وہ اس وقت شارجہ کے ایک شاپنگ مال میں موجود تھا۔ مٹیالے رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ ہلکے نیلے رنگ کی پینٹ پہنے اور ہیڈفونز گردن میں لٹکائے سر پر پی کیپ پہنے چہرے پر ماسک چڑھائے وہ سامنے دیکھتے ہوئے چلتا جا رہا تھا اسی دوران اس کا فون بجنے لگا۔ جیب سے فون نکال کر کال اٹینڈ کی اس سے پہلے کچھ بولتا عابد کی غصیلی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
"کہاں ہو تم؟؟" وہ کافی غصے میں تھا۔
"آ آ آ۔ مال میں ہوں۔۔" عالیان ڈرتے ہوئے بولا۔
"یو۔۔۔" عابد کچھ کہتے کہتے رکا۔۔"تمہیں منع کیا تھا میں نے گھر سے مت نکلنا۔۔ سمجھ نہیں آتی ۔۔"
"یار میں تنگ ہو گیا تھا۔۔ تو سوچا تھوڑا شارجہ ہی دیکھ لوں۔۔" معصومانہ انداز سے کہتے وہ اب لفٹ میں داخل ہوا۔
"حد کرتے ہو تم۔۔ جانتے ہو نا ایما اور مظہر کے پالتو کتے تمہیں ڈھونڈنے میں لگے ہیں ۔۔ خیر پارکنگ ایریا میں پہنچو۔۔ آئی ایم کمنگ۔۔" کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی۔ عالیان نے کان سے فون ہٹا کر اسے دیکھا اور ایک گہری سانس لی ۔ سر جھٹک کر اس نے ہیڈ فونز اپنے فون سے کنیکٹ کیے اور کانوں پر چڑھا لیے۔ کچھ دیر میں وہ پارکنگ ایریا میں پہنچ کر سیدھا اپنے ہیوی بائیک کی طرف بڑھا جو اسے عابد نے دی تھی اور پھر ایک آواز پر رکا جو اس کی پشت سے آئی تھی۔ وہ ہکا بکا کھڑا رہا مڑنے کی ہمت اس میں نہ ہوئی۔ میوزک کی آواز قدرے آہستہ تھی اسی لیے وہ آس پاس کی آوازیں با آسانی سن سکتا تھا۔
"تمہیں کیا لگا میں تمہیں ڈھونڈ نہیں سکوں گی۔۔" عالیان نے گردن گھمائی تو سامنے کھڑی ایمان درانی کو دیکھا جس کی سرخ آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں کہ آج وہ سب تہس نہس کر دے گی۔ عالیان نے اس کے ہاتھ میں پسٹل دیکھا اور پھر اس کے ساتھ کھڑے دو چوڑی جسامت والے گارڈز کو۔ آنکھیں چھوٹی کیے انہیں گھورتے گھورتے اس نے ہیڈ فونز کانوں سے ہٹا کر گردن پر لٹکا لیے۔
"بتائو عالیان کیا سمجھا تھا تم نے ایما کو دھوکہ دینا آسان ہے؟" وہ ایک بار پھر چیخی۔ عالیان کچھ نہیں بولا یا شاید بول پا ہی نہیں رہا تھا۔
"کیوں کیا تم نے ایسا ہاں۔۔ سب کتنا اچھا چل رہا تھا۔ ایک اچھی زندگی گزار رہے تھے ہم۔۔ تم نے بھاگ کر سب تباہ کر دیا۔۔" وہ قدم اٹھاتے اس کے قریب آئی۔ عالیان کی نظریں اس کی سرخ آنکھوں پر جمی تھیں۔ پھر اس نے دیکھا ایما نے پسٹل کا رخ اس کی طرف کیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔
"میں چاہوں نا تو اس پسٹل کی ساری گولیاں تمہارے سر میں اتار دوں۔۔" عالیان یک ٹک اسے دیکھے گیا۔ "لیکن میں ایسا نہیں کروں گی آخر دن رات گزرے ہیں تمہارے ساتھ میرے۔۔ مجھے دھوکہ دے کر تم نے اچھا نہیں کیا عالیان اپنی زندگی مشکل بنا دی ہے تم نے۔۔" ایما عجیب طرح سے مسکرائی جبکہ عالیان کے چہرے پر خوف تھا۔ پارکنگ ایریا میں ایک اور گاڑی سپیڈ میں داخل ہوئی۔ ٹائروں کی آواز اور اڑتی دھول پر ایما نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا۔ عابد گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور بڑے اطمینان سے گاڑی سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا۔
"ایما ایک سوال کا جواب دو۔۔" وہ وہیں دور سے کھڑے کھڑے پوچھنے لگا۔ وہ مسکرا بھی رہا تھا جیسے وہ فاتح ہو۔ ایما نے سر تا پیر اسے دیکھا۔ " دو زیادہ ہوتے ہیں یا چھ؟؟" ایما نے ناسمجھی سے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔ اسی دوران تین گارڈز دائیں اور تین بائیں طرف سے آئے۔ گارڈز کو دیکھتے ہی ایما کو جیسے اس کے سوال کی سمجھ لگی تھی۔ وہ عابد کی طرف ہی مڑی ہوئی تھی عالیان نے دائیں بائیں دیکھتے تیزی سے اس کے ہاتھ سے پسٹل جھپٹا اور اس کے سر پر تانے کھڑا ہو گیا۔ ایما نے بڑی بڑی آنکھیں کھول کر اپنے سامنے کھڑے عالیان کو دیکھا۔
"اپنے ان دونوں کتوں سے کہو ہتھیار ڈال دیں۔۔" عابد نے تیز آواز سے کہا۔ اسکی گاڑی تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھی اور وہ بڑے اطمینان سے تھا لیکن ایما نے کچھ نہیں سنا وہ بس عالیان کو دیکھے جا رہی تھی۔۔
"تم مجھے مارو گے اپنی بیوی کو؟؟" گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے ہوئے وہ بولی۔
"میں چاہوں نا تو اس پسٹل کی ساری گولیاں تمہارے سر میں اتار دوں۔۔ لیکن میں ایسا نہیں کروں گا آخر میرے دن رات گزرے ہیں تمہارے ساتھ۔" ایما کے الفاظ ہو بہو اسی طرح دہرائے ۔ایما نے باری باری اس کی کالی آنکھوں کو دیکھا۔
"میں تمہاری دنیا میں نہیں رہنا چاہتا ایما جائو اور مجھے میری زندگی میری دنیا میں گزارنے دو۔۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے آخری قتل کی وجہ تم بنو۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ایک قدم اٹھاتا اس کے سامنے آیا۔ ایما ساکت کھڑے بس اسے دیکھے گئ۔
"عالیان ہمیں جانا ہے۔۔۔" عابد دور سے بولا تو عالیان سر ہلاتے جانے لگا پھر اس کے کان میں جھک کر بولا۔ "میں جیتا تم ہاری۔۔" کہتے ساتھ وہ جانے لگا۔ ایما نے تیزی سے اپنے گارڈ سے پسٹل جھپٹ کر اپنی کنپٹی پر رکھا۔
"رک جائو عالیان۔۔" وہ دو قدم ہی چلا تھا پھر اس کی آواز پر رکا۔ پلٹ کر اس نے دیکھا تو جیسے ہل نہ سکا۔
"سب کہتے ہیں میں ایک سائیکو پیتھ ہوں صرف اس لیے کہ جس چیز کی چاہ کرتی ہوں اسے ہر حال میں حاصل کرنا چاہتی ہوں اور کرتی بھی ہوں۔" اس کی سرخ آنکھوں سے اب آنسو بہنے لگے تھے۔۔ "میں زندگی میں کبھی نہیں ہاری کیونکہ میں ہر چیز کو اپنا بنا سکتی ہوں چھین سکتی ہوں لیکن آج میں واقعی ہار گئ ہوں کیونکہ میں تمہیں اس دنیا سے نہیں چھین سکی۔۔" عالیان کے قدم ہلے۔۔ " اور چونکہ میں ایمان درانی اتنا برا ہاری ہوں تو مجھے جینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔"
"نو۔۔نو ایما ایسا مت کرو۔۔" عالیان کے چہرے پر خوف سا طاری ہو گیا وہ بس پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گیا۔۔
"ٹھیک ہے نہیں کرتی تم مت جائو۔۔ میں معاف کر دوں گی تمہیں ہم خوش رہیں گے۔۔ بس میرے ساتھ چلو پلیز۔۔" وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔ پسٹل اب بھی اس نے اپنے سر پر ہی تانی ہوئی تھی۔
"عالیان اس کی مت سنو۔۔ اس نے تمہیں تباہ کیا۔ تم نے خود کو بدلنا ہے ایک اچھی زندگی گزارنی ہے۔۔ آجائو۔ لیو ہر۔۔۔" عابد وہیں سے چیخ کر بولا عالیان نے گردن نہیں گھمائی۔
"مت جائو۔۔" وہی منت بھرا لہجہ۔۔ وہ دوبارہ عابد کی آواز پر پلٹا۔ اسے جانا تھا۔ لڑکھڑاتے ہوئے اس نے ایک قدم اٹھایا۔
"میں تین تک گنوں گی۔۔" اس کی آواز پر وہ پھر رکا۔ خوف کے مارے اس کا چہرہ اور جسم پسینے سے بھر گیا تھا۔
"ایک۔۔۔" وہ نہیں پلٹا ۔ ایک قدم بڑھایا۔ وہ بھاگ نہیں پا رہا تھا۔ عابد دور تھا۔ بس اسے رکنا نہیں تھا لیکن اس کے قدم ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ ایما کی سسکیاں اس کے کانوں سے ٹکرائیں۔
"دو۔۔۔" اس نے گردن سے ہیڈ فونز اوپر کر کے کانوں پر چڑھائے اور والیوم بڑھا لیا۔ ایک تیز میوزک اس کے کانوں کے پردے ہلانے لگا۔ اب نہ ایما کہ آواز تھی نہ کسی گنتی کی صرف تیز سے بھی تیز میوزک کی آواز تھی۔ وہ نہ ایما کو سننا چاہتا تھا نہ ہی کسی گولی کی آواز کو۔۔ اس کے قدموں کی رفتار تیز ہوئی تقریباً بھاگتے ہوئے وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے پیسنجر سیٹ پر بیٹھا۔ عابد کی رنگت سفید پڑ رہی تھی لرزتے ہاتھوں سے اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور بھگاتے ہوئے لے گیا۔ پیچھے کیا ہو صرف عابد جانتا تھا۔ گاڑی سڑک پر تقریباً بھاگ رہی تھی۔ عالیان نے ہیڈ فونز اتار کر اسی طرح گردن پر لٹکائے۔ اس کا سر پھٹ رہا تھا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا جسم لرز رہا تھا۔۔ بمشکل اس نے اپنے ہونٹوں کو جنبش دی۔
"کیا اس نے گولی۔۔۔"
"کچھ دیر میں تمہاری فلائٹ کا ٹائم ہو جائے گا۔ سب کچھ ریڈی ہے بس تم پاکستان جائو اور سب بھول جانا۔۔" نظریں سامنے سڑک پر مرکوز کیے وہ عالیان سے مخاطب تھا۔
"کیا اس نے۔۔" اس کا سانس وہیں اٹکا ہوا تھا۔
"تمہارا کچھ ضروری سامان گاڑی میں ہی ہے جاتے ہوئے ساتھ لے جانا۔۔" وہ اس کا سوال نظرانداز کر رہا تھا۔
"عابد مجھے بتائو۔۔۔"
"شٹ اپ عالیان کیا بتائوں؟؟ بھول جائو سب ۔۔" وہ تیزی سے بولا۔ عالیان نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔
"وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔۔" آنسو زاروقطار بہہ رہے تھے۔
"غلط تم صرف اس کے قیدی تھے۔۔ محبت زور زبردستی نہیں مانگتی۔۔ جو ہوا اسے ہونا تھا ۔۔"
"میں ساری عمر اس گلٹ میں رہوں گا وہ میری وجہ سے۔۔۔"
"تمہاری وجہ سے نہیں اپنی وجہ سے۔۔ وہ اپنی وجہ سے مری ہے عالیان۔۔ خود کو بلیم مت کرو۔۔"
"مگر عابد۔۔۔"
"اگر مگر کچھ نہیں۔۔ تم ٹھیک ہو جائو گے۔۔" عابد نے ایک ہاتھ سے اسے کندھے پر تھپکی دی۔ "تم ٹھیک ہو جائو گے۔۔" عالیان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور سر اثبات میں ہلایا۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا سب بھول جائے گا ہاں ایسا ہی ہوگا۔۔ خود کو تسلیاں دیتے اس نے اپنا بھیگا چہرہ ہاتھوں سے رگڑ کر صاف کیا اور شیشے سے باہر دوڑتی اونچی عمارتوں کو دیکھنے لگا۔ آسمان میں اندھیرا چھانے میں ابھی کافی وقت تھا۔۔
کچھ گھنٹوں کے جہازی سفر کے بعد وہ کراچی پہنچ چکا تھا۔ بجائے گھر جانے کے وہ سیدھا سمندر پر آیا تھا۔ ابھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ گھر جا کر ڈیڈ کا سامنا کرتا۔ اس کالی گھنی رات میں سمندر کی لہروں کا شور اس کے اعصاب کو سکون بخش رہا تھا۔ اس نے بازو ہوا میں پھیلا کر تیز چلتی ہوا میں آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لیے۔ یہ آب و ہوا اسے بہت مختلف لگ رہی تھی یا شاید ہر قیدی کو قید سے رہا ہو کر ایسی ہی لگتی ہے۔سچ کہتے ہیں سمندر کی لہروں سے خوبصورت راگ کوئی نہیں ہے۔ کچھ دیر اسی طرح کھڑا رہنے کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور سمندر کے سائڈ پر ٹھنڈے پانی میں ننگے پیر چلنے لگا۔ چلتے چلتے اس کی نظر سامنے کھڑی گاڑی پر رکی جو اس سے فاصلے پر کھڑی تھی۔ تھوڑا قریب جا کر اس نے دیکھا تو اس كى آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں کیونکہ وہ اسی کی سفید Honda civic کھڑی تھی۔
"میری گاڑی یہاں۔۔" اسے واقعی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھی۔ تیز قدم لیتے اس نے پیچھے جا کر نمبر پلیٹ دیکھی یہ اسی کی گاڑی تھی اب جیسے اسے پکا یقین آگیا تھا۔ وہ سوچوں میں گم ابھی اپنی گاڑی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا اس کا بازو پکڑ کر تیز تیز سانس لینے لگا۔ اس نے گردن گھما کر اسے دیکھا جس کے ماتھے پر ایک چوٹ کا نشان تھا جو شاید تازہ تھا۔
"صاحب جی ہماری مدد کرو۔۔" وہ دس سے گیارہ سالہ بچہ روانی میں بولتا گیا۔۔
"کون ہو تم اور کیا ہوا ہے؟؟" عالیان نے گھٹنوں کے بل جھک کر اس سے پوچھا۔
"ہم گجروں والا ہوں صاحب ۔۔ ہم کو چھوڑو ۔۔ وہ باجی کو بچا لو۔۔" وہ تیزی سے بولا۔ عالیان نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
"کون سی باجی؟؟"
"وہ جو اس گاڑی میں آیا تھا۔" رک کر اس نے اس گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔۔ " وہ ہر اتوار کو آتا تھا۔۔ آج بھی آیا تھا۔۔" عالیان کو کچھ سمجھ نہیں آئی اس کی گاڑی کسی لڑکی کے پاس تھی کیوں اور کیسے؟؟
"دیکھو مجھے تفصیل سے بتائو کون سی لڑکی ہے اور اس کو کیا ہوا ہے؟؟" اس نے دونوں ہاتھوں کو اس کے دونوں کندھوں پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ سبز آنکھوں والا باجی۔۔" عالیان صدمے کی حالت میں اس بچے کو دیکھے گیا۔ ذہن میں پہلا خیال ہی ردا کا آیا تھا مگر وہ یہاں کراچی میں؟؟ سر جھٹک کر وہ پھر بچے کی طرف متوجہ ہوا۔۔ " کوئی تین لوگ آئے تھے اس کو زبردستی لے کر جا رہے تھے اپنے ساتھ۔۔ ہم نے ان کو بچانے کی کوشش کی تو ہم کو زور سے مار کر دور پھینکا۔۔ اور پھر باجی کے سر پر بھی ڈنڈا مار کر ان کو لے گیا ساتھ۔۔" عالیان کا دماغ یک دم مائوف ہو گیا تھا۔ اعصاب شل تھے۔
"کہاں لے کر گئے ہیں کچھ پتہ ہے؟؟"
"ہاں صاحب جی ان کو لگا ہم بیہوش ہو گیا ہوں وہ کسی قریبی زیر تعمیر عمارت کا زکر کر رہے تھے ۔۔ ہم کب سے ادھر کسی کا انتظار کر رہا ہوں کوئی آیا ہی نہیں تم آئے تو ہم کو امید لگی اس کوبچا لائو۔۔" بولتے بولتے رک کر اس نے بائیں طرف ہاتھ لمبا کر کے اشارہ کیا۔۔ " ہم کو لگتا اس طرف تھوڑا آگے جو عمارت بن رہا ہے وہاں لے کر گئے ہیں تم جا کر دیکھ لو نا صاحب یا پولیس کو لےجائو۔۔"
"اور اگر وہاں نہ ہوئی تو۔۔۔"
"تم دیکھو تو صاحب جا کر کیا پتہ وہیں ہو۔۔ ہم سمجھ گیا تم ڈرتا ہے نا ۔۔ کوئی بات نہیں ہم چلتا ہے تمہارے ساتھ۔۔" عالیان نے عجیب شکل بنا کر اسے دیکھا۔۔
"اچھا میں دیکھتا ہوں اگر وہاں نہ ہوئی تو میں دوبارہ آئوں گا تم میرے ساتھ پولیس سٹیشن چلنا۔۔"
"ہاں تم ہمارا نمبر لکھ لو پھر ہم کو بتانا۔" کہتے ساتھ اس نے جیب سے چھوٹا بٹنوں والا موبائل نکال کر عالیان کو دکھایا۔ عالیان نے حیرت سے اسے سر تا پیر گھورا۔
"سم ہے اس میں؟؟" ایک ابرو اچکاتے ہوئے اس نے اس بچے سے پوچھا۔
"اور نہیں تو کیا سانپ والا گیم کھیلنے کے لیے رکھا ہے ہم نے۔ہونہہ۔۔ اور صاحب ایسے گھورو مت ہمیں اپنی محنت کے کمائی سے لیا ہم نے چوری کا نہیں ہے۔۔ بس اس میں بیلنس نہیں ہے ورنہ ہم خود کسی کو فون کر لیتا۔۔ لون بھی پہلے کا لیا ہوا ہے۔۔۔ تم جائو نا کتنا بولتے ہو۔۔ اب جائو بھی۔۔" ایک ہاتھ عالیان کے سینے پر مارا۔ عالیان نے تو اس باتونی بچے کو دیکھ کر جیسے کانوں کو ہاتھ لگایا اور سر اثبات میں ہلاتے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
"ہم کو فون کرنا۔۔" اس نے پیچھے سے پھر سے اسے پکارا۔ عالیان نے گردن گھما کر اسے دیکھا جو ہاتھ میں اپنا چھوٹا موبائل لہرا رہا تھا۔۔
" کمال ہے۔۔" کندھے اچکاتے اس نے اپنے جوگرز دوبارہ پہنے پھر گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیو کرتے وہاں سے اسی سمت گاڑی لے گیا جدھر اس بچے نے اشارہ کیا تھا۔ ڈرائیو کرتے ہوئے وہ مسلسل کسی کو کال ملا رہا تھا آخرکار اس کی کال اٹھا لی گئ۔ تھوڑی ڈرائیونگ کے بعد اسے وہ عمارت مل گئ تھی جو زیر تعمیر تھی۔ جس طرف وہ تھا وہ عمارت کا فرنٹ تھا سامنے ہی اسے ایک گاڑی کھڑی دکھائی دی یعنی وہ صحیح جگہ آیا تھا۔ گاڑی کو ریورس کرتے وہ عمارت کی پچھلے حصے کی طرف لے گیا۔ باہر نکل کر وہ اسی پچھلی سائڈ سے اندر داخل ہوا۔ اس کے بائیں طرف زینے اوپری منزل کی طرف جاتے تھے۔ وہ آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ اسے کچھ قدموں کی آوازیں آئیں۔ وہ تیزی سے سیمینٹ کی زینوں کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ سانس روکے بیٹھا تھا لیکن نیچے کوئی نہیں اترا ایک گہرا سانس لیا اور ہلکے ہلکے قدم لیتے زینے چڑھ کر اوپر جانے لگا۔ اوپر پہنچتے ہی اس نے دیوار کی اوٹ میں ہو کر سامنے دیکھا جہاں دو لڑکے کھڑے سیگریٹ سلگا رہے تھے۔ وہاں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ وہ بڑے آرام سے زینے اتر کر دوبارہ نیچے آیا۔
"پتہ نہیں یہاں وہ ہے بھی یا نہیں۔۔ کیا پتہ یہ مزدور لوگ ہوں۔۔" وہ سر پکڑے ایسے ہی ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا تو اس نے دیکھا تھوڑا آگے جا کر بائیں طرف بھی زینے تھے وہ ان کی طرف بڑھ گیا۔۔
"افف یہ کیسی جگہ ہے سمجھ ہی نہیں آرہی کہاں جائوں کہاں نہیں۔۔ بس بہت ہو گیا میں جا رہا ہوں یہاں سے۔۔" وہ اب اکتا کر جانے ہی لگا تھا کہ اسے ایک لڑکے کی چیخنے کی آواز آئی وہ فوراً دیوار کے پیچھے چھپ گیا۔ ایک دل کیا کہ اوپر جائے لیکن وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔۔ تھوڑا سا سر نکال کر اس نے سامنے زینیں پھلانگتے ایک لڑکی کو دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے سب کچھ جیسے سلو موشن میں ہونے لگا تھا۔ وہ ردا تھی کالے رنگ کا حجاب اوڑھے وہ تیزی سے زینے اتر رہی تھی۔ اس نے دیکھا وہ بجائے باہر جانے کے اندر کی طرف بھاگی شاید اسے راستہ صحیح سے نہیں معلوم تھا۔ عالیان پھرتی سے اپنی دوسری طرف گھوما جہاں دیوار میں ایک بڑا سا سوراخ سا بنا تھا وہاں ضرور کھڑکی بننی تھی۔ وہ وہاں سے باہر کودا اور گھوم کر دوسری طرف آیا جہاں مکمل اندھیرا تھا۔ تیزی سے اس نے بھاگتی ہوئی ردا کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھے دوسری طرف ہو گیا۔
●●●●●●●●●●●●●
موجودہ وقت:
اس نے گاڑی ایک تنگ گلی کے پرانے سے گھر کے سامنے روکی۔ آنکھوں پر سجائے سیاہ گلاسز اتار کر اس نے ڈیش بورڈ پر رکھے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ باہر نکلتے ہی اس نے ادھر ادھر نظریں گھمائی اور پھر کونے میں ایک پرانے سے گھر کی طرف بڑھا۔ اس نے خاکی رنگ کی آدھی آستینوں والی شرٹ اور کھلی نیلے رنگ کی جینز کی پینٹ پہن رکھی تھی۔ سورج کی روشنی میں اس کے کانوں کی بالیاں ویسے ہی چمک رہی تھیں اور گھنے گھنگھرالے بال ہنوز بکھرے بکھرے سے تھے۔ اس نے اپنا چہرہ بلیک ماسک سے ڈھک رکھا تھا۔ لکڑی کے بنے دروازے کے پاس ہی اسے اپنا مطلوبہ بندہ مل گیا تھا جس کی عمر لگ بھگ تیس سے پینتیس تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ بندہ اسے اندر لے جانے لگا۔
کچھ ہی دیر میں وہ انہی تینوں لڑکوں کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔ تینوں کے ہاتھ پیچھے کمر پر بندھے ہوئے تھے۔ اس اندھیر کمرے میں صرف ایک درمیان میں لٹکے ٹارچر بلب کی روشنی تھی۔ ان تینوں لڑکوں کی آنکھوں پر کالی پٹی بندھی تھی۔ وہ اب ماسک اتار چکا تھا اور سرد نگاہوں سے انہیں گھورے جا رہا تھا۔ اس کی نظریں ایک کے چہرے سے ہو کر دوسرے کے چہرے کے زخموں تک سفر کر رہی تھیں۔
"چلو بھونکنا شروع کرو۔۔" وہ اب کی بار ان کی طرف جھک کر بیٹھا تھا۔ تینوں کے کانوں تک جب اس کی آواز گئ تو ان کے جسموں پر حرکت طاری ہو گئ۔
"کون ہو تم ہاں؟ ہمیں یہاں ایسے کیوں باندھ رکھا ہے؟ ہماری آنکھوں پر پٹیاں کیوں باندھی ہیں بولو؟" درمیان میں بیٹھا لڑکا چیخ چیخ کر بول رہا تھا اور وہ کافی گھبرایا ہوا بھی تھا۔
"میں وہ ہوں جس کی ردا کو اغوا کر کے تم لوگوں نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے جس کا خمیازہ تم لوگوں کو اب بھگتنا پڑے گا۔" وہ دانت پر دانت جمائے باری باری ان تینوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔
"بھائی پہلے یہ بتائو آخر ردا کس کس کی ہے؟؟" اب کی بار آواز پہلے والے لڑکے کی تھی۔
"بکواس بند کرو۔ نہیں تو تمہاری ہڈیاں تک تمہارے باپ کو نہیں ملیں گی۔۔۔" اس نے آگے ہو کر اس کو گریبان سے پکڑ کر کھنچتے ہوئے کہا۔
"دیکھو ہماری کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہمارا کوئی لڑکیاں پکڑنے کا دھندا نہیں ہے۔ ہم تو اس بلڈنگ میں اپنے کام کے لیے جاتے تھے۔ ظفر ناجانے کہاں سے اس لڑکی کو اٹھا لایا۔۔ ہمیں بس کہا اس کا خیال رکھو اور پھر خود پتہ نہیں کہاں دفع ہو گیا ہمیں پھنسا کے۔۔" اب کی بار تیسرا لڑکا تیز تیز بولتا گیا۔ عالیان نے جھٹکے سے اس لڑکے کا گریبان چھوڑا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
"ہاں ہم تو سٹوڈنٹس ہیں یہ ایک ظفر ہی ہے جو باپ کی ڈھیل پر پتہ نہیں کیا کیا کرتا پھرتا ہے۔۔ ہم نے تو اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔"
"ہاتھ نہیں لگایا تو یہ حال ہے ہاتھ لگاتے تو یہ ہاتھ اپنے ہاتھوں سے توڑتا۔۔" عالیان سختی سے بولا تو پہلے والا لڑکا زور زور سے ہنسنے لگا۔۔
"اسے ہاتھ لگاتے تو تم تک پہنچنے سے پہلے وہ خود ہی ہمیں اوپر پہنچا چکی ہوتی۔ اففف اس آفت کی شاٹ!! آئوچ۔۔"یکدم ہی اس کے سوجے ہوئے منہ پر درد سا اٹھا۔ عالیان پہلے تو حیران ہوا اور پھر ہلکا سا مسکرا کر سر جھٹک کر رہ گیا۔۔
"اوو تو تم لوگوں کے منہ پر جو چوٹیں ہیں یہ ردا کی مہربانی ہے۔۔ سو سیڈ!!" وہ طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے بولا۔
"تو تمہیں کیا لگا تھا کہ ہم نے ایک دوسرے کی کٹائی خود کی ہے؟ہونہہ۔۔" پہلا لڑکا اس کے طنز پر خاصا بدمزہ ہوا تھا۔۔
"پکڑنا ہے تو جا کر ظفر کو پکڑو اور ہمارا بدلہ بھی لینا اس سے۔ ہمیں جانے دو۔۔"
"وہ تو اب ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکتا۔۔" عالیان کا دوست اندر آتے ہوئے بولا۔ "میرے ساتھ باہر آنا کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔" عالیان سر ہلاتا اٹھ کر اس کے ساتھ باہر جانے لگا۔
"نیوز دیکھی ہے تم نے؟؟" اس کے سوال پر عالیان نے تعجب سے اسے دیکھا اور سر نہ میں ہلا دیا۔
"صبح ظفر نے نامور ڈاکٹر سلیم کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔۔"
"واٹ!!" عالیان کافی حیران ہوا تھا۔
"پولیس گئ تھی حیدرآباد اس کے گھر مگر وہ نہیں تھا وہاں۔ اس کے باپ کا تو کہنا ہے کہ اسے نہیں معلوم وہ کہاں غائب ہے لیکن مجھے لگتا اس کے باپ نے ہی اسے غائب کرایا ہے خیر جو بھی ہے اب وہ جہاں بھی روپوش ہوا ہے کچھ سالوں تک تو سامنے نہیں آئے گا۔۔"
"اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ کچھ عرصے تک نہیں آئے گا؟"
"ظاہر ہے عالیان اس نے کسی مزدور کے بیٹے کو نہیں مارا ایک نامور ڈاکٹر کا بیٹا تھا وہ۔ اس کا منہ پیسے سے بند نہیں کیا جا سکتا۔ مشکل ہے اس نے خود کو برا پھنسایا ہے۔۔" اس نے آگے ہو کر عالیان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ " ردا کے لیے اچھی خبر ہے کہ اس کی جان چھوٹ گئ اس سے۔ وہ اس سے کسی بھی قسم کا کانٹیکٹ رکھ کر خود کو مصیبت میں تو ہر گز نہیں ڈالے گا اور تمہارے لیے بری خبر ہے کہ تمہارے ہاتھ نہیں لگ سکا وہ۔ اب یہ بتائو ان لڑکوں کا کیا کرنا ہے؟"
"انہیں چھوڑ دو۔۔" وہ مختصراً بولا۔
"سیریسلی؟؟" اس کے ساتھ کھڑے لڑکے نے تھوڑا حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
"اصلی مجرم آزاد پھر رہا ہے تو صرف ان کا کیا قصور ان کو بھی جانے دو۔ بٹ بی کئیر فل یہ تمھارا چہرہ نہ دیکھ پائیں۔ کسی ایسی جگہ چھوڑ دینا ان کو جہاں سے یہ اپنے گھروں کو چلے جائیں۔۔" وہ دونوں قدم اٹھاتے اب باہر گلی میں آگئے۔ وہ مافیا کی دنیا سے آیا تھا اور بہت کچھ سیکھ کر آیا تھا۔
"ڈونٹ وری عالیان۔۔ ایزی ہو جائو میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے کافی عرصے سے یہ کام کرتا آرہا ہوں۔ تم پریشان مت ہو۔ " وہ ہنستے ہوئے اسے تسلی دیتے ہوئے بولا۔
"تھینک یو سو مچ۔ میں تمہارا احسان نہیں بھولوں گا۔۔"
"کوئی بات نہیں یار۔ عابد کے بہت احسانات ہیں مجھ پر اس کے لیے کچھ بھی۔ آگے بھی تمہیں ایسے کاموں میں میری ضرورت ہو تو مجھے یاد رکھنا اور اپنی دعائوں میں بھی یاد رکھنا۔" عالیان نے مسکرا کر سر کو خم دیا اور مصافحہ کرتے اپنی گاڑی میں سوار ہو کر وہاں سے چلا گیا۔کل رات اس نے سب سے پہلے عابد کو ہی کال کی تھی تب اس نے کراچی میں اپنا کانٹیکٹ استعمال کر کے کچھ بندے عالیان کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔ جس گاڑی میں وہ یہاں آیا تھا یہ بھی اس کی اپنی نہیں تھی بلکہ اسی آدمی نے اس کے اپارٹمنٹ بھجوائی تھی۔
●●●●●●●●●●●
کراچی میں اگلی صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا اور آج کے دن بھی شدید گرمی تھی۔ انابیہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہو کر سیدھا ڈائیننگ روم کی طرف گئ۔ پورے گھر میں ناشتے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ شہناز ناشتہ ٹیبل پر لگا رہی تھی۔ اسی دوران ردا ناصر صاحب کی ویل چئیر گھسیٹتے ڈائننگ روم میں داخل ہوئی۔ انابیہ نے مسکرا کر ناصر صاحب کو دیکھا۔
"گڈ مارننگ تایا ابو۔۔" وہ کرسی کھینچتے ہوئے اس پر بیٹھ گئ۔
"گڈ مارننگ بچے۔۔ یونیورسٹی کے لیے تیار ہو؟؟"
"جی۔۔ تم کالج نہیں گئ؟؟" ناصر کو جواب دیتے ہی وہ ردا کی طرف متوجہ ہوئی۔ مناہل کالج جا چکی تھی جبکہ ردا آج بھی کالج نہیں گئ۔
"کچھ خاص نہیں ہے کالج میں فنکشنز چل رہے ہیں اس لیے نیکسٹ ویک سے جائوں گی۔۔" وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔ انابیہ نے کچھ دیر ایسے ہی اسے دیکھا شاید اس کے چہرے کے تاثرات اور اس کے کہے الفاظ کو ملانے کہ کوشش کر رہی تھی۔ سر جھٹک کر وہ ناشتے کی طرف متوجہ ہوئی۔ شہناز نے گرم گرم پراٹھے لا کر ٹیبل پر رکھے ۔
"جو کچھ تم نے مجھ سے کل کہا عالیان کے بارے میں۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے وہ سچ بول رہا ہے؟؟" ناصر نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم پیوست کیے کہنیاں ٹیبل پر ٹکائے انابیہ سے پوچھا تو اس نے نظریں اٹھا کر ان کو دیکھا۔۔
"آپ کو لگتا ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے؟؟"
"کیا پتہ۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولے۔ ردا ناشتہ شروع کر چکی تھی۔ نظریں جھکی ہوئی تھیں مگر اس کا دھیان صرف ان کی باتوں پر تھا۔
"وہ جھوٹ نہیں بول رہا تایا ابو۔۔ میں نے اسے روتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت میں تھی اس کے ساتھ۔۔ وہ واقعی اذیت میں تھا۔۔ کم از کم اس رات اس نے مجھ سے سب سچ کہا ہے۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔
"دو دن سے کہاں ہے وہ؟؟" تکلیف اب ان کے چہرے سے بھی واضح ہونے لگی تھی۔
"پتہ نہیں۔۔" وہ اب گلاس میں جوس انڈیل رہی تھی۔۔
"تمہاری بات نہیں ہوئی کیا اس سے؟؟"
"نہیں۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔
"تو کرو نا انابیہ۔۔ اسے واپس لے کر آئو۔ اسے کہو اس کے ڈیڈ اس سے شرمندہ ہیں۔۔" ان کی آواز نم ہونے لگی۔ انابیہ نے ان کی آنکھوں میں امڈتے آنسو دیکھے۔
"میں۔۔۔ میں کال کر کے پتہ کروں گی۔۔ آپ پریشان نہ ہوں میں لے آئوں گی اسے۔۔ اب آپ ناشتہ کریں کہ پھر میڈیسن بھی لینی ہے۔۔" وہ نرمی سے ان سے کہتی ردا کا چہرہ دیکھنے لگی جس پر اداسی سی چھائی ہوئی تھی شاید اب تک اس نے اس رات کی ٹینشن لے رکھی تھی۔ اس نے ناشتہ کر لیا تھا اور ایکسکیوز کر کے وہاں سے جانے لگی۔ انابیہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور ناگواری سے سر جھٹک کر جوس پینے لگی۔
کمرے میں آتے ہی وہ ادھر ادھر ٹہلنے لگی وہ انابیہ کو ظفر کے بارے میں سب بتا چکی تھی جس کی وجہ سے وہ اس پر کافی غصہ بھی تھی اور ٹھیک سے بات بھی نہیں کر رہی تھی۔ اس کا دل مزید بجھ گیا۔ اسی دوران اس کی توجہ اس کے بجتے ہوئے فون نے کھینچی۔ سامنے پھر ظفر کا نمبر تھا وہ نہیں اٹھانا چاہتی تھی لیکن باز وہ بھی نہیں آرہا تھا۔ غصے میں آخر اس نے کال اٹینڈ کی۔۔
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے میری۔۔۔" کال اٹینڈ کرتے ہی وہ ایک دم سے غرائی۔
"ردا ڈارلنگ۔۔ میری جان تم میں بسی ہے میں کیسے چھوڑ دوں۔۔۔" اس کی گندی ہنسی اور آواز ردا کے کانوں میں چبھنے لگی تھی۔
"بکواس بند کرو ورنہ میں تمہارا حشر کر دوں گی۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اغواء کرنے کی ہاں۔۔۔" وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی۔
"کاش کہ میں تمہارے سامنے آسکتا۔۔ کیا ہے نا میری جان بس ایک یا دو سال ۔۔ تمہیں میرا انتظار کرنا پڑے گا۔۔ پھر میں واپس آجائوں گا تم کہیں بھی جانے کی غلطى نہ کرنا ورنہ میں ظفر جہانزیب اپنی پری کو کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔۔۔" فون پر پھر سے اس کا قہقہہ گونجا۔۔
"جہنم میں جائو۔۔" غصے سے کہتے اس نے کال کاٹ دی۔۔ ذہن میں صرف ایک سوال تھا کہ یہ منحوس جا کہاں رہا ہے؟ اسی دوران بیل دوبارہ بجی اب کی بار کال اس کی دوست ارم کی تھی۔۔
"ہاں بولو کیا ہوا؟؟" وہ کان سے فون لگائے بیڈ پر بیٹھ گئ۔
"نہ سلام نہ دعا لگتا ہے موڈ بڑا سخت خراب ہے۔۔"
"دیکھو صبح صبح چک چک نہ کرو فون بتائو کیوں کیا ہے؟" اس کا موڈ واقعی میں ہی بڑا خراب تھا۔۔
"دو دن سے نمبر بند تھا تمہارا پریشان ہو گئ تھی۔ خیر میں نے تمہیں بتانا تھا تمہارے اس ظفر نے كل عمارہ کے بھائی کو مار دیا ہے۔۔" کتنے آرام سے اس نے اتنی بڑی بات کی تھی۔
"كيا!!!" وہ ہڑبڑا کر بیڈ سے اٹھی۔۔
"ہاں پولیس اس کے پیچھے پڑی ہے مگر اس کے باپ نے اسے غائب کرا دیا ہے اس لحاظ سے تمھارے لیے اچھی خبر ہے۔۔" اب اسے ظفر کی بات سمجھ میں آئی تھی۔۔
"مگر اس نے ایسا کیوں کیا؟؟"
"پتہ نہیں یار ہاتھا پائی ہو گئ تھی جانتی ہو نا دوست تھے دونوں ۔۔ اچھا چلو میں تمہیں پھر کال کروں گی۔ ابھی رکھتی ہوں۔۔" ردا بے چینی سے ادھر ادھر چکر کاٹنےگی۔ جو بھی تھا اس کی جان تو چھوٹی مگر عمارہ وہ اس کی دوست تھی اس لیے اس کا دل کافی خفہ تھا۔
"اففف ظفر تمہیں کبھی سکون نہ ملے۔۔" وہ ابھی بول ہی رہی تھی کہ انابیہ کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ اسے اگنور کرتی سٹڈی ٹیبل کی طرف آئی۔ وہ شاید اپنی کوئی کتابیں ڈھونڈ رہی تھی جو اسے نہیں مل رہی تھی۔۔
"کیا ڈھونڈ رہی ہیں مجھے بتا دیں۔۔" ردا کی آواز پر وہ کچھ نہیں بولی ۔ وہ محض اسے اگنور کر رہی تھی۔ پھر آخر اسے نیچے شیلوز میں میں سے ہی دونوں کتابیں مل گئ تھیں۔
"کب تک ناراض رہیں گی مجھ سے میں معافی مانگ تو رہی ہوں۔۔" وہ رندھی ہوئی آواز سے بولے جا رہی تھی لیکن انابیہ ہنوز اپنے کام میں مصروف تھی۔ "میں آپ سے بات کر رہی ہوں۔۔"
"تم مجھ سے بات کیوں کر رہی ہو؟؟" وہ ردا کی طرف گھومتے ہوئے غصے سے بولی۔" تمہارے نزدیک میری باتوں کی اہمیت جب ہے ہی نہیں تو بہتر ہے نہ تم مجھ سے بات کرو نہ میں تم سے۔۔۔" ردا کا دل مزید دکھی ہوا۔ وہ انہیں دکھی نظروں سے اسے دیکھے گئ۔۔ ایک تنبیہی نگاہ اس پر ڈالتے وہ وہاں سے جانے لگی تو پھر اس کے رونے کی آواز پر رکی۔
"مم۔۔ مجھے معاف۔۔ تو ۔ کر دیں۔ آئندہ نہیں۔۔ کروں گی۔۔" وہ مسلسل روتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے کہہ رہی تھی۔ انابیہ گہرا سانس بھر کر اس کی طرف گھومی۔
"رونا بند کرو۔۔" وہ اس کے سامنے جاتے ہوئے پھر سے تیزی سے بولی۔۔ ردا کی سسکیاں بندھ گئ اور جلدی جلدی اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔۔ "جب ہزار دفعہ منع کیا تھا کہ ردا گاڑی لے کر اکیلے مت جایا کرو تو کیوں نہیں سنتی تم میری؟؟ عجیب بلیک میلنگ ہے رونا شروع کر دیتی ہو۔۔" ردا کچھ نہیں بولی بس خاموشی سے نظریں جھکائے کھڑی رہی۔۔
"احمد اور ناہیدہ میرے بھی ماں باپ تھے مجھے بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا تمہیں ہے لیکن ردا یہ زندگی ہے اور یہ ظالم ہے اسے ڈھیٹوں کی طرح گزارنا پڑے گا۔۔" اس نے آگے بڑھ کر نرمی سے اسے کندھے سے تھاما۔
"ظفر کے بارے میں تم مجھے اسی وقت بتا سکتی تھی بجائے کچھ بتانے کے تم چپ چاپ سب برداشت کرتی رہی تم ایسی تو نہیں تھی ردا۔۔" ردا نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا جو پہلے سے زیادہ نرم دکھائی دے رہی تھی۔ "میں کم از کم خود کو اتنا نازک نہیں سمجھتی کہ میری بہن مجھ سے کچھ شئیر نہ کرے۔ میں اپنے پورے حواسوں میں ہوں۔ مجھے کوئی غم نہیں ہے کوئی ریگریٹ نہیں ہے میں بلکل نارمل ہوں۔ اس لیے اپنی پریشانی خود تک مت رکھو محض یہ سمجھ کر کہ انابیہ کے اپنے بڑے غم ہیں۔کیونکہ ایسا۔۔ بلکل ۔۔ نہیں ہے۔۔"
"آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ہے نا؟؟" وہ وہ اپنی تر آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"ہاں۔۔ یہ بتائو اس نے دوبارہ تمہیں کال کی؟؟"
"کی تھی۔۔ وہ ملک سے فرار ہو گیا ہے۔ میری فرینڈ کے بھائی کا قتل کیا ہےا س نے اب پولیس سے بھاگ گیا ہے۔۔ ڈرپوک ہونہہ۔۔۔"
"توبہ توبہ دونوں باپ بیٹوں کا سوائے خون خرابے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔۔ خیر یہ بتائو کالج کیوں نہیں جا رہی تم؟؟" اس کے سوال پر ردا کا دل ایک دم ڈوبنے لگا۔۔
"کس منہ سے جائوں لڑکیاں باتیں کرتی ہیں میرے بارے میں۔ ظفر میرے پیچھے کالج تک آجاتا تھا۔ سب کو لگتا ہے شاید میں کوئی غلط لڑکی ہوں۔ عجیب طرح سے دیکھتے ہیں۔۔میں کیا کروں؟؟" انابیہ اس کی بات پر جیسے سر جھٹک کر رہ گئ۔
"خود کو دوسروں کی نظر سے دیکھنا بند کرو۔ خود کو خود کی نظر سے دیکھو۔ دوسروں کی نظر سے دیکھو گی تو صرف عیب نظر آئیں گے کیونکہ دوسرے ہم میں صرف عیب اور خامیاں دیکھتے ہیں ان کو ہماری اچھائیاں کبھی نہیں دکھتی۔ تم جانتی ہو کہ تمہارا کوئی قصور نہیں ہے تم معصوم ہو تو تمہیں کسی کو صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ سر اٹھا کر چلو ردا۔ چھپتے وہ ہیں جن کا واقعی قصور ہوتا ہے اور کل سے تم کالج جا رہی ہو۔ سمجھی۔ اب چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے۔۔" وہ اس کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے وہاں سے چلی گئ۔ وہ ہمیشہ ایسی باتیں ضرور کرتی تھی کہ پھر ردا کو ماما جان یاد نہیں آتی تھی۔ اب اس کا دل مطمئن تھا ظاہر ہے اس کی بہن اس کی دوست اب اس سے راضی تھی۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
وہ اس وقت ہوٹل کے بالائی منزل کے اپارٹمنٹ کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ ہاتھ بڑھا کر گھنٹی بجائی اور پھر ایک قدم پیچھے ہوئی۔ دفعتاً دروازہ کھل گیا سامنے ہی عالیان اسے دیکھتے پہلے تو حیرت کا شکار ہوا لیکن اگلے ہی لمحے مسکرا گیا۔
"واٹ آ سرپرائز ۔ اندر آجائو۔۔" انابیہ ہلکا سا مسکراتے اندر جانے لگی۔ وہ ہمیشہ کی طرح عام سے حلیے میں تھی۔ پھولوں والے پیروں تک آتے لمبے فراک کے ساتھ سر پر ڈھیلا ڈھالا سکارف اوڑھے وہ اب اس کے اپارٹمنٹ کے اندرونی حصے کو آنکھیں گھما گھما کر دیکھ رہی تھی۔
"خوبصورت اپارٹمنٹ ہے۔۔ رینٹ پہ لیا ہے؟؟" وہ چلتے چلتے درمیان میں پڑے صوفے پر جا بیٹھی۔
"ہاں ظاہر سی بات ہے۔۔" کندھے اچکاتے وہ اب اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"پیسے ہیں تمہارے پاس؟؟" وہ تفتیشی نظریں اس پر ٹکائے پوچھنے لگی۔
"فکر نہ کرو مافیا کی حرام کمائی وہیں چھوڑ کر آیا ہوں۔۔ میرے دوست عابد نے دیے تھے مجھے کچھ پیسے۔۔ ویٹ۔۔ تم کچھ کھائو گی؟؟"
"تم مجھ سے چھین کے کھانے والے مجھ سے کھانے کا پوچھ رہے ہو۔۔ انٹرسٹنگ۔۔" رک کر تھوڑا مسکرائی۔ "خیر خوشبو تو اچھی آرہی ہے کیا بنایا ہے؟؟"
"پاستا۔۔ اٹالین پاستا۔۔ رکو میں لے کر آتا ہوں۔۔" کہتے ہی وہ اٹھ کر سیدھا اوپن کچن کی طرف گیا۔ انابیہ اسے آسانی سے دیکھ سکتی تھی۔ اس نے دو پلیٹس نکالیں اور باری باری ان میں پاستا ڈالنے لگا پھر ایک ٹرے پر دونوں پلیٹس رکھیں ساتھ میں دو کانچ کے گلاس بھی اور پھر فریج کی طرف بڑھا اس میں سے دو کینز نکالے اور ان کو بھی ٹرے میں رکھا اور ٹرے اٹھائے وہ اب اسکے سامنے پڑے گول کانچ کے ٹیبل پر رکھنے لگا۔۔
"اوہ۔۔ میں فورک تو لایا ہی نہیں۔۔" سر جھٹکتے ہوئے پھر سے کچن کی طرف گیا۔۔ یہ وہ عالیان نہیں تھا جو خوامخواہ میں اسے کال پر زلیل کر دیتا تھا یا اپنی فضول قسم کی پکچرز میں اسے ٹیگ کرتا تھا یا اس سے جھوٹ بولتا تھا۔ جس کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی بلکہ یہ تو وہ عالیان تھا جو اس کا دوست ہوا کرتا تھا یا شاید اس سے بھی بہتر۔۔انابیہ کو آج اتنے سالوں بعد اپنا پرانا دوست واپس مل گیا تھا۔
"کہاں کھو گئ؟؟" وہ اس کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولا۔ وہ ایک دم ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی اور پھر ہنستے ہوئے سر نفی میں ہلانے لگی۔۔" ٹیسٹ کر کے بتائو کیسا بنا ہے؟؟" وہ اب کین سے کولڈ ڈرنک گلاس میں ڈال رہا تھا۔ انابیہ نے فورک ہاتھ میں لیتے پاستا چکھا۔ وہ واقعی مزیدار تھا وہ بے یقینی سے اسے دیکھے گئی۔۔
"یقین نہیں آرہا تم نے بنایا ہے یہ۔۔ آئی مین مجھے لگا مجھ سے اچھا پاستا کوئی نہیں بنا سکتا۔۔" انداز جتانے والا بھی تھا۔
"کم از کم تعریف کر ہی رہی ہو تو صرف میری کرو نا خود کو کیوں گھسیٹ رہی ہو بیچ میں۔۔۔" وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر اپنی پلیٹ اچک کر سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"مافیا والے کوکنگ بھی سکھاتے تھے کیا؟؟" وہ طنزیہ انداز سے کہتے ہوئے پاستا کے مزے لے رہی تھی۔۔
"میں اس سے پہلے امریکہ میں بھی رہا ہوں میڈم اتنی کتنی کوکنگ تو کر ہی لیتا ہوں میں۔ " وہ کچھ دیر خاموشی سے کھاتی رہی وہ ڈائریکٹ یونیورسٹی سے یہیں آئی تھی اس لیے اسے بہت بھوک لگ رہی تھی۔
"ہممم۔۔۔ تم اپنی گاڑی نہیں لائے پورچ میں ہی کھڑی تھی۔۔" وہ پلیٹ دوبارہ سے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"جب اس گھر پر کوئی حق نہیں رہا تو وہاں کی گاڑی ساتھ کیوں لاتا۔۔" وہ دکھ بھرے انداز سے بولا۔
"یعنی تم کیب کا استعمال کرتے ہو۔۔ سوچ لو سارے پیسے ایسے ہی ختم ہو جائیں گے۔۔" وہ مسکراہٹ دبائے بولی۔
"نہیں میں جاب ڈھونڈ رہا ہوں۔۔" انابیہ نے برہمی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
"اس کی ضرورت نہیں ہے تایا ابو کی کمپنی تمھارے انتظار میں ہے۔۔" وہ سنجیدہ تھی۔
"مگر وہاں تم موجود ہو۔۔ ڈیڈ نے سب تمہارے نام کر دیا وہ تمہارا ہے۔۔"
"بلکل نہیں مجھ سے پہلے اس سب پر تمہارا حق ہے۔ میں سب تمہیں واپس کرنا چاہتی ہوں۔۔" اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"ڈیڈ کو تم پر بھروسہ ہے انابیہ۔۔ میں اس سب کے قابل نہیں ہوں۔۔ تم ہو۔۔ ویسے بھی میں اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتا ہوں اور اب اس بارے میں ہم بات نہیں کر رہے۔۔۔" وہ شہادت کی انگلی اٹھاتے تنبیہی انداز سے کہنے لگا۔ انابیہ نے جیسے ہار مانتے ہوئے گہرا سانس لیا۔
"تو پھر ٹھیک ہے ایک شرط ہے میری ۔" وہ ہاتھ سینے پر باندھے تھوڑا پیچھے ہو کر صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھی۔
"کیسی شرط؟؟" عالیان نے ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"یہی کہ تم جاب نہیں کرو گے۔ اپنا ایم-بی-اے کمپلیٹ کرو گے ۔۔"
"میں جاب کے ساتھ مینیج کر سکتا ہوں۔۔"
"بلکل نہیں تم صرف سٹڈیز کمپلیٹ کرو ورنہ اپنا سب کچھ واپس لے لو۔اور ہاں سامان پیک کرو ہم دونوں جا رہے ہیں۔۔"
"کہاں؟؟"
"گھر عالیان اور کہاں۔۔ میں نے تایا ابو کو سب بتا دیا ہے وہ تم سے شرمندہ بھی ہیں انہوں نے ہی بھیجا ہے مجھے۔۔"
"ڈیڈ نے خود کہا ہے؟؟" اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔ انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا اور آنکھ سے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
"جلدی کرو تمہیں گھر پہنچا دوں پھر آفس بھی جانا ہے مجھے۔ تمہاری طرح فارغ نہیں ہوں ۔۔" عالیان سر ہاں میں ہلاتے اٹھ کر اپنے کمرے میں گیا کچھ دیر میں وہ بیگ اٹھائے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
"تم نے مجھے معاف تو کر دیا ہے نا؟؟" انابیہ موبائل میں مصروف تھی۔ اس کے سوال پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"نہ کیا ہوتا تو یہاں ہوتی؟؟" کہتے ساتھ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ " دیر ہو رہی ہے۔۔" نارمل انداز سے کہتے وہ مڑی اور دروازے سے نکل گئ۔ عالیان کچھ پل ویسے ہی کھڑا رہا اور پھر بیگ گھسیٹتا اپارٹمنٹ سے نکل گیا۔
●●●●●●●●●●●●
وہ اس وقت کچن میں کھڑے کیتلی سے گرم گرم چائے کپ میں انڈیل رہی تھی۔ بھاپ اڑاتا کپ ہاتھ میں پکڑے کچن سے نکل کر لان کی طرف گئ۔ سامنے ہی حسن چاچا پودوں کو پانی دے رہے تھے۔ اپنا نام سنتے ہی انہوں نے گردن موڑ کر سامنے سے آتی سفید حجاب لپیٹے لڑکی کو دیکھا اور ہلکا سے مسکرائے۔
"یہ لیں چاچا آپ کی چائے۔۔" ردا نے کپ ان کے سامنے کرتے ہوئے خوش دلی سے کہا۔
"ارے چھوٹی بٹیا۔۔ آپ وقت کی کتنی پابند ہیں ذرا دیر سویر نہیں کرتی چائے لانے میں ۔ شہناز کو بول دیا کریں خود کو کیوں زحمت دیتی ہیں۔۔"
"جب چائے آپ کو میرے ہاتھوں کی پسند ہے تو میں شہناز سے کیوں کہوں بھلا۔۔ ویسے بھی آپ اس لان اور میرے پودوں کا اتنا خیال رکھتے ہیں تو ایک چائے بنانے میں مجھے کیوں زحمت ہو گی۔۔" وہ آگے ہو کر پھولوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگی۔
"میں اگلے مہینے گائوں جائوں گا تو اور بھی پودے لے آئوں گا آپ کے لیے۔۔" وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولے۔ ردا نے مدھم مسکراہٹ سجائے سر کو خم دیا۔ اسی دوران گیٹ سے ایک گاڑی اندر داخل ہوئی۔ ردا نے گردن گھما کر انابیہ کی گاڑی کو دیکھا تو چہرے پر بے پناہ مسکراہٹ سجی۔ گاڑی کے پچھلے دروازے کھلیں تو ایک طرف سے انابیہ اور دوسری طرف سے عالیان باہر نکلا۔ ردا کے چہرے سے مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔ عالیان نے نکلتے ہی نظریں ردا پر جمائیں تو وہ فوراً رخ موڑ گئ جبکہ انابیہ مکمل طور پر ہاتھ میں پکڑے موبائل میں گم تھی۔ وہ کچھ ضروری ای میلز چیک کر رہی تھی۔ بے اختیار اس نے گزرتے ہوئے چہرہ اٹھا کر عالیان کو دیکھا جس کی نظریں ردا پر جمی تھیں جو اس سے رخ دوسری طرف موڑے کھڑی تھی۔ ہلکی سی مسکراہٹ سجائے سر جھٹکتے ہوئے وہ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو گئ۔ عالیان وہیں کھڑا رہا سدھ بدھ۔۔
"چاچا کیا وہ دونوں اندر چلے گئے ہیں؟؟" وہ سرگوشی نما انداز میں حسن چاچا سے پوچھنے لگی۔
"نہیں عالیان بابا کھڑے ہیں۔( ایک تو چاچا کی آواز!!)۔آپ کو کچھ کہنا ہے؟ رکے میں ان کو بلاتا ہوں عالیان بابا!!!" ردا پر جیسے کرنٹ سا گزرا۔۔
"جی چاچا۔۔ بولیں۔۔" وہ وہیں کھڑے کھڑے بولا۔
"وہ چھوٹی بٹیا۔۔۔" ردا نے ہڑبڑا کر انہیں دیکھا "چاچا!!!" دبی دبی آواز میں غرائی اور لب بھینجتے انہیں گھورنے لگی۔۔ چاچا اس کا رویہ دیکھ کر ایک دم پریشان سے ہو گئے۔ اس نے کاٹدار نظروں سے انہیں گھورا۔۔
"بولیں بھی چاچا کیا ہوا؟؟" وہ گاڑی کا دروازہ بند کر کے اب قدم اٹھاتا ان کے قریب آنے لگا۔ ردا کی اس کی طرف پشت تھی اس لیے وہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
"وہ میں کہہ رہا تھا۔۔" ایک ڈرتی سہمتی نظر ردا پر ڈالی۔۔" کہ آپ کیسے ہیں؟؟" چاچا نے بات سنبھالی تو ردا نے گہرا سانس بھرا۔۔
"میں تو بلکل ٹھیک ہوں اور میرے کان بھی بلکل ٹھیک ہیں چاچا۔۔ آپ نے چھوٹی بٹیا کہا تھا کیوں؟؟" آواز اب ردا کے قریب تھی وہ سمجھ گئ کہ عالیان کہیں پیچھے ہی کھڑا ہے۔۔ خود کو کمپوز کرتے وہ تیزی سے اس کی طرف گھومی۔
"آپی کا پوچھ رہے تھے خیر ۔۔ آپ اندر چلیں یہاں کیوں کھڑے ہیں عالیان بھااا۔۔۔" رک کر ایک نظر چاچا کو دیکھا۔۔" بھائی۔۔تھک گئے ہوں گے۔۔" عالیان نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا اور سر اثبات میں ہلاتا وہاں سے جانے لگا۔ ردا نے گہرا سانس لیا اور اس کے پیچھے چل دی۔۔ چاچا دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
عالیان سیدھا ناصر کے کمرے کی طرف گیا تھا۔ دروازہ ادھ کھلا تھا۔ ڈور ناب پر ہاتھ رکھے اس نے ہلکے سے دروازہ کھولا۔ پورا کمرہ کھڑکیوں سے آتی روشنی سے روشن تھا۔ کمرے میں نظریں گھماتے ہوئے اسے دائیں طرف ناصر ویل چئیر پر بیٹھے دکھائی دیے۔ دیوار گیر تین لمبی مستطیل کھڑکیوں کا عکس ان کے چہرے پہ پڑ رہا تھا۔ آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ ایک کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔عالیان چھوٹے چھوٹے قدم لیتے ان کے قریب آیا۔ ناصر نے جھکی ہوئی نظروں سے اپنے قریب اس کے پیروں کو دیکھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر در آئی۔ کتاب بند کی اور آہستہ سے چہرہ اٹھا کر انہوں نے اس کو دیکھا جس کی آنکھیں نم تھیں۔
"بیٹھ جائو عالیان۔۔" ہاتھ لمبا کر کے انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا لیکن وہ وہیں فرش پر ان کی ٹانگوں پر سر رکھے بیٹھ گیا۔ ناصر نرمی سے اپنا ہاتھ اس کے بالوں میں پھیرنے لگے۔
"مجھے معاف کر دیں ڈیڈ۔۔ میں بہت برا بیٹا ہوں بہت زیادہ۔۔ میں نے ہمیشہ آپ کو دکھ دیے ہیں۔۔ ہر چیز کا ذمہ دار آپ کو ٹھہرایا میں نے۔۔" وہ پھر سے رونے لگا سسک سسک کے بلک بلک کے۔
"نہیں میری جان میں ہوں ہر چیز کا ذمہ دار مجھے تمہیں خود سے الگ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔۔ اس دن بھی میں نے تمہاری بات نہیں سنی اور تم کتنی مشکلوں سے ہو کر آئے ہو۔۔ مجھے تمہیں صفائی کا موقع دینا چاہیے تھا۔" ان کا دل بھاری ہونے لگا تھا آواز بھاری ہونے لگی تھی۔
"وہ سب مجھے سزا ملی ہے۔۔ میری غلطیوں کی بلکہ گناہوں کی۔۔ ڈیڈ میں گناہ گار ہوں ۔۔ میں سب کا گناہگار ہوں۔۔ میں نے سب کا دل دکھایا ہے۔۔ مجھے پتہ نہیں کیا ہوگیا تھا۔۔ میں اتنی راتوں سے سکون سے نہیں سویا ڈیڈ۔۔ مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جائوں گا۔۔"اس کی رندھی ہوئی آواز اب آہستہ آہستہ تیز ہونے لگی تھی۔" میرے دل پر بہت بوجھ ہے ۔۔ میرا دل بہت بھاری ہے میں کیا کروں جو اس کو سکون ملے۔۔"
"تم نماز نہیں پڑھتے نا عالیان ۔" عالیان نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔ "بتائو تم نماز نہیں پڑھتے نا۔۔" ان کے دوبارہ سوال کرنے پر عالیان نے سر نفی میں ہلایا۔
"تمہیں یاد ہے راحیلہ کیسے تمہیں تیار کر کے میرے ساتھ مسجد بھیجتی تھی اور تم کتنا خوشی خوشی جاتے تھے حتیٰ کہ تم صبح بھی جلدی اٹھ جایا کرتے تھے اور میرے ساتھ فجر پڑھنے جاتے تھے اور اگر کسی دن میں سستی دکھا کر گھر میں نماز پڑھتا تو تم مجھے ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے کہ ہمیں نماز مسجد میں با جماعت ادا کرنی چاہیے ۔" عالیان کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگی مگر وہ ان کو سن رہا تھا۔
"راحیلہ کی روح کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی نا وہ ہم دونوں سے کتنا ناراض ہوگی نا۔۔ تم امریکہ جا کر اپنی ماں کی نصیحتیں کیسے بھول سکتے ہو ؟ تمہیں لگتا ہے کہ تمہیں سب سے نفرت ہونے لگی تھی ایسا نہیں ہے تمہیں صرف خود سے نفرت تھی۔ جو کچھ کیا تم نے خود کے ساتھ کیا۔ تم ایسی زندگی کی طرف چل دیے جس میں تمہیں لگا کہ شاید تمہیں سکون ملے گا لیکن تم نے خود کو مزید بےسکون کر دیا۔ "
"انسان کی سب سے بری عادت جانتے ہو کیا ہوتی ہے کہ وہ جب کسی نئے ماحول میں جاتا ہے تو خود کو اس ہی ماحول میں ڈھال دیتا ہے خود کو اسی ماحول کے لوگوں سے جوڑ لیتا ہےوہ نہیں دیکھتا کہ اس ماحول کا اس پر منفی اثر پڑے گا یا مثبت اور یہ کمزور انسان کی نشانی ہوتی ہے۔ بہتر اور مضبوط انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے والدین کی نصیحتیں کبھی نہیں بھلاتا خاص کر اپنی ماں کی۔جو نئے ماحول میں جا کر اپنا ماحول نہیں بھلاتا ۔ جو مثبت اور منفی میں فرق کرنا اچھے سے جانتا ہے۔ جس کا خود پر کنٹرول ہو تا ہے اپنی ذات پر اپنے نفس پر۔۔"تم کہتے ہو تمہیں سکون چاہیے تو سن لو تمہیں سکون صرف اللہ کی ذات سے جڑ کر ہی ملے گا۔۔۔" وہ اسے رسانیت سے سمجھا رہے تھے۔
"میں کیا کروں ڈیڈ کہ اللہ مجھے معاف کر دے؟؟"
"توبہ۔۔ سب سے پہلے تمہیں توبہ کی سیڑھی پر قدم رکھنا ہے۔ تمہیں اللہ تعالٰی سے اپنے ہر گناہ کی معافی مانگنی ہے۔ توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔۔"
"لیکن میرے گناہ بہت زیادہ ہیں۔ ان کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اگر میری توبہ کے لیے دروازہ نہ کھلا تو؟ اگر اللہ نے مجھے معاف ہی نا کیا تو؟"
"میں نے کہا نا توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں ان کے لیے جو سچے دل سے توبہ کرتے ہیں۔ اللہ کبھی بھی سچے دل سے توبہ کرنے والوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا وہ تو تھام لیتا ہے۔ توبہ کا موقع ہر کسی کو نہیں ملتا۔ ہدایت صرف ان کو ملتی ہے جو ہدایت کی چاہ کرتے ہیں یہ تم پر اللہ کا کرم ہے جو تم اپنی سب برائیوں کو ختم کر کے نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتے ہو۔"
"میں خود کو بدل لوں گا ڈیڈ۔ میں آپ کو آپ کا پرانا عالیان واپس کروں گا بلکہ اس سے بھی بہتر۔انشاءاللہ۔۔بس آپ میرے لیے دعا کریں۔ مُجھے آپ کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے بہت زیادہ۔۔"
"مجھے بہت خوشی ہے کہ تم واپس آگئے۔ " انہوں نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ لے کر پیار سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ وہ زخمی سا مسکراتے ہوئے ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل اب سکون میں تھا۔
●●●●●●●●●●●●●
اگلی صبح بھی گرمی شدید تھی۔ ردا کندھے سے بیگ لٹکائے سفید رنگ کا یونیفارم اور سفید ہی حجاب لئیرز کی صورت میں اوڑھے کالج کے لیے مکمل تیار دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پین سے وہ مسلسل کچھ لائنز کو انڈرلائین کرتے ہوئے تیز تیز قدم لیتے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
"چاچا گاڑی نکالیں مجھے دیر ہو رہی ہے۔" نظریں ہنوز کتاب پر جھکی ہوئی تھیں۔ عالیان جو مہرون ٹی شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے بلکل تیار ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ ردا کی آواز پر رکا۔ کوئی جواب نہ پا کر ردا نے چہرہ اٹھا کر سامنے گاڑی کا دروازہ پکڑے عالیان کو دیکھا تو لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکی۔
"حسن چاچا کہاں ہیں مجھے دیر ہو رہی کالج کے لیے امپورٹینٹ ٹیسٹ ہے میرا۔۔" وہ ماتھے پہ بل لیے بولی تو عالیان کندھے اچکا کر گاڑی میں بیٹھنے لگا۔
"ایک منٹ ایک منٹ۔۔" وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ عالیان بیٹھتے بیٹھتے پھر رکا ۔وہ بلکل اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔"آپ کو سمجھ نہیں آرہی مجھے دیر ہو رہی ہے اور آپ گاڑی لے کر جا رہے ہیں ۔۔حد ہے۔۔۔" وہ قدرے غصے میں بولی تو عالیان نے ایک ابرو اچکا کر اسے دیکھا اور پھر اپنی گاڑی کو۔
"ایکسکیوز می۔۔ یہ میری گاڑی ہے اور اب سے یہ میرے پاس ہی ہوگی۔۔ اب تک پتہ نہیں کیسے کیسے ہاتھوں میں رہی ہے(سر تا پیر ردا کو دیکھا) جو بیچاری کا یہ حال ہو گیا ہے۔" ردا نے تیوڑیاں چڑھا کے اسے گھورااور پھر گاڑی کو جو بظاہر توبلکل ٹھیک ٹھاک دکھائی دے رہی تھی۔۔
"او ہیلو۔۔ یہ بلکل ٹھیک ہے اور بہت اچھے سے خیال رکھتی تھی میں اس کا۔۔" وہ جتاتے ہوئے بولی۔۔
"میں نہیں مانتا کہ تم میری (اپنے سینے پر انگلی رکھی) یعنی عالیان کی گاڑی کا خیال رکھو۔۔ ایمپوسیبل۔" سر جھٹک کر ہنسا۔۔" یا تو تمہیں بتایا ہی نہیں ہو گا کہ یہ گاڑی عالیان دی نیسٹ کی ہے۔۔" استہزا سے کہتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ ردا پر تو جیسے کسی نے ٹھنڈا پانی پھینکا تھا وہ یکدم سیدھی ہوئی۔ دماغ میں صرف یہ سوال تھا کہ اسے کس نے بتایا کہ وہ اسے گھونسلے سے تشبیہ دیتی تھی بلکہ پورا کا پورا گھونسلا ہی کہتی تھی اور پھر سمجھ لگنے پر دانت پر دانت جمائے " بیڑا غرق ہو جائے منو تمہارا۔۔ اففف۔۔"
"اب ہٹو گی کہ میں دروازہ بند کر لوں۔۔۔" وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا وہاں کوئی تلخی کوئی سختی نہیں تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ردا خود اس سے لفٹ مانگے مگر وہ بھی ردا تھی۔ ٹیسٹ چھوڑ دے گی لیکن خو د عالیان سے ریکویسٹ تو کبھی نہیں کرے گی۔ قدم لیتے پیچھے ہٹ گئ۔ عالیان نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔
"اچھا رکو۔" ردا اس کی آواز پر پلٹی۔ " میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں ویسے بھی تمہارا میڈیکل کالج میرے راستے میں ہی پڑتا ہے۔۔" ردا نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔ وہ منہ پر انکار کر دینا چاہتی تھی مگر ٹیسٹ اففف ۔۔چھوٹے چھوٹے قدم لیتی وہ پیسنجر سیٹ پر جا بیٹھی بغیر کوئی بحث کیے۔ عالیان حیرت سے اسے دیکھے گیا۔ سب اس کی توقع سے ہٹ کر ہوا تھا وہ تو کسی اچھی خاصی بحث کی توقع کر رہا تھا۔
"ویسے میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تمہارا کچھ بھی نہیں لگتا۔۔ کچھ بھی۔۔ بھائی بھی نہیں ۔۔" لفظوں پر زور دیتے ہوئے وہ اس سے غالباً کل کی بات کر رہا تھا۔ ردا نے برہمی سے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ آخر مسئلہ کیا تھا اس شخص کے ساتھ؟؟ وہ گاڑی گیٹ سے باہر لے جا رہا تھا۔
"تو کیا کرتی حسن چاچا کے سامنے ڈھٹائی اور بدتمیزی سے آپ کا نام لیتی؟"
"اتنی تم تمیز والی۔۔ ہونہہ۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔
"کیا سوچتے وہ میرے بارے میں کہ اپنے سے پانچ سال بڑے آدمی کو کیسے نام سے پکار رہی ہے۔۔" سختی سے کہتی وہ رخ موڑ کر کھڑکی سے باہر سڑک کو دیکھنے لگی جبکہ عالیان نے تعجب سے اسے دیکھا۔۔
"کیا کہا تم نے آدمی؟؟ میں تمہیں آدمی دکھائی دیتا ہوں؟ ہوش کے ناخن لو لڑکی۔۔بائیس سال اور کچھ مہینے کے لڑکے کو تمہیں آدمی کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آئی۔۔" اس کا چہرہ واقعی غصے سے سرخ پڑنے لگا تھا۔ ردا نے رخ موڑ کر اس کی چبھتی ہوئی نظروں کو خود پر جمے دیکھا۔ " خود تو تم عورتوں کو عورتیں کہو تو آسمان سر پر اٹھا لیتی ہو۔۔" انداز طنزیہ تھا اور نظریں اب سامنے سڑک پر مرکوز تھیں۔
"ایک بات بتائیں یہ آپ کو مجھ سے اتنی نفرت کیوں ہیں ہر وقت کیوں کڑوے کریلے کی طرح مجھ پر ساری کڑواہٹ اتارتے رہتے ہیں؟؟" لہجہ تلخ تھا۔ عالیان یکدم سیدھا ہوا۔ اس کی سوئی لفظ نفرت پر اٹک گئی تھی۔ وہ اسے کیسے بتاتا کہ اس کی ڈکشنری میں ردا کے لیے نفرت کا لفظ تھا ہی نہیں لیکن اگلے ہی لمحے خود کو کمپوز کر گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے فلحال اس کی محبت کا علم ہو۔ اسے پہلے خود کو اس قابل بنانا تھا خود پر کام کرنا تھا خود کی اصلاح کرنی تھی۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا نظریں بھی سامنے سڑک سے نہیں ہٹائیں۔ ردا سر جھٹک کر دوبارہ رخ موڑ گئ۔
"ظفر کا کیا بنا؟؟" کچھ ہی منٹوں بعد وہ خاموشی توڑتے ہوئے پھر سے بولا۔
"اللہ کرے قبر بن جائے اس کی۔۔" وہ کتاب پر نظریں جھکائے تلخی سے بولی۔ اور چہرہ اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔۔ " میں آپی کو سب بتا چکی ہوں اگر آپ انٹرسٹڈ ہیں تو ان سے پوچھ لیں اور ایک اور بات بتا دوں وہ اب چاہے ایک سال بعد آئے یا دو سال بعد آئے اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔۔ اور ہاں آپی کو تو ان سب سے دور رکھئے گا۔ میں مزید اپنوں کو نہیں کھونا چاہتی۔۔ ایسے تو پھر ایسے ہی سہی۔۔" تنبیہی انداز سے کہتے وہ اب دروازہ کھول کر باہر نکل گئ اس کا کالج آچکا تھا عالیان بے یقینی سے اسے جاتا دیکھنے لگا۔ کیا اسے اس کی بھی پرواہ تھی؟ کیا وہ اسے بھی نہیں کھونا چاہتی تھی؟
"نہیں وہ سب کو نہیں کھونا چاہتی۔ آئی ایم ناٹ اسپیشل۔۔" زخمی انداز سے مسکراتے وہ اب گاڑی کالج سے دور لے جانے لگا۔
●●●●●●●●●●●●●
آج اتوار کا دن تھا اور سب لوگ گھر پر ہی موجود تھے۔ کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک تھی۔ بالکونی کا دروازہ بھی بند تھا اور پردے ڈوریوں میں بندھے تھے اس لیے شیشے سے آتی روشنی سے کمرہ روشن تھا۔ انابیہ فلور کشن پر لیپ ٹاپ گود میں لئے بیٹھی تھی اور ردا بیڈ پر بیٹھے موبائل سے ناول پڑھ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اس نے نظریں اٹھا کر بائیں طرف بیٹھی انابیہ کو دیکھا۔
"آپی آپ میرے لیے ایک نئی گاڑی کا بندوبست کر دیں پلیز۔۔" اس کی ریکویسٹ پر انابیہ نے برہمی سے اسے دیکھا۔ "عالیان نے اپنی گاڑی واپس لے لی ہے تو مجھے کالج آنے جانے کے لیے دوسری گاڑی تو چاہئیے ہو گی نا۔۔"
"بلکل نہیں میں تمہیں کوئی گاڑی نہیں لے کر دے رہی۔ شکر کہ تمہاری جان چھوٹی ڈرائیونگ سے اب میں بھی سکھ کا سانس لوں گی۔۔" وہ نظریں لیپ ٹاپ پر جھکائے اب کے درشتی سے بولی۔
"آپی!!!" ردا صدمے سے اسے دیکھے گئی۔۔
"ویسے بھی عالیان دے تو رہا ہے تمہیں پک اینڈ ڈراپ ۔ تمہارا کالج اس کی یونیورسٹی کے راستے میں ہی پڑتا ہے۔ ایڈمیشن ہو گیا ہے اس کا بھی۔۔" اب کی بار لہجہ نارمل تھا۔
"اور یہ پک اینڈ ڈراپ کی سروس مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔" وہ قدرے ناگواری سے بولی۔ " میں ایسے طنزیہ انسان کے ساتھ دس منٹ کی ڈرائیو بھی نہیں کر سکتی۔۔ آپ کو پتہ ہے (موبائل پرے پھینک کر آگے ہوئی) مجھے کہتا ہے کہ میں تمہارا کچھ نہیں لگتا نہ ہی بھائی نہ ہی کچھ اور۔۔ ہونہہ۔۔" انابیہ نے اس بات پر تیزی سے گردن اٹھا کر اسے دیکھا اوور اگلے ہی لمحے ہنس دی۔
"وہ تمہیں کہتا ہے کہ اسے بھائی مت بولو یہی نا؟؟" وہ مشکل سے اپنی ہنسی دبائے بولی۔ ردا نے پہلے تو عجیب طرح سے اسے گھورا۔
"جی نہ بھائی اور نہ ہی کوئی اور رشتہ۔۔ ان کے خیال سے میں ان کی کچھ نہیں لگتی۔ اب ایسے تو نہیں ہوتا نا اتنی نفرت کوئی بھلا کرتا ہے آخر میں انکی کزن۔۔۔" اس کے الفاظ منہ میں رہ گئے کیونکہ انابیہ پھٹ کر ہنس پڑی اور وہ صدمے سے اسے دیکھے گئ اسے واقعی اس کے اتنا زور زور سے ہنسنے کی سمجھ نہیں لگی۔۔
"سیریسلی ردا؟؟ اس نے تم سے کہا کہ اسے بھائی مت بولو اور تمہیں اب بھی لگتا ہے کہ تم اس کی کچھ نہیں لگتی۔۔" اس کی ہنسی نہیں رک رہی تھی جبکہ ردا کا خفت کے مارے چہرہ سرخ ہونے لگا تھا شاید بات کی تہہ تک وہ پہنچ چکی تھی لیکن انابیہ کے اگلے جملے پر اس کی ساری غلط فہمی یا شاید خوش فہمی دور ہو گئ۔۔
“اوکے اوکے سوری۔۔ اصل میں وہ صرف تم سے بدلہ لے رہا ہے ردا۔ جیسے اپنے گھر میں تم اس سے بدتمیزی کرتی تھی نا اب وہ اپنے گھر میں بس تم سے بدلہ لے رہا ہے تنگ کر رہا ہے تمہیں۔۔یو نو ایکشن کا ری ایکشن تو ہوتا ہے نا۔۔" اس کی ہنسی کنٹرول میں آگئ تھی۔
"لیکن میں نے معافی بھی تو مانگی تھی اور میرے گھر میں بھی ان کے طنز کا نشانہ میں ہی بنتی تھی۔۔" وہ سینے پر انگلی رکھتے ہوئے زور دے کر بولی۔۔
"اففوو تم اس کی باتوں کو اتنا سیریس نہ لو۔۔ ڈونٹ فورگیٹ وہ تمہیں پک اینڈ ڈراپ دے رہا ہے بہن۔۔"
"ہونہہ وہ صرف بدلہ لے رہا ہے۔۔" کہتے ساتھ وہ دوبارہ موبائل کی طرف متوجہ ہو گئ۔ اسی دوران ان کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ انابیہ کے یس کہنے پر عالیان اندر آیا۔۔ اس کو دیکھتے ہی ردا کے ذہن میں دو باتیں آئیں۔Think of the devil and the devil is here. “ ویسے آج گھونسلا دروازہ کھٹکھٹا کر آیا ہے کمال ہے۔۔"
"آئو عالیان کچھ کہنا ہے؟؟" وہ وہیں دروازے پر کھڑا تھا انابیہ کی آواز پر قدم اٹھاتا بیڈ کے اگلے کنارے تک آ کھڑا ہوا جہاں سے انابیہ اسے آسانی سے دکھائی دے رہی تھی۔ ردا کی نظریں موبائل پر ہی جھکی ہوئی تھیں وہ اسے اگنور کر کے یہ ثابت کرنا چاہ رہی تھی کہ کمرے میں کوئی تیسرا آیا ہی نہیں۔
"شاپنگ پر چلو گی میرے ساتھ؟؟" وہ عام سے لہجے میں بولا۔ ردا نے فوراً سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ انابیہ سے مخاطب تھا تو نظریں دوبارہ جھکا لیں۔
"نو تھینکس عالیان میرے پاس سب کچھ ہے۔۔ ڈونٹ فورگیٹ تم فلحال ایک غریب انسان ہو۔۔" وہ اسے محض تنگ کر رہی تھی۔
"ایکسکیوز می۔۔ میں اپنی شاپنگ کی بات کر رہا ہوں۔۔" وہ جیسے تصحیح کرتے ہوئے بولا۔۔
"اوووو۔۔" انابیہ نے لب گول کیے۔" میں اب بھی یہی کہوں گی ڈونٹ ویسٹ یور منی۔۔" وہ لیپ ٹاپ بند کر چکی تھی اور اب عالیان کی طرف متوجہ تھی۔۔
"کیوں اپنی مافیا کی حلال کی کمائی ساتھ نہیں لائے کیا؟؟" آواز ردا کی تھی جس کی نظریں ہنوز موبائل پر جھکی ہوئی تھیں۔ عالیان نے ایک نظر اسے گھورا اور پھر انابیہ کی طرف متوجہ ہوا۔
"پیسوں کی فکر کس کو ہے یو نو ایک بزنس وومین بیسٹ فرینڈ ہے میری۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ انابیہ نے آنکھیں چھوٹی کیے بغور اسے دیکھا۔۔"میری ساری پرانی شرٹس مجھے تنگ ہو گئیں ہیں اس لیے کہہ رہا ہوں۔۔" اٹلی میں پراپر جم کر کر کے وہ اب ایک طاقتور ورزشی جسامت کا مالک تھا۔
"ہمم۔ لگتا ہے مافیا والے صحت کا بھی بڑا خیال رکھتے تھے۔۔" بخشنا تو اس نے بھی نہیں تھا۔ طنز کرنے میں وہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ عالیان نے پھر سے اسے گھورا ۔
"اسے سب بتانے کی کیا ضرورت تھی؟؟" آواز تھوڑی سخت تھی اور نظریں انابیہ پر جمی تھیں۔
"کیا کر سکتی تھی اس کی نظر میں بھی تمہاری امیج خاصی بکواس بنی ہوئی تھی کلئیر تو کرنا تھا نا سب کچھ۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔
"یہ تم نے میری امیج کلئیر کی ہے؟؟ " وہ ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔
"اور کیا کیا سکھایا ہے مافیا والوں نے؟؟" وہ مسلسل پلکیں جھپکاتے ہوئے معصومانہ انداز میں بولی۔ عالیان کو اس وقت وہ واقعی بہت معصوم لگی۔ بجائے زچ ہونے کے وہ اب کی بار اسے دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرا دیا جبکہ اس کی مسکراہٹ دیکھتے ہی ردا ایک دم سیدھی ہوئی۔
"انتظار کرنا اور کسی کو بے انتہا یاد کرنا۔۔" وہ اس کی سبز آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ انابیہ مسکراتے ہوئے باری باری دونوں کو دیکھ رہی تھی اور پھر کھنکھار کے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ردا پر چھایا سکتہ ٹوٹا۔
"تم جائو ہم دونوں تیار ہو کر آتے ہیں۔۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے ہنسی دبائے بولی جبکہ ردا نے کرنٹ کھا کر اسے دیکھا۔ عالیان سر ہلاتے وہاں سے چلا گیا۔
"دونوں کس لیے انہوں نے صرف آپ کو آفر کی ہے۔۔" وہ اس کے جاتے ہی تیزی سے بولی۔۔
"تمہیں لگتا ہے اس نے صرف مجھے آفر کی ہے؟؟" ایک نظر ردا کو دیکھا اور وارڈروب کی طرف بڑھ گئی۔ وہ بیڈ پر بیٹھے بس خاموشی سے اسے دیکھے گئ۔ کیا تھا اور کیا نہیں تھا وہ عجیب کشمکش میں پھنس گئ تھی۔
●●●●●●●●●●●●
چئیر پر بیٹھے بیٹھے اس نے کتاب کھٹاک سے بند کی اور انگڑائی لیتے ہوئے پیچھے ہوئی۔ وہ سٹڈی روم میں بیٹھے کل کے ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی۔ سارا دن تو اس نے ناول پڑھنے میں ضائع کر دیا تھا اور ٹیسٹ یاد کیے بغیر وہ سونے والی تھی نہیں۔ ایک نظر سامنے دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھا۔ دو بجنے میں اب بھی دس منٹ باقی تھے۔ اسے تو لگا تھا جتنا لمبا اس کا ٹیسٹ ہے کم از کم تین بجے تک یاد ہوگا لیکن یہ تو جلدی ہو گیا۔ خود پر حیران ہوتے وہ چئیر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سٹڈی روم کی بتیاں بجھائی اور دروازہ بند کر کے سیدھا کچن میں چلی گئ۔ اسے بہت پیاس لگی تھی۔ فریج کا دروازہ کھول کر ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی اور گلاس میں پانی ڈال کر پینے لگی۔ پیاس بجھی تو اٹھ کر کچن سے نکلی اور اسی طرف کی سیڑھیاں عبور کرنے لگی۔ اوپر پہنچتے ہی اس نے دیکھا عالیان کے کمرے کا دروازہ آدھے سے زیادہ کھلا تھا ساری بتیاں جل رہی تھیں۔ اسے ایک بار پھر وقت یاد آیا اور حیران ہوئی کہ وہ اس وقت تک کیوں جاگ رہا ہے۔ بجائے اپنے کمرے کے وہ عالیان کے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔ باہر کھڑے کھڑے ہی اس نے چوری چھپے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر جو دیکھا اس کی وجہ سے وہ بری طرح چونکی۔ عالیان جائے نماز پر سجدہ ریز تھا۔ بلکل عام سے حلیے میں وہ ٹخنوں سے اوپر پانچے چڑھائے اب تشہد کی حالت میں بیٹھا تہجد کی نماز ادا کر رہا تھا۔ اس کے سلام پھیرنے تک وہ وہیں کھڑی رہی پھر جیسے ہی اس نے سلام پھیرا ردا تیزی سے پلٹی اور اپنے کمرے کی طرف دوڑ گئ۔ حیرت اپنی جگہ مگر وہ اسے نماز پڑھتے ہوئے اچھا لگ رہا تھا کاش وہ سلام نہ پھیرتا اور وہ اسے کچھ دیر اور دیکھ سکتی۔
“کیا ہو گیا ہے ردا؟" وہ اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی۔ رکھ کر اپنی پیشانی پر تھپڑ مارتے وہ کمرے کے اندر چلی گئ۔ انابیہ گہری نیند میں تھی۔ وہ چپ چاپ جا کر اس کے ساتھ بیڈ پر لیٹ گئ مگر صرف لیٹنے سے کیا ہوتا ہے نیند تو اس سے کوسوں دور ہو گئ تھی۔ اس کے دماغ میں ہر جگہ پر عالیان گھوم رہا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا جو باہر جا کر بلکل وہیں کے لڑکوں جیسا ہو گیا تھا۔ جو مختلف لڑکیوں کے ساتھ تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا تگا۔ ڈانس، ڈرنکنگ۔۔ بہت کچھ۔۔ وہ بہت عجیب عجیب کام کرتا تھا اور اب یوں اچانک وہ کافی پرانا عالیان دیکھ کر پریشان ہو گئ تھی یا شاید خوش بھی۔ وہ عالیان جس نے پانچ سال کی عمر سے ہی باجماعت نماز پڑھنے شروع کر دی تھی۔ دل بدلنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اللہ دلوں کو پھیرنے میں وقت نہیں لگاتا۔
●●●●●●●●●●●
لاہور میں بارش شدت سے برس رہی تھی۔ بجلی کی گرج چمک نے آسمان پر ایک شور سا برپا کر رکھا تھا۔ ایسے میں اس چھوٹے اور پرانے سے گھر میں ہر طرف اندھیرا تھا۔ بجلی نہیں تھی اور وہ گھپ اندھیرے میں ہاتھ میں پکڑی ٹارچ کی روشنی سے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ ٹارچ کی بیٹری ختم ہونے والی تھی ۔ایک دراز سے اسے اپنی مطلوبہ چیز مل گئ۔ وہ شمع تھی جس کے جلتے ہی کچھ کچھ روشنی ہو گئ۔ کچھ دیر وہ جھک کر ایسے ہی جلتی شمع کو دیکھتی رہی جس کے پیلے اور نارنجی عکس میں اس کا چہرہ واضح تھا۔ اس کی زرد پڑتی رنگت ، سوجی ہوئی آنکھیں اور ان کے گرد سیاہ حلقے۔۔ وہ بس ایسے ہی جلتی ہوئی مشعل کو دیکھتی رہی۔ اسی دوران اسے اپنے عقب سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ اٹھ کر سیدھی ہوئی اور آہستہ سے گردن گھمائی۔ سامنے کبیر کھڑا تھا ہاف وائٹ کرتہ شلوار پہنے۔ جویریہ کو اپنا سانس رکتا ہوا معلوم ہوا۔ بےساختہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹی اور تیزی سے سٹڈی ٹیبل کی طرف بھاگی۔ ٹیبل پر سے کیلنڈر اٹھایا اور اسے روشنی کی طرف لے گئ۔ تاریخ دیکھتے ہی وہ ایک بار پھر ٹھٹھکی۔ آج پندرہ تاریخ تھی اور وہ پھر آگیا تھا۔ وہ ہر مہینے کی پندرہ کو آجاتا تھا۔ اس کی رنگت سفید پڑنے لگی تھی اور آنکھیں خوف اور غصے سے سرخ ہونے لگی تھیں۔ اپنے ہاتھوں میں جکڑے کیلنڈر کو اس نے زور سے دیوار پر دے مارا۔
"کیوں آئے ہو تم؟ دفع کیوں نہیں ہو جاتے؟ میری جان کا وبال کیوں بن گئے ہو؟؟" وہ تیزی سے اس کی طرف گھومتے ہوئے بولی۔ کبیر سینے پر ہاتھ باندھے مطمئن سا کھڑا تھا۔" میں تمہیں بھولنا چاہتی ہوں۔۔ اس قصے کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔ تم کیوں روز مجھے تکلیف دینے آجاتے ہو؟" آخر میں اس کی آواز درد سے بھرنے لگی تھی۔
"میں تمہیں خود کو کبھی نہیں بھولنے دوں گا۔ تم مجھے یاد کرتی رہو گی جیسے میں اسے کرتا رہتا ہوں۔ تم ہر دن اس تکلیف سے گزرتی رہو گی جس سے میں گزرتا ہوں۔ تم ہر دن میرے لیے روتی تڑپتی رہو گی جیسے میں تڑپتا ہوں۔۔" اس کی باتیں جویریہ کے سر میں ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھیں۔
"نہیں ۔۔ یہ درد میری برداشت سے باہر ہے کبیر۔۔ مجھے بخش دو۔۔" وہ دونوں ہاتھوں کو اس کے سامنے جوڑتے ہوئے روتے سسکتے ہوئے بولی۔۔ کبیر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔۔
"پندرہ تاریخ کو وہ مجھے چھوڑ کر گئ تھی تمہاری وجہ سے۔ میں ہر پندرہ تاریخ کو تمہیں یاد کراتا رہوں گا جویریہ۔۔ میں نے کہا تھا تم محبت کی آگ میں جلو گی اور تم جل رہی ہو۔۔"
"چلے جائو یہاں سے۔۔ خدا کے لیے۔۔" وہ پھر سے چیخی۔ "ہاں میں نے کیا تمہیں تباہ اور میں ہر بار یہی کروں گی۔۔ میں کروں گی۔۔" وہ حلق کے بل دھاڑی۔۔ آنکھوں میں شدید غصہ تھا خوف تھا بے چینی تھی۔۔
"اور تم ہر بار تڑپو گی۔۔ کبیر جہانگیر کے لیے تم تڑپو گی جو تمہیں کبھی نہیں ملے گا۔۔" وہ اسی طنزیہ انداز سے مسکراتے مسکراتے غائب ہو گیا۔ اس کا عکس اب وہاں نہیں تھا۔
جویریہ بے یقینی کے عالم میں وہیں ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگائے بیٹھ گئ۔ آنکھوں میں خوف تھا پچھتاوا تھا نفرت تھی تکلیف تھی کیا تھا جو وہ نہیں سمجھ رہی تھی۔
"مجھے جب جب موقع ملے گا میں تمہیں تباہ کروں گی ۔ میں کیا بن گئ تمہاری وجہ سے۔ نہ مجھے خوف ہے نہ کوئی پچھتاوا۔۔ مجھے صرف نفرت ہے۔۔" تیز ہوا کے جھونکے سے بند کھڑکیاں کھل گئیں۔ ہوا کسی طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوئی۔ شمع بجھ گئ ہر طرف پھر سے اندھیرا ہو گیا اور وہ اسی طرح اندھیرے میں بیٹھی کافی دیر آنسو بہاتی رہی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
ساڈھے تین سال بعد:
کالی fortuner سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ بیک سیٹ پر ٹیک لگائے وہ گردن موڑے شیشے سے باہر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھے جا رہی تھی۔ کچھ گاڑیاں اس کی گاڑی سے پیچھے رہ جاتیں اور کچھ تیزی سے آگے نکل جاتیں ۔ اس نے سر پر شیفون کا سفید سکارف نما دوپٹہ پہنا ہوا تھا جس کا ایک پلو آگے اور ایک پیچھے کو پھینک رکھا تھا جس میں سے اس کے کھلے بال واضح تھے جو اس کی کمر پر پھیلے ہوئے تھے اور کچھ کندھے سے ہو کر سامنے کی طرف جھول رہے تھے۔ ماتھے پر بال کرٹین بینگز (curtain bangs) کی صورت میں پھیلے ہوئے تھے۔ چہرے پر میک اپ کے نام پر صرف گلابی ٹنٹ کا استعمال کیا ہوا تھا اور گھنی پلکوں پر لگایا ہوا مسکارا ان کو مزید خوبصورت دکھا رہا تھا۔ لبوں پر گلابی رنگ کی لپ سٹک تو لگی تھی مگر مسکراہٹ دور دور تک نہیں تھی۔ ہاتھ دوسرے ہاتھ پر دھرے وہ جھولی پر رکھے بیٹھی تھی جن کی مخروطی انگلیوں پر مختلف خوبصورت نگینوں کی انگوٹھیاں اس کے دونوں ہاتھوں کو بےتحاشا دلکش بنا رہی تھیں۔ ان میں زمرد کی انگوٹھی سب سے نمایاں تھی۔ سفید سلک کا لمبا پیروں تک آتا گائون جس پر بہت ہلکا باریک اور خوبصورت کام کیا گیا تھا اس پر اتنا جچ رہا تھا جیسے صرف اسی کے ليے بنایا گیا ہو۔ اس نے اب تک رخ نہیں موڑا تھا زہن بہت سے خیالوں میں جکڑے وہ چہرے پر سنجیدگی سجائے ویسے ہی بیٹھی رہی۔
"اف تمہیں نہیں پتہ آج جو قیامت آئے گی نا۔۔ کاش کہ تم بھی دیکھ پاتی۔۔" بوائے کٹ میں کٹے شہد رنگ بال وائٹ شرٹ کے اوپر بلیک کوٹ اور ساتھ بلیک پینٹ پہنے چہرے پر بہت سارا میک اپ کیے وہ اپنے ساتھ کھڑی لڑکی کے ساتھ ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے بول رہی تھی۔ وہ دونوں مین انٹرینس کے باہر راہداری پر کھڑی تھیں۔ پیچھے کھڑا سیکیورٹی گارڈ مسلسل ان کی آوازوں پر ان کو نظریں اٹھا کر دیکھتا رہتا۔ بوائے کٹ والی وانیہ بار بار کلائی پر پہنی گھڑی کو مسلسل دیکھے جا رہی تھی۔
"اب ایسا بھی کیا ہونے والا ہے؟" ساتھ کھڑی کھلے بالوں والی لڑکی کچھ تجسس کے انداز میں اس سے پوچھنے لگی۔ وانیہ نے ہاتھوں میں پکڑی فائل مسکراتے ہوئے اس کے سامنے لہرائی تو وہ کچھ حیرت سے اسے دیکھے گئ۔
"اندر جہانگیر سر کے ساتھ جس کمپنی کی میٹنگ چل رہی ہے اس کمپنی کے ممبران کو ان کی اوقات یاد دلائی جائے گی اور یہ جو میرے ہاتھ میں فائل دیکھ رہی ہو نا یہ اس کمپنی کے خلاف تمام ثبوت ہیں جو تین دن میں میم نے کھوج نکالے ہیں۔ بس وہ جلدی سے آجائیں کہیں سر ڈیل سائن ہی نه کر دیں۔۔" وہ دوبارہ سے گھڑی کو دیکھنے لگی۔۔ "بس پانچ منٹ۔۔" پانچوں انگلیاں اس کے سامنے کرتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی۔
"یعنی آج میم کا موڈ خاصا خراب ہونے والا ہے۔۔" کھلے بالوں والی لڑکی ایک دم سے گڑبڑا کر رہ گئ۔
" میرے خیال سے مجھے میرے کیبن میں ہونا چاہیے میں تو گئ۔۔" وہ ڈر کے مارے تیزی سے اندر چلی گئ جبکہ وانیہ اس پر ہنس دی اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔ انابیہ ہمیشہ سے اس کی آئیڈیل تھی اور اسے بہت پسند بھی کرتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اس کی گاڑی آگئ تھی۔ وہ تیزی سے سفید زینوں کو پار کرتے اس کی گاڑی کے کچھ دور آ کر کھڑی ہوئی۔ اس کے ساتھ کھڑے بلیک یونیفارم والے گارڈ نے آگے بڑھ کر پچھلی طرف کا دروازہ کھولا۔ انابیہ بڑے اطمینان سے باہر نکلی تو اس کی سیکرٹری فوراً سے آگے بڑھی۔
"گڈ مارننگ میم۔۔" وہ اب اس کے ساتھ ساتھ چلتی جا رہی تھی۔
"گڈ مارننگ۔۔ ساری تیاری مکمل ہے؟" انابیہ سپاٹ سے لہجے میں اس سے پوچھنے لگی۔ سیکیورٹی گارڈ نے اسے آتا دیکھ کر دروازہ کھولا۔
"یس میم۔۔ تمام کاغذات میرے پاس ہیں۔۔"
"ہمم گڈ۔۔" اس کے اندر جاتے ہی آفس میں سناٹا سا چھا گیا۔ اتنی خاموشی تھی کہ سفید ٹائلوں پر چلتی اس کی ہائی ہیلز کی ٹک ٹک کا شور واضح تھا۔ کیبینز میں کام کرتے تمام ورکرز اسے دیکھتے ہی کسی مشین کی طرح کام کرنے لگ جاتے تھے۔ لابی کی راہداری پر وہ مسلسل سیدھ میں چلتی جا رہی تھی۔اس کا پیروں تک آتا گائون اسکے کھلے جھولتے بال!!وہ واقعی بہت خوبصورت تھی اور لگ بھی رہی تھی۔ ہر ورکر ایک دفعہ نظر اٹھا کر اسے ضرور دیکھتا تھا۔ انابیہ اب نظروں کو گھماتے ہوئے ساتھ ساتھ جائزہ بھی لے رہی تھی۔ اس کی نظر پڑتے ہی سب کی نظریں جھک جاتی تھیں اور کام میں لگ جاتے تھے۔ وہ اصولوں کے معاملے میں سخت تھی۔ آفس میں موجود سب لوگ اس سے ڈرتے ضرور تھے مگر اس سے کوئی نفرت نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ پہلی غلطی پر ضرور دوسرا چانس دیتی تھی لیکن صرف پہلی غلطی پر۔۔۔ ایک شان سے چلتی وہ لفٹ کی طرف بڑھی سیکرٹری اب بھی اس کے ساتھ تھی۔ لفٹ کا دروازہ کھلا وہ اندر داخل ہوئی۔ کچھ ہی دیر میں آفس کے بالائی منزل پر تھی۔ سامنے ہی میٹنگ روم تھا۔ بغیر دستک دیے وہ اندر داخل ہوئی۔ وانیہ ہاتھ میں فائل جکڑے اس کے ساتھ ہی داخل ہوئی تھی پھر وہیں دروازے پر رک گئ۔ جہانگیر صاحب سامنے لگی ایک بڑی سی سکرین کے سامنے کھڑے تھے اسے آتا دیکھ کر فوراً سے اس کی طرف بڑھے۔
"آئو انابیہ تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔۔" وہ مسکراتے ہوئے بولے تو انابیہ نے ایک نظر لمبے سے ٹیبل کے اردگرد گرد بیٹھے دوسری کمپنی کے کچھ ممبران کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
"کوئی بات نہیں مزید چار سال لگیں گے پھر آپ ضرور وقت کی پابند ہو جائیں گی۔۔" زبیر انڈسٹریز کا سی ای او حنان زبیر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے طنزیہ انداز سے بولا تو انابیہ نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔
"کچھ لوگ اپنی غلطیوں کو سات پردوں میں ایسے ڈھانپ دیتے ہیں کہ ان کے ثبوت ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھوڑا وقت لگ ہی جاتا ہے۔۔ خیر یہ بتائیں آپ جیسے لوگوں کو کتنے سال لگے گے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے ليے؟؟" بارعب آواز پر حنان کی مسکراہٹ چھن سے غائب ہوئی۔
"کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟؟ کھل کر کہیں۔۔" وہ چہرے پر ناگواری لیے بولا۔
"صرف مطلب کیوں پوری کی پوری تشریح دوں گی میں آپ کو ذرا اطمینان رکھیں۔۔ فلحال کے ليے اتنا کافی ہے کہ یہ میٹنگ ختم۔۔ وه رها دروازہ آپ سب لوگ یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔" اس نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ حنان فوراً سے تپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"جہانگیر صاحب آپ کی بھتیجی کیا کہنا چاہ رہی ہیں ذرا ان سے اپنی زبان میں پوچھئے۔ رہی بات میٹنگ کی تو وہ ایسے ختم نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے درمیان معاہدہ طے ہو چکا ہے۔۔" انابیہ تیزی سے جہانگیر صاحب کی طرف گھومی اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔
"تھوڑا انتظار تو کر لیتے انکل میرا۔۔ خیر۔۔" نا گورای سے سر جھٹکتے وہ دوبارہ حنان کی طرف پلٹی۔۔ " میں چاہتی تھی معاملہ آرام سے حل کیا جائے لیکن میرے خیال سے آپ کو سب کے سامنے اپنی عزت کی دھجیاں اڑوانے کا بہت شوق ہے ہے تو چلیں پھر آغاز کرتے ہیں۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔
“ ہمیں کسی بھی منافق کمپنی کے ساتھ کسی قسم کی پارٹنرشپ نہیں کرنی۔ جو کمپنی اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے پیسے کے زور پر انہیں دنیا سے چھپا کر رکھے ہمیں اس کمپنی کے ساتھ کام کر کے اپنی کمپنی کی ساکھ خراب نہیں کرنی۔۔"
"بس۔۔۔ بہت بول لیا آپ نے۔۔ میرے منہ پر کھڑے ہو کر آپ ہمیں منافق بول رہی ہیں۔۔ جہانگیر صاحب نے ایگریمینٹ سائن کر دیا ہے۔۔ میرے خیال سے مزید باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔" حنان کی آواز اس بار کافی اونچی تھی۔ انابیہ کا پارا مزید ہائی ہونے لگا۔ اس سے لوگوں کی اونچی آواز برداشت نہیں ہوتی تھی خاص کر اپنے سامنے۔
"ایک سیکنڈ انابیہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟ کہنا کیا چاہتی ہو تم؟" جہانگیر صاحب نے تفتیشی انداز میں اس سے پوچھا۔
"یہ جھوٹے لوگ ہیں انکل ان کے پراجیکٹس بری طرح سے فیل ہوئے ہیں ۔ کتنے ہی کرپشن کیسز بھی چل رہےہیں ان پر"
"بس بہت ہو گیا۔۔ جہانگیر صاحب ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔۔چار سال ہوئے نہیں ان کو اس کمپنی میں اور آئی ہیں یہ ہم پر منافقت کے الزام لگانے۔۔ اب یہ ہمیں بتائیں گی ہمارے پراجیکٹس کے بارے میں۔"
"چلائیے مت۔۔" اس نے جھک کر زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔" میرے آفس میں کھڑے ہو کر۔۔ آپ۔۔ مجھ ۔۔ پر نہیں چلا۔ سکتے۔۔ سمجھے۔۔" وہ لفظوں پر زور دیتے ہوئے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ دھاڑی۔ ایک پل کے لیے حنان کو واقعی سانپ سونگھ گیا۔ "اور کیا ایگریمینٹ ایگریمینٹ لگا رکھی ہے ہاں۔۔ یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا۔۔" اس نے تیزی سے جہانگیر صاحب کے سامنے ٹیبل پر پڑا ہوا کاغذ جھپٹا اور اسے حنان کے سامنے لہرایا۔ پھر قدم اٹھاتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی بغیر کسی خوف کے۔ حنان ایک قدم پیچھے ہوا۔ انابیہ نے غصے سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کاغذ اس کے سامنے کیا اور اگلے ہی لمحے اس کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں پھاڑ دیا۔ حنان پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گیا۔
"آپ کا ایگریمینٹ۔۔" استہزا سے کہتے اس نے ہاتھوں میں پکڑے اس کاغذ کے ٹکڑوں کو اس کے سامنے کیا۔ حنان اس بے عزتی پر اسے غصے سے گھورتا رہا اور پھر وہ وہاں سے پلٹ گئ۔ کاغذ کے ٹکڑے وہیں زمین پر پھینک دیے۔
" اور ہاں ثبوت چاہیے نا آپ کو؟؟ وانیہ !!" وانیہ جو اب تک حیرت سے انابیہ کو دیکھ رہی تھی اس کی آواز پر کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی اور تیز تیز قدم اٹھاتے اس کے سامنے گئ۔ انابیہ نے اس کے ہاتھ سے فائل لی اور اسے جہانگیر صاحب کے سامنے پیش کی۔ جہانگیر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر فائل تھام لی۔
"اس میں صاف صاف لکھا ہے کہ پچھلے کئ سالوں میں زبیر انڈسٹریز کے بنائے گئے پراجیکٹس بری طرح سے زمین بوس ہوئے ہیں صرف اور صرف ان کی نا اہلی کی وجہ سے۔۔ اتنا ہی نہیں ان کے اتنے ورکرز ان کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے موت کے گھاٹ چڑھ گئے۔۔ انہوں نے ہزار دفعہ ان سے کہا کہ مشینیں خراب ہیں لیکن انہوں نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔۔ اور تو اور جھوٹ اور پیسوں کا سہارا لے کر انہوں نے ان تمام باتوں پر پردہ ڈال دیا۔۔ لیکن۔۔" وہ دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر جھکی اور تیز دھار نظروں سے ان سب کو دیکھے گئ۔
"ان سب باتوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ روز قیامت اس سب کے جوابدہ آپ لوگ اللہ تعالٰی کو ہوں گے اور بےشک وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔۔ میرا کنسرن میری کمپنی ہے (شہادت کی انگلی وہ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے بولی) اور ہمیں کسی ایسی کمپنی کے ساتھ کام نہیں کرنا جو اپنے کام کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہے سمجھے آپ لوگ۔۔ اب مزید بحث نہیں آپ لوگ جا سکتے ہیں۔۔" وہاں بیٹھے تمام مینیجرز نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ حنان کچھ قدم لیتے آگے آیا۔
"میں اپنی بے عزتی نہیں بھولوں گا۔۔" وہ چیلنجنگ انداز سے کہتا انابیہ کی آنکھوں میں دیکھے گیا۔ "یاد رکھئے گا یہ دن ۔۔" وہ شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔
"خبردار!! مجھ سے بہت تمیز سے بات کیجئے گا۔ آپ کتنے سکینڈلز میں گھرے ہوئے ہیں یہ میں بہت اچھے سے جانتی ہوں اس لیے آپ کو مجھ سے ڈرنا چاہئے۔۔" حنان کے چہرے کا رنگ فق سے اڑا۔۔ " میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ بس ہماری کمپنی سے دور رہیے گا۔۔" اب کی بار وہ بھی تنبیہی انداز سے بولی۔ حنان نے سخت نظروں سے اسے دیکھا اور وہیں سے پلٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں میٹنگ روم زبیر انڈسٹریز کے ممبران سے خالی ہو چکا تھا۔ کرسی پر اب بھی ایک شخص سر کو جھکائے بیٹھا ہوا تھا اور انابیہ کی سخت نظریں اسی پر جمی تھیں۔
"ماجد علی!!" انابیہ نے اسے مخاطب کیا تو وہ فوراً اپنی کرسی دھکیلتے اٹھ کر نظریں جھکائے کھڑا ہو گیا۔
"سر اٹھائیے ماجد علی۔۔" وہ نرم مگر اونچی آواز میں بولی۔
"ایم سوری میم۔۔ ایم رئیلی سوری۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ۔۔" اس نے سر نہیں اٹھایا۔ اس کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت لاتا بھی کہاں سے۔
"آپ اس کمپنی کے مینیجرہو کر اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتے ہیں؟" ماجد نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کی سخت نظریں خود پر دیکھتے ہی دوبارہ جھکا گیا۔
"میں نے آپ کو ایک کام دیا تھا ماجد بس ایک کام کہ مجھے اس زبیر انڈسٹریز پر کچھ شک ہے مجھے ان کے بارے میں کچھ انفارمیشن لا دیں لیکن آپ نے نہایت غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا صرف اس لیے کیونکہ آپ کو لگا کہ یہ کمپنی تو بہت بڑی ہے اس کے خلاف کیا ہو گا آپ نے مجھ سے کہہ دیا کہ سب کلئیر ہے۔۔" اس بار ماجد نے نظریں نہیں اٹھائیں یا شاید اس میں ہمت ہی نہیں تھی۔
"جو کام کرنے کے لیے میں نے آپ کو اتنے زیادہ دن دیے تھے وہ میں نے صرف تین دن میں کر لیا۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ کوئی کلئیر نہیں ہوتا ۔ وہ ہماری کمپنی کے ساتھ شامل ہو کر ہماری جڑیں کمزور کرنا چاہتے تھے۔ اگر میں بھی آپ کی طرح ہاتھ ہر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتی تو اندازہ ہے آپ کو میرے تایا اور انکل کی برسوں کی محنت کا کیا حشر ہو جاتا؟" وہ بولتے بولتے جیسے تھک کر چپ ہو گئ۔
"آپ مجھے جو سزا دینا چاہیں مجھے منظور ہے۔۔ میں جانتا ہوں میری غلطی بہت بڑی ہے اور میرا یقین کریں میں بہت شرمندہ ہوں۔۔" ندامت اور شرمندگی اس کی آواز سے واضح تھی۔ انابیہ نے سخت نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔
"میں آپ کو آفس سے تو نہیں نکالوں گی لیکن۔۔" وہ قدم اٹھاتی اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔۔ "آپ اب مینیجر کی پوسٹ پر کام نہیں کریں گے میں آپ سے یہ عہدہ واپس لے رہی ہوں ایک ورکر کی حیثیت سے آپ یہاں کام کر سکتے ہیں اور اگر یہ پوسٹ واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خود کو نئے سرے سے پروف کریں۔۔ آپ کو کوئی اعتراض ہے؟؟" ماجد نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا اور سر نفی میں ہلا گیا۔
"مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر وہ پراجیکٹ۔۔"
"وہ میں خود دیکھ لوں گی چونکہ وہ پلازہ میری موجودگی میں بن رہا ہے اس لیے وہ مجھے بہت عزیز ہے اور اس پراجیکٹ کو میں بذات خود دیکھوں گی۔۔" جہانگیر صاحب نے پہلو بدلتے ہوئے انابیہ کو حیرت انگیز نظروں سے دیکھا ۔
"تم پر آل ریڈی آفس کی اتنی ذمہ داری ہے کنسٹرکشن سائٹ تم کیسے دیکھو گی؟؟"
"میں مینیج کر لوں گی انکل میں اتنا بڑا پراجیکٹ کسی کے حوالے نہیں کرنا چاہتی ۔ میں خود سائٹ پر جایا کروں گی۔۔" اس نے رک کر دوبارہ ماجد کو دیکھا۔۔ "مجھے ایک ٹیم تیار کر کے دیں لیکن قابل ورکرز کی۔۔ اب آپ جا سکتے ہیں ۔۔" اس پر حکم صادر کرتے وہ جہانگیر صاحب کے ساتھ جا کھڑی ہوئی جو اب تک اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ماجد نے سر اثبات میں ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔
"سوچ لو انابیہ پراجیکٹ مینیجر ہم کسی کو بھی بنا سکتے ہیں خوامخواہ خود پر برڈن مت ڈالو۔۔"
"میری زندگی کے صرف تین اصول ہیں انکل۔۔ نمبر ایک: میں جلد کسی پر بھروسہ نہیں کرتی۔۔ نمبر دو: جس پر کرتی ہوں اس سے زیادہ کسی پر نہیں کرتی۔۔ اور نمبر تین: جب کوئی میرا بھروسہ توڑتا ہے تو مر کر بھی اس پر بھروسہ نہیں کرتی۔۔ میں نے ماجد پر بھروسہ کیا انہوں نے میرا بھروسہ توڑدیا۔۔ کم از کم اب میں اس پراجیکٹ کے لیے کسی کا بھروسہ نہیں کروں گی۔۔" وہ بولے جا رہی تھی اور جہانگیر صاحب اسے فخریہ نظروں سے دیکھے جا رہے تھے۔
"مجھے تم پر فخر ہے انابیہ اور اپنے فیصلے پر بھی جو میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ تھا۔۔ آج جس طرح سے سب تم نے سنبھالا مجھے واقعی یقین نہیں آرہا۔۔ تم بہت قابل اور ذہین ہو۔۔ لیکن حنان زبیر چپ نہیں بیٹھے گا تم نے اس سے دشمنی مول لی ہے۔۔"
"مجھے اس کا کوئی خوف نہیں ہے۔۔ مجھے صرف یہ خوف تھا کہ میری وجہ سے آج ہم کتنے بڑے نقصان میں گھر جاتے۔۔ مجھے پورا یقین ہے وہ لوگ ہم سے جیلیں ہیں ہماری کامیابی دیکھی نہیں جا رہی ان سے اسی لیے زبیر صاحب نے اپنے بیٹے کو یہاں بھیج دیا اور ظاہر سی بات ہے اتنی بڑی ناکامی کے بعد وہ چپ نہیں بیٹھیں گے۔۔ لیکن اس بار میں بھی تیاری کر کے آئی ہوں۔۔" اس نے ٹیبل سے وہ فائل اچک کر دوبارہ وانیہ کے ہاتھ میں پکڑائی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی میٹنگ روم سے نکل گئ۔ جہانگیر صاحب فخریہ انداز سے مسکراتے ہوئے اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔ اس کے جاتے ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا اور ایک نمبر ملا کر موبائل کان سے لگایا۔۔
"تمہاری ایجنسی کا بہترین باڈی گارڈ جو بھی ہے مجھے کل صبح گیارہ بجے اپنے آفس میں چاہئے۔۔" فون پر حکم صادر کرتے انہوں نے کال کاٹ دی اور میٹنگ روم سے نکل گئے۔
●●●●●●●●●●●●
"اس پراجیکٹ میں کامیابی صرف تمہاری وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔۔تمہاری پریزینٹیشن کمال کی تھی یار۔۔" عابس اور کبیر دونوں مرکزی دروازے سے گھر کے اندر داخل ہو رہے تھے تبھی عابس نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
"سارا کمال میرا نہیں ہے آپ کی بھی اتنی ہی محنت تھی۔" کبیر نے بولتے بولتے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو اس کی نظر ریلنگ پر کھڑی ایک لڑکی پر ٹھہری۔
"مگر اس بار مجھے لگتا ہے تم نہ ہوتے تو اتنی بڑی اچیومنٹ شاید ہم کبھی حاصل نہ کر پاتے۔۔" عابس کی آواز پر اس نے نظریں اس لڑکی پر سے ہٹا کر اسے دیکھا۔ عابس ساتھ ساتھ موبائل پر واٹس ایپ پر کچھ ضروری میسیجز بھی دیکھ رہا تھا۔ " تم نے جب سے میرے ساتھ آفس سنبھالا ہے میرے تو کندھوں پر سے آدھا آدھا بوجھ کم ہو گیا ہے۔۔" کبیر نے مسکراتے ہی سر دوبارہ اٹھا کر دیکھا وہ اب بھی ویسے ہی کھڑی تھی دونوں ہاتھوں سے ریلنگ کو پکڑے وہ مکمل طور پر اسی کی طرف متوجہ تھی۔ کبیر آنکھیں چھوٹی کیے ویسے ہی اسے دیکھتا رہا جو پلکیں جھپکائے بغیر اسے ٹکٹکی باندھے کھڑے دیکھ رہی تھی۔
"خیر۔۔" عابس نے موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس نے فوراً سے نظریں ہٹائیں اور عابس کی طرف متوجہ ہوا۔۔ "اب تو تم ہو ہی میرے ساتھ مجھے فخر ہے تم پر کبیر۔۔" وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا اور اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا۔ کبیر اس کے جانے کے بعد کچھ پل ویسے ہی کھڑا رہا اور پھر اس نے سر اٹھا کر دیکھا وہ اب بھی وہیں تھی ویسے ہی اسے دیکھ رہی تھی۔ کبیر نے ایک گہرا سانس لیا اور قدم اٹھاتا زینوں کی طرف بڑھ گیا۔ جویریہ کی نظریں اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں کچھ ہی دیر میں اس کی نظروں نے دیکھا کہ کبیر جہانگیر اس کے بلکل سامنے کھڑا تھا۔ ایک پل کے لیے اسے لگا اس کا سانس رک گیا ہے۔ کبیر نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور شاید زندگی میں پہلی بار اس کا چہرہ اتنے غور سے دیکھا تھا۔ وہاں پہلے جیسی شوخی بلکل نہیں تھیں۔ آنکھیں مکمل سوجی ہوئیں تھیں جن کے گرد سیاہ حلقے واضح تھے۔ چہرے کی رنگت بھی پھیکی پھیکی سی لگ رہی تھی۔ اس کے ہمیشہ سے سلیقے میں بندھے بال آج درمیان سے سیدھی مانگ نکالے ڈھیلے سے جوڑے میں بندھے تھے اور وہ بلکل سادہ سی کالی قمیض شلوار میں ملبوس کندھوں پر مہرون کیپ شال لپیٹے اس کے سامنے کھڑی تھی۔
"کیسی ہو؟؟" سرسری سے انداز میں اس نے جویریہ سے پوچھا۔
"کسی ٹوٹے ہوئے انسان سے ایسا مشکل سوال نہیں پوچھتے۔۔" وہ تلخی سے مسکرا دی۔
"میں کافی دنوں سے آیا ہوا ہوں تم آئی نہیں ملنے ایک بار بھی۔۔" وہ جیسے شکوہ کر رہا تھا۔ کیا یہ وہی شخص تھا جو اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں ہوتا تھا۔
"تم گئے کب تھے۔ مہینے کی ہر پندرہ تاریخ کو تو مجھے میری اوقات یاد دلانے آجاتے تھے۔ میری تذلیل کرنے آجاتے تھے۔ مجھے تکلیف دینے آجاتے تھے۔۔" کبیر نا سمجھی سے اسے دیکھے گیا۔ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہوئے تھے۔
"یعنی تم محبت کی آگ میں جلتی رہی ہو۔۔" انداز طنزیہ تھا۔ جویریہ نے خفگی سے باری باری اس کی دونوں آنکھوں کو دیکھا۔ اسے لگا شاید وہ اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا۔۔ "تو مان لو اپنی غلطی۔ مان لو کہ تم نے زیادتی کی تھی جویریہ۔۔"
"میں مانتی ہوں میں نے زیادتی کی ہے۔۔" وہ طنزیہ ہنس دی۔۔ "لیکن خود کے ساتھ۔۔ میں مانتی ہوں اپنی غلطی۔۔ تم جیسے انسان سے محبت کرنے کی سنگین غلطی۔۔" کبیر اس کی بھیگی آنکھوں میں شکوے شکایتیں دیکھ رہا تھا لیکن اسے کہیں بھی کوئی ندامت اور شرمندگی دکھائی نہیں دی۔
"میں شرمندہ ہوں خود سے کبیر۔۔ میں نے اپنی ذات کو تہس نہس کر دیا۔۔ میں نے خود کو ایک فقیر سے بھی بدتر بنا دیا۔۔ در در کے دروازے کھٹکھٹا کر اسے پھر بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے لیکن میں ایک ہی دروازہ پیٹتی رہ گئی اور دیکھو میں خالی ہاتھ رہ گئ۔۔" اس نے اپنے دونوں ہاتھ کبیر کے سامنے پھیلائے۔
"میں نے کیا کیا تھا کبیر مجھے کیوں اتنی تکلیف ملی ہے؟؟" آنسو اب اس کی آنکھوں سے گرنے لگے تھے۔ کبیر کچھ نہیں بولا وہ بس اس کے گرتے آنسو دیکھے گیا شاید وہ کچھ بولنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
"میں نے تمہارے جانے کے بعد کبھی تمہارا انتظار نہیں کیا۔ میں جانتی تھی تم آ بھی گئے تو تمہاری آنکھوں میں وہی سرد مہری ہو گی جو ہمیشہ سے خاص جویریہ کے لیے رہی ہے۔۔" اس کی آواز لڑکھڑا گئ۔۔ " مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جب تم نے مجھے نہیں ملنا تھا تو اتنی محبت اتنی شدت کی محبت مجھے کیوں ہوئی تم سے؟ عام سی محبت ہو جاتی وہ محبت جو کسی کو بھی ہو جاتی ہے۔ بھول جانے والی محبت۔۔ لیکن میں تمہیں کبھی نہیں بھلا پائی۔۔ مجھے لگا ان تین سالوں میں مجھے تم سے شدید نفرت ہوگئ ہے لیکن اب تمہیں اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ مجھے تم سے اب بھی ویسی ہی محبت ہے۔۔" اس کا چہرہ مکمل بھیگ چکا تھا۔ کبیر اب بھی اسے سن رہا تھا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش ہو گئ یا شاید رونے کی وجہ سے اس کی آواز نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ پھر اس نے کبیر کو کچھ کہتے ہوئے سنا۔
"شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمہیں اور مجھے محبت راس نہیں آئی۔ شاید ہم دونوں کے نصیب میں صرف محبت کرنا لکھا تھا اس کا حصول نہیں۔۔" جویریہ نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ " بس فرق صرف اتنا ہے کہ تمہاری محبت تم سے چھینی نہیں گئ کیونکہ کبیر کبھی تمہارا تھا ہی نہیں لیکن مجھ سے میری محبت چھینی گئ ہے کیونکہ انابیہ صرف میری تھی۔۔" جویریہ نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا۔ آج اتنے سال بعد وہ اس سے ملی تھی اور اس کی زبان پر صرف وہی نام تھا جس نام کو اس کی زندگی سے نکالنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ "اور مجھے بہت افسوس ہے کہ وہ سب میری اپنی کزن نے میرے ساتھ کیا۔۔" وہ تلخی سے مسکرایا تو زمانے کا دکھ اس کی مسکراہٹ پر در آیا۔۔
"غلط۔۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔۔ انابیہ کی محبت ہی کمزور تھی۔ میں نے تو بس ایک کوشش کی تھی کبیر اور اس نے میری کوشش کو اتنی آسانی سے کامیاب ہونے دیا۔ اس نے کیوں سٹینڈ نہیں لیا۔ وہ مر جاتی سولی چڑھ جاتی خودکشی کر جاتی لیکن تمھیں ایسے چھوڑ کر نہیں جاتی۔۔ میں نہیں مانتی کہ اس کے باپ نے اس کے پیروں میں زنجیریں ڈال دی ہوں گی۔۔ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا دی ہوں گی۔۔ یا اسے گھسیٹتے ہوئے یہاں سے لے گیا ہو گا۔۔ وہ کیوں نہیں کچھ کر سکی جب میں نے محبت کے لیے کوشش کی تو اس نے کیوں نہیں کی۔۔ بتائو نا چپ کیوں ہو؟؟ کوئی جواب ہے تمہارے پاس؟؟" وہ ایک لمحے میں کبیر کو لاجواب کر گئ تھی۔ اس کے پاس واقعی کوئی جواب نہیں تھا اسے تو خود انابیہ سے یہی شکایت تھی۔۔
"مان لو کبیر اس نے تم سے کبھی محبت کی ہی نہیں تھی۔۔ اگر کبیر جہانگیر کو کسی نے شدت سے چاہا ہے تو وہ صرف جویریہ سلطان ہے۔۔" اپنے بھیگے ہوئے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے رگڑتے ہوئے وہ اس کے ساتھ سے ہو کر چلی گئ۔ کبیر پتھر کے مجسمے کی طرح کھڑا رہا۔ ایک بار اس کا دل بری طرح سے چھلنی ہوا تھا۔ اس کا دل اس سے چیخ چیخ کر پوچھ رہا تھا کیا واقعی اس نے غلط انسان سے محبت کی تھی۔ اگر اس کی محبت سچی ہوتی تو وہ جا کر ایک بار اس کے لیے واپس ضرور آتی لیکن وہ نہیں آئی کبھی نہیں آئی۔ بوجھل دل کے ساتھ بھاری قدم اٹھاتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
●●●●●●●●●●●●
وہ جھک کر اوون کے اندر اپنے پکتے ہوئے کیک کو دیکھ رہی تھی جو بالکل بیک ہو چکا تھا۔ خوشی سے مسکراتے ہوئے وہ سیدھی ہو کر سلیب پر پڑے ہوئے موٹے دستانوں کو اٹھا کر پہننے لگی۔ اوون کا دروازہ کھول کر اس نے بڑی احتیاط سے مولڈ کو باہر نکالا اور مڑ کر سلیب پر پڑے ایک سٹینڈ پر رکھ دیا۔ بس اب اسے کیک مولڈ سے نکال کر اس کی ڈیکوریشن کرنی تھی جو اس کا سب سے پسندیدہ کام تھا۔
"اوپر کمرے میں جائو میرا فون چارج پر لگا ہو گا اسے لے آئو۔ میں اس کی سٹریک ڈالوں گی اور انسٹا پر بھی پوسٹ کروں گی۔۔" کچھ دیر میں اس نے شہناز سے کہا جو اس کی طرف پشت کیے سنک کے سامنے کھڑی برتن دھو رہی تھی۔
"جی میں لاتی ہوں۔۔" اس کے کہتے ہی شہناز نے نلکہ بند کیا اور گیلے ہاتھوں کو سکھاتی وہاں سے چلی گئ۔ اس نے باری باری سلیب پر رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھا جو شہناز نے بڑے ترتیب سے رکھی ہوئیں تھیں۔ سب کچھ مکمل تھا بس اب اسے کیک مولڈ سے نکالنا تھا۔ اس سے پہلے وہ کیک کی طرف متوجہ ہوتی اس کی نظر سامنے سیڑھیوں کے اختتام پر کھڑے عالیان پر پڑی جس کا سائڈ ویو وہ کچن کے کھلے دروازے سے با آسانی دیکھ سکتی تھی۔ سفید رنگ کا کرتا شلوار پہنے وہ ارد گرد سے بیگانہ اپنے کرتے کی آستینوں کو پیچھے کی طرف موڑ رہا تھا۔ اس کے سلیقے سے کٹے کرلی بال ہلکے ہلکے گیلے تھے۔ گلے میں لٹکتی زنجیریں، ہاتھوں میں پہنے بینڈز اور سلور رنگ کی بالیاں جو اس کے کانوں کی زینت ہوتی تھیں وہ تو کافی سال پہلے ہی سب اتار چکا تھا اور تب سے ردا کا ایک دن بھی اسے سوچے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ وہ بنا پلکے جھپکائے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی ردا کا دل عجیب طرح سے دھڑکنے لگتا تھا اور ایسا بہت پہلے سے ہو رہا تھا۔ وہ اب جانے ہی لگا تھا کہ اچانک بے دھیانی میں اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں ردا کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ اس کے مڑتے ہی وہ فوراً بوکھلا سی گئ اور نا سمجھی میں سلیب پر پڑی چیزوں کو دیکھنے لگی۔ کبھی چھری ہاتھ میں اٹھا لیتی تو سر جھٹک کر واپس پٹخ دیتی تو کبھی کریم سے بھرا ہوا بائول اٹھا لیتی اور سر جھٹک کر اسے بھی رکھ دیتی۔ عالیان عجیب سی نظروں سے اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ مارے شرمندگی کے سرخ ہونے لگا تھا۔ وہ اب تک اتنی نروس تھی کہ اسی نروسنیس کے چکر میں اس نے بغیر دستانے پہنے گرم گرم مولڈ کو پکڑنے کی کوشش کی اور پھر اس کی تپش محسوس کرتے ہی اس کے منہ سے "سسسس" نکلی اور تیزی سے ہاتھ پیچھے کیے۔ عالیان یہ دیکھتے ہی تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ وہ اب بلکل اس کے سامنے کھڑا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے دیکھ رہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان میں بس سلیب تھی۔
"کیا کرتی ہو ردا دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا؟؟" وہ لہجہ تھوڑا سخت کرتے ہوئے بولا۔۔ نظریں اس کے ہاتھ پر جھکی تھیں۔ اب وہ اسے کیا بتاتی کہ سارا دھیان اسی کی طرف تو تھا۔
"دیکھو سارا ہاتھ سرخ ہو رہا ہے۔۔" عالیان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ایک پل کے لیے بس اس نے اس کی رات سی کالی گہری آنکھوں میں دیکھا۔۔یہ کیا ہوا؟؟ اور بس تیزی سے اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ عالیان نے خفگی سے اسے دیکھا لیکن اس بار کچھ نہیں بولا۔ وہ کافی ہڑبڑائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔ بنا کچھ بولے وہ وہاں سے تیز قدم لیتے نکل گئ۔ اس کا انداز بھاگنے والا تھا۔
"اسے کیا ہوا؟"عالیان نے مڑ کر کچن کے دروازے کو دیکھا جہاں سے وہ بھاگتے ہوئے غائب ہو گئ تھی۔ کمرے کے قریب پہنچتے ہی وہ شہناز سے ٹکرائی۔
"باجی آپ کا فون۔۔" اس کے الفاظ منہ میں رہ گئے کیونکہ ردا اس کو پرے کرتے دروازہ اس کے منہ پر بند کر چکی تھی۔
"اب ان کو کیا ہوا؟؟" وہ ہاتھ میں فون لیے ناسمجھی سے کھڑی رہی۔ آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹانا چاہا لیکن پھر سر جھٹک کر وہاں سے چلی گئ۔
دوسری طرف وہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرتے اس کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہی کچھ عجیب سی حالت ہو رہی تھی اس کی۔ گہرے گہرے سانس لیتے اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا تو اسے پتہ چلا کہ وہ تو پسینے میں نہائی ہوئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی اسے خوف کس چیز کا تھا؟ آخر اسے ایک دم آج کل کیا ہو جاتا تھا۔ بےساختہ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا تو پھر حیرت سے اس کا منہ کھلا رہ گیا۔ اس کا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ جیسے سینے سے باہر آجائے گا اور ایسا بھی صرف عالیان کو دیکھ کر ہوتا تھا۔
"افف یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ؟ کیوں ہو رہا ہے؟ ایسا تو کبھی نہیں ہوتا پھر اس شخص کے سامنے۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکی۔۔" نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ایسا ہو ہی نہیں سکتا میں شاید کچھ زیادہ ہی سوچتی رہتی ہوں۔۔" وہ اب اپنا سر پکڑے کھڑی تھی۔۔" افف ردا وہ صرف تمہارا کزن ہے بس اور کچھ نہیں۔۔" وہ رک رک کر اٹکی ہوئی سانس میں بولے جا رہی تھی۔
"اس کو سامنے دیکھتے ہی سب کچھ رک کیوں جاتا ہے سوائے اس کے ہر چیز عدم کیوں ہو جاتی ہے یا شاید میں بس دیکھنا ہی اسے چاہتی ہوں۔۔" وہ لڑکھڑاتے قدم بیڈ کی طرف آئی اور بے ساختہ اس پر گر کر بیٹھ گئ۔
"آپی ٹھیک ہی کہتی تھی دل پر اختیار نہیں ہوتا۔۔" اس کی آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہنے لگے۔
"لیکن میں اپنے دل کو قابو میں رکھ سکتی ہوں۔ میں خود کو قابو میں رکھ سکتی ہوں۔۔" وہ اپنے گرتے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوئے بولی۔
"محبت میرے لیے ایک دلدل ہے اور میں اس میں خود کو کبھی نہیں دھنسنے دوں گی کیونکہ پھر مجھے باہر نکالنے والا کوئی نہیں ہو گا۔۔" وہ زور زور سے اپنی آنکھوں کو رگڑ رہی تھی۔
"میں اپنے دل میں محبت کا بیج نہیں بو سکتی خاص کر اس شخص کے لیے تو بلکل بھی نہیں جس سے میں نے ہمیشہ نفرت کی ہے۔۔" کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ بیڈ پر ہی لیٹ گئ اور ایسے ہی چھت کو تکتی رہی۔ اسے یقین ہونے لگا تھا کہ وہ اس محبت کو اپنے دل سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی اور یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی کیونکہ کچھ کام انسان چاہ کر بھی نہیں کر پاتا اور رہی بات محبت کی تو وہ ایسے صرف کہہ دینے سے ختم نہیں ہوتی۔
●●●●●●●●●●
"اس بلا کی حسین لڑکی میں بلا کا گھمنڈ ہے۔۔"
حنان زبیر اس وقت سفید بتیوں سے روشن ایک ہال نما کمرے میں لمبے پول میز پر جھک کر ہاتھوں میں پکڑی cue stick سے ایک بال کا نشانہ باندھ رہا تھا۔ وہ سنوکر کھیل رہا تھا۔
"لیکن کہتے ہیں نا۔۔" ٹک کی آواز کے ساتھ بال سیدھا ہول میں گئ۔ “حسن ہوگا تو غرور بھی ہوگا۔۔” کہتے ساتھ وہ عجیب طرح سے مسکرایا۔ اس کے پیچھے کھڑا چوڑی جسامت والا شخص بغور اسے سن رہا تھا۔
"میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں جابر بہت زیادہ۔۔" وہ اپنے پیچھے کھڑے شخص کی طرف گھوما جو ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔ "جانتے ہو کیوں؟" سٹک اس نے ٹیبل پر رکھ دی اور اب وہ اسی ٹیبل سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ "کیونکہ تم نے میرا ہر جائز ناجائز حکم مانا ہے اور ہر کام بڑی سمجھداری سے کیا ہے۔" وہ اس کی تعریف کر رہا تھا۔ جابر ہلکا سا مسکرا دیا۔
"میں سمجھ گیا ہوں سر۔ آپ بے فکر رہیں اس پھڑپھڑاتی چڑیا کے پر کاٹنے کے لیے میں اپنی چھریاں تیز کر چکا ہوں بس آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔۔" وہ سر کو تھوڑا خم دیتے ہوئے بولا۔
"بس یہی وجہ ہے کی میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں۔ میں اپنی بےعزتی تب تک یاد رکھوں گا جب تک وہ زمین میں دفن نہیں ہو جاتی۔۔" وہ دوبارہ سے ٹیبل کی طرف گھوما۔ سٹک پھر سے اس کے ہاتھ میں تھی۔ بال پھر سے اس کے نشانے پر تھی۔
●●●●●●●●●●
سورج غروب ہو چکا تھا اور آسمان پر اندھیرا ہونے والا تھا۔ لونگ روم میں وہ صوفے پر ٹانگیں اوپر کیے بیٹھی تھی۔سر پر مٹیالے رنگ کا حجاب پہنے اور اپنے اردگرد شال لپیٹے وہ مکمل طور پر ہاتھ میں پکڑی کھلی کتاب میں گم تھی۔ اسے لونگ روم میں آئے ہوئے بس کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ اسی دوران ناصر صاحب کے کمرے کا دروازہ کھلا۔ آواز پر اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی نظریں پھر سے عالیان کی پشت سے ٹکرائیں اور پھر اس نے نظریں دوبارہ کتاب پر جھکا لیں۔اسے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ عالیان گھر پر ہوگا۔ وہ بہت احتیاط سے دروازہ بند کر رہا تھا۔ ۔دروازہ بند کر کے اس نے گھوم کر صوفے میں بیٹھی ردا کو دیکھا جسے وہ پہلے ہی نکلتے وقت دیکھ چکا تھا اور جانتا تھا کہ ردا نے بھی اسے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔
"ناراض ہو؟؟" مکمل چھائی ہوئی خاموشی کو توڑتے ہوئے اس نے ردا سے پوچھا۔ اس نے نظریں نہیں اٹھائیں لیکن وہ جانتی تھی کہ عالیان اسے ہی دیکھ رہا ہے اسی لیے نظریں کتاب پر جھکائے بنا کچھ بولے اس نے سر محض نفی میں ہلایا۔ وہ دوسرے صوفے کے پیچھے دونوں ہاتھ صوفے کی ٹیک پر رکھے جھکا ہوا کھڑا تھا۔
"مجھے لگا شاید تم مجھ سے ناراض ہو خیر میں معذرت کرتا ہوں تم سے۔ مجھے تمہارا ہاتھ ایسے نہیں پکڑنا چاہیے تھا۔۔" وہ تفصیل دیتے ہوئے بول رہا تھا۔ ردا اسے سن تو رہی تھی مگر دیکھ نہیں رہی تھی۔
"مگر تمہیں بھی تو احتیاط کرنی چاہیے تھی نا۔" وہ بولتے بولتے تھوڑا رکا۔ "ویسے یاد آیا وہ کیک بہت مزے کا تھا یقین نہیں آرہا کہ تم نے بنایا ۔" اپنے کیک کے ذکر پر ردا نے برہمی سے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
"آپ نے وہ کیک کھا لیا؟" وہ کچھ حیرت اور صدمے سے اسے دیکھے گئ۔
"ظاہر سی بات ہے سارا تو نہیں بس ایک پیس لیا تھا میں نے۔۔ کیا ہو ایسے کیوں گھور رہی ہو؟؟ وہ کھانے کے لیے ہی تھا نا؟؟" ردا کا دل کر رہا تھا کہ ابھی اس شخص کا گلا گھونٹ دے لیکن پتہ نہیں کیوں اور کیسے وہ خود پر ضبط کر گئ۔
"میں نے وہ آپی کے لیے بنایا تھا۔۔" اس نے دھیمی آواز میں کہا اور دوبارہ سے کتاب کی طرف متوجہ ہو گئ۔
"کم آن ردا۔۔ اس نے کون سا سارا کھا جانا تھا۔۔ سارا کھانے والی شکل لگتی ہے تمہیں اس کی۔۔" وہ استہزائیہ انداز میں بولا جبکہ ردا کو صرف خود پر حیرت تھی کہ اسے صحیح والا غصہ کیوں نہیں آرہا تھا وہ اتنی تحمل مزاج تو نہیں تھی پھر ابھی کیوں چپ سی لگ گئ اسے۔
"آپ نے اس کی ساری look خراب کر دی اب میں آپی کے سامنے اسے کیسے پیش کروں گی۔" وہ اتنا افسوس سے بولی کہ ایک لمحے کے لیے عالیان کی مسکراہٹ غائب ہو گئ۔
"وہ مائنڈ نہیں کرے گی اور اگر میرا بتائو گی تب تو بلکل بھی نہیں کرے گی ایسے پریشان مت ہو۔۔" اب کی بار وہ پھر کچھ نہیں بولی سر بھی نہیں ہلایا بس کتاب کو دیکھتی رہی۔ اس کے چہرے پر پریشانی واضح تھی جس کا انکشاف عالیان پر ہو رہا تھا اور یہ بات تو اسے کنفرم تھی کہ محض کیک کے لیے وہ اتنی خاموش اتنی سنجیدہ نہیں ہو سکتی تھی۔ ایک پل کے لیے اس کے دل میں پھر سے ظفر کا خیال آیا۔ وہ یک دم سیدھا ہوا لیکن وہ فلحال اس کا نام لے کر اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"اگر تمہیں کسی بات کی پریشانی ہے تو کم از کم تم مجھے نہیں تو انابیہ کو ضرور بتادو۔ اس بار کچھ بھی اکیلے سہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ورنہ تم مجھے بھی بتا سکتی ہو اتنا بھروسہ تو کرتی ہوگی نا؟" اس کے سوال پر وہ پھر خاموش رہی۔ حلق میں ابھرتی گلٹی کو اس نے بمشکل نیچے کیا۔ عالیان کو اس کی یہ خاموشی ہمیشہ سے بہت چبھتی تھی خاص کر جب وہ اس کے ساتھ ہو یا اس سے بات کرے تو کم از کم تب اسے اس سے بات کرنی چاہیے یوں خاموش رہنے سے اسے ہمیشہ لگتا تھا کہ اب بھی وہ ردا کے دل میں جگہ نہیں بنا پایا ۔ پھر سر جھٹک کر وہ وہاں سے چلا گیا کیونکہ اسے انتظار کرنے آتا تھا اور اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس کے جاتے ہی ردا نے گہرا سانس لیا۔
"اگنور کرنا سب سے بہتر کام ہے۔ مجھے آپ سے کوئی بھی بات نہیں کرنی نہ ہی لڑنا ہے کیونکہ اس کا نقصان صرف مجھے اٹھانا پڑے گا۔۔" اس نے کتاب سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔ ایک دم اس کا دل بجھ سا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے گردن گھما کر دیکھا سلائڈنگ ڈور سے باہر وہ اسے حسن چچا سے ہنس ہنس کے باتیں کرتے ہوئے پھر دکھائی دیا وہ تیزی سے اٹھی اور ڈوریوں میں بندھے پردے کھول دیے۔ اگلے ہی لمحے باہر سے نظر آنے والا منظر اب پردوں میں چھپ گیا تھا۔ وہ دوبارہ ٹک کر صوفے پر بیٹھ گئ۔
●●●●●●●●●●●
جہانگیر صاحب آفس میں اپنی کرسی پر بیٹھے مکمل خاموشی سے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کا سر تا پیر جائزہ لے رہے تھے۔
"فرہاد میر۔۔ یہی نام ہے نا؟؟" سامنے بیٹھے اس لڑکے نے سر اثبات میں ہلایا جس کی عمر لگ بھگ ستائیس سے اٹھائیس کے درمیان ہوگی۔ چوڑے کندھے، ورزشی جسامت، نہایت سانولی رنگت، گھنی داڑھی، بڑی بڑی سرمئی چمکتی ہوئی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، گھنے بالوں کی پونی اسے سانولا ہونے کے باوجود بھی پرکشش بنا رہے تھے۔ اس کے دونوں کانوں میں سیاہ رنگ کے چھوٹے ٹاپس واضع تھے۔ گول گلے کی پوری آستینوں والی سیاہ رنگ کی شرٹ کے ساتھ اس نے سیاہ جینز پہن رکھی تھی۔ دونوں مضبوط کلائیوں میں سیاہ اور بھورے رنگ کے بینڈز پہنے ہوئے تھے۔
"چونکہ تمہیں میرے بہت ٹرسٹ ورتھی بندے نے بھیجا ہے۔۔" وہ دونوں کہنیاں ٹیبل پر جمائے دونوں ہاتھ باہم پیوست کیے تھوڑا آگے ہوتے ہوئے بولے۔۔" اس لیے مجھے تمہاری قابلیت پر کوئی شک نہیں ہے۔۔"
"آپ کو میرے کام سے کبھی مایوسی نہیں ہو گی۔۔" اس کی بھاری گھمبیر آواز جہانگیر صاحب کے کانوں سے ٹکرائی۔
"میں یہی ایکسپیکٹ کرتا ہوں تم سے۔۔ جس لڑکی کے تم باڈی گارڈ بننے جا رہے ہو وہ کوئی عام لڑکی ہرگز نہیں ہے۔ میرے بہترین دوست کی بھتیجی ہے سمجھ لو میری بھی بھتیجی ہے۔ اس کے علاوہ اس کمپنی کی سی-ای-او بھی ہے۔ اس کا نام انابیہ احمد عالم ہے۔جانتے ہو پرابلم کیا ہے؟" وہ براہراست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بول رہے تھے۔
"وہ کسی سے ڈرتی نہیں ہے۔۔ اس لیے اسی عمر میں اس کے دشمن بہت ہیں۔۔ " وہ ٹیبل پر سے کہنیاں ہٹا کر دوبارہ پیچھے ہوئے۔ فرہاد کھلے کانوں سے انہیں سن رہا تھا۔
"دوسری پرابلم یہ ہے کہ اسے باڈی گارڈز سے نفرت ہے۔" اب یہ بات اسے بے تکی لگی۔۔ فرہاد عجیب طرح سے مسکرایا۔ " اسے نہیں پسند کوئی بھی اس پر نظر رکھے ہر پل اس کے ساتھ ہو اور اس کی ہر ایکٹیویٹی سے باخبر ہو۔۔"
"یعنی مجھے سامنے آئے بغیر چھپ کر ان کی حفاظت کرنی ہے۔۔انٹرسٹنگ۔۔"
Exactly “ تمہیں یہی کرنا ہے۔ کافی سمجھدار ہو تم۔۔" وہ اس کی تعریف کرتے ہوئے بولے۔۔
"آپ بےفکر رہیں سر۔ میں اپنے کام سے بہت وفادار ہوں۔ انہیں شک تک نہیں ہوگا کہ ان پر ہر وقت کوئی نظر رکھے ہوئے ہے۔۔" وہ ان کو یقین دلاتے ہوئے بولا۔
"میں تمہیں اس کی پکچر دکھا دیتا ہوں۔۔"
"اس کی ضرورت نہیں ہے میں نے ان کو باہر دیکھ لیا تھا۔۔" جہانگیر صاحب نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
"اس نے تو تمہیں میرے آفس کی طرف آتا ہوا نہیں دیکھا؟؟"
"نو سر وہ اپنے ورکرز کے ساتھ کسی سیریس ٹاپک پر ڈسکشن کر رہی تھیں انہوں نے مجھ پر غور نہیں کیا۔۔" اس کے بتاتے ہی جہانگیر نے شکر کا سانس لیا۔
"چلو ٹھیک تمہاری ڈیوٹی آج سے شروع ہوتی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر بعد وہ کنسٹرکشن سائٹ پر جائے گی۔" جہانگیر اب اسے مزید سب کچھ بتا رہے تھے اور وہ غور سے سن رہا تھا۔
●●●●●●●●●●●●
سورج ڈھلنے میں بس تھوڑا وقت باقی تھا۔ ٹھنڈ کی شدت بڑھ گئ تھی وہ ہلکے گلابی رنگ کے گائون کے اوپر لمبا سفید وولن کوٹ پہنے اس وقت کنسٹرکشن سائٹ پر اس زیر تعمیر پلازے کے سامنے کھڑی تھی جس کا وہ پچھلے تین سالوں سے خواب دیکھ رہی تھی اور بلآخر اب وہ اپنے سامنے اپنے خواب کو پورا ہوتے دیکھ رہی تھی۔ وہ بزنس کی دنیا میں فاتح بننا چاہتی تھی اور وہ فاتح بن گئ تھی۔ اگر اس نے کہیں بری طرح شکست کھائی تھی تو وہ محبت کی دنیا تھی۔ محبت اس کے لیے نہیں بنی تھی لیکن بزنس اور اونچی عمارتوں پر حکمرانی اسی کے لیے بنی تھی۔ وہ مزدوروں کی محنت کو دیکھ رہی تھی ۔اس کے پیچھے ایک طویل سڑک تھی اور اسی سڑک کی ایک طرف ہیوی بائک کھڑی تھی جس پر ٹیک لگائے وہ شخص مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ تھا۔ مکمل کالے لباس میں وہ ہیلمٹ پہنے ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے وہ با آسانی انابیہ کا سائڈ ویو دیکھ سکتا تھا۔ اس نے دیکھا پیلی ٹوپی پہنے ایک لڑکا ہاتھ میں رول شدہ چارٹ پیپر پکڑے انابیہ کے ساتھ آکھڑا ہوا ۔ وہ اب اس چارٹ کو کھول کر اسے دکھا رہا تھا۔ کچھ کہہ رہا تھا اور وہ بغور اس پیپر کو دیکھ رہی تھی اور سر ہلاتے ہوئے اسے سن رہی تھی۔ ایک دفعہ بھی اس نے اس لڑکی پر سے نظریں نہیں ہٹائیں ۔ وہ اس کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر اس زیر تعمیر پلازے کی طرف اشارہ کیا اب وہ ہاتھوں کے اشارے سے اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کو کچھ سمجھا رہی تھی۔ دفعتاً فرہاد کا فون بجنے لگا۔ فون جیب سے نکال کر اس نے کال اٹینڈ کی۔
"سب خیریت ہے؟" فون کی دوسری طرف سے آتی آواز جہانگیر صاحب کی تھی۔ اس کے کانوں میں ائیر پوڈز لگے تھے۔
"یس سر۔۔ وہ کنسٹرکشن سائٹ پر ہیں۔ میں سارے راستے ان کی گاڑی کے پیچھے تھا اور ابھی بھی وہ میری نظروں کے سامنے ہیں۔ "
"جب تک وہ گھر نہ چلی جائے تم اس کے ساتھ رہنا اور ہاں کچھ بھی مشکوک لگے تو فوراً ایکشن لینا۔ وہ بس تمھاری نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیئے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں۔" کہتے ساتھ انہوں نے فون کاٹ دی وہ اب بھی اس پر نظریں جمائے کھڑا رہا۔اس نے دیکھا انابیہ اب قدم اٹھاتے پلازے کے اندر جانے لگی تھی۔ وہ اس کا ایک ایک قدم دیکھ رہا تھا لیکن سب ٹھیک تھا کم از کم آج کے دن کچھ مشکوک نہیں تھا۔
●●●●●●●●●●●
وہ اس وقت لان میں کھلے تاریک آسمان کے نیچے موجود تھی۔ کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھے وہ مسلسل آسمان پر اس چمکتے ہوئے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر دن بھر کی تھکاوٹ واضح تھی۔ آفس سے آکر فریش ہونے کے بعد سیدھا لان میں ہی آگئ تھی۔ اس کی آنسوؤں سے چمکتی آنکھیں چاند پر جمی تھیں جبکہ اس کا ذہن مکمل طور پر کبیر کے خیالوں میں جکڑا ہوا تھا۔
"ساڈھے تین سال مزید گزر گئے۔۔ وہ اپنی زندگی میں کتنا آگے بڑھ چکا ہوگا وہ کتنا خوش ہوگا۔۔ کیا اسے میں یاد ہوں گی؟؟ کیا اسے یاد ہوگا کہ ایک لڑکی تھی انابیہ جس سے وہ کتنی محبت کرتا تھا؟؟ شاید نہیں ۔۔ یقیناً نہیں۔وہ سب کچھ بھول کر ایک نئی زندگی کو تو بہت پہلے ہی چن چکا تھا۔۔ اگر اس یادوں کے سفر میں کوئی تنہا رہ گیا ہے تو وہ صرف میں ہوں۔۔ ایک نئی زندگی میرا بھی حصہ بنی ہے لیکن میرا دل وہیں ہے بہت پیچھے۔۔ اسی شخص پر رک گیا ہے۔ وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا کچھ نیا ایکسپٹ نہیں کر سکتا۔"
انہیں سوچوں کے دوران اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ تسلسل ٹوٹا تو اس نے ہلکی سی گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی نظروں نے عالیان کو وہاں موجود پایا۔ ہلکا سا مسکراتے ہوئے اس نے پہلو بدلا۔
"چاند میں اتنی کھوئی ہوئی تھی کہ تمہاری کافی تمہارے انتظار میں برف بن گئ ہے۔۔" عالیان افسوس بھرے لہجے میں کہتا اس کے ساتھ والی کرسی میں بیٹھ گیا۔ انابیہ نے اس کے کہتے ہی ٹیبل پر پڑے اپنے کپ کو افسوس سے دیکھا۔
"دیکھو کافی کے معاملے میں میں زیادتی برداشت نہیں کروں گا۔ اگنور ہونا یہ ڈیزرو نہیں کرتی۔۔" وہ تنبیہی انداز میں بولا تو انابیہ ہلکا سا مسکرا دی۔۔"نقلی کا مسکرانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ یہ بتائو کیوں پریشان ہو؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ چکا تھا اس لیے فکریہ انداز میں اس سے پوچھنے لگا۔
"ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے۔آئی ایم کمپلیٹلی فائن۔۔" وہ صاف مکر گئ۔
"تمہاری نم آنکھیں چاند پر ٹکی ہیں چہرے پر اداسی ہے یہ سب بلاوجہ تو نہیں ہے۔۔" انابیہ کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے تم خوامخواہ پریشان ہو رہے ہو۔۔" ایک بات کا تو اسے یقین تھا کہ وہ کسی سے جھوٹ نہیں بول سکتی اور وقت پر اپنے تاثرات نہیں چھپا سکتی۔۔"تم بتائو ردا کو اپنی محبت کے بارے میں کب آگاہ کرو گے۔۔ کہیں ارادہ تو نہیں بدل گیا۔۔" وہ مسکراتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی۔
"تمہاری محبت کا قصہ ادھورا رہ جائے تو میں اپنا قصہ کیسے مکمل ہونے دے سکتا ہوں۔۔" وہ یکدم سنجیدہ سی اسے دیکھنے لگی۔
"وہ اب ادھورا ہی رہے گا مجھے چھوڑو اور اپنا سوچو۔۔" اک زخمی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر سجی تھی۔
"کوئی بات نہیں مجھے انتظار کرنے آتا ہے۔۔" وہ کندھے اچکا کر بولا جبکہ انابیہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کبھی کبھی میرا بڑا دل کرتا ہے اس شخص سے ملنے کو جس سے تمہیں اتنی محبت ہے۔ مطلب کوئی تو بات ہوگی اس میں جو تم اس کا ذکر یوں تنہائی میں چاند سے کرتی ہو۔۔" وہ متجسس انداز سے بولا تو انابیہ نے نظریں جھکا لیں۔ "تمہارے پاس اس کی کوئی پکچر تو ہو گی نا۔۔" انابیہ نے نظریں اٹھا کر ناگواری سے اسے دیکھا۔۔ "سوری انابیہ میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا میں تو ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔"
"دراصل میرے پاس اس کی کوئی بھی پکچر نہیں ہے کبھی ایسی خاص ضرورت نہیں پڑی تو کبھی نہیں مانگی۔۔" اس کا لہجہ یکدم زخمی سا لگنے لگا تھا عالیان کو واقعی افسوس ہوا اپنے ایسے مطالبے پر۔
"لیکن ایک پکچر ہے۔۔ اس میں ہمارا آدھا بیچ ہے۔۔" اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل سے اپنا فون اٹھایا اور اس کی سکرین اپنے چہرے کے سامنے روشن کی۔ بیس سے پچیس سٹوڈنٹس کے اس گروپ میں کھڑے کبیر کا چہرہ اس نے زوم کر کے عالیان کے سامنے کیا۔ بےچینی کے عالم میں اس نے اس تصویر کو دیکھا اور بےساختہ موبائل اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اس پکچر کو مزید زوم کر کے دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا ایسا کیا دکھا دیا میں نے تمہیں؟" اس کے چہرے کے بدلے ہوئے تاثرات دیکھ کر انابیہ نے اس سے پوچھا۔
"کیا یہ وہ لڑکا ہے؟؟ سیریسلی؟؟" وہ حیرت اور صدمے کے ملتے جلتے تاثرات لیے انابیہ سے پوچھ رہا تھا جبکہ وہ حیران تھی کہ اس میں ایسی کیا برائی ہے۔
"تم جانتے ہو اسے؟؟"
"تم جانتی ہو یہ کس کا بیٹا ہے؟؟" بجائے جواب دینے کہ وہ اس سے سوال کر رہا تھا۔
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے چھوڑو اس بات کو۔۔" اس نے آگے ہو کر موبائل اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور بند کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔
"انابیہ اگر تم کہو تو۔۔" وہ کچھ بولنا چاہ رہا تھا مگر انابیہ نے اسے فوراً ٹوک دیا۔
"دیکھو عالیان ۔ میں نہیں جانتی کہ تم اسے کیسے جانتے ہو کیوں جانتے ہو نہ میں جاننا چاہتی ہوں۔ صرف اتنا جان لو کہ بھلے تم میرے بہت اچھے دوست ہو مگر اپنی زندگی کے کم از کم اس معاملے میں میں تمہاری مداخلت بلکل نہیں چاہتی۔۔" عالیان اب تک حیرت کا شکار تھا۔ "مانا کہ وہ میری زندگی میں نہیں ہے اور اب تک میرے دل میں ہے مگر میں نہ تو اس کی زندگی میں ہوں اور نہ ہی اب اس کے دل میں۔ وہ شادی شدہ ہے اور اپنی زندگی میں بہت خوش ہے ۔۔ سو پلیز ایسی کوئی حرکت بھی مت کرنا کہ وہ ڈسٹرب ہو۔۔۔"
"واٹ شادی شدہ؟؟" اب کی بار وہ پھر بری طرح سے حیران ہوا تھا۔
"کیونکہ تمہیں انتظار کرنے آتا ہے ہر کسی کو نہیں ۔۔" وہ زخمی انداز سے کہتے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"دماغ پر زیادہ زور مت ڈالو اور جائو آرام کرو۔۔" وہ اس کے کندھے پر تھپکی دیتے وہاں سے چلی گئ اور وہ ویسے ہی بیٹھا رہا بے حس و حرکت۔
"شادی شدہ؟ مگر جہانگیر انکل نے تو مجھ سے کوئی ذکر نہیں کیا کہ ان کے دوسرے بیٹے کی بھی شادی ہو گئی ہے۔۔ اور عابس۔۔ کم از کم وہ تو وہ مجھے کچھ بتاتا۔۔ کیا پتہ انابیہ کسی بڑی غلط فہمی کا شکار ہو۔۔ اففف" اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔ " ان سب سوالوں کے جواب مجھے صرف ایک شخص دے سکتا ہے۔۔" وہ تیزی سے اٹھ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا۔
"حسن چچا گیٹ کھولیں۔۔" اونچی آواز میں چچا سے کہتے وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔سٹیرنگ ویل پر ہاتھ رکھے اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔
"وہ میری وجہ سے تمہاری زندگی سے گیا تھا اب اسے میں ہی تمہاری زندگی میں واپس لائوں گا۔۔" گاڑی سٹارٹ کرتے وہ تیزی سے گیٹ سے باہر لے گیا۔۔ انابیہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ جانتا تھا اسے کیا کرنا ہے اور وہ کیا کررہا ہے۔۔ وہ عالیان ہی کیا جو انابیہ کی سن لے۔
●●●●●●●●●●●
جہانگیر صاحب اس وقت اپنے گھر کے لونگ روم میں موجود تھے۔ ٹھنڈ کی شدت کی وجہ سے وہ جھک کر آتش دان میں آگ لگا رہے تھے۔ ان کا گھر بہت خوبصورت اور سادہ تھا۔ لونگ روم میں ووڈن فلور پر ترکش سینٹر پیس بچھا تھا جس پر ایک بھورے رنگ کا صوفہ اور ایک لکڑی کا چھوٹا سا ٹیبل تھا۔ اس ٹیبل پر ان کی دو کتابیں اور ایک چشمہ پڑا ہوا تھا۔ صوفے کے پیچھے دیوار پر ایک طرف مختلف اینٹیک پینٹنگز اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف بک شیلوز بنی تھیں۔ صوفے کے دائیں طرف بلائنڈرز کھلے تھے۔ آتش دان میں آگ جلانے کے بعد وہ ان کھلے بلائنڈرز کی طرف بڑھے۔ اس سے پہلے وہ بلائنڈرز نیچے کرتے ان کی نظر باہر گیٹ سے آتی ایک گاڑی کی طرف رکی۔ وہ جانتے تھے گاڑی کس کی ہے۔ ایک مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے بلائنڈر کھینچ دیے اور وہیں کھڑے ہو کر اس شخص کے اندر آنے کا انتظار کرنے لگے۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد وہ تھوڑی حیرت کا شکار ہوئے کیونکہ اس شخص کو اب تک اندر آجانا چاہیے تھا مگر نہیں آیا۔ کچھ پریشانی کے عالم میں وہ قدم اٹھاتے دروازے کی طرف جانے لگے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دروازے کے پاس جوتوں کو دیکھا اور پھر ساتھ ہی سٹینڈ پر لٹکے ایک کالے کوٹ کو۔ وہ پھر حیرت کا شکار ہوئے کہ لڑکا گیا تو گیا کہاں؟ اسی دوران انہیں کچن سے ایک چیز گرنے کی آواز آئی ان کے قدم خود بخود ہلے۔ کچن کے دروازے پر ہی انہیں اس کی پشت دکھائی دی جو ایک موٹی بیگی شرٹ اور ٹرائوزر پہنے کھڑا کیبن میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ خاموشی سےاسے دیکھتے رہے۔ عالیان کو بھنک تک نہیں پڑی کہ اس کے پیچھے اس گھر کا مالک اسے دیکھ رہا ہے۔
"دروازے ٹھیک سے بند نہ کرنے کی وجہ سے چوہے نے میرے کچن میں حملہ کر دیا ہے۔۔" آواز پر عالیان کے حرکت کرتے ہاتھ رکے تو اس نے گھوم کر انہیں دیکھا اور پھر مسکرا دیا۔۔
"السلام علیکم انکل۔۔ کیسے ہیں آپ؟"
"وعلیکم السلام۔۔ ساری واردات کرنے کے بعد سلام اور خیریت پوچھنے کا شکریہ۔۔" وہ سر کو تھوڑا خم دیتے ہوئے طنزیہ انداز سے بولے۔
"ایسے تو نہیں کہیں انکل۔۔ اپنے اور آپ کے لیے کافی بنا رہا تھا اور آپ اسے واردات بول رہے ہیں۔۔"
"تصحیح کر لو بچے صرف اپنے لیے تم صرف اپنے لیے اتنی ساری کافی بنا رہے ہو۔۔ کیونکہ تم جانتے ہو میں چائے کا عاشق ہوں اور وہ میں پی چکا ہوں۔۔" وہ بولے تو عالیان سر میں ہاتھ پھیرتے نظریں چرا گیا۔۔
"اچھا ٹھیک ہے آپ بھی جانتے ہیں کہ یہاں کافی صرف میرے لیے ہی رکھی ہے آپ نے تو اب مجھے بنانے دیں۔۔" جہانگیر اس کی بات پر پھر ہنس دیے۔ وہ اس سے نہیں جیت سکتے۔۔
"چونکہ میں جانتا ہوں تم اس وقت آئے ہو تو بہت ضروری بات کرنے آئے ہو گے میں روم میں ویٹ کررہا ہوں۔۔" وہ کہتے ساتھ وہاں سے چلے گئے۔ تھوڑی دیر میں عالیان کافی سے بھرا ایک بڑا سا مگ ہاتھ میں پکڑے سیدھا لونگ روم میں گیا اور ان کے ساتھ صوفے پر جا بیٹھا۔ جہانگیر صاحب نے بک اور چشمہ ٹیبل پر رکھا اور اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
"کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے نا۔۔" وہ اس بار سنجیدگی سے پوچھنے لگے۔
"پریشانی کی تو نہیں لیکن ضروری اور بہت ضروری کہا جا سکتا ہے۔" وہ بھاپ اڑاتے کپ کی طرف نظریں جھکائے بولا۔۔"مجھے آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے انکل۔۔"
"ہاں پوچھو میں سن رہا ہوں۔۔"
"کیا آپ کا بیٹا کبیر میرڈ ہے؟؟" اس سوال پر جہانگیر نے کرنٹ کھا کر گردن گھمائی۔
"میرڈ؟؟ کیا کہہ رہے ہو عالیان میرا صرف ایک بیٹا میرڈ ہے اور وہ ہے عابس۔ کبیر تو شادی کے نام پر خاصا برا مان جاتا ہے۔۔" ان کے جواب پر عالیان نے شکر کا سانس لیا۔۔ اس کا شک ٹھیک تھا اور انابیہ غلط تھی۔
"میں ٹھیک تھا اسے ضرور غلط فہمی ہوئی ہے۔۔" وہ تھوڑی دھیمی آواز میں بولا اور ساتھ میں مسکرا بھی رہا تھا۔
"کس کی بات کر رہے ہو اور تمہیں اتنی غلط خبر کس نے دی ہے؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھے گئے۔
"آپ جانتے ہے کبیر جس لڑکی سے محبت کرتا ہے وہ کون ہے؟" وہ کافی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔ جہانگیر صاحب نے اس کے سوال پر سر نفی میں ہلایا۔
"انابیہ۔۔" اس نے ایک نظر اٹھا کر ان کو دیکھا جو بلکل ساکت اسے دیکھ رہے تھے۔" انابیہ احمد عالم۔۔" وہ اب کی بار اس کا پورا نام لیتے ہوئے بولا۔ وہ پورا نہ بھی لیتا تب بھی جہانگیر سمجھ گئے تھے۔
"تم سچ کہہ رہے ہو؟" مطلب ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔" وہ عجیب کشمکش کا شکار تھے۔
"مجھے بھی ایسا ہی شاک لگا تھا اسی لیے بغیر وقت دیکھے آپ کے پاس چلا آیا۔ صرف آپ ہی میری مدد کر سکتے ہیں۔۔"
"کیا کوئی بھی اس بارے میں نہیں جانتا کیا انابیہ نہیں جانتی وہ میرا بیٹا ہے؟ کیا کبیر نہیں جانتا کہ وہ ناصر کی بھتیجی ہے؟ کیا ناصر کچھ نہیں جانتا؟ مجھے سب بتائو عالیان وہ لاہور سے یہاں کیوں آگئ؟ وہ میرے بیٹے کو چھوڑ کر کیوں آگئ؟" وہ صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ٹینشن سے ادھر ادھر چکر کاٹنے لگے۔ ان کے ذہن میں کئی سوال تھے اور دماغ الجھا ہوا تھا۔
"اس کی غلطی نہیں ہے انکل وہ مجبور تھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ انابیہ بچپن سے میرے ساتھ کمیٹڈ تھی لیکن میں نے کبھی اس رشتے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ اس لیے وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی دوران وہ کبیر سے ملی اور اسے پسند کرنے لگی۔ پتہ نہیں کیسے مگر چچا جان کو اس سب کا علم ہو گیا تو وہ اس سے بہت ناراض ہوئے تھے اسی لیے پوری فیملی کو کراچی لے آئے۔۔" وہ تفصیل سے بتاتا جا رہا تھا۔
"اور وہ اتنی آسانی سے میرے بیٹے کو چھوڑ آئی اسے کچھ بتانا بھی گوارا نہیں کیا اس نے۔۔" ان کا لہجہ اب کی بار تھوڑا سخت تھا۔ بیٹے کے دکھ اور تکلیف کا معاملہ تھا۔
"وہ ایک لڑکی ہے انکل اور اچھی لڑکیاں سب مجبوری میں کرتی ہیں۔ کم از کم آپ تو جانتے ہیں نا اسے۔۔" وہ اب کی بار کچھ نہیں بولے۔ "اور یہ سب بس ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا اور سب کا ذمہ دار میں ہوں۔ نہ انابیہ کی غلطی ہے نہ کبیر کی اور نہ ہی چچا جان کی۔۔" وہ افسردگی سے بولا۔ جہانگیر صاحب کے کندھے ایک دم ڈھیلے پڑ گئے۔
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو باپ کے فیصلوں کے آگے بیٹیاں مجبور ہو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ واقعی بہت اچھی لڑکی ہے۔۔ لیکن اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟" وہ اب کی بار تحمل سے بولے تو عالیان نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"آپ کبیر کو یہاں بلا لیں۔۔" جہانگیر نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے اسے دیکھا۔
"ناممکن میں اسے نہیں بلا سکتا عابس اسے کبھی نہیں آنے دے گا۔ جب سے عابس نے کاروبار بڑھایا ہے وہ بہت پریشان تھا صرف کبیر ہی کی وجہ سے وہ سنبھلا ہے اور اس کے نزدیک کبیر سے بہتر پارٹنر اس کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔۔" وہ کچھ پل کے لیے رکے۔۔ " میں کبیر کو سب بتا دیتا ہوں انابیہ کے بارے میں۔۔" وہ ابھی بول رہے تھے کہ عالیان نے ان کو درمیان میں ٹوک دیا۔
"بلکل نہیں انکل اس سے بہتر آئیڈیا ہے میرے پاس۔" وہ اپنا کپ ہاتھ میں ہی پکڑے صوفے پر سے اٹھ گیا۔
"آپ کبیر کو یہاں بلا کر خود اس کی جگہ چلے جائیں تب تو عابس کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور اگر آپ نہیں جا سکتے تو عابس کو سب بتا دیں اپنے بھائی کے لیے وہ کسی طرح مینیج کر لے گا۔۔" وہ اب ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
"ہاں یہ ہو سکتا ہے مگر ناصر۔۔ میں اسے کیسے چھوڑ جائوں۔۔" وہ دکھی انداز سے بولے۔
"میں جانتا ہوں آپ ڈیڈ سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔" اس نے نرمی سے ایک ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا۔۔
"مگر آپ دونوں کو اپنے بچوں کے لیے قربانی تو دینی ہوگی نا۔ ورنہ وہ دونوں اپنی ساری عمر ایسے ہی دکھ میں گزار دیں گے۔ میری مدد کریں انکل میں انابیہ کو ہر دکھ سے آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ دیکھنا چاہتا ہوں جو ہر بار عالیان نے اس سے چھینی ہے۔۔"
"میں چاہتا تو سب کچھ کبیر کو خود کال پر بتا دیتا مگر میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں کو یہ سب اتفاق اور قسمت کی مہربانی لگے کسی کی پلاننگ نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ سب پھر سے غلط نہ ہو جائے۔ مجھے ڈر ہے کہ کبیر سب جان کر بھی یہاں نہ آیا تو؟"
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو ایسے بتانے پر وہ شاید نہ آئے کیونکہ وہ ایک بہت ضدی انسان ہے۔ آمنہ نے مجھے کافی دفعہ بتایا ہے کہ وہ اس لڑکی کو بھولنے کی بہت کوشش کرتا ہے اور شاید نفرت بھی کرتا ہے۔۔"
"آپ ایک دفعہ ڈیڈ سے تفصیل میں بات کر لیں اور جتنا جلدی ہو سکے اسے یہاں لے آئیں۔۔"
"میں ایسا ہی کروں گا ۔۔" عالیان نے سر اثبات میں ہلایا۔ وہ بہت خوش تھا اسے اس کی غلطی سدھارنے کو ایک موقع مل رہا تھا۔ اسے بچھڑے ہوئے دلوں کو ملانے کا موقع مل رہا تھا۔ وہ اتنا خوش تھا کہ زور سے جہانگیر صاحب کے گلے لگا تھا۔ جہانگیر نے اس کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے اسے تسلی دی۔ وہ اب مطمئن تھا۔۔
"کیا مجھ سے کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے؟" جہانگیر صاحب کا آفس اس وقت کھڑکیوں سے آتی روشنی سے کافی روشن تھا۔ وہ اس وقت آنکھوں پر عینک لگائے لیپ ٹاپ میں کسی فائل پر کام کر رہے تھے تبھی ان کے سامنے بیٹھی انابیہ نے شکستہ آواز میں ان سے کہا تو انہوں نے عینک کے پیچھے سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو مسلسل ٹیبل پر دھرے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مسل رہی تھی۔
"ایسی بات تو نہیں ہے انابیہ تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟" انہوں نے آرام سے لیپ ٹاپ بند کیا اور اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
"آپ اپنے بیٹے کو بلا رہے ہیں نا تو مجھے لگا شاید میں ٹھیک سے کام نہیں کر رہی۔" وہ دکھی انداز سے بول رہی تھی۔
"اگر تم کہتی ہو تو میں نہیں بلاتا۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے اب سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
"میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ میرا مطلب تھا کہ کیا کچھ ہوا ہے آئی مین اتنا بڑا فیصلہ۔۔" وہ قدرے ہڑبڑا کر بولی۔
"دیکھو انابیہ اگر تمہیں میرے یہاں سے چلے جانے کا خوف ہے تو میں بتا چکا ہوں کہ میں زیادہ تر یہاں اور کم سے کم لاہور رہوں گا اور اگر تمہیں میرے بیٹے کی قابلیت پر کسی قسم کا شک ہے تو میں تمہیں بتا دوں وہ بہت قابل ہے۔ عابس آل ریڈی لاہور میں بزنس سنبھال رہا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ میرا دوسرا بیٹا یہاں آکر سب سنبھال لے۔۔ " وہ جان بوجھ کر نام لینے سے پرہیز کر رہے تھے۔
"ایسی بات نہیں ہے ظاہر ہے وہ آپ کا بیٹا ہے بہت قابل ہوگا مگر پلیز آپ کا ساتھ میرے لیے بہت ضروری ہے۔" وہ اب باقائدہ منت کر رہی تھی۔
"جیسے میں نے تمہیں بتایا میں یہیں ہوں تم زیادہ پریشان نہ ہو۔ میں تمہیں اس کی ساری ڈیٹیلز اور ریکارڈز شئیر کر دوں گا تمہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ میری بات سنو انابیہ تم اس کمپنی کی سی-ای-او ہو اور تمہارا فیصلہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے جو تم کہو گی وہی ہوگا۔" وہ جتنی نرمی برت سکتے تھے انہوں نے اتنی نرمی سے اس سے بات کی۔
"مجھے کوئی انفارمیشن نہیں چاہئیے آپ بلا لیں اسے ہم آمنے سامنے ہو کر بات کر لیں گے۔ آپ واقعی نہیں جارہے نا؟" آخری سوال اس نے پھر بڑی امید سے پوچھا تھا تو جہانگیر صاحب سر جھٹک کر مسکرا دیے۔
"اچھا نہیں جا رہا خوش۔ عابس سے کہہ دوں گا اکیلے ہی سنبھالے۔۔" انابیہ اب کھل کر مسکرا دی اب اسے تھوڑا سکون ہوا تھا۔
"بلکل عابس بھائی ویسے بھی genius ہیں لیکن مجھے ہر قدم پر آپ کی ضرورت ہے۔ اب آپ کام کریں میں چلتی ہوں۔۔" وہ اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے خوش دلی سے بولی تو جہانگیر صاحب نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا اور پھر وہ وہاں سے چلی گئ تو وہ دوبارہ لیپ ٹاپ کھول کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ٹیبل پر پڑا ان کا فون بجنے لگا۔ سامنے کبیر کا نام دیکھتے ہی انہوں نے گہرا سانس بھرا۔
"اب اس کے سوال جواب۔ ان دونوں کو ملانے کے چکر کی چکی میں خود میں ہی پس رہا ہوں۔" ناگواری سے کہتے آخر کا انہوں نے کال اچک لی۔
"ہیلو۔۔" وہ فون کان سے لگاتے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ڈیڈ یہ آپ اور بھائی کیا پلین بنا رہے ہیں؟" ہمیشہ کی طرح اس نے سلام نہیں کیا۔اس کے کانوں میں ائیر پوڈز لگے تھے اور دونوں ہاتھ سٹئیرنگ ویل پر تھے۔ وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔
"کیا پلین بنا رہے ہیں ہم؟" وہ جانتے تھے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے لیکن پھر بھی انجان بنتے ہوئے بولے۔
"آپ نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں اور بھائی کے ساتھ ساری پلاننگ کرلی۔ بات میرے بارے میں ہو رہی تھی تو ایٹ لیسٹ مجھ سے تو پوچھ لیتے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔" اس کے لہجے میں سخت شکایت تھی۔
"ایک بات بتائو میں تمہارا باپ ہوں یا تم میرے؟" اب کی بار انہوں نے بھی اپنا لہجہ سخت کیا تھا۔ وہ اب شیشے کے پار آسمان کو دیکھ رہے تھے۔
"ظاہر سی بات ہے آپ۔۔ ڈیڈ میں نہیں آنا چاہتا وہاں میں یہاں ٹھیک ہوں۔"
"تم کیا چاہتے ہو کیا نہیں یہ میٹر نہیں کرتا میں کیا چاہتا ہوں یہ میٹر کرتا ہے۔تم یہاں آئو گے کب یہ بھی میں بتائوں گا۔" انکا لہجہ حتمی تھا کبیر کی سخت نظریں سامنے سڑک پر جمی تھیں۔
"میں اس لڑکی کو جانتا تک نہیں ہوں تو اس کے ساتھ کام کیسے کروں گا۔ ۔مزاج مزاج میں فرق ہوتا ہے ڈیڈ۔"
"میں جانتا ہوں نا یہی کافی ہے رہی بات مزاج کی تو کم از کم تم سے تو بہت بہتر ہے وہ۔۔"
"تو آپ کی اس مس پرفیکٹ کے ساتھ میرے جیسے مزاج کا انسان ایڈجسٹ نہیں کر سکتا ایم سوری۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا۔
"اور مجھے تمہیں ایڈجسٹ کرنا اچھے سے آتا ہے۔ جب یہاں آئو گے تو اس لڑکی کو جان بھی لو گے اور ایڈجسٹ تو خیر کر ہی لوگے۔ تم تیاری رکھو میں فون رکھتا ہوں۔" اس سے پہلے کبیر مزید کچھ اور بولتا انہوں نے کال کاٹ دی۔ اس نے غصے میں زور سے سٹئیرنگ پر ہاتھ مارا۔ وہ جانتا تھا ہمیشہ کی طرح اس کے باپ کی ہی چلنی ہے۔
●●●●●●●●●●●
فرش تا چھت کی کھڑکیوں سے باہر شہر کا منظر ابھر رہا تھا اور روشنی ان شیشوں کو چیرتے ہوئے دھار کی طرح اندر داخل ہو رہی تھی۔پورا آفس سفید رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ پردوں سے لے کر فرنیچر تک سب کچھ سفید رنگ کا تھا۔ سفید ٹائلوں والے فرش کے عین مرکز میں ایک وسیع و عریض سفید میز کھڑی تھی جس پر ایک کرسٹل کے واس میں ٹیولپس پڑے تھے جس کی مہک پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔اس واس کے بلکل ساتھ ایک موبائل اور لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔ کچھ فائلیں اور پلانرز ترتیب سے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔اسی ٹیبل کے پیچھے سفید چمڑے کی ایگزیکٹو کرسی اپنے باس کا انتظار کر رہی تھی لیکن باس اس کو چھوڑ کر بڑے اطمینان سے ٹیبل کے ایک کونے پر سیاہ پیروں تک آتا گائون پہنے ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی۔ اس کے پیروں میں سیاہ پمپ ہائی ہیلز تھیں۔ بال ہمیشہ کی طرح سر پر اوڑھے ہوئے سکارف سے نکل کر اس کی کمر پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے ایک ہاتھ میں کاغذوں کا پلندہ تھا اور دوسرے ہاتھ میں سفید چائے کا کپ۔ بھنویں سکیڑ کر وہ ان کاغزات کو غور سے پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ چائے کے گھونٹ بھر رہی تھی۔ دفعتاً اس کی توجہ اس کے بجتے ہوئے فون نے کھینچی۔ اس نے مڑ کر اپنے پیچھے ٹیبل پر پڑے فون کو دیکھا۔ کپ اور پیپرز اس نے سائڈ پر رکھے اور فون اٹھا کر اپنے سامنے کیا۔ پھر سے ایک غیر شناسا نمبر تھا۔ اس سے پہلے بھی اسے ایک ان نون نمبر سے کال آئی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی اب یہ نمبر پچھلے نمبر سے مختلف تھا۔ آخر کون تھا جو اسے مسلسل تنگ کر رہا تھا۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے کال آنسر کر کے ایک گہرا سانس بھرا اور فون کان سے لگایا۔
"کون بول رہا ہے؟" اس کی آواز میں سختی تھی۔
"تمہارا خوف۔۔" آواز وہی تھی اسے پہچاننے میں زرا دیر نہیں لگی۔ پچھلی کال میں بھی اس نے یہی بات کہی تھی اور کال کاٹ دی تھی۔
"تم جیسے لوگوں سے انابیہ نے خوف کھانا چھوڑ دیا ہے۔ سیدھی طرح بتائو کہ کون ہو تم ورنہ ابھی تم مجھے جانتے نہیں ہو۔۔" وہ اب کی بار ٹیبل پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تمہیں شاید خوف کے معنی نہیں معلوم انابیہ میڈم۔۔ میں بتاتا ہوں تمہیں خوف کیا ہوتا ہے۔۔" انابیہ نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔ اس کی آواز میں ضرور کچھ تھا جس نے انابیہ کو تھوڑے خوف سے ضرور دو چار کیا تھا۔
"تمہیں کیا چاہیئے؟" اس نے اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے پوچھا۔۔
"تمہیں جو چاہیئے وہ میرے پاس ہے انابیہ لیکن افسوس میں تمہیں وہ واپس نہیں کروں گا۔"
"کیا ہے تمہارے پاس جو مجھے چاہیے؟" اس نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
"تمہاری بہن مناہل۔۔" اگلے ہی لمحے انابیہ ایک قدم پیچھے ہوئی جیسے کسی نے اسے زور سے دھکا دیا ہو۔ اس کی آنکھیں خوف سے پوری کھلیں۔وہ اس کی بہن کا نام کیسے جانتا تھا؟؟
"جھ۔جھوٹ۔ بکواس کر رہے ہو تم وہ۔۔ وہ تمہارے پاس نہیں ہے۔۔" اس کی آواز لڑکھڑانے لگی تھی۔ اگلے ہی لمحے اسے فون کی دوسری طرف سے ایک زور دار قہقہہ سنائی دیا۔
"یہ جھوٹ نہیں ہے وہ اس وقت میرے پاس ہے اور کچھ ہی دیر میں تمہیں اس کی لاش کی پکچرز سینڈ کر دوں گا ڈونٹ وری تب تو تمہارے اچھے بھی یقین کریں گے۔۔" انابیہ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔
"میں جانتی ہوں تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔" اسے جیسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
"تمہیں یقین دلانے کے لیے اتنا کافی ہے اس نے سرخ رنگ کی قمیض پہن رکھی ہے۔ افسوس انابیہ وہ اب تمہیں نہیں ملے گی۔۔" فون کاٹ دیا گیا۔ وہ اپنے حواس کھو چکی تھی۔ وہ صبح مناہل کو سرخ رنگ کی قمیض میں دیکھ چکی تھی۔
"ہیلو۔۔ ہیلو۔۔ " وہ بولتی گئ مگر دوسری طرف سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔اس نے تیزی سے کال دوبارہ ملائی اب کی بار نمبر بند تھا۔ اس کے قدم زمین پر نہیں جم رہے تھے بےساختہ اس نے ٹیبل کا سہارا لیا۔ وہ خود کو یہی تسلیاں دیے جا رہی تھی کہ وہ شخص صرف اسے ڈرا رہا تھا وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ اس نے اب کی بار کپکپاتے ہاتھوں سے مناہل کا نمبر ملایا۔ اگلے ہی لمحے فون اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا کیونکہ مناہل کا نمبر بند تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے وہ اپنا سر پکڑے کھڑی تھی۔ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا اسے اس کی یونیورسٹی جانا تھا ابھی اور اسی وقت۔ اس نے جھک کر اپنا فون اٹھایا اور بھاگتے ہوئے آفس سے نکلی۔ سامنے سے وانیہ اس کی طرف آرہی تھی وہ اسے کچھ کہہ رہی تھی مگر وہ نہیں سن رہی تھی یا شاید اسے کچھ سنائی دے ہی نہیں رہا تھا۔ بس وہ تیز تیز چلتی گئ۔ باہر آتے ہی اس نے ڈرائیور کو گاڑی مناہل کی یونیورسٹی لے جانے کو کہا۔فرہاد کی بائیک ہر بار کی طرح اس کے پیچھے تھی۔۔بیک سیٹ پر بیٹھے اس کے دماغ میں مختلف خیالات جنم لینے لگے تھے وہ شخص اگر اس کی بہن کا نام نہ جانتا یا اس کے کپڑوں کا رنگ نہ بتاتا تو شاید وہ کبھی یقین نہ کرتی لیکن مناہل کا نمبر بند ہونے کا اشارہ بھی اسی خطرے کی طرف تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ یونیورسٹی کی راہداریوں پر بھاگ رہی تھی۔ وہ اس کا ٹائم ٹیبل دیکھ چکی تھی وہ جانتی تھی اسے اس وقت کس روم میں ہونا تھا۔ وہ سارے راستے دعائیں پڑھتے ہوئے آئی تھی کچھ تو تھا جو اسے سکون نہیں مل رہا تھا بس اسے مناہل مل جائے سب جھوٹ ہو وہ ٹھیک ہو۔ اسی دوران وہ ایک کلاس کے دروازے کے پاس رکی۔ اندر سے ایک میل ٹیچر کے لیکچر کی آواز آرہی تھی۔ اس نے گہرا سانس بھر کر قدم اٹھائے اور تیزی سے کلاس کے اندر گئ۔ یہ انگلش لٹریچر کی کلاس تھی۔ یکدم خاموشی چھا گئ اور اس کی نظریں پوری کلاس میں سفر کرنے لگی۔ تبھی اس کی نظر دوسری لائن میں تیسرے نمبر پر بیٹھی شہد رنگ بالوں والی لڑکی پر رکی۔ وہ اس کی بہن تھی اس کی مناہل یکدم اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئ۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ مناہل اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"ایکسکیوز می میڈم۔۔ آپ اس طرح سے لیکچر کے دوران کلاس میں داخل نہیں ہو سکتیں۔۔" اس نے آواز پر مڑ کر اپنے پیچھے کھڑے ٹیچر کو دیکھا جو تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورے جا رہے تھے۔
"ایم سوری۔۔ میں بس۔۔ آپ کنٹینیو کریں پلیز۔۔" وہ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے کلاس سے نکل گئ۔ مناہل اب تک ششد بیٹھی تھی۔تبھی وہ جھٹکے سے اپنی سیٹ سے اٹھی اور تیزی سے ٹیچر کو ایسے اگنور کرتے کلاس سے نکلی جیسے وہاں کوئی تھا ہی نہیں ۔
"آپی رکیں۔" وہ اس کی پیچھے دوڑتے ہوئے آئی۔ انابیہ نے مڑ کر اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے زور سے اسے گلے لگایا۔
"آپی کیا ہو گیا ہے آپ اس طرح یہاں۔۔ مجھے بتائیں پلیز سب ٹھیک ہے نا؟؟" وہ تیزی سے سوال کرتی گئ۔ انابیہ نے پیچھے ہو کر اپنے آنسو صاف کیے اور مسکرا کر سر نفی میں ہلایا۔ پھر ایک چت اس کے بازو پر لگائی۔
"تمہارا فون کیوں آف ہے؟؟" اس نے غصے سے پوچھا تو مناہل اپنا بازو ملتے ہوئے اسے منہ کھولے دیکھے گئ۔۔
"بس صرف فون بند ہونے کی وجہ سے آپ یہاں چلی آئیں۔۔ حد ہے یار۔۔" وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔ انابیہ نے پھر سخت نظروں سے اسے دیکھا۔
"اچھا اچھا یار بیٹری ختم ہو گئ تھی فون کی۔۔" وہ دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے بولی۔
"میری بات سنو جب تک عالیان نہ آیا کرے لینے باہر مت نکلنا یونیورسٹی سے سمجھ آئی۔۔ پلیز منو میری باتوں پر اپنے کان دھر ا کرو۔ پلیز۔۔" وہ جیسے اس کی منت کرتے ہوئے بولی۔۔ عالیان جب سے واپس آیا تھا ردا اور مناہل کو وہی لینے آیا کرتا تھا جبکہ دونوں کی ٹائمنگ بھی مختلف تھی لیکن وہ ان دونوں کو کسی کے آسرے پر ہر گز نہیں چھوڑتا تھا۔
"ہاں ہاں عالیان بھائی بھی یہی کہتے ہیں آپ بےفکر رہیں میں چھوٹی بچی نہیں ہوں۔ چلتی ہوں کلاس ہے میری۔۔" مناہل آگے ہو کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے واپس کلاس کی طرف بھاگی۔ انابیہ نے پھر سے اللہ کا شکر ادا کیا اور مڑ کر جانے لگی۔
مناہل کلاس میں پہنچی تو سامنے ہی سر کو کھڑا دیکھ کر ایک پل کے لیے رکی۔
"مے آئی کم ان سر؟؟" وہ بلا کی سنجیدگی لیے بولی۔ سر اسے تیوڑیاں چڑھائے گھور رہے تھے۔
"جاتے ہوئے تم نے پوچھا تھا کہ مے آئی گو سر؟" وہ طنزیہ انداز میں بولے تو مناہل ہنستے ہوئے اندر داخل ہوئی۔
"سر غصہ کیوں ہوتے ہیں۔ یاد آیا آج تو پریزینٹیشن لینی تھی نا آپ نے۔۔" کلاس میں موجود لڑکے لڑکیوں نے اسے گھور کر دیکھا کیونکہ آج کی پریزینٹیشن سر کے زہن سے نکلی ہوئی تھی۔ سب کا دل کرہا تھا کہ اس کا تو سر ہی پھاڑ دیا جائے۔ مگر وہ مناہل تھی ڈھیٹوں کی طرح سب کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
"ہاں یاد آیا چلو پھر تم سے ہی شروع کرتے ہیں۔۔" اس نے کرنٹ کھا کر سر کو دیکھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی سر اثبات میں ہلا دیا۔ اب کر بھی کیا سکتی تھی۔
انابیہ ابھی یونیورسٹی سے باہر ہی نکلی تھی کہ اس کا فون پھر سے بجنے لگا۔ اس بار اس نے تیزی سے کال اٹینڈ کی۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی دوسری طرف سے اسے قہقہہ سنائی دیا۔
"جانتی ہو سب سے خوبصورت چیز کیا ہے؟" وہ کچھ نہیں بولی بس لب بھینچے کھڑی رہی۔
"خوف۔ سب سے خوبصورت چیز خوف ہے لیکن کسی دوسرے کے چہرے پر اور آپ صرف اس کے خوف سے محظوظ ہو رہے ہوں۔ چچ چچ۔۔"
"کتے مجھ پر دور سے بھونک رہے ہو نا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی مزہ تب ہے جو وہ مجھے کاٹنے کے لیے میرے سامنے آئیں تو پھر میں ان کا جو حال کروں وہ ساری دنیا دیکھے۔ ہمت ہے تو فون کے پیچھے سے بھونکنے کے بجائے میرے سامنے آکر بھونکو۔۔" وہ اب کی بار بلا خوف و خطر بھڑک کر بولی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ ہماری لڑائی معصوموں سے نہیں ہے اور تمہاری بہن تو معصوم ہے۔ ہماری لڑائی غرور اور گھمنڈ سے ہے جو تم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ میں سامنے ضرور آئوں گا۔۔" اب کی بار اس نے غصے سے فون خود ہی کاٹ دیا۔ آخر کون ہے یہ شخص؟ سر جھٹک کر وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر جا بیٹھی۔۔ فرہاد کان سے فون لگائے پیٹھ کیے کھڑا تھا اور اس کی ساری باتیں سن چکا تھا۔ آخر یہ کون ہے جو اسے تنگ کرہا ہے۔ اسے جاننا تھا مگر کیسے؟ کیا وہ جہانگیر سے رابطہ کرے؟ نہیں جو بھی ہے اسے خود کرنا ہے وہ باڈی گارڈ ہے اس کا وہ بہتر جانتا ہے اسے کیا کرنا ہے۔
●●●●●●●●●●
"میڈم۔۔"
گاڑی اس وقت سڑک پر رواں تھی۔ اس نے سیدھا آفس جانا تھا اور وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی اپنے ہاتھ میں پکڑے آئی پیڈ میں مکمل محو تھی تبھی اس کے ڈرائیور نے اسے پکارا۔
"ہوں۔۔" اس نے نظریں اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔
"مجھے لگتا ہے کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔۔" اب کی بار اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کون؟؟" اس کا پہلا شک اسی شخص پر گیا جو اسے فون پر دھمکیاں دیتا تھا۔
"ایک بائیک والا۔۔ میں کافی دنوں سے اسے دیکھ رہا ہوں۔۔ وہ اب بھی ہمارے پیچھے ہی ہے۔۔۔" انابیہ کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔۔ اس نے تیزی سے گردن موڑ کر پیچھے کے شیشے سے باہر جھانکا جہاں بہت سی گاڑیاں تھیں تبھی اس کی نظر ایک بائیک والے پر پڑی جو ان سے تھوڑا دور تھا۔۔
"حد کرتے ہیں آپ۔۔ کافی دنوں سے دیکھ رہے ہیں اور مجھے اب بتا رہے ہیں۔۔" اس نے غصے سے اس ڈرائیور کو جھڑکا۔
"وہ جی مجھے اتفاق۔۔"
"اب بس چپ کر جائیں اور میری سنیں۔۔" اس نے درشتی سے اس کی بات کاٹی اور آئی پیڈ اپنے پرس میں ڈالنے لگی۔۔ "آگے سے یو۔ٹرن لیں۔۔" اس کے حکم پر ڈرائیور نے سر ہلایا اور یو۔ٹرن لے لیا۔۔ اب وہ اس کے اگلے حکم کا منتظر تھا۔
فرہاد کافی حیران ہوا۔۔ آفس کا راستہ سیدھا تھا کیا انابیہ کو کہیں اور جانا تھا؟ بہرحال اس نے بھی یو۔ٹرن لے لیا۔۔
"پرفیکٹ۔۔" انابیہ نے اسے یو۔ٹرن لیتے دیکھا تھا۔۔ اب بلکل سیدھا جاتے جائیں اور ہاں ذرا سپیڈ بڑھا دیں۔۔" وہ جیسے جیسے بول رہی تھی ڈرائیور ویسے ویسے کر رہا تھا۔ پھر اس نے کچھ اور ٹرن لینے کا کہا۔
"آگے ایک گلی آئے گی سیدھا وہاں چلے جائیے گا۔۔" اس نے اگلا حکم دیا تو ڈرائیور اس گلی میں گاڑی لے گیا۔۔ فرہاد تھوڑا پیچھے تھا۔ اس نے اپنا ہیوی بائیک وہیں روکا۔ اسے بلکل سمجھ نہیں لگی کہ انابیہ کا اس گلی میں کیا کام تھا کیا وہ کسی سے ملنے آئی تھی۔۔ وہ بائیک سے اترا اور آس پاس دیکھتے ہوئے چل کر جانے لگا۔ گلی کی اوٹ میں ہو کر تھوڑا سا سر نکال کر اس نے دیکھا اس کی گاڑی عین درمیان میں رکی ہوئی تھی۔ وہ کافی دیر وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ نہ کوئی گاڑی سے باہر نکل رہا تھا اور نہ گاڑی اپنی جگہ سے ہل رہی تھی۔۔ ایک پل کے لیے اسے گمان ہوا شاید گاڑی میں کوئی نہیں ہے۔۔ تو انابیہ کہاں گئ؟ اس کے دماغ میں کسی خطرے کا الارم بجنے لگا تھا۔ اس نے قدموں کو حرکت دی اور اگلے ہی لمحے وہ اس گلی میں موجود تھا۔ وہ گاڑی کے قریب جا رہا تھا تبھی اسے اپنی گردن کے پچھلے حصے پر کسی چیز کا احساس ہوا اس سے پہلے وہ گھومتا۔۔
"ہینڈز اپ۔۔" وہ ایک آواز پر رکا۔۔ آواز لڑکی کی تھی۔۔ آواز انابیہ کی تھی۔۔ وہ ہاتھ اوپر کر کے کھڑا ہو گیا۔ انابیہ نے پسٹل اس کی گردن سے ہٹائی اور سیدھا اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔ پسٹل اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کا نشانہ فرہاد پر تھا۔
"بکو اب۔۔ کون ہو تم؟؟" اس نے ماتھے پر بل لیے پوچھا۔
"پکڑا گیا۔۔" وہ سر جھٹک کرہنس کر بولا۔۔ ہاتھ اسی طرح ہوا میں تھے۔۔ " اگر آپ کی اجازت ہو تو ہیلمٹ اتار لوں۔۔" اس نے معصومیت سے پوچھا۔
"جلدی کرو۔۔" وہ تیزی سے بولی تو اس نے ہیلمٹ اتار کر نیچے اپنے پیروں کے پاس رکھا اور دوبارہ سابقہ حالت میں کھڑا ہو گیا۔ انابیہ نے غور سے اسے دیکھا۔ اس کے بال پونی میں بندھے تھے۔۔ آنکھیں سرمئی تھیں۔۔ رنگت سانولی اور چہرے پر گھنی داڑھی تھی۔۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جیسے اسے کوئی خوف نہیں تھا وہ بس اس کی آنکھوں میں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
"بس بس مجھے نظر بھی لگ جاتی ہے۔۔ آگے پوچھیں میں کھڑا ہوں۔۔" اس کی آواز پر انابیہ نے جھرجھری لے کر سر کو جھٹکا۔۔ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر ڈرائیور بھی باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔
"تم ہی ہو نا جو مجھے فون پر دھمکیاں دیتے ہو۔۔ یا پھر اس کے بھیجے ہوئے کتے ہو۔۔" انابیہ کا اس قدر سرد لہجہ دیکھ کر سامنے والا افسوس سے سر نفی میں ہلانے لگا۔
"چچ چچ۔۔ جیتا جاگتا انسان ہوں۔۔ کتا تو نہ کہیں۔۔ ہم سے لوگ بڑے ادب سے بات کرتے ہیں۔۔" اس نے افسوس سے اپنی اہمیت جتاتے ہوئے کہا تو انابیہ نے سر تا پیر اسے بغور دیکھا۔۔
"کیوں تمہیں پرائم منسٹر کہتے ہیں؟"
"نہیں ہمیں باڈی گارڈ کہتے ہیں۔۔" اس نے مسکرا کر کہا۔
"واٹ۔۔" انابیہ کا منہ حیرت سے کھلا۔۔ "ناٹ اگین۔۔" اس نے ناگواری سے آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھری۔
"جی Chicago ایجنسی کا سرٹیفائیڈ باڈی گارڈ۔۔ بائی دا وے۔۔ آپ کو مجھ پر شک کیسے ہوا؟" اس نے پوچھا لیکن انابیہ بس تیوڑیاں چڑھائے اسے گھور رہی تھی۔
"میں نے بتایا میڈم کو۔۔" اس کا ڈرائیور پیچھے کھڑے کھڑے اترا کر بولا۔۔ فرہاد نے گردن ایک طرف گرا کر اسے مسکرا کر دیکھا ایسے کہ اس کے سفید دانت دکھائی دے رہے تھے اور آنکھیں چھوٹی ہو گئ تھیں۔۔ پھر یکدم سنجیدہ ہو کر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھنے لگا۔۔ انابیہ نے گہرا سانس بھر کر پسٹل نیچے کر لیا اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ واقعی ایک گارڈ ہے۔
"تمہیں جہانگیر انکل نے ہائیر کیا ہے نا۔۔" اس نے پوچھا تو وہ اوپر نیچے سر ہلانے لگا۔۔ اس کے ہاتھ ہنوز ہوا میں لٹکے ہوئے تھے۔
"ہاتھ نیچے کرو۔۔" اس نے غصے سے کہا تو فرہاد نے ہاتھ نیچے کر لیے۔۔ وہ سر پکڑے کھڑی تھی۔ ایک نظر اس نے انابیہ کو دیکھا پھر سر ٹیڑھا کرکے پیچھے کھڑے ڈرائیور کو اور پھر انابیہ کو دیکھنے لگا۔۔
"اب؟؟" فرہاد نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا۔
"میرا سر۔۔" اس نے ناگواری سے اسے جھڑکا۔۔ " میں بات کروں گی جہانگیر انکل سے اور تم آئندہ مجھے میرے آس پاس نظر مت آنا سمجھے تم۔۔۔" اس کا انداز تنبیہی تھا۔ وہ پھر طنزیہ ہنس دیا۔ انابیہ کو اس کا ہنسنا بلکل پسند نہیں تھا۔
"مجھے جہانگیر سر نے ہائیر کیا ہے انابیہ جی۔۔ میں ان کے حکم کا پابند ہوں۔۔"
"تو رات سے پہلے تمہیں ان کی کال آجائے گی۔۔" وہ پھر سے غرا کر بولی۔۔
"ایسا مت کریں۔۔ آپ مصیبت میں ہیں اور صرف میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔۔" اس نے فوراً سے کہا ۔ اب کی بار اس کے لہجے میں فکر اور پریشانی تھی۔
"مجھے نہیں چاہیئے تمہاری مدد۔۔ میں خود کے لیے خود ہی کافی ہوں۔۔ آج جہانگیر انکل تمہیں فائر کر دیں گے اور اگر اس کے بعد بھی تم مجھے آس پاس بلکہ دور سے بھی نظر آئے تو تم بچو گے نہیں۔۔ انڈرسٹینڈ؟؟" وہ کچھ نہیں بولا بس ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔
"سمجھے یا نہیں جواب دو۔۔" وہ پھر سے غرائی۔
"میں کیوں دوں جواب ابھی میں فائر نہیں ہوا۔۔" وہ ڈھیٹ بن کر بولا۔
"گیٹ آف مائی بیک۔۔" وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولی۔
"اور اگر نہ چھوڑوں تو۔۔" انداز چیلنجنگ تھا۔۔انابیہ تن فن کرتی بلکل اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور اس کی سرمئی آنکھوں میں جھانک کر بولی۔
“Then you will pay heavily for it..”اب کی بار وہ بھی چیلنجنگ انداز سے بولی تو سامنے والا ہلکا سا مسکرا دیا۔ وہ سنجیدہ تھی اور پلٹ کر گاڑی میں جا بیٹھی۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ وہاں سے چلی گئ جبکہ وہ کچھ دیر کھڑا کچھ سوچتا رہا۔
●●●●●●●●●●●●
جاری ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔