتھ اپنے میسجز پڑھ رہی تھی اس وجہ سے حداد کا ریی ایکشن نہیں دیکھ پائی۔ وہ اپنے آفس میں پڑے خوبصورت سے سنگل صوفے پر بیٹھی تھی۔ حداد نے گلا کھنکهارا۔
"رائد کہاں ہوتا ہے؟" بڑے نارمل انداز میں اُس نے پوچھا۔ بادام کا باؤل سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"زیادہ تر اسد کے گھر ہوتا ہے۔ کام کروا رہا ہے"
"انٹراسٹنگ!" اسکی مسکراتی آواز ابھری۔
اسد کے گھر میں جائیں تو زرجان کام میں مصروف نظر آتی تھی۔ وہ تمام دیواروں پر اسپیس کا جائزہ لے رہی تھی تاکہ وہ لکڑی سے خوبصورت سی ڈیکوریشن کر سکے۔ اُس نے جگہ جگہ خوبصورت سے شیلوز بنانے کا سوچا تھا۔ رائد ادھر ہی تھا۔ اسکے سر پر بزنس کی ذمے داری تھی۔ مگر آجکل اُسنے سب کچھ صوفیہ پر ڈال رکھا تھا۔ جب کہ اس وقت زرجان کو صوفیہ کی زیادہ ضرورت تھی۔
رائد تو ہر وقت کھڑا گھورتا رہتا تھا۔ اپنے گھر سے کچھ کرسیاں، ٹیبل، اور باقی ضرورت کا سامان وہ زرجان کے آنے سے پہلے لے آیا تھا۔
" مسٹر عالم۔۔آپکی مدر اس وقت آ سکتی ہیں؟"
"اس وقت نہیں۔۔۔" وہ اسکے پاس کھڑا تھا جب اُسنے یک دم پوچھا۔
" آپ مجھے انکا نمبر دے دیں۔۔۔ میں خود بات کر لیتی ہوں۔۔"
"آپ مجھ سے بات کر سکتی ہیں" رائد سنجیدہ تھا۔
" جی کر سکتی ہوں۔۔مگر میں نے غور کیا ہے کہ آپ کو اس گھر کو سجانے میں کوئی خاص انٹریسٹ نہیں ہے۔۔۔آپکی مدر البتہ اچھے سے گائیڈ کرتی ہیں"
" جی۔۔۔ادھر گھر میں جنہوں نے رہنا ہے۔۔۔اُن میں سے ایک شخص مجھے پسند نہیں۔۔۔اور یہ ساری ڈیکور اُن ہی کے کہنے پر ہو رہی ہے۔۔۔اس لیے زیادہ انٹریسٹ نہیں۔۔۔"
" تو آپ ادھر کھڑے کیوں ہیں؟ جن کو انٹریسٹ ہے اُن کو کھڑا ہونا چاہیے۔" زرجان اسکی بات کر تھوڑا غُصہ ہوئی۔۔۔' مجھے کیوں بتا رہا ہے؟'
"میں ادھر اس وجہ سے کھڑا ہوں کہ مجھے ادھر موجود ایک شخص میں انٹریسٹ ہے۔۔۔"
زرجان نے آنکھیں گھمائیں۔۔۔ یہ پھر شروع ہو گیا۔
" مسٹر عالم۔۔۔مجھے آپکی مدر کا نمبر چاہیے۔۔۔"
" لکھیے۔۔۔03۔۔۔" اُس نے چیئر پر پڑے بیگ سے فون نکالا۔ رائد نے نمبر لکھوایا۔
"یہ میرا نمبر ہے۔۔۔" اُس نے لکھواتے ساتھ ہی کہا۔ زرجان نے اسکو نا سمجھی سے دیکھا۔
"کیسی بات ہے نا۔۔۔میں آپکا کلائنٹ ہوں۔۔۔مگر نہ آپکا نمبر میرے پاس ہے نہ ہی میرا نمبر آپکے پاس ہے۔۔۔" زرجان کو اب کی بار اُس پر غُصہ نہیں آیا کیوں کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔
" آپکی مدر کا نمبر؟" اُس نے رائد کا نمبر مسٹر عالم کلائنٹ کے نام سے سیو کیا۔ رائد نے صوفیہ کا نمبر لکھوایا۔
" ویسے تمہارے بال ہمیشہ سے تو سفید نہیں تھے۔ یہ کلر ہے نا۔۔۔؟اور تمہارے بال۔۔۔"
"مسٹر عالم۔۔۔!" اسکی آواز ذرا اونچی ہوئی۔ مگر وہ پر سکون تھا۔ جیسے اُس کو اس کی اُمید تھی۔
" میں نے آپ کو کہا تھا کہ حد میں رہیں۔۔۔میرے بالوں میں کلر ہے یا نہیں۔۔اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اور ' آپ '۔۔۔۔آپ کہہ کر مخاطب کریں مجھے۔۔۔"
رائد سنجیدہ چہرے مگر مسکراتی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ زرجان کو اسکے ٹھنڈے ردِ عمل سے چڑ سی ہوئی۔ وہ غصے میں اندر کی طرف چلی گئی جہاں اسکے باقی میمبرز موجود تھے۔
' کیا ہوا ہو گا جو یہ ایسی ہو گئی ہے؟' رائد کی سوچ کا مرکز کل بھی زرجان تھی، آج بھی زرجان ہے۔
________________
صوفیہ بزی تھی کیوں کہ رائد آج کل آفس نہیں جا رہا تھا سو صوفیہ پر دوگنا کام تھا۔ صوفیہ نے رائد کو مہوش کا نمبر زرجان کو دینے کے لیے کہا تھا۔
"آج کے آج ہی زرجان کا مہوش سے رابطہ ہو جانا چاہیے۔ اُس نے کچھ چینجز کروانی ہے مہوش نے" وہ آفس میں بیٹھی تھی جب مہوش کی کال آئی اور مہوش سے بات کرتے ہی اُسنے رائد کو کال ملائی۔
"بلکہ میں خود میسج کر دیتی ہوں ذرجان کو"
"نہیں میں جا رہا ہوں۔ میں دے دوں گا۔" وہ تو تیار ہی بیٹھا تھا۔
"ٹھیک ہے یاد سے۔" فون بند کرتے رائد اسد کے گھر کی جانب ہو لیا۔ اندر پہنچا تو وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔
" مِس زرجان نہیں آئیں؟" رائد نے اسکے ایک ٹیم میمبر سے پوچھا۔
" نو سر۔۔۔آج شاید وہ نہ آئیں۔۔" رائد نے سے ہلا دیا۔
" کیا آج وہ چھٹی پر ہے؟"
"نہیں سر۔۔آفس میں کچھ اور کام تھا انکو۔۔"
"اوکے۔۔" رائد کا رخ اب باہر جانب تھا۔ یقیناً وہ زرجان کے آفس جا رہا تھا۔
دوسری طرف وہ آفس میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہی تھی جب اسکے دماغ میں ایک دم رائد کا خیال آیا۔ رائد تھا یا غُصہ۔۔۔اسکا موڈ بگڑا۔
' عجیب آدمی ہے۔۔۔" اُس نے جھرجھری لی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔
"جی" رائد دروازہ کھولتا اندر آیا۔
" السلامُ علیکم" زرجان اسکو دیکھ کر حیران ہوئی۔ اسکا موڈ مزید بگڑا۔
"وعلیکم السلام" وہ اُس کے کہنے کے بغیر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
" مسٹر عالم! آپ؟ خیریت؟" سنجیدگی سے پوچھا گیا۔
" جی۔۔۔آپکو اپنی بھابھی کی نمبر دینا تھا۔ موم نے کہا کہ ارجنٹ ہے۔ تو میں چلا آیا۔ " مسکراہٹ سجائے وہ بولا۔
" جی دیں نمبر۔۔۔" رائد نے نمبر دیا۔ اُدھر ہی بیٹھے بیٹھے اُس نے کال ملائی اور اُس سے بات کرنے لگی۔
" اوکے اوکے۔۔۔جی میں ابھی اپنی ٹیم انفارم کر دیتی ہوں۔۔جی جی۔۔۔اللہ حافظ!" اُسنے فون بند کر دیا اور ساتھ ہی ایک دوسرا نمبر ملایا۔
" ہیلو! رابعہ بچے۔۔۔سیٹنگ ایریا پر ابھی کے لیے کام روک دیں۔۔کچھ چینجز کرنی ہے۔۔۔میں آ رہی ہوں۔۔۔" زرجان نے کہتے ہے فون رکھا۔ رائد مسکرا کر اٹھا۔
" I am missing your long hair"
مسکرا کر کہتا وہ اُس کے ردِ عمل کو دیکھے سنے بغیر نکل گیا۔ پیچھے زرجان نے غصے سے لیپ ٹاپ بند کیا۔
" یہ شخص پاگل ہے؟" غصے سے کھڑی ہوئی اور اپنا سامان بیگ میں ڈالنے لگی۔ جب ہی اسکا ہاتھ تھما۔
" اسکو کیسے پتہ میرے بال لمبے تھے۔۔؟ "
وہ کچھ حیران ہوئی۔
' ویسے تمہارے بال ہمیشہ سے تو سفید نہیں تھے۔ یہ کلر ہے نا۔۔۔؟' اسکی کہی بات اسکے کانوں سے ٹکرائی۔ ' اسکو کیسے پتہ؟ اسکو کیسے پتہ کہ میرے بال ہمیشہ سے سفید نہیں ہیں؟' خوف سے اسکا بدن لرزا۔
'اس دماغ خراب کی وجہ سے تو لوگ مجھے بتائے بغیر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔' اسکے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔ کچھ خوف سے اُس نے انٹرکام اٹھایا۔
" ابھی جو کلائنٹ آئے تھے اُن کا پورا نام کیا ہے؟"۔۔۔۔
" مسٹر رائد عالمگیر" دوسری طرف سے جواب سنتے ہی زرجان کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ اُس کے پاؤں میں جیسے جان نہ رہی۔ وہ زمین پر گرتی چلی گئی۔۔۔' رائد؟ یہ کب، کیوں، واپس آیا؟ یا خدایا! یا خدایا!' وہ اپنا منہ ہاتھوں میں گرائے ہوئے تھی۔ شکستہ! ۔ وہ جانتی تھی اس شخص سے وہ اب راہِ فرار حاصل نہیں کر سکتی۔۔۔مگر جب تک ہو سکے ٹال سکتی ہے۔۔۔وہ پریشان چہرہ لیے بیگ سنبھالتی آفس سے نکلی۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ بس گھر جائے اور خود کو کمرے میں بند کر لے۔ چھوٹے، چھوٹے قدم اٹھاتی وہ سیڑھیوں سے اتر رہی تھی جب اسکو وہ نیچے کھڑا نظر آیا۔
دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔رائد کی نظریں بے باک تھیں۔ جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ جتا رہا ہو۔۔۔زرجان کی نظروں میں پہلے اجنبیت تھی۔۔۔اب اُس میں رائد کو کچھ شناسائی دکھی تھی۔ اُس نے اُس کے چہرے کو بغور دیکھا جہاں ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔ جو آخری جملہ وہ اسکو کہہ کر آیا ہے یہ ردِ عمل بنتا تو نہیں۔ زرجان اُدھر ہی کھڑے اُس کو دیکھے جا رہی تھی۔ رائد ہلکا سا مسکرایا۔
' آخر پہچان ہی لیا '
" آ جاؤ۔۔۔" زرجان ہوش میں آئی۔ اُس نے قدم بڑھائے اور نیچے اسکے برابر کھڑی ہوئی۔ قد میں واضع فرق ہونے کے باعث زرجان کو اپنی گردن کافی اوپر اٹھانی پڑی۔ وہ اسکو قریب سے، غور سے دیکھنا چاہتی تھی۔
"مسٹر ر۔۔۔ع۔۔عا۔۔عالم؟ آ۔۔۔آپ گئے نہیں؟" زرجان کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔
' یہ کنفیوز بھی ہوتی ہے؟ انٹریسٹنگ!'
"ہاں میں نے سوچا۔۔ہماری ایک ہی منزل ہے تو ساتھ چلتے ہیں۔۔آ جائیں۔۔میری گاڑی میں چلتے ہیں" زرجان نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دی۔ اور مضبوط لہجے میں بولی۔
"مسٹر عالم! میں کسی کی گاڑی میں نہیں بیٹھتی"
" اوکے۔۔نو پروبلم۔۔۔میں تمہاری گاڑی میں بیٹھ جاؤں گا۔۔۔آ جاؤ۔۔" رائد کو جیسے اب مزہ آ رہا تھا۔ وہ گاڑی کے پاس پہنچا اور مڑ کر زرجان کو دیکھا جو اُدھر ہی کھڑی تھی۔ اُس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ گاڑی کھول دو۔ زرجان گہرا سانس لیتی اسکی طرف بڑھی۔۔ گاڑی کھولی۔۔۔دونوں بیٹھ گئے۔ رائد تو کچھ زیادہ ہی comfortable ہوکر بیٹھا تھا۔ زرجان نے گاڑی دوڑائی۔
"گاڑی تو بہت اچھی چلا لیتی ہو" رائد کا انداز taunt والا تھا۔ وہ خاموش رہی۔
"تمہارے بالوں کو کیا ہوا ہے؟ تمہارے بال تو لمبے تھے اور تمہیں اچھے بھی لگتے تھے" اپنی نظریں سڑک پر جمائے وہ بولا۔
" مسٹر عالم! آپکے بھائی واپس کب آ رہے ہیں؟"
رائد نے اسکے جواب پر مسکرا کر اسکی جانب دیکھا۔
" ایک مہینے بعد۔۔۔صحیح ڈیٹ کا اندازہ نہیں"
"اوکے" زرجان بہت مشکل سے اپنے منہ کے زاویے کو درست کیے ہوۓ تھی۔ یہ وہ شخص تھا جس کے سامنے زرجان ویسے ہوتی تھی، جیسے وہ اصل میں ہے۔ مگر وہ یہ جانتی تھی کہ اس شخص کو تھوڑی سی بھی ڈھیل دی تو یہ رُکے گا نہیں۔۔۔ابھی شاید رک جائے۔۔۔۔شاید۔۔۔!
مگر وہ غلط تھی۔ رائد کی زو معنی باتوں کو مکمل اگنور کرتے ہوئے اُس نے سفر طے کیا۔ وہ اسکے گھر پہنچی۔ اور گاڑی سائڈ پر لگاتی فوراً اُتری اور اندر کی جانب بڑھی۔ 'اس شخص سے دوری ہی اچھی ہے '
_________________
"ہیلو! موم؟ کیسی ہیں آپ؟" حداد کی آواز موبائل کے اسپیکر سے اُبھری تھی۔
"میں ٹھیک میرا بچہ۔ تم بتاؤ کیسی گزر رہی؟"
"اچھی گزر رہی ہے۔ سب ٹھیک ہے۔ بس ایک بات بتانی تھی آپ کو۔"
"ہاں بولو؟" محبت لیے صوفیہ نے کہا۔
"رائد بار بار کال کر رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ تمہیں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ اور یہ کہ تم جتن کرنا چھوڑ دو۔ موم کیا وہ ٹھیک ہے؟ کوئی مسئلہ تو نہیں اسکے ساتھ؟" حداد کی پریشان آواز صوفیہ کو بھی پریشان کر گئی۔
"کیا مطلب ہے؟"
"پتہ نہیں۔ چند دن ہوۓ ہیں۔ مجھے بار بار فون کرتا ہے کہ اپنی اوقات میں رہو۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔" صوفیہ کو نئی فکر لاحق ہوئی۔
"اچھا میں بات کرتی ہیں اُس سے۔" فون رکھتے وہ اٹھی۔ کپڑے تبدیل کر کے نیچے آتی ہوئی دکھائی دی۔ ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہہ کر وہ اسد کے گھر کی جانب بڑھی۔
"السلامُ علیکم! کیسی ہو بیٹا؟"
"وعلیکم السلام، میں ٹھیک ہوں آنٹی!"
"بیٹا میں کہیں جا رہی تھی سوچا تم تک مہوش کا پیغام پہنچا دوں۔ ہینڈ پینٹنگ ہو سکتی ہے بیٹا؟"
" جی آنٹی۔۔کس طرح کی پینٹنگ؟"
"اینٹرنس میں تو کچھ اچھی سی کر دو۔۔۔یعنی اُسنے کچھ خاص نہیں بتایا۔ کوئی ریفریشنگ سے ہینڈ پینٹنگ ہو اور اوپر بھی ایک۔۔۔بچوں کے لیے۔۔۔کسی بھی طرح کی۔۔۔"
" اوکے اُن کے بچے کتنے ہیں؟"
" دو بیٹے ہیں" صوفیہ نے مسکرا کر آگاہ کیا۔
"اوکے اُن کو گیمز کا شوق ہے؟ ویڈیو گیمز؟"
" جی بہت زیادہ۔۔۔ہر وقت کھیلتے رہتے ہیں" صوفیہ نے ازلی دادیوں والے تاثرات لیے آگاہ کیا۔
" اوکے۔۔۔میں پھر مِس مہوش سے رابطہ کر لیتی ہوں۔۔۔دراصل اُن کی کالز آئی تھیں مجھے مگر مجھ سے مس ہو گئیں۔۔۔جب میں نے انکو کالز کیں تو شاید وہ بزی تھیں۔۔۔ریسیو نہیں کی انہوں نے۔۔۔ڈونٹ وری میں اُن سے کانٹیکٹ کر لیتی ہوں۔"
" اوکے بیٹا" کچھ لمحوں بعد صوفیہ اپنے گھر کے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
"آفس چلو" حکم صادر کرتی وہ کھڑکی کے پار دیکھنے لگی۔ سوچوں میں ڈوبی، پریشان!
آفس پہنچ کر اُسنے رائد کے آفس کا رخ کیا۔ ہیلو میم، السلامُ علیکم میم کے جوابات وہ خوش دلی سے دیتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ دروازہ دھکیلا تو وہ چیئر کے ساتھ اپنی پشت جمائے، فائل کو ہوا میں آنکھوں کے برابر رکھے، نیم دراز سا نظر آیا۔ ماں کو دیکھ کر سیدھا ہوا۔ فائل ٹیبل پر رکھی اور اپنی ماں کے لیے جگہ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ صوفیہ اسکو دہکتی نگاہوں سے گھورتے ہوئے بیگ ٹیبل پر رکھتی رائد کی چھوڑی ہوئی چیئر پر بیٹھی۔ رائد اسکے سامنے ٹیبل کے پار بیٹھ گیا۔ آج رائد کافی دنوں بعد آفس آیا تھا۔ فائلز کا انبار اسکے ٹیبل پر پڑا تھا۔
"حداد کی کال آئی تھی مجھے" حداد کے ذکر پر رائد کی آنکھوں میں طیش اُترا۔
"تم نے اُس سے کہا ہے کہ کوئی حصہ نہیں ملنا؟" صوفیہ نے جیسے حقیقت جاننی چاہی۔ مگر رائد کی نظریں اور تاثرات۔۔۔دونوں برف کی مانند تھے۔۔۔سرد۔۔۔یخ۔۔۔جما دینے والے!
"رائد تم کیوں ایسا کرتے ہو؟ بھائی ہے وہ تمہارا۔ مجھے تکلیف ہوتی ہے تم دونوں کے جھگڑوں سے۔ اب تو وہ کینیڈا ہے۔۔اب تو تم دونوں سکون کی سانس لینے دو مجھے۔۔۔" آنکھوں اور آواز کی نمی واضع تھی۔ مگر رائد نے اثر نہیں لیا۔ اسکے تاثرات مزید سخت ہو گئے۔ صوفیہ بس اسکو دیکھتی رہ گئی۔ اُن کے دل میں اپنے بیٹے کی ذہنی بیماری کا خیال اُبھرنے لگا۔
-------------------