Share:
Notifications
Clear all

Muhabbat ka qissa by Hadia Muskan epi(13)

1 Posts
1 Users
0 Reactions
161 Views
(@hadiamuskan)
Eminent Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 14
Topic starter  

نکاح شروع ہونے میں اب کچھ ہی وقت باقی تھا بس جس کا انتظار کیا جا رہا تھا بلآخر وہ بھی پہنچ گیا۔ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہی وہ باہر نکلا جو سفید رنگ کے کرتہ شلوار میں بہت ہی ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔ کرتے پر سوائے کڑھائی کے اور کوئی کام نہیں تھا۔سینے پر درمیان میں کچھ سفید بٹن تھے جس میں صرف سب سے پہلا بٹن کھلا تھا باقی بند تھے۔ آستیں کہنیوں تک چڑھائے ہوئے تھے۔ بال سلیقے سے ایک طرف سیٹ کی ہوئے تھے۔ گاڑی سے نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے لان میں دیکھا تقریباً سب مہمان آچکے تھے۔ وہیں سے وہ سٹیج پر کھڑے عالیان، فرہاد اور عابس بھائی کو دیکھ سکتا تھا۔ اس سے پہلے وہ آگے بڑھتا اس کی نظر بےساختہ گھر کے داخلی دروازے میں کھڑی لڑکی پر ٹھہری جو سفید لباس پہنے اپنے بالوں کے ساتھ الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔ خوبصورتی سے کیے گئے میک اپ والے چہرے پر ناگواری کا بسیرا تھا۔ کبیر سانس روکے مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا کیونکہ اسے دیکھتے ہی وہ کچھ اور دیکھنا بھول ہی گیا تھا۔ قدم بڑھانا بھول گیا تھا۔ وہ کہاں کھڑا تھا یہ بھی بھول گیا تھا۔ کچھ یاد رہ گیا تھا تو بس اس کا چہرہ۔۔

اس کے بال بری طرح سے اس کی سیدھی کلائی میں پہنے ہوئے بریسلٹ میں الجھ کر رہ گئے تھے۔ بلآخر اتنی کوشش کے بعد جب اس کے بال آزاد ہوئے تو اس نے شکر کا سانس لیا۔ پھر غصے میں آکر بریسلٹ کھینچ کر کلائی سے نکالا اور پھینکنے کے لیے سر اٹھایا ہی تھا کہ نظریں سامنے کھڑے لڑکے پر ٹھہر گئیں جو گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے بازو سینے پر باندھے اسے مسحور کن نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایک پل کے لیے وہ بھی ساری ناراضگی بھلا کر اسے دیکھتی رہی۔ پھر جیسےیاد آنے پر اس کے ابرو شکایتی انداز میں اکٹھے ہوئے۔ چبھن والے عجیب سے بریسلٹ کو مٹھی میں دبائے وہ واپس اندر چلی گئ۔ اسے یہ بھی بھول گیا کہ وہ کرنے کیا گئ تھی۔ اس کے جاتے ہی کبیر چہرہ جھکا کر مسکرایا۔ وہ کبھی اس کی آنکھوں میں نہ دیکھنے والی اس سے نظریں چرا جانے والی اب کچھ پل کے لیے ہی سہی مگر اس کی آنکھوں میں دیکھنا سیکھ تو گئ تھی۔۔

"لو جی آگئے صاحب جی۔۔ خیر سے کدھر رہ گئے تھے آپ؟؟" اس کے سٹیج پر پہنچتے ہی فرہاد نے شرارتی انداز میں اس سے پوچھا۔ اس نے بھی کریم کلر کا سادہ کرتہ پہن رکھا تھا اور بال ہنوز پونی میں بندھے تھے۔ کبیر نے بجائے اسے جواب دینے کے عالیان کو دیکھا جو اسے دیکھتے ہی منہ پھلا گیا تھا۔۔

“دوست کا نکاح ہے یار اچھے سے تیار ہونا تو بنتا تھا نا سو ہو گئ دیر۔" نظریں عالیان کے بارہ بجے ہوئے چہرے پر ٹکائے اس نے فرہاد سے کہا اور پھر بلکل اس کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔

“اچھا اب کب تک ناراض رہو گے۔ ردا کی بات ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا میرے پاس سمجھو اس نے ایک احسان کیا تھا بس وہی اتارا ہے میں نے۔۔" کبیر جہانگیر اپنی صفائی میں بول رہا تھا۔ عالیان ہنوز خاموشی سے بس سامنے دیکھ رہا تھا اور کبیر سے اس کی چپی برداشت بھی تو نہیں ہو رہی تھی۔

“میں اگر کبیر جہانگیر نہ ہوتا تو تمہارے نکاح پر ضرور ڈانس کرتا۔۔" عالیان جانتا تھا اسے ڈانس سے واقعی نفرت تھی خیر وہ اگر کوئی اور بھی ہوتا تب بھی ڈانس کبھی نہ کرتا۔

“تم اگر کبیر جہانگیر نہ ہوتے تو یہاں بھی نہ ہوتے۔۔" عالیان کی اس بات پر وہ کھل کر مسکرایا۔ تبھی عابس بھائی ان تینوں کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نکاح کا وقت ہو گیا ہے جس پر عالیان نے سر اثبات میں ہلایا۔

●●●●●●●●●●●●●●

تمام مرد حضرت لان میں ہی موجود تھے جبکہ عورتیں گھر کے اندر لونگ روم میں تھیں۔ عالیان سے رضامندی لینے کے بعد مولوی صاحب ناصر اور جہانگیر صاحب کے ہمراہ ردا سے رضامندی لینے کے لیے لونگ روم میں گئے۔ سرخ رنگ کے قدیم کامدار دوپٹے کا گھونگھٹ لیے ردا نروس سی صوفے پر بیٹھی تھی۔ یہ دوپٹہ اس کی ماما جان ناہیدہ بیگم کی شادی کا تھا۔ انابیہ بلکل اس کے ساتھ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھی تھی۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جس شخص سے زندگی میں اتنی نفرت کی تھی وہی شخص اس کے دل پر قابض ہو جائے گا جس شخص سے اتنی نفرت کی تھی اسی کو اپنا ہمسفر چن لے گی۔ لیکن انسان کا کیا ہے وہ تو بہت کچھ سوچتا رہتا ہے ایسے لمحات کا بھی سوچتا ہے جنہوں نے کبھی ہونا ہی نہیں ہوتا اور کبھی ایسے لمحات پر حیران ہو جاتا ہے جن کے ہونے کا کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا۔ مولوی صاحب اب ردا سے رضامندی لے رہے تھے جس پر اس نے بلا سوچے سمجھے قبول ہے ۔۔قبول ہے ۔۔قبول ہے کہہ دیا کیونکہ یہ وقت سوچنے کا نہیں تھا وہ اپنے دل کو مکمل تیار کر کے بیٹھی تھی۔ دستخط ہونے کے بعد سب نے اسے مبارکباد اور بہت ساری دعائیں دیں۔ اب اسے اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔

“بس اتنی سی بات تھی۔۔" دل ہی دل میں کہتی وہ خود پر ہنس بھی رہی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد وہ اسٹیج کے وسط میں کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی کلائی پکڑے وہ نظریں سامنے مرکوز کیے سرخ گھونگھٹ اور بھرے ہوئے جوڑے میں آتی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ ردا کے ایک طرف انابیہ تھی اور ایک طرف مناہل جو دونوں طرف سے اس کے بھاری جوڑے کو اٹھائے ہوئے تھیں۔ سفید ماربل کی راہداری پر وہ تینوں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آرہی تھیں۔ دائیں بائیں سفید کرسیوں پر بیٹھے اور آس پاس کھڑے لوگ پوری طرح سے ردا کی طرف متوجہ تھے۔ سفید پھولوں سے سجے اسٹیج پر عالیان اس کا منتظر سا کھڑا تھا۔ سارا غصہ تو کہیں دور جا کر دفن ہو گیا تھا اب تو بس ایک ہی خواہش تھی اس کی کہ ناجانے کب یہ فاصلہ کٹے اور ردا اس کے سامنے کھڑی ہو۔ اس کی آنکھوں کی نمی چمک رہی تھی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو جائے تو آنکھیں کیسے نم نہ ہوتیں۔ اسے أنتظار کرنے آتا تھا اور اس أنتظار کے بعد جو اسے ملا تھا وہ واقعی اس کی اوقات سے کئی بڑھ کے تھا۔ ردا احمد عالم جسے پانے کی امید وہ کھو بیٹھا تھا آج وہ اس کے نکاح میں تھی۔ آج اس کے نام کے ساتھ عالیان کا نام ہمیشہ کے لیے جڑ گیا تھا۔ آخرکار فاصلہ طے ہو گیا اور اب وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ عالیان نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو گھونگھٹ کے اندر ردا کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مبھم سی مسکراہٹ ابھری۔ بنا سوچے سمجھے اس نے اپنا ہاتھ عالیان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ کچھ پل اس کا ہاتھ پکڑے اسے دیکھتا رہا۔

“اجازت ہے؟؟" وہ اس کا گھونگھٹ اٹھانے کے لیے اس سے پوچھ رہا تھا۔

“اجازت نہیں دوں گی تو گھونگھٹ نہیں اٹھائیں گے؟" اس نے مسکراتے ہوئے اسے تنگ کرتے ہوئے کہا۔ عالیان چہرہ دوسری طرف کر کے مسکرا گیا۔

“تم سے پوچھ بھی کون رہا ہے۔۔ ہونہہ۔۔" ہنستے ہوئے کہتے اس نے گھونگھٹ اٹھا دیا۔ اس کی سبز آنکھوں میں دیکھ کر عالیان کہیں کا نہیں رہا۔

“آئی ایم بلیسڈ۔۔" اس کے کان کی طرف جھک کر اس نے سرگوشی نما انداز میں کہا جس پر ردا جھینپ کر مسکرائی۔ وہ اس سے کہنا چاہتی تھی "می ٹو۔۔" مگر نہیں کہہ پائی۔ ان دونوں کو اسٹیج پہ ساتھ کھڑا دیکھ کر سب کو ان پر رشک آرہا تھا پیار آرہا تھا۔ سب سے زیادہ خوشی کا مرحلہ تو یہ انابیہ کے لیے تھا کیونکہ ایک طرف اس کی جان سے عزیز بہن تھی اور دوسری طرف اس کا بہترین دوست۔ چہرہ جھکا کر اس نے اپنی بھیگی آنکھوں کے کنارے انگلیوں کے پوروں سے صاف کیے اور گہرا سانس بھر کے سر اٹھایا ہی تھا کی نظر بےساختہ فرہاد پر رکی جس ے دیکھ کر لگ رہا تھا وہ اس سے چھپ کر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ فوراً اس کے سامنے اس کی راہ روکے کھڑی ہو گئ۔ اسے یوں اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر فرہاد ہڑبڑا سا گیا۔ صد شکر آج اس کے ہاتھ میں پستول نہیں تھا بس یہی دیکھتے اس نے گہرا سانس بھرا۔ جبکہ اس کو یوں شکر کا سانس لیتے دیکھ کر انابیہ کی آنکھیں مزید چھوٹی ہوئیں۔

“بڑے ٹائم بعد ملاقات ہوئی آپ سے۔۔ کیسی ہیں آ آ آ۔۔" اس نے رک کر انابیہ کے پیچھے تھوڑا دور کھڑے کبیر کو دیکھا جو بازو سینے پر باندھے تنبیہی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ اسے دیکھ کر فرہاد مسکرایا۔۔ "آ۔۔مس ٹیولپ۔ کیسی ہیں آپ؟؟" اب وہ پوری طرح سے انابیہ کی طرف متوجہ تھا۔

“میں تو بلکل ٹھیک ہوں۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم بھی آئو گے۔۔" انداز سنجیدہ تھا۔ فرہاد کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

“آپ نے تو انوائٹ کیا نہیں خیر تھینکس ٹو یو آپ کی وجہ سے میری عالیان سے دوستی ہو گئ۔۔ اچھا میں ذرا جلدی میں ہوں۔۔" وہ عجلت میں بول کر جانے ہی لگا تھا کہ پھر سوچنے لگا کیا اسے کچھ اور بولنا چاہیے؟؟ کہیں انابیہ کو شک ہی نہ ہو گیا ہو؟ "مل کر اچھا لگا آپ سے۔۔(افف۔۔) چلتا ہوں۔۔" خود کو ڈھیر ساری لعنتیں دیتا وہ بھاگنے کے انداز میں وہاں سے چلا گیا۔ انابیہ کی پیشانی پر بل واضح ہوئے۔ یہ فرہاد پچھلے فرہاد سے مختلف کیوں لگ رہا تھا؟ وہ جو فون پر اس سے اتنی اتنی باتیں کرتا تھا آج اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ یہ کیسی محبت تھی جو وہ اس کی حفاظت تو کر سکتا تھا مگر اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے بھی ڈر رہا تھا؟ ایک بات جو اس نے پہلے پل میں ہی نوٹ کر لی تھی وہ تھی اس کی آواز جو فون والے فرہاد سے بہت مختلف لگ رہی تھی۔ کیا وہ اس بات پر ناراض ہو گیا ہے کہ انابیہ نے اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ؟ سوچتے سوچتے وہ اپنے پیچھے کی طرف پلٹی تب اس نے دیکھا کہ اس کے پلٹتے ہی کبیر بھی دوسری طرف پلٹ گیا بلکل اسی طرح جیسے وہ لائیبری میں اس کے مڑتے ہی مڑ گیا تھا۔ اسی ناسمجھی ناسمجھی میں اس نے اسٹیج میں بیٹھے عالیان کو دیکھا جو ردا سے کچھ کہہ رہا تھا۔ فرہاد، کبیر اور عالیان ۔۔ کوئی تو بات تھی جس سے اسے انجان رکھا گیا تھا۔ دماغ پر زور زور سے سوچوں کے ہتھوڑے لگ رہے تھے۔

“افف کیا ہو گیا ہے مجھے لگتا ہے تھک گئی ہوں بہت۔۔" کوفت سے سر جھٹکتے وہ تایا ابو کی ویل چئیر کے پاس چلی گئ۔

●●●●●●●●●●●●●

فرہاد گیٹ کی طرف جا رہا تھا۔ چلتے چلتے اس نے ایک نظر گھر کے داخلی دروازے میں سے نکلتی ایک لڑکی کو دیکھا جس کے ایک ہاتھ میں گفٹس کے ڈبوں سے بھری ٹوکری تھی اور دوسرے ہاتھ میں موبائل تھا اور وہ پوری طرح سے اس موبائل میں کھوئی ہوئی چل رہی تھی۔ اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر وہ گیٹ کی طرف مڑ گیا۔ ایک دو قدم اٹھانے پر ہی اسے یاد آیا کہ اسے کبیر سے کچھ بات کرنی تھی۔ بس اس کے واپس پلٹنے کی دیر تھی کہ وہی لڑکی اس سے آکر زور سے ٹکرائی۔ ایک لمحے کے لیے فرہاد کو کچھ سمجھ نہیں لگی کہ کیا ہوا ہے۔

“ہائے یہ اندھوں کو کس نے بلا لیا شادی پر؟؟" وہ اپنے سر پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیے بول رہی تھی۔ جو گفٹس اور موبائل ابھی کچھ دیر پہلے اس کے ہاتھوں میں تھے اب زمین کی زینت بنے ہوئے تھے۔

“یہ شادی نہیں نکاح ہے اور یہ اندھا کس کو بول رہی ہیں آپ؟؟" فرہاد نے عجیب سی نظروں سے اس سنہرے رنگ کی چمکتی ہوئی ساڑھی میں ملبوس لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اگلے ہی لمحے اس نے آنکھیں کھول کر سامنے کھڑے اندھے کو دیکھا۔

“تم ٹکرائے ہو نا مجھ سے تو ظاہر ہے تم ہی اندھے ہو سو تمہیں ہی اندھا بول رہی ہوں۔۔" وہ اب بھی اپنا سر پکڑے ہوئے تھی اور اپنی ہیزل آنکھیں اس کی سرمئ آنکھوں میں گاڑھے وہ تیز آواز میں بول رہی تھی۔ فرہاد نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔

“موبائل میں محو ہو کر آپ چل رہی تھیں اور اندھا میں ہوا؟ وائو!!" وہ اب جھک کر اس کے گفٹس اٹھا رہا تھا۔ لاریب نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔

“یہی تو کہہ رہی ہوں موبائل میں محو میں تھی اور اندھوں کی طرح ٹکرا تم گئے۔ آس پاس دیکھ لیا کرو۔۔" وہ بھی اب جھک کر اپنا فون اٹھا رہی تھی۔

“دیکھیے محترمہ اگر میں آپ کو آپ آپ کر کے مخاطب کر رہا ہوں تو آپ بھی تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کریں اور اپنی غلطی تسلیم کریں۔۔" اس نے سارے ڈبے جمع کر کے اسی ٹوکری میں رکھ دیے۔ لالی اپنے موبائل کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی جو بری طرح سے نشانات کی زد میں آگئی تھی۔

“تو تمہیں کس نے کہا بلیک اینڈ گرے کومبو کہ مجھ سے آپ آپ کرکے بات کرو۔ جیسے میں تم تم کر رہی ہوں تم بھی تم تم کرو۔ ویسے بھی جتنے تمیزدار تم ہو وہ تو تم نے ٹکرا کر بتا ہی دیا۔۔" وہ طنزیہ انداز سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ فرہاد نے گہرا سانس بھرا۔ کس آفت سے پالا پڑ گیا تھا اس کا اور پھر افسوس کرتے کرتے کھڑا ہو گیا۔ بنا کچھ کہے اب کی بار اس نے ٹوکری لڑکی کو تھما دی۔

“اگر اس میں کچھ بھی ٹوٹا تو انابیہ بہت ناراض ہوگی۔۔" وہ گفٹس کے ڈبوں پر نظریں ٹکائے دھیمی آواز میں جیسے خود سے بول رہی تھی۔ فرہاد بغور اسے دیکھ رہا تھا یعنی اسے دھیما بولنے بھی آتا تھا۔

“آپ کون ہیں؟" یہ سوال اس نے بےساختہ کیا تھا ورنہ اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ اس غصیلی لڑکی سے مزید کوئی بھی بات کرے۔

“تم کون ہو؟؟" وہ بجائے جواب دینے کہ اس سے پوچھنے لگی۔

“میں عالیان کا دوست ہوں۔۔"

“اور میں انابیہ کی دوست ہوں۔۔" وہ کہہ کر جانے ہی لگی تھی۔

“تبھی تو اتنا غصہ آتا ہے۔۔ اب سمجھ آئی آپ کا قصور نہیں ہے ہنی بی!!" اس جملے پر اس کے قدم فوراً رکے۔

“انابیہ کو غصہ آتا ہے؟؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ فرہاد کے چہرے پر بھی ناسمجھی ابھری۔

“آپ دوست ہیں نا آپ کو نہیں پتہ؟؟" یہ لالی کو واضح طنز لگا تھا۔

“دوست ہے تبھی کہہ رہی ہوں کہ اسے تو غصہ نہیں آتا۔۔" تیزی سے کہتے ہی وہ جانے کے لیے آگے بڑھی پھر اس کے بلکل قریب سے گزرتے ہوئے رکی۔۔ "میرا نام لاریب ہے ہنی بی نہیں۔۔" انداز تنبیہی تھا اور آنکھیں فرہاد کی آنکھوں میں کھبی ہوئی تھیں۔ وہ کچھ نہیں بولا بس اس کی آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے ایک قدم پیچھے ہٹا کیونکہ وہ اس کے بہت قریب کھڑی تھی۔ پھر وہ چلی گئ اور فرہاد اس کے جاتے ہی مسکرایا۔ سنہری ساڑھی میں وہ اسے ہنی بی ہی لگی تھی۔ یہ مسکراہٹ اگر لاریب کے سامنے اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوتی تو اس کی خیر نہ ہوتی۔

●●●●●●●●●●●●●●

وانیہ ملک چہرے پر مسکراہٹ سجائے سفید کرسی کے پیچھے کھڑی اس کی ٹیک پر دونوں ہاتھ رکھے سامنے اسٹیج پر انابیہ اور اس کی فیملی کو تصاویر بنواتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اس نے کریم کلر کی لمبی پیروں تک آتی قمیض اور ساتھ اسی کلر کا چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔ دوپٹہ کندھے پر لٹک رہا تھا اور بال روزمرہ کی طرح بوائے کٹ میں کٹے اسے خوبصورت دکھا رہے تھے۔

“آج تو لوگ بجلیاں گرا رہے ہیں۔۔" اپنے عقب سے آتی آواز پر وہ یکدم سیدھی ہوئی اور پیچھے کی طرف گھومی جہاں سرمئی رنگ کے کرتے میں ملبوس چینی نقوش والا ماجد علی کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس کے جملے پر غور کرتے ہوئے وانیہ سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگی آخر بجلیاں کہاں سے گر رہی تھیں اس پر؟

“کون گرا رہا ہے بجلیاں؟" اس نے بڑا تپ کر پوچھا تھا جبکہ ماجد علی کو وہ بہت ہی معصوم لگی تھی۔

“خود پر غور کیجئے آپ ہی تو گرا رہی ہیں۔۔"

“تو پھر اپنے حوش و حواس مت کھوئیے گا ماجد صاحب ایسے نہ ہو یہ بجلیاں ساری کی ساری آپ پر ہی گریں۔۔" شوخ انداز سے کہتے ہی وہ اپنا رخ دوبارہ موڑ گئ۔ سامنے مڑتے ہی اس نے انابیہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔

“یہاں کیوں کھڑے ہو؟ آجائو پکچرز بنوانی ہیں۔۔" وہ خفگی سے وانیہ کو دیکھتے ہوئے بولی اور پھر پیچھے کھڑے ماجد علی کو بھی تنبیہی انداز سے بھنویں اچکا کر آنے کا اشارہ کیا۔ دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ ابھری اور تصاویر کھنچوانے کے لیے انابیہ کے پیچھے چل پڑے۔

تھوڑی دیر بعد فوٹو سیشن ختم ہو گیا تھا۔ اب سب کو مل کر ایک اور کام کرنا تھا۔ اسٹیج پر کھڑی ردا کی متلاشی نظروں نے دور سے ہی انابیہ کو پا لیا جو تھوڑا ہی آگے لالی کے ساتھ کھڑی اس سے باتیں کر رہی تھی۔ اپنے بھاری بھرکم جوڑے کو دونوں ہاتھوں سے اٹھاتے ہوئے وہ اسٹیج سے اتر کر اس کے پاس چلی گئ۔

“آپی میرے ساتھ آئیں۔۔" قریب آتے ہی اس نے نرمی سے کہا اور کہتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانے لگی۔ انابیہ کے چہرے پر یکدم ناسمجھی اور تھوڑی فکرمندی ابھری۔ پلٹ کر جانے سے پہلے ردا نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لالی کو اشارہ کیا جس پر اس نے سمجھ کر سر ہلایا اور فوراً دوسری طرف سے مناہل کو لیے گھر کے اندر چلی گئ۔ ردا اس کا ہاتھ پکڑے سیدھا اسے اسٹیج پر لے کر گئ تھی۔

“بیٹھ جائیں یہاں۔۔" اس نے کہتے ساتھ انابیہ کو صوفے پر بٹھا دیا۔ وہ عجیب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے دوبارہ اٹھ گئ۔

“تم دلہن ہو تم بیٹھو۔۔" اس نے ضدی نظروں سے ردا کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے کندھوں سے پکڑ کر اسے پھر سے بٹھا دیا۔

“آپی پلیز بیٹھ جائیں۔۔" وہ پھر بیٹھ کر لاچار نظروں سے اپنے ساتھ کھڑی ردا کو دیکھ رہی تھی جو خود دلہن تھی۔ اسے دیکھتے دیکھتے انابیہ نے بےدھیانی میں گردن اپنے دائیں طرف موڑی تو ہکا بکا رہ گئ۔ اس کے بلکل ساتھ کبیر جہانگیر بیٹھا تھا۔ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ بڑے اطمینان سے بیٹھا سامنے دیکھ رہا تھا۔ انابیہ برف کی ہو گئ۔ یہ سب کیا ہو رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ مسلسل اسے گھورے جا رہی تھی جس نے ایک دفعہ بھی اسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا جن نظروں سے انابیہ اسے دیکھ رہی ہے اگر اسنے ان نظروں میں جھانک کر دیکھا تو ڈر ہے کہ وہ نظروں سے ہی اسے پورا کا پورا نگل نہ جائے۔ اس سے پہلے وہ کسی سے کچھ پوچھتی سامنے دیکھتے ہی اسے اس کا جواب مل گیا۔ مناہل اور لاریب دونوں راہداری پر چلتے ہوئے اسی کی طرف آرہی تھیں۔ دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی اور ہاتھوں میں۔۔۔ ہاتھوں میں انگوٹھیاں۔۔ اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ آنکھیں نم ہو رہی تھیں اور اسے آنسوؤں کو بس کنٹرول کرنا تھا۔ اگلے ہی لمحے وہ دونوں قریب آگئیں۔ لالی انابیہ کے سامنے کھڑی تھی اور مناہل کبیر کے سامنے۔۔ چکور شیشے پر سیاہ رنگ کی مخملی ڈبیا تھی جس کے اندر انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔ اس نے بنا کچھ سوچے وہ ڈبیا اٹھا لی۔ ایک نظر اٹھا کر اس نے تایا ابو کو دیکھا جنہوں نے مسکرا کر اسے آنکھوں کے اشاروں سے تسلی دی۔ ان پر سے نظر ہٹ کر عالیان پر ٹھہری جو ان کی ویل چئیر کے پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔ یکدم سب عدم ہو گیا۔ کرسیاں خالی ہو گئیں۔ وہاں موجود سب اںسان غائب ہو گئے۔ ایک کرسی پر کوئی تھا۔ وہ شخص مسکراتے ہوئے اسے نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ انابیہ کا سانس رک گیا۔۔

“تم نے ٹھیک کہا تھا کہ تم نے غلط انسان سے محبت نہیں کی۔۔" وہ کتنے عرصے بعد ان کی آواز سن رہی تھی۔ کتنے وقت بعد وہ اسے دکھائی دیے تھے۔ اسے لگا تھا وہ اس سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے اسکے خوابوں میں آنا چھوڑ دیا تھا۔

“میں غلط تھا بیا۔ میں نے ہی تم سے سب سے زیادہ محبت کی اور میں ہی تمہاری تکلیف کی وجہ بنا مجھے اب بھی افسوس ہے کہ کبیر جیسے انسان کو میں نے تمہاری زندگی سے نکالا۔۔" وہ سانس لے رہی تھی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ کب سے اس نے سانس نہیں لی۔ دل تھا کہ بس سینہ چیر کے نکل جائے گا۔

“لیکن تمہاری محبت نے ثابت کیا کہ سچی محبت کو کوئی زوال نہیں ہوتا۔ وہ جیت کر رہتی ہے۔ ہار صرف دشمنوں کی ہوتی ہے۔ ہار صرف نفرت کی ہوتی ہے اور نفرت کو سچی محبت کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہی ہوتے ہیں۔۔" اس نے ہلنے کی کوشش کی۔ وہ ان کے پاس جانا چاہ رہی تھی۔ وہ اٹھ نہیں پا رہی تھی ہل نہیں پا رہی تھی۔۔پھر اسے اپنے کندھے پر کسی کی گرفت محسوس ہوئی۔ اس نے گہرا سانس لے کر ادھر ادھر دیکھا سب پہلے جیسا ہو گیا تھا۔ اس نے سر بائیں طرف اٹھا کر دیکھا وہاں ہمیشہ کی طرح ردا آج بھی اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

“آپ ٹھیک ہیں؟؟" اس نے فکرمندی سے پوچھا۔ انابیہ نے اطمینان سے سر اثبات میں ہلایا۔ اب اس کے دل کو سکون تھا کیسے نہ ہوتا ابھی ابھی وہ اپنے باپ سے ملی تھی۔ ڈبیا میں سے انگوٹھی نکال کر وہ تھوڑا کبیر کی طرف گھومی۔ ایک پل دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور کبیر نے بایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ ناک کے ذریعے سانس اندر کھینچتے ہی انابیہ نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنا دی۔ کبیر مبہوت ہو گیا اور ہوا تالیوں کی گونج سے مچل اٹھی۔۔ اس نے نظریں جھکائے اپنا بایاں ہاتھ کبیر کی طرف بڑھا دیا ۔ کبیر نےنرمی سے ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسے انگوٹھی پہنا دی۔ ایک دفعہ پھر تالیوں کی گونج سنائی دی۔ سب پیار سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ آسمان کو ان پر رشک آرہا تھا۔ ہوا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس خوشی میں پوری دنیا گھوم آئے سب کو پیغام دے آئے کہ دیکھو جلنے والوں دیکھو محبت کے دشمنوں دیکھو آج محبت جیت گئ ہے کیونکہ محبت جیت ہی جاتی ہے اذیت کاٹ کے ہی سہی لیکن جیت ہی جاتی ہے۔

کتنے سال بیتے کتنے موسم بدلے۔

کتنے دن کتنی ہی راتیں کٹیں۔۔

ایک قسمت ہے جو کبھی نہ بدلی۔۔

تم کل بھی میری تھی اور آج بھی

تم صرف میری ہو۔۔

وقت کی بےرحمی دیکھوں یا اس کا کرم۔۔

تمہیں مجھ سے چھین کر

پھر مجھے ہی سونپا ہے۔۔

اس وسیع آسمان کے نیچے سب کے سامنے۔۔

میں خود کو تمہارے سپرد کرتا ہوں۔۔

بس تم خود کو مجھے سونپ دو ۔۔

اس جدائی کے طوفان کو جو ہم نے سہا ہے۔۔

مل کر خوشی خوشی الوداع کرتے ہیں ۔۔

تو چلو ہم دونوں مل کر سب کو آگاہ کریں ۔۔

کہ سچی محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔۔

اسے نہ جدائی ختم کر سکتی ہے۔۔

نہ وقت روک سکتا ہے۔۔

نہ ہی کوئی دشمن اسے چھین سکتا ہے۔۔

تو چلو زندگی کے ایک نئے باب کے ساتھ

ہم خود سے وعدہ کرتے ہیں۔۔

کسی انسان کو جدائی کا سبب نہیں بننے دیں گے۔۔

ایک دوسرے کے ہو کر رہیں گے۔

بس تم یہ ایک فقرہ یاد رکھنا

"محبت چھینی نہیں جا سکتی۔"

●●●●●●●●●●●●●

یہ ظفر جہانزیب کی کراچی والی حویلی کا منظر تھا۔ مکمل خاموشی۔۔ قطار میں سر کو جھکائے کھڑے سیاہ وردی میں ملبوس ظفر کے اہم گارڈز اور ان کے آگے سر پر ہاتھ رکھے پریشانی کی حالت میں چکر کاٹتا جہانزیب عالم خان۔۔ پل بھر کر رک کر ایک گارڈ کو شعلہ وار نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

“تم نے کہا ظفر صبح سے غائب ہے اور اب آدھا دن گزرنے کے بعد تم مجھے بتا رہے ہو یہ سب۔۔" مکمل خاموشی میں اس کی اونچی آواز بہت گونج رہی تھی۔

“سر ہمیں لگا ہمیشہ کی طرح وہ خود آجائیں گے۔۔" وہ نظروں کو جھکائے دھیمی آواز میں بولا۔

“بکواس بند کرو۔۔ تمہیں ذمہ داری سونپی تھی اس کی کہ وہ جہاں جائے تم مجھےخبر دو گے۔۔ تمہیں کیسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں گیا ہے؟؟"

“ہم ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتے تھے سوائے ایک جگہ کے۔۔" وہ رک رک کر اپنی صفائی میں بول رہا تھا۔ "مہینے میں دو یا تین دفعہ وہ سمندر کی پچھلی طرف ایک ویران جگہ پر کسی سے ملنے جاتے تھے یا کچھ لینے ان کے ساتھ ہمیشہ ان کا پرسنل گارڈ ہوتا تھا۔۔ پھر وہ گارڈ کہیں غائب ہو گیا۔ ظفر سر نے ایجنسی سے اپنے لیے ایک نئے گارڈ کا بندوبست کیا تھا کیونکہ انہیں ہم میں سے کسی پر بھی یقین نہیں تھا کیونکہ ہم آپ کے وفادار ہیں۔۔” جہانزیب ماتھے پر ڈھیروں بل لیے اسے سن رہا تھا۔۔ "انہوں نے ہمیں ان کے پیچھے جانے سے منع کیا تھا جس گارڈ کو میں نے ان پر نظر رکھنے کے لیے کہا تھا ظفر سر نے اس کو پکڑ لیا اور گولیوں سے اس کا برا حال کر دیا۔۔" جہانزیب جو کب سے تیوڑیاں چڑھائے سن رہا تھا اس کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔ پیشانی کے بل غائب ہو گئے۔ کوئی بھی باپ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا بیٹا قتل کرنے کو ایک کھیل سمجھے چاہے اس نے خود اپنی زندگی میں کتنے بھی قتل کیوں نہ کیے ہوں۔۔ "تبھی انہوں نے ہم سب کو جمع کر کے دھمکی دی ہمیں مارنے کی نہیں خود کو مارنے کی سر۔۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب کوئی بھی ان کا پیچھا کرے گا تو وہ خود کو مار دیں گے اور ذمہ دار ہم ہوں گے۔ " ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح ہوا میں گہرا سانس خارج کر کے جہانزیب بھاری قدموں سے دوسری طرف پلٹ گیا تبھی اسے سامنے سے دلاور آتا دکھائی دیا۔

"کچھ پتہ چلا میرے بیٹے کا؟؟" وہ امید سے چور نظروں سے دلاور کو دیکھتے نرمی سے بولا جس پر دلاور نے سر کو جھکائے نفی میں ہلا دیا۔ جہانزیب کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔

"سائیں ہم نے ہر جگہ تلاش کر لیا انہیں مگر وہ نہیں ملے البتہ ان کی گاڑی اسی ویرانے سے ملی ہے۔۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ وہ جن سے ملنے جاتے تھے ان کے ساتھ چلے گئے ہوں گے یا پھر۔۔" وہ رک گیا اور جہانزیب کو اس کے رکنے سے سخت کوفت ہو رہی تھی۔۔ "یا پھر انہی لوگوں نے ان کو اغوا کر لیا ہوگا۔۔"

جہانزیب پریشانی سے اپنی پیشانی مسلنے لگا۔

"اس کا گارڈ۔۔" وہ پیچھے کی طرف گھوما۔۔"وہ کس ایجنسی کا ہے؟؟" وہ دوبارہ اسی گارڈ سے مخاطب تھا۔

"سر میں سب سے پہلے اسی کی ایجنسی گیا تھا اس کا پتہ کرنے۔ ان لوگوں کو نہیں معلوم نہ ہی ان کا کوئی کنٹیکٹ ہے اس کے ساتھ۔۔ لگتا ہے وہ بھی ان کے ساتھ ہی۔۔"

"غلط مجھے سو فیصد یقین ہے اس سب میں اسی کا ہاتھ ہے۔۔ اور یہ سب میرے ہی کسی کی دشمن کی چال ہے لیکن کون؟؟" اس کے دشمن بہت تھے اگر انگلیوں میں بھی گنتا تو گنتی مشکل تھی۔

"آپ کو کیا لگتا ہے سائیں آخر کون ہو سکتا ہے؟؟"

"پہلے سایہ کو آگ لگ جانا اور اب ظفر کا غائب ہو جانا تمہیں نہیں لگتا یہ سب ایک ہی انسان کا کام ہو سکتا ہے لیکن کون؟ کون ہے یہ جو چھپ کر مجھ پر وار کر رہا ہے؟؟" وہ جھنجھلا اٹھا۔

"کچھ بھی کرو دلاور مجھے پتہ کر کے دو یہ شخص کون ہے۔ میں اسے جان سے مار دوں گا سمجھے تم؟" وہ غرایا تو دلاور نے سر اثبات میں ہلایا اور سر کو خم دے کر وہاں سے چلا گیا۔۔ جہانزیب کے دماغ پر سوچوں کے ہتھوڑے لگ رہے تھے۔ وہ اپنے ایک ایک دشمن کو بھی سوچے گا تو رات ہو جائے گی لیکن وہ سوچے گا اپنے دماغ کر ہر زاویے سے استعمال کرے گا ۔

●●●●●●●●●●●●●●●

اگلے دن کا سورج طلوع ہوئے اب کافی دیر ہو چکی تھی۔ آسمان پر سفید بادلوں کی رش لگی ہوئی تھی اور سورج کہیں ان کے پیچھے ہی چھپا ہوا تھا۔ بلاشبہ آسمان کا یہ منظر خوبصورت ترین مناظر میں سے ایک تھا۔ ایسے میں اس خوبصورت آسمان کے نیچے وہ بالکونی میں ہینگنگ چئیر پر بیٹھی مسلسل اپنے ہاتھ کی انگلی میں چمکتی ہوئی ہیرے کی انگوٹھی کو مسرور ہو کر دیکھ رہی تھی۔ لبوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں چمک۔۔ اس کی انگلی میں دمکتا ہیرا محض ہیرا نہیں تھا بلکہ ان کی محبت کی ایک نشانی بن گیا تھا۔ اس محبت کی نشانی جو کتنے سالوں سے اس کے دل پر قابض تھی۔ یہ ہیرا اس کے خوابوں کی عکاسی کر رہا تھا اس کی زندگی کے ہر پہلو، ہنسی، مسکراہٹ، آنسو، درد، تکلیف اور ہر وہ غم جو اس نے محبت کی یاد میں کاٹا تھا اس کے سفر کی کہانی بیان کر رہا تھا۔ وہ خوش تھی بلآخر ان کی محبت کو ایک نام مل گیا تھا وہ ایک رشتے میں بندھ گئے تھے۔ محبت پہلا قدم تھا اور یہ منگنی دوسرا قدم بن گیا تھا۔ ابھی اس نے پرسکون سانس لینے کے لیے سر اٹھایا ہی تھا کہ اس کے کانوں سے اس کے فون کی آواز پھر سے ٹکرائی جو پچھلے ایک گھنٹے سے وقتاً فوقتاً بج رہا تھا۔ سر جھٹک کر وہ اندر کمرے میں چلی گئ لیکن کال پھر بھی اٹھانے کی زحمت نہیں کی جیسے قسم کھا رکھی ہو کہ جائو کبیر جہانگیر چاہے فون سے نکل بھی آئو تب بھی کال نہیں اٹھائوں گی۔

“بندے کو مار کر دم لیں گی اٹھا بھی لیں۔۔" ردا جو اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھی کب سے اس فون کی آواز کو برداشت کر رہی تھی بلآخر اکتا کر بول ہی اٹھی۔ انابیہ اس کے ساتھ سے گزرتے ہوئے بیڈ کی طرف بڑھ گئ۔ ایک دفعہ پھر فون بجا۔ انابیہ کے قدم وہیں رک گئے کیونکہ اس بار آواز ردا کے فون کی تھی۔ تیزی سے پیچھے گھومتے ہی اس نے دیکھا ردا چئیر پر بیٹھی فون کی سکرین اس کی طرف کیے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسکرین پر کبیر بھائی کا نام لکھا دکھائی دے رہا تھا۔

“کال مت اٹھانا ردا۔۔" اس کا انداز تنبیہی تھا۔ ردا نے سر نفی میں ہلایا۔

"کال تو میں اٹھائوں گی کیونکہ مجھے سکون سے پڑھنا ہے پچھلے ایک گھنٹے سے میں پڑھ نہیں پا رہی۔۔" وہ بضد تھی۔

“اچھا ٹھیک ہے کہہ دو وہ سو رہی ہے۔۔" اب کی بار ردا نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کال اٹینڈ کی۔

"کیا ہوا بھائی سب خیریت ہے؟؟" انابیہ بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے پرسکون انداز میں بیٹھ گئ۔۔ "جی جی میرے سامنے ہی بیٹھی ہیں بات کروا دوں؟؟" انابیہ بجلی کی تیزی سے سیدھی ہوئی۔۔ "اچھا ٹھیک ہے۔۔" کہتے ہی اس نے کال کاٹ دی اور پھر انابیہ کی طرف گھومی جو کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

“وہ آرہے ہیں آپ سے ملنے۔۔" یہ ایک اور بم تھا جو ردا نے اس کے سر پر اچانک پھوڑا تھا۔ "اور وہ راستے میں ہیں۔۔" ردا مزے سے کہتے ہی دوبارہ اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئ جبکہ انابیہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔ وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھی اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اسے اپنا حلیہ درست کرنا تھا۔

ٹھیک دس منٹ بعد وہ آگیا تھا اور یہ خبر شہناز نے اس کو آکر دی تھی کہ وہ لان میں کھڑا اس کا انتظار کر رہا ہے۔۔ لان میں قدم رکھتے ہی انابیہ نے دور کھڑے اس لڑکے کو دیکھا جو نیوی بلیو کلر کا تھری پیس سوٹ پہنے اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔

“کیا مسئلہ ہے؟؟" اس نے قریب جاتے ہی پوچھا۔ کبیر آواز پر پیچھے کی طرف گھوما جہاں عام سے کپڑے پہنے اور شیفون کا دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ بھنویں سکیڑے اسے دیکھ رہی تھی۔

“یہی تو پوچھنے کے لیے کب سے کال کر رہا تھا بیا آخر مسئلہ کیا ہے؟؟" وہ سختی سے بات نہیں کر رہا تھا وہ خفگی سے بات کر رہا تھا۔

“میرے ساتھ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ تمہارے ساتھ ہے۔ " ناگواری سے کہتے ہی اس نے نظریں اس کے چہرے پر سے پھیر لیں۔

“تم آفس کیوں نہیں آتی؟ مجھے بتائے بغیر سائٹ پر چلی جاتی ہو میں اس کا کیا مطلب سمجھوں؟؟" اس کی سوالیہ نظریں بیا کے چہرے پر ٹکی تھیں۔

“کیوں بتائوں میں تمہیں؟ تم بتاتے ہو کچھ مجھے؟" آواز میں مزید سختی در آئی۔

“کیا نہیں بتایا میں نے تمہیں؟؟" اس کے اس سوال پر انابیہ نے الٹے ہاتھ کی پشت اس کے سامنے کی جس پر ہیرے کی انگوٹھی دمک رہی تھی۔

“تمہیں مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا کبیر جہانگیر۔ پوچھنا چاہیے تھا نا؟؟" کبیر ایک لمحے کے لیے کچھ نہیں بولا وہ بس ناسمجھی سے اس انگوٹھی کو اور اس کے تمتماتے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر۔۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ پھٹ کر ہنس دیا۔ اس کے یوں ہنسنے پر انابیہ کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئ اور اس کا دل کیا کہ انگوٹھی اتار کر اس کے منہ پر دےمارے۔

“مجھے پوچھنا چاہیے تھا؟؟ تم سے کیا مجھے پوچھنا چاہیے تھا؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنی ہنسی روکے پوچھ رہا تھا۔۔ "کیا میں تمہارا جواب جانتا نہیں تھا؟ پھر بھی کیا مجھے پوچھنا چاہیے تھا؟؟" انابیہ خاموش نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ کیا واقعی یہ سوال پوچھنے والا تھا؟ اسے خود پر غصہ آرہا تھا اس پر بھی آرہا تھا۔

“کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں تمہاری آنکھیں پڑھ لیتا ہوں۔۔ پھر بھی مجھے پوچھنا چاہیے تھا؟" وہ بلکل چپ اپنی جگہ پر کب سے جمی ہوئی کھڑی تھی ہاتھ اب تک ہوا میں تھا۔ کبیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کر دیا۔ انابیہ ہوش کی دنیا میں آئی۔

“اور کیا ہوتا کبیر جہانگیر اگر میں سب کے سامنے انگوٹھی پہننے سے انکار کر دیتی اور اسٹیج سے اٹھ کر چلی جاتی؟؟"

“تم ایسا کبھی نہ کرتی۔۔" وہ یقین سے بولا تھا۔ "تم کتنا بھی ناراض ہو مگر میں جانتا ہوں تم کبھی بھی میرا مان نہیں توڑسکتی۔۔ کبھی بھی میری محبت کو میرے لیے تھپڑ نہیں بنا سکتی۔۔ مجھے یقین ہے بیا۔۔" اس کے چہرے پر اب بھی مسکراہٹ تھی مطمئن مسکراہٹ۔

“ایک بات بتائو۔۔ میری آنکھیں پڑھ لیتے ہو نا؟" اس کی آواز میں کچھ تھا اداسی۔۔ شکایت۔۔ کبیر نے سر کو ہاں میں ہلایا۔۔ "تو اس دن میری آنکھوں میں جویریہ سلطان کے لیے نفرت کیوں نہیں پڑھ سکے؟" اس سوال پر کبیر ایک لمحے خاموش رہا اور انابیہ اس کی خاموش آنکھوں کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"تم اس سے نفرت نہیں کرتی۔۔" اس نے بہت یقین سے کہا تھا۔ انابیہ دم سادھے اسے دیکھے گئ۔ اتنی بڑی بات وہ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتا تھا؟

"میں کرتی ہوں اس سے نفرت۔۔ اس کی وجہ سے میں نے کیا کچھ نہیں جھیلا اور تم کہہ رہے ہو میں اس سے نفرت نہیں کرتی؟؟" وہ بھڑک اٹھی تھی۔

“ہاں نہیں کرتی۔۔ اگر تمہیں اس سے نفرت ہوتی تو تم اس رات اس کی جان کبھی نہ بچاتی۔ تم نے اس کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی تھی اور جس سے نفرت ہو اسے مرنے دیا جاتا ہے۔۔" اس بار اس کی آواز بھی پہلے کی بنسبت اونچی تھی۔

“وہ سب میں نے انسانیت کے ناطے کیا تھا۔۔" کہتے ہوئے اس نے نظریں چرا لیں۔ کبیر نے سر جھٹک کر اسے دیکھا۔۔

“جہاں انسانیت ہو وہاں نفرت نہیں ہوتی اور جہاں نفرت ہو وہاں انسانیت نہیں ہوتی۔۔" کہتے ہی اس نے اپنی کلائی میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا۔ اس کی ایک ضروری میٹنگ تھی اس لیے اسے جلدی تھی۔۔

"آفس آجائو بیا سب تمہیں وہاں بہت یاد کرتے ہیں۔ میرے ساتھ انہیں مزہ نہیں آتا۔۔" اب کی بار اس نے پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ انابیہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ پرسوچ انداز میں خلا میں دیکھ رہی تھی۔ اس کی خاموشی نے کبیر کے چہرے سے مسکراہٹ چھین لی اسے لگا شاید وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتی اس لیے اپنے قدموں کا رخ واپسی کی طرف موڑ گیا۔

“وہ مجھے مار دے گی کبیر۔۔" وہ جو جا رہا تھا اس کے قدم وہیں زنجیر ہو گئے۔۔پلٹ کر اس نے انابیہ کو دیکھا وہ نم اور گھائل نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔ "تم نے ٹھیک کہا شاید میں اس سے ویسی نفرت نہیں کرتی جیسی وہ مجھ سے کرتی ہے۔ اب کی بار وہ کسی کو شکایت کرنے یا ہماری تصویریں دکھانے نہیں آئی وہ مجھے مارنے آئی ہے۔۔"

“انف بیا۔۔ وہ ایسی نہیں ہے۔۔ نہ ہی وہ کچھ ایسا کرنے آئی ہے۔۔ اپنے دماغ کو ان فضول خیالات سے آزاد کر دو۔۔" سختی سے کہہ کر وہ رکا نہیں۔ اسے اس وقت انابیہ کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا تھا اور مزید بحث پھر خرابی کا باعث بنتی۔ وہ اسے جاتا دیکھتی رہی تھی افسوس بھری نگاہوں سے۔۔ وہ کیوں جویریہ سلطان کا یقین کر رہا تھا وہ کر کیسے سکتا تھا؟ کیا وہ بھول گیا کہ جویریہ ان کی محبت کی قاتلہ رہ چکی ہے اگلا قتل کرنے میں دیر نہیں کرے گی۔

●●●●●●●●●●●●●●●

پرنٹڈ قمیض شلوار کے ساتھ اس نے سر پر ہلکے گلابی رنگ کا حجاب لے رکھا تھا۔ بیگ کندھے سے ٹکائے اور اوور آل بازو پر لٹکائے وہ اپنے کالج کے لیے بلکل تیار دکھائی دے رہی تھی۔ مین دروازہ پار کرتے ہی اس نے سامنے کھڑے عالیان کو دیکھا۔ بھورے رنگ کی شرٹ سیاہ پینٹ اور گھنگھرالے بکھرے بالوں وإلا لڑکا گاڑی سے ٹیک لگائے بازو سینے پر باندھے اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ جبکہ ردا بےحد سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی اور یہی سنجیدگی ساتھ لیے وہ آگے بڑھ گئ۔

“پیپر ہے؟" اس کے قریب آتے ہی عالیان نے اس سے پوچھا۔

“نہیں۔۔"

“ٹیسٹ؟؟"

“نہیں۔۔"

“تو پھر ہاسپٹل جانا ہے؟؟" ردا نے پھر سر نفی میں ہلایا۔۔ “یعنی صرف کالج جانا ہے ۔۔" کہتے ساتھ اس نے آگے بڑھ کر ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔ ردا نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا اور گھوم کر پیسنجر سیٹ پر جا کر بیٹھ گئ۔۔ کچھ راستے مکمل خاموشی رہی اور ہمیشہ کی طرح اسے توڑنے میں پہل عالیان نے کی۔

“کیسا لگ رہا ہے مسز عالیان بن کر؟؟" اس سوال پر ردا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا وہ سامنے سڑک پر دیکھ رہا تھا۔

“سب ویسا ہی لگ رہا ہے نارمل اور عموماً نارمل انسانوں کو سب کچھ نارمل ہی لگتا ہے البتہ آپ جیسے باولوں کے بارے میں تھوڑا تجسس کا شکار ہوں۔۔ آپ بتائیں آپ کو کیسا لگ رہا ہے ردا کا ڈئیر ہزبینڈ بن کر؟ پیر زمین پر لگ رہے ہیں؟ ہواؤں میں تو نہیں اڑ رہے؟؟" وہ مکمل طور پر چہرہ اس کی طرف گھمائے ہوئے تھی۔ یکبارگی میں ہی اسے اتنا کچھ کہتے دیکھ کر عالیان خود کو ہنسنے سے نہ روک سکا البتہ نظریں اب بھی سامنے سڑک پر ہی تھیں۔

“خوش فہمی تمہاری۔۔ مجھے بھی سب نارمل لگ رہا ہے۔۔" وہ صاف مکر گیا۔ وہ واقعی ہوائوں میں تھا اور پیر بھی زمین پر کیسے لگتے بھلا۔۔ سر جھٹک کر اب وہ بھی سامنے دیکھنے لگی۔ پھر اس قدر انجان راستہ دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئ۔

“یہ میرے کالج کا راستہ نہیں ہے۔۔" وہ بےساختہ چیخ کر بولی۔ اس کے یوں چیخنے پر عالیان نے یکدم پریشانی سے اسے دیکھا۔

“ہاں تو جب ہم کالج ہی نہیں جا رہے تو کالج کا راستہ کیسے ہوگا؟؟" اس کا انداز طنزیہ تھا۔ اس کے انداز کو نظرانداز کرتے ردا سوالیہ نظروں سے اسے دیکھے گئی۔ "تم نے کہا نہ کوئی ٹیسٹ ہے نہ پیپر۔ ہاسپٹل بھی نہیں جانا تو میں نے سوچا جانا ضروری نہیں ہوگا۔۔"

“کالج نہیں جا رہے تو کہاں جا رہے ہیں؟؟" اسے غصہ آرہا تھا اور عالیان بس یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد سے جلد انہیں جہاں پہنچنا ہے پہنچ جائیں اس سے پہلے ردا اسے گاڑی سے ہی اٹھا پھینکے۔۔

“تمہیں کچھ دکھانا ہے۔۔ بھروسہ رکھو یار۔۔" اس کی آگ برساتی آنکھوں میں دیکھنے سے پرہیز کرتے ہوئے وہ سامنے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔ ردا خود پر ضبط کرتی خاموشی سے بیٹھ گئ۔ اسے اس پر بھروسہ تھا۔۔ نہیں بھی تھا تو بھروسہ کرنے کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی آپشن تھا ہی کہاں۔

کچھ ہی دیر بعد عالیان نے گاڑی روک دی۔۔ ایک نظر ردا کو دیکھ کر وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر اتر گیا۔ حلق میں ابھری گلٹی کو نیچے کرتے ردا نے بمشکل دروازہ کھولا اور باہر نکلی۔ یہ جگہ بہت عجیب تھی پرانی پرانی سی جسے دیکھ کر اسے فلحال خوف آرہا تھا۔ عالیان کو اس کے چہرے پر خوف کی رمق دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل لگ رہی تھی ظاہر ہے اس چہرے پر روز روز کہاں خوف دیکھنے کو ملتا ہے لیکن فلحال اس کے سامنے ہنس کر وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔

"یہاں آئو ردا۔۔" اس کی پکار پر ردا یکدم سیدھی ہوئی اور حلق سے تھوک نگلتے اس کے پاس جا کھڑی ہوئی۔اس کے چہرے پر اطمینان ردا کی سمجھ سے باہر تھا۔ شوہر تھا اس لیے بچ گیا ورنہ تو وہ اسے چھوڑتی نہ۔۔

عالیان کا رخ سامنے بلڈنگ کی طرف تھا۔ وہ بلڈنگ بھی عجیب سی تھی پرانی پرانی۔۔ بہرحال ردا اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ بلڈنگ کے داخلی دروازے کے پاس اور باہر بہت سے گارڈز تھے۔ دروازے پر کھڑے گارڈ نے ان کو دیکھتے ہی سر کو خم دیا اور ان کے لیے دروازہ کھول گیا۔ ردا کی پیشانی پر ناسمجھی کی لکیریں مزید واضح ہونے لگیں۔ یہاں ایسا کیا تھا جو وہ اسے دکھانے لایا تھا؟؟ اندر پہنچتے ہی روشن مین ہال کو دیکھتے ہی ردا کی آنکھیں حیرت سے مزید پھیلیں۔ بلڈنگ جیسی باہر سے دکھ رہی تھی اس کی بنسبت اندر سے بہت مختلف تھی۔ سفید چمکتا ہوا ٹائلوں سے مزین فرش۔۔ دائیں اور بائیں طرف قطار میں لگے سیاہ رنگ کے مخملی صوفے اور ایل ای ڈی بلبز سے جگمگاتی چھت۔۔ وہ بلاشبہ ایک خوبصورت عمارت تھی۔۔ اندر بھی کچھ گارڈز تھے۔ ایک ورزشی جسامت کے مالک گارڈ سے عالیان باتیں کر رہا تھا جبکہ وہ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئ تھی۔ گھوم کر اس نے ردا کو دیکھا جو ٹرانس کی سی حالت میں کھڑی تھی۔ وہ تیزی سے اس کے قریب گیا۔۔

“تم ٹھیک ہو نا؟؟" ردا نے آواز پر بمشکل سر اثبات میں ہلایا۔۔ "ڈرو مت یہ سب اپنے ہی لوگ ہیں۔۔" اس نے آگے بڑھ کر ردا کا ہاتھ پکڑا اور اس پر نرم گرفت رکھتے اسے ساتھ لے جانے لگا۔۔ ورزشی جسامت والا گارڈ بھی ان کے پیچھے تھا۔ سامنے لفٹ تھی عالیان نے بٹن دبایا اور دروازے کھل گئے۔ لفٹ کے اندر جاتے ہی عالیان کو اپنے ہاتھ پر ردا کی گرفت مضبوط ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کیا وہ اتنا ڈر رہی تھی؟ کہیں اس نے اسے یہاں لا کر کوئی غلطی تو نہیں کردی؟ کچھ ہی دیر میں وہ تیسری منزل پر پہنچ چکے تھے۔ زرک لفٹ کے پاس ہی رک گیا تھا جبکہ عالیان اور ردا آگے بڑھ گئے تھے۔ اب سامنے ایک میٹل کا بنا بڑا سا دروازہ تھا۔ ردا بغور سب دیکھ رہی تھی۔ عالیان نے ہاتھ آگے بڑھا کر دروازے پر لگی ایک چھوٹی اسکرین پر اپنی پوری ہتھیلی رکھ دی اور پھر دروازہ کھل گیا۔ اس کا ہاتھ اب تک ردا کے ہاتھ میں تھا پھر وہ اسے لیے اندر چلا گیا۔ اندر مکمل اندھیرا تھا اور اس اندھیرے میں ردا کا دل ڈوب گیا۔ عالیان کہیں اس کے پیچھے ہی تھا۔ کچھ ہی پل میں کمرہ روشن ہو گیا اس نے سر اٹھا کر چھت کو دیکھا اور پھر سامنے۔۔ وہاں ایک وجود کرسی سے بندھا ہوا تھا۔ وہ اور کوئی نہیں ظفر جہانزیب تھا۔ یہ دیکھتے ہی ردا بےساختہ ایک قدم پیچھے ہوئی۔ اسے اپنے پیروں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔

“تمہارا مجرم ردا۔۔" آواز کہیں اس کے عقب میں سے آئی تھی اور قریب سے آئی تھی یعنی وہ ٹھیک اس کے پیچھے تھا۔ ردا بس ساکت اور پتھرائی نظروں سے ظفر کو دیکھے جا رہی تھی۔

“جس نے تمہارا جینا حرام کر رکھا تھا۔ جس نے تمہیں کدنیپ کیا تھا۔ جس نے تمہیں بہت اذیت دی۔ آج تمہارے سامنے نڈھال پڑا ہے۔۔ کیا کرنا چاہو گی اس کے ساتھ؟؟" ردا تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہی تھی اسے تو جیسے کچھ یاد ہی نہیں تھا۔ اگر کچھ یاد تھا تو عالیان کو دی ہوئی اذیت یاد تھی۔ اگر کچھ یاد تھا تو بس یہی کہ سامنے بےسدھ پڑے وجود نے عالیان کو ٹارچر کیا تھا اسے زخمی کیا تھا۔ دفعتاً اسے اپنے دائیں طرف کسی چیز کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے سر اس طرف اٹھایا تو اس کی نظر سب سے پہلے سیاہ ریوالور پر پڑی جو عالیان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ خود کہیں اس کے پیچھے تھا لیکن بازو لمبا کیے ریوالور کا نشانہ ظفر کے بےہوش وجود کی طرف کیے ہوئے تھا۔ یہ دیکھ کر ردا نے بمشکل تھوک نگلا اور بمشکل اپنے قدموں پر زور دیتی پیچھے کی طرف گھومی۔ وہ بلکل اس کے پیچھے تھا اتنا قریب کہ اس کی سیاہ آنکھوں میں دہشت وہ با آسانی بہت قریب سے دیکھ سکتی تھی۔ وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"آپ مار دیں گے اسے؟؟" وہ بنا پلک جھپکے بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ عالیان نے سر اثبات میں ہلایا۔ "اگر میں کہوں کہ نہ ماریں تو؟؟"

"تو میں تمہاری نہیں سنوں گا۔۔" وہ کندھے اچکا گیا۔ نشانہ اب بھی ظفر کے وجود پر تھا۔ ردا نے باری باری اس کی دونوں آنکھوں میں دیکھا کیا وہ واقعی ایسا کرنے کی ہمت کر سکے گا؟ ردا کے سامنے وہ کسی کو قتل کر سکے گا؟ کیا واقعی وہ اس کے مجرم کو یوں گولیوں کا نشانہ بنا دے گا؟ کیا وہ واقعی۔۔۔۔ "ٹھاہ۔۔” دل کے اندر کی آواز دم توڑ گئ اور اس خطرناک آواز پر ردا نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں۔۔ آنکھیں بند کرتے ہی ذہن میں اب دوسرا منظر تھا۔

(وہ اسی سڑک کے کنارے کھڑی ساکت نظروں سے سامنے دیکھ رہی تھی۔

"نہیں۔۔ عالیان!!" وہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گئ۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئ تھی۔ وہ چیخ نہیں سکی۔ تبھی عالیان نے گولی چلا دی۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے اندر ہی اندر چیخے جا رہی تھی۔ پھر ایک اور گولی کی آواز۔۔

" وہ مر جائے گا۔۔" وہ بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیے سڑک کے کنارے ہی بیٹھ گئ ۔

"مت کریں ایسا پلیز!!!" سر کو جھکائے اور نفی میں ہلاتے ہوئے وہ اسے پکارتی جا رہی تھی۔۔)

یکدم خاموشی پر اس نے تیز تیز سانس لیتے آنکھیں کھول دیں۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا سنجیدہ سپاٹ نظروں سے۔ اس کے برعکس ردا کی آنکھیں سرخ اور نم تھیں۔ تین گولیوں کے بعد چوتھی کی آواز نہیں آئی تھی۔ عالیان نے ہاتھ نیچے پھینک دیا کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح۔۔یوں جیسے کوئی غلطی کر بیٹھا ہو۔ ردا کے لیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ پیچھے کیا ہوا وہ سب دیکھنے کی اس میں ہمت تو نہیں تھی مگر پھر بھی وہ شل قدموں سے پیچھے کی طرف گھومی۔ سب سے پہلی نظر میں اس نے ظفر کا چہرہ دیکھا۔اس کی گردن ویسے ہی ایک طرف گری ہوئی تھی۔ پھر اس کے وجود پر نظر دوڑائی۔ سب پہلے جیسا تھا۔ خون کا کوئی نشان کوئی قطرہ تک وہاں نہیں تھا۔ البتہ اس کے ٹھیک ساتھ دیوار پر تین نشان تھے گولیوں کے نشان۔ وہ نشان ظفر کے اتنے قریب تھے جیسے کسی ماہر انسان نے انکا نشانہ لیا ہو۔ ذرا سا نشانہ خطا ہوتا تو ظفر کا سر سلامت نہ رہتا۔

"جانتی ہو ردا جب میں نے اپنی زندگی کا پہلا قتل کیا تھا اس رات میں بہت رویا تھا۔۔" اس کی آواز اب بھی عقب سے ہی آرہی تھی۔ ردا اس کی طرف نہیں گھومی۔ وہ ظفر پر نظریں ٹکائے بغور اسے سن رہی تھی۔

“میں بلکل اکیلا تھا۔ میرے پاس کوئی نہیں تھا جو اس رات مجھے چپ کرواتا۔ مجھے تسلی دیتا۔ مجھے اپنا کندھا دیتا جس پر سر رکھ کر میں روتا رہتا ۔ پھر جانتی ہو کون آیا تھا میرے پاس؟" وہ پل بھر کو چپ ہوا پھر چل کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ظفر کا وجود کہیں پیچھے چھپ گیا تھا یوں جیسے عالیان پھر سے اس کے لیے ڈھال بن گیا ہو۔

“تم۔۔ تم آئی تھی ردا میرے پاس۔۔ تم نے مجھے چپ کروایا تھا۔ تم نے میرے آنسو پونچھے تھے۔ تمہاری روشنی میں پرسکون نیند سو گیا تھا۔۔ اور تم نے اس وقت مجھ سے نفرت نہیں کی۔ میرے ہاتھوں میں خون دیکھ کر تم نے مجھے دھتکارا نہیں۔۔" ردا کی آنکھیں پہلے سے نم تھیں مگر بہت روکنے کے باوجود بھی اس کے آنسو نہیں رکے وہ بغیر اجازت کے بہہ نکلے اس کے برعکس عالیان کی آنکھوں میں بھی نمی چمک رہی تھی۔

“میں نہیں جانتا مجھ جیسے گناہ گار انسان کی اللہ کو کون سی نیکی پسند آئی ہے جو اس نے تمہیں میرا کر دیا۔ تم میرے لیے ایک نعمت ہو اور اس نعمت کا میں ساری عمر بھی شکر ادا کرتا رہوں تو بھی کم ہوگا۔۔" بولتے بولتے اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر ردا کے چہرے پر گرتے آنسو صاف کیے۔ وہ سوائے اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے اور کچھ نہیں بولی۔

“جتنی اذیت اس نے تمہیں دی ہے میرا بس چلتا تو ناجانے میں اس کے ساتھ کیا کر جاتا لیکن کیا کروں میں اپنی غلطیوں کی معافی مانگ چکا ہوں جب ایک دفعہ توبہ کر لی سو کر لی۔ لیکن اس کے ذریعے ہم اس کے باپ سے سچ اگلوائیں گے۔ جتنی اذیت ہم نے کاٹی ہے یہ لوگ بھی کاٹیں گے۔۔ تم کچھ کہو گی نہیں؟" وہ اس کی خاموشی دیکھتے پوچھ رہا تھا۔۔وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر ہمت۔۔ وہ اس شخص سے بات کرنے کی اپنے دل کا حال سنانے کی ہمت کہاں سے لاتی؟ بلآخر اس نے لب ہلانے کی ہمت کی۔۔

"میں نے زندگی میں جتنی نفرت آپ سے کی تھی اتنی کسی سے نہیں کی لیکن اب مجھے احساس ہوا کہ آپ نفرت نہیں محبت کے لیے بنے ہیں عالیان۔۔ میں نہیں جانتی کہ میں آپ سے محبت کر پائوں گی یا نہیں لیکن آپ مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ پائیں گے۔ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ ہمیشہ آپ کا ساتھ دوں گی۔۔" وہ ادھوری بات کر رہی تھی۔ اس کا حق تھا وہ جانے کہ ردا اس سے کتنی محبت کرتی ہے مگر وہ ابھی اس اعتراف کے لیے تیار نہیں تھی۔۔اس کے کچھ جملے سن کر عالیان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ اس کا ساتھ دینے کی بات کر رہی تھی وہ۔۔ وہ جو کبھی اس سے نفرت کرتی تھی وہ اس سے ساتھ نبھانے کا وعدہ کر رہی تھی۔ اس کے لیے یہی کافی تھا بلکہ بہت کافی تھا۔

“اب آپ بھی مجھ سے ایک وعدہ کریں۔۔ اسے پھینک دیں اور دوبارہ کبھی ہاتھ مت لگائیے گا اسے۔۔" وہ اس کے ہاتھ میں جکڑے ریوالور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ عالیان نے اس ریوالور کو دیکھا اور پھر ردا کو۔

“زرک۔۔زرک۔۔" اس نے اونچی اونچی دو آوازیں زرک کو دیں جو باہر دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔ اس کی آواز پر بھاگتے ہوئے اندر آیا۔

“یس سر۔۔" اس نے آتے ساتھ پوچھا عالیان تیز قدم لیتے اس کے قریب گیا اور ریوالور اس کے ہاتھ میں دے دیا۔۔ پھر آنکھوں سے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ چلا گیا۔

“وعدہ یہ تمہیں اب کبھی بھی میرے ہاتھ میں نہیں دکھے گا۔۔" وہ ردا کی طرف گھومتے ہوئے مسکرا کر بولا۔۔"اور کوئی حکم؟؟" ردا سر نفی میں ہلاتے ہوئے مسکرا گئ۔

“مجھے گھر جانا ہے کالج کل چلی جائوں گی۔۔" ایک نفرت بھری نگاہ ظفر کے وجود پر ڈال کر فاتحانہ انداز سے مسکرا کر وہ باہر کی طرف چلی گئ۔عالیان فوراً اس کے پیچھے نکلا۔

●●●●●●●●●●●●●●

انتظار کا لمحہ سب سے کٹھن لمحہ ہوتا ہے جو گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

 وہ اس وقت ایک ریسٹورنٹ کے بالائی حصے میں موجود تھی۔ سیاہ آسمان کے نیچے وہ بہت خاموش سی اس ایک شخص کی منتظر سی بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے پڑا گہرے سرمئی رنگ کا صوفہ خالی پڑا تھا۔ ٹیبل کے وسط میں پڑا چکور شکل کا گلابی لیمپ جگمگا رہا تھا۔ دائیں بائیں ہر طرف اس ریسٹورنٹ میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ رات کی وجہ سے پورا ریسٹورنٹ سنہری اور سفید بتیوں سے روشن دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے عقب میں شیشے کی بنی ریلنگ تھی جس سے اگر نیچے دیکھا جائے تو سڑک پر چلتی گاڑیوں کا منظر اور سیاہ آسمان بہت ہی خوبصورت لگے لیکن وہ ہر چیز سے بیزار بس دور شیشے کے بنے دروازے پر نظریں ٹکائے بیٹھی تھی۔ دفعتاً دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوا۔ اس کی متلاشی نظریں مسکان کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس پر نظر پڑتے ہی وہ اس کی طرف بڑھ گیا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی مسکان کا سانس اس کو دیکھتے ہی رک گیا تھا۔ سرمئی رنگ کا سوٹ پہنے وہ اسی کی طرف آرہا تھا۔ مسکرا کر اسے دیکھتے ہی وہ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ مسکان بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سفید شرٹ کے اوپری دو بٹن کھلے تھے آج اس نے ٹائی بھی نہیں پہنی تھی۔ اس بےوفا کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اب بھی اتنا ہینڈسم اور خوبصورت لگے کم از کم مسکان کے سامنے تو بلکل بھی نہیں۔

“تم مجھے حیدرآباد بلوا لیتی خوامخواہ کراچی آنے کا تکلف کیا تم نے۔۔" وہ بیٹھتے ساتھ خفگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا۔

“کس حق سے بلاتی تمہیں حیدرآباد؟؟" اس بات پر کبیر کی مبھم مسکراہٹ بھی غائب ہو گئ۔۔ "جس حق سے بلاتی تھی وہ حق تو تم نے کبیر بن کر چھین لیا اور ویسے بھی تکلف کرنا بلاوجہ کی خوش فہمیاں پالنے سے بہتر ہے۔۔ کاش یہ سبق تھوڑا پہلے مل جاتا۔۔کچھ لو گے؟؟" کبیر یک ٹک اسے دیکھے گیا۔

“نو تھینکس۔۔" اس پر سے نظریں ہٹاتے وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا۔ یہ وہ مسکان تھی نہیں یا لگ نہیں رہی تھی۔ کچھ دیر میں اسے اس کا جواب بھی مل جانا چاہیے۔

“پتہ تھا کچھ نہیں لو گے۔ میں نے کافی کا آرڈر دیا ہے دونوں کے لیے۔۔" مطلب اسے اب بھی یقین تھا کہ کبیر اس کے بلانے پر جائے گا۔ کچھ پل کی خاموشی حائل ہو گئ۔ مسکان کو کسی چمکتی ہوئی شے نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے نظروں کا رخ کبیر کے ٹیبل پر دھرے ہاتھوں پر کیا۔ وہ چمک اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں موجود انگوٹھی کی تھی۔ غالباً چاندی کے بینڈ کے اندر لگا ایک چھوٹا چمکتا ہوا ہیرا جو آج سے پہلے کبھی بھی اس کی انگلی کی زینت نہیں تھا۔ گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل اندر کرتے اس نے اپنے آنسو پینے کی کوشش کی۔

“تو بتائو مسکان اپنے باپ کی سچائی سے آشنا ہوئی یا اب بھی مجھے جھوٹا کہنے کے لیے یہاں بلایا ہے؟" اس نے ٹیبل پر سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے اور صوفے کی پشت پر بازو پھیلائے پرسکون انداز میں اس سے پوچھنے لگا۔

“جھوٹے تو تم ہو۔۔ نہیں ہو کیا؟" اس کی آنکھوں میں طنز کی چمک تھی اور آواز میں وو سختی تھی جو آج سے پہلے کبیر نے کبھی نہیں سنی تھی۔۔"تم وہی شخص نہیں ہو جو میرے باپ سے بدلہ لینے کے لیے ایک نقلی نام اور پہچان کے ساتھ میرے سامنے آیا تھا؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔ کبیر کو اس کی باتیں سخت چبھ رہی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ لڑکی حق پر ہے اور اپنا حق استعمال کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ "تم تو خود کسی سے محبت کرتے ہو نا تو تم محبت جیسے لفظ کے ساتھ کیسے کھیل سکتے ہو؟؟" گلے میں آنسوؤں کا گولہ سا پھنس گیا تھا۔ کبیر جانتا تھا ایک دن مسکان اس سے یہ سوال ضرور کرے گی۔ ویٹر ان کی کافی لے آیا تھا۔ اس کے جانے تک وہ خاموش رہا۔

"میں نے بھی جویریہ سے یہی کہا تھا۔ جویریہ میری کزن ہے اور مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ اسی نے انابیہ کو مجھ سے چھین لیا تھا۔ تب میں نے اس سے کہا تھا کہ تمہیں محبت کے خلاف سازش کرتے ہوئے شرم نہیں آئی؟ تو اس نے مجھے کہا کہ یہ سب اس نے محبت میں کیا۔۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کرتا اگر میں خودانابیہ کے لیے فرہاد نہ بنتا۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ محبت میں انسان سب کر سکتا ہے۔۔ تم کیا کہوگی اس بارے میں؟؟" وہ بلکل خاموش بت بنے بغور اسے سن رہی تھی۔ کبیر کی سوالیہ نظریں اب بھی اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔

"میں ایک بات مانتی ہوں محبت چھینی نہیں جاسکتی۔ نہ تو میں محبت میں جہانزیب بن سکتی ہوں۔۔ نہ جویریہ اور کبیر جہانگیر تو بلکل بھی بننا پسند نہیں کروں گی۔۔ میرا ایک ہی ماننا ہے محبت مل جائے تو بہتر نہ ملے تو مر جانا بہتر۔۔" کہتے ساتھ اس نے اپنے سامنے پڑا کپ اچک لیا البتہ آخری جملے پر اس کی آواز ضرور کانپ گئ تھی۔

“مرنے کی بات مت کرو مسکان۔ میرے نزدیک اگر محبت کا کوئی دوسرا نام ہے تو وہ تکلیف ہے اور محبت میں سب کو اپنے حصے کی تکلیف کاٹنی ہوتی ہے۔ یہ آپشنل نہیں ہے فرض ہے۔۔" مسکان نے گھونٹ بھر کر اسے خفگی سے دیکھا جو نظریں جھکائے اپنی کافی میں چمچ چلا رہا تھا۔ وہ اس کے سارے خواب چھین کر اب اس سے کہہ رہا تھا کہ مرنے کی بات نہ کرو۔ کمال کا بندہ ہے ویسے!!

“سایہ کو آگ تم نے لگائی تھی؟؟" کافی میں چلتی چمچ رک گئ اور نظریں اٹھا کر اس نے مسکان کو دیکھا۔

“ہاں۔۔" یک لفظی جواب مگر بہت ہی مطمئن جواب۔

“میرا بھائی بھی تمہارے پاس ہے؟" اس بار وہ کچھ نہیں بولا۔ مسکان اب بھی مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔" بتائو کبیر میرا بھائی تمہارے پاس ہے؟" آواز میں سختی نہیں تھی وہ بھی بہت اطمینان سے سوال کر رہی تھی۔

“نہیں۔۔" اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔

“پھر سے جھوٹ۔۔" زخمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھری تھی۔

“سچ بلکل سچ۔۔باقی دماغ تمہارے اختیار میں ہے جو مرضی سمجھو۔۔" وہ کندھے اچکا گیا۔

“تم نے کہا تھا کہ تمہیں میری مدد چاہیے رائٹ؟؟" اس نے بنا رکے اگلے ہی لمحے یہ سوال کیا۔ کبیر نے سر اثبات میں ہلایا۔ "چلو مان لو کہ میں تمہاری مدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہوں۔۔" رک کر تھوڑا آگے جھکی اور باری باری اس کی آنکھوں میں دیکھے گئ۔۔ " مجھے کیا ملے گا؟؟" اس کی اس بات پر کبیر کی آنکھیں چھوٹی ہوئیں اور پیشانی کے بل نمایاں ہوئے۔

“کیا مطلب؟؟" وہ اسی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔ مسکان اس کی ناسمجھی پر ہنس پڑی۔

“مطلب صاف ہے کبیر۔۔ دیکھو پورا حیدرآباد یہ بات جانتا ہے کہ میرا باپ جہانزیب عالم مجھ سے بےحد محبت کرتا ہے ۔۔ اینڈ آف کورس تمہیں بھی یہ بات معلوم تھی کہ میں اپنے باپ کی کمزوری ہوں تبھی تو تم نے میرا استعمال کیا اور جب تمہیں پتہ چلا کہ مسکان تو بڑی صاف دل ہے اپنے باپ کی طرح نہیں ہے تم نے یہ بھی غنیمت جانا ہیں نا۔۔۔" وہ ٹیبل کے دہانوں پر دونوں ہاتھ رکھے اس سے پوچھ رہی تھی جبکہ کبیر بس خاموش بیٹھا تیوڑیاں چڑھائے اسے گھور رہا تھا۔

“تو بتائو نا کبیر اگر میں تمہارے کہنے پر اپنے باپ کے ساتھ دھوکہ کر جاتی ہوں جو مجھ سے بےانتہا محبت کرتا ہے تو مجھے کیا ملے گا؟ مجھ سے تو یہ محبت بھی چھن جائے گی نا میں تو اکیلی رہ جائوں گی بولو نا کیا مجھے کبیر جہانگیر ملے گا؟؟" اس کی آواز آہستہ آہستہ اونچی ہو رہی تھی۔۔"سب محبتیں ٹھکرانے کے بعد کیا مجھے بس ایک محبت ملے گی کیا مجھے کبیر جہانگیر کا ساتھ عمر بھر کے لیے ملے گا؟؟" وہ کیا کر رہی تھی کیا وہ خود غرض بن رہی تھی؟ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کبیر کے سخت تیور ڈھیلے پڑ گئے۔ مسکان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سب کو ہی خود پر ضبط کرنا پڑتا ہے۔

“محبت کسی کے اختیار میں نہیں ہوتی مسکان جو یوں کہنے سے دے دی جائے۔ میں مر تو سکتا ہوں مگر انابیہ کی جگہ کسی کو نہیں دے سکتا بلکہ مر کے بھی نہیں دے سکتا یہ میرے بس میں نہیں ہے۔۔" اس نے گہرا سانس بھرتے بہت ہی نرمی کا مظاہرہ کیا۔ مسکان کے دل پر آری چل رہی تھی۔ وہ کیسے اسے بتاتی محبت اس کے بس میں بھی تو نہیں تھی وہ کیسے چھوڑ دے اس شخص سے محبت کرنا کیسے؟؟ یہ کیا کر دیا تھا قسمت نے اس کے ساتھ اسے اپنے آگے اب ہمیشہ کے لیے اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔

“اور اگر وہ مر جائے تو؟؟" کبیر کی نظریں کہیں اور تھیں۔ مسکان کے اس جملے پر وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا اور پھر برہمی سے گردن موڑ کر وہ تنبیہی نظروں سے اسے گھورنے لگا۔۔ "بتائو نا اگر وہ مر جائے تو؟؟"

“مسکان!!" وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتے بھڑک اٹھا۔۔" اب اگر تم نے ایسی بات کی تو میں ہر گز لحاظ نہیں کروں گا۔۔" شہادت کی انگلی اٹھائے وہ اسے تنبیہی انداز میں کہہ رہا تھا۔۔ "نہیں کرنی میری مدد تو بھاڑ میں جائو۔۔انابیہ کا نام مت لینا۔۔" درشتی سے کہتا وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مسکان ہراساں نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔۔ " محبت میں کچھ بھی کرنا کچھ بھی مگر جہانزیب مت بننا۔۔" یہ آج کی ملاقات کا اس کا آخری جملہ تھا جسے کہنے کے بعد وہ رکا نہیں اور تیز تیز قدم لیتا وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی مسکان زخمی سا مسکرائی آنسو بہہ نکلے۔ بہت سارا تھوک نگلا اور بولی۔

“کاش وہ مر جائے۔۔" بہتی آنکھوں سے وہ سامنے پڑے اس کے کپ کو دیکھ رہی تھی۔۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔

●●●●●●●●●●●●●●

تین دن بعد:

وہ اپنے کمرے میں ون آرم صوفے پر ٹانگیں اوپر کیے بیٹھی تھی۔ دھلا دھلایا چہرہ ایک شانے پر گرے اس کے لمبے بھورے بال اور ہاتھوں میں آئی پیڈ پر جمی مسکراتی ہوئی آنکھیں۔۔ ماجد علی نے اسے آج سائٹ سے تصاویر کھینچ کر بھیجی تھیں۔ اسے آج خود سائٹ پر جانا تھا مگر نہیں گئ۔ تبھی اس کی توجہ اس کی گود میں پڑے بجتے ہوئے فون نے کھینچی۔ کوئی اسے کال کر رہا تھا۔۔ بھلا کون؟؟ کبیر جہانگیر۔۔ وہ پھر اس سے کہے گا آفس کیوں نہیں آرہی؟ میرا تو پتہ نہیں مگر آفس میں سب تمہیں یاد کر رہے ہیں بلا بلا بلا!!! خیر اس نے آج بھی کال نہیں اٹھائی اور دوبارہ آئی پیڈ کی طرف متوجہ ہو گئ۔ ایک دفعہ کال پھر سے آئی۔ وہ بری طرح سے اپنے منگیتر کو اگنور کر رہی تھی۔ لمحے بھر کو فون خاموش ہو گیا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ ٹھیک کچھ دیر بعد اسے میسج کی آواز آئی۔ فون اٹھا کر دیکھا تو وہاں کبیر کا وائس میسج تھا۔ چونکہ اس نے سین کر لیا تھا تو سننے میں کیا قباحت تھی۔

“بیا ڈیڈ مجھے آفس کے سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے لاہور بھیج رہے ہیں۔۔" وہ تیزی سے سیدھی ہوئی آئی پیڈ ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔۔ "میں جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہتا ہوں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ ہو سکے تو سمندر پر آجائو میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔" اس کی آواز رک گئ۔ وائس میسج ختم ہو گیا اور انابیہ کے چہرے کی رنگت بدل گئ۔

“وہیں رکنا میں آرہی ہوں۔۔" تیز تیز میسج ٹائپ کرتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے سوچ لیا تھا زیادہ وقت نہیں ہے اس کے پاس سو وہ صرف کپڑے بدلے گی۔

اس کا میسج آئے ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اور وہ اب تک افسردہ نظریں سامنے سمندر کی لہروں پر ٹکائے اس کا منتظر سا بینچ پر بیٹھا تھا۔

“کیا مجھے کبیر جہانگیر ملے گا؟"

"سب محبتیں ٹھکرانے کے بعد کیا مجھے بس ایک محبت ملے گی کیا مجھے کبیر جہانگیر کا ساتھ عمر بھر کے لیے ملے گا؟؟“مسکان کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا دماغ پھٹ جائے گا۔

“اور اگر وہ مر جائے تو؟؟"

اس نے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھ لیے جیسے اس عمل سے وہ آواز جو اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی آنا بند ہو جائے گی۔ یہ جملہ بار بار سننا اس کی برداشت سے باہر تھا۔ تبھی اس نے گہرا سانس بھرتے ہوے سر اٹھایا اور پھر گردن دائیں طرف موڑ لی۔ وہ وہیں تھی۔ گہرے نیلے گائون میں وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کی طرف آرہی تھی۔ ہر طرف خاموشی ہوگئی۔ تمام آوازیں آنا بند ہو گئیں اور کبیر کا جسم ساکت رہ گیا۔ بمشکل اپنے قدموں پر زور دیتے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور رخ اس کی طرف موڑ گیا۔ اس کے چہرے پر خوف کی رمق اور اس کو یوں بھاگتا ہوا دیکھ کر وہ بےاختیار ہی مسکرا اٹھا۔ وہ اس کے لیے یوں آجائے تو وہ کیسے نہ مسکراتا۔ وہ آئے تو مسکرانا فرض کر دو!!

“کیوں جا رہے ہو تم؟؟" وہ گہرےگہرے سانس بھرتے ہوئے بولی۔ آتے ساتھ ایسے فکریہ سوال پر کبیر اپنی ہنسی دبائے باری باری اس کی ڈری ہوئی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

“ آفس کے کام سے جا رہا ہوں۔۔"

“کب جانا ہے؟" انابیہ نے بہت سارا تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔

“آج ہی۔۔۔ تھوڑی دیر میں میری فلائٹ کا ٹائم ہو جائے گا۔۔" کلائی میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا۔

“کتنے دنوں کے لیے؟؟" ایک اور سوال۔۔ کبیر کو واقعی اس کی حالت پر ترس آرہا تھا۔ وہ جواب کی منتظر بس اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔۔ کبیر ایک قدم اس کے قریب گیا۔

“کیا میں تمہارا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں؟؟" انابیہ نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا اور بنا کوئی جواب دیے اس نے کبیر کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ "اب تم کیا اپنی آنکھیں بند کر سکتی ہو؟" وہ پھر کچھ نہیں بولی۔۔ الجھی الجھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے انابیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ کبیر بدقت مسکرایا۔ ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑے وہ دوسرا ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب کی طرف لے گیا۔ جیب سے چمکتا ہوا بریسلٹ نکالا اور اس کی کلائی میں پہنانے لگا۔ انابیہ بےچین سی کھڑی تھی اسے جلد از جلد اپنی آنکھیں کھولنی تھیں۔

“اب تم آنکھیں کھول سکتی ہو۔۔" بس اس کے کہنے کی دیر تھی انابیہ نے تیزی سے آنکھیں کھولیں اور اپنی کلائی میں چمکتاہوا ستاروں والا بریسلٹ دیکھنے لگی۔ وہ بری طرح حیران ہوئی تھی کیونکہ یہ وہی بریسلٹ تھا جو اس سے یونیورسٹی میں گم گیا تھا وہی حیرت کی زد میں آئی نظریں اٹھا کر اس نے کبیر کو دیکھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی کبیر خود بول پڑا۔

“ریئلی سوری تمہارا بریسلٹ میں نے چرایا تھا۔ یہ مجھے تمہاری یاد دلاتا تھا۔ اور اچھا ہی کیا نا تم نے تو مجھے چھوڑ کر جانا ہی تھا کم از کم ایک نشانی تو میرے پاس تھی تمہاری۔۔" وہ زخمی لہجے میں بول رہا تھا جبکہ انابیہ کی آنکھیں بھی نم ہوئے بغیر رہ نہیں سکیں۔

“تم۔۔"اس نے اس کے سینے پر زور سے مکا مارا۔ کبیر کراہ کر پیچھے ہوا۔۔"تم بہت برے ہو کبیر جہانگیر بہت زیادہ۔۔" وہ یکدم رونے لگ گئ کبیر جامد رہ گیا۔ اب اس میں رونے والی کیا بات تھی؟

“بیا ایک بریسلٹ ہی تو تھا۔۔" وہ ابھی بول رہا تھا کہ انابیہ چیخ پڑی۔

“شٹ اپ کبیر۔۔ میں بریسلٹ کی بات نہیں کر رہی۔۔" وہ ایک ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تیز آواز میں بولی۔ کبیر ڈرتے سہمتے ایک قدم آگے آیا۔۔ "جب اتنی محبت تھی تو مجھ سے اتنا وقت ناراض کیوں رہے؟ کیوں مجھ پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ تمہاری محبت ختم ہوگئ ہے؟" وہ خفگی اور ناراضگی سے کہتے ہوئے بینچ پر جا بیٹھی۔ کبیر گہرا سانس بھرتے اس کے پیچھے آیا اور بلکل اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ انابیہ ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے رخ دوسری طرف موڑ گئ۔۔ وہ بلکل خاموش بیٹھا تھا اور انابیہ کو اس کی خاموشی سخت چبھ رہی تھی۔ خود پر ضبط کرتے وہ اس کی طرف گھومی وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"کیوں کیا تم نے میرے ساتھ یہ سب؟؟" اس کی آنکھوں میں شکوہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔

"تمہیں یاد ہے تم کبھی میری آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مجھ سے نظریں چرا جاتی تھی۔" انابیہ چپ چاپ اسے دیکھے گئ۔ "اب بتائو اتنے دنوں میں میری آنکھوں کے سوا کچھ دیکھا ہے؟"

"کچھ بھی نہیں۔۔" اس نے نہایت صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اب بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور اس بار کبیر جھینپ کر مسکرا دیا اور نظریں چرا گیا۔

"بس یہی سبق سکھانا تھا تمہیں ۔۔" اس ایک بات پر انابیہ کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اسے واقعی کبیر ایک نمبر کا احمق لگ رہا تھا۔ وہ اس پر ہنستے ہنستے پاگل ہو رہی تھی۔

“ہنس کیوں رہی ہو؟؟" ہنس وہ خود بھی رہا تھا۔

“بس اس لیے کبیر جہانگیر؟؟" وہ بےیقینی سے اسے ہنستے ہنستے دیکھ رہی تھی۔۔ "وائو کیا وجہ تھی!! کیا ریزن تھا!! اوکے فائن۔۔" اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی ہنسی روکی اور اس کی طرف گھومی۔ وہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ جب بھی زیادہ ہنستی تھی تب بھی اس کے آنسو بہہ نکلتے تھے۔ روتی تھی تو آنسو۔۔ہنستی تھی تو آنسو۔۔ آنسوئوں کا خزانہ تھا اس کے پاس۔۔

“میں نے بہت تنگ کیا ہے نا تمہیں؟" وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ ایک لمحے تو وہ کچھ بول نہ سکی پھر بولی۔۔

“بہت سے بھی بہت زیادہ۔۔" وہ اسے محض تنگ کر رہی تھی۔

"تم میں بہت صبر ہے بیا۔ میں نے تمہارا صبر آزمایا ہے نا؟" وہ اب بھی سنجیدہ تھا شاید افسردہ بھی۔

"مجھ میں صبر نہیں ہے۔۔" اس نے سر نفی میں ہلایا۔۔ "اور تم نے کچھ نہیں کیا صرف میری محبت بڑھائی ہے۔۔"

“میرا انتظار کرو گی نا؟"

“اب نہیں ہوتا۔۔" وہ مکر گئ۔

“جلدی واپس آجائوں گا۔۔" وہ اس کی آنکھوں سے باتیں کر رہا تھا۔۔”میری فلائٹ کا ٹائم ہونے والا ہے۔۔" کلائی میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ انابیہ نے بیٹھے بیٹھے گہرا سانس بھرا اور پھر وہ بھی اٹھ گئ۔۔

“میں انتظار کروں گی۔۔" وہ مسکرا کر بولی تو کبیر بھی مسکرایا۔

“معذرت کہ تمہیں انتظار کرنا پڑے گا۔۔" وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے۔ دونوں کی گاڑیاں سامنے کھڑی تھیں سو دونوں کا رخ اسی طرف تھا۔ پیچھے سورج غروب ہونے والا تھا لہریں ہنوز شور کر رہی تھیں۔

●●●●●●●●●●●●●●●

شاہی طرز کے وسیع و عریض سٹڈی روم سے مہوگنی لکڑی کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ لمبی لمبی مستطیل کھڑکیوں سے ڈھلتے سورج کا نارنجی عکس کمرے میں جھانک رہا تھا۔ ٹھیک وسط میں مہوگنی سے بنی آرائشی میز تھی جس میں سنہرے رنگ کے مختلف اور پیچیدہ قسم کے نقش و نگار کے ساتھ خان حویلی کا سفید مجسمہ اس میز میں نکھار پیدا کررہا تھا۔ عقب میں دیواروں پر اونچی اونچی کتابوں کی الماریاں تھیں جو بہترین بلوط سے تیار کی گئ تھیں۔ اونچی باوقار مخملی کرسی میز کے پیچھے موجود تھی جس کی پشت پر سر رکھے جہانزیب عالم خان آنکھیں بند کیے گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔۔ بنا آنکھیں کھولے اس نے دروازے کے پار کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔ اندر آنے والا شخص گھنی لمبی داڑھی اور سانولی رنگت کا مالک دلاور خان تھا۔

“کچھ پتہ چلا میرے بیٹے کا؟" اس نے بند آنکھوں سے پوچھا۔ آواز میں صدیوں کا بوجھ تھا۔ آج تین دن گزر چکے تھے مگر ظفر جہانزیب کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔ دلاور ٹھیک اس کے سامنے عاجزی سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

“چھوٹے سائیں کا تو معلوم نہیں ہوا لیکن۔۔" لمحے بھر کو چپ ہوا۔ "آپ کے دشمن کا ضرور پتہ چل گیا ہے سائیں۔۔" جہانزیب نے تیزی سے آنکھیں کھولیں ۔ آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر اوپر لٹکتے سنہرے جھومر پر پڑی اور پھر سیدھا ہو کر اس نے آس بھری نظروں سے دلاور کو دیکھا۔

“کون ہے میرا دشمن دلاور جلدی بتائو؟؟" اس کی تو جیسے جان میں جان آئی تھی۔

“بڑے سائیں۔۔ آپ کے والد صاحب عالم سائیں۔۔" ایک لمحے کو جہانزیب کا سانس رک گیا اور روح جیسے کسی نے قبضے میں لے لی۔

“بابا سائیں کا نام لے رہو تم دلاور۔۔ ہوش میں تو ہو؟؟" وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے غصے سے پھنکارا۔ دلاور مطمئن کھڑا تھا۔

“جی سائیں اپنے مکمل ہو ش و حواس میں آپ کو اس خبر سے آگاہ کر رہا ہوں۔۔"

“ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نہیں مانتا جائو تصحیح کرو تم غلط ہو اس بار ۔۔بابا سائیں میرے دشمن نہیں ہیں۔۔" وہ صدمہ طاری آنکھوں سے بولتے بولتے دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

“میرے بندوں نے مجھے اس خبر سے آگاہ کیا ہے کہ انہوں نے بڑے سائیں کو ناصر سائیں کے گھر جاتے دیکھا ہے بلکہ وہ اب بھی وہیں موجود ہیں۔۔" ناصر کا نام سنتے ہی جہانزیب کا دماغ بھک سے اڑا۔ وہ کچھ لمحے بول ہی نہیں سکا۔

“جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ اس رات مجھے ناصر کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ایک سنگین غلطی کا خمیازہ اب میرا بیٹا بھگت رہا ہے۔۔" وہ صدمے کی حالت میں بول رہا تھا۔

“آپ کو شالا کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا سائیں۔۔" جہانزیب نے سوالیہ نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

“ معافی چاہتا ہوں سائیں ایک بہت بڑی غلطی ہو گئ تھی مجھ سے۔۔ بہت دنوں پہلے شالا آیا تھا حویلی میں بہت بیمار تھا۔ بابا سائیں سے ملنا چاہتا تھا۔ بات بہت ہی غیر اہم تھی سو آپ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا۔"

“دماغ خراب ہو گیا تھا تمہارا۔ یہ کوئی معمولی بات تھی؟" وہ فوراً اس کی بات کاٹتا بھڑک اٹھا۔ دلاور نے نظریں جھکا لیں۔۔ " ایک انسان جو میرے تمام رازوں سے واقف تھا اور وہ مرنے والا بھی تھا تم نے اسے بابا سائیں سے ملنے کیسے دیا؟؟" اس کا بس نہیں چل رہا تھا آگے بڑھے اور دلاور کا قتل کر ڈالے۔۔ "کہاں ہیں شالا ڈھونڈو اسے۔۔"

“ میں سب سے پہلے اسی سے ملنے گیا تھا مگر آج صبح ہی اس کا انتقال ہو چکا ہے سائیں ۔۔" جہانزیب نے ضبط سے آہ بھری اور میز کے دہانوں پر دونوں ہاتھ رکھے جھک کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ "اور سائیں۔۔ ظفر سائیں کے گارڈز نے بتایا کہ کچھ دن پہلے ظفر سائیں نے ناصر کے بیٹے عالیان کو اغوا کیا تھا یہ ضرور عالیان کا کام ہے۔۔"

“اس کا مطلب مجھے ناصر کے بیٹے کو بھی ناکارہ سمجھنے کی حماقت نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔ آہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئ۔۔" اس نے رکھ کر میز پر ہاتھ مارا۔۔ "اب سنو غور سے اپنے بندوں کو کہو چپ چاپ وہاں سے واپس آجائیں کہیں بابا سائیں کو شک نہ ہو۔۔ وہ یہیں آئیں گے ان سے میں نمٹ لوں گا۔ رہی بات ناصر کی تو اب ویل چئیر سے اس کی اگلی منزل سیدھا قبر ہے۔۔ میں تباہ و برباد کر دوں گا اسے۔۔" دلاور نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے قدم واپسی کے لیے موڑے۔۔ دروازے کے اس پار کھڑی لڑکی فوراً وہاں سے ہٹی اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے اپنے کمرے میں چلی گئ۔

کمرے میں پہنچتے ہی اس پسینے میں نہائی ہوئی لڑکی نے سب سے پہلے دروازہ بند کیا اور پھر بیڈ پر پڑا اپنا فون اٹھایا۔ کپکپاتی انگلیوں سے نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔ صدشکر رنگ جا رہی تھی۔

“فون اٹھا لیں دادا جان۔۔ پلیز۔۔" وہ اضطراب کے عالم میں فون کان سے لگائے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔

“مسکان میری شہزادی سب خیر تو ہے نا؟؟" وہ لونگ روم میں ناصر کی ویل چئیر کے سامنے صوفے پر بیٹھے تھے۔۔ آواز سنتے ہی مسکان نے سکون کا گہرا سانس بھرا۔۔

“دادا جان آپ جہاں بھی ہی وہیں پر رہیں حویلی مت آئیے گا۔۔" وہ تنبیہی انداز میں تیز تیز بول رہی تھی۔ عالم خان کے ماتھے پر ناسمجھی کی لکیریں ابھریں۔

“کیا ہوا ہے مسکان آپ ایسے کیوں کہہ رہی ہیں ؟" ان کے ساتھ ساتھ ناصر بھی کچھ الجھن کا شکار ہونے لگے تھے۔

“بابا جان کو سب پتہ چل گیا ہے دادا جان سب کچھ۔۔" خوف کے مارے اب اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ عالم خان پلکیں جھپکنا تو جیسے بھول ہی گئے تھے۔۔ "آپ کو اللہ کا واسطہ ہے یہاں مت آئیے گا۔ میں آپ کو نہیں کھونا چاہتی۔ وہیں رہیے گا دادا جان پلیز۔۔" وہ منتیں کر رہی تھی۔

“مگر یہ سب کیسے؟؟ آپ تو ٹھیک ہیں نا؟؟" انہیں یکدم اس کی فکر لاحق ہوگئ۔۔

“میں ٹھیک ہوں دادا جان ان کی بیٹی ہوں مجھےکیا ہوگا؟؟ مگر آپ پلیز یہاں مت آئیے گا۔ دلاور کے بندوں نے آپ کو چچا جان کے گھر جاتے دیکھ لیا ہے۔ وہ آپ کے منتظر ہیں ایک قدم باہر مت نکالیے گا۔۔" وہ اب باقاعدہ رو رہی تھی۔۔

“ٹھیک ہے مسکان میں کہیں نہیں جا رہا یہاں سے آپ پلیز رونا تو بند کریں کچھ نہیں ہوگا۔۔"

“آپ اپنا خیال رکھنا دادا جان میں فون رکھتی ہوں۔۔ اللہ حافظ۔۔" دوسری طرف سے بھی الوداعی کلمات کہتے ہوئے کال کاٹ دی گئ۔۔

“کیا ہوا بابا سائیں سب ٹھیک ہے؟؟" ناصر ان کی اڑتی ہوئی رنگت دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکے۔۔

“جہانزیب کو سب معلوم ہو گیا ہے۔ مسکان یہی کہہ رہی تھی کہ میں حویلی مت جائوں وہ میرا منتظر ہے۔۔" ناصر کو یکدم چپی لگ گئ۔۔

“یعنی ایک بار پھر ۔۔ نہیں نہیں۔۔" انہوں نے جھرجھری لے کر خود کو مطمئن کیا۔۔ " آپ یہیں رکیے بابا سائیں کہیں مت جائیے گا۔۔"

“بےفکر رہیں ڈیڈ۔۔ میں گھر کی سیکیورٹی بڑھا دیتا ہوں۔۔" عالیان لونگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔۔ "میرے ہوتے ہوئے پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ اس بار جہانزیب کو کچھ نہیں کرنے دوں گا۔۔" وہ ان کی ویل چئیر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گیا۔ وہ ان کو یوں پریشان نہیں دیکھ سکتا تھا۔ عالم خان اپنے پوتے کو اپنے باپ کے لیے فکرمند دیکھ کر مسکرائے تھے۔

●●●●●●●●●●●●●●●

گھر پہنچتے ہی وہ سب سے پہلے دادا جان سے ملی تھی۔ وہ اس کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد آگئے تھے سو اسے علم نہیں تھا۔ عالیان اسے جہانزیب کے بارے میں سب کچھ بتا چکا تھا۔ گھر کی سیکیورٹی کافی سخت ہو گئ تھی اور اس نے سب کو ہی وارن کر دیا تھا کہ جب تک وہ ظفر کا کچھ کر نہیں لیتا تب تک گھر سے کوئی ایک قدم بھی باہر نہیں نکالے گا ۔ کبیر کے جانے سے اس کا دل ویسے ہی اداس تھا اور اب اچانک جہانزیب کا ڈر۔۔سو وہ زیادہ دیر ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکی اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئ۔ اس کا دل بری طرح سے گھبرا رہا تھا۔ غالباً کبیر اس وقت ایئرپورٹ میں ہوگا اس لیے اس نے اسے تنگ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ابھی آکر بیڈ پر بیٹھی ہی تھی کہ یکدم فون کی آواز پر اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔ سر جھٹک کر اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور اسکرین پر جویریہ کا نام دیکھ کر دھک سے رہ گئ۔ وہ اسے کال کیوں کر رہی تھی وہ بھی رات کے اس وقت؟ سوچوں کی دنیا سے نکل کر اس نے کال اٹینڈ کی اور گہرا سانس بھر کر فون کان سے لگایا۔۔

“کیسی ہو انابیہ؟" انابیہ کی آنکھیں سوالیہ انداز میں چھوٹی ہوئیں۔ اس کی دشمن اس کی خیریت پوچھ رہی تھی۔۔

“کیوں کال کی ہے؟؟" بجائے جواب دینے کے اس نے سخت انداز میں بولتے ہوئے اپنا سوال اس کے سامنے پیش کر دیا جس پر اسے جویریہ کی ہنسی سنائی دی۔

“پہلے سوال میں نے کیا ہے سو جواب بھی پہلے مجھے ملنا چاہیے۔۔ اب بتائو کیسی ہو؟" انابیہ نے سر نفی میں ہلایا۔ وہ واقعی کوئی ڈھیٹ لڑکی تھی۔

“اچھی ہوں بلکہ بہت اچھی ہوں۔۔ ہو گیا برداشت موت تو نہیں آگئ؟؟ اب بتائو کیوں کال کی ہے؟؟" آواز اب پہلے سے زیادہ سخت تھی۔

“تم سے ملنا چاہتی ہوں۔۔" انابیہ اب کی بار کچھ نہیں بولی کیونکہ وہ ایسا مطالبہ کر رہی تھی جس نے انابیہ کو چپ کروا دیا تھا۔

“میں نہیں ملنا چاہتی وہ بھی تم سے تو بلکل بھی نہیں۔۔" طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے اس نے کہا۔

“جانتی تھی بڑی ٹیڑھی کھیر ہو۔۔ ملنا بہت ضروری ہے انابیہ بہت زیادہ۔۔" انابیہ کا دماغ کئی طرح کے سوالوں کے گرد گھومنے لگا اسے جویریہ کی بات کی بلکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔ "ایک پکچر بھیجی ہے واٹس ایپ پر ذرا دیکھنا تو۔۔" اس نے تیزی سے موبائل کان سے ہٹایا اور واٹس ایپ کھول کر دیکھا جہاں جویریہ نے اسے ایک تصویر بھیجی تھی۔ تصویر دیکھتے ہی انابیہ کا سانس رک گیا اور پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئ کیونکہ تصویر میں جو لڑکی تھی وہ اور کوئی نہیں لاریب تھی اس کی دوست۔ نیم اندھیر جگہ۔۔بند آنکھیں۔۔ منہ پر ٹیپ اور سر سے بہتا خون۔۔۔ انابیہ کو لگا وہ بیٹھے بیٹھے ہی مر گئ ہے۔۔

“میں تمہیں جان سے مار دوں گی جویریہ۔۔" فون کان سے لگاتے ہی وہ چیخ پڑی۔

“فکر مت کرو یہ ابھی زندہ ہے لیکن اگر تم نہ آئی تو یہ مر جائے گی پھر ٹھہراتی رہنا ساری عمر خود کو اس کی موت کی ذمہ دار۔۔" انابیہ نے بہت سارا تھوک نگلا۔ دل وحشت سے دھڑک رہا تھا۔۔

“میں آرہی ہوں جویریہ اسے چھوڑ دو وہ معصوم ہے۔۔" اس کے لہجے میں اب منت تھی۔

“معصوم تو میں بھی تھی معصوم تو تم بھی ہو۔ معصوم تو سب ہوتے ہیں کاش کہ معصومیت پر کوئی ترس کھاتا۔۔" وہ طنزیہ انداز سے ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی ۔۔ "خیر میرے گھر ہی آنا جہاں تم نے مجھے چوروں سے بچایا تھا یاد ہے نا؟؟ اور جلدی میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اور تمہارے پاس بھی۔۔ کسی کو ساتھ لانے کی غلطی مت کرنا وہ کیا ہے نا اپنے انجام سے تو میں واقف ہوں بہت برا ہے۔۔" وہ پھر ہنسنے لگی۔۔"یہ نہ ہو تم لاریب سے بھی جائو شاباش اب جلدی سے آجائو۔۔" آواز آنا بند ہو گئ۔ انابیہ کے ہاتھوں سے فون چھوٹ گیا اور بنا پلک جھپکے وہ کچھ دیر خلا میں دیکھتی رہی۔ پھر جھک کر اپنا فون اٹھایا اور دروازے کی طرف قدم بڑھا گئ۔ وہ جائے گی کسی کو بتائے بغیر وہ جائے گی اپنی دوست لالی کے لیے وہ جائے گی۔

تیز تیز سیڑھیاں پھلانگتے وہ نیچے آئی۔ لونگ روم کا دروازہ کھلا تھا۔ عالیان تایا ابو دادا جان سب ویسے ہی بیٹھے تھے۔ ردا اسٹڈی روم میں تھی منو اپنے کمرے میں تھی۔۔ سلائیدنگ ڈور پر پردے پڑے تھے باہر کا منطر کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ وہ آرام سے نکل سکتی تھی کیونکہ اندر سب باتوں میں مگن تھے۔ وہ وہاں سے بھاگ کر باہر گئ۔ گارڈز اپنی اپنی جگہ پہرا دے رہے تھے۔ مطمئن انداز میں وہ سیدھا حسن چچا کے پاس گئ۔

“چچا مجھے جانا ہے گیٹ کھول دیں۔۔" چچا یکدم پریشانی سے اسے دیکھنے لگے۔۔

“مگر بٹیا۔۔"

“اگر مگر کچھ نہیں چچا میرا جانا بہت ضروری ہے سمجھنے کی کوشش کریں میں نہ گئ تو کسی کی موت ہو جائے گی۔۔ عالیان کو کچھ مت بتائیے گا میں خود اسے سب بتا دوں گی۔۔" تحکمانہ انداز میں کہتے ہی وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئ۔ چچا کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کریں؟ پھر آگے بڑھ کر انہوں نے گیٹ کھول دیا۔ گیٹ کھلتے ہی انابیہ نے گاڑی سٹارٹ کی اور تیزی سے گاڑی گیٹ سے عبور کرتی نکل گئ۔۔ گاڑی کی آواز پر اندر بیٹھا عالیان جھٹکے سے ًاپنی جگہ سے اٹھا اور باہر کی طرف بھاگا۔ بیرونی دروازے پر کھڑے عالیان نے انابیہ کی گاڑی کی ایک جھلک دیکھی۔ اسے اپنے قدموں پر کھڑے رہنا مشکل لگنے لگا۔ قدموں پر ذور دیتا وہ گیٹ کی طرف بھاگا۔

"انابیہ!!انابیہ!!۔۔" اس نے اسے بہت آوازیں دیں مگر اس کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئ۔ یہ کیا بیوقوفی کر دی تھی اس نے وہ سیدھا گاڑی میں بیٹھ کر اس کے پیچھے جاتا تو شاید اسے روکنے میں کامیاب ہوتا۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا تھا۔ وہ واپس اندر بھاگا۔ ایک غصیلی نظر چچا پر ڈالی۔۔

"آپ سے تو میں آکر بات کرتا ہوں چچا۔۔" غصیلے انداز میں کہہ کر وہ اپنی گاڑی میں جا بیٹھا اور انابیہ کے پیچھے گیا۔ وہ کافی آگے آچکا تھا مگر انابیہ کی گاڑی اسے کہیں نہیں دکھی۔ اس کے دل کو خوف نے بری طرح جکڑ لیا تھا۔ حواسوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک ہی راستہ جو بچ گیا تھا وہ انابیہ کو کال کرنا تھا۔ وہ مسلسل اس کا نمبر ملا رہا تھا آخر کار اس نے کال اٹھا لی۔۔

"انابیہ کہاں گئ ہو تم پلیز مجھے بتائو؟؟" وہ التجائیہ انداز میں بولا۔

"میں بلکل ٹھیک ہوں عالیان میرے بارے میں پریشان مت ہو بس لاریب کو بچا لو۔۔" اس کی آواز کپکپائی ہوئی تھی۔۔ "پلیز عالیان اسے بچا لو میری فکر چھوڑو آئی ایم فائن۔۔"

"لاریب کو کیا ہوا ہے انابیہ؟؟" اس نے سڑک کے کنارے گاڑی روک لی تھی۔

"اسے کچھ بندوں نے پکڑ کر سکول میں ہی بیسمینٹ میں باندھ کر رکھا ہوا ہے عالیان فرہاد کی مدد لو اور اسے بچا لو۔۔" اسے یقین تھا کہ وہ سکول میں ہی ہے کیونکہ تصویر میں جو گلابی رنگ کی دیواریں نیم اندھیرے میں بھی دکھائی دے رہی تھیں وہ سکول کے بیسمنٹ کی ہی تھیں۔۔

"ٹھیک ہے انابیہ مگر تم کہاں ہو خدا کے لیے بتا دو میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔"

"میں نے کہا نا عالی میں ٹھیک ہوں اور جلد ہی تمہارے سامنے ہوں گی لیکن اگر لالی کو کچھ بھی ہوا تو نہ میں خود کو معاف کر سکوں گی نہ تمہیں۔۔۔" کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی۔ عالیان نے تڑپ کر اس کا نمبر دوبارہ ملایا لیکن اب کی بار انابیہ اپنا فون آف کر چکی تھی۔ زور زور سے سٹئیرنگ ویل پر ہاتھ مارتے مارتے اس کے ہاتھ دکھ گئے تھے اور وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے فرہاد میر کو کال کی اور اسے سب بتانے لگا۔۔اب انہیں کیا کرنا ہے وہ بہتر جانتے تھے۔

●●●●●●●●●●●●●●●

تھوڑی ہی دیر میں وہ جویریہ کے گھر کے باہر موجود تھی۔ گیٹ کھلا تھا سو وہ سیدھا گاڑی اندر لے گئ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی وہ شیشےکے پار سامنے داخلی دروازے پر کھڑے دو گارڈز کو دیکھ سکتی تھی۔ ایک دل کیا کہ گاڑی ریورس کرے اور واپس نکل جائے۔ لالی تو ویسے بھی بچ جائے گی اسے یقین تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اندر جانے کا اپنا ارادہ پکا کر لیا۔ اب جب وہ آ ہی گئ ہے تو جویریہ کا ارادہ جان کر ہی واپس جائے گی۔۔ موبائل ہاتھوں میں پکڑے وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ باہر نکلتے ہی اسے کوئی دھن سنائی دینے لگی اور غالباً آواز گھر کے اندر سے آرہی تھی۔ گھٹن زدہ ہوا میں بمشکل دو تین گہرے سانس لیے اور دروازے کی طرف بڑھ گئ۔

“فون دو اپنا۔۔" وہ جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچی تو ایک گارڈ نے اس سے تحکمانہ انداز میں مطالبہ کیا۔ پیشانی پر ڈھیروں بل لیے وہ اس کا چہرہ دیکھے گئ اور موبائل اس کی طرف بڑھا گئ۔ اس سے پہلے وہ گارڈ اس کے ہاتھ سے موبائل لیتا انابیہ تیزی سےپیچھے گھومی اور موبائل دور کھڑی گاڑی میں دے مارا۔ جھماکے سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ اس کی گاڑی کا فرنٹ شیشہ چکنا چور ہو گیا تھا۔

“جا کر لے لو۔ " مطمئن انداز میں ان کی طرف گھومتے ہوئے وہ بولی تو گارڈز تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورنے لگے۔۔ “گھور کیا رہے ہو؟ دروازہ کھولوگے یا اسے بھی توڑ کر اندر جائوں؟؟" پھاڑ کھانے والے انداز میں کہتی وہ دونوں کو گھورے گئ۔ گارڈ نے بنا کچھ کہے دروازہ کھول دیا۔ لمحہ بھر کی دیر کیے بغیر وہ اندر چلی گئ۔ ابھی وہ دروازے میں ہی کھڑی تھی جب اس نے سامنے لائونج میں صوفے پر بیٹھی جویریہ کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے کھوئے کھوئے انداز میں وائلن بجا رہی تھی۔ کتنا اچھا وائلن بجاتی تھی وہ۔۔ تبھی اسے اپنے پیچھے کھٹاک سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے گھوم کر دیکھا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ شاید باہر سے بند کر دیا گیا تھا۔ بےساختہ اس نے دل پر ہاتھ رکھا اور دوبارہ جویریہ کی طرف گھومی۔ وائلن کی افسردہ دھن اب بھی بج رہی تھی اور وہ اب بھی آنکھیں بند کیے اسی میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس نے ہیلز وہیں اتاریں اور لائونج میں داخل ہونے کے لیے وہاں کا واحد زینہ پار کرتے وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی۔ پھر وہیں رک گئ۔ پچھلی بار کی بنسبت جویریہ کا گھر اس بار زیادہ روشن تھا۔ پورا لائونج تازہ پھولوں سے مہک رہا تھا۔ سامنے شیشے کے میز پر خوبصورت لمبی گردن والی چینک اور دو پیالیاں موجود تھیں۔ چائے کے ساتھ مختلف کھانے کے لوازمات سجے پڑے تھے۔ وہ مکمل تیاری کر کے بیٹھی تھی۔ تبھی اس نے آنکھیں کھولیں۔ سامنے کھڑی لڑکی کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے اس نے وائلن روک دیا۔ اور مسرور نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ انابیہ کو اس کا یوں دیکھنا بلکل سمجھ نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کرنا چاہ رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا اس پر سے نظریں ہٹا کر اب وہ اوپر چھت کو دیکھ رہی تھی۔اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئ تھی بلکہ اب اس کا چہرہ کچھ اور تاثر دے رہا تھا۔ انابیہ نا سمجھی سے اسے دیکھے گئ وہ کیا تھی کوئی پاگل؟؟ اس کی نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے انابیہ نے سر اٹھا کر ٹھیک اپنے اوپر چھت کو دیکھا۔ وہاں ایک عدد سنہرا جھومر تھا اور وہ ہل رہا تھا۔ انابیہ کی آنکھیں خوف کے مارے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تو اس نے اسے مارنے کے لیے یہاں بلایا تھا۔ اس سے پہلے کوئی کچھ بولتا یا وہ اپنے قدموں کو ہلاتی جھومر گر گیا۔۔

●●●●●●●●●●●●●●

اس کے دل میں بہت زور سے تکلیف ہوئی تھی یوں جیسے کسی نے اس کا دل اپنی مٹھی میں سختی سے جکڑ لیا ہو۔ وہ کچن میں کھڑا اپنے لیے کھانا بنا رہا تھا سب کچھ چھوڑ کر وہ سیدھا فریج کی طرف گیا۔ فریج کا دروازہ کھولا اس میں سے پانی کی بوتل نکالی اور کھڑے کھڑے غٹاغٹ پینے لگا۔ یکدم ہی اس کے دل کی حالت خراب ہونے لگی تھی اور سب سے پہلے اسے جس کا خیال آیا تھا وہ انابیہ تھی۔ وہ تیزی سے کائونٹر کے پاس گیا اس پر سے موبائل اٹھایا اور انابیہ کو کال کرنے لگا۔ اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ خوف کے مارے اس نےاگلا نمبر عالیان کا ملایا۔

"عالیان انابیہ کہاں ہے؟ میری اس سے بات کروا دو پلیز۔۔" عالیان کے بولنے سے پہلے ہی وہ روانی اور فکریہ انداز میں اس سے کہنے لگا۔ گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے عالیان نے اس اندھیری رات میں ادھر ادھر دیکھا۔ وہ سکول کی پچھلی طرف تھوڑا دور اپنی گاڑی کے ساتھ کھڑا فرہاد کا انتظار کر رہا تھا۔

"وہ کبیر۔۔ دراصل۔۔" اسے الفاظ کا چنائو اس وقت سب سے کٹھن کام لگ رہا تھا۔

"عالیان!! میری بات کروائو اس سے۔۔" وہ چیخ پڑا۔ عالیان نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

"انابیہ کہیں چلی گئ ہے۔۔" وہ بمشکل بولا اور کبیر نے لڑکھڑاتے ہوئے کائونٹر کا سہارا لیا۔

"کک کیا مطلب کہیں چلی گئ ہے؟ مذاق مت کرو یار۔۔" وہ جیسے منت کر رہا تھا۔ عالیان نے افسوس سے سر جھٹکا۔

"تم واپس آجائو کبیر یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہے پلیز واپس آجائو۔۔" وہ خود کو بےانتہا بےبس محسوس کر رہا تھا۔ کبیر کچھ لمحے بولنے کے قابل ہی نہیں رہا۔۔ وہ کہاں جا سکتی تھی؟؟ کیوں جاسکتی تھی؟؟

"میں یہی کراچی میں ہوں عالیان فرہاد نے مجھے بتایا تھا کہ جہانزیب سب جان گیا ہے تو میں نے جانےکا ارادہ ترک کر دیا تھا۔۔" عالیان بےطرح سے حیران ہوا تھا اسے خوشی بھی ہو رہی تھی۔ کم از کم وہ اس کے ساتھ تو تھا وہ یہیں تھا۔ کبیر کے جانے کی خبر سن کر اس نے کبیر کو جہابزیب والے معاملے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا ۔ سب سے پہلے اس نے فرہاد کو سب بتایا تھا تاکہ وہ تمام حالات کے لیے تیار رہے۔۔

"اول تو اس کا فون کافی دیر سے آف ہے مگر پھر بھی تم انابیہ کے فون کو ٹریک کر سکتے ہو کبیر جلدی دیکھو وہ کہاں ہے۔۔" عالیان کا دماغ جیسے کام کرنے شروع ہوا اس نے سب سے پہلے یہی تجویز کبیر کو دی۔ اسی دوران دو گاڑیاں تیزی سے عالیان کے پاس آکر رکی۔

"فرہاد آگیا ہے میں تمہیں پھر کال کرتا ہوں۔۔" اس نے کال کاٹ دی۔ کبیر نے سب سے پہلے انابیہ کی لوکیشن معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اس کی آخری لوکیشن شاہراہِ فیصل شو ہو رہی تھی۔ کیا وہ اس روڈ پر تھی؟ سوچنے کا وقت نہیں تھا اس نے پینٹ کی جیب چیک کی۔ بائیک کی چابی جیب میں ہی تھی پھر وہ فوراً باہر کی طرف بھاگا۔

●●●●●●●●●●●●●●

سب سے پہلے اس نے ایک گاڑی سے فرہاد کو اترتے ہوئے دیکھا تھا۔ زرک سے کچھ باتیں کر کے وہ سیدھا عالیان کے پاس آیا تھا۔ اس کے بندوں کے چہروں پر عجیب سے ماسک دیکھ کر عالیان کچھ حیران پریشان سا ہو گیا۔

"یہ سب کیا ہے فرہاد؟؟" فرہاد اس کے سامنے کھڑا اپنے ہاتھوں میں پکڑے ماسک کو اوپر نیچے کر کر کے دیکھ رہا تھا تبھی عالیان کے سوال پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ سب سے پہلے بجائے جواب دینے کے اس نے ایک ماسک عالیان کو تھما دیا۔

" یہ گیس ماسک ہے کیونکہ ہم Tear gas کا استعمال کریں گے۔ اب جلدی سے اسے پہن لو۔۔" عجلت میں کہہ کر اس نے اپنا ماسک پہن لیا جبکہ عالیان اب بھی ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔

"تم اچھے سے جانتے ہو نا کہ اندر لاریب بھی ہے۔۔" اسے لاریب کا کھٹکا لگا ہوا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ گیس لاریب کے لیے تو خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔

"یہ رسک ضروری ہے عالیان باہر والوں کو میرے بندے خود ہی دیکھ لیں گے ہم بس کسی طرح بیسمینٹ کی سیڑھیوں تک پہنچ کر اس گیس کا استعمال کریں گے اور پھر ہم کسی طرح لاریب کو وہاں سے نکال لائیں گے۔۔ اب چلو زیادہ وقت نہیں ہے ہمارے پاس ہمیں انابیہ میم کو بھی ڈھونڈنا ہے۔۔" تیز تیز کہہ کر اس نے عالیان کے کندھے پر تھپکی دی جس پر سر اثبات میں ہلاتےہوئے اس نے بھی وہ ماسک پہن لیا۔ فرہاد سیدھا زرک کے پاس گیا تھا وہ اب اسے سب سمجھا رہا تھا۔

زرک نے پچھلی دیوار سے بڑے ہی محتاط انداز میں اندر جھانکا تھا وہاں پہرا دیتے بس کچھ ہی آدمی تھے۔ تھوڑی دیر بعد ان آدمیوں کے ارد گرد دھواں ہی دھواں ہو گیا تھا۔ اب کہ وہ بری طرح کھانس رہے تھے۔ آنکھیں بری طرح جل رہی تھیں۔ ان کی سمجھ سے باہر تھا کہ یہ آنا فاناً کیا ہو گیا تھا۔ زرک اور اس کے کچھ بندوں نے چونکہ ماسک پہن رکھے تھے سو دیواروں کو پھلانگتے سیدھا اندر چلے گئے اور ان کھانستے ہوئے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر مارنے لگے۔ دوسری طرف عالیان اور فرہاد سیدھا بیسمینٹ کی سیڑھیوں کی طرف بھاگے تھے۔ سیڑھیوں کی شروعات میں دونوں اوٹ میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر سر کو خم دے کر دونوں نے ایک ساتھ آنسو گیس کی گولیاں اندر پھینک دیں۔ اگلے ہی لمحے وہاں دھویں کا پورا زور تھا۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں ٹارچ موجود تھی۔ فرہاد آگے تھا اور عالیان اس کے ٹھیک پیچھے۔ سوائے ان کے اندر سب کا کھانس کھانس کر براحال تھا لیکن وہ سب کو اگنور کرتے اس دھویں میں گم لاریب کے پاس گئے جو دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی نیم بیہوشی کی حالت میں کھانسے جا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ فرہاد نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے کو دو تین بار تھپکا اور پھر اسے ماسک پہنانے لگا۔ عالیان بھی بلکل اس کے ساتھ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا اس بندھے ہاتھ کھول رہا تھا۔ ماسک پہنانے کے بعد دونوں نے مل کر اسے بازوؤں کے سہارے اسے اٹھایا اور اس نیم بیہوش لڑکی کو پکڑے وہاں سے باہر لے جانے لگے۔ لاریب مکمل ہوش میں نہیں تھی اسی لیے اسے باہر نکالنے میں فرہاد اور عالیان کو تھوڑی مشکل ضرور پیش آئی تھی۔۔ لان کے بعد فرہاد کے آدمیوں نے بیسمینٹ کا بھی صفایا کردیا تھا۔ وہ سب بندوں کو پکڑ پکڑ کر گاڑیوں میں ڈال رہے تھے۔ وہ دونوں لاریب کو لیے سکول کی عمارت سے باہر آگئے تھے۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اسے بٹھا کر پانی پلایا تب جا کر لاریب کو تھوڑا تھوڑا ہوش آیا۔۔

“میں کہاں ہوں؟" اسے منظر اب بھی دھندلایا ہوا لگ رہا تھا۔ ماتھے پر گہری چوٹ کی وجہ سے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

“بےفکر رہو لاریب تم بلکل ٹھیک ہو۔۔" عالیان اس کے دروازے کے پاس ہی کھڑا جھک کر اس سے کہہ رہا تھا۔ "لاریب کیا تمہاری آخری دفعہ انابیہ سے کوئی بات ہوئی تھی؟؟" وہ پوچھ رہا تھا جبکہ لاریب کے جسم سے ایک کرنٹ ہو کر گزرا اور وہ جھٹکے سے سیدھی ہوئی۔

“انابیہ۔۔ او میرے خدایا۔۔ کہیں اس نے میرے لیے اپنی جان خطرے میں تو نہیں ڈال دی؟؟" یکدم ہی اس کی رنگت سفید پڑ گئ تھی۔ وہ مکمل طور پر ہوش میں آگئ تھی۔ عالیان اسی طرح جھک کر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

“سب شروع سے بتائو ہوا کیا تھا؟ انابیہ کہاں گئ ہے؟"

“جویریہ نے کیا ہے یہ سب کبیر کی کزن جویریہ نے۔۔ میں عموماً اس وقت تک سکول میں نہیں ہوتی آج کام زیادہ تھا سو رکنا پڑا تبھی وہ پتہ نہیں کیسے مگر اپنے بندوں کے ساتھ سکول میں گھس گئ۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بدلے وہ انابیہ کو اپنے پاس بلائے گی۔۔ یا خدایا وہ اسے لے گئ ہوگی عالیان۔ تم نے اسے کیوں جانے دیا؟؟" وہ اب کے نم آنکھوں سے تڑپ کر بول رہی تھی۔ عالیان آہ بھرتے ہوئے پیچھے ہو گیا اور فرہاد کی طرف گھوما۔

“میں کبیر کے پاس جاتا ہوں اسے بتانا بہت ضروری ہے کہ اس سب میں جویریہ کا ہاتھ ہے تم بحفاظت لاریب کو اس کے گھر پہنچا دو پھر میں تمہیں جگہ بتا دوں گا وہیں آجانا۔۔" اس نے فرہاد کے کندھے پر ہاتھ رکھتےہوئے شکست خوردہ انداز میں کہا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

"میں کہیں نہیں جا رہی مجھے انابیہ کے پاس لے چلو۔۔" وہ فوراً گاڑی سے اتر آئی۔ سر بری طرح چکرایا تھا بروقت فرہاد اسے نہ تھامتا تو وہ نیچے گر جاتی۔

“کیا کر رہی ہیں آپ؟؟ انابیہ میم کا تو ہمیں خود معلوم نہیں کہاں ہیں۔۔ آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں ان کو بحفاظت آپ کے پاس لے کر آئوں گا ہنی بی!!" لاریب نے فوراً اپنا آپ چھڑوایا اور اس سے دور گاڑی کا سہارا لیے کھڑی ہوگئ۔

“آپ کو یاد ہے کہ آپ کے سر پر وار کس نے کیا تھا؟" وہ بغور اس کے ماتھے پر زخم دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ لاریب نے ایسے سوال پر عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔

"یہ کیسا سوال ہے؟ مجھے کیا پتہ کس نے مارا ہوگا؟" کوفت سے کہتی وہ دوبارہ پسنجر سیٹ پر بیٹھ گئ۔

"یعنی سب کے سر پھوڑنے پڑیں گے۔۔" زیر لب بڑبڑاتے ہوئے اس نے لاریب کی طرف کا دروازہ بند کیا اور سیدھا زرک کے پاس چلا گیا۔

"تم اچھے سے جانتے ہو ان سب نامرادوں کو کہاں لے کر جانا ہے۔۔ ایک کام جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے کرنا ہے وہ یہ کہ مجھے ان سب کے ماتھے کی ٹھیک اس جگہ پر (شہادت کی انگلی اپنی پیشانی کے بائیں طرف زور دیتے ہوئے کہا۔) گہری چوٹ کے نشان چاہیے۔۔ اب تم جا سکتے ہو۔۔" اس پر حکم صادر کرتے وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہی اس نے ایک نظر ساتھ بیٹھی لاریب کو دیکھا جو سیٹ کی پشت پر سر ٹکائے آنکھیں موندے ہوئی تھی پھر سر جھٹک کر ڈرائیونگ میں مصروف ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد گاڑی رکنے پر لاریب نے آنکھیں کھول کر سامنے شیشے سے باہر دیکھا۔ وہ اس کا گھر نہیں تھا بلکہ ہسپتال کی عمارت تھی۔ وہی الجھی الجھی نظریں اس نے فرہاد کی طرف کیں۔ اس سے پہلے وہ اس سے پوچھتی وہ خود ہی بول پڑا۔

"آپ کا زخم بہت گہرا ہے۔ براہ مہربانی مزاحمت مت کیجئے گا پٹی کروا لیں پھر میں آپ کو گھر چھوڑ دوں گا ہنی بی!!" وہ بنا اس سے نظریں ملائے سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے بڑے ہی عاجزانہ انداز میں بات کر رہا تھا۔ لاریب نے واقعی کوئی بحث نہیں کی اور چپ چاپ دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔ فرہاد یہ دیکھتے ہی مسکرایا تھا۔۔وہ زخم کی پٹی کروائے گی۔

●●●●●●●●●●●

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?