Tu Hay Kahan By Mah...
 
Share:
Notifications
Clear all

Tu Hay Kahan By Mahi Episode 5

1 Posts
1 Users
0 Reactions
210 Views
(@mahammahmood76)
Eminent Member Customer
Joined: 1 year ago
Posts: 9
Topic starter  

 آفس کا ماحول قدرے خاموش اور پرسکون تھا۔پاور چئیر پر سکندر صاحب جبکہ بیچ میں پڑی میز کی دوسری جانب پڑی کرسیوں میں سے ایک پر زمام بیٹھا تھا۔

تبھی آفس کا دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا لیکن سامنے زمام کو بیٹھا دیکھ کر وہیں پر رک گیا۔چہرے کے تاثرات کوئی خاص اچھے نہیں تھے اور اس سے پہلے وہ واپس پلٹتا،سکندر صاحب کی بھاری رعب دار آواز آفس میں گونجی۔

   "میری بات سنے بغیر تم اس آفس سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکال سکتے۔۔۔"ان کے لب و لہجے میں واضع وارنگ تھی جبکہ ان کا جملہ سن کر اس نے اپنے جبڑے بھینچے پھر اپنے مخصوص انداز میں بولا۔

   "آپ پہلے اپنے بیٹے سے فارغ ہو جائیں پھر مجھے بلوا لیجئے گا۔۔۔"

   "میں بس جا رہا۔۔۔۔"اس سے پہلے زمام اپنا جملہ مکمل کرتا،سکندر صاحب نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔

   "کیا میں نے تم سے کہا ہے کہ تم جاؤ؟"اب وہ سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھتے سوال کرنے لگے تو وہ خاموش ہو گیا۔

   "کوئی کہیں نہیں جائے گا سمجھے؟اور تم۔۔۔یہاں آؤ۔۔۔"وہ اپنے جملے پر زور دیتے ہوئے بولے اور پھر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ چلتا آیا لیکن کرسیوں کی بجائے صوفے پر ٹک گیا۔سکندر صاحب نے ایک نظر ان دونوں پر ڈالی پھر گلہ کھنکھار کر بولے۔

   "کیا سوچا ہے تم نے؟“اب وہ سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھتے سوال کرنے لگے جبکہ اس نے ناسجھی سے ان کی جانب دیکھا۔

   ”کس بارے میں؟“

   ”میرا بزنس جوائن کرنے کے بارے میں۔۔۔۔آج نہیں تو کل تو تمھیں یہیں آنا ہے تو پھر ابھی کیوں نہیں؟“

   ”آپ سے کس نے کہا ہے کہ میں اپنا بزنس چھوڑ کر آپ کا بزنس جوائن کروں گا؟“اس نے بھی فوراً سے سوال کیا۔

   “کسی کے بتانے یا کہنے کی ضرورت ہے کیا۔۔۔؟؟مجھے خود نظر آرہا ہے کہ تمہاری ایجنسی زیادہ دیر تک نہیں چلنے والی۔دھاک بٹھانے کے لئے نامور ایجنسیز کے ساتھ کام کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ کوئی بھی کلائنٹ اپنے کام کو لے کر رسک لینا پسند نہیں کرتا۔اس کی فرسٹ پریوریٹی ہی یہی ہوتی ہے کہ اپنا کام اس جگہ پر دے جہاں پر اسے کوئی فائدہ بھی ہو۔۔۔نام بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا تم سمجھ رہے ہو۔فنڈنگز،پارٹنرشپ،اس سب کی ضرورت ہوتی ہے۔تمھیں لگتا ہے کہ نامور ایجنسیز کل کی آئی نئی ایجنسی کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے میں انٹرسٹڈ ہوں گی؟“ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے وہ مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ تھے۔

   ”آپ کی سوچ غلط ہے ڈیڈ۔صرف نامور ایجنسیز کے ساتھ پارٹنرشپ کرنے یا کام کرنے سے نام نہیں ملتا بلکہ کام کی کوالٹی اور اس کے پیچھے کی گئی محنت معنی رکھتی ہے۔آپ کسی بھی بڑی ایجنسی یا کسی بھی بڑے سلیبرٹی کو دیکھ لیں۔جب تک کام اچھا کرتے رہیں تب تک ان کی ریپوٹیشن اچھی ہے لیکن اگر کوئی ایک کام بھی غلط کر دیں،کہیں کوئی غلطی یا کوئی جھونک ہو جائے تو چاہے کتنی ہی بڑی ایجنسی یا کتنا ہی بڑا سیلیبرٹی کیوں نہ ہو،اس کی ریپوٹیشن اس کا نام منٹوں میں پانی میں مل جاتا ہے۔سمجھ رہے ہیں نا ڈیڈ؟

What really matter is the work quality and the dedication behind it.

اور آئی ایم پریٹی شیور کہ میری ایجنسی کی ورک کوالٹی اتنی اچھی ہے کہ کلائنٹس خود چل کر میرے پاس آئیں“اور حامز سہی کہتا تھا۔دلائل اور وضاحتوں میں کوئی اس سے جیت نہیں سکتا تھا۔

   “ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ کلائنٹس ورک کوالٹی کو دیکھ کر تمہاری ایجنسی کو پریفر کریں گے لیکن تمھیں نہیں لگتا کہ اس سب کے لئے تمھیں بہت زیادہ وقت درکار ہے؟“

   ”تو جلدی کسے ہے ڈیڈ؟آئی نو اس طرح کے کاموں میں بہت محنت اور بہت صبر درکار ہے اینڈ آئی ایم پیشنٹ۔مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔“وہ اب کی بار لاپرواہی سے کندھے جھٹکتے ہوئے بولا تو وہ کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھے گئے۔

   ”ویل،اب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔جیسے تمھارا دل چاہے کرو،لیکن اگر تمھیں کسی سٹیج پر میری مدد درکار ہو تو فیل فری تو آسک۔۔۔۔“وہ اب کی بار نرمی اور اپنائیت سے بولے تو اس نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا اور اپنی جگہ سے اٹھا۔

   ”یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا ہے؟“اور اس سے پہلے وہ باہر نکلتا،زمام نے فوراً سے سوال کیا تھا۔اس کے سوال پر سکندر صاحب نے بھی اس کے ہاتھ کی جانب دیکھا جہاں زخم کے نشانات بالکل واضِع تھے۔پٹی وہ گھر آتے ساتھ ہی اتار چکا تھا لیکن زخم کو بھرنے میں ابھی وقت لگنا تھا۔

   ”کچھ نہیں ہوا۔۔۔“

   ”کیا مطلب کچھ نہیں ہوا؟ایسے کیسے زخم آسکتا ہے؟“وہ اب پریشانی سے سوال کرنے لگے۔

   ”کچھ نہیں ہوا بس ایسے ہی چوٹ لگ گئی تھی۔۔۔“اس کا انداز سادہ سا تھا جبکہ ان کی پیشانی پر شکن پڑی۔

   ”رات کو ریسنگ کی تھی تم نے؟“ان نے سنجیدگی سے سوال کیا لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔

   ”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں برہان!!!!!“اپنے الفاظ پر زور دئیے ان نے پھر سے سوال کیا۔

   ”نہیں۔۔۔“اس نے یک لفظی جواب دیا۔

   ”لڑائی ہوئی تھی کسی کے ساتھ؟“ان نے ایک اور سوال کیا۔

   ”میں کہہ تو رہا ہوں کچھ نہیں ہوا تو کچھ نہیں ہوا نا۔۔۔فار گاڈ سیک مین۔۔۔“اب کی بار وہ قدرے جھنجھلا کر بولا اور اس سے پہلے وہ پھر سے کچھ کہتے،زمام نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا تو وہ غصے سے اپنے جبڑے بھینچے خاموش ہو گئے۔وہ بھی تیزی سے آفس سے باہر نکل گیا۔

   ”اِسی لئے،بس اِسی لئے میں اس کے بائک چلانے کے حق میں نہیں ہوں۔۔پتا نہیں یہ لڑکا کیا کرتا پھرتا ہے۔۔۔۔“وہ خفگی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس سے مخاطب تھے۔

   ”پریشان نہ ہوں ڈیڈ۔۔۔وہ اپنے معاملات حل کر لے گا۔۔۔“اس نے انہیں تسلی دینا چاہی۔

   ”تمہاری انہیں غلط سائڈ لینے کی وجہ سے وہ اتنا خودسر ہوگیا ہے۔کچھ اندازہ ہے تمھیں؟؟“

   ”میرا چھوٹا بھائی ہے وہ ڈیڈ اور مجھے وہ سب سے بڑھ کر عزیز ہے۔وہ مجھ سے خفا ہے،میں جانتا ہوں اور ایک نا ایک دن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔“اس کے لہجے میں کہیں اداسی تھی جبکہ سکندر صاحب یکدم خاموش ہوگئے۔

   ”تمھیں لگتا ہے کہ یہ بس خفگی ہی ہے؟“انہوں نے سوال کیا لیکن اب کی بار لہجہ دھیما پڑا تھا جبکہ ان کے سوال پر وہ پھیکا سا مسکرا دیا۔

   ”مجھے یقین ہے ڈیڈ۔۔۔وہ مجھ سے جو بھی کرتا ہو لیکن نفرت نہیں کرتا۔۔۔۔وہ کسی سے نفرت کر ہی نہیں سکتا۔۔۔“وہ اب بھی مسکرا رہا تھا جبکہ وہ خاموشی سے اسے تکے گئے۔

   ”آپ کو یاد ہے جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔بہت کریٹیکل کنڈیشن تھی میری۔۔دو دن بعد مجھے ہوش آیا تھا اور ان دو دنوں میں میری بیہوشی میں برہان میرے پاس آتا تھا۔۔۔کئی کئی گھنٹے گزار کر جاتا تھا۔۔تب مجھے یقین ہوا تھا کہ وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتا۔۔۔بس خفا ہے وہ مجھ سے۔۔۔“اس سب میں اس کے ہونٹوں سے ایک دفعہ بھی مسکراہٹ غائب نہیں ہوئی تھی۔

   ”وہ اگر مجھ سے نفرت بھی کرتا تو تب بھی میں اس سے کوئی شکایت نہیں کرتا۔اس وقت حالات ہی اس طرح کے تھے کہ۔۔۔۔“وہ بس اتنا کہے خاموش ہوگیا۔

   ”پرانی باتوں کو دہرا کر کیوں خود کو تکلیف دے رہے ہو؟“

   ”نہیں ڈیڈ،یہ باتیں کبھی بھی مجھے تکلیف نہیں دیتیں بلکہ مجھے ہمیشہ امید دلاتی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔اور کیا میں غلط سوچتا ہوں؟“اپنی بات مکمل کیے وہ آخر میں آس سے ان سے سوال کرنے لگا۔انہوں نے فوراً سے نفی میں سر ہلایا۔وہ بھی چاہتے تھے کے ان کے بیچ سب کچھ ٹھیک ہو جائے لیکن کیا واقعی یہ ممکن تھا؟

—••—

وہ ابھی اپنے کمرے میں آئی تھی اور یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہی تھی جب زور سے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ پریشان سا اس کے کمرے میں داخل ہوا۔

   ”بابا کو تم نے رات والے واقعے کے بارے میں بتا دیا ہے کیا؟“وہ اب پریشانی سے اس سے سوال کرنے لگا جبکہ وہ چونکی۔

   ”نہیں،میں کیوں بتاؤں گی؟“

   ”تو پھر ان نے اتنی صبح صبح مجھے پیشی پر کیوں بلایا ہے؟“اس نے مزید سوال کیا تو اس نے اپنی مسکراہٹ روکی۔

   ”مجھے کیا پتا جا کر خود پوچھ لو ان سے۔۔۔“

   ”زری پکی بات ہے نا تم نے نہیں بتایا بابا کو؟مجھ سے جھوٹ تو نہیں بول رہی؟“اسے جیسے یقین نہیں آیا تھا۔

   ”تم پاگل ہو کیا؟میں کیوں تم سے جھوٹ بولوں گی؟“اس نے وضاحت دی لیکن وہ اب بھی مشکوک انداز میں اسے دیکھتا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ وہ اپنا سر جھٹکتے اپنی تیاری مکمل کرنے لگی۔

 

دوسری جانب دروازے پر ہلکی سے دستک دیے وہ کمرے میں داخل ہوا تو جیسے وہ اس کی انتظار میں ہی بیٹھے تھے۔

   "آؤ برخودار،اندر آؤ۔۔"وہ خاموشی سے چلتا اندر آیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔

   "کیا سوچا ہے پھر تم نے آگے کے بارے میں؟"تھوڑی دیر کی مزید خاموشی کے بعد ان نے سوال کیا تو وہ چونکا۔

   "میں سمجھا نہیں بابا؟"

   "تمہاری شادی کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔۔۔"اب کی بار وہ مسکرائے تو اس کے اعصاب بھی ڈھیلے پڑے۔

   "اوہ اچھا۔۔۔۔"ان نے سکھ کا سانس لیا تو ان نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔

   "یہ کیسا جواب ہوا بھلا؟"

   "نہیں وہ میں آپ سے نہیں کہہ رہا تھا۔۔۔"اپنے سرمیں ہاتھ پھیرے وہ مسکرایا۔

   "اچھا تو پھر اگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دو۔۔۔"ان نے مزید سوال کیا تو اس کے ذہن میں ایک سراپا گھوما۔

   "حامز میں تم سے پوچھ رہا ہوں"اسے خاموش بیٹھا دیکھ کر ان نے پھر سے اسے ٹوکا تو وہ گڑبڑا کر سیدھا ہوا۔

   "جی۔۔میرا مطلب نہیں۔۔۔۔میرا مطلب کیا مجھے سوچنے کے لئے وقت مل سکتا ہے۔۔۔؟؟؟"اس کا ہر انداذ عجیب سا تھا،انہیں ایسا ضرور لگا تھا۔

   "اوکے۔۔۔۔سوچ لو اور جب کوئی فیصلہ کر لو تو مجھے بتا دینا۔۔۔"ان نے اس کے لئے آسانی کر دی تو وہ شکر پڑھتا اپنی جگہ سے اٹھا۔

   "اگلی بار اگر تمہیں اپنے کسی زخمی دوست کو گھر پر لانا ہو تو چوروں کی طرح گھر میں گھسنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔اگر تمہیں لگتا ہے کہ اس طرح مجھے پتا نہیں چلے گا تو بیٹا آپ غلط ہیں۔۔۔"اس کے قدموں کو مانو زنجیر لگی تھی اور وہ چونک کر پلٹا۔

   "آپ کو کس نے بتایا ہے؟"وہ مارے حیرت سوال کر رہا تھا۔

   "شاہ تمہیں جاتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔۔۔"ان نے سکون سے جواب دیا تو اس نے اپنی آنکھیں میچیں۔

   "تو آپ کو پتا چل گیا۔۔۔۔"

   "باپ ہوں میں تمہارا بیٹا۔۔اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم مجھ سے کچھ چھپا سکتے ہو تو تم غلط ہو۔۔۔"ان نے اسے پھر سے باور کروایا تو وہ ہنس دیا۔

   "اب ٹھیک ہے تمھارا دوست؟"ان نے اب کی بار سنجیدگی سے سوال کیا۔

   "جی۔۔۔۔"

  "چلو اچھی بات ہے۔خیر اب تم جاؤ لیکن مجھے جلدی جواب چاہئے۔۔۔۔"انہوں نے مزید کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

—••—

وہ اس وقت گراؤنڈ میں لگے بڑے سے درخت کے ساتھ  ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔کانوں پر ہیڈ فونز لگے تھے اور اس وقت اس کی آںکھیں بند تھیں۔اگر اسی گراؤنڈ میں نظر گھمائی جائے تو اس درخت سے تھوڑے فاصلے پر لڑکیاں بیٹھی تھیں اور وہ بار بار اس کی طرف بھی دیکھتی تھیں۔اور وہ بند آنکھوں کے باوجود بھی خود پر نظریں محسوس کر سکتا تھا لیکن لاپرواہ بنا بیٹھا رہا۔

   "کتنا ہینڈسم لڑکا ہے یہ۔۔۔۔۔"ان لڑکیوں میں سے ایک بولی لیکن اس کی آواز آہستہ تھی۔

   "سہی کہہ رہی ہو تم۔۔۔اسے انداذہ بھی نہیں ہے کہ یہ کتنی لڑکیوں کا امتحان لیتا ہے۔۔۔"ایک اور لڑکی نے تبصرہ کیا تھا۔

   "تبھی تو اس کا نام اسٹون ہارٹ رکھا ہوا ہے۔۔۔"ایک اور لڑکی بڑے دکھی سے انداذ میں بولی۔

   "مسٹر چارمنگ نے کیا کبھی کسی لڑکی سے اچھے سے بات کی ہے؟"

   "کسی لڑکی سے بات تک نہیں کرتا وہ۔۔۔اچھے سے بات کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔"ان میں سے ہی ایک نے آہ بھری تو ایک پل کو خاموشی چھا گئی۔

   "تو مطلب ہم اس سے بات کرنے کی حسرت دل میں لئے ہی اس یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکل جائیں گے؟"

   "دور سے دیکھ کر اگر آہیں بھرتی رہو گی تو پھر تو یقینا" ایسا ہی ہوگا۔۔۔"اس آواز پر ان نے پلٹ کر پیچھےدیکھا تو وہ شان بےنیازی سے چلتی ادھر ہی آرہی تھی۔اس وقت اس نے ٹٰی شرٹ کے ساتھ بلیک جینز پہن رکھی تھیں۔

   "اگر زندگی میں کچھ حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے کوشش کرنی چائیے۔۔لیکن اگر اس طرح بیٹھی آہیں بھرتی رہو گی تو پھر کچھ بھی حاصل نہیں کر سکو گی۔۔"اب وہ ان کے قریب آچکی تھی۔سر سے لے کر پاؤں تک وہ حسن کا مجسمہ تھی۔

   "اور اگر کچھ کوشش کرنے پر بھی نہ ملے تو پھر کیا کرنا چاہئے؟"ان میں سے ایک لڑکی نے سوال کیا تو وہ دل کھول کر مسکرائی۔

   "تو پھر اسے چھین لو اور اپنا بنا لو سمپل۔۔۔"ایک ادا سے اپنے بال کو جھٹکا دئے اس نے جواب دیا تو باقی لڑکیاں خاموش ہو گئیں۔وہ ان کے پاس سے گزرتی اب اس جانب بڑھ رہی تھی جہاں وہ بیٹھا تھا۔قدموں کی چاپ سن کر اس نے آںکھیں کھولیں تو سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی اور اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

   "مسٹر ضیغم سلطان رائٹ؟"اس نے اپنے کانوں سے ہیڈ فونز اتارے اور اس کی جانب "تم کون ہو؟"والی نظروں سے دیکھا۔

   "لیٹس بی فرینڈز۔۔۔"اپنا ہاتھ آگے بڑھائے وہ اسے دوستی کی دعوت دے رہی تھی۔اس نے ایک نظر اس کے ہاتھ اور دوسری نظر اس پر ڈالی۔

   "ناٹ انٹرسٹڈ۔۔!!"پھر سکون سے جواب دیتا اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے کانوں پر پھر سے ہیڈ فونز لگاتا اسے ویسے ہی کھڑا چھوڑے دوسری جانب چل دیا۔

اس نے ایک نظر اپنے اٹھے ہوئے ہاتھ اور دوسری نظر پیچھے کھڑی لڑکیوں پر ڈالی۔

اس قدر توہین اس کی آج تک کسی نے نہیں کی تھی۔غصے سے اس کی پشت کو گھورے وہ تیزی سے وہاں سے باہر نکل گئی جبکہ پیچھے کھڑی لڑکیوں نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

   "تو مس ایمل شاہین،آپ کو ریجیکٹ کرنے والا بھی ابھی دنیا میں موجود ہے۔۔۔"اور پھر وہ قہقہ لگا کر ہنس دیں۔

—••—

وہ کلاس میں بیٹھی تھی جب اچانک کچھ یاد آنے پر اپنا بیگ کھولا لیکن ایک دم سے چونکی۔اس کا سٹوڈنٹ کارڈ اس کے بیگ سے غائب تھا۔ ۔

   "سارہ میرا کارڈ تمہارے پاس ہے؟"اس نے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی سے سوال کیا۔

   "کون سا کارڈ؟"اس نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔

   "میرا کارڈ،سٹوڈنٹ کارڈ؟کیا وہ تمہارے پاس ہے؟"اس نے وضاحت دی تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔اس نے باری باری اپنی تمام دوستوں سے پوچھا تھا لیکن وہ کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔

   "یا اللہ!"اسے سہی معنی میں پریشانی نے آن گھیرا۔

   "کیا معلوم تم گھر بھول آئی ہو؟"اسے پریشان بیٹحا دیکھ کر سارہ بولی۔

   "نہیں گھر پر نہیں ہے۔۔۔میں ہمیشہ کارڈ یہیں رکھتی ہوں۔۔۔"وہ ایک بار پھر سے اپنا بیگ دیکھتے ہوئے بولی۔

   "کیا معلوم کہیں گر گیا ہو؟"

   "کہاں گر سکتا ہے یار؟"وہ اب رو دینے کو تھی۔

   "اچھا تم پریشان تو نہ ہو۔۔۔ہم مل کر ڈھونڈ لیں گے۔۔۔"ان نے اسے تسلی دی لیکن وہ مسکرا بھی نہ سکی۔

  

لیکچر ختم ہوتے ساتھ ہی وہ لوگ باہر نکلی تھیں۔

   "ہم ایسا کرتے ہیں کہ الگ الگ جا کر دیکھتے ہیں۔اگر اکٹھے دیکھیں گے تو بہت وقت لگ جائے گا۔۔"ان میں سے ایک نے مشورہ دیا تو سب اس کے مشورے پر عمل کرتے الگ الگ سمتوں کی جانب بڑھ گئیں۔

وہ کیفے کی جانب آئی تھی۔اس نے اپنے ذہن پر زور ڈالا۔کل جب وہ یہاں آئیں تھی تب اس کے ہاتھ میں صرف فون تھا،کیا صرف فون ہی تھا؟اس نے خود سے سوال کیا۔۔اب وہ اندر کی جاب بڑھ گئی اور کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے کے پاس آئی۔

   "کیا کل یہاں پر کوئی گرا ہوا کارڈ ملا تھا آپ کو؟"اس نے سوال کیا لیکن ہیہاں بھی اسے مایوسی ہوئی۔کارڈ یہاں پر نہیں تھا۔وہ بوجھل دل لئے باہر آگئی۔اب وہ وہیں آس پاس تلاش کر رہی تھی جب اپنے پاس اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔وہ فورا" سے پلٹی تو سامنے شناسا سا چہرہ دیکھ کر وہ تھوڑی پرسکون ہوئی۔یہ وہی لڑکا تھا جس نے اسے کل ان لڑکوں سے بچایا تھا۔

   "کیا یہ ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟"اپنی پینٹ کی پاکٹ سے اس نے ایک کارڈ نکال کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے سوال کیا۔اس نے اس کے ہاتھ کی جانب دیکھا۔یہ اسی کا کارڈ تھا۔خوشی سے اس کے چہرے کی رنگت دمک اٹھی۔

   "یہ آپ کو کہاں سے ملا؟"اس کے ہاتھ سے کارڈ پکڑتے اس نے سوال کیا۔لہجے میں دبا دبا سا جوش تھا جبکہ آنکھوں میں ایک انوکھی چمک تھی۔وہ کچھ پل اس کی آنکھوں کو دیکھتا رہا اور پھر سرعت سے نظروں کا زاویہ بدلا۔

   "کل یہیں پر گرا ہوا تھا۔۔۔"اپنے مخصوص انداذ میں جواب دیتے اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے مکمل گریز کیا تھا۔

   "تھینک یو سو مچ!! کل کے لئے بھی اور آج کے لئے بھی۔۔۔"اس نے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا۔وہ مسکرا رہی تھی اور مسکراتے ہوئے اس کی آنکھیں مزید خوبصورت لگ رہی تھیں یوں جیسی وہ بھی ہونٹوں کے ساتھ مسکرا رہی ہوں۔

  ہاں اس کی آنکھیں اس کے ہونٹوں کے ساتھ مسکراتی تھیں۔۔۔یہ اس نے خود سے سوچا تھا لیکن پھریکدم چونکا۔یہ وہ کیا سوچ رہا تھا آخر؟ فورا" سے اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا۔

   "مسٹر۔۔۔"

   "ضیغم۔۔۔ضیغم سلطان۔۔۔"لہجہ اس کا دھیما تھا یوں جیسے کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بولا ہو۔

   "آلرائٹ،مسٹر ضیغم سلطان! اٹس سو نائس ٹو میٹ یو۔۔"وہ اب بھی مسکرا رہی تھی۔وہ بھلا کیوں مسکرا رہی تھی؟اسے نہیں مسکرانا چاہئے تھا،ابھی تو بالکل بھی نہیں!

   "بٹ ناٹ سو نائس فار می۔۔۔"یہ اس نے خود سے سوچا تھا لیکن جواب میں مروتا" مسکرا دیا۔

ضیغم سلطان فارمیلیٹیز میں پڑ رہا تھا اور کیا یہ ایک انہونی بات نہیں تھی؟

   "زرقہ،ملا کارڈ یا۔۔۔۔"سارہ جو ابھی یہاں آئی تھی اسے "اس" کے ساتھ کھڑا دیکھ کر اس کا سوال منہ میں ہی دم توڑ گیا۔وہ آنکھیں پھیلائے حیرت اور شاک سے ان دونوں کو دیکھنے لگی۔

   "انٹل دِن۔۔۔۔"وہ مسکراتے ہوئے کہتا واپس پلٹ گیا جبکہ سارہ اس کے پاس آئی۔

   "کیا میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ سچ تھا؟"

   "کیا؟"اس نے ناسمجھی سے سوال کیا۔

   "ضیغم سلطان مسکرایا تھا کیا ابھی؟"وہ اب بھی اس جانب ہی دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گیا تھا۔

   "ہاں،کیوں؟اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے؟"

   "زری یار، مسٹر چارمنگ مسکرائے تھے،سمجھ رہی ہو نا؟وہ بھی ایک لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔"اس نے گہرا سانس بھری اپنا سر جھٹکا۔

   "باقی باتیں بعد میں کر لینا ابھی چلو۔۔۔"اسے تقریبا" کھینچتے ہوئے وہ اپنے ساتھ واپس لے گئی۔سورج نے بھی بادلوں کے ساتھ اٹھ کلیاں کی تھیں۔ساتھ ہی بھینی بھینی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔اچانک سے سب کچھ بہت اچھا لگنے لگا تھا۔

—••—


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?