NOVELS HUB SPECIAL NOVEL
انتقام
(حصہ اول)
”قید، رہائی، فریب اور فریبکار“
قید کی اتھاہ گہرائیوں میں، جہاں سائے رینگتے ہیں،
ایک نادیدہ دنیا ہے جہاں خواب اور امیدیں ٹپکتی ہیں۔
لوہے کی سلاخوں کے پیچھے، مایوسی کی سمفنی،
پھر بھی ان دیواروں کے اندر، لچک ہوا بھرتی ہے۔
دن ہفتوں میں بدلتے ہیں، ہفتے سالوں میں،
خاموش آنسوؤں کو ہوا دے کر وقت بڑھتا جا رہا ہے۔
لیکن اندھیرے میں طاقت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے،
ان دلوں میں جو مرجھانے یا ڈوبنے سے انکار کرتے ہیں۔
جیل کی ان دیواروں کے اندر کہانیاں کھلتی ہیں،
بکھری ہوئی زندگیوں اور ان کہی رہ جانے والی کہانیوں کا۔
پھر بھی دکھ اور درد کی گہرائیوں میں،
انسانیت کی ایک جھلک ابھی باقی ہے۔
جعل سازی دوستیاں، وہ بندھن جو برداشت کرتے ہیں،
جیسے ہی روحیں جڑتی ہیں، ہاتھ میں ہاتھ۔
مصیبت کے عالم میں انھیں سکون ملتا ہے،
ویران محل میں روشنی کی چمک۔
لیکن قید کا وزن بھاری ہے،
جیسے آزادی کا لمس ایک دور کا انعام لگتا ہے۔
٭...٭...٭
تاریخ تھی بائیس جولائی
شہر تھا اسلام آباد کا
رات کا آخری پہر تھا، اور تاریکی کی گہری چھاؤں ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ آسمان پر کالے بادلوں کا راج تھا۔ سیاہ آسمان میں چاند ہیرے کی مانند چمک رہا تھا۔ کبھی بادل چاند کو اپنے اندر چھپا لیتے اور ویران گلی کو اندھیروں میں ڈبو دیتے، اور کبھی چاند کو ظاہر کر کے اندھیری گلی کو روشن کر دیتے تھے۔ سرد ہوائیں چل رہی تھیں اور ان کی سرسراہٹ میں کوئی سنک سکون تھا۔ اندھیرا تھا، گھپ اندھیرا۔ ہر چیز خاموشی میں گھری ہوئی تھی۔
اندھیری خاموش رات۔ ایک سنسان گلی۔ خالی جنگل۔ ویران جنگل کے آخری سرے پر بنی حویلی اور ان راستوں کو پار کرتی ہوئی لڑکی، جو ان راستوں سے خوفزدہ ہو کر گزر رہی تھی۔ موت کا خوف نہیں تھا، بلکہ ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ وہ کسی بھی قیمت پر حویلی پہنچنا چاہتی تھی، اور حویلی تک پہنچنے کی قیمت جان کی قیمت تھی۔
ہر چیز سیاہ رنگ میں ڈھکی ہوئی تھی۔
اس لڑکی کے ہاتھوں میں سیاہ دستانے تھے، سیاہ ہوڈی، سیاہ بوٹس، اور سیاہ لمبا کوٹ۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سیاہ ٹارچ خراب ہو چکی تھی۔ اونچے اونچے درختوں کی ایک گھنی چھتری سر پر پھیلی ہوئی تھی، اور ان کی کنکالی شاخیں آسمان کی طرف کنکال کی انگلیوں کی طرح لپٹی ہوئی تھیں۔ ہوا جابرانہ نمی کے ساتھ بھاری تھی، دم گھٹنے والی اور نم، جیسے جنگل خود زندہ اور سانس لے رہا ہو۔
ایک خوفناک جنگل جہاں نہ کوئی جائے گا اور نہ ہی جانا چاہے گا۔ جیسے جیسے وہ جنگل میں قدم رکھ رہی تھی، خالی، خاموش، ویران جنگل میں اس کی قدموں کی آواز گونجنے لگتی۔ وہ رکی، ارد گرد نظریں دوڑائیں، اور پھر سانس اندر کو کھینچ کر واپس قدم بڑھانے لگی۔ وہ سیاہ بوٹوں کے ساتھ جنگل میں گرے پتوں پر چل رہی تھی۔ ارد گرد بہت سے درخت تھے، اور درمیان میں سڑک تھی جو اوپر کی طرف جا رہی تھی، جہاں حویلی واقع تھی۔
اس کا ماتھا پسینے سے شرابور تھا۔ سیاہ دستانے کے اندر ہاتھ نم تھے، پھر بھی وہ چلتی رہی یہاں تک کہ حویلی پہنچ گئی۔ وہ قدیم، خوفناک سیاہ حویلی اس کے سامنے تھی، اور وہ گردن ترچھی کیے اسے دیکھ رہی تھی۔ بے شک، یہ حویلی ایک زمانے میں بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی، لیکن اب اس کا منظر انتہائی بھیانک ہو چکا تھا۔
ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کو چھو گیا۔ اس نے فوراً آنکھیں بند کر لیں اور جب کھولیں تو سارا منظر دھندلا سا نظر آنے لگا۔ اس نے بے اختیار دو تین بار پلکیں جھپکائیں، لیکن دھندلا پن کم نہ ہوا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ شاید یہاں کوئی موجود ہو، لیکن وہاں نہ کوئی انسان تھا نہ کوئی جانور۔ وہ اس گھپ اندھیرے، ویران جنگل میں بنے سیاہ حویلی کے سامنے اکیلی کھڑی تھی، اور اندر بھی اسے اکیلے ہی جانا تھا۔
اس نے بے اختیار تھوک نگلا۔ دستانے ٹھیک کرنے کے بعد اس نے چند لمبے سانس لیے اور آگے قدم بڑھاتی گئی۔ بیرونی گیٹ کھلا ہوا تھا، وہ اندر جاتی گئی۔ اس نے اوپر کھڑکیوں کی طرف دیکھا، کھڑکیاں ٹوٹی پھوٹی اور داغدار تھیں، جیسے حویلی کے رازوں کو اپنی گہرائیوں میں سمیٹ رہی تھیں۔ حویلی کے ارد گرد کی ہوا بھاری اور دم گھٹتی محسوس ہو رہی تھی، جیسے ماضی کی ہولناکیوں کی باقیات سے بھری ہوئی ہو۔ اس لڑکی کا دل ڈوبا اور اس نے فوراً نظریں پھیر لیں، سامنے کی طرف توجہ مرکوز کی اور تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
وہ ایک دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ دروازہ دھکیل کر وہ اندر داخل ہوئی۔ جیسے ہی وہ اندر گئی، اندھیرے نے اسے ایک دم گھٹنے والی چادر کی طرح لپیٹ لیا۔ دالان کی دیواریں دھندلے وال پیپر سے مزین تھیں۔ جیسے جیسے وہ قدم بڑھا رہی تھی، اس کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا دل زوروں شور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ یہاں سے واپس جانا چاہتی تھی لیکن اب شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔
وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی، اور اندر قدم رکھتے ہی ایک خون آلود چیخ اس کے حلق سے نکل گئی۔ اپنی چیخ کو دباتے ہوئے، اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے لبوں پر رکھ دیے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔ وہ برف کا مجسمہ بنی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے بیڈ پر ایک لڑکی خون میں لت پت تھی، جو ہو بہ ہو اس کی طرح دیکھتی تھی، جیسے وہ اسی کا مستقبل بتا رہی ہو۔ اس کو لگا اب وہ یہاں ایک پل بھی نہیں رک سکتی تھی۔ وہ بے اختیار مڑی اور شل قدموں سے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
وہ دالان سے آگے بڑھنا چاہتی تھی مگر وہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ بری طرح پھنس چکی تھی۔ وہ چار دیواری کے اندر محصور تھی۔ بے بسی کے عالم میں وہ ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ کوئی راستہ مل سکے مگر اسے صرف چاروں طرف کی مضبوط دیواریں ہی نظر آ رہی تھیں۔ نہ کوئی دروازہ، نہ کوئی کھڑکی۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ بالکل تنہا۔ اچانک دیواریں آہستہ آہستہ روشن ہونے لگیں۔ ان پر اس کی تصاویر چسپاں تھیں، جن پر سیاہ رنگ میں ’قیدی نمبر ایک سو دس‘ لکھا ہوا تھا۔
اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ سنسنی خیز اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ڈور گئی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے حویلی اس کے تمام راز جانتی ہو یا شاید وہ شخص جان چکا تھا کہ وہ یہاں کیوں آئی تھی۔ دیواروں پر لگی اپنی تصویر دیکھتے ہوئے اس نے اوپر لکھا نام پڑھا۔ نام پڑھتے ہی جیسے ٹھنڈی ہوا نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو کانپ دیا۔ اس کا پورا بدن پسینے سے شرابور تھا۔
وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی جب اچانک، بغیر کسی انتباہ کے اس کے پیچھے سائے سے ایک شکل ابھری۔ تیز دھار چاقو کی چمک مدھم روشنی میں جھلک رہی تھی جو کہ اس نے تیزی سے اس کی کمر میں پیوست کیا تھا۔ اس لڑکی کے چہرے پر اذیت کے تاثرات ابھری۔ ایک لمحے کے لیے اسے اپنی سانسیں بند ہونے کا احساس ہوا۔اس کے جسم میں درد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس کی آنکھیں دہشت سے بھر گئیں۔ صدمے سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلی ہو گئی تھی۔ کمرہ اس کی خاموش چیخوں سے گونجتا ہوا اس کے ارد گرد بند ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
”آہ ۔۔۔!“ اچانک ایک دل دہلا دینے والی چیخ نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔
تاریک، ساکن کمرے میں بستر پر لڑکی چت لیٹی تھی۔ کھڑکی سے آتی چاند کی مدھم روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ پہلوؤں میں رکھے ہوئے ہاتھ ہولے ہولے لرز رہے تھے، جیسے ہر لمحے ان کی لرزش میں اضافہ ہو رہا ہو۔ اس کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی، چھت پر مرکوز تھیں۔ بدن پسینے سے شرابور تھا اور دھڑکن کی رفتار تیز تھی۔ چند لمحے وہ ماؤف دماغ کے ساتھ لیٹی رہی۔ پھر گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ اس نے ایک انتہائی ڈراونا خواب دیکھا تھا۔ ڈراونا خواب تو وہ پہلے بھی دیکھتی تھی، لیکن ...
یہ خواب بہت عجیب اور پیچیدہ تھا۔
ماتھے پر ابھرے ہوئے ننھے پسینے کے قطروں کو اس نے ہاتھ سے پھیرا۔اگرچہ یہ صرف خواب تھا مگر ذہن اب بھی اسی خواب کی گہرائی میں ڈوبی ہوئی تھی۔اچانک اس کا پچھلا خواب آنا بند ہوا اور اس کی جگہ اب یہ خواب آنا شروع ہو گیا تھا۔
وہ کون تھا؟
اسے مارنے کی کیا وجہ تھی؟
کیا اسے اس کی جاسوسی کرنا بند کردینا چاہیے؟
وہ کمبل ہٹا کر اٹھ بیٹھی۔ چاند کی مدھم روشنی میں دیکھو تو اس کے لمبے بال اس کی پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے بال ہلکے بھورے رنگ کے تھے جس پر اس نے سنہرے ہائی لائٹس کروا رکھے تھے۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنے بالوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور آنکھیں زور سے میچ لیں۔ اے سی کے باوجود اس کا پورا بدن ابھی تک پسینے سے شرابور تھا۔
بالوں سے ہاتھ ہٹا کر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ چاند کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا پھر تھوڑی دیر بعد اپنی جھلک واپس دکھاتا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس نے اپنے خواب میں دیکھا تھا۔ چاند کی روشنی سے بھی اسے خوف آنے لگا۔ فوراً نظریں ہٹا کر اس نے اپنا فون ڈھونڈتے ہوئے ادھر اُدھر ہاتھ مارا۔ فون نہ ملنے پر اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ آن کیا۔ زرد روشنی ہر طرف پھیل گئی۔
لیمپ کی روشنی میں اس کا چہرہ واضح ہوا۔ شفاف بیضوی چہرہ، خوبصورت نقوش اور رنگت صاف تھی۔ اس کی آنکھوں کا رنگ بہت منفرد تھا۔ بادام کی شکل کی جھیل جیسی نیلی آنکھیں، جیسے سیاہ پیالے میں نیلا پانی ہو جو گہرائی اور سکون کا ایک سمندر اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھیں۔ ان کے نیلے رنگت میں پانی کی شفافیت تھی، جیسے صبح کی روشنی میں جھیل کی سطح پر پھیلا ہوا نیلا آسمان۔
لیمپ کے پاس ہی ٹشو کا ڈبہ تھا۔ اس نے ایک دو ٹشو نکالے اور چہرے اور گردن پر آئے پسینے کو پونچھنے لگی۔ اس کے ہاتھ بے حد خوبصورت تھے۔ پتلی، لمبی انگلیاں اور ہاتھ کے پشت کی نسیں ابھری ہوئی تھیں۔ ٹشو سے چہرہ پونچھ کر اس نے اپنے پاؤں نیچے رکھے۔ پیروں میں سلیپر ڈالے اور اٹھ کر اسٹڈی ٹیبل تک گئی۔
اسٹڈی ٹیبل پر چند کاغذات بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ تراشے ہوئے تصویریں۔ کھلا ہوا لیپ ٹاپ تھا لیکن اسکرین آف تھی۔ اور چند تراشے ہوئے اخبارات بھی موجود تھے۔ اسٹڈی ٹیبل کے اوپر دیوار پر ایک کاغذ چسپاں تھا۔ جس پر انگریزی میں ’نام‘ لکھا ہوا تھا اور اس کے سامنے سوالیہ نشان لگا ہوا تھا۔ نیچے ’شناخت‘ لکھا ہوا تھا اور اس کے سامنے بھی سوالیہ نشان لگا ہوا تھا۔ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھی، کاغذات کو اوپر نیچے کیا، مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ بری طرح الجھ گئی تھی۔ اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔ اب وہ نہ اس سے آگے بڑھ سکتی تھی اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتی تھی۔
اسے فی الحال ایک ہی شخص یاد آیا جو اس کی مدد کر سکتا تھا اور اتنی رات کو اس کی سن بھی سکتا تھا۔ اس نے لیپ ٹاپ کے پاس رکھا اپنا فون اٹھایا، فون آن کیا تو نیلی روشنی اس کے چہرے پر پڑی۔ اسے اُس شخص کا نمبر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سب سے پہلا نام اسی کا ہوتا تھا ۔ اس نے اس کے نمبر پر کلک کیا اور فون کان سے لگا دیا۔ وہ جانتی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ شخص اس کی کال نظر انداز نہیں کر سکتا۔ چاہے یہ رات کا آخری پہر ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری طرف سے فون اٹھایا گیا، نام دیکھے بغیر۔ کیونکہ رات کے آخری پہر ہو یا دن کے آغاز میں ہمیشہ یہی لڑکی اسے کال کرتی تھی۔ اس کے علاوہ اسے کسی کی کال آنے کی امید بھی نہیں تھی۔
”ہیلو اعجاز ... “ اس کی بے چین بھری آواز ساکن کمرے میں گونجی۔
دوسری طرف دنیا و جہان سے بے خبر شخص جو پر سکون نیند سو رہا تھا اس کا پریشان لہجہ سن کر اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
”دد... درناز تت... تم اس وقت... جج جاگ... “نیند سے بوجھل آواز۔ وہ یقیناً اس کی اس وقت کی گئی فون کال سے گھبرا گیا تھا۔
”اعجاز ہکلانا بند کرو اور بغیر ہکلائے مجھ سے بات کرو۔“ وہ اس کے ہکلانے سے نہیں جھنجھلاتی تھی بس چاہتی تھی کہ وہ بے خوف ہو کر بات کرے۔
”مم... میں کوشش... کرتا ہوں ناں۔“
”اعجاز، مجھے پھر سے وہ خواب آیا۔ وہ... اس نے میرا قتل کیا۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“ اس نے کہنی میز پر رکھ کر ایک ہاتھ سے سر پکڑ لیا۔
”ماموں کہاں ہیں؟ کیا میں آؤں؟ ... تت... تمھیں میں نے منع کیا تھا نا اس کے پیچھے مت پڑو۔“
”نہیں اعجاز، تم اس وقت نہیں آ سکتے اور ڈیڈ؟ اگر انھیں میری فکر ہوتی تو میں آج اتنی خوار نہیں ہو رہی ہوتی۔“ اس کا پریشان چہرہ ایک دم سنجیدگی میں تبدیل ہو گیا۔
”دد... درناز... میں آ رہا ہوں، تت... تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں آتا ہوں۔“ وہ ادھر ادھر ہاتھ مار کر اپنا چشمہ ڈھونڈتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”اعجاز تم یہاں آؤ گے تو کیا تمھیں معلوم نہیں کہ صبح تمہارے ابا جان تمھارے ساتھ کیا کریں گے؟“ اس نے سر اٹھا کر پیچھے ٹیک لگا کر کہا۔
”تمھارے لیے میں مم... مار بھی کھا سکتا ہوں۔“ اس کی بات پر درناز کے لب مسکرائے اور اس کی نیلی آنکھیں بھی مسکرائی تھیں۔
”اور پھر مار کے بعد نشان کیسے چھپاؤ گے؟ یونی میں لڑکیاں کیا سوچیں گی؟“ اس نے تراشے ہوئے تصویر کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”بھاڑ میں جائیں لڑکیاں جو بھی سوچیں۔ تمھارے لیے کچھ بھی۔“وہ اٹھ کر پاؤں میں سلیپر ڈالے بالکنی میں چلا گیا۔
”اور میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ تمھیں میری وجہ سے تکلیف ہو۔“ اس نے تراشے ہوئے تصویر کو مٹھی میں جکڑ لیا اور حقارت سے اس تصویر کو دیکھ رہی تھی۔
دونوں کے درمیان چند لمحے خاموشی چھائی رہی۔ اعجاز بالکنی میں رکھی کرسی پر بیٹھا اور پیر قینچی کی صورت میں اوپر میز پر رکھے۔ وہ آسمان کی طرف چاند کو دیکھ رہا تھا۔ چاند کو دیکھنے سے اسے سکون ملتا تھا۔ چاند کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھپ جاتا پھر تھوڑی دیر بعد اپنی جھلک دکھاتا۔
”کیا تم میرے لیے ایک گھنٹہ جاگ سکتے ہو؟ مجھے پتا ہے کل تمھارا یونی ہے۔ میرا بھی ہے لیکن مجھے اس وقت تمھاری ضرورت ہے۔“ چند لمحے کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔ وہ جانتی تھی کہ اعجاز مر بھی جائے لیکن انکار نہیں کرے گا۔
”صرف ایک گھنٹہ؟ کہ تاسو ووایہ نو زه کولی شم تولہ شپہ لہ تاسو سره خبری وکرم۔“
( اگر تم کہو تو میں رات بھر تم سے بات کر سکتا ہوں۔)
اب کی بار وہ ہنسی تھی۔ اسے اعجاز کی وجہ سے پشتو آنے لگی تھی اور وہ اس کی بات سمجھ چکی تھی۔ وہ ہنس رہی تھی اور اس کی ہر ہنسی اعجاز کو سکون بخش رہی تھی۔
”اعجاز! صرف تم ہی ہو جو مجھے ہنسا سکتے ہو اور میرا موڈ بھی ٹھیک کر سکتے ہو۔“قدرے توقف کے بعد کہا۔ ”ورنہ زندگی نے تو مجھے ہمیشہ رلایا ہے۔“ وہ ہنستے ہنستے کب واپس سنجیدہ ہو گئی، اسے معلوم ہی نہیں ہوا۔
اعجاز مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اگر چاند کی مدھم روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ دیکھنے میں وہ بہت خوبصورت تھا لیکن کمزور سا۔ نقوش پرکشش تھے اور رنگت صاف تھی۔ اس کے بال گہرے سیاہ اور ملائم تھے۔ اتنے خوبصورت کہ ایک بار انھیں چھونے کا دل چاہے۔ اس کی آنکھیں سرمئی تھیں، جیسے صبح کی روشنی میں دھندلے آسمان پر رنگ بکھرتے ہیں۔ جب وہ نظر اٹھا کر دیکھتا تو ان کی چمک میں ایک خاموش گہرائی چھپی ہوتی، جو کسی خاموش سمندر کی طرح دل کو اپنی جانب کھینچ لیتی۔
”لیکن جس کے بارے میں تت ... تم جاننے کی کک ... کوشش کر رہی ہو وہ ہے کون؟ کچھ پتا چلا؟“
”وہ ... “
تھوڑی دیر کے لیے انھیں یہاں چھوڑ کر ہم کچھ وقت پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اُس لمحے میں جب درناز نے پہلی بار اس پراسرار شخص کے بارے میں سنا تھا۔ لیکن درناز کو اس شخص کے بارے میں صرف چند مبہم معلومات ہی ملے تھے۔ وہ شخص کون تھا؟ اس کا نام کیا تھا؟ اس کی شناخت کیا تھی؟ وہ کہاں سے آیا تھا؟ اس کے خاندان کی تفصیلات کیا تھیں؟ ان سب سوالات کے جواب ابھی بھی ایک معمہ تھے۔
٭...٭...٭
تاریخ تھی دس جولائی
صبح کے آٹھ بج رہے تھے
اس وقت درناز یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی آخری بار خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی۔ اس نے بلیو جینز کے ساتھ سفید آدھی آستینوں والی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس کے بھورے رنگ کے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ وہ کانوں میں ٹاپس پہن رہی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا۔ میز پر رکھا فون زوں زوں کرنے لگا۔ نمبر دیکھ کر اس کے لب مسکرائے، اور اس کی نیلی جھیل جیسی آنکھیں بھی مسکرائیں۔ دوسرا ٹاپس پہننے سے پہلے ہی اس نے فون ریسیو کر کے کان سے لگا دیا۔
”ہاں، بولو اعجاز۔“ کندھے اور کان کے درمیان فون رکھتے ہوئے، وہ ہاتھ میں گھڑی باندھنے لگی۔
”میں یونی... مم... میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں۔ تم کب تک آ رہی ہو؟“ وہ گاڑی کے پچھلے حصے سے ٹیک لگائے ہوئے تھا، اور اس کا انداز روکھا سوکھا تھا۔
”بس میں آ رہی ہوں۔ دس پندرہ منٹ لگیں گے۔ تم آج اکیلے چلے جاؤ ورنہ تمھاری ایٹینڈنس مس ہو جائے گی۔“اس نے فون کان سے ہٹا کر میز پر رکھ کر اسپیکر آن کر دیا۔
”نہیں، نہیں۔“وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھا۔”کوئی بات نہیں، میں انتظار کر لوں گا۔“
”اعجاز یار... خیر، تمھارا وہ خڑوس بھائی شیاز سر آج لیکچر دینے آ رہے ہیں؟“ وہ دوسرے کان میں ٹاپس پہننے لگی۔
”ہاں آگئے ہیں، تم جلدی آجاؤ نا۔“وہ بے صبری سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔
”تم فون بند کرو گے تو آؤں گی۔“یہ کہنے کی دیر تھی کہ اعجاز نے فوراً فون بند کر دیا۔ درناز نے مسکرا کر سر جھٹکا۔
اس نے بیڈ پر سے اپنا بیگ اٹھایا، موبائل فون اور لیپ ٹاپ اندر ڈالے، اور چند دیگر ضروری سامان بھی شامل کیا۔ پھر وہ بیڈ پر بیٹھ کر اپنے جوتے پہننے لگی۔ اس کے کھلے بھورے بال بار بار آگے جھولتے اور وہ بار بار ایک ہاتھ سے انھیں پیچھے کرتی۔ جوتوں کے تسمے باندھ کر وہ اٹھی، بیگ کندھے پر ڈالا، اور دروازے کی طرف بڑھ کر دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ ریلنگ پکڑ کر وہ تیز تیز سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
یہ ایک بلند و بالا اور عالیشان محل نما گھر تھا، جس کی دیواریں سرمئی اور سفید رنگ سے مزین تھیں اور فرش سنگ مرمر سے بنا ہوا تھا۔ سیڑھیاں لاؤنج کے وسط میں واقع تھیں، جہاں شہریار شاہ خاصے شاہانہ انداز میں صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھے تھے۔ ایک ہاتھ میں انھوں نے اخبار تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا، جس سے وہ وقفے وقفے سے گھونٹ بھر رہے تھے۔ درناز کی تیز رفتار کو دیکھتے ہی، شہریار شاہ نے بے اختیار اسے پکارا۔
”درناز؟“ شہریار کی آواز سن کر درناز کے قدم رک گئے۔اس نے آنکھیں زور سے میچ کر کھولیں، جانتے ہوئے کہ وہ اب وہی بات کہیں گے جو ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں۔ وہ پلٹی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے ان کی طرف بڑھنے لگی، اور درمیان میں رکھی میز کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔
”گڈ مارننگ ڈیڈ۔“ اس نے عام انداز میں کہا، جیسے اسے بالکل بھی اندازہ نہ ہو کہ اگلا سوال کیا ہوگا۔
”پھر سے تم اس پاگل کے لیے بغیر ناشتہ کیے جا رہی ہو؟“ سرد لہجے میں پوچھا گیا۔
”ڈیڈ! “وہ ایک دم سے چیخی تھی۔ شہریار کی آنکھوں میں اشتعال ابھرا۔ ”خدا کے لیے اسے پاگل کہنا بند کریں۔ آخرکار وہ آپ کا بھانجا ہے۔ جب آپ کو معلوم ہے کہ مجھے اس کے بارے میں غلط باتیں سننا پسند نہیں تو پھر آپ ہر روز ایک ہی بات پر کیوں مجھ سے جھگڑتے ہیں؟“
”تم اس کے لیے مجھ سے اونچی آواز میں بات کر رہی ہو؟“ اخبار میز پر پھٹکتے ہوئے، چائے کا کپ میز پر رکھ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ”تم اس کے لیے خود کو برباد کر رہی ہو۔ تمھیں اندازہ بھی ہے کہ تم اپنے ساتھ کیا کر رہی ہو؟ “
”میں اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ وہ میرا دوست ہے، ڈیڈ۔“ اس کی آواز اب بھی بلند تھی۔ ان کا یہ روز کا معمول بن چکا تھا ہر روز ایک ہی بات پر نئے سرے سے جھگڑتے تھے۔
وہاں کام کرنے والے ملازمین سے لے کر باہر کھڑے گارڈز تک سب ان کے جھگڑے سے تنگ آچکے تھے۔ لیکن ان میں کچھ کہنے کا اختیار نہیں تھا، سوائے سننے کے۔ اس وقت گھر میں ان دونوں کے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔ اگر کوئی اور بھی موجود ہوتا، تب بھی وہ دونوں کی بحث کے دوران کچھ نہیں بولتے۔
”وہ پاگل تمہارے لیے مجھ سے زیادہ اہم ہوگیا ہے؟ “ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو حیرت اور بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔
”آپ جو سمجھنا چاہتے ہیں آپ سمجھ لیں۔ مجھے اس وقت دیر ہو رہی ہو۔ “دونوں ہاتھ اٹھا کر وہ جیسے اس بحث کو ختم کرنا چاہتی تھی۔
”تم آئندہ اس سے نہیں ملوگی۔ میں تمھیں ایک پاگل کے پیچھے خود کو برباد کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ تمھیں میرے مطابق چلنا پڑے گا، ورنہ بھول جاؤ کہ تمھارا کوئی باپ بھی تھا۔ “انھوں نے پیچھے سے ہانگ لگائی۔
وہ پلٹ کر آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ شہریار کی بات پر رک گئی۔ اس نے واپس مڑ کر انھیں دیکھا۔ آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ وہ چند لمحے بغیر کچھ بولے اپنے باپ کو دیکھتی رہی، جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو کہ انھوں نے کیا کہا ہے۔ پھر چند قدم کا فاصلہ مٹاتے ہوئے، وہ ان کے پاس چلی گئی۔ ان کے سامنے سر اٹھائے، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہوگئی۔
”مجھے اپنا قیدی مت بنائیں ڈیڈ۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ جو دل چاہے گا، میں وہ کروں گی۔ آپ مجھ سے قیدیوں جیسا سلوک کرنے والے ہوتے کون ہیں؟ “ آخر میں اس کی آواز پھر سے اونچی ہوگئی تھی۔
پہلے تو وہ ضبط سے اس کی ساری باتیں سنتے رہے، لیکن آخر میں اس کے الفاظ اور لہجے کی شدت کی وجہ سے ان کا ہاتھ اٹھا تھا۔ انھوں نے تھپڑ زیادہ زور سے نہیں مارا تھا، لیکن یہ تھپڑ اس کی زندگی میں کسی نے پہلی بار مارا تھا اور وہ بھی ایسے شخص نے جس سے اس کو امید بھی نہیں تھی۔ اپنے دائیں گال پر ہاتھ رکھ کر، وہ ہکا بکا اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی جھیل جیسی نیلی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ وہ لب بھینچے خود پر ضبط کیے ہوئے تھی۔ وہ مر جاتی لیکن ان آنسوؤں کو بہنے نہ دیتی، خاص طور پر اس وقت تو ہرگز نہیں۔
شہریار کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا، تو وہ معذرت کرنے کے لیے آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ درناز نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روک دیا۔ اس نے سر دو سے تین بار نفی میں ہلایا اور پلٹ کر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے صوفوں کے درمیان سے گزر کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔ شہریار سر پکڑ کر رہ گئے۔ انھوں نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی۔ انجانے میں ان کا ہاتھ اٹھ گیا تھا، اور وہ اپنی اس غلطی پر بہت پچھتا رہے تھے۔ زندگی میں پہلی بار انھوں نے اپنی اکلوتی بیٹی پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ اپنی جان سے بھی عزیز بیٹی پر۔
جو آنسو اس نے روکے ہوئے تھے، وہ اب اس کے گالوں کو بھگو رہے تھے۔ وہ ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے اپنے آنسوؤں کو پونچھ رہی تھی۔ اسے ہر حال میں اپنے آنسوؤں کو روکنا تھا۔ اسے دنیا کے سامنے مضبوط نظر آنا تھا۔ جب وہاں کھڑے گارڈز اس کے پاس آئے، تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں رکنے کو کہا۔ اسے گارڈز کا اس کے اردگرد منڈلانا سخت ناپسند تھا۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا، بیگ اندر اچھالا اور سیٹ پر بیٹھ گئی۔ چند گہرے سانس لینے کے بعد، اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہاں سے نکل گئی۔
اعجاز گاڑی میں بیٹھا، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر، درناز کا انتظار کر رہا تھا۔وہ بار بار درناز کو فون کرنے کا سوچ رہا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک جاتا۔ اس کی آج اٹینڈنس مس ہو جانا تھا۔ اس نے آخرکار فیصلہ کیا کہ درناز کو فون کرے، لیکن اسی لمحے اس نے درناز کی گاڑی آتی ہوئی دیکھی۔ جب درناز نے گاڑی اندر لے لی، تو اعجاز بھی گاڑی اندر لے گیا۔ گاڑی پارک کرکے جب درناز باہر نکلی، تو اس نے اعجاز کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔ درناز نے گہری سانس لی۔ آخرکار وہ لڑکا اس کے بغیرکچھ کیوں نہیں کر سکتا ہے۔
”کچھ ہوا ہے؟“اس نے درناز کا بجھا ہوا چہرہ اور سرخ آنکھیں دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں، کچھ نہیں ہوا۔ تم جاؤ ورنہ میری وجہ سے تمہاری کلاس مس ہو جائے گی۔“ درناز نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”ادھر دیکھو میری طرف۔ “ اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
درناز نے اس کی سرمئی آنکھوں میں دیکھا۔ اعجاز اسے اتنے غور سے دیکھ رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں پڑھ رہا ہو۔ وہ پورا معاملہ سمجھ گیا۔
”ماموں نے کچھ کہا ہے؟ “ اس نے گہری سانس لے کر پوچھا۔
"لفظوں سے کہتے تو پھر بھی خیر تھی، لیکن... “
وہ چند لمحے کے لیے رکی۔ ”انھوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ “
اعجاز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔
”مم... ماموں ایسا نن... نہیں کر سکتے۔ وہ ایسا کک... کیسے کر سکتے ہیں؟ “ وہ پھر سے گھبراہٹ میں ہکلانے لگا تھا۔
”اعجاز، ریلیکس۔ تم نے جتنا میرے لیے مار کھائی ہے، یہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ “ وہ مسکرائی تھی۔ وہ اپنی مسکراہٹ سے جیسے اسے تسلی دینا چاہ رہی تھی۔
”کون سے گال پر لگا ہے؟ “ وہ اسے تفکر سے دیکھ رہا تھا۔
درناز نے اپنے دائیں گال پر انگلی رکھی۔ اعجاز نے ہاتھ بڑھا کر اس کا گال دیکھنا چاہا۔ وہاں تھپڑ کا کوئی نشان نہیں تھا۔ اعجاز سر جھکائے مسکرایا۔ درناز نے اسے اچھنبے سے دیکھا۔
”ماموں تو تھپڑ بھی بہت پیار سے مارتے ہیں۔ “یہ بات اس نے پشتو میں کہی تھی، اور جس انداز میں سر جھکائے کہا تھا، اس سے درناز بے اختیار ہنس پڑی۔ وہ اپنے کلاس کی طرف چل دی اور اعجاز اپنے کلاس کی طرف۔
٭...٭...٭
آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے بجلیاں چمک رہی تھیں، جیسے بادل کسی بھی لمحے برسنے کے لیے بے تاب ہوں۔ طویل برآمدہ تاریک تھی، اور اس کے آگے بہت ساری کوٹھریاں تھیں۔ ایک کوٹھری میں سلاخوں کے پیچھے ایک قیدی سر جھکائے دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے ہاتھوں میں موٹی دھاتی ہتھکڑیاں مضبوطی سے جکڑی گئی تھیں اور یہ ہتھکڑیاں مضبوط زنجیروں سے بندھی ہوئی تھیں جو دیوار سے جڑی ہوئی تھیں۔ اس کی ٹانگوں کو بھی بیڑیوں سے باندھ دیا گیا تھا، جس سے اس کے فرار کے تمام امکانات محدود کر دیے گئے تھے۔
وہ ایک خطرناک قیدی تھا۔ بے حد خطرناک۔ اسے باقی قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ وہ ’بھیڑیا‘ تھا۔ اس نے کوئی عام جرم نہیں کیے تھے، نہ ہی وہ ایک یا دو جرائم میں ملوث تھا۔ اس کے بہت سے جرم اب بھی پوشیدہ تھے۔ سب سے اہم اس کا نام تھا۔ اس کا اصل نام کسی کو معلوم نہیں تھا اور نہ ہی کوئی معلوم کر سکا تھا۔ اس کی شناخت کیا ہے؟ وہ کس خاندان سے ہے؟ یہ سب پوشیدہ تھے۔ وہ ایک بند کتاب تھا جسے کوئی بغیر اجازت کے نہیں پڑھ سکتا تھا، اور ایک ایسی پہیلی تھا جسے کوئی بھی نہیں سلجھا سکتا تھا۔
تاریک کوٹھری میں واحد زرد بلب جل رہی تھی۔ جس سے اس کا چہرہ واضح دیکھائی تو نہ دیتا لیکن اگر غور سے دیکھوں تو وہ کوئی عام شکل کا مجرم نہیں تھا۔ وہ بتیس سال کا بے حد خوبصورت مرد تھا۔ وجیہ نقوش، سیاہ گھنگریالے بال، اور اس کی جلد کی رنگت اتنی صاف اور گوری تھی کہ جیسے چاندنی رات میں چاند کی روشنی نے اسے چھوا ہو۔ دیکھنے میں وہ بہت پرکشش تھا۔ وہ مسکراتا تو دونوں گال پر گڑھے نمایا ہوتے۔ لیکن اگر وہ مسکرائے تو۔
اس کی آنکھیں گہری سیاہ تھیں، ایک پراسرار اور دل کو چھو لینے والی گہرائی سے لبریز۔ ان کی سیاہی میں ایک سنجیدہ سکون اور بے پناہ راز چھپے ہوئے تھے، جیسے رات کی تاریکی میں چھپی ہوئی چمک۔ جب وہ نظر اُٹھاتا، تو اس کی آنکھوں کی سیاہی دل کے سب سے گہرے گوشوں تک پہنچتی، ایک ایسا سحر تخلیق کرتی جو دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا۔ وہ ایک نظر اُٹھا کر دیکھتا تھا، اور وہ ایک نظر مقابل کو خوف دلانے کے لیے کافی تھی۔ اس کی نظریں اتنی پر تپش تھیں کہ تمھیں صرف اس کی آنکھوں سے خوف آنے لگتا۔
ایک پہرے دار آیا اور اس کے سامنے کھانا رکھ کر دور ہوا۔ اس نے ایک نظر اُٹھا کر پہرے دار کو دیکھا۔ گہری اور پر تپش نظریں۔ پہرے دار فوراً وہاں سے بھاگ گیا۔
” ڈرپوک! “
اس کی آواز بھاری اور گھمبیر تھی۔ جب وہ بات کرتا تو کسی کی اتنی جرات نہیں ہوتی کہ اس کی بات کو درمیان میں کاٹے۔ اس کے سینے میں دل نہیں تھا۔ وہ لوگوں پر ترس نہیں کھاتا تھا۔ وہ ایک بے حس انسان تھا، جسے لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے میں مزا آتا تھا۔ اس کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہنستے کھلتے خاندانوں کو تباہ و برباد کرنا تھا۔ وہ بارہ سال قید میں تھا، لیکن سلاخوں کے پیچھے رہنے کے باوجود باہر جتنے بھی جرم ہو رہے تھے ان سب میں وہ ملوث تھا۔ وہ سب جرم اس کے اشارے پر ہوتے تھے، لیکن کیسے؟ یہ سوال آج تک سب کے ذہنوں میں ایک پہیلی کی طرح الجھا ہوا تھا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ وہ سفید قمیض اور شلوار میں ملبوس تھا۔ کھلا گریبان، کھلی کفیں، اور بکھرا ہوا حلیہ، لیکن پھر بھی وہ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔ دراز قد، مضبوط جسامت، جس پر زخموں کے نشانات موجود تھے۔ اس کے چہرے پر غور سے دیکھو تو دائیں آنکھ کے قریب ایک لکیر جیسا نشان تھا، جو پچھلے دس سالوں سے موجود تھا۔ اس کے وجیہ چہرے پر وہ داغ بھی خوبصورت لگتا تھا۔ صرف یہ نہیں، اس کا پورا جسم زخموں سے چکنا چور تھا، لیکن وہ سخت جان اب تک جی رہا تھا۔ اسے جینا تھا، اپنے انتقام کے لیے۔ تقدیر کو بھی اس کا انتقام منظور تھا۔
اس کے دائیں طرف پانی کا مٹکا رکھا ہوا تھا۔ وہ چلتا ہوا وہاں تک گیا۔ زنجیروں کی آوازیں خاموش، ساکن کمرے میں گونجنے لگی۔ اس نے مٹکے کے اوپر رکھا گلاس اٹھا کر مٹکے سے پانی نکالا اور پھر اسی گلاس سے اپنے ہاتھ میں پانی بھر کر اپنے چہرے پر چند چھینٹے مارے۔ گلاس واپس مٹکے کے اوپر رکھا اور واپس چلتا ہوا اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا۔ وہ لاکھ برا سہی، لیکن رزق کی بے حرمتی نہیں کرتا تھا۔ اسے جو بھی کھانے کو ملتا وہ کھا لیتا تھا، چاہے وہ جیل کے اندر ہو یا باہر۔ اور ہاں، صرف یہی اچھائی اس کے اندر پائی جاتی تھی۔
اس قیدی اور اس کے چھپے ہوئے جرم کو اس کوٹھری میں چھوڑ کر، ہم خوشحالی کی طرف لوٹتے ہیں۔ جہاں اس قیدی کو اب سب بھول چکے تھے، جہاں لوگوں نے امید چھوڑ دی تھی، اور جہاں لوگ آج بھی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے خوشحال خاندانوں کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
٭...٭...٭
اس وقت اعجاز اور درناز یونی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بریک کا وقت تھا تو کیفے ٹیریا لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اعجاز خود کو سمیٹے ہوئے بیٹھا تھا۔ وہ اضطراب سے اپنا دایاں پیر ہلا رہا تھا اور لبوں کو سختی سے دانتوں تلے دبایا ہوا تھا۔ وہ بہت کم لوگوں کے درمیان بیٹھتا تھا، اور یہ بات درناز کو معلوم تھی، لیکن وہ جان بوجھ کر اسے ہجوم میں لے جایا کرتی تھی تاکہ اس میں کانفیڈنس پیدا کر سکے۔ جو درناز کہتی تھی اعجاز سر خم کیے وہی کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ درناز کبھی اس کے لیے غلط نہیں سوچے گی۔
اس کے ہاتھ میں مینو کارڈ تھا۔ وہ بہت غور سے مینو میں لکھے کھانوں کے نام دیکھ رہی تھی۔ دھوپ میں اس کے بھورے بال دمک رہے تھے۔ اعجاز سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا، بالکل خاموش۔ نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ اس نے کہنیاں میز پر رکھ کر دونوں ہاتھ باہم پھنسا لیے تھے۔ درناز نے مینو سے سر اٹھا کر اسے دیکھا، اور گہری سانس خارج کی۔ چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات طاری کیے وہ اس سے مخاطب ہوئی۔
"اعجاز سر اٹھاؤ اور یہ مینو کارڈ پکڑو۔ میرے لیے کولڈ کافی اور تم اپنے لیے جو چاہو لے سکتے ہو، لیکن آرڈر کرنا ہے تمھیں بھی اپنے لیے۔" اس کا انداز تحکمانہ تھا۔
اعجاز بوکھلا گیا۔ اس نے سر اٹھا کر پھٹی آنکھوں سے درناز کو دیکھا، جیسے کسی نے اسے گہرے کنویں میں چھلانگ لگانے کا کہہ دیا ہو۔ ایک کم گو یا انٹروورٹ انسان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
”مم… میں نہیں دد… درناز، پپ پلیز۔ “ وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔ درناز پیچھے ہو کر بیٹھی اور مینو اس کے سامنے بڑھایا، گویا وہ یہاں سے بغیر کافی پیے نہیں جائے گی اور کافی بھی اگر اعجاز جا کر لائے تو۔
"پلیز درناز۔" اس نے بے بسی ظاہر کی کہ شاید درناز کو ترس آجائے، لیکن درناز لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کیفے ٹیریا کا جائزہ لے رہی تھی۔
اعجاز مزید لب کاٹنے لگا۔ اچانک اس کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ہاتھ کھپکھپانے لگے، اور اسے محسوس ہوا کہ وہ شل ہو رہا ہے، جیسے کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہو۔ وہ لرزتے ہاتھوں سے مینو پکڑ چکا تھا۔ کبھی وہ مینو کو دیکھتا، کبھی درناز کو۔ لمبے لمبے سانس لے کر خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اندر ہی اندر خود کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ درناز سے خفا ہو چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ سب ختم ہو۔ درناز کی باتیں حد سے بڑھ چکی تھیں۔ اسے لاکھ اعتراض سہی، لیکن وہ درناز کے سامنے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ چاہے وہ لوگوں کا مذاق ہی کیوں نہ بنے۔
درناز اسے کھڑے ہوتے دیکھ کر خوش ہوئی۔ اعجاز نے آخری بار معصومیت سے اسے دیکھا، کاش کہ اسے ایک بار ترس آجائے۔ لیکن اس کی جھیل جیسی نیلی آنکھوں میں اپنے لیے آس دیکھ کر اس نے گہری سانس لی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔
درناز سیدھی ہو کر بیٹھی، پھر کاؤنٹر کی طرف مڑ کر بیٹھ گئی۔ جس رفتار سے اعجاز جا رہا تھا اس کے مطابق کافی لانے میں اسے صدیوں لگ جائیں گی۔ بادل زور و شور سے گرجنے لگے، اور ہلکی ہلکی بونداباندی بھی شروع ہو گئی۔ درناز کو اس کے آس پاس نہ پا کر تمام لڑکے لڑکیاں اسے تنگ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ایک لڑکا اس کے پاس آیا بھی تھا۔ اعجاز سر جھکائے یونہی آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ لڑکا اسی کی رفتار میں چل رہا تھا۔
” اعجاز ... تت تمہاری دد... دوست کہاں ہے؟ آج دد ... دکھائی نہیں دے رہی۔ “ وہ اعجاز کی نقل اتارتے ہوئے آخر میں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑا۔ کیفے میں موجود تمام لڑکے لڑکیاں ہنسنے لگے۔
درناز نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس نے ضبط سے دانتوں پر دانت جمائے، لیکن اعجاز کو لوگوں کی باتوں سے بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھیں۔ اسی لمحے بجلی کڑکنے کی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ سیاہ بادل آسمان پر قبضہ کرنے لگے۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں بارش تیز ہونے والی ہے۔ بجلیاں بھی خوب کڑک رہی تھیں۔
وہ کسی طوفان کے آنے کی علامت تھی۔
وہ طوفان جو ان کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے والا تھا۔
سب ایک ایک کر کے اسے تنگ کرنے لگے۔ اعجاز یونہی سر جھکائے مینو کارڈ کو مضبوطی سے ہاتھ میں تھامے ہوئے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ لب بھینچ گیا۔ آنکھوں میں اشتعال ابھرا۔ ایک لمحے کے لیے اس کا دل چاہا کہ شیشے کی بوتل اٹھا کر ان کے سر پر دے مارے، لیکن وہ خود پر ضبط کیے ہوئے تھا۔
اس میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ وہ ان لڑکوں کا مقابلہ کرے؟ وہ ہمیشہ کی طرح درناز کا انتظار کر رہا تھا۔ درناز کو اس کی بزدلی پر غصہ چڑھ گیا، اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کی مدد کے لیے اٹھی۔ وہاں موجود سب لوگ درناز کو اپنی طرف آتے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ وہ درناز سے ڈرتے تھے، اور اگرچہ اعجاز ان کے سر پر شیشے کی بوتل نہیں مار سکتا تھاتو کیا ہوا، درناز تو مار سکتی تھی۔
بلکہ وہ مار چکی تھی!
اسے یہاں آتے دیکھ کر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ اعجاز نے اطمینان بھری سانس لی۔ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ درناز آگئی ہے۔ اس کی پشت درناز کی طرف تھی۔ اس کا سر خودبخود اٹھ گیا۔ وہ خود کو درناز کے ساتھ پر اعتماد محسوس کرتا تھا۔ درناز نے صرف ایک نظر وہاں کھڑے لوگوں پر ڈالی۔ سب سٹ پٹا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ وہ کئی بار لڑکوں کا سر پھوڑ چکی تھی۔ اعجاز کے لیے وہ مر بھی سکتی تھی اور مار بھی سکتی تھی۔
اس نے اعجاز کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اعجاز نہیں پلٹا۔ مینو کارڈ کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے رکھا تھا۔ درناز نے اس کے کندھے پر دباؤ ڈالا تو اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ وہ اس وقت بہت خجل محسوس کر رہا تھا۔ اس کا چہرہ خجالت سے سرخ پڑ چکا تھا۔ درناز کو آج پہلی بار ایسا لگا کہ اسے اعجاز کو اس طرح نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ اس سے غلطی ہوگئی تھی اور اس کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت درناز سے سخت خفا ہے۔
” اعجاز، چلو چلتے ہیں۔ بارش تیز ہوگی تو ہم بھیگ جائیں گے۔ “ وہ محتاط انداز میں ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہی تھی۔
وہ پلٹ کر اسے نظر انداز کرتے ہوئے لمبے لمبے قدم بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ مینو کارڈ زور سے زمین پر پھینکا۔ درناز مسکرائی۔ وہ یہی تو چاہتی تھی اعجاز غصہ کرے۔ غصے میں وہ نہیں اٹکتا تھا، لیکن وہ ہکلاتا تب تھا جب وہ گھبراتا یا خوفزدہ ہو جاتا تھا۔
وہ جا کر گاڑی کا دروازہ کھولے اندر بیٹھ گیا۔ اس کی کان کی لوئیں سرخ ہو چکی تھیں۔ وہ مزید لوگوں کے ہجوم میں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں کئی بار خیال آیا تھا کہ وہ خود کو ختم کر دے۔ جب وہ ہی نہیں رہے گا تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا۔ وہ ارادہ تو یہی رکھتا تھا کہ یہاں سے کسی ایسی جگہ جائے جہاں سے وہ واپس نہ لوٹ سکے، لیکن اسی لمحے اس کا فون بجا۔نمبر دیکھ کر اس نے بھنویں بھینچیں۔ آنکھوں میں تعجب ابھرا۔ اس نمبر سے کال آنا اس کے لیے غیر متوقع تھا۔
اسی لمحے دور سے درناز آتی ہوئی دیکھی۔ وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ بارش آہستہ آہستہ تیز ہو رہی تھی اور وقفے وقفے سے بجلیاں اب بھی کڑک رہی تھیں۔ بارش کے قطروں کی وجہ سے سامنے کا منظر دھندلا گیا تھا۔ وہ خیالوں میں گم ہو کر سامنے دیکھ رہا تھا۔ فون بند ہو چکا تھا، درناز جا چکی تھی، لیکن اعجاز وہی منجمد بیٹھا رہا۔ وہ خیالوں کی دنیا سے تب باہر آیا جب فون کی گھنٹی پھر سے بجنے لگی۔ اعجاز نے نظریں سامنے سے ہٹا کر کال ریسیو کر کے کان سے لگا لیا۔
وہ گلا کھنکھارتے ہوئے گویا ہوا، ” السلام علیکم ... مم ... “ اس نے گہری سانس لی۔ ” مامو۔ “
” وعلیکم السلام۔ وہ ... آج اگر تم ہمارے گھر چکر لگا لو تو ... درناز کو اچھا لگے گا۔ “ وہ تھوڑے جھجکتے ہوئے بولے۔ ” مجھے بھی خوشی ہوگی تم ہمارے گھر داخلی دروازے سے آؤ، نہ کہ چھپ کر رات کو کھڑکیوں کے ذریعے سے۔ “ شہریار شاید پہلی بار اتنی نرمی سے اعجاز سے بات کر رہے تھے اور شاید آخری بار۔
” جی جی ... ماموں ... آآ ... آپ مجھے اپنے گھر بلائیں، بھلا میں کیسے انکار کر سکتا ہوں۔ “ وہ ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا کہ کہیں اٹک نہ جائے۔ وہ کوشش کر رہا تھا۔ وہ درناز کے لیے کوشش کرتا تھا۔
” درناز کو مت بتانا کہ تم شام کو آؤگے۔ میں انتظار کروں گا تمھارا۔ “ یہ کہہ کر انھوں نے فون کاٹ دیا۔ اعجاز مسکرایا۔ آخرکار وہ اپنے ماموں کے دل میں جگہ بنا رہا تھا۔
٭...٭...٭
سیاہ بادلوں سے دھکا آسمان اب گہرے نیلے رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ بارش برس کر تھم چکی تھی۔ درناز اب جا کر گھر واپس آئی تھی۔ وہ گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے، انگلی میں چابی گھماتے ہوئے بے دھیانی سے گھر کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ گھر کے باہر گارڈز اپنی روایتی سخت گیر انداز میں، اسلحہ تھامے کھڑے تھے۔ درناز کو گارڈز سے سخت کوفت محسوس ہوتی تھی۔ انھیں نظر انداز کر تے ہوئے وہ اندر داخل چلی گئی۔
صوفے پر شہریار کے ساتھ چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ درناز دروازے سے داخل ہوئی تو ایک لمحے کے لیے رک گئی۔ اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور سنجیدہ چہرہ مسکراہٹ میں بدل گیا۔ اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر اسے اپنے اندر سکون سا محسوس ہوا۔
” مراد! “ اس نے مراد کو پکارا۔
مراد نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا تو بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، حالانکہ اسے خود بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کیوں اٹھا تھا۔ وہ بھاگتی ہوئی لاؤنج کی طرف جا رہی تھی۔ وہاں بیٹھے نقوش اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ لاؤنج اور داخلی دروازے کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس پہنچی اور اس کے سینے سے جا لگی۔
مراد مسکرایا۔ ایک گہری اور پرکشش مسکراہٹ۔ وہ صرف دو دن ہی اس سے دور رہا تھا اور مراد کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ درناز نے ان دو دنوں میں اسے یاد کیا۔ اس نے درناز کے گرد بازو حمائل کیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ درناز کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
رابعہ اور تیمور اس کی اس حرکت پر ششدر رہ گئے، جبکہ مہوش نے تنفر سے اسے دیکھ کر رخ بدلا۔ شہریار کے علاوہ صرف دو لوگ خوش نظر آئے، مراد اور عالم شاہ۔ وہ پیچھے ہٹ گئی۔ مراد کو دیکھ کر اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔
درناز فوراً دادا جان کے پاس گئی، انھیں سلام کیا اور ان کے ہاتھ چومے۔ دادا جان نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے ملائمت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس کے بعد وہ تیمور کے پاس گئی، پھر رابعہ کے پاس، وہ دونوں نے اس سے رسمی ملاقات کی اور پھر مہوش کی طرف دیکھ کر صرف مسکرائی۔
” میں نے تمھیں بہت یاد کیا ناز۔ “ مراد نے درناز کو اپنے پاس بیٹھایا۔ درناز کھلکھلا اٹھی۔ شہریار اس کی مسکراہٹ دیکھ کر خوش ہوئے۔ وہ سب بھول چکی تھی یا چھپا رہی تھی لیکن جو بھی تھا وہ اب خوش تھی۔
” میں نے بھی آپ کو بہت یاد کیا مراد۔ آپ کو پتہ ہے مجھے یہ تنہائی کتنی ستاتی تھی۔ میرا تو دل ہی گھر میں نہیں لگتا تھا۔ “ وہ مراد کے ساتھ ایسے بات کر رہی تھی جیسے ان کے علاوہ وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔
” اچھا، تو پھر ناز کا دل کہاں لگتا تھا؟ “ مراد نے دلچسپی سے پوچھا۔
” مراد۔ “ اس نے خفگی سے اسے دیکھا۔ ” سچ سچ بتائیں آپ نے مجھے یاد کیا یا بس ایسے ہی کہہ رہے ہیں؟ “
” ظاہر ہے تمھیں مس کیا۔ تبھی تو ایک ہفتے کی جگہ ان سب کو دو دن میں واپس لے آیا۔ “ آخری فقرہ اس نے سرگوشی انداز میں کہا۔ درناز نے جب سے مراد کو دیکھا تھا تب سے اس کے لبوں سے ہنسی ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوئی تھی۔
” مجھے پتا تھا کہ مراد دو دن سے زیادہ مجھ سے دور نہیں رہ سکتے۔ “ اس نے اعتماد سے کہا۔ اس کا مراد کو ’بھائی‘ نہ کہنے کی وجہ خود مراد تھا۔ اس نے درناز کو منع کر رکھا تھا کہ وہ اسے بھائی نہ بلایا کرے، حالانکہ دونوں کے درمیان پانچ سال کا فرق تھا۔
” واقعی میں؟ “ مراد نے مصنوعی حیرت سےپوچھا۔ وہاں بیٹھے افراد انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کے اتنے ہی قریب تھے۔
” ہاں! اب آپ چلیں نا، ہم کوئی اچھی سی فلم دیکھیں گے اور اس کے بعد باہر کھانا کھانے جائیں گے۔ “ وہ اس کا بازو پکڑے، اسے کھڑے کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
” بیٹا درناز۔ “ رابعہ بیگم مسکرا کر لیکن دانت پیستے ہوئے کہنے لگیں۔ ” ہم ابھی آئے ہیں، ہمیں آرام بھی کرنا ہوگا نا؟ اور مراد کہہ بھی رہا تھا کہ وہ کافی تھک چکا ہے۔ “
درناز نے انھیں دیکھا پھر مراد کو۔ مراد خاموش تھا، اس کا مطلب تھا کہ وہ واقعی تھکا ہوا ہے۔
” بالکل، درناز بیٹا وہ کون سا بھاگے جا رہا ہے۔ آپ دونوں آرام سے کل گھوم پھیر لینا۔ “ دادا جان نے بہت پیار سے کہا۔ لیکن درناز منہ بنائے، اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔
تیمور سر جھٹک کر رابعہ کے ساتھ کمرے میں چلے گئے۔ شہریار نے تاسف سے نفی میں سر ہلایا۔ مراداس کو مایوس دیکھ کر اداس ہوا۔ وہ لب کاٹے ہوئے اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔وہ واقعی تھکا ہوا تھا، لیکن اگر رابعہ یہ بات نہ کہتیں تو وہ ہرگز انکار نہ کرتا۔ نہ جانے درناز میں ایسی کیا بات تھی کہ کوئی چاہ کر بھی اسے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ دادا جان نے اپنی عزیز پوتی کو ناراضگی سے جاتے ہوئے دیکھا، پھر خود بھی آرام کرنے کے لیے وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔
”بیٹا تم تو جانتے ہو وہ ایسی ہی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتی ہے۔ تم بے فکر ہو کر جاؤ اور آرام کرو۔ “ شہریار نے اس کا اداس چہرہ دیکھ کر کہا۔
”جی چاچو۔ ویسے بھی وہ زیادہ دیر تک مجھ سے ناراض نہیں رہ سکتی کیونکہ میں مراد ہوں اور مراد سے کوئی زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتا۔ “ اس نے پراعتماد لہجے میں کہا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ شہریار اس کا یہ اعتماد دیکھ کر کافی متاثر ہوئے۔
”شب بخیر۔“ مراد نے مسکرا کر کہا۔ شہریار جواباً مسکرائے۔ مراد اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
مراد کے جانے کے بعد، اعجاز گھر کے اندر داخل ہوا۔ شہریار اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگے تھے کہ اعجاز کو دیکھ کر رک گئے۔ شہریار نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ اعجاز قدم اٹھائے لاؤنج کی طرف بڑھنے لگا۔ شہریار واپس صوفے پر جا کر بیٹھ گئے۔ اعجاز ان کے سامنے آکر کھڑا ہوا اور سلام کیا، جس کا جواب شہریار نے سر کے خم سے دیا۔
”کیسے ہیں آپ ماموں؟ “ اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”ٹھیک نہیں ہوں۔ میں نے آج درناز پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ “ وہ اپنے کیے پر پچھتا رہے تھے۔ ”درناز اپنے کمرے میں ہے، تم جاؤ اس سے مل لو۔ وہ تمھیں دیکھ کر بہتر محسوس کرے گی۔ “ وہ جانتے تھے کہ درناز نے اعجاز کو سب کچھ بتا دیا ہوگا، اس لیے انھوں نے براہِ راست کہا۔
”جی ... “ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
درناز اندھیرے کمرے میں بیڈ پر نیم دراز تھی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی یا اس کا ذہن اس وقت کام نہیں کر رہا تھا، یہ پتہ لگانا مشکل تھا۔ اعجاز کب سے دروازے پر دستک دے رہا تھا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی اور وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ دروازہ کھلا۔ اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ درناز کا چہرہ سپاٹ تھا، جیسے اس کے آنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ نہ خوشی کے تاثرات تھے، نہ اداسی کے۔ وہ اسے اندر آنے کا راستہ دیتی ہوئی سامنے سے ہٹی۔
)چہرہ تو ایسا بنایا ہوا ہے جیسے میں نے کچھ کیا ہو۔ (
اعجاز نے پشتو میں خفگی سے سوچتے ہوئے اندر قدم رکھا۔ درناز نے تمام لائٹس آن کر دی تھیں۔ یہ ایک وسیع و عریض کمرہ تھا، دیواریں سرمئی اور سفید رنگ سے مزین تھیں، جن پر متحرک فریم آویزاں تھے۔ کھڑکیوں کو پرتعیش، گہرے سرمئی مخملی پردوں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ ایک خوبصورت کرسٹل فانوس چھت سے لٹک رہا تھا۔ اس کمرے کی ہر چیز سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ محل کے سب سے خوبصورت اور بڑے کمروں میں سے ایک ہے۔ بیڈ سے لے کر سجاوٹ کی اشیاء تک، ہر چیز قیمتی اور منفرد تھی۔
درناز جا کر سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ اعجاز بھی جا کر اس کے پاس رکھے دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ غور سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور اسے مخاطب کیا۔
”درناز، ناراض ہو؟ “ اس نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
”نہیں۔ “ یک لفظی جواب آیا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ آرام دہ کپڑوں میں ملبوس تھی اور اس کے کھلے بال پونی میں بندھے ہوئے تھے۔
”تو پھر مجھ سے ... ب… بات کیوں نہیں کر رہی؟ ت… تم تو ایسا نہیں ک… کرتی تھی میرے ساتھ۔ “
”مراد آئے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کی۔ وہ ... “اس نے چہرہ اٹھا کر اعجاز کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"مراد بھائی ابھی آئے ہیں اور تم ان سے اتنی جلدی بب... بدگمان ہو رہی ہو؟ وہ تت... تھک گئے ہوں گے، انھیں آرام کی ضرورت ہے۔" اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”نہیں اعجاز، وہ پہلے بھی ہفتوں کے لیے جاتے تھے لیکن ان کا رویہ ویسا ہی رہتا۔ چاہے وہ کتنے بھی تھکے ہوئے سفر سے واپس آتے تھے، مجھے آج تک انھوں نے انکار نہیں کیا، لیکن اب... “ اس نے افسردگی سے کہا اور خاموش ہو گئی۔ وہ بہت حساس تھی اپنے لوگوں کے معاملے میں۔
”کس بات پر ان سے ناراض ہو؟ “اس نے گہری سانس بھر کر پوچھا۔
”میرے ساتھ مووی دیکھنے سے انکار کر دیا۔ “وہ سر جھکائے بڑبڑائی۔
اعجاز کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ درناز نے اسے خفگی سے دیکھا۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے اپنی ہنسی ضبط کی۔
”تو میرے ساتھ دیکھ لو مووی۔ “ اس نے درناز کے سامنے اس کی اداسی کا حل پیش کیا۔
”تمھارے ساتھ تو ہمیشہ دیکھتی ہوں لیکن مراد کے ساتھ کبھی موقع نہیں ملتا۔ “ وہ اب بھی منہ بنائے بیٹھی ہوئی تھی۔ اعجاز نے تاسف سے سر ہلایا۔ اس لڑکی کا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
”تمھیں حیرانی نہیں ہوئی مجھے یہاں دیکھ کر؟ “ چند لمحے کی خاموشی کے بعد اعجاز نے سوال کیا۔
"نہیں، کیونکہ ڈیڈ کو معلوم ہے کہ میں اس طرح انھیں معاف کر دوں گی۔ “ وہ استہزائی مسکرائی۔
”یار، وہ تم سے اتنی محبت بھی تو کرتے ہیں۔ اگر زندگی میں پہلی بار ان سے تھپڑ کھایا تو کیا ہوا؟ “
”جن سے ہمیں توقع نہیں ہوتی، وہی ہمارا دل توڑتے ہیں۔ میں انھیں اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گی۔ “ اس نے یاسیت سے کہا۔
اس نے مزید کچھ نہیں کہا اور نہ ہی پوچھا۔ وہ اٹھا، درناز کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی کھڑا کیا۔ درناز سمجھ گئی کہ اب وہ مووی دیکھے بغیر یہاں سے نہیں جائے گا۔ اس نے درناز کو بیڈ کے ایک طرف بٹھایا اور کمرے میں رکھی منی فرج سے اپنے اور درناز کے لیے جوس کی بوتلیں نکالیں۔ دراز سے چپس اور پاپ کارن بھی نکال کر، خود دوسرے طرف جا کر بیٹھ گیا۔ ریموٹ پکڑ کر، اس نے ٹی وی آن کیا اور نیٹ فلکس پر مووی لگا دی۔
درناز کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا۔ اس نے اعجاز کی طرف دیکھا، جو سامنے ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اعجاز جانتا تھا کہ درناز اسی کو دیکھ رہی ہے۔ اس نے درناز کی طرف چپس بڑھائے۔ درناز کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی اور وہ اس طرح بھول گئی کہ کچھ دیر پہلے مراد نے اسے انکار کیا تھا۔
مراد کمرے کے باہر کھڑا تھا۔ ان کی قہقہوں سے بھری آوازیں، ان کا ایک ساتھ ہونا، درناز کا اس کے ساتھ خوش رہنا، یہ سب کچھ اسے جھلاہٹ محسوس کروا رہا تھا۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
اس نے سب کچھ سن لیا تھا اور ابھی بھی حیران تھا کہ آخر درناز کو اس کا کون سا رویہ عجیب لگا۔ اس نے کب درناز کو نظر انداز کیا؟ کیا وہ اسے نظر انداز کر سکتا تھا؟ اس کے لیے وہ ایک ہفتے بعد آنے کی بجائے دو دن میں آگیا تھا، اور درناز پھر بھی اس سے ناراض ہو گئی تھی۔
وہ غیظ سے لمبے لمبے قدم بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہ تو یہاں درناز سے معافی مانگنے اور اسے ڈنر پر لے جانے کے لیے آیا تھا۔ آج اسے پتا چل گیا تھا کہ اس کے لیے اگر مراد نہیں ہے تو اعجاز ہی صحیح، اور اگر اعجاز نہیں تو کوئی نہیں۔ لیکن ان دونوں کے لیے درناز نہیں تو کوئی دوسری نہیں۔
اس نے کمرے کا دروازہ کھول کر زور سے بند کیا۔ اپنا کوٹ اتار کر بیڈ پر پھینک دیا اور پھر شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھولنے لگا۔ اسے پسینے آرہے تھے۔ اے سی کا ریموٹ پکڑ کر اس نے اے سی آن کیا، مگر اسے ابھی بھی شدید گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا۔
وہ سنگھار میز کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ ہتھیلیاں میز پر رکھ کر وہ جھکا، چہرہ اٹھا کر شیشے میں خود کو بغور دیکھنے لگا۔ پُر کشش نقوش، صاف رنگت، اونچا لمبا قد، مضبوط جسامت۔ بڑھی ہوئی شیو اسے مزید پرکشش بنا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی رنگت میں ایک خاص قسم کا گہرا بھورا پن تھا، جو پتھریلی زمین پر چمکنے والے سنہری ذرات کی جھلک کی طرح نظر آتا تھا۔ دھوپ کی تمازت میں رنگوں کی جھلک کی طرح، اس کی آنکھوں میں بھی ایک مخصوص چمک تھی۔
وہ بے حد ہینڈسم تھا، اعجاز سے کہیں زیادہ خوبصورت۔ مگر افسوس، وہ اعجاز نہیں بن سکتا تھا۔ درناز کی پہلی ترجیح نہیں بن سکتا تھا۔ اس کے لیے، مراد نہیں تو اعجاز تھا۔
اس نے بند مٹھی زور سے شیشے پر ماری۔ شیشہ ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا۔ اس کے ہاتھ کے پشت سے خون بہنے لگا، مگر اسے اس درد کا احساس نہیں ہوا۔ یہ درد اُس درد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر اس نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا تھا۔ کمرے میں موجود ہر سامان کو توڑنے لگا۔ اس کا کمرہ ساؤنڈ پروف تھا، لہٰذا اندر کی آواز باہر نہیں جاتی تھی۔ وہ سب کچھ توڑ چکا تھا۔ سب کچھ۔
مووی ختم ہو چکی تھی۔ درناز کی آنکھیں بار بار نیند کی وجہ سے بند ہو رہی تھیں۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ اعجاز جمائی لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ کل اتوار تھا اور ہر ہفتے کی رات درناز کوئی نہ کوئی مووی دیکھتی تھی۔ چاہے وہ اعجاز کے ساتھ دیکھے یا مراد کے ساتھ، لیکن اسے ایک مووی پارٹنر کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسے کھڑے ہوتے دیکھ کر درناز سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”اعجاز، اگر تم اس وقت گھر جاؤ گے اور انکل نے تمھیں پھر سے... “
”بابا تو ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ انھیں کہنے دو جو کہنا ہے، آخر میں میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا، کیونکہ مجھے تو ہر صورت مار ہی کھانی ہے۔ “ اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔ درناز اسے یاسیت سے دیکھ رہی تھی۔
”گھر پہنچ کر اپنی خیریت کی خبر دینا، میں انتظار کروں گی۔ “ وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔ اعجاز نے ہاں میں سر ہلایا۔
وہ آج کافی دنوں بعد دروازے سے آیا تھا اور اب دروازے سے ہی واپس جائے گا۔ اسے اچھا لگا کہ شہریار نے خود اسے گھر آنے کا کہا۔ وہ اسی بات پر خوش تھا۔ جو بھی آگے ہونا تھا، اس نے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کر لیا تھا۔ اگرچہ وہ خوفزدہ تھا، لیکن درناز کے سامنے ایسا ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اس نے درناز کو یہ دکھانا تھا کہ وہ واقعی بدلنا چاہتا ہے۔
درناز نے اسے الوداع کہا اور کمرے کی تمام لائٹس بند کرکے بستر پر جا کر سو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ اعجاز کا کوئی میسج نہیں آئے گا۔
اعجاز اپنے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھا لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ اس کا گلا خشک تھا اور آنکھوں میں محمود خان کا خوف جھلک رہا تھا۔ وہ ہمیشہ مار کھاتا آیا تھا، اور آج بھی یہی ہونے والا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتا تھا۔
چند لمحے یونہی بیٹھنے کے بعد، اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ اندر کی طرف بڑھنے لگا۔ وہاں موجود گارڈز نے یاسیت سے اسے دیکھا۔ چوبیس سال کا لڑکا چھوٹے بچوں کی طرح ڈر رہا تھا۔ اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا اور پہلوؤں میں گرے ہاتھ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔
”تمھیں کیا لگتا ہے، آج محمود سر اسے زندہ چھوڑ دیں گے؟ “ ایک گارڈ نے دھیمی آواز میں دوسرے سے پوچھا۔
دوسرے گارڈ نے ادھر ادھر دیکھا، پھر اس سے گویا ہوا۔ ”زیادہ سے زیادہ اتنا ماریں گے کہ وہ ہسپتال تک پہنچ جائے، لیکن وہاں سے اس کی واپسی کے امکانات بھی ہوں۔ “ دونوں نے استہزائیہ سر جھٹکا۔
دروازہ کھول کر اعجاز اندر داخل ہوا۔ آگے راہداری تھی۔ راہداری سے گزر کر دائیں طرف لاؤنج تھا، جہاں صوفے پر محمود غصے سے مٹھیاں بھینچ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں اشتعال ابھرا ہوا تھا۔ ان کے پاس ہی میمونہ چہرے پر پریشانیاں سجائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ مضطرب نظر آ رہی تھیں۔ شیاز لاؤنج میں دائیں سے بائیں جانب ٹھہل رہا تھا۔
ان تینوں کو معلوم تھا کہ اعجاز ہفتے کو رات دیر سے آتا ہے، لیکن وہ بتا کر دیر سے آتا تھا اور آج اس نے فون کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ درناز تو ویسے بھی مووی کے وقت فون اپنے آس پاس بھی نہیں رکھتی تھی۔ اور اگر رکھتی بھی تو کوئی فائدہ نہیں تھا، کیونکہ آج تک اس نے کبھی کسی کی ضروری فون کال اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔
”آگئے نواب صاحب۔ آئیے، ہم تمھارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ ہم تو بے وقوف ہیں جو ایک نکمے بے روزگار کی انتظار میں راتوں کو جاگتے ہیں۔ “ اعجاز ان کے سامنے کھڑا تھا کہ محمود اس پر برس پڑے۔
”کہاں تھے تم؟ تمھیں اندازہ بھی ہے کہ ہم کتنے پریشان ہوئے ہیں تمھارے لیے؟ “ شیاز اس کے قریب آ کر اس پر غرایا۔ ”یہ فون ہم نے تمھیں چوبیس گھنٹے گیم کھیلنے کے لیے دلوایا تھا؟ ہاں، بولو۔ “
اعجاز نے مٹھیاں مضبوطی سے بھینچ لیں۔ وہ لب کاٹنے لگا اور اپنے جبڑے بھی بھینچ لیے۔ وہ صرف ان کی باتیں برداشت کر سکتا تھا، اپنے حق میں آواز اٹھانے کی اتنی ہمت اس میں نہیں تھی۔ آج تو اس کا بھائی بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ میمونہ انھیں روکنا چاہتی تھی، لیکن اگر وہ درمیان میں آئی تو معاملہ اور بگڑ سکتا تھا۔
”اب بتاؤ، کیوں آئے اتنی دیر سے؟ اس آوارہ لڑکی کے پاس گئے تھے نا؟ “ محمود نے اسے کندھے سے جھنجھوڑ کر کہا۔ اعجاز کانپ کر رہ گیا۔ وہ اپنی انگلی سے بار بار اپنا چشمہ ٹھیک کر رہا تھا۔ شیاز کو وہ معصوم سا بچہ لگا۔ وہ موم کی طرح پگھلنے لگا۔ شیاز اس کا بھائی تھا، اعجاز اس کے لیے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ وہ اس کی فکر کرتا تھا، تبھی اس کے ساتھ سختی برتتا تھا۔
شیاز نے گہری سانس لی۔ ”اعجاز، اگر تمھیں دیر سے آنا ہی تھا تو کم از کم فون کر دیتے۔ یا اتنا بتا دیتے کہ تم خیریت سے ہو۔ “ شیاز اب پُر سکون نظر آ رہا تھا، جبکہ محمود ابھی بھی غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔
”جج … جب آپ لوگوں کک … کو پپ …پتا ہے میں دیر سے آتا ہوں تت … تو پھر کیوں میرا انتظار کرتے ہیں۔ “ اس کی آواز توقع کے مطابق کانپ رہی تھی اور اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
محمود اس کے ہکلانے سے تنگ آ چکے تھے۔ آخر وہ بنا ہکلائے بات کیوں نہیں کرتا تھا؟ وہ مزید آگے بڑھے، اور اگلے ہی لمحے وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا تھا۔ محمود نے زناٹے دار تھپڑ اسے رسید کر دیا۔ شیاز نے ضبط سے آنکھیں بند کر لیں۔ میمونہ آگے بڑھنا چاہتی تھیں، لیکن ان کے قدم جیسے زنجیر ہو گئے تھے۔ اعجاز نے اپنے گال پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ محمود کا ہاتھ اتنا بھاری تھا کہ ایک تھپڑ سے ہی گال پورا لال ہو گیا تھا۔ اعجاز اپنے آنسوؤں پر ضبط کیے کھڑا رہا۔
”میں آئندہ تمھیں اس آوارہ لڑکی کے آس پاس بھی نہ دیکھوں۔ اور یہ مت بھولو کہ میرا اس کے خاندان سے کیا دشمنی ہے۔ “ محمود ہر لفظ چبا چبا کر کہہ رہے تھے۔ اعجاز آوارہ نام پر جیسے آگ بگولہ ہو گیا۔
”وہ آوارہ نہیں ہے بابا! “وہ چیخا تھا۔ ہاں وہ پہلی بار ہی تو چیخا تھا۔
اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ محمود جو پلٹ کر جانے ہی والے تھے، اعجاز کی چیخ پر رکے اور غصے سے اس کے قریب آنے لگے۔ شیاز درمیان میں بازو پھیلائے کھڑا ہو گیا۔ میمونہ کی تو جان پر آگئی تھی۔ شیاز نے نفی میں سر ہلایا۔
”بابا، خدا کے لیے بس کردیں۔ بس اب۔ “ وہ منت بھرے انداز میں کہہ رہا تھا۔ میمونہ جب سے اعجاز آیا تھا، خاموشی سے رو رہی تھی۔ محمود نے سلگتی نظروں سے اعجاز کو دیکھا۔
”صرف تمہارے لیے میں اسے جانے دے رہا ہوں، ورنہ اس جیسے نکمے بچے کو کوئی پاگل بھی اپنے گھر پر نہ رکھتا۔ “ یہ کہہ کر وہ رکے نہیں، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
میمونہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس جا کر اسے گلے لگا لیتی ہے۔ شیاز میز سے پانی کا جگ اٹھا کر گلاس میں پانی انڈیل رہا تھا۔ شروع سے آج تک، محمود اپنا غصہ ہمیشہ اعجاز پر نکالتے تھے۔ میمونہ ترحم سے اسے دیکھتی گئی۔
”جب جانتے ہو کہ بابا کو تمھارا دیر سے آنا پسند نہیں، تو کیوں جان بوجھ کر دیر سے آتے ہو؟ “ شیاز نے پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
” زه خپل ژوند لرم۔ “ (میری اپنی بھی کوئی زندگی ہے۔) تڑخ کر کہتے ہوئے، اس نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا اور ایک ہی سانس میں پانی پینے لگا۔
” زما دماغ دیر مہ خراب کوا۔ “ (میرا دماغ زیادہ خراب مت کرو۔) اس نے ہاتھ اٹھا کر غصے سے کہا۔
”کیا آپ کے پاس دماغ ہے؟ “ میمونہ ان کی نوک جھونک پر ماتھا پیٹ کر رہ گئی۔
”امی یہ دیکھیں، یہ حد سے بڑھ رہا ہے۔ میں نہ ہوتا تو آج یہ ہسپتال ضرور پہنچ جاتا۔ “ وہ آنکھیں اعجاز پر مرکوز کیے میمونہ سے کہہ رہا تھا۔
”واقعی، اگر آج آپ نہ ہوتے تو یہ سب نہ ہوتا۔ “ تلخی سے کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ یہ جانے بغیر کہ اس کی یہ بات شیاز کو کتنی بری لگی تھی اور وہ کس قدر ہرٹ ہوا تھا۔
”میں اس کے لیے کیا نہیں کرتا اور یہ خبیث میرے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے جیسے میں اس کا بھائی نہیں دشمن ہوں۔ “ اس نے تاسف سے سر ہلایا۔
اعجاز کمرے میں گیا۔ وہ بستر پر سونے کے لیے جانے ہی لگا تھا کہ ایک خیال کے تحت اس نے بالکنی کی طرف قدم بڑھائے۔ وہ کرسی پر جا کر بیٹھ گیا، اپنے پیر میز پر رکھے اور پھر چہرہ اوپر کر کے چاند کو دیکھنے لگا۔
ایک آنسو ٹوٹ کر اس کے گال پر گرا، پھر دوسرا، تیسرا، اور یکا یک آنسوؤں کا آبشار بہنے لگا۔ وہ ایک بار پھر ماضی میں چلا گیا۔ اس کی پوری زندگی لڑائی جھگڑے میں گزری تھی۔ اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ وہ چاند کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، یہاں تک کہ چاند ڈھل گیا۔ آہستہ آہستہ آسمان پر ہلکا نیلا رنگ چھڑنے لگا۔ وہ سرخ آنکھوں سے چاند کو غائب ہوتے ہوئے دیکھتا رہا اور اسے اب سکون مل گیا تھا۔
٭...٭...٭
اکیس سال قبل
رات کا اندھیرا ہر سوں پھیل چکا تھا۔ وہ دسمبر کی سرد راتوں میں سب سے سرد رات تھی۔ ہوا میں تیزی تھی، جو ہر طرف سکوت کے ساتھ ایک چمکدار ٹھنڈک بکھیر رہی تھی۔ میمونہ شیاز اور زریش کو اُس کے کمرے میں سلا کر اب اعجاز کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ دو سالہ اعجاز سونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اسے اپنے بابا چاہیے تھا اور اس کے بابا نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔
میمونہ انھیں کئی بار کال کر چکی تھی۔ ایک طرف وہ اعجاز کو سلانے کی کوشش کرتی تو دوسری طرف محمود کو کال لگانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ لوگ اس وقت ایک چھوٹے مکان میں رہ رہے تھےاس گلی میں اور کوئی دوسرا مکان نہیں تھا۔
محمود کی غیر موجودگی نے میمونہ کو شدید بے چینی میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس سے پہلے وہ کبھی بھی اتنی دیر نہیں کرتے تھے آنے میں۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اعجاز کے سونے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلی۔ ایک نظر شیاز اور زریش کے کمرے میں جھانک کر دیکھا، وہ دونوں اپنے اپنے بستر پر سکون سے سو رہے تھے۔ پھر وہ لاؤنج میں جا کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
کمرے کے مقابلے میں لاؤنج میں سردی بہت زیادہ تھی۔ وہ صوفے پر سمٹ کر بیٹھ گئی، تاکہ سرد ہوا کی لپیٹ سے محفوظ رہ سکے۔ فون اس کے ہاتھ میں تھا اور وہ بے چینی سے بار بار کال ملاتی، پھر جب جواب موصول نہیں ہوتا تو ایک میسج چھوڑ دیتی۔
ایسا کرتے کرتے فجر کی اذان ہونے لگی۔ صوفے پر بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ اذان کی آواز پر وہ اچانک ہڑبڑا کر جاگی۔ اسی دوران دروازے کی کھلنے کی آواز آنے لگی۔ محمود کے پاس گھر کی چابیاں تھیں۔ میمونہ نے سکون کی سانس لی، لیکن وہ آج ان کو اچھی خاصی سنانے والی تھی۔
جب محمود گھر کے اندر داخل ہوئے تو ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اس وقت اس کا لیکچر سنتے۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ نیند میں چل رہے ہیں۔ میمونہ نے ان کے قریب جاکر دیکھا تو ان سے عجیب سی بدبو آنے لگی۔ وہ بے اختیار پیچھے ہٹ گئی۔ محمود نے اسے نظر انداز کیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔
اتنے سالوں میں آج تک ان سے ایسی بدبو نہیں آئی تھی۔ اسے شک تھا، یقین نہیں۔ وہ اسی شک کو یقین میں بدلنے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ محمود کرسی پر بیٹھے، سر پیچھے گرائے اور آنکھیں بند کیے ہوئے تھے۔ میمونہ چند لمحے انھیں غصے سے دیکھتی رہی، اور پھر ان کے سر کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔
” یہ سب میرے گھر میں نہیں چلے گا۔ اگر آپ نے شراب پی ہے تو آئندہ شراب پینے کے بعد گھر مت آئیے گا۔ “ ایجاز کی وجہ سے اس نے دھیما لہجہ اختیار کیا ہوا تھا۔
محمود نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں۔ وہ جاگ رہے تھے اور یقیناً اس کی باتیں بھی سن چکے تھے۔
” میں اب تم سے اجازت لوں گا کہ میں اپنے گھر آؤں یا نہیں؟ میری مرضی میں جو بھی کروں۔ “ ان کا لہجہ ذرا تیز تھا۔ وہ دو انگلیوں سے اپنا ماتھا مسلنے لگے۔
میمونہ کے ماتھے پر کئی بل پڑے۔ ” گھر میں بچے رہتے ہیں ہمارے۔ ان پر کیا اثر پڑے گا؟ آپ نے ... آپ نے پہلے تو کبھی نہیں پی۔ “
” ہاں تو کیا ہوا اگر آج پی بھی لی؟ تھوڑی سی پی تھی اور ویسے بھی بچے سو رہے ہیں۔ “ انھوں نے لاپرواہی سے کہا اور پھر اپنی جگہ سے اٹھے۔
میمونہ نے تعجب سے انھیں دیکھا۔ ” آپ ایسے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کل کو آپ نے زیادہ پی لی تو؟ “
محمود نے نگواری سے اسے دیکھا اور پھر سر جھٹک کر اسے نظر انداز کرتے ہوئے بیڈ کی طرف جانے لگے۔
” میں آپ سے کچھ کہہ رہی ہوں۔ “ وہ چیخی۔ ”میں اپنے بچوں کو اس طرح کے ماحول میں بڑی نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ “
محمود نے سکون سے سوئے اعجاز پر ایک نظر ڈالی اور پھر میمونہ کو دیکھا۔
”وہ رہا دروازہ... “ انھوں نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ ”جس کو مسئلہ ہے، وہ جا سکتا ہے۔ “
”آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟" اس نے بے یقینی سے انھیں دیکھا۔ “اور یہ آپ یہاں نہیں سو سکتے، آپ جائیں اور باہر سو جائیں۔ میں نہیں چاہتی کہ اعجاز آپ کو اس حالت میں دیکھے۔ “
”آخر کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ؟ ہاں؟ “ وہ حلق کے بل چلائے۔ ”زیادہ مسئلہ ہو رہا ہے تو واپس چلی جاؤ اپنے بھائیوں کے گھر۔ میرا دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ “
میمونہ ان کے انداز پر سہم کر رہ گئی۔ اعجاز ہلکا سا نیند میں کسمسایا۔
”اعجاز سو رہا ہے۔ آپ خدا کے لیے چپ کر کے باہر سو جائیں۔ “ میمونہ نے دانت پیسے اور پھر بیڈ سے ان کا تکیہ اور کمبل اٹھا کر انھیں پکڑایا۔
محمود غصے سے اسے دیکھ رہے تھے اور پھر ہاتھ میں پکڑا سامان نیچے پٹک دیا۔ پھر انھوں نے میمونہ کو بالوں سے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کیا اور پھر غرانے لگے۔
”کیا اعجاز اعجاز لگا رکھا ہے۔ ہر وقت دیکھو، صرف بچوں کی فکر رہتی ہے۔ “ اب کی بار اعجاز کی جھٹکے سے آنکھیں کھلیں۔ وہ ہولے ہولے کانپنے لگا۔ ”ہر وقت تم صرف ان کے بارے میں سوچتی ہو۔ میں کہاں ہوں ان کے بیچ؟ “ وہ غرا رہے تھے اور میمونہ تکلیف کے باعث کچھ بول نہیں سکی۔ وہ ان کا ہاتھ اپنے بالوں سے چھڑوا رہی تھی۔
”آپ ایسے تو نہیں تھے۔ آپ اس طرح نہیں تھے۔ “ میمونہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
”ایک بھاگی ہوئی عورت مجھے بتائے گی؟ ہاں؟ “ انھوں نے تیر نشانے پر چلائی۔ میمونہ سانس نہیں لے سکی۔ اسے محمود سے اس بات کی توقع ہر گز نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی در آئی۔ کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا انھوں نے وہ الفاظ۔
اعجاز یک ٹک ان دونوں کو چیختے چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ دو سالہ بچہ اپنے منہ سے الفاظ بھی ادا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پا رہا تھا۔ محمود مسلسل چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے۔ اس کے کردار پر انگلی اٹھا رہے تھے، طعنے دے رہے تھے اور گالیاں؟ وہ تو نا جانے کتنی بار دے چکے تھے، اور اعجاز ماؤف دماغ کے ساتھ بس سب سنتا جا رہا تھا۔ اس کا دل کانپ رہا تھا۔ ہر چیخ پر وہ جھٹکے کھاتا، لیکن ان دونوں کو اس کی فکر ہی نہیں تھی۔ وہ تو بحث میں مصروف تھے۔
بالآخر محمود تھک کر وہاں سے چلے گئے۔ میمونہ وہیں منجمد سی کھڑی رہ گئی۔ آنسو مسلسل ٹپک رہے تھے۔ لب بھینچ کر وہ جہاں کھڑی تھی وہیں بیٹھتی گئی۔ ’بھاگی ہوئی عورت‘ کس کے لیے بھاگی تھی؟ کیا وہ اکیلی بھاگی تھی؟ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ محمود نے آخر یہ الفاظ کہے بھی کیسے۔ وہ تو ان کے کہنے پر سب کچھ کرتی تھی۔ جو وہ کہتے تھے، وہ ویسا ہی کرتی تھی۔ محبت تو دونوں نے کی تھی۔ بھاگے تو ساتھ میں تھے، پھر بھی وہ اس کی اتنی بڑی بے عزتی کر کے چلے گئے، اتنی بڑی توہین؟ سوالات تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے اور جوابات؟ جواب دینے والے تو باہر جا کر پُر سکون سو گئے تھے۔
اعجاز کتنی دیر اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھتا رہا، اور پھر کروٹ بدل کر دوبارہ سو گیا، لیکن میمونہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ اس نے کچن میں جانا بہتر سمجھا۔ شیاز اور زریش کے اسکول جانے کا وقت ہو رہا تھا۔ باہر آ کر وہ کافی دیر تک محمود کو دیکھتی رہی۔ چند سال پہلے کیے گئے اپنے فیصلے پر اسے شدت سے پچھتاوا محسوس ہو رہا تھا۔
اوہ! کاش وہ اپنے بابا کی سنتی۔
کاش وہ اپنے بھائیوں کی سنتی۔
کاش اُس رات وہ دعوت پر نہیں جاتی۔
کاش اسے احساس ہوتا کہ ایک نا محرم کے ساتھ بھاگنے کا انجام کیا ہوتا۔
وہ سب تو اس کے حق میں بہتر چاہتے تھے، لیکن اس نے بدلے میں کیا؟ ان کی عزت کو خاک میں ملا دیا۔
٭...٭...٭
موجودہ دن
اس تاریک کوٹھری کی طرف واپس لوٹ کر آؤ تو قیدی یونہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا حلیہ ویسا ہی تھا۔ اگرچہ وہ اپنا حلیہ روز درست نہیں کرتا، لیکن پھر بھی وہ بے حد خوبصورت لگتا تھا۔ وہی سفید شلوار قمیض، ماتھے پر بکھرے گھنگریالے بال، کھلا گریبان، اور کھلی کفیں۔ اس کا حلیہ بہت لاپرواہ سا تھا۔
اس کوٹھڑی کی نارنجی بلب کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ دیکھو تو آج بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ جیل میں اسے اتنی شدت سے دم گھٹنے کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی زندگی میں صرف یہی معمول رہ گیا تھا، صبح اٹھنا، ناشتہ کرنا، رات کو کھانا کھانا، اور واپس سوجانا ۔ تب تک جب تک اوپر سے کوئی فیصلہ نہ آ جائے۔ یا تو اسے عمر قید ہو سکتی ہے یا سزائے موت۔
وہ اس وقت اس کوٹھری میں تنہا نہیں تھا۔ ایک شخص سلاخوں سے ٹیک لگائے، خود کو اچھی طرح شال میں لپیٹ کر بیٹھا ہوا تھا، ایسے کہ وہ کسی کی نظر میں نہ آئے۔ اس کی پشت قیدی کی طرف تھی، جبکہ قیدی دیوار سے ٹیک لگائے، چہرہ اوپر چھت کی طرف کیے بیٹھا تھا۔ وہ دونوں پچھلے دس منٹ سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ شخص بہت کم یہاں آیا کرتا تھا، تاکہ کسی کو اس پر شک نہ ہو۔
”صبح صبح تم یہاں؟ خیریت؟ وہ بھی اتنے ہفتوں بعد۔“ قیدی کی آواز نے اس خاموشی کو توڑ ڈالا۔
”کیوں؟ ضروری ہے کہ کوئی بری خبر ہو تو ہی میں آپ سے ملنے آؤں؟“ یہ آوازکسی شناسا شخص کی لگ رہی تھی۔
پھر سے خاموشی چھا گئی۔ اب تو وہ شخص اکتا گیا تھا۔
” اب کچھ بولیں گے بھی آپ۔ یا میں یہاں سے چلا جاؤں؟ “ اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
” کیسی ہے؟ “ وہ بس اتنا ہی پوچھ سکا۔
” خوش ہے۔ دو دو لوگوں کا سہارا ہے جو اس پر جان وارتے ہیں۔ “ اس نے شرارتی انداز میں کہا۔
” بکو مت۔ “ اس کی گھمبیر آواز سے وہ نہیں ڈرتا تھا۔ وہ سر جھٹک کر ہنسا۔
” سچ کڑوا ہی لگتا ہے۔ “ اس نے شانے اچکائے۔ اس قیدی نے اپنا رخ اس کی طرف موڑا۔ وہ یونہی گردن موڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
” تمھیں کہا بھی تھا کہ اسے ان دونوں سے دور رکھو۔ “ اس کے الفاظ میں ٹھہراؤ تھا۔ وہ شخص اب اٹھ کھڑا ہوا۔
” آپ کو یہاں سے نکلنا ہے یا نہیں؟ “ اس نے اصل موضوع پر آتے ہوئے سوال کیا۔ اس نے خود کو مزید شال میں لپیٹ لیا اور کیپ کو نیچے کر کے اپنا چہرہ چھپایا۔
” اگر وہ نکالے گی تو ضرور۔ “ اس نے سر جھکائے مدھم آواز میں کہا، جسے وہ شخص بمشکل سن پایا تھا۔
” اور اگر اسے آپ کو یہاں سے نکالنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوئی تو؟ “ اس نے ابرو اٹھاتے ہوئے پوچھا، لیکن قیدی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔
” تو تم اس کے اندر دلچسپی پیدا کرو۔ “ اس نے ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا اور پھر چہرہ اوپر کی طرف چھوٹی سی کھڑکی کی جانب کر لیا، جہاں سے بمشکل روشنی اندر آتی تھی۔
” میں کوشش کروں گا۔ “ اس نے گہری سانس بھر کر جواب دیا۔
” میں بھی کوشش کروں گا کہ یہاں سے نکل کر تمھارا قتل نہ کروں۔ “ دوبدو جواب آیا تھا۔
” دو سو قتل کے بعد ایک اور قتل ہی سہی۔ “ وہ اس کی دھمکی سے بالکل بھی نہیں ڈرا تھا۔
” بسیار خوب! “ اس شخص کے بے خوف لہجے نے قیدی کو متاثر کیا۔
” بہت جلد ملاقات ہوتی ہے۔ “ وہ خدا حافظ کہہ کر پلٹنے ہی لگا تھا کہ قیدی کی آواز پر رک گیا۔
” اس بات کو یقینی بنانا کہ اگلی بار ہم یہاں نہ ملیں۔ “ قیدی نے اب کی بار سنجیدگی سے کہا۔
وہ ہاں میں سر ہلائے وہاں سے چلا گیا۔ قیدی نے ٹھنڈی آہ بھری۔ اس کی فراق میں اس نے ایک عرصہ گزارا تھا۔ اس انتقام کے لیے اس نے کئی برس انتظار کیا تھا۔ آخرکار انتقام لینے کا وقت آن پہنچا۔ لیکن پھر بھی اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔ اسے وہ اطمینان نہیں مل رہا تھا جو وہ چاہتا تھا۔ اسے خوش ہونا چاہیے کہ وہ آخر کار یہاں سے نکل رہا ہے۔ وہ اپنے انتقام کے بہت قریب پہنچ چکا ہے، لیکن وہ خوش نہیں تھا۔ عجیب سی بے چینی نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
اچانک اس کے سینے میں درد کی ایک ٹھیس اٹھی۔ اس کے کانوں میں کسی کی پر اسرار آواز گونجنے لگی۔ اس نے نظریں کھڑکی سے ہٹا لیں۔ وہ ایک دم حواس باختہ ہو گیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے، چہرہ جھکا لیا اور آنکھیں زور سے میچ لیں۔ سر نفی میں ہلانے لگا۔ ایک لمحے میں ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جسم سے کوئی روح نکل رہی ہو۔
” کچھ بھی ہو جائے لیکن اسے اذیت مت دینا۔ “ یہ وہ آواز تھی جو اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ جب بھی وہ اپنے انتقام کا سوچتا، یہی آواز اس کے کانوں میں سنائی دیتی تھی۔
” مجھے تکلیف ہو رہی ہے، امی جان۔ مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ “ وہ ایک ہی سطر بار بار دہرا رہا تھا۔ کانوں میں ہاتھ رکھے، آنکھیں زور سے بند کیے، اور چہرہ جھکائے۔ اس کی آواز درد سے بھری ہوئی تھی، جیسے کوئی اس کے دل میں خنجر گھونپ رہا ہو۔
جب بھی وہ اس لڑکی کے بارے میں سوچتا، اسے اپنی ماں کی فکر بھری آواز اپنے کانوں میں سنائی دیتی تھی۔ وہ ایک بار پھر دل و دماغ کی جنگ کے بیچ پھنس کر رہ گیا۔
ایک بار پھر اس نے اپنے دماغ کی بات سنی۔
وہ اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔
٭...٭...٭
آج اتوار تھا اور اتوار کے دن مجال ہو جو کوئی بھی بارہ بجے سے پہلے اٹھتا۔ درناز تو آرام سے اٹھتی تھی۔ پورے ہفتے کی نیند مکمل کرکے۔ باقی سب کا بھی جاگنے کا وقت ہو گیا تھا۔ اس وقت محل میں عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب اپنے کمروں میں گہری نیند سو رہے تھے۔ اتنے میں، اگر کوئی جاگ رہا تھا تو وہ مراد تھا۔ وہ بہت کم سوتا تھا۔ وہ رات کو چاہے جتنی دیر سے سوئے، اتوار کی صبح وہ آٹھ یا نو بجے تک جاگ جاتا تھا۔
وہ شارٹس اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ہاتھ میں کافی کا مگ پکڑے وہ لاؤنج کے بیچ و بیچ کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ میں مگ اور دوسرے ہاتھ میں فون تھا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا، اور بہت سوچنے کے بعد اس نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے میں جا کر اس نے اپنا والٹ اور گاڑی کی چابی اٹھائی اور پھر کمرے سے نکل کر باہر جانے ہی لگا تھا کہ نجمہ خالہ کو دیکھ کر رکا۔ وہ ان کی جانب بڑھا۔
” نجمہ خالہ، میرے آنے سے پہلے سب کو جگا دیجیے گا اور ناشتہ تیار رکھئے گا میں آتا ہوں۔ “ اس کے کہنے پر نجمہ خالہ نے سر اثبات میں ہلایا۔
وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔ باہر نکل کر وہ پورچ کی طرف بڑھنے لگا۔ دو گارڈز بھی فوراً اس کے پیچھے چلنے لگے، ہاتھ پیچھے باندھ کر بلکل روبوٹک انداز میں۔ مراد رکا تو وہ دونوں گارڈز بھی فوراً رک گئے۔ مراد نے پیچھے پلٹ کر ناگواری سے انھیں دیکھا۔ ایک ابرو اٹھا کر وہ انھیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی بچہ نہیں جسے گارڈز کی ضرورت ہو۔ دونوں گارڈز گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
” سر، ہمیں تیمور سر نے سختی سے حکم دیا ہے کہ آپ کو کہیں اکیلا نہ جانے دیں۔ “ وہ گردن ترچھی کیے بولا۔
” ضرورت نہیں ہے، میں اکیلے جا رہا ہوں۔ کوئی دو سال کا بچہ نہیں ہوں۔ اگر پوچھے تو بول دینا کہ وہ کسی اور گارڈ کے ساتھ گیا ہے۔ “ سرد لہجے میں کہہ کر وہ رکا نہیں، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی کے پاس پہنچ گیا۔
” ان دونوں کو ہمیں ساتھ رکھنے میں آخر مسئلہ کیا ہے؟ “ اس کے جانے کے بعد ایک گارڈ نے دوسرے سے پوچھا۔
” غرور ہے اور کچھ نہیں۔ جس دن ان کے دشمن ان پر وار کریں گے، تب دیکھنا کیسے دو کی جگہ چار کو ساتھ رکھیں گے۔" دوسرے نے سر جھٹک کر جواب دیا۔
٭...٭...٭
یہ ایک کلب کا منظر ہے جہاں دو لوگ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک نے چہرے پر ماسک لگا رکھا تھا، سر پر کیپ اور ہاتھوں میں دستانے پہن رکھے تھے۔ پس منظر میں میوزک چل رہا تھا، کچھ لوگ موسیقی کی دھن پر ناچ رہے تھے، کچھ شراب کے نشے میں مدہوش تھے اور کچھ ٹیبل پر جھک کر پائپ کے ذریعے منشیات ناک سے اندر کھینچ رہے تھے۔ وہ دونوں بار کاؤنٹر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آدمی کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا جبکہ دوسرے کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ۔
”اس بیگ میں جتنے بھی ڈرگز تمھیں چاہیے، وہ موجود ہیں۔ لیکن ہر ڈرگ کی قیمت ڈبل ہوگی۔ “ آدمی نے بیگ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ وہ وہی شخص تھا جو قیدی سے ملنے گیا تھا، مگر اس کا چہرہ ابھی بھی پوری طرح ظاہر نہیں تھا۔
”لیکن بھائی نے تو کہا تھا کہ ۔۔۔ “
وہ آدمی اس سے پہلے کچھ اور کہتا، اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا۔
”وہ یہاں اس وقت موجود نہیں ہیں۔ میں اس ڈیل کو سنبھال رہا ہوں۔ اگر لینا ہے تو لو، ورنہ اپنا اور میرا وقت ضائع مت کرو۔ “ اس نے غصے سے دانت پیسے۔
مقابل شخص کو مزید غصہ آیا۔ ”مارکیٹ میں اور بھی ڈیلرز ہیں جو کم قیمت پر یہی مال دے رہے ہیں۔“ وہ خود کو پرسکون ظاہر کرتے ہوئے وائن کے گلاس کو لبوں سے لگاتے ہوئے بولا۔
”ویسے لینا تو تمھیں ہر حال میں ہوگا۔ ورنہ بھائی کے ایک حکم پر تمھارا سارا دھندا بند کروا دیں گے۔ تو ڈیل تو ہر حال میں ہوگی۔“ اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔ بھائی کا رعب ہی ایسا تھا کہ اچھے اچھے بھی اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ ایک اشارہ بس اور سامنے والے کی پوری زندگی برباد ہو جاتی۔
اس آدمی کو قیدی کے جیل میں رہنے کے باوجود اس کی ترقی سے شدید جلن محسوس ہو رہی تھی۔ آخر قید میں رہ کر ایک معمولی شخص سے اپنی ڈیلز کروا کر وہ اتنا آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟ اور مجال ہے کہ پکڑنے کے بعد بھی اس کے دھندے پر ذرا سا بھی اثر پڑا ہو۔
”وہ قید میں رہ کر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ “وہ دبا دبا سا چلایا لیکن اس کی آواز موسیقی کی شور میں دب گئی۔
“وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اندر رہ کر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ “ وہ اب بھی پرسکون تھا۔
بیگ کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر اس نے اس کے سامنے پیش کیا۔ ماسک کے پیچھے اس کے لب مسکرا رہے تھےاور گلاسس کے پیچھے اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
وہ آدمی انگھوٹھے سے ٹھوڑی کو کھجاتے ہوئے کچھ دیر سوچ میں پڑ گیا۔ وہ نو وارد کو ضبط سے دیکھ رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ شراب کی بوتل اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے اور معاملہ ختم کر دے، لیکن وہ جانتا تھا کہ ایسا کرنا صرف خود کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ نو وارد کے لبوں پر تبسم ابھرا کیونکہ اس نے بیگ پکڑ لیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شعلے جھلک رہے تھے۔ بیگ کی ادلا بدلی ہو چکی تھی۔ نو وارد پیسے لے کر خوش نظر آ رہا تھا۔
” آئندہ بھائی سے ڈیل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا، کیونکہ بھائی کسی کو نہیں چھوڑتے۔ “ وہ انگلی اٹھا کر سنجیدگی سے تنبیہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
” اب چونکہ ڈیل ہو چکی ہے، تو مجھے پینے میں کمپنی دے دو۔ “ اس نے دوسرا گلاس ہاتھ میں پکڑتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا۔
وہ آدمی جو جانے ہی والا تھا، اس کی آواز پر رکا۔ اس نے اپنی مٹھی غصے سے بھینچ لی۔
” میں شراب پی کر خود کو گناہگار نہیں بنانا چاہتا۔ “ اس نے پلٹے بغیر کہا اور آگے بڑھ گیا۔ وہ آدمی بھیڑ میں غائب ہوگیا۔ وہ شخص اس کی بات پر کلس کر رہ گیا۔
” اس دنیا میں ان سے بڑا گناہگار کوئی نہیں ہے۔ “ اس نے سر جھٹک کر شراب کا ایک اور گلاس ایک ہی سانس میں خالی کر لیا۔
٭...٭...٭
اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر سب موجود تھے، سوائے مراد اور درناز کے۔ نجمہ خالہ نے مراد کے کہنے پر سب کو وقت پر جگا دیا تھا، لیکن درناز کو اتوار کے دن جگانا بہت مشکل تھا۔ خاص طور پر چار بجے سے پہلے۔ وہ پورے ہفتے کی نیند اتوار کو مکمل کرتی تھی اور یہ ایک دن جو سکون کا تھا جو اب غارت ہونے والا تھا۔
ڈائننگ ٹیبل کے سر براہی کرسی پر دادا جان بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے دائیں بائیں تیمور اور شہریار بیٹھے تھے۔ تیمور کے دائیں طرف مہوش اور رابعہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ سب ابھی ابھی ناشتے کی ٹیبل پر آئے تھے۔
دادا جان اخبار پڑھنے میں مصروف تھے، تیمور موبائل پر ایک آرٹیکل پڑھ رہے تھے، شہریار فون پر کسی کیس کے حوالے سے بات کر رہے تھے، مہوش اسکرولنگ میں مصروف تھی اور رابعہ مراد کا انتظار کر رہی تھیں۔ تقریباً سب ہی مراد اور درناز کا انتظار کر رہے تھے۔ مراد نے نجمہ خالہ کو ہدایت دی تھی کہ جب تک وہ نہ آئے، کسی کو ناشتہ کرنے نہ دیا جائے۔
”نجمہ، نجمہ... “ شہریار فون بند کر کے انھیں پکارنے لگے۔
نجمہ خالہ بھاگتی ہوئی آئیں۔ ”جی؟ “
”درناز کو جگا دو۔ اگلے دس منٹ میں مجھے وہ یہاں موجود چاہیے۔ “ شہریار نے تحکمانہ انداز میں کہا اور دوبارہ فون پر بات کرنے میں مشغول ہو گئے۔
نجمہ خالہ سر کو خم دیے وہاں سے چلی گئیں۔ وہ ادھیڑ عمر کی خاتون تھیں، مگر اس عمر میں بھی وہ بہت خوبصورت نظر آتی تھیں۔ انھیں دیکھ کر کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی کے یہاں کام کرتی ہوں گی۔
وہ درناز کے کمرے میں موجود اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ درناز بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔ اس کا دایاں گال تکیے پر تھا۔ بال اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے اور اس کا ایک پیر نیچے کو جھول رہا تھا۔ وہ ایسے ہی سوتی تھی، دنیا و جہاں سے بے خبر۔ اس کی نیند یا تو گہری ہوتی تھی یا اتنی ہلکی کہ ایک آواز پر ٹوٹ جاتی تھی۔
”درناز بی بی، شہریار صاحب کا کہنا ہے کہ آپ اگلے دس منٹ میں ڈائننگ روم میں موجود ہوں۔ “ وہ درناز کے بکھرے ہوئے کمرے کو سمیٹ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اسے جگانے کی کوشش بھی کر رہی تھیں۔
”اف آنی! آپ مجھے سکون سے سونے کیوں نہیں دیتیں؟ “ درناز نے جھنجلاتے ہوئے کہہ کر کمفرٹر میں منہ چھپایا۔
”آنی کی جان، آپ کے بابا اس بار مجھے پکا کام سے نکال دیں گے۔ “ انھوں نے بے بسی سے کہا اور اتنی ہی بے بسی سے اس کے کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ وہ تو صفائی پسند تھی، پھر اس کے کمرے میں اتنا گند کس نے پھیلا رکھا تھا؟
”وہ درناز کی آنی کو کام سے نکال کر تو دکھائیں! “ درناز فوراً اٹھ کر بیٹھی۔ ”اور یہ کیا آنی؟ اتوار کے دن آپ مجھے اتنی جلدی اٹھا رہی ہیں؟ “ اس نے فون پر وقت دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔ اپنی نیند خراب ہونے پر اسے بہت افسوس ہوا اور اب اس کا مزاج پورے دن کے لیے خراب رہنے والا تھا۔
”مجھے کچھ نہیں پتا، تمھارے پاس پانچ منٹ ہیں۔ میرے بس میں ہوتا تو پورے دن تمھیں سونے دیتی۔ “ وہ درناز کے رات کے کھانے کی پلیٹیں اٹھاتے ہوئے اپنایت سے بولیں۔
”بابا بھی کبھی کبھار حد کرتے ہیں۔ “ وہ غصے سے بڑبڑائی۔ نجمہ خالہ نے کندھے اچکائے اور وہاں سے چلی گئیں۔
وہ کمفرٹر ہٹا کر سست روی سے اٹھی۔ جمائی لیتے ہوئے اس نے اپنے پیر نیچے رکھے اور گہری سانس بھر کر فریش ہونے کے لیے چلی گئی۔ جتنے دیر میں وہ فریش ہو رہی تھی، اتنے دیر میں مراد آچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں مختلف قسم کے شاپر تھے، جو وہ سیدھا ڈائننگ روم میں لے آیا تھا۔ سب کو سلام دے کر اس نے شاپر میز پر رکھے اور نجمہ خالہ سے مزید چند پلیٹیں منگوائیں۔ درناز کو یہاں موجود نہ دیکھ کر ایک پل کو وہ اداس ہوا، لیکن اگلے ہی لمحے اس کی آواز مراد کے کانوں میں پڑی تو اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔
وہ سب کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گئی۔ اسے اچانک خیال آیا کہ وہ شہریار سے ناراض تھی۔ انا اور اونچی ناک اسے جیسے وراثت میں ملی تھی۔ درناز نے کسی کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھنے کی غلطی بھی نہیں کی۔ مراد اس کے پسندیدہ ناشتہ اور من پسند پیسٹریز باہر سے لے کر آیا تھا۔ اتوار کو وہ دونوں اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر اپنے پسندیدہ ناشتہ کا لطف اٹھاتے تھے۔
”مراد تم اتنی صبح کہاں گئے تھے؟ “ دادا جان نے اخبار تہہ کرتے ہوئے میز پر رکھ کر پوچھا۔
”ناز کے لیے اس کی پسند کا ناشتہ لینے گیا تھا۔ اتوار کی صبح وہ میرے ساتھ ناشتہ کرتی ہے، تو بس... “ وہ مصروف سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ وہ درناز کا ناشتہ لگا رہا تھا۔ درناز کا اس طرح خیال رکھنا شہریار کو بے حد پسند تھا۔ انھیں یقین تھا کہ ان کے بعد صرف مراد ہی ان کی اکلوتی بیٹی کا خیال رکھے گا۔
دادا جان مسکرائے۔ ”کتنا خیال رکھتا ہے یہ درناز کا۔ “
وہ خلوص سے دونوں کو دیکھ کر ناشتہ کرنے میں مشغول ہو گئے، لیکن دادا جان کی بات پر دونوں نے نظریں اٹھا کر انھیں دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو۔ مراد کو درناز کی جھیل جیسی نیلی آنکھوں میں اپنے لیے ناراضگی واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ درناز نے فوراً نظریں چرا لیں۔ رابعہ تو ان کی بات پر پہلو بدل کر رہ گئی۔ تیمور نے خاصا دھیان نہیں دیا، اور مہوش نے نا خوشی سے اس کی طرف دیکھ کر رخ بدل لیا۔ البتہ شہریار ان کی بات پر خوش ہوئے تھے۔
مراد درناز کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ کنکھیوں سے درناز اسے دیکھ رہی تھی، جو اس کے سامنے ایک پلیٹ پر پوری اور حلوے کا پیالہ رکھ رہا تھا، ساتھ ہی ایک چھوٹے سے پلیٹ میں پیسٹری بھی نکال کر رکھ رہا تھا۔ درناز کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔ مراد کپ میں چائے انڈیل رہا تھا۔ اسے درناز کا خیال رکھنا پسند تھا۔
سب خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے۔ درناز نے چائے کے کپ سے گھونٹ بھرا لیکن چینی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے منہ کا ذائقہ بگڑ گیا۔ مراد نے اس کے تاثرات جانچے اور فوراً اس کی چائے لے لی اور اپنی چائے جس میں سے ایک گھونٹ بھی نہیں پیا تھا، اس کے سامنے رکھ دی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی چائے میٹھی ہوگی کیونکہ رابعہ نے ڈال کر دی تھی۔ درناز نے اس کی طرف دیکھا جو آنکھوں کے اشارے سے کہہ رہا تھا، ’پی لو‘۔
اسی اثنا میں مہوش نے زور سے دونوں ہاتھ میز پر مارے۔ برتنوں کی کھڑکنے کی آواز خاموش کمرے میں گونجی۔ وہاں موجود سب اس آواز پر چونک اُٹھے۔ سب نے حیرت سے اسے دیکھا۔ مراد بھی چونک گیا تھا۔ درناز کی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ مہوش سے مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ مراد نے ابرو سکیڑ کر اسے دیکھا۔
”بس کریں بھائی بس۔ شرم آنی چاہیے آپ کو۔ “
سب نے چونک کر اب مراد کی طرف دیکھا۔
”ہوش میں ہو تم؟ یہ کیا کہہ رہی ہو؟ “ اس نے ضبط سے دانت پیستے ہوئے کہا۔ درناز تو بس دونوں کی شکلیں دیکھ رہی تھی۔
”دادا جان میں کب سے دیکھ رہی ہوں کہ بھائی درناز کے ساتھ نہ جانے کیا لیکن اشاروں اشاروں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ کیا یہ سب ایک شریف خاندان کے افراد کو زیب دیتا ہے۔ “ نا جانے وہ کس کا غصہ کس پر نکال رہی تھی۔
”بس! “ درناز چیخی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”میں اپنے کردار پر کسی کی بھی انگلی برداشت نہیں کروں گی۔ “ اس نے برہمی سے کہا۔ اس کی یہاں برداشت کی حد ختم ہو گئی تھی۔
”درناز بچے آرام سے۔ “ دادا جان نے اسے شانت کرنا چاہا۔ مہوش کی بات پر شہریار کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
”دادا جان؟ اس سے کہیں میرے کردار کے بارے میں کچھ نہ کہیں۔ میں اگر مراد سے اتنی بے تکلفی سے بات کرتی ہوں تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میرے دل میں ان کے لیے کچھ ہے۔ “
”مہوش اپنی اس حرکت پر معافی مانگو۔ “ تیمور نے سختی سے اسے آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا۔
”معافی؟ مائے فٹ! “ درناز کو ناگواری سے دیکھا اور پھر وہاں سے چلی گئی۔ رابعہ بھی اس کے پیچھے چلی گئیں۔
دادا جان نے تاسف سے سر ہلایا۔ ”اس کی طرف سے میں... “
”نہیں دادا جان۔ “ ابھی وہ کچھ کہتے کہ درناز نے ان کی بات کاٹ دی۔ شہریار نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا لیکن درناز نے اگلے ہی پل ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔ اپنے باپ کو خفا نظروں سے دیکھتے ہوئے اس نے اپنی کرسی پیچھے دھکیل دی اور وہاں سے جانے لگی۔
”کہاں جا رہی ہو؟ “ اسے غصے میں جاتے دیکھ کر مراد نے پوچھا۔
”آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔ جائیں اور اپنی بہن کو وہ توجہ دیں جو آپ اسے نہیں دے رہے ہیں۔ “ اس نے ہر لفظ چبا چبا کر کہا، پھر وہاں سے نکل گئی۔
”جاؤ بیٹا پلیز، وہ کچھ کر بیٹھے گی۔ “ شہریار نے مراد سے پریشانی کے عالم میں کہا۔ مراد سر ہلاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور درناز کے پیچھے چلا گیا۔
”شہریار، میرا بیٹا تمھاری بیٹی کی پرسنل اسسٹنٹ نہیں ہے کہ تم ہر بار اسے اس کے پیچھے بھیج دیتے ہو۔ “تیمور جھلاہٹ سے کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھے۔
ناشتے کیے بغیر، ایک ایک کرکے سب وہاں سے چلے گئے۔ اگر یہ ایک معمولی خاندان ہوتا تو سب مل کر ناشتہ کرتے اور پھر اتوار کو خوشی سے گزارتے، لیکن یہ شاہ خاندان تھا۔ شاہ خاندان میں سب اکھٹے ہو کر سکون سے بیٹھے ہوں، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ ملازمین بھی تنگ آ چکے تھے۔ روز کا شور و شرابا اور چیخنا چلانا ان کے لیے معمول بن چکا تھا۔
مراد بھاگتا ہوا اس کی گاڑی تک پہنچا۔ گارڈز فوراً ان کے پیچھے آئے۔ درناز کا ہاتھ گاڑی کے ہینڈل پر تھا جب مراد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔ گارڈز کو دیکھ کر دونوں کا منہ بن گیا۔
”کیا؟ “ مراد نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔ گارڈز نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر درناز کی طرف دیکھا۔
”ہمیں شہریار صاحب نے... “
”بھئی ہمیں کوئی گارڈ نہیں چاہیے۔ کیا مسئلہ ہے تم لوگوں کا؟ “ مراد نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔
درناز واپس پلٹی اور گاڑی کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ مراد بھاگتے ہوئے گھوم کر دوسری طرف کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔ گارڈز نے کندھے اچکائے اور اپنی راہ لی۔ گاڑی میں گہری خاموشی چھا گئی۔
درناز اسٹرنگ وہیل پر گرفت جمائے، سپاٹ تاثرات کے ساتھ سامنے دیکھ رہی تھی۔ اس نے مراد کا دیا ہوا سیاہ شرٹ پہن رکھا تھا اور بالوں کی اونچی پونی بنائی ہوئی تھی جن میں سے دو لٹیں آگے کو جھول رہی تھیں۔ مراد اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ دور کہیں ماضی میں چلا گیا۔
درناز باغیچے میں بیٹھی پھولوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے بالوں کی اونچی پونی بنی ہوئی تھی اور رنگ برنگے کلپس اس میں لگے ہوئے تھے۔ اس نے مراد کی سیاہ شرٹ پہن رکھی تھی، کیونکہ اسے اپنے کپڑوں کی بجائے مراد کے کپڑے پہننا زیادہ پسند تھا۔
مراد اس وقت نو سال کا تھا۔ درناز پھولے گالوں کے ساتھ باغیچے میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں گلاب کے خوبصورت پھول تھے۔
مراد نے پورا گھر اپنے سر پر اٹھا رکھا تھا۔ سب اس کی پسندیدہ سیاہ شرٹ تلاش کرنے میں مصروف تھے، جبکہ درناز نے وہ شرٹ بِگاڑ رکھی تھی۔
عفاف جب باہر آئی تو اسے درناز ڈھیلے ڈھالے شرٹ میں نظر آئی۔ وہ فوراً اس کے پاس بھاگتے ہوئے گئی۔ وہ مراد کی شرٹ تھی جو مٹی لگنے کی وجہ سے اب سیاہ سے خاکی رنگ کی ہو چکی تھی۔
”یا خدایا، یہ آپ نے کیا کیا درناز؟“مراد کا ردعمل سوچ کر ہی وہ پریشان ہو رہی تھی۔
”مما مراد کی شرٹ! “درناز نے شرٹ کے دونوں کونے پکڑے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میں بھی یہی کہہ رہی ہوں۔ اب وہ تو بہت غصہ کرے گا۔“ عفاف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کی شرٹ جھاڑنے لگی مگر بے سود۔
”درناز؟“ مراد نے حیرت سے درناز کو دیکھا جو معصومیت سے سر جھکائے کھڑی تھی۔ اپنے پیچھے آواز سنتے ہی عفاف کھڑی ہو گئی۔
”بیٹا میں تمھارے لیے دوسری شرٹ لے آؤں گی۔ بچی ہے، اس پر غصہ مت کرنا۔“ جتنی شاطر درناز تھی، اس سے کئی گنا زیادہ معصوم اس کی ماں تھی۔
”کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ چچی جان؟ میں درناز کو کیوں ڈانٹوں گا؟“ مراد نے پرسکون لہجے میں کہا۔
”وہ مجھے لگا کہ ... “
”درناز پر میں کبھی اپنا غصہ نہیں اتاروں گا۔ یہ تو صرف شرٹ ہے۔ کوئی بات نہیں۔“ اس نے کندھے اچکائے۔ تھوڑی دیر پہلے پورے محل کو سر پر اٹھانے والا مراد اب پر سکون نظر آ رہا تھا۔
وہ اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر نکلا جب درناز نے اسے کندھے سے جھنجھوڑا۔
”کہاں کھو گئے تھے آپ؟“ درناز کے پوچھنے پر مراد نے سر جھٹکا۔ وہ بغور اسے دیکھ رہی تھی۔
”مجھ سے ناراض ہو؟“ مراد نے گہری سانس لی۔ اسے درناز کی ناراضگی بالکل پسند نہیں تھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، جہاں آج بھی معصومیت چھپی ہوئی تھی۔
”نہیں، میں آپ سے کیوں ناراض ہوں گی؟“ درناز نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا۔
”پھر بات کیوں نہیں کر رہی ہو؟ تم تو ایسے نہیں تھی، میری ناز ایسے نہیں تھی۔“ مراد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ بھی ایسے نہیں تھے۔ آپ کی مصروفیات بہت بھر گئی ہے شاید۔ اب آپ کے پاس میرے لیے وقت نہیں ہے جیسے پہلے ہوا کرتا تھا۔“اس نے یاسیت سے کہا۔ دھوپ کی وجہ سے اس کی سنہرے بال مزید خوبصورت لگنے لگتی تھی۔
مراد چند لمحے سر جھکائے خاموش رہا۔ پھر اس نے نظریں اٹھا کر نرم تاثرات کے ساتھ درناز کو دیکھا۔ اس کی بھوری آنکھیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں چندھیا کر درناز کو دیکھا۔
”کیا ناز مجھے معاف نہیں کر سکتی؟“
”کیا درناز مراد سے ناراض ہو سکتی ہے؟“درناز مسکرائی۔ اس کی جھیل جیسی نیلی آنکھیں بھی مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ سے مراد کو کتنا سکون ملا، یہ صرف وہی جانتا تھا۔
”تو پھر اتنی دیر سے میرے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا تھا؟“ وہ سر جھٹک کر مسکرایا۔ گاڑی تیز رفتاری سے نہ جانے کن راستوں پر جا رہی تھی، مگر مراد کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ بس یہی کافی تھا کہ درناز اس کے ساتھ تھی۔
”لیکن اب آپ مجھ سے دور رہیں تو بہتر ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ ’آپ‘ کے اپنے میری وجہ سے روٹھ جائیں۔“اس نے ’آپ‘ پر خاصا زور دیا یہ باور کروانے کے لیے کہ اس کا اپنا کوئی نہیں۔
”ناز یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟“ مراد کی مسکراہٹ اس کی بات پر سمیٹ گئی تھی۔ ”پوری دنیا چاہے تمھارے بارے میں کچھ بھی کہے، لیکن مراد تمھارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔ میرے پاس تمھارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ اگر تمھیں یہ لگ رہا ہے کہ کراچی جا کر میں بدل گیا ہوں یا میری کوئی گرل فرینڈ بن گئی ہے، تو تم غلط سمجھ رہی ہو۔ “ اس کی بات پر درناز نے پہلو بدلا۔ ”میرے پاس صرف ایک ہی دوست ہے اور وہ میری ناز ہے۔ میں کسی کو بھی چھوڑ سکتا ہوں لیکن ناز کو نہیں۔ “ اس نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی۔
”اس سے یہ حقیقت تو نہیں بدلے گی کہ میرا اپنا کوئی نہیں ہے؟ “ اس نے ایک نیا سوال پیش کیا۔
” تو میں کون ہوں؟ “ وہ جیسے برا مان گیا تھا۔
” آپ صرف میرے نہیں ہیں۔ آپ کے پاس آپ کی بہن، امی، ابو سب موجود ہیں۔ ایک مکمل فیملی کی طرح۔ اعجاز صرف میرا نہیں ہے۔ اعجاز کے پاس اس کے مسائل حل کرنے والا بھائی ہے، اس کی امی ابو ہیں۔ ایک مکمل فیملی کی طرح رہتے ہیں۔ اور ایک میں ہوں، جس کے پاس صرف ایک بابا ہے جنھیں اپنے کام سے ہی فرصت نہیں ملتی اور ایک ماما تھیں... “ اس نے گہری سانس لی۔ مراد دم بخود اسے سن رہا تھا۔ ” ان کے پاس میرے لیے وقت ہی وقت ہوتا تھا۔ میری بڑی... “آخر میں اس کی آواز کانپ گئی۔ اس کی زندگی میں ایک عورت تھی جسے درناز نے خاص مقام دے رکھا تھا اور ان کے ذکر پر وہ ہمیشہ اداس ہو جاتی تھی۔
” کیا میں ڈرائیو کروں؟ “ اس کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے پوچھا۔
” کتنا اچھا ہوتا نا مراد اگر وہ مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاتیں، ہے نا؟ “ وہ اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔ وہ اُس عورت کی بات کر رہی تھی جو اس کی زندگی میں اس کی ماما سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔
” اُن کے جیسا کوئی نہیں۔ میری زندگی میں کوئی بھی ان کی جگہ نہیں لے سکتا، کوئی بھی نہیں۔ “ اس کی آواز بھیگی ہوئی لگ رہی تھی۔
مراد خاموش رہا۔ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ یہاں وہ خاموشی اختیار کرنا پسند کرتا تھا۔ گاڑی میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی جو مراد کو کھٹک رہی تھی۔ درناز خاموشی سے سڑک پر نظریں جمائے، سنجیدگی سے گاڑی چلا رہی تھی۔ اس کی جھیل جیسی نیلی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے نظر آ رہے تھے، مگر انھیں بہنے کی اجازت نہیں تھی۔ درناز نے ابھی اپنی آنکھوں کو یہ اجازت نہیں دی تھی کہ وہ بہیں۔ کم از کم ابھی نہیں۔
” مراد؟ ہم کیفے جائیں؟ یا لائبریری؟ “ اس نے فوراً موضوع بدلا اور خاموشی کو بھی توڑا۔ مراد نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اب مسکرا رہی تھی، جیسے پانچ منٹ پہلے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
مراد کے لبوں پر بھی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ ” جہاں ناز کو جانا پسند ہو۔ “ اس کی بات پھر درناز کھلکھلائی۔
درناز ایسی ہی تھی ایک پل خوش اور اگلے ہی پل اداس۔ پھر وہ اپنی اداسی کو اتنی مہارت سے بدل دیتی تھی کہ سامنے والا بھی سوچ کر رہ جاتا کہ آخر اس کے دل و دماغ میں چل کیا رہا ہے۔
٭...٭...٭
” یہاں سے دور، اسلام آباد کے ایک پوشیدہ علاقے میں، ایک محل نما گھر واقع تھا۔ نیوی بلیو اور سفید رنگوں کا امتزاج سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ دور دور تک یہاں کوئی اور گھر آباد نہیں تھا۔ محل تک آنے والی سڑک پر پانچ، چھ گاڑیاں ایک ہی قطار میں چل رہی تھیں۔ آگے کی دو گاڑیوں میں تین سے چار اور پیچھے کی دو گاڑیوں میں بھی تین سے چار گارڈز موجود تھے۔ بیچ کی گاڑی میں ایک بڑی عمر کی خاتون اور اٹھائیس سالہ لڑکی بیٹھی ہوئی تھیں۔ دونوں بے حد سنجیدہ دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کی نظریں شیشے کے پار باہر سڑک پر جمی ہوئی تھیں۔
پلوشہ بیگم بارہ سال بعد اپنے محل واپس آئی تھیں۔ وہ بارہ سال بعد ان سڑکوں کو دیکھ رہی تھیں اور آخرکار اپنے محل واپس جا رہی تھیں۔ بارہ سال پہلے کا غم، اذیت، درد، اور تکلیف ان کے اکیس سال پہلے ملے غم سے کم تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اکیس سال پہلے کا منظر گردش کرنے لگا، اور پھر بارہ سال پہلے جو ہوا، وہ فلم کی طرح ان کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگا۔ اذیت سے انھوں نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔ ایک آنسو ٹپک کر ان کی آنکھوں سے نکلا اور اگلے ہی لمحے انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ تنے ہوئے ابرو کے ساتھ، وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں۔
” میرا انتقام شروع ہوا۔ اپنی خیریت مناؤ، شاہ والوں۔ پلوشے کے انتقام سے کوئی بھی آسانی سے نہیں بچ سکتا۔ “ انھوں نے ہلکی آواز میں کہا لیکن ان کے لہجے میں عزم تھا۔ نیلوفر نے نظریں کھڑکی سے ہٹا کر انھیں دیکھا۔
” دادی جان، مجھے ان کی بربادی کی خبر بہت جلد سننے کو ملنی چاہیے۔ اکیس سال کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا دادی جان۔ میں ہر پل اس دن کا انتظار کر رہی تھی۔ “ اس نے اپنا لہجہ متوازن رکھنے کی کوشش کی لیکن آخر میں اس کی آواز بھرائی۔
دادی جان نے گہری سانس لی۔ ” ہمارے بچے کی کوئی خبر؟ وہ کیسا ہے اور کب تک واپس آئے گا؟ “
” آپ کا پوتا چاہتا تو اگلے دن ہی واپس آتا لیکن شاید اسے وہاں رہنے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔ “ وہ جل کر بولی۔ دادی جان نے خفگی سے اسے دیکھا، پھر تاسف کے ساتھ سر جھٹک دیا۔
ان کی گاڑیاں قطار میں مرکزی دروازے کے باہر رک گئی تھیں۔ گارڈز نے فوراً مرکزی دروازہ کھولا اور اگلے ہی لمحے گاڑیاں تیز رفتار سے اندر داخل ہو گئیں۔ اندر جاتے ہی ایک راستہ بیک یارڈ کی طرف جاتا تھا اور دوسرا داخلی دروازے کی طرف۔ پانچ گاڑیاں سیدھی بیک یارڈ کی طرف جا رہی تھیں۔ ان کی گاڑی وہیں روک دی گئی۔
دادی جان نے ایک نظر اپنے محل پر ڈالی۔ نیلوفر بھیگی آنکھوں سے اپنے گھر کو دیکھ رہی تھی، جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا تھا اور اپنے خاندان کے ساتھ خوشی خوشی رہتی تھی۔ دادی جان کو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہو۔ پرانی یادیں ان کے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ وہ محل جو بارہ سالوں سے بند تھا ایک بار پھر کھول دیا گیا تھا۔
گارڈز بھاگتے ہوئے ان کی گاڑی کی طرف آئے۔ دادی جان کی طرف کا دروازہ گارڈ نے کھولا۔ انھوں نے ایک پیر گاڑی سے باہر رکھا، پھر دوسرا۔ نیلوفر بھی گاڑی سے اتر چکی تھی۔ دادی جان اور نیلوفر نے گہری سانس لی۔ وہ خود کو بے جان محسوس کر رہی تھیں۔ دل پر پتھر رکھ کر انھوں نے داخلی دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑے، سر پر دوپٹہ نفاست سے سیٹ کیا ہوا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھا رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک پر سکون تاثر رہتا تھا۔
صحن کے دائیں طرف ایک وسیع گارڈن تھا، جہاں مالی گارڈن میں کام کرتے نظر آ رہے تھے۔ یہ محل کل ہی دوبارہ کھولا گیا تھا۔ اس کی صفائی اور تمام تیاری کل مکمل ہو چکی تھی۔ اب یہ محل واپس کھول دیا گیا تھا، اور ساتھ ہی ماضی کے راز، ماضی کے جرم، اور ماضی کے مجرم بھی سامنے آنے والے تھے۔ وہ گارڈن کے کنارے سے گزرتے ہوئے جا رہی تھیں۔
داخلی دروازے سے پہلے چند سیڑھیاں اوپر کی طرف جاتی تھیں۔ داخلی دروازے کے دونوں طرف ستون لگے ہوئے تھے۔ وہ دونوں سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ جیسے جیسے وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں، ان کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو رہی تھی۔
” دادی جان مجھ سے یہ نہیں دیکھا جائے گا۔ میں… میں اندر… “ وہ بھیگی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔
” جو ہم سے چھینا گیا ہے، اس کے بدلے میں ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ہمیں جانا ہوگا۔ “
دو گارڈ داخلی دروازے پر کھڑے تھے۔ دادی جان کے اشارے پر انھوں نے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھلتے ہی دادی جان کے کانوں میں بچوں کی کھلکھلاہٹ، بڑوں کے قہقے، خوشگوار ماحول، مہمانوں سے بھرا گھر، کھانے کی خوشبو، ہنستے مسکراتے چہرے، میوزک کا شور، اور ان کے گود میں ننھے بچے کی رونے کی آوازیں سنائی دیں۔
اور پھر دوسری طرف آگ کے شعلے، چیخ و پکار کی آوازیں، جلتے ہوئے وجود، اپنے پیاروں کی آہ و بکا، فضا میں گونجتی گولیوں کی آوازیں، خون میں لت پت وجود، ایمبولنس، پولیس اہلکار، کفن، جنازہ اور اچانک سب کچھ خاموش ہو گیا۔ آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ دل کی دھڑکنیں تھم گئیں۔ کوئی انھیں ماضی سے حال میں کھینچ کر لے آیا تھا۔
نیلوفر نے لب دانتوں تلے دبائے۔ وہ حادثہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ جس نے اس کا بچپن چھین لیا تھا۔ اس کی خوشیاں چھین لی گئی تھیں۔ اور بچپن کے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے، بچپن میں ملا درد کبھی ختم نہیں ہوتا، بچپن کا صدمہ کبھی نہیں بھلایا جا سکتا اور جو ان کی زندگی سے چلے جاتے ہیں وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتے۔ نیلوفر نر کرب سے آنکھیں بند کیں پھر کھول دیں۔ اپنے آنسوؤں کو اندر اتارتے ہوئے، وہ وہیں کھڑی رہی۔
نیلوفر وہیں کھڑی رہی، البتہ دادی جان آگے بڑھتی رہیں۔ ان کے چہرے پر کوئی بھی تاثرات نظر نہیں آ رہے تھے۔ نہ غم، نہ خوشی، اور نہ ہی سکون کے۔ گہری سانس لے کر، چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے، انھوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ انھیں اپنے گھر واپس آئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا اور ایک ہفتے کے بعد انھیں دوبارہ ایران جانا پڑا تھا۔
اندر جاتے ہی لابی میں دائیں اور بائیں طرف سیڑھیاں تھیں۔ درمیان میں ایک اونچی گول میز رکھی ہوئی تھی جس پر ایک چھوٹا سرخ پھولوں والا گلدان رکھا تھا۔ اس کے اوپر چھت پر ایک خوبصورت فانوس نصب تھا۔ دادی جان دائیں طرف کی سیڑھیوں کی طرف بڑھیں۔ سنگ مرمر کی بنی سیڑھیوں پر آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے وہ اوپر چڑھنے لگیں۔
نیلوفر بھی گہری سانس لے کر اندر داخل ہوئی۔ اسے اپنا کمرہ یاد تھا۔ اس لیے اس نے نہ دائیں دیکھا اور نہ بائیں، سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔ وہ سلیپنگ پلز لے کر سونا چاہتی تھی تاکہ کم از کم رات تک پرانی یادوں سے دور رہ سکے۔ دو ملازمین بھی اس کا سامان کمرے میں رکھنے کے لیے اس کے پیچھے چلی گئیں۔
دادی جان اپنے کمرے کے باہر کھڑی تھیں۔ ہاتھ پیچھے باندھے، تسبیح کے دانے دائیں سے بائیں لے جا کر دل ہی دل میں کچھ پڑھ رہی تھیں۔ ایک ہاتھ پیچھے سے آگے لے جا کر انھوں نے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھولتے ہی نیم اندھیرے نے ان کا استقبال کیا۔ وہ اندر داخل ہوئیں اور پیچھے سے دروازہ بند کر دیا۔ کمرے میں نظریں دوڑاتے ہوئے، وہ آگے بڑھیں اور راکنگ چیئر پر جا کر بیٹھ گئیں۔ ایک ہاتھ میں تسبیح پکڑے، دوسرا ہاتھ انھوں نے کرسی کے ہینڈل پر رکھا۔
ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ بے تاثر نظروں سے سامنے کی دیوار کو گھور رہی تھیں، جیسے ماضی کا سارا منظر ایک فلم کی طرح اُس دیوار پر چل رہا ہو۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ، وہ راکنگ چیئر پر تیزی سے جھول رہی تھیں۔ آنکھوں میں سرخی نمایاں ہونے لگی۔ انھوں نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ سانسیں تیز اور بے ترتیب ہونے لگیں۔ جیسے دل کی دھڑکنیں ان کے جسم کے ہر حصے میں پھیل گئی ہوں۔
”دادی جان آپ بھی آئیے، دیکھیں کتنا مزہ آ رہا ہے یہاں۔ “ ان کے کانوں میں ان کے چار سالہ پوتے کی آواز گونجی جو بیڈ پر کھڑے ہو کر اوچھل رہا تھا۔
”امی جان، یہ آپ کے لیے لایا ہوں۔ یہ شال آپ پر بہت اچھی لگے گی۔“ اب کی بار ان کے بڑے بیٹے کی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرا گئی۔
دادی جان کی حالت ماضی کی یادوں کی وجہ سے بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ راکنگ چیئر کو تیزی سے ہلانے لگی۔ اسی راکنگ چیئر پر وہ اپنے آٹھ ماہ پوتے کو گود میں اٹھائے جھول رہی تھیں۔ وہ تو بچہ تھا۔ اس کا کیا قصور تھا؟ بلکہ وہاں اُس رات موجود کسی کی بھی غلطی نہیں تھی۔ وہاں تو سب بے گناہ تھے۔ ان کے ماتھے پر اب باقاعدہ پسینے کے ننھے قطرے ابھر رہے تھے۔
”دادی جان، جتنی جلدی ہو سکے آپ نیلو کے ساتھ یہاں سے نکل جائیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ جو راستہ میں نے چنا ہے اس سے میرا بچا کھچا خاندان بھی تباہ ہو جائے۔“ ان کے کانوں میں اپنے اسی پوتے کی گھبرائی ہوئی آواز گونجی۔
یہ آوازیں انھیں مسلسل پریشان کر رہی تھیں۔ ان کا ہنستا کھیلتا گھر اجڑ چکا تھا۔ ان کا خاندان کا سب سے رحم دل، پرہیزگار، نیک بچہ جس راستے پر چلنے لگا تھا، یہ بات دادی جان کی دنیا ہلا دینے کے لیے کافی تھی۔ ان کی پھول سی پوتی چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہو چکی تھی۔ ان کا پوتا جو اپنے ماں باپ کے بغیر سانس تک نہیں لیتا تھا، آج صرف اپنے انتقام کی وجہ سے سانسیں لے رہا تھا۔ وہ تین لوگ بچے تھے اور اب ان میں سے دو رہ گئے تھے۔ لیکن بہت جلد وہ دوبارہ دو سے تین ہو جائیں گے۔
پھر اچانک، انھوں نے راکنگ چیئر کو ہلانا روک دیا۔ اپنی بند مٹھی آہستہ آہستہ کھولنے لگیں۔ آنکھوں کی سرخی اب کہیں غائب ہو چکی تھی اور چہرے پر وہی نرم تاثرات ابھرنے لگے۔ انھوں نے گہری سانس لے کر ماضی کے بھیانک منظر سے خود کو باہر نکالا۔
”ہمارا خاندان ہی ہماری طاقت تھی، ہمارے بیٹے ہی ہمارے سکون تھے اور ہمارے پوتے پوتیاں ہی ہماری خوشی کی وجہ تھے۔ ہماری طاقت، سکون، اور خوشی یہ تینوں چیزیں ہم سے چھین کر تم نے ٹھیک نہیں کیا شہریار۔ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ “ وہ دھیمی آواز میں خود سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
وہ ایک دیوار کے پاس جا کر کھڑی ہوئیں، جہاں ان کے خاندان کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ انھوں نے ان تصویروں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ پہلے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اور پھر ایک آنسو ٹوٹ کر ان کے گال پر پھسل گیا۔ وہ لب بھینچ گئیں۔
”میں تمھارا بدلہ لوں گی محسن۔ تمھارا، تمھاری بیوی اور بچوں کا بدلہ میرے اوپر ہے۔ مصطفی کا بدلہ اُس کا بیٹا لے گا۔“ نا چاہتے ہوئے بھی ان کی آواز آخر میں بھرائی۔
”سب ٹھیک ہوجائے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ وہ بدحواس ہو رہی تھیں۔
تصویروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ اپنے اپنوں کی خوشیوں سے بھری ہنستے اور مسکراتے تصویریں دیکھ رہی تھیں۔ پھر ان کی نظر ایک تصویر پر جا ٹھہری۔ بھورے بالوں اور جھیل جیسی نیلی آنکھوں والی لڑکی۔ اگلے ہی لمحے ان کی آنکھوں میں وہی سرخی واپس آ گئی۔ انھوں نے تصویر کا فریم دیوار سے جدا کرکے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور کھڑکی کے پاس جا پہنچیں۔ تسبیح پر ان کی گرفت مضبوط ہوئی۔ کھڑکی سے آتی مدھم روشنی اس چار سالہ لڑکی کی تصویر پر پڑ رہی تھی۔ اس کے ساتھ بارہ سالہ لڑکا کھڑا تھا۔ لڑکی مسکرا رہی تھی جبکہ لڑکا غصے سے اسے گھور رہا تھا۔
انھوں نے پردہ کھینچا اور پھر کھڑکی کھول دی۔ فریم پر آخری نظر ڈالنے کے بعد انھوں نے فریم نیچے پھینک دیا۔ فریم ٹوٹ کر بکھر گیا۔ نیچے کھڑے گارڈز میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ فریم کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتے یا جس نے فریم نیچے گرایا اُسے بھی دیکھتے۔ وہ گارڈز کم روبوٹ زیادہ لگتے تھے۔ ان کے چہرے کسی بھی قسم کے تاثرات سے عاری تھے۔ انھوں نے واپس کھڑکی بند کردی اور پردے کھینچ لیے۔
٭...٭...٭
درناز اور مراد لائبریری سے باہر نکل رہے تھے۔ مراد کے ہاتھ میں چند کتابیں تھیں اور درناز مسکراتے ہوئے اسے بہت دلچسپ باتیں سنا رہی تھی۔ مراد ہمیشہ کی طرح اس کی باتوں کے جواب میں مسکراتا اور دلچسپی سے سنتا رہتا۔ باتیں کرتے کرتے وہ دونوں کب گاڑی تک پہنچ گئے انھیں پتہ ہی نہ چلا۔ درناز نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی جبکہ مراد گھوم کر دوسری طرف کا دروازہ کھولتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
”مراد، کافی پینے چلیں؟“ اس نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے پوچھا۔
مراد نے کتابیں ڈیش بورڈ پر رکھ دیں۔
”اچھا، چلو۔“ وہ غالباً کہیں اور جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
”کیا ہوا؟ آپ نہیں جانا چاہتے میرے ساتھ کافی پینے؟“ درناز نے اس کا مایوس چہرہ دیکھ کر مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا۔
”ارے، میں نے ایسا تو نہیں کہا۔“ اس نے فوراً مسکرا کر کہا تاکہ درناز دوبارہ خفا نہ ہو جائے۔
”ارے تو پھر آپ کا چہرہ کیوں اتر گیا کافی کا سن کر؟“ درناز نے اسے مزید تنگ کرنے کی کوشش کی۔
”وہ میں نے بھی ناشتہ نہیں کیا نا، بس اس لیے بھوک کی وجہ سے۔۔۔ “ کہہ کر لب کاٹنے لگا۔
درناز کھلکھلائی۔ ” مراد، میں مذاق کر رہی تھی۔ آپ جہاں بھی جانا چاہتے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی میں یہاں سے اعجاز کے گھر جا رہی ہوں۔ “
اعجاز کا نام سن کر اُس نے آنکھیں سکوڑ کر درناز کو دیکھا۔
”تمھیں معلوم بھی ہے آج انکل گھر پر ہوتے ہیں؟“
درناز نے گہری سانس بھری۔ ”جی معلوم ہے اور وہ مجھے کھا نہیں جائیں گے، فکر نہ کریں۔ ابھی آپ یہ بتائیں آپ کو کہاں جانا ہے؟ “ آخر میں اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
مراد نے پہلے پانچ منٹ تک اسے گھورا جو کہ درناز کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ بالآخر اس نے مصنوعی خفگی کے ساتھ اسے اپنی مطلوبہ جگہ کا ایڈریس بتایا۔ اسے چھوڑ کر، درناز اعجاز کے گھر گئی۔ گاڑی پارک کرکے وہ اندر جانے ہی لگی تھی کہ گارڈز نے اسے روک دیا۔
”آج تک پتا نہیں چلا، یہ گارڈز ہمارے زندگیوں میں آخر ہیں کیوں؟ “ وہ زیر لب بڑبڑائی۔
”میڈم، آپ کا اندر جانا منع ہے۔“ سامنے کھڑا گارڈ بولا۔ اسے اعجاز کے گھر میں کھڑے گارڈز انسان لگتے تھے، ورنہ اس کے گھر کے گارڈز کسی روبوٹ سے کم نہیں تھے۔
”میرے راستے سے ہٹ جاؤ، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا! “ وہ غصے سے بھڑکی۔
گارڈز ٹس سے مس نہ ہوئے۔
”آپ ... “
ان کی ایک بھی نہ سن کر، درناز گھر کے اندر داخل ہو چکی تھی۔ گارڈز نے کندھے اچکائے۔
وہ طویل راہداری سے گزرتی ہوئی لاؤنج میں گئی۔ اس نے کہہ تو دیا تھا کہ وہ چلی جائے گی مگر اب اسے تھوڑا سا ڈر بھی لگنے لگا تھا۔ وہ دل ہی دل میں محمود کے وہاں نہ ہونے کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ خیر، ضروری تو نہیں کہ ہر دعا قبول ہو جائے، وہ بھی اتنی جلدی۔
وہ صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے، ان کی پشت سیڑھیوں کی طرف تھی۔ درناز دبے قدموں سیڑھیاں چڑھنے ہی لگی تھی کہ محمود نے گردن موڑ کر اسے دیکھ لیا۔ وہ آہستہ سے آہستہ آواز بھی پکڑ سکتے تھے اور انھیں کسی کی موجودگی کا فوراً احساس ہو جاتا تھا۔
”اے لڑکی، رکو! “ اخبار میز پر پھٹکتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ درناز دوسرے زینے پر تھی کہ ان کی آواز پر رکی۔ لب دانتوں تلے دبائے، وہ واپس مڑی۔
”ایسے چوروں کی طرح کہاں جا رہی تھی؟ “ وہ اس کے پاس آتے ہوئے غصے سے بولے۔ لفظ ’چور‘ پر درناز نے برہمی سے انھیں دیکھا۔
”انکل میں ۔۔۔ وہ اعجاز سے ملنے جا رہی تھی۔“ اس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا۔
”راتوں کو کم تھا جو اب تم دن میں بھی آوارہ گردی کرنے آجاتی ہو؟“ ان کے سخت الفاظ پر درناز کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس نے بھنویں نا گواری سے بھینچیں۔ اسے یہ بات بہت ناگوار لگی۔
”انکل یہ آپ بڑوں کے درمیان جو بھی باتیں ہیں، یہ آپ لوگ اپنے تک رکھیں۔ ہمیں درمیان میں لانے کی ضرورت نہیں، اعجاز میرا کزن ہے اور میں اس سے ملنے آؤں گی۔“ اس نے سینے پر بازوں باندھتے ہوئے اٹل لہجے میں کہا۔
”بس یہی وجہ ہے کہ میں تم جیسی بدتمیز لڑکی کو میں اپنے بیٹے سے دور رکھتا ہوں۔ “ ان کے ماتھے کی رگیں ابھرنے لگی تھیں۔
”بیٹا درناز، تم یہاں اس وقت؟ “ کچن سے میمونہ نکلی اور ان کو دیکھ کر اس طرف آئی۔
اور اس سے پہلے کہ درناز کچھ کہتی، محمود نے اس کا بازو دبوچا اور اسے گھسیٹتے ہوئے باہر کی طرف لے جانے لگے۔ میمونہ ان کی اس حرکت پر چونک گئی۔ درناز اس غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہ تھی۔ انھوں نے اتنا زور سے اس کا بازو دبوچا تھا کہ درناز سسک اٹھی۔ وہ راہداری پار کر رہے تھے۔ میمونہ فوراً ان کے پیچھے لپکی۔ درناز اپنا بازو ان کی گرفت سے نکالنا چاہ رہی تھی لیکن انھوں نے اتنی مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا کہ وہ کچھ بھی نہ کر سکی۔
”یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ چھوڑیں اس کا ہاتھ۔ “ میمونہ نے درناز کو ان کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔
محمود ایک پل کے لیے رکے۔ سخت نظروں سے میمونہ کو دیکھا اور انھیں نظروں سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ میمونہ کے پاس سوائے پیچھے ہٹنے کے کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ محمود آج ہر حال میں درناز کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔ داخلی دروازے سے باہر نکلتے ہی وہ سیدھا اسے پورچ کی طرف لے گئے۔ گارڈز بھی فوراً ان کے پیچھے نکل آئے۔ انھوں نے درناز کو اپنی گاڑی میں بٹھایا۔ درناز منہ پھلائے خاموشی سے بیٹھ گئی۔ (کاش وہ اپنے ساتھ گارڈز کو لاتی تو ان کو اچھی طرح بتاتی۔) محمود نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
”آج تو تمھارے باپ سے بات کرنی پڑے گی۔ “محمود گاڑی مرکزی دوازے سے نکالتے ہوئے بولے۔
درناز سینے پر بازو باندھے منہ پھلائے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ان کے پیچھے چند گاڑیا ں گارڈز سے بھری نکلی۔ تقریباً دس سے پندرہ منٹ کے بعد ان لوگوں نے شاہ ولا کے باہر گاڑیاں روک دی۔ گاڑی میں درناز کو دیکھ کر ان کے گارڈز آگے بڑھ گئے۔ درناز نے گاڑی کا دروازہ کھولا لیکن اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھتی محمود نے دوبارہ اس کا بازو دبوچا۔ اس بار درناز نے دانت پر دانت جمائے ضبط سے انھیں دیکھا۔ گارڈز فوراً ان کےپاس آئے۔
”ہاتھ چھوڑیں میڈم کا۔“ ایک گارڈ نے محمود پر گن تانے ہوئے کہا۔ درناز نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے پیچھے ہٹنے کو کہا لیکن گارڈز ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کچھ گارڈز اندر جا کر شہریار کو اس صورت حال کی اطلاع دینے گئے۔
”یا تو شہریار کو یہاں بلاؤ یا مجھے اندر جانے دو۔ “ وہ اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں تھے۔ ان کے گارڈز نے بھی اسلحہ سنبھال کر ان پر نشانہ باندھ لیا۔
شہریار دادا جان کے ساتھ باہر آئے تھے۔ شہریار کے کہنے پر گارڈز نے ان لوگوں کو اندر آنے دیا۔ محمود آگے بڑھے اور ان کے پیچھے ان کے گارڈز بھی۔ مرکزی دروازے سے اندر جاتے ہی محمود نے درناز کو زمین پر شہریار کے قدموں میں گرا دیا۔ درناز نے بیلنس برقرار رکھنے کے لیے ہتھیلیاں زمین پر رکھیں۔ شہریار اس منظر کو دیکھ کر تڑپ اُٹھے۔ دادا جان فوراً آگے بڑھ کر اُسے اٹھانے لگے۔
”یہ کیا حرکت تھی محمود؟ “ شہریار حلق کے بل چیخے تھے۔
”اپنی بیٹی سے کہو میرے بیٹے سے دور رہے۔ دن رات میرے بیٹے کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے، کیا شریف خاندان کی لڑکیوں کو یہ زیب دیتا ہے؟ کیا مہوش اور زریش کو آج تک دیکھا ہے کسی خاندان کے لڑکوں کے ساتھ گھومتے ہوئے؟ “ وہ الٹا ان پر برس پڑے۔ ان کا تنفس بھاری ہو رہا تھا۔ ”ارے یہ تو خاندان کے ہر لڑکے کے ساتھ پائی جاتی ہے۔“ وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہہ رہے تھے۔
” اپنی زبان کو لگام دو محمود، ورنہ تمھارے بچوں کو یتیم کرنے میں مجھے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگے گا۔“ شہریار نے انگلی اٹھا کر انھیں تنبیہہ کیا۔
درناز دادا جان کے پاس کھڑی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ بات اتنی بڑھ جائے گی۔
”تمھیں کیا لگتا ہے کہ میں تمھیں اتنی آسانی سے چھوڑ دوں گا؟ “محمود نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
”اعجاز کے ہکلانے کی وجہ آپ ہیں۔ آپ کی وجہ سے وہ آج اس حالت میں ہے۔ آپ کی وجہ سے وہ ڈرا سہما رہتا ہے۔ آپ نے اُسے اس حالت میں پہنچا دیا ہے کہ وہ کسی کے سہارے کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا۔ “ درناز نے محمود کے سامنے کھڑے ہو کر، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بغیر کسی خوف کے کہا۔
”یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے، اس سے دور رہو تو بہتر ہوگا۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ “ انھوں نے غصے سے بھرپور دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
”یہ اعجاز کی پوری زندگی کا معاملہ ہے انکل، پوری زندگی کا۔ وہ یونی میں کسی سے بات نہیں کرتا کیونکہ وہ آپ کی وجہ سے ہکلاتا ہے۔ اس کو آپ کا ڈر رہتا ہے ہمیشہ۔ “ وہ ہاتھ جھلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
دادا جان اور شہریار دم سادھے اسے دیکھتے رہ گئے۔ محمود بھی ایک پل کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر اُسے نظر انداز کرتے ہوئے شہریار کی طرف دیکھا۔
”فی الحال جا رہا ہوں اور آئندہ نہ دیکھوں اس کو اپنے بیٹے کے ارد گرد۔“ وہ بھی انگلی اٹھا کر تنبیہی انداز میں کہہ کر نکل گئے۔ ان کے گارڈز بھی ان کے پیچھے پیچھے نکل گئے۔
شہریار نے جبڑے بھینچے اور آنکھیں بند کر کے کھول کر خود پر ضبط کیا۔ جب وہ نارمل ہوئے تب وہ درناز کی طرف گئے۔ وہ اپنا غصہ اپنی بیٹی پر اتارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
”تمھارے پاس دوستوں کی کمی تو نہیں ہے کہ تم ایک پاگل کے پیچھے ذلیل ہوتی پھرو؟ “ وہ نرمی سے اس سے کہہ رہے تھے۔
”بابا؟ “ وہ ’بابا‘ تب ہی کہتی تھی جب اسے کوئی بات بنوانی ہو۔ ”آج میں سب جاننا چاہتی ہوں۔ ایسی کیا بات ہوئی تھی ماضی میں کہ آپ کا رویہ پھپھو کے ساتھ اتنا برا ہے؟ یہاں تک کہ ان کے بچوں سے بھی آپ نفرت کرنے لگے ہیں۔ “
”ماضی کی باتوں کو ماضی میں ہی رہنے دو ورنہ ماضی کی باتوں سے ہمارے حال پر اثر پڑ سکتا ہے۔ “ اس کے گال پر ہاتھ رکھے وہ بہت مشکل سے نرمی سے بولے۔
”لیکن بابا، وہ میرا کزن ہے۔ “ اس نے دانت پیسے۔ ”ہمارا خاندان کیوں باقی خاندانوں کی طرح نارمل نہیں ہے؟ کیا کزنز کے ساتھ گھومنے کو آپ لوگ آوارہ گردی کہتے ہیں؟ “ اس نئے لقب سے وہ ہرٹ ہوئی تھی۔
”بیٹا ہم ایسا نہیں کہتے، یہ خان خاندان والے ہیں جو ایسا سوچتے ہیں۔ “ اب کی بار دادا جان نے کہا۔ ”اور تمھارے بابا کی بات بھی صحیح ہے، کچھ چیزیں ماضی میں ہی رہنی چاہئیں۔ اگر ماضی کا کوئی بھی پہلو کھل گیا تو ایک ایک کرکے سب کھلتا جائے گا جو ہمارے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے حال پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ سمجھ گئی؟ “ انھوں نے پیار سے سمجھایا۔ شہریار ان کی بات پر سر ہلا رہے تھے۔
”لیکن مجھے جاننا ہے۔ “ وہ ضدی انداز میں بولی۔ ”بس یہی بتا دے کہ ہم دونوں خاندانوں کے درمیان اتنی بری درار کیسے آگئی کہ بچوں کو بھی بیچ میں لایا جارہا ہے۔ “
"درناز بچوں جیسے ضد مت کرو۔ “ شہریار نے اپنا ضبط کھو دیا تھا۔ ” جب بڑے منع کر رہے ہیں تو تم کیوں ضد کر رہی ہو؟ “ اب کی بار ذرا سختی سے کہا۔ درناز کچھ کہنے کے بجائے وہاں سے چلی گئی۔
” میں درناز کو کھونا نہیں چاہتا۔ “ شہریار کی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ” اس کے علاوہ میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا۔ “
دادا جان نے گہری سانس بھری۔ ” راز راز ہی رہے گا، فکر مت کرو۔ تیمور وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔ “ دادا جان نے ان کا کندھا تھپتھپایا۔ شہریار نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا لیکن ان کا دل مطمئن نہیں ہوا۔ کیا واقعی کوئی راز کسی کے پاس ہمیشہ کے لیے چھپا رہ سکتا ہے؟ راز تو ہمیشہ کھلنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔
٭٭٭
” مراد آئیں گے تو میں ان سے کہوں گی کہ یہاں کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا۔ اگر کرتے تو مجھے سب بتا دیتے۔ ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا؟ “ وہ غصے سے بڑبڑاتی ہوئی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
” مراد سے دور رہو، اعجاز سے دور رہو، زریش کی بچی یہاں ہے نہیں۔ میرا اپنا کوئی نہیں ہے۔ “ کہتے ہوئے وہ بستر پر اوندھے منہ لیٹ کر تکیے میں چہرہ چھپایا۔ ” کیوں گئیں آپ مجھے چھوڑ کر؟ اتنا بھی نہیں سوچا کہ درناز اکیلی ہوگی۔ اس کا ’اپنا‘ کوئی نہیں ہوگا۔ “ وہ اب رونے لگی تھی۔
٭...٭...٭
صبح سے شام ہو چکی تھی۔ نہ ہی درناز کمرے سے باہر نکلی اور نہ ہی شہریار اس کے کمرے میں گئے۔ تیمور اور رابعہ نے شام کی چائے میں درناز کا پوچھا تھا لیکن انھوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ شہریار نے تقریباً تین سو دفعہ نجمہ خالہ کے ہاتھ درناز کے لیے کھانا بھیجوایا لیکن وہ ضدی تھی، نہ ہی دروازہ کھولا نہ ہی کوئی جواب دیا۔ دادا جان نے بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ ان کے بقول وہ اب بچی نہیں ہے جسے ہر وقت منایا جائے۔ بس ایک مراد تھا جسے اس کی ناراضگی کی فکر تھی۔ جو اس کے نخرے اٹھاتا تھا۔ جو اس کا بچکانہ رویہ برداشت کرتا تھا۔
رات کو مراد کی واپسی ہوئی۔ وہ سیدھا ڈائننگ روم میں داخل ہوا لیکن اس کی متلاشی نظریں جسے ڈھونڈ رہی تھیں وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ ابھی وہ الٹے قدموں سے واپس جانے ہی لگا تھا کہ تیمور کی نظر اس پر پڑی۔ چار و ناچار اسے اندر جانا ہی پڑا۔ سب کو سلام دے کر وہ وہیں کھڑا رہا۔
” کھانا کھا کر آئے ہو یا کھاؤ گے؟ “ تیمور نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” کھا کر آیا ہوں۔ آپ لوگ کھانا کھا لیں میں ذرا فریش ہوتا ہوں۔ “ مسکراتے ہوئے کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس نے صاف جھوٹ کہا تھا۔ درناز وہاں موجود نہیں تھی، اس کا مطلب تھا کہ وہ کسی بات پر ناراض ہوئی تھی۔ اور بغیر کسی غلطی کے اس کی ناراضگی دور کرنا مراد پر فرض ہوگیا تھا۔ وہ سیدھا اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔
کمرے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے ایک بار دستک دی۔ جواب نہ پا کر اس نے ناب گھما کر ہلکا سا دروازہ کھولا۔ اسے حیرت ہوئی کہ اس نے لاک نہیں کیا تھا۔ (یہ الگ بات ہے کہ دروازے کا لاک اس نے ایک گھنٹہ پہلے کھول دیا تھا)۔ حسب توقع اندھیرے نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے تاسف سے سر نفی میں ہلایا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔
سوئچ بورڈ پر ہاتھ رکھ کر اس نے کمرے کی تمام لائٹس آن کیں۔ درناز سو رہی تھی۔ وہ اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ کتنی معصوم لگ رہی تھی وہ سوتے ہوئے۔ جیسے ہی اس کی نظر درناز کی آنکھوں پر پڑی وہ چونک گیا۔ درناز تو بہت کم یا بالکل نہیں روتی تھی لیکن اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
” ناز؟ “ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا جھنجھوڑا۔ درناز کسمسائی۔ اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے مراد کو دیکھا، جو اسے فکر مندی سے دیکھ رہا تھا۔
"ناز اٹھو شاباش۔ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ ہاں؟" اسے زبردستی بیٹھاتے ہوئے وہ اس کے سامنے جا کر بیٹھ گیا۔
”کیا وقت ہو رہا ہے؟ “ ماؤف دماغ کے ساتھ پوچھا۔
” رات کے نو بج رہے ہیں لڑکی۔ “ اس نے درناز کو گھورا۔ ” مجھ سے ناراض ہو؟ “ درناز کو جیسے سب کچھ یاد آیا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ ” تو پھر۔۔۔ “ اور پھر اس کی نظر درناز کے بازو پر پڑی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہاں انگلیوں کے نشان تھے۔ اس کے سفید بازو پر انگلیوں کے سرخ نشان واضح نظر آ رہے تھے۔
” ناز یہ کس نے کیا ہے؟ “ مراد کا دل گویا کسی نے اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ اس کی نظریں اس کے بازو سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ کتنی آسانی سے کسی نے اسے تکلیف پہنچائی۔
درناز گھبرا گئی۔ ” یہ تو بس ایسے ہی۔۔۔ “ وہ مراد کے غصے سے واقف تھی، اگر اس نے سچ بتایا تو محمود آج زندہ نہ بچتے۔
”میں نے کہا کس نے کیا ہے یہ؟ “ اس نے مٹھیاں بھینچ کر ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
درناز خاموش رہی۔ مراد نے اپنی خشک لبوں پر زبان پھیرا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر نشان پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ درناز سسک اٹھی۔ وہ تو مزید تڑپ اٹھا۔ وہ درناز پر کسی کی سخت نظریں بھی برداشت نہیں کرتا تھا، کجا کہ کوئی اسے اتنی بڑی تکلیف دے۔
”اٹھو چلو شاباش۔ “ اسے دوسرے بازو سے نرمی سے پکڑتے ہوئے کھڑا کیا۔
”اگر آپ کو میری ذرا سی بھی فکر ہے تو خاموش رہیں، پلیز۔ “ اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔
”آج نہیں۔ بات برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ جس نے بھی یہ کیا ہے اسے میں آج تو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ “ اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔ اس کی گرفت ایسی تھی جیسے کوئی ماں اپنے ننھے سے بچے کو پکڑتی ہو۔ نہایت نرمی اور محبت سے۔
لاؤنج میں آتے ہی اس نے سب گھروالوں کو پکار کر اکٹھا کیا۔
”یہ کس نے کیا ہے؟ “ مراد نے اس کا بازو سب کو دیکھایا۔
شہریار فوراً آگے بڑھے۔ انھیں نہیں لگا تھا کہ درناز کو محمود نے اتنی سختی سے پکڑا ہوگا۔ مہوش، رابعہ، اور تیمور نے ان کی طرف ناسمجھی سے دیکھا۔
” یہ محمود نے کیا ہے۔ آج صبح یہ اُس کے گھر گئی تھی۔ “ شہریار اس کا بازو دیکھتے ہوئے بولے۔
اس نے دانت پر دانت جمائے۔ ” میں آج نہیں چھوڑوں گا انھیں۔ “ وہ آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ شہریار نے اس کا بازو پکڑا۔
رابعہ نے تیمور کو کہنی ماری تو وہ جیسے ہوش میں آئے۔ ” مراد، بے وقوفی نہیں کرو۔ “ لیکن مراد تو جیسے آج کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔
” مجھ میں اور ہمت نہیں ہے اپنوں کو کھونے کی۔ اس کے گارڈز پاگل ہیں، ایک سیکنڈ نہیں لگائیں گے تمھیں گولی مارنے میں۔ میں مزید کسی کو نہیں کھونا چاہتا۔ تم بالکل میرے بیٹے جیسے ہو، پلیز۔ “ وہ بے بسی سے بولے۔ انھوں نے ایک ہاتھ سے درناز کا بازو پکڑا ہوا تھا اور دوسرے سے مراد کا۔
ان کا بے بسی بھرا انداز دیکھ کر مراد رکا۔ چہرے پر ہاتھ پھیر کر اس نے خود کو پر سکون کیا۔ ایک نظر درناز کی آنکھوں پر ڈالی۔ بس پھر کیا تھا، اس نے درناز کی آنکھیں پڑھ لی تھیں۔ وہ صرف درناز کی آنکھیں پڑھ سکتا تھا اور صرف درناز نے ہی یہ اجازت مراد کو دی تھی۔
” ٹھیک ہے، پھر آپ بتائیں کہ ایسی کیا بات ہوئی تھی کہ جس وجہ سے آپ لوگوں نے پھپھو سے تمام رشتے ختم کر دیے؟ “ مراد نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ درناز نے مسکراہٹ دبائی۔ (اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔)
”مراد ۔۔۔ “
وہ کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ مراد نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا۔ ”یا تو حقیقت بتائیں یا پھر مجھے جانے دیں۔ “
مراد نے شہریار کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ خاموشی سے درناز کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ تیمور کو صبح آفس جانا تھا، تو وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ رابعہ بھی ان کے پیچھے چلی گئیں۔ مہوش کو بھی میمونہ کی کہانی سننی تھی اور دراڑ کی وجہ جاننی تھی، اس لیے وہ بھی جا کر بیٹھ گئی۔ جانے کیوں اسے بھی اچانک دلچسپی ہو گئی۔ شہریار نے گہری سانس بھری۔
ماضی کے بڑے سے بڑے رازوں میں سے ایک چھوٹا سا راز کھلنے جا رہا تھا۔ وہ لفظوں کے ساتھ کھیل کر ماضی کی ایک جھلک ان کے سامنے پیش کرنے والے تھے۔ بہت سوچ سمجھ کر انھیں اپنی بات کہنی تھی۔ وہ دونوں بہت تیز تھے، اگر ایک چھوٹی سی بات بھی پکڑ لی تو ان کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔
٭٭٭
جاری ہے۔۔۔