Hamara Kuch Nehi Ho...
 
Share:
Notifications
Clear all

Hamara Kuch Nehi Ho Sakta by Malaika Ahmed Epi 1

1 Posts
1 Users
1 Reactions
252 Views
(@malaikaahmed)
Active Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 3
Topic starter  

قسط نمبر 1

یہ میں ہوں۔ مجھے حرا کہتے ہیں، حرا صداقت۔ یہ میرا گھر ہے جسے ہم چڑیا گھر کہتے ہیں۔ اسے گھر کو چڑیا گھر کہنے کی میرے پاس بہت سی وجوہات ہیں اور وہ ساری وجوہات میں آپ کو باری باری بتاتی جاتی ہوں۔ ویسے اس گھر کے چڑیا گھر ہونے سے صرف میں ہی نہیں سارا گھر متفق ہے۔ تو اس چڑیا گھر میں ایک عدد دادی پائی جاتی ہیں جن کے یہاں ہونے پہ اکثر مجھے ان کے لیے شدید افسوس ہوتا ہے۔دادی کے علاوہ ایک عدد میرے والدین کا جوڑا پایا جاتا ہے جن کی اولاد ہونے پہ مجھے اکثر نہیں ہمیشہ ہی افسوس رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دو عدد چھوٹے جڑوا بھائی ہیں جو میری ہی طرح بیچارے اور مظلوم ہیں اس لیے ان کے لیے مزید افسوس کا اظہار کرنے کا تکلف میں بالکل نہیں کرتی۔

میں آج پورے تین ہفتوں بعد ہاسٹل سے گھر آئی ہوں اور اس چڑیا گھر کو خاموش دیکھ کر حیران ہو رہی ہوں۔ اصل میں ہمارے گھر میں کچھ بھی نارمل نہیں ہوتا۔ یہاں ہر ابنارمل چیز کو نارمل تصور کیا جاتا ہے۔ نارمل گھرانوں میں خاموشی ہو سکتی ہے لیکن ہمارے اس چڑیا گھر میں خاموشی ہونا بالکل بھی نارمل بات نہیں ہوتی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ گھر میں اتنے کم لوگ ہونے کے باوجود میں اسے چڑیا گھر کیوں کہہ رہی ہوں؟ سوچ رہے ہیں نا؟ میں بتاتی ہوں۔

دراصل میرے جو والدین ہیں نا، لڑائی جھگڑا ان کا پسندیدہ کام ہے۔ ایک بھی دن لڑائی کے بغیر گزارنا دونوں کے لیے محال ہے۔ اور صرف یہی نہیں دن میں کئی کئی بار لڑنے میں انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بات ہو یا نہ ہو بحث ضرور ہو گی ورنہ کھانا ہضم نہیں ہو گا۔ میری اکیس سالہ زندگی میں بہت سوچنے کے بعد بھی مجھے کوئی ایسا دن یاد نہیں آتا جو لڑائی کے بغیر گزرا ہو۔ میری اس ساری تقریر کے بعد اب آپ جان گئے ہوں گے کہ خاموشی مجھے حیران کیوں کر رہی ہے۔ 

ایسا نہیں ہے کہ میں نے کبھی اپنے والدین کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے کی تھی لیکن جنہوں نے کبھی دادی کی بات نہیں مانی انھوں نے میری بات کیا ماننی تھی اس لیے میری کسی بھی بات کو انھوں نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔ تین سال پہلے میں نے ان کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر ایک دن امی کو بابا سے طلاق لینے کے نادر مشورے سے بھی نوازا تھا لیکن مصیبت میری ہی گلے پڑ گئی۔ امی کا سارا نزلہ مجھ پر گرا اور آپ کو تو پتا ہی ہو گا جب دیسی امیاں غصہ کرتی ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ کیا مجھے بتانے کی ضرورت ہے؟

بابا کو میں نے بہت خواہش ہونے کے باوجود ایسا نادر مشورہ کبھی نہیں دیا۔ امی کا غصہ دیکھنے کے بعد میں نے انھیں یہ مشورہ دینے کا ارادہ ترک کر دیا حالانکہ مجھے یقین تھا کہ وہ اتنا غصہ نہیں کریں گے اور میری بات ماننے کے چانسز بھی زیادہ تھے مگر امی کی دھمکیاں کچھ ایسی خوفناک قسم کی تھیں کہ میں بابا سے بات نہیں کر پائی اور اس بات کا افسوس اب مجھے ساری زندگی رہنے والا ہے کہ میں نے اس وقت کم ہمتی کامظاہرہ کیا اور امی سے ڈر کے بیٹھ گئی۔ 

”میں“، یعنی”حرا“، ایک لڑاکا گھرانے میں پیدا ہونے والی، اپنے زندگی کے اٹھارہ سال اس گھر میں گزارنے والی، آپ کے خیال میں کیسی ہوں گی؟ یقیناً لڑاکا۔ آپ مجھ سے اور کیا ایکسپیکٹ کر رہے تھے؟ بس۔۔۔ اسی لیے میرا افسوس نہیں جاتا کہ میں نے چپ کیوں سادھ لی۔ لیکن میرے چپ سادھ لینے پر امی چپ نہیں رہیں۔ فوراً بابا سے بات کی اور مجھے ہاسٹل شفٹ کروا دیا۔ اس سارے واقعے سے ایک یہی خوش آئند بات ثابت ہوئی تھی کہ میں اب اس چڑیا گھر میں مزید نہیں رہنے والی تھی۔ میں ایف ایس سی پری انجینئرنگ کی اسٹوڈنٹ تھی اور آگے ایڈمیشن لے کر ہاسٹل شفٹ ہو گئی۔ ہاسٹل کی زندگی گھر سے بہت مختلف تھی اور کچھ عرصہ مجھے تھوڑی بہت مشکل بھی ہوئی لیکن پھر۔۔۔ پھر مجھے یاد آ گیا کہ میں حرا ہوں۔ اٹھارہ سال جھگڑے دیکھنے والی سے کوئی اتنی آسانی سے پنگا کیسے لے سکتا ہے؟ ذرا لے کر تو دکھائے۔ نانی، دادی، اگلا، پچھلا خاندان، خاندان کا ہر ہر فرد یاد دلا دیا میں نے سب کو۔

 اٹھارہ سال جھگڑے ہوتے دیکھے ہیں میں نے اور ان جھگڑوں میں ہمیشہ امی کو جیتتے دیکھا ہے کوئی مزاق ہے یہ؟ میں نے امی سے بہت اچھے سے جھگڑنا سیکھا ہے اور ویسے بھی بیٹیاں تو ہوتی ہی ماؤوں کا پرتو ہیں اس لیے میں بھی بالکل اپنی امی جیسی ہوں۔ اور یہی نہیں میں نے تو ہتھیار بھی امی والا چنا ہے۔ امی کا پسندیدہ ہتھیار جوتا ہے۔ ہم تینوں بہن بھائیوں میں سے کسی پر بھی غصہ آنے کی صورت میں ان کا ہاتھ سیدھا جوتے تک جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امی کے جوتے سیدھے سادے فلیٹ ہوتے ہیں جبکہ میرے جوتے پورے کے پورے ٹیڑھے میڑے ہیلز والے ہوتے ہیں۔ میں نے امی کو کہیں سے بھی تو نہیں چھوڑا، پورا کا پورا انھیں کا تو پرتو ہوں میں۔ مختصر یہ کہ اب کوئی مجھ سے پنگا نہیں لیتا۔ لینا چاہے تو سو بار۔۔۔ کم از کم سو بار تو ضرور ہی سوچتا ہے کیونکہ ہیلز والے جوتے زور سے نہیں بہہہت زور سے لگتے ہیں۔ امی کے اور میرے جوتوں میں ایک اور فرق نشانے کا بھی ہے۔ امی کا نشانہ زیادہ تر چوک جاتا ہے۔ ہم پھرتی سے آگے پیچھے ہو جاتے ہیں لیکن میرا نشانہ حادثاتی طور پہ بہت اچھا ہے۔ مذاق میں بھی کسی کو مار دوں تو سیدھا ٹھاہ کر کے لگ ہی جاتا ہے۔ اس بات میں امی پیچھے رہ گئیں، میں آگے نکل آئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میرے نشانے پہ کون ہوتا ہے؟ تو بتا دوں میرے دونوں چھوٹے جلاد بھائی اور ہاسٹل میں میری روم میٹس۔ مجھے کشن مارنے کی صورت میں جوتوں کا تحفہ انھیں لینا ہی پڑتا ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر کے مصادق کشن کا جواب جوتا۔ ہے نا اچھا؟   

خیر اب کہاں تک میری پچھلی زندگی کی دکھی کہانی سنتے رہیں گے۔ واپس حال میں آتے ہیں جہاں میں اپنے خاموش چڑیا گھر میں حیرانی سے کھڑی ہوں اور اس خاموشی کو مزید برداشت کرنا میرے لیے محال ہوتا جا رہا ہے۔

”دادی، امی، بابا، حسن، حسین کہاں ہو سب؟“ میں جب بھی گھر آتی ہوں ایسے ہی دروازے میں کھڑے ہو کر چلا چلا کر سب کو بلاتی ہوں۔ مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ سب کو پتا چل جائے”میں“ گھر آ گئی ہوں اور ایسا ہی ہوتا ہے سب کو باہر نکل کر میرا استقبال کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ میں تب تک خاموش نہیں ہوتی جب تک سب میرے سامنے پیش نہ ہو جائیں۔ اب اتنے دنوں بعد بندہ گھر آئے تو کیا سب کے کمروں میں جا جا کر ملتا رہے؟ اس سب میں بہت وقت ضائع ہوتا ہے اس لیے میں تھوڑی سی زخمت اپنے بیچارے گلے کو دے دیتی ہوں۔ ویسے بھی حسن اور حسین کا ماننا ہے کہ خدا نے میرے گلے میں کوئی اسپیکر فٹ کیا ہے اور وہ بھی پھٹا ہوا اسپیکر۔ ذرا سا بھی اونچا بولوں توآواز بہت زیادہ اونچی ہو جاتی ہے۔

 ویسے میری آواز بری نہیں ہے، اچھی خاصی ہے لیکن آپ کو تو پتا ہی ہے جب تک یہ بھائی نامی مخلوق بہنوں کو تنگ نہ کر لیں انھیں پیٹ میں درد رہتا ہے، کھانا ہی ہضم نہیں ہوتا۔ حسن اور حسین بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ بقول ان کے میں دکھنے میں بھی بالکل بھوتنی لگتی ہوں لیکن چونکہ میں بالکل اپنی امی جیسی ہوں تو میں بالکل بھی بیوقوف نہیں ہوں اس لیے ان کی ایسی باتوں کو میں بالکل بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ مجھے پتا ہے دونوں میری خوبصورتی سے جلتے ہیں۔ اچھی خاصی شکل ہے میری، رنگ بھی گورا ہے، دکھنے میں بھی معصوم سی لگتی ہوں۔ دادی اکثر کہتی ہیں جب تک تمہارا منہ بند رہتا ہے تم بہت اچھی لگتی ہو لیکن مجھے دادی کی اس بات سے اختلاف ہے۔ جب منہ کھلے گا تبھی تو پتا چلے گا کہ آپ اصل میں کتنے اچھے ہیں؟ مجھے امی اور دادی والا اچھا لگنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے اپنے والا اچھا لگنا پسند ہے اس لیے زبان بند رکھنے کا تکلف میں نے کبھی نہیں کیا، نہ ہی کرنے کا ارادہ ہے۔

میری آواز سن کر بلاآخر سب باہر آ گئے ہیں لیکن ان سب میں بابا شامل نہیں ہیں۔ میں ان سب سے ملنے کے بعد بابا کا پوچھنے ہی لگی تھی کہ حسن اور حسین نے کچھ ایسی شکلیں بنائیں کہ مجھے اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا۔ یقیناً امی اور بابا کا تازہ تازہ جھگڑا ہوا تھا اور بابا اسی لیے باہر گئے ہوئے تھے۔ میں نے ایک گہرا سانس لے کر سب کی شکلیں ایک بار پھر دیکھیں۔ دادی، حسن اور حسین تینوں بے حد پرسکون لگ رہے تھے جبکہ امی کے چہرے سے غصہ جھلک رہا تھا، ماتھے پہ دو تین بل بھی ڈلے ہوئے تھے۔ مجھے فون کر کہ گھر بلانے والی امی ہی تھیں اور اب وہی مجھ سے سہی سے نہیں ملی تھیں۔ امی کے روکھے سوکھے رویے پہ میرا منہ بن گیا تھا، بننا ہی چاہیے تھا۔ میں بھی منہ بنا کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور چیزیں یہاں وہاں پھینک کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ سفر چھوٹا ہو یا لمبا بندہ تھک ہی جاتا ہے بھئی۔

دو گھنٹے بعد امی میرے سر پہ کھڑی مجھے جگا رہی تھیں۔ امی کا چہرہ مجھے آج سے پہلے اتنا خوفناک کبھی نہیں لگا لیکن اس وقت انھیں پتا نہیں کیا ہوا تھا یا میری ہی آنکھیں ابھی تک پوری طرح سے نہیں کھل سکی تھیں جو وہ مجھے اتنی بھیانک دکھ رہی تھیں لیکن خیر۔۔۔ امی نے مجھے جاگتے دیکھ کر اپنی بات سنائی اور یہ جا وہ جا۔ وہ مجھے حکم دے کر گئی ہیں کہ انھیں مجھ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے اور میں منہ دھو کر پانچ منٹ کے اندر اندر ان کے سامنے پیش ہوں۔ اگر جو مجھے پتا ہوتا کہ امی مجھ سے جو بات کرنے والی ہیں وہ سن کر میرا خون کھول اٹھنے والا ہے اور ایک عدد قتل مجھ پہ فرض ہونے والا ہے تو یقین کریں میں گھر سے بھاگ جانا امی کی بات سننے سے بہتر سمجھتی۔ لیکن خیر۔۔۔ اتنی ہی قسمت اچھی ہوتی تو کیا ہی بات ہوتی۔

٭٭٭٭٭


   
Novels Hub reacted
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?