Tu Hai Kahan by Mah...
 
Share:
Notifications
Clear all

Tu Hai Kahan by Mahi Episode 4

1 Posts
1 Users
0 Reactions
281 Views
(@mahammahmood76)
Eminent Member Customer
Joined: 1 year ago
Posts: 9
Topic starter  

وہ لوگ اس وقت کیفیٹریا میں بیٹھی تھیں۔یہ لیکچر ان کا فری تھا اور اس کے بعد دو لیکچرز لے کر آف ہونا تھا۔وہ بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھی تھی جب اس کے فون کی گھنٹی بجی۔اس نے فون دیکھا تو صفا کی کال آرہی تھی۔اس نے فون اٹھایا اور کان سے لگایا تو دوسری جانب سے وہ کچھ بولی لیکن سگنل بریک ہو رہے تھے جس کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آیا۔وہ اپنی دوستوں سے معذرت کرتی اٹھی اور کیفے سے باہر نکل گئی۔

   "ہاں اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھی تم؟"باہر آکر اس نے سوال کیا اور یونہی سرسری سی نگاہ آس پاس دوڑائی۔

   "میں کہہ رہی تھی کہ آج گھر کب تک آنا ہے تم نے؟"ااس نے اپنا پہلے والا سوال پھر سے دہرایا۔

   "خیریت؟آپ مجھے مس کر رہی ہیں کیا؟"وہ شرارت سے بولی جبکہ دوسری جانب سے اس نے منہ بنایا۔

   "ابھی اتنے بھی برے دن نہیں آئے میرے۔۔۔"اس کا جواب سن کر وہ ہنس دی۔

   "ابھی دو لیکچرز پڑے ہیں میرے۔۔۔ڈرائیور کو ٹائم بتا چکی ہوں میں۔۔۔ویسے سب خیریت ہے نا؟"اس نے بتایا اور ساتھ میں سوال بھی کیا۔

   "ہاں ہاں،سب ٹھیک ہے۔میرا دل کر رہا تھا آنے کو تو سوچا تم سے پوچھ لوں کہ کب تک تم فارغ ہو گی۔۔۔"

  “تم حامز کو کال کر دو۔ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے گا۔۔۔"وہ شرارت سے بولی۔

  "نہیں نہیں،تم واپسی پر مجھے یہاں سے لے جانا۔۔۔"اس نے فوراً سے کہا تو زرقہ نے اپنی مسکراہٹ دُبائی۔

   "اوکے محترمہ! جیسی آپ کی مرضی۔۔۔"پھر الوداعی کلمات کہہ کر اس نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔وہ واپس کیفیٹریا جانے لگی جب تین لڑکے آئے اور اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔ان کی یہ حرکت اسے ایک آنکھ نہیں بھائی تبھی پیشانی پر شکن پڑی۔

   "یہ کیا بدتمیزی ہے؟"اپنے لہجے کو مضبوط رکھتے اس نے ان کی جانب دیکھتے سوال کیا لیکن ان تینوں نے نظرانداز کر دیا۔

   "تم نے ہماری شکایت کی تھی؟"ایک لڑکا جو کافی غصے میں لگ رہا تھا،دبا دبا سا اس سے سوال کرنے لگا جبکہ اس کے سوال پر وہ چونکی۔

   "ایکسکیوز می؟"اس نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔وہ ان لڑکوں کو جانتی تک نہیں تھی کُجا کے شکایت کرنا!

   "ایسے پریٹنڈ مت کرو جیسے تم جانتی ہی نہیں کہ کس بارے میں ہم بات کر رہے ہیں۔۔۔"اس کا انداز ہنوز ویسا ہی تھا جبکہ زرقہ کو واقعی کچھ سمجھ نہیں آئی۔

   "مجھے واقعی سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔اِسی لئے میرا راستہ چھوڑیں۔۔۔"اس کا لہجہ مضبوط تھا۔

   "راستہ تو تب چھوڑیں گے جب تم سے حساب لے لیں۔۔۔"پہلا لڑکا پھر سے چبا چبا کر بولا جبکہ زرقہ کو بھی اب کی بار غصہ آیا لیکن اپنے لہجے کو کافی حد تک پرسکون رکھتے ہوئے بولی۔

   "دیکھیں آپ کو غلط فہمی۔۔۔"اس نے کچھ کہنا چاہا جب دوسرا لڑکا بدتمیزی سے اس کی بات کاٹ گیا۔

   "ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی اور زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے ساتھ۔ہمارے ساتھی نے خود تمھیں ڈین کے آفس جاتے دیکھا تھا۔۔۔"اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا جبکہ ڈین کے آفس کا سن کر وہ ٹھٹھکی۔اس کے ذہن میں اچانک کلک ہوا۔تو یہ لوگ کل والے واقعے کے بارے میں بات کر رہے تھے۔اس کا ذہن سب کچھ ڈیکوڈ کرنے لگا۔اسے اب سمجھ آئی تھی کہ یہ لوگ اتنے غصے میں کیوں تھے۔

   "اب جواب بھی دو گی یا ایسے ہی منہ سی کر کھڑی رہو گی؟"اسے یونہی خاموش کھڑا دیکھ کر وہ لڑکا پھر سے غرایا۔وہ اب حد پار کر رہے تھے۔اس نے اپنے ہاتھ کی مٹھی زور سے بند کی،یقیناً اس نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کی کوشش کی تھی۔

   "کیا ہو رہا ہے یہاں؟" تینوں لڑکے پیچھے سے آتی بھاری سنجیدہ آواز پر بیک وقت پلٹے تو وہ بھی اس جانب متوجہ ہوئی۔سامنے سے وہ اپنی بھرپور مردانہ وجاہت کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔

اس وقت اس نے بلیک کارگو پینٹ کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور ساتھ وائٹ ہی سنیکرز میں پاؤں قید تھے۔بال اس کے پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔ایک ہاتھ میں برینڈڈ گھڑی تھی اور وہ سنجیدہ تاثرات لئے اِسی جانب آرہا تھا۔

   "کیا ہو رہا ہے یہاں؟"اس نے باری باری ان تینوں لڑکوں کی جانب دیکھتے سوال کیا تو وہ گڑبڑائے۔

   "کچھ نہیں۔۔۔بس ویسے ہی۔۔۔"پہلے جو وہ بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے،اب بولتی بند ہو چکی تھی۔اس نے اب اس لڑکی اور پھر اس کی بند مٹھی کی جانب دیکھا۔صورتحال اسے سمجھ آرہی تھی تبھی بولا تو لہجہ سخت تھا۔

   "ہٹو سامنے سے۔۔۔"اس کے جملے پر ان نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔

   "سنائی دے رہا ہے کیا؟راستہ چھوڑو۔۔۔"اس کے انداز میں واضع وارننگ تھی تو فوراً سے وہاں سے غائب ہوگئے۔اب وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔

   "ٹھیک ہیں آپ؟"اب کی بار اس کے لہجے میں سختی نہیں تھی جبکہ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔وہ اس لڑکے کو جانتی نہیں تھی لیکن اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔وہ پوری یونیورسٹی میں اسٹون ہارٹ کے نام سے مشہور تھا۔

   "تھینک یو۔۔۔"وہ بس اتنا ہی بول پائی اور پھر تیزی سے کیفے کے اندر بڑھ گئی۔

—••—

رات کے گہرے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔امل کی طبیعت خراب تھی جس کے باعث نور جلدی کمرے میں چلی گئی تھی اور باقی سب بھی اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔

وہ بھی اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔بالوں کو جوڑے میں قید کیے وہ گم صم سی سکرین کو دیکھ رہی تھی۔اسے اسائنمنٹ بنانی تھی لیکن صبح والا واقعہ اس کے ذہن میں چپک گیا تھا۔اگر وہ لڑکے اس کے ساتھ کچھ غلط کر دیتے تو،آگے کی سوچ ہی جان لیوا تھی۔

حواس میں وہ فون کی بیل پر لوٹی۔فون اٹھایا تو حامز کالنگ لکھا آرہا تھا۔

   “زری،یار اٹھی ہو؟”اسپیکر پر اس کی آواز گونجی۔

   “ہاں کیا ہوا؟کہاں ہو تم؟”وہ بھی فوراً سیدھی ہوئی۔

   “گھر کے باہر کھڑا ہوں آکر جلدی سے دروازہ کھولو۔۔۔”اس نے اجلت میں کہا جبکہ وہ ٹھٹھکی اور فوراً سے اٹھی،پیروں میں چپل اڑستے تیزی سے کمرے سے باہر نکلی اور مین گیٹ کی جانب اپنے قدم بڑھائے۔

   “سنو زری شاہ کو سائڈ پر بھیج دینا پھر دروازہ کھولنا۔۔۔”حامز اب بھی فون پر تھا اسی لئے مزید تلقین کی تو وہ چلتی گارڈ کے پاس آئی۔

   “چچا پیچھے دیکھیں مجھے گھر کے پیچھے سے آواز آرہی ہے۔۔۔” اور پھر وہ جب بولی تو لہجہ اس کا لہجہ گھبرایا ہوا تھا تو کرسی پر بیٹھا گارڈ فوراً سے اٹھا اور اپنی گن کو ٹھیک کرتا تیزی سے گھر کی پچھلی جانب بڑھ گیا۔اس نے سے دروازہ کھولا تو حامز اندر آیا۔

   “کوئی انسانوں والی حرکت ہے تمہاری؟ایک تو تم گھر لیٹ آرہے ہو،اوپر سے چوروں کی طرح آرہے ہو پھر گارڈ کو بھی بھجوا دیا ہے۔۔خیریت تو ہے نا؟”وہ اب جانچتی نظروں سے اس کی جانب دیکھتی خفگی سے کہنے لگی۔

   “کہہ دیا تم نے یا ابھی اور بھی کچھ کہنا ہے؟”وہ ویسے ہی سکون سے کھڑا پوچھنے لگا۔

   “میں۔۔۔”اس نے مزید کچھ کہنا چاہا جب دروازے سے اندر آتے شخص کو دیکھ کر فوراً سے چپ ہوئی۔

آنے والے شخص نے سر کو خم دیئے سلام کیا اور پھر نظریں دوسری جانب پھیر لیں۔

اس نے “یہ کون ہے؟” والی نظروں سے حامز کی جانب دیکھا تو وہ بولا۔

   “ابھی اندر چلو اس سے پہلے شاہ واپس آجائے۔۔۔”اس نے فوراً سے کہا تو زرقہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔اس کے پیچھے حامز اور برہان بھی اندر آئے تھے۔

   “یار کھانے کے لئے کچھ پڑا ہے تو پلیز جلدی سے لا دو۔۔بہت بھوک لگی ہے۔۔۔”اس نے مزید کہا پھر برہان سے مخاطب ہوا۔

   “آجاؤ میرے کمرے میں چلتے ہیں۔تم فریش ہو جاؤ۔۔”اور اسے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

وہ کچن کی جانب بڑھ گئی۔کوئی خاص کھانا بنانا تو آتا نہیں تھا اسے اِسی لئے فریزر کھولا اور اس میں سے کباب نکال کر باہر رکھے پھر فرائنگ پین میں ہلکا سا آئل ڈال کر کباب اس میں ڈالے۔اچانک ہی کچن میں اشتہا انگیز خوشبو پھیل گئی۔اتنی دیر میں حامز بھی واپس آچکا تھا۔

   “واہ یار کیا بنا رہی ہو؟اتنی اچھی خوشبو آرہی ہے۔۔۔”اسے کمرے میں چھوڑے وہ بھی سیدھا کچن میں آیا تھا اور آتے ساتھ ہی سوال کیا۔

   “یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟”اس نے اس کے سوال کو نظرانداز کیے سوال کیا تو وہ مسکرا دیا۔

   “پاگل لڑکی دوست ہے میرا۔۔اور بھلا رات کے اس پہر میں کسے لے کر آؤں گا؟”اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا جبکہ زرقہ ابھی بھی آنکھیں چھوٹی کئے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔

   “اب کیا ایسے انویسٹیگیٹرز کی طرح گھور رہی ہو مجھے۔۔۔”وہ اب شیلف پر بیٹھتے اسے تنگ کر رہا تھا۔

   “تمھارا دوست کوئی مجرم ہے؟”وہ اب بھی سنجیدگی سے اس سے سوال کرنے لگی جبکہ اس کا سوال سن کر وہ پہلے چونکا اور پھر قہقہ لگا کر ہنس پڑا۔

   “مجرم؟؟سیریئسلی؟”اسے اچانک ہنسی کا دورہ پڑا تھا۔”کہاں سے وہ مجرم لگتا ہے یار؟”ہنسی کے دوران ہی وہ اس سے سوال کرنے لگا۔

   “حامز میں بالکل سیریس ہوں۔۔۔چوٹیں دیکھی ہیں تم نے اس کی؟اللّٰہ جانے کس سے لڑ جھگڑ کر آرہا ہے۔۔۔”وہ اب بھی کہنے سے بعض نہیں آئی لیکن کچن کے دروازے پر ہلکا سا کھٹکھا محسوس کر کے وہ پلٹی تو کچن کے دروازے میں اسے کھڑا دیکھ کر اس کی زبان کو بریک لگی۔

   “آیئے،آپ کے بارے میں ہی بات ہو رہی تھی۔۔۔”وہ اپنی ہنسی روکتا شیلف سے نیچے اترتے ہوئے شرارت سے بولا جبکہ زرقہ نے تنبیہی نظروں سے اُس کی جانب دیکھا۔

   “مجھے واپس جانا ہے۔۔۔بھابھی کی کالز آرہی ہیں۔۔۔”اس نے اس کی بات کو خاطر توجہ لائے بغیر اپنی کہی تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔وہ اب پین میں پڑے کباب پلٹنے لگی۔

   “یار ایسے کیسے؟اپنی حالت دیکھ۔۔۔”اس کے لہجے کی شوخی غائب تھی۔

   “تو اب کیا یہاں ہی بیٹھا رہوں؟اس طرح تو لوگ واقعی مجرم سمجھیں گے مجھے۔۔”اس نے بس یونہی کہہ دیا،واقعی اس نے بس “یونہی” کہا تھا لیکن زرقہ کو اپنے اوپر پانی کا گڑھا گرتا محسوس ہوا۔وہ اس کی بات سن چکا تھا جبکہ حامز نے اپنی مسکراہٹ دُبائی۔

   “اچھا چلے جانا لیکن پہلے کھانا تو کھا لو۔۔۔”اس نے کہا تو وہ وہیں کچن میں دوسری طرف موجود ماربل کے لمبے ٹیبل کے آگے پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔وہ بھی چلتا آیا اور کرسی گھسیٹے اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔

کباب بن چکے تھے اور وہ اب انہیں بریڈ پر پھیلائے سینڈوچ میکر میں رکھنے لگی۔وہ دونوں اب آپس میں بات کر رہے تھے۔

   “اب مجھے تفصیل بتاؤ کہ ہوا کیا تھا؟”وہ سنجیدگی سے اس سے سوال کرنے لگا۔

   “کچھ نہیں بس تھوڑی سی لڑائی ہو گئی تھی۔۔۔”وہ لاپرواہی سے کہہ رہا تھا یوں جیسے اسے کوئی فرق ہے نہ پڑا ہوا۔

   “تھوڑی سی؟”اس نے چونک کر کہا اور پھر اس کے ہاتھ کی جانب دیکھا جہاں پٹی بندھی ہوئی تھی،پھر نظریں دوسرے ہاتھ کی جانب موڑیں تو وہاں بھی بینڈیجز لگی تھی۔

   “ہاتھ تقریباً ٹوٹتے ٹوٹتے بچا ہے تمھارا اور تم کہہ رہے ہو کہ تھوڑی سی؟”اس نے جواب نہیں دیا بس یونہی بیٹھا رہا۔

سینڈوچ بن چکے تو وہ پلیٹس میں نکالے ان تک لائی اور سامنے رکھے۔

   “تھینک یو۔۔”اس نے بس ایک نظر اس پر ڈالی اور دوبارہ سے حامز کی جانب متوجہ ہوگیا۔وہ خاموشی سے کچن سے باہر نکل گئی۔

   “ایک منٹ رکنا۔۔۔”حامز فوراً سے کہتا اٹھا اور اس کے پیچھے کچن سے باہر نکلا۔

   “زری بات سنو۔۔۔”اس نے پیچھے سے اسے پکارا تو وہ رکی اور پلٹ کر اس کی جانب دیکھا۔

   “پلیز پریذیڈنٹ صاحب کو اس بارے میں مت بتانا۔۔۔”اس نے التجا کی۔

   “اچھا اور میں کیوں نہ بتاؤں؟”

   “کیوں کہ تم میری اچھی بہن ہو۔۔۔”وہ اب اسے مکھن لگا رہا تھا۔اس کی بات پر اس نے آنکھیں گھمائیں۔

   “لیکن تم بہت ہی فضول انسان ہو حامز”وہ کچن میں اس کے سامنے اپنی شرمندگی نہیں بھولی تھی تبھی جملہ مکمل کیے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی جبکہ وہ بس گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

جاری ہے۔۔

This topic was modified 9 months ago 2 times by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?