Share:
Notifications
Clear all

Muhabbat ka qissa by Hadia Muskan epi(12)

1 Posts
1 Users
0 Reactions
143 Views
(@hadiamuskan)
Eminent Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 14
Topic starter  

این۔جے کے داخلی دروازے کو پار کرتے وہ سنگ مرمر کے فرش پر قدم رکھ چکی تھی۔ وہ جو سفید ٹاپ کے ساتھ سیاہ سکرٹ اور سیاہ کوٹ پہنے ہوئے تھی۔ وہ جس کے سیاہ بال سامنے سے سیدھی مانگ نکالے پیچھے جوڑے میں مقید تھے۔ وہ جس کے چہرے پر ہلکا میک اپ اور ہونٹ جو ڈارک ریڈ لپ سٹک کی وجہ سے کسی گلاب کی مانند لگ رہے تھے اس کی متلاشی سیاہ آنکھیں پورے آفس میں گھوم رہی تھیں۔ اس سے پہلے وہ ریسیپشن پر جاتی اس کی نظر سامنے لفٹ کے دروازے سے نکلتے دو وجودوں پر ٹھہری وہ جو ایک دوسرے کو مکمل دکھا رہے تھے۔ اس کا چہرہ ہر تاثر سے خالی تھا لیکن اس کی نظریں سرد ہونے لگی تھیں۔۔ کس قدر نفرت تھی اس کی آنکھوں میں انابیہ کے لیے کس قدر!!

چلتے چلتے کبیر کی نظر دور کھڑی اس لڑکی پر پڑی تو اس کے قدم ایک پل کے لیے بےساختہ رک گئے۔ انابیہ نے اچانک سے اس کے رکتے قدموں کو دیکھا اور پھر اس کی نظروں کا سفر کرتے اس لڑکی کو جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے انہی کی طرف آرہی تھی اور کچھ ہی دیر بعد وہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔ انابیہ نے پھر کبیر کو دیکھا جس کی اس لڑکی پر جمی نظریں یہ ثابت کر رہی تھیں کہ وہ اسے عرصے سے جانتا ہے جبکہ اس کی خود کی نظروں کے لیے وہ انجان تھی۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی اس نے اپنی طرف بڑھتے اس لڑکی کے ہاتھ کو دیکھا تو اس نے فوراً مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ بھی آگے بڑھا کر اس کے ہاتھ سے ملایا۔ اس کا ہاتھ کس قدر سرد تھا شاید آج موسم کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا ہوگا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔۔

"انابیہ۔۔ ایم آئی رائٹ؟؟" اس نے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجائے پوچھا اور انابیہ نے سر اثبات میں ہلا دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

"میں جویریہ سلطان۔۔" انابیہ کے چہرے سے مسکراہٹ چھن سے غائب ہوئی۔ اس نے ششد آنکھوں سے جویریہ کو دیکھا۔ کیا اسے سننے میں غلطی ہوئ؟؟

"کبیر کی کزن۔۔ کبیر نے بتایا تو ہوگا۔۔" انابیہ نے تیزی سے گردن گھما کر کبیر کو دیکھا جو آنکھیں چھوٹی کیے جویریہ کو دیکھ رہا تھا۔ پل میں اس کے چہرے کی رنگت کیا سے کیا ہوگئ تھی۔ اسے ایک منٹ بھی وہاں رکنا مشکل لگنے لگا اسی لیے بنا کچھ کہے وہ وہاں سے تیز قدم لیتے لفٹ کی طرف بڑھ گئ۔ کبیر نے گردن گھما کر اسے جاتے ہوئے دیکھا اور پھر گہرا سانس لیتے جویریہ کو۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟" کبیر کے پوچھنے پر اس نے خفگی سے چہرہ ایک طرف گرا کر اسے دیکھا۔

"تمہاری کزن ہوں آسکتی ہوں۔۔ خیر میری ٹرانسفر یہاں کراچی کی برانچ میں ہو گئ ہے تو سوچا تم سے اور انکل سے مل لوں۔۔ مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا یہ بھی یہاں ہو گی۔۔" اس کے آخری جملے کا اشارہ انابیہ کی طرف تھا۔

"تم ہم سے گھر میں مل سکتی تھی۔۔" اس نے اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے کہا لیکن آنکھوں کا سرد پن ویسا ہی تھا جیسا ہمیشہ جویریہ سلطان کے لیے ہوتا تھا۔

"تم مجھے تمہارے آفس آنے سے منع کر رہے ہو؟؟" اس نے اپنی نظریں اس کے چہرے پر مرکوز کیے پوچھا۔ کتنا پیارا تھا نا وہ اب بھی ویسا ہی لگتا تھا۔۔ کبیر نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔۔

"میں نے ایسا نہیں کہا۔۔"

"تو مجھے اپنا آفس ہی دکھا دو۔۔" وہ کہہ کر لفٹ کی طرف بڑھ گئ۔ کبیر نے ٹھنڈی آہ بھری اور اس کے پیچھے چل دیا اسے اپنے قدم بھاری محسوس ہونے لگے تھے۔

"تم نے تو مجھے معاف کر دیا ہے لیکن کیا انابیہ مجھے معاف کرے گی؟؟" کبیر سیٹ کی پچھلی طرف دونوں ہاتھ اس کی ٹیک پر رکھے کھڑا تھا اور اس کی سپاٹ نظریں میز پر پڑے دو کافی کے کپس پر ٹکی تھیں جو کب سے انتظار کرتے کرتے ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ تبھی اسے اپنے عقب سے جویریہ کا سوال سنائی دیا جو فریم شدہ گیلری کے کونے میں سائڈ ٹیبل پر پڑی روشن دنیا کو اپنی انگلیوں سے گھما رہی تھی جیسے اپنے اشاروں پر نچا رہی ہو اس نقلی اور چھوٹی دنیا پر اپنی حکمرانی ظاہر کر رہی ہو۔

"وہ نہیں آئے گی؟؟" جواب نہ ملنے پر وہ کبیر کی طرف گھومی۔ اس کے کہنے پر وہ پہلے ہی اسے کال کر چکا تھا جو اس نے نہیں اٹھائی تو اس نے وانیہ سے اسے بھیجنے کو کہا۔

"میں واقعی پچھتاوے میں گھری ہوئ ہوں۔ میں۔۔" وہ بولتے بولتے چپ ہو گئ۔ اس یکدم خاموشی پر کبیر نے گھوم کر اسے دیکھا تو اسے معلوم ہوا وہ رو رہی تھی۔

"میں تمہاری محبت سے موو آن کر چکی ہوں۔۔ دیر سے ہی سہی لیکن کر چکی ہوں۔۔"اس نے اپنے گالوں پر بہتے آنسو صاف کیے تبھی دروازہ کھلا کوئی اندر داخل ہوا کبیر نے گردن گھمائی تو جانا وہ انابیہ تھی جس کا چہرہ بلکل بےتاثر سا دکھائ دے رہا تھا۔ جویریہ تیز تیز قدم لیتے اس کے قریب آئی تو وہ اسے اگنور کرتی وسط میں کھڑے میز کے کنارے جا کھڑی ہوئ اسے جویریہ کے ساتھ کھڑا ہونا بھی اپنی ذات کی توہین لگا تھا۔

"یقیناً تمہارا دل بڑا ہی ہوگا۔۔" وہ اس کے قریب جا کر کھنکھاری۔ انابیہ نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں اور مسلسل پلکیں جھپکتے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ کبیر اس کے صبر کو دیکھ سکتا تھا جو اس نے بمشکل کر رکھا تھا۔۔

"تبھی تو کبیر نے صرف اس دل سے محبت کی صرف اس دل کو چنا۔۔" وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔انابیہ نے ایک سخت نظر اٹھا کر کبیر کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر نظروں کا رخ بدل گئ۔ اس نے دھکے مار کر اسے باہر کیوں نہیں نکال دیا؟؟

"اور کہتے ہیں بڑے دل والے۔۔۔"

"سیدھی طرح کہو کیا کہنا چاہتی ہو؟ میرا وقت فالتو نہیں ہے۔۔" اب کی بار وہ اپنی سرد بھوری آنکھیں اس کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھے سردمہری سے بولی۔ ایک پل کے لیے کبیر نے اس کی انگارہ اگلتی آنکھوں کو دیکھا تو اسے لگا جیسے وہ سب جلا ڈالے گی۔

"کیا تم مجھے معاف کر سکتی ہو؟؟ میں بہت تکلیف میں ہوں مجھ پر یہ احسان کر دو۔۔" اس نے عاجزانہ انداز میں کہا۔ وہ کچھ دیر کے لیےکچھ بول ہی نہ سکی۔ کیسے لوگوں کے لیے سب کچھ آسان ہوجاتا ہے نا۔ کسی کی زندگی تباہ و برباد بھی کر دیتے ہیں اور پھر آ کر معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔۔

"کبیر مجھے معاف کر چکا ہے۔۔ کیا تم بھی اپنا دل مزید بڑا کر سکتی ہو؟"

یہ ایک جملہ۔۔"کبیر مجھے معاف کر چکا ہے۔۔ کبیر مجھے معاف کر چکا ہے۔۔" یہ ایک جملہ بار بار اسے اس کے کانوں کے پردے پھاڑتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ بےیقین سی کھڑی رہی جیسے جسم سے جان نکل گئ ہو۔ پھر اس نے دھیرے سے کبیر کو دیکھا۔ اس کی نظروں میں ملامت تھی بے یقینی تھی۔۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا؟؟ ان کی محبت کی قاتلہ کو کیسے معاف کر سکتا تھا؟ پھر کبیر اس سے نظریں چرا گیا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس کے اس عمل نے جویریہ کی اس بات پر مہر لگا دی تھی۔ بےاختیار ہی اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکا جسے جویریہ کی نظروں نے مقید کر لیا تھا۔ وہ فاتحانہ مسکرائ تھی لیکن کوئ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔

"بولو انابیہ کیا تم مجھے معاف کر سکتی ہو؟؟" انابیہ نے بمشکل ٹیبل کا کونا پکڑا اور پھر سرخ آنکھیں اٹھا کر پہلے کبیر کو دیکھا اور پھر جویریہ کو جو عاجز سی شکل بنائے اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔ وہ جو کبھی نرم دل ہوا کرتی تھی سب کو معاف کر دیا کرتی تھی اسے آج احساس ہوا جو آپ کی زندگی ویران کر دے اسے معاف کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کے دل میں درد کی لہر دوڑنے لگی۔ بہت سارا تھوک نگلتے اس نے بمشکل اپنے لب ہلائے۔۔

"میں نے تمہیں۔۔ معاف کیا۔۔" اس کی آواز لڑکھڑا گئ اور کبیر کرب سے آنکھیں بند کر کے اپنا رخ دوسری طرف موڑ گیا۔ وہ کبھی اسے اس کے دشمن کے سامنے ٹوٹا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔

انابیہ کو زمین پر کھڑا ہونا مشکل لگنے لگا۔ اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ اس نے فوراً دروازے کی طرف رخ کیا۔ وہ کبھی اپنی کمزوری اس لڑکی کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دے گی بس اسی ڈر سے وہ لڑکھڑاتے قدم اس آفس سے نکل گئ۔۔ دروازے کی آواز نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ جا چکی ہے لیکن وہ نہیں پلٹا اور شیشے سے اندر آتی روشنی کو دیکھ کر بھی اسے اپنے ارد گرد اندھیرا محسوس ہونے لگا۔ نہ صرف اندھیرا اسے اس روشن کمرے میں گھٹن بھی محسوس ہو رہی تھی۔ خود کو تکلیف پہنچے تو تکلیف محسوس نہیں ہوتی اصل تکلیف تو تب ہوتی ہے جب آپ کا کوئ اپنا سخت تکلیف میں ہو اور آپ کچھ نہ کر سکیں۔ جویریہ نے آگے بڑھ کر میز پر سے اپنا بیگ اٹھایا پھر اس میں سے ٹیشو نکال کر اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔ پھر ایک نظر کبیر کو دیکھا۔۔

"آنسو مقدر ہے ہر محبت کرنے والے کا۔۔" دل ہی دل میں کہتے وہ پلٹی اور اسے خاموش ہی چھوڑ کر وہ وہاں سے نکل گئ۔۔

اپنے آفس کا دروازہ بند کرتے وہ بمشکل ہی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کے جسم میں طاری کپکپی اسے روک رہی تھی۔ اس کا رک رک کر آتا سانس اسے روک رہا تھا۔

"اب نہیں۔۔ پھر سے نہیں۔۔" بے ساختہ اس نے دل پر ہاتھ رکھا۔ اسے پھر سے پینک اٹیک آرہا تھا۔ آنسو ابل ابل کر اس کی آنکھوں سے پھوٹ رہے تھے۔ اس کے دل میں پہلی دفعہ کا ڈر بیٹھ گیا تھا اور اسے یہی خوف لاحق تھا کہ وہ پھر سے آگئ ہے وہ پھر سے انہیں جدا کر دے گی۔ وہ منہ سے تو معافی مانگ رہی تھی لیکن اس کی آنکھیں وہ صاف بتا رہی تھیں وہ پھر سب تباہ کرنے آگئ ہے۔ کمزور مگر تیز تیز قدم لیتے وہ میز تک گئ۔ کپکپاتے ہاتھوں سے پرس کھنگالنے لگی اور دوائیوں کا پلتہ برآمد کیا۔

"وہ جھوٹی ہے۔۔ وہ جھوٹی ہے۔۔" لرزتے ہونٹوں سے کہتے ہوئے وہ جگ سے گلاس میں پانی ڈالنے لگی۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کی وجہ سے جگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ٹیبل پر ہی گر گیا جس پر پڑے تمام کاغذات اور لیپ ٹاپ اور دیگر اشیاء اگلے ہی لمحے بھیگ چکے تھے لیکن وہ پرواہ کیے بغیر دو گولیاں منہ میں ڈال کر پانی پینے لگی۔ پھر گرنے کے انداز میں کرسی پر جا بیٹھی اور کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی۔۔ اس نے اپنے دونوں کپکپاتے ہاتھ اپنے سامنے پھیلا لیے۔۔ وہ کس قدر کمزور لگ رہی تھی۔۔ اس کے ہاتھوں سے محبت ایک بار پھر کوئ چھین کر لے جائے گا اور وہ دیکھتی رہ جائے۔۔ ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔

●●●●●●●●●●●●●●●

تقریباً آدھا گھنٹہ گزر گیا تھا لیکن کبیر کی بےچینی میں ذرا کمی نہ آئ اور وہ اسی طرح اضطراب کے عالم میں چکر کاٹتا رہا۔۔ دل بار بار اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔

"ایک دفعہ اس کے پاس چلے جائو ۔۔ بس ایک بار۔۔ وہ دھتکار بھی دے تو بس ایک بار۔۔۔" کیا وہ دل کی سنے؟؟ اس کے قدم رکے۔۔ دل کی پکار کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ بھاگتے ہوئے اس کے کمرے کی طرف گیا۔۔

اس نے دو بار دستک دی تھی لیکن جواب ندارد۔۔ اگلی بار اس نے دستک دیے بغیر ہی دروازہ کھول دیا پھر جو سامنے کا منظر دیکھا تو پل بھر کے لیے صدمے میں چلا گیا۔ وہ میز کے ایک سرے پر سر رکھے لیٹی ہوئ تھی ٹیبل دوسری طرف سے سارا بھیگا ہوا تھا۔ بھاری تنفس کے ساتھ وہ تیزی سے اس کی طرف بھاگا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔کیا وہ سو رہی تھی؟ یا پھر۔۔ وہ گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھا اور اور ہاتھ کی پشت اس کے ناک قریب لے جا کر اس کے سانس کا اندازہ لگانے لگا۔۔ صد شکر وہ سانس لے رہی تھی اس نے شکر کا سانس بھرا اور اٹھنے ہی لگا پھر اس کی آواز پر رکا۔

"کیا دیکھ رہے ہو؟" اس نے بند آنکھوں سے کہا۔۔ "ابھی تو زندہ ہوں۔۔"پھر آنکھیں کھول دیں۔ وہ اس کے اتنے قریب تھا کہ اس کی آنکھوں کی سرخی اس نے اب صحیح سے دیکھی تھی۔ پھر اس پر سے نظریں ہٹاتے ہی وہ اٹھا کھڑا ہوا اور بغیر کوئ لفظ کہے جانے لگا تبھی انابیہ نے سر اٹھایا۔

"رک جائو کبیر جہانگیر۔۔ مجھ سے بھاگ رہے ہو؟؟" وہ اٹھ کر اس کے پیچھے آئ۔ اس کی ٹانگیں اسے اب بھی بےجان سی محسوس ہوئ۔ "یا پھر میرے سوالوں سے؟" وہ اس کے راستے میں جا کھڑی ہوئ۔ کبیر نے بہت سارا تھوک نگل کر اسے دیکھا۔

"بولو کبیر۔۔ تمہارا دل سب کے لیے اتنا نرم ہے تو میرے لیے کیوں نہیں؟؟" وہ سراپا سوال بنے اس کے سامنے کھڑی تھی اور وہ خود ایک کٹہرے میں۔۔ "تم اسے اتنی بڑی غلطی پر معاف کر سکتے ہو تو مجھے کیوں نہیں؟؟" اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا گریبان ہی جکڑ لے۔

"تمہیں کس نے یہ حق دیا کہ اسے معاف کر دو اتنی آسانی سے۔۔ محبت یہ سب برداشت نہیں کرتی وہ اپنے قاتل کو معاف نہیں کرتی تو تم کون ہوتے ہو ہاں؟؟" اس کی آنکھوں میں غضب کا غصہ تھا۔ کبیر نے اس کے تمتماتے چہرے اور انگارہ اگلتی آنکھوں میں دیکھا۔

"وہ واقعی شرمندہ ہے۔۔ وہ بھی بہت تکلیف سے گزرتی رہی ہے۔۔" جویریہ کے حق میں گواہی سن کر وہ پل بھر خاموشی سے اسے ملامت بھری نظروں سے دیکھے گئ۔

"اور میری تکلیف؟؟" اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔۔ شکوہ تھا۔۔ شکایت تھی۔۔ وہ اسے کیسے بتاتا کہ اس کی ہر تکلیف خود کبیر کی تکلیف تھی۔۔

"انابیہ اس نے جو بھی کیا محبت میں کیا۔۔ اس میں اس کا بھی تو قصور نہیں ہے۔۔"

"تو میرا قصور تھا؟؟ میں نے بھی تو ایک محبت کے لیے ایک محبت کو چھوڑا تھا نا۔۔ فرق صرف یہ ہے وہ میرے اپنوں کی محبت تھی۔۔" وہ ایک قدم آگے آئ۔۔" تم مجھے کیوں سزا دے رہے ہو؟" اب کی بار کبیر کی پیشانی پر کچھ بل پڑے اور بھنویں سکیڑ کر وہ کچھ سیکنڈز اسے دیکھے گیا۔

"کون سی سزا دی ہے میں نے تمہیں؟؟ میں اگر تمہیں سزا دینا چاہتا تو یہاں سے فوراً واپس چلا جاتا لیکن میں نہیں گیا خود کو اور تمہیں وقت دینے کی کوشش کی۔۔" اتنی دیر میں یہ پہلی دفعہ اس کا لہجہ تھوڑا سخت ہوا تھا۔

"تم یہاں رہ کر مجھے سزا دے رہے ہو چلے جاتے تو بہتر ہوتا لیکن تم یہاں میرے قریب ہو کر بھی مجھ سے دور ہو۔۔ یہ سب سے بڑی سزا ہے میرے لیے۔۔" اب کی بار وہ چلا کر بولی تھی کبیر کے کندھے ڈھیلے پڑتے گئے۔ اس نے پہلی دفعہ انابیہ کو اتنا چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اتنا کرب میں دیکھا تھا۔

"میں تم سے اب کہتی ہوں چلے جائو یہاں سے۔۔ یا میں یہ آفس چھوڑ دوں گی۔۔ میں بس تمہارے ساتھ مزید کام نہیں کر سکتی ۔۔ انا کی جنگ کیا ہوتی ہے اس کا بہترین سبق تمہیں اب میں دوں گی۔۔ تم جائو لوگوں کو معاف کرتے پھرو۔۔" اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔ کبیر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر گہرا سانس بھر کر اسے دیکھا۔ وہ مزید بحث نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔ معاملات تھوڑے سے ہی بہتر ہوئے تھے کہ پیچیدگیاں بغیر دستک دیے آگئیں۔

●●●●●●●●●●●●●●●●

"کیا پتہ وہ سچ میں بدل گئی ہو اور واقعی میں معافی کی طلبگار ہو۔۔" یہ لالی تھی۔ سیاہ رنگ کی پرنٹڈ ساڑھی میں ملبوس لاریب کریم جو کائوچ پر بیٹھی سفید کانچ کی چینک سے بھاپ اڑاتی چائے ایک پیالی میں ڈال رہی تھی۔انابیہ شیشے کے بنے دروازے کے پاس بلکل خاموش سدھ بدھ سی کھڑی لان میں کھیلتی دو بچیوں کو دیکھ رہی تھی۔ چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی اور بازو سینے پر لپیٹے ہوئے تھے۔ کبیر سے بحث کرنے کے بعد وہ آفس سے سیدھا لالی کے پاس سکول میں آگئی تھی۔

“ہمیں دوسروں کو اپنی غلطی سدھارنے کا موقع دینا چاہیے۔۔" اب آواز بلکل ساتھ سے آئی تھی۔ انابیہ نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس نے پرچ پر رکھی پیالی اس کے سامنے کی۔ اسی سنجیدگی سے بنا کچھ کہے اس نے پرچ اس کے ہاتھ سے لے لی۔

“اور اگر انسان معافی ہی نہ مانگے تو؟" اس کے اس سوال پر لالی کے چہرے پر ناسمجھی کے اثرات ابھرے۔

“ابھی تو تم نے کہا کہ اس نے تم سے معافی مانگی تھی۔۔" اس کی تفتیشی نظریں انابیہ کے چہرے پر ٹکی تھیں جو اب چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے باہر ہی دیکھ رہی۔ اونچی پونی والی بچی نے پھولوں کا ہار بلآخر بنا ہی لیا تھا اور اب وہ دوسری کو فاتحانہ انداز سے دکھا رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو میں نے پہلے بنا لیا۔

“مانگی تھی معافی مگر صرف زبان سے۔ تم بتائو لالی جو صرف زبان سے معافی مانگے تو کیا مطلب ہے اسے معاف کر دیا جائے؟" پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی کم از کم لالی کی سمجھ سے باہر تھی ہر بات۔

“اب تم نے تو معاف کر دیا نا۔۔" اس نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔

“میرے پاس کیا آپشن رہ گیا تھا اس کے علاوہ۔ جب کبیر کا دل اس کے لیے اتنا بڑا ہو گیا تو میرے معاف کرنے نہ کرنے سے کیا ہوتا۔۔" اس کی آواز میں تکلیف سی گھل گئی تھی۔ اونچی پونی والی بچی نے مسکراتے ہوئے ہار اپنے سامنے بیٹھی دوست کے گلے میں ڈال دیا جیسے کہہ رہی ہو ناراض مت ہو اور یہ میرا ہار لے لو۔۔

“تم نے مجھے منافق اور مخلص لوگوں کے بارے میں بتایا تھا نا۔ اب میں تمہیں بتاتی ہوں اصل منافق کسے کہتے ہیں۔۔" اس نے دوسرا گھونٹ بھرا۔ لالی پورے وثوق سے اسے سن رہی تھی کیونکہ وہ ایک بہترین دوست تھی۔ “اصل منافق جویریہ کو کہتے ہیں۔۔ وہ جھوٹی ہے۔۔ اس کی معافی اس کے آنسو اس کا پورا وجود جھوٹا ہے۔۔" اس کے لہجے میں اتنی نفرت تھی کہ لالی کو ایک پل کے لیے وہ انابیہ نہیں لگی تھی۔

“اس کی آنکھوں میں کھلا چیلنج تھا میرے لیے۔ وہ اپنی آنکھوں سے ہی مجھے سب بتا گئی کہ لو انابیہ آگئی ہوں میں پھر سے ۔۔چھین لوں گی میں تم سے کبیر کو۔ روک سکتی ہو تو روک لو۔۔" اس کی آنکھیں سرخ اور نم ہورہی تھیں جسے دیکھتے ہی دیکھتے لالی نے گہرا سانس بھرا۔ دو پونیوں والی بچی نے ہار گلے سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ یقیناً وہ اس سے یہی کہہ رہی تھی کہ مجھے ہارنا پسند نہیں ہے اور تم مجھ پر ترس نہ کھائو۔۔اونچی پونی والی اسے افسردہ شکل لیے دیکھ رہی تھی لیکن دو پونیوں والی اب مسلسل اس کے ہار کو پیروں کے نیچے بےدردی سے کچل رہی تھی۔ انابیہ نے آنکھیں بند کر لیں اور دونوں آنکھوں سے ایک ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔

“افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس کی یہ اداکاری کبیر کو سمجھ کیوں نہیں آئی؟ وہ کیسے اس پر ترس کھا گیا لالی اسے مجھ پر تو ترس نہیں آیا تھا۔۔" اس کے گلے میں کچھ اٹک گیا تھا۔ آواز رندھ گئی تھی۔

“لیکن انابیہ سب ٹھیک بھی تو ہو رہا ہے نا تم دونوں کے درمیان۔ اب ان سب باتوں کا کیا فائدہ۔۔" لالی نے خود کی خاموشی توڑتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

“تم نہیں جانتی اس نے مجھے کتنی باتیں سنائی تھیں۔ اس نے مشرق مغرب شمال جنوب ہر طرف سے الزام لا کر میرے سر ڈال دیے تھے کہ میں نے کوشش نہیں کی میں نے ہار مان لی اور جس کا اس سب میں ہاتھ تھا وہ آج ہٹدھرمی سے میرے آفس میں کھڑی مجھے یہ جتا رہی تھی کہ دیکھ لو انابیہ تمہارے دکھ اور تکلیف کی یہ اوقات ہے کہ مجھے معافی مل گئی ہے وہ بھی اتنی آسانی سے۔۔اب تم سے معافی مانگنے آیا کون ہے میں تو بس تمہاری آنکھوں میں کرب دیکھنے آئی تھی۔۔" وہ بلکل بھی رونا نہیں چاہ رہی تھی لیکن آنسو کب کسی کی سنتے ہیں۔ اس نے اکتا کر چائے کی پیالی پرچ سمیت لالی کو واپس پکڑا دی اور پھر سے باہر دیکھنے لگی۔ دو پونیو والی بچی اپنی بھڑاس نکال کر جا چکی تھی اور وہ اونچی پونی والی منہ پر دونوں ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔ بس شاید یہی منظر دیکھ کر اسے زیادہ رونا آرہا تھا۔ اس سے پہلے وہ اس بچی کے پاس خود جاتی کئیر ٹیکر اس تک پہنچ چکی تھی۔

“میں جانتی ہوں تم بہت تکلیف میں ہو۔ اپنی محبت کے قاتل کو ایک بار پھر سامنے دیکھنا آسان نہیں ہوتا لیکن انابیہ اس کا حل یہ تو نہیں ہے کہ تم آفس چھوڑ کر بس ماتم کرنے لگ جائو۔۔" اس نے پیالی ٹیبل پر رکھ دی اور پھر اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔۔

“میں آفس نہیں چھوڑ رہی۔ وہ تو بس میں نے اسے غصے میں کہا تھا۔" کئیر ٹیکر بچی کے آنسو پونچھ رہی تھی اور بڑے پیار سے اسے کچھ سمجھا بھی رہی تھی۔ اگلے ہی لمحے بچی نے بھی اپنی آنکھیں رگڑ کر مسکرا کر کئیر ٹیکر کو دیکھا۔ یہ دیکھتے ہی انابیہ نے بھی اپنے آنسو پونچھ دیے اور مسکرانے لگی۔

“ایک کام کرو۔ جویریہ سے ملو اس سے پوچھو کہ وہ چاہتی کیا ہے۔۔"

“میں نہیں جانتی وہ رہتی کہاں ہے کس کمپنی میں کام کرتی ہے اور نمبر بھی نہیں ہے میرے پاس۔۔" وہ نہایت ہی سادگی سے بولی تو لالی نے کوفت سے سر جھٹکا۔

“اففو انابیہ اپنے دشمنوں کی خبر رکھنی چاہیے۔ بجائے رونے دھونے کے تم اپنی اس عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتی؟" وہ اب باقاعدہ اسے ڈانٹ رہی تھی۔

“آج ہی تو آئی ہے ایک دم کہاں سے ساری انفارمیشن اکھٹی کر لائوں؟" اس نے جیسے خفگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

“تم مل بھی چکی ہو نا میں ملی بھی نہیں ہوں۔ اب دیکھو میں کیسے پتہ لگاتی ہوں اس کا۔۔" وہ چیلنجنگ انداز سے کہتے ہی اپنے ورکنگ ٹیبل پر گئی اس پر سے فون اٹھایا اور کسی کو کال کرنے لگی۔ انابیہ اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہی تھی۔

“ہیلو میں لاریب بات کر رہی ہوں۔۔" وہ روانی میں بولی تھی۔

“بولو لاریب میں سن رہا ہوں۔۔" اسپیکر کھلا تھا اور آواز سنتے ہی انابیہ دھنگ رہ گئ۔

“یہ کون سی لڑکی آ گئی ہے ایک دم سے تم دونوں کے درمیان ہاں۔۔" وہ ایسے ڈانٹ رہی تھی جیسے کبیر کی ماں ہو اور انابیہ سکتے کے عالم میں بس اسے دیکھے جا رہی تھی۔

“تم جویریہ کی بات کر رہی ہو؟؟" کبیر نے پوچھا۔

“ہاں بھئی اور کون ہو سکتا ہے۔ دیکھو کبیر یہ تو تم ہی جانتے ہو گے کہ یہ لڑکی یہاں کیوں آئی ہے اسے فوراً بھیج دو اس کے ارادے ٹھیک نہیں ہے۔ میری دوست کا رو رو کر برا حال ہے کچھ تو معاملے کو سیریس لو۔۔" انابیہ نے اپنے سر پر ہاتھ دے مارا بھلا وہ کب رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔

“بیا رو رہی ہے؟؟" اس کے تفکر آمیز انداز پر انابیہ کے کان ایک دم کھڑے ہوئے۔

“یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔۔" اس نے درشتی سے کہا۔

“لاریب میں اسے نہیں نکال سکتا یہ میرا شہر نہیں ہے۔ اس کے آفس والوں نے ٹرانسفر کر دیا ہے اس کا اس شہر میں تم پلیز انابیہ کو سمجھائو کہ وہ واقعی۔۔"

“خبردار۔۔" اس نے فوراً ٹوک دیا۔۔ "خبردار جو میرے سامنے میری دوست کی دشمن کی سائڈ لی تو۔ جھوٹ بول رہی ہے وہ کوئی ٹرانسفر نہیں ہوا اس کا۔۔"

“ ایسی بات نہیں ہے میں نے خود سٹارز انڈسٹری میں پتہ کروایا ہے انہوں نے ہی ٹرانسفر کی ہے اس کی۔۔" لالی نے نچلے ہونٹ پر دانت رکھے مسکراتے ہوئے دونوں ابرو اٹھا اٹھا کر انابیہ کو دیکھا جس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔

“اچھا اچھا بس بہت سائڈ لے لی تم نے۔۔ رکھتی ہوں فون۔" ایک آنکھ دباتے ہوئے اس نے کال کاٹ دی اور پھر اگلا نمبر ملانے لگی۔۔ "ہاں ہیلو۔۔ صائم کو اندر بھیجو۔۔" حکم صادر کرتے ہی اس نے انابیہ کو دیکھا جو اب تک حیرت سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔ "بس بس حیران بعد میں ہونا۔۔" تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔

“آجائو۔۔" پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان لڑکا صائم اگلے ہی لمحے لالی کے سامنے کھڑا تھا۔

“سٹارز انڈسٹری میں جائو۔ وہاں پر جویریہ۔۔"رک کر انابیہ کی طرف گھومی۔۔ "پورا نام؟؟"

“جویریہ سلطان۔۔" وہ سر جھٹک کر ہوش کی دنیا میں آتے ہوئے بولی۔۔

“شکر یہ تو پتہ تھا۔۔" پھر صائم کی طرف گھومی۔۔"جویریہ سلطان نامی لڑکی وہاں کام کرتی ہے اس سے ملو اور اس کی انابیہ میم سے کال پر بات کروا دینا۔ یہ کام کل صبح صبح ہوجانا چاہیے ۔ سمجھ گئے؟" لڑکے نے تابعداری سے سمجھ کر سر اثبات میں ہلایا۔۔"ٹھیک ہے اب جائو۔۔" اس کے جانے کے بعد وہ پھر انابیہ کی طرف گھومی جو اب تک ششد آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

“ایسے نظر رکھی جاتی ہے دشمنوں پر۔۔ اب اس سے کیا بات کرنی ہے کیسے کرنی ہے ایز آ بزنس پرسن تم اچھے سے جانتی ہو۔ آئی ہوپ تم اسے ڈیل کر لوگی۔۔ " آگے بڑھ کر اس نے نرمی سے انابیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔ "اپنی کوئی بھی کمزوری اس پر کبھی ظاہر مت ہونے دینا۔ اسے بتا دو انابیہ احمد عالم کہ اب تم محبت کے لیے جان کی بازی لگا دو گی لیکن اس بار اسے جیتنے نہیں دو گی۔۔۔" انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا۔ ہمیشہ کی طرح لالی نے پھر اسے ہمت دی تھی پھر حوصلہ دیا تھا۔

●●●●●●●●●●●●●

وہ سفید کوٹ پہنے ہسپتال کی راہداری پر چل رہی تھی۔ ان کے کالج والے پچھلے کچھ دنوں سے ان کو ہاسپٹل میں ٹریننگ دے رہے تھے۔ اس کے ساتھ ارم بھی تھی جو مسلسل اس سے کچھ باتیں کر رہی تھی لیکن اس کا دھیان بلکل بھی ارم کی باتوں پر نہیں تھا بلکہ وہ تو راہداری میں چلتے چلتے آس پاس لوگوں کو دیکھ رہی تھی جن میں کوئی تو اپنے کے مر جانے پر دھارے مار مار کر رو رہا تھا کوئی بچے کی پیدائش پر خوشی سے پاگل ہو رہا تھا اور کوئی ہاتھوں میں تسبیح پکڑے آئی-سی -یو میں زندگی اور موت کی جنگ کرتے کسی اپنے کے لیے ڈھیر ساری دعائیں کر رہا تھا۔ یکدم اسے اپنے بازو پر ارم کی زوردار گرفت محسوس ہوئی تبھی ردا نے ہوش میں آکر ارم کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا جو اسے کب سے جھنجھوڑ رہی تھی۔ بجائے پوچھنے کے اس نے ارم کی نظروں کا تعاقب کیا تو بےساختہ اس کی آنکھیں پوری کھلیں۔ سامنے سے ہی نیلی جینز پر سفید ٹی شرٹ پہنے ظفر اس کی طرف آرہا تھا۔

“تم جائو ارم۔۔" اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے ارم سے کہا جو سر اثبات میں ہلاتی وہاں سے چلی گئی۔ فاصلہ طے ہو چکا تھا اور ظفر جہانزیب اور ردا احمد ایک دوسرے کے روبرو کھڑے تھے۔ اس بار ردا کے چہرے پر خوف کے تاثرات تو بلکل بھی نہیں تھے بلکہ وہ تو سینے پر ہاتھ باندھے شیرنی کی طرح اسے دیکھ رہی تھی۔

“وہ سب ویڈیو اور وائس نوٹس تمہارے پاس کہاں سے آئے؟؟" اس بار ظفر کے چہرے پر بھی وہ مسکراہٹ نہیں تھی جو ہمیشہ ردا کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ہوتی تھی۔۔

“کون سی ویڈیوز؟" وہ انجان بن گئ۔

“ردا میرا ضبط مت آزمائو پلیز۔۔۔" آواز کافی اونچی تھی۔

“ آواز کم کرو ظفر یہ تمہارے باپ کی حویلی نہیں ہے ہسپتال ہے۔۔" وہ وبی دبی آواز میں غرائی۔۔ “تمہاری ہمت کیسے ہوئی عالیان پر ہاتھ اٹھانے کی؟؟" وہ اپنی سبز کانچ سی آنکھیں اس کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھ گئی تھی۔

“میرے بس میں ہوتا تو اس کے چھیتڑے چھیتڑے کر دیتا۔۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی تمہارے اور میرے درمیان آنے کی۔۔" اب کی بار وہ بھی دبا دبا غرایا تھا۔ ردا شعلہ وار نگاہوں سے باری باری اس کی دونوں آنکھوں میں دیکھے گئی۔۔ “کیوں کر رہی ہو تم ایسا؟ میں محبت کرتا ہوں تم سے۔ ہم ایک خاندان ہے تمہیں اپنا بنا کر سب ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔۔" انداز عاجزانہ تھا۔

“محبت کے نام سے صرف واقف ہو تم۔۔ اس کا مقام اور مرتبہ کیا ہے جانتے ہو؟؟" وہ ایک قدم آگے آئی اور بھنویں سکیڑ اس کی آنکھوں میں طیش سے دیکھے گئ۔۔ "محبت وہ پھول ہے جو خاص باغوں میں کھلتا ہے ظفر ۔۔ مگر تمہارا دل گٹر ہے اور گٹر میں پھول نہیں کھلتے۔۔" تیزاب سے بھی تیز جلا دینے والا لہجہ تھا اس کا۔ ظفر مٹھی بھینچے بس اسے دیکھتا رہا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی ردا کو اٹھائے گاڑی میں ڈالے اور لے جائے۔

“محبت وہ ہے جو عالیان کرتا ہے۔ وہ میری عزت کرتا ہے۔ تم نے کیا کیا؟ صرف مجھے ہراساں کرتے رہے ہو ٹارچر کرتے رہے ہو یہاں تک کہ اغواء بھی کر لیا تھا۔ اسے تم محبت کہتے ہو؟ یہ محض فتور ہے گندگی ہے یہ۔۔"انداز پھاڑ کھانے والا تھا لیکن آواز اتنی تھی کہ تیسرا انسان نہیں سن سکتا تھا۔ ظفر کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔

“انعم۔۔ انعم نے دیا ہے نا تمہیں یہ سارا مواد۔۔" ردا کا رنگ پل میں بدلا۔۔"میرے بندے ڈھونڈ رہے ہیں اسے۔ تمہارے قدموں میں لاکر پھینکوں گا اسے پھر بتاؤں گا محبت کیا ہے اور گندگی کیا ہے۔ تم ابھی مجھے جانتی نہیں ہو۔۔ میں جہانزیب عالم خان کا بیٹا ہوں۔۔ میں کیا کیا کر سکتا ہوں تم ضرور دیکھو گی۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری محبت کو گندگی کہنے کی۔ تم سب بھگتو گے سب۔۔" انگشت شہادت سے اسے تنبیہ دیتا وہ الٹے پیر وہاں سے چلا گیا جبکہ ردا کے پیروں وہیں جم گئے۔ وہ جو ڈٹ کر اس کے سامنے کھڑی تھی اب سانس بھی نہیں لے پارہی تھی۔ کیا اس سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی؟ ظفر کو چیلنج کر نے کی غلطی۔ وہ جو اب تک ان ویڈیوز اور وائس نوٹس سے ڈر رہا تھا وہ تو اب اس پر کوئی اثر ہی نہیں کر رہے تھے۔ وہ سر کو دونوں ہاتھوں میں جکڑے جھکا گئ۔ اس کے علاوہ وہ فلحال کر بھی کیا سکتی تھی۔

●●●●●●●●●●●●●●

وہ دونوں اس وقت ایک کیفے میں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ ان کے درمیان صرف ایک ٹیبل کا فاصلہ تھا۔ ویٹر آیا اور ان کے سامنے کافی کے کپ رکھ کر چلا گیا۔ جویریہ شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی جبکہ انابیہ سرد نگاہیں اس کے چہرے پر جمائے ہوئے تھی۔ لالی کے حکم کے مطابق صائم اس کی ورک پلیس پر گیا تھا اور اسی نے جویریہ کی انابیہ سے بات بھی کروائی تھی۔ انابیہ نے اس مختصر کال پر اس سے صرف یہی کہا تھا وہ اس سے ملنا چاہتی ہے جس پر جویریہ نے حامی بھری اور اسی دن اس کی بتائی ہوئی جگہ پر آگئی۔

“میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ تم یہاں کیوں آئی ہو کیونکہ کہ میں وجہ جانتی ہوں۔۔" انابیہ کی آواز پر جویریہ نے گردن سیدھی کر کے اسے دیکھا۔ مصنوعی مسکراہٹ اب بھی اس کے چہرے کی زینت تھی۔

“ماضی کی بات کرتے ہیں۔۔" آگے بڑھ کر اس نے کہنیاں ٹیبل پر ٹکا دیں۔ جویریہ کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور تاثرات سنجیدہ ہوئے۔

“جو لوگ ماضی میں رہتے ہیں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔۔" جویریہ نے سنجیدگی سے کہتے اپنا کپ اچک لیا۔ "میں نے تم سے معافی مانگی اور تم نے مجھے معاف کیا۔ اب ماضی چھیڑنے کا میں کیا مطلب لوں؟" اس کی آنکھوں میں طنز تھا۔

“ایک بات بتا دوں۔۔ یہ تو ہم دونوں ہی جانتے ہیں کہ تم کل معافی مانگنے نہیں آئی تھی۔۔ ماضی یاد دلانے آئی تھی اپنا آپ یاد دلانے آئی تھی۔۔" اس کی اس بات پر جویریہ نے گھونٹ بھرتے بھرتے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

“تم بات کو غلط رخ دے رہی ہو جب میں نے کہہ دیا کہ میں معافی مانگنے۔۔"

"میں نے کہا نا تم معافی مانگنے نہیں آئی۔۔" انابیہ نے درشتی سے اس کی بات کاٹی۔۔ "مجھے اپنی بات بار بار دہرانا قطعاً پسند نہیں ہے اب اگر تم نے کہا کہ تم معافی مانگنے آئی تھی تو۔۔"

“تو؟؟" جویریہ فوراً بھڑکی۔۔ "تو کیا کر لو گی؟ تم پہلے کیا کر سکی تھی۔ تم اب کیا ہی کر لو گی انابیہ احمد عالم۔۔" اس کی آواز اونچی نہیں تھی لیکن اس میں سختی ضرور تھی۔ "تمہارے باپ نے نہیں بتایا تھا تمہیں کہ جویریہ سلطان آئی تھی ان کے آفس۔۔"رک کر چہرے کو تھوڑا اس کے قریب کیا اور باری باری اس کی دونوں آنکھوں میں نفرت سے دیکھنے لگی۔۔"کبیر کی منگیتر بن کر۔۔" ہونٹ دائیں طرف مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور انابیہ بلکل چپ سی پیشانی پر ڈھیروں بل لیے اسے دیکھ رہی تھی۔

“میری تو شروع دن سے تم پر نظر تھی۔ ایک ایک دن کی خبر رکھتی تھی میں۔۔ جانتی ہو میں نے اور کیا کیا کہا تھا تمہارے بابا سے؟؟" انابیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کی جان ہی لے لے۔ وہ بس لب بھینچے اسے دیکھے گئ۔۔ “پکچرز دکھائی تھیں میں نے تمہاری اور کبیر کی۔ اوریجنل پکچرز بغیر کسی ایڈیٹنگ کے۔۔ کیونکہ جتنا میں نے تمہارے بابا کے بارے میں جانا تھا نا ایک تصویر میں اپنی بیٹی کو کسی لڑکے کے ساتھ کھڑا دیکھنا ہی ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔۔"

“بکواس مت کرو۔۔ میرے باپ کے بارے میں زبان احتیاط سے چلانا ورنہ کاٹ کر پھینک دوں گی۔۔" وہ دبی دبی غرائ تھی۔ اسے بہت افسوس ہو رہا تھا ملاقات کے لیے ایک کیفے کا انتخاب کرنے پر جہاں وہ اس پر چلا نہیں سکتی تھی ایک تھپڑ نہیں مار سکتی تھی۔۔

“تم تو ابھی سے آگ بگولہ ہو گئ۔۔ آگے بھی تو سنو۔۔" وہ استہزائیہ ہنستے ہوئے پیچھے ہوئی۔ "میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی بیٹی تو کردار کی اتنی گری ہوئی ہے کہ کسی کے منگیتر سے چکر چلا رہی ہے۔۔ چچ چچ چچ۔۔ افف ان کو اتنا غصہ آیا تھا مجھے تو لگا تمہیں جان سے مار دیں گے۔۔" وہ طنزیہ انداز سے سر جھٹکتے ہوئے تیر انابیہ کے دل کے آر پار کر گئی۔ وہ خود پر بہت ضبط کیے ہوئے بیٹھی تھی کم از کم اگلی دفعہ وہ کسی کیفے کا انتخاب نہیں کرے گی۔۔”سب قصور تمہارا ہی تو تھا کیوں لی تم نے میری جگہ کیوں قابض ہوئی اس دل پر جس پر صرف میرا حق تھا۔۔"

اس بار انابیہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔ اتنا کہ ہنستے ہنستے وہ سر جھکا گئی۔ جویریہ کو آگ لگ رہی تھی۔

“تمہاری جگہ؟؟" وہ پھر ہنسی۔۔ "جس دل کی تم بات کر رہی ہو وہ دل میرے نام پر دھڑکتا ہے۔ کل بھی آج بھی اور آئندہ بھی اس پر صرف میری حکمرانی ہے میرا قبضہ ہے۔۔" کیا مان تھا!! کیا حق جتانے کا انداز تھا!! جویریہ کاٹدار نظروں سے اسے دیکھے گئی۔ "وہ دل میرے لیے بنا تھا اس پر مجھے ہی قابض ہونا تھا۔ تمہارے نام کا تو پہلا حرف تک کہیں ایگزسٹ نہیں کرتا تھا۔ کبیر تو کبھی تمہارا تھا ہی نہیں۔۔"

“بھولو مت۔۔وہ میں ہی تھی جس نے تم دونوں کو جدا کیا تھا۔" فخریہ انداز سے اس نے یاد کرایا۔

“ہاں کیا تھا لیکن کیا اس دل سے میری بادشاہت ختم کرنے میں تم کامیاب ہوئی؟ کیا اس دل پر سے میرا نام مٹانے میں کامیاب ہوئی؟" وہ اسے سچائی کا آئینہ دکھا کر تپا رہی تھی اور وہ تپ رہی تھی۔اس کا دل جل رہا تھا۔ جھولی میں دھرے ہاتھوں سے اس نے اپنی قمیض کے دامن کو جکڑ لیا۔۔ اس کے برعکس انابیہ فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اس کی جلن کو محسوس کر رہی تھی۔

“مانتی ہوں میرا طریقہ غلط تھا بلکہ بہت سادہ تھا مجھے قصہ تمام کر ہی دینا چاہیے تھا لیکن لو انابیہ میں اپنا ادھورا کام پورا کرنے آگئ ہوں۔ اس بار کبیر اگر میرا نہ ہوا تو تمہارا بھی نہیں ہوگا۔۔" اس کی سیاہ آنکھوں میں انابیہ کے لیے چیلنج تھا۔

“میں مطمئن ہوں کیونکہ کبیر میرا تھا میرا ہے اور میرا رہے گا جو کرنا ہے کر لو لیکن ایک بات بتا دوں کہ میں وہ ہار مان جانے والی انابیہ نہیں رہی مجھے تم جیسے پتھروں کو ٹھوکر مار کر اپنے راستے سے ہٹانا آگیا ہے۔ رہی بات محبت کی تو اس بار تمہیں تو میں کسی قیمت پر نہیں جیتنے دوں گی۔۔" اطمنانیت اور پرسکون انداز سے کہتی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بیگ اٹھایا اور تھوڑا اس کی طرف جھکی۔۔

"میرے دشمن بہت ہیں ایک میں اضافہ ہو بھی جائے تو فرق نہیں پڑتا۔۔ ویلکم یور نیم ٹو مائ اینیمیز لسٹ۔۔" پر اعتماد مسکراہٹ سے کہتے ہی وہ وہاں سے چلی گئ۔ اس کے جاتے ہی جویریہ نے کہنیاں ٹیبل پر ٹکائیں اور ہتھیلیوں پر سر گرا گئ۔ اسے چلانا تھا اپنی بھڑاس نکالنی تھی لیکن خود پر ضبط کرتی وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔

●●●●●●●●●●●●●●

آج کالج سے آتے ہی وہ سو گئی تھی اور اب شام ہونے سے پہلے ہی اٹھ بھی گئ تھی۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے اسے شہناز بریکنگ نیوز دے کر گئ تھی کہ آج انابیہ جلدی گھر آگئ ہے اسی لیے بنا دیر کیے وہ تیزی سے کمرے سے نکلی اور بھاگتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگتے وہ لونگ روم جا پہنچی۔۔

“آپی!!" اپنی پھولتی سانسوں کے درمیان وہ دروازے میں کھڑی یہی بول سکی۔ انابیہ جو صوفے کی پشت پر سر گرائے ہوئے تھی ردا کی آواز پر چونک کر اٹھی۔۔ "آپ نے عالیان کو تو نہیں بتایا کہ میں ان سے۔۔" آدھا جملہ وہ ضبط کر گئ یا شاید اس سے ضبط ہو گیا۔ انابیہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی لیکن پھر خود بخود سمجھ کر ابرو اٹھائے۔

“میں کیوں بتائوں گی بھلا۔۔جانتی ہوں تم کبھی بھی اس پر کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دو گی۔۔"اس کے کہتے ہی ردا فوراً سے مسکرائی۔

“میں شادی کے لیے تیار ہوں۔ آپ ان سے کہہ دیں۔ لیکن صرف نکاح۔۔ میں ظفر کو دکھانا چاہتی ہوں کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔۔"چیلنجنگ انداز سے کہتے ہی وہ واپس بھاگ گئ۔ انابیہ نے سر پھر سے گرا لیا۔ اس کی زندگی کی ولن جویریہ، اس کی بہن کی زندگی کا ولن ظفر اور ان سب کی زندگی کا ولن جہانزیب۔۔ اففف وہ سب کتنے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے۔

“اور اس عالیان کو بھی بہت شوق ہے نا مجھ جیسے عذاب سے شادی کرنے کا۔ زندگی عذاب نہ بنائی نا تو میرا نام بھی ردا نہیں۔۔"یہ جملہ اس نے سیڑھیوں پر بھاگتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا تھا۔ دونوں ہی لڑکے اسے پسند نہیں تھے کیونکہ دونوں نے ہی اس کی زندگی مشکل میں ڈال رکھی تھی۔ ایک جس سے وہ شدید نفرت کرتی تھی اور دوسرا جس سے وہ شدید محبت کرتی تھی۔

●●●●●●●●●●●●●●●●

یہ فجر کے بعد صبح صبح کا وقت تھا جب وہ لان میں کافی دیر سے ٹہل رہی تھی۔ بار بار نظریں اٹھا کر عالیان کے کمرے کی بالکونی کی طرف بھی دیکھ رہی تھی جس کا دروازہ اب بھی بند تھا۔ روز وہ اپنی بالکونی سے دیکھتی تھی تو وہ اٹھا ہوتا تھا آج جب ردا منتظر تھی تو اس نے نہیں آنا تھا۔ کوفت سے سر جھٹک کر وہ جانے ہی والی تھی تب اس نے ایک آخری دفعہ سر اٹھا کر دیکھا اور پھر یوں ہوا کہ دروازہ کھل گیا اور ردا نے اس کی ایک جھلک دیکھتے ہی واپس جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس نے تیزی سے سر واپس جھکا لیا اور پھر سے ٹہلنے لگی۔ ٹریک سوٹ میں ملبوس عالیان چلتے ہوئے ریلنگ کے قریب آ کھڑا ہوا اور تب ہی اس کی نظر نیچے لان میں ٹہلتی ردا پر پڑی۔ کل رات انابیہ اسے ردا کی رضامندی کا بتا چکی تھی۔ وہ بری طرح سے شاک ہوا تھا۔ ساری رات اسی صدمے میں سو بھی نہیں سکا تھا۔ اگر ردا کل رات جلدی نہ سو گئ ہوتی تو وہ اسی وقت اس سے کمرے میں جا کر پوچھتا لیکن خیر اب بھی موقع اچھا تھا اسی لیے وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر دوڑتا ہوا اس کے پاس چلا گیا۔ ردا نے پلٹ کر دیکھا تو اس کی نظر اس پر ٹھہری جو اسی کی طرف آرہا تھا۔ اس نے فوراً سے بھی پہلے اپنی بےترتیب ہوتی دھڑکنوں کو نارمل کیا۔ ایک تو وہ بلیک ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا اور اوپر سے ظالم کے گھنگھرالے بال بھی ماتھے پر پڑے تھے۔

"اچھی بات ہے صبح صبح واک کرنی چاہیے۔۔"وہ اس کے قریب آتے ہی بولا۔ "ویسے کیا تم روز واک کرتی ہو؟" وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ اس کے سوال پر ردا ہڑبرا سی گئ۔ وہ تو روز واک نہیں کرتی بلکہ کبھی بھی نہیں کرتی لیکن اب اسے وہ کیا جواب دے اگر وہ روز کا کہے گی تو یہ تو روز ہی لنگوروں کی طرح بالکونی پر لٹکتا رہے گا اور اگر نہ کہے گی تو ابھی یہاں چلا کاٹنے کی وجہ کیا بتائے گی؟

"روز تو نہیں کبھی کبھی جب دل کرے تو۔۔" اسے یہی بہانہ مناسب لگا تھا۔ عالیان نے سمجھ کر سر اثبات میں ہلایا۔ پھر دونوں یوںہی چلتے رہے کیونکہ خاموشی حائل ہو چکی تھی۔ بلآخر گہرا سانس بھرتے عالیان نے وہ پوچھنے کی ہمت کی جو پوچھنے کے لیے وہ آیا تھا۔

"انابیہ بتا رہی تھی کہ۔۔"وہ رک گیا اور پھر بولا۔۔ "کہ تم شادی کے لیے راضی ہو۔ مجھ سے شادی کے لیے۔۔" ایسے بول رہا تھا جیسے یقین نہیں ہو اور ابھی ردا پھر سے ارمانوں پر پانی نہ پھیر دے۔

"جی راضی ہوں ۔۔" اس کے قدم رک گئے اور دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ردا تھوڑا آگے پہنچ چکی تھی۔۔

"مگر کیوں؟تم نے تو انکار کر دیا تھانا؟" وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے بولا۔۔ خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ ردا نے رک کر اسے بھنویں سکیڑ کر دیکھا۔

"جب میں نے انکار کیا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ میں سوچ لوں۔ یاد ہے نا؟ یہ لان گواہ ہے۔۔" اس نے بازو پھیلا کر جیسے لان کی طرف متوجہ کرواتے ہوئے کہا۔۔ "اور اب جب میں نے ہاں کر دی ہے تو اب بھی آپ پوچھ رہے ہیں کیوں۔ چاہتے ہیں کیا ہیں آپ؟؟" اس نے بازو سینے پر باندھے لیے۔

"تمہیں۔۔"

"جی؟؟" ردا کو جیسے سمجھ نہ لگی۔

"تمہیں چاہتا ہوں۔۔"اب سمجھ لگنے پر اس نے سر جھٹک کر اسے دیکھا اور پھر سے چلنے لگی۔

"آ بیل مجھے مار والی بات ہو گئ یہ تو۔ میں پھر سے آپ کو وارن کر رہی ہوں خود ہی انکار کر دیں میں آپ کی زندگی عذاب بنا دوں گی۔۔" اس نے جیسے منت کرتے ہوئے کہا۔۔

"تم میری زندگی میں آئو گی تو میری زندگی عذاب بن جائے گی؟ سیریسلی؟؟" اسے ہنسی آرہی تھی۔ ردا نے ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی اور پھر سامنے دیکھنے لگی۔

"کوئی بات نہیں مجھے اپنی زندگی میں تم جیسا عذاب قبول ہے۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"مجھ سے تنگ آجائیں گے۔۔"

"مجھے تمہارا تنگ کرنا بھی قبول ہے۔۔"

"میں ساری زندگی بلاوجہ کے پنگے لیتی رہوں گی۔۔سوچ لیں۔۔" اس کا انداز پھر سے التجائیہ تھا۔۔

"مجھے تمہارے سارے پنگے قبول ہیں۔۔" اس سے پہلے ردا کچھ اور بولتی عالیان تیزی سے بولا۔۔ "بس اب کچھ مت کہنا میں تین دفعہ قبول ہے قبول ہے قبول ہے کہہ چکا ہوں۔۔ اب تمہاری باری۔۔" ردا رک گئ تو وہ بھی رک گیا۔۔

"آپ کو یہ سب مذاق لگ رہا ہے؟؟" وہ بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی۔۔ "میں کچھ نہیں بول رہی۔۔ ہونہہ۔"

"اچھا ٹھیک ہے نکاح والے دن تو بولو گی نا۔۔" وہ پوچھ نہیں رہا تھا اسے تنگ کر رہا تھا۔ ردا نے آنکھیں بند کیے گہرا سانس لیا اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر مسکرائی۔۔

"ویلکم ٹو جہنم۔۔" اسے دعوت دیتی وہ وہاں سے چلی گئی جبکہ اس کے جاتے ہی عالیان زور سے ہنسا۔ اسے تو جہنم میں بھی حور مل رہی تھی۔۔سبز آنکھوں والی خوبصورت حور!!!

●●●●●●●●●●●●●●

دو دن گزر چکے تھے اور اس حساب سے اب نکاح میں صرف پانچ دن باقی تھے کیونکہ ناصر عالم کی فرمائش تھی کہ نکاح ایک ہفتے بعد ہی ہوگا اور اس خبر نے سب میں ہی افراتفری ڈال دی تھی۔ سب سے برا تو مناہل احمد عالم کے ساتھ ہوا تھا کیونکہ نکاح کے اگلے دن ہی اس کے فائنل ایگزامز شروع تھے لیکن بجائے ابھی سے تیاری کرنے کہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ بس اسی لیے وہ صبح صبح ہی لان میں کتابیں لیے بیٹھ گئ۔ بالوں کی اونچی بنائے ایک کرسی میں بیٹھے وہ سامنے میز پر رکھی کتاب میں کھوئی ہوئی تھی دفعتاً پڑھتے پڑھتے اس نے سر اٹھایا تو اس کی نظر گیٹ پر کھڑے ایک ادھیڑ عمر شخص پر ٹھہری جو حسن چچا سے کچھ کہہ رہا تھا۔ مشکوک نظروں سے دیکھتے دیکھتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

“کیا ہوا چچا کون لوگ ہیں یہ؟" اس نے فوراً قریب جا کر مشکوک نظریں اس ادھیڑ عمر شخص پر ٹکائے حسن چچا کو مخاطب کیا۔ سر پر سفید پگ، چہرے پر گھنی سفید داڑھی اور اور بڑی بڑی گھنی سفید مونچھوں والا شخص کچھ عجیب ہی ترسی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس شخص کے ٹھیک پیچھے سفید پگڑی میں ہی ایک شخص اور بھی کھڑا تھا جو شکل سے عرصے کا بیمار لگ رہا تھا یوں جیسے کوئی اسے وینٹی لیٹر سے اٹھا لایا ہو۔

“کوئی صاحب ہے حیدرآباد سے خاص بڑے صاحب سے ملنے آئے ہیں ۔" چچا کو جتنا بتایا گیا تھا ہو بہو انہوں نے مناہل کو بتا دیا۔ مناہل نے سر اثبات میں ہلاکر پھر اس شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں اسے دیکھ دیکھ کر اب نم ہونے لگی تھیں۔

“چچا تو عمر کا ہی لحاظ کر لیں۔ کب سے کھڑے ہیں وہ۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے فکریہ انداز میں بولی۔ اب تو اس شخص کو پکا یقین ہو گیا تھا کہ وہ ناصر یا احمد میں سے ہی کسی کی بیٹی ہے کیونکہ ایسی تربیت ناہیدہ اور راحیلہ کے علاوہ اور کر ہی کون سکتا تھا۔

“آپ اپنا نام بتائیں میں چچا جان سے آپ کی ملاقات کر وا دیتی ہوں۔۔" اس نے خوش اسلوبی سے پوچھا۔ وہ شخص پہلے تو کچھ بول ہی نہ سکا شاید گلے میں کچھ اٹک گیا تھا۔۔ ندامت کا کانٹا۔

“عالم خان۔۔"وہ بمشکل بولے۔

“چچا آپ ان کو اندر لے کر آئیں میں۔۔"وہ جو حکم کر کے ابھی پلٹی ہی تھی برف کی ہو گئی۔ کیا اسے نام سننے میں غلطی ہوئی تھی۔ اسکی رنگت یکدم سفید پڑ گئی تھی۔ بمشکل اس نے پلٹ کر اس شخص کی آنکھوں میں دیکھا جس کی آنکھیں اب پہلے سے زیادہ نم تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے وہ وہ پھر پلٹ کر بھاری قدموں سے آگے بڑھ گئ۔

ناصر صاحب اور انابیہ اس وقت ساتھ ہی لونگ روم میں بیٹھے تھے۔ وہ دو دنوں سے آفس نہیں گئ تھی بس اسی حوالے سے ناصر اسے سمجھا رہے تھے تبھی دونوں کی نظر اندر آتی مناہل پر رکی جس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھی۔

“کیا ہوا ہے منو کوئی بھوت دیکھ لیا ہے؟؟" انابیہ نے اس کی یہ حالت دیکھتے ہی پوچھا۔

“وہ۔۔ وہ۔۔ آپی وہ۔۔" وہ کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی۔ انابیہ اور ناصر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ تبھی دونوں کی نظریں اس سے ہٹ کر لونگ روم میں داخل ہوتے شخص پر ٹھہری۔ انابیہ کے لیے تو وہ چہرہ بلکل نیا تھا لیکن ناصر عالم اس چہرے کو دیکھتے ہی جیسے صدمے میں چلے گئے تھے۔ ناجانے کتنے سالوں بعد وہ اپنے باپ کو دیکھ رہے تھے اب تو گنتی بھی انہیں بھول گئ تھی۔

“بابا سائیں۔۔" ان کو اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جبکہ ان کی آواز پر انابیہ بری طرح چونک کر ان کی طرف گھومی جو بنا پلکے جھپکے دروازے میں کھڑے شخص کو دیکھ رہے تھے۔

لونگ روم کی سفید دیواریں تمام رازوں اور اعترافات کو خود میں جزب کر چکی تھیں۔ ایک طویل گفتگو کے بعد وہاں لفظوں کی مکمل خاموشی تھی لیکن عالم خان کی سسکیوں کی آواز اب بھی تھی جو صوفے کی ایک طرف بیٹھے چہرہ جھکائے مسلسل رو رہے تھے۔ مرکزی صوفے پر انابیہ رنجیدہ سی اور عالیان خود پر ضبط کیے بیٹھا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس شخص کو ابھی کے ابھی گھر سے باہر نکال دے۔ اس کے بلکل ساتھ ہی ناصر صاحب کی ویل چئیر تھی اور ان کے پیروں کے قریب ہی سرخ آنسوئوں سے بھری آنکھیں لیے شالا کارپٹ پر بیٹھا تھا۔ بائیں طرف والے صوفے پر ردا اور مناہل بیٹھی تھیں۔ عالم خان کے آنے کی بریکنگ نیوز منو نے ردا اور عالیان کو ان کے اپنے اپنے کمروں جا کر دی تھی۔

“وقت نے مجھ پر ظلم کیا ہے جو مجھے جہانزیب کا اصلی بھیانک چہرہ اتنی دیر سے دکھایا کہ میں اب سوائے رونے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتا۔۔" انہوں نے روتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظ ادا کیے۔ ناصر بلکل خاموش تھے ان کے پاس بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ سامنے بیٹھا شخص بھی ان کا باپ تھا جو خود ندامت کے گرد چکر لگا رہا تھا وہ انہیں بھی کیا کہہ سکتے تھے۔۔

“شالا تم بیمار ہو اٹھ جائو یہاں سے۔" انہوں نے جھک کر شالا کو کندھوں سے تھامتے ہوئے کہا۔

“نہیں چھوٹے سائیں مجھے کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے رہنے دیں کیا پتہ آپ کے پیروں میں بیٹھے بیٹھے ہی مجھے موت آجائے۔۔" اس کا انداز التجائیہ تھا۔

“مت بولو ایسے۔۔ موت آسان نہیں ہوتی میں نے بہت قریب سے دیکھی ہے۔۔" ان کا لہجہ سخت مغموم تھا۔ شالا پھر بھی نہیں اٹھا وہ ویسے ہی بیٹھا رہا۔

“ناجانے ایسا کون سا جادو کر دیا تھا جہانزیب نے مجھ پر جو میں صرف اس کی سنتا رہا۔ عقل سے پیدل ہو گیا تھا میں۔۔" عالم خان نے افسوس سے گلوگیر آواز میں کہا۔

“صرف عقل سے پیدل نہیں آپ اندھے گونگے بہرے سب ہوگئے تھے۔۔" اتنی سرد مہری سے وہاں بیٹھا ایک شخص ہی بول سکتا تھا۔ عالیان ناصر عالم جو کب سے اپنے لفظوں کو روک کر بیٹھا ہوا تھا۔ عالم صاحب نے تڑپ کر نظریں اٹھا کر اپنے پوتے کو دیکھا۔

“عالیان پلیز۔۔"انابیہ نے فوراً اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے آنکھوں دکھائیں۔

“کیا پلیز انابیہ۔۔ یہ یہاں اب کیوں آئے ہیں؟ ان کے معافی مانگنے سے کیا ہو جائے گا میری ماں واپس آجائے گی؟؟ تمہارے ماں باپ واپس آجائیں گے؟؟"سختی سے کہتے اس نے اپنی نفرت بھری نظریں عالم خان کی طرف اٹھائیں۔۔"کیوں جہانزیب کی ہر بات ان کے لیے سچی اور آخری بات ہوتی تھی؟ کیوں انہوں نے اپنے باقی دونوں بیٹوں پر صرف اس کو فوقیت دی؟ کیوں اولاد میں توازن نہ رکھ سکے؟ صرف جہانزیب کی جھولی میں دنیا کی ساری محبت دولت عزت رکھ دی؟ کیوں یہاں بیٹھا ہر شخص ان کو سن رہا ہے کوئی ان سے پوچھتا کیوں نہیں ہے؟؟" اس کی آواز بہت اونچی تھی اور وہ ہر تمیز بالائے تاق رکھے سب سے مخاطب تھا۔ عالم خان نے سر پھر سے گرا دیا کیونکہ ان کا پوتا انہیں سچائی کا آئینہ دکھا رہا تھا جو ان سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔۔

“میری بات سنیں عالم صاحب۔۔ اولاد میں برابری نہ رکھنا ایک ناکام باپ کی نشانی ہوتی ہے۔ نہ آپ اس شیطان کو اتنی ڈھیل دیتے اور نہ یہ سب ہوتا۔ لیکن خیر۔۔"وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ "ہمیں جب آپکی ضرورت تھی تب آپ آنکھوں پر پٹی باندھے بیٹھے تھے اور اب ہمیں آپ کی ضرورت بلکل بھی نہیں ہے۔ میں آپ سب کی موجودگی میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر جہانزیب اور اس کی اولاد کا انجام میں نے اپنے ہاتھوں سے نہ لکھا تو میرا نام بھی عالیان ناصر نہیں۔۔"

“تمہیں بھلے میری ضرورت نہ ہو بچے لیکن میں اس کا انجام لکھنے میں تم لوگوں کی مدد ضرور کروں گا۔۔" انہوں نے دبی دبی آواز میں کہا۔عالیان نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا تھا اب مزید کچھ بھی کہے بنا ہی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا لونگ روم سے نکل گیا۔

“اس کی باتوں کا برا مت مانیے گا بابا سائیں۔۔" ناصر نے اس کے جاتے ہی عالم صاحب سے کہا۔

“میں اس کی دلیری سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ وہ تمہارا بیٹا کم احمد کا بیٹا زیادہ لگتا ہے۔۔" وہ زخمی انداز سے مسکراتے ہوئے بولے۔۔ "میں تم لوگوں کا بھرپور ساتھ دوں گا مگر ان سب میں جہانزیب کی بیٹی مسکان کو مت گھسیٹنا وہ بہت صاف دل ہے بہت اچھی ہے بلکل تمہاری ان بچیوں کی طرح۔۔" انہوں نے التجائیہ انداز میں کہتے ہوئے باری باری انابیہ ردا اور مناہل کو دیکھا۔ انابیہ پیشانی مسلتے ہوئے آنکھیں بند کر گئی۔ ردا اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی اور باقی سب ویسے ہی بیٹھے رہے۔

●●●●●●●●●●●●●●

"یعنی عالم خان کے سامنے سارے راز کھل گئے ہیں۔۔"کبیر ڈرائیو کرتے ہوئے بولا۔ اس کی سنجیدہ نظریں سامنے سڑک پر تھیں۔ عالیان اس کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ونڈ اسکرین سے باہر ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا۔

“"اب کیا فائدہ۔۔" اس نے افسوس سے سر جھٹکا۔ وہ اسے آج صبح ہونے واقعے کے بارے میں سب کچھ بتا چکا تھا۔کچھ ہی دیر میں کبیر نے گاڑی روک دی۔ دونوں اپنی اپنی طرف کا دروازہ کھولتے باہر نکلے۔

"تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟" کبیر گیٹ کی طرف بڑھ گیا تھا جب عالیان نے اس کے پیچھے آتے ہوئے پوچھا۔

"کچھ دکھانا ہے تمہیں۔۔" وہ لاک کھولتے ہوئے مصروف انداز میں بولا۔

"آج چاچا نظر نہیں آرہے؟؟" ہمیشہ گیٹ چاچا کھولتے تھے آج لاک دیکھ کر وہ تھوڑا حیران ہوا تھا۔۔

"جب میں اور فرہاد کسی کو اٹھا کر لاتے ہیں تو چاچا کو کچھ دنوں کے لیے فارغ کر دیتے ہیں۔۔" اپنے سوال کے جواب پر عالیان سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ گیٹ کھل چکا تھا اور وہ دونوں اب اندر آگئے تھے۔

"تم میری بات کر رہے ہو؟" بجائے گھر کے داخلی دروازے کے اس کے قدموں کا رخ دائیں طرف تنگ راہداری پر تھاعالیان بس اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

"افف عالیان تم اپنے پیروں پر چل کر آئے ہو میں نے کہا ہم جسے اٹھا کر لاتے ہیں یعنی کدنیپ۔" وہ اب لوہے کے بنے دروازے کا تالا کھول رہا تھا۔ اب جا کے عالیان کو سمجھ آئی تھی لیکن زہن میں اب بھی ایک سوال تھا وہ یہ کہ ایسا کون تھا جسے یہ لوگ کدنیپ کر لائے تھے؟

گیٹ کھلتے ہی نیچے کی طرف سیڑھیاں جاتی تھیں۔ وہ ایک بیسمینٹ تھا اور یہاں عالیان پہلی دفعہ آیا تھا۔ سیڑھیوں کے اختتام پر ہی سامنے ایک سفید روشن ہال نما کمرہ تھا اور اس کے سفید چمکتے ہوئے فرش کے عین درمیان میں کرسی سے ایک وجود بندھا پڑا تھا جو غالباً نیند کی وادیوں میں تھا۔

"کتنے اچھے کدنیپر ہو تم دونوں۔۔ بندے کو روشن کمرے میں لا کر باندھ دیتے ہو ایون کہ اس کے لیے روشن دان بھی کھلا چھوڑتے ہو۔۔ امپریسو۔۔" ایسا اس نے اس روشن کمرے اور اپنے پیچھے کھلے دونوں راشن دانوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔"ویسے یہ ہے کون؟؟" اس وجود پر مشکوک نظریں ٹکائے اس نے کبیر سے پوچھا جو اس کے پیچھے تھا جبکہ عالیان اس کرسی سے بندھے وجود کے بلکل پاس کھڑا تھا۔

"ظفر کا پرسنل باڈی گارڈ۔۔" اس قدر حیران کن جواب ملنے پر وہ بجلی کی تیزی سے اس کی طرف گھوما اور حیرت سے اسے دیکھے گیا۔

"نہیں یار؟؟" اسے جیسے اب بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔

"یہ فرہاد بڑا تیز ہے اس کے گارڈ کا پیچھا کیا۔ اس پر حملہ کیا تھوڑی بہت دھلائی کی اور اٹھا کر ادھر لے آیا۔" وہ ہنستے ہوئے دات دینے کے انداز میں کہہ رہا تھا۔

"یہ سب کب کیا اس نے اور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟"

"وہ سب کر کے بتاتا ہے یہ اس کی عادت ہے مجھے بھی کل ہی فون پر سب بتایا ہے جانتے ہو وہ کہاں ہے؟؟" کبیر نے لب دائیں طرف پھیلاتے ہوئے اس کے حیرت کی زد میں آئے چہرے کو دیکھا۔

"ظفر کا پرسنل باڈی گارڈ بنا گھوم رہا ہے ہینا؟؟" عالیان نے اندازہ لگایا۔

"ایگزیکٹلی۔۔۔"

"او مائی گارڈ۔۔" اس نے سر پر ہاتھ رکھے خوشگوار حیرت کے باعث گہرا سانس بھرا اور اگلے ہی لمحے ہنس دیا۔

●●●●●●●●●●●●●●

دو دن پہلے:

"یار تم نے تو ایجنسی آنا ہی چھوڑ دیا۔۔" سربراہی نشست پر بیٹھا اس کا باس اس سے گلا کر رہا تھا جو بڑے ہی اطمینان سے سامنے چئیر پر بیٹھا ہاتھ میں پکڑے چمکتے ہوئے گول پیپر ویٹ سے کھیل رہا تھا۔

"آج آگیا ہوں نا سر۔۔" سامنے گلاس ونڈو سے آتی سورج کی روشنی میں اس کی سرمئ آنکھیں ہلکے رنگ کی ہو کر چمک رہی تھیں۔

"جاب کیسی چل رہی ہے تمہاری؟"

"جاب سے تو نکال دیا گیا ہے۔۔" اس نے افسوس سے گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا اس کا باس اس بات پر بری طرح چونکا تھا۔

"مگر جہانگیر صاحب نے تو مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں دی سچ بتائو فرہاد کیا کیا ہے تم نے جو یہ وجہ پیش آئی؟"اس بار باس کے لہجے میں تھوڑی سختی تھی۔

"سر میں نے کچھ نہیں کیا بس انابیہ میم نے ہی کہا کہ ان کو گارڈ کی ضرورت نہیں ہے سو انہوں نے مجھے فائر کر دیا۔۔" کندھے اچکا کر بولتے ہوئےاس نے پیپر ویٹ روشنی کے سامنے کر کے دیکھا جس پر پڑتا سورج کا عکس اسے مزید چمکا رہا تھا۔باس نے تاسف سے سر جھٹکا۔

"وہ جاب تمہارے لیے بہت ضروری تھی خیر میں بندوبست کروا دوں گا کہیں اور تم پریشان مت ہونا۔۔" انہوں نے جھک کر میز کے دراز کھول کر کچھ پیپرز نکال کر اپنے سامنے رکھے۔

"سر سمجھے بندوبست ہو گیا ہے آپ کو بس ایک کال کرنی ہے۔۔" باس نے اس بات پر سر اٹھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا جس کی نظریں اب بھی اس گول پیپر ویٹ پر جمی تھیں ۔۔"جہانزیب عالم خان کے بیٹے ظفر جہانزیب کے پرسنل باڈی گارڈ کو کوئی اٹھا کر لے گیا ہے اور یہ آج صبح صبح ہی کی بات ہے۔۔" اس خبر پر باس کے لب حیرت کے باعث گول ہوئے۔

"اوہ۔۔ لیکن تمہیں یہ کس نے بتایا؟"

"گارڈ ہوں اور گارڈز سے جڑی خبریں مل ہی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ کسی اور گارڈ کا بندوبست کریں آپ ان کو میرا نام پیش کر دیں۔۔ کراچی میں ہماری ایجنسی کا ایک بڑا نام ہے اور آپ سے جان پہچان بھی ہے اس کی وہ فوراً حامی بھر لے گا۔۔" باس نے ایک ایک بات پر غور کیا اور سمجھ کر سر ہلایا۔

"تم بےفکر رہو۔۔ میں جتنا جلدی ہو سکے بات کرتا ہوں۔۔" انہوں نے تسلی آمیز انداز میں کہا تو فرہاد پیپر ویٹ ٹیبل پر رکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔

"کوشش کیجئے گا سر مجھے جاب کی بہت ضرورت ہے۔ اب اجازت دیں چلتا ہوں۔۔"

"تم بےفکر ہوکر جائو۔۔" فرہاد خوش دلی سے مسکرایا اور دروازے کی طرف پلٹا لیکن جاتے وقت اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے وہ سیٹی بجاتے بجاتے آفس سے نکل گیا۔

شام میں ہی اسے اس کے باس کی کال آگئی تھی کہ انہوں نے اس کا کام کر دیا ہے۔ یہ خبر سب سے پہلے اس نے کبیر کو دی اور تیاری کر کے ظفر جہانزیب کی کراچی والی حویلی میں پہنچ آیا۔ اب وہ اس کی حویلی کے عالیشان لائونج میں کھڑا تھا جہاں شاہی طرز کا مہرون رنگ کا فرینچر چھت پر لگے قطار در قطار جھومر جن کی سنہری روشنی چمکتے ہوئے فرش پر سنہرا عکس ڈال رہی تھی۔ سامنے ہی وسیع سیڑھیاں تھیں جس کے درمیان پر سرخ کارپٹ ان سیڑھیوں کی شایان شان میں اضافہ کر رہی تھی۔ سیڑھیوں کے عین اختتام میں دائیں اور بائیں طرف دو شیروں کے مجسمے سے بنے تھے۔حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ اکیلا صرف گارڈز اور نوکروں کے ساتھ اس اتنی بڑی حویلی میں رہتا تھا وہ بھی صرف کراچی میں پڑھنے کے لیے۔

کچھ ہی دیر کے انتظار کے بعد اسے ظفر جہانزیب سیڑھیوں سے اترتا ہوا دکھائی دیا جو ہاف وائٹ قمیض شلوار پہنے بلکل فریش دکھائی دے رہا تھا۔

“ویلکم فرہاد میر۔۔"وہ اس کے قریب آتے ہی خوشگوار آواز میں بولا۔ "تمہیں تمہارے باس نے تو سب بتا دیا ہوگا۔۔" اس نے بنا ادھر ادھر کی بات کیے مدعے کی بات کی۔

“یس سر۔۔"فرہاد نے تابعداری سے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔

“گڈ۔۔ میں پھر بھی تمہیں سب پھر سے بتا دیتا ہوں۔۔" وہ اطمینان سے کمر پر دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔۔ "جیسے کہ تم نے یہاں پر دیکھا ہوگا میرے پاس گارڈز کی کمی نہیں ہے لیکن یہ سب میرے باپ کے پالتو کتے ہیں میری ایک ایک خبر میرے باپ تک پہنچا دیتے ہیں اور میں ٹھہرا ال لیگل بندہ۔۔" اس نے فخریہ انداز سے کندھے اچکائے۔۔"بہت سے ایسے کام کرتا ہوں جن کی خبر میرے باپ کو نہیں لگنے دیتا۔۔ "فرہاد غور سے اسے سن رہا تھا۔۔"اسی لیے میرے پوشیدہ کاموں کے لیے مجھے ایک پرسنل باڈی گارڈ کی ضرورت ہوتی ہے جو میرا وفادار بن کر رہے ان جگہوں میں میرے ساتھ جائے جن کی خبر میرے علاوہ کسی کو نہیں ہوتی۔۔ میرا گارڈ بہت وفادار تھا میں اسے بھی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں تب تک تم میرے ساتھ رہو گے۔۔ گوٹ اٹ؟؟"

“آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی سر۔ میں لمبی باتیں نہیں کرتا بس اتنا کہوں گا میں آپ کا وفادار رہوں گا۔۔" ظفر نے دات دینے کے انداز میں سر تا پیر اس چوڑی جسامت والے گارڈ کو دیکھا۔ شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ وہ ایک بہت ہی زبردست ایجنسی کا سب سے وفادار گارڈ تھا۔

اگلی ہی صبح فجر کے وقت وہ ظفر کے ساتھ ایک ویران سی جگہ پر آیا تھا۔ وہ سمندر کی پچھلی طرف لگتی ایک سنسان جگہ تھی جہاں بڑے بڑے پرانے تین چار کنٹینرز تھے۔ فرہاد گاڑی کے پاس ہی کھڑا تھا اس سے آگے آنے کی اسے اجازت نہیں تھی جبکہ ظفر تھوڑا دور مسلسل کلائی میں پہنی گھڑی کو دیکھتے ہوئے کسی کا منتظر کھڑا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایک بڑی وین اس کی گاڑی کے ساتھ سے ہوتی سیدھا ظفر کے پاس گئ۔ دور سے ہی وہ ظفر کے چہرے پر خوشی دیکھ سکتا تھا۔ وین کا دروازہ کھلا اور دو آدمی اس میں سے باہر نکلے۔ دونوں باری باری اس سے گلے مل رہے تھے۔ ان کا حلیہ بلکل دہشت گردوں والا تھا۔ کندھوں سے نیچے آتے لمبے لمبے بال لمبی لمبی دھاڑی اور کھلے کھلے کپڑے دیکھتے ہی فرہاد کو کچھ مشکوک سا محسوس ہوا۔ اب وہ دونوں بڑے بڑے بیگ نکال کر ظفر کو دکھا رہے تھے۔ بیگز کا منہ کھول کر ظفر اندر پڑی شے کو دیکھتے ہی بڑا خوش ہوا تھا۔ آخر کیا تھا ان بیگز میں؟ اتنی دور سے ان کی آواز سننا بھی فرہاد کے لیے مشکل تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کوئی چیز ظفر کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گری۔ اسے دیکھتے ہی فرہاد کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ظفر نے بجلی کی تیزی سے وہ سفید سفوف سے بھرا پیکٹ اٹھایا اور بیگ کے اندر ٹھونس دیا۔ فرہاد ہکا بکا رہ گیا تھا۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا یہ ظفر جہانزیب ایک ڈرگ اسمگلر نکلے گا۔ یعنی وہ پورے شہر میں یہ ڈرگ اسمگل کرتا ہے اور بچوں اور جوانوں کو نشے کا عادی بناتا ہے۔ اگلے ہی لمحے اس نے بیگز واپس گاڑی کے اندر رکھوا دیے۔ اب ان میں سے ایک آدمی نے ایک چھوٹا بیگ اسے تھمایا۔ یقیناً وہ اس نے اپنے استعمال کے لیے لیے تھے۔ دونوں کے کندھوں پر تھپکی دینے کے بعد اس نے بیگ پکڑا اور بڑے ہی اطمینان سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھا۔ آتے ہوئے اس نے بغور فرہاد کا چہرہ دیکھا تھا جو بلکل نارمل دکھائی دے رہا تھا جیسے اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہوا ہوگا جبکہ وہ شاید نہیں جانتا تھا کہ فرہاد میر چیل جیسی نظر کا مالک تھا۔۔

●●●●●●●●●●●●

موجودہ وقت:

رات ہو گئ تھی اور وہ آفس میں بس سب وائینڈ اپ کر کے گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ دفعتاً اس کا فون تھرتھرایا بس ایک لمحے کے لیے۔ لیپ ٹاپ بند کر کے اس نے میسج چیک کرنے کی غرض سے ٹیبل پر پڑا فون اٹھا کر اس کی اسکرین روشن کی۔

“تمہارا کراچی بہت خوبصورت ہے اور اس سے بھی زیادہ خوبصورت اس سیاہ آسمان کے تلے اس کا وسیع سمندر ہے اور یہ منظر اور بھی حسین ہو جائے اگر تم اسے اپنا دیدار بخش دو ۔ تمہاری منتظر سی کھڑی ہوں اگر آجائو تو تمہارا مجھ پر بہت بڑا احسان ہوگا۔۔" مسکان کے الفاظ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں اسے بلکل اندازہ نہیں تھا وہ اس کے لیے کراچی آجائے گی۔ وہ بجلی کی تیزی سے اٹھا اور آفس سے نکل گیا۔

●●●●●●●●●●●●●●●

سرخ رنگ کا پیروں تک آتا فراک، سینے پر پھیلایا ہوا دوپٹہ اور اس کے کھلے بال اس سیاہ رات کی ہوا کے ساتھ رقص کرتے معلوم ہو رہے تھے۔ بازو ہوا میں پھیلائے آنکھیں بند کیے وہ سر کو تھوڑا اوپر اٹھائے صرف لہروں کے شور کو محسوس کررہی تھی۔ وہ لہریں جن کا شور اس کے دل کی بےقابو ہوتی دھڑکنوں کے شور سے ہار رہا تھا ۔کہتے ہیں سرخ رنگ محبت کی علامت ہوتا ہے اور آج محبت کا دن تھا اس کے اعلان کا دن تھا۔۔ آج مسکان کا دن تھا۔ تبھی اس نے آنکھیں کھول دیں۔

“حوصلہ رکھو حوصلہ رکھو۔۔ آرہا ہے وہ۔۔" اس نے لہروں کو مخاطب کیا۔۔" میں جانتی ہوں تم بھی بےتاب ہو میرے اس دل کی طرح۔۔ کیا کریں وہ ہے ہی ایسا کہ اس سے محبت کرنا سب پر فرض ہو جاتی ہے۔بس کچھ وقت اور پھر وہ ہمارے سامنے ہوگا۔" وہ بلند آواز میں ہنستے ہوئےلہروں سے باتیں کر رہی تھیں۔ وہ لہریں بھی اسے جواب دے تو رہی تھیں اپنی آواز میں اپنی زبان میں۔۔ اس نے اپنے ہونٹوں کے گرد دونوں ہاتھ رکھے اور بلند آواز میں بولی۔۔ "تم گواہ رہنا۔ آج میں اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دوں گی۔ آج میں محبت کا اعلان کر دوں گی۔ بس تم گواہ رہنا۔۔" اور بس پھر وہ ہنسنے لگی اتنا زیادہ کہ ہنس ہنس کے اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے تھے۔ سمندر کی لہریں خود کو گواہ بنانے کے لیے راضی کر چکی تھیں۔

ایک گاڑی کے رکنے کی آواز پر مسکان کی ہنسی رک گئ۔ اس نے فوراً دل پر ہاتھ رکھا جو اتنا تیز دھڑک رہا تھا کہ سینا چیر کے نکل جانے کا ارادہ تھا۔ خود کو پرسکون کرنے والا ایک گہرا سانس بھر کے اس نے اپنی گردن گھمائی۔ سیاہ گاڑی کا دروازہ کھولتے وہ باہر نکلا تھا۔ مسکان کا سانس رک گیا۔ آج وہ بائیک پر نہیں تھا اور آج وہ مختلف دکھائی کیوں دے رہا تھا؟ سیاہ رنگ کی شرٹ کے اوپر مہرون رنگ کا بلیزر اور سیاہ پینٹ اسے ایک مکمل اور کامیاب بزنس مین دکھا رہا تھا۔

“حیدرآباد جاب کے سلسلے میں آیا تھا۔۔" اس کے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے۔ وہ قریب آرہا تھا اور وہ بس دم سادھے اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اور پھر وہ قریب آگیا مسکان سب بھول گئ یاد تھا تو بس یہی کہ وہ اس کے سامنے تھا۔ پیچھے لہریں مچل مچل کر پاگل ہو رہی تھیں اور ادھر مسکان کا دل۔۔

“مجھے یقین تھا تم آئو گے۔۔" اتنی دیر میں اس نے ایک دفعہ بھی پلکیں نہیں جھپکی تھیں اور کبیر نے صرف یہی نوٹس کیا تھا۔ وہ اس کے یہاں آنے کی وجہ جانتا تھا اور اس کی ترسی نظریں دلفریب مسکراہٹ اور سرخ جوڑا اس وجہ پر مہر لگا گیا تھا۔

“آج نہ آتے تو میں مر جاتی۔۔" کبیر کا چہرہ اب بھی سنجیدہ تھا۔ مسکان کے لیے اس چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے۔ "مجھے تم سے آج بہت کچھ کہنا ہے فرہاد۔۔"

“کبیر۔۔"اس نے تیزی سے کہا۔۔ "کبیر جہانگیر نام ہے میرا۔۔"مسکان گنگ رہ گئ اور اگلے ہی لمحے زور سے ہنس دی۔

“میں محبت کی بات کرنے آئی ہوں اور تم مذاق کے موڈ میں ہو۔۔" خود کی ہنسی کو قابو میں کرتے ہوئے وہ یہی بولی۔ ہوا کے جھونکے سے اس کے بال گال پر آ گرے۔" مجھے بولنے دو۔۔ فرہاد۔ آج میرے بولنے کا دن ہے۔۔" بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے وہ جیسے تنبیہی انداز میں بولی۔

“نہیں۔۔ آج صرف میرے بولنے کا اور تمہارے سننے کا دن ہے۔۔" کبیر نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔ "آج کچھ رازوں پر سے پردے اٹھنے کا دن ہے۔ آج تمہاری بند آنکھیں کھلنے کا دن ہے۔۔" مسکان یک ٹک اس کا چہرہ دیکھے گئی۔ وہ ایسی باتیں کیوں کر رہا تھا؟

“کیسے راز؟؟" بلا آخر اس نے پوچھا۔

“میں کبیر جہانگیر ہوں۔ این-جے بلڈرز کا سی-ای-او میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔۔"لہریں خاموش ہو گئی تھیں یا شاید وہ خود یہ سب سننے کے بعد بہری ہو گئ تھی۔ بے ساختہ وہ ایک قدم پیچھے ہوئی لیکن حیرت زدہ نظریں اس کی اب بھی کبیر پر تھیں جو اتنا بڑا سچ بولنے کے بعد بھی پرسکون کھڑا تھا۔ اس کا ہر قسم کے تاثرات سے عاری چہرہ صاف ظاہر کر رہا تھا کہ وہ مذاق نہیں کر رہا۔

“کیوں کیا۔۔ تم نے ایسا؟" اس کی آواز نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ "تم جانتے تھے نا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔۔" وہ اپنے قدموں پر زور دیتی اس کے قریب ہوئی۔ "بلکہ ایک منٹ۔۔ تم نے جان کر مجھے خود سے محبت کرنے پر مجبور کیا۔۔"آنکھوں میں آنسو تھے بےیقینی تھی۔ کبیر کا چہرہ اب بھی سپا ٹ تھا۔

"تم نے میرا استعمال کیا؟؟" وہ اسی جملے سے ڈرتا تھا۔ اب صحیح معنوں میں اس کا دل لرزا تھا۔

“چپ کیوں ہو؟ بولو فرہاد اپنا صلی نام کیوں چھپایا تم نے؟" آواز رندھنے لگی تھی اور یہ کیا ہوا؟ اس کی آنکھوں سے آنسو جھلک پڑے تھے۔ وہ اب بھی اسے فرہاد کہہ رہی تھی۔

“اس کے پیچھے ایک وجہ تھی۔۔"

“وجہ؟؟"مسکان نے درشتی سے اسے گریبان سے پکڑا۔"ایسی کون سی وجہ تھی؟ قیامت آنے والی تھی؟ کوئی مرنے والا تھا؟ ہاں بولو۔۔" وہ اتنا زور سے چیخ رہی تھی کہ اس کی پیشانی پر رگیں ابھرنے لگی تھیں۔

“محبت وجہ تھی۔۔" کبیر نے اس کی کلائیوں کو پکڑا۔ "محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا میں نے جو بھی کیا۔۔" مسکان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئ حتیٰ کہ اس نے اس کا گریبان چھوڑ دیا۔ "جانتی ہو میری محبت کون ہے؟" وہ اس کی سرخ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔۔ "انابیہ احمد عالم جس کے خاندان کو تمہارے باپ نے تباہ کر دیا مسکان۔۔" اس کی آواز میں اب سختی تھی۔ مسکان پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گئ۔

“قاتل ہے تمہارا باپ۔۔ تم ایک قاتل کی بیٹی ہو۔"

“جھوٹ۔۔ جھوٹے ہو تم۔۔ میرے باپ کے بارے میں کچھ بھی غلط بولا تو میں بھول جائوں گی کہ میں نے کبھی تم سے محبت کی۔۔" انگشت شہادت اٹھا کر اس نے پھاڑ کھانے والا انداز میں کہا تو کبیر آگے سے ہنس دیا۔

“انابیہ تمہاری کزن ہے تمہارے چچا احمد عالم کی بیٹی اس لحاظ سے جہانزیب نے تمہارے خاندان کو بھی تباہ کیا ہے۔ ناہیدہ راحیلہ احمد جانتی تو نا ان سب کو کہ نہیں؟؟ وہ چیخ پڑا جبکہ مسکان سن رہ گئ۔ اسے لگا اس کے جسم میں حرکت باقی نہیں رہی۔ وہ سب کو جانتی تھی اس نے سب کے نام اپنے دادا احمد عالم سے سن رکھے تھے۔ راحیلہ اور ناہیدہ کا نام تو وہ سن سن کر بڑی ہوئی تھی۔۔

“جھوٹے ہو تم۔۔" وہ لڑکھڑا کر زمین پر گر گئ۔ اس کا جسم خالی لگ رہا تھا ہاتھ پائوں نے جیسے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ کبیر کو اس پر واقعی بہت رحم آرہا تھا۔۔

“مسکان میری بات سنو۔۔" وہ اس کے قریب بیٹھنے ہی لگا تھا کہ مسکان نے اسے جھڑک دیا۔

“مجھے تمہاری کسی بات کا یقین نہیں ہے تم نے میرا دل توڑا ہے جو دل توڑتے ہیں وہ جھوٹے ہوتے ہیں۔۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ کبیر گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھا تھا۔اپنوں کے نام سن کر ہی اسے یقین ہو گیا تھا وہ بس خود کو تسلیاں دے رہی تھی۔

“میرا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا مگر بس میں مزید تمہیں دھوکے میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ مجھے تمہاری مدد چاہیے ۔" اس کا انداز التجائیہ تھا۔

“کبھی بھی نہیں۔۔ میں تمہاری مدد نہیں کروں گی تم برے ہو۔ تم جھوٹے ہو۔۔" اس کا چہرہ مکمل بھیگ چکا تھا اور آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔

“تمہیں میرا یقین نہیں ہے اپنے دادا عالم خان کا تو یقین کرو گی نا جائو ان سے پوچھو وہ سب جانتے ہیں۔۔" کبیر کی آواز میں اتنی نرمی تھی جیسے وہ کسی چھوٹی بچی سے بات کررہا تھا۔۔ اب کی بار مسکان پھر بری طرح حیران ہوئی تھی۔ یہ کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ؟ کیوں اسے پردے میں رکھا گیا تھا؟

“تم بہت اچھی ہو مسکان تم بلکل بھی اپنے قاتل باپ کی طرح نہیں ہو اسی لیے میں بھی پچھتا رہا ہوں تمہیں اس سب میں گھسیٹ کر لیکن میں سوائے تم سے مدد مانگنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔۔" وہ بس روتی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔

“کیا کروں میں اپنے اچھے ہونے کا جب میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔۔ تم سب نے مل کر مجھے دھوکا دیا ہے۔میں کسی کو معاف نہیں کروں گی۔ کسی کی مدد نہیں کروں گی اور تمہارا یقین بھی نہیں کروں گی۔ تم نے میری نرم دلی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر میرا باپ واقعی قاتل ہے تو تم کیا ہو؟ تم اس سے بھی بدتر ہو۔۔ سنا تم نے تم میرے قاتل ہو۔۔" چیخ چیخ کر کہتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ "نفرت ہے مجھے تم سے کبیر جہانگیر نفرت۔۔ تمہیں کوئی حق نہیں تھا میرے ساتھ اتنا گھٹیا کھیل کھیلنے کا۔۔۔" کہتے ساتھ وہ وہاں سے بھاگ گئ۔ کبیر کا جسم بےجان ہو گیا اور بس پتھرائی ںظروں سے خلا میں دیکھتا رہا وہ تو اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہا تھا اسے تو جہانزیب سے بھی بدتر بنا دیا گیا۔

تو ثابت ہوا سرخ رنگ صرف خون کا ہوتا ہے اور آج خون کا دن تھا۔ آج خون ہوا تھا۔ مسکان کے دل کا خون۔ مسکان کی مسکان کا خون۔۔ لہریں گواہ تھیں مسکان کے خون کی گواہ تھیں انہیں محبت کا گواہ بننا تھا لیکن یہاں تو سب الٹا ہو گیا۔ وہ بھاگ رہی تھی بس روتے روتے پاگلوں کی طرح۔ لہریں اسے پکار رہی تھیں اسے روک رہی تھیں۔۔ بس اسے جلد سے جلد اس شہر سے نکلنا تھا کیونکہ جو کام کوئی نہ کر سکا وہ کراچی نے کر دیا تھا۔ مسکان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لا گیا تھا۔ وہ جس سمند کو فخر تھا اپنے پانی پر اسے بتائو کہ مسکان کی آنکھوں کا پانی اس سے جیت گیا۔ وہ جس سمندر پر کچھ دیر پہلے اس کے قہقہے گونج رہے تھے اب وہاں اس کے رونے چلانے کی آوازیں تھیں۔ ابھی جہاں شہنائی بج رہی تھی اب وہاں ماتم ہو رہا تھا۔۔

"داستان ختم ہونے والی ہے۔۔"دور کوئی جون ایلیا کا دیوانہ صدائیں لگا رہا تھا۔

“داستان ختم ہونے والی ہے۔۔"

اس کے قدموں کی رفتار اور بھی تیز ہو گئ تھی۔ لہریں اسکے قدموں کو چوم رہی تھیں اس کی منتیں کر رہی تھیں۔

“تم میری آخری محبت ہو۔۔"

گھٹنوں پر ہاتھ رکھے وہ رک گئ۔ سانس پھولی ہوئی تھی۔ لیکن جسم میں جان نہیں تھی۔

“تم میری آخری محبت ہو۔۔"

ایک زوردار چیخ مار کر اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیےاور پھر سے بھاگتی چلی گئ۔۔ یہ جو کوئی بھی تھا اس کی صدائیں اس کے کانوں میں سیخ کی طرح لگ رہی تھیں۔

●●●●●●●●●●●●●●●

مخروطی چھت والے عالیشان کمرے میں عالم خان بستر پر پرسکون اور گہری تو نہیں مگر کچی پکی نیند میں تھے۔ پورا کمرہ اندھیرے میں نہایا ہوا تھا۔ دفعتاً کسی آواز پر وہ جھٹکے سے اٹھے۔ وہ کھڑکیاں کھلنے کی آواز تھی جس میں سے ہوائیں طوفان کی طرح کمرے میں داخل ہوری تھیں۔ دل پر ہاتھ رکھے انہوں نے گہرا سانس بھرا پھر سائڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ روشن کیا اور خود پر سے چادر ہٹاتے کھڑکیوں کی طرف بڑھ گئے۔

“آج ہوائوں کو کیا ہو گیا ہے؟ اتنی خطرناک ہوائیں۔۔" وہ کھڑکی میں کھڑے ہوائوں کے بےقابو ہوتے شور کو سن رہے تھے۔ ناجانے وہ کس بات کا پیغام لا رہی تھیں۔ اتنا تو ان کو یقین ہو ہی گیا تھا کہ آج ہوائوں کا موڈ اچھا نہیں ہے۔ سر جھٹک کر انہوں نے کھڑکیاں بند کر دیں۔ اسی دوران ان کے کمرے کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ یکبارگی میں ہی اتنی دفعہ دستک ہوئی تھی کہ عالم خان ایک بار پھر پریشان ہو گئے تھے۔ رات کے اس پہر کون ان کے کمرے کا دروازہ زور زور سے پیٹنے کی شرمناک حرکت کر سکتا تھا۔۔ پیشانی پر ڈھیروں بل لیے وہ دروازے تک گئے لاک کھولا اور پھر سامنے سرخ لباس میں کھڑی لڑکی کو دیکھ کر دھنگ رہ گئے۔ اس کے بال بکھرے بکھرے سے تھے۔ آنکھیں اتنی سوجی ہوئیں تھیں کہ کھل بھی مشکل سے رہی تھیں۔ عالم خان اسے اس حالت میں کھڑا دیکھتے ہی ساکت رہ گئے تھے۔۔

“مسکان۔۔ یہ آپ نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے؟؟" انہوں نے آگے بڑھ کر نرمی اور فکرمندی سے پوچھتے ہوئے اسے کندھوں سے پکڑ کر کمرے کے اندر کیا۔۔ وہ جن آنکھوں میں انہوں نے کبھی آنسو نہیں آنے دیے آج آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب عالم خان کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبا کر سارا خون نچوڑ دیا تھا۔۔

"کچھ بول کیوں نہیں رہی کچھ تو بولیں خدا کے لیے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔" انہوں نے نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائیں اس کے چہرے سے آنسو صاف کیے لیکن وہ بنا پلک جھپکے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔

“جو میں بولوں گی وہ آپ سن نہیں سکیں گے بلکہ اس کے بعد خود بھی کچھ بول نہیں سکیں گے۔۔"اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔ آواز رندھی ہوئی اور پھٹی پھٹی معلوم ہو رہی تھی جیسے ناجانے کتنی ہی دیر چیختی رہی ہو چلاتی رہی ہو۔۔

“مجھے بتائیں کیا ہوا ہے؟؟" انہوں نے اتنا تڑپ کر پوچھا کہ ان کے سامنے کھڑی لڑکی زور سے ہنس دی۔۔

“جب ناہیدہ اور راحیلہ آپ کو چھوڑ کر جا رہی تھیں تب آپ کا دل ایسے کیوں نہیں تڑپا تھا؟ تب آپ نے انہیں کیوں نہیں روکا تھا؟" اس کی شکوہ کن اور جواب کی منتظر نظریں عالم خان پر ٹکی تھیں جبکہ وہ خود بلکل بت کی طرح خاموش ہو گئے تھے۔۔

“مجھ سے اور میرے باپ سے جتنی محبت کی اتنی اپنی باقی اولاد سے کیوں نہیں کی؟ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر جس طرح سے آپ تڑپ رہے ہیں اپنی سگی اولاد کے لیے کیوں نہیں تڑپے؟؟" اس کی آواز آہستہ آہستہ تیز ہو رہی تھی۔ آج سے پہلے اس نے اپنے دادا جان سے کبھی بھی اس ٹون میں بات نہیں کی تھی۔ عالم خان نے تھکی ہوئی سانس خارج کی اور مسکان کے سامنے اپنے لبوں کو وہ سب باتیں کہنے کی اجازت دی جو وہ کبھی بھی اس کے سامنے نہیں کہنا چاہتے تھے۔۔

“یہ سب ایک لفظ محبت سے شروع ہوا تھا۔۔" مکمل خاموشی میں ان کی آواز کا درد گونج رہا تھا۔ "لفظ محبت کاش کہ صرف ایک لفظ ہوتا تو اتنی اذیت نہ دیتا۔۔" ان کے اس جملے پر مسکان کے دل نے حامی بھری۔ اس کے دل نے بھی زوروں سے خواہش کی کہ کاش لفظ محبت صرف ایک لفظ ہوتا۔۔کاش محبت مانگنے سے مل جاتی۔ کاش محبت مٹانے سے مٹ جاتی۔۔ کاش۔۔

“ایک طوائف کی محبت سے لے کر جہانزیب سے محبت تک۔۔ کاش محبت پر اختیار ہوتا۔۔"مسکان کے کانوں سے ایک بار پھر ان کی آواز ٹکرائی۔ وہ وہیں کارپٹ پر شکست خوردہ ہو کر بیٹھ گئے پھر انہوں نے مسکان کو ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ مسکان بھی تابعدار تھی سو ٹھیک ان کے سامنے بیٹھ گئ۔۔

“کلثوم ایک طوائف جس سے میں نے شادی کی تھی اس کی محبت کے جال میں پھنس کر۔۔ کاش کہ محبت کے جال سے نکلنا آسان ہوتا۔۔"مسکان کے دل نے حامی بھری۔۔ کاش کہ محبت کے جال سے نکلنا آسان ہوتا۔۔

“وہ میری نہیں بن سکی کبھی نہیں بن سکی کیونکہ طوائف کسی کی نہیں ہوتی۔۔ کاش کہ محبت میں کسی کو اپنا بنایا جا سکتا۔۔" مسکان کے دل نے پھر سے حامی بھری۔۔ کاش کہ محبت میں کسی کو اپنا بنایا جا سکتا۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ نمی آپس مل گئ اور بند آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔

“وہ اپنے بیٹے کو میرے پاس چھوڑ کر چلی گئ۔ میں اسے نہیں روک سکا۔۔ کاش کہ محبت میں جانے والے کو روکا جا سکتا۔۔" اس نے بند آنکھوں سے دل میں اعتراف کیا۔۔ کاش محبت میں جانے والے کو روکا جا سکتا۔۔

“اس کے جانے کے بعد میری زندگی میں دوسری عورت آئی۔ سویرا میری تاریک زندگی میں سویرا بن کر۔۔ میں نے اس کی قدر نہیں کی۔۔ کاش محبت کرنے والوں کی قدر کی جاتی۔" آنکھیں اب بھی بند تھیں دل اب بھی حامی بھر رہا تھا۔۔ کاش محبت کرنے والوں کی قدر کی جاتی۔۔

“میں نے کلثوم کے بعد صرف جہانزیب سے محبت کی۔ میں چاہ کر بھی سویرا کو اپنے دل میں وہ جگہ وہ مقام کبھی نہ دے سکا جو میں نے کلثوم کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ وہ بہت اچھی تھی مجھ سے محبت کرتی تھی لیکن میں نے اس سے محبت کبھی نہیں کی۔۔ کاش کہ میرا دل بھی ان دلوں جیسا ہوتا تو جو کسی سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے دل بنے ہی محبت کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔۔" اس بات پر مسکان نے کاش نہیں کہا کیونکہ اس کا دل ایسا ہی تھا وہ چاہ کر بھی اس شخص سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی جس نے آج اسے رلایا تھا۔۔

“ایسا نہیں تھا کہ مجھے اپنے باقی دونوں بیٹوں سے محبت نہیں تھی۔۔ تھی بہت تھی لیکن جہانزیب میری پہلی اولاد تھی اور بدقسمتی سے میری محبت کی آخری نشانی۔۔ کاش کہ محبت کے ساتھ اس کی نشانیوں کو بھی ختم کیا جا سکتا۔۔" مسکان کے دل نے شدت سے کہا۔۔ کاش کاش۔۔ سب سے بڑی نشانی یہ دل ہی تو ہوتا ہے کاش اسی کو نکال کر ختم کر دیا جاسکتا۔

“میں نے ہمیشہ اس کی باتوں کو اہمیت دی ہمیشہ اس کے فیصلوں کو فوقیت دی کیونکہ محبت انسان سے سب کروا دیتی ہے سب کچھ۔۔ کاش محبت میں اعصاب قابو میں ہوتے۔۔" مسکان نے بند آنکھیں کھولیں اس کا دل پھر سے چیخا کاش محبت میں اس کے اعصاب قابو میں ہوتے وہ اتنا آگے نہ بڑھتی کہ پیر زخمی ہو جاتے اور واپسی کا سفر طے کرنے سے قاصر نہ ہو جاتے۔۔

“محبت نے ہی تو جہانزیب سےسب کروایا۔۔ دولت اور گدی کی محبت میں اس نے میرے بھائی ابرار خان کا قتل کر دیا۔۔ راحیلہ کی محبت میں ہی تو اس نے اپنی محبت کو ہی مار ڈالا۔۔ اس کی محبت میں ہی تو اپنے بھائی کو مار ڈالا۔۔ اپنی کزن کو ۔مار ڈالا۔۔ کاش محبت میں انسان حیوانیت کے درجے کو نہ پہنچتا۔۔"مسکان نے بےساختہ تر آنکھیں اٹھا کر ان کو دیکھا ان کا چہرہ مکمل بھیگ چکا تھا اور آنکھیں بند تھیں ۔ اس کے دل نے اس بار اس سے کہا۔۔ کاش تم بھی محبت میں حیوانیت کے درجے کو نہ پہنچو۔۔

“محبت انسان سے سب کروا دیتی ہے بس فرق یہ ہے کہ کچھ محبت میں انسان ہی رہتے ہیں کچھ حیوان بن جاتے ہیں۔۔"انہوں نے آنکھیں کھولیں جو سرخ ہو رہی تھیں۔۔"جہانزیب کی طرح۔۔" ان کے کہتے ہی مسکان نے نظریں جھکا لیں۔۔

“ان سب کے جانے کے بعد سے میرے دل کو سکون نہیں ملا۔ میں انہیں بہت یاد کرتا تھا بہت انتظار کرتا تھا ان کا لیکن وہ لوگ کبھی نہیں آئے۔۔ آتے بھی کیسے میں نے کب اس امر کو یقینی بنایا تھا کہ تم لوگ جب بھی آئو گے حویلی کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہوں گے۔۔ کس مان سے آتے وہ؟ میں نے بھی تو کبھی انہیں نہیں ڈھونڈا کس حال میں ہیں کیا کرتے ہیں جہانزیب کہتا تھا وہ بڑے خوش رہتے ہیں آپ انہیں بھول جائیں تو بس میرے دل کو اطمینان ہو جاتا تھا کہ وہ اپنے باپ کے بغیر خوش ہیں تو رہیں خوش۔۔ کاش میں ان کی خبر لیتا رہتا کاش ان کے دکھوں میں ان کے ساتھ ہوتا۔۔ کاش محبت میں انسان انا پسند نہ بنے۔۔" انہوں نے آنسو پونچھ کر مسکان کو دیکھا جو بلکل خاموش سی بت بنے بیٹھی تھی البتہ آنکھوں سے پانی اب بھی جاری تھا۔۔

“مجھ سے یہ گلہ مت کیجئے گا کہ میں نے سب پہلے آپ کو کیوں نہیں بتایا کیونکہ مجھ جیسے بدنصیب باپ کو بھی یہ سب کچھ دن پہلے معلوم ہوا ہے۔۔ کاش کہ سب مجھے پہلے پتہ چل سکتا۔۔" اس کے بعد دونوں میں کچھ پل کی خاموشی چھا گئ۔۔ عالم خان وقتاً فوقتاً اپنے آنسو پونچھ رہے تھے جبکہ مسکان اپنے آنسو بہنے دے رہی تھی کیونکہ اسے خود کے آنسو پونچھنا آتا ہی نہیں تھا۔۔

“کاش کہ آپ یہ سب مجھے اسی دن بتا دیتے تو آج میں جس کرب میں ہوں اس میں نہ ہوتی۔ کاش کہ آپ مجھے کچھ دن پہلے ہی سہی لیکن محبت نامی لفظ سے آشنا کروا دیتے اس کی اصلیت بتا دیتے تو آج جس شخص نے میرا دل توڑا ہے میں کبھی اسے اتنی اتھارٹی نہ دیتی۔۔میں کبھی محبت کو دل پر حاوی نہ ہونے دیتی۔۔" وہ اپنے بےجان جسم پر زور دیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ عالم خان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو اب جانے کے لیے پلٹ گئ تھی۔۔

“مسکان رک جائیں۔۔"ان کا انداز التجائیہ تھا۔ مسکان رک گئ۔۔

“ایک مہربانی کر دیں مجھ پر دادا جان۔۔"وہ دوبارہ ان کی طرف گھومی۔۔"میرا نام بدل دیجئے۔ یہ نام اب میرے اس مرجھائے چہرے پر سوٹ نہیں کرتا۔۔" اس کی اس بات سے عالم خان کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا تھا۔۔ "آپ سب نے مجھ سے میرا نام چھین لیا ہے دادا جان۔۔ اب مجھے کوئی اور نام دے دیں یا مجھے بےنام ہی رہنے دیں۔۔۔" اور وہ چلی گئی۔ آج کی رات عالم خان پر پھر سے بھاری ہونے لگی تھی۔ باہر طوفان ویسا ہی تھا اتنا تیز کہ بند کھڑکیوں کو توڑ کر اندر آنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

●●●●●●●●●●●●●●

اگلے دن کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ اپنے کمرے سے نکل کر وہ تیز تیز قدموں سے راہداری کو پار کر رہی تھی۔ حویلی میں سب نوکر اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اس کا باپ صبح ہی صبح اپنے کام کے لیے نکل چکا تھا اور اب اسے وہ کام کرنا تھا جس کے لیے وہ ساری رات صبح کا انتظار کرتی رہی تھی۔ کھلے بال کرل کیے ہوئے تھے اور چہرے پر بےتحاشا میک اپ تھا جو صرف اس نے اپنی زرد رنگت اور سوجی ہوئی آنکھوں کو چھپانے کے لیے کیا تھا۔ وہ کہیں سے بھی رات والی ٹوٹی پھوٹی مسکان نہیں لگ رہی تھی۔ جہانزیب کے کمرے میں پہنچتے ہی اس نے اپنے پیچھے دروازہ لاک کیا اور گھوم کر اس اونچی چھت والے وسیع کمرے کو دیکھنے لگی۔ اس کا دم ایسے گھٹ رہا تھا جیسے وہ جہنم میں آگئ ہو۔ گہرا سانس بھرتے وہ سیدھا بیڈ تک گئ۔ دونوں طرف کے سائڈ ٹیبل کے دراز ٹٹولے۔ وہاں کچھ خاص نہیں تھا۔ پھر وہ بیڈ پر پڑے تکیوں تک گئ۔ ایک ایک کر کے تکیہ ہٹایا بلآخر اسے ایک تکیے کے نیچے الٹی کی ہوئی ایک تصویر ملی۔ برق رفتاری سے اس نے تصویر اٹھا کر اپنی آنکھوں کے سامنے کی جس میں ایک سیاہ بالوں والی لڑکی مسکرا رہی تھی۔ وہ اس لڑکی کو اچھے سے پہچانتی تھی۔ وہ راحیلہ تھی۔ کافی دفعہ وہ دادا جان کے پاس ان کی بہت سی تصاویر دیکھ چکی تھی۔ بےساختہ اس کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔ لب بھینچ گئے۔

“تمہارا باپ قاتل ہے۔۔" کبیر کے الفاظ اس جہنم میں گونج رہے تھے۔ اس نے تصویر سابقہ حالت میں رکھ کر اس پر پھر سے تکیہ رکھ دیا۔ سارے تکیے درست کیے اور الماری تک گئی۔ پہلی طرف کے دروازے کھولے۔ وہ لاک نہیں تھے۔ اندر جہانزیب کے کپڑے ہینگ کیے ہوئے تھے۔ وہ ان کو آگے پیچھے کر کے کچھ نا کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی۔ وہاں کچھ نہیں تھا۔ ایک دراز کھولا وہاں بہت سی گھڑیاں تھیں۔ دوسرا کھولا وہاں بہت سے والٹ تھے۔ تیسرے کی طرف بڑھی۔ وہ لاک تھا۔۔ شٹ!!

اسے چھوڑ کر دوسرے دروازوں کی طرف بڑھی۔۔ بیلٹس، ٹائیاں، شالز، جوتے سب کچھ تھا لیکن کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو جہانزیب کے خلاف ثبوت ہوتا۔ تھک ہار کر اس نے الماری کے دروازے بند کر دیے۔ اب تیسری طرف کے خانے رہ گئے تھے۔ آگے بڑھ کر اس نے دروازے کھولے۔ آنکھیں حیرت سے پھیلیں کیونکہ الماری کے اندر ایک اور الماری تھی جس پر پاس ورڈ لگا تھا۔ وہ کچھ پل سوچتی رہی کہ اس کا باپ کیسا پاسورڈ سیٹ کر سکتا ہے؟ ایک دفعہ ہاتھ بڑھا کر اس نےMuskan ٹائپ کیا۔ دروازہ نہیں کھلا۔ پھر اس نے Zafar ٹائپ کیا دروازہ نہیں کھلا۔ پھر کچھ پل کے لیے رک کر دماغ پر زور ڈالنے لگی۔ اسے یاد آیا اس کا باپ سب سے زیادہ محبت راحیلہ سے کرتا تھا۔ تیزی سے اس نے اب کی بار Raheela ٹائپ کیا۔ دروازہ اب بھی نہیں کھلا۔ مسکان کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ ایک بار پھر اس نے Rahila ٹائپ کیا۔۔ اففف دروازہ اب بھی نہیں کھلا۔ وہ سر پکڑے دو قدم پیچھے ہٹی۔ آخر کیا پاسورڈ ہوگا؟؟ ذہن پر زور دیتے دیتے وہ بیڈ کی طرف گھومی۔ بےساختہ اس کی نظر اسی تکیے پر رکی۔ یکدم اس کے دماغ میں کچھ کلک ہوا۔ اسے یاد آیا تصویر کے اوپر کچھ لکھا تھا جس پر اس نے غور نہیں کیا تھا۔ آگے بڑھ کر تیزی سے اس نے تکیے کے نیچے سے تصویر نکالی۔ جس کے ٹھیک اوپر کونے میں Ruhi لکھا تھا۔ یعنی جہانزیب راحیلہ کو پیار سے روحی بلاتا تھا۔ ایک مطمئن مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری اور دوبارہ اس الماری کی طرف بڑھی۔ اس بار اس نے Ruhi ٹائپ کیا اور بلآخر دروازہ کھل گیا۔ مسکان کھل کر مسکرائی۔ اس کے اندر کچھ فائلز تھیں۔ وہ ایک ایک کر کے فائلز کھول کھول کر دیکھتی رہی اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی رہیں رنگت زرد پڑتی رہی کیونکہ وہ تمام کاغذات اس حویلی ذمینوں اور فیکٹریوں کے تھے جو جہانزیب نے چالاکی سے اپنے نام کر رکھے تھے۔ اسے اب بھی یاد تھا کہ دادا جان نے اس سے کہا تھا کہ سب کچھ ان کے اپنے نام پر ہے۔ انہوں نے کچھ بھی جہانزیب کے نام نہیں کیا تھا شاید انہیں یقین تھا کہ احمد اور ناصر کبھی نا کبھی ان کے پاس واپس آئیں گے۔ مگر یہاں تو سب الٹا تھا سب کچھ جہانزیب کے نام پر تھا۔ وہ ابھی فائلز دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک خاکی لفافہ زمین پر گرا۔ اس نے فائلز واپس اسی ترتیب سے رکھیں اور جھک کر لفافہ اٹھایا۔ لفافے کے اندر سے کچھ تصاویر برآمد ہوئیں۔ ان تصاویر کو دیکھتے ہی مسکان کے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لیے رک گئ اور وہ دڑز کھا کر فرش پر گری۔

کپکپاتے ہاتھوں سے وہ ایک ایک کر کے تصویر دیکھنے لگی۔ پہلی تصویر میں ایک عورت ہسپتال کے بیڈ پر ڈھیروں پائپوں میں جکڑی لیٹی ہوئی تھی۔۔ دوسری تصویر میں ایک آدمی خون میں لت پت اسٹریچر پر پڑا ہوا تھا۔ لرزتے ہاتھوں سے اس نے تصویر نیچے رکھی پھر تیسری تصویر دیکھی جس میں ایک آدمی خون میں نہایا ہوا سڑک پر الٹا گرا پڑا تھا۔۔ مسکان کا سانس رک گیا۔۔ آنکھوں سے پانی تیز تیز نکلنے لگا۔۔

چوتھی تصویر میں ایک عورت گاڑی کی پچھلی سیٹ کی پشت پر سر رکھے آنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔ اس کا ماتھا خون سے بھرا ہوا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب لوگ اس کی فیملی تھی جو اس کے باپ نے اس سے چھین لی۔ ان تصویروں کو دیکھ کر مسکان کی برداشت ختم ہو گئ اور وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ اس جہنم میں آج پہلی بار اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔۔

“تم نے غلط کہا تھا کبیر۔۔" روتے ہوئے اس نے بےساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔ "میرا باپ صرف قاتل نہیں ہے وہ درندہ ہے۔۔ وہ بھیڑیا ہے۔۔" وہ دبی دبی چیخ رہی تھی۔ اس کے دل میں درد ہو رہا تھا۔ "جو اپنی محبت کو کھا گیا اپنے بھائیوں کو کھا گیا۔۔" چپ ہو کر اس نے روتی آنکھوں سے ان تصویروں کو دیکھا۔ دل پر سے ہاتھ ہٹایا اور ایک ایک کر کے تصویریں دوبارہ لفافے میں ڈالیں پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ سامنے سیاہ چھوٹے ڈبے پر اس کی نظر اب پڑی تھی۔ لفافہ الماری میں رکھا اور پھر وہ ڈبہ دیکھنے لگی۔ وہ سیاہ لکڑی کا بنا ایک چکور ڈبہ تھا۔ اچھی طرح سے دیکھ کر اس نے وہ ڈبہ کھولا جس کے اندر سفید مخملی کپڑے پر ایک سیاہ چھوٹی شیشے کی بوتل تھی اور اس کے ٹھیک ساتھ ایک پرانا کاغز تہہ کیا ہوا پڑا تھا۔ بوتل چھوڑ کر اس نے وہ کاغز ہاتھ میں لیا اور اس کی تہہ کھولنے لگی۔

“اس زہر سے ہوئی پہلی موت (روحی)۔۔" پہلی سطر پڑھتے ہی مسکان کا دماغ بھک سے اڑا یعنی راحیلہ کی موت اس زہر سے ہوئی تھی۔

“اس زہرسے ہونی ایک دوسری اور آخری موت (؟)۔۔" سوالیہ نشان دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں مزید حیرت در آئی یعنی اس کا باپ اس زہر کا استعمال ایک بار پھر کسی کے لیے کرے گا مگر کس کے لیے؟ اس کا زہن بہت سے سوالوں کے اردگرد چکر کاٹنے لگا بہرحال یوں جواب جاننا مشکل تھا سو اس نے سب کچھ الماری میں اسی ترتیب سے رکھا جس طرح پہلے رکھا گیا تھا۔ الماری لاک کی۔ اس کے شیشے میں اپنا عکس دیکھا کاجل پھیل گیا تھا۔ دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے آنکھوں کے کناروں سے سیاہی صاف کی بال درست کیے اور کھڑے کھڑے اس جہنم سے ایک وعدہ کیا۔۔

“جہانزیب کا انجام میں کروں گی۔۔" تیز تیز قدم لیتے وہ اس جہنم سے نکل گئ۔

●●●●●●●●●●●●●●

وہ اپنے آفس میں چئیر پر گم صم سا بیٹھا تھا۔ آج کل اس کا دل بجھا بجھا ہوا کرتا تھا کیونکہ آج کتنے دن ہو گئے تھے انابیہ آفس نہیں آئی تھی۔ کل اسے ماجد نے بتایا تھا کہ وہ ڈائریکٹ سائٹ پر گئ تھی وہ بھی اسے بتائے بغیر۔ اسے برا لگا تھا۔ خیر وہ بھی حق پر تھی۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی کبیر سیدھا ہو کر بیٹھا۔

“آپ نے بلایا سر؟؟" بوائے کٹ والی وانیہ اندر آتے ساتھ بولی۔

“انابیہ آج بھی آفس نہیں آئے گی؟" کہتے ساتھ اس نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔۔

“نو سر۔۔ انہوں نے کہا جب تک ان کے کزن کا نکاح نہیں ہو جاتا وہ نہیں آئیں گی۔۔" کبیر نے سر اثبات میں ہلایا۔۔

“اچھا ٹھیک ہے بس یہی پوچھنا تھا۔۔" اس نے سپاٹ لہجے میں کیا۔ وانیہ ہلکا سا مسکرائی اور چلی گئ۔ اب کبیر کو تھوڑا اطمینان ہوا تھا کہ چلو عالیان کے نکاح تک کی بات ہے نا بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب وہ پرسکون ہو کر لیپ ٹاپ میں مصروف ہو گیا۔ تبھی اس کے موبائل پر کسی کا میسج آیا۔ وہ فرہاد کا وائس میسج تھا۔۔

“سوری یار میں تمہیں کال نہ کر سکا اور نہ ہی آگے کر سکوں گا۔ بمشکل ایک وائس میسج کے لیے وقت ملا ہے۔ اب غور سے سننا۔۔"کبیر پورے وثوق سے اسے اس کی آواز سن رہا تھا۔۔ "یہ کمینہ ظفر تو ڈرگ اسمگلر نکلا۔"کبیر کی آنکھوں میں حیرت امڈ ائی۔۔ "پورے شہر میں ڈرگ سمگل کرتا ہے اور تو اور خود بھی نشئی ہے۔ مجھے نہیں پتہ فلحال کیا کرنا ہے۔ میں اس کے اڈے کے بارے میں جانتا ہوں۔ جلد سے جلد اگر مجھ سے کوئی پلاننگ بنتی ہے تو میں تمہیں بتائوں گا۔ بس تم عالیان اور میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ تیاری رکھیں میں جلد تمہیں اگلا وائس میسج کروں گا۔۔ اللہ حافظ۔۔" کبیر نے چئیر کی پشت سے ٹیک لگا کر گہرا سانس بھرا۔ تبھی اسے فرہاد کا اگلا میسج آیا جس میں کسی گاڑی کا نمبر لکھا تھا۔ ساتھ ہی ایک تحریری پیغام بھی تھا۔

“جو لوگ ظفر تک ڈرگز پہنچاتے ہیں یہ ان کی وین کا نمبر ہے۔۔"

اس کی آنکھیں پرسوچ انداز میں چھوٹی ہوئیں اور پھر تھوڑی دیر بعد یہی میسجز عالیان کو فارورڈ کر دیے جو کہ عالیان نے فوراً سین کر لیے۔

●●●●●●●●●●●●●●

"افف منو تھوڑا صبر کر جائو لا رہی ہوں تمہارا جوڑا۔۔" وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر فون کان سے لگائے بیٹھی تھی۔ ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا اور باہر سیاہ آسمان سے تھر تھر بارش برس رہی تھی۔۔

"آپ کو نہیں پتہ آپی ایک تو اس درزی نے کپڑے اتنی دیر سے سی کر دیے ہیں کل نکاح ہے اگر کوئی مسئلہ ہوا تو؟؟" فون کی دوسری طرف سے مناہل کی آواز گونج رہی تھی۔ انابیہ نے فون گھما کر دوسرے کان سے لگایا۔

"اسی لیے تم سے کہا تھا میرے ڈیزائنر کو دے دو اچھے ڈیزائن بھی کر دیتا اور گھر تک بھی پہنچا دیتا لیکن تمہیں بس اپنے ہی درزی کو دینا تھا اب صبر کرو۔۔"اس کے چہرے پر ناگواری کا بسیرا تھا۔ نکاح کی ساری تیاریاں مکمل تھیں۔ انابیہ کی تھوڑی شاپنگ باقی تھی بس وہی کرنے وہ آج شاپنگ مال گئ تھی واپسی پر مناہل کے درزی سے اس کا جوڑا بھی پکڑ لائی۔

"جب سے کراچی آئی ہوں مجھے اس درزی کی عادت ہو گئی ہے اچھے سے اچھے ڈیزائنر کا بھی اس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔۔"

"تو بس پھر یقین رکھو اپنے درزی پر۔۔" وہ رکی اور سامنے شیشے سے دور کھڑی ایک گاڑی کو دیکھنے لگی۔۔ "گھر آکر بات کرتی ہوں۔۔" کہتے ساتھ اس نے فون کان سے ہٹایا۔۔ "گاڑی روکیں۔۔" اس نے فوراً ڈرائیور کو مخاطب کیا۔ ڈرائیور نے تابعداری سے سر ہلاتے ہی گاڑی روک دی۔ انابیہ نے بغور گردن نیچے کر کے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جس کی پشت اس کی طرف تھی اور وہ بیچاری برستی بارش میں گاڑی کے کھلے بونٹ سے الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔ بہرحال وہ لڑکی کو پہچان گئ تھی اس لیے اپنےساتھ پڑی چھتری کو ہاتھ میں پکڑا۔ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی چھتری کھول کر آسمان کے نیچے کی اور باہر نکل آئی۔ بارش کی رفتار کافی تیز تھی۔ وہ قدم اٹھاتے اس کے تھوڑا پیچھے کھڑی ہو گئ۔

یکدم جویریہ کو محسوس ہوا جیسے بارش رک سی گئی ہو۔ اس نے فوراً سر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر چھتری کا سایہ تھا۔ وہ بنا دیر کیے پیچھے کی طرف گھومی جہاں انابیہ چھتری ہاتھ میں پکڑے اسے سپاٹ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"تم یہاں؟؟" اس کے کھلے بال مکمل بھیگے ہوئے تھے اور چہرے سے بھی پانی ٹپک رہا تھا۔۔ انابیہ قدم اٹھاتی اس کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔

"تمہیں بھیگتا دیکھا تو آگئ۔ کیا ہوا ہے؟" اس کا ایک بازو بارش سے بھیگ رہا تھا کیونکہ وہ چھتری کا زیادہ سایہ جویریہ پر کیے ہوئے تھی۔

"پتہ نہیں کیا ہو گیا گاڑی کو چلتے چلتے رک گئ۔۔" اس نے دوبارہ الجھی ہوئی نظروں سے گاڑی کے انجن کو دیکھا۔ انابیہ نے سمجھ کر سر ہلایا اور اپنے ڈرائیور کی طرف گھومی جو گاڑی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے اشارہ کرنے پر بھاگتا ہوا اس کے قریب آیا۔

"دیکھو ذرا ان کی گاڑی کو کیا ہوا ہے۔۔" اس کے حکم پر ڈرائیور فوراً آگے بڑھا۔ جویریہ نے اسے جگہ دی اور دوبارہ انابیہ کے ساتھ چھتری کے نیچے آ کھڑی ہوئی۔۔ وہ مکمل خاموشی سے ڈرائیور کو دیکھ رہی تھی اور انابیہ ناگواری سے کبھی اسے اور کبھی ڈرائیور کو۔

"میڈم مکینک کو بلانا پڑے گا شاید مسئلہ زیادہ ہے۔۔" ڈرائیور بھیگتا ہوا ان کی طرف گھوم کر بولا۔

"اتنی بارش میں مکینک کیسے آئے گا؟؟" جویریہ کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہرائے۔

"آپ فکر نہ کریں میرے جاننے والا ہے ابھی کال کروں گا آجائے گا۔ یہیں پاس میں ہی اس کی ورکشاپ ہے۔ آپ دونوں گاڑی میں بیٹھ جائیں۔۔"ڈرائیور تیز تیز بولتا گیا۔۔ انابیہ نے گہرا سانس بھرا۔ یعنی کچھ دیر اور اس لڑکی کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پھر وہیں سے اپنی گاڑی کی طرف پلٹ گئ۔ اس کے جاتے ہی جویریہ فوراً سے اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے اس کے ساتھ اندر جا بیٹھی۔ اسے اپنے ساتھ بیٹھا دیکھ کر انابیہ کے تیور مزید سخت ہوئے وہ اپنی گاڑی میں بھی تو بیٹھ سکتی تھی نا لیکن وہ اسے اگنور کرتی سینے پر ہاتھ باندھ کر گردن بائیں طرف موڑ گئ۔۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ بری طرح کھانس رہی تھی اور وہ ضبط سے اس کی کھانسی سنتی جا رہی تھی۔

"گھر جاتے ہی کوئی میڈیسن لے لینا۔۔" اس نے گردن گھمائے بغیر کہا۔ جویریہ نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا اور پھر کھانستے ہوئے سامنے والے شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔ مکینک آچکا تھا اور اب وہ انابیہ کے ڈرائیور کے ساتھ کھڑا گاڑی کو دیکھ رہا تھا۔

"میں تم سے برداشت تو نہیں ہو رہی ہوں گی مگر پھر بھی تمہاری شکرگزار ہوں جو تم نے میری مدد کی اور مجھے برداشت بھی کر رہی ہو۔۔"انابیہ نے برہمی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا وہ شکریہ ادا کر رہی تھی یا طنز کر رہی تھی۔ (نہ ہی معافی مانگنے آتی ہے نہ ہی شکریہ ادا کرنے آتا ہے ہونہہ)۔۔ سر جھٹک کر اس نے گردن دوبارہ موڑ لی کیونکہ وہ واقعی اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔ دفعتاً ڈرائیور بھاگتے ہوئے انابیہ کی طرف آیا۔ اس کے آتے ہی اس نے بٹن دبا کر شیشہ نیچے کیا۔

"میڈم گاڑی ورکشاپ لے جانی پڑے گی۔۔ یہیں قریب میں ہی ہے۔۔" انابیہ کے ماتھے پر بل واضح ہوئے جبکہ جویریہ یہ خبر سنتے ہی اس کی ٹانگوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈرائیور کی طرف جھکی جس پر وہ کافی زچ ہوئی۔۔

"مجھے جلد گھر پہنچنا ہے بہت کام ہے آفس کے۔۔ ورکشاپ میں کیسے بیٹھی رہوں گی؟؟" وہ نہایت مظلوم لگ رہی تھی۔ انابیہ نے کڑی نظروں سے اسے دیکھا جو ڈرائیور سے مخاطب تھی۔۔

"تو تم نے کیا مجھے جویریہ سلطان سمجھ رکھا ہے جو میں اکیلے تمہیں ورکشاپ میں جانے دوں گی وہ بھی اتنی رات کو؟" جویریہ نےاس بات پر کچھ حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو اس کی فکر کر رہی تھی۔ انابیہ نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔ (بہن تو میری ٹانگیں چھوڑ دے۔۔) تو وہ فوراً ہڑبڑاتے ہوئے اس پر سے ہٹ کر پیچھے ہو کر بیٹھ گئ۔

"آپ مکینک سے کہیں گاڑی صبح جویریہ کے گھر پہنچ جانی چاہیے اور جلدی آئیں انہیں گھر چھوڑ کر مجھے بھی گھر پہنچنا ہے۔۔" اس کا چہرہ سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا جبکہ اس کے لہجے میں تھوڑی کڑواہٹ جویریہ کو ضرور محسوس ہوئی تھی۔ وہ تھوڑی الجھن کی شکار بھی تھی کہ وہ کیوں اپنی دشمن کی مدد کر رہی تھی دوسری طرف انابیہ اپنے اتنے نرم دل کو ڈھیروں لعنتیں دے رہی تھی اور افسوس کر رہی تھی اس وقت پر جب اس کی نظر اس بھیگتی ہوئی لڑکی پر پڑی تھی۔

باقی کا سارا سفر خاموشی سے کٹا حتیٰ کہ جویریہ کا گھر آگیا۔ وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر اترنے ہی لگی تھی لمحہ بھر کو رکی اور انابیہ کی طرف گھومی جو اب بھی گردن دوسری طرف موڑے بیٹھی تھی۔۔

"تھینک یو سو مچ۔۔" اس نے محض یہی کہا انابیہ نے گردن موڑنے کی تو کیا کچھ بولنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ دروازہ بند ہونے کی آواز پر اس نے گردن گھما کر جویریہ کو اپنے گھر کے دروازے کا لاک کھولتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ اندر چلی گئ تو اس نے گہرا سانس بھرا۔۔ (شکر جان چھوٹی۔۔) اس سے پہلے وہ ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا حکم دیتی اس کی نظر بےساختہ کونے والے بڑے سے درخت پر رکی۔ اسے لگا شاید اس نے وہاں کسی کا سایہ دیکھا ہے۔ اپنا وہم سمجھ کر اس نے ڈرائیور کو جانے کا کہا۔

●●●●●●●●●●●●●●●

اندر گھستے ساتھ ہی اس نے اپنے پیچھے دروازہ لاک کیا۔ گیلا کوٹ اتار کر اسٹینڈ کے ساتھ ٹانگا۔ جوتے اتار کر کونے میں رکھے اور ننگے پیر بھاگتے ہوئے لائونج کی طرف گئ۔ سفید ٹائلوں والا فرش اسے کافی ٹھنڈا محسوس ہورہا تھا۔ سویچ بورڈ تک پہنچتے ہی اس نے ساری بتیاں جلا دیں اگلے ہی لمحے لائونج روشن ہو گیا تھا۔ وہ سارا دن کی کافی تھکی ہوئی تھی اس لیے سیدھا صوفے پر جا بیٹھی۔ صوفے کی پشت پر سر گرا کر اس نے آنکھیں موندھ لیں لیکن دماغ میں اب بھی انابیہ کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ وہ اس کے سر پر چھتری کا سایہ کیے لڑکی اسے بھیگنے سے بچا رہی تھی جس کا خود کا بازو بھیگے جا رہا تھا۔ وہ اس کی سمجھ سے باہر تھی۔کچھ ہی دیر بعد اسے اپنی کنپٹی پر کوئی ٹھنڈی چیز محسوس ہوئی۔ اس نے برق رفتاری سے آنکھیں کھولیں۔ ایک آدمی پستول ہاتھ میں پکڑے اس کے سامنے کھڑا تھا اور دوسرا اس کے سر پر پستول کی نالی رکھے اس کے بلکل پیچھے کھڑا تھا۔۔

"شش۔۔ اگر چلانے کی کوشش بھی کی تو ساری گولیاں تیرے بھیجے میں اتار دوں گا۔۔" وہ پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے کھڑے آدمی کو دیکھنے لگی۔ آن کی آن میں یہ کیا ہو گیا تھا؟

"کک کون ہو تم لوگ؟؟" ڈرتے سہمتے وہ یہی پوچھ سکی۔

"چور ہیں ہم۔۔ زیادہ چوں چیں نہ کر بتا قیمتی سامان کہاں رکھا ہے۔۔"جس آدمی نے اس کے سر پر پستول تانی ہوئی تھی یہ آواز اس کی تھی۔۔ جویریہ پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی اور مسلسل تھوک نگلتے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے پہلے اپنے کانوں سے ائیر رنگز اتارے۔ انگلیوں سے انگوٹھیاں اتاریں اور ہاتھوں پر سے بریسلٹ اتار کر سب باری باری سامنے ٹیبل پر رکھتی گئ۔۔

"او معصوم بچی۔۔ کیا ایسا ویسا چور سمجھ رکھا ہے ہمیں جو چند ہزار کی چیزیں اتار کر ہم پر احسان کر رہی ہے۔۔ قیمتی سامان بتا کہاں ہے؟؟" سامنے والا پھاڑ کھانے والے انداز میں چیخا اور پیچھے والے نے پستول کی نالی اس کے سر میں گھپائی۔ جویریہ کانپ کر رہ گئ۔۔

"دیکھو مم۔ میرے پاس اتنا خاص کچھ نہیں ہے تم لوگ۔۔۔۔" گھنٹی کی آواز پر وہ چپ ہو گئ اور وہ دونوں آدمی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔

"یہ کون آیا ہوگا بتا جلدی؟؟" اس کے دھاڑنے پر جویریہ نے لرز کر اسے دیکھا۔

"مم مجھے کیا پتہ یہ تو پوچھ کر ہی پتہ چلے گا نا۔۔" وہ نہایت ہی معصومیت سے بولی۔

"تو اس کو لے کر جا میں اندر دیکھتا ہوں۔۔"سامنے والے نے فوراً اپنے دوسرے ساتھی سے کہا۔۔ "اور سن جو بھی ہوا نا اس کو بھی پکڑ کر اندر لے آ اسے بھی دیکھتے ہیں۔۔۔"اس کے ساتھی نے سر اثبات میں ہلایا۔۔

"چل اٹھ۔۔" جویریہ فوراً سیدھی ہوئی اور اس کے آگے آگے چلنے لگی۔

"کک کون؟؟" دروازے کے قریب پہنچ کر وہ ڈرتے سہمتے پوچھ رہی تھی۔

"میڈم آپ اپنا کچھ بہت قیمتی سامان میری گاڑی میں چھوڑ گئ تھیں۔۔" آواز جویریہ نے فوراً پہچان لی تھی جبکہ قیمتی سامان کو سنتے ہی اس آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری اور آنکھیں خوشگوار حیرت سے پھیلیں۔۔

"دروازہ کھول سامان لے اور چپ چاپ دروازہ بند کر دے۔۔ اگر کچھ بھی کہا تو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔ "اس نے نہایت ہی سرگوشی نما انداز میں اسے تنبیہ کی اور پستول کا نشانہ اس کے سر پر رکھ کر تھوڑا اوٹ میں ہو گیا۔ بہت سارا تھوک نگلتے اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی انابیہ کا ڈرائیور ہاتھوں میں ایک بیگ لیے کھڑا تھا۔

"آپ کا سامان۔۔" اس نے سر کو تھوڑا خم دیتے ہوئے بیگ اس کی جانب بڑھایا جیسے کوئی اشارہ کیا ہو۔ جویریہ نے بیگ تھاما سر کو خم دیا پھر دروازہ بند کردیا اور ایسے ظاہر کیا جیسے اس نے دروازہ لاک بھی کیا ہے جبکہ دروازہ صرف بند تھا۔ وہ آدمی دوبارہ اس کے سامنے ہوا اس کے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ جویریہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کرنا کیا ہے؟ انابیہ کا ڈرائیور کیوں آیا تھا؟ اسے یہ بیگ کیوں دیا؟؟

لائونج میں پہنچتے ہی سامنے کا منظر دیکھ کر دونوں ہکا بکا رہ گئے۔ اس کا ساتھی گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا اور انابیہ احمد عالم اس کے سر پر پستول کی نوک رکھے کھڑی تھی۔

"لڑکی کو چھوڑ دو نہیں تو یہ جان سے جائے گا۔۔" اس کا انداز تنبیہی تھا جبکہ جویریہ اس کو دیکھ کر پتھر کی ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ کھڑے آدمی نے ہڑبڑا کر اسے گردن سے دبوچا اور پستول اس کے سر پر رکھ گیا جس پر وہ بےساختہ چیخ پڑی۔

"میرے آدمی کو چھوڑ دو ورنہ یہ جان سے جائے گی۔۔"اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتا کسی نے رکھ کر پیچھے سے اس کے سر پر کوئی بھاری چیز ماری تھی۔ وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا۔ پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ جویریہ نے پھٹی آنکھوں سے گردن گھما کر دیکھا جہاں انابیہ کا ڈرائیور کھڑا تھا۔ آگے بڑھ کر اس ڈرائیور نے پستول پیر کے ذریعے دور دھکیل دیا۔۔ جویریہ جب ہوش میں آئی تو تیزی سے اپنے بیگ کی طرف بھاگی اس میں سے فون نکالا۔ تیز تیز نمبر ملایا اور فون کان سے لگایا۔

"ہیلو۔ کبیر کہاں ہو تم جلدی یہاں آجائو۔۔" وہ ڈری سہمی آواز میں بول رہی تھی جبکہ کبیر کا نام سن کر انابیہ نے اپنے سر پر ہاتھ دے مارا بھلا اسے کال کرنے کی کیا ضرورت تھی وہ سب سنبھال تو چکی تھی۔

"کیا ہوا جویریہ سب ٹھیک تو ہے؟؟" وہ اپنے کمرے میں تھا اور جویریہ کی ڈری ہوئی آواز پر فکرمندی سے پوچھنے لگا۔

"کچھ ٹھیک نہیں ہے یہاں چور آگئے ہیں پلیز آجائو۔۔"اب وہ باقاعدہ رو رہی تھی۔ انابیہ نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے اسے دیکھا۔ موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا جویریہ نے۔

"تم فکر مت کرو میں آتا۔۔"

"اے ہلو مت کیوں میرے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو؟؟" یہ آواز سنتے ہی کبیر کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین بھی نکل گئی تھی۔ انابیہ جویریہ کے ساتھ کیا کر رہی تھی؟ بنا کچھ کہے وہ بھاگتا ہوا کمرے سے نکلا۔

وہ جب جویریہ کے گھر پہنچا تو سب سے پہلے اس نے باہر کھڑی پولیس موبائل کو دیکھا۔ کچھ پولیس اہلکار دو آدمیوں کو پکڑ کے اس موبائل میں ڈال رہے تھے۔ وہ سب اگنور کرتا بھاگتے ہوئے اندر گیا۔۔

"یہ سب تمہاری پلاننگ تھی نا؟؟" انابیہ جو جانے ہی والی تھی جویریہ کے اس احمقانہ اور عجیب سوال پر رک کر اس کی طرف گھومی۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

"پلاننگ تو تم جیسے گھٹیا لوگ کرتے ہیں کسی کے خلاف۔۔۔ صاف صاف بولو نا میرا احسان تم سے برداشت نہیں ہو رہا۔۔" وہ بھی انابیہ تھی سو اسی کی ٹون میں اسے حقیقت دکھا رہی تھی۔

"تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب کر کے تم میری نظروں میں اچھی بن جائو گی۔۔ہونہہ۔۔"وہ طنزیہ انداز سے ہنسی۔۔

"مجھے کوئی شوق نہیں ہے گرے ہوئے لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کا۔۔" کرخت انداز سے کہتے ہی وہ پلٹ گئ۔ تبھی دونوں کی نظر چوکھٹ پر نمودار ہوتے کبیر جہانگیر پر رکی۔ جویریہ لمحے بھر کی دیر کیے بنا بھاگتے ہوئے اس کے گلے جا لگی۔ کبیر کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے وہ بس غائب دماغی کے عالم میں انابیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔ جبکہ جویریہ کی اس حرکت پر انابیہ مٹھی بھینچے اور تیوڑیاں چڑھائے اسے گھور کر رہ گئ۔ وہ کیسے بےغیرتوں کی طرح اس کے سامنے اس کے گلے جا لگی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آج جویریہ سلطان کو جلا کر راکھ کر دے۔ دفعتاً اس نے اس پر سے نظریں ہٹا کر کبیر کو دیکھا تو اس کا سارا غصہ کہیں دور جا مرا کیونکہ وہ بس اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ بےساختہ مسکرا اٹھی۔ بھلے جویریہ اس کے گرد اپنا حصار باندھے ہوئی تھی لیکن کبیر جہانگیر کی نظروں کے حصار میں تو آج بھی انابیہ احمد عالم تھی اور ہمیشہ رہے گی بھی۔۔

"شکر ہے کبیر تم آگئے۔۔ میں تو بہت ڈر گئ تھی۔۔" وہ پیچھے ہو کر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی جبکہ کبیر تو شاید کچھ سن ہی نہیں رہا تھا۔ اسے اگنور کرتا وہ قدم اٹھاتا انابیہ کے پاس چلا گیا اور یہ دیکھتے ہی جویریہ جل کر بھسم ہو گئ۔۔

"تم ٹھیک ہو؟؟" وہ دونوں براہ راست ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ انابیہ نے اس کے سوال پر صرف سر اثبات میں ہلایا مگر منہ سے کچھ نہیں بولی۔

"میں بہت ڈر گیا تھا۔۔" اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ واقعی ڈر گیا تھا۔ انابیہ مبھم سا مسکرائی اور اس کے ساتھ سے ہو کر جانے لگی۔ اس کے یوں جانے سے کبیر کا دل یکدم تڑپ اٹھا۔۔

"اسے ساتھ لے جائو۔ یہ جگہ اس کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔"جھک کر اس نے صوفے کے ساتھ گرے ہوئے بیگ کو اٹھایا۔ اس میں مناہل کا جوڑا تھا۔ پھر قدم اٹھاتی جویریہ کے پاس گئ۔ فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھتے دیکھتے وہ تھوڑا اس کے کان کی طرف جھکی۔۔

"کبیر صرف میرا ہے۔۔"سرگوشی نما انداز میں کہہ کر وہ پیچھے ہوئی۔ "جاتے ہوئے کھڑکیاں چیک کر کے جایا کرو وہاں سے چور بھی اندر آسکتے ہیں اور میں بھی۔۔" ہلکا سا مسکرائی اور وہاں سے چلی گئ۔ جویریہ نے مٹھی بھینچ لی اتنے زور سے کہ ناخن اس کی ہتھیلی میں پیوست ہونے لگے۔ کچھ دیر پہلے جو اس کا دل انابیہ کے لیے نرم ہوا تھا اب واپس اس دل میں اس کے لیے وہی نفرت جاگ اٹھی تھی۔۔

●●●●●●●●●●●●●●

بارش کی رفتار اب بھی ویسی ہی تھی بہت تیز۔۔ گھر پہنچتے ہی جویریہ نے گاڑی سے باہر نکلنے کی غرض سے اپنی طرف کا دروازہ کھولا تبھی اس کے کانوں سے کبیر کی آواز ٹکرائی۔۔

“جو حرکت تم نے آج کی ہے آئندہ مت کرنا میں بلکل بھی برداشت نہیں کروں گا۔۔"جویریہ ہل نہیں سکی اور وہ یہ کہہ کر گاڑی سے اتر بھی گیا۔

گھر کے اندر قدم رکھتے ہی کبیر کو ایک بچے کی رونے کی آواز آئی۔ آواز جانی پہچانی تھی۔ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے لونگ روم میں گیا۔۔

“کیا ہو گیا ہے کنزہ کب سے رو رہا ہے بچہ۔۔ لائو مجھے دو۔۔"آمنہ بیگم نے روتا ہوا بچہ کنزہ کے ہاتھوں سے لیا اور اسے کندھے سے لگائے تھپکنے لگیں۔

“لگتا ہے اس کا پیٹ خراب ہو گیا ہے ماں جی۔۔۔"کنزہ اب اپنے بچے کے لیے فیڈر بنا رہی تھی جو اب تک رو رہا تھا ۔ آمنہ بیگم کی گود میں جا کر بھی چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تبھی آمنہ بیگم نے لونگ روم میں داخل ہوتے کبیر کو دیکھا جو حیرت سے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔۔ آمنہ اس کو دیکھتے ہی مسکرائی بچہ کنزہ کو تھمایا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کبیر بھی لمحہ بھر کی دیر کیے بنا اپنی ماں سے لپٹ پڑا۔۔

“واٹ آ پلیژنٹ سرپرائز!!آپ لوگ کب آئے؟؟" وہ ان کے گلے لگے بول رہا تھا۔ آمنہ نے نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

“بس ابھی ہی آئے ہیں دیور جی۔ سوچا آپ کو سرپرائز ہی دے دیں۔۔"آواز کنزہ کی تھی بچہ اب بھی رو رہا تھا۔

"مجھے بتا تو دیتے۔۔ میں خود پک کرتا آپ لوگوں کو۔۔" آمنہ بیگم سے الگ ہوتے ہی وہ خفہ خفہ بولا ۔

“کیسے بتاتے؟ یہاں تو سب نے ہی منع کر رکھا تھا کہ کبیر کو کچھ پتہ نہ چلے خاص کر عالیان نے تو صاف صاف بولا تھا سرپرائز خراب ہوا تو وہ ناراض ہو جائے گا۔۔ اب دولہے کو ناراض تو نہیں کیا جا سکتا نا۔۔" آمنہ بیگم نے کہا تو اب کی بار کبیر پھر حیران ہوا۔

“دیور جی بیٹھ تو جائیں بتاتے ہیں سب آپ کو۔۔"کنزہ نے بروقت فیڈر بنا ہی لیا تھا جو بچے کے منہ میں جاتے ہی اسے چپ کرانے میں کامیاب ہوا۔ اب ماحول میں ذرا سکون شامل ہوا۔۔ "عالیان نے ہم سب کو الگ الگ کال کر کے دعوت دی تھی ۔ اس نے تو کچھ دن پہلے ہی آنے کا کہا تھا بس آپ کے مسٹر بزنس مین بہت بزی تھے اسی لیے آنے میں دیر ہو گئ۔۔" کبیر آمنہ بیگم کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا اور بغور کنزہ بھابھی کو سنتا گیا۔ اسی دوران کمرے میں جویریہ داخل ہوئی۔ آمنہ بیگم نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔ وہ جانتی تھیں کہ جویریہ کا یہاں ٹرانسفر ہوا ہے اور یہ بھی جانتی تھیں وہ کسی کرائے کے گھر پر رہ رہی تھی اسی لیے ابھی یہاں اسے دیکھ کر تھوڑا حیرت کا شکار ہوئیں۔۔

“آئو جویریہ کیسی ہو؟؟" انہوں نے نہایت ہی نرمی سے پوچھا۔ جویریہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اندر آئی۔

“میں بلکل ٹھیک خالہ۔۔آپ سب یہاں؟" وہ آمنہ بیگم کے گلے لگتے بولی۔ پھر کنزہ کے قریب گئ اس کی گود میں بچہ سو رہا تھا اس لیے وہ اٹھ نہیں سکی تبھی جویریہ جھک کر اس کے گلے لگی۔

“عالیان کا نکاح ہے نا کل بس اس میں شرکت کرنے کے لیے آئے ہیں۔۔ تم بتائو جاب کیسی چل رہی ہے؟" آمنہ بیگم دوبارہ بیٹھتے ہوئے بولیں۔ ان چار سالوں میں ان کا رویہ جویریہ سے کافی بدل گیا تھا وہ اب اس سے سختی سے بات نہیں کرتی تھیں۔

“جاب تو بہت اچھی چل رہی ہے۔ (کھانسی۔ ) اچھا لگا آپ لوگوں کو دیکھ کر۔۔"وہ ان کے سامنے کھڑے کھڑے ہی بول رہی تھی۔ اس کے کپڑے اور بال بھی کافی بھیگے ہوئے تھے۔۔

“او لگتا ہے تمہیں ٹھنڈ لگ گئ ہے جائو بچے تم آرام کر لو۔ ہم صبح بات کر لیں گے۔۔"آمنہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو جویریہ سر اثبات میں ہلاتی چلی گئ۔ اس کے جانے کے فوراً بعد وہ کبیر کی طرف گھومیں جو اتنی دیر سے خاموش ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کبیر نے ان کی نظروں کی تپش محسوس کی اور پھر ان کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس سے پہلے وہ سوال کرتیں اس نے جواب دینے کے لیے خود کو تیار کر لیا۔۔

“اس کے گھر چور آگئے تھے۔ بہت ڈری ہوئی تھی اسی لیے میں یہیں لے آیا۔۔" آمنہ بیگم کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔ اب جا کر انہیں تھوڑا اطمینان ہوا۔

“اچھا چھوڑو سب۔۔ تم بتائو وہ کیسی ہے؟؟" ان کے اس سوال پر کبیر ہلکا سا مسکرایا۔

“ویسی ہی ہے ہمیشہ کی طرح خوبصورت۔۔"

“اونہوں۔۔ خیال کر لو میں بھی یہی ہوں۔۔" کنزہ نے سر تھوڑا آگے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور اگلے ہی لمحے تینوں ہنس پڑے۔

“جب سے جہانگیر نے مجھے سب بتایا ہے نا یقین کرو تب سے میں اس سے ملنے کے لیے بےتاب ہوں۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ ناصر صاحب کی بھتیجی ہے۔۔" وہ جو تیز تیز بول رہی تھیں یکدم خاموش سی ہو گئیں۔ کبیرنے فوراً گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔۔"کتنی قریب تھی وہ تمہارے اور تمہیں کیسے معلوم نہ ہوا کبیر۔۔"ان کی آواز میں اب کی بار افسوس تھا۔ کبیر کے کندھے یکدم ڈھیلے پڑے۔۔

“میں نے ہی کوشش نہیں کی موم۔ ورنہ وہ مجھ سے اتنے سال دور نہ رہتی۔۔" اس نے گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا۔۔

“چلو شکر ہے اب تو سب ٹھیک ہے۔ ہر کام کا وقت ہوتا ہے۔ تم دونوں کے نصیب میں اتنی جدائی لکھی تھی۔۔" پھر پورے لونگ روم میں خاموشی کی تلخی سی گھل گئی۔ کنزہ نے باری باری دونوں کے اترے ہوئے چہروں کو دیکھا۔۔

“ماں جی۔۔ جو لاہور سے لائی ہیں کبیر کو وہ تو دکھائیں۔۔" دونوں کے چہروں پر افسردگی دیکھ کر کنزہ نے فوراً کچھ ایسا یاد کرایا جس سے آمنہ بیگم کے چہرے پر بہار سی آئی۔۔

“اچھا یاد کرایا۔۔ ابھی دکھاتی ہوں۔۔"وہ اب سامنے میز پر رکھے بیگ میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔ کبیر بس سوالیہ نظروں سے ان کے بیگ کے اندرحرکت کرتے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔ ناجانے وہ کیا لائی تھیں؟؟

●●●●●●●●●●●●●●

موم اور بھابھی سے ملنے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ انھی کے پاس بیٹھا رہتا اگر یہ وقت فرہاد کے میسج کرنے کے نہ ہوتا۔ اس دن کے بعد سے وہ اس کے اگلے پیغام کا منتظر تھا لیکن اس کا کوئی پیغام نہیں آیا۔ ایک طرف وہ اس کے لیے پریشان بھی ہو رہا تھا ناجانے کیا ہوا ہوگا جو وہ کوئی رابطہ نہیں کر رہا۔ کل عالیان کا نکاح بھی ہونا تھا اس حساب سے اب تک تو فرہاد کو میسج کر دینا چاہیے تھا۔ بل آخر سوچوں میں غرق وہ بیڈ کی پائینتی پر ہی بیٹھ گیا۔ تبھی اس کے ہاتھ میں پکڑے فون کی بیپ بجی۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا اور تیزی سے فون سامنے کر کے اسکرین آن کی۔ صد شکر فرہاد کا وائس میسج آہی گیا۔۔

“چلو یعنی یہ زندہ تو ہے۔۔" پرسکون مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس نے وائس میسج چلا دیا۔

“پہلے تو معذرت سائیکو پیتھ لیکن میں بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔" کبیر کے ماتھے پر بل پڑنے لگے۔۔ "یہ ظفر تو مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتا۔ اس کا بس چلے تو رات کو کمرے میں بھی مجھے ساتھ لے جائے۔ مجھے پکا یقین ہے اس کے وماغ میں یہی گیم ہے کہ جیسے ہی اسے اس کا پرانا گارڈ واپس ملے گا یہ میرا کام تمام کر دے گا جو اسے کبھی نہیں ملے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے دماغ میں کوئی بھی پلاننگ نہیں ہے۔۔ ہاں ہاں جانتا ہوں کل عالیان کا نکاح ہے اور اس سے پہلے ہمیں سب کرنا تھا مگر اب تو مجھے بہت مشکل لگ رہا ہے۔ اگر اسے کل کی خبر ہو گئ تو سب تباہ کر دے گا۔ اب تم اور عالیان ہی کچھ کر سکتے ہو یار کچھ بھی کرو بس میں مزید اس پاگل کا گارڈ نہیں بنے رہنا چاہتا۔ مجھ سے یہ بلکل برداشت نہیں ہوتا پلیز کبیر اپنا دماغ چلائو میں بھی سوچ سوچ کر مر رہا ہوں۔۔" آواز آنا بند ہو گئ۔ کبیر نے سر اٹھا کر گہرا سانس لیا۔ وہ اس کے آسرے پر بیٹھا تھا اور اب جب کل نکاح ہونے والا تھا اس نے سارا ملبہ یکدم ہی اس کے سر ڈال دیا۔۔ پائینتی سے اٹھ کر اس نے کوفت سے فون بیڈ پر پھینکا اور کمرے میں آگے پیچھے چکر کاٹنے لگا۔

“افف اتنی جلدی میں کیسے کچھ سوچوں؟؟" اس کا سر اس کے ہاتھوں میں تھا اور آنکھیں بند تھیں۔"کچھ بھی ہو جائے کل عالیان کا نکاح کسی صورت برباد نہیں ہونا چاہیے کبیر کچھ سوچ کچھ تو سوچ۔۔" تبھی اس نے آنکھیں کھولیں یوں جیسے دماغ میں کوئی منصوبہ بننے لگا ہو۔

“وین کا نمبر۔۔ ظفر کا اڈہ۔۔ ڈرگز۔۔ اسمگلرز۔۔ اور۔۔ فرہاد کے بندے۔۔" کڑیاں جوڑ جوڑ کر بلآخر منصوبہ بن گیا۔ کبیر برق رفتاری سے بیڈ کی طرف بھاگا۔ فون اٹھایا۔۔ نمبر ملایا۔۔اور مطمئن سا فون کان سے لگائے کھڑا ہو گیا۔ رنگ جا رہی تھی۔

●●●●●●●●●●●●●

باہر فجر کی آذان ہو رہی تھی اور ظفر جہانزیب اوندھے منہ بیہوشی کی نیند سو رہا رہا تھا اور یہ نیند اسی طرح برقرار رہتی اگر اس کے فون کی بیل اس کی نیند میں خلل کی وجہ نہ بنتی۔ فون ہنوز بج رہا تھا اور کافی دیر سے بج رہا تھا جس کی آواز پر وہ کبھی منہ دوسری طرف کر لیتا کبھی کروٹ ہی بدل لیتا یا تکیہ اپنے کانوں پر رکھ دیتا۔ فون کی دوسری طرف انسان نے بھی قسم کھا رکھی تھی آج اسے تو جگا کر ہی رہے گا۔ اب تو حد ہو گئ تھی ظفر جھنجلا کر آخر کار اٹھ ہی گیا۔ منہ میں بڑ بڑ کرتے اس نے سائڈ ٹیبل سے فون اٹھایا اور نمبر دیکھے بغیر کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا۔۔

“کون بکواس کر رہا ہے جلدی کرو۔۔" اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے کوفت سے کہا۔

“سر میں بات کر رہا ہوں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے۔۔" ظفر واسیاں لیتے لیتے یکدم سیدھا ہوا ہو۔ آواز ان میں سے ایک لڑکے کی تھی جو اسے ڈرگز پہنچاتا تھا۔

“آگے بھی بکو۔۔"

“دراصل یہ بات کال کی نہیں ہے۔ اس میں بہت خطرہ ہے۔ آپ کو اسی جگہ آنا پڑے گا۔ بات بہت ضروری ہے۔۔" ظفر کی پیشانی کے بل واضح ہونے لگے۔

“دماغ خراب ہو گیا ہے۔ کتنی دفعہ کہا ہے مجھ سے مہینے کے مہینے ملا کرو۔ ابھی کچھ دن پہلے تو ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ مشکل ہے میں نہیں آسکتا۔۔" وہ صاف مکر گیا۔

“ٹھیک ہے آپ کی مرضی اتنا بتا دوں جتنا نقصان ہمارا ہے اس سے کہیں زیادہ یہ نقصان آپ کا بھی ہے۔" اس نے آنکھیں بند کر کے کنپٹی پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے مسلنے لگا۔

“آتا ہوں۔۔"کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔ موبائل پھینکنے کے انداز میں اپنے ساتھ بیڈ پر ہی رکھا اور دونوں ہاتھوں سے کنپٹی مسلنے لگا۔ دماغ پر صرف ایک سوچ سوار تھی آخر مسئلہ تھا تو تھا کیا؟؟

تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ پینٹ شرٹ پہنے اپنے عالیشان گھر کی سیڑھیاں اتر رہا تھا ۔ سامنے ہی فرہاد بالوں کی پونی بنائے ایک گارڈ کے حلیے میں مکمل تیار کھڑا دکھائی دے رہا تھا۔ ظفر نے اسے کال پر پہلے ہی بتا دیا تھا کہ انہیں جانا ہے۔۔

“سر آپ کہاں جا رہے ہیں؟" سیڑھیاں اتر کر تھوڑا آگے پہنچتے ہی اس کے دوسرے گارڈ نے پیچھے کھڑے کھڑے پوچھا۔ ظفر نے ضبط سے آنکھیں بند کیں اور اس کی طرف گھوما۔۔

"جہنم میں ۔۔جائو گے تم بھی؟ اپنے کام سے کام رکھا کرو۔ گارڈ ہو نا تو گارڈ بن کے رہو میرا باپ بننے کی کوشش مت کرو۔۔" کمر پر دونوں ہاتھ باندھے وہ ایک قدم اس کے قریب گیا اور طیش سے اس کی جھکی ہوئی نظروں کو دیکھنے لگا۔۔ "اگر میرا پیچھا کرنے کی کوشش بھی کی یا میری خبریں حیدرآباد تک پہنچائیں تو تم مجھے ابھی ٹھیک طرح سے جانتے نہیں ہو۔۔" گارڈ نے نظریں اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ "میرے ساتھ میرا پرسنل گارڈ فرہاد ہے۔۔ گوٹ اٹ؟" گارڈ نے جھکے ہوئے سر کو اثبات میں جنبش دی۔ اور ظفر واپس پلٹ گیا۔ وہ آگے تھا اور فرہاد میر اس کے پیچھے۔۔

●●●●●●●●●●●●●●●

فرہاد پچھلی بار کی طرح اس بار بھی گاڑی کے ساتھ کھڑا سامنے کمر پر ہاتھ باندھے چکر کاٹتے ظفر کو دیکھ رہا تھا۔ افق پر ابھی مکمل روشنی نہیں ہوئی تھی۔ پرانے کنٹینرز ویسے ہی پڑے تھے۔ جب وہ پہلی بار ظفرکے ساتھ یہاں آیا تھا تب ظفر کے چہرے پر عجیب سی خوشی تھی لیکن اس بار اس کے چہرے کے بگڑے تاثرات یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ کچھ نا کچھ تو ایسا ہوا ہے جس نے ظفر کو بےچین کر رکھا ہے۔

بلآخرجس وین کے آنےکا ظفر کو بےصبری سے انتظار تھا وہ فرہاد کے ساتھ سے ہوتی ظفر تک جا کر رکی۔ ظفر کے کمر پر بندھے ہاتھ کھل گئے۔زوردار آواز سے وین کا دروازہ کھلا اور وہی دونوں آدمی وین سے باہر نکلتے دکھائی دیے۔ ظفر نے قریب جانے کے لیے ایک قدم ہی اٹھایا اور پھر رک گیا۔ ان دونوں آدمیوں کے پیچھے دو بندے اور نکلتے دکھائی دیے۔ فرہاد نے دور سے آنکھیں چھوٹی کیے اب ان دو نقاب پوش آدمیوں کو دیکھا جن کے آدھے چہرے اریبک رومال سے ڈھکے ہوئے تھے۔ کپڑوں میں انہوں نے بھی ڈھیلی ڈھالی قمیض شلوار زیب تن کر رکھی تھی۔

"آپ کو یوں صبح صبح تکلیف دینے کے لیے معذرت چاہتے ہیں سر مگر۔۔" اس سے پہلے ظفر ان لڑکوں کا پوچھتا اس کا اپنا بندہ خود ہی بتانے لگا۔ "افغانستان کا جو گینگ ہمیں ڈرگز پہنچاتا تھا اس نے اب کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔۔" ظفر کی آنکھیں اب کی بات حیرت سے پوری کھلیں کوئی بم تھا جو سیدھا اس کے سر پر آکر پھٹا تھا۔وہ تو کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔۔

"ہم نے ان سے بہت منتیں کیں لیکن وہ ہماری بات نہیں سننا چاہتے اسی لیے افغانستان سے اپنے ان دو بندوں کو بھیج دیا ہے کہ یہ خود آپ کو سب صاف صاف بتا دیں۔۔" اس آدمی نے بولتے ہوئے اپنے ساتھ آئے دو نئے لڑکوں کی طرف اشارہ کیا۔ ظفر نے باری باری دونوں کے چھپے ہوئے چہروں کو دیکھا جس میں صرف آنکھیں واضح تھیں۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اپنے باس کو سمجھا دو ظفر کے ساتھ ڈیل اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو گی۔۔"وہ تنبیہی انداز سے اپنے الٹے ہاتھ کی طرف کھڑے نقاب پوش لڑکے سے کہہ رہا تھا جو اسے تیوڑیاں چڑھائے گھورے جا رہا تھا۔۔

"مجھ سے بات کرو۔۔" آواز دوسرے نقاب پوش کی تھی جس کا لہجہ پٹھانوں والا تھا۔ظفر نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور کچھ پل گھور کر دیکھتا رہا۔

"صاحب کو اب تمہارے ساتھ کام نہیں کرنا پرافٹ بہت کم ملتا ہے ہمیں۔۔" اس بات پر ظفر نے ضبط سے آنکھیں میچ کر اسے دیکھا۔

"اب تک تو ایسی کوئی بات نہیں کی تھی تمہارے صاحب نے یہ اچانک سے اسے پرافٹ کم کیوں لگنے لگا؟؟" اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آگے بڑھ کر اس نقاب پوش کا چہرہ بگاڑ دے۔

"جو بھی کہنا ہے صاحب سے کہہ دینا ہم بس یہاں تمہیں آگاہ کرنے آئے تھے۔۔" نقاب پوش نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ظفر نے ضبط سے سر اثبات میں ہلا کر پیچھے کھڑے اپنے گارڈ فرہاد میر کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے فرہاد کو آنکھوں سے اشارہ کیا جیسے اس سے کہہ رہا ہو تیار رہنا۔ فرہاد نے سر کو تھوڑا خم دیتے ہوئے اسے اشارہ دیا کہ وہ تیار ہے۔ ہاتھ پیچھے لے جا کر اس نے بڑی مہارت سے اپنی گن لوڈ کی اور پھر ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیے۔ جو نقاب پوش ظفر سے بات کر رہا تھا اس نے بات کرتے کرتے گردن بائیں طرف گھما کر اس کے گارڈ کو دیکھا پھر ظفر کو وہ دونوں کے اشارے سمجھ گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ دونوں مارے جاتے اس نے اپنے چہرے پر سے نقاب ہٹا دیا۔ ظفر کے لیے چہرہ انجان تھا جبکہ فرہاد کے لیے اگلے لمحے زمین پر کھڑا ہونا جیسے مشکل ہو گیا تھا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر سامنے کھڑے اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا جس نے ابھی ابھی چہرے پر سے نقاب ہٹا کر اسے حیران بلکہ بہت حیران کر دیا تھا۔ صد شکر اس نے گولی نہیں چلائی۔

"زیادہ ہوشیاری مت کرو ظفر ہم بات کرنے آئے ہیں۔۔" اس کے اس انداز پر ظفر مکمل طور پر اس کی طرف گھوم گیا۔پیچھے کھڑے نقاب پوش نے اپنی جیب سے ایک رومال برآمد کیا اور ظفر کی پشت کو دیکھتے دیکھتے چالاکی سے آگے بڑھا۔ آنکھ سے اپنے ساتھ کھڑے آدمیوں کو اشارہ کیا جنہوں نے موقعے پر ظفر کو دونوں بازوؤں سے جکڑ لیا۔ سب آناً فاناً ہوا تھا۔ اس سے پہلے ظفر کچھ بولتا کوئی مزاحمت کرتا نقاب پوش نے پیچھے سے ہی اس کی گردن جکڑ کر اس کے ناک پر رومال رکھ دیا جس کی بو ناقابلِ برداشت تھی اور اس کے نتھنوں میں جاتے ہی اسے بیہوش کر گئ۔۔ فرہاد نے گن جیب میں ڈالی اور بھاگتے ہوئے ان کے قریب گیا۔

"کام ہو گیا۔۔" دوسرے لڑکے نے بھی رومال چہرے پر سے اتار کر پھینک دیا۔ فرہاد نے باری باری دونوں کو دیکھا وہ ہنس رہے تھے خود کو گیم چینجر سمجھ رہے تھے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا جیب سے گن نکالے اور ان کے بھیجے اڑا دے۔

"کیا ہوا ہے سانولے بھالو اتنا کیوں گھور رہے ہو؟؟" کبیر نے استہزائیہ انداز سے کہتے ہوئے فرہاد کا لال بھبو کا چہرہ دیکھا۔

"ہضم نہیں ہو رہا کہ ہم اس سے سے زیادہ تیز کیسے نکلے؟" عالیان کہتے ہوئے گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور زمین میں ڈھیر ہوئے ظفر کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔ ناجانے خود کو کیا سمجھتا تھا تیس مار خان؟ ہونہہ۔۔

"تم لوگ جائو۔۔ کام ختم۔۔" کبیر نے آگے بڑھ کر ان آدمیوں سے کہا جن کے ڈر کے مارے چہرے سفید پڑ رہے تھے۔ سر اثبات میں ہلاتے وہ تیزی سے اپنی وین میں بیٹھے اور اگلے ہی لمحے وین وہاں سے لے گئے۔

"یہ اسمگلرز تھے کبیر تم نے انہیں کیوں جانے دیا؟" فرہاد کو واقعی اس حرکت پر غصہ آرہا تھا۔ کبیر نے شہد رنگ آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کس نے کہا میں نے انہیں جانے دیا؟" اس قدر سکون پر فرہاد نے عجیب طرح سے اسے دیکھا کیونکہ بات تو اس کے سر کے اوپر سے گزر گئ تھی۔ کبیر نے اس الجھے ہوئے لڑکے کے چہرے پر سے نظریں ہٹا لیں اس کے سوالوں کو جواب دینے کے بجائے اسے اور بھی بہت کام تھے۔

●●●●●●●●●●●●●●

"شکر جان چھوٹی۔۔ اب یہ بتائو افغانستان والے باس کو کیا کہیں گے؟ " وین نے ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا تبھی اس آدمی نے ڈرائیو کرتے اپنے ساتھی سے پوچھا۔

"جہاں تک مجھے لگتا ہے یہ لوگ ظفر کے کوئی بہت ہی پرانے دشمن ہیں اتنی آسانی سے اسے چھوڑیں گے نہیں۔۔" وہ پل بھر کو رکا شاید اس کا دماغ کچھ سوچنے میں مصروف تھا۔ "بھاڑ میں گیا یار ہم نہیں جانتے ظفر کہاں گیا نہ ہی اس نے ہمیں کچھ بتایا ہے سمجھے تم؟؟" اس نے کوفت سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔

"بلکل ہم کچھ نہیں جانتے۔۔" ساتھ والے نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جیب سے فون نکالا اور اس میں مصروف ہو گیا۔۔ہر معاملے سے انجان بن جانا ہی انہیں سب سے بہتر حل لگا۔۔ ابھی وہ فون میں ہی محو تھا کہ یکدم زوردار جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا۔۔

"کیا ہو گیا ہے باولا ہو گیا کیا؟؟ اتنی زور کی بریک۔۔" سر اٹھا کر اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے اپنے بندے کو دیکھا جو پھٹی آنکھوں سے سامنے دیکھے جا رہا تھا یوں جیسے کوئی بھوت یا موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو۔ اس آدمی نے اس کی نظروں کا سفر کرتےہوئے سامنے دیکھا تو اس کا بھی کوئی اپنے ساتھی جیسا حال ہو گیا تھا۔۔

سامنے ایک پولیس موبائل کھڑی تھی اور سیاہ وردی پہنے پولیس اہلکار بڑے ہی پرسکون انداز میں ان کی طرف آرہے تھے۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ اپنے آنے جانے کے لیے یہی راستہ استعمال کرتے تھے اور یہاں پولیس کو جب تک بلایا نہ جائے وہ بھول کر بھی نہیں آتی۔۔ یعنی ان کے ساتھ گیم ہو گئ تھی۔۔۔

●●●●●●●●●●●●●

مربع نما کمرا اس وقت دائمی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے بلب چھت سے لٹک رہے تھے لیکن کمرہ وسیع ہونے کی وجہ سے ان کی روشنی پورے کمرے میں پھیلنے سے قاصر تھی۔ درمیان میں کرسی پر ایک وجود بیہوش بندھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ اس کی پیٹھ پر کرسی کی ٹیک سے بندھے ہوئے تھے جبکہ پیر زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ یہ کمرہ بلکل نیا کمرہ تھا جو انہوں نے خاص ظفر جہانزیب کی مہمان نوازی کے لیے چنا تھا۔ کمرے میں صرف وہی نہیں تھا وہ تینوں بھی تھے ٹھیک اس کے سامنے تھوڑا دور قطار میں لگی تین کرسیوں میں ایک ہی انداز میں بیٹھے تھے۔ درمیان میں فرہاد میر تھا اور اس کے دائیں بائیں عالیان اور کبیر۔۔تینوں کی کرسیوں کا رخ دوسری طرف تھا مگر وہ تینوں ہی کرسی کی ٹیک پر دونوں بازو پھیلائے ان پر ٹھوڑی ٹکائے دائیں بائیں سے ٹانگیں نکالے سرد نگاہوں سے سامنے پڑے نڈھال ظفر کو دیکھ رہے تھے۔

“دل تو کر رہا ہے اس کے چہرے کا نقشہ بگاڑ دوں۔۔" عالیان کو اس کا صاف ستھرا زخموں سے عاری چہرہ سخت زہر لگ رہا تھا۔۔

“پرسکون ہو جائو عالیان۔۔" فرہاد نے جیسے نرمی اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

“یہ نیک کام تم کرو گے یا میں؟ کیونکہ اس کی شکل مجھ سے بھی برداشت نہیں ہو رہی۔۔" کبیر کی آواز پر فرہاد نے گردن موڑ کر پہلے اسے دیکھا پھر عالیان کو۔۔ وہ کیا تھا ان کا استاد اور وہ ٹھہرے اس کے شاگرد۔ فرہاد نے سر نفی میں ہلایا۔۔ غلط وہ دونوں اس کے بھی باپ تھے جن کے سروں پر ہر وقت خون سوار رہتا ہے۔ عالیان کو یاد آیا اس کی جیب میں کچھ تھا۔جسے نکال کر اس نے سامنے کیا۔ ایک سیاہ رنگ کی پسٹل۔ وہ اب بغور اسے آگے پیچھے کر کے دیکھ رہا تھا۔ کبیر اور فرہاد نے بیک وقت گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

“جانتے ہو نا عام شہری کے پاس گنز ہونا وہ بھی بنا لائیسنس کے ال لیگل ہے۔۔" کبیر کے چہرے پر ناگواری تھی اور تیوڑیاں چڑھائے اسے گھور بھی رہا تھا۔ یہی کچھ حال فرہاد کا بھی تھا۔

“جانتا ہوں۔۔ ویسے بھی یہ لیگل اور ال لیگل کے قانون تم اسے سکھائو کیونکہ یہ اس کی جیب سے برآمد ہوا ہے۔۔" ظفر کے بیہوش وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ "میں اسے سکھاتا ہوں کہ پسٹل جیب میں رکھنے کے لیے نہیں ہوتی۔۔" وہ اس کے قریب جاتے ہوئے بول رہا تھا۔ کبیر فوراً اٹھ کر اس کے پیچھے گیا اس بار فرہاد کچھ نہیں بولا نہ اپنی جگہ سے اٹھا کیونکہ وہ جانتا تھا سننی تو اس کی کسی نے تھی نہیں۔

"آج تمہارا نکاح ہے اور تم لوگوں کو اغوا کرتے پھر رہے ہو۔۔ شرم آرہی ہے تمہیں؟؟" کبیر نے بڑی سنجیدگی سے اسے طنز کا نشانہ بنایا تھا لیکن وہ بھی جانتا تھا کہ کبیر اس سے مذاق کر رہا ہے۔

“آرہی ہے۔۔" ڈھٹائی سے جواب دیتے ہوئے اس نے پسٹل کی نوک ظفر کی ٹھوڑی پر رکھ کر اس کا چہرہ اٹھایا اور کچھ لمحے اپنی سیاہ آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا۔ ایک وقت تھا جب اس کی جگہ عالیان ایسے بندھا ہوا بےبس لگ رہا تھا۔ اس نے کتنا ٹارچر کیا تھا اسے اور آج وقت عالیان کے ہاتھ میں تھا۔ آج ظفر اس کے سامنے بےبس اور بےہوش بندھا ہوا تھا۔

“بڑے ہی نیک کام سے شروعات کرنے لگے ہو نئی زندگی کی۔۔" اس کے طنزیہ انداز پر عالیان نے ایک گہرا سانس بھرا۔۔

“یار نہیں مار رہا میں اسے کیوں بار بار غیرت یاد دلا رہے ہو؟؟" خفگی سے کہتے اس نے پسٹل کی نوک اس کی ٹھوڑی پر سے ہٹا دی۔ کبیر نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ اس مافیا مین سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی تھی۔ "کیا ہوا ہے فرہاد استاد ایسے کیوں خاموش سے بیٹھے ہو۔ دیکھو یار سب برداشت ہو جائے گا تمہارے منہ پر تالے لگے ہوں یہ برداشت نہیں ہوتا۔۔" عالیان مسکراتے ہوئے فرہاد کے قریب آکر اسے تنگ کرنے لگا۔ فرہاد نے ناگواری سے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا۔۔

“مجھے کچھ بتائو گے؟ یا میں بیچ میں سے نکل ہی جاتا ہوں۔ جب تم دونوں نے ہی سب مل کر کرنا ہے تو کرو۔ میں چلا جاتا ہوں۔۔" وہ خفگی سے کہتے ہوئے کرسی دھکیلتا اٹھا کھڑا ہوا۔ عالیان تیزی سے اس کے قریب آیا جبکہ کبیر اس کی یہ بےبس اور ناراض شکل دیکھ کر ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔۔

“کبیر یار بتا دو نا اس کو ہم نے سب کیسے کیا۔۔ بچہ ناراض ہو رہا ہے۔۔" عالیان نے اس کے کندھے پر کہنی ٹکاتے ہوئے کبیر سے کہا جو اب تک مسکرا رہا تھا۔

“بتاتا ہوں۔۔" وہ قدم اٹھاتا ان دونوں کے قریب آیا۔۔ "جب تم نے ہار مان لی تھی تب میں نے اپنے دماغ کا استعمال کر کے زرک کو کال ملائی۔۔" وہ فرہاد کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ زرک فرہاد کا بہت قابل بندہ تھا جس نے ہر بار ان کا بہت ساتھ دیا تھا۔ "اسے وین کا نمبر بھیج کر ان لوگوں کا پتہ کروانے کو کہا جو اس نے بہت ہی کم وقت میں کر دکھایا۔۔" وہ اب کی بار چپ ہوا تو عالیان اس کے دوسرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولنے لگا۔

“اس کے بعد کبیر نے مجھے کال کر کے سب سمجھایا۔ زرک اپنے ساتھ کچھ بندوں کو لیے ان سمگلر تک پہنچ کر انہیں پکڑ چکا تھا۔ ہم دونوں نے وہاں جا کر اپنا پرانا طریقہ کاف استعمال کیا۔ انہیں ٹارچر کیا دھمکیاں دیں اور وعدہ کیا کہ اگر وہ ظفر کو ہم تک پہنچاتے ہیں تو ہم انہیں جانے دیں گے۔۔" عالیان نے رک کر کبیر کو دیکھا۔

“اور انہوں نے مان لیا۔ باقی سب کچھ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔" کبیر چپ ہوا تو فرہاد نے گہرا سانس بھرا۔

“تم دونوں مجھ سے بھی تیز ہو۔۔" اس نے جیسے اعتراف کیا تھا۔

“مانتے ہو نا۔۔" وہ دونوں بیک وقت ساتھ بولے تھے تو فرہاد نے ہنستے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔جس پر ان دونوں کا قہقہہ بلند ہوا۔

●●●●●●●●●●●●●●

آج نکاح کا دن تھا عالیان اور ردا کے نکاح کا دن۔ سادہ سی قمیض شلوار میں ملبوس لڑکی اس وقت پارلر میں کھڑی مسلسل فون کان سے لگائے اضطراب کے عالم میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔ رنگ ہنوز جا رہی تھی مگر دوسری طرف سے کوئی کال اٹھانے کی زحمت کر ہی نہیں رہا تھا۔ رک رک کر وہ سامنے شیشوں سےبھری دیوار میں اپنا زرد پڑتا چہرہ بھی دیکھ رہی تھی۔ باقی سب کو عدم کرتے وہ بس اپنی شکل دیکھ رہی تھی جو رونے والی ہو گئ تھی۔ آس پاس کیا ہو رہا ہے ردا کو کیا پرواہ۔ اسے اگر کسی بات کی پرواہ تھی تو بس یہ کہ آپی اس کے ساتھ نہیں تھی اور تو اور آج کے دن جب اسے سب سے زیادہ ان کی ضرورت تھی انہوں نے اسے مناہل کے رحم و کرم پر چھوڑدیا تھا اوربےفکری کی انتہا تو دیکھو وہ اس کی کال بھی نہیں اٹھا رہی تھیں۔ اپنے چہرے پر سے نظریں ہٹا کر اس نے کوفت سے گہرا سانس بھرا۔ گلے میں کچھ اٹک گیا تھا۔ آنسوئوں کا گولہ جو کبھی بھی آنکھوں سےجا رہی ہو سکتا تھا۔ اس سے پہلے وہ سارا ضبط ہار جاتی۔ اس کے کانوں سے انابیہ کی آواز ٹکرائی۔

"کچھ تو خدا کا خوف کریں آپی۔ یہاں میرا کیا حال ہوا جا رہا ہے اور آپ نے تو مجھے میرے حال پر تنہا چھوڑ دینے کی قسم کھا رکھی ہے نا۔۔" اس کے اس طرح سے گلہ کرنے پر انابیہ نے کھڑےکھڑے کمرے میں گہرا سانس لیا۔ عام سے کپڑے، کیچر میں مقید بال اور اس کی تھکی ہوئی شکل بتا رہی تھی کہ وہ کس قدر کاموں میں مصروف تھی۔

"ردا یار کیا ہو گیا ہے؟ بزی ہوں بہت نہیں اٹھا سکی کال۔۔" اس نے پریشانی میں اپنی پیشانی ملتے ہوئے کہا۔

"تو کیا ہو جاتا تھوڑی دیر یہاں آجاتیں۔"

"منو کو بھیجا تو ہے تمہارے ساتھ اب کیا مسئلہ ہے؟؟" ردا نے چلتے قدموں سے رک کر مناہل کو دیکھا جو صوفے پر بیٹھی سارا سامان کھول کھول کر دیکھ رہی تھی۔

"ہاں اسے دیکھ دیکھ کر تو میں اور نروس ہو رہی ہوں۔۔ آپی یار مجھے نہیں کرنا نکاح۔۔" وہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی۔۔" مجھے نہیں پتہ میں گھر آرہی ہوں۔۔" رونا تو انابیہ کو بھی آرہا تھا مگر اس نے اپنے آنسوؤں پر ضبط کر رکھا تھا۔ دل صبح سے بس ایک گلہ کر رہا تھا۔ کہ کاش وہ سب سے بڑی بہن نہ ہوتی اور اگر اب بڑی تھی بھی تو ماما جان ساتھ ہوتیں۔۔

"ردا پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہاں اتنے مہمان اکھٹے ہو جائیں گے مجھے ان سب کو بھی دیکھنا ہے گھر کو بھی دیکھنا ہے خود بھی تیار ہونا ہے۔ رونا مجھے بھی آرہا ہے لیکن کیا کروں۔۔" تھوڑی ہی دیر میں ردا کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ اس روتی ہوئی لڑکی کو دیکھتے ہی میک اپ آرٹسٹ اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔۔

"میم۔ آپ پلیز آجائیں تاکہ ہم کام شروع کرسکیں ورنہ دیر ہو جائے گی۔" ردا نے فوراً سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑی اس عورت کو دیکھا جو بڑے ہی عاجزانہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔

"پارلر والی کو فون دو جلدی کرو۔۔" اس کے حکم پر ردا نے فون میک اپ آرٹسٹ کی طرف بڑھا دیا اور آنکھوں سے اشارہ کیا کہ بات کرو۔۔

"السلام علیکم۔ اگر یہ آپ کو زیادہ تنگ کرے نا آپ پلیزاس پر غصہ مت ہوئیے گا۔ یہ بس تھوڑی نروس ہو رہی ہے۔ آپ سمجھ رہی ہیں نا؟؟"

"وعلیکم السلام میم آپ بلکل بےفکر رہیں میں سمجھ سکتی ہوں۔۔" وہ بڑی ہی نرمی سے بولی تھی۔

"فون دیجئے گا اسے۔۔" ردا نے سر اٹھا کر دیکھا میک اپ آرٹسٹ اس کی طرف فون بڑھائے کھڑی تھی۔ اس نے آنسو پونچھتے فون اس کے ہاتھ سے اچک لیا۔

"میری بات سنو۔ چپ چاپ جا کر کرسی پر بیٹھ جائو۔۔ ٹائم بہت کم ہے میری جان۔ مجھے معاف کرنا میں نہیں آسکی تمہارے ساتھ۔۔ شاباش ان کو تنگ مت کرنا اچھے سے تیار ہو جائو کوئی ٹینشن والی بات ہی نہیں ہے سمجھ رہی ہو نا۔۔" بس اس کی نرمی ہی تو ردا کی کمزوری ہوتی تھی اور ناچاہتے ہوئے بھی اسے سارے ہتھیار گرا کر ضد چھوڑنی پڑ جاتی تھی۔

"اوکے۔۔" اس نے بمشکل ناک سے گیلی سانس کھینچتےہوئے تابعداری سے کہا۔ انابیہ اب مطمئن تھی اور جلدی میں نہ ہوتی تو شاید کال پر ہی رہتی مگر اسے بہت کام تھے سو اس نے کال کاٹ دی۔۔ ردا نے ایک نظر میک اپ آرٹسٹ کو دیکھا جو بڑے پیار سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی اور ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی مناہل کے پاس گئ۔

"میرا سوٹ دو۔۔" اس کی آواز پر مناہل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اس کا جوڑا اسے تھما دیا۔ اپنا جوڑا ہاتھ میں پکڑے ردا سیدھا واشروم میں چلی گئ۔

●●●●●●●●●●●●●

سر پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے وہ ابھی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اس کی نظر نیچے کام کرتے لڑکوں پر پڑی جو ریلنگ پر سرخ سرخ پھول لگا رہے تھے۔

"ارے ارے یہ کیا لال لال پھول لگا رہے ہیں آپ لوگ۔۔" سر پر ہاتھ مارتے وہ تیز تیز قدم لیتی نیچے آئی۔ ایونٹ پلانرز رک کر اب اسے دیکھ رہے تھے اور پھر اپنے لگائے ہوئے سرخ پھولوں کو جو ابھی انہوں نے تھوڑے سے ہی لگائے تھے۔

"بھائی رخصتی کا فنکشن تھوڑے نا ہے۔ نکاح ہے۔۔ باہر ساری ڈیکوریشن وائٹ تھیم کی ہے اندر آپ سرخ پھول لگا رہے ہیں کتنا آکورڈ لگے گا یہ۔ پلیز سفید پھول لگائیں یہاں بھی۔۔"غصے سے ان کو حکم دیتی وہ سیدھا لونگ روم میں چلی گئ۔ ایونٹ پلانرز نے عجیب نظروں سے اسے جاتے دیکھا ان کا کام ہے وہ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ ان کا ارادہ تھا ریلنگ پر وائٹ اور ریڈ روززکا کومبو زیادہ اچھا لگے گا لیکن یہاں کی مالکن کو سفید پھولوں سے شاید کچھ زیادہ ہی لگائو تھا۔ سر جھٹک کر انہوں نے سرخ پھول اتار کر سفید پھول لگانے شروع کر دیے۔

لونگ روم میں آتے ہی اس نے چاروں اطراف کا مختصر سا جائزہ لیا جو بلکل تیار اور صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا۔ شہناز گلدان میں سفید ٹیلوپس سجا رہی تھی۔ تازہ تازہ ٹیولپس کی مہک اس کے تنے ہوئے اعصاب کو سکون بخشنے لگی تھی۔ ایک دم سے جیسے ذہن کی ساری جھنجلاہٹ غائب ہی ہو گئ تھی۔ تبھی اسےاپنے عقب میں سے کسی کی آواز آئی۔

"انابیہ سنو۔۔" آواز پر وہ فوراً پیچھے گھومی۔ پینٹ شرٹ میں کھڑا لڑکا اس کا میٹر گھما گیا تھا۔

"تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے؟؟" وہ حیرت زدہ شکل لیے اسے دیکھے گئ جو مسلسل فون پر کچھ ٹائپنگ کر رہا تھا۔

"اہمم۔ میں جا ہی رہا ہوں بس کبیر کا ویٹ کر رہا ہوں اسی نے لے کر جانا ہے کہیں۔۔" مصروف انداز سے کہتے ہی اس نے فون پر سے نظریں اٹھا کر انابیہ کو دیکھا۔ "البتہ تم ایسے کیوں کھڑی ہو ماسی؟؟" ماسی کا سن کر انابیہ بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا اور کچھ کہہ ہی جاتی مگر پھر عالیان کی بات پر چپ ہو گئ۔۔

"کبیر کی فیملی آرہی ہے۔۔" بولتے بولتے اس نے سلائیدنگ ڈور سے باہر کھلتے گیٹ کو دیکھا جہاں سے ایک گاڑی اندر داخل ہوئی۔۔" بلکہ لو آگئ ہے۔۔" انابیہ فوراً ہڑبڑا گئ۔ اسے لگا ابھی کہ ابھی وہ لڑکھڑا کر گر جائے گی۔۔

"اتنی جلدی؟؟" گاڑی میں سے دو عورتوں کو نکلتا دیکھ کر انابیہ کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے۔

"آئو میرے ساتھ انہیں ریسیو کریں۔۔" عالیان تیزی سے کہتا باہر کی طرف بھاگا۔

"آ آ شہناز یہ سب چھوڑو چائے کا بندوبست کرو جلدی۔۔۔" حکم دیتے ہی وہ عالیان کے پیچھے بھاگی اور شہناز نے پھولوں کو چھوڑ کر کچن کا رخ کیا۔

ان کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی عالیان وہاں پہنچ چکا تھا۔ انابیہ کہیں اس کے پیچھے ہی تھی۔ حسن چچا ان کا سامان لے کر اندر جا رہے تھے۔ ان کے دروازے تک پہنچتے ہی عالیان نے خوش اسلوبی سےسلام کیا۔ آمنہ بیگم اور کنزہ بھابھی نے مسکراتے ہوئے اس کے سلام کا جواب دیا۔

“دیکھو کنزہ۔۔ ماشاءاللہ کتنا بڑا ہو گیا ہے۔ چھوٹا سا تھا جب میں پہلی بار جہانگیر صاحب کے ہمراہ کراچی ناصر بھائی سے ملنے آئی تھی۔۔" انہوں نے عالیان کو دیکھتے ہوئے کنزہ سے کہا جن کی گود میں ان کا بیٹا ان کے کندھے پر سر ٹکائے سو رہا تھا۔

“بس دیکھ لیں آنٹی وقت ظالم کتنی جلدی گزر جاتا ہے۔۔" وہ ابھی بولا ہی تھا کہ اس کے موبائل پر کبیر کی کال آنے لگی۔۔ "ایکسکیوز می۔۔" معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہی اس نے کال اٹینڈ کی۔۔ "ہاں کہاں ہو؟؟ اوکے میں آتا ہوں۔۔" کال کاٹ کر اس نے موبائل پینٹ کی جیب میں ڈالا۔۔ "ارے آپ لوگ اندر تو آئیں نا۔۔ انابیہ۔۔" اس نے مڑ کر خفگی سے انابیہ کو دیکھا جو کب سے ڈری سہمی اس کے پیچھے کھڑی تھی۔۔"اندر لے کر جائو انہیں۔۔" کہتے ہی وہ مسکرا کر وہاں سے چلا گیا جبکہ آمنہ بیگم تو اسے دیکھتے ہی جیسے اس پر سے نظریں ہٹانا بھول گئیں۔۔ یہ تھی وہ لڑکی جس کی جدائی میں ان کا بیٹا ساڑھے چار سال تڑپتا رہا تھا۔ کیسے نہ تڑپتا اس کی ماں تو خود چند سیکنڈز میں اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔۔ انہوں نے آگے بڑھ کر نرمی سے انابیہ کو گلے لگایا۔ ان کے حصار میں جاتے ہی انابیہ ہل نہیں سکی کیونکہ یہ ایک ماں کا حصار تھا جس سے وہ کتنے سالوں محروم رہی تھی۔ ان سے اسے اپنی ماں کی خوشبو آرہی تھی۔ بےساختہ اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔

“کتنی خوبصورت ہو تم۔ کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے۔۔ دیکھ رہی ہو کنزہ میرے کبیر کی پسند کتنی پیاری ہے۔۔" وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولیں۔ انابیہ جھینپ کر مسکرا دی۔ ایک لمحے میں ہی اس کے گال سرخ پڑنے لگے تھے۔

“آپ لوگ پلیز اندر آئیں۔۔" اس کے درخواست کرنے پر آمنہ اور کنزہ اس کے ساتھ لونگ روم میں چلی گئیں۔

"ماشاءاللہ سجاوٹ کتنی پیاری کی ہے تم لوگوں نے۔۔ ویسے بیٹی تمہیں برا تو نہیں لگا ہم صبح ہی صبح آگئے؟؟"انہوں نے اندر پہنچتے ہی پوچھا۔

“استغفر اللہ آنٹی۔۔ آپ کا گھر ہے آپ جب مرضی آئیں میں کون ہوتی ہوں برا ماننے والی؟؟" اسے واقعی شرمندگی ہو رہی تھی۔ کنزہ بھابھی نے آگے بڑھ کر اپنے سوئے ہوئے بیٹے حیدر کو صوفے پر لٹا دیا اور خود اس کے پاس بیٹھ کر اسے ہلکے ہلکے ہاتھوں سے تھپتھپانے لگیں۔

“میں نے سوچا تم بچیاں اکیلے ہی سب کچھ سنبھال رہی ہوگی تھوڑی مدد ہی کروا دوں مگر عابس کے آفس کی وجہ سے ہم کل رات ہی پہنچ سکے ہیں۔۔" وہ بولتے ہوئے صوفے پر جا بیٹھیں۔۔ "یہاں آئو میرے پاس بیٹھو۔۔" ان کے اسرار پر انابیہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئ۔

“اچھا کیا آپ آگئیں مجھے ماما جان کی بہت کمی محسوس ہو رہی تھی ۔ آپ کو دیکھ کر لگ رہا ہے وہ آگئی ہیں۔۔" وہ مغموم سے لہجے میں بولی۔ آمنہ بیگم کی مسکراہٹ ایکدم سمٹی۔۔

"جس طرح ماں کے بغیر تم نے گھر سنبھال رکھا ہے ایسے کوئی نہیں سنبھال سکتا۔ میں تو حیران رہ گئ ساری ڈیکوریشن دیکھ کر یقین نہیں آرہا سب ایک بچی کی نگرانی میں ہوا ہے عابس کی شادی میں ماں ہوتے ہوئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں تم نے تو ایک ماں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔۔" اس بار انابیہ سوائے مسکرانے کے اور کچھ نہ بولی۔

“تمہاری باقی بہنیں نظر نہیں آرہی؟؟" اس بار سوال کنزہ بھابھی کی طرف سے ہوا تھا۔

" ردا اور مناہل پارلر گئی ہیں۔۔"

“تو تم نہیں گئ؟؟" آمنہ بیگم کے پوچھتے ہی اس نے سر نفی میں ہلایا۔

“میں کیسے چلی جاتی؟ گھر کو دیکھنا تھا مہمانوں کو ریسیو کرنا ہے ایک کو تو گھر پر رکنا تھا نا۔۔"

“پھر بھی یار تمہارے بھائی کی شادی ہے۔۔" کنزہ نے خفگی سے کہا۔

“کوئی بات نہیں بھابھی میں خود اتنا اچھا میک اپ کر لیتی ہوں۔ آپ دیکھیے گا پانچ منٹ میں تیار ہو کر آجائوں گی۔۔" اس کی اس بات پر کنزہ ہنس دی۔

“میں محلے کی شادی کے لیے بھی پانچ منٹ میں تیار نہ ہوں اور تم اپنے بھائی کی شادی میں پانچ منٹ والا تیار ہوگی حد کرتی ہو۔۔" چلو اٹھو میں تمہیں تیار کروں گی۔۔" ان کی اس بات پر انابیہ یکدم بوکھلا سی گئ۔

“ارے نہیں نہیں بھابھی تکلف مت کریں میں خود۔۔ "

“تکلف کیسا بھلا۔۔ میری ہونے والی دیورانی ہو بھئی اور مجھے اپنا اکلوتا دیور بڑا عزیز ہے اس کے لیے اتنا کرنے میں کیا حرج ہے؟؟" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں یعنی وہ نہیں مانے گیں۔ انابیہ کو بھی ضد کرنا فضول لگا تھا اس لیے مزید بحث سے اجتناب کر گئ۔

“اچھا ابھی تو بیٹھیں شہناز چائے لاتی ہی ہوگی۔۔" اس کی اس بات آمنہ بیگم نے افسوس سے سر جھٹک کر اسے دیکھا۔

“انابیہ شادی والا گھر ہے سو کام ہیں تم نے خوامخواہ تکلف کر دیا۔ ہٹو زرا میں خود اس شہناز کے پیچھے جاتی ہوں۔۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کچن کی طرف چل دیں۔

“چلو بھی مجھے نہیں معلوم تمہارا کمرہ کہاں ہے؟" کنزہ نے جھک کر اپنے بیٹے کو اٹھایا۔۔ "اسے تمہارے کمرے میں ہی سلا دوں گی۔۔"انابیہ مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ اور کنزہ اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ اسے اپنے دل پر سے سارا بوجھ اترتا ہوا معلوم ہوا۔ یکدم ہی وہ سب اسے اپنے اپنے لگنے لگے تھے۔ اب اسے رونا بلکل بھی نہیں آرہا تھا۔سوائے شکر کے وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔۔

●●●●●●●●●●●●●●

"میرے سوٹ کے مطابق میرا میک اپ بہت ہی لائٹ رکھیے گا۔ مجھے بولڈ میک اپ بلکل بھی پسند نہیں ہے۔۔"پیسٹل پنک کلر کا کامدار جوڑا پہن کر ردا اب بڑے ہی پرسکون انداز میں چئیر پر بیٹھ گئ تھی۔

"جی جی بلکل آپ کا میک اپ بہت سافٹ ہوگا۔۔" میک اپ آرٹسٹ ہنوز نرمی سے بات کر رہی تھی۔

"اور بال کھلے مت چھوڑیے گا۔ جوڑا بنا دینا یا کچھ بھی بس کھلے نہ ہوں۔ چہرے پر لٹے بھی نہیں گرنی چاہیے۔ مجھے پسند نہیں ہیں" ۔ وہ ایسے ہدایات دیے جا رہی تھی جیسے کوئی انوکھی دلہن ہو۔ ایسا میک اپ آرٹسٹ سوچ رہی تھی۔ اب اسے کون بتائے کہ ردا احمد عالم واقعی انوکھی دلہن تھی۔

"اور سنیں۔۔"وہ تھوڑا آگے ہوئی اور میک اپ آرٹسٹ کو قریب ہونے کا اشارہ کیا۔۔ "یہ پیچھے بیٹھی چڑیل لاکھ مرتبہ بھی کہے نا کہ اس کا میک اپ ڈارک کریں تو بھی مت کیجئے گا اس کا ڈریس بھی لائٹ کلر میں ہے۔۔" اس نے سرگوشی نما انداز میں میک اپ آرٹسٹ کے کان میں کہا جس پر اس نے سمجھ کر سر ہلایا۔ بل آخر وہ خاموش ہو گئ اور اس خاموشی پر میک اپ آرٹسٹ نے سکون کا گہرا سانس بھرا تبھی پیچھے بیٹھی لڑکی چیخی تو لوشن کی بوتل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گئ۔ردا نے بھی ہڑبڑا کر اسے دیکھا۔

"یار ردا میرا دوپٹہ نہیں مل رہا۔۔ گھر پر رہ گیا ہے شاید۔۔" وہ سارا سامان کھول کر دیکھ چکی تھی اسے واقعی اپنا دوپٹہ نہیں ملا۔

"تو کیا ہوا دوپٹہ گھر جا کر پہن لینا۔۔" ردا نے ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں کہا اور آنکھیں بند کر کے دوبارہ چئیر کی ٹیک پر سر رکھ گئ۔

"میں نے دوپٹہ سیٹ کروانا تھا خود کیسے کروں گی؟ تمہاری طرح جا کر سٹیج پر بیٹھ نہیں جانا میں نے۔۔ آپی کے ساتھ بڑے کام کرنے ہیں دوپٹہ سنبھالتی رہوں گی یا کام کروں گی۔۔" وہ سارا غصہ ردا پر اتارنے لگی۔

"آپ شروع کریں۔۔"ردا نے لاپرواہی سے شانے اچکائے اور بند آنکھوں سے میک اپ آرٹسٹ کو کہا جس پر وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے جھک کر گری ہوئی لوشن کی بوتل اٹھانے لگی۔ ردا کے دماغ میں کچھ چل رہا تھا۔ بند آنکھوں اور سوچ میں ڈوبے ڈوبے اس نے تیزی سے آنکھیں کھولیں۔۔

"تمہیں دوپٹہ چاہیے نا۔۔" منو نے اس کی آواز پر گرا ہوا سر اٹھا کر اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں چمک کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔۔ "تم یہاں آکر تیار ہونے شروع ہو اور دوپٹے کی فکر چھوڑ دو سمجھو بس آگیا۔۔" پھر میک اپ آرٹسٹ کی طرف متوجہ ہوئی۔۔" اور آپ کیا شکل دیکھ رہی ہیں جلدی کریں مجھے ایک ضروری کام ہے۔۔" کہتے ساتھ وہ دوبارہ آنکھیں بند کر گئ۔ میک اپ آرٹسٹ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو منہ کو اپنے آرام نہیں ہے دونوں بہنوں کے اور جلدی کا مجھے کہہ رہی ہیں۔۔ ہونہہ

بل آخر ردا کا میک اپ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ بھی تھی جیسے اسے کچھ کرنا ہے بس جلدی جلدی اس کا میک اپ ہو اور پھر جو شرارت اس کے ذہن میں گردش کر رہی ہے وہ اسے حقیقت بنا دے۔۔ اس کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھی مناہل کا میک اپ بھی شروع ہو گیا تھا۔ سیلون میں اب کافی سکون اور خاموشی تھی۔۔

کچھ ہی دیر میں اس کا میک اپ ہو گیا تھا۔ ہئیر اسٹائل بھی مکمل تھا۔ردا نے آنکھیں کھول کر شیشے میں اپنا عکس دیکھا اور خود میں بس کھو ہی گئ۔۔

“ہائے میں کتنی پیاری لگ رہی ہوں۔۔" اسے واقعی خود پر رشک آرہا تھا۔ جس طرح کا میک اپ وہ چاہتی تھی بلکل ویسا ہی میک اپ اور ہئیر اسٹائل اسے ملا تھا۔ سامنے سے سیدھی مانگ نکال کر دونوں طرف الٹی فرینچ بریڈ بنی تھی اور پیچھے کے تمام بال جوڑے میں قید کیے گئے تھی۔ جوڑے کے ارد گرد آرٹیفیشل سفید گجرے لگے تھے۔ ڈائمنڈ کی چھوٹی سی بندیا کسی چمکتے ہوئے ستارے کی طرح مانگ سے ہوتی ہوئی ماتھے پر لٹک رہی تھی۔ گلے میں ہلکا سا ڈائمنڈ سیٹ اور کانوں میں چمکتے ہوئے ڈائمنڈ ائیر رنگز اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اب بس دوپٹہ سیٹنگ رہتی تھی۔۔

“دوپٹہ سیٹ کرنے میں کتنی دیر لگے گی؟؟" وہ میک اپ آرٹسٹ کی طرف گردن گھماتے ہوئے بولی۔۔

“زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ منٹ۔۔" جواب سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔۔

“میں بس آئی۔۔" سامنے شیلو سے اپنا موبائل اچک کر اپنا لمبا فراک ہاتھوں سے اٹھائے وہ باہر مین ہال کی طرف چلی گئ۔ ایک نمبر ملایا اور فون کان سے لگا کر وہ وہیں کھڑی ہو گئ۔

“ہیلو کبیر بھائی۔۔" کال اٹینڈ ہوتے ہی وہ بولی۔۔

“ہاں بولو۔۔" کبیر عالیان کے ٹھیک پیچھے کھڑا تھا جو شیشے کے سامنے کھڑا خود کا معائنہ کر رہا تھا۔

“عالیان آپ کے سامنے ہے؟؟"

“ہاں۔۔"

اسپیکر بند ہے؟؟"

"ہاں۔۔"

“گڈ۔۔ انہیں پتہ نہیں چلنا چاہیے کال پر میں ہوں۔" ردا نے فراک چھوڑ دیا اور اب اطمینان سے کھڑی ہو گئ۔

"کس کی کال ہے کبیر؟؟" سنہرے رنگ کا کام ہوئے سفید شیروانی پہنے عالیان نے شیشے میں ہی کبیر کا عکس دیکھتے ہوئے پوچھا۔

“فوٹوگرافر کی۔۔ تم تیاری کرو میں ذرا اس سے بات کر کے آتا ہوں۔۔" وہ کہتے ہی کمرے سے نکل گیا۔ اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور دوبارہ ردا کی طرف متوجہ ہوا۔

“اب بولو کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے؟؟"

“ہاں سب ٹھیک ہے۔ میں نے آپ کو آپی کے ڈریس کا کلر بتایا تھا نا بس آج مجھے آپ کی ایک فیور چاہیے۔۔"اِدھر ردا نے رک کر گہرا سانس لیا اور اُدھر کبیر کی آنکھیں پُرسوچ انداز میں چھوٹی ہوئیں۔۔ "پندرہ بیس منٹ میں ہمیں پارلر سے پک کرنے آسکتے ہیں؟؟"

“ہاں مگر عالیان خود آنے والا ہے۔۔" ردا کا مطالبہ اس کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔

“یہی تو میں انہیں میسج کر کے کہتی ہوں ہمیں ابھی ایک گھنٹہ لگے گا اور آپ کچھ ہی دیر میں ہمیں یہاں سے پک کر کے گھر ڈراپ کر دیں۔۔" وہ بڑے پرسکون انداز میں بول رہی تھی۔۔کبیر کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی لڑکی چاہتی کیا ہے؟؟

“تم چاہتی ہو وہ پریشان ہو؟؟" اس نے جیسے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

“ہاں بےحد۔۔ پلیز نا آپ میرے لیے اتنا نہیں کر سکتے۔ پلیز۔۔" وہ بچوں کی طرح ضد کر رہی تھی۔ کبیر کے کندھے ڈھیلے پڑ گئے۔

“اوکے اوکے میں آجائوں گا اور بےفکر رہو اسے پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔"

"یہ ہوئی نا بات۔۔ اب سب سے پہلے آپ ہمارے گھر جائیں گیٹ پر شہناز مناہل کا دوپٹہ لیے کھڑی ہوگی وہ پکڑے اور سیدھا یہاں پارلر آجائیں۔ چوکیدار کو نام اپنا مت بتائیے گا۔۔ ایم ویٹنگ۔۔" کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی اور وہیں کھڑے کھڑے شہناز کو کال کر کے اسے سب سمجھا کر دوبارہ اندر چلی گئ۔۔

باریک کام والا اس کا ہلکا اورگینزہ کا پیسٹل پنک کلر کا دوپٹہ بھی سیٹ ہو گیا تھا جو اس کے سر سے شروع ہو کر پیچھے کی طرف گر رہا تھا۔ اس کے لمبے گھیر والے چمکدار فراک پر اطالوی اور فرانسیسی سیکوینز کا کام ہو رکھا تھا۔ بلائوز پر ملٹی کلر جس میں جامنی، سنہرا اور نیلے رنگ کا چمکدار کام تھا نہایت ہی شاندار لگ رہا تھا۔ وہ اب گھوم گھوم کر قد آور آئینے کے سامنے خود کو مسرور ہو کر دیکھ رہی تھی۔ وہ واقعی کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اسی دوران اس کے موبائل پر کبیر کی کال آئی یعنی وہ آگیا۔۔ایک نظر موبائل پر ڈالنے کے بعد اس نے مناہل کو دیکھا جسے میک اپ آرٹسٹ جیولری پہنا رہی تھی۔ اندر ہی اندر خوش ہوتے ہوئے وہ باہر کی طرف بھاگی۔ باہر مین ہال کے ویٹنگ ایریا میں ہی وہ اسے کھڑا دکھائی دیاتھا۔ کبیر نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے اس پاگل لڑکی کو دیکھا جو ہنستے ہوئے اپنے فرش سے لگتے کامدار جوڑے کو ہاتھوں سے اوپر اٹھائے اس کی طرف چلتی ہوئی آرہی تھی۔

“تم اسے مار کر دم لوگی۔۔ کس چیز کا بدلہ لے رہی ہو اس سے؟؟" افسوس سے کہتے ہوئے کبیر نے بیگ ردا کی طرف بڑھایا۔

“مجھ سے شادی کرنے کا بدلہ لے رہی ہوں۔۔" اس نے بیگ کھول کر اندر جھانکا۔ مناہل کا دوپٹہ اندر موجود تھا۔

“تم اگر اسے یہاں نہ ملی تو اس کا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔۔" اب کی بار ردا نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا۔

“ان کو کچھ نہیں ہوتا۔۔ اس بات پر تالی ماریں گے؟؟" کبیر سر جھٹک کر ہنسا اور اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کر گیا۔ ردا نے آگےبڑھ کر زور سے ہنستے ہوئے اس کے ہاتھ پر تالی ماری اور بھاگ کر جانے لگی۔ پھر کچھ یاد آنے پر پلٹی۔

“منو کا دوپٹہ سیٹ ہو جائے پھر ہم چلتے ہیں اور ہاں اس منو پٹاخہ کو کچھ مت بتائیے گا۔ کہہ دیجیے گا عالیان نے ہی آپ کو بھیجا ہے۔ ان کی بڑی سگی ہے۔۔" کبیر نے تابعداری سے سر ہلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھاگ گئ۔

●●●●●●●●●●●●●●

"آپ نے تو کمال کر دیا بھابھی۔ مجھے پارلر نہ جانے کا بلکل بھی افسوس نہیں ہے اب۔" انابیہ کرسی پر بیٹھی شیشے میں خود کا خوبصورتی سے کیا ہوا میک اپ دیکھتے ہوئے بولی۔ کنزہ بھابھی اس کے پیچھے کھڑی اس کے بالوں کو سٹریٹنر کی مدد سے کرل کر رہی تھیں۔ اس کے کمپلیمینٹ پر مسکرا کر شیشے میں اسے دیکھنے لگی۔

"زارا نے بھی بہت پیارا تیار کیا تھا مجھے۔۔" کنزہ بھابھی کو اس کی آواز میں دکھ کا إحساس ہوا۔ جب نظریں اس کے بالوں پر سے ہٹا کر شیشے میں اس کے چہرے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ نہ صرف آواز بلکہ اس کے چہرے پر بھی دکھ کے سائے تھے۔۔

“زارا؟؟ کبیر کی دوست زارا مبین کی بات کر رہی ہو؟" نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے وہ اس سے پوچھ رہی تھی جس پر انابیہ نے محض سر اثبات میں ہلایا۔۔

"آپ تو ملتی رہی ہوں گی نا اس سے کیسی ہے وہ؟؟" اس نے بہت ہی آس سے یہ سوال کیا تھا۔

“آخری بار دو سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد عاصم نے اسے لندن بلوا لیا۔۔"کنزہ بھابھی کے آخری جملے ہر وہ ایک دم چونک کر ان کی طرف گھومی۔

“عاصم نے بلا لیا مگر کیوں؟"

“یعنی تمہیں تو کچھ نہیں پتہ۔۔" انہوں نے سر ہر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور انابیہ بس سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھے گئ۔ "آخری بار جب دو سال پہلے میں اس سے ملی تھی وہ اس کی اور عاصم کی منگنی کا دن ہی تو تھا۔ اس کے بعد عاصم واپس لندن چلا گیا اور کچھ ٹائم بعد زارا کو بھی بلوا لیا۔ کبیر بھی ان کے ساتھ تھا اب یہ مت کہنا دیور جی نے تمہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ دونوں نے لندن میں ہی نکاح بھی کر لیا تھا۔۔" اب کی بار انابیہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس خبر نے جہاں اسے حیران کیا تھا وہیں اسے خوشی بھی ہوئی تھی۔ اس کے بال کرل ہو گئے تھے کنزہ بھابھی نے مسکراتے ہوئے اس کا دوپٹہ اسے تھمایا۔ بخوشی گھوم کر وہ ویسے ہی دوپٹہ پہننے لگی جیسے وہ ہمیشہ پہنتی تھی۔ اس نے سفید رنگ کی لمبی کامدار قمیض پہن رکھی تھی جو اس کے گھٹنوں سے تھوڑی نیچے آتی تھی۔ کڑھائی، شیشے اور سنہرے پتھر کا کام سیدھی سیدھی لائنز کی صورت میں ہو رکھا تھا۔ اس قمیض کے ساتھ اس نے کھلا سفید رنگ کا سادہ پلازو زیب تن کیا ہوا تھا۔

تبھی دروازہ کھلا ردا بھاگتے ہوئے اندر آئی۔ انابیہ نے بس اسے دیکھا ہی تھا اور اس دلہن میں کھو گئ۔ ردا کے لیے آج کا دن خاص تھا بلکہ ہر لڑکی کے لیے ہوتا ہے۔ وہ سانس روکے اس مسکراتی ہوئی دلہن کو دیکھے گئ۔ اگلے ہی لمحے دونوں نے فاصلہ طے کیا اور ایک دوسرے کے گلے لگیں۔ بڑی بہن کے گلے لگتے ہی ردا کو سکون ملا اور انابیہ کی آنکھیں نم ہوئیں۔

"کاش کہ ماما جان تمہیں اس طرح دلہن بنے دیکھ سکتیں وہ کتنی خوش ہوتی ہینا ردا؟" وہ اسی طرح اس کے گلے لگی آنکھیں بند کیے مغموم لہجے میں بولی۔ ردا فوراً پیچھے ہوئی لیکن بازو اب بھی اس کی کمر کے گرد حصار باندھے ہوئے تھے۔

"آپ کو ان کی یاد آرہی ہے؟" وہ براہراست اس کی نم ہوتی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ انابیہ نے سر ہولے سے اثبات میں ہلایا جس پر ردا فوراً مسکرا دی۔

"پہلے مجھے بھی بہت یاد آرہی تھی اب آپ کو دیکھا تو یقین کریں وہ تو جیسے مجھ سے بھول ہی گئیں۔ اب بس رونا نہیں ورنہ سارا میک اپ۔۔ایک منٹ۔۔ یہ آپ کو اتنا پیارا تیار کس نےکیا ہے؟؟" ردا کے سوال پر انابیہ کو جیسے یاد آیا کہ اس کمرے میں کوئی اور بھی موجود ہے۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے میں اتنا کھو گئی تھیں کہ سب کو بھول ہی گئ تھیں۔

"کمزہ بھابھی۔ عابس بھائی کی وائف۔۔" ردا کے حصار سے آزاد ہوتے ہی انابیہ نے پیچھے کھڑی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو مبہوت سی ان دونوں بہنوں کا پیار دیکھ رہی تھی۔ ردا مسکراتے ہوئے آگے بڑھی تو کنزہ نے اسے گلے لگایا۔۔

"بہت پیاری لگ رہی ہو۔ تم دونوں بہنیں تو بلکل ایک جیسی ہو۔۔" وہ تھوڑا پیچھے ہوتے ہوئے بولیں۔

"دونوں نہیں تینوں۔۔"ردا نے جیسے تصحیح کی اور فوراً انابیہ کی طرف گھومی۔۔ "پتہ ہے منو پٹاخہ بھی بہت حسین لگ رہی ہے۔۔" اس نے جیسے حیران ہوتے ہوئے کہا۔

"ہے کہاں وہ؟" انابیہ دوبارہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اس کا دوپٹہ ابھی مکمل طور پر سیٹ نہیں ہوا تھا۔۔

"وہ نیچے آمنہ آنٹی کے ساتھ رک گئ۔ میں ان سے مل کر سیدھا آپ کے پاس آگئ۔۔" ردا جا کر بیڈ پر بیٹھ گئ۔ بیڈ پر سوتے حیدر کو دیکھ کر وہ مسکرائی۔۔ "آپ کا بیٹا بہت کیوٹ ہے۔۔" کہتے ہی بیڈ کرائون سے ٹیک لگا گئ۔۔ اسے تو اپنا آپ ابھی سے تھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد حیدر اٹھ گیا تھا کنزہ بھابھی اسے لیے نیچے چلی گئیں۔ ان کے جاتے ہی ردا کے فون پر کسی کی کال آنے لگی۔ اس نے آگے ہو کر اپنا ساتھ پڑا فون اٹھا کر دیکھا جس پر کبیر کی کال تھی۔ اس کا دماغ اسے کسی خطرے سے آگاہ کر رہا تھا کیونکہ اب کافی دیر ہو گئ تھی۔ عالیان کو پتہ تو چل ہی گیا ہوگا خیر اس نے گہرا سانس بھرتے ہوئے ایک نظر انابیہ کو دیکھا جو کمرے میں سامان سمیٹ رہی تھی اور پھر کال اچک گئ۔

"لڑکی عالیان گھر آرہا ہے اور قسم سے بہت غصے میں ہے۔۔" حلق میں ابھرتی گلٹی ردا نے بمشکل نیچے کی۔۔ "کک۔ کیا زیادہ غصے میں ہیں؟؟" وہ بمشکل یہی پوچھ پائی۔۔

"مجھے بہت سنا کر گیا ہے اب تمہاری طرف آرہا ہے۔ جانتی ہو اس نے کیا کیا ہے؟" ایک نظر اٹھا کر اس نے انابیہ کو دیکھا جو ہاتھوں میں کپڑے پکڑے ابرو اٹھا اٹھا کر اس سے پوچھ رہی تھی کہ کال پر کون ہے۔ ردا نے بجائے جواب دینے کے اسپیکر کھول دیا۔

"تمہیں لینے پارلر گیا تھا۔ وہاں جب تم نہیں ملی تو اس نے پولیس بلوا لی۔ تم یقین کرو گی بنا کسی کی سنے اس نے پارلر سیل (seal ) کروا دیا؟؟ تمہارے کہنے پر تو میں نے چوکیدار کو نام بھی غلط بتایا تھا۔" انابیہ کی آنکھیں حیرت اور ناسمجھی سے پھیلیں جبکہ ردا نے رکھ کر اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا۔۔"اوپر سے پارلر والوں کی قسمت اتنی خراب تھی کہ آج ہی ان کے سی سی ٹی وی کیمراز خراب ہو گئے۔۔" کبیر کی آواز ہنوز فون سے گونج رہی تھے انابیہ نے دانت پیس کر اور بھنویں سکیڑ کر ردا کو دیکھا۔"یہ تو اچھا ہوا عالیان نے ساری کاروائی کر کے مجھے آخر کال کر لی ورنہ تو ناجانے پارلر والوں کا کیا حشر ہوتا۔۔ چلو میں فون رکھتا ہوں بہت شوق تھا نا اسے تنگ کرنے کا آرہا ہے ہے اب سنبھالو۔۔"ردا کچھ کنے ہی لگی تھی کہ کبیر نے کال کاٹ دی۔۔ ایک دفعہ پھر اس نے نظریں اٹھا کر انابیہ کو دیکھا جو سینے پر ہاتھ باندھے کھا جانے والے انداز میں اسے گھور رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ برق رفتاری سے بیڈ سے اٹھی۔ دروازہ لاک نہیں تھا۔۔

"میں اندر آرہا ہوں انابیہ۔۔" اس کی آواز پر ردا کانپ کر رہ گئ اور بالکونی کے دروازے پر لگے پردے ہی قریب تھے سو وہ انہی کے پیچھے چھپ گئ اتنا وقت نہیں تھا اس کے پاس کے بالکونی کا دروازے کھولتی اور وہاں چھپتی سو وہ پردوں میں ہی چھپ گئ۔ وہ دروازہ کھول کر اندر آگیا اگلی دستک دینے کی زحمت اس نے نہیں کی تھی۔ انابیہ کا دل اچھل کے حلق میں آیا۔ دل ہی دل میں ردا اور کبیر کو سو اعزازات سے بھی نواز چکی تھی۔ سب کچھ خود کر کے پھنسا اسے دیا تھا۔ عالیان کی متلاشی نظروں نے آس پاس کا مختصر جائزہ لیا۔

"کہاں ہیں وہ؟؟" اس کی آواز میں واقعی بہت سختی تھی۔

"دیکھو پرسکون ہو کر میری۔۔"

"پرسکون؟؟ تمہیں پتہ ہے میں کس سٹیج سے گزر کر آیا ہوں جب ایک پل کے لیے مجھ سے کہا گیا کہ ردا کسی اور کے ساتھ چلی گئ ہے۔۔" وہ کڑی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا تبھی اس کی نظر انابیہ کے پیچھے پردے پر ٹھہری۔ سمجھ کر سر ہلاتے وہ آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ انابیہ نے اسے بازو سے پکڑا۔

"یہ وقت نہیں ایسے بات کرنے کا۔۔ ابھی جائو یہاں سے۔" اس کا انداز اٹل تنبیہی تھا۔ عالیان ناسمجھی سے اسے دیکھے گیا۔ وہ صرف اپنی بہن کی سائڈ لے رہی تھی جبکہ جانتی تھی غلطی بھی اسی کی تھی۔۔ انابیہ نے بازو چھوڑا اور اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور پھر اس کی طرف جھکی۔۔

"تم صرف غصہ کرو گے اور کچھ نہیں کر سکتے لیکن وہ جو کرے گی نا پھر نہ تم کچھ کر سکو گے نہ میں سمجھے۔۔ چھوڑ دو نکاح ہو جائے پھر دونوں اس کی خبر لیں گے بس نکاح ہونے دو عالی۔۔" وہ اس کے کان کے قریب سرگوشی نما انداز میں کہہ رہی تھی۔ عالیان نے بہت ضبط سے اسے دیکھا اور آگے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔۔

"تو مجھے تھوڑا سا غصہ یا شکایت کرنے کا بھی حق نہیں ہے؟؟" وہ اونچا بول رہا تھا ردا کو سنا رہا تھا۔

" نہیں ہے شکایت کرنے کا حق بلکہ کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔۔" وہ پردے کے پیچھے سے ہی بولی۔ انابیہ نے گھوم کر دیکھا منظر ویسا ہی تھا اسے لگا شاید وہ باہر نکل آئی ہے۔۔ " کیونکہ میں آپ کو وارن کر چکی تھی تو اب شکایت کرنا نہیں بنتا سمجھے۔۔ میں تو ایسی ہی ہوں آئی ہوپ آپ کو ٹریلر اچھا لگا ہوگا باقی کی فلم دیکھنا چاہتے ہیں نا تو چپ چاپ یہاں سے چلے جائیں ورنہ میں بھی ردا ہوں مائینڈ بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتی۔۔" عالیان نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لی۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی اس دن تو عالیان نے اس کی ہر وارننگ پر قبول ہے قبول ہے قبول ہے بولا تھا۔ اسے چھیڑ کر وہ سارے کیے دھرے کا کباڑا نہیں کرنا چاہتا تھا سو خود پر ضبط کیے وہ کمرے سے نکل گیا۔ انابیہ نے آگے بڑھ کر دروازہ لاک کیا اور ردا کی طرف گھومی جو دروازہ بند ہونے کی آواز پر ہی سمجھ گئ تھی کہ وہ چلا گیا ہے۔

"تمہیں ذرا اس کا خیال نہیں ہے نا؟؟" وہ اس سے گلہ کر ہی تھی۔ سختی کہیں بھی نہیں تھی بلکہ وہ بھی ردا کے سامنے عاجز لگ رہی تھی۔۔

"نہیں ہے۔۔ میں نے تو منع کیا تھا۔ اب محبت میں برداشت تو کرنا ہوتا ہے سو انہیں بھی کرنا پڑے گا۔۔" اطمینان سے کہتی وہ دوبارہ بیڈ پر آ بیٹھی ایک دفعہ دوبارہ انابیہ کو دیکھا۔۔ "افف آپی۔۔ اب آپ کیوں افسردگی سے مجھے دیکھ رہی ہیں؟؟ سچ یہ ہے کہ میں نکاح کے بعد انہیں اپنی صورت دکھانا چاہتی ہوں پہلے نہیں۔۔ بس اس لیے میں نے کبیر بھائی سے فیور مانگی تھی۔ اب اتنی محبت کرتے ہیں تو صبر کرنے بھی آنا چاہیے۔۔ جانتی ہیں غصہ ہی اس چیز کا تھا کہ پری کا چہرہ دیکھنے کو کیوں نہیں ملا اب تک۔۔ پارلر میں پچاس ویڈیو کالز کر چکے تھے نہ میں نے اٹھائی نہ منو کو اٹھانے دی۔۔" انابیہ گہرا سانس بھرتے ہنس دی۔ ناجانے عالیان کو آگے کیا کیا دیکھنا پڑے گا اس لڑکی وجہ سے۔

●●●●●●●●●●●●●●

جاری ہے۔۔۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?