لفٹ کے دروازے جدا ہوتے ہی ان دونوں نے ایک ساتھ قدم باہر رکھا۔ انابیہ سیاہ پیروں تک آتے گائون کے اوپر گہرے نیلے رنگ کا trenchکوٹ پہنے ہوئے تھی اور سر پر اوڑھے سکارف کے پیچھے نکلتے بال ہنوز کھلے تھے۔ اس کے ساتھ ردا تھی جس نے سفید لمبی قمیض کے اوپر گندمی رنگ کا کارڈیگن (cardigan)
اور ساتھ میں کھلے پانچوں والا ٹرائوزر پہنا ہوا تھا۔وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتی جا رہی تھیں تبھی ردا نے کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔
" موسم اتنا پیارا ہو رہا ہے میرا دل تھا آپ کے ساتھ باہر جاتی آپ کے اس اترے ہوئے چہرے پر تھوڑی خوشی تو آجاتی۔۔آپ کو کیا چیز پریشان کر رہی ہے؟" اس نے فکرمندی سے پوچھا تو انابیہ کے قدم رکے۔
"یہ سوال تم مجھ سے دسویں دفعہ پوچھ رہی ہو۔۔" اس نے گردن موڑ کر ردا کو دیکھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے کہا۔
"اور دسویں دفعہ پوچھنے پر بھی یا تو آپ نے جواب نہیں دینا یا ٹال دینا ہے۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے افسوس سے بولی۔ " ماما جان کہتی تھیں باتیں دل میں رکھنے سے دل بھاری ہو جاتا ہے۔ اپنے قریبی کو بتا کر دل ہلکا کرنا لینا چاہیئے ورنہ آخر میں دل پر بڑھتا بوجھ برداشت نہیں ہوتا اور تب انسان کو روتے چیختے ہوئے اسے ہلکا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔" وہ بولتی جا رہی تھی تبھی انابیہ رک کر اس کی طرف گھومی اور اگلے ہی لمحے بلکل اس کے سامنے کھڑی ہوگئ۔
"کچھ بھی نہیں ہوا مجھے۔کہا نا بلکل ٹھیک ہوں میں ۔۔" وہ اب کی بار پھر سے اسے تسلی دیتے ہوئے بولی۔ کچھ ہی سال ہوئے تھے کہ ردا نے ڈرنا چھوڑا تھا اور اس نے ظفر کو مکمل طور پر بھلا دیا تھا اس لیے وہ اب اسے کسی بات سے مزید ڈرا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"یعنی آپ دل کو بھاری کر کے چھوڑیں گی۔ خیر آنا آپ کو پھر میرے پاس ہی ہے۔" وہ جیسے ہار مانتے ہوئے بولی تو انابیہ فوراً سے مسکرا دی۔ وہ دونوں اس وقت آفس کی لابی میں کھڑی تھیں۔انابیہ نے گھوم کر اپنے دائیں طرف کیبینز میں سب ورکرز کو کام میں مصروف دیکھا۔ وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آفس میں ہر طرف دیکھ رہی تھی۔
"جانتی ہو انسان کی سب سے بڑی خاصیت کیا ہے؟" وہ چاروں طرف نظریں گھماتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ "کہ وہ وقت کے ساتھ خود کو سنبھال ہی لیتا ہے۔ میں نے بھی خود کو سنبھال لیا ہے خود کو وقت کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ بس اب کوئی ٹرننگ پوائنٹ نہ آئے میں اس زندگی سے خوش ہوں۔۔" وہ مسکراتے ہوئے بول رہی تھی ایسے کہ ردا کو لگا وہ خود سے باتیں کر رہی ہے۔
"انسان کی خاصیت ہوگی لیکن انابیہ کی نہیں۔۔"ردا نے دل ہی دل میں کہتے پھر سر افسوس سے نفی میں ہلایا وہ جانتی تھی وہ اب بھی تکلیف میں تھی اس نے خود کو کبھی سنبھلنے دیا ہی نہیں۔۔ کچھ پل مکمل خاموشی رہی۔
"وانیہ بتا رہی تھی کہ جہانگیر انکل کا کوئی بیٹا آرہا ہے۔۔ وجہ؟" ردا اس کے عقب میں کھڑے کھڑے بولی۔ اس کی آواز پر اس نے دوبارہ گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"ریزن کچھ خاص مجھے بھی نہیں پتہ۔ جہانگیر انکل کا فیصلہ ہے تو میں کون ہوتی ہوں وجہ پوچھنے والی۔۔" اس نے عام سے انداز میں کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"تو یہ تو پتہ ہوگا کہ عابس بھائی آرہے ہیں یا انکے چھوٹے بیٹے کبیر۔۔" دوسرا نام سنتے ہی انابیہ نے چونک کر اسے دیکھا یوں جیسے وہ یہ نام سننے کے لیے بلکل تیار نہیں تھی۔ وہ کچھ پل اسے پوری کھلیں آنکھوں سے گھورتی رہی اور ردا نے اس کے یوں حیران ہونے اور گھورنے کی وجہ فوراً بھانپ لی۔
"ضروری تو نہیں اس دنیا میں ایک ہی کبیر ہو اور وہ وہی ہو۔۔" اس نے اس کی حیرت زدہ شکل دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر کبیر جہانگیر تو ایک ہو سکتا ہے اور وہی ہو سکتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں خوف سے بولی۔ یہ جملہ کہنے کے لیے اسے بہت ہمت کی ضرورت تھی اور فلحال اس کی ساری ہمت جواب دینے لگی تھی۔
“ماما بابا کی ڈیتھ پر تعزیت کرنے کے لیے آئے تھے بس اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو وہ جلدی چلا گیا تھا۔ میں نے شکل تو نہیں دیکھی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کم از کم وہی کبیر نہیں ہو سکتا۔۔" اگلے ہی لمحے اسے یاد آیا کہ اس نے اس دن ایک گاڑی کو گیٹ سے نکلتے دیکھا تھا یعنی اس کا شک ٹھیک تھا کوئی تیسرا شخص بھی آیا تھا۔ وہیں کھڑے کھڑے وہ خود کو کوسنے لگی کہ اگر وہ اس شخص کی تھوڑی انفارمیشن لے لیتی تو اس کا کیا چلا جاتا۔ کم از کم نام۔۔ افف خدایا۔۔ یہ اس نے کیا کر دیا تھا۔ اگر واقعی وہ شخص وہی ہوا تو وہ کیا کرے گی۔ اس کی نفرت کا سامنا وہ کیسے کرے گی۔ اگر وہ کبیر ہی ہوا تو اس کے سوالوں کے جواب کیسے دے گی۔ اس کے دل میں عجیب سی گھبراہٹ شروع ہونے لگی تھی۔ وہ ایک عجیب سے خوف میں مبتلا ہو گئ تھی۔ زہن میں صرف ایک سوال تھا کہ کیا واقعی جہانگیر صاحب کے ساتھ آج یہاں آنے والا شخص وہی ہوگا اور ابھی اس کے زہن میں یہی سوال تھا کہ بس اس سوال پر اندر آنے والے شخص نے یقین کی مہر لگا دی تھی کہ ہاں وہی تو ہے وہ شخص جس کے آنے کا اسے خوف تھا۔
اس کی نظریں شیشے کے دروازے پر تھیں اور بس وہیں اٹک گئ تھیں۔ پلکیں جھپکے بغیر اب وہ اندر آتے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو جہانگیر صاحب کے ساتھ تھا لیکن جہانگیر کو کون دیکھ رہا تھا نظریں تو صرف اس پر تھیں جو نظروں کو جھکائے سر ہاں میں ہلاتا جا رہا تھا۔ پہلے کی بنسبت نفاست سے کٹے چھوٹے بال۔۔ ہلکی بڑھی شیو۔۔سیاہ ڈریس شرٹ کے اوپر سرمئی بلیزر اور سیاہ پینٹ پہنے وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔جہانگیر صاحب اس سے کچھ کہہ رہے تھے مگر جہانگیر کو کون دیکھ رہا تھا نظریں تو اس پر تھیں جسے وہ ساڈھے چار سال پہلے چھوڑ آئی تھی۔ بے ساختہ اس نے ردا کے بازو کا سہارا لیا یوں جیسے اس کے لیے اس زمین پر کھڑا ہونا سب سے مشکل کام ہو گیا تھا۔ پتھرائی نظریں۔۔ساکت جسم۔۔ چہرے کی اڑتی رنگت۔۔ اسے اپنا وجود بے جان ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔ جس کا ڈر تھا وہی تو ہوا تھا اس کا دل کیا کہیں بھاگ جائے۔۔ چھپ جائے۔۔ عدم ہوجائے۔۔ صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔۔ اس کا وجود ختم ہو جائے۔۔ اس نے تو کبھی اس کے ملنے کی دعا نہیں کی تھی تو کیوں وہ اب اس طرح سے اس کے سامنے آگیا تھا۔۔ اس کی زندگی میں یہ ٹرننگ پوائنٹ کیوں آگیا تھا؟
جہانگیر مسلسل اس سے کچھ کہہ رہے تھے۔ اس کے چہرے پر ناگواری تھی یوں جیسے اس کا دل بلکل بھی نہیں تھا کہ ایک نظر اس آفس کو ہی دیکھ لے۔ دفعتاً اس نے نے نظریں اٹھائیں اور سب سے پہلے اس کی نظر جس پر پڑی اسے دیکھتے ہی بےساختہ اس کے قدم رک گئے۔ وہ جو اس سے کچھ میٹر دور کھڑی تھی وہ وہ تھی جو اسے ساڈھے چار سال پہلے چھوڑ گئ تھی۔۔ بغیر وجہ بتائے۔۔ بغیر اپنی مجبوری بتائے۔۔ وہ چلی گئ تھی اور اب یوں اچانک اس کے سامنے تھی۔۔ وہ جس کے الوداعی کلمات میں اقرار محبت تھا۔ کیا یہ اس کا خواب تھا؟؟ وہم تھا؟؟ جیسے ہمیشہ سے ہوتا تھا۔۔ یہ کیا تھا؟ اس کا الوژن۔ اس لمحے شہد رنگ آنکھیں اور وہ بھوری آنکھیں ایک دوسرے میں ڈوب گئی تھیں۔۔ کبیر کی پیشانی پر بل پڑنے لگے تھے۔ اس نے اپنے قدموں کو حرکت دی۔ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے بے دردی سے اپنی نظریں اس پر سے ہٹا دیں اور یہ وہ تکلیف دہ منظر تھا جس سے انابیہ کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔ وہ جو بس اسے دیکھتا تھا آج کچھ پل کے لیے بھی اسے دیکھنے کا روادار نہیں تھا۔ آج وہ اس کے علاوہ سب دیکھ رہا تھا اور وہ جو کبھی اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکی آج اس کے علاوہ کچھ دیکھ ہی نہیں پا رہی تھی ۔جب اس نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا وہاں اپنائیت تھی محبت تھی خوشی تھی لیکن آج اس کی آنکھیں ان سب سے عاری تھیں۔ آج ان میں وہ اپنائیت نہیں تھی شاید محبت بھی نہیں تھی شاید نفرت تھی ہاں نفرت۔ آج وہ آنکھیں ویران تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ اگر وہ انابیہ کو دیکھنا چھوڑ دے گا تو اس کی آنکھیں ویران ہو جائیں گی۔ وہ غلط نہیں تھا۔ اور آج اس کی آنکھوں کی ویرانی دیکھ کر وہ کھڑے کھڑے مر گئ تھی۔
کچھ قدم چلتے ہوئے وہ پھر سے رک گیا اس سے آگے نہیں بڑھا جا رہا تھا اس کے قدم بھاری تھے ۔ کب اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں اسے پتہ تک نہیں لگا۔ تکلیف سے اس کا دل بند ہو رہا تھا اور اسی طرح اس نے شکوہ کن نظروں سے جہانگیر صاحب کو دیکھا۔اب اسے پتہ چلا کیوں اس کا باپ اسے یہاں لانے کے لیے بضد تھا۔ وہ سب جانتے تھے کیسے کیوں؟ اہم نہیں تھا اہم تھا تو انابیہ کا اس کے سامنے ہونا تھا۔ اس نے انہی متورم مگر کاٹدار نظروں سے ایک دفعہ انابیہ کو دیکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے پلٹ گیا۔ انابیہ نے ردا کے بازو پر گرفت مزید سخت کی۔ اس کا چہرہ بھی مکمل بھیگ چکا تھا۔ وہ جا رہا تھا۔ پہلے وہ چھوڑ آئی تھی اور اب وہ جا رہا تھا۔ جہانگیر اسے روکنے کے لیے اس کے پیچھے گئے لیکن اس نے ایک نہ سنی اور بھاگنے کے انداز میں وہاں سے نکل گیا۔
ردا نے بےچینی سے انابیہ کو دیکھا وہ کس کرب میں تھی شاید آج وہ بھی اندازہ نہ لگا سکے۔
"عالیان۔۔" وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔" وہ جانتا تھا اسے۔۔ وہ جانتا تھا ردا۔۔" وہ مکمل ردا کی طرف گھومی وہ رو رہی تھی۔ آنسو ٹم ٹم بہہ رہے تھے۔" انکل اس لیے لائے تھے اسے وہ بھی جانتے تھے۔۔ یہ اس نے کیا کر دیا ردا؟ میں نے اسے منع کیا تھا۔۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟؟" وہ ارد گرد کی پرواہ کیے بغیر چیخ رہی تھی چلا رہی تھی۔ "اس نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔۔" اس نے بے دردی سے اپنا چہرہ رگڑا اور بھاگتے ہوئے باہر جانے لگی۔ ردا اس کے پیچھے جا رہی تھی اسے روک رہی تھی مگر وہ بےدردی سے اسے جھڑکتے چلتی جا رہی تھی۔ باہر نکلتے ہی اس نے ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا حکم دیا اور بیک سیٹ کا دروازہ کھولتے بیٹھ گئ۔ ردا بھی تیزی سے اس کے ساتھ بیٹھی تھی کیونکہ وہ غصے میں تھی تکلیف میں تھی وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔۔
پیچھےآفس میں رہ جانے والے لوگ ایک دوسرے کو کندھے اچکا اچکا کر ناسمجھی سے دیکھ رہے تھے۔
"تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کیا تھا؟" ان میں سے ایک لڑکے نے دوسرے لڑکے سے پوچھا۔
"مرشد مجھے تو محبت کا قصہ لگتا ہے جو شاید ادھورا رہ گیا تھا اور اب شاید اسے پورا ہونا ہے۔۔" دوسرا لڑکا ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا۔
وہ سارے راستے روتی آئی تھی اور اب گھر پہنچتے ہی وہ تیزی سے گاڑی میں سے اتری اور اندر کی طرف بھاگی۔ لونگ روم میں عالیان کان کے ساتھ فون لگائے کھڑا تھا۔
"ہاں ٹھیک ہے میں دیکھ۔۔" وہ کچھ بول رہا تھا لیکن پھر انابیہ کو دیکھ کر چپ ہو گیا۔ وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھی پھر اس کے کان سے موبائل کھینچ کر سامنے دیوار پر دے مارا اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے زور سے اس کے سینے پر مارا اتنا کہ عالیان کو سنبھلنے تک کا موقع نہیں ملا تھا۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا۔ اس سب کے لیے بلکل تیار نہیں تھا۔
"کیوں کیا تم نے ایسا؟؟ ہاں میں نے منع کیا تھا تمہیں عالیان۔۔" وہ سرخ انگارا آنکھوں سے اسے دیکھے گئ۔
"پاگل ہو گئ ہو کیا تم ؟؟ یہ کیا طریقہ ہے؟" وہ فوراً سے سیدھا ہوتے ہوئے بھڑکا۔ وہ اس کی آنکھوں میں دہشت دیکھ کر ایک پل کے لیے ڈر گیا تھا۔
"ہاں ہو گئ ہوں پاگل ۔۔ تم کب میری زندگی جہنم بنانا چھوڑو گے؟ میں نے تم سے کہا تھا میرے معاملے میں انٹرفئیر مت کرنا لیکن وہ عالیان ہی کیا جو انابیہ کی سن لے۔۔" وہ پھر سے اس کی طرف بڑھی اب کی بار اس کا گریبان انابیہ کے سخت ہاتھوں میں تھا۔ ردا وہیں پیچھے کھڑے انابیہ کو دیکھ رہی تھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ آگے جا کر اسے روکتی۔
"تم خود کو سمجھتے کیا ہو۔ یہ میری زندگی ہے اسے پہلے کی طرح کنٹرول کرنا چھوڑ دو۔ ورنہ میں جان لے لوں گی۔ تم کبھی نہیں بدل سکتے کبھی نہیں تم صرف مجھے تکلیف پہنچا سکتے ہو جیسے پہلے پہنچاتے تھے۔ تم نے ہمیشہ وہ کیا ہے جس میں میرا نقصان ہوتا ہے۔۔" وہ پھر سے بھڑکی۔ وہ اتنا اونچا بول رہی تھی کہ اس کی آواز پر ناصر صاحب بھی اپنی ویل چئیر گھسیٹتے لونگ روم میں آگئے۔
"فور گاڈ سیک انابیہ مجھے بتائو میں نے کیا کیا ہے؟" وہ واقعی ہی نہیں جانتا تھا کیونکہ جہانگیر نے اسے ابھی تک کچھ نہیں بتایا تھا۔
"تم نے اسے کیوں بلایا ہے عالیان؟ اس کی آنکھوں میں میرے لیے اتنی نفرت تھی اتنی بیزاری تھی افف میں کیسے برداشت کروں گی؟" اب کی بار وہ باآواز رو رہی تھی۔ غصہ اور آنسو دونوں اس کا ضبط ختم کر چکے تھے۔ عالیان کو بس اک لمحہ لگا تھا اور وہ جان گیا تھا کہ کبیر آگیا ہے اور معاملہ جتنا سیدھا اسے لگ رہا تھا اتنا سیدھا تھا نہیں۔ انابیہ کے اتنے غصے اور بھڑکنے کا اسے بلکل اندازہ نہیں تھا۔۔ گریبان اب بھی اس کی مضبوط گرفت میں تھا۔
"میری بات سنو۔۔"
"تم میری سنو۔۔ " اس نے پھر پوری قوت سے اسے پرے دھکیلا۔ " میں نے کہا تھا وہ میرڈ ہے وہ خوش تھا۔ میں بھی ٹھیک تھی تم سے کیوں میرا سکون برداشت نہیں ہوتا ہاں۔ اس شخص کو میرے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے جسے میں( اپنے سینے پر زور سے انگلی رکھتے ہوئے بولی) میں خود چھوڑ کر آئی تھی۔ وہ مجھ سے کتنی نفرت کرتا ہوگا میں جانتی تھی مگر میں دیکھ نہیں سکتی میں وہ نفرت دیکھ نہیں سکتی سنا تم نے۔۔" چیخ چیخ کر اس گلہ رندھ سا گیا تھا۔ وہ ضبط ہار بیٹھی تھی اور گھٹنوں کے بل زمین پر گری تھی۔ ردا تیزی سے اس کی طرف آئی تھی۔ عالیان بھی لمحے بھر کی دیر کیے بغیر اس کے سامنے جا بیٹھا۔۔
"میری غلطی ہے مجھے تمہیں معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں کیسے بھول گئ تم وہی ہو جسے مجھے تکلیف دیتے ہوئے مزہ آتا ہےاور تم اب بھی۔۔ اب بھی مجھے اس کرب میں دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہو۔۔ چلے جائو یہاں سے۔۔" اس نے پھر اس کے سینے پر مکا مارتے ہوئے کہا۔ عالیان بس زخمی نظروں سے اسے دیکھے گیا۔ اس کی باتیں اس کا دل چھلنی کرنے کے لیے کافی تھیں۔ یہ وہ انابیہ نہیں تھی جو اپنے دشمن سے بھی نرمی سے بات کرتی تھی۔ وقت نے اسے کیا بنا دیا تھا اور جتنا ظلم وقت نے اس کے ساتھ کیا تھا شاید کسی کے ساتھ نہیں کیا تھا۔
"خود کو سنبھالو انابیہ ایک دفعہ میری بات تو سن لو پلیز یار۔۔" وہ التجائیہ انداز میں بولا اب کی بار وہ کچھ نہیں بولی وہ بس مسلسل روئے جا رہی تھی۔۔
"اس نے کوئی شادی نہیں کی۔۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔۔" انابیہ کی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں اور اس نے اسی طرح بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں۔ جہانگیر انکل نے خود بتایا تھا مجھے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ تم سے محبت کرتا ہے شادی کیسے کر سکتا تھا۔۔ خود سوچو ایسا کچھ ہوتا تو جہانگیرانکل اسے یہاں کیوں لاتے۔۔" وہ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ یعنی اس نے زندگی کے یہ تین سال اسی غلط فہمی میں گزار دیے تھے۔
"اور کیا کہا تم نے نفرت؟؟ پاگل ہو تم۔۔" عالیان نے آگےہو کر اپنی انگلیوں کے پوروں سے اس کے سر پر مارا۔
"وہ صرف ناراض ہے انابیہ۔ یہ وقتی ناراضگی ہے۔ جو سب اس کے ساتھ ہوا ہے اتنا ری ایکشن تو بنتا ہے نا۔ اسے وقت دو ۔ اس کی محبت کو وقت دو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ بہتے آنسوؤں سے اسے دیکھ رہی تھی سن رہی تھی۔
"وہ چلا جائے گا۔۔" اس کی آواز کسی کھائی سے آئی ہوئی لگ رہی تھی۔۔
"جا کر تو دکھائے۔ کہیں آنے جانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا میں اسے۔۔ تم سب ٹھیک کر سکتی ہو مجھے تم پر یقین ہے۔۔" کہتے ساتھ اس نے ردا کو اشارہ کیا۔ "اسے لے کر جائو کمرے میں۔" وہ اس کے سامنے سے اٹھنےلگا تھا تبھی انابیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔
"وہ نفرت نہیں کرتا نا مجھ سے؟؟" وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح پوچھ رہی تھی۔
"اسے وقت دو۔۔" اس نے محض اتنا کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ردا نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھنے میں مدد کی اور وہاں سے لے گئ۔
"میں نے تم سے کہا تھا اس کی مرضی کے خلاف کچھ مت کرنا۔۔" آواز ناصر صاحب کی تھی جو عالیان سے مخاطب تھے۔
"ضروری تھا ڈیڈ۔ وہ ٹوٹ چکی تھی مجھے کچھ بھی کر کے اسے جوڑنا تھا۔" وہ سر پکڑے کھڑا تھا۔ ناصر اپنی ویل چیئر گھسیٹ کر اس کے پاس لے گئے تو ان کو دیکھتے ہی وہ ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی باتوں پر ناراض مت ہونا۔۔ وہ ایسی نہیں تھی۔۔" انہوں نے عالیان کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو وہ زخمی انداز سے مسکرا دیا۔
●●●●●●●●●●●●
وہ اس وقت جہانگیر صاحب کے گھر میں خود کو ایک کمرے میں بند کیے بیٹھا تھا۔ جہانگیر باہر ہی لونگ روم میں بیٹھے اپنی انگلیوں کے پوروں سے کنپٹی مسل رہے تھے۔ کبیر کے کمرے کا دروازہ اس نے اندر سے لاک کر رکھا تھا اس لیے انہوں نے ایک دفعہ بھی دروازہ کھٹکھٹا کر اسے مخاطب نہیں کیا۔ وہ جانتے تھے وہ اپنی مرضی کے بغیر باہر نہیں آئے گا۔
کمرے میں اندھیرا تھا۔ ساری لائٹس آف تھیں۔ بند کھڑکیوں پر پردے پڑے تھے اور کمرے کی حالت درہم برہم تھی۔ ہر چیز پھر سے بکھری ہوئی تھی۔ شیشے ٹوٹے پڑے تھے اور ایسے میں وہ ایک دیوار سے ٹیک لگائے فرش پر خاموش بیٹھا تھا۔ اسے جب شدید غصہ آتا تھا وہ یونہی توڑ پھوڑ کرتا تھا۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور اسکی سرخ متورم آنکھیں سامنے دیوار پر جمی تھیں۔
"یہ قسمت نے میرے ساتھ کیا کیا؟ مجھے کیوں تم سے یوں ملایا؟ تم یہاں تھی کراچی میں۔ میرے اتنے قریب۔ کیا تم بھی ہر بات سے انجان تھی یا تم جانتی تھی؟ تم خود کیوں نہیں آئی بیا مجھے وقت کیوں لایا تمہارے پاس؟ تم گئ تھی مجھے چھوڑ کر تمہیں خود آنا تھا۔ میں وقت کا احسان کیوں لوں؟ وقت اتنا ظالم تھا کہ اس نے ٹھیک سے مجھے تمہیں دیکھنے بھی نہیں دیا۔ میری انا اور نفرت آڑے آگئ ۔" وہ رندھی ہوئی آواز میں خود سے بول رہا تھا۔ اس کا گلہ بیٹھ گیا تھا یوں جیسے وہ چیختا رہا ہے چلاتا رہا ہے روتا رہا ہے۔
"مجھے لگا تم سخت مجبوری میں گھری ہوگی مگر تم تو آزاد تھی۔ اتنا بڑا بزنس ایمپائر سنبھالنے میں لگی تھی۔ اپنے خواب پورے کرنے میں لگی تھی۔ میں نے خود کو کیا بنا دیا۔ تمہاری یاد نے مجھے ایک دن سکون سے سونے نہیں دیا۔ تم پنجرے میں قید تو نہیں تھی تم تو اڑ کر آسکتی تھی۔ تم نے کوئی کوشش کیوں نہیں کی آخر کیوں؟ تمہاری خواہش تو پوری ہوئی بیا لیکن میری خواہش کا کیا؟ وہ تو خواب بن کر ہی رہ گئ ۔" اس کے آنسو زاروقطار بہہ رہے تھے۔ وہ کسی بچے کی طرح بس روئے جا رہا تھا۔
"احمد انکل کی بیٹی تم ہو۔ ناصر انکل کی بھتیجی تم ہو اور تمہارا منگیتر عالیان تھا۔۔ ہم قریب تھے یہ سب بہت آسان تھا بس ایک کوشش کی ضرورت تھی۔ میں نے نہیں کی تو تم کرتی بیا۔ تم گئ تھی مجھے چھوڑ کر۔ میں تو بس ناچاہتے ہوئے بھی انتظار کی چکی میں پستا رہا ہوں۔" اس نے بمشکل اپنے ہاتھوں کو حرکت دی اور اپنے چہرے پر سے آنسو صاف کیے۔ اپنی آنکھوں کو ڑگڑا۔
"لیکن اب بس۔۔ میں یہاں سے چلا جائوں گا۔ تم خوش ہو اور یقیناً تمہیں میری ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں نے خود کو جتنی تکلیف پہنچانی تھی پہنچا لی۔ تم میری زندگی سے چلی گئ تھی اب تم چاہو بھی تو میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنے کی حماقت کبھی نہیں کروں گا۔ میں یہاں رہ کر خود کو مزید تکلیف سے دوچار نہیں کروں گا۔" اس نے بمشکل دیوار کا سہارا لے کر خود کو اٹھنے میں مدد دی اور لڑکھڑاتے قدم واشروم کی طرف چل دیا۔ سچ کہتے ہیں محبت اور اس کا انتظار انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔
●●●●●●●●●●●●
شام ہو گئ تھی۔ سورج ڈھل چکا تھا۔ آسمان پر اندھیرا چھانے لگا تھا۔ جہانگیر صاحب ہاتھ میں دو چائے کے کپ کی ٹرے پکڑے کبیر کے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ وہ کچھ گھنٹوں پہلے ملازم کو اس کے کمرے سے نکلتا دیکھ چکے تھے جو غالباً اس کے کمرے کی صفائی کر کے ہی نکلا تھا۔ ان کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔ کچھ دیر پہلے انہوں نے انابیہ کو کال کر کے اس کی خیریت بھی معلوم کی تھی۔ تب انہیں معلوم ہوا کہ وہ بھی دوائیوں کے زیراثر سو رہی ہے۔ سب کچھ ان کی سوچوں کے برعکس ہو رہا تھا۔ انہیں ایسے پیچیدہ حالات پیدا ہوجانے کا اندازہ بلکل بھی نہیں تھا۔ ایک ہاتھ میں ٹرے پکڑ کر انہوں نے دوسرے ہاتھ سے دروازے پر دستک دی۔ اس سے پہلے وہ دوسری دستک دیتے دروازہ کھول دیا گیا تھا۔ کبیر ان کے سامنے کھڑا تھا۔ سوجی ہوئی آنکھیں، ہلکے گیلے بال اور عام سی ٹی شرٹ اور ٹرائوزر پہنے وہ ایک نظر ان کو دیکھ کر واپس پلٹ گیا۔ جہانگیر گہرا سانس بھرتے کمرے میں داخل ہوئے تبھی ان کی نظر بیڈ پر پڑے ایک سفری بیگ پر پڑی جس کا منہ کھلا ہوا تھا لیکن ابھی خالی تھا۔
"ملازم بتا رہا تھا تمہارے سر میں بہت درد ہے۔ تم نے کوئی میڈیسن لی؟؟" انہوں نے ٹرے بیڈ کے ساتھ پڑے ایک صوفے کے سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔
"لے لی تھی۔۔" اس نے مختصراً جواب دیا۔ انہوں نے پلٹ کر اسے دیکھا جو ان کی طرف پشت کیے الماری میں سے کپڑے نکال رہا تھا۔
"جا رہے ہو؟" کمرے میں صرف ایک لائٹ آن تھی۔ انہیں الجھن ہو رہی تھی اس لیے سویچ بورڈ کی طرف بڑھتے ہوئے انہوں نے اس سے پوچھا۔
"ہوں۔۔۔" اس نے پھر سے کوئی تفصیلی جواب نہیں دیا۔ اس کے لہجے میں ناراضگی انہوں نے بھانپ لی تھی خیر اس کا اندازہ تو انہیں تھا ہی۔۔ اگلے ہی لمحے کمرہ مکمل روشن ہو چکا تھا۔
"مجھے بتائے بغیر۔" انہوں نے خفگی سے کہا۔ اب کی بار کبیر ان کی طرف گھوما۔ اس کے ہاتھ میں کپڑے تھے۔
"آتے ہوئے آپ کی مرضی سے آیا تھا نا اور اب جاتے ہوئے آپ کو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھتا۔۔" اس کے لہجے میں اب کی بار ناراضگی کے ساتھ ساتھ بدتمیزی بھی تھی۔
"میں نے ایسا کیا کیا ہے جو تم اس طرح سے بات کر رہے ہو؟" انہوں نے جھک کر دونوں کپ دوبارہ ہاتھ میں پکڑے اور اس کی طرف بڑھ گئے جو اب بیگ میں کپڑے ڈال نہیں ٹھونس رہا تھا۔ کبیر نے رک کر ان کو دیکھا اور پھر ان کے ہاتھوں میں پکڑے دونوں کپس کو۔
"مجھے نہیں پینی۔۔" وہ دوبارہ اپنے کام میں متوجہ ہو گیا۔ جہانگیر نے کندھے اچکا کر دوسرا کپ ٹیبل پر ہی رکھ دیا۔
"تم نے جواب نہیں دیا۔۔" ان کے دوبارہ مخاطب کرنے پر اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔
"آپ کو مجھے یہاں بلانے کی وجہ بتانی چاہئے تھی۔۔" اس کی ملامتی نظریں ان کے چہرے پر ٹکی تھیں۔
"تم اچھی طرح جانتے ہو میں وجہ بتاتا تو تم کبھی نہ آتے۔ مجھے لگا تم اسے دیکھ لو گے تو سب بھول جائو گے۔ مگر میں شاید بھول گیا تھا کہ تم انا کے سخت برے اور بلا کے ضدی انسان ہو اور میں یہ بھی کیسے بھول سکتا تھا ہر چیز میں انا اور ضد کو آڑے لانے والا محبت میں ان دونوں چیزوں کو کیسے فراموش کر دے گا۔۔" کبیر کو ان کی باتیں بری لگ رہی تھیں مگر وہ جانتا تھا وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
"تو آپ کیا چاہتے تھے ڈیڈ کہ میں محبت میں زور زبردستی کرتا ۔ اسے مارا مارا ڈھونڈتا پھرتا۔ در در خوار ہوتا۔۔ وہ خود گئ تھی اور جو خود چلے جائیں انہیں ڈھونڈنا نہیں چاہیئے جانے دینا چاہیے۔۔" وہ پھر سے الماری کی طرف بڑھ گیا۔
"وہ مجبور تھی۔۔" ان کے کہتے ہی وہ تپ کر ان کی طرف گھوما۔
"مجبور مائی فٹ۔۔" وہ ہر تمیز بالائے تاق رکھے ہوئے بول رہا تھا۔ " اتنی مجبوریوں میں جکڑی ہوئی تھی تو نہ کرتی محبت۔ مجھے پیچھے ہٹنے کا کہہ دیتی۔ میں نے کہا نا میں کوئی سائیکو عاشق نہیں تھا جو اس کی جان ہی نہ چھوڑتا۔" اس نے کپڑے زور سے بیگ میں پھینکے۔
"میں نے تو سنا تھا کہ محبت انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن اتنا بےحس اور بدتمیز بنا دیتی ہے یہ آج تمہیں دیکھ کر جان گیا ہوں۔۔" انہوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"آپ اب بھی مجھے بےحس کہہ رہے ہیں؟؟" اس نے شکوہ کن نظروں سے انہیں دیکھا۔
"او جسٹ شٹ اپ۔۔کبیر جہانگیر ۔۔" انہوں نے درشتی سے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔۔ "یو نو واٹ۔۔ یو ریئلی ڈونٹ ڈیزرو ہر۔۔" وہ کافی دیر سے نرمی برت رہے تھے لیکن اب کی بار انہوں نے سختی سے کہا۔
"شی ڈونٹ ڈیزرو مائی لو ڈیڈ۔۔ محبت نبھانے اور پانے کے لیے آخری حد تک کوشش کرنی چاہیئے پھر حاصل لاحاصل آپ کا مقدر ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نے کوشش تک نہیں کی۔۔ اس سے اچھی تو جویریہ تھی جس نے غلط طریقے سے ہی سہی مگر محبت کے لیے آخری دم تک کوشش تو کی۔" اس نے روانی میں کہا تو جویریہ کا نام سنتے ہی جہانگیر صاحب کے تیور مزید سخت ہوئے۔
"تمہارے نزدیک وہ لڑکی اچھی ہے جس نے اپنی محبت کے لیے دوسروں کی زندگی برباد کی؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے طیش میں بولے۔
"ہاں کم از کم اس لحاظ سے۔۔" اس نے ڈھٹائی سے ان کے غصے کی پرواہ کیے بغیر کہا۔
"مگر میرے نزدیک وہ لڑکی اچھی ہے جس نے ایٹ لیسٹ اپنی محبت کے لیے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اس نے اپنی محبت اپنوں کے لیے قربان کی ہے۔ قربانی اور دھوکے میں فرق ہوتا ہے کبیر۔۔" کبیر انہیں دیکھ کر زخمی انداز سے مسکرایا۔
"اور میرا کیا؟ سب سے زیادہ نقصان تو اس نے میرا کیا ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف تو اس نے مجھے پہنچائی ہے نا۔۔" اس کا انداز شکست خوردہ تھا۔ جہانگیر کچھ قدم لیتے بلکل اس کے سامنے آئے یوں کہ وہ اب براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ انہوں نے جیسے سختی پی کر نرمی اگلنے کی کوشش کی۔۔
"کوئی نقصان نہیں ہوا بچے۔ وہ تمہارے سامنے ہے۔ سب بھلا دو۔ اس سے اچھی لڑکی تمہارے لیے کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ جویریہ جیسوں کا کمپیریزن اس سے مت کرو۔ مجھے جتنا فخر اس پر ہے وہ کبھی تم دونوں بیٹوں پر بھی نہیں ہوا۔ وقت نے تم دونوں کو الگ کیا تھا وقت ہی ملا رہا ہے۔ ضد اور انا چھوڑ دو۔ جو غلطی ماضی میں اس نے مجبوری میں کی تم جانتے بوجھتے مت کرنا ورنہ پچھتائو گے۔" وہ اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھے نرمی سے اسے سمجھا رہے تھے۔
"میں یہاں رہا تو پچھتائوں گا۔ مجھے جانے دیں ڈیڈ پلیز۔۔ مجھے وقت دیں۔۔" اس نے انکے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے کندھوں سے ہٹایا اور آگے بڑھ کر بیگ کی زپ بند کرنے لگا۔ جہانگیر نے افسوس سے اسے دیکھا اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ رک کر انہوں نے پھر اس مکمل روشن کمرے کو دیکھا اور سویچ بورڈ پر ہاتھ رکھے انہوں نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے کبیر نے ان کی آواز پر سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ انہیں سن رہا تھا۔ کچھ ہی پل میں اندھیرا چھا گیا۔ ان کا بیٹا اندھیرے کا شوقین ہو گیا تھا سو انہوں نے بتیاں بجھا دیں۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
اگلے دن کا سورج طلوع ہوئے کچھ گھنٹے بیت چکے تھے۔ عالیان اپنے کمرے میں موجود پینٹ شرٹ پہنے آفس کے لیے بلکل تیار دکھائی دے رہا تھا بس کوٹ پہننا باقی تھا۔ کھڑکی سے آتی سورج کی کرنیں اس کے کمرے کو روشن کیے ہوئے تھیں۔ اس نے الماری سے کوٹ نکالا اور قد آور آئینے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا تبھی اسے آئینے میں اپنے پیچھے کھڑی ایک لڑکی کا عکس دکھائی دیا۔ کوٹ ہاتھ میں ہی پکڑے اب وہ اس کی طرف گھوما جو دروازے کے پاس سر جھکائے کھڑی تھی۔
"وہاں کیوں کھڑی ہو؟ اندر آجائو۔۔" اس کے مخاطب کرنے پر انابیہ نے قدم اندر رکھے۔ عالیان نے کوٹ بیڈ پر پھینکا اور اس کی طرف بڑھا۔
"بیٹھ جائو۔۔" اس نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔
"مجھے تم سے کل کے رویے کے لیے معافی مانگنی ہے۔" اس کی آواز میں صدیوں کا دکھ تھا۔ اس کی آنکھوں کو دیکھ کر عالیان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ وہ روتی رہی ہے۔
"مجھے تمہارے رویے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ اگر کسی بات کا افسوس ہے مجھے تو بس یہی کہ کچھ بھی کر کے میں تمھارے دل سے اپنے لیے نفرت ختم نہیں کر سکا۔" اس کی بات پر انابیہ نے چونک کر سر اٹھایا۔
"میں۔۔ میں تم سے نفرت نہیں کرتی۔ میں کر ہی نہیں سکتی۔ میں جانتی ہوں میں نے بہت کچھ ایسا بول دیا ہے جس سے تم ہرٹ ہوئے ہو۔ مجھے معاف کر دو۔" اس کی آواز میں کپکپاہٹ واضح تھی۔
"تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے انابیہ۔ تم نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ تم نے جو بھی کیا غلط فہمی کے تحت کیا۔" وہ اب کی بار بلکل اس کے سامنے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
"نہیں ساری غلطی میری ہی ہے۔ میں نے اس وقت سے ایک کام ہی تو سیکھا ہے۔ سب کو ہرٹ کرنا۔ میں بہت بری ہو گئ ہوں ۔ میں ایسی کبھی نہیں تھی۔ اتنی تلخ مزاج کبھی نہیں تھی۔" وہ پھر سے رو رہی تھی۔ آنسو پھر سے بہہ کر اس کا چہرہ بھگونے لگے تھے۔ عالیان کو اب واقعی اس پر ترس آرہا تھا۔
"ایسے مت کہو یار۔ تم ایسی نہیں ہو اور ہو بھی نہیں سکتی۔۔" اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ٹشو باکس میں سے ایک ٹشو نکال کر اس کے سامنے کیا۔ انابیہ نے اسے دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
"تمہیں لگتا ہے وہ تم سے نفرت کرتا ہے۔۔ تم اس کے ساتھ کام نہیں کر سکو گی۔۔ وہ چلا جائے گا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔" وہ اب ٹشو سے اپنی آنکھیں اور چہرہ صاف کر رہی تھی۔
"میری بات غور سے سنو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔" اس نے گھوم کر ایک ٹشو اور نکالا اور پھر سے انابیہ کی طرف بڑھایا۔ پہلے والا تو اس کے تر چہرے سے ہی تر ہو گیا تھا۔
"اس کا دل بھی رک چکا تھا جیسے تمہارا ۔ پلیز اسے اور خود کو وقت دو۔" عالیان اسے سمجھا رہا تھا اور وہ اب ٹشو سے اپنی سرخ ہوتی ناک رگڑ رہی تھی۔
"اگر وہ جا چکا ہوا تو؟" عالیان نے اس کے سوال پر ٹھنڈی آہ بھری۔ اس کے بار بار رونے کی وجہ یہی تو تھی بس۔
"چلا گیا تو واپس کھینچ کر لے آئوں گا۔ اب تم جائو تیاری کرو اور آفس کے لیے نکلو۔۔" انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا اور مڑ کر جانے لگی تبھی اس کی آواز پر رکی۔
"تم کچھ بھول رہی ہو۔۔" اس نے مڑ کر نا سمجھی سے اسے دیکھا وہ ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا تھا۔
"پانچ لاکھ پچاس ہزار۔۔۔" انابیہ نے پھر نا سمجھی سے اسے دیکھا وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا اسے سمجھ نہیں لگی۔۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ بھول گئ کل تم نے میرا آئی فون دیوار پر دے مارا تھا۔۔" وہ خفگی سے بول رہا تھا۔ یاد آتے ہی انابیہ خاصا شرمندہ ہوئی۔
"شرمندہ بعد میں ہو لینا بس یہ رقم میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دینا۔ مجھے نیا فون خرید کر اپنا سارا ڈیٹا بیک اپ کرنا ہے۔ آفس پہنچتے ہی تمہیں پہلا کام یہی کرنا ہے۔ اب تم جا سکتی ہو۔۔" یہ پہلی دفعہ تھا جب انابیہ کھل کر مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔ عالیان نے چہرے سے ظاہر تو نہیں کیا مگر اس کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر اسے کافی خوشی ہوئی تھی ۔سر اثبات میں ہلاتے اب وہ اس کے کمرے سے جا چکی تھی۔
●●●●●●●●●●●●●
وہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے آفس میں پہنچی تھی۔ سرمئی رنگ کا پیروں تک آتا گائون اور ہم رنگ سکارف سر پر ڈھیلے ڈھالے طریقے سے لپیٹے وہ اس وقت اپنے اس سفید رنگ میں ڈوبے آفس میں کھڑی سوچوں میں گم گلاس ونڈوز سے باہر آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ ماتھے پر کرٹین بینگز کی صورت میں کٹے بال، معمول کے مطابق ہلکا میک اپ ، اس کی کمر پر جھولتے بال اور پیروں میں سفید ہائی ہیلز اسے ہمیشہ کی طرح پرفیکٹ دکھا رہے تھے۔تبھی اس کی سوچوں کا تسلسل دروازے پر ہوتی دستک سے ٹو ٹا ۔ اس نے مڑ کر یس کہا تو وانیہ اندر داخل ہوئی۔
"گڈ مارننگ میم۔۔ آج آپ اتنی دیر سے آئی ہیں۔ میں تو پریشان ہو گئ تھی۔ از ایوریتھنگ اوکے؟" وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں۔ بس ایسے ہی آج آفس آنے کا دل نہیں تھا۔لیکن آنا پڑا۔۔" اس نے عام سے لہجے میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"آپ نے اس پراجیکٹ سے خود کو بہت تھکا دیا ہے۔" اس نے ایک گلابی رنگ کی فائل کے صفحے پلٹتے ہوئے کہا۔ “ سر کہہ رہے ہیں یہاں پر سائن کردیں۔۔" صفحے کے اختتام پر انگلی رکھتے ہوئے اس نے فائل اور پین انابیہ کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ اس نے بس مین ہیڈنگ پڑھی تھی وہ آفس کے کچھ ضروری کاغذات تھے۔
"انکل آگئے ہیں؟" اس نے سائن کرتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا۔
"نہیں۔۔ میں تو کبیر سر کی بات کر رہی تھی۔۔" کاغذ پر چلتا اس کا پین ایک لمحے کے لیے رکا اور اس نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔ پھر سر جھٹک کر سائن مکمل کیا اور فائل پر پین رکھ کر اسے واپس تھمائی۔
"میم اگر آپ کو بہت پرسنل نہ لگے تو میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتی ہوں؟" اس کی درخواست کرنے پر انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا۔
"بھلے آپ ڈانٹ لیجیے گا مگر ناراض مت ہوئیے گا۔ دراصل کل سے میں تجسس کا شکار ہوں۔۔" وہ کچھ ڈرے سہمے انداز میں بول رہی تھی۔ انابیہ نے ایک نظر اسے گھورا۔
"اب پوچھ بھی لو۔" اس نے جھنجھلا کر کہا تو وہ گھبرا سی گئ۔
"سر کبیر سے آپکا۔۔ آئی مین۔۔ آپ ایک دوسرے سے۔۔مطلب۔۔" اسے لفظ نہیں مل رہے تھے اور خود پر غصہ بھی آرہا تھا کہ یہ کیسا سوال وہ انابیہ میم سے پوچھ رہی ہے۔ اگلے ہی لمحے انابیہ نے ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔
"وہ اپنے آفس میں ہے؟" اس کا سوال نظرانداز کر دیا گیا تھا اور اب وہ خود اس سے سوال کر رہی تھی۔ وانیہ نے بمشکل سر اثبات میں ہلایا تو وہ اس کے ساتھ سے ہو کر جانے لگی۔ لمحہ بھر رکی۔ ان دونوں کے کندھے ساتھ ساتھ تھے۔ پھر وہ تھوڑا وانیہ کی طرف جھکی۔۔
"محبت کا قصہ ہے۔۔ کبھی فرصت میں سنائوں گی۔۔" وہ نہایت دھیمے لہجے میں اس کے کانوں میں کہتی وہاں سے چلی گئ۔ وانیہ نے حیرت سے نظریں اٹھائیں مڑ کر اسے دیکھا جو اب آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل چکی تھی۔ بےساختہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئ تھی۔ فائل دونوں ہاتھوں میں پکڑے وہ خوشی سے اچھلی تھی۔
دروازہ موٹے شیشے کا بنا تھا۔ اندر اور باہر کا منظر واضح نہیں تھا۔ اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ دروازے پر دستک دے۔ وہ اندر جانے سے خوف کھا رہی تھی یوں جیسے اسے دھتکار دیا جائے گا یا آفس سے نکال دیا جائے گا۔
پورا آفس روشنی میں نہایا ہوا تھا۔سورج کی روشنی نصف تیار شدہ بلائنڈز کے ذریعے فلٹر کرتے ہوئے سنگ مر مر کے فرش پر سائے ڈال رہی تھی۔ کمرے کے مرکز میں مہوگنی کی ایک بڑی میز تھی جس کی سطح بہت وسیع تھی۔ اس میز پر بڑے بڑے پلانرز، فائلز، فائونٹین پین اور عین درمیان میں ایک کھلا لیپ ٹاپ سب بہت ہی سلیقے سے اس میز کی زینت بنے ہوئے تھے۔ میز کے پیچھے بھوری کرسی خالی پڑی تھی۔ عقب میں دیوار پر مہوگنی لکڑی کی بنی شیلوز پر فریم شدہ تعریفوں کا مجموعہ تھا۔ فریم شدہ ڈپلومے، سرٹیفیکیٹ اور ایوارڈز سب ہی اس دیوار کو باقی سب دیواروں سے مختلف اور شان والی دکھا رہے تھے۔ ۔کبیر اس وقت وائٹ ڈریس شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے میز پر جھک کے کھڑا فائل کے صفحے پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ وہ میز کے ایک کنارے کی طرف کھڑا تھا یوں کہ اس کی سربراہی کرسی اس سے تھوڑے بائیں طرف تھی اور اس کے آفس کا دروازہ اس کے دائیں طرف تھا۔ دفعتاً دروازے پر ناک ہوئی۔ اس نے نظریں اٹھائے بغیر اندر آنے کی اجازت دی۔ اس کے خیال سے وانیہ فائل سائن کروا کر واپس آگئ ہوگی۔۔ بمشکل دروازہ کھولتے وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے اندر آئی۔ کبیر کام میں مصروف تھا اس نے نہیں دیکھا کہ اندر کون آیا ہے۔ ایک پل کے لیے اس کا دل کیا واپس بھاگ جائے لیکن نہیں اگر وہ آج چلی گئ تو ساری عمر بھاگتی رہے گی اس شخص سے جسے قسمت اس کے سامنے لے آئی تھی۔ کبیر ہنوز کام میں مصروف تھا شاید کام بہت ضروری تھا۔ ہمت مجتمع کر کے اس نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔
"کیسے ہو؟؟" کبیر کے صفحے پلٹتے ہاتھ رک گئے۔ وہ آواز سنتے ہی اسے لگا کسی نے اس کا دل اپنی مٹھی میں دبا لیا ہو اور اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہو۔ وہ آواز آج بھی ویسی ہی تھی جیسے بہت پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس آواز کو سننے کے لیے اس ایک چہرے کو دیکھنے کے لیے وہ روز یونیورسٹی جایا کرتا تھا۔ وہ نہ ہوتی تو اس کا دل نہیں لگتا تھا اور آج قسمت اس پر اتنی ظالم ہو گئ تھی کہ ایک پل کے لیے بھی اسے اس کا چہرہ نہیں دیکھنے دے رہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی اسے کچھ گھنٹوں بلکہ صرف کچھ منٹوں کے لیے اپنے سامنے بٹھا کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔
اس نے فائل زور سے بند کی اور ایک طرف کرکے اب وہ اپنی چئیر کی طرف بڑھ گیا بغیر اسے جواب دیے۔ جواب نہ دینے کے دکھ سے زیادہ اس کا نظر اٹھا کر نہ دیکھنے کا دکھ بہت بڑا تھا۔ اس کے دل نے ایک دفعہ پھر اس سے کہا کہ چلی جائو یہاں سے مگر نہیں آج سب منظور ہے۔ کبیر کو لگا جواب نہ ملنے پر وہ چلی جائے گی لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس کے سامنے چئیر پر بیٹھ گئ۔ کبیر کے چہرے پر ناگواری مزید بڑھی۔ وہ اب اپنے سامنے کھلے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ مکمل خاموشی میں کی پیڈ کی نرم کلک سے کمرہ گونجنے لگا۔
"میرے خیال سے ہمیں بات کرنی چاہئے۔" اپنا موبائل ٹیبل پر رکھ کر وہ چئیر پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔
"تو کرو بات میں سن رہا ہوں۔۔" صد شکر اس نے اس کی آواز تو سنی۔ اب اسے کیا کہنا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہاں سے شروع کرے کہاں سے نہیں۔ پھر سے مکمل خاموشی دونوں کے درمیان حائل ہو چکی تھی۔
"کوئی کام ہے؟؟" اس نے دوبارہ کی پیڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے بڑے مصروف انداز میں پوچھا۔
کام؟؟ کام ہی تو آگیا تھا ان دونوں کے درمیان۔۔ محبت تو وہ خود دفنا آئی تھی۔ کام ہی تو اسے کھینچ کر لایا تھا اس تک محبت نہیں۔۔ تو چلو پھر کام ہی سہی وہ کسی طرح اس تک تو آیا تھا۔
"میں نے ریسینٹلی ایک پراجیکٹ سٹارٹ کیا ہے۔ میں چاہتی ہوں تم اس میں میری ہیلپ کرو۔ جہانگیر انکل کا کہنا ہے کہ تمہارے یونیک اور mind blowing آئیڈیاز میری کافی ہیلپ کر سکتے ہیں ۔۔" اس نے خود کو مضبوط کرتے ہوئے کہا۔
یہ ریکویسٹ تھی آرڈر تھا کیا تھا اس کی پرواہ کبیر کو نہیں تھی۔ اس کے حیران ہونے کی وجہ انابیہ کا ایسا مطالبہ تھا۔ اسے لگا وہ اس سے معافی مانگے گی یا ماضی چھیڑے گی یا کچھ نا کچھ ضرور کہے گی لیکن اسے اندازہ نہیں تھا وہ کام کے سلسلے میں بات کرنے آئے گی۔ کیا اسے اپنی غلطی کا احساس نہیں تھا؟ کیا بلکل احساس نہیں تھا کیسے وہ اس کے دل پر پیر رکھ کر اسے چھوڑ آئی تھی۔ تو چلو پھر کام تو کام ہی سہی۔
"فائن ۔۔" اس نے ہنوز کی پیڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ گئ تھی کہ وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کبیر کن اکھیوں سے اسے دیکھ سکتا تھا وہ کچھ دیر کھڑے ہو کر اسے ایسے ہی دیکھتی رہی۔ بنا کچھ کہے وہ مڑ گئ۔ کچھ قدم چلتے ہی وہ دوبارہ اس کی طرف گھومی۔ ایک پل کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ کبیر نے تیزی سے نظروں کا زاویہ بدلا یوں جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔ وہ اس کےمڑنے کے لیے بلکل تیار نہیں تھا۔ صد شکر اس نے دیکھا تو۔ لیپ ٹاپ کی اسکرین بند تھی ظاہر ہے اب وہ جا رہی تھی اسے تو بند ہونا ہی تھا۔ وہ چل کر تھوڑا آگے آئی ٹیبل پر سے اپنا موبائل اٹھایا جو شاید وہ بھول گئ تھی یا شاید اس نے جان کے ایسا کیا تھا۔ ایک نظر اس نے کبیر کے سفید ہاتھوں کو دیکھا جو وہ ٹیبل پر دھرے بیٹھا تھا۔ اس کی اس انگلی میں اب تک اس انگوٹھی کا نشان تھا جو انابیہ نے اسے دی تھی۔ وہ کل اس کے ہاتھ میں دیکھ چکی تھی اور آج کبیر نے اتار دی تھی اسے لگا شاید انابیہ کو بھنک تک نہیں پڑی ہو گی کہ وہ انگوٹھی اس نے ساڈھے چار سالوں میں ایک دفعہ بھی نہیں اتاری۔ عالیان ٹھیک کہہ رہا تھا وہ صرف ناراض ہے۔ بےساختہ وہ سر جھٹک کر زور سے ہنس دی اور مڑ کر جانے لگی۔ کبیر کو اس کے ہنسنے کی وجہ بلکل سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ دیر ایسے ہی اس دروازے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ گئ تھی ابھی ابھی کچھ سیکنڈز پہلے۔۔۔
●●●●●●●●●●●●
رات ہو چکی تھی۔ گیٹ کے کھلتے ہی اس کی گاڑی تیزی سے اندر داخل ہوئی تبھی اس نے پورچ میں کھڑی ایک اور گاڑی کو دیکھا۔ سر جھٹک کر اب وہ اندر جانے لگا تھا۔ اسے اپنا آپ کافی تھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ آفس سے تو وہ دن کے وقت ہی واپس آچکا تھا لیکن یہ تھکاوٹ مسلسل ڈرائیونگ کرنے کے باعث تھی۔ انابیہ سے بھی اس کی دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ جہانگیر صاحب نے بھی اسے مسلسل کالز کی تھیں مگر اس نے ایک کال اٹینڈ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی ۔ وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا نہ ہی انابیہ سے دوبارہ ملنا چاہتا تھا اس لیے کچھ گھنٹوں کے لیے روپوش ہو گیا تھا۔ اس کے کمرے کے راستے میں دائیں طرف اوپن لونگ روم آتا تھا سو اسے وہاں سے ہی گزرنا تھا تبھی اس نے چلتے چلتے رک کر ایک نظر کمرے کی طرف اٹھائی تو اس نے سامنے صوفے پر بیٹھی انابیہ کو دیکھا جو دونوں ہاتھوں سے چائے کے کپ کو پکڑے ہوئے تھی۔۔ اس کے ٹھیک سامنے آرام دہ کرسی پر جہانگیر صاحب بیٹھے اس سے کچھ کہہ رہے تھے۔ دفعتاً انابیہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تبھی جہانگیر صاحب بھی اس کی طرف گھومے۔ وہ فوراً وہاں سے چلا جاتا اگر جہانگیر کی آواز اس کے کانوں سے نہ ٹکراتی۔
"کہاں تھے تم سارہ دن؟ کتنی کالز کی تھیں میں نے تمہیں۔۔" وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی اس سے پوچھ رہے تھے۔
"یہیں تھا۔۔" اس نے بھی اندر آنے کی زحمت نہیں کی اور مختصراً جواب دیتے ہی جانے لگا تھا پھر ان کی آواز پر رکا۔۔
"انابیہ تم سے کچھ ضروری بات کرنے آئی ہے۔ فریش ہو کر یہیں آجانا۔۔" اس نے رک کر ناگواری سے دونوں کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو بھاڑ میں جائو اور بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے چلا گیا۔ وہ ابھی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ کسی نے درشتی سے اسے بازو سے پکڑا۔ سامنے کھڑا شخص اس کا باپ تھا۔۔
"وہ تم سے ملنے آئی ہے۔۔ سارے نخرے بالائے تاق رکھ کر فوراً نیچے اس سے ملنے آئو۔ یہ میں تمہیں حکم دے رہا ہوں سمجھے۔۔" انہوں ایک تنبیہی نگاہ اس پر ڈالی اور اس کا بازو چھوڑتے تیز تیز سیڑھیاں پھلانگتے چلے گئے۔ وہ تیوڑیاں چڑھا کر رہ گیا اور دروازہ دھکیلتے کمرے میں چلا گیا۔
"وہ آرہا ہے۔۔" لونگ روم میں آتے ہی وہ دوبارہ سے اس کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔ بےساختہ اس کے ہونٹ مدھم انداز سے مسکرائے۔
"وہ آجائے تو آپ اسے لان میں بھیج دیجئے گا۔ میں وہیں ویٹ کر رہی ہوں۔۔" وہ صوفے پر سے اٹھتے ہوئے بولی تو جہانگیر صاحب بھی فوراً سے اٹھ گئے۔۔
"بلکل نہیں۔۔ باہر بہت ٹھنڈ ہے انابیہ۔ یہیں بیٹھو وہ آجائے گا۔ مجھے تو ویسے بھی نیند آرہی تھی میں جا ہی رہا تھا سونے۔۔" انہوں نے کہا تو انابیہ کو ایسا لگا جیسے وہ زمین میں گڑ گئ ہے۔ یہ واقعی شرمندگی کا مقام تھا۔ وہ ہلکا سا مسکراتے وہاں سے چلے گئے اور وہ شرمندگی کے مارے مسکرا بھی نہیں سکی اور دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئ۔۔ آتش دان میں آگ جلنے کے باوجود بھی اسے بہت ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے خود پر لپیٹی شال کو مزید اردگرد سے لپیٹ لیا۔ وہ اگر آفس سے اتنی جلدی نہ آجاتا تو وہ ہمت مجتمع کر کے وہیں بات کر لیتی۔ وہ اسے صفائی دینا چاہتی تھی اسے سب بتانا چاہتی تھی کہ وہ کتنی مجبور تھی۔ شاید وہ اس بات سے بھی انجان ہو کہ ان کو جدا کرنے میں سب اس کی کزن کی سازش تھی۔ اسے کہنا تھا اگر وہ ابھی نہ کہہ سکی تو ہمیشہ ان کی زندگی میں صرف کام ہی رہ جائے گا اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔
پندرہ منٹ گزر چکے تھے وہ نہیں آیا تھا۔ وہ مسلسل اپنے سامنے پڑے خالی کپ پر بنے ڈیزائن کو دیکھ رہی تھی۔ آدھا گھنٹہ مزید گزر گیا اس کی لٹکی ہوئی ٹانگیں اب سن ہو رہی تھیں اسی لیے وہ اب ٹانگیں اوپر کر کے بیٹھ گئ۔ وہ بیچاری بھی سارا دن کی تھکی ہوئی تھی اور ہیل میں چل چل کر تو اس کے پیر بھی دکھ رہے تھے۔ بیٹھے بیٹھے اسے احساس ہوا کہ شاید وہ پلکیں جھپک گئ تھی کیا اسے نیند آ رہی تھی؟ وہ فوراً سے سیدھی ہوئی۔ نظریں اٹھا کر اس نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا جو پونے دس بجا رہی تھی۔ وہ نو بجے سے انتظار کر رہی تھی کیا اسے نہیں آنا؟
"وہ آئے گا۔۔" خود کو تسلیاں دیتے وہ پھر سے ایزی ہو کر بیٹھ گئ۔ اس کی آنکھیں بھاری ہو رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں جیسے ہی بند ہوتی تو پھر کھول دیتی پھر بند ہوتی تو پھر کھول لیتی۔۔
کبیر بیڈ کراون سے ٹیک لگائے ٹانگیں سیدھی کیے ایک کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ تھکاوٹ کے باوجود بھی نیند اس سے کوسوں دور تھی تبھی اسے احساس ہوا کہ اسے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ اس نے کتاب پرے پھینکی اور اٹھ کر کچن کی طرف جانے لگا۔ سیڑھیاں اتر کر اس نے دیکھا لونگ روم کی بتیاں اب بھی جل رہی ہیں۔ وہ کمرے میں ٹائم دیکھ کر آیا تھا سوا دس ہو رہے تھے۔ بجائے کچن میں جانے کے وہ سیدھا لونگ روم میں گیا۔۔
"واٹ دا ہیل!!!" سامنے صوفے پر لپٹی ہوئی انابیہ کو دیکھ کر وہ حیرت سے بولا جو ایک طرف گردن گرائے سو رہی تھی۔ "یہ اب تک یہیں ہے؟ اوہ مائی گاڈ!!" وہ سر جھٹک کر اندر آیا۔ اس نے بغور اس سوتی ہوئی لڑکی کا چہرہ دیکھا وہ اب بھی ویسا ہی تھا صاف بےداغ پہلے کے جیسا بس اب اس کے بینگز میں کٹے بال اسے تھوڑا مختلف دکھاتے تھے۔۔
اب وہ کیا کرے وہ؟ آس پاس نظر دوڑاتے ہی اسے آتش دان کے اوپر سٹیل کا بنا ہوا ایک ڈیکوریشن پیس دکھائی دیا۔ اس نے اسے اٹھایا اور اسی فیصد زور لگا کر زمین پر پھینکا۔ اس آواز کو سنتے ہی وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔
"آہ ہ ہ۔۔" اس نے جیسے ہی گردن سیدھی کی تو درد کے مارے بیچاری کراہ کر رہ گئ۔
"تم یہاں سونے آئی ہو؟" آواز سنتے ہی اس نے گردن پر ہاتھ رکھے سامنے دیکھا۔ کبیر سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
"واٹس رونگ ود یو؟؟ میں ایک گھنٹے سے انتظار میں بیٹھی ہوں تمہیں کوئی احساس ہے؟" وہ شکوے سے چور لہجے میں بولی۔
"تو تمہیں کس نے کہا انتظار کرو؟ کم از کم میں نے تو تمہیں انتظار کرنے کو نہیں کہا۔۔" وہ آتش دان کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
"تم نے انتظار نہ کرنے کا بھی تو نہیں کہا۔۔" اس کے بولتے ہی کبیر طنزیہ انداز سے مسکرایا۔ اس سے پہلے وہ بولتا ا انابیہ خود بول پڑی۔۔ "ہاں ہاں کہ دو ایک بیوقوف لڑکی ہوں میں۔۔ کیونکہ میں ہوں۔۔" اس نے خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہا۔
"میرے خیال سے ہماری ملاقات آفس میں صبح ہو ہی جانی تھی تمہیں جو بھی بات کرنی تھی وہاں کر لیتی یہاں آنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔"
"پہلی بات مجھے یہاں آنے کے لیے تمہارے اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ دوسری بات میں تم سے آج ہی آفس میں بات کر لینا چاہتی تھی مگر۔۔" وہ کہنا چاہتی تھی کہ ہمت نہیں ہوئی لیکن چپ ہو گئ۔۔ وہ منتظر سا کھڑا تھا۔ اب ناچاہتے ہوئے بھی ملاقات ہو ہی گئ تھی تو بات کرنے میں کیا حرج تھی۔ وہ کچھ قدم آگے آیا کرسی اٹھائی اور آتش دان کے ساتھ جا کر ہی بیٹھ گیا ایسے کہ اس کی پشت انابیہ کی طرف تھی۔
“ اچھا تو اب اسے اس کے سامنے بیٹھنا بھی گوارا نہیں تھا۔" انابیہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ کم از کم وہ بیٹھ تو گیا یعنی وہ اسے سننا چاہتا ہے۔
"مس انابیہ احمد عالم۔۔ میں نہایت تھکا ہوا ہوں۔ مجھے بہت نیند بھی آرہی ہے اور میں فارغ انسان تو بلکل بھی نہیں ہوں۔ اس لیے گزارش ہے کہ اپنی بات کا آغاز کیجیے اور جائیں یہاں سے۔۔" اس کا رخ انابیہ کی طرف نہیں تھا۔ وہ اس سے چہرہ موڑے بیٹھا آگ کو دیکھ رہا تھا۔
اسے خود کے بارے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گئ تھی کہ وہ ایک مضبوط لڑکی بن گئ ہے آج اس کی ساری طاقت جواب دے گئ تھی وہ اس سے کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جس شخص سے ہم ہر بات آرام سے کر لیتے ہیں اگر وہ کچھ سال ہم سے دور ہو جائے تو وہ ہمارے لیے انجان بن جاتا ہے مکمل انجان اتنا کہ ہم کچھ کہہ ہی نہیں پاتے ہمت ہی نہیں کر پاتے۔
"میں تم سے۔۔۔۔ میں تمہیں سب بتانا چاہتی تھی کبیر۔۔" اس کے گلے میں کچھ اٹک سا گیا تھا۔
"کس بارے میں؟؟" اس نے پھر اپنے لہجے سے اجنبیت ظاہر کی۔
"وقت کے بارے میں۔۔" وہ رک رک کر بول رہی تھی۔۔ " اس وقت کے بارے میں جو ہم دونوں کے لیے بدترین تھا۔۔ میں جانتی ہوں تمہارا رویہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہے۔۔ میں نے غلط کیا تھا کیونکہ میں۔۔" اس کی بات ادھوری کر کے کبیر تیزی سے بولا۔
"کیونکہ تم مجبور تھی۔۔" اس کا انداز طنزیہ تھا۔۔ " بہت مجبور تھی۔۔ تمہارے بابا ایک سخت انسان تھے۔ انہیں سب معلوم ہو گیا تھا تو وہ تمہیں لے گئے اور تم آسانی سے چلی گئ۔ تم نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔۔ ٹھیک ہے تم نے کوشش کی لیکن ایک ہی بار میں تم نے ہار مان لی کیوں کہ تم ایک اچھی لڑکی تھی اور ہر اچھی لڑکی محبت کی قربانی دے دیتی ہے۔ تم نے بھی دے دی کیونکہ اچھی لڑکی صرف محبت کر سکتی ہے اسے ڈیفینڈ نہیں۔۔" وہ بولتا گیا اسے خود اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیوں بول رہا ہے جبکہ وہ اس موضوع پر اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ انابیہ حیرت سے اسے دیکھے گئ۔ وہ اسے طنز کا نشانہ بنا رہا تھا۔
"یو نو واٹ۔۔ اس اچھی لڑکی نے سب کے فائدے کے لیے سوچا سوائے میرے۔۔ اس نے سب کو آباد کر کے ایک نئ زندگی شروع کر لی لیکن اس نے مجھے برباد کر دیا۔ اور آج وہ اچھی لڑکی بہت خوش ہے۔۔"
"خوش؟؟" وہ بے ساختہ بول اٹھی۔۔ "میں خوش ہوں؟؟ خوشی کیا ہوتی ہے میں تو اس کے مفہوم سے بھی انجان ہوں۔۔" اس کی باتیں سن کر اس کا لہجہ رونے والا ہو گیا تھا۔ "تمہیں لگتا ہے وقت نے صرف تمہیں برباد کیا ہے تو میرا کیا؟؟ میں نے کیا کیا کھویا ہے تمہیں اندازہ ہے؟؟" وہ چیخنا چاہ رہی تھی مگر اس کی آواز رندھ سی گئ۔۔
"جسٹ شٹ اپ انابیہ۔۔۔" اس نے تیزی سے اس کی طرف گردن موڑتے ہوئے کرخت آواز میں کہا۔
" تمہارے ساتھ جو بھی ہوا ہے وہ سب میں نے نہیں کیا۔ مجھے بھی بہت افسوس ہے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شاید تم نے دکھ نہیں دیکھے۔۔ دیکھیں ہیں لیکن محبت کا دکھ کیا ہوتا ہے اس سے تم واقعی انجان ہو۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سختی سے بات کر رہا تھا۔ اس نے آخری بات بھی غلط کی تھی۔ محبت کی تکلیف کیا ہوتی ہے اس پر وہ پوری کتاب لکھ سکتی تھی۔
"تمہیں لگتا ہے میں تمہیں بھول گئ تھی؟؟ تو غلط لگتا ہے کیونکہ مجھے بھولنا نہیں آتا۔ میں نے کوشش کی تھی دوبارہ تم سے رابطہ کرنے کی مگر۔۔"
"بس کردو۔۔ مجھے کوئی جھوٹ نہیں سننا۔۔ تمہارا خواب پورا ہو گیا نا کبیر جہانگیر کو کس نے یاد رکھنا تھا۔۔" اس نے اسے جھڑکنے کے انداز میں کہا۔۔ انابیہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر آتش دان میں بھڑکتی آگ کو۔۔ دونوں میں سے زیادہ جلا دینے والا کون تھا۔۔ ایک ظاہری طور پر جلاتا ہے اور دوسرا جو اس کے دل کو لفظوں سے جلا رہا تھا۔۔ اور لفظ زیادہ جلانے والے ہوتے ہیں۔۔ آگ ہار گئ لفظ جیت گئے۔۔
وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف گھوما۔۔"کہاں تھی تم؟ کیوں ایک دفعہ بھی مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ کیوں تم نے مجھے اعتبار کے قابل نہیں سمجھا؟ کاش تم مجھ سے کبھی محبت نہ کرتی بس اعتبار کرتی۔۔ بس اعتبار۔۔" وہ دم بخود سی اسے دیکھے گئ۔ وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ کتنی بڑی غلط فہمی میں ماری گئ تھی اور اگر وہ اسے بتاتی کہ اس نے خود سے کیا کیا اندازے لگا لیے تھے تو شاید وہ اس کی شکل بھی نہ دیکھے۔
"میری بات غور سے سن لو۔۔ میں تم سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا نہ مجھ میں ہمت ہے۔ میں تم سے نہیں کہوں گا میں کتنا ٹوٹا کتنا نہیں۔ میں تم سے نہیں کہوں گا میں نے تمہیں کتنا یاد کیا کتنا نہیں۔ میں تم سے نہیں کہوں گا میں نے انتظار کیا یا نہیں۔ مجھے تم سے کتنی نفرت ہے کتنی نہیں میں تم سے نہیں کہوں گا۔ میں تم سے صرف ایک بات کروں گا۔۔" وہ قدم اٹھاتا بلکل اس کے سامنے آ کر اس کی بھیگی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔ وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ان دونوں کے درمیان بس ایک گول شیشے کا میز تھا۔۔
"کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ مجھ سے وضاحتیں مت مانگو میں نہیں دے سکتا۔۔" اس کے آخری جملے میں اس نے بہت تکلیف محسوس کی وہ کچھ بول ہی نہیں سکی بس خاموشی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ دوسری طرف گھوم گیا۔ ایک گہرا سانس بھر کر وہ جانے ہی لگا تھا پھر اس کی آواز پر رکا۔۔
"سب پہلے جیسا ہو تو سکتا ہے نا۔۔" وہ امید سے بھرے لہجے میں بولی۔
"چار سال۔۔بلکہ ساڑھے چار سال کتنے ہوتے ہیں شاید تمہیں اندازہ نہیں ہے۔۔ خیر وہ میرے لیے زیادہ ہی تھے۔۔ سب پہلے جیسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کبیر جہانگیر زندہ ہو اور وہ مر چکا تھا تبھی اس کی محبت بھی مر چکی تھی۔۔"
"لیکن میں تو زندہ ہوں اور میری محبت بھی زندہ ہے۔۔" وہ تیزی سے اس کے سامنے آئی۔۔ کبیر کی آنکھیں خشک تھیں یا شاید اس نے اپنے آپ پر ضبط کر رکھا تھا اس کے برعکس انابیہ کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔
"تو تمہیں یہ زندگی مبارک ہو۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں براہراست دیکھتے ہوئے بولا۔
" میں نے ہار ماننا چھوڑ دی ہے۔۔ مجھے اپنے راستے میں پڑے پتھر ہٹانا آگئے ہیں۔۔ میں سب سے لڑ سکتی ہوں کبیر ایک موقع تو دو پلیز۔۔۔" التجا منت درد تکلیف اس کی آواز میں سب تھا۔
"ہمارے درمیان اب صرف کام ہے۔۔ بہتر ہے اسے ہی رہنے دو۔۔ میں یہاں صرف ڈیڈ کی وجہ سے ہوں ورنہ میں جس دن آیا تھا اسی دن چلا جاتا۔۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے تھا انا کا سخت برا اور بلا کا ضدی انسان ہوں میں۔۔" دل کو چھلنی کرنے والے انداز سے کہتے ہی وہ رکا نہیں اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔۔ وہ کچھ دیر افسوس سے اس دروازے کو دیکھتی رہی جہاں سے وہ ابھی ابھی گیا تھا۔
"ٹھیک ہے میں بھی ہار نہیں مانوں گی دیکھتے ہیں تمہاری نفرت جیتتی ہے یا میری محبت۔۔۔" تنہا اس کمرے میں چیلنجنگ انداز سے کہتے ہی اس نے میز پر پڑا اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور وہاں سے نکل گئ۔۔
کبیر اپنے کمرے میں کھڑکی سے جھانک کر اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ تیزی سے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھی۔ بیگ زور سے ساتھ والی سیٹ پر پھینکا۔۔ گاڑی سٹارٹ کی اور اگلے ہی لمحے تیزی سے گیٹ سے گاڑی عبور کرتی وہاں سے چلی گئ۔۔ اس اندھیری رات میں وہ اکیلی آئی تھی اور اکیلی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ڈرائیور بھی نہیں تھا۔۔ اسے اس سے پوچھنا چاہئے تھا۔سر جھٹک کر وہ پردے کھینچتا ہوا اپنے بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔
"پتہ نہیں سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔" وہ ابھی راستے میں ہی تھی۔ اس تاریک آسمان کے نیچے اس کی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس سامنے سڑک پر پڑ رہی تھیں۔ وہ مسلسل ڈرائیو کرتے ہوئے خود سے ہی باتیں کیے جا رہی تھی۔
"چلو میں اپنی غلطی مانتی ہوں لیکن ایک چانس تو ڈیزرو کرتی ہی ہوں۔۔" یکدم اس کی گاڑی کے ٹائرز چرچرانے لگے اور ایک زوردار بریک سے گاڑی رک گئ۔۔ وہ ہکا بکا سی رکی ہوئی گاڑی کو دیکھتی گئ۔
"واٹ دا۔۔ اب اسے کیا ہو گیا؟؟" اس نے گاڑی بار بار سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن بےسود۔۔ گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔ یکدم پریشانی کے سائے اس کے چہرے پر لہرانے لگے۔
"یار اس ٹائم نہیں۔۔ یااللہ اب میں کیا کروں۔۔۔" وہ اسی طرح سر پکڑے بیٹھ گئ۔۔ پھر اس نے ساتھ سیٹ سے اپنے بیگ میں سے فون نکالا۔ فون آن نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یاد آیا اس کی بیٹری ڈیڈ تھی۔
"ڈیم اٹ یار۔۔" اکتا کر کہتے اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکلی پھر پیر پٹخ پٹخ کر گاڑی کی فرنٹ سائڈ پر آئی اور اس کا بونٹ کھول کر دیکھنے لگی اور بس مظلوم نظروں سے دیکھتی ہی رہی۔اتنے اندھیرے میں اسے کچھ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔ اب اسے گاڑیوں کی کوئی اتنی خاص سمجھ بھی نہیں تھی۔ وہ ایسی صورتحال کا شکار بھی پہلی دفعہ ہوئی تھی اور اسی دفعہ اس کا ڈرائیور اس کے ساتھ نہیں تھا۔۔اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ایک احساس کا خوف جو اسے جکڑے ہوئے تھا کہ وہ اس سڑک پر اس وقت تنہا کھڑی ہے۔۔وہ کچھ پل اسی طرح کھڑی رہی پھر اچانک ایک موٹر سائیکل اس کے پاس آکر رکی۔ اس نے سر اٹھا کر اس بائیک کو دیکھا جس پر دو آدمی سوار تھے۔ ان کے چہروں پر سیاہ ماسک تھے۔ وہ دونوں فوراً اتر کر اس کی طرف بڑھے۔۔ ان کو دیکھتے ہی اسے کچھ اچھی وائیبز نہیں آئی تھیں۔۔ کم از کم وہ اس کی مدد کے لیے تو بلکل نہیں آئے تھے۔
"کک۔۔ کون ہو تم لوگ؟؟" وہ ڈر کے مارے پیچھے ہوئی اور پھر تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھنے لگی اسے ڈیش بورڈ میں سے پسٹل نکالنا تھا لیکن اس ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر درشتی سے اس کا بازو پکڑ کر اسے کھینچا۔ اس نے فوراً چیخ ماری اور ساتھ ہی میں ایک زوردار مکا بھی اس لڑکے کے منہ پر مارا۔ اس نے بازو تو نہیں چھوڑا تھا بلکہ اب اس کا دوسرا بازو بھی پکڑ لیا تھا۔ اگلے ہی لمحے انابیہ کی دونوں کلائیاں اس حیوان کی گرفت میں تھیں ۔ خوف اور وحشت سے اس کی جان جا رہی تھی۔۔ اس نے پھرتی سے اپنی ہیل اس کے پائوں پر ماری تھی۔ وہ کراہتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہوا لیکن اس نے انابیہ کے بازوؤں کو نہیں چھوڑا۔
"کیا چاہتے ہو چھوڑو مجھے جانے دو۔۔۔" وہ کپکپائی ہوئی آواز سے ان کی منت کرنے لگی۔۔ لیکن وہ دونوں کچھ نہ بولے اور بس اس پر ہنستے گئے۔ انابیہ کی رنگت یکدم سفید پڑتی گئ اور وہ مسلسل ہنستے گئے۔
"خوف انابیہ خوف۔۔۔" جس لڑکے نے اس کے بازو پکڑے ہوئے تھے وہ ہنستے ہوئے آخر بول ہی پڑا تھا۔ انابیہ یک ٹک ششد سی اسے دیکھے گئ۔ وہ اب اسے کھینچ کر لے جا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کر چھڑانے کی بمشکل کوشش کرتی رہی چیختی رہی چلاتی رہی کیا کوئی تھا جو اس اندھیری رات میں اس کی مدد کرتا؟؟
ہاں تھا۔۔۔ اس نے دیکھا سیاہ کپڑوں سیاہ ہیلمٹ پہنے ایک شخص نے پوری قوت سے اس لڑکے کے سر پر ٹکر ماری۔ وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہوا۔ دوسرے لڑکے نے پیچھے سے اسے گردن سے پکڑا تو اس نے اس کا بازو پوری قوت سے مڑوڑ دیا۔ درد کے مارے وہ لڑکا کراہتے ہوئے زمین پر گر گیا۔ دوسرا لڑکا جو ٹکر مارنے کے باعث زمین پر گرا تھا اب اٹھ کر اس کے سامنے آیا تو اس نے زوردار مکا اس کے ماتھے پر مارا تھا۔۔ اگلے ہی لمحے اس کا ماتھا خون میں نہا گیا تھا۔فرہاد کے ہاتھوں میں دستانے تھے جن کے اوپر اس نے تقریباً ہر انگلی میں سٹیل کی انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں اور وہی سٹیل کی انگوٹھیاں اس کے سر میں کھب گئ تھیں۔۔انابیہ گاڑی کے ساتھ چپکی ہوئی کھڑی منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے فرہاد کو دیکھ رہی تھی جو اب پاگلوں کی طرح زمین پر گرے ہوئے ان دونوں لڑکوں کو لاتیں مار رہا تھا اور تب تک مارتا رہا جب تک ان کا منہ خون سے بھر نہیں گیا تھا۔ مارتے مارتے اس کی بند جیکٹ کے اندر سے ایک لاکٹ نکل کر اس کی گردن پر ادھر ادھر جھولنے لگا۔۔ انابیہ کی نظریں سیدھا اس کے جھولتے لاکٹ پر رکی جس پر کھوپڑی بنی تھی۔۔ وہ لاکٹ اس نے پہلے کہیں دیکھ رکھا تھا لیکن کہاں؟؟ وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اسی دوران ایک وین ان کے پاس آکر رکی۔ وین کا دروازہ کھلا جس میں سے تین آدمی نیچے اترے ۔ وہ اسی طرح دیوانہ وار ان کو مارتا رہا اور پھر رک گیا تھا۔ اب انابیہ نے دیکھا ان میں سے دو آدمی اب ان زخمی لڑکوں کو اٹھا کر اس وین میں ڈال رہے تھے اور تیسرا فرہاد کے اشارے پر اس کی گاڑی کے کھلے بونٹ کی طرف آیا۔۔ وہ فوراً آگے بڑھی۔۔
"یہ۔۔ یہ تم کہاں لے جا رہے ہو ان کو؟؟" وہ اب اس کے پاس جا کر چیخنے کے انداز میں پوچھنے لگی جو اب تک ہیلمٹ پہنے کھڑا تھا۔
"آپ گاڑی میں بیٹھیں۔۔" اس کا انداز تحکمانہ تھا۔ اس کی آواز تھکی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔۔وہ گہرے گہرے سانس بھر رہا تھا۔
"میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟ کیا کرو گے تم ان کے ساتھ؟" وہ درشتی سے فرہاد کا بازو پکڑ کر دھاری۔۔
"میں نے کہا جا کر گاڑی میں بیٹھیں۔۔" اب کی بار وہ بھی پوری قوت سے دھاڑا۔ اور اپنا بازو چھڑاتے پیچھے کھڑی اپنی سیاہ رنگ کی Ninja ZX-10R کی طرف بڑھ گیا۔۔ وین تو کب کی چلی گئ تھی اور اب وہ بھی اپنی بائیک کو اڑاتا ہوا اسی وین کے پیچھے نکل پڑا تھا۔
"میڈم آپ کی گاڑی ٹھیک ہو گئ ہے۔۔" ڈرائیونگ سیٹ کے کھلے دروازے میں سے وہاں رہ جانے والا کم عمر نوجوان جھانک کر بولا تو انابیہ نے اسے دیکھا۔
"تم لوگ کون ہو ہاں؟؟" وہ اب اس پر برسنے لگی تھی۔۔
"دیکھیں آپ بیٹھیں میں بتاتا ہوں۔۔" اس نے کہتے ساتھ دروازہ بند کر لیا تو انابیہ تیز تیز قدم لیتی پسنجر سیٹ پر جا بیٹھی۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور وہاں سے لے جانے لگا۔۔
"میں فرہاد کا دوست ہوں۔۔۔ آپ کو مجھ سے ڈرنے کی۔۔۔" اس نے اپنا آدھا جملہ منہ میں دبا لیا۔۔ ظاہر ہے اگر وہ اس سے ڈر رہی ہوتی تو اس کے ساتھ کیوں بیٹھتی۔
"میں فرہاد کو نوکری سے نکال چکی ہوں۔۔ وہ اب میرا گارڈ نہیں ہے۔۔" وہ اب بھی اسی طرح چیخ کر بول رہی تھی۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا۔
"ہاں لیکن یہاں معاملہ صرف نوکری کا نہیں ہے۔۔۔" اس نے پرسکون ہوتے ہوئے کہا تو انابیہ بس حیرت اور نا سمجھی سے اسے دیکھے گئ۔
"کیا مطلب ہے؟؟ کس چیز کا معاملہ ہے؟؟"
"یہ آپ اسی سے پوچھ لیجیے گا۔۔" رک کر اس نے انابیہ کی طرف گردن موڑی۔۔ "نمبر تو ہوگا نا آپ کے پاس؟؟" انابیہ دانت پر دانت جمائے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھے گئ اور بس سر جھٹک کر اب سامنے دیکھنے لگی۔
●●●●●●●●●●●●
صبح ہو گئ تھی اور وہ اب تک اپنے کمرے میں تھی۔ رات والے واقعے نے اسے ساری رات سونے نہیں دیا تھا اور اب بھی اسے لگ رہا تھا کہ وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے ہی ہے۔ اس نے رات کو ہی جہانگیر صاحب سے فرہاد کا نمبر لے لیا تھا اور اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ انہوں نے اسے جاب سے فارغ کروا دیا ہے۔ اس نے رات میں کئی دفعہ فرہاد کا نمبر ملانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کا نمبر ہر بار بند معلوم ہو رہا تھا۔ اب اس نے سوچ سمجھ کر فون پھر سے ہاتھ میں لیا۔ وہ اسے کال کر کے جاننا چاہتی تھی کہ وہ کیوں آخر یوں اس کے پیچھے پڑا ہے۔۔ رنگ جا رہی تھی اور کچھ ہی دیر میں کال اٹھا لی گئ۔۔
"اب شکریہ کہہ کر مجھے شرمندہ مت کیجئے گا انابیہ جی۔۔" اس کی خوشگوار سی آواز انابیہ کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ واقعی اس کی مشکور تھی۔ اگر وہ رات کو نہ آتا تو ناجانے کیا ہو جاتا۔
"اور یہ تمہاری خوش فہمی ہے جو میں تمہارا شکریہ ادا کروں گی۔۔" اس کا انداز ہی ایسا تھا کہ وہ ہنس دیا۔ وہ اس وقت رننگ ٹریک پر تھا اور اس کے کانوں میں ائیر پوڈز لگے تھے۔
"اب یہ تو غلط بات ہے۔۔ خیر اب یہ بتائیں یہ آج آپ نے ہمیں کال کر کے ہمارا نصیب کیسے بدل دیا۔۔" اس کی بات کرنے کا انداز ایسا تھا کہ انابیہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ مشکوک لگتا تھا ناجانے اس کے دل میں کیا تھا۔ وہ دل میں کیا خواہش لیے اپنی جان خطرے میں ڈالے ہوئے تھا۔
"تم اب میرے گارڈ نہیں ہو۔۔ کیا یہ بات ہر روز تمہیں بتانی پڑے گی۔۔ میرا پیچھا چھوڑ دو۔۔ اپنے لیے کسی اور جاب کا بندوبست کرو۔۔" وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سختی کا مظاہرہ کرنے لگی تھی۔
"میری جاب میرا ہیڈ ایکھ ہے اور میں ڈھونڈ بھی لوں گا۔۔ میں نے آپ کی جاب چھوڑ دی ہے۔۔" وہ جتنے غصے میں تھی فرہاد اتنا ہی پر سکون تھا۔
"تو تم رات کو میرے پیچھے کیوں تھے؟ تم اب بھی میرا پیچھا کرتے ہو ورنہ تمہیں کیا الہام ہونا تھا اس سب کا۔۔" وہ ضرورت سے زیادہ بھڑک رہی تھی۔
"کیونکہ میں نے جاب چھوڑی ہے مس ٹیولپ۔ محبت نہیں۔۔" اس کے اس جملے پر وہ بےساختہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔۔ اس کا شک صحیح تھا ورنہ کوئی بلاوجہ کسی کے لیے اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالتا۔۔ وہ کچھ پل خاموش رہی۔۔
"آپ سن رہی ہیں۔۔" کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولا۔۔ "اگر آپ کو میری بات بری لگی ہے تو ایم سوری مگر جو سچ تھا میں نے آپ کو بتا دیا۔۔" انابیہ نے گہرا سانس بھر کے آنکھیں بند کر لیں۔۔ اس نے اتنی بڑی بات اتنے آرام سے کہہ دی تھی۔
"تم غلط کر رہے ہو۔۔ سوری ٹو سے لیکن تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ اپنا وقت ضائع مت کرو پلیز۔۔ اپنے کام پر فوکس کرو۔۔ چند دنوں میں محبت نہیں ہو جاتی۔۔"
"چند دنوں؟؟" وہ تقریباً چیخ کر بےیقینی سے بولا تھا اور پھر ہلکا سا ہنس دیا۔۔ انابیہ کے چہرے پر پھر سے حیرت کا بسیرا تھا۔ "شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔۔ خیر کیسے پہچانیں گی محبت تو میں نے کی ہے آپ نے نہیں۔۔"
"کون ہو تم؟؟" اس نے پوچھا۔۔
"یاد ہے آپ ایک دفعہ میری بائیک سے ٹکرائی تھیں۔۔ آپ نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔۔ یاد ہے یا نہیں؟ نہیں بھی ہے تو کوئی بات نہیں۔۔ کہا نا محبت صرف میں نے کی ہے۔۔" وہ بولتا گیا اور وہ سنتی گئ۔ جھماکےسے اسے وہ لاکٹ یاد آیا تھا۔۔اور اسی لمحے اسے وہ دن یاد آیا تھا جب وہ پہلی دفعہ اس کی بائیک سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔۔
"اس دن میں بہت جلدی میں تھا۔۔ میں نے واپس آکر آپ کو بہت ڈھونڈا تھا۔۔ آپ نہیں ملی۔۔ لیکن دیکھیں اتنے سالوں بعد قدرت آپ کو میرے سامنے کیسے لائی ہے۔ ایم سوری مگر میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔۔۔" وہ مسکرا رہا تھا اور وہ تو بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔
"میں نے بہت انتظار کیا ہے آپ کا۔۔ میں جانتا ہوں آپ یقین نہیں کریں گی لیکن ایسا ہی ہے۔۔" وہ بلکل بت بنے بیٹھی رہی۔۔ پھر سے خاموشی چھا گئ۔ فرہاد نے کان سے فون ہٹا کر دیکھا کال جاری تھی۔۔
"آپ کو کچھ کہنا ہے تو کہیں۔۔" اب کی بار پھر سے خاموشی توڑنے میں پہل فرہاد نے کی تھی۔
"میں کسی سے محبت کرتی ہوں فرہاد۔۔" وہ چلتے چلتے رک گیا۔ قریب میں ایک بینچ تھا۔ وہ سست روی سے قدم اٹھاتا اس پر جا بیٹھا۔۔ " میں تمہارے ایموشنز کی قدر کرتی ہوں لیکن ایسے شخص کے پیچھے بھاگنا فضول ہے جو محبت کے بدلے آپ کو محبت نہ دے۔۔" فرہاد نے بینچ کی ٹیک پر سر گرا دیا۔
"چلیں کم از کم آپ کو میرے ایموشنز کی قدر تو ہے سن کر اچھا لگا۔۔" وہ گہرا سانس بھرتے ہوئے اب آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ انابیہ کو اس کے لہجے میں ایک ہار سی محسوس ہوئی تھی۔
"تم سمجھو۔۔ تمہارا صرف دل ٹوٹے گا۔۔ تمہیں اور کچھ نہیں ملے گا ساری کوششیں فضول ہیں۔۔ اپنی زندگی کا محور مجھے مت بنائو۔۔ تم خالی ہاتھ رہ جائو گے۔۔" وہ اسے مستقبل سے آشنا کروا رہی تھی۔۔ اسے اب اس پر کوئی غصہ نہیں تھا۔ وہ جتنی نرمی برت سکتی تھی اتنی ہی نرمی سے اسے سمجھا رہی تھی۔
"دل تو ٹوٹ بھی گیا۔۔کوئی بات نہیں ٹوٹے دلوں کی بھی یہی دنیا ہے۔۔ میں بھی رہ لوں گا۔۔میں نے آپ سے کب کہا کہ مجھے محبت کے بدلے محبت چاہیے۔۔ آپ کی پریشانی ختم کرنے کی وجہ میں ضرور بنوں گا لیکن آپ کے لیے پریشانی کا باعث ازخود نہیں بنوں گا۔۔ میں نے کہا نا محبت صرف میں نے کی ہے۔۔ سو ازالہ بھی میں ہی بھگتوں گا۔۔" اس کا لہجہ مغموم تھا۔ انابیہ نے تھک ہار کر گہرا سانس لیا۔۔ اسے سمجھانا فضول تھا۔۔ وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔۔
"ان لڑکوں کے ساتھ تم نے کیا کیا ہے؟؟" اس نے بات بدل دی۔
"کرنا تو بہت برا چاہیے۔۔ آپ بتائیں کیا کروں؟؟" وہ اس طرح بول رہا تھا جیسے ابھی انابیہ کہے گی کہ مار دو انہیں تو وہ ان کو زندہ جلا دے گا۔۔
"کچھ بھی نہیں۔۔ ان کو پولیس کے حوالے کر دو۔۔" اس نے جیسے مشورہ دیا تھا جواباً اسے طنزیہ ہنسی سنائی دی۔۔
"ٹھیک ہے۔۔" اس نے کہہ تو دیا تھا لیکن انابیہ کو یقین تھا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔۔ وہ وہی کرے گا جو اس کا دل کہے گا۔۔۔ سر جھٹک کر اس نے کال کاٹ دی۔ اسے تیار ہو کر آفس پہنچنا تھا۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
آج کی رات ٹھنڈ اپنے پورے عروج پر تھی اور ایسے میں اس کھلے ٹھنڈے اور تاریک آسمان کے نیچے دو وجود سر گرائے کرسیوں کے ساتھ رسیوں کی مدد سے بندھے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے جسم پر شرٹس نہیں تھیں اور وہ اسی طرح برہنہ حالت میں بیہوش پڑے تھے۔۔ دو لڑکے چلتے ہوئے ان کے قریب آئے ان دونوں کے ہاتھوں میں برف جیسے ٹھنڈے پانی کی بالٹیاں تھیں۔ دونوں نے آگے بڑھ کر ان بالٹیوں کا پانی ان بےسدھ پڑے وجودوں پر پھینک دیا۔ اس پانی کے پڑتے ہی وہ دونوں بمشکل سانس لیتے ہوئے ہوش میں آئے۔ اتنی ٹھنڈ میں برف جیسا پانی پڑتے ہی اب ان کا جسم بری طرح کانپنے لگا تھا۔ ان کے چہرے اور ہونٹ سفید پڑ رہے تھے۔۔ دانت بج رہے تھے اور چہرے کے زخم نیلے پڑ چکے تھے۔۔
"فرہاد سر۔۔ وہ ہوش میں آگئے ہیں۔۔" وو تھوڑا ہی آگے لکڑیوں پر جلتی ہوئی آگ کے سامنے بیٹھا مسلسل اس آگ کو دیکھے جا رہا تھا تبھی اس کے عقب میں سے آواز پر وہ سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اس کی گردن میں موٹا سا مفلر تھا جس سے اس نے آدھا چہرہ بھی ڈھانپ رکھا تھا اور وہ ایک موٹی جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ ان تک پہنچ کر اب وہ بغور آنکھیں چھوٹی کیے ان کے لرزتے ہونٹوں اور چہروں کو دیکھ رہا تھا۔۔
"ہم۔۔ بتاتے ہیں۔۔ سب بتاتے ہیں۔۔ بس ہمیں جانے۔۔ دو۔۔" ان میں سے ایک اس کو دیکھتے ہوئے بمشکل کپکپاتے ہوئے بولا۔۔ وہ فاتحانہ انداز سے گردن ایک طرف گرا کر مسکرا رہا تھا۔۔
"ہمیں۔۔ ہمیں جابر حسن۔ نے پیچھے لگایا تھا اس لڑکی کے۔۔ ہم نہیں جانتے۔۔۔ اس کی کیا دشمنی ہے۔۔ بس ہمیں ایک کام۔۔ کہا گیا ہم نے کیا۔۔۔۔" وہ بول بھی نہیں پا رہا تھا۔ فرہاد ایک قدم آگے آیا اور ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اوپر کرکے سرد نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔
"جابر حسن کون ہے؟؟" اس نے رعب دار آواز میں پوچھا۔۔
"ہم نہیں جانتے۔" فرہاد نے اس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑے پکڑے دبایا۔ وہاں پر زخم تھا جس کی وجہ سے اس کی چیخیں آسمان تک گئ تھیں۔ اب وہ ضرور بولے گا۔
"ہم نے بس اسے دو دفعہ کلب میں دیکھا تھا اس کے علاوہ کہیں بھی نہیں۔۔ اس نے ہمیں پیسے دیے تھے اس کام کے۔۔" اس نے اس کا چہرہ زور سے چھوڑا اور پیچھے ہوا۔ اس کے بعد وہ جو کچھ جانتا تھا سب بتاتا گیا۔۔
"ان کو چھوڑ دو۔۔ ہمارا کام ختم۔۔" وہ تیزی سے اپنے بندے کو حکم دیتے وہاں سے چلا گیا۔
●●●●●●●●●●●●●●
"تم نے خوامخواہ آپی کو کال کر کے پریشان کر دیا ہے۔ وہ آل ریڈی اتنی پریشان ہیں ۔" ردا کوریڈور کی سیڑھیوں پر بیٹھے مسلسل اپنے سر کو ہلکے ہلکے ہاتھ سے دبا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی دوست ارم بیٹھی تھی۔ دونوں نے یونیفارم پر ڈاکٹر والا سفید کوٹ پہن رکھا تھا۔
"تو تمہاری طبیعت بھی تو دیکھو کتنی خراب ہے اور کیا کرتی میں؟ کہہ تو رہی تھی میں چھوڑ دیتی ہوں تمہیں لیکن تم ہی ضد پر اڑی ہو کہ آپی منع کرتی ہے۔۔" ارم آگے ہو کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کررہی تھی۔ "تمھارا تو بخار اور بھی تیز ہو گیا ہے۔" وہ کچھ فکرمندی سے بولی۔
"ہوتا رہتا ہے یہ۔ میں خود ہی شام تک ٹھیک ہو جاتی۔ یار تمہیں کال ہی کرنی تھی تو عالیان کو کر دیتی آپی کو کیوں زحمت دی؟" وہ پھر سے اس کی طرف گردن موڑ کر شکایت کرتے ہوئے بولی۔
"وہ جو تمہیں لینے آتا ہے۔ دیکھو بھئ نہ میرے پاس اس کا نمبر ہے نہ میں نے کبھی اس کی شکل دیکھی ہے اب بھلا مجھے کیا پتہ۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی تو ردا سر جھٹک کر اب سامنے فٹ پاتھ پر دیکھنے لگی جہاں پر سفید کوٹ بازوؤں میں ڈالے سٹوڈنٹس آ جا رہے تھے تبھی ان سٹوڈنٹس کی بھیڑ میں ایک شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں یا شاید خوف سے۔ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا وہ اسی کی طرف آرہا تھا۔ سیاہ قمیص شلوار پہنے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر اسے اشارہ کرتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے ہوئے وہ اسی کی طرف آرہا تھا۔ یکدم وہ سب بھول گئ وہ کہاں تھی اسے کیا ہوا تھا اسے کچھ یاد نہ تھا نظریں صرف اس شخص پر مرکوز تھیں جو بھاگ گیا تھا اور اب دوبارہ سے اس کے سامنے آگیا تھا یوں اچانک وہ تو اس برے آسیب کو بھلا بیٹھی تھی لیکن نہیں اسے یاد رکھنا چاہیے تھا ظفر نامی آسیب اس کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا۔ ارم اس کی سفید پڑتی رنگت دیکھ کر کچھ دیر کے لیے ڈر سی گئ تھی۔
"ردا کیا موت کا فرشتہ آگیا ہے؟" اس نے اس کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو ردا نے بےساختہ سر ہاں میں ہلا دیا۔ "مگر تمہیں تو صرف بخار۔۔" اس کے لفظ منہ میں رہ گئے کیونکہ ردا کی نظروں کا سفر کرتے اس نے بھی ظفر کو آتا دیکھا۔ "یہ تو واقعی موت کا فرشتہ ہے اور یہ مجھے بھی دکھائی دے رہا ہے۔۔" اس نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ تبھی ردا کی نظر اس سے ہٹ کر اس کے ساتھ سے گزرتے شخص پر گئی جو اس کے کندھے سے ٹکرا کر اب اس سے معذرت کرتا ردا کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یکدم اس کے چہرے سے سفیدی غائب ہو گئ اور وہ بےساختہ مسکرا اٹھی۔ اس وقت جتنی خوشی اسے عالیان کو دیکھ کر ہوئی تھی اس سے زیادہ اسے کبھی نہیں ہوئی۔ اس وقت جتنا اچھا اسے عالیان لگا تھا اتنا پہلے کبھی نہیں لگا تھا۔ وہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے آرہا تھا ظفر کہیں دور اس کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ اسے لگا اس کی طرف آتی تلوار کے سامنے عالیان ایک ڈھال بن کر آگیا تھا۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی۔ اگلے ہی لمحے عالیان اس کے سامنے کھڑا تھا اور وہ کہیں اور تھی۔
"تم ٹھیک ہو ؟" وہ اس سے پوچھ رہا تھا لیکن وہ پھر سے سر جھٹک کر مسکرا دی۔ عالیان نے عجیب طریقے سے اسے دیکھا۔
"کہیں گر ور تو نہیں گئ؟ لگتا ہے دماغ پر گہری چوٹ آئی ہے۔" وہ اب کی بار اس کی دوست ارم سے مخاطب تھا جو خود اسے دیکھتے ہی کہیں کھوئی ہوئی تھی۔ ردا تو فوراً سے خود کو کمپوز کر گئ تھی مگر ارم!!
"جی نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں کوئی چوٹ نہیں لگی۔۔" وہ نارمل ہوتے ہوئے بولی عالیان نے سر جھٹک کر ارم سے نظریں ہٹا کر ردا کو دیکھا۔
"تو پھر لگتا ہے یہ ضرور گری ہوگی۔۔" اس نے ارم کی شکل دیکھتے ہوئے ردا سے کہا تو ردا نے ارم کے کندھے پر زور سے کندھا مارا۔
"موت کا فرشتہ۔۔ کہاں کہاں گیا؟؟" وہ فوراً سے ہوش میں آتے ہوئے بولی۔۔ " اوو۔ آئی ایم ارم۔۔ میں ردا کی دوست آپ سے مل کر اچھا لگا۔۔" وہ تیز تیز بولتی گئ ردا تو گہرا سانس بھر کر رہ گئ۔ "چھچھوری نہ ہو تو!!"
"مجھے تو اچھا نہیں لگا۔۔ اب مجھے بتائو گی میں میٹنگ چھوڑ کر آیا ہوں۔" وہ اب کی بار سنجیدہ تھا۔
"تو میں نے تو آپ کو نہیں کہا میٹنگ چھوڑ کر مجھے لینے آئیں۔۔" ردا اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کوفت سے بولی۔ عالیان نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا۔ کیا یہ وہی لڑکی ہے جو ابھی کچھ دیر پہلے اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی؟
"انابیہ نے تو کہا نا۔ وہ تو کہہ رہی تھی تمہاری طبیعت بہت خراب ہے تم تو ٹھیک لگ رہی ہو۔" کہتے ہوئے عالیان نے اس کا بخار چیک کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے چہرے کی طرف بڑھایا تو وہ فوراً سے اسے اگنور کرتی جھک کر اپنا بیگ اٹھانے لگی۔ ایک پل کے لیے وہیں ٹھہر گئ۔ واقعی اگر یہ شخص نہ آتا تو اس کی طبیعت مزید خراب ہو جاتی یا شاید وہ مر ہی جاتی۔ سر جھٹک کر وہ سیدھی ہوئی۔
"تم نے کبھی اپنے اس ڈیویلیشلی ہینڈسم کزن کے بارے میں بتایا نہیں۔۔" ارم اب تک اسی میں کھوئی ہوئی تھی۔ ردا نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسے گھورا۔۔
"کیوں یہ کوئی بابر اعظم ہے جو روز تمہیں اپ ڈیٹ کرتی رہوں؟" وہ نہایت کاٹ کھانے والے انداز میں بولی تو عالیان ہلکا سا مسکرا دیا۔ رہی بات ارم کی تو وہ اب کی بار ضرور سیدھی ہوئی تھی۔
"اب چلیں؟" وہ عالیان کی طرف متوجہ ہوئی۔ "اور ہاں گھر۔۔ مجھے گھر جانا ہے ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضد مت کیجیے گا۔ میں میڈیسن لے لوں گی اور تھوڑا سا آرام کر لوں گی تو ٹھیک ہو جائوں گی۔" وہ تنبیہی انداز سے کہتی اب آگے بڑھ گئ تھی۔ چلتے چلتے کچھ میٹر دور سینے پر ہاتھ باندھے ظفر کو دیکھتے ہی اس کے قدم پھر رکے۔ پھر تیزی سے عالیان کی طرف گھومی اور اس کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔
"کیوں صدمے میں چلے گئے ہیں؟ ساتھ ساتھ چلیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔" اس کے چہرے پر کسی چیز کا خوف تو تھا اور یہ تو عالیان کو کنفرم ہو گیا تھا کیونکہ وہ ایسے بیہیو نہیں کرتی اور کم از کم اس سے تو بہت فاصلے پر رہتی تھی۔ بجائے اپنی توجہ اس پر مرکوز کرنے کے وہ عقابی نظروں سے آس پاس دیکھنے لگا۔ ظفر فوراً دوسری طرف گھوم گیا۔
"چلتے ہیں۔۔" وہ مختصراً کہتے آس پاس نظریں گھماتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ ردا اس کے ساتھ ساتھ کسی چھوٹی بچی کی طرح چلتی جا رہی تھی۔ ایک ڈرتی سہمتی نظر سے اس نے پھر ظفر کو دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہا تھا اور ظفر کے دیکھتے ہی دیکھتے ردا اس لڑکے کے ساتھ وہاں سے چلی گئ۔
●●●●●●●●●●●●●●●
وہ اپنے آفس سے نکل کر سیدھا لابی میں آئی تھی۔ وانیہ بھی اس وقت اس کے ساتھ تھی۔ تبھی اس نے دیکھا لابی کے عین درمیان میں کبیر کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں موٹی جلد والی کوئی فائل تھی یا کتاب۔۔جو بھی تھا دور سے اس کے لیے پہچاننا مشکل تھا۔ اس کے ساتھ ماجد بھی تھا۔ وہ دونوں آپس میں کوئی سیریس ڈسکشن کر رہے تھے۔ وہ بار بار نظریں اٹھا کر لابی کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔ نظریں ہنوز سامنے رکھتے ہوئے وہ وانیہ کی طرف تھوڑا جھکی۔
"یہ دونوں آپس میں کیا ڈسکشن کر رہے ہیں؟؟" اس نے وانیہ سے پوچھا۔
"آپ کو نہیں پتہ۔۔" وانیہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو انابیہ نے ناسمجھی میں سر نہ میں ہلایا۔۔ “کمال ہے کوئی کوآرڈینیشن ہی نہیں ہے۔۔" اس نے افسوس سے کہا تو انابیہ نے گھور کر اسے دیکھا۔۔
"بکو مت۔۔ جو پوچھا ہے وہ بتائو۔۔" اس نے غصے سے اسے جھڑکا۔۔
"سر اس بلڈنگ کا انٹیرئیر ڈیزائن چینج کرنا چاہتے ہیں خاص کر لابی کا۔۔" اس نے بتایا تو انابیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ تو کبیر جہانگیر نے اس پر ماجد علی کو فوقیت دی اور ڈسکشن اس سے کی جا رہی ہے۔ اس کے تن بدن میں تو جیسے آگ لگ کر رہ گئ۔۔ کبیر نے دوبارہ نظریں اٹھائیں تو اب کی بار اس کی نظر انابیہ سے ملی جو سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ غلط وہ اسے گھور رہی تھی۔ اس نے اگنور کر کے پھر سامنے پڑے صوفوں کو دیکھا۔ اب وہ ماجد کو صوفوں کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا۔ بات کرتے کرتے اس نے پھر انابیہ کو دیکھا وہ سابقہ حالت میں ہی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے نظریں پھر سے ہٹائی۔ فائل بند کی اور ماجد کو تھمائی اور وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔ کبیر اب قدم اٹھاتا انابیہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔
"از دئیر اینی پرابلم؟؟" اس نے انابیہ سے پوچھا۔۔ وانیہ اب وہاں نہیں تھی۔۔وہ کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ "مجھے گھورنے کے علاوہ کوئی اور کام بھی کر لیا کرو۔۔" اسے لگا وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے ظاہر ہے اس کی بات ہی ایسی تھی۔۔
" دیکھو تو زرا یہ کون بول رہا ہے جس نے خود مجھے گھورنا سکھایا ہے۔۔ایکسکیوز می! میں کوئ عام لڑکی نہیں ہوں جو ایسے انسلٹ کر رہے ہو بڑے کام ہیں مجھے۔۔" انابیہ نے ٹھوڑی اٹھا کر تھوڑا اترا کر کہا۔
"یہی تو کہہ رہا ہوں تم عام لڑکی نہیں ہو اس لیے ان کی طرح بیحیو بھی مت کرو۔۔ آفس میں اور بھی لوگ ہیں وہ نوٹس کرتے ہیں برا امپریشن پڑتا ہے ۔۔" اس کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ تھے۔۔
"تمہیں کب سے لوگوں کی پرواہ ہونے لگی؟؟" وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے تفتیشی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
"جب سے محبت ختم ہوئ ہے۔۔" کبیر نے نظروں کا زاویہ بدلتے ہوئے سرگوشی نما انداز میں کہا۔۔
"محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔" وہ اسے دیکھتے ہوئے تیزی سے بولی۔۔
" میری تو ہوئ ہے۔" وہ کندھے اچکا گیا۔۔
"پھر وہ محبت نہیں ہوگی۔۔" اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔ کبیر نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔
"ان آنکھوں نے ہمیشہ مجھے نرمی اور محبت سے دیکھا ہے ان کی اس طرح سختی کی عادی نہیں ہوں۔۔" وہ دو ٹوک لہجے میں بولی تو کبیر کی نظریں یکدم سیدھی ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا اسے اپنے عقب سے ایک شخص کی آواز آئ۔۔
"یار انابیہ۔ مجھے تمہارا سٹاف بلکل بھی پسند نہیں ہے۔۔" وہ انتہائی ناگواری سے انابیہ کو دیکھ کر شکایت کررہا تھا۔۔ تبھی وہ اس کی طرف گھوما۔ کچھ ثانیے کے لیے سیاہ اور شہد رنگ آنکھیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔۔
"کیوں پھر کوئی معصوم تم سے ٹکرا گیا ہے۔۔ بائے دا وے پہلے سے بتا دوں اب کی بار بھی کوئی کافی یا چائے تم پر نہیں گری۔۔" وہ بغیر کسی سلام دعا اور تعارف کے ڈائریکٹ اس سے کہنے لگا۔۔ عالیان بجائے اسے کچھ کہنے کے ہنس رہا تھا۔۔۔ انابیہ باری باری دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"اوو تو تمہیں میں یاد ہوں۔۔ مجھے لگا ہم جیسے بدتمیز لوگوں کو یاد رکھنا تمہارے شان کے خلاف ہوگا۔۔ خیر ویلکم ٹو کراچی۔۔۔" اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔ کبیر نے مسکراتے ہوئے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما تھا۔
"یقین کرو تم سے دوبارہ مل کر بھی مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔۔۔" کبیر مسکراتے ہوئے اس سے گویا ہوا۔
"ہاں تم تو جیسے سیلینہ گومیز ہو نا جس سے دوبارہ مل کر مجھے تو بڑی خوشی ہوئی ہوگی۔۔ ہینا۔۔" وہ بھی طنزیہ انداز سے بولا تھا۔
"تم دونوں کو اگر لڑنا ہے تو پلیز یہ جگہ لڑنے کے لیے نہیں ہے۔۔" انابیہ کو ان کے بات کرنے کے انداز سے کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا اس لیے فوراً سے بیچ میں بولی۔
"ہم لڑ تو نہیں رہے انابیہ۔۔" عالیان جیسے شکایت کر رہا تھا۔
"مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تمہارا کبھی نہ ہونے والا منگیتر یہ شخص ہو سکتا تھا۔۔ خیر آئی ہوپ تم بچ گئ ہوگی۔۔" کبیر کی اس بات پر انابیہ نے تنبیہی نظروں سے اسے گھورا۔
"یہ میرا کزن بھی ہے۔۔" وہ جیسے اسے یاد دلاتے ہوئے بولی۔
"دوست بھی۔۔" عالیان نے فوراً ایک اور رشتے کا اضافہ کیا تھا۔ کبیر نے آنکھیں چھوٹی کیے عالیان کو دیکھا۔۔
"مجھے کیا یہ تمہارا جو بھی ہے بس مجھے پسند نہیں ہے۔۔" کبیر نے سپاٹ سے لہجے میں کہا تو عالیان ہونٹ گول کر کے اسے سر تا پیر دیکھنے لگا۔۔ " میں تمہیں یہاں آنے سے روک تو نہیں سکتا آفٹر آل تمہاری کزن۔۔"
"دوست بھی۔۔" عالیان تیزی سے اس کا جملہ کاٹتے ہوئے بولا۔
"واٹ ایور۔۔ مجھے میرے آس پاس نظر نہ آنا اور۔۔" بولتے بولتے اس نے ایک نظر انابیہ کو دیکھا جو نا سمجھی سے اسے دیکھے گئ۔
"میرا کزن ہے یہ کبیر۔۔" پھر جیسے سمجھ کر دانت پر دانت جمائے وہ دبی دبی آواز میں غرائی۔۔ عالیان پھر سے کھنکارا۔ "دوست بھی۔۔"
لیکن کبیر اس کی طرف متوجہ نہیں تھا نظریں اب بھی انابیہ پر تھیں۔۔ "میں نے تو کچھ نہیں بولا۔۔" کہتے ساتھ وہ تیز قدم لیتے وہاں سے چلا گیا۔ عالیان اس کی پشت کو دیکھتا رہا اور پھر گردن انابیہ کی طرف گھمائی۔۔
"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ کم از کم تمہاری چوائس اتنی بری نہیں ہونی چاہئے تھی یار۔۔ حد ہے۔۔" سر نفی میں ہلاتا اب وہ اب جہانگیر صاحب کے آفس کی طرف چل دیا۔۔ انابیہ بت بنے وہیں کھڑی رہی۔۔
"ہونہہ اکھڑ مزاج کہیں کے۔۔ میں کون ہوں کیا ہوں؟؟ سمجھ کیا رکھا ہے دونوں نے۔۔" اس نے آس پاس نظریں گھماتے ہوئے کہا اور اندر کی جانب چل دی۔
●●●●●●●●●●●●●●
آج کے دن موسم ابر آلود تھا۔ وہ لونگ روم میں صوفے پر ٹانگیں اوپر کیے ہاتھوں میں آئی پیڈ لیے بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے سکرین پر بلڈنگ کا ڈیزائن کھلا تھا وہ مکمل طور پر اس میں غرق تھی۔پچھلے ایک گھنٹے سے وہ اسی کام میں مصروف تھی۔ دفعتاً اس نے گردن اپنے بائیں جانب اٹھائی۔ بند سلائڈنگ ڈور کے شیشوں سے باہر کا منظر واضح تھا۔ وہ لان میں بیٹھے ناصر اور مناہل کو دیکھ سکتی تھی جو کہ اس وقت باہر بیٹھے شطرنج کھیل رہے تھے۔ دونوں کے چہروں پر اتنی خوشی اور اطمینان دیکھ کر بےساختہ وہ بھی مسکرا دی۔ اسی دوران کمرے میں کوئی اور داخل ہوا۔ اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ردا فلوفی کو گود میں اٹھائے اس کے بائیں جانب صوفے پر آ بیٹھی۔
"ارے واہ۔۔ آخر تم دونوں کی دوستی ہو ہی گئ۔۔ " اس نے تھوڑا چھیڑنے والے انداز میں کہا۔ آئی پیڈ اب بھی اس کے ہاتھوں میں تھا۔ ردا نے اس کی آواز پر سر اٹھا کر اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی۔
"ہاں ہو گئی دوستی اور کافی عرصہ ہو گیا ہے اس دوستی کو۔۔ یہ بڑے ہو کر اتنی پیاری ہو گئ ہے کہ میں کیا بتائوں۔۔" اس نے بڑی نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔۔
"ہمم۔۔۔ آج شہناز نہیں آئی؟؟" دن چڑھے اب کافی دیر ہو گئی تھی اس نے سارا دن شہناز کو نہیں دیکھا تھا اسی لیے اس سے پوچھنے لگی۔
"وہ گائوں گئ ہے اس کی بڑی بہن شادی کے کافی عرصے بعد گائوں آئی ہے اس لیے وہ محترمہ تو چلی گئ اب سارے کام مجھے دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔ ابھی کھانا بھی بنایا ہے قسمے میں تو تھک گئ ہوں۔۔" اس نے گہرا سانس بھرتے اکتا کر کہا تھا۔
"مناہل کو بول دیا کرو نہیں تو مجھے کہہ دیتی ویسے بھی آج گھر پر تھی۔ فائدہ اٹھا لیا کرو۔ اب دیکھو میں بور ہو رہی تھی سوچا دونوں ایک گیم کھیلیں گے لیکن تم تو تھکی ہوئی ہو۔" اس نے معصومیت لیکن افسوس سے کہا تو ردا نے بلی سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔۔
"ارے نہیں نہیں اتنی بھی نہیں تھکی آپ بتائیں کیا کھیلنا ہے؟"
"ٹرتھ اینڈ ڈئیر۔۔" اس کے پوچھتے ہی انابیہ فوراً سے بولی۔۔ آئی پیڈ بند کر کے اپنے ساتھ ہی صوفے پر رکھا اور مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔ ردا نے کچھ تفتیشی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"ٹھیک ہے کھیل لیتے ہیں۔۔" اس نے ہاں میں ہاں ملائی۔ فلوفی مزے سے اس کی گود میں سو رہی تھی۔۔
"پہلی باری تمہاری بتائو۔۔ ٹرتھ یا ڈئیر؟؟" اس نے موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا وہ جانتی تھی ردا کبھی بھی ڈئیر نہیں لے گی اور فلحال تو بلکل بھی نہیں لے گی۔۔
"ٹرتھ۔۔" ردا نے تھوڑا سوچنے کے بعد بولا تھا۔۔ ظاہر ہے وہ بہت تھکی ہوئی تھی تو فلحال انابیہ کے ڈئیر کے لیے تیار نہیں تھی۔
"ہاں تو ردا۔۔ تم ٹرتھ کے معنی سے تو اچھی طرح واقف ہو گی نا۔۔ ٹرتھ مطلب سچ۔۔" اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بغور اسے دیکھا۔۔ ردا نے عجیب طرح سے اسے دیکھا تھا کہیں اس نے غلطی تو نہیں کر دی تھی۔۔
"تو بتائو۔۔ کیا چیز ہے جس نے میری بہن کو پریشان کر رکھا ہے۔۔ یو جسٹ ہیو ٹو ٹیل دا ٹرتھ۔۔" اس کا انداز تنبیہی تھا۔ ردا کو خود پر بہت افسوس ہوا وہ کیوں نہیں سمجھ سکی کہ بیٹھے بٹھائے اس کی بہن کو گیم کا خیال کیوں آگیا۔۔ "ٹو ہیل ود دا ٹرتھ۔۔" اس نے دل ہی دل میں سوچا۔۔
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میں نے بھلا کیوں پریشان ہونا ہے بس کہا نا تھکی ہوئی ہوں۔۔" اس نے سفاکی سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔۔
"ایسا صرف مجھے محسوس ہوتا تو شاید میں مان بھی لیتی لیکن عالیان کا بھی یہی کہنا ہے۔۔ دیکھو اب تم مجھے بتا دو پہلے بھی ہم سے سب چھپانے کا انجام تم نے دیکھا تھا نا۔۔ کم از کم وہی غلطی پھر سے مت دہرانا اب شاباش بتائو مجھے وجہ بتائو۔۔"
"میں بتاتا ہوں وجہ۔۔" اس سے پہلے ردا پھر کوئی بہانہ بناتی عالیان اندر آتے ہوئے اونچی آواز میں بولا۔۔ دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ فلوفی جھٹ سے اس کی گود سے اٹھی اور عالیان کے اردگرد گھومنے لگی۔۔ اس نے جھک کر بلی کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا اور چل کر انابیہ کے دائیں طرف پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔
"وجہ ظفر ہے۔۔" اس نے بلی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے ردا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ “اور افسوس کی بات ہے کہ بجائے تمہارے یہ سب مجھے کسی اور سے پتہ چل رہا ہے۔۔" اس کا لہجہ سخت تھا۔ انابیہ نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے ردا کو دیکھا۔
"لیکن چھوڑو لعنت بھیجو مجھ پر۔۔ کم از کم اپنی بہن کو تو بتانا تھا نا۔۔" وہ اب ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مسلنے گی تھی۔ وہ بلکل خاموش تھی اور ان دونوں کو اس کی خاموشی بری طرح چبھ رہی تھی۔۔
"حیرت کی بات تو یہ ہے وہ واپس آیا کیسے؟ آئی مین اس پر تو ڈاکٹر صاحب کے بیٹے کے قتل کا کیس تھا اور وہ ویسے آزاد پھر رہا ہے۔۔" انابیہ نے چونک کر اس سے پوچھا۔
"مجھے کیا معلوم۔۔ یہ سب بھی اسی کو پتہ ہوگا۔۔" عالیان نے سخت نظروں سے ردا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ گھبرا کر اسے دیکھنے لگی۔
"قسم لے لیں میں نے تو خود کل اس کو دیکھا تھا مجھے کیا معلوم؟ میں نے تو فون بھی بند کر رکھا ہے جب سے اسے دیکھا ہے۔۔" وہ ہڑبڑا کر عالیان کو دیکھتے ہوئے بولی جس کے تاثرات اب بھی سختی لیے ہوئے تھے جیسے اسے اب بھی ردا کی بات کا یقین نہ ہو۔
"ڈاکٹر سلیم کا ایڈریس پتہ ہے تمہیں؟؟" عالیان نے اس سے پوچھا۔۔ اور اس کے اس سوال پر ردا نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔۔
"بس اسی لیے کچھ نہیں بتا رہی تھی میں آپ لوگوں کو۔۔ اپنے آپ کو اس معاملے سے دور رکھیں یہ میرا مسئلہ ہے میں خود دیکھ لوں گی۔۔" اس کے چہرے کے گھبرائے ہوئے تاثرات یکدم ہی سخت تاثرات میں بدل گئے تھے۔ عالیان نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
"مجھے ان کا ایڈریس چاہیے ردا میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایسا کیا کیا ان لوگوں نے ڈاکٹر سلیم کے ساتھ جو وہ ایسے آزادی سے گھوم رہا ہے۔۔" اس نے فلوفی کو آرام سے اپنی گود سے نیچے اتارا تو وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئ۔۔
"میں آپ کو پھر سے وارن کر رہی ہوں میں نے کہا یہ میرا مسئلہ ہے۔۔" وہ تن فن کرتی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ "میں خود دیکھ لوں گی میں سنبھال لوں گی سب۔۔"
"بس کر دو ردا۔۔کیا ٹھیک کر لو گی تم؟؟ ویسے جیسے پہلے کیا تھا خود کو مصیبت میں پھنسا کر؟؟" غصے میں بھی وہ اب بلکل اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ انابیہ نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھا تو گھبرا سی گئ۔
"ریلیکس یار کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟؟" وہ ان کے درمیان میں دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔
"مجھے ریلیکس کروانے کی بجائے اسے سمجھائو انابیہ۔۔ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے جتنا اسے لگ رہا ہے۔۔ اگر اس دن میں وہاں نہ جاتا تو کیا ہوتا اس کے ساتھ اسے کچھ اندازہ ہے یہ پھر سے وہی غلطی دہرا رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اگلی بار مجھے تم پر احسان کرنے کا شرف بھی نصیب نہ ہو۔۔۔" اس کی آواز اس بار کافی اونچی تھی اور قہر برساتی نظریں ہنوز ردا کے چہرے پر۔
"کیا ہو جاتا زیادہ سے زیادہ۔۔ کچھ بھی ہونے سے پہلے یا تو میں اسے ختم کر دیتی یا خود کو۔۔۔ مائینڈ یو میں نے اپنی مدد خود کی تھی۔ کوئی احسان نہیں کیا آپ نے وہاں آکر اور اگر کیا بھی ہے تو بھاڑ میں گیا احسان ردا کسی کا احسان نہیں مانتی۔۔۔" وہ بھی ردا تھی آگ کے شعلوں کی طرح بھڑک رہی تھی۔
"یار چپ ہو جائو دونوں۔۔ کیا ہو گیا ہے؟" انابیہ پھر سے ان کی منت کرتے ہوئے بولی۔۔
"تمہیں نہیں بتانا ایڈریس نہ بتائو۔۔ میں خود ڈھونڈ لوں گا ان کا گھر۔۔ لیکن اب میں جہانزیب یا اس کے بیٹے کو تم لوگوں کے قریب بھٹکنے تک نہیں دوں گا۔۔ اپنا بچا کچا خاندان اب تباہ نہیں کرنے دوں گا۔۔" وہ غصے سے دھاڑتے ہوئے چیلنجنگ انداز میں کہتا وہاں سے چلا گیا۔ ردا بلکل شل سی کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی۔ انابیہ سر پر ہاتھ رکھے دوسری طرف گھومی۔۔
"آپی انہیں روکیں۔۔" وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی۔ انابیہ نے مڑ کر اسے حیرت سے دیکھا۔۔ "پلیز آپی ان سے کہیں وہ آپ کی سنتے ہیں۔۔ میں اپنی وجہ سے ان کو نقصان ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔۔ وہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔۔" اسے پتہ بھی نہ چلا کب اس کے آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔ انابیہ نے فوراً آگے بڑھ کر اسے بازوؤں سے پکڑا اور صوفے پر بٹھایا۔۔
"کچھ نہیں ہوگا تم بے فکر رہو۔۔ میں بات کروں گی اس سے۔۔" اس نے اس کے چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوئے تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔ لیکن کوئی بھی تسلی اس کے لیے کافی نہیں تھی وہ جانتی تھی کہ عالیان اپنی بات کا پکا ہے۔
●●●●●●●●●●●●●●
وہ اس وقت اپنے اردگرد شال کو لپیٹے مرکزی دروازے میں کھڑی باہر تھر تھر برستی ہوئی بارش کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس کا دماغ اب تک عالیان کی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ تبھی گیٹ کھلا اور ایک گاڑی اندر داخل ہوئی جس کی ہیڈ لائیٹس آن تھیں اور وہ سیدھا پورچ کی طرف بڑھ گئ۔۔ پھر اس نے گاڑی سے عالیان کو نکلتے دیکھا جو اب بھاگتے ہوئے مرکزی دروازے تک آیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور پھر عالیان اندر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ وہیں کھڑی رہی۔۔ وہ سیدھا کچن میں آیا تھا۔ اس ٹھنڈ میں اسے کافی کی طلب ہو رہی تھی سو وہ اپنے لیے کافی بنانے لگا۔۔ اس مکمل خاموشی میں صرف اس کے کپ میں چلتی چمچ کی آواز تھی۔۔ تبھی ایک اور آواز کا اضافہ ہوا۔۔
"ڈاکٹر سلیم کو فوت ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔۔" اسے اپنے عقب میں سے ردا کی آواز آئی تھی لیکن جو جملہ اس نے سنا تھا وہ کچھ پل کے لیے اسے ساکت کر گیا تھا۔۔ اس نے کپ سلیب پر رکھا اور اس کی طرف گھوما۔ وہ کاونٹر کے پاس پڑے سٹول پر بیٹھی تھی اور وہ وہیں سلیب پڑ ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گیا۔۔
"تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟؟ اس کے انداز میں شکوہ تھا۔۔
"میں ڈر گئ ہوں بہت۔۔" اس کا انداز شکست خوردہ تھا۔ عالیان نے گہرا سانس بھر کر نظریں جھکا لیں۔۔
"مجھے بہت کچھ ایسا معلوم ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔۔" وہ کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی تھی۔ عالیان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی اور وہ سب جاننا چاہتا تھا۔۔
وہ اس وقت لیب میں موجود تھی۔ ڈاکٹر شمائلہ انہیں سرجری سے متعلق کچھ ضروری ہدایات دیے جا رہی تھیں۔ وہ بغور انکا لیکچر سن رہی تھی۔
"باہر ایک لڑکی تم سے ملنے آئی ہے۔۔" ارم تھوڑا اس کی طرف جھک کر بولی۔ وہ پہلے کچھ سوچوں میں پڑ گئ اور لیکچر سے اس کا دھیان بلکل ہٹ کر اب اس لڑکی طرف ہو گیا تھا جو باہر اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ لیکچر ختم ہوا اور وہ فوراً اٹھ کر باہر کی طرف چل دی۔ سامنے ہی ویٹنگ ایریا میں اسے ایک لڑکی بیٹھی دکھائی دی۔ وہ کچھ دیر کھڑے ہو کر اس لڑکی کو سر تا پیر دیکھے گئ۔ وہ مکمل پردے میں تھی۔۔سیاہ برقعے پر سیاہ نقاب پہنے جس سے بمشکل اس کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں وہ مکمل طور پر نظریں جھکائے خاموش سی بیٹھی تھی۔
"آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتی ہیں؟؟" وہ اس کے پاس جا کر پوچھنے لگی۔ اس لڑکی نے فوراً نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
"تم ردا ہو نا۔۔" وہ اس سے کھڑے ہو کر پوچھنے لگی جس پر ردا نے سر اثبات میں ہلایا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنے چہرے پر سے پلو ہٹا کر سر پر پھینک دیا۔ ردا نے بغور اس کا چہرہ دیکھا وہ عمارہ کی ٹٹو کاپی تھی۔
"مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔۔" وہ اسی طرح اس سے درخواست کرنے لگی تو ردا نے اسے وہیں قطار سے لگی کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا۔۔
"میں تم سے جو بھی کہوں۔۔ وہ بس ہمارے درمیان میں رہے۔۔" وہ نہایت سرگوشی نما انداز میں بول رہی تھی۔۔ وہاں آس پاس اور کوئی نہیں تھا۔۔ اس لیے اسے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
"میں عمارہ کی بہن اور ڈاکٹر سلیم کی بڑی بیٹی انعم ہوں۔۔ مرحوم ڈاکٹر سلیم کی۔۔" لفظ مرحوم سنتے ہی ردا ساکت رہ گئ۔ اس نے تیزی سے بےیقینی کی حالت میں اپنے ہاتھ چھڑائے۔۔
"وہ ۔ مر۔۔ گئے؟؟" وہ بس اس کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔ جس پر انعم کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔۔ وہ یہ تو جانتی تھی کہ ڈاکٹر کافی ٹائم پہلے یہ شہر چھوڑ کر جا چکے تھے لیکن ان کی موت کی خبر سے انجان تھی۔۔
"میرے بھائی اور میرے بابا دونوں کی موت کی ذمہ دار صرف میں ہوں۔ صرف میں۔۔" وہ لڑکھڑائی آواز میں بولتی گئ۔۔ ردا بس اسے سنتی گئ۔۔
"ظفر تمہارے پیچھے پڑا ہے نا۔۔" اس نے پوچھا تو کافی دیر کے بعد اب ردا نے پلکیں جھپکی تھیں۔۔ " وہ میرے پیچھے بھی پڑا تھا۔۔ کاش یہ کہتے ہی مجھے موت آجائے کہ وہ میرا ایکس بوائے فرینڈ تھا۔۔ اس نے مجھے اپنی محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔۔ بس یہی بات میرے بھائی کو پتہ چلی تو ان میں ہاتھا پائی ہو گئ تھی اور اس نے میرے بھائی کو مار دیا۔۔" وہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی اور ردا بس حیرت سے اسے دیکھے گئ۔۔
"وہ تمہیں بھی تباہ کر دے گا۔ اس کی باتوں میں مت آنا۔۔" ردا نے دیکھا تھا اس کے ہاتھ لرزنے لگے تھے اور انہیں لرزتے ہاتھوں سے اس نے پھر ردا کے ہاتھوں کو تھاما تھا۔۔
"وہ مجھے کیا تباہ کرے گا اس کا باپ ہمیں کب کا تباہ کر چکا ہے۔۔ مجھے اس سے نفرت ہے آپ بےفکر رہیں۔۔ میں آپ کی طرح بےوقوف نہیں ہوں۔۔" اپنے آخری جملے پر وہ خود بھی شرمندہ ہوئی تھی۔۔ "ڈاکٹر سلیم نے تو اس پر کیس کیا تھا۔۔ اس کا کیا بنا؟؟" سر جھٹک کر اس نے اس سے سوال کیا۔
"بابا کا اس سوسائٹی میں بہت نام تھا۔۔انہوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی مگر اس کے باپ نے اسے کہیں باہر بھجوا دیا تھا۔۔انہوں نے ہمیں ہر طرح سے ٹارچر کیا کہ ہم کیس واپس لے لیں لیکن بابا نے ہار نہیں مانی۔۔ پولیس نے ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعاون بھی نہیں کیا تھا کیونکہ ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتے تھےاور جب ہم مسلسل دو سال ان کے مظالم سے تنگ آگئے تو ہم نے شہر چھوڑ دیا۔۔"
"دوسرے شہر میں ہمارا کوئی بھی نہیں تھا بس میں بابا مماں اور عمارہ تھے۔۔ وہاں بابا کی طبیعت خراب ہو جانے کی وجہ سے ایک دن اچانک وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔۔ اور اب میں اپنوں کا بدلہ لینا چاہتی ہوں لیکن میں تنہا ہوں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔" اس کی حالت شکست خوردہ تھی۔۔
"ظفر تو کب کا آگیا ہوتا لیکن مجھے اپنی ایک دوست سے پتہ چلا کہ کینیڈا میں اس کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ پچھلے دو سالوں سے قومہ میں رہا ہے لیکن اب وہ بلکل ٹھیک ہے اور کبھی بھی واپس آسکتا ہے۔۔" ردا نے پہلو بدلا تھا ۔ اس کے چہرے پر ظفر کے نام سے خوف چھا جاتا تھا۔
"میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟؟" ردا نے سوالیہ نظروں سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ بجائے جواب دینے کے وہ اپنا بیگ ٹٹولنے لگی۔ ردا بغور اس کی ہر حرکت دیکھ رہی تھی۔۔
بارش کی رفتار اب پہلے کی بنسبت کم تھی۔۔عالیان اس سارے وقت میں کافی بنا چکا تھا اور وہ خاموش ہو گئ تھی۔ آگے کا ماجرا اس نے اسے نہیں بتایا تھا بلکہ وہ بتانا چاہتی بھی نہیں تھی۔ عالیان سر ہلاتا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بھاپ اڑاتا کپ اپنے ہاتھ میں پکڑے اس کے ساتھ سے ہو کر جانے لگا۔
"عالیان۔۔" ردا کی پکار پر اس کے چلتے قدم رکے لیکن وہ گھوما نہیں تھا۔وہ جب اتنی نرم اور دھیمی آواز میں اس کا نام لیتی تھی تو اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ آگے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر عالیان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔۔
"ابھی مزید کچھ مت کہنا۔۔ چند سیکنڈز پہلے مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی ہے میں اس خوشی میں کچھ دیر اور خوش ہونا چاہتا ہوں۔۔ " ردا نے اس کی بات پر گردن موڑ کر ناسمجھی سے اسے دیکھا اور وہ چلا گیا۔
"اس سارے قصے میں خوش ہونے والی بھلا کون سی بات تھی۔۔ پاگل۔۔۔" وہ بھی سٹول سے اٹھ کر جانے لگی۔۔ پیچھے رہ جانے والے کچن میں مکمل خاموشی چھا گئ تھی۔۔ وہ اداس ہو گیا تھا۔۔ نہ ردا تھی نہ عالیان تھا تو اداسی تو بنتی تھی۔
●●●●●●●●●●●●●●
سفید خان حویلی پہلے کی طرح ہی تھی ہمیشہ کی طرح عالیشان اور شاندار۔ دیوارگیر قطار در قطار مستطیل کھڑکیوں سے آتی روشنی لائونج میں مزید خوبصورتی کا باعث بن رہی تھی۔ قیمتی فرنیچر اور مخروطی چھت پر قطار سے لگے سنہرے جھومر حویلی کے اس حصے کو چار چاند لگا رہے تھے اور ایسے میں ایک شخص مسلسل ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا جیسے کسی کے انتظار میں ہو۔۔ وہ ماتھے پر ڈھیروں شکنیں لیے بار بار نظریں اٹھا کر دروازے کو دیکھتا رہتا دفعتاً جس کا انتظار کیا جا رہا تھا وہ تشریف لے آیا۔۔
"السلام عليكم بابا۔۔"اس چکر کاٹتے ہوئے وجود کے پیروں میں بریک لگی اور گہرا سانس بھر کر وہ اب اپنے بیٹے کو دیکھے گیا جو بغیر کسی فکر اور پریشانی کے بڑا بےپرواہ سا لگ رہا تھا اور اس کا یہی اطمینان اس کےباپ کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیتا تھا۔۔
"میں نے سلام کیا ہے بابا جواب تو دیں۔۔" وہ جواب نہ ملنے پر اب اس شخص سے گلہ کر رہا تھا جو سخت نظروں سے اسے اپنے سامنے بیٹھا دیکھ کر گھور رہا تھا۔
"تم میری زندگی جہنم بناتے رہو اور توقع کرتے ہو کہ میں تم پر سلامتی بھیجوں؟؟ تم صرف لعنت کے حقدار ہو۔۔" جہانزیب جتنے سخت الفاظ کا استعمال کر سکتا تھا اس نے کیے۔۔ ظفر نے باپ سے نظریں ملائیں اور ہلکا سا ہنس دیا۔ جہانزیب کو مزید آگے لگنے لگی تھی۔
"کیوں گئے تھے تم میڈیکل کالج پھر سے؟؟" اس نے آگے بڑھتے ہوئے سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔
"یار ایک تو نا میں آپ کے چمچوں سے بڑا تنگ ہوں جدھر جائوں پیچھے پیچھے آجاتے ہیں۔۔" ظفر نے نہایت ناگواری کے عالم میں سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
"پہلے بھی ایک لڑکی کی وجہ سے کتنی خواری اٹھانی پڑی ہے بدنامی الگ ہوئی ہے ہماری۔۔ دو سال قومہ میں رہ کر بھی تمہیں عقل نہ آئی ظفر ۔۔۔"
"اوہو بابا۔۔ وہ لڑکی انعم تو واقعی میری بےوقوفی تھی لیکن یہ جو ردا ہے نا اسے آپ ابھی جانتے نہیں ہیں اسے تو میں کسی قیمت ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔۔" وہ اس وقت جہانزیب کو نہایت ڈھیٹ اور احمق معلوم ہو رہا تھا۔۔
"میری بات سنو لڑکے اگر اب اس لڑکی کی وجہ سے تم کسی بھی مسئلے میں پھنسے تو یقین کرو ان مسائل کے ساتھ ہی تمہیں بھی دفن کر دوں گا اور اس لڑکی کو بھی۔۔" اس کا انداز تحکمانہ تھا۔ ظفر نے ناگواری سے انہیں دیکھا اور ان کے روبرو کھڑا ہو گیا۔
"میری بات سنے بابا۔ نہ تو میں ڈفر ہوں نہ ہی کوئی احمق جو بار بار ایک ہی غلطی میں پھنستا رہوں گا۔ کہا نا انعم بےوقوفی تھی لیکن ردا محبت ہے سچی محبت جسے حاصل کرنے کے لیے جہانزیب عالم بھی ظفر جہانزیب کو نہیں روک سکتا۔۔" اپنے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ ایک ایک لفظ بے خوف و خطر کہتے ہی وہاں سے تیز قدم لیتے چلا گیا۔ جہانزیب دانت پیس کر اسے جاتا دیکھتا رہا۔
گہرے نیلے رنگ کی ڈریس شرٹ اور سفید پینٹ پہنے وہ آفس کے لیے بلکل تیار تیز تیز قدم لیتے اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا۔گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے کلائی پر پہنی گھڑی میں وقت دیکھا اور دروازہ کھول کر اندر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا اس کا موبائل بجنے لگا۔ اسکرین پر ان نون نمبر دیکھتے ہی اس کی پیشانی پر لکیریں ابھری۔ دروازہ بند کرکے اس نے کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا اور دوسری طرف گھوم گیا۔
“ہیلو۔ کون بول رہا ہے؟" آواز میں سختی تھی۔
“ظفر جہانزیب عالم بات کر رہا ہوں۔۔" جواب ملنے پر عالیان کے چہرے پر حیرت ابھری۔ "کیا حال ہے عالیان ناصر عالم؟" دوسری طرف شخص کے منہ سے اپنا پورا نام سنتے ہی عالیان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ کچھ پل بولنے سے قاصر رہا ۔
“کیا ہوا پہچانا نہیں۔ کزن ہوں تمہارا۔۔"
“کیوں کال کی ہے؟" خود کو کمپوز کرتے اس نے سرد مہری سے پوچھا۔
“انسٹاگرام میں تمہاری پکچرز اور ریلیز دیکھ دیکھ کر مجھے تم سے ملنے کا بڑا اشتیاق رہتا تھا۔ اور اس دن ردا کے کالج میں تمہیں دیکھ کر میری یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔۔" عالیان لب بھینچ کر خود پر ضبط کیے بغور خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔ دونوں باپ بیٹے ان کی کتنی خبر رکھتے تھے۔”میرے باپ نے جو تم لوگوں کے ساتھ کیا مجھے بڑا افسوس ہے لیکن بےفکر رہو میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والا۔۔" عالیان نے گہرا سانس بھرتے شرٹ کے اوپری بٹن کھول دیے۔ اسے ظفر کی آواز بری طرح سے کھل رہی تھی۔
“ایسے ارادے نہ ہی رکھو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔۔" انداز تنبیہی تھا لیکن ظفر کو جیسے مذاق لگ رہا تھا اسی لیے استہزاء سے ہنسنے لگا۔
“کم آن ڈئیر کزن اتنا ہائیپر نہ ہو۔۔ خاندانی دشمنی کو آڑے نہیں لاتے نا بلکہ ایک اچھی فیملی کی طرح مل جل کر رہتے ہیں کیسا ہوگا؟" ظفر کی یہ بات اسے نہایت ہی احمقانہ لگی تھی۔
“بکواس بند کرو اور جس وجہ کے لیے کال کی ہے وہ وجہ بتائو۔۔" اس بار اس کی آواز پہلے سے زیادہ بلند تھی۔
“وجہ تو تم اچھے سے جانتے ہو۔ ردا مجھے دے دو۔ مل جل کر رہتے ہیں اور خان حویلی کو ایک مثال بناتے ہیں۔۔" ردا کا نام اس کے منہ سے سنتے ہی اس کے پیشانی پر ابھرتی لکیروں کا تنائو مزید بڑھا اور ابرو غصے سے اکٹھے ہو گئے۔
"مثال تو تم اور تمہارا باپ ضرور بنو گے اس دنیا کے لیے اور ردا کا نام لینے سے پہلے اپنی قبر کے اندھیرے کا ضرور سوچ لینا۔۔ سمجھے۔۔" کرخت لہجے میں وہ اس سے گویا ہوا۔
“یار میں دوستی کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہوں اور تم سیدھا سیدھا دھمکیوں پر ہی اتر آئے ہو۔ پرسکون ہو کر ذرا میری باتوں پر غور کرو ڈیل اچھی ہے دشمنی ختم کرتے ہیں۔۔"
“ڈیل مائی فٹ!! جو کرنا ہے شوق سے کرو میں بھی تو دیکھوں باپ کا بیٹا بھی اسی کی طرح نڈر ہے یا ایک نمبر کا ڈرپوک ہے جو صرف فون کے پیچھے سے دھمکیاں دے سکتا ہے۔۔" چیلنجنگ انداز میں کہتے ہی اس نے کال کاٹ دی اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر گہرا سانس لینے لگا۔ منحوس انسان نے صبح صبح کال کر کے اس کے سارے دن کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ کوفت سے سر جھٹک کو وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھا۔ موبائل ساتھ والی سیٹ پر پھینکا اور دھڑام سے دروازہ بند کرتے وہ کچھ ہی دیر میں گاڑی وہاں سے لے گیا۔
●●●●●●●●●●●●●
"نہ نہ۔۔ بہت برا سا کلر ہے یہ آپی جائیں چینج کر لیں۔۔" انابیہ ابھی ابھی ڈریسنگ روم سے نکلی تھی۔ اس نے لائٹ پیچ کلر کا گائون پہنا ہوا تھا جسے دیکھ کر ردا نے اس سے کہا تو وہ قدآوار آئینے کے سامنے جا کر دیکھنے لگی۔۔
"اچھا تو لگ رہا ہے کیا برائی ہے اس میں؟" اس نے شیشے میں دیکھتے ہوئے ہی ردا سے کہا جو بیڈ پر ٹانگیں فولڈ کیے بیٹھی چائے پی رہی تھی۔
"مطلب اتنا پھیکا سا رنگ ہے۔۔ آفس جا رہی ہیں ذرا اچھے اچھے کلر پہنا کریں۔۔" اس کے مشورے پر انابیہ اس کی طرف گھومی اور سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھنے لگی۔
"بیٹا یہ شوخ کلرز پہننے کی عادت نا اب تم ڈال لو میری بہن۔۔" انابیہ نے مزے لے کر کہا تو ردا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"کیوں بھئی میں کیوں پہننے لگی شوخ رنگ؟؟" اس نے برا سا منہ بنا کر پوچھا۔
"تایا ابو نے تمہارے لیے رشتہ دیکھا ہے۔۔" بس یہ کہنے کی دیر تھی ردا کے منہ سے چائے فوارے کی طرح پھوٹی تھی جس کی وجہ سے ساری بیڈ شیٹ بھی خراب ہو گئ تھی۔۔ انابیہ منہ کھولے اس بیڈ شیٹ کو دیکھے گئ۔
"گندی لڑکی یہ کیا کیا ہے؟؟' اس نے غصے سے کہا۔۔
"تایا ابو نے گھر بیٹھے کیسے رشتہ دیکھ لیا؟؟ مذاق نہ کریں صبح صبح۔۔" اس نے سر جھٹک کر دوبارہ سے چائے پینی شروع کر دی جبکہ انابیہ کا دھیان اب تک بیڈ شیٹ کی طرف تھا۔
"ظاہر سی بات ہے انکل جہانگیر نے انہیں بتایا ہوگا۔۔ ویسے بھی وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی جاننے والے ہیں اور تایا اور انکل دوست ہیں۔۔ " یعنی رشتہ باہر سے تھا۔ ردا نے حلق میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کیا۔۔
"تو مجھ سے پہلے آپ کا نمبر آتا ہے نا۔۔" وہ معصوم سی شکل بنائے احتجاج کرتے ہوئے بولی۔
"ہاں یہ بھی ہے لیکن میرے معاملے سے تو تم واقف ہی ہو نا۔۔ کبیر ہے ہی اتنا ضدی جانتی ہوں کافی ٹائم لگے گا۔۔"
"ہاں تو۔۔ تو میں کہاں بھاگی جا رہی ہوں۔۔ آپ تایا سے بات کریں میں نے نہیں کرنی کہیں باہر شادی۔۔" وہ بے دھیانی میں بولی تو انابیہ نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔
"کیا مطلب باہر نہیں کرنی۔۔ اندر والے سے کر لو گی؟؟" اس نے تفتیشی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ قدرے گڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
"نہ باہر والے سے نہ اندر والے سے ۔۔۔ میری آگے ہی بڑی پریشانیاں ہیں۔۔ مزید اضافہ مت کریں۔۔" اس نے جیسے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔
"بھئ یہ تو تم خود ہی تایا سے بات کرنا وہ تیار بیٹھے ہیں۔۔ وہ تو خوش ہیں کہ بس تمہارے میڈیکل کا آخری سال ہے۔۔ بلکہ رکو انہوں نے شاید مجھے لڑکے کی تصویر بھی بھیجی تھی میں تمہیں دکھاتی ہوں۔۔۔" وہ تیزی سے سائڈ ٹیبل کی طرف آئی اور اس پر سے اپنا فون اٹھا کر تصویر ڈھونڈنے لگی جبکہ ردا بوکھلا کر بیڈ سے اٹھی۔۔
"نہیں نہیں مجھے نہیں دیکھنی۔۔۔" اس نے کہتے ساتھ بیڈ کی چادر کھینچی اور اسے ہاتھوں میں پکڑے کمرے سے بھاگ گئ۔۔ پیچھے رہ جانے والی انابیہ اب اس کے جاتے ہی زور زور سے ہنسنے لگی تھی۔
●●●●●●●●●●●●●●
"مجھے کچھ انویسٹرز کی ضرورت ہے۔۔" میٹنگ روم کھڑکیوں سے آتی روشنی سے مکمل روشن تھا۔۔ لمبے میز کی سربراہی نشست پر جہانگیر صاحب براجمان تھے۔ ان کے دائیں طرف انابیہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے بیٹھی تھی اور بائیں طرف کبیر سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھا ٹھوڑی پر دو انگلیاں چلاتے ہوئے بغور اسے سن رہا تھا۔۔ جہانگیر صاحب کے پیچھے ایک طرف وانیہ اور دوسری طرف ماجد علی کھڑے تھے۔۔
"لیکن حنان زبیر جیسے نہیں۔۔" اس نے ناگواری سے بات مکمل کی۔
"شہر کی نامور کمپنیز ہماری کمپنی میں انویسٹمینٹ کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ اتنی پریشانی کی بات نہیں ہے۔۔" جہانگیر صاحب نے اطمینان سے کہا۔
"اگر میں انویسٹمینٹ کرنا چاہوں تو۔۔" کبیر نے بڑے سکون سے اپنے والد صاحب کے چہرے پر نظریں ٹکائے پوچھا۔ جہانگیر صاحب نے اس کے سوال پر اچنبھے سے اسے دیکھا۔ ان سے بھی زیادہ حیرت انابیہ کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی۔
"ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے۔۔" اس نے دونوں کے چہروں کے حیرت کی زد میں آئے تاثرات کو باری باری دیکھا۔۔
"مم۔۔ مطلب تم کیوں کرو گے انویسٹمینٹ؟ یہ پراجیکٹ آل ریڈی این۔جے بلڈرز کا ہے اور جہانگیر انکل کے بیٹے کی حیثیت سے تم بھی اس کے پارٹنر ہو۔۔" انابیہ نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
"لیکن میں سن آف جہانگیر کی حیثیت سے نہیں کبیر کی حیثیت سے انویسٹمینٹ کرنا چاہتا ہوں۔۔ آئ وانٹ ٹو بی آ پارٹ آف دز پراجیکٹ ایز آ شئیر ہولڈر۔۔" اس کے چہرے پر اتنا سکون وہاں کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
"بچے یہ دس بیس لاکھ کی گیم نہیں ہے۔۔" جہانگیر کا انداز طنزیہ تھا اور ان کے طنز پر کبیر ہلکا سا مسکرا دیا۔۔
"این-جے بلڈرز کا پراجیکٹ ہے ڈیڈ۔۔ جانتا ہوں دس بیس لاکھ کی گیم ہو ہی نہیں سکتی۔۔ ڈونٹ وری آئی کین مینیج۔۔" اس نے کندھے اچکا کر بےنیازی سے کہا۔
'مگر انکل۔۔"
"میرے خیال سے انکل کے بیٹے نے بات کلئیر کر دی ہے۔۔" کبیر نے تیزی سے انابیہ کو بولتے ہوئے ٹوکا تو اس نے آنکھیں چھوٹی کیے بغور اسے دیکھا۔۔ " بات ختم اور اب ہمیں کنسٹرکشن سائٹ پر جانا ہے۔۔ " وہ روانی میں حکم صادر کرتے ہی اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"ہاں بلکل تم دونوں ساتھ ہی جائو۔۔ میں آفس کے معاملات دیکھ لیتا ہوں۔۔" جہانگیر صاحب نے کہا تو انابیہ دل ہی دل میں مسکرائ لیکن اگلے ہی لمحے کبیر کے کہے جملے نے اس کی خوشی چھن سے چھین لی۔۔
"میرے ساتھ ماجد اور ٹیم کے کچھ اور ممبرز ہوں گے۔۔ تم اپنی گاڑی میں آجانا۔۔"اس نے ٹیبل سے کچھ چیزیں اٹھاتے ہوئے اسے دیکھے بغیر کہا۔
"میری گاڑی خراب ہے ڈرائیور ورک شاپ پر لے کر گیا ہے۔۔" انابیہ نے ہونہہ کے انداز میں سفاکی سے جھوٹ بولا تھا۔۔ کبیر نے سرد نظروں سے اسے گھورا۔
"کوئی بات نہیں ڈیڈ کی گاڑی لے جائو۔۔ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔۔" اس نے جیسے اسے دوسرا آئیڈیا دیتے ہوئے کہا۔ وہ دانت پر دانت جمائے تیزی سے کھڑی ہوئی۔۔ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ ماجد علی پیچھے کھڑا کھڑا کھنکھارا۔
"سر آپ اور میم ساتھ چلے جائیں۔۔ ٹیم ممبرز میرے ساتھ آجائیں گے میری گاڑی میں۔۔۔" وہ بولا تو کبیر پوری طرح سے اس کی طرف گھوما اور بلا کی سنجیدگی لیے اسے گھورنے لگا۔
"ٹھیک کہا نا سر؟؟" وہ بلا کی معصومیت لیے کبیر کے کڑے تیوروں کو دیکھ کر بولا۔ انابیہ کچھ فاتحانہ انداز سے مسکرائ۔
"اتنا برا بھی نہیں ہے خوامخواہ اس دن ذلیل کر دیا میں نے اسے۔" وہ دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی اور پھر اسی طرح مسکراتے ہوئے اس نے کبیر کو دیکھا جو سر جھٹک کر میٹنگ روم سے نکل گیا۔
"ماجد علی آپ ذرا میرے آفس آئیے گا ضروری بات کرنی ہے۔۔" کبیر کے جاتے ہی اس نے ماجد علی کو مخاطب کیا اور وہاں سے نکل گئ۔ وانیہ نے ایک ابرو اٹھا کر ماجد کو دیکھا جس کے چہرے پر خوشی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ اسے اس کی جگہ واپس ملنے والی ہے بلکہ مل گئ ہے۔ اس نے فاتحانہ انداز سے مسکراتے ہوئے آنکھیں مٹکا مٹکا کےوانیہ کو دیکھا اور انابیہ کے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔
"آئی ہوپ وانیہ یہ ٹوم اینڈ جیری سیریز تمہیں ضرور بہت پسند آئے گی۔۔" ان کے جاتے ہی جہانگیر صاحب نے گہرا سانس بھر کر کہا تو وانیہ جھینپ کر مسکرا دی۔
وہ دونوں جب آفس کی بلڈنگ سے باہر نکلے تو دونوں کی نظریں انابیہ کی گاڑی اور ڈرائیور سے ٹکرائی جو بلکل ٹھیک ٹھاک کھڑی تھی۔ کبیر نے چھیڑنے والی نظر سے انابیہ کو دیکھا جو قہر برساتی نظروں سے ڈرائیور کو دیکھ رہی تھی اور پھر پیر پٹختی ڈرائیور کی طرف بڑھ گئ۔
"آپ سے کہا تھا نا اسے ورکشاپ پر لے جائیں۔۔" وہ ڈرائیور کے پاس جاتے ہی اس پر بھڑکنے لگی۔۔ ڈرائیور لاچار اور مظلوم سا اسے دیکھے گیا۔
"جی میں لے کر گیا تھا اب یہ بلکل ٹھیک ہے۔۔" وہ فوراً اپنی صفائی میں بولا۔
"نہیں۔۔ اسے دوبارہ لے جائیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔" اس کی آواز اتنی تو تیز تھی کہ کبیر سن سکتا تھا۔
"مگر میڈم۔۔"
"کیا اگر مگر۔۔ اس دن بھی اس کی وجہ سے کتنی پریشانی میں پھنس گئ تھی بتایا تھا نا آپ کو اب لے کر جائیں اسے۔۔" وہ غصے میں اسے حکم دیتی کبیر کی گاڑی کی طرف بڑھ گئ اور پہنچتے ہی پسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر بڑے اطمینان سے اندر بیٹھ گئ۔۔ کبیر سینے پر ہاتھ باندھے اس کی ہمت دیکھتا رہا اور سر جھٹک کر گہرا سانس بھر کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
کچھ دیر کے خاموش سفر کے بعد وہ دونوں اب سائٹ پر موجود تھے۔ دونوں نے سروں پر پیلے رنگ کی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔۔ ماجد علی اور دوسرے ٹیم ممبرز بھی ان سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ ماجد علی کی خوشی کی اپنی انتہا تھی وہ دوبارہ سے پراجیکٹ مینیجر بنا دیا گیا تھا۔
"کیسا ہے؟" انابیہ نے نظریں ہنوز سامنے بنتی ہوئی عمارت پر ٹکائے ہوئے کبیر سے پوچھا جو خود بھی اسی زیر تعمیر عمارت میں گم تھا۔
"اچھا ہے۔۔ بہت اچھا۔۔" اس نے دل سے سراہا تھا۔
"یہ میرا خواب ہے کبیر۔۔ جو جلد پورا ہو جائے گا۔۔" وہ نہایت دھیمی آواز میں بول رہی تھی جیسے خود سے باتیں کر رہی ہو۔۔ "تم نے کہا تھا نا تم مجھے میرے خواب اچیو کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہو۔۔ تو دیکھو کبیر۔۔ مجھے خوشی ہے کہ تم میرے ساتھ ہو بھلے تم مکر جائو۔۔ انکاری ہو جائو۔۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ تم میرے ساتھ ہو۔۔" وہ دونوں اس سمت میں کھڑے تھے کہ دونوں کے چہروں پر دھوپ کی روشنی پڑ رہی تھی۔ وہ بولتے بولتے چپ ہو گئ لیکن کبیر کچھ نہیں بولا۔
"آئو میں تمہیں آفس دکھاتی ہوں۔۔" وہ اس سے کہہ کر اب آگے کی طرف چلنے لگی۔ کبیر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ پیچ کلر کے گائون کے اوپر سفید لونگ کوٹ پہنے ہوئے تھی جس پر اس کے بھورے بال بلکل واضح دکھائی دے رہے تھے۔ وہ کافی آگے جا چکی تھی۔ سر جھٹک کر کبیر بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
آفس بہت خوبصورت اور بتیوں سے جگمگاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے دیکھو تو ایک بڑی سی سکرین پر چھوٹے چھوٹے سیکشنز دکھائی دیتے تھے۔ وہ باہر بنتی ہوئی عمارت کی سی سی ٹی وی فوٹیجز تھیں جس پر مزدوروں کو کام کرتے ہوئے بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ سینٹر میں ایک سیاہ ٹیبل تھی جس کے ارد گرد چھ سیاہ ریولونگ چئیرز تھیں۔ ٹیبل کے اوپر ایک شاندار شیشے سے بنے ہوئے پلازے کا تھری ڈی ماڈل تھا۔ وہ ایک پتلی لمبی عمارت اس شکل میں بنی تھی کہ اگر آسمان سے اسے دیکھا جائے تو وہ ایک تکون triangle کی طرح دکھائی دے۔۔ اس کمرے میں دائیں اور بائیں طرف کمپیوٹر سسٹمز تھے جس پر ورکرز بیٹھے کام کررہے تھے۔
"کیسا لگا؟؟" انابیہ اس شیشے کے بنے پلازے پر اپنی انگلی پھیرتے ہوئے کبیر سے پوچھنے لگی۔۔کبیر نے ہر چیز بغور دیکھی تھی وہ واقعی شاندار آفس تھا۔
"یہ سب بہت زبردست ہے۔۔۔" اس نے واقعی دل سے تعریف کی تھی۔ یہ سب اس کی توقعات سے بھی بڑھ کر تھا۔
"چلو تمہیں اچھا لگا۔۔" وہ اب رک کر اس کا چہرہ دیکھ کر بولی۔۔ تبھی دروازہ کھلا اور ایک سرونٹ ہاتھ میں دو چائے کی پیالیوں کی ٹرے پکڑے اندر داخل ہوا۔ اس نے جھک کر دونوں کپ ٹیبل پر رکھے اور سر کوخم دیتا باہر نکل گیا۔ وہ جس چئیر پر بیٹھا تھا انابیہ بھی بلکل اس کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھ گئ۔ کبیر نے ایک نظر اسے ناگواری سے دیکھا اور اپنی چائے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
"میں ایسا کیا کروں کہ تم مجھے معاف کر دو؟؟" انابیہ نے نظریں اپنے کپ پر مرکوز کیے بڑی لاچاری سے پوچھا تھا۔ اس کی آواز وہاں موجود ورکرز کی وجہ سے کافی آہستہ تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ بلکل اس کے ساتھ بیٹھ گئ تاکہ بات کرنے میں دشواری نہ ہو۔
"معافی چاہتی ہو؟؟" اس نے اپنا کپ ٹیبل پر رکھا اور گردن انابیہ کی طرف گھمائی۔۔" تو مجھ سے دور رہو۔۔" اس کے سختی سے کہنے پر انابیہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھ کر رہ گئ۔
"نہیں چاہئیے۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
"کیا؟؟" کبیر کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھ کر بولا۔
"ایسی معافی جس کی شرط تم سے دوری ہو۔۔ اپنے پاس رکھو ہونہہ۔۔" کہتے ساتھ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ "چائے پی لو تو آجانا۔۔" وہ اکھڑ انداز سے کہتے ہی باہر چلی گئ۔ کبیر کچھ ناسمجھی سے دروازے کو دیکھے گیا۔
"یہ تو بلکل نہیں بدلی۔۔" وہ سرگوشی نما انداز میں بول کر ہلکا سا مسکرا دیا اور چائے کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔ وہ تو اپنی چائے پوری پئیے گا۔۔ اس سر درد کے ساتھ اسے باقی کا سفر بھی تو کرنا تھا۔
"آگے سے موڑ لینا۔۔" کبیر ڈرائیو کر رہا تھا تبھی اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی تھوڑا تحکمانہ انداز میں بولی۔
"کیوں آفس کا راستہ سیدھا ہے۔۔" نظریں سامنے سڑک پر تھیں۔
"لیکن ابھی ہم آفس نہیں جا رہے۔۔" وہ بضد تھی۔
"ہم جا رہے ہیں۔۔" وہ بھی بضد تھا۔
"تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں جہانگیر انکل سے بات کر چکی ہوں اور ان کا کہنا کہ اگر ان کا صاحبزادہ زیادہ تنگ کرے تو بس ان کو ایک میسج کر دیا جائے آگے وہ دیکھ لیں گے۔۔۔" وہ سینے پر ہاتھ باندھے بول رہی تھی۔ کبیر نے بڑبڑ کرنے کے انداز میں اسے دیکھا اور اس کے حکم کے مطابق یو-ٹرن لے لیا۔
"ہمم گڈ۔۔ اب یہاں سے سیدھا جاتے جائو پھر بتائوں گی۔۔۔" حکم تو ایسے دیتی جا رہی تھی جیسے ساتھ والا پکا اس کا ڈرائیور ہو۔
تھوڑی دیر بعد اس کے کہنے پر کبیر نے گاڑی ایک گھر کے سامنے روکی۔۔ انابیہ بڑے اطمینان سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ گیٹ پر کھڑا چوکیدار فوراً اس کی طرف آیا اور سر کو خم دے کر کچھ کہنے لگا۔ اس کی مسکراہٹ سے واضح تھا وہ اسے اچھے سے جانتا ہے۔ کبیر کے لیے یہ جگہ بلکل نئی اور انجان تھی۔ انابیہ نے پلٹ کر اسے دیکھا جو گاڑی کا دروازہ پکڑے کھڑا تھا۔
"کبیر اندر بھی جانا ہے۔۔" اس نے جیسے یاد دلانے کے انداز میں کہا تھا کبیر اس کے پیچھے چل دیا۔ اس نے رک کر گیٹ پر لگے بڑے سے پوسٹر کو دیکھا۔۔ یہ ایک اورفن سکول تھا۔ وہ کچھ دیر کھڑا اس پوسٹر کو دیکھتا رہا۔ انابیہ اندر جا چکی تھی اس بات کا اندازہ ہوتے ہی وہ اندر چلا گیا۔ گیٹ سے اندر آتے ہی ایک طویل راہداری تھی اور اس راہداری کے دائیں اور بائیں دونوں طرف وسیع لان تھے۔ ایک طرف بچے فٹ بال کھیل رہے تھے اور دوسری طرف بچیاں اپنے کھیلوں میں مگن تھیں کوئی پھولوں کے ہار اور بینڈز بنا رہی تھیں تو کوئی گڑیا کھلونوں سے کھیل رہی تھیں۔ تقریباً ہر طرف سے بچوں کے شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ کبیر وہیں گیٹ کے پاس کھڑا ہر چیز observe کر رہا تھا۔ انابیہ کسی لڑکی سے بات کر رہی تھی شاید وہ ٹیچر تھی اور پھر وہ سر ہلاتی اندر کی طرف چلی گئ۔ اسی دوران انابیہ کے پیروں کے پاس فٹ بال آکر رکا۔اس نے جھک کر بال اٹھایا اور بے ساختہ اس کی نظر کبیر پر پڑی۔ اسے کچھ یاد آیا تھا۔۔ کبیر نے اطراف سے نظریں ہٹا کر انابیہ کو دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ میں پکڑے بال کو۔ اسے کچھ یاد آیا تھا۔۔۔ وہ دونوں براہراست ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ انابیہ کی نظروں میں تھوڑی شرارت تھی جبکہ کبیر کی نظروں میں تنبیہ تھی۔ وہ مکمل طور پر اس کی طرف گھوم گئ۔ بال کو تھوڑا اوپر کیا جیسے مارنے کے لیے تیار ہو۔ کبیر مزید آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھے گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ زور سے ہنس دی اور سر جھٹک کر بال بچوں کی طرف اچھال دیا۔ کبیر یک ٹک اسے ہنستے ہوئے دیکھتا رہا جیسے ہمیشہ سے دیکھتا رہتا تھا۔
"یہ واقعی نہیں بدلی۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑاتا ہوا اب چل کر اس کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ تبھی دونوں کی نظر سامنے سے آتی خاکی رنگ کی ساڑھی پہنے ایک لڑکی پر رکی جس کے بال جوڑے میں بندھے تھے اور جس کی شہد رنگ آنکھوں میں گہرا کاجل اسے مزید خوبصورت دکھا رہا تھا ۔۔ اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کبھی obesity کا شکار ہوئی ہوگی ۔
Made for each other..” " وہ دونوں کے پاس جا کر کھنکھاری۔۔ انابیہ ہلکا سا مسکرائی جبکہ کبیر بس ناسمجھی سے اسے دیکھے گیا۔۔ "آپ سے مل کر اچھا لگا مسٹر کبیر میں لاریب۔۔ آئی ہوپ انابیہ نے آپ کو میرے بارے میں نہیں بتایا ہوگا۔۔"اس کے شکایت کرنے کے انداز پر انابیہ نے اپنی ہنسی دبائی۔
"میں تم سے ملوا کر تمہارے بارے میں بتانا چاہتی تھی۔ بائے دا وے میں نے تو تمہیں نہیں بتایا کہ میں کبیر کو کبھی یہاں ساتھ لائوں گی تم نے کیسے پہچانا؟؟" انابیہ نے تھوڑا تجسس کا شکار ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"اتنا مشکل نہیں تھا ایک کبیر جہانگیر ہی تمہارے ساتھ کھڑا تمہیں مکمل دکھا سکتا ہے۔ خیر میری نظر بھی لگ جاتی ہے اس لیے ماشاءاللہ۔۔ آئو میرے ساتھ۔۔" وہ کہتے ساتھ مڑ کر آگے کی طرف چلنے لگی۔ کبیر نے گردن موڑ کر ایک نظر انابیہ کو دیکھا جس کا چہرہ شرم کے مارے فلہال سرخ ہو رہا تھا۔ اس لیے اس کی نظروں کو اگنور کرتی اب وہ اس طرف چلنے لگی جس طرف لالی گئ تھی۔
"آپ بہت اچھا کام کررہی ہیں ورنہ آج کل کون یتیموں کا سوچتا ہے۔۔" وہ دونوں اس وقت لالی کے آفس میں بیٹھے تھے جہاں سے وہ اس سکول کے سارے معاملات دیکھتی ہے۔ اس کا آفس چھوٹا مگر خوبصورت تھا۔
"یقیناً میں اچھا کام کرتی ہوں لیکن آپ کو بتاتی چلوں یہ سکول میرا نہیں ہے۔۔" سرونٹ اب ان کو چائے ڈال کر پیش کررہا تھا تبھی لالی نے کہا تو کبیرنے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
"یہ جو گمنام محترمہ آپ کے ساتھ بیٹھی ہیں یہ سکول ان کا ہے۔۔ میں تو بس اس کی دیکھ بھال کر کے ایک ذمہ داری پوری کرتی ہوں۔۔" کبیر نے ہلکی سی گردن موڑ کر اسے دیکھا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی اور اپنی چائے پینے میں مگن تھی۔۔ وہ لفظوں سے اسے دات دینا چاہتا تھا۔۔ کھل کر اس پر فخر کرنا چاہتا تھا لیکن سب کچھ اس نے دل ہی دل میں کیا۔
"بنانے والے سےسنبھالنے والے کا کام زیادہ اہم ہوتا ہے اور جس طرح خود بیمار رہ کر تم نے میرے سکول کی حفاظت کی ہے کوئی نہیں کر سکتا۔۔" تھوڑی سی خاموشی پا کر انابیہ بولی۔۔
"میڈم میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔ ہر انسان اپنی زندگی میں ایک مختلف اور سخت فیز سے گزرتا ہے لیکن اگر وہ چاہے تو خود کو نکال بھی سکتا ہے۔ میں نے بھی خود کو نکالا اور اب میں بلکل صحت مند ہوں۔۔"
"میں اتفاق نہیں کرتا کیونکہ انسان محبت کے فیز سے خود کو نہیں نکال سکتا۔۔" کبیر نے اپنا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ انابیہ کا جسم پل بھر کے لیے جیسے جم سا گیا تھا۔
"میں نے کہا اگر انسان چاہے تو۔۔ اور محبت کے فیز سے کون سا انسان نکلنا چاہے گا بھلا۔۔ محبت تو کوئی نہیں بھولنا چاہتا۔۔" لالی نے رک کر پیالی سے ایک گھونٹ بھرا۔۔" ویسے بھی آپ کو تو شکر کرنا چاہیے ورنہ بچھڑی ہوئی محبت بہت کم اور خوش قسمت لوگوں کو ملتی ہے۔۔"
"اب بہت دیر ہو چکی ہے۔۔" انابیہ نے تڑپ کر اسے دیکھا تھا۔ وہ اب بھی یہی کہہ رہا تھا۔۔ لالی نے بغور کبیر کا چہرہ دیکھا اور اس وقت اس کے ذہن میں اس کے لیے ایک ہی لفظ آیا تھا۔
"ضدی۔۔" اس نے ڈائریکٹ بولا تھا۔ کبیر نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔" ایم سوری سامنے والے کو دیکھ کر میرے مائینڈ میں جو لفظ بھی آتا ہے میں بول دیتی ہوں۔۔" اس کا انداز قطعاً اپولوجائزنگ نہیں تھا۔۔ “ میں انابیہ کو بھی بےوقوف بولتی ہوں۔۔"
"آپ کو لگتا ہے میں ضدی ہوں؟" کبیر کے سوال پر اس نے سر نفی میں ہلایا۔
"بلا کے ضدی ہیں۔۔۔اور محبت میں ضد کرنے والوں کو احمق کہا جاتا ہے سو آپ احمق بھی ہیں۔۔" اس نے کبیر کی شان میں ایک اور ٹائٹل کا اضافہ کیا تھا۔
"جو بھی ہے کم از کم ہار ماننے والوں اور ڈرپوک لوگوں سے تو بہتر ہی ہوں۔۔" یہ آخری جملہ انابیہ کے لیے تھا وہ جانتی تھی۔۔ کبیر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ " اندھیرا ہونے والا ہے ہمیں چلنا چاہیے۔۔ آپ سے مل کر اچھا لگا۔۔" رک کر وہ انابیہ کی طرف متوجہ ہوا۔۔" میں باہر ویٹ کر رہا ہوں جلدی آنا۔۔" کہتے ساتھ وہ رکا نہیں اور تیز تیز قدم لیتے کمرے سے چلا گیا۔
"میں نے تم سے کہا تھا نا لالی۔۔ محبت میرے لیے نہیں بنی۔۔" اس کا انداز شکست خوردہ تھا۔
"کبھی کبھار محبت کو خود اپنا بنانا ہوتا ہے انابیہ۔۔ اسے بتا دو تم نہ تو اب ہار ماننے والی ہو نہ ہی ڈرپوک۔۔" انابیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
وہ ابھی ہی اس کے آفس سے باہر نکلی تھی تبھی ایک بچی بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
"ارے گڑیا کیسی ہو؟؟" وہ گھٹنوں کے بل جھک کر اس کے چہرے پر پیار کرتے ہوئے بولی۔۔ وہ بچی اسے مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
"آپ کتنے دنوں بعد آئی ہیں۔۔" وہ جیسے مسکراتے ہوئے گلہ کر رہی تھی۔۔ انابیہ نے اس کے چھوٹے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔" وہ لڑکا کون ہے؟؟" اس نے فوراً سے سامنے کھڑے کبیر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ انابیہ نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں کبیر ہاتھ میں فون لیے کھڑا تھا۔ دفعتاً اس نے بھی نظریں موبائل سے ہٹا کر ان کو دیکھا۔ انابیہ نے فوراً سے بچی کا ہاتھ نیچے کیا۔
"وہ بہت ہینڈسم ہے۔۔" بچی نے اس کے کان میں سرگوشی نما انداز میں کہا تھا جبکہ اس کی گول گول آنکھیں کبیر پر ہی جمی تھیں۔
"اچھا ہینڈسم ہے؟؟" انابیہ نے بھی بہت ہی دھیمی آواز میں پوچھا جس پر وہ سر اوپر نیچے ہلانے لگی۔
"آپ کے ہزبینڈ ہیں نا؟؟" اس کے کہتے ہی انابیہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی دبائی۔۔ کبیر کو اتنا شک تو ہو گیا تھا وہ دونوں اسی کو ڈسکس کر رہی ہیں۔
"آپ دعا کرو نا کہ وہ میرے ہزبینڈ بن جائیں۔۔" اس نے بھی اس کے کان میں جھک کر کہا تھا جس پر وہ بچی منہ کھولے اسے دیکھے گئ۔
"اگر میں دعا کروں گی تو وہ آپ کے ہزبینڈ بن جائیں گے؟؟" اب کی بار انابیہ کے لیے اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا اور اس نے اسی طرح ہنستے ہوئے سر اثبات میں ہلایا تھا۔۔ وہ ہنس ہنس کر دوہری ہو رہی تھی۔۔
"ٹھیک ہے میں روز دعا کروں گی۔۔ پھر جب یہ آپ کے ہزبینڈ بن جائے تو آپ نے آکر مجھے بتانا ہوگا۔۔" انابیہ نے پھر سر ہاں میں ہلایا۔۔" ڈن۔۔"
"میں جا کر ان کو بتائوں وہ بہت ہینڈسم ہیں؟؟" اس نے گول گول آنکھیں مٹکا کر اس سے پوچھا تو اس نے فوراً سے اسے روکا۔
"نہیں نہیں آگے ہی اس کے نخرے ختم نہیں ہوتے اگر جا کر اس کے منہ پر تعریف کر دو گی تو اور بھی میرے سر پر چڑھ کر ناچے گا۔۔" جس پر اس بچی نے سمجھ کر سر ہلایا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے میں دعا کروں گی۔۔" کہتے ساتھ وہ انابیہ کے گلے لگی اور اندر کی طرف بھاگ گئ۔۔ وہ کچھ دیر اس کی باتوں پر ہنستی رہی اور پھر اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑ کر وہ کبیر کی طرف بڑھ گئ۔
"وہ بچی کیا کہہ رہی تھی میرے بارے میں؟" گیٹ سے باہر نکلتے ہی کبیرنے اس سے پوچھا تھا چونکہ اسے شک تھا اس لیے پوچھنا تو فرض تھا۔
"تمہیں ایسا کیوں لگا کہ وہ تمہاری بات کر رہی ہے؟؟" انابیہ نے رک کر پوچھا۔
"ظاہر سی بات ہے اس نے میری طرف اشارہ کیا تھا۔۔" وہ اب چل کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
"ہاں۔۔ وہ کہہ رہی تھی کہ تم بلکل بھی خوبصورت اور ہینڈسم نہیں ہو۔۔" وہ اپنی طرف کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ اس کی بات پر بےیقینی سے اسے دیکھا۔
"کیا ایسا کہہ رہی تھی؟؟" وہ دونوں ہی اب گاڑی کے اندر موجود تھے۔
"بلکل صرف یہی نہیں اس نے مجھ سے کہا میں بہت خوبصورت ہوں اور تم میرے ساتھ بلکل نہیں جچتے اسی لیے تھوڑا دور رہا کرو مجھ سے۔۔"
"ہونہہ۔۔ خوش فہمی ضرور اسکی آنکھیں خراب ہوں گی یا وہ بدصورت کو خوبصورت بولتی ہوگی۔۔" کبیر نے جیسے ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں کہا تھا انابیہ نے تپ کر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"نہ اسکی آنکھیں خراب ہیں اور نہ ہی وہ بدصورت کو خوبصورت بولتی ہے میں واقعی خوبصورت ہوں ایک انسان پاگل ہوا پھرتا تھا میرے آگے پیچھے۔۔" اس کا انداز لٹھ مار تھا۔
"وہ واقعی پاگل تھا ورنہ ایسا کبھی نہ کرتا۔۔" وہ اسے زچ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"بلکل اور تم کیا جانو اسکا پاگل پن میرے لیے۔۔"
"مگر اب وہ پاگل نہیں رہا۔۔"
"بلکل اب وہ پاگل نہیں رہا۔۔ اب وہ نہایت کھڑوس بدتمیز اور مزید پاگل ہو گیا ہے۔۔" اس کی آواز کافی تیز تھی۔
"اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟؟" اب کی بار کبیر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"میں ۔۔۔ میں مزید خوبصورت ہو گئ ہوں۔۔" اس نے چہرہ اٹھا کر اترا کر کہا تھا۔۔ کبیر نے اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا کر سامنے سڑک پر مرکوز کر لیں۔۔ اگر وہ تھوڑی دیر اور اسے دیکھتا رہتا تو شاید اس کے منہ پر یہ اعتراف کر بیٹھتا کہ ہاں وہ واقعی اب زیادہ خوبصورت ہو گئ ہے۔۔اس کے بعد گاڑی میں دونوں کی خاموشی رہی تھی اور گاڑی ہنوز اس وقت سڑک پر ہی تھی۔ باہر اندھیرا چھا چکا تھا۔۔کچھ ہی دیر بعد گاڑی ایک زوردار بریک سے رک گئ۔ انابیہ نے جھٹکا کھا کر کبیر کو دیکھا جو خود ناسمجھی سے گاڑی کو دیکھے جا رہا تھا۔
"کیا ہواہے؟" اس نے پوچھا۔۔ کبیر گاڑی سٹارٹ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا مگر وہ سٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
"شاید گاڑی خراب ہو گئ ہے۔۔" اس نے کہتے ساتھ جیب سے موبائل نکال کر اس کی ٹارچ آن کی۔۔ "تم بیٹھو میں دیکھتا ہوں۔۔" وہ اتر کر اب گاڑی کے بونٹ کی طرف بڑھ گیا تھا۔ وہ ہر چیز دیکھتا رہا لیکن اس گاڑی کے یوں رک جانے کی وجہ معلوم نہیں ہو رہی تھی۔ اسی دوران انابیہ بھی باہر نکل آئی۔
"کیا کررہے ہو؟؟" وہ موبائل پر کسی کا نمبر ملا رہا تھا تبھی انابیہ اس کے پاس جا کر پوچھنے لگی۔
"مکینک کو کال کررہا ہوں۔۔"
"میں نے عالیان کو میسج کر دیا ہے وہ آتا ہوگا۔۔" اس نے کہا تو کبیر تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورنے لگا۔
"اسے کیوں بلایا تم نے؟؟" اس کی آواز تھوڑی اونچی تھی۔
"تم سے کچھ ہو نہیں رہا تھا اس لیے اسے بلا لیا ۔۔ اسے سمجھ ہے گاڑیوں کی بلکہ وہ ساتھ مکینک بھی لے آئے گا۔۔" وہ بولتی گئ اور کبیر نے دڑاز سے بونٹ بند کر دیا۔۔ وہ سر پکڑے وہیں کھڑا تھا تبھی اس نے دیکھا انابیہ وہیں گاڑی کی فرنٹ سائڈ سے ٹیک لگائے نیچے زمین پر بیٹھ گئ ہے۔
"بیٹھ جائو کبیر۔۔" اس نے سر اٹھا کر اس سے کہا لیکن اس نے اگنور کر دیا۔
"بیٹھ جائو۔۔" اب کی بار کبیر نے کرنٹ کھا کر اسے دیکھا۔۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے منتظر سی بیٹھی تھی۔۔ بنا کچھ بولے وہ اب کی بار اس کے ساتھ وہیں بیٹھ گیا۔۔ انابیہ مسکرائی۔۔ وہ نہیں مسکرایا۔۔
"دیکھو چاند کچھ کہہ رہا ہے۔۔" آسمان پر پورا چاند چمک رہا تھا۔ کبیر نے سر اٹھا کر اس چاند کو دیکھا۔
"تم چاند سے باتیں کرتے ہو؟" اس نے پوچھا کبیر ہنوز منہ پر خاموشی کا تالا لگائے بیٹھا تھا یا وہ شاید کچھ بولنا ہی نہیں چاہتا تھا۔
"میں تو کرتی ہوں اور یہ گواہ ہے کہ میں نے اس سے ہمیشہ تمہاری باتیں کی ہیں۔ تم چاہے تو پوچھ لو اس سے۔۔وہ تمہیں جواب دے گا۔۔ وہ بھی تمہیں بہت پسند کرتا ہے۔۔" وہ تھوڑا رکی۔۔" میری طرح۔۔" وہ اب بھی کچھ نہیں بولا تھا اور اب نہ وہ انابیہ کو دیکھ رہا تھا نہ چاند کو۔۔ وہ اپنی مٹھی میں مٹی جمع کر رہا تھا۔
“ تم مجھے سزا دینا چاہتےہونا؟؟" اس نے درد بھرے لہجے میں پوچھا تو کبیر کی نظریں ایک دم سیدھی ہوئیں۔
"ایک ایسی غلطی کی سزا جو میری تھی ہی نہیں جس پر میرا اختیار تھا ہی نہیں جس میں میری مرضی کی کوئی حیثیت تھی ہی نہیں۔۔" اب باقاعدہ اس کی آواز نم ہونے لگی تھی لیکن کبیر بلکل سنجیدہ بلکل سپاٹ دکھائی دے رہا تھا۔
"ٹھیک ہے تم دو مجھے سزا میں تیار ہوں۔۔ لیکن اتنا بتا دوں مجھے میرے ضبط سے زیادہ مت آزمانا۔۔ ایسا نہ ہو کہ وقت پھر پلٹا کھا لے کبیر۔۔ یہ بھی بتا دوں اب جدائی صرف موت ہو گی۔۔" کبیر نے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا ساری مٹی گر گئ تھی۔۔ اس کا ہاتھ خالی ہو گیا تھا۔۔ اسے لگا اسے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔ سامنے سے ایک گاڑی تیزی سے ان کی طرف آکر رکی۔۔ کبیر اپنے کپڑے جھاڑتا فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔
"کیا یار کبیر جہانگیر کی گاڑی کیسے خراب ہو سکتی ہے یقین نہیں آرہا۔۔" وہ گاڑی سے نکلتے ساتھ افسوس سے بولتا ہوا ان کی طرف آیا تھا۔ انابیہ کو نیچے بیٹھا دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھا۔۔
"اےےے تم ٹھیک تو ہو نا۔۔" اس نے فوراً اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جس کو تھامتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ہاں ٹھیک ہوں۔۔ کبیر کے ساتھ ہوں۔۔" وہ بھی اب اپنے کپڑے جھاڑ رہی تھی۔
"کبیر کے ساتھ ہو اس لیے تو پوچھ رہا ہوں۔۔ خیر مکینک لے آیا ہوں وہ دیکھ لے گا کیا ہوا ہے گاڑی کو۔۔" وہ احسان جتانے کے انداز میں بولا تھا۔۔ کبیر نے ناگواری سے اسے دیکھا اور مکینک کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔۔
"ویسے بڑا ہی کوئی پیچیدہ مسئلہ لگ رہا ہے۔۔" عالیان نے کہا تو انابیہ کی ہنسی چھوٹی۔۔ دونوں نے ناسمجھی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔ ان دونوں کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ ایک دم سیدھی ہوئی۔
"ایک منٹ ایک منٹ۔۔ مت کہنا انابیہ اس سب میں تمہارا ہاتھ ہے۔۔" عالیان کو شک تو اس کی ہنسی سے ہو ہی گیا تھا لیکن اس کے مطابق منہ سے اعلان کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔۔ انابیہ نے فوراً سے اسے کہنی ماری۔
"فضول کے اندازے نہ لگائو۔۔ مم۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔۔" وہ صاف مکر گئی تھی۔
"جھوٹی اس بیچارے کی گاڑی تم نے خراب کی ہے تمہاری یہ شکل بتا رہی ہے۔۔" عالیان شرارت بھرے انداز میں اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑا گیا تھا۔
"کیا یہ واقعی تم نے کیا ہے؟؟" کبیر بےیقینی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"ہاں۔۔ میرا مطلب نہیں میں کیوں۔۔کروں۔۔ گی؟" وہ بوکھلا کر رہ گئ۔ اس کے انداز سے سچ واضح تھا کہ گاڑی اسی نے خراب کرائی ہے۔۔ کبیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا تھا۔ کچھ کہنے کے لیے وہ اس کی طرف بڑھا تو وہ عالیان کے پیچھے چھپ گئ۔
"اچھا چھا یار کیا بچی کی جان لو گے۔۔" وہ فوراً آگے ہوتے ہوئے بولا۔
"کوئی یقین کرے گا یہ اس بچی نے کیا ہے جو سارا دن بڑے بڑے لوگوں سے بزنس ڈیلنگ کرتی ہے۔۔" کبیر کا پارا واقعی میں ہائی ہوا تھا۔
"لوگوں کا تو نہیں پتہ لیکن ہاں تمہیں جیسے ڈیل کرتی ہے نا واللہ کمال کرتی ہے۔۔" عالیان کا انداز مذاق اڑانے والا تھا۔ انابیہ کی پھر سے ہنسی چھوٹی تھی۔
"صاحب یہ ورکشاپ پر لے جانی پڑے گی۔۔ فلحال تو ٹھیک ہو گئ ہے لیکن دوبارہ خراب ہو سکتی ہے۔۔" تینوں ایک ساتھ مکینک کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
"دیکھ لو تمہاری اس کزن نے کس مشکل میں ڈال دیا ہے مجھے۔۔۔" کبیر افسوس سے بولا۔
"دوست بھی۔۔" عالیان فوراً کھنکھارا۔۔ “ یار انابیہ ایسا بھی کیا کیا ہے تم نے؟؟"
"میں نے نہیں کیا میں نے تو اس چوکیدار کو بولا تھا پتہ نہیں منحوس نے ایسا بھی کیا کر دیا۔ میں چاہتی تھی کبیر کے ساتھ تھوری دیر اور وقت مل جائے۔۔۔" وہ سرگوشی نما انداز میں بول رہی تھی۔۔ عالیان گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔
"تم جائو اپنی اس دوست کو لے کر۔۔ میں اس کا کچھ کرتا ہوں۔۔" اس نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غصے سے کہا تو عالیان اس کا ہاتھ پکڑتے لے کر جانے لگا۔
"اسے اکیلا چھوڑ کر کیسے چلی جائوں۔۔" اس نے فوراً اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے تقریباً بےبسی سے کہا۔۔
"او میڈم ایک تو اسے اس مصیبت میں تم نے خود پھنسایا ہے اور وہ کوئی فیڈر پیتا بچہ نہیں ہے سنبھال لے گا سب۔۔ شرافت سے گاڑی میں بیٹھو۔۔" اس کے کہنے پر انابیہ نے ایک نظر کبیر کو دیکھا اور ناچاہتے ہوئے بھی گاڑی میں بیٹھ گئ۔ عالیان سیدھا کبیر کی طرف گیا تھا۔ اپنے پیچھے کسی کو محسوس کرتے ہی کبیر پیچھے کی طرف گھوما جدھر عالیان کھڑا مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا ۔
"مسٹر کبیر۔۔ آج تو ہو گیا آیندہ تم اتنی سختی سے بات نہیں کرو گے انابیہ سے۔۔ کم از کم میرے سامنے تو بہت احتیاط کیا کرو۔۔ میں قطعاً برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی اس سے یوں اونچی آواز میں بات کرے۔۔" عالیان بظاہر تو مسکرا رہا تھا لیکن اس کا انداز سخت تنبیہی تھا۔ کبیر نے ایک ابرو اچکا کر اسے سر تا پیر گھورا۔۔
"پہلی بات تو میں تم سے ڈرتا تو بلکل بھی نہیں ہوں۔۔ دوسری بات مجھے لیکچر دینے کے بجائے اسے سمجھائو۔ یہ کراچی ہے اور یہاں راتوں کو کچھ بھی ہو سکتا ہے کچھ بھی۔۔ ایسی حماقتوں سے اجتناب ہی کرے تو اچھا ہے۔۔ سمجھے۔۔ اب نکلو اسے لے کر۔۔" کبیر اسی کے انداز میں اسے جواب دیتے ہی گاڑی کی طرف گھوم گیا۔۔ عالیان کے چہرے پر اب مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی تھی۔۔ رہی بات انابیہ کی تو اسے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا اندازہ بلکل بھی نہیں تھا۔۔ وہ اب بھی سامنے کے شیشے سے اسے ہی دیکھ رہی تھی تبھی کبیر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اب کی بار اس کی آنکھوں میں غصہ نہیں تھا وہ فوراً مسکرا اٹھی۔ کبیر سر جھٹک کر اپنی گاڑی کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔
●●●●●●●●●●●●●●●
وہ اس وقت اپنے کمرے میں صوفہ کم بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا تبھی اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے لیپ ٹاپ رکھا اور اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ دروازہ کھولتے ہی وہ سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹکا۔ ردا ہاتھوں میں بڑی سی ٹرے لیے کھڑی تھی جس پر کھانے کی چیزیں تھیں۔
"آپ نے کھانا نہیں کھایا تو سوچا کمرے میں پہنچا دوں۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہی تھی۔ عالیان کو پل بھر کے لیے کچھ سمجھ نہیں لگی۔ یہ لڑکی اسے کبھی کبھی واقعی حیران کر جاتی تھی۔۔
"کھائیں گے کہ نہیں؟؟" وہ اسے کہیں کھویا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگی۔ عالیان نے جھرجھری لے کر اسے دیکھا۔
"کیا ضرورت تھی شہناز کو بول دیتی خوامخواہ تکلیف کی۔۔" اس نے بولتے ہوئے آگے ہو کر اس کے ہاتھوں سے ٹرے لے لی۔ ردا کچھ نہیں بولی۔ عالیان ٹرے لے کر اندر چلا گیا۔ اس نے جھک کر ٹرے ٹیبل پر رکھی اور دروازے کی طرف گھوما۔ اب کی بار وہ پھر سے حیران ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا وہ چلی گئ ہوگی لیکن وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔
"تمہیں کچھ کہنا ہے؟؟" اس نے پوچھا۔۔ ردا نے بنا کچھ کہے کسی چھوٹے بچے کی طرح سر اوپر نیچے ہلایا اور اس سے پہلے عالیان کچھ اور کہتا وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے اندر آگئ اور سیدھا بیڈ کے کنارے آکر بیٹھ گئ۔ عالیان وہیں اس سے دور پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔ ردا کی نظریں اس کے روشن کمرے کا سفر کرنے لگیں۔ اس نے آج پہلی بار اتنا غور سے اس کا کمرہ دیکھا تھا وہ واقعی نہایت سادہ مگر خوبصورت لگتا تھا۔۔ عالیان نے اسے دیکھا۔
"بلیک اور گرین کا کومبو اچھا ہے نا۔۔" ردا نے اس کی آواز پر نظریں سیدھی کر کے اسے دیکھا اور نا سمجھی میں ہی سر ہاں میں ہلایا۔۔ سمجھ اسے کھکھ نہیں لگی تھی۔ عالیان اس کی اس نا سمجھی پر اپنی ہنسی دبانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔
"آپ کھانا کھا لیں ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔" اس نے ہاتھ سے کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"تم بولو میں کھالوں گا۔۔" ردا نے ہاتھ جھولی میں باندھ لیے تھے اور اب اس کی نظریں بھی جھکی ہوئی تھیں۔ بہت ہمت مجتمع کرکے آخر اس نے بولنا شروع کیا۔
"تایا ابو میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔" اس نے بمشکل کہا عالیان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ایسے جیسے کہہ رہا ہو اچھا تو یہ وجہ تھی۔
"تو تم نہیں کرنا چاہتی؟؟" وہ پوچھ رہا تھا۔ ردا نے پھر سر اثبات میں ہلایا۔۔ "کیوں؟؟" عالیان نے آگے ہو کر چاولوں کی پلیٹ اٹھا لی۔
"بس نہیں کرنا چاہتی وجہ مجھے بھی نہیں معلوم لیکن مجھے شادی نہیں کرنی۔۔۔"
"انکار کی کوئی نا کوئی وجہ تو ہوتی ہے۔ یا سٹڈیز کا مسئلہ ہوتا ہے یا۔۔۔" وہ رک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"یا؟؟" وہ بھی ناسمجھی سے اسے دیکھے گئ۔
"دل کا۔۔ یا دل کا مسئلہ ہوتا ہے۔۔ لیکن جہاں تک میرا خیال ہے تمہیں ایسی کوئی بیماری فلحال لاحق نہیں ہوئی۔۔" اس نے کہتے ساتھ چاولوں سے بھرا چمچ منہ میں ڈالا۔۔ ردا نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں اس ڈر سے کہیں وہ اس کی آنکھوں میں چھپی کہانی نہ پڑھ لے۔
"آپ بس تایا ابو کو سمجھائیں۔۔ وہ آپ کی سن لیں گے میری نہیں مان رہے۔ مجھے شادی نہیں کرنی۔ میں اس گھر سے کہیں نہیں جانا چاہتی۔۔" عالیان اگلا چمچ منہ میں لے جاتے لے جاتے رکا اور پھر وہ چمچ پلیٹ میں رکھ کر ردا کی طرف متوجہ ہوا۔
"اچھا تو یہ مسئلہ ہے۔۔ اس کا تو حل ہے میرے پاس۔۔ تم مجھ سے شادی کر لو تمہیں کہیں نہیں جانا پڑے گا۔۔" وہ اتنا روانی میں بولا تھا کہ ردا منہ کھولے اور آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھے گئ۔۔ یہ کیسا پروپوزل تھا؟ بلکہ یہ احسان کی ایک اور کوشش تھی۔ وہ پھر اس پر احسان کر رہا تھا کیا وہ اسے مظلوم لگ رہی تھی اور وہ اس پر ترس کھا رہا تھا؟؟۔ ردا کے تو مانو یہ بات سر پر جا لگی تھی اور وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھی۔
"آپ نے یہ بات سوچی بھی کیسے؟؟" اس کی آواز قدرے اونچی تھی۔۔ "مجھ پر کوئی احسان کر کے قربانی کا بکرا بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ آپ کو بہت شوق ہے نا احسانات اور ایڈونچرز کرنے کا تو براہ مہربانی اپنے سب احسانات کسی اور کے لیے سنبھال کر رکھیں کیونکہ میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ مجھ پر احسان مت کیا کریں۔۔ سمجھے آپ۔۔" اس کا چہرہ اب کے غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ عالیان نے سر نفی میں ہلا کر اسے دیکھا۔
"دیکھو میں کوئی احسان نہیں کر رہا میں تو بس۔۔"
"میں تو بس کیا؟؟ ترس کھا رہے ہیں آپ مجھ پر۔۔ میں کوئی مظلوم ہوں جس پر آپ رحم کھا رہے ہیں۔۔" وہ تیزی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔ " میں آپ سے ریکویسٹ کرنے آئی تھی۔۔ مشورہ مانگنے نہیں۔۔ اپنے یہ تھرڈ کلاس مشورے آپ اپنے پاس ہی رکھیے۔۔" وہ کہتے ساتھ واپس جانے کے لیے گھومی اور پھر رک کر دوبارہ اس کی طرف پلٹی۔
"ایسی کوئی بھی بات اپنے منہ سے نکالتے ہوئے آئندہ ہزار بار سوچئے گا۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں طیش سے دیکھ کر بولی اور تیز تیز قدم لیتی وہاں سے نکل گئ۔ اس کے جاتے ہی عالیان نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔ شاید اس کا طریقہ واقعی غلط تھا۔۔ وہ کب سے صحیح وقت کا انتظار کر رہا تھا اور یہ صحیح وقت نہیں تھا۔ اس نے معاملہ غلط وقت پر مزید بگاڑ دیا تھا۔
"مجھے انتظار کرنے آتا ہے ردا۔۔" وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔۔ ایک نظر اپنے سامنے پڑے کھانے کو دیکھا۔۔ اس کی بھوک تو مر ہی گئی تھی۔۔ اس نے سر صوفے کی ٹیک پر گرا دیا اور آنکھیں موندے گہری سوچ میں چلا گیا۔
●●●●●●●●●●●●●
جاری ہے۔۔۔۔۔۔