Afsana Shehristan b...
 
Share:
Notifications
Clear all

Afsana Shehristan by Zainab Nawaz

1 Posts
1 Users
0 Reactions
187 Views
(@zainab-nawaz)
New Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 1
Topic starter  

یہ افسانہ دل اور خواہش کے درمیان تنازع پر مبنی ہے. ہماری خواہشات ہمارے دل اور زندگی پر براہ راست اثر کرتی ہیں. اس افسانے میں ان خواہشات کا ذکر ہے جو ہماری ذہنی یا جسمانی نشوونما کی بجائے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب کوئی خواہش وبالِ جاں بن جائے تو اس سے دستبردار ہوجانا چاہیے. افسانے کا ایک اور پہلو بھی ہے جس میں انسان کو خواہش سے تشبیہ دی گئی ہے. انسان یعنی خواہشات کا پتلا اور اس میں بہتر سے بہتر چیز پالینے کی خواہش ہر لمحہ بڑھتی رہتی ہے اگر وہ خود اس پر قابو نہ پا لے.

ایک بڑی عجیب سی بستی ہے، نیلے شفاف آسمان پہ سورج، جھلسانے والی نہیں بلکہ تازگی اور گرمائش بخشنے والی کرنیں، سرخ مخملیں قالین ہر جانب بچھا ہے، چیزوں کی ایک قطار ہے جن کی چمک آنکھوں کو خیرہ کررہی ہے، ایسا لگتا ہے دنیاومافیہا کی ہر شے وہاں لا کر رکھ دی گئ ہے. ہر شے شفاف اور پاکیزہ ہے .یوں جیسے اس بستی کے مالک نے بہت چاؤ سے اس کی دیکھ بھال کی ہے اور برسوں آندھیوں اور فتنوں سے اس کی حفاظت کی ہے.

 

اور وہاں... بستی کے آغاز میں... وہ کھڑا ہے. مبہوت اور حیران، ستائش اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے، چار سو دیکھتا ہوا، یوں جیسے اپنے علاوہ کسی اور ذی روح کی تلاش میں ہو.

 

بستی کی ہر شے ششدر اس واحد انسان کو دیکھ رہی ہے جس سے پہلے کبھی کسی نے یہاں کا رخ نہیں کیا. ممکنہ طور پہ وہ اس بستی میں قدم رکھنے والا پہلا انسان ہے.

 

اسے دیکھ کر آسمان پھیل کر مزید نیلا ہو چکا ہے، بادل اس کی جھلک دیکھنے کے لیے آسمان کے دامن میں جمع ہورہے ہیں، قالین خوشی سے پیچھے کو بھاگتا جارہا ہے، دریا کی آنکھیں جو سورج کی روشنی سے ٹم ٹم چمک رہی تھیں اب چاند کی مانند روشن ہو چکی ہیں، ہوا اُڑ کے اس کی کالی سنہری آنکھوں کو چھونا چاہتی ہے، چاند اور تارے رات کا انتظار کیے بغیر اسے راہ دکھانے کو بے تاب ہیں.

 

اس نے ایک قدم اٹھایا ، اپنے سامنے موجود زمین پر رکھا ،اس کی نظر پہلی بار فرش کی جانب اٹھی ،فرش پر چاروں طرف قالین ہے لیکن اس کے پاؤں کے آس پاس کی زمین کچی ہے، جس پر نہایت خوبصورت ننھے ننھے رنگ برنگے پھول کھل رہے ہیں.

 

بستی کا دروازہ جو قدیم زمانوں کے قلعوں کی مانند بڑا اور مضبوط ہے اس کے قدم آگے بڑھانے پر خودبخود بند ہو چکا ہے. یوں جیسے وہ اس کی رضا مندی کے بغیر اس کو آگے بڑھنے پر مجبور نہیں کرنا چاہتا.

 

اس نے ایک قدم آگے بڑھایا ، پھر تین، پھر چار، پھر چند اور لیکن یہ کیا؟ اس کے قدم پڑنے سے قالین پیچھے کھسکتا جارہا ہے اور اس کی جگہ رنگ برنگے پھول کھلتے جاریے ہیں.

 

بستی کی ہر شے حیرانگی سے اس ساحر کو دیکھ رہی ہے جو کچھ دیر پہلے نمودار ہوا ہے اور اپنا جلوہ بکھیر رہا ہے.

 

تاروں نے چاند سے پوچھا ہے "وہ کیا کررہا ہے؟ یہ پھول کیسے کھل رہے ہیں؟"

"وہ حالات کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال رہا ہے." جواب آیا

 

یہ عجیب و غریب بستی اچانک اسے دلچسپ لگنے لگی ہے. اب کی بار اس کی توجہ اس کے کندھوں اور ہاتھوں پہ گرتی افشاں نے اپنی جانب کھینچی ہے. اس نے پلٹ کر آسمان کی جانب دیکھا. اس کے سر کے اوپر موجود سرمئ بادل اب سنہرا رنگ اختیار کر چکے ہیں، بادل بارش کی بجائے سنہری افشاں بکھیرنے لگے ہیں. افشاں اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگی ہے. دور مضبوطی سے کھڑے پہاڑ اس منظر کو بے یقینی سے دیکھ رہے ہیں.

 

بستی اسے خود پر حکمرانی کرنے دے رہی ہے. وہ جان چکا ہے کہ بستی اس کے تابع ہوچکی ہے.

 

انسان کی آمد تو دور وہ اسے اتنی آسانی سے بدل رہا ہے یہ بات بستی کے لیے نىئ اور ناقابل یقین ہے. وہ کچھ پریشان بھی ہے. اسے خود کو کسی کے اتنا تابع نہیں کرنا تھا. پر یہ سب اس کے اختیار سے بالکل باہر ہے. وہ اس کے سامنے جیسے بے بس ہوگئی ہے. شائد ساحر کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوچکا ہے اسکا سحر بہت مضبوط ہے، وہ اس کے شکنجے سے نکل نہیں پارہی، یا شائد نکلنا نہیں چاہ رہی.

 

 وہ بستی کی ہر چیز کا جائزہ لے رہا ہے.اسکے قدموں میں پھول کھلتے جارہے ہیں. بستی میں رنگ اور خوشبوئیں بدلنے لگی ہیں.

 

پر کیا یہ سحر دائمی ہے؟

 

"وہ کیا ہو رہا ہے؟" ایک کنارے لگے درخت نے اپنے قریب پڑی مہارت سے تراشی لکڑی کے بینچ کو جھنجھوڑ کے کہا ہے. بینچ نے سراسیمگی کے عالم میں درخت کی نظروں کا تعاقب کیا ہے.

 

وہاں بستی کا دروازہ جو کہ نہایت مضبوط تھا اب خستہ حال ہوکر مخروطی دیواروں سے الگ ہورہا ہے. دروازے کے سامنے کا فرش جہاں کچھ دیر پہلے پھول کھل رہے تھے اب دھوپ کی تماذت سے جل گئے ہیں اور کچی زمین راکھ کی مانند لگ رہی ہے.

 

وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر ہر چیز کو دیکھ رہا ہے. دیکھتے دیکھتے کافی دور نکل چکا ہے اور چیزوں میں اپنی پسند کے مطابق تبدیلیاں بھی کرتا جا رہا ہے. وہ شائد تبدیلیوں کا دلدادہ ہے. اس کے مطابق چیزیں ایک ہی انداز میں ساکت رہیں تو اپنا سحر کھو دیتی ہیں.

 

وہ اب دریا کے پاس بیٹھا ہے، ہتھیلی آگے بڑھا کر پانی پی رہا ہے. پھر وہاں سے اٹھ کر مخالف سمت چلنے لگا ہے.

 

دریا کے پانی میں جھلملاتا سورج کی کرنوں کا رقص اچانک ختم ہوگیا.

 

پیچھے بستی میں راکھ بڑھتی جا رہی ہے اور پھول جلتے جا رہے ہیں. بستی کی چیزیں اب اس کو نہیں دیکھ رہیں ان سب کی نظریں اب اس نقصان پر ہیں جس کی بھرپائی میں اب بہت دیر ہوچکی ہے.

 

دوسری جانب وہ بستی کا تقریباً ہر حصہ دیکھ چکا ہے. اور اب اس کی آنکھوں میں اشتیاق کی جگہ بے زاری نے لے لی ہے. ہر چیز جو کچھ دیر پہلے اسے نئی اور نایاب لگ رہی تھی وہی اب اسے بے معنی اور روکھی پھیکی لگ رہی ہیں. اب کوئی منظر اسے دلکش نہیں لگ رہا نہ ہی کوئی چیز اس کی توجہ اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہورہی ہے. وہ تھک گیا ہے، شائد اکتا بھی گیا ہے.

 

بستی اب بادلوں کو دیکھ رہی ہے جو سنہری سے بالکل سفید ہوکر پورے آسمان کا احاطہ کرچکے ہیں یوں کے آسمان کی نیلاہٹ ان کے پیچھے کہیں چھپ سی گئی ہے. ایک سا رنگ ہر طرف پھیلنے لگا ہے.

 

ہوا جو پرسکون اور معطر رہتی تھی اب بدبودار ہونے لگی ہے. دریا کا پانی جو شفاف تھا اب اس کے کنارے سبز بیکٹیریا نشونما پانے لگے ہیں. تاروں اور چاند کی روشنی بجھ گئی ہے. ساز و سامان کی چمک اب زنگ میں بدل چکی ہے.

 

لیکن اس کے اردگرد رنگ ابھی بھی موجود ہیں. یوں جیسے اس تک سیاہی آنے میں دیر ہے. یا یوں کے خزاں کو اسے چھونے کی اجازت ہی نہیں ہے.

 

ہر راہ اسی ترتیب سے ویران ہورہی ہے جس ترتیب سے وہ ان سے گزرا تھا. وہ بے ذاریت کی انتہاؤں پر ہے. وہ اپنے قدموں کے نیچے پھولوں کو روندتا چلا جا رہا ہے، یوں جیسے راہِ فرار نہ ملنے پر غصہ زمین پر نکال رہا ہے. اسے اکتاہٹ ہو رہی ہے، جلد از جلد یہاں سے نکلنا چاہتا ہے، بستی کو ترک کر کے دوبارہ کبھی یہاں کا رخ نہیں کرنا چاہتا.

 

لیکن ایسا لگ رہا ہے بستی اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے. اتنے بڑے نقصان کے بعد بھی اس ساحر کو اپنے گلے لگا کہ رکھنا چاہتی ہے.

 

ہر چیز کا رنگ آہستہ آہستہ مدھم ہوتا جارہا ہے. درختوں کے پتے سوکھ کر جھڑ چکے ہیں. خوشبو اور چمک جو کبھی اس بستی کا خاصہ تھی اب غائب ہے. سیاہی البتہ بڑھتی جارہی ہے اور اس کے سوا ہر چیز کو اپنے گھیرے میں لے رہی ہے. ایسا محسوس ہورہا ہے بستی کے دل سے سیاہی رِس کے اس کے پورے وجود کو اپنے لپیٹ میں لے رہی ہے.

 

اس کا اشتعال اب شدت اختیار کرچکا ہے اور اب کی بار اس وہ بستی پر چلایا ہے. "تمہیں میں نے اپنا بنانا چاہا، آباد کرنا چاہا، اور تم مجھے قید کررہی ہو؟ مجھے اس گھٹن سے آزاد کردو!"

 

"آباد، قید، گھٹن" بس ان الفاظ کی بازگشت باقی رہ گئی. بستی سناٹوں کا شکار ہوگئی. سیاہی ایک دم سے ہر سو پھیل گئی.

 

پھر کہیں سے سرگوشی ہوئی، بستی نے پلٹ کر اس کی لائی "آبادی کو دیکھا.

 

ایک اور سرگوشی "قید؟" "کیا قید ایسی ہوتی ہے؟ اپنی مرضی سے اس کے قدموں میں سر بچھانے والی؟

 

" گھٹن؟" آخری سرگوشی ہوئی. بستی سب سمجھ گئی، اس پردیسی کو بھی. سر تسلیم خم کیا، اسے راہِ فرار دے دی گئی، قفس کا دروازہ کھول دیا گیا، آزادی اور آبادی کا پروانہ تھما دیا گیا، اجنبی کو جانے دیا گیا بغیر رکاوٹ کے.

 

وہ قدم قدم نکلتا چلا گیا اس کے آخری قدموں کی جگہ بھی سیاہی نے بھر دی. بستی اس کی نشانی مٹاتے مٹاتے خود مٹ گئی. اور بستی سمٹ کر ساری دنیا سے خفا ایک کنارے بیٹھ گئی، اب نا موسم بدلنے تھے، نا کوئی اور راہ گزر آنے والا تھا.

 

پہاڑ نے یہ منظر دیکھ کے یاسیت سے کہا

"ہر تبدیلی اپنے ساتھ خیر لے کر نہیں آتی، لیکن ہر خیر اپنے ساتھ تبدیلی لے کے ضرور آتی ہے. خواہشات زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں، لیکن زندگی نہیں ہوتیں."

 

بستی نے منہ مزید موڑ لیا. تتلیاں ساکت رہ گئیں یوں جیسے اڑنا بھول چکی ہوں.

 

 

بستی یعنی دل

انسان یعنی خواہش

This topic was modified 9 months ago by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?