Tu Hai Kahan By Mah...
 
Share:
Notifications
Clear all

Tu Hai Kahan By Mahi Episode 3

1 Posts
1 Users
0 Reactions
7 Views
(@mahammahmood76)
Active Member Customer
Joined: 3 months ago
Posts: 4
Topic starter  

رات کے تقریباً پونے تین بجے وہ گھر لوٹا اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔کمرے میں خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔سوئچ بورڈ پر اس نے ہاتھ مارا توسارہ کمرا روشنی میں نہا گیا۔

دروازہ بند کرتا وہ سائڈ ٹیبل تک آیا،والٹ اور گاڑی کی چابیاں ٹیبل پر رکھیں پھر وارڈروب کی جانب بڑھا،ٹراؤزر شرٹ نکالا اور باتھروم میں گھس گیا۔

کچھ دیر بعد جب وہ باہر نکلا تو اس کے بال گیلے تھے جنہیں وہ تولیے سے رگڑ رہا تھا۔یونہی بالوں کو تولیے سے رگڑتے وہ کمرے میں موجود روم ریفریجریٹر تکآیا،اس میں سے پانی کی ٹھنڈی بوتل نکالی پھر اس کے گھونٹ بھرنے لگا۔

یونہی پانی پیتے اس کی نظر بک ریک پر پڑی اور اس کی عقاب جیسی آنکھوں نے لمحے کے ہزارویں حصے میں اسے بتا دیا کہ بکس کی ترتیب چھیڑی گئی ہے۔وہقدم قدم چلتا ریک کی جانب بڑھنے لگا۔جیسے جیسے وہ قریب آرہا تھا،اس کی پیشانی پر شکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

   یا اللّٰہ۔۔۔کتابوں کی ترتیب دیکھ کر اس کا دماغ بھک سے اڑا۔کتابوں کے جو سیٹس بنا کر ترتیب سے رکھے گئے تھے،ان کی جگہیں تبدیل کر کے کہیں اوررکھا گیا تھا۔اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا۔اس نے اپنے دماغ پر زور ڈالا۔کل کے تمام مناظر فلیش بیک کی طرح اس کے ذہن میں چلنے لگے۔

کل صبح زارا خاص مہمان کے آنے کی اطلاع دے رہی تھی،پھر اس خاص مہمان کے آنے کے چند اور واقعات ذہن میں گردش کرنے لگے اور ان تمام واقعات اورمناظر میں جو چیز کامن تھی وہ اس کے کمرے کی چیزوں کا ردوبدل تھا۔

   یہ ہیں ویل ایجوکیٹڈ،ویل مینرڈ بھانجی صاحبہ۔۔۔غصے سے کہتے اس نے اپنا سر جھٹکا اور کتابوں کو دوبارہ ترتیب سے رکھنے لگا۔اس کے کمرے کی کوئیچیز اس کی جگہ سے ہل جائے،بھلا اسے کہاں گوارہ تھا یہ؟

 

یہ کوئی چوتھی بار اس کے دروازے پر دستک ہوئی تو اس کی آنکھ کھلی۔باہر شاید کوئی ملازم تھا جو وقفے وقفے سے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔وہجھنجھلاتے ہوئے بستر سے اٹھا اور دروازے تک آیا۔

   کیا مصیبت ہے؟جب بندہ کچھ نہیں بول رہا تو مطلب سو رہا ہے۔کیوں جاہلوں کی طرح دروازہ کھٹکھٹائے جا رہے ہو؟وہ دروازہ کھولے دبا دبا سا غرایا۔یقیناًنیند ٹوٹنے کا غصہ تھا۔

   اب بول بھی چکو؟کیا مسئلہ پڑ گیا ہے صبح صبح؟اسے خاموش کھڑا دیکھ کر وہ پھر سے بولا تو ملازم ڈراسہما سا کہنے لگا۔

   آپ کو بڑے صاحب بلا رہے ہیں ڈائننگ ٹیبل پر۔۔اس نے فوراً سے سکندر صاحب کا پیغام اس تک پہنچایا۔

   ان کو بتایا نہیں تھا کہ میں سو رہا ہوں؟وہ اب بھی اِسی طرح سوال کر رہا تھا۔

   جی بتایا تھا لیکن وہ کہتے کہ پھر بھی آپ کو اٹھاؤں۔۔۔وہ بیچارہ ڈر کے مارے گردن نہیں اٹھا پارہا تھا۔اُس نے چبھتی نظروں سے اس کی جانب دیکھا اورپھر بغیر کوئی جواب دیے واپس کمرے کی جانب مڑا۔

   چھوٹے صاحب،بڑے صاحب غصہ۔۔۔

   فریش ہو جاؤں کیا؟اس کا جملہ بیچ میں کاٹے وہ سختی سے بولا تو ملازم کی جان میں جان آئی۔صد شکر اب اسے بڑے صاحب سے ڈانٹ نہیں پڑے گی۔پہلےجو اس  چہرے پر اضطراب تھا،چھٹ چکا تھا اِسی لئے وہ فوراً سے واپس دوڑ گیا۔

وہ اپنا سر جھٹکتے فریش ہونے کی غرض سے باتھروم میں گھس گیا۔

اور پھر وہ جب فریش ہوئے نیچے آیا تو ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسیوں پر وہ تینوں بیٹھے تھے۔سربراہی کرسی پر سکندر صاحب،دائیں جانب زمام اور اس کے ساتھزارا۔جِینہ سکول جا چکی تھی۔

وہ چلتا آیا،ایک کرسی دھکیلی اور اس پر بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھتے ساتھ ہی ملازم آگے بڑھا لیکن اس نے ہاتھ سے اشارہ کیے اسے وہیں روک دیا پھر خود گلاساٹھایا اور اورنج جوس اس میں انڈیلنے لگا۔

وہ خود پر ان تینوں کی نظریں محسوس کر سکتا تھا لیکن اگنور کیے سکون سے گلاس سے سِپ لینے لگا۔

   کل کہاں پر تھے تم؟سکندر صاحب کے اسپاٹ انداز پر اس نے ان کی جانب دیکھا،گلاس سے ایک اور سِپ لیا اور پھر گلاس واپس ٹیبل پر رکھا۔

   کہیں نہیں،بس دوستوں کے ساتھ تھا۔۔اس نے سکون سے جواب دیا جبکہ اس کے جواب پر سکندر صاحب نے اپنے جبڑے بھینچے۔

   جب تمھیں معلوم تھا کہ گھر پر گیسٹس انوائٹڈ ہیں تو پھر کیا ضرورت تھی دوستوں کے ساتھ جانے کی؟

   آئی ایم سوری،لیکن میری دوستوں کے ساتھ کمیٹمنٹ تھی اور۔۔۔۔ابھی وہ بول رہا تھا جب وہ بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ گئے۔

   تمہاری کمیٹمنٹ میری کمیٹمنٹ سے زیادہ اہم ہے؟ان کا لہجہ اونچا نہیں تھا لیکن سخت ضرور تھا جبکہ وہ پرسکون بیٹھا رہا۔

   کون سا کوئی خاص گیسٹ تھے جن کی موجودگی پر میرا یہاں ہونا ضروری تھا؟ویسے بھی آپ سب گھر پر موجود تھے۔میرے نہیں خیال سے میرا موجود ہوناضروری تھا۔۔۔اس نے جملہ مکمل کیے جوس کا سِپ بھرا۔

   بکواس بند کرو اپنی۔مشل خاص طور پر تمہارے لئے آئی تھی۔۔۔وہ دبا دبا سا غرائے۔

   تو وہ کب نہیں آتی ڈیڈ؟اب میں اس کے لئے اپنے کام چھوڑ کر نہیں آسکتا۔۔۔اب کی بار اس کا لہجہ بھی سنجیدہ تھا جبکہ اس کی بات سن کر ان کیپیشانی پر شکن پڑی۔

   تو یہ اس کا بھی گھر ہے۔اس کا جب دل چاہے گا وہ یہاں آئی گی،سمجھے تم؟اور کون سے ایسے کام ہیں تمہارے جنھیں تم چھوڑ نہیں سکتے؟

   مجھے اس کے یہاں آنے سے پرابلم نہیں ہے،مجھے اس کی میری غیر موجودگی میں میرے روم میں جانے پر پرابلم ہے۔۔۔وہ صرف اپنی مرضی کے سوال کےجواب دیتا تھا۔اس کی بات پر سکندر صاحب نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا،زمام اور زارا بھی اس کی بات پر چونکے۔

   یہ اب کیا بکواس ہے؟

   یہ بکواس نہیں ہے،سچ ہے۔اپنی بھانجی سے کہیے کہ میرے پرسنلز میں گھسنے کی کوشش مت کرے۔میں اب تک خاموش ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہےکہ وہ میری خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھائے۔۔۔

   پسند ناپسند اپنی جگہ،لیکن تمھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم اس پر الزام لگاؤ۔بھلا اسے کیا ضرورت پڑی ہے تمہارے کمرے میں جانے کی؟ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ اپنی بھانجی کے خلاف ایک لفظ بھی سنتے۔

   یہ تو وہی زیادہ بہتر بتا سکتی ہے۔۔اپنے کندھے جھٹکتے کہتا وہ سکون سے اپنی جگہ سے اٹھا لیکن جاتے جاتے پلٹا اور ان کی جانب دیکھا۔

   کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ میرے اور اپنے  بیچ دوسروں کو موضوع گفتگو بنا کر بات نہ کیا کریں؟اس کا لہجہ اب کی بار اسپاٹ تھا جبکہ ان کی پیشانی پرشکن پڑی۔

   اس سے صرف دوریاں اور خلشیں بڑھیں گی۔اور کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے رشتے میں مزید دوریوں اور خلشوں کی گنجائش ہے؟اس کا لہجہ ہنوز ویسا ہیتھا جبکہ ان نے ضبط سے اس کی جانب دیکھا اور اس سے پہلے وہ کچھ کہتے،وہ ڈائننگ روم سے باہر نکل گیا۔انہوں نے بےبسی سے پہلو بدلا۔

   اٹس اوکے ڈیڈ،آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔زمام نے مسکراتے ہوئے انہیں تسلی دی لیکن جواب میں وہ مسکرا بھی نہ سکے۔

                              —••—

وہ معمول کے مطابق اپنی کلاس لے کر باہر نکلی لیکن باہر سٹوڈنٹس کا جم غفیر دیکھ کر ٹھٹھک کر رکی۔

   یہاں کیا ہو رہا ہے؟وہاں کھڑی ایک لڑکی کو اس نے پکارتے سوال کیا تو وہ فوراً سے بولی۔

   بزنس ڈیپارٹمنٹ کے چند لڑکوں کی ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے لڑکوں کے ساتھ لڑائی ہو گئی ہے۔۔۔

   کسی نے ڈین کو انفارم کیا ہے کیا؟اب وہ واقعتاً پریشان تھی جبکہ لڑکی نے اپنے کندھے اچکائے اور دوبارہ سامنے کی جانب متوجہ ہو گئی۔

اس نے افسوس سے ان سب کو دیکھا اور تیزی سے راستہ بناتی ڈین کے آفس کی جانب بڑھنے لگی۔

آفس کے قریب پہنچ کر اسے دروازہ کھٹکھنے کی آواز آئی اور جیسے جیسے وہ قریب جا رہی تھی آواز تیز ہوتی جارہی تھی۔

وہ مزید آگے آئی تو آواز ڈین کے آفس سے آرہی تھی۔آفس کا دروازہ باہر سے کسی نے کنڈی لگا کر بند کیا ہوا تھا اور اندر سے مسلسل کھٹکھٹایا جا رہا تھا۔اس نے فوراً سے کنڈی کھولی۔

   کس اسٹوپڈ نے دروازہ بند کیا تھا؟دروازہ کھلتے ساتھ ہی ڈین دبا دبا سا غرائے۔

   آئی ڈونٹ نو سر لیکن وہاں لڑائی ہو رہی ہے اور میں وہی بتانے آئی تھی لیکن۔۔۔وہ وضاحت دیے خاموش ہو گئی۔اس کی بات سنے ڈین تیزی سے آگے بڑھے۔

طلباء کا جم غفیر اب تک ویسا ہی تھا۔کچھ دلچسپی تو کچھ ہاتھوں میں فون پکڑے منظر دیکھنے اور ریکارڈ کرنے میں مشغول تھے۔

   موو اسائڈ۔۔۔موو۔۔۔ڈین کی بھاری رعب دار آواز نے طلباء کے جم غفیر کو توڑا اور سب خود ہی پیچھے ہونے لگے۔

   کیا ہو رہا ہے یہ؟آر یو گائس ان یور ڈیمن سینسس؟وہ غصے سے ڈھارے اور ان کی دھاڑ سن کر لڑتے جھگڑتے لڑکے رکے۔

   اور آپ سب۔۔۔اب وہ پلٹے اور باقی طلباء کی جانب متوجہ ہوئے۔

   کیا تماشا لگا رکھا ہے یہاں؟یہی سب کچھ سیکھ رہے ہیں یہاں سے؟آپ میں اور جاہلوں میں کیا فرق باقی بچا ہے جب آپ نے بھی لڑائی رکوانے یا کسی کوانفارم کرنے کے انہیں کی طرح اپنے فون میں سب کچھ ریکارڈ کرنا ہے؟غصے سے ان کی رنگت سرخ پڑ رہی تھی جبکہ ان کی بات پر ہر سو سناٹا چھا گیا۔

   جس کو دیکھو ہاتھ میں یہ فون پکڑے ریکارڈنگ میں لگا ہوا ہے۔آج لڑائی ہو رہی ہے،کل کو کوئی ایکسیڈنٹ یا کوئی قتل ہوگا تب بھی آپ سب یہی کریں گے۔اگرآپ کی پڑھائی آپ کو یہی سب سیکھا رہی تو پھر کیا فائدہ ایسی پڑھائی کا؟جب یہ آپ کو انسان ہی نہیں بنا سکی تو پھر اور کیا بنائے گی؟گھر بیٹھیںسب،کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں آنے کی۔۔۔وہ اب بھی غصے سے بول رہے تھے۔جبکہ سب سناٹے میں گھرے کھڑے تھے۔ان کی شخصیت میں رعب تھا کہ کوئیکچھ کہہ ہی نہ سکا۔وہ پلٹے۔

“Come to my office immediately!”

پھر ان لڑکوں سے کہتے وہ اپنے آفس کی جانب بڑھ گئے جبکہ باقی کے سٹوڈنٹس ایک دوسرے سے نظریں چراتے آہستہ آہستہ اپنی اپنی کلاسز کی جانب بڑھنےلگے۔

                               —••—

یہ منظر کیفے کا تھا جہاں وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔کافی کے کپ بھاپ اڑا رہے تھے اور ساتھ میں ٹیبل پر سینڈوچز بھی سرو کیے گئے تھے۔

   ہاں تو اب بتاؤ؟بھانجی پیاری نے اب کیا حرکت کی ہے؟سینڈوچ کی بائٹ لیتے حامز نے سوال کیا جبکہ اس کے سوال اور انداز پر برہان نے اسے گھورا۔

   اچھا آئی ایم سوری! حسنِ مآب،ماموں کے سر کا تاج،مس مشل مراد نے اب کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟اب تو  ٹھیک ہے ناں؟سینڈوچ واپس پلیٹ میں رکھے وہمسکراتی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

   حامز کبھی تو انسان بن جایا کر اور یہ مشل مراد کہاں سے ہو گئی؟وہ کافی جھنجھلایا ہوا لگ رہا تھا۔

   بس مجھے سینٹینس کا ریتھم رفیق کے ساتھ اچھا نہیں لگا تو مراد لگا دیا۔ویسے بھی رفیق لگاؤ یا مراد،اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔پسند تو وہ تجھے نہ رفیقکے ساتھ آنی ہے نہ مراد کے۔۔۔آخر میں کہہ کر وہ ہنس دیا۔

   جسٹ شٹ اپ حامز! فضول بکواس کروا لو تم سے بس۔۔۔اب کی بار اس نے اسے ٹوکا تو وہ بھی سنجیدہ ہوا۔

   کیا ہوا ہے یار؟پریشان لگ رہا ہے۔۔وہ اب سنجیدگی سے اس سے مخاطب تھا۔

   تو پہلے فضول بکواس کر لے۔۔۔

   اچھا نا مذاق کر رہا تھا۔مجھے لگا شاید بھانجی پیاری نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔۔۔

   اور تجھے لگتا ہے کہ میں ایک لڑکی کو ہینڈل نہیں کر سکتا؟اوہ کم آن!!!”اسے اس کی سوچ پر افسوس ہوا۔

   ہاں لیکن اگر لڑکی بھانجی پیاری ہو تو پھر تو ہینڈل کرنا مشکل ہے۔۔۔اپنی مسکراہٹ دباتا وہ اسے تنگ کرنے سے بعض نہیں آیا۔

   فوراً سے پہلے اپنی شکل گم کر!!! میں اب ایک سیکنڈ بھی تیری شکل برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔وہ اسے ہاتھ سے اٹھنے کا اشارہ کرنے لگا جبکہ حامز سرجھکائے ہنس دیا۔ہنستے ہنستے یونہی بیساختہ نگاہ اس کی دروازے کی جانب اٹھی اور مسکراہٹ فوراً سے سمٹی۔

   اوئے وہ دیکھ بھانجی پیاری نہیں وہ؟دروازے کی جانب دیکھتا اب وہ قدرے سنجیدگی سے بُرہان سے سوال کر رہا تھا۔

   بکواس نہ کر حامز۔۔۔

   نہیں میں بالکل سیریس ہوں یار وہ دیکھ،بھانجی پیاری ہی ہے وہ۔۔۔اوہ نو! اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور وہ یہاں آرہی ہے۔۔۔اس نے کہتے ساتھ ہی ٹیبل سےمینیو کارڈ اٹھایا اور اپنے منہ کے آگے کر لیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔وہ ان کو دیکھ چکی تھی اور اب یہیں آرہی تھی۔

   ہیلو ہان،وٹ آ پلیسنٹ کوائنسیڈنٹوہ کافی خوشی اور حیرت سے اس سے مخاطب تھی جبکہ اس کے برعکس برہان کے چہرے کے تاثرات اسپاٹ تھے۔

   میرا نام برہان ہے۔۔۔اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے باور کروایا لیکن اس کی بات کو نظرانداز کرتے وہ مسکراتے ہوئے کرسی دھکیلے ان کے ساتھبیٹھ گئی۔

   اوہ حامز تم بھی ہو؟سوری میں نے تمھیں دیکھا نہیں۔کیسے ہو؟اب وہ حامز سے سوال کرنے لگی جبکہ اس کی اس حرکت پر وہ کلس کر رہ گیا۔

   ہنہ بگڑی رئیس زادی! اتنا ہینڈسم لڑکا اسے نظر نہیں آیا کیا؟اس کا بھی الگ سے حساب ہوگا۔۔اس نے بس یہ سوچا تھا بولا تو بس یہی۔

   میں بالکل ٹھیک ہوں بھا۔۔۔آئی مین مس۔۔وہ فوراً سے گڑبڑایا لیکن مشل نے خاص نوٹس نہیں کیا۔اس کی توجہ کا مرکز صرف وہ شخص تھا جو بیزار سابیٹھا کافی کے گھونٹ بھر رہا تھا۔

“Would you like to join me for dinner?”

وہ مسکراتے ہوئے بڑے مان سے اس سے پوچھ رہی تھی۔

   نو تھینکس!”اس نے اسی طرح سپاٹ انداز میں جواب دیا اور حامز کی جانب متوجہ ہوا۔

   مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے تو پھر ملتے ہیں۔۔۔وہ اس سے کہتا اٹھا۔

   ٹھیک ہے،میں بھی چلتا ہوں۔۔

If you please excuse us!

آخر میں مشل سے کہتا وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور پھر دونوں کیفے سے باہر نکل گئے جبکہ پیچھے مشل آنکھوں میں ڈھیروں جذبات لئے اسے جاتا دیکھتی رہی۔

                              —••—


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?