گھر میں صبح سے ہل چل مچی ہوئی ہے۔ امی تیاریاں ایسے کر رہی ہیں جیسے خدا نخواستہ میری رخصتی کر رہی ہیں۔ صبح سے مجھے تین بار پندرہ پندرہ منٹ کا لیکچر وقفے وقفے سے ملتا رہا ہے جس کا اختتام ہر بار کچھ یوں کیا گیا ہے کہ ”میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے کے تمہیں سمجھاؤں۔ کل جو میں نے کہا ہے وہ یاد رکھنا۔ کوئی بھی گڑ بڑ ہوئی تو یاد رکھنا میں تمہاری ماں ہوں۔“ اور اس کے بعد ایک بے حد خطرناک قسم کی گھوری سے نواز کر امی کوئی ضروری کام یاد آ جانے پر چلی جاتی رہی ہیں لیکن یہ جانا بھی کیا جانا ہے کہ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی بات پھر سے یادآ جانے پر واپس آ جاتی ہیں۔
میں صبح سے تیاریاں دیکھ رہی ہوں۔ ساتھ ساتھ امی اور دادی کی خوشی بھی۔ یوں جیسے اب کی بار تو انھیں مجھ سے چھٹکارا مل جانے کی نوید سنا ہی دی جائے گی۔ اب تو انھیں مجھ سے آزادی مل ہی جائے گی۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کیا انہوں نے پاپڑ بیلے؟ یقیناً نہیں۔ کیا انھیں آزادی مل جانی چاہیے؟ کسی بھی قیمت پر نہیں۔
دو گھنٹے کے مزید انتظار اور تین عدد تقریروں کے بعد بلاآخر شام کے ساڑھے چار بجے ان کے آنے کی نوید سنا دی جاتی ہے۔ میں پچھلے ایک گھنٹے سے تیار ہو کر اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ گرمیوں کا آغاز ہے سو اسی مناسبت سے میں نے ہلکا پھلکا نفیس سا لان کا جوڑا پہن رکھا ہے۔ بال اونچی پونی میں باندھ رکھے ہیں۔ میک اپ کرنے کا بالکل شوق نہیں ہے لیکن امی کی خطرناک قسم کی دھمکیاں سننے کے بعد ہلکا پھلکا سا وہ بھی کر ہی لیا ہے۔ جوتے میں ہیلز والے پہننے لگی تھی لیکن پھر سے امی کے نادر قول”گھر میں ہیلز پہننے کی کیا ضرورت ہے، فلیٹ پہنو“ اور ناچاہنے کے باوجود مجھے پہننے پڑے ہیں۔تیار ہونے کے بعد میں نے خود کو آئینے میں دیکھا اور یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ میں کافی سے زیادہ اچھی لگ رہی ہوں۔ لیکن ایک بات ہے، اور وہ یہ ہے کہ اتنا اچھا لگنے کے باوجود، خود کو بغور آئینے میں دیکھنے کے باوجود مجھے سُرخاب کے وہ پر نہیں دکھ سکے۔ یاد تو آ گیا ہو گا کون سے پر؟ ہاں جی وہی والے پر جن کی بدولت یہ منحوس رشتہ آ رہا ہے۔ لیکن خیر۔۔۔
تھوڑی دیر بعد امی آ کر مجھے آخری بار ہدایات دے گئی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہہ گئی ہیں کہ کچھ دیر بعد ملازمہ مجھے بلانے آئے تو میں کچن میں آ جاؤں۔ بلاآخر ملازمہ کا بلاوہ آ ہی گیا۔ اور اب بلاآخر مجھے پتا چلنے والا ہے کہ وہ عظیم انسان کون ہے جس کا رشتہ میرے لیے آیا ہے۔
میں صبح سے تیاریاں ہوتے دیکھ رہی ہوں لیکن میں کچن میں نہیں گئی تھی اور اب جو گئی ہوں تو اندازہ ہوا ہے کہ اصل تیاریاں تو کچن میں ہو رہی تھیں۔ اتنی چیزیں دیکھ کر میں تو حیران ہی ہو گئی ہوں۔ پچھلی دونوں بار امی نے اتنی تیاریاں بالکل نہیں کی تھیں۔ اس بار لگتا ہے کچھ زیادہ ہی خاص مہمان آئے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ میں ان کی خاصیت کو پرکھ نہیں سکتی کیونکہ ایک تو وہ مہمان ہیں دوسرا امی کی دھمکیاں بھی ہیں تیسرا سینکڑوں بار دہرائے جانے کی صورت میں مجھے حفظ بھی تو ہو چکی ہیں۔ کل ملا کر یہ کہہ لیتے ہیں میں تھوڑی بہت ڈر رہی ہوں۔ مان لیں بھئی کہ آپ کی بہن کو واقعی ڈر لگ رہا ہے۔ لیکن۔۔۔ تھوڑا سا۔
ملازمہ نے ساری چیزیں ترتیب سے سجا کر ٹرالی میں رکھ دی ہیں۔ یہ وہ ٹرالی ہے جو مجھے گھسیٹ کر لے کر جانی ہے۔ دوسری ٹرالی میں اس نے بقیہ چیزیں اور برتن رکھے ہیں جو وہ میرے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لے کر آنے والی ہے۔ آخری بار دوپٹہ ٹھیک کر کے ساری دنیا پہ لعنت بھیج کر میں بلاآخر ٹرالی کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے کر جا رہی ہوں لیکن پھر۔۔۔ پھر ہوا کچھ یوں کے ڈرائنگ روم کی طرف جاتے ہوئے اندر بیٹھے لوگوں کی آوازیں سن کر مجھے دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی رک جانا پڑا ہے۔ حیرت کی بدولت ماتھے پہ بل بھی پڑ گئے ہیں اور جونہی میں نے قدم اندر رکھا ہے سامنے موجود لوگوں کو دیکھ کر ڈارائنگ روم کا چھت، اس چڑیا گھر کا چھت اور اس کے اوپر موجودساتوں آسمان۔۔۔ سب کچھ ایک ساتھ ہی میرے سر پہ ٹوٹ پڑا ہے اور ٹوٹ کر گر پڑا ہے۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس وقت میرے سامنے کون موجود ہے؟ اس وقت میرے سامنے وہ انسان موجود ہے جس نے میری ہاسٹل کی روم میٹس اور حسن، حسین کے علاوہ سب سے زیادہ میرےجوتے کھائے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں اس نے میرے جوتے کھانے کے ساتھ ساتھ میری وجہ سے بلاوجہ ڈانٹ اور مار بھی ان گنت بار کھائی ہے۔ اب وہ مسکرا کر مجھے اندر آتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ بلکہ صرف وہ نہیں اس کے ساتھ آئے اس کے ماں باپ بھی اور ان کے ساتھ موجود میرے ماں، باپ بھی، دادی بھی اور حسن اور حسین بھی۔ یعنی ساری دنیا نے مل کر مجھے بے وقوف بنایا ہے۔ میں نے جلدی جلدی سب کی چائے ان کے سامنے رکھی اور باہر کی طرف بڑھ گئی کیونکہ اس سے زیادہ مروت میں اس وقت ہرگز نہیں دکھا سکتی۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اندر بیٹھا شخص کون ہے؟ اندر بیٹھا، مسکرا کر مجھے دیکھتا شخص طلحہ حیدر ہے۔ میں اس کے بارے میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی لیکن میری امی۔۔۔ ہر بار کی طرح میری امی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے کہا تم بھول گئی ہو تو کیا ہوا، میں نہیں بھولی۔ اپنی کہانی میں باقی سب کا ذکر کر رہی ہو تو اس کا ذکر بھی کرتی جاؤ۔ اب مجھے اپنی رگوں میں ابلتے خون کے ساتھ، غصے سے کھولتے دماغ کے ساتھ آپ کو طلحہ کے بارے میں بتانا ہی پڑے گا۔
☆☆☆☆
میں سیدھا اپنے کمرے میں آئی ہوں اور کمرے کا دروازہ ٹھاہ کی آواز کے ساتھ بند کیا ہے تاکہ باہر موجود میرے گھر والے اور گھر آئے مہمان سب جان لیں کے میں غصے میں ہوں۔ مجھے یہ بات بہت اچھے سے سمجھ آ گئی ہے کہ امی نے مجھے اس رشتے کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔ اگر وہ بتا دیتیں تو میں سنتے ہی انکار کر دیتی اور امی کو پتا تھا میں نے انکار کر دینا ہےتو بس۔۔۔ اسی لیے مجھے نہیں بتایا۔ اور یہ طلحہ۔۔۔ اسے تو میں بہت اچھے سے دیکھوں گی۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی میرا رشتہ بھیجنے کی۔ کیا یہ بچپن میں کھائے میرے سارے جوتے بھول گیا ہے؟ کیا اسے میری وجہ سے کھائی ڈانٹ اور مار تک بھول گئی ہے؟ آپ بھی کہہ رہے ہوں گے یہ اور کتنی پہلیاں بجھوائے گی، تو سنیں، بتا دیتی ہوں۔طلحہ میرے چھوٹے ماموں کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ہم دونوں تقریباً ہم عمر ہی ہیں۔ وہ مجھ سے دو تین سال ہی بڑا ہے۔ بچپن میں نانی کے گھر جانے پہ طلحہ اچھے بچوں کی طرح میری ہر بات ما ن لیا کرتا تھا۔ باقی کزنز بڑے تھے اور ہر وقت آرڈر دیتے رہتے تھے اس لیے میری ان سے زیادہ کبھی بن نہیں سکی۔ میں خود اپنی سن لیتی ہوں اتنا کافی ہے کسی دوسرے کی سننا میرے لیے ناممکن سی بات ہے پھر وہ تو میرے ناپسندیدہ کزنز تھے ان کی میں کس خوشی میں سنتی؟ بس اسی بات پہ میرا ان سے جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔
میں اور طلحہ جیسا کہ میں نے بتایا ہم عمر تھے تو ہماری آپس میں زیادہ بنتی تھی۔ میری بڑی خالہ اور بڑے ماموں کے بچے ہم دونوں سے کچھ سال بڑے تھے تو ہم دونوں کو آگے لگائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں تو ان کی بات نہیں مانتی تھی کیونکہ مجھے تو آپ جانتے ہیں۔ میں بچپن سے ہی ایسی ہوں لیکن طلحہ۔۔۔ وہ خاصا معصوم اور شریف ہوا کرتا تھا۔ چپ چاپ ان کی ساری باتیں مان لیا کرتا تھا۔ اس بات پہ پھر مجھے بہت غصہ آتا تھا اور اسی بات پہ وہ مجھ سے زیادہ تر جوتے کھاتا تھا۔ اسی بات پہ ہماری اکثر لڑائی بھی ہوا کرتی تھی اور اسی بات پہ میں ممانی سے اسے اچھی سی ڈانٹ اور کبھی کبھار مار بھی کھلا دیا کرتی تھی۔ ہماری بانڈنگ بہت اچھی ہوا کرتی تھی لیکن اب میں نانی کے گھر زیادہ نہیں جا پاتی۔ جب سے ہاسٹل گئی ہوں بمشکل ایک یا دو بار ہی گئی ہوں گی۔ نانی اکثر فون پہ کہتی ہیں تم تو عید کا چاند ہو گئی ہو لیکن میرے خیال سے میں عید کے چاند سے بھی گئی ہوں۔میرا اور طلحہ کا ایک دوسرے سے اب بھی رابطہ ہے لیکن وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچپن والی اب کوئی بات نہیں ہے اور اب ایک دم سے اس کا رشتہ آ جانا میرے لیے بے حد حیرانی کی بات ہے۔
کمرے میں آ کر کچھ دیر میں یہاں سے وہاں چکر کاٹتی رہی ہوں لیکن اب بیڈ پر بیٹھ گئی ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں۔ یہ میرے ساتھ میرے ہی گھر میں ہو کیا رہا ہے؟ ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر مسکراتے ہوئے وہ اندر داخل ہو رہا ہے۔ وہی جس کا نام طلحہ حیدر ہے۔ اس کو دیکھ کر اور مسکراتے ہوئے دیکھ کر میرا خون کھول رہا ہے۔ آخر امی کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آ جاتی کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی؟ چند ماہ پہلے جب میں نے ان سے صاف الفاظ میں کہا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو انھوں نے جواب میں بڑے آرام سے کہا۔ شادی کرنے کا کون کہہ رہا ہے ہم تو ابھی رشتہ دیکھ رہے ہیں۔ رشتہ طے کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ لیکن میرے بہت سمجھانے کے باوجود انھیں یہ سمجھ نہیں آ سکا کہ رشتہ طے کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ایک عدد منگیتر کا ہے، منگنی شدہ ہونے کے ٹیگ کا ہے۔ لیکن پھر۔۔۔ پھر وہی بات وہ میری کوئی بات سننے سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ میری باتیں سننے لگ جائیں تو میری زندگی کے آدھے مسئلے حل ہو جائیں مگر افسوس کے ساتھ میں اتنی اچھی قسمت لے کر اس دنیا میں نہیں آئی اور یہ طلحہ حیدر منہ اٹھا کر میرے کمرے میں آ کر آرام سے صوفے پہ بیٹھ گیا ہے۔ میں مسلسل اسے گھور رہی ہوں اور وہ مسکرا کر مجھے دیکھ رہا ہے۔
”یہاں کیا کرنے آئے ہو؟“ بلاآخر مجھے ہی اپنی زبان کو حرکت دینی پڑی ہے۔ اس کا تو اگلے دو سال تک مسکرانے کے علاوہ اور کچھ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔
”مجھے لگا تمہیں پتا چل گیا ہو گا کہ تمہارا رشتہ مانگنے آیا ہوں۔“ وہ حیران تو ایسے ہو رہا ہے جیسے مجھے واقعی میں نہ پتا ہو کہ وہ یہاں کس لیے آیا ہے اور میں حیران اس بات پہ ہو رہی ہوں کہ اس نے اپنی زبان کو کہاں سے اور کیسے تیز کروایا ہے۔ میری آخری معلومات کے مطابق تو وہ بہت شریف ہوا کرتا تھا۔
”اور کس خوشی میں میرا رشتہ مانگنے آئے ہو؟“ پوچھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بھئی دنیا میں لڑکیوں کی کیا کوئی کمی ہو گئی تھی جو میرا ہی رشتہ مانگنے آئے ہو۔ اگر شادی کرنے کا اتنا ہی شوق ہو رہا تھا تو بتا دیتے میں خود تمہارے لیے لڑکی ڈھونڈ دیتی۔ اس انداز میں مجھے زخمت دینے کی کیا ضرورت تھی۔
”امی نے کہا تمہاری پڑھائی مکمل ہو گئی ہے۔ تم نے اپنے ابو کا بزنس بھی جوائن کر لیا ہے اس لیے اب میں تمہاری شادی کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ کوئی لڑکی پسند ہے تو مجھے بتا دو۔ میں نے تمہارا نام بتا دیا۔“ وہ کندھے اچکاتے ہوئے اتنے آرام سے بتا رہا ہے جیسے اپنی اور میری نہیں کسی تیسرے اور چوتھے کی بات کر رہا ہو۔ مجھے اس سے کم از کم اتنے ڈائریکٹ انداز میں یہ بات کہنے کی توقع نہیں تھی۔ صدمے کے مارے میرا منہ کھل گیا ہے، غصے سے چہرہ لال ہو گیا ہے لیکن وہ ویسے ہی پرسکون انداز میں بیٹھا مسکرا رہا ہے۔ بدتمیزی کی انتہا ہے اور بے انتہا ہے۔ میں نے بے اختیار بیڈ کے نیچے جھانک کر اپنا کوئی ہیل والا جوتا تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ستیاناس ہو حسن اور حسین کا جو ہر وقت میرے جوتے چھپاتے رہتے ہیں۔ پندرہ سال کے ہو گئے ہیں دونوں لیکن دماغ کا درست استعمال ابھی تک نہیں آ سکا انھیں۔ اب بھی یہ انھیں کا کارنامہ ہو گا۔
اف۔۔۔ کیا کروں میں اپنے افلاطون بھائیوں کا۔ میں ان کی افلاطون بہن اپنے دونوں افلاطون بھائیوں کے سر دیوار میں دے مارنا چاہتی ہوں اور ابھی کے ابھی مارنا چاہتی ہوں لیکن ابھی۔۔۔ ابھی مجھے اپنے سامنے بیٹھے افلاطون کے اس تازہ تازہ مقرر ہوئے جانشین کو بھی تو دیکھنا ہے۔
”تمہیں بتانے کے لیے میرا ہی نام ملا تھا۔“ نہیں آخر میں ہی کیوں۔ کوئی مجھے آج بتا ہی دے آخر میں ہی کیوں۔۔۔
”ظاہر ہے۔ اب کیا میں منہ اٹھا کر ہر لڑکی کا نام دیتا رہوں گا۔ اتنا ایرا غیرا لگتا ہوں تمہیں۔“ ایک منٹ کیا یہ مجھے کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسے مجھ سے محبت وحبت ہے؟ اگر ایسا ہے تو مجھے اس کے لیے بے حد افسوس ہے اور مامی اور ماموں دونوں کے لیے اس سے بھی زیادہ ہے۔
”کیا میں یہ سمجھوں کے تم مجھے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے؟“ میری بے یقینی کسی طور کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ یہ بات واقعی میرے لیے کسی طور پر قابلِ قبول نہیں ہے کہ کسی کو مجھ سے، یعنی مجھ سے محبت ہے۔ اور وہ بھی طلحہ جیسے لڑکے کو ہے۔ حرا صداقت سے محبت دل گردے کا کام ہے اور طلحہ حیدر کے پاس اتنا بڑا دل اور گردہ نہیں ہوا کرتا تھا۔
”ہر وقت تو ذہین فطین بنی پھرتی رہتی ہو۔ ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی تمہیں کہ میں ہر کسی کے لیے مار اور ڈانٹ نہیں کھاتا رہا، صرف تمہارے لیے کھاتا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ تم سے بھی کھاتا رہا ہوں۔“ آخری بات اس نے قدرے آہستہ آواز میں کہی ہے لیکن مجھے سنائی پھر بھی دے گئی ہے۔
”تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟ تمہیں پتا بھی ہے کیا بکواس کر رہے ہو؟“ اس کے اس انداز پہ میرا ذرا سا دھیما پڑا غصہ پھر سے عود آیا ہے۔ ہیل والے جوتے نہیں ہیں تو کیا ہوا فلیٹ والے تو ابھی یہیں ہیں نا۔
”تھوڑی تو تمیز سے پیش آ جاؤ تمہارا ہونے والا شوہر ہوں۔“ مسکراہٹ سمیٹ کر وہ ذرا خفگی سے کہہ رہا ہے اور اب کی بار میرا ہاتھ جوتے تک چلا ہی گیا ہے جسے دیکھ کر وہ بلاآخر صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
”کہاں کے ہونے والے شوہر؟ میں نے تو ابھی تک ہاں نہیں کی۔“ وہ چلتا چلتا دروازے تک پہنچ گیا ہے۔
”لیکن تم نے ابھی تک جوتا بھی تو نہیں مارا جس کا مطلب ہے کہ تمہیں کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔“ اور بس اس بات پہ میں نے جوتا پورا زور لگا کر اس کی طرف پھینک ہی دیا ہے لیکن وہ خود میں میرے ہونے والے شوہر کی ساری خصوصیات پیدا کر کے آیا ہے۔ فوراً دروازے سے باہر نکل کر دائیں جانب مڑ گیا ہے۔ میرا نشانہ پہلی بار چوک گیا ہے۔
”کیا میں اسے ہاں سمجھوں؟“ بتیس کے بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے وہ سرکمرے کے اندر کر کے پوچھ رہا ہے اور جواب میں میں نے دوسرا جوتا بھی اس کی طرف پھینک دیا ہے لیکن وہ ایک بار پھر سے بچ گیا ہے۔
”میں پوری تیاری کر کے آیا ہوں۔ تمہارے جوتے اتنے تو میں نے کھائے ہی ہیں کہ اب ان سے کیسے بچنا ہے مجھے اچھی طرح سے پتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو تمہاری اس ایک بری عادت کے علاوہ تمہارے اندر اور کوئی خاص بری عادت نہیں ہے۔ میں آرام سے گزارا کر لوں گا اور ہو سکتا ہے شادی کے بعد تمہاری اس عادت میں کمی بھی آجائے۔“ دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑے وہ بڑے مزے سے کہہ رہاہے اور میں اپنے دونوں جوتے گنوانے کے بعد خالی ہاتھ بیٹھی دانت پیستے ہوئے اسے گھور رہی ہوں۔ اس کی زبان۔۔۔ آہ۔۔۔ اس کی زبان بالکل میرے جیسی تیز ہو گئی ہے۔ وہ واقعی اپنے اندر ساری خصوصیات پیدا کر کے آیا ہے۔ پوری کی پوری تیاری کے ساتھ آیا ہے۔
”کیا میں باہر جا کر پھر بتا دوں کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے؟ اصل میں سب انتظار کر رہے ہوں گے کیونکہ میں پھوپھو اور انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں۔انکل کو تو اعتراض تھا لیکن پھر پھوپھو نے اجازت دے دی۔ باقی میرے امی ابو کا تو تمہیں پتا ہی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ میں اور تم پرفیکٹ میچ ہیں۔ تم سے زیادہ اچھی لڑکی مجھے اس دنیا میں مل ہی نہیں سکتی۔ بچپن سے تم ہر جگہ میرا دفاع کرنے پہنچ جاتی رہی ہو اس لیے انھیں لگتا ہے کہ تم سے زیادہ میرا خیال اور کوئی رکھ ہی نہیں سکتا۔ ابھی بھی انھیں لگتا ہے کہ تم شرما کر اندر آ گئی ہو لیکن مجھے پتا تھا کہ تم غصے سے لال ہو کر اندر آئی ہو۔“ کیا اس بدتمیز انسان کو کسی نے بتایا نہیں ہے کہ لڑکیوں سے ایسے سوال اتنے ڈائریکٹ انداز میں نہیں پوچھا کرتے۔ کیا اس فضول انسان کو کسی نے بتایا نہیں ہے کہ لڑکی میرے جیسی خوبصورت ترین، ذہین فطین اور زبان کی تیز ترین ہو تب بھی وہ ایسے سوالوں کے جواب منہ اٹھا کر نہیں دے دیا کرتی۔ اگر کوئی جوتا میرے پاس رہ گیا ہوتا تو اس وقت وہ کھانا اس پہ فرض ہو گیا ہوتا۔
”بھاڑ میں جاؤ میری طرف سے۔“ اسے کہہ کر میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ہے اور وہ ایک قہقہہ لگا کر اب کی بار شکر ہے کہ واپس چلا گیا ہے۔ شادی کسی نہ کسی تو کرنی ہی ہے پھر اس سے کیوں نہیں جو مجھے اچھی طرح سے جانتا ہے۔ جسے میرے جوتوں پہ بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اور بقول جس کے اسے مجھ سے محبت بھی ہے۔ اوپر سے دکھنے میں بھی اچھا خاصا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا تو ہرگز نہیں ہے۔
جانے وہ باہر جا کر کیا بتائے گا لیکن اتنا پتا ہے کہ وہ کچھ برا ہرگز نہیں بتائے گا۔ مجھے پتا ہے کہ ابھی بابا انھیں کوئی جواب نہیں دیں گے۔ وہ مجھ سے پوچھ کر پھر کوئی جواب دیں گے اور میں ہاں کرنے کا سوچ رہی ہوں کیونکہ جب تک ہاں نہیں کہوں گی امی ایسے ہی میرے لیے رشتے دیکھتی رہیں گی۔ ان کی بلا سے مجھے بھلے ہی اعتراض ہو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے اب کی بار میں ان پہ رحم کھاتے ہوئے اور ان سے زیادہ خود پہ کھاتے ہوئے ہاں کہہ رہی ہوں۔
تین ہفتوں بعد گھر آ کر ایک بے حد برا ویک اینڈ گزار کر کل میں واپس جا رہی ہوں اور اگلی بار امی کے فون کر کے بے حد اصرار کر کے بلانے پہ آنے سے میں توبہ کرتی ہوں۔ جانے سے پہلے حسن اور حسین کو میرے جوتے چھپانے کی سزا دینا میں ہرگز بھی نہیں بھولنے والی ہوں۔ اور ہاں۔۔۔ مجھ سے اس طلحہ کا رشتہ چھپانے کی وجہ سے میں سب سے ناراض بھی تو ہوں۔
میری اس ویک اینڈ کی کہانی آپ کو پتا ہے۔ ساتھ ساتھ اپنی پچھلی زندگی کی کہانی بھی میں آپ کو بتاتی رہی ہوں اور طلحہ کے بارے میں جاننے کے بعد آپ میری اگلی زندگی کا نقشہ اب خود کھینچ ہی سکتے ہیں۔ ایک لڑاکا گھرانے میں پیدا ہونے کی سزا مجھے کچھ اس صورت میں ملی ہے کہ اب میں مرنے تک جھگڑے ہوتے ہی دیکھنے والی ہوں۔ جس گھر میں اب موجود ہوں وہ چڑیا گھر ہے۔ جس گھر میں جانے والی ہوں وہ چڑیا گھر بن جانے والا ہے۔ پاگلوں کے خاندان میں پیدا ہوئی ہوں اب آگے بھی ایک پاگل ملنے والا ہے۔ کیا آپ کو اب سمجھ آیا کہ میں نے اپنی کہانی کا نام”ہمارا کچھ نہیں ہو سکتا“ کیوں رکھا ہے؟ کیونکہ ہمارا واقعی کچھ نہیں ہو سکتا اور اب تو بالکل نہیں ہو سکتا۔ بس اتنا یاد رکھیں کے مجھے حرا صداقت کہتے ہیں۔ اپنا خیال رکھیں اور مجھے دعاؤوں میں یاد رکھیں۔ اور سنیں۔۔۔ میرے گھر والوں کو بھی یاد رکھیں کیونکہ میرا تو آ پ کو پتا ہے۔ ایسے انھیں اتنی آسانی سے چھوڑ کر تو میں کل ہرگز نہیں جانے والی ہوں۔
ختم شد