قسط نمبر 2
مجھے یاد نہیں پڑتا مجھے زندگی میں اتنا غصہ آج سے پہلے کبھی آیا ہو۔ مانا کہ میں لڑاکا ہوں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ہر وقت غصے میں رہتی ہوں یا یہ کہ مجھے ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ غصہ آتا ہے۔ میرا شمار ان بندوں میں ہوتا ہے جو خود ٹھنڈے رہ کر ساری دنیا کو گرم کیے رکھتے ہیں لیکن اس وقت جتنی گرم میں ہو رہی ہوں برفباری میں کھڑی کر دی جاؤں تب بھی ٹھنڈی نہیں ہو سکتی۔ امی نے بات ہی ایسی کی ہے کہ ٹھنڈا رہنا میرے لیے ناممکن سی بات ہے۔
آپ کہہ رہے ہوں گے یہ خود ہی بولتی رہے گی یا ہمیں بھی کچھ بتائے گی تو سن لیں، بتا دیتی ہوں۔ امی نے کہا ہے کہ کل کچھ لوگ میرا رشتہ مانگنے آ رہے ہیں۔ یہ اس سال میں آنے والا تیسرا رشتہ ہو گا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اس رشتے سے جان کیسے چھڑاؤں۔ پچھلے دو کو میں نے کیسے بھگایا تھا یہ بتانے کو رہنے دیتی ہوں۔ اب تک آپ کو میرا پتا تو چل ہی گیا ہو گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس بار امی نے رشتے کی بات بتانے کے بعد مجھے پورے آدھے گھنٹے کا لیکچر دیا ہے جس میں انھوں نے مجھے ہر طرح سے اس رشتے کو بھگانے کی صورت میں پیش آنے والے نقصانات بتانے کی کوشش کی ہے اور وہ کچھ ایسے بھیانک ہیں کہ انھیں سنتے ہوئے میں نے افسوس سے سوچا کہ آخر یہ سننے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گئی۔ اب میں پچھلے ایک گھنٹے سے جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر ٹہل رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں لیکن سوچ سوچ کر بھی کوئی حل سامنے نہیں آ رہا۔ ساتھ ساتھ ہر تھوڑی دیر بعد خود کو آئینے میں دیکھ کر سرخاب کے وہ پر تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں جن کی وجہ سے یہ رشتہ آ رہا ہے لیکن اس ایک گھنٹے میں افسوس کے ساتھ مجھے اپنے اندر سرخاب کے وہ پر کسی صورت نہیں دکھ سکے۔
ایک مصیبت یہ ہے کہ رشتہ آ رہا ہے۔ دوسری یہ ہے کہ یہ بھی نہیں پتا کس کا آ رہا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے میں نے امی سے پوچھا نہیں ہو گا؟ میں نے پوچھا تھا لیکن میں نے بتایا نا وہ میری امی ہیں اس لیے انھوں نے مجھے نہیں بتایا۔ کہتی ہیں کل تمہیں پتا چل جائے گا۔ اب یہ کیا بات ہوئی؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ امی جب تک خود کو میری امی ثابت نہ کر لیں ان کو رات میں نیند نہیں آتی۔ اوپر سے کسی کو بھی مجھے بتانے سے منع کر دیا ہے۔ حسن اور حسین چھوٹے ہیں اس لیے انھیں ایسی انفارمیشن سے دور رکھا گیا ہے۔ دادی کی منتیں کر لیں لیکن دادی نے میری پچھلی دونوں بار کی حرکتیں بتا کر مجھے بلاوجہ شرمندہ کرنے کی کوشش کی تو پھر میں نے ان کی مزید منتیں نہیں کیں۔ نہیں تو نہ سہی۔ ہنہہ۔ بابا غصے میں گھر سے گئے ہیں اوراب شام ہو گئی ہے لیکن ابھی تک واپس نہیں آئے۔ ویسے وہ آ جاتے تب بھی انھوں نے مجھے نہیں بتانا تھا کیونکہ امی نے کہہ دیا کے نہیں بتانا تو نہیں بتانا۔ اب دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے کسی نے میری نہیں سننی، کسی نے مجھے نہیں دیکھنا، سب نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینی ہیں لیکن بس مجھے نہیں بتانا۔ کوئی مجھے بتائے کیوں، کیوں، کیوں، آخر کیوں؟
دوپہر میں جب میں آئی تھی تب میرا منہ تھوڑا بہت بناتھا لیکن اس وقت میرا منہ کچھ ایسا بنا ہوا ہے کہ دیکھنے کے لائق ہے۔ بن بن کر سوجھ گیا ہے لیکن کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ اپنی ساری کوششیں کرنے کے بعد بھی جب کسی نےمجھے کچھ نہیں بتایا تو میں اس بنے ہوئے منہ کے ساتھ کمرہ نشین ہو گئی ہوں۔ جب کسی کو مجھے کچھ نہیں بتانا تو مجھے بھی کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔ ایسے تو پھر ایسے ہی سہی۔ ہنہہ۔
حسن اور حسین ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرے کمرے کے دروازے کو کھٹکھٹا کر جواب میں مجھ سے کچھ نہ کچھ سن رہے ہیں اور اس کے بعد اونچی آواز میں سب کو بتا رہے ہیں کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ یعنی سب اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں خوش کشی کرنے والی ہوں؟ یعنی اب میں خودکشی کروں گی؟ میں! یعنی حرا! خوش کشی کروں گی؟ میں جو ساری دنیا کو آگ لگا دیتی ہے، جو سب کو خود کشی کرنے پہ مجبورکر دیتی ہے، اب خود کشی کرے گی؟ انہوں نے آخرمجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟نہیں مطلب حد ہو گئی ہے، اور اب تو بے حد ہو گئی ہے۔ میں ساری دنیا کو آگ لگانے کے بعد، سب کو خودکشی پہ مجبور کر دینے کے بعد ہی مروں گی ایسے تو مرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن اب ان لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔ اب مجھے انھیں بتانا ہی پڑے گا کہ حرا صداقت سے پنگے لینا آخر ہوتا کیا ہے۔ اب مجھے اپنا آخری کارڈکھیلنا ہی پڑے گا۔ میں مجبور ہوں، آپ یقین کریں میں بہت مجبور ہوں۔
☆☆☆☆☆
بابا کچھ دیر بعد آ گئے تھے اور آنے کے بعد جب انھیں پتا چلا کہ میں گھر آئی ہوئی ہوں تو وہ فوراً میرے کمرے میں آئے لیکن چونکہ دروازہ بند تھا تو اندر نہیں آ سکے۔ کچھ دیر وہ کھڑے مجھے پیار سے بلاتے رہے، آوازیں دیتے رہے لیکن میں نے دروازہ نہیں کھولا۔ کھولنا ہوتا تو میں بند ہی کیوں کرتی؟ بابا کے جانے کے کچھ دیر بعد جب مجھے لگا کہ اب وہ سب سے پوچھ چکے ہوں گے کہ یہ کمرے میں کیو ں بند ہے، میں باہر نکلی اور سیدھا لان کی طرف چلی آئی۔ مجھے پتا ہے کہ سب اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہیں اور مجھے لان کی طرف جاتے ہوئے سب نے دیکھا ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ ابھی بابا میرے پیچھے آئیں گے اور اس کے بعد حسن اور حسین اور اس کے بعد۔۔۔ اس کے بعد کو رہنے دیتے ہیں کیونکہ اس کے بعد سے حلق کڑوا ہونے لگتا ہے۔
مغرب کچھ دیر پہلے ہو چکی ہے اور اب اندھیرا پھیل رہا ہے اس لیے لان میں بھی اندھیرا ہے اور بری بات یہ ہے کہ لائٹ بھی خراب ہے۔ میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ہوں اور چہرے پہ رونے والے تاثرات بھی سجا لیے ہیں لیکن یہ منحوس لائٹ۔۔۔۔ اسے بھی آج ہی خراب ہونا تھا۔ کرسی کا تھوڑا رخ بدل کر میں نے اندر کی طرف موڑ لیا ہے جہاں سے تھوڑی بہت روشنی باہر آ رہی ہے۔ کچھ دیر بعد ہی بابا باہر آ کر میرے ساتھ بیٹھ گئے ہیں۔ جب میں ہاسٹل نہیں رہتی تھی تب ہمیشہ ناراض ہونے کی صورت میں میں ایسے ہی لان میں آ کر اکیلے بیٹھ جاتی تھی اور پھر بابا مجھے منانے آتے تھے۔
اوہ۔۔۔ مجھے یاد آیا میں آپ کو ایک بات بتانا تو بھول ہی گئی۔ اب تک آپ نے خود بھی نوٹ کر لیا ہو گا لیکن خیرمیں پھر بھی بتا دیتی ہوں۔ میں دو بھائیوں کی ”اکلوتی“ بہن ہوں، ماں باپ کی اکلوتی ”بیٹی“ ہوں اور دادی کی اکلوتی ”پوتی“ ہوں۔ اور جب انسان اکلوتا ہوتا ہے تووہ کیا ہوتا ہے؟ وہ انسان لاڈلا ہوتا ہے۔ ٹھیک سمجھے ہیں میں بھی لاڈلی ہوں لیکن صرف بابا کی۔ امی اور دادی کی مجھ سے پکی قسم کی دشمنی ہے لیکن میں نے کبھی اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ میں جس ماحول میں پلی بڑھی ہوں وہاں راوی چین ہی چین لکھے تو عجیب سی بے چینی ہونے لگتی ہے اس لیے مجھے یہ دشمنی بالکل بری نہیں لگتی۔
ہاں۔۔۔ بابا کی میں لاڈلی پرنسس ہوں لیکن عموماً بابا کی پرنسس نازک مزاج ہوتی ہے مگر مجھے نازک مزاج ہونا بالکل پسند نہیں ہے۔ مجھ جیسا انسان نازک مزاجی افورڈ ہی نہیں کر سکتا۔ اس لیے مجھے اپنے بارے میں ”بابا کی پرنسس افلاطون ہے“ سننا بے حد پسند ہے۔
”اتنے دنوں بعد بندہ گھر آئے تو کیا ایسے منہ بنا کر سب سے ناراض ہو جانا اچھی بات ہوتی ہے؟“ بابا میرے ساتھ بیٹھے، میرے ہی انداز میں بیٹھے مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔
”اتنے دنوں بعد بندہ گھر آئے تو کیا اسے ایسے تنگ کرنا اچھی بات ہوتی ہے؟“ وہ میرے بابا ہیں تو میں بھی ان کی ہی بیٹی ہوں۔
”کسی کی اتنی مجال کے تمہیں تنگ کر سکے؟ اگر ایسی بات ہے تو یہ اس صدی کا بہت بڑا معارکہ ہے۔ بے یقینی کی حد تک حیران کن بات ہے۔“ بابا سنجیدہ تھے مجھے بھی مزید سنجیدہ ہونا پڑا اور جواب دینے کی بجائے خاموش رہنا پڑا۔ بابا کچھ دیر میرے جواب کا انتظار کرتے رہےلیکن پھر۔۔۔ پھر ایک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ میری طرف سے جواب نہ آنا یقین کریں بالکل خوش آئند بات نہیں ہوا کرتی۔
”اچھا مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔“ بابا اب اچھے خاصے سنجیدہ ہو گئے ہیں۔
”امی کہہ رہی ہیں کہ کل میرا رشتہ آ رہا ہے اور کس کا آ رہا ہے یہ وہ بتانے کو تیار نہیں ہیں۔ اوپر سے طے کر کے بیٹھی ہیں کہ کسی صورت انکار نہیں کریں گی۔ ان کی بلا سے میں بیشک بھاڑ میں جاؤں۔ دادی سے پوچھا وہ بھی نہیں بتا رہیں۔ حسن اور حسین پچھلے دو گھنٹے سے مجھے تنگ کر رہے ہیں اور سب مل کر میرے خود کشی کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔“ میں نے سنجیدگی میں فرق لائے بغیر لہجے کو بے حد اداس کر کے کہا ہے۔ اب بابا پوچھ رہے ہیں تو مجھے بتانے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟
”کل ان رشتے والوں کو آنے دو۔ فیصلہ تمہاری مرضی سے ہی ہو گا۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض ہوا تو مجھے بتا دینا میں سب کو دیکھ لوں گا۔“ اور اتنا تو میں جانتی ہوں جب بابا کہتے ہیں کہ وہ دیکھ لیں گے تو پھر بھلے ساری دنیا ایڑھی چوٹی کا زور لگا لے بابا آرام سے دیکھ لیتے ہیں۔ کیا اب آپ کو سمجھ آئی کہ میرا آخری کارڈ کیا ہوتا ہے؟ میرا آخری کارڈ ”بابا ود می“ ہوتا ہے۔ اب میں بے حد پرسکون ہو گئی ہوں اورواپس اندر جا کر سب کا سکون پرسکون انداز سے برباد کرنے والی ہوں۔
”ویسے بابا کیا آپ کو پتا ہے کل کون لوگ آ رہے ہیں۔“ بابا میری بات سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
”دیکھو، تمہاری ماں نے سختی سے منع کیا ہے اس لیے میں نہیں بتا سکتا۔ تم میرے کندھے پہ بندوق رکھ کر چلا رہی ہو لیکن یہ گولی پلٹ کر مجھے ہی لگے گی اور بہت زور سے لگے گی مجھے اس کا اندازہ ہے اور بہت اچھے سے ہے۔ اس لیے اب چپ چاپ اٹھو اور اندر چل کر کھانا کھاؤ کیونکہ تمہاری امی اور دادی پریشان ہو رہی ہیں کہ دوپہر کی آئی ہوئی ہے اور ابھی تک کچھ بھی نہیں کھایا۔ باقی سب کچھ بعد میں دیکھ لیں گے۔“ بابا نے کہنے کے ساتھ میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا ہے اور اب میں ان کے ساتھ اندر کی طرف جا رہی ہوں اور ساتھ باتوں باتوں میں پوچھنے کی کوشش بھی کر رہی ہوں لیکن بابا بھی میرے بابا ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں بلکہ اس وقت تو وہ امی کے شوہر ہونے کا پورا پورا ثبوت دے رہے ہیں لیکن خیر۔۔۔ اس بات کواب میں صبح ہی دیکھوں گی کیونکہ ابھی کھانا کھا کر مجھے ان سب کو بھی تو دیکھنا ہے اور ان سب کو میں ایسے دیکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں کہ کم از کم نیند مجھے بہت اچھے سے آ ئے گی۔ اب ان سب کو میں کیسے دیکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں یہ بتانے کو رہنے دیتی ہوں۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟ تو وہ اس لیے بھئی کیونکہ اب میں ہر بات آپ کو نہیں بتا سکتی۔ کچھ باتیں پرسنل ہوتی ہیں۔ سمجھا کریں۔
☆☆☆☆☆