Afsana: Insan or ta...
 
Share:
Notifications
Clear all

Afsana: Insan or tabdili

1 Posts
1 Users
0 Reactions
43 Views
(@lubabaminahil)
Active Member Customer
Joined: 2 months ago
Posts: 2
Topic starter  
انسان اور تبدیلی
ازقلم لبابہ مناہل
ہواؤں کا زور تھا، ہوائیں اپنی راہ تلاش کر رہیں تھیں، یہ تلاش تھی قدیم دور میں قدم رکھنے کی، وہ تلاش جو روح و جسم کو منجمد کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اسی تلاش میں ہواؤں کو کھڑکی سے اندر داخلے کی اجازت ملی یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہی مقام تھا جس کی یہ ہوائیں مسافر تھیں ان ہواؤں کو گھر میسر ہوگیا تھا۔ کھڑکی کے ساتھ لگے میز پر پڑھی کتابیں کسی قردیم دور کی خوشبو بکھیرتی محسوس ہوتیں۔ اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور سوہا قدم بڑھا کر میز کے پاس رکھی کرسی تک آتی ہے کرسی کھینچ کر بیٹھتی ہے ۔ سامنے موجود کتابوں میں سب سے شاندار کتاب نکالتی ہے۔ سنہری جلد جس پر سنہری حروف سے تحریر شدہ تھا ۔
اکبر نامہ
سوہا کے تصورات سے اندازہ لگانا آسان تھا کہ اس کتاب کا تعلق قدیم دور سے ہے۔ کتاب کے سنہری ورق پلٹے جاتے ہیں اور پھر سوہا ایک ایسے دور میں قدم رکھتی ہے جہاں زندگیاں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ ایک ایسا دور جہاں زندگی کی بھاگ دوڑ مختلف ہے۔
سوہا خود کو ایک ایسے مقام پر پاتی ہے جہاں سکوت ہے اس خاموشی سے آزادی پانے کے لیے قدم بڑھائے جائیں تو معلوم ہوتا ہے یہ کسی شاہی محل کی راہداری ہے۔ خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت۔ ابھی وہ اپنے اردگرد ہونے والی چہل قدمی کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ دور سے صدا لگائی گئی ۔
بادشاہ اکبر کی جۓ
آواز کی سمت سوہا بڑھتی ہے ۔وہ ایک دربار تھا جس کے باہر دو سپاہی کھڑے تھے باہر لوگوں کا ہجوم تھا اور ہجوم میں ایک شخص کی سرگوشی سے سوہا کو معلوم ہوتا ہے یہ قطار بادشاہ اور عوام کو جوڑنے کے لیے لگائی گئی ہے۔ بادشاہ اور عوام کے تعلق کو زندہ رکھنے کے لیے۔
دربار کے اندر دیکھا جائے تو بادشاہ اپنے تحت پر براجمان تھا اور بادشاہ کے نو وزیرسامںے براجمان تھے ۔ لوگ اندر داخل ہوتے، بادشاہ کے سامنے مسئلہ پیش کیا جاتا بادشاہ اپنے وزیر سے مشورہ کرتے اور حل پیش کرتے اور اس حل کے لیے اقدامات بھی کر ڈالتے۔ لوگوں کے سوالات و مسائل ختم ہوئے تو بادشاہ دربار سے رخصت ہوگئے ۔ بادشاہ کو جاتا دیکھ سوہا نے خود کلامی کے عالم میں خود سے سوال کر ڈالا ,"کیا چیز ہے جس نے بادشاہ کو بندے کہ سامنے جھک کر اس کا مسئلہ حل کرنے تک پہنچا دیا ؟ کیا اتنے مال ومتاع کے بعد کسی چیز کی ضرورت تھی؟ ایک زمین کا حصہ آپ کے حکم پر چل رہا تھا کیا اس کے بعد کچھ مطلوب تھا؟"
یوں معلوم ہوتا کہ بادشاہ نے نہ سہی مگر بادشاہ کا وزیر بیربل سوہا کی خودکلامی سن چکا تھا اور اسی عالم میں آواز گونجتی ہے ۔
 " بادشاہ کی ذمہ داری ہے عوام کے مسائل حل کرنا۔ ترقی کے لیے اتحاد لازمی ہے ۔ رعایا کو خود سے جوڑ کر ، قدم بقدم چلانا ۔ بادشاہ ترقی کر جائے اور عوام پستی میں دھکیل دی جائے یہ "حقیقی ترقی '' کا نام نہ ہے ۔ ترقی و تبدیلی جڑے ہیں ۔''
خاموشی میں بیربل کی آواز آئینہ تھی حقیقت تھی آج کے زوال کی وجہ تھی ۔ سوہا کے لب اب کی بار سرگوشی کے انداز میں ہلے تھے ۔
 " کیا بادشاہ اور رعایا میں سے ایک ترقی اور ایک پستی میں دھکیل دیا جاتا ہے؟ یہ کس طرح کا تضاد ہے ؟ یہ کون سی تبدیلی ہے؟"
اب کی بار آواز بیربل کی نہیں بلکہ اس کے اندر کی تھی۔
 '' انسانی زندگیاں ہر دور میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ۔ مسلسل گردش کا شکار ۔ حکمران تحت پر بیٹھ کر نیچے نہیپں اوپر دیکھتا ہے جو اس کی سب سے بڑی غلطی ہے اس کو اوپر لے کر جانے والے اس کے نیچے بیٹھے ہیں جب تک وہ کھڑے نہ ہوں گے حکمران آسماں کو نہ چھو سکے گا اور۔۔۔۔"
سوہا کی آواز کا گلا گھونٹنے والا ایک اور وزیر تھا جس کا کہنا تھا کہ
 " زندگی تبدیلی کا نام ہے ۔ ہم لوگ یہاں پر وزیر فقط اس بناء پر ہیں کہ ہم ایک سوچ کے حامل ہیں جبکہ اس سے پہلے ہمارے کام مختلف تھے ۔ ہم نے ایک تبدیلی دیکھی اور اس تبدیلی نے ہمیں بادشاہ اکبر کے سامنے لا کھڑا کیا ۔ ہمیں ان کے علم و دانشمندی سے روشناس ہونے کا ایک ایسا موقع دیا جو ناقابل فراموش ہے ۔ تبدیلی ذہنی انتشار و سکون دونوں کا نام ہے۔"
اس کے جواب میں ایک اور آواز گونجی تھی
 " بیربل ، تم تبدیلی پر اپنا نقطہ نظر کیوں نہیں دیتے ۔ "
آٹھ وزیر اور نوئیں سوہا بیربل کے جواب کے منتظر تھے اور بیربل گھری سوچ کا مسافر تھا ۔ جب بولا تو یوں معلوم ہوتا کہ دربار میں موجود ہر چیز کان بن گئی ہے جو بیربل کو بہت دیہان سے سن رہیں۔
 ''انسان پیدائش سے بڑھاپے تک تبدیلی کا شکار رہتا ہے۔ ایک چھوٹے سے وجود سے ایک نوجوان لڑکے تک کی تبدیلی اور پھر نوجوان سے کمر کے جھک جانے تک کی تبدیلی ۔ یہ تبدیلی جسم کی تبدیلی ہے ۔ ایک تبدیلی ہوتی ہے سوچ کی تبدیلی اور یہ انسان کو حالات کی بناء پر ملتی ہے ۔ شدید صدمے سے نکل جانے پر نظریات کی تبدیلی ۔ خوشی میں ہر چیز کا پھول کی مانند کھل جانے کی تبدیلی۔ انسان وقتاً فوقتاً اس تبدیلی کو قبول کرتا رہتا اور جب وہ تبدیلیاں قبول نہیں کرتا تو بے موت خود کی سوچو سے مارا جاتا ہے"
بیربل تو خاموش ہوگیا تھا مگر سوہا کا ذہن کسی اور ہی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔ اب کی خود کلامی کچھ گڈمڈ اور الجھی الجھی تھی ۔جس دنیا میں اس نے قدم رکھا تھا وہ دنیا، اس کی دنیا تھی، موجودہ دنیا ۔
 " لوگ تبدلی کو نہیں قبول کرتے۔ قبولیت ترقی کی ضامن ہے ۔ لوگ قبول کرنے کے مراحل سے نہیں گزرتے اور پھر۔۔۔۔
پھر ذہنی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بدن کے بجائے ان کے ذہن بڑھاپے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ہاں ذہن اذیت کا شکار ہوتا ہے اور بدن سلامت "
سوہا ایک جملے کو بار بار دھرا رہی تھی ۔
 "ذہن اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں اور بدن سلامت۔۔۔۔۔۔۔ "
دربار میں وزیر کی آواز گونجتی ہے اور یہ گونج سوہا کو ذہنی انتشار سے نکالتی ہے ۔وہ آواز کی جانب متوجہ ہوچکی تھی ۔ ذہنی طوفاں تھم گیا تھا یہ ہے تبدیلی ۔
 "بیربل کہیں تم کسی بزرگ کی سنگت میں تو نہیں رہتے دربار میں آنے سے پہلے خوب علم میں اضافہ کرتے ہو۔"
دربار کا سنجیدہ ماحول یکلخت تبدیلی کا شکار ہوتا ہے اور قہقے گونج اٹھتے ہیں ۔ سوہا کے چہرے پر اب پریشانی کے بجائے مسکراہٹ کا بسیرا تھا ۔ ان قہقہوں کو کتاب بند کرتے ہی اس کے اندر ٹھہرا دیا گیا۔ وہ ہوا جو قدیم دور کی صدا لائی تھی اپنا رخ پھیر چکی ۔ سوہا کرسی سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے نئی سوچ کا شکار تھی۔ جو زندگیاں کتاب میں تھیں کتاب میں ٹھہر گئیں اور جو حقیقت تھیں وہ اپنی ہی سوچوں سے آزادی نہ حاصل کر پائیں ۔
ختم شد!
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?