Tu Hay Kahan By Mah...
 
Share:
Notifications
Clear all

Tu Hay Kahan By Mahi Episode 8

1 Posts
1 Users
0 Reactions
126 Views
(@mahammahmood76)
Eminent Member Customer
Joined: 1 year ago
Posts: 9
Topic starter  

"میں بتا رہی ہوں تمہیں صفا،تم ایسا ہرگز بھی نہیں کرو گی۔۔۔"اپنا فون کان سے لگائے وہ صفا سے کوئی بحث کرتے تیزی سے اپنی کلاس کی جانب بڑھ رہی تھی۔

   "میں ایسا کر رہی ہوں زری۔۔۔۔"وہ بھی اسی کے انداذ میں بولی تو اس نے غصے سے اپنے دانت پیسے۔اگر جو صفا اس وقت اس کے سامنے ہوتی تو وہ پکا اس کو ایک تھپڑ تو ضرور لگا چکی ہوتی۔

   "ٹھیک ہے۔۔۔کرنی تو تم نے اپنی ہی مرضی ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھتی ہو؟"انداذ ایسا ہی تھا کہ میری بلا سے بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔اسے آخر اتنی جلدی غصہ کیوں آجاتا تھا؟

   "زری یار بات کو سمجھنے کی کوشش تو کرو۔۔۔وہ میری سب سے اچھی دوست ہے۔۔یو نو ناں،اچھی والی۔۔۔تو اب میں اس کو انکار نہیں کر سکتی۔۔۔"اس نے یہ جملہ کہتے ہوئے خود کی ہنسی کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا جبکہ اس کی بات سن کر زرقہ نے اپنی آنکھیں گھومائیں۔

   "ہاں ہاں،تم پھر ایسا کیوں نہیں کرتی کہ اسی سے بات بھی کر لو۔ایسے ہی میرا دماغ کیوں خراب کر رہی ہو۔۔۔؟؟"اس نے غصے سے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تو دوسری جانب صفا نے آنکھیں میچے اپنے قہقے کو روکا۔وہ جان بوجھ کر اس کے صبر کا امتحان لے رہی تھی۔

   "اوکے،تو پھر میں ہاں سمجھوں تمہاری طرف سے؟"اسے تنگ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔

   "آپ پلیز میرا دماغ خراب مت کریں۔۔میری کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے اور میں فون بند کر رہی ہوں۔۔۔اور کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو میرے ساتھ جانے کی میں خود سب دیکھ لوں گی۔۔۔جاؤ اپنی اسی "اچھی والی" دوست کے گھر۔۔۔کرو اپنی پارٹی۔۔۔"اور بس یہ کہہ کر اس نے ٹھک سے فون بند کر دیا۔دوسری جانب صفا نے ہنستے ہوئے فون کی اسکرین کو دیکھا۔

   "اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔"پھر کچھ پل یونہی مسکراتے ہوئے اس نے فون کی اسکرین کو دیکھا پھر کسی اور نمبر پر کال کرنے لگی۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی اور تھوڑی ہی دیر بعد کال اٹھا لی گئی۔

 

وہ بھی اب اپنا فون بیگ میں ڈال رہی تھی اور چلتے چلتے اس کے قدم رکے کیوں کہ کوئی اسی کی جانب آرہا تھا اور عین اس کے سامنے آکر رک گیا۔اس کی پیشانی پر شکن پڑی۔نظریں اٹھائے سامنے دیکھا تو وہ اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ کھڑا تھا۔

   "آپ ٹھیک ہیں؟"شاید وہ اس کو فون پر کسی سے بحث کرتے دیکھ چکا تھا اور چونکہ دور تھا تو سمجھ نہیں پایا کہ بات ہو کیا رہی ہے،اسی لئے پوچھے بنا رہ نہیں پایا۔اب ایسا کیوں ہوا تھا،یہ تو وہ ہی بہتر جانتا تھا۔

   "جی۔۔۔"اس نے یک لفظی جواب دیا تو اس نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا لیکن پھر اچانک کچھ یاد آنے پر پوچھ بیٹھا۔

   "آپ کو وہ لڑکے تنگ تو نہیں کر رہے؟"اس کے سوال پر وہ چونکی۔اس دن کے بعد سے اس نے آج تک وہ لڑکے دوبارہ نہیں دیکھے تھے۔

   "نہیں۔۔۔"

   "چلیں یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔اگر دوبارہ کبھی آپ کو کوئی مسئلہ ہو تو یو کین ٹیل می۔۔۔۔آپ کی مدد کر کے اچھا لگے گا مجھے۔۔۔"اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے وہ بالکل دھیرے سے مسکرایا۔وہی ہمیشہ والی جان لیوا مسکراہٹ۔وہ کچھ پل اسے دیکھے گئی۔

   "آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں اپنی مدد خود نہیں کر سکتی؟"پھر کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ سوال کرنے لگی۔انداذ اس کا بالکل سادہ تھا۔

   "کر سکتی ہیں،بھلا کیوں نہیں کر سکتیں؟لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہیں زبان کی بات سمجھ نہیں آتی اور ایسے لوگوں پر ہاتھ اٹھانا لازم ہو جاتا ہے۔۔۔۔"وہ جب بھی بولتا تھا،اچھا بولتا تھا۔اس کی بھاری گمبھیر آواز اونچی ہرگز بھی نہیں ہوتی تھی۔کیا یہ شخص کبھی اونچی آواز میں بات کر سکتا تھا،اونہوں،بالکل نہیں!

اس کے جواب پر اس کی کھنک سی ہنسی ماحول میں گونجی اور گویا سب کچھ تھم سا گیا۔۔اس کی نظر بے ساختہ اس کی آنکھوں کی جانب اٹھی۔اف! ایک تو یہ بادامی رنگ آنکھیں اتنی خوبصورت کیوں تھیں؟ایک دنیا اس کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی دیوانی تھی اور ایک وہ تھا جسے سامنے کھڑی پیاری سی لڑکی کی مسکراہٹ اور آنکھیں ہمیشہ مبہوت کر دیا کرتی تھیں۔

اس نے فوراً سے نظروں کا زاویہ بدلا۔اگر وہ کچھ پل مزید ان آنکھوں میں دیکھتا تو پھر کسی چیز کے قابل نہ رہتا اور اسے یہ گوارہ نہیں تھا،ابھی تو ہرگز بھی نہیں۔

   "اور ایسے کون سے لوگ ہوتے ہیں جن کو ہاتھوں کی زبان سے سمجھانا چاہئے؟"اب وہ اپنی مسکراہٹ روکے اس سے سوال کرنے لگی۔اس کی آنکھوں میں انوکھی چمک تھی۔یا اللہ،یہ لڑکی کیوں اس کے صبر کا امتحان لینے پر تلی تھی۔

   "وہی لوگ جو بھول جاتے ہیں کہ اخلاق کا تقاضا کیا ہے۔۔۔۔اور ایسے لوگوں کو اتنا مارنا چاہئے کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی حرکت کرنے کے باری میں سوچیں بھی مت۔۔۔"اس نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا لیکن آنکھوں میں دیکھنے سے مکمل گریز کیا۔وہ ہنوز مسکرا رہی تھی۔

   "ایسی لاجک میں نے پہلی بار سنی ہے۔۔۔۔"اس نے تبصرہ دیا تو وہ سر جھکائے مسکرا دیا۔

   "اور آپ کو یقیناً یہ لاجک پسند بھی نہیں آئی ہو گی لیکن کیا ہے نہ کہ میرے زندگی گزارنے کے اپنے اصول ہیں۔۔۔جو جیسا ہے اس کے ساتھ ویسے چلنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے لیکن دوسرے کو خود کے بنائے گئے اصولوں کے مطابق ڈھالنا مجھے بہت اچھے سے آتا ہے۔۔۔"اس کی وضاحت پر وہ دل کھول کر مسکرائی اور دھیرے سے نفی میں ہلایا،یوں کہنا چاہا ہو کہ تم بھی عجیب تمہارے اصول بھی عجیب!

   "اب میں چلتی ہوں،میری کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔۔"اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور پھر اس سے کہا۔

   "شیور،خیال رکھئے گا۔۔۔۔"اس نے بھی کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں چلی گئی۔

اس کے اندر جاتے ہی اس کی مسکراہٹ تھمی،اور آنکھیں بے تاثر۔لب آپس میں اس قدر سختی سے پیوست تھے کہ گویا کبھی مسکرائے ہی نہ ہو۔

—••—

   "تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو؟"وہ جو سارہ کے ساتھ بیٹھی کسی بات پر مسکرا رہی تھی،اس کے جملے پر پیشانی پر شکن ڈالے اس کی جانب دیکھا۔

   "یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟"اس کے سوال کو نظرانداذ کئے اس کی بجائے زوبیہ بولی تو اس نے خونخوار نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

   "میں ابھی تم سے بات نہیں کر رہی اسی لئے تم خا موش ہی رہو۔۔۔"وہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی جبکہ اس کی بات پر زوبیہ نے آنکھیں گھومائیں۔

   "میری دوست سے اگر تم اس لہجے میں بات کرو گی تو میں برداشت نہیں کروں گی۔۔۔"اس کا لہجہ سنجیدہ تھا۔زرقہ کو اس کے اس انداذ پر بےساختہ ہی پیار آیا۔اس کے لئے لڑتی وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی۔

   "میں تمہیں وارن کر رہی ہوں کہ آئندہ تم مجھے سلطان کے آس پاس بھی نظر نہ آؤ۔۔۔اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر تم مجھے ابھی جانتی نہیں ہو۔۔۔"ایک ایک لفظ چبا کر بولتے وہ اسے وارن کر رہی تھی جبکہ اس کے جملے پر زوبیہ تو چونکی ہی لیکن ساتھ بیٹھی سارہ نے بھی حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔اب باقی کی کلاس بھی دلچسپی اور حیرت سے انہیں تک رہی تھی۔بات آخر کس جانب جا رہی تھی،انہیں سمجھ نہیں آئی،لیکن اتنا ان کو معلوم تھا کہ یقیناً اختتام دلچسپ ہونے والا تھا۔

اس کی بات پر اس نے سکون  سے اس کی جانب دیکھا۔

   "میں کس سے ملوں گی،کس سے بات کروں گی یہ میری چوائس سے مس شاہین،اور میں نے آپ سے اس متعلق کوئی رائے نہیں مانگی۔"اس کا انداز سپاٹ تھا جبکہ اس کے اس طرح کہنے پر کلاس میں دبی دبی ہنسی گونجی۔ایمل نے ایک قہر برساتی نگاہ ان سب پر ڈالی اور پھر دانت پیستے اس کی جانب دیکھا۔

   "تم آخر خود کو سمجھتی کیا ہو؟اتنی اکڑ کس بات کی ہے تمہارے اندر؟ایک سلطان نے تم سے ہنس کر بات کیا کر لی تم تو اپنے آپ کو کوئی توپ چیز ہی سمجھنے لگ گئی ہو۔۔۔"اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے بیٹھی لڑکی کا منہ ہی نوچ ڈالے۔اس کے جملے پر زرقہ نے اپنے دانت پیسے گہرہ سانس بھرا،گویا خود کو پرسکون کرنا چاہا ہو۔

   "ایمل شاہین،تم اپنی حد پار کر رہی ہو۔۔۔"ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔

   "اچھا میں اپنی حد پار کر رہی ہوں اور جو تم کر ہی ہو اس کا کیا؟"

   "جسٹ شٹ اپ۔۔۔!!!"اس کی بات پر وہ غصے سے دھاڑی تو مانو پوری کلاس کو ہی سانپ سونگھ گیا۔آج تک ان نے زرقہ کو اس طرح غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ایک پل کو تو ایمل بھی گڑبڑائی جبکہ زوبیہ نے فخر سے اس کی جانب دیکھا،چلو کچھ تو سنگت کا اثر ہوا۔

   "ہر کوئی تمہاری طرح نہیں ہوتا سمجھی تم۔۔اور۔۔۔اگر میں خاموش ہوں تو بہتر ہے تمہارے لئے کہ مجھے خاموش ہی رہنے دو ورنہ تم کیا کیا کرتی پھرتی ہو،مجھے شاید تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔"ایک ایک لفظ چبا کر کہتے وہ اسے وارن کر رہی تھی،جی ہاں،اور وہ کامیاب بھی ہوئی۔وار یقیناً سہی جگہ لگا تھا کیوں کہ ایمل کے چہرے پر اچانک سایہ سا لہرایا۔

وہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھی،بیگ کندھے پر ڈالا اور اس کی سائڈ سے ہوتی باہر نکلنے لگی لیکن پھر ٹہری،اس کے روبرو آئی،سینے پر ہاتھ باندھے اور اپنی بادامی رنگ آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑھیں۔فرینچ بڑیڈ میں بندھے ریشمی بالوں کی لٹیں اس کے خوبصورت شفاف چہرے پر رقص کر رہی تھیں اور وہ ان سے بے نیاز کھڑی کسی کو بھی اپنا اسیر کرنے کی طاقت رکھتی تھی۔

   "اب میری بات "تم" غور سے سنو۔۔۔آئندہ میں تمہیں اپنے معاملات میں بولتا ہوا نہ دیکھوں۔۔اور۔۔اگر ایسا ہوا تو پھر تم جانتی نہیں کہ زرقہ سفیان ہے کون۔۔۔۔" وہ اس بگڑی امیر زادی کو وارن کرتی کلاس سے باہر نکل گئی اور ساری کلاس نے رشک سے اس کو جاتے دیکھا،بس تالیاں بجانے کی قصر باقی رہ گئی تھی ورنہ انداذ ویسا ہی تھا۔آہ،کتنی حسرت تھی ان کی کہ کوئی ہو جو اس بگڑی امیرزادی کو اس کی اوقات پر رکھے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کوئی اور "زرقہ" ہو سکتی ہے۔

ایمل نے ضبط سے اپنے جبڑے بھینچے۔وہ جو سمجھ رہی تھی کہ باقی لڑکیوں کی طرح زرقہ بھی دب جائے گی تو وہ بالکل غلط تھی کیوں کہ "زرقہ" باقی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔وہ ان جیسی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

سارہ بھی فوراً سے اپنا سامان سمیٹے اس کے پیچھے بھاگی جبکہ زوبیہ نے ایک مسکراتی نظر اس پر ڈالی اور اس کے کندھے پر کندھا مارتے کلاس سے باہر نکل گئی۔اس کی اس حرکت پر کلاس میں ایک بار پھر سے دبی دبی ہنسی گونجی۔اس نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچیں اور پھر ایک پل بھی ضائع کئے بغیر وہ دھپ دھپ کرتے باہر نکلی لیکن اسے اپنے پیچھے کلاس میں اٹھنے والا قہقہ دور تک سنائی دیا تھا۔

—••—

اور پھر یہ خبر آگ کی طرح ساری یونی میں پھیل گئی۔اور بھلا پھیلتی بھی کیوں نہ؟ایمل شاہین،جو کہ پوری یونیورسٹی میں بگڑی رئیس زادی کے نام سے مشہور تھی،آج تک اس سے کسی نے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی اور کجا کہ وارننگ دینا!

وہ فٹبال رینک میں کھڑا پریکٹس کر رہا تھا جب زیب تقریباً بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا۔اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔یقیناً وہ بھی خبر سن کر ہی آیا تھا۔اسے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے جھکا کھڑا دیکھ کر وہ دوبارہ سے بال کو اپنی ٹانگوں کے بیچ سے گزارتا زمین پر گرنے سے روک رہا تھا۔یقیناً یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن وہ ایسے کر رہا تھا جیسے یہ اس کے لئے بڑی بات نہ ہو۔

   "تمہیں پتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے یونیورسٹی میں؟"جب اس کی پھولی سانس بہتر ہوئی تو اس نے اس کی جانب دیکھتے سوال کیا جو اب بھی فٹبال کے ساتھ ہی مصرف تھا۔

   "تمہیں لگتا ہے کہ مجھے جاننے میں کوئی دلچسپی ہوگی؟"فوراً سے اس کی جانب سے سوال کیا گیا تو کچھ پل وہ خاموش رہا لیکن پھر کہنے لگا۔

   "ایمل شاہین کی اچھی خاصی درگت بنی ہے آج۔۔۔"اس کا انداذ مسکراتا ہوا تھا جبکہ اس کی بات پر اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور بال کو ہوا میں اچھالے کیچ کرتا وہ رکا۔

   "اب تم پوچھو گے کہ ایمل شاہین کون تو مسٹر ضیغم سلطان،وہی جو اس دن تم سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی تھی۔قسم سے دل کو ٹھنڈک ملی ہے اس بگڑی رئیس زادی کی عزت افزائی کا سن کر۔۔میرے ساتھ جو اس نے کیا تھا میں وہ آج تک نہیں بھولا۔۔۔"وہ جانتا تھا کہ وہ کیا سوال کرنے لگا ہے اسی لئے جواب بھی فوراً دے دیا اور آخر میں اس واقعے کو یاد کر کر سر بھی جھٹکا لیکن اسے جیسے اس سارے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تو اسی لئے وہ چلتا آیا،فٹبال کو بینچ کے ساتھ پڑی باسکٹ میں ڈالا اور بینچ پر سے تولیہ اٹھائے اپنا پسینہ صاف کرنے لگا۔موسم گرم تو بالکل بھی نہیں تھا لیکن شاید وہ کافی دیر سے کھیل رہا تھا اسی لئے اسے کافی پسینہ آچکا تھا۔

   "قسم سے بڑے ہی کوئی ٹھنڈے مزاج کے انسان ہو تم،وہاں ساری یونی میں دھوم مچی ہوئی ہے اور ایک تم ہو کہ جسے کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا۔۔۔"وہ چڑ کر بولا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہی ازلی بے نیاز سی عادت!

اب وہ بینچ پر بیٹھا پانی کی بوتل منہ سے لگائے پانی پی رہا تھا۔وہ بھی آیا اور اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔

   "اب میں تمہیں ایسی بات بتاؤں گا کہ تم حیران رہ جاؤ گے۔۔۔۔"وہ پھر سے بولا اور اب کی بار اس نے بے تاثر نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

   "تم چپ نہیں رہ سکتے کیا؟"بوتل کو ہاتھ میں پکڑے اس نے اپنی شہد رنگ آنکھوں سے اسے دیکھتے گھرکا تو وہ بےشرموں کی طرح دانت نکال کر ہنس دیا جس کا مطلب واضع تھا،کہ نہیں!

   "تمہیں پتا ہے کہ اس لڑائی کی وجہ کون ہے؟"اب وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کو تک رہا تھا۔اس نے کوفت سے گہرا سانس بھرا۔مجال تھی کہ یہ لڑکا خاموش ہو جاتا۔

   "میں جیسے نہیں پوچھوں گا اور تم بتاؤ گے بھی نہیں۔۔۔"اس نے کہتے اپنا سر جھٹکا۔واحد زیب ہی تھا جو اس کے غصے کی پرواہ کئے بغیر اپنی سنائی جاتا تھا۔

   "جب پتا ہے تمہیں کہ میں نے بتانا ہی ہے تو پھر اتنے ٹھنڈے تاثر کیوں دیتے ہو؟"اب کی بار وہ خفا ہوا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی؟
   "کتنے بدتمیز ہو نہ تم۔۔۔دوسروں کو لڑوا کر سکون سے بیٹھے ہوئے ہو۔۔۔"اس کی اس بات پر اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

   "تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟کیا بکواس کر رہے ہو؟"

   "بکواس نہیں کر رہا،سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔سننے میں آیا ہے کہ ایمل نے کسی "لڑکی" کو تم سے بات کرتے دیکھ لیا اور بس پھر ہو گیا شروع ڈرامہ۔۔۔"اس کی وضاحت پر اس کے ذہن میں اچانک اس "لڑکی" کا سراپا گھوما۔

   "ویسے میں حیران ہوں۔۔۔تم نے اس لڑکی کو خود سے بات کیوں کرنے دی اور وہ لڑکی تھی کون؟آئی مین،تم چاہتے ہو گے کہ وہ تم سے بات کرے تبھی اس نے کی ورنہ کسی کی مجال کہ تمہاری مرضی کے بغیر تم سے بات کرلے"وہ گہری سوچ میں گھرا کہہ رہا تھا لیکن اچانک چونکا اور اس کی جانب بے یقینی سے دیکھا۔

   "ایک منٹ ایک منٹ سلطان۔۔۔۔کیا میں جو سوچ اور سمجھ رہا ہوں وہ سچ ہے؟"اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔"کہیں تم اس لڑکی کو پسند تو نہیں کرتے؟"اور اس کی اس بات پر اس کا دل کیا کہ اس کے سر پر بھاری بال دے مارے۔

   "کیا بکواس ہے زیب۔۔۔مطلب کچھ بھی! اب یہ پسند بیچ میں کہاں سے آگئی؟"وہ واقعی جھنجھلایا ہوا لگ رہا تھا۔

   "پسند اور محبت ہی تو بیچ میں آتی ہے میری جان۔۔۔۔"اس کا لہجہ چھیڑتا ہوا تھا جبکہ وہ اپنا سر جھٹکا دوسری جانب دیکھنے لگا۔

   "تمہیں لگتا ہے کہ میں اتنا فارغ ہوں کہ ان خرافات میں پڑجاؤں گا؟مطلب سیریئسلی!؟"اسے اس کی سوچ پر افسوس ہوا لیکن وہ جانچتی نظروں سے اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔

   "کیا ہے اب ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟"اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے اس نے اس کی جانب دیکھا تو انداذ خفا سا تھا۔

   "میں دیکھ رہا ہوں کہ محبت میں انسان کیسا دکھتا ہے۔۔۔"اور اب یہ اس کے ضبط کی انتہا تھی۔اس نے غصے سےاپنے جبڑے بھینچے۔

   "دفعہ ہو جاؤ یہاں سے زیب ورنہ میرا ہاتھ اٹھ جائے گا۔۔۔"اس کے لب و لہجے میں واضع وارننگ تھی جبکہ زیب ہنس دیا۔یا اللہ،یہ اتنا ڈھیٹ کیوں تھا؟

   "بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔"وہ غصے سے کہتا اٹھا اور جانے لگا لیکن زیب کی سنجیدہ آواز پر اس کے قدم رکے۔

   "ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا میرے دوست،محبت کبھی بھی اجازت کی طلب گار نہیں ہوتی۔اسے جب ہونا ہوتا ہے،ہو جاتی ہے،ان وانٹنگلی،ان انٹینشنلی۔اور اب اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محبت بھی تم اپنی مرضی سے کرو گے تو تم دھوکے میں ہو اور جو کہتا ہے کہ محبت اس کے اپنے اختیار میں ہے تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔محبت کبھی بھی کسی کے بھی اختیار میں نہیں ہوتی۔یہ بس ہو جاتی ہے اور یقین جانو جب یہ ہوتی ہے نا تو کہیں کا بھی نہیں چھوڑتی۔۔۔"اس نے چہرہ موڑے اس کی جانب دیکھا جو بینچ پر بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے کی جانب متوجہ تھا۔ہمیشہ سے مسکراتا ہوا زیب لمحے میں ہی کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح لگ رہا تھا۔اسے لگا کہ شاید،شاید اس کی آنکھوں میں نمی ہے لیکن وہ فوراً سے اٹھا اور رینک سے باہر نکل گیا۔یہ اس کا کیسا روپ تھا جو آج اس پر آشکار ہوا تھا؟

 

   "یہ ایمل کس بارے میں بات کر رہی تھی؟کیا مسٹر چارمنگ سے تمہاری پھر سے ملاقات ہوئی ہے؟"وہ تینوں اب کیفے میں بیٹھی تھیں۔سارہ جو کب سے سوچ رہی تھی سوال کئے بنا نہیں رہ پائی۔

   "زری کہیں وہ تمہیں ہیرس تو نہیں کر رہا؟"یہ سوال زوبیہ کی جانب سے کیا گیا جبکہ ان کی پریشانی اور فکر دیکھ کر وہ ہنس دی۔

   "نہیں یار،ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ بس مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کہیں مجھے وہ لڑکے دوبارہ پریشان تو نہیں کر رہے۔۔۔"وہ بولی تو اس کی بات پر ان دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔

   "کون سے لڑکے؟کون تنگ کر رہا ہے تمہیں اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہم سے باتیں چھپانے کی؟"

اس نے بے ساختہ اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا پھر اس دن والا واقعہ انہیں بتایا جب ڈٰین کو بتانے پر تین لڑکے اس کے پاس آئے تھے۔وہ دونوں کچھ پل تو خاموش رہیں پھر سارہ بولی۔

   "واہ،مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مسٹر اسٹون ہارٹ کے پاس واقعی ہارٹ بھی ہے۔۔۔"وہ اس انداذ میں بولی کہ وہ دونوں ہنس دیں۔

   "بات تو واقعی پریشانی کی ہی تھی۔لیکن خیر جو ہوگیا اسے بھول جاؤ اور آگے واقعی زری تم خیال رکھنا۔۔جانتی تو ہو ویسے بھی آج کل کے لڑکوں کو اللہ جانے کیا ہو گیا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی ایگو کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔۔۔۔"وہ مزید بھی اسے سمجھا رہی تھی اور وہ بس خاموشی سے مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی۔

—••—

وہ آج بھی حسبِ معمول لیٹ گھر آیا تھا۔سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔وہ اتنا بزی تھا کہ کھانے کا ٹائم ہی نہیں مل سکا اسی لئے فریش ہوتے ساتھ ہی وہ سیدھا کچن کی جانب بڑھ گیا۔

اس نے فریج کھولی اور پلاسٹک بیگ سے بیگلز،جیم اور مکھن نکالے فریج بند کردی۔

اب وہ الماری سے کافی نکال رہا تھا۔

کچھ ہی دیر بعد وہ کافی اور بیگلز لئے لاؤنج میں پڑے صوفوں میں سے ایک پر ٹک گیا۔

ابھی اسے بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب زمام تھکا ہارا سا گھر میں داخل ہوا۔دو دن سے وہ بزنس کے سلسلے میں دوسرے شہر تھا اور اب واپس آیا تھا۔اسے لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر اس کو خوشکوار حیرت ہوئی اور وہ اسی جانب آگیا۔

   "ابھی گھر آئے ہو کیا؟"صوفے پر بیٹھتے وہ اس سے استفسار کرنے لگا۔اس نے بے تاثر نظروں سے اس کی جانب دیکھا پھر محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

   "کام کیسا چل رہا ہے تمہارا؟"اس نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔اسے سامنے بیٹھا اپنا بھائی بہت عزیز تھا۔

   "ٹھیک"یک لفظی جواب آیا۔

   "اچھی بات ہے"اس نے کہا تو کچھ پل خاموشی چھائی رہی۔اس نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا جو اپنی انگلی سے اپنی کنپٹی مسل رہا تھا۔وہ ایسا تب کرتا تھا جب اس کے سر میں ٹیسیں اٹھ رہی ہوتی تھیں اور پھر دوسری نظر اپنے کافی کے کپ پر ڈالی۔چند لمحے لگے تھے اسے سوچنے میں اور اب وہ اپنا کافی کا کپ اسے تھما رہا تھا۔اس کی اس حرکت پر زمام نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے شکریہ کہتے کپ پکڑ لیا۔جواب میں وہ یونہی بیٹھا رہا_سپاٹ اور بے تاثر۔

   "شیخ حمدان تمہارے ساتھ پاٹنرشپ کرنا چاہتا ہے۔۔"کچھ پل مزید سرکے جب اس نے ایک بار پھر سے خاموشی کو توڑا۔اس کی بات پر اس کی پیشانی پر شکن پڑی۔

   "کون شیخ حمدان؟"اور اس نے سوال کیا تو وہ سیدھا ہوا،دونوں ہاتھ باہم پھنسائے اور اس کی جانب دیکھا۔

    "شیخ حمدان،حمدان رئیل اسٹیٹ اینڈ پراپرٹی ایڈوائزرز کا سی ای او،وہ چاہتا ہے کہ تم اس کے پاٹنر بن جاؤ۔۔۔"

   "اور اسے اچانک کیسے خیال آگیا میرے ساتھ پاٹنر شپ کرنے کا؟میں نے تو کسی سے نہیں کہا کہ میرے ساتھ پاٹنر شپ کرے۔۔۔"اسے اس کی بات کچھ خاص سمجھ نہیں آئی تھی۔

   "تم جانتے ہی ہو بزنس ایشٹیبلش کرنا بہت محنت طلب اور مشکل مرحلہ ہے اور اگر سٹارٹنگ میں ہی ایک نامور ایجنسی آپ کے ساتھ پاٹنر شپ کرنے میں انٹرسٹ لے رہی ہے تو مطلب وہ جانتی ہے کہ آپ میں اتنی کیپبیلیٹی ہے کہ آپ کامیاب ہو سکو اور خود کے ساتھ ساتھ اسے بھی فائدہ پہنچاؤ۔وہ اپنا فائدہ بھی دیکھتی ہے اور دوسرے کی بھی مشکل میں اس کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔یو نو، ڈبل گیم۔۔۔"آخر میں کہتے اس نے کافی کا ایک اور گھونٹ بھرا۔کافی بہت اچھی تھی اور اچھی ہوتی بھی کیوں نہ؟

   "لیکن وہ میرے ساتھ پاٹنر شپ "کیوں" کرنا چاہتا ہے؟"اس نے اپنا سوال پھر سے دہرایا تو وہ خاموش رہا یوں جیسے کوئی الفاظ ڈھونڈھ رہا ہو۔

   "تم۔۔۔تم میرے بھائی ہو اور میں تمہیں ہمیشہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ تمہاری کمپنی کرائسس سے گزر رہی ہے اور فنڈز کے لئے تم ڈیڈ یا مجھ سے تو بالکل بھی مدد نہیں لو گے۔اس سب میں بہتر یہی ہے کہ پاٹنرشپ کر کے تم اپنی کمپنی کو کرائسس سے بچا لو۔۔۔"

   "تو تم اس سلسلے میں دوسرے شہر گئے تھے؟"اور پھر جب وہ بولا تو اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔وہ بچہ نہیں تھا کہ یوں اچانک سے آنے والے پارٹنرشپ کی پیش کش کو سمجھ نہ پاتا۔ذہین تو وہ تھا ہی،لیکن اتنی جلدی سمجھ جائے گا،زمام کو انداذہ نہیں تھا۔

   "دیکھو۔۔۔"اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ درشتگی سے اس کی بات کاٹ گیا۔

   "اپنے شیخ حمدان کو انکار کر دو۔مجھے اس پاٹنر شپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے"

   "برہان بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔یہ ایک بہت اچھا موقع ہے اور تم جلد بازی کر کے غلط فیصلہ۔۔۔"

   "میں نے کہہ دیا نہیں تو مطلب نہیں۔۔مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے تمہاری ہمدردی کی۔اپنی ایجنسی کو کرائسس سے کیسے نکالنا ہے،مجھے پتا ہے اور تمہاری یا تمہارے کسی بھی سو کالڈ ریلیٹڈ کی مدد لینے سے بہتر ہے کہ میں اپنی کمپی کو ڈوبنے ہی دوں۔۔۔"اتنی سختی تھی اس کے لہجے میں کہ وہ دنگ رہ گیا۔وہ کہتے ساتھ ہی اپنی جگہ سے اٹھا۔

   "اتنی نفرت کرتے ہو تم مجھ سے کہ پھر سے اپنا ہی نقصان کرنے کا سوچ رہے ہو؟"اب جب وہ بولا تو اس کا لہجہ بے بس تھا۔برہان نے ضبط سے اپنے جبڑے بھینچے۔وہ ایسا ہی تھا،غصے میں ہمیشہ اپنا ہی نقصان کیا کرتا تھا۔کبھی کبھار غصے میں بہت کچھ کہہ دیتا تھا لیکن کبھی ان کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچتا تھا۔

   "تم کیوں ہمیشہ ایسا کرتے ہو؟مجھ سے نفرت ہے تو مجھے نقصان پہنچاؤ،میں نہیں پسند تو مجھے کوسو لیکن یار خود کو تو نقصان نہ پہنچایا کرو۔۔۔"وہ بے بسی کی انتہا پر کھڑا کہہ رہا تھا۔جسمانی اور ذہنی تھکن کے باعث آنکھوں میں لال ڈوریں مزید واضع ہونے لگی تھیں۔

   "تم ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہو برہان! کسی سے اتنی خاموش نفرت بھی نہیں کرتے۔۔۔ایسی نفرت کہ جس میں نقصان اور گھاٹا بھی آپ کے ہی مقدر میں آئے،ایسی نفرت کہ جس میں جھلس کر خود کو ہی راکھ کر دیا جائے۔لوگ سمجھتے ہیں کہ نفرت کا اظہار زیادہ خطرناک ہے لیکن اگر مجھ سے پوچھیں تو میں انہیں بتاؤں کہ خاموش نفرت زیادہ جان لیوا ہے۔ایسی نفرت جو بن دیکھے راکھ کئے جا رہی ہو،ایسی نفرت جو بن دیکھے ختم کئے جا رہی ہو۔۔۔۔"اس کا لہجہ ٹوٹا بکھرا پڑا تھا۔زمانے کی تھکن اور بے بسی اس میں آ سمائی تھی۔

   "مجھ سے اگر نفرت کرتے ہو تو اس کا خمیازہ پھر تم کیوں بھگتو؟یہ نا انصافی ہے برہان،سراسر نا انصافی۔ایسی بھی کیا غلطی مجھ سے سرزنش ہو گئی کہ تم اپنی نفرت سے بھی مجھے محروم رکھ رہے ہو؟"اب بس،وہ مزید ایک پل بھی یہاں نہیں کھڑا رہ سکتا تھا۔اسے اچانک گھٹن کا احساس ہونے لگا۔اور پھر وہ اسے وہیں چھوڑے تیزی سے لاؤنج سے باہر نکلتا چلا گیا اور وہ پیچھے تھکا ہارا صوفے پر گر سا گیا۔گاڑی سٹارٹ ہونے اور پھر ٹائر چڑچڑانے کی آواز آئی۔وہ جا چکا تھا۔وہ ہمیشہ ایسے ہی تو کرتا تھا۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔

وہ ان کو خاموش نفرت سے مار رہا تھا،ہاں وہ یہی تو کر رہا تھا!

—••—

This topic was modified 8 months ago by Maham Mahmood Paracha

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?