Tu Hai Kahan By Mah...
 
Share:
Notifications
Clear all

Tu Hai Kahan By Mahi Episode 2

1 Posts
1 Users
0 Reactions
27 Views
(@mahammahmood76)
Active Member Customer
Joined: 3 months ago
Posts: 3
Topic starter  


یہ منظر یونیورسٹی کا ہے جو کہ اس وقت طلباء سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔کچھ طلباء لیکچرز لینے کے لئے کلاس رومز میں جا رہے تھے تو کچھلیکچرز سےفارغ ہوئے کینٹین کا رخ کرنے لگے۔
اِسی افرا تفری میں اگر یونیورسٹی کے فٹبال کورٹ کی جانب بڑھا جائے تو یہاں بھی طلباء کا جمِ غفیر لگا ہوا تھا۔
وجہ یہ تھی کہ سینئرز اس وقت میچ کھیل رہے تھے اور میچ خاصی دلچسپ صورتِ حال اختیار کر چکا تھا۔
اگر گولز بورڈ کی جانب دیکھا جائے توٹیم اےکے تین گولز تھے اورٹیم زیکے دو۔میچ کا ایک مرحلہ ختم ہو چکا تھا اور اب پندرہ منٹ کی بریک تھی اسکے بعد آخری مرحلہ شروع ہونا تھا۔
سب کھلاڑی ایک بار پھر سے اکٹھے ہوئے اور آگے کا لاحیہ عمل طے کرنا لگے۔
   کچھ بھی ہو جائے،ان پینتالیس منٹ میں ہم نے ٹیم اے کو گول کرنے سے روکنا ہے۔میں لیڈ کروں گا ہمیں فٹبال دوسری ٹیم کے کھلاڑی کے پاس جانے سےروکنی ہے۔روحان تم نیٹ کے پاس پاس رہو گے،زیب تم مجھے کور کرو گے اور تم۔۔۔۔وہ شاید ٹیم ذی کا لیڈر تھا جو ہر کھلاڑی کو ان کی جاب بتا رہا تھا۔چہرےپر اس وقت سنجیدگی چھائی ہوئی تھی جبکہ دھوپ اور مسلسل بھاگنے کی وجہ سے سارا جسم پسینے سے شرابور تھا اور سفید رنگت گلابی پڑ رہی تھی۔
پلاننگ جب ختم ہوئی تو لیڈر نے اپنا ہاتھ رکھا،پھر باری باری ساری ٹیم میٹس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور پھر ہاتھ ہوا میں لہرائے۔
اب دھوپ اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔شہد رنگ آنکھیں جو کسی کو بھی تسخیر کرنے کا ہنر رکھتی تھیں اس وقت مزید پرکشش لگ رہی تھیں۔
ریفری نے سیٹی بجائی۔بریک ختم ہو چکی تھی۔دونوں ٹیمیں ایک بار پھر سے میدان میں آئیں۔
فٹبال بیچ میں پڑا تھا اور پھر ایک بار پھر سے سیٹی کی آواز گونجی تو کورٹ میں اچانک ہلچل مچ گئی۔پلاننگ کے مطابق ٹیم زی نے دو گول کر لئے تھے اور اباگر بورڈ کی جانب دیکھا جائے تو دونوں ٹیمیوں کے برابر گولز تھے۔
اب کھیل ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ بچے تھے۔کورٹ کے ارد گرد بیٹھے اور کھڑے طلباء اب مزید دلچسپی سے گیم دیکھنے لگے۔ہر گیم کے آخری مراحل ہمیشہجان لیوا ہوتے ہیں۔
فٹبال اب ٹیم زی کے لیڈر کے پاس تھی۔اس کے آس پاس ٹیم اے کے کھلاڑیوں نے گھیرا ڈال رکھا تھا تاکہ کسی طرح اس سے بال چھین لیں۔
لیڈر نے ایک نگاہ اپنے ارد گرد ڈالی اور بس پھر وہی ہوا جو پلان کا حصہ تھا۔لیڈر نے مہارت سے بال ان کھلاڑیوں کے درمیان سے پھینکی جو سیدھا اس کےساتھی کے پاس گئی  اور وہ کھلاڑی بھی مہارت اور پھرتی سے بال نیٹ کے پاس لے جانے لگا۔
شائقین کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑی تھی۔
ٹیم زی کے سپورٹرز نے دم سادھ لیے۔
اور پھر اس سے پہلی بال نیٹ کی جانب اچھالتا ٹیم اے کے ایک کھلاڑی نے بال چھین لیا اور تیزی سے اپنے گول کی جانب بڑھنے لگا۔
ایک تو یہ جان لیوا مراحل کے جان لیوا لمحے!
   زیب،سنیچ،سنیچ،سنیچٹیم اے کے کھلاڑی کے ایک طرف ٹیم زی کا لیڈر تھا اور دوسری طرف زیب جو لیڈر کے ساتھ تھا۔
زیب نے کوشش کی بال چھیننے کی لیکن ناکام رہا۔گیم ختم ہونے میں پچاس سیکنڈز رہتے تھے۔
اب کے لیڈر آگے بڑھا اور بال لینا چاہی لیکن ٹیم اے کے کھلاڑی نے بال اپنے دوسرے ساتھی کی جانب پھینک دی۔
تیس سیکنڈز باقی بچے تھے۔
بیس سیکنڈز باقی بچے تھے۔بال ابھی تک ٹیم اے کے پاس تھی۔
ٹیم اے کا لیڈر ٹیم زی کے لیڈر کی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا اور یہ مسکراہٹ عام تو ہرگز نہیں تھی۔اور بس،یہی وہ لمحہ تھا جب بال ٹیم زی نے ٹیم اے سےچھین لی۔
کورٹ میں اونچی آواز میں سب طلباء کاؤنٹ ڈاؤن کرنے لگے اور کچھ اپنی اپنی ٹیم کی سپورٹ مئی نعرے لگانے لگے۔
   ٹینبال اس وقت زیب کے پاس تھی اور نیٹ ابھی کافی دور تھا۔
   نائنبال اب زیب نے اسد کی جانب پھینکی تھی اور اب اسد تیزی سے بال کو پاؤں کے ذریعے نیٹ کے قریب لے کر جا رہا تھا۔
   ایٹاس سے پہلے اسد بال کو لیڈر کی جانب پھینکتا،ایک بار بال پھر سے ٹیم اے کے کھلاڑی نے چھین لی تھی۔
   سیونٹیم زی کا لیڈر اب تیزی سے بال کے تعاقب میں بھاگ رہا تھا۔
   سکس،فائیواور بالآخر ٹیم زی کا لیڈر بال چھیننے میں کامیاب ہوگیا۔
   فوربال تیزی سے پچ پر دوڑ رہی تھی۔
   تھرینیٹ بس کچھ ہی فاصلے پر تھا۔سب کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔
   ٹوبس یہ سوچنے کا لمحہ نہیں تھا بس عمل کرنا تھا اور پھر ٹیم زی کے لیڈر نے زور سے بال کو کِک ماری۔
   وناور بس یہاں ریفری نے سیٹی بجائی اور وہیں بال نیٹ میں گھسی۔بس ایک لمحے،ایک سیکنڈ نے سارا منظر بدل دیا تھا۔ٹیم زی یہ میچ جیت چکی تھی۔اچانک سے کورٹ میں خوشی کی لہر دوڑی اور جوش سے سپورٹرز چیخے تھے۔
ٹیم زی کے کھلاڑی بھاگتے ہوئے لیڈر تک آئے اور اسے کندھوں پر بیٹھا لیا۔جوش سا جوش،خوشی سی خوشی تھی۔ٹیم زی کے لیڈر نے بھی نعرہ لگایا اور ہنسدیا۔وہی ہنسی جس کی دیوانی ایک دنیا تھی۔
دوسری جانب ٹیم اے کے کھلاڑی مایوسی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے۔پہلے جو جوش تھا وہ جھاگ کی ماند بیٹھ گیا اور چہرے پر اچانک مایوسیدکھائی دینے لگی تھی۔
یہ ناکامی کا اَثر تھا لیکن وقتی تھا۔پروفیشنلز ہار کو اپنے سینے سے لگا کر نہیں رکھتے بلکہ اسے ایکسپٹ کرتے ہیں اور اگلی بار جیتنے کا ارادہ کیے اور محنتاور جدوجہد کرتے ہیں،اپنی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور جو ہار کو قبول نہیں کرتا،اپنی غلطی نہیں مانتا،اسی زعم میں غلطیاں کرتا ہے وہ کبھیکامیاب نہیں ہو سکتا۔
اب دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے سے مل رہے تھے،ایک دوسرے کو سراہ رہے تھے اور پھر کھیل ختم ہوگیا۔فٹبال کورٹ آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا تھا۔
اِسی اثنا میں وہ بھی تولیے سے اپنا پسینہ خشک کرتا کورٹ سے باہر نکلا تو لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد نے اسے گھیر لیا۔وہ اچانک ہی غیر آرامدہ ہوا تھا۔
کچھ اس کے ساتھ سیلفی لینے کی خواہش کر رہی تھیں تو کچھ اس سے اس کا فون نمبر مانگ رہی تھیں۔
وہ سب سے معذرت کرتا جگہ بناتا آگے بڑھ گیا۔اب زیب بھی اس کے ساتھ چل رہا تھا۔
   ویسے کس قدر بدتمیز ہو تم۔کیا ہوجاتا اگر تم سیلفی بنوا لیتے؟کتنا اصرار کر رہی تھیں سب۔۔۔اس نے اسے ٹوکنا اپنا فرض سمجھا تھا جبکہ اس کی بات پراس کی پیشانی پر بیشمار شکنیں پڑیں۔
   اتنا مسئلہ ہو رہا ہے تو خود کیوں نہیں بنوا لی سیلفیز؟اس کے لہجے میں واضع طنز تھا جبکہ اس کی بات پر اس نے سرد آہ بھری۔
   تمھیں کیا لگتا ہے کہ اگر یہ لڑکیاں مجھ سے سیلفی یا فون نمبر کا کہتیں تو میں انکار کر دیتا؟وہ اب چونکتے ہوئے اس سے سوال کرنے لگا۔
   کتنے ترسے ہوئے ہو تم شاہزیب۔۔۔اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
   ہاں تم تو یہ کہو گے ہی۔بغیر کسی محنت کے ساری یونیورسٹی کی لائم لائٹ تمھیں حاصل ہے،یو نو،دا پاپولر گائے!”اس نے سرد آہ بھری تھی جبکہ اب کیبار اس نے اپنا سر جھٹکا۔
   اس کمپلیکس سے نکل آؤ زیب صرف حسن ہی معنی نہیں رکھتا۔محنت کرو،کسی مقام پر پہنچو پھر یہ جو لوگوں کو آج تمہاری خامی لگ رہی ہے کل کو یہیلوگ تمہارے مقام،تمہاری کامیابی پر تمھیں سراہیں گے،داد دیں گے۔پھر لوگ یہخامیتھوڑی نہ دیکھیں گے بلکہ تمہاری کامیابی کے خول میں یہ خامی کہیںچھپ جائے گی۔لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں_سیلفش،مطلبی وہانسانکو اس کے کردار کے لحاظ سے نہیں پرکھتے وہ اسےرتبےاورمقامکے مطابق جانچتےہیں۔پہلے جو لوگ آپ کے بارے میں برا بھلا  کہتے ہیں آپ کی کامیابی پر سراہنے میں سب سے آگے وہی لوگ ہوتے ہیں۔یو نو،ہائپوکریسی! لوگ بہت منافق ہوتے ہیںاور تم ایسے لوگوں سے امید کرتے ہو کہ یہ تمھیں سراہیں؟وہ کافی سنجیدہ لگ رہا تھا لیکن لہجہ نہ سخت تھا نہ نرم۔
   خود کو اگر کامیاب دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے دل سےلوگوںکے سراہے جانے کی خواہش چھوڑ دو۔خود کو خود سراہو،کامیابی پر خود اپنا کندھا تھپک کرخود کو داد دو،خود سے مخلص رہو خود کو خود موٹیویٹ کرو کیوں کہ لوگ تمھیں گرائیں گے ضرور لیکن اٹھانے کے لئے کوئی ہاتھ پکڑنے نہیں آئے گا۔
تمھیں خود کا سہارہ خود بننا ہے۔گرتے وقت اگر ٹھوکر لگے تو خود سنبھل کر اٹھنا ہےوہ ایک بار پھر سے خاموش ہوا۔
   تمھیں معلوم ہے کامیابی کا سب سے بڑا راز کیا ہے؟اب وہ اس سے سوال کر رہا تھا۔زیب کا سر نفی میں ہلا۔
   کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے کہ تم جان لو کہ مشکل میں تمہارا مددگار،تمہارا خیرخواہ، تمہارا ساتھی تمخودہوبس اب وہ گفتگو ختم کر چکا تھا۔وہ زیادہ بولتا نہیں تھا لیکن جب بولتا تھا تو بہت اچھا بولتا تھا۔زیب کچھ دیر اسی ٹرانس میں کھڑا رہا ہوش میں تب آیا جب وہ آگے بڑھ گیا۔
   تم کہاں جا رہے ہو؟شاید میچ سے پہلے ہماری ڈیل ہوئی تھی۔۔۔وہ پیچھے سے چلایا تھا لہجہ اب کی بار پھر سے نارمل تھا۔اس کی آواز پر وہ رکا لیکن مڑانہیں۔
   آج کا ڈنر ساری ٹیم کا تمہاری طرف سے تھا۔تم بھول گئے کیا؟اب وہ اپنا بیگ کندھے پر سیدھا کیے اس طرف آرہا تھا۔
اس نے اپنا چہرہ موڑا اور پھر گردن ترچھی کیے زیب کی جانب دیکھا،اپنا بازو اوپر اٹھایا اور الٹے ہاتھ کی دوسری انگلی اسے دیکھاتے آگے بڑھ گیا جبکہپیچھے زیب ہکدھک سا کھڑا رہ گیا۔
گھٹیا آدمی!”اس کی باتوں کا جو فسوں اس پر طاری تھا،یکدم جیسے ٹوٹ گیا تھا۔
                                  —••—                                 
گاڑی میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا اور سفیان احمد اور حامز پیچھے بیٹھے تھے۔حیدر (سفیان احمد کا بڑا بیٹا) بھی اسوقت ان کے ساتھ تھا اور پیسنجر سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔
سفیان احمد آنکھوں پر ریڈنگ گلاسیز لگائے فون پر کچھ پڑھ رہے تھے جب حامز کھنکھارا۔اس کی کھنکھار پر حیدر اور سفیان احمد،دونوں اس کی جانب متوجہہوئے۔
   پریذیڈنٹ۔۔۔میرا مطلب بابا۔۔۔ان کے گھورنے پر اس نے فوراً سے تصحیح کی جبکہ حیدر نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔
   آپ نے جو کچھ بھی سنا وہ سب میں زرقہ کو تنگ کرنے کے لئے کہہ رہا تھا۔میں جانتا تھا کہ آپ گھر پر ہیں (کاش واقعی جانتا ہوتا) لیکن میں بس اسے چیککرنا چاہتا تھا کہ وہ کیا جواب دے گی (کاش میں وہ سب بکواس نہ کرتا) اور بھلا ایسا کب ہوا ہے کہ آپ نے مجھے اپنی کسی چیز کو لینے سے انکار کیا ہو؟اسکے آخری جملے پر حیدر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔وہ مکھن لگا رہا تھا اور سفیان احمد بھی یہ بات جانتے تھے۔
   جی بالکل اور وہ گھڑی تو میں نے وصیت میں آپ کے حصے میں بھی ڈلوا رکھی تھی بیشک حیدر سے پوچھ لووہ بھی اس کے باپ تھے اور باپ تو پھر آخرباپ ہی ہوتا ہے۔ان کے جملے پر اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
   کیا اسی گھڑی کی بات ہو رہی ہے جو دادا نے آپ کو دی تھی؟حیدر اب کی بار سفیان احمد سے تصدیق چاہ رہا تھا۔سب جانتے تھے کہ حامز کو وہ گھڑیکتنی پسند تھی۔
   ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔آئی ایم سوری! معاف کر دیں پریذیڈنٹ صاحب!”اس نے بالآخر اپنی غلطی مان لی۔
   یو شوڈ بی! اور یہ تم مجھے کس نام سے مخاطب کرتے ہو؟آخر میں وہ تھوڑا برہمی سے بولے۔
   اگر میں آپ کو امی کا سرتاج کہوں گا تو بھی آپ غصہ ہوں گے اِسی لیے یہی مجھے ٹھیک لگا تو میں نے کہہ دیا۔۔۔وہ بڑے مزے سے کندھے اُچکائے کہہ رہاتھا جبکہ حیدر قہقہ لگا کر ہنس دیا۔سفیان احمد کا چہرہ گلابی پڑا تھا۔
   حامز تم شاید بھول رہے ہو کہ یہ میری گاڑی ہے اور میں ایک منٹ سے پہلے تمھیں باہر نکال سکتا ہوں۔۔۔وہ دبا دبا سا بولے۔
   حیدر دیکھو تو پریذیڈنٹ صاحب بلش کر رہے ہیں۔۔۔ان کی دھمکی پر تو اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ وہ قدرے جوش سے حیدر کو کہہ رہا تھا۔
   حامز۔۔۔اور اب یہ واضِع وارنگ تھی کہ اب ایک اور لفظ اور وہ باہر!
   اچھا اچھا،سوریاس نے فوراً سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر معذرت کی جبکہ سفیان احمد اب بھی تنبیہی نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔اور باقیکا راستہ وہ واقعی خاموش رہا تھا۔آفس آچکا تھا۔حیدر اپنی طرف کا دروازہ کھولے باہر نکل گیا۔سفیان احمد نے بھی ابھی ہینڈل پر ہاتھ رکھا جب حامز ان کیجانب جھکا۔
   ویسے بلش کرتے ہوئے آپ بہت کیوٹ لگتے ہیں۔۔۔کان میں سرگوشی کیے وہ برق رفتاری سے گاڑی سے باہر نکل گیا۔سفیان احمد نے اپنے دانت پیسے غصےاور بے بسی سے اس کی جانب دیکھا تھا لیکن یہاں پرواہ کسے تھی؟
                  —••—                              
   "زارا! برہان کہاں ہے؟اُسے بتایا نہیں تھا کہ گیسٹ نے آنا ہے؟"زارا جو ابھی اپنے کمرے میں آئی تھی اور برہان کو ہی کالز کرنے کی کوشش کر رہی تھی،زمامکے پکارنے پر اُس کی جانب متوجہ ہوئی۔
   "میں نے اُسے بتایا تھا اور کالز بھی کر رہی ہوں لیکن فون آف جا رہا ہے اُس کا۔۔۔"اُس کے لہجے میں پریشانی واضع تھی۔
   "ایک تو یہ لڑکا بھی جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتا ہے۔۔۔۔"زمام کے لہجے میں خفگی تھی"اب میں باہر جا کر کیا کہوں بابا سے کہ وہ فون نہیں اٹھارہا؟"اب کی بار اُس نے جھنجھلا کر کہا۔
   "اچھا آپ پریشان نہ ہوں،آجائے گا وہ۔۔۔۔"اُس نے اُسے پرسکون کرنا چاہا۔
   "کیسے پریشان نہ ہوں؟بابا کے غصے کا سب کو اچھے سے اندازہ ہے اور انکل مسلسل اس کا پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔"اُسے اب غُصہ چڑھنے لگا تھا۔
   "ریلیکس زمام! آجائے گا وہ۔۔۔میں کہہ تو رہی ہوں آپ سے۔۔۔"اُس نے ایک بار پھر تسلی دینا چاہی۔اُسے کم از کم برہان سے اس حرکت کی امید نہیں تھی۔وہکچھ پل وہیں کھڑا اُسے دیکھتا رہا پھر خود کو پرسکون کرتا باہر نکل گیا جہاں سب بیٹھے تھے۔
   "کیا کہہ رہا ہے برہان؟"سکندر صاحب کی بارعب آواز اُس کی سماعت سے ٹکرائی۔
   "وہ ٹریفک میں پھنس گیا ہے اُسے دیر ہو جائے گی آتے ہوئے۔وہ کہہ رہا ہے کہ آپ لوگ ڈنر کر لیں۔۔"اُس نے بہانہ بنایا جبکہ سکندر صاحب بہت اچھے سےجانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔وہ اپنے غصے کو قابو کرتے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رفیق علی کی جانب متوجہ ہوئے۔
   "میرے خیال سے ہمیں ڈنر کرنا چاہیے۔۔۔۔۔"اور اس سے پہلے وہ ملازم کو کھانا لگانے کا کہتے رفیق علی کی بیٹی مشل فوراً سے بولی۔
   "ہم تھوڑا اور انتظار کر لیتے ہیں،آجائے گا وہ۔۔۔۔"اُس نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے کہا،شاید خود کو تسلی دینی چاہی تو سکندر صاحب نے خاموش واسپاٹ نظروں سے زمام کی جانب دیکھا تو وہ نظریں چرا گیا۔
   "ہاں! ٹھیک کہہ رہی ہے مشل۔ابھی ویسے بھی بھوک نہیں لگی ہمیں۔۔۔۔"رفیق علی نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں بولے جس پر سکندر صاحب نے کوئی جوابنہیں دیا تھا۔زارا بھی باہر آگئی اور مشل کے ساتھ بیٹھ گئی۔
   "جین کہاں ہے؟وہ نظر نہیں آرہی؟"اُس کے بیٹھتے ساتھ ہی مشل نے اُس سے سوال کیا۔
   "وہ سو گئی ہے۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئی تھی۔۔صبح صبح جو اٹھ جاتی ہے۔۔۔۔"اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو وہ بھی مسکرا دی جبکہ مشلوقفے وقفے سے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی جانب بھی دیکھ رہی تھی۔
                             —••—
جب وہ لوگ گھر لوٹے تب شام کے سات بج رہے تھے۔باہر ان کی گاڑیوں کے علاوہ ایک اور گاڑی بھی کھڑی تھی یعنی گھر پر کوئی آیا ہوا تھا۔
لاؤنج میں گھستے ساتھ ہی کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے ان کا استقبال کیا اور سامنے ہی لاؤنج کے صوفوں پر آمنہ بیگم اور نور کے ساتھ ایک اور عورت اورمرد بیٹھے تھے۔
   السلام علیکمان تینوں کو ایک ساتھ آتا دیکھ کر وہ مرد مسکراتے ہوئے کھڑے ہوئے اور پھر سفیان احمد سے بگل گیر ہوئے پھر باری باری ان دونوں سے بھیاسی انداز میں سلام کیا۔
   یہ تو بہت اچھا کیا مرتضیٰ کہ تم آگئے۔۔۔سفیان احمد اب صوفے کی جانب بڑھتے ہوئے کہہ رہے تھے۔حیدر بھی ان کی تقلید میں چلتا آیا اور ایک صوفے پرٹک گیا لیکن حامز نے نامحسوس انداز میں پورے لاؤنج کا جائزہ لیا۔جانے کیوں دل ایک دم سے اچاٹ ہوا۔
   اور برخوردار، تم بھی لگ ہی گئے اپنے باپ کے ہاتھ۔۔۔وہ ابھی بھی ویسے ہی کھڑا تھا جب مرتضیٰ احمد نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔جواب میں وہبھی مسکرایا اور ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
   جی چاچو،آپ تو جانتے ہی ہیں انہیں۔۔۔اپنی بات کے پکے ہیں پھراس کی بات سن کر مرتضیٰ احمد ہنس دیئے جبکہ باقی سب بھی مسکرائے تھے۔
   ہاں تو جب گِھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو پھر انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہےوہ بھی اسی طرح سکون سے بولے۔حامز نے دل ہی دل میں ان کی حاضردماغی کو داد دی۔ملازم تب تک تینوں کے لئے جوس اور پانی ٹرے میں رکھے لے آیا۔
   ویسے اس بار کس دھمکی پر یہ مانا ہے؟اب کی بار وہ تعجب سے سفیان احمد کی جانب دیکھتے سوال کر رہے تھے۔
   ہیوی بائک!”سفیان احمد نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے جواب دیا تو مرتضیٰ احمد ہنس دیئے۔
   میں نے تو بابا سے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ حربہ استعمال کریں۔اینڈ سی،اٹ ورکس!”اب کی بار حیدر ہنسا جبکہ حامز نے شاکی نظروں سے اس کی جانبدیکھا۔
   بدلتے ہیں رنگ لوگ کیسے کیسے۔۔۔
   یو نو،کبھی نہ کبھی تو ہمیں یہ سٹیپ لینا ہی تھا تو پھر اب ہی کیوں نہیں۔۔۔اس کے جواب میں بس حامز نے شاک سے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
   ویسے باقی سب کہاں ہیں؟اس نے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے سرسری سے انداز میں سوال کیا۔
   سب یہیں پر ہی تو بیٹھے ہیں۔۔۔جواب نور کی جانب سے آیا تھا۔لہذا اور انداز سراسر شرارتی تھی۔وہ گڑبڑایا۔
   میرا مطلب ہے زرقہ کدھر ہے؟امل اور احد بھی نظر نہیں آرہے۔۔اب کی بار اس نے وضاحت دی۔
   سب اوپر زرقہ کے کمرے میں ہیں۔۔۔نور نےسبپر خاصا زور دیا اور زیرِ لب مسکرا دی۔حامز نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور پھر شریر سا مسکرادیا۔
   میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔وہ کہتا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔اچانک تھکن اتر گئی تھی۔
وہ سیدھا اوپر آیا لیکن اپنے کمرے کی بجائے زرقہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
   زری تم یہاں کیا کر رہی ہو؟نیچے سب۔۔۔اس نے دروازہ کھولتے ساتھ ہی زرقہ کو مخاطب کیا لیکن پھر ٹھٹھک کر رک گیا۔زرقہ کے ساتھ وہ بھی بیٹھی ہوئیتھی۔
   ارے صفا تم؟تم بھی آئی ہو ساتھ؟مجھے لگا بس چاچی چاچو آئے ہیں۔۔اب وہ حیرت سے اس کی جانب دیکھتا سوال کر رہا تھا جبکہ زرقہ نے اس کی جانبدیکھا۔اس کی اداکاری کمال کی تھی۔
   ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بابا ماما آئے ہوں اور میں گھر پر ہی ٹھہروں؟وہ جواب دینے کی بجائے سوال کر رہی تھی۔حامز ہنس دیا اور چلتا آگے آیا۔
   تم کدھر؟اسے اپنے پاس آتے دیکھ کر زرقہ نے سوال کیا۔
   کیا مطلب کدھر؟اُدھر ہو۔۔۔وہ اس کے سرہانے کھڑا کہہ رہا تھا۔
   میں نہیں ہو رہی۔ہم دونوں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔تم جاؤ جا کر فریش ہو۔۔۔وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلی۔
   کس قدر بےمروت ہو تم۔بھائی تھکا ہارا آفس سے آرہا ہے اور بجائے اس کی خدمت کرنے کے تم اس سے بحث کر رہی ہو؟
   ہاں تم تو جہاد سے آرہے ہو نہ جو تمہاری خدمت کی جائےاس نے اپنا سر جھٹکا۔
   دیکھ رہی ہو تم اسے؟بالکل ایسے۔۔۔بالکل ایسے یہ مجھ سے لڑائی جھگڑا کرتی ہے۔۔۔اب کی بار وہ صفا سے شکایتی انداز میں کہنے لگا۔وہ بس مسکرا رہیتھی،ایک لفظ بھی نہیں بولی۔
   جا رہا ہوں میں اور اگر اب کوئی کام ہوا نہ تمھیں مجھ سے تو میں پھر بتاؤں گا تمھیں۔۔۔خفگی سے کہتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
   کس پر گیا ہے یہ؟زرقہ نے ابرو اٹھائے صفا کی جانب دیکھتے سوال کیا اور پھر دونوں ہنس پڑیں۔
                               —••—

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?