کَلو
جالی دار کھڑکیوں سے سورج کی کرنیں چھن کر آرہی تھیں۔ کمرے میں نظر دوڑائیں تو دائیں جانب پلنگ پر کام دار جوڑے بکھرے ہوئے تھے۔ بائیں جانب نظر دوڑانے پر دیوار پر پینٹنگز چسپاں دیکھائ دیتی تھیں ۔ کمرے کو معطر کرنے کیلئے سنگھار میز کے ساتھ ہی خوشبودار موم بتیاں جلائ گئ تھیں۔ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی کَلو آئینے میں اپنے چہرے کے نقوش بغور ریکھ رہی تھی۔ اس نے اپنا چہرہ پہلے دائیں پھر بائیں جانب گھما کر دیکھا۔ پھر اپنی آنکھیں بغور دیکھیں۔ پھر ناک ، ہونٹ ، کان سب باری باری ہاتھ سے چھوا۔
آخر کیا کمی ہے میرے اس چہرے میں؟. آنکھیں ، کان ، ناک سب تو سلامت ہے۔ بس رنگت ہی ذرا سی گندمی ہے۔ تو کیا ہماری یہ رنگت اتنا معانی رکھتی ہے؟".
"آئے ہائے کلموہی کتنی دفعہ کہا ہے کہ یہ لال لپسٹک نہ لگا یا کر۔ ایک تو تیرا رنگ کالا ہے اور تو اور یہ سرخ لپسٹک لگا کر اور کالی کلوٹی لگتی یے تو۔ کمبخت پتہ نہیں کس باپ پر چلی گئ ہے". "ارے زوبی بیگم، پہلی بات تو یہ کہ اسے لپسٹک نہیں لپ اسٹک کہتے ہیں۔ اور یہ لال رنگ نہیں مہرون رنگ ہے۔ دیکھ کتنا پیارا تو لگ رہا ہے یہ رنگ مجھ پر". نورِ جہاں نے آئینے میں خود کو دیکھتے کہا۔
"جا پرے کمبخت مجھے مت سیکھا تو کہ کیا کہتے ہیں اور کیا نہیں۔ تجھ پر یہ بناؤ سنگھار نہیں جچتا کلموہی کہیں کی ہونہہ".
"زوبی بیگم جسے آج تو کلموہی کہتی پھر رہی ہے نا دیکھنا ایک دن اس کوٹھے کی نمر ون رقاصہ ہوگی۔ اور ہاں میرا نام نورِ جہاں ہے کلموہی نہیں".
"ارے تو کیا رقاصہ بنے گی یہاں کی لوگ تیری رنگت دیکھ کر ہی منہ موڑ لیں گے۔ آئ بڑی نورِ جہاں "۔ زوبی بیگم نے ناک سے مکھی اڑائ۔ زوبی بیگم کا اصل نام زبیدہ تھا لیکن یہاں سب انہیں زوبی بیگم کے نام سے ہی پکارتے تھے۔ نورِ جہاں کو اس کی رنگت کی وجہ سے زوبی بیگم کلموہی بلاتی تھیں تو سب نے اسے کلو کہنا شروع کر دیا۔ جب بھی اسے کوئ کلو پکارتا تو اسے یاد دہانی کرواتی کہ اس کا نام نورِ جہاں ہے اور سب اس پر ہنس دیتے۔ نورِ جہاں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ عارفہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
" ارے آگئ عرفی ماشاءاللہ ، دیکھو ذرا کتنی خوبصورت لگ رہی یے۔ ایک ہی دفعہ اٹھنے پر نظریں ٹھہر ہی جاتیں ہیں۔ کیسی رہی محفل".
"زوبی آپا جب آپ جانتی ہیں کہ میری محفل کیسی ہوتی ہے تو کوں پوچھتی ہیں". عارفہ بیگم نے بھاری زیور سے خود کو آزاد کرتے بولا۔
"کیونکہ مجھے بار بار سننا اچھا لگتا ہے۔ اور ایک یہ دیکھ کلموہی سیاہ بخت بن کر ٹپک پڑی ہے".
"آپا بس کیا کریں کیوں اس کے پیچھے پڑی رہتی ہیں۔ اگر اس کی رنگت ذرا سانولی ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ گناہ تو میں نے کیا تھا نا تو سزا اس بے گناہ کو کیوں دے رہے ہیں آپ سب". عارفہ نے آنسو ضبط کرتے کہا۔
"تو نے کوئ گناہ نہیں کیا۔ تو نے نکاح کیا تھا اس کمبخت سے۔ اپنی جیسی کالی کلوٹی بیٹی دے کر رفو چکر ہو گیا۔ جو ہمارے کسی کام کی نہیں۔ یہ تو رقاصہ بھی نہیں بن سکتی".
گناہ ہی تھا یہ میرا آپا۔ اس کی جھوٹی محبت پر یقین کر کے" گناہ ہی تو کیا میں نے۔ اور میں نہیں چاہتی کہ یہ رقاصہ بنے۔ میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کے ساتھ بھی وہی ہو جو میرے ساتھ ہوا". عارفہ نے نورِ جہاں کو مسکرا کر گلے لگایا۔ اس کے گرد باہیں پھیلائیں جیسے وہ اپنی بیٹی کو ساری دنیا سے چھپا رہی ہو۔
سنگھار میز کے ساتھ ہی موجود جھولے میں لیٹی بچی کے رونے پر اس کے خیالوں کی دھند چھٹی۔ نور جہاں نے جھولا جھلایا اور لوری گانے لگی۔ بچی کو سلا کر وہ پھر سے آئینے میں خود کو دیکھنے لگی۔ لال لپ اسٹک اٹھائ اور ہونٹوں پر لگائ اور برق رفتاری سے اسے صاف کیا دروازے پر دستک ہوئ۔
کون ہے؟". نور جہاں نے بے تاثر چہرے سے پوچھا۔"
"نورِ جہاں بیگم زوبی بیگم کا پیغام ہے۔ مہمان آنا شروع ہوگئے ہیں سب آپ کے منتظر ہیں۔ محفل شروع کرنی ہے جلدی تیار ہو جائیں". لڑکی نے سہمے انداز میں پیغام سنایا۔
"زوبی آپا سے کہو ان مہمانوں کا میرا منتظر رہنے دیں۔ یہ محفل نورِ جہاں کے آنے پر ہی شروع ہوگی۔ تھوڑا اور انتظار کریں ابھی نورِ جہاں تیار نہیں ہوئ".
لڑکی اس کا پیغام سنتے ہی دروازہ بند کیے چلی گئ۔ نور جہاں نے میک اپ کرنا شروع کیا۔ آنکھوں میں کاجل ڈالا۔ اپنی تھوڑی کا تل مزید واضح کیا۔ آج اس نے سرخ لپ اسٹک لگائ تھی۔ یہ اس کی پہلی محفلِ رقص میں لگائ گئ تھی اور شاید آخری بھی۔ ناک میں نتھ پہنی۔ جھومر لگایا۔ لاکر سے ہیروں سے مزین بھاری بھرکم زیور نکالا جو اس کی ماں عارفہ بیگم نے مرنے سے پہلے اس کے حوالے کیا تھا۔ بڑی نزاکت سے چوکر صراحی نما گردن میں پہنا۔ جو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ جھمکے پہنے اور ڈوپٹہ اوڑھے وہ رقص کیلۓ بالکل تیار تھی۔
محفل شروع ہوئ۔ داد پر داد ملتی گئ۔ رقص ختم ہوتے ہی وہ بنا کسی سے بات کیے کمرے میں آگئ۔
"ارے نورِ جہاں تو نے تو کمال کردیا آج۔ محفل ہی لوٹ لی۔ اور تو سیدھا اپنے حجرے میں آن وڑی۔ رکتی تو سہی کیا پتہ تھوڑا اور انعام مل جاتا".
"مجھے اب کوئ انعام نہیں چاہئے زوبی آپا۔ میں نے جو کہا تھا وہ کر دیکھایا۔ آپ ہی مجھے پہلے کلو کہتی تھیں۔ دیکھیں رنگت ضرور سانولی ہے لیکن دیکھیں نا ادھر میری طرف". نور نے دیوانہ وار ان کے شانوں سے پکڑا۔
"دیکھیں کیا کمی ہے میرے چہرے میں؟. میری رنگت میرے باپ پر گئ جسے میں نہیں جانتی نہ کبھی دیکھا۔ لیکن نین نقش۔۔۔۔ نین نقش تو میری ماں پر ہے نا۔۔۔ خوبصورت۔ انہی نیں نقش کے دیوانے ہیں یہ لوگ". نور نے ہنستے ہوئے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھے۔
"نور میری بچی کیا ہو گیا ہے تمہیں؟. تو ٹھیک تو ہے نا؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے".
"میری بچی!.۔۔۔ " نور اور زور سے ہنسنے لگی۔
"یہ پیسہ بھی کیا چیز ہے نا۔ پہلے آپ کو لگتا تھا آپا کہ میں کالا سایہ ہوں اس کوٹھے پر اور جب لوگ میرے رقص کے دیوانے ہونے لگے تو میں کالی کلوٹی جو تھی خوبصورت گڑیا بن گئ۔ میری ماں نے آپ کو مجھے رقاصہ بنانے سے روکا تھا تاکہ تاریخ دہرائی نہ جائے۔ لیکن آپ نے جیسے ہی دیکھا یہ تو سونے کی چڑیا ہے آپ نے میری ماں کی آخری خواہش کا بھی مان نہ رکھا۔ لیکن میری بیٹی کے ساتھ میں یہ سب نہیں ہونے دوں گی ".
"تو پاگل ہو گئ ہے نور جہاں یہ جو عیش و عشرت کی زندگی ہے نا یہ پیسے کے بغیر نہیں ملے گی تمہیں".
"پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا آپا".
"صیح کہا تو نے پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا لیکن سب میسر پیسے سے ہی ہوتا ہے۔ ہوش کے ناخن لے ادھر سے نکل کر جائے گی کہاں تو؟. تیری ماں بھی ادھر ہی واپس آئ تھی اور تو بھی در در کی ٹھوکریں کھائے ادھر ہی لوٹ کر آئے گی".
"کچھ بھی کر لوں گی آپا کہیں بھی چلی جاؤں گی لیکن ادھر اب مزید نہیں رہوں گی". یہ کہتے ہی نورِ جہاں نے جھولے سے اپنی بیٹی کو اٹھایا اور باہر کی طرف لپکی۔
"نورِ جہاں آپا رکو کدھر جا رہی ہیں".
"اے جانے دے اس کلموہی کو در در کی ٹھوکریں کھائے گی تو عقل ٹھکانے آجائے گی ۔ رقاصہ کو کون اپنے گھر میں پناہ دے گا". زوبی بی بی نے اس کو جاتے دیکھ حقارت سے تھوکا۔
وہاں سے نکلتے ہی وہ اپنی ماں کی قبر پر پہنچی۔ دعا کی۔
"ماں دیکھیں آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی وہی ہوا جو آپ کے ساتھ ہوا تھا۔ میں نے جو کرنا چاہا وہ کیا۔ لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ گناہ تو نہ آپ نے کیا تھا نہ ہی میں نے۔ پھر بھی ہمیں سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے ماں۔ لیکن ۔۔۔ لیکن میں اپنی بیٹی کو یہ سب ہرگز نہیں جھیلنے دوں گی۔ میں اسے بہتر زندگی دینے کی کوشش کروں گی۔ میں کچھ بھی کر لوں گی ۔ یہ۔۔ یہ۔۔ ہار بیچ دوں گی ۔ گھروں میں کام کر لوں گی لیکن اب واپس کوٹھے پر نہیں جاؤں گی". وہ چینخ چینخ کر رونے لگی کیونکہ یہ اسے آخری بار رونا تھا۔ ان آنسوؤں کے ساتھ ہی اس نے اپنی سیاہ بختی بھی بہا دی۔آنسو پونچھ کر اپنی بیٹی کو اٹھایا ، دل میں ایک کسک لیے نئے عزم کے ساتھ چل پڑی۔ ماضی بلا شبہ ایک بھیانک خواب کی مانند ہوتا ہے لیکن بعض اوقات یہ بھیانک خواب بھی ہمیں ایک نئ منزل کی طرف گامزن کرتے ہیں۔
از قلم: نخبٰی مریم