رات کے گہرے سائے ہر سو چھائے ہوئے تھے۔شام سے ہوتی تیز بارش میں کافی حد تک کمی ضرور آئی تھی لیکن بارش اب تک تھمی نہیں تھی۔اس سب میں اگر ایک بلڈنگ پر نظر ڈالی جائے تو کہیں کہیں اپارٹمنٹس کی بتیاں جلتی ہوئی نظر آرہی تھیں اور ان میں سے ایک اپارٹمنٹ اس کا بھی تھا۔
اگر اپارٹمنٹ کے اندر نگاہ دوڑائی جائے تو اس وقت پیلی بتی نے سارے میں روشنی پھیلائی ہوئی تھی اور یہ روشنی اتنی کم نہیں تھی کہ کچھ دکھائی نہ دے سکے۔
یہ ایک چھوٹا مگر بہت خوبصورت اپارٹمنٹ تھا جو کہ ایک کمرے،اوپن کچن اور لاؤنج پر مشتمل تھا۔ہر چیز سلیقے سے اس کی جگہ پر پڑی تھی۔۔دیواروں پر جگہ جگہ لگی خوبصورت پینٹنگز اور ہاتھ سے بنائے گئے خوبصورت اسکیچز مالک کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھے۔
لاؤنج کے ایک طرف بڑا سا بک ریک رکھا گیا تھا جس میں کرائم بکس بھری پڑی تھیں۔اس کے ساتھ ہی ایک اسٹڈی ٹیبل اور چئیر تھی جس پر ایک لیپ ٹاپ کھلا ہوا پڑا تھا جسے یقینا" اس کے مالک نے ہی کھول کر رکھا تھا۔
اور پھر کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ کمرے سے باہر نکلا۔سادہ سے ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس وہ ابھی شاور لے کر نکلا تھا۔
وہ سیدھا چلتا کچن میں آیا اور کیبنٹ میں سے کافی میکر اور کافی نکال کر شیلف پر رکھے اس نے دوسری کیبنٹ سے ساس پین نکال کر اس میں کافی کے حساب سے پانی نکالے شٹوو پر رکھ دیا۔تھوڑی ہی دیر میں پانی جب ابل گیا تو اسے کافی میکر میں ڈالے بند کر دیا اور اسے وہیں شیلف پر رکھے وہ اسٹڈی ٹیبل تک آیا۔لیپ ٹاپ کی اسکرین اب بند ہو چکی تھی۔اس نے ٹچ پیڈ پر اپنی انگلی پھیری تو اسکرین روشن ہو گئی اور اب پاسورڈ طلب کر رہی تھی۔اس نے پاسورڈ ڈالا تو ایک فائل کھل گئی۔قدرے جھک کر اس نے اپنی آنکھیں چھوٹی کئے فائل کو دیکھا۔
یہ کوئی ڈیٹا تھا جسے وہ چیک کر رہا تھا۔پانچ منٹ گزرے تو کافی بھی تیار ہو چکی تھی۔لیپ ٹاپ کو وہیں چھوڑے وہ واپس کچن میں آیا اور فریچ پریس کو دبایا تو کافی بینز نیچے چلے گئے جبکہ کافی تیار تھی۔اس نے کافی کو مگ میں نکالا اور تھوڑا سا دودھ ڈال کر کافی تیار کئے مگ سائڈ پر رکھا اور کافی میکر کو خالی کئے اسے دھو کر واپس اسٹینڈ پر رکھے مگ اٹھائے باہر آیا اور لاؤنج میں پڑے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا اور کافی کے گھونٹ بھرنے لگا۔
ابھی اسے بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔آواز کمرے سے آرہی تھی۔مگ کو سائڈ پر رکھے وہ کھڑا ہوا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
کمرے میں اگر نگاہ دوڑائی جائے تو کمرہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔وہ اندر آیا اور ٹیبل سے فون اٹھایا اور کان سے لگایا۔
دوسری جانب سے کچھ کہا گیا تو وہ بولا۔
"ٹھیک ہے،گڈ جاب۔۔۔۔خیال رکھنا کسی کو اس بارے میں علم نہ ہو۔۔۔۔"اس نے مزید ہدایات دے کر فون بند کر دیا اور پھر دھیرے سے مسکرایا لیکن یہ مسکراہٹ عام مسکراہٹ جیسی نہیں تھی۔پھر سیٹی پر کوئی دھن بجاتا وہ واپس لاؤنج کی جانب بڑھ گیا۔
رات قطرہ قطرہ پگھلتی جا رہی تھی۔
—••—
وہ اس وقت گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور اس کا انداز بتارہا تھا کہ وہ کافی عجلت میں ہے اور وہ یقینا" جلدی میں ہی تھا۔
گاڑی ایک مینشن کے آگے رکی تھی۔وہ گاڑی پارک کئے اس میں سے اترا اور باہر نکل کر دروازے تک آیا۔اسے دیکھ کر دروازے پر کھڑے پہرے دار نے دروازہ کھول دیا تو وہ اسے سلام کئے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"اسلام علیکم بھابی۔۔۔"سامنے ہی زارا کو کھڑا دیکھ کر وہ خوشدلی سے بولا تو وہ مسکرا دی۔
"برہان اپنے کمرے میں ہے کیا؟"اس نے مزید سوال کیا۔
"ہاں وہ اپنے کمرے میں ہے۔۔۔تم جاؤ میں کھانے کو کچھ بھجواتی ہوں۔۔۔"اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی اثبات میں سر ہلاتا اس کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
وہ جب کمرے میں داخل ہوا تو وہ تیار سا کھڑا تھا۔اسے آتے دیکھ کر وہ چونکا اور پھر گھڑی پر وقت دیکھا تو صبح نو بجنے والے تھے۔
"خیریت؟اتنی صبح صبح۔۔۔؟"وہ واقعی حیران ہوا تھا۔اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور جہ پہلے ثہرے پر مسکراہٹ تھی وہ کہیں غائب ہو چکی تھی۔
"یار ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔۔۔"وہ بیڈ پر بیٹھتا پریشانی سے بولا۔
"کیا ہوا ہے؟"
"بابا میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔"
"ہاں تو؟نہیں کرنی تو منع کر دو۔۔۔"اس نے اپنے کندھے جھٹکے سکون سے مشورہ دیا۔
"یہ بات بھی نہیں ہے۔۔۔"
"تو پھر کیا مسئلہ ہے؟"
"مجھے شادی کرنی ہے۔۔۔"
"تو اگر شادی کرنی ہے تو کر لے۔۔۔۔کیوں فس کریئٹ کر رہا ہے؟"
"اہوووو۔۔۔۔۔مسئلہ یہ ہے کہ بابا مجھ سے میری پسند پوچھ رہے ہیں اور میں انہیں اپنی پسند کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔۔۔"اب کی بار اس نے جھنجھلا کر کہا جبکہ اس کی پیشانی پر شکن پڑی۔
"اور وہ کیوں؟"
"اب میں بابا کو یہ بتاتا اچھا لگوں گا کہ مجھے ان کی بھتیجی پسند ہے۔۔۔۔"اس نے مسکین سی شکل بناتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا تو کچھ پل وہ اسے تکے گیا لیکن پھر قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"یہ تو بیٹا تجھے عشق معشوقی کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔۔۔"وہ ہنسی کے دوران بولا جبکہ اس نے تکیہ اٹھا کر اس کو مارا لیکن اس نے بروقت کیچ کر لیا۔
"میں یہاں اپنا مسئلہ لے کر آیا ہوں اور ایک تم ہو کہ میرا مذاق اڑا رہے ہو۔۔۔"
"مذاق نہیں اڑا رہا بس یونہی ہنسی آرہی ہے۔۔۔۔"وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولا جس پر اس نے اسے گھورا۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی اور ملازمہ ہاتھ میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی تو دونوں خاموش ہو گئے لیکن برہان ابھی بھی معنی خیز نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
ملازمہ نے بیڈ پر ٹرے رکھی اور پھر جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے باہر نکل گئی۔
"ایک نمبر کا بے غیرت انسان ہے تو۔۔۔۔"وہ دل جلا دینے والے انداذ میں بولا لیکن جواب میں وہ اسی ڈھٹائی سے کہنے لگا۔
"الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! بندہ پوچھے میں یہاں تھوڑی نہ اپنے عشق کی داستانیں سنانے بیٹھا ہوں۔۔۔بھئی عجیب دنیا ہے۔۔۔۔"
"بجائے اس کے کہ تو میرا مسئلہ حل کرے تو میرا مزاق اڑا رہا ہے۔۔۔؟؟؟"
"ہاں تو اور تو مجھ سے کیا ایکسپیکٹ کر رہا ہے کہ میں تجھے کہوں گا کہ میرے یار پریشان نہ ہو،میں انکل سے بات کرتا ہوں؟"اس کے جملے پر وہ کچھ پل اسے گھورے گیا۔
"تو فرصت کے ساتھ بھاڑ میں کیوں نہیں چلا جاتا۔۔۔؟؟"پھر ایک ایک لفظ چبا کر بولا۔
"اب اتنی بھی فرصت نہیں ہے میرے پاس سمجھے تم۔۔۔۔یہ تو تم خوش قسمت ہو کہ میں تمہیں ٹائم دے دیتا ہوں ورنہ میں بہت مصروف انسان ہوں۔۔۔"
"ہنہہ،آیا بڑا مصروف انسان!!!"اپنا سر جھٹکتے اس نے طنز کیا جس پر وہ ایک بار پھر سے ہنس دیا۔
اس کی باتوں کا وہ برا نہیں مانتا تھا۔اس کا ماننا تھا کہ جن کا اوپر کا حصہ خالی ہو ان کی باتوں کو اگنور کرنا چاہئے!
—••—
زرقہ کو لئے ریستوران میں بیٹھا تھا۔وہ اسے ابھی یونیورسٹی سے لے کر آیا تھا اور کھانا آرڈر کئے اب وہ دونوں بیٹھے تھے۔
"اچھا اب بتاؤ کیا بات ہے؟"اسے یونہی بیٹھا دیکھ کر زرقہ نے ہی بات کا آغاز کیا تو وہ سیدھا ہوا،پھر گہرا سانس بھرے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔
"مجھے تمہاری ہیلپ چاہئے۔۔۔"اس نے بغیر کسی تمہید کے کہا تو وہ مسکرائی۔
"ہاں یہ تو میں بتا ہی سکتی تھی کہ تمہیں میری ہیلپ چاہئے۔ورنہ ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ تم مجھے سپیشل یونیورسٹی سے لینے آؤ صرف میرے ساتھ لنچ کرنے کے لئے۔۔۔۔"اس نے اس کے انداذ پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تو وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
"اچھا،ٹھیک ہے۔۔۔۔مان لیا تم جینیئس ہو۔۔۔اب میں بات کروں۔۔۔۔"
"اوکے اب میں کچھ نہیں کہتی۔۔۔کیری آن۔۔۔"وہ سکون سے کہتی پیچھے ہو کر بیٹھ گئی۔
"اچھا تو پریزیڈنٹ صاحب میری شادی کے لئے میری پسند پوچھ رہے ہیں اور۔۔۔"
"اور تم بابا کو صفا کے بارے میں بتانے سے کترا رہے ہو۔۔۔۔یہی بات ہے نا۔۔۔؟؟"حامز کی بجائے اس نے اس کا جملہ مکمل کیا جس پر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
"تم۔۔۔آئی مین تمہیں کس نے کہا ہے کہ میں صفا۔۔۔۔"آگے کا جملہ اس نے ادھورا چھوڑ دیا۔
"مسٹر حامز سفیان! آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میں آپ کی بہن ہوں اور کم از کم آپ کی صفا کے لئے پسندیدگی کو اگنور نہیں کر سکتی اور پسندیدگی کا یوں معلوم ہوا کہ وہ جب بھی آتی ہے آپ "آپ" نہیں رہتے۔۔۔سمجھ رہے ہو نا۔۔"اپنی آنکھوں میں شرارت لیئے کہتی وہ اسے جھینپنے پر مجبور کر گئی۔
"تو کیا یہ اتنا واضع ہے؟"اس کے سوال پر اس نے اپنے کندھے جھٹکے۔
"ہاں نا،اب ہم بےوقوف تو نہیں ہیں جو سمجھ نہ پائیں۔۔۔۔"اس کا انداذ اب بھی لاپرواہ تھا۔
"بھابی کو پتا ہے؟"
"ہاں۔۔۔سب کو معلوم ہے اور تم ایسے ہی پریشان ہو رہے ہو۔۔۔بابا نے صفا کو ہی پسند کیا ہے تمہارے لئے۔۔۔وہ تو بس تم سے ایسے ہی تمہاری پسند پوچھ۔۔۔۔"
"کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟بابا نے کیا واقعی صفا کو پسند کیا ہے؟"اس کی بات کو بیچ میں ہی کاٹے وہ قدرے پرجوش لہجے میں بولا تو وہ ہنس دی۔
"ہاں جی مجنوں صاحب۔۔۔"
"ہائے شکر ہے۔۔۔۔تھینک یو زری،تم نے میری مشکل آسان کردی۔۔۔قسم سے جان سوکھی پڑی تھی میری۔۔۔"اس نے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
"تھینک یو تو تم مجھے تب کہنا جب میں صفا کو تمہاری بے تابیاں بتاؤں گی۔۔۔"وہ شرارت کرنے سے بعض نہیں آئی۔
"جاؤ جاؤ،کام کرو اپنا۔۔۔۔"وہ واپس اپنی ٹون میں آگیا تھا جبکہ اس کے اس طرح رنگ بدلنے پر اس نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"اللہ، کس قدر مطلبی انسان ہو تم۔۔۔۔کیسے ٹون بدلی ہے تم نے اپنی۔۔۔۔"اس کے جملے پر وہ دل کھول کر مسکرایا۔
"ایسے کو تیسا۔۔۔۔"اور پھر دل جلا دینے والے انداز میں کہتے اس نے اپنے کندھے جھٹکے تو اس نے اسے گھورا۔
"دفعہ ہو جاؤ حامز۔۔۔آئندہ کوئی کام ہوا تو روتے ہوئے میرے پاس نہ آنا۔۔۔۔"وہ قدرے خفگی سے بولی جبکہ اس کا نکلنے والا قہقہ بے ساختہ تھا۔
"روتے ہوئے؟؟؟سیریسلی۔۔۔۔!؟میں بھلا کب روتے ہوئے تمہارے پاس آتا ہوں؟"ہنسی کے دوران اس نے اپنا جملہ مکمل کیا جبکہ اس کی اس حرکت پر اس نے اپنے دانت پیسے۔
"بھاڑ میں جاؤ تم۔۔۔۔"پھر ایک ایک لفظ چبا کر کہتے وہ ریستوران سے باہر دیکھنے لگی۔وہ ابھی بھی دبا دبا سا ہنس رہا تھا۔
—••—
وہ لوگ مرتضٰی صاحب کے گھر صفا کے لئے رشتہ لے کر آئے تھے۔سب کا ماننا تھا کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے اسی لئے آج ہی وہ لوگ رشتے کی بات کرنے چلے آئے تھے اور رشتے کو مرتضٰی صاحب نے قبول بھی کر لیا تھا۔حامز گھر کا ہی بچا تھا اور ان کے سامنے پلا بڑھا تھا اسی لئے انہیں اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
سب لاؤنج میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے اور وہ باورچی خانے میں چائے تیار کر رہی تھی۔زرقہ بھی اس کے ساتھ ہی تھی۔
"اور بھئی سناؤ؟ کیسی فیلنگز ہیں تمہاری۔۔۔؟؟؟"وہ چائے کپوں میں نکال رہی تھی جب زرقہ نے شرارت سے اس سے سوال کیا۔
"شرم کر لو زری۔۔۔کوئی سن لے گا تو یا سوچے گا۔۔۔"اس نے خفگی سے اسے ڈپٹا لیکن اسے بھلا کہاں اثر ہوتا تھا؟
"تو کیا ہوا؟میں کون سا کہہ رہی حامز سے بات کرنے کا؟بس ایک جنرل سوال تھا۔۔"اس نے منہ بناتے ہوئے وضاحت دی جس پر صفا نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا۔
"تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا لڑکی۔۔۔"اور وہ کیا کہہ سکتی تھی۔
"تم بات بدل رہی ہو صفا۔۔۔"اپنی بھنویں اچکائے وہ خفگی سے بولی جس پر اس کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا لیکن وہ فوراً سنمبھل گئی۔
"نہیں جی،ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔"پھر اپنی بات پر قدرے زور دیتے اسے یقین دلانا چاہا اور ٹرے ہاتھ میں پکڑے باہر جانے لگی۔
"اچھا تو پھر کیسی بات ہے؟"اس کا راستہ روکے اپنے سینے پر ہاتھ باندھے اس نے ایک بار پھر سے سوال کیا۔
"زری نہ تنگ کرو یار۔۔۔"اب کی بار اس نے التجا کی تو وہ ہنس دی۔
"آگ برابر کی لگی ہے،میں سمجھ گئی۔۔۔"اس کی بات پر اس نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا لیکن جب سمجھ آئی تو رنگت اچانک گلابی پڑی۔
"شرم کر لو کچھ۔۔۔۔۔میری طرف سے یہ ایک ٹوٹل ارینج میرج ہے سمجھی تم۔۔۔؟؟"ارینج میرج پر اس نے خاصا زور دیا جبکہ وہ ہنس دی۔
"صفا،امی پوچھ رہی ہیں چائے کا۔۔۔۔"اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتی زرنور نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے ان دونوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
"میں لا ہی رہی تھی۔۔۔یہ زری بیچ میں تنگ کرنے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔"شکایتی انداز میں کہتے اس نے ساتھ میں زرقہ کو گھورا بھی تھا۔
"زرقہ۔۔۔کیوں تنگ کر رہی ہو میری بہن کو۔۔۔"اپنی مسکراہٹ دباتے اس نے مصنوعی سنجیدگی سے اس سے سوال کیا لیکن وہ ہنستی ہی رہی۔اسے ہنستا دیکھ کر وہ بھی ہنس دی جبکہ صفا نے بے بسی سے ان دونوں کی جانب دیکھا پھر خفگی سے پیر پٹختے کچن سے باہر نکل گئی۔
شام بخیر و عافیت گزری تھی اور اب رات کے گہرے سائے ہر سو چھا چکے تھے۔سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔وہ بھی فریش ہوئے ابھی آکر بیٹھی ہی تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔اس نے سکرین کی جانب دیکھا تو سارہ کی کال آرہی تھی۔اس نے فون اٹھایا اور کان سے لگایا۔
"کیسی ہو؟آگئی گھر۔۔۔۔۔کیا بنا رشتے کا؟ہاں ہوئی یا نہ۔۔۔؟"وہ ایسی ہی تھی بے صبروں کی طرح سوال پر سوال کرتی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں،ہاں گھر آگئی اور رشتہ پکا ہو گیا ہے۔۔۔"مسکراتے ہوئے اس نے اس کے سارے سوالوں کا جواب دیا تھا تو دوسری جانب سے اس نے اسے مبارک دی تھی۔
"اچھا تمہیں پتا ہے آج یونی میں کیا ہوا؟"اب کی بار اس کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ "بلکہ تمہیں کیسے پتا ہوگا میں بتاتی ہوں۔۔۔"پھر خودی اپنے سوال کا جواب دئے وہ ایک بار پھر سے بولنے لگی۔
"ہماری یونی کی ایک سٹوڈنٹ اغواء ہو گئی ہے۔۔۔۔"
"واٹٹٹ۔۔۔۔۔۔"اس کی بات پر وہ سہی معنی میں چونکی۔
"ہاں سننے میں یہی آیا ہے۔۔۔یونی والے تو بات چھپا رہے لیکن بھلا کب تک کوئی بات چھپتی ہے؟"
"لیکن کیسے؟آئی مین صبح تک تو سب ٹھیک تھا تو پھر اچانک۔۔۔۔؟؟"وہ واقعی پریشان ہوئی تھی۔
"کہاں ٹھیک تھا؟تم نے غور نہیں کیا تھا کہ ایک عجیب سی گہما گہمی تھی آج؟؟"اس نے اسے یاد دلایا تو اس کے ذہن میں یونی کا منظر گھوما۔
وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔واقعی عام دنوں کی نسبت ماحول مختلف تھا۔
"کس کا کام ہے یہ؟کچھ معلوم ہوا اس بارے میں؟"اس کا لہجہ دھیما پڑا تھا۔
"کوئی اندر سے ہی ہے جو یہ سب کر رہا ہے۔۔۔۔یاد ہے پچھلے سال بھی اس طرح کے کتنے کیسس سامنے آئے تھے لیکن مجرم پکڑا نہیں گیا۔۔۔"
"تو پھر اب کیا کرنا ہے؟"
"ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔۔۔۔"اس نے گہرا سانس بھرا۔واقعی وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھیں۔
"خیر تم کل آؤ گی یونی تو پھر بات کرتے ہیں۔۔۔۔"اور پھر مزید ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کال منقطع کر دی۔
وہ بھاری ہوتے دل کے ساتھ بستر پر لیٹ گئی۔آخر دنیا کو ہو کیا گیا تھا؟وہ بس یہ سوچ کر رہ گئی۔
—••—
وہ لوگ کل ہونے والے میچ کی پریکٹس کر رہے تھے۔فٹبال اس کے پاس تھا اور اس کے ساتھی اس سے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔وہ ان کے بیچ میں سے راستہ بناتا نیٹ کے قریب آیا اور وہ نیٹ کی طرف بال پھینکنے ہی والا تھا جب اس کی نظر اس پر پڑی وہ اپنی دوستوں کے ساتھ جا رہی تھی اور کسی بات پر مسکرائی بھی تھی۔جب وہ نہیں تھی تو نہیں تھی لیکن اب جب تھی تو ہر جگہ وہ ہی کیوں نظر آتی تھی؟
یہ نہیں تھا کہ وہ پہلے تھی ہی نہیں،پہلے بھی تھی وہ لیکن اب ہر جگہ وہ ہی تھی۔شاید نظریہ بدلا تھا،دل کی آنکھ سے دیکھا تھا تو سب کچھ بدل سا گیا تھا۔
اور اسی لمحے اس کے ساتھی نے اس سے فٹ بال کھینچ کر نیٹ کی جانب اچھال دیا۔
"کیا ہو گیا زی؟تم رک کیوں گئے تھے؟"آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا اسی لیئے زیب اس سے سوال کئے بنا نہیں رہ پایا۔اس کے سوال پر اس نے اپنا سر جھٹکا اور اس کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہاں کچھ نہیں،بس میری آنکھوں کے سامنے کچھ آگیا تھا۔۔۔۔"سنجیدگی سے کہتے وہ جھکا اور اپنے سنیکرز کے لیسس باندھنے لگا۔
"کیا آگیا تھا۔۔۔؟؟؟"اس نے ناسمجھی سے سوال کیا۔
"ڈسٹریکشن۔۔۔"وہ بڑبڑایا لیکن زیب اسے سن نہیں پایا۔
"کیا کہہ رہے ہو؟مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔؟"
"کچھ نہیں۔۔۔پھر سے پریکٹس کرتے ہیں۔۔۔"اپنے لیسس باندھتا وہ سیدھا ہوا اور آگے بڑھ گیا جبکہ وہ بھی اپنے کندھے اچکاتا اس کے پیچھے چل دیا۔
اب جب اس نے کہہ دیا تھا کہ کچھ نہیں تو واقعی کچھ نہیں تھا اور اگر کچھ تھا بھی تو وہ اسے نہیں بتانے والا تھا۔
وہ ابھی کلاس لے کر فارغ ہوئی تھیں اور اب کیفے سے کچھ کھانے کو لے کر ان کا ارادہ گراؤنڈ میں بیٹھ کر کھانے کا تھا تو اسی لئے وہ کیفے جا رہی تھیں۔کیفے سے تھوڑا فاصلے پر فٹ بال رینک تھا۔یہاں اکثر سٹوڈنٹس فٹبال کی پریکٹس کرتے دکھائی دیتے تھے اور میچز بھی یہاں پر اکثر ہی ہوا کرتے تھے اسی لئے یہ ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں تھی۔لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کسی کے لئے کافی پریشانی کا باعث بن چکی تھی۔
کھانا لے کر وہ اب گراؤنڈ میں آکر بیٹھ گئی تھیں اور ساتھ میں ادھر ادھر کی باتیں بھی کر رہی تھیں۔
"تمہیں کیا لگتا ہے کہ جو ریومر پھیلا ہے وہ سچ ہے۔۔۔؟؟"زوبیہ نے ان سب سے سوال کیا تھا۔
"ہاں مجھے تو یہی لگتا ہے۔۔۔"سارہ فوراً سے بولی۔ "ورنہ ایسے جھوٹی خبریں کون پھیلاتا ہے؟؟"اس نے اپنا نظریہ بیان کیا۔
"اوہ سلی گرلز!!! ہاؤ کڈ یو بیلیو ان سچ ریومرز؟"نزاکت سے چلتے وہ ان کی طرف آتے ایک ادا سے بولی۔
"یو شڈ نو ڈیٹ کہ یہ سب باتیں فضول ہیں۔۔۔ایک لڑکی بھاگ جاتی ہے اور تم لوگ اسے کڈنیپینگ کا کیس سمجھ لیتے ہو؟اٹلیسٹ اتنا تو تمہیں پتا ہونا چاہئے۔۔۔"وہ استہزائیہ انداذ میں بولی جبکہ ان تینوں نے ناپسندیدگی سے اس کی جانب دیکھا۔
"اس طرح کسی پر الزام لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے ایمل۔۔۔"زوبیہ نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تو وہ گردن پیچھے پھینکے ہنس دی۔
"اوہ رئیلی!؟ اب جو سچ ہے میں وہی کہوں گی۔۔۔"وہ اسی طرح تمسخرانہ انداز میں بولی تو اس نے سختی سے اپنے جبڑے بھینچے۔
"اگر تم کسی کا اچھا نہیں سوچ سکتی تو کم از کم اپنا منہ بند ہی رکھو۔۔۔"
"اور اگر میں نہ بند رکھوں تو؟"انداذ اس کا تنگ کرنے والا تھا۔
"ریلیکس گائز! کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟"اس سے پہلے ان کی بحث و تکرار مزید بڑھتی،زرقہ نے ان دونوں کو ٹوکا۔
"سمجھاؤ اپنی دوست کو۔۔۔مجھ سے بحث مت کیا کرے۔۔۔"ایمل بھی اب کے اسے کہہ رہی تھی۔
"تم سے میں بات نہ کروں کجا کہ بحث!"زوبیہ اور ایمل کی بالکل بھی نہیں بنتی تھی۔ایک کلاس میں ہوتے ہوئے بھی ان کا اینٹ پتھر کا ویڑ تھا۔
"وٹ ایور!!!"اپنا ہاتھ جھلاتے ہوئے کہتے وہ اپنا سر جھٹکے واپس پلٹ گئی۔
"زوبی۔۔۔یار کیا ہو جاتا ہے تمہیں؟"اب وہ تھکے ہوئے انداذ میں اسے ٹوک رہی تھی۔زوبیہ کا شماران لوگوں میں سے تھا جو جھگڑا کرنے سے پہلے ایک منٹ بھی نہیں سوچتی تھیں۔
"پتا نہیں یہ اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے؟"اپنا سر جھٹکے وہ ابھی بھی غصے سے بول رہی تھی۔
"اففف لڑکی،بس کر دو۔۔۔۔۔مجھے لینے آنے والے ہیں میں جا رہی ہوں۔۔۔۔"اب وہ قدرے جھنجھلا کر بولی تو وہ خاموش ہوئی۔
"چلو۔۔۔"پھر اپنا بیگ اٹھائے اپنی جگہ سے اٹھی اور بغیر اس کا انتظار کئے آگے بڑھ گئی۔
سارہ اور زرقہ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر ہنس دیں۔
"کیا اب چلنا نہیں ہے کیا؟"وہ پلٹی اور ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر اپنی بھنویں اٹھائے سوالیہ نظروں سے ان دونوں کی جانب دیکھا۔
"آرہے ہیں۔۔۔۔۔"اپنی ہنسی روکے وہ دونوں بھی مین گیٹ کی جانب بڑھ گئیں۔
—••—
منگنی کی رسم دو ہفتے بعد رکھی گئی تھی لیکن ابھی سے ہی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔اسی سلسلے میں سب خواتین شاپنگ کے لئے مال گئی ہوئی تھیں۔حامز بھی ان کے ساتھ تھا۔
وہ ابھی کپڑے دیکھ رہی تھیں جب ایک سوٹ پر اس کی نظر پڑی۔
وہ ایک سکائے بلو کلر کا پاؤں کو چھوتا نیٹ کا لمبا کامدار ڈریس تھا جس کے اوپر سلور نگوں کا کام ہوا تھا۔
"یہ ڈریس کیسا ہے؟؟"اس نے وہ ڈریس اتارا اور آمنہ بیگم کے سامنے کیا تو ان کی نظروں میں ڈریس کے لئے ستائش ابھری۔
"بہت خوبصورت ہے۔۔صفا بچے ادھر آؤ۔۔۔"انہیں واقعی وہ ڈریس بہت اچھا لگا تھا تبھی فوراً سے اسے بلایا تو وہ جو کپڑے ادھر ادھر کر کے دیکھ رہی تھی اس طرف آگئی۔
"جی تائی۔۔۔"اس نے آتے ساتھ ہی سوال کیا لیکن اس کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز کیا تھا لیکن اس پر کوئی بند نہیں تھا۔اس کے نظریں اسی کے چہرے پر ٹکی تھیں۔
"بچے یہ دیکھو۔۔۔یہ کیسا ہے؟؟"ان نے وہ سوٹ اس کو دکھایا۔
"جی بہت پیارا ہے۔۔۔"اس کی نظریں وہ بخوبی خود پر محسوس کر سکتی تھی اسی لئے جلد از جلد اپنی پسند بتائے وہاں سے سائڈ پر ہونا چاہتی تھی۔
"اگر تم نے کوئی پسند کیا ہے تو بے شک وہ بھی لے لو۔۔۔"وہ بہت محبت سے اسے کہہ رہی تھیں۔
"نہیں تائی۔۔۔یہ بہت اچھا ہے۔۔۔میں نے اور نہیں لینا۔۔۔"وہ اس سے نظریں چراتی دل کو لگ رہی تھیں۔
آمنہ بیگم مسکراتے ہوئے دوسری جانب چلی گئیں تو وہ مارے خفت اس سے مخاتب ہوئی۔
"بندہ کم از کم اپنے ارد گرد کا ہی خیال کر لیتا ہے۔۔۔یہ پبلک پلیس ہے اور ایک آپ ہیں کہ بدتمیزی کرے جا رہے ہیں۔۔۔۔"اس کا چہرہ گلابی ہو رہی تھا جبکہ اس کے جملے پر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
"اللہ اللہ لڑکی،میں نے کب بدتمیزی کی ہے؟"اسے شاک ہی تو لگا تھا۔
"تو آپ کے خیال میں یوں بیچ محفل میں گھورنا اور کیا ہوتا ہے؟"اپنے سینے پر ہاتھ باندھے وہ اب اس سے سوال کرنے لگی۔
"اوکے،بیچ محفل میں نہیں دیکھتا لیکن تم اکیلے میں بھی تو دیکھنے نہیں دیتی۔۔۔۔"اس کے لہجے میں شرارت واضع تھی جبکہ اس کا جملہ سن کر اس کے چہرے پر شرم و حیا اور غصے کے ملے جلے تاثرات بکھرے۔
"آپ پہلے سے ہی اس طرح کے تھے یا اب کوئی خاص ڈگری لی ہے۔۔۔؟؟"
"بس کبھی غرور نہیں کیا ورنہ ماں بدولت تو بچپن سے ہی ایسے ہیں۔۔۔۔"اپنی مسکراہٹ ہونٹوں کے کونے میں دبائے اس نے جواب دیا تو وہ سر پکڑ کر رہ گئی۔
"اللہ معاف کرے۔۔۔"پھر جھرجھری لیتے وہ فوراً سے دوسری جانب بڑھ گئی جبکہ اس نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
دوسری جانب وہ اپنا سوٹ لے چکی تھی اور اب فوڈ کورٹ میں زرنور کے ساتھ بیٹھی ان لوگوں کا انتظار کر رہی تھی۔
"بھابی یار پوچھیں ان سے کتنا ٹائم ہے؟قسم سے بھوک سے جان نکل رہی ہے۔۔۔"انہیں یہاں بیٹھے کوئی آدھا گھنٹا ہونے والا تھا لیکن وہ تھے کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
"ہاں میں کال کرتی ہوں۔۔۔"ان نے کہتے ساتھ ہی فون ملایا لیکن یہاں سگنل نہیں آرہے تھے۔
"یہاں سگنل نہیں آرہے۔۔۔تم رکو زرا میں آتی ہوں۔۔۔"وہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھی اور تھوڑا سائڈ پر ہو کر کال کرنے لگیں۔
"امل بیٹا کدھر جا رہی ہو۔۔۔رکو۔۔۔۔"جیسے ہی زرنور اپنی جگہ سے اٹھی امل بھی اس کے ساتھ ہی دوسری جانب بھاگی تھی۔اسے جاتا دیکھ کر وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی۔
"امل۔۔۔۔"وہ بھی تیزی سے اس کی پیچھے بڑھی تھی۔امل تیزی سے آگے دوڑ رہی تھی اور اس سے پہلے وہ مڑتی،اس کے سامنے کسی شخص نے بیٹھتے اس کا رستہ روک لیا تھا۔اس کے رکنے پر وہ بھی اپنی جگہ رکی۔سامنے دیکھا تو چہرہ کافی شناسا سا تھا اور وہ اسے پہچان بھی گئی تھی۔
"کدھر بھاگ رہی ہیں آپ۔۔؟؟"اب وہ شخص مسکراتا ہوا اس سے سوال کر رہا تھا لیکن وہ خاموش ہی رہی۔اس نے پلکے اٹھائے سامنے دیکھا اور کھڑا ہوا۔
"یہ آپ کے ساتھ ہے؟"اس کی جانب دیکھتا وہ سوال کر رہا تھا لیکن پھر نظروں کا زاویہ بدلا۔اس نے اثبات میں سر ہلایا اور امل کا ہاتھ پکڑا۔
"آپ کا بہت بہت شکریہ مسٹر سلطان۔۔۔"وہ تشکر امیز لہجے میں بولی تو وہ ایک بار پھر سے مسکرایا۔اپنے ٹراؤزر کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے،نظریں جھکائے کھڑا وہ مسکراتا ہوا بہت پیارا لگ رہا تھا۔بال اس کے ہمیشہ کی طرح پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔
"شکریہ کی کوئی بات نہیں۔۔۔آپ کی مدد کے لئے میں ہمیشہ آسکتا ہوں۔۔۔"پل بھر کو وہ خاموش ہوا اور اس کی جانب دیکھا اور پھر سے نظریں جھکا لیں۔وہ زیادہ دیر اسے دیکھا نہیں کرتا تھا۔
"آپ کو محفوظ رکھنا میری اولین ترجیحات اور فرائض میں سے ایک ہے۔اور اپنے فرائض میں ہر حال میں پورے کرتا ہوں پھر چاہے اس کے لئے مجھے جان بھی دینی پڑے،میں۔۔۔پیچھے نہیں ہٹتا۔۔۔۔"وہ نرمی سے کہتا پلٹ گیا جبکہ وہ ناسمجھی و بے یقینی سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔وہ کیا کہنا چاہتا تھا یا وہ کیا کہہ کر گیا تھا وہ سمجھتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔دل اس کی بات سن کر عجیب لہہ پر دھڑکا تھا۔ہوش میں وہ تب آئی جب پیچھے سے زرنور نے اسے بلایا۔
"آجاؤ سب آگئے ہیں۔۔۔"اور پھر وہ سن ہوتے ذہن کے ساتھ واپس پلٹ گئی۔
—••—