Share:
Notifications
Clear all

Muhabbat ka qissa by Hadia Muskan epi(11)

1 Posts
1 Users
0 Reactions
183 Views
(@hadiamuskan)
Eminent Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 14
Topic starter  

ماضی:
)وقت میں کچھ دن پیچھے چلتے ہیں۔ وہ دن جب کبیر پہلی دفعہ کراچی آیا تھا اور چار سال بعد انابیہ سے ملتے ہی اب وہ واپس جانے کی تیاری کر رہا تھا۔)

سویچ بورڈ پر ہاتھ رکھے انہوں نے اپنے ہونٹوں کوحرکت دی۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے کبیر نے ان کی آواز پر سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

"روشنی اور اندھیرے میں کیا فرق ہوتا ہے جانتے ہو؟؟" وہ انہیں سن رہا تھا۔ کچھ ہی پل میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ان کا بیٹا اندھیرے کا شوقین ہو گیا تھا سو انہوں نے بتیاں بجھا دیں۔
"روشنی میں سب کچھ ہم پر واضح ہوتا ہے۔ ہم کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر زخمی نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس اندھیرا ہم پر کسی چیز کو واضح نہیں ہونے دیتا۔ ہم ٹھوکر کھا کر گر جاتے ہیں اور زخمی ہوجاتے ہیں۔۔" وہ مکمل طور پر اس کی طرف گھوم چکے تھے۔ وہ ان کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔ صرف کونے میں ایک ایل ای ڈی بلب جل رہا تھا لیکن کمرہ وسیع ہونے کی وجہ سے اس کی روشنی کمرے میں پھیلنے میں ناکام ہو رہی تھی۔۔ اس کے آگے بیڈ پر پڑے بیگ کا منہ ہنوز کھلا ہوا تھا جس میں کپڑے ترتیب سے رکھے گئے تھے۔
"انابیہ روشنی ہے لیکن تم اندھیرے کے شوقین ہو گئے ہو اور اسی اندھیرے میں ٹھوکریں کھا کر تم نے خود کو زخمی کر دیا ہے۔ مانا کہ اسی روشنی نے ہی تمہیں اندھیرے کی طرف دھکیلا تھا لیکن اب وہی روشنی تمہارے لیے پھر سے بھیجی گئی ہے اور تم اب بھی اندھیرے کا انتخاب کررہے ہو۔ تم ناشکری کررہے ہو۔۔" وہ بہت نرمی سے بول رہے تھے۔ کبیر کے کندھے ڈھیلے پڑتے گئے۔
"یاد رکھنا روشنی کی ضرورت تمہیں ہے کیونکہ ایک اندھیرے میں گھرے انسان کو ہی اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ لاکھ مرتبہ بھی کہے کہ اسے اندھیرے میں رہنا ہے تب بھی اسے صرف روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔" اس نے پھر زخمی نظروں سے انہیں دیکھا۔ وہ اسی طرح شکست خوردہ حالت میں بیڈ کی پائنتی پر بیٹھ گیا۔
"مجھے اس پر بہت فخر ہے بہت زیادہ۔ تم نہیں جانتے اس نے کتنی سی عمر میں کیا کیا جھیلا ہے۔ تم نے صرف ایک محبت کھوئی ہے اور اس نے محبتیں۔ تمہارے پاس ماں اور باپ دونوں ہیں۔ دل تو اس کا ٹوٹا ہی تھا لیکن وہ والدین جیسی نعمت سے بھی محروم ہو گئ۔ اس کا عزیز تایا ویل چئیر پر ہے اور میں جانتا ہوں میں نے دیکھی تھیں رپورٹس وہ کبھی پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن انابیہ پر امید ہے۔۔" وہ اب بھی خاموش تھا وہ صرف سن رہا تھا۔
"وہ ہی تھی جس نے سب کو سنبھالا تھا سب کو۔ اپنے معذور تایا کو اپنی بہنوں کو بزنس کو۔۔ تم اس سب میں اسے الزام کیسے دے سکتے ہو؟ مانا کہ اس نے اس وقت محبت کے لیے سٹینڈ نہیں لیا لیکن اچھی لڑکیاں کبھی سٹینڈ لے ہی نہیں سکتیں وہ قربانی دے دیتی ہیں۔۔" بولتے بولتے وہ چل کر بیڈ کی ایک طرف ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گئے یوں کہ کبیر کی پشت ان کی طرف تھی۔
"اس کے ماں باپ کی موت حادثہ نہیں تھی ایک سازش تھی۔ وہ قتل تھا۔۔" کبیر کا ساکت جسم ایک پل کے لیے حرکت میں آیا اور اس نے تیزی سے گردن گھما کر پیچھے بیٹھے اپنے باپ کو دیکھا جو نظریں کارپٹ پر جھکائے بیٹھے تھے۔
"میں نے تمہیں اور عابس کو جہانزیب کے بارے میں تو سب کچھ بتا رکھا ہے۔ وہی جس نے ناصر کی بیوی راحیلہ کا قتل ایک نوکرانی کے ہاتھوں کروایا تھا۔ اسی نے یہ ایکسیڈنٹ بھی کروایا تھا۔" وہ رک رک کر بول رہے تھے اور کبیر بنا پلکے جھپکائے اسی طرح انہیں دیکھ رہا تھا۔
"ان بچوں کو اب بھی اس شخص سے بہت خطرہ ہے کیونکہ آہستہ آہستہ وار کرنا اس کی عادت ہے۔ اس کے علاوہ بھی انابیہ کے اردگرد بہت سے دشمن ہیں اس کے سخت اصولوں اس کی صاف گوئی اس کی کامیابی اور اس کی بہادری کی وجہ سے۔۔" گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے ہوئے کبیر نے گردن دوبارہ سامنے گھمائی۔
"اسے معلوم نہیں ہے کہ میں نے اس کی حفاظت کے لیے ایک قابل باڈی گارڈ کا بندوبست کر رکھا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اسے ہماری ضرورت ہے۔۔ اسے تمہاری ضرورت ہے۔۔ اور تمہیں اس کی ضرورت ہے۔۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ اس کے کندھے پر نرمی سے انہوں نے ہاتھ رکھا تو وہ بس تکلیف سے آنکھیں بند کر گیا۔
"اس تاریکی سے نکل آئو کبیر۔۔ جو نفرت تم چار سالوں میں انابیہ سے نہیں کر سکے اسے زبردستی دل میں جگہ دینے کی کوشش مت کرو۔ ضد کا پیچھا چھوڑ دو۔۔ ورنہ ابھی تو انابیہ تم سے عارضی طور پر دور ہوئی تھی ایسا نہ ہو کہ تم اسے ہمیشہ کے لیے کھو دو۔۔" اس نے یکدم آنکھیں کھول دیں اور تڑپ کر انہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں کی نمی چمک رہی تھی۔ ایک دم سے اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبا لیا تھا۔ جہانگیر نے ایک نظر اسے دیکھا اور کمرے سے نکل گئے۔ ان کے جاتے ہی اسے گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ اسے خوف آنے لگا تھا۔ اسے لگا جیسے ابھی اس کا سانس بند ہوجائے گا۔ اس نے آس پاس اس تاریک کمرے کو دیکھا اسے اندھیرے سے خوف آرہا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھا اور ساری بتیاں جلا دیں اگلے ہی لمحے پورہ کمرہ روشن ہو گیا تھا۔ اسے روشنی کی ضرورت تھی۔۔ اسے روشنی کی ضرورت ہے۔۔ اسے انابیہ کی ضرورت ہے۔۔ وہ کمرے کا دروازہ کھولتے تیزی سے باہر کی طرف بھاگا اور سیدھا نیچے لونگ روم میں گیا۔۔ جہانگیر صاحب شیلف سے ایک کتاب نکال رہے تھے۔
"ڈیڈ۔۔ مجھے اس باڈی گارڈ کا نمبر چاہیے۔۔" اس نے پھولے ہوئے سانس میں کہا۔۔ جہانگیر نے گردن گھما کر اسے ناسمجھی سے دیکھا۔
"کیوں؟؟" انہوں نے پوچھا مگر کبیر نے کوئی جواب نہیں دیا اور کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔۔ جہانگیر نے کچھ دیر غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھا جس میں اس کی ساری پلاننگ واضح تھی۔ وہ بھی اس کے باپ تھے اس کی رگ رگ سے واقف۔۔ وہ مکمل طور پر اس کی طرف گھومے سر تا پیر اسے غور سے دیکھا اور ہلکا سا مسکرائے۔۔
"سوچ لو۔۔"
"سوچ لیا۔۔" وہ فوراً بولا۔۔ "جو کام آپ، ناصر انکل اور احمد انکل نہیں کر سکے وہ میں کروں گا۔۔ جو قاتل آزاد پھر رہا ہے اسے جہنم واصل میں کروں گا اور مجھے آپ کی اجازت نہیں چاہیئے میں صرف آپ کو آگاہ کرنے آیا تھا۔۔" اس کے آخری جملے پر جہانگیر کھل کر ہنسے۔
"کم آن کبیر یہ اتنا آسان نہیں ہے۔۔" وہ اسی طرح ہنستے ہوئے بول رہے تھے۔۔
"ہوگا مشکل لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔۔ انابیہ کے لیے کچھ بھی۔۔" وہ چلتے چلتے آکر اس صوفے پر ڈھے گیا۔۔
"ابھی تو کوئی جارہا تھا یہاں سے۔۔" ان کا انداز طنزیہ تھا۔۔
"میں گیم کھیلنا چاہتا ہوں۔۔ فل پلاننگ کے ساتھ اور آپ میرا ساتھ دیں گے یہ میں آپ سے پوچھ نہیں رہا حکم دے رہا ہوں۔۔" اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے کہا۔
" مجھے انابیہ سے محبت ہے لیکن میری اس سے ناراضگی اب بھی ویسی ہی ہے۔۔ مجھے چھوڑ کر آنے کی سزا تو میں اسے دوں گا۔ ڈیڈ۔۔" اس نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا۔۔ " اسے کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔" انداز تحکمانہ تھا۔
"جو کرنا ہے کرو۔۔ آئی ایم ود یو۔۔ مگر خود کو کسی خطرے میں مت ڈال دینا۔۔" انہوں نے منہ سے تو کہہ دیا تھا مگر دل سے وہ اب اس کے لیے کافی پریشان ہو گئے تھے لیکن کوئی تو ہو جو سب کا بدلہ لے۔

اس سے اگلی صبح ہی فرہاد جہانگیر صاحب کے گھر موجود تھا۔ کل رات ہی جہانگیر نے فرہاد سے کہہ دیا تھا کہ وہ صبح ان کے گھر پر آکر ان سے ملے لیکن اس کے ٹھیک سامنے بیٹھا شخص جہانگیر نہیں بلکہ کبیر جہانگیر تھا۔
“سوری مگر میں یہ جاب نہیں چھوڑ سکتا۔۔" کبیر نے جب اسے جاب چھوڑنے کا کہا تو اس نے لمحے بھر کی دیر کیے بغیر مطمئن انداز سے کہا۔ کبیر نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا جو صوفے سے ٹیک لگائے بہت ہی پرسکون سا بیٹھا تھا۔
“جاب پر تمہیں ڈیڈ نے رکھا تھا نا اب انہی کا حکم ہے۔ تم اب سے انابیہ کے گارڈ نہیں ہو۔۔"انداز تحکمانہ تھا۔
“اس وقت جب وہ مشکل میں ہے انہیں ایک گارڈ کی ضرورت ہے۔ مسٹر کبیر بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ کوئی انہیں مسلسل تھریٹ کر رہا ہے اور آپ لوگ ان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ۔۔" اس نے کبیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جیسےدرخواست کرتے ہوئے کہا۔
"تم سے صاف لفظوں میں بات کرنی پڑے گی۔۔" کبیر نے سر کو ہولے سے ہلاتے ہوئے کہا جس پر فرہاد کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھے گیا۔ "میں انابیہ سے محبت کرتا ہوں (فرہاد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھری) اور میں خود اس کا باڈی گارڈ بن کر اس کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں مطمئن رہوں اور۔۔" اس کی مسکراہٹ دیکھ کر کبیر یکدم چپ ہوا اور برہم نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا جس پر وہ تھوڑا سا سیدھا ہوا اور اگلے ہی لمحے پھٹ کر ہنس پڑا۔ کبیر بہت ہی ضبط سے اسے دیکھ رہا تھا آخر یہ خبیث انسان اتنا ہنس کس بات پر رہا تھا۔۔ ہنس ہنس کر وہ دوہرا ہو گیا تھا اور پھر جیسے تھک کر رک گیا۔
“ایک ٹرین گارڈ اور خود سے گارڈ بننے میں بڑا فرق ہوتا مسٹر کبیر (پھر ہنسی۔) آپ اپنے ساتھ ان کی زندگی بھی خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔۔" شکر اب وہ ہنسا نہیں تھا ورنہ کبیر نے آس پاس سے کچھ اٹھا کر پکا اس کے سر پر مار دینا تھا۔
“تمہیں کس نے کہا میں ٹرین گارڈ نہیں ہوں گا۔۔" اس نے خود اعتمادی سے کہا۔ "جانتے ہو میں نے تمہیں یہاں کیوں بلایا ہے؟" فرہاد نے سوالیہ ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔
“یقیناً جاب چھوڑنے کے لیے۔۔" اس نے جیسے اندازہ لگایا تھا۔ پھر اگلے ہی لمحے کبیر نے سر نفی میں ہلایا۔
“وہ تو میں تمہیں فون پر بھی کہہ سکتا تھا۔۔"پھر تھوڑا آگے ہوا۔ چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔۔ "تم مجھے ٹرین کرو گے۔۔" فرہاد کچھ لمحے بول نہیں سکا اور گہرا سانس بھر کر پیچھے کو ہو گیا۔
“عمر کیا ہے آپ کی؟" کبیر کو سوال غیر متوقع لگا تھا۔
“تئیس سال پانچ مہینے۔۔" اس نے کہا تو فرہاد نے سمجھ کر سر ہلایا۔۔ "ٹھیک۔۔"
“تم مار کٹائی میں کیسے ہو؟" وہ ایک دم آپ سے تم پر آگیا تھا کبیر نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اس کے سوال پر غور کیا۔
“بہت اچھا۔۔ ٹین ایج میں بدمعاش ہوا کرتا تھا۔۔ آہستہ آہستہ انسان بنتا گیا۔"اس نے تفاخر سے کہا تھا جیسے بڑا نیک کام کرتا رہا ہو۔ یہ فرہاد نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔
"ویسے تو ہاتھوں کا کام کافی ہے لیکن اگر کبھی ضرورت پڑی تو پسٹل چلا لیتے ہو؟" یہ اگلا سوال تھا جو کبیر سے پوچھا گیا تھا۔
“ہاں۔۔ میرے دوست عاصم کے بابا آرمی میں تھے۔ انہوں نے اسے گن چلانا سکھائی تھی اور اس نے چھپ کر مجھے۔ نشانہ تو بہت ہی اچھا ہے لیکن پھر بھی میں ہاتھوں کا استعمال ہی کروں گا چونکہ میں اسی میں ماہر ہوں۔۔" اس نے پھر فخر سے کہا تھا۔ "تم نے صرف مجھے پلاننگ اور طریقہ کار سکھانا ہے۔ باقی میں مینیج کر لوں گا۔۔"
“ایک بار پھر سوچ لو۔ مجھے تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔" فرہاد کندھے اچکا کر بےنیازی سے بولا۔ “بس فیس دیکھ لینا پہلے سے زیادہ لوں گا۔۔" کبیر نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا تھا۔
“مجھے تمہارا نام بھی چاہیے۔۔"
“کیا چاہیے؟" بات جیسے فرہاد کے سر کے اوپر سے گزر گئی تھی یا شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی تھی۔۔
“نام۔۔" کہہ تو ایسے رہا تھا جیسے مجھے دس روپے چاہیے اور فرہاد فوراً جیب سے نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دے گا۔ خیر وہ دس روپے بھی نہ دے۔
“دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا۔ سنا تھا لوگ پیار میں پاگل ہو جاتے ہیں آج دیکھ بھی لیا ہے۔۔" اس نے جیسے برا مانتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھے پاگل کو دیکھا اور پھر ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر اس پر سے نظریں ہٹا گیا۔
“تو دے رہے ہو نا؟" اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی فرہاد نے عجیب طرح سے اسے دیکھا۔ کیا اس نے اس سے فارسی بولی تھی؟؟
“بلکل بھی نہیں زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے خیال سے مجھے چلنا چاہئے ورنہ تو تم میری سرمئی آنکھیں میرے بال ہاتھ پائوں اور پتہ نہیں کیا کیا مانگ لو۔۔" وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کبیر بھی ہنستے ہوئے اس کے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا۔
“سمجھنے کی کوشش کرو میرا اصلی نام کہیں سے بھی پکڑا جا سکتا ہے۔ ایک معروف بزنس مین کا بیٹا ہوں۔ تمہارا کیا ہے تمہیں کون جانتا ہوگا۔۔" بات تو ٹھیک ہی کہی تھی اس نے لیکن فرہاد کو ضرور یہ اپنی بےعزتی ہی لگی تھی۔ وہ سر نہ میں ہلاتا ہوا باہر جانے لگا۔ اس نے ٹھان رکھی تھی اپنا نام وہ کسی کو نہیں دے گا۔ کبیر تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔
“فرہاد پلیز۔۔ انابیہ کا صرف ایک دشمن نہیں ہے۔۔ یقین کرو صرف نام سے تم مشکل میں نہیں پھنسو گے۔ چہرہ تو میں اپنا ہی استعمال کروں گا۔" وہ رک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا جیسے جواب کا منتظر ہو لیکن فرہاد بس کڑی نظروں سے منہ پر تالا لگائے اپنے سامنے کھڑے پاگل کو دیکھ رہا تھا۔ "اچھا ٹھیک ہے ماسک پہن لوں گا؟؟" اس نے فوراً جیسے تصحیح کی۔
"مجھے اس کے خاندان کا بدلہ لینا ہے اور اس کے لیے مجھے بس تمہارے نام اور ساتھ کی ضرورت ہے۔ پلیز۔۔" وہ کبیر جہانگیر تھاجس نے کبھی کسی کے لیے پلیز لفظ کا استعمال نہیں کیا تھا لیکن انابیہ کے لیے کچھ بھی۔۔ فرہاد نے جیسے ہار ماننے کے انداز میں تھکی ہوئی سانس ہوا میں خارج کی۔ کبیر اس کے جواب کا منتظر سا اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔
“میں نے انابیہ میم کا فون ہیک کرکے اس دن کی کال ریکارڈ کر لی تھی۔ وہ ریکارڈنگ میں تمہیں سینڈ کر دیتا ہوں۔ اس بندے کا پتہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔۔ اور ہاں ایک بائیک کا بندوبست کر لو اس پر پیچھا کرنا آسان ہوتا ہے۔۔" وہ عام سے لہجے میں کہتے کہتے آگے بڑھ گیا اور کبیر کچھ دیر سدھ بدھ وہیں کھڑا رہا کیا وہ مان گیا تھا؟ اتنی آسانی سے؟ سر جھٹک وہ پھر اس کے پیچھے گیا۔
“میں اپنی بائیک نہیں دوں گا۔ واقعی نہیں دوں گا۔۔" اس نے انگشت شہادت اٹھا کر کبیر سے کہا تھا جس پر وہ ہنس دیا۔ اس کے پاس اپنی بائیک تھی۔ وہ دونوں اب ساتھ چلتے جا رہے تھے فرہاد مسلسل اس سے کچھ کہہ رہا تھا جس پر وہ مسلسل سر ہلاتا جا رہا تھا۔

●●●●●●●●●●●●●

دروازہ کھلا تو روشنی میں وہ نیچے جاتی سیڑھیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ فرہاد کے ایک دوست کے گھر کا بیسمینٹ تھا جو اس نے فرہاد کو ہی دیا ہوا تھا۔ وہ خود کسی فلیٹ میں رہتا تھا اور یہاں صرف کام کے لیے آتا تھا۔ فرہاد نے نیچے پہنچ کر لائیٹس آن کر دیں۔ اگلے ہی لمحے بیسمینٹ مکمل روشن ہو چکا تھا۔ سیڑھیوں کے اختتام پر ہی اس کی نظروں نے پورے بیسمینٹ کا جائزہ لیا۔ وہاں بےترتیبی بہت تھی اور کبیر کو ایسے الجھن ہوتی تھی خیر وہ اس کے کام کی جگہ تھی۔
“ایک گھر کا بندوبست کرو۔ میں جس فلیٹ میں رہتا تھا اس کا رینٹ بڑھ گیا ہے۔" کبیر کی نظریں دائیں طرف پڑے تین سسٹمز پر تھیں۔ تینوں ایک دوسرے سے مختلف لگتے تھے۔ وہ ضرور ان سے ہیکنگ وغیرہ کا کام لیتا ہوگا۔ گارڈ کم کوئی ایجنٹ زیادہ لگتا تھا۔
“اور کچھ؟؟" ایک طرف دیوار پر بہت سے لوگوں کی تصویریں لگی تھیں۔ وہ انہی کو دیکھتے ہوئے جیسے لاپرواہی سے بولا تھا۔ جہانگیر صاحب تھے نا گھر کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔۔ فرہاد اس کی طرف گھوما جو تصویروں میں کھویا ہوا تھا۔
“انابیہ میم نے میرا چہرہ دیکھا ہوا ہے ۔ احتیاط کرنا وہ تمہارا بھی نہ دیکھ لیں۔ مجھے محبت کے ادھورے قصے بلکل بھی پسند نہیں ہیں۔" کبیر نے برہمی سے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔ فرہاد اس کی سخت نظروں سے اپنی نظریں چراتے ہوئے الماری تک گیا۔ کبیر نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر اسے دیکھا تھا اور پھر درمیان میں چھت سے لٹکتے بڑے سے پنچنگ بیگ نے اس کی توجہ کھینچی۔
“تمہیں اگر کچھ چاہیے تو لے سکتے ہو۔۔" فرہاد کے کہنے پر وہ چلتے ہوئے اس کے قریب گیا اور سب سے پہلے اس کی نظر شیشے کے باکس کے اندر کچھ خوبصورت چار پسٹلز پر رکی۔ فرہاد نے اس کی نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے ٹیبل پر پڑے اس باکس کو دیکھا۔ "سوائے ان کے۔۔" اس نے فوراً سے باکس اٹھا کر واپس الماری میں رکھ دیا اور الماری بند کردی۔ کبیر نے کندھے اچکا کر اسے دیکھا۔ پھر اس کی نظر ادھ کھلے دراز پر رکی جس میں کوئی چیز اٹکی ہوئی تھی۔ اس نے دراز کھول کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا وہ سیاہ چمڑے کے بنے دستانے تھے جس کی انگلیوں میں بڑی بڑی سلور کی انگوٹھیاں تھیں۔ وہ اب دونوں کو ہاتھوں میں پہن رہا تھا۔
“یہ میرے ہیں۔۔" فرہاد نے جیسے تڑپ کر کہا تھا۔
“اب سے میرے ہیں۔۔" وہ دونوں ہاتھوں میں پہن چکا تھا اور اسے یہ واقعی بہت اچھے لگے تھے۔ فرہاد نے خفگی سے اسے دیکھا اور پھر اپنے دستانوں کو جو اسے اب کبھی نہیں ملیں گے۔ وہ مٹھی بند اور کھول کھول کر دیکھ رہا تھا۔ اس دراز میں کچھ اور چیزیں بھی تھیں۔ کبیر نے غور کیا تو کچھ زنجیریں برآمد ہوئیں۔ جن میں سے ایک اس نے اٹھا لی۔ اب کی بار فرہاد کا چہرہ بےتاثر تھا یعنی وہ یہ لے سکتا تھا۔
"میں ایسا گھر لوں گا جس کے ساتھ بیسمینٹ ہوگا تم اپنا یہ سارا سامان وہاں شفٹ کر وا دینا۔ وہ والی چئیر بھی مجھے چاہیے۔۔" اس نے کہتے ہوئے بازو لمبا کر کے فرہاد کے پیچھے چئیر کی طرف اشارہ کیا۔ فرہاد نے گھوم کر دیکھا۔ وہ الیکٹرک چئیر تھی۔ پھر کبیر کو دیکھا۔ "یہ بندہ کتنا خطرناک ہے۔۔" اس نے دل ہی دل میں کہا تھا۔ ایسا اس نے اس لیے سوچا کیونکہ اس نے آج تک اس چئیر کا استعمال خود کسی کے لیے نہیں کیا تھا۔
"اچھا کام کی باتیں سن لو۔ کچھ رولز ہیں جو تم سیکھ لو تو بہتر ہوگا۔۔" کبیر نے سمجھ کرسر ہلایا۔۔

●●●●●●●●●●●●●

“رول نمبر 1۔ گنز کا استعمال صرف مجبوری کے لیے ہوتا ہے۔مجھے خود گنز کا استعمال پسند نہیں ہےاور یہی توقع رکھتا ہوں کہ میرا سٹوڈنٹ بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا۔ سبق سکھانے کے لیے دماغ اور ہاتھوں کا استعمال زیادہ ضروری ہے۔" اس کے سمجھانے پر کبیر نے سر اثبات میں ہلایا۔ وہ دونوں اسی بیسمینٹ میں تھے۔
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے انابیہ کو جاتا دیکھ رہا تھا۔وہ تیزی سے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھی۔ بیگ زور سے ساتھ والی سیٹ پر پھینکا۔۔ گاڑی سٹارٹ کی اور اگلے ہی لمحے گیٹ سے گاڑی عبور کرتی وہاں سے چلی گئ۔۔ اس اندھیری رات میں وہ اکیلی آئی تھی اور اکیلی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ڈرائیور بھی نہیں تھا۔۔ اسے اس سے پوچھنا چاہئے تھا۔سر جھٹک کر وہ پردے کھینچتا ہوا اپنے بیڈ کی طرف بڑھ گیا پھر سر جھٹک کر بیڈ کے ساتھ سے ہوتے ہوئے الماری کی طرف بڑھ گیا۔ پانچ منٹ سے بھی پہلے کپڑے بدل کر وہ اب سائڈ ٹیبل کی دراز سے وہی دستانے نکال کر پہن رہا تھا۔پھر اس کی نظر اپنے اسی لاکٹ پر پڑی جو کل ہی اس نے نکال کر یہاں دراز میں رکھ دیا تھا۔ اب چونکہ وہ دوبارہ بہت پرانا والا کبیر بننے جا رہا تھا سو تیاری تو پوری ہونی چاہیے دوسرا والا فون جیب میں ڈالا جو وہ اب سے فرہاد بن کر استعمال کرے گا۔ ہیلمٹ اٹھایا اور بھاگتے ہوئے نیچے گیا۔ گیراج میں پہنچ کر بائیک سٹارٹ کی۔ گیٹ کھل گیا تھا اور وہ فل سپیڈ میں بائیک چلاتا وہاں سے اس کے پیچھے گیا۔ انابیہ کی یہ عادت اچھی تھی یا شاید بری کہ وہ گاڑی بہت ہی آہستہ رفتار سے چلاتی تھی۔ رش بلکل بھی نہیں تھی اور وہ دور سے ہی اس کی گاڑی دیکھ چکا تھا وہ اس سے کافی دور تھا۔ صد شکر وہ اس کے پیچھے آیا تھا ورنہ اتنی سنسان سڑک پر ضرور کچھ ہوتا اور اگلے ہی لمحے اس کا ڈر سچ میں بدل گیا۔ایک بائیک اس کی بائیک کے ساتھ سے ہوتے ہوئے تیزی سے انابیہ کی گاڑی کے پیچھے گئ۔ کبیر کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس بائیک پر سوار لڑکوں کے چہروں پر ماسک بھی تھے اور تقریباً اس کی گاڑی کے قریب پہنچ کر ان کی رفتار بھی کم ہو گئ تھی اب تو پکا وہ اس کا پیچھا کر رہے تھے ۔وہ ان دونوں سے اکیلے لڑ سکتا تھا لیکن اسے یقین تھا یہ اسی کے بندے ہو سکتے ہیں جو انابیہ کو تنگ کر رہا تھا۔ اس نے کم رفتار سے چلتی بائیک میں ہی تیزی سے جیب سے فون نکالا ایک نمبر ملایا اور فون کان سے لگایا۔
“گاڑی لے کر جلدی پچھلی سڑک پر پہنچو۔ پانچ منٹ کے اندر۔۔" وہ ابھی بات ہی کررہا تھا کہ اس نے دور سے ہی دیکھا انابیہ کی گاڑی رک گئ تھی کیوں؟ ایک لمحے میں جاننا مشکل تھا۔ پھر اس نے دیکھا انابیہ گاڑی سے اتر کر بونٹ کے پاس گئ تھی۔ گاڑی خراب ہو گئ تھی۔ بائیک والے بڑی احتیاط سے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہی اس کی گاڑی کے قریب گئے۔ اور اسی لمحے کبیر بائیک اڑاتے ہوئے ان کے قریب لے گیا۔ گاڑی پہنچ جائے گی پہلے اسے خود ان کی طبیعت صاف کرنی تھی اور پھر انہیں نامعلوم جگہ پر لے جا کر ان کی عقل ٹھکانے لگائے گا۔

●●●●●●●●●●●

"رول نمبر 2۔ جزبات سے کام نہیں لینا صبر اور دماغ سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ ایک بات یاد رکھنا کوئی کتنی بھی ہوشیاری کر لے ایک غلطی ضرور کر جاتا ہے۔ یہ جو کوئی بھی ہے خود تو سامنے کبھی نہیں آئے گا لیکن کہیں پر یہ ایسی غلطی ضرور کرے گا جو اس کے چہرے سے پردہ ہٹانے کے لیے کافی ہوگی۔۔"
اور اس رات جابر نے ان دو بندوں کو انابیہ کے پیچھے بھیج کر غلطی کر دی تھی۔
اس ٹھنڈی رات میں اس کے سامنے دو نفوس کرسیوں سے بندھے پڑے تھے۔"ہم نے بس اسے دو دفعہ کلب میں دیکھا تھا اس کے علاوہ کہیں بھی نہیں۔۔ اس نے ہمیں پیسے دیے تھے اس کام کے۔۔" کبیر نے اس کا چہرہ زور سے چھوڑا اور پیچھے ہوا۔
"شاید وہ تمہیں وہیں مل جائے۔" اس نے کلب کا نام بتاتے ہوئے کہا۔ کبیر کے تیور مزید سخت ہوئے۔
"کوئی خاص نشانی جس کی وجہ سے میں اسے پہچان سکوں؟" آواز ہنوز سخت تھی۔ وہ دونوں خاموش رہے شاید دماغ پر زور ڈالے سوچ رہے تھے۔
"اس کی گردن کے دائیں طرف ایک ٹیٹو بنا ہے ۔ شاید کوئی تاج سا بنا تھا۔۔" وہ سر ہلاتے ہوئے اپنی دوسری طرف گھوما۔
"ان کا کیا کرنا ہے سر؟" اس کے ایک بندے نے اس سے پوچھا۔
۔ "ان کو چھوڑ دو۔۔ ہمارا کام ختم۔۔" تیزی سے اپنے بندے کو حکم دیتے وہ وہاں سے چلا گیا۔۔

●●●●●●●●●●●●●●
"رول نمبر 3۔۔ کوشش کرو کہ دشمن کے دشمن سے دوستی کر لو۔ ایسا تبھی ہوگا جب آپ ایک بہترین stalker ہوں۔"
"سافٹ ڈرنک۔۔" وہ اس وقت سٹول پر بیٹھا کاونٹر کے اس پار کھڑے لڑکے سے کہہ رہا تھا۔ اسے کلب میں ایک گھنٹہ ہونے والا تھا۔ میوزک کافی تیز تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ اس کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے اوپر سے ناچتے ہوئے پاگل قسم کے لوگ اس کا میٹر اور بھی گھما رہے تھے۔ وہ کافی اکتاہٹ کا شکار تھا تبھی اس کے پاس ایک نسوانی آواز گونجی۔
"کیا چاہتی ہو خود کو بیچ دوں؟" وہ نہایت سختی سے کسی سے بول رہا تھا۔ کبیر نے گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی نظر ایک مرد پر رکی جو اس کے ساتھ والے سٹول پر بیٹھا تھا۔ چالیس سے پینتالیس کے قریب عمر کا مرد۔ کبیر نے فوراً اس کی گردن دیکھی۔ وہاں کوئی نشان نہیں تھا۔ شاید دوسری طرف ہو لیکن اس کے لیے یا تو اس شخص کو کبیر کی طرف گھومنا ہوگا یا کبیر کو اٹھ کر اس طرف جانا ہوگا۔
"خدا کے لیے ۔۔ میری ماں مر جائے گی پلیز۔۔ مجھے جب بھی پیسے ملیں گے میں تمہیں واپس کر دوں گی۔۔" اس کے ٹھیک ساتھ ایک لڑکی کھڑی اس سے ہاتھ جوڑے منت کر رہی تھی جسے وہ بری طرح سے اگنور کر رہا تھا۔ میوزک کی وجہ سے وہ کافی اونچا اونچا بول رہے تھے اسی لیے اس کے لیے سننا زیادہ مشکل نہیں تھا۔
"جولیٹ تم پاگل ہو گئ ہو۔ میں کہاں سے لائوں اتنی رقم؟ پیسے کوئی درختوں پر نہیں لگے ہوتے۔۔" وہ اب بھی اس لڑکی کو جھڑک رہا تھا۔کبیر اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کے ساتھ سے ہوتا کائونٹر کے دوسری طرف گیا۔ وہ ایک کانچ کی بوتل دیکھ رہا تھا دفعتاً اس نے گردن موڑ کر اس شخص کو دیکھا اور تبھی اسے اس کی گردن پر بنا وہ تاج مل گیا۔۔ "پرفیکٹ!!" زیرلب بڑبڑاتے ہوئے وہ دوبارہ اپنی نشست پر جا بیٹھا۔
"اپنے باس سے ادھار لے لو۔ پلیز سمجھو میری ماں مر گئ تو میرا کیا ہوگا؟" وہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی لیکن جابر کو جیسے احساس نہیں تھا۔ سر جھٹک کر اس نے گہرا سانس بھرا اور اٹھ کر اس کی طرف گھوما۔
"ڈونٹ میک می فول لیڈی۔۔ تم جیسی لڑکیوں کے سو بہانے ہوتے ہیں۔" اس نے درشتی سے اس روتی ہوئی لڑکی کا بازو پکڑا۔۔"اسی لیے تم میرے ساتھ رہتی رہی ہو نا کہ ایک دن تم مجھ سے اتنی بڑی رقم مانگو گی اور میں تمہارے حسن پر پیسوں کی بارش کر دوں گا۔۔" سختی سے کہتے اس نے اس کا بازو چھوڑا۔ جولیٹ کی سرخ آنکھوں میں کرب سا ٹھہر گیا تھا۔ سامنے کھڑا شخص بغیر ہاتھوں کا استعمال کیے اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر گیا تھا۔
"جائو کسی اور سے لے لو۔۔ جابر کے پاس فالتو کا پیسہ نہیں ہے۔۔"یہ آخری بات تھی جو اس نے کہی تھی اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔ جولیٹ بےسدھ سی کھڑی رہی۔۔ موقع اچھا تھا کبیر فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور جولیٹ کے پیچھے جا کھڑا ہوا پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور اس کے کان کی طرف جھکا۔
“Why are you crying beautiful lady?” آواز پر جولیٹ تیزی سے پیچھے گھومی اور اسی تیزی سے کبیر نے چہرہ پیچھے کیا۔ ایک دراز قد نوجوان اسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا جو اس سے عمر میں تو دس بارہ سال چھوٹا ہی ہوگا۔
"”Who are you to ask this? وہ بھیگی آنکھوں مگر سخت لہجے میں اس سے پوچھنے لگی۔
"تم مجھے دوست کہہ سکتی ہو۔۔" وہ دوستانہ انداز میں کہتے ہوئے کاونٹر کی طرف گھوما اور اپنا گلاس اٹھا کر کاونٹر سے ٹیک لگائے اسے دیکھنے لگا۔
"تمہیں دوست کہوں اور جسے دوست سے بڑھ کر سمجھا تھا وہ منہ پر طمانچے مار کر چلا گیا اور اب اگلا موقع تمہیں دوں۔۔" وہ غصے سے غرائی تھی اور کبیر کے تاثرات ایک دم سنجیدہ ہوئے مگر اگلے ہی لمحے وہ خود کو کمپوز کر گیا۔ اسے صبر سے کام لینا تھا۔
"تم غلط سمجھ رہی ہو۔ بس دیکھا تم رو رہی ہو تو سوچا پوچھ ہی لوں۔۔" مسکراہٹ پھر سے اس کے چہرے پر تھی۔
"تم ایک کلب میں بیٹھے ہو اور یہاں کوئی کسی کے آنسو پونچھنے نہیں آتا اپنا مطلب پورا کرنے آتا ہے۔ کیا چاہتے ہو؟"
"کریکٹ۔۔" کبیر نے ہوا میں چٹکی مارتے ہوئے دات دینے کے انداز میں کہا۔۔ "تم ایک سمجھدار لڑکی ہو۔ تمہارا بوائے فرینڈ تمہیں چھوڑنے پر ضرور پچھتائے گا۔۔"
"پچھتائیں گے تو اس کے اچھے بھی۔ سمجھتا کیا ہے وہ خود کو؟" اس کی آنکھوں میں نفرت دیکھ کر کبیر کافی محظوظ ہو رہا تھا۔"میرے ساتھ دشمنی مول کر اس نے اچھا نہیں کیا۔۔" وہ جو بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی پتہ نہیں کیسے مگر بولتی گئ۔
"تو دشمن کا دشمن آپس میں دوست بن جائیں تو کیسا رہے گا؟" یہ دوستی کی پیشکش جولیٹ کے سر کے اوپر سے گزر گئ۔
"تمہاری کیا دشمنی ہے؟" کمال ہے وہ سٹول کھینچ کر اس کے سامنے بیٹھ گئ۔ کبیر نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
"ہے بس کوئی دشمنی تم بتائو۔۔ تمہیں کتنی رقم چاہیے؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ جولیٹ کچھ حیرت سے اسے دیکھے گئ۔ وہ واقعی اس کی مدد کرنا چاہ رہا تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ اسے بھی اس کی مدد کی ضرورت ہوگی اس لیے بلا جھجھک اس نے اسےرقم بتا دی۔

●●●●●●●●●●●●●●●●
گاڑی ایک گھر کے سامنے رکی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر جولیٹ تھی اور اس کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر کبیر تھا۔ کبیر نے گردن جھکا کر جولیٹ کی طرف کے شیشے سے باہر اس چھوٹے سے گھر کو یکھا۔
"جابر یہاں رہتا ہے؟" اسے کچھ حیرت ہوئی تھی۔
"ہاں صرف میرے ساتھ۔۔" جولیٹ سیٹ بیلٹ کھول رہی تھی۔ "اس کا اصل گھر یہاں نہیں ہے۔اس کے اصل گھر پر حملہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے ساتھ بہت گارڈز ہوتے ہیں۔یہاں تم اسے آسانی سے پکڑ سکتے ہو کیونکہ یہاں وہ اکیلا آتا ہے میرے لیے۔۔ " کہتے ساتھ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئ۔ کبیر نے ٹھنڈی آہ بھری اور اس کے پیچھے گیا اس کے ہاتھ میں وہی بھاری زنجیر تھی۔ جولیٹ اب گیٹ پر لگے تالے کو کھول رہی تھی۔
"اپنے بندوں سے کہو وین گھر کی پچھلی طرف کھڑی کر دیں۔۔" وہ تالا کھول چکی تھی۔ کبیر نے سر اثبات میں ہلایا اور وین کے ساتھ کھڑے اپنے لڑکے کو اشارہ کیا جس پر اس نے تابعداری سے سر ہلایا۔ اندر جاتے ہی اس نے ایک طرف لان کو دیکھا جہاں قطار در قطار بڑے بڑے درخت تھے۔ جولیٹ راہداری سے چلتے ہوئے اب مین دروازے تک چلی گئ تھی۔
"وہ جانتا ہے مجھے اتنی جلدی یہ رقم کوئی نہیں دے گا اور یہ بھی سوچ رہا ہوگا کہ میں دوبارہ اس سے مدد ضرور مانگوں گی۔۔"وہ طنزیہ سا ہنسی۔ دروازہ کھل گیا تھا وہ سیدھا اندر گئ۔ کبیر بلکل اس کے پیچھے تھا۔ کچھ قدموں کے بعد سامنے لائونج آتا تھا۔ سامنے دو کمرے تھے بجائے وہاں جانے کے جولیٹ ساتھ والے کمرے میں گئ۔
کبیر نے دیکھا اس کا رخ الماری کی طرف تھا اس نے تیزی سے الماری کھولی۔ کچھ لاکرز کے لاک کھولے۔ وہاں اس کے ضروری کاغذات اور کچھ جیولری تھی۔وہ نکال نکال کر بیڈ پر پھینکنے لگی۔ پھر جھک کر نیچے سے ایک بیگ نکالا اور پھر بیڈ تک آئی۔
"وہ آج یا کل یہاں ضرور آئے گا۔۔" وہ اب بیگ کی زپ کھول کر اس کے اندر بیڈ پر پھیلائی ساری چیزیں ایک ایک کر کے ڈال رہی تھی۔
"تم سے تو لڑائی ہوئی ہے پھر یہاں کیوں آئے گا؟"کبیر سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔ جس پر اس نے سیدھے ہو کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔
"دو دن پہلے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس دراز میں اس کے کچھ ضروری کاغذات ہیں وہ کل کے دن اسے چاہیے۔ وہ ہر حال میں آئے گا۔۔" کبیر آنکھیں چھوٹی کیے اس دراز کو دیکھ رہا تھا۔
"ایسے کون سے کاغذات ہیں؟؟" اس نے پوچھا۔۔
"جو بھی ہیں میں نے پوچھنا ضروری نہیں سمجھا۔ تم بھی ان کو چھوڑو اور پوزیشن سیٹ کرو وہ آتا ہوگا۔" وہ اپنا سارا سامان باندھ چکی تھی۔ پھر اس کے قریب گئ۔
"اور کوئی کام؟؟" چہر ے پر مشکور سی مسکراہٹ سجائے وہ کبیر سے پوچھ رہی تھی جس پر اس نے سر نفی میں ہلا دیا۔
" پیسے تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئے ہیں۔" اس نے عام سے لہجے میں کہا جس پرجولیٹ کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
"میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔۔ میں نے تو کچھ خاص کیا بھی نہیں جتنی رقم تم نے مجھے دی ہے میں اسے تمہاری مدد ہی سمجھوں گی۔ تم بہت تیز ہو۔ بدلہ بھی لے لو گے اور نیکی بھی کما لی ۔۔" کبیر ہنس کر پیچھے ہوا۔
"جو کچھ بھی رہتا ہے جلدی سے لو۔ میں ذرا لڑکوں کو گائیڈ کر دوں۔۔" جولیٹ سر اثبات میں ہلاتی دوبارہ الماری تک گئ۔
کبیر نے دو لڑکوں کو سمجھا کر سامنے کمرے میں جانے کو کہا۔ اور ایک لڑکا اس نے اوپن کچن کی طرف ببھیجا۔ کچھ ہی دیر میں جولیٹ ہاتھوں میں بیگ پکڑے کمرے سے باہر آئی۔
"ٹائم پورا ہے وہ آتا ہوگا۔۔" وہ روانی میں بولتی کمرے کو لاک کر گئ تھی۔ کبیر اور وہ دنوں ساتھ ہی باہر گئے تھے۔ کبیر کا ارادہ گھر کے باہر رکنے کا تھا۔

●●●●●●●●●●●●

"رول نمبر 4۔ غلطی سے پرہیز کرنا۔ تمہاری کوئی بھی غلطی مخالف کو الرٹ کر دے گی۔۔"
اور اس رات ایک غلطی ہو گئ تھی۔ وہ درخت کے پاس کھڑا چھپنے کی جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جولیٹ دروازہ بند کر رہی تھی تبھی اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے دروازہ چھوڑ کر کال اٹینڈ کی۔۔
"کیا ہوا ماں کو؟؟" وہ تقریباً چیختے ہوئے بولی۔ کبیر فوراً اس کی طرف متوجہ ہوا۔"تم رو مت میں جلد پہنچ جائوں گی۔۔" اس نے تیزی سے کال کاٹی اور بھاگتے ہوئے کبیر کی طرف گئ۔
"مجھے جلد صبح کی فلائٹ سے بیلجیئم پہنچنا ہے۔ میں چلتی ہوں مجھے صبح تک سارے بندوبست کرنے ہیں۔ تم سب سنبھال لینا اور تھینک یو سو مچ فور یور ہیلپ۔۔" وہ روانی میں کہتے کہتے وہاں سے بھاگ گئی۔ جاتے ہوئے گیٹ لاک کر گئ تھی لیکن مین دروازہ وہ کال کی وجہ سے لاک کرنا بھول گئ تھی۔ اس کے جانے کے ٹھیک پانچ منٹ بعد ہی کبیر کو ایک گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔ افف وہ کتنی جلدی آگیا تھا۔ وہ تیزی سے درخت کے پیچھے گیا۔ شکر سب تیاری مکمل تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسے جابر کے چیخنے کی آواز آئی وہ کسی کو فون پر ڈانٹ رہا تھا۔
"جولیٹ تم گھر آئی تھی؟؟" اس نے فوراً سے پوچھا۔۔ کبیر کا رنگ یکدم بدلا۔
"بکواس بند کرو۔۔ تم نے دروازہ لاک نہیں کیا۔۔ ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ تم صبح کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔۔" وہ جتنا غصے سے بول سکتا تھا بول رہا تھا۔۔ کبیر نے افسوس سے سر جھٹکا وہ جاتے ہوئے دروازہ لاک نہیں کر کے گئی تھی۔
" شٹ اپ۔۔ تم اچھے سے جانتی ہو یہاں تمہاری وجہ سے کوئی گارڈ بھی نہیں ہے۔۔ کتنی غیرذمہ دار ہو تم۔۔کل صبح چابی مجھے میرے ہاتھ میں چاہیے۔۔ غلطی کردی میں نے تمہیں چابی دے کر۔۔" اس نے درشتی سے کہتے ہی فون کاٹ دیا۔کبیر نے تھوڑا سا سر نکال کر دیکھا وہ پینٹ کی پچھلی جیب سے ریوالور نکال کر اسے لوڈ کر رہا تھا۔ وہ الرٹ ہو گیا تھا خیر وہ ڈر بھی تو رہا تھا۔ اس نے سر تیزی سے واپس درخت کے پیچھے کیا۔ تھوڑی دیر بعد کبیر نے جھک کر اپنے پیر کے پاس سے بڑا سا پتھر اٹھایا۔ وہ باہر سے با آسانی دیکھ سکتا تھا جابرنے کسی سے کال پر بات کی اور پھر اسی دراز کی طرف جھک کرکچھ ڈھونڈ نے لگا وہ ابھی جھکا ہوا ہی تھا کہ کبیر نے وہ بڑا پتھر پوری قوت سے اندر پھینکا۔ شیشہ ٹوٹ گیا اور خوف نے پر پھیلا لیے تھے۔ اب اس خوف کے پروں میں دب کر ہی جابر کا سانس بند ہوجائےگا۔ اسے پہلے یہی تو کرنا تھا دوسروں کو ڈرانے والے کو پہلے خود خوف سے آشنا کروانا تھا۔

●●●●●●●●●

"رول نمبر 5۔۔" وہ تھوڑا رکا۔ کبیرالیکٹرک چئیر کو آگے پیچھے سے دیکھ رہا تھا۔ خاموشی پر اس نے فرہاد کو دیکھا۔ "ہمارے نئے ایڈریس کا کسی کو نہیں پتہ چلنا چاہیے۔ کسی کو نہیں مطلب کسی کو بھی نہیں۔۔" انگشت شہادت اٹھا کر اس نے تنبیہی انداز سے کہا۔
"میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو۔" وہ کچن کائونٹر کے پاس کھڑا ایک بڑے سے برتن میں تکوں کو مصالحہ لگا رہا تھا۔ اس کے کانوں میں وائیر لیس ہیڈ فونز لگے تھے۔ وہ گانے سننے کے ساتھ ساتھ خود بھی گنگنا رہا تھا۔ تبھی اس نے سر اٹھا کر چوکھٹ پر نمودار ہوتے کبیر کو دیکھا جو اسے مسکرا کردیکھ رہا تھا۔ اس وقت فرہاد اسے ایک گارڈ کم اور شیف زیادہ لگ رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے کانوں پر لگے ہیڈ فونز اتار دیے کیونکہ اسے بات کرنی تھی۔ اور فرہاد تو اب ان مصالحے والے ہاتھوں سے ہیڈفونز اتارنے سے رہا۔
“وہ آرہی ہے۔۔"اس کی آواز پر فرہاد نے سر اٹھا کر ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔
“کون؟؟" پوچھتے ہی وہ دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔
“میرے سپنوں کی رانی۔۔" کبیر نے اس کے کان کے قریب جھک کر سرگوشی نما انداز میں کہا۔ جس پر اس نے سمجھ کر سر ہلایا اور پھر صحیح سے سمجھ لگنے پر اس نے برق رفتاری سے گردن موڑ کر کبیر کو دیکھا۔
“بکواس کر رہے ہو؟" وہ حیرت زدہ شکل لیے اسے دیکھنے لگا جو فریج کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
“وہ تو تم کرتے ہو۔۔" بڑا ہی ڈھیٹوں والا جواب تھا جو اس نے دیا تھا۔ فرہاد چل کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
“میں نے تم کو منع کیا تھا نا کہ یہ ایڈریس کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے اور تم نے اسی کو بتا دیا جو کھڑے کھڑے ہم دونوں کو شوٹ کر سکتی ہے۔۔" وہ آنکھوں میں ڈھیروں حیرت لیے کبیر کو دیکھ رہا تھا جو بڑا ہی پرسکون انداز میں کھڑا بوتل منہ سے لگائے جوس پی رہا تھا۔
“ہم دونوں کو تو نہیں تمہیں صرف تمہیں۔ کیونکہ وہ تو فرہاد میر سے ملنے آرہی ہے نا۔۔" اس نے ہنسی دباتے ہوئے کہا تھا جبکہ فرہاد کا رنگ پل میں بدلا۔
“تم چاہتے ہو کہ یہ مصالحے سے بھرے ہاتھ میں تمہارے چہرے سے صاف کردوں؟؟" اس نے ہاتھ اس کے سامنے کرتے ہوئے بڑے ہی غصے میں کہا تھا جبکہ اس کے سرخ سرخ مصالحے میں لدے ہاتھ دیکھ کر کبیر کی ہنسی جھٹ سے غائب ہوئی۔
“دور ہٹو۔ میں تمہیں قتل کر کے جیل نہیں جانا چاہتا۔۔" وہ فوراً تھوڑا سا پیچھے کھسکتے ہوئے بولا۔ فرہاد سر نفی میں ہلاتے ہوئے سنک کی طرف چلا گیا تب جا کر کبیر نے سکھ کا سانس لیا۔
“میں کیا کرتا ابھی شام میں مجھے میسج آیا تھا اس کا کہ ایڈریس بتائو۔۔ " فرہاد نے گردن موڑ کر اسے گھور کر دیکھا۔
"جیسے وائس چینجر سے میری آواز میں بات کرتے ہو نا ویسے ہی کسی فیس چینجر کے ذریعے میرا چہرہ لگا کر چلے جائو لیکن قسم کھاتا ہوں اصلی فرہاد میر اس کے سامنے کبھی نہیں جائے گا ۔۔" وہ ہاتھ دھو چکا تھا اور اب نل بند کرتے ہوئے صاف صاف کہہ گیا۔
“تمہیں کس نے کہا ہے میں وائس چینجر کا استعمال کرتا ہوں سانولے بھالو ۔میں اپنی ہی آواز میں تھوڑی سی تبدیلی لا سکتا ہوں بس وہ الگ بات ہے کہ بیا پہچان نہیں سکی۔ اپنی اسی بلیسنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عاصم کے ناجانے کتنے ہی بریک اپ کر وائے تھے میں نے۔۔" اس کی بات کے اختتام پر سانولا بھالو بڑبڑ کرتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ اسی دوران گھنٹی بجی۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا۔
“اتنا جلد بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ کبیر دی سائیکو پیتھ۔۔" وہ کچن سے بھاگتے ہوئے گیا۔ کبیر کو بھی اندازہ نہیں تھا وہ سچ مچ آجائے گی۔ وہ تو فرہاد کو تنگ کر رہا تھا اسے یقین تھا انابیہ اس سے ملنے نہیں آئے گی۔ وہ ہڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا۔ دروازہ بند کیا اور کھڑکی سے چھپ کر دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں لائونج میں فرہاد کے ساتھ آتے شخص کو دیکھ کر کبیر کا منہ حیرت سے کھلا۔ وہ انابیہ نہیں تھی۔ گہرا سانس بھر کر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ فرہاد نے اسے سر نفی میں ہلاتے ہوئے دیکھا وہ کیسے شیروں کی طرح انابیہ کے کزن کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
“تمہارے سپنوں کی رانی۔۔" فرہاد نے مسکراہٹ دباتے ہوئے عالیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کبیر سے کہا ایسے جیسے شو پیس دکھا رہا ہو۔
“استغفر اللہ۔۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ عالیان تو اسے دیکھتے ہی شاید کسی اور دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ یہ سب کیا ہو رہا تھا خود سے جاننا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔
“تم یہاں کر رہے ہو؟" خود پر طاری سکتے کو توڑتے ہوئے بلآخر عالیان نے سامنے بیٹھے مطمئن شخص سے پوچھ ہی لیا۔ فرہاد نے باری باری دونوں کا چہرہ دیکھا تو اسے معلوم ہوا وہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے بلکہ بہت اچھے سے جانتے تھے۔
“یہ میرا گھر ہے۔" کبیر نے مختصراً کہا۔پھر عالیان فرہاد کی طرف گھوما۔
“تو تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" اس نے فرہاد سے پوچھا۔۔ "بلکہ تم دونوں ساتھ کیا کررہے ہو؟ او خدایا یہ کیا ہو رہا ہے میں تو فرہاد سے ملنے آیاتھا۔ اس سے کیوں ملوا دیا؟؟" وہ سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے اوپر دیکھتے ہوئے رب سے شکوہ کر رہا تھا۔
“او ہیلو۔۔ مافیا مین پرسکون ہو جائو۔ ہم بتاتے ہیں نا تمہیں سب۔۔" کبیر نے اسے سر پکڑا دیکھ کر کہا تو عالیان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ وہ اسے مافیا مین کیوں کہہ رہا تھا؟
“اتنا حیران نہ ہو۔ تم نے عابس بھائی کو اپنی اٹلی والی ساری کہانی سنائی تھی نا تو انہوں نے بلکل ویسے ہی مجھے بھی سنا دی۔ بڑے ایڈوینچر کر کے آئے ہو تمہارے ساتھ مزہ آئے گا۔۔"اس نے ایک آنکھ دباتے ہوئے شرارت سےکہا۔ "میں تو انابیہ کے انتظار میں بیٹھا تھا تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" اس کے پوچھنے پر عالیان نے گہرا سانس بھرا اور اس کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
“اچھا اب اسے سانس بھی لینے دو۔ آتے ساتھ سوال جواب شروع کر دیے ہیں۔" فرہاد نے کبیر کو ٹوکنے والے انداز میں کہا اور عالیان کی طرف متوجہ ہوا۔ "لڑکے تم بتائو۔ فلٹر والا پانی پیو گے یا ٹینکی کا لادوں۔۔" عالیان نے اسے بھنویں سکیڑ کر ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو میں مذاق کے موڈ میں بلکل بھی نہیں ہوں۔۔ "گھور کیوں رہے ہو۔۔ اب بتا بھی دو شرمائو مت۔۔"
“جائو یہاں سے تنگ نہ کرو اسے۔۔ پانی لے کر آئو اس کے لیے دیکھ نہیں رہے تمہیں اور مجھے ساتھ دیکھ کر صدمے میں چلا گیا ہے۔۔" کبیر نے استہزائیہ انداز سے کہا تو فرہاد سر اثبات میں ہلاتا کچن کی طرف جانے لگا۔ اس کے جاتے ہی عالیان کبیر کی طرف گھوما۔
“انابیہ نے مجھے یہاں فرہاد سے ملنے کے لیے بھیجا ہے وہ چاہتی ہے کہ فرہاد میرا ساتھ دے۔ میں اپنی فیملی کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ لیکن تم یہاں کیوں ہو؟" عالیان نے فوراً سے پوچھا۔
“اوہ تو یہ بات ہے۔ وہ میرا استعمال کر رہی ہے۔۔" اس کی یہ بات عالیان کے سر کے اوپر سے گزر گئ۔ "بلکل جیسے تم نے میرے نام کا استعمال کیا ہے۔۔"فرہاد پانی لے آیا تھا اور لائونج میں داخل ہوتے ہی اس نے یہ بات کہی تھے۔
“اصلی فرہاد میر میں ہوں۔۔" عالیان نے اس کے ہاتھ سے گلاس لیا اور پھر اسے دیکھنے لگا۔ "انابیہ میم کا گارڈ۔۔ مجھے سر جہانگیر نے ان کے لیے ہائیر کیا تھا کیونکہ انہیں زبیر انڈسٹریز کے سی۔ای۔او حنان زبیر سے کچھ خطرہ تھا۔۔"پھر بولتے ہوئے رک کر اس نے کبیر کو دیکھا اور پتہ نہیں کیوں بس ہنس دیا۔ "لیکن یہ کبیر جہانگیر۔۔ دی سائیکو پیٹھ۔ پتہ نہیں کہاں سے آ ٹپکا اور مجھ سے میرا نام لے گیا۔۔"عالیان کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔
“میں اسے کسی کے آسرے پر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔"اس کی آواز دھیمی تھی۔۔
“لیکن میں کسی نہیں بلکہ Chicago ایجنسی کا سرٹیفائیڈ گارڈ ہوں۔۔" فرہاد نے اترا کر اپنا عہدہ بتاتے ہوئے کہا۔
"ایک کام کیوں نہیں کرتے اپنا نام فرہاد میر کی جگہ فرہاد چیکاگو رکھ دو بار بار بتانا نہیں پڑے گا کہ تم چیکاگو کے گارڈ ہو۔۔" کبیر نے طنزیہ انداز سے کہا تو فرہاد اسے جواب دینے ہی لگا تھا کہ اس سے پہلے عالیان بول پڑا۔
"سمجھ گیا۔۔" عالیان نے پانی سے بھرا گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک گھونٹ بھی نہیں پیا تھا۔۔ "تم فرہاد میر بن کر اسے پروٹیکٹ کرتے رہے ہو اور اسے خبر تک نہ ہوئی کمال ہے۔۔"اس نے دات دینے کے انداز میں کہا تھا۔ "اور وہ کہتی کہ کبیر جہانگیر اس سے نفرت کرتا ہے۔۔" وہ استہزاء سے کہتے ہوئے ہنسا۔
“میں نے اس سے کبھی نفرت نہیں کی۔۔ غصہ تھا بہت تھا لیکن نفرت نہیں تھی۔۔" اس نے عام سے لہجے میں کہا ۔“ڈیڈ نے جہانزیب کے بارے میں مجھے سب بتا دیا کہ کیسے اس نے تم لوگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ مجھے بہت افسوس ہے۔ میں چاہتا ہوں تم ہمارے ساتھ مل کر اپنوں کو انصاف دلوائو۔۔"
“انابیہ بھی اب یہی چاہتی ہے کہ میں فرہاد۔۔" وہ رکا اور پھر ہنس دیا۔۔ "یعنی تمہارے ساتھ مل کر جہانزیب کو اس کے کیے کی سزا دوں۔۔"
"جہانزیب تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ ہمیں سخت پلاننگ سے کام لینا ہوگا۔" کبیر نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“اگر ہم کسی طرح اس کے قریب ہو جائیں تو۔۔" اس بار عالیان بولا تھا۔ کبیر ہنوز پیشانی پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ تبھی دونوں نے پرامید نظروں سے فرہاد میر کو دیکھا جو بڑے ہی مطمئن انداز سے دونوں کو آنکھیں چھوٹی کیے دیکھ رہا تھا۔
“جانتا تھا۔۔" اس نے گہرا سانس بھرتے موبائل آن کر کے اس کی اسکرین دونوں کے سامنے کی جس پر ایک لڑکی کی تصویر تھی جو اپنے بائیک کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ دونوں نے کچھ ناسمجھی سے فرہاد کو دیکھا۔
“مسکان جہانزیب۔ جہانزیب عالم خان کی بیٹی۔۔" اس نے فخریہ انداز سے اس لڑکی کا نام لیا جبکہ کبیر اور عالیان بری طرح چونکے تھے۔
“ظفر کی بہن۔ آہ ایک اور کزن۔۔" عالیان نے پیچھے ہو کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
“بلکل۔۔ اسے بائیکس بہت پسند ہیں۔۔"
فرہاد ابھی بول ہی رہا تھا کہ کبیر فوراً سے بولا۔ “اور بائیکر پسند آنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔۔"
“رائٹ۔۔ پھر تم جیسا بائیکر کسے پسند نہیں آئے گا۔۔" فرہاد کی اس بات پر کبیر کے تاثرات ایک دم بدلے۔ فرہاد اس معاملے میں اسے گھسیٹ رہا تھا۔ عالیان بغور دونوں کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
“فضول بکواس مت کرو۔ میں تمہاری بات کر رہا تھا۔ جو کرنا ہے اب تم کرو گے۔۔" کبیر یکدم بدمزہ ہوا تھا اور سختی سے اسے کہنے لگا جس پر فرہاد سر نفی میں ہلاتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔
“بھول گئے تم نے آج صبح میری جاب کے لیے بات کی تھی۔ مجھے کال آگئ ہے اور صبح کی فلائٹ سے میں جا رہا ہوں۔۔" کبیر کے چہرے کی ہوائیاں ایک دم سے اڑی۔ وہ کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن بلاوجہ کسی کی زندگی میں مداخلت کبھی نہیں کرے گا وہ بھی جب بات ایک لڑکی کی ہو۔
“تمہارا مطلب ہے کبیر جائے گا حیدرآباد اور اس لڑکی کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر جہانزیب کی حویلی میں داخل ہو گا اور پھر۔" عالیان نے جیسے کڑیاں جوڑتے ہوئے کہا۔ کبیر نے تیزی سے گردن گھما کر اسے کچھ خفگی سے دیکھا۔ جبکہ فرہاد نے عالیان کو بڑے ہی دات دینے والے انداز سے دیکھا۔ وہ کتنا سمجھدار تھا۔
“کبھی بھی نہیں میں کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرنے کی ہمت بلکل نہیں کر سکتا۔۔" وہ سر دائیں بائیں ہلاتے ہوئے صاف مکر گیا۔ فرہاد اور عالیان نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
“کیوں نہیں کر سکتے۔ اس کے باپ نے جو ہمارے ساتھ کیا اس کا کیا؟" عالیان کی آواز اب اونچی تھی۔
“تم دونوں پاگل ہو گئے ہو کیا۔ جو بھی جہانزیب نے کیا ہے اس کی سزا اسے دو اس کی بیٹی کا کیا قصور؟؟"
“اور اس کے بیٹے کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے ردا کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔" اب اس کی آواز پہلے سے بھی زیادہ اونچی تھی۔ کبیر نے کچھ ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔ "اس کی اولاد بھی اسی کی طرح ہے اور ویسے بھی اس کا کیا دھرا اس کی اولاد بھی بھگتے گی۔۔" اس کا انداز حتمی تھا۔ کبیر کچھ بول نہ سکا وہ بہت مشکل میں پھنسا دیا گیا تھا۔
“میں یہاں ہوں گا نہیں۔ ہوتا بھی تو یہ کام کبھی نہ کر سکتا۔ مجھے لڑکیوں کو امپریس کرنا بلکل بھی نہیں آتا اور پھر میں تم جیسا گڈ لکنگ بھی نہیں ہوں۔۔" فرہاد نے بہت ہی افسوس سے کہا تھا۔
“ہاں جیسے میں نے تو زندگی میں سوائے لڑکیوں کو امپریس کرنے کے اور کچھ کیا ہی نہیں ہے نا۔۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور عالیان کی طرف گھوما۔ "تم تو ویسے بھی ان کاموں میں بڑے تیز ہو نا تم کر لو۔۔" عالیان کو اس کی بات بری لگی تھی اسی لیے خفگی سے اسے دیکھنے لگا۔
“کر لیتا لیکن مجھ پر آل ریڈی میری کزنوں کی ذمہ داری ہے میں انہیں ایک دن کے لیے بھی چھوڑ کر حیدرآباد کے چکر نہیں لگا سکتا۔۔" وہ بولتے بولتے رکا اسے لگا شاید وہ کچھ زیادہ ہی بھڑک اٹھا ہے۔ "اور ویسے بھی ظفر مجھے جانتا ہے۔۔" یہ بات کبیر اور فرہاد دونوں کے لیے حیران کن تھی۔
"مگر کیسے؟؟" کبیر نے پوچھا۔
“میرے سوشل ہینڈل کی وجہ سے۔۔ (ٹھنڈی آہ بھری) ایک دھوم مچا رکھی تھی میں نے سوشل میڈیا میں ۔ وہ مجھ سے خود نہ بھی کہتا تو تب بھی میں یہ رسک کبھی نہ لیتا۔۔" کبیر شکست خوردہ حالت میں صوفے پر بیٹھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کرے۔ یہ دونوں مل کر اس سے وہ کام کروا رہے تھے جس کے لیے اس کا دل کبھی نہیں مانے گا۔
“ابھی کچھ دن پہلے تو کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ انابیہ کے لیے کچھ بھی۔۔" فرہاد نے اس کے چہرے پر پھیلا اضطراب دیکھتے ہوئے کہا۔ کبیر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔
“اور اب تم انابیہ کے لیے ایک دل نہیں توڑ سکتے؟" وہ بھنویں سکیڑے بغور اسے دیکھے گیا۔۔
“کسی کا دل توڑنا ہڈیاں توڑنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ تم مجھ سے قتل کروا لیتے لیکن کسی لڑکی کا استعمال کرنے کا نہ کہتے۔۔" اسے لگا وہ کسی کنویں میں بیٹھا خود سے بول رہا ہے۔
“وہ جہانزیب کی بیٹی ہے فکر نہ کرو اسے عشق نہیں ہوگا۔۔ ان کی رگوں میں ایک بیوفا باپ کا خون دوڑ رہا ہے ایک قاتل کا خون۔۔ سمجھ رہے ہو نا تم؟" اب کی بار آواز عالیان کی تھی۔
“تم پریشان نہ ہو میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔۔ جانتا ہوں یہ کام مشکل ہے مگر تم کر لوگے۔" فرہاد چل کر اس کے ساتھ آ بیٹھا۔
“میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔۔ بلکہ ہم تینوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ پلیز کبیر ہماری مدد کرو میں بدلہ لینے سے پہلے مرنا نہیں چاہتا۔۔" عالیان کا انداز اس بار التجائیہ تھا اور کبیر جہانگیر نے نہ چاہتے ہوئے بھی سر اثبات میں ہلا دیا۔ وہ بس ایک بات جانتا تھا۔ انابیہ کے لیے کچھ بھی۔
“اب دیکھنا۔۔ایک سائیکو پیتھ اینگری مین۔ چیکاگو ایجنسی کا باڈی گارڈ اور ایک مافیا مین مل کر اس جہانزیب کی زندگی کیسے جہنم بنائیں گے۔۔" فرہاد نے چیلنجنگ انداز میں کہا۔۔ تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور سر کو ہاں میں جنبش دی۔ وہ سب تیار تھے۔

●●●●●●●●●●●●●

موجودہ وقت:
"یہ سب تو ٹھیک ہے۔۔" اس نے ہاتھ میں پکڑی فائل کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے آفس میں اپنی نشست پر بیٹھی تھی۔ سامنے ہی وانیہ کھڑی تھی جو اس کو یہی فائل دکھانے لائی تھی۔
"تم نے کبیر کو بتایا کہ آج کی میٹنگ میں اس کی موجودگی بہت ضروری ہے؟ کہیں پھر سے غائب نہ ہو جائے پتہ نہیں بار بار آفس چھوڑ کر کہاں چلا جاتا ہے۔۔" نظریں ہنوز فائل پر تھیں البتہ آواز میں کچھ ناگواری ضرور شامل تھی۔
“میں نے انہیں بتایا تھا مگر وہ میٹنگ اٹینڈ نہیں کر سکیں گے۔۔" وانیہ کے کہتے ہی اس نے نامحسوس انداز میں سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ آنکھوں میں اب کچھ سوالویہ تاثر تھا اور اس تاثر کو دیکھتے ہی وانیہ ایک بار پھر چونکی تھی۔ کیا انابیہ کو ہر بات وانیہ سے پتہ چلے گی؟
“کیوں نہیں کر سکے گا؟" فائل بند کر کے اس نے ٹیبل پر رکھی۔
“کیونکہ وہ لاہور جا رہے ہیں۔" یہ جملہ سنتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔۔ "مجھے لگا آپ کو پتہ ہوگا۔۔" وہ اس کے چہرے پر چھائی حیرت کو دیکھتے ہوئے بولی۔
“ٹھیک ہے تم یہ پکڑو۔۔" اس نے فائل وانیہ کو پکڑائی اور بوجھل سانس سے کہتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ وانیہ تابعداری سے سر ہلاتے وہاں سے چلی گئ اور اس کا سانس صرف ایک بات پر اٹک گیا کہ وہ لاہور جا رہا ہے مگر کیوں؟ اس کیوں کا جواب لینے کے لیے وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اپنا آفس ویران چھوڑ کر اس کے آفس کی طرف چلی گئ۔
اس کے آفس پہنچتے ہی اس نے بنا دستک دروازہ کھول دیا۔ اندر سب ویسا ہی تھا بس وہ نہیں تھا۔ اس نے چاروں طرف نظریں گھمائیں لیکن وہ تو وہاں تھا ہی نہیں۔ ایک دم سے اس کی چہرے کی رنگت سفید ہو گئ تھی۔ کیا وہ اس سے ملے بغیر چلا گیا؟ چلو گولی مارو ملنے کو اس نے تو اسے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ تبھی دروازہ کھلا اور وہ چونک کر اس طرف گھومی۔ اندر آنے والا شخص وہیں دروازے پر کھڑا اسے کچھ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جیسے انابیہ کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ کبیر بنا کچھ بولے اندر آگیا تھا۔
“تم لاہور جا رہے ہو؟" اسے لگا اس کی آواز کسی کھائی سے آئی ہو۔ کبیر نے رک کر پہلے اسے دیکھا اور سر اثبات میں ہلاتے اپنی چئیر کی طرف بڑھ گیا۔
“کیوں جا رہے ہو؟ اور کتنے دنوں کے لیے؟ اور واپس کب آئو گے؟" یکبارگی میں ہی اس نے اتنے سوال کر ڈالے۔ وہ جو اپنی چئیر کی طرف بڑھ گیا تھا اس کے قدم بےساختہ رک سے گئے لیکن وہ پلٹا نہیں۔
“تمہیں اس سے مطلب؟" ناچاہتے ہوئے بھی اس نے اپنا لہجہ سخت کیا لیکن انابیہ کو اس کے لہجے کی پرواہ نہیں تھی اسے صرف اس کے یہاں سے جانے کا خوف کھائے جا رہا تھا۔
“مت جائو۔۔" وہ کس قدر ٹوٹی ہوئی آواز میں بولی تھی کبیر نے ضرور محسوس کیا تھا لیکن اپنا سافٹ کارنر وہ فلحال اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خود پر ضبط کرتا وہ اس کی طرف گھوما۔ انابیہ کی آنکھوں میں خوف کی رمق تھی اس نے بغور دیکھا تھا۔
“تم رکی تھی جب میں نے تم سے کہا تھا کہ مت جائو؟ نہیں نا۔۔" اس کی آنکھوں میں تپش واضح تھی اور لہجہ قدرے سرد تھا۔ انابیہ دم بخود سی اسے دیکھے گئ۔
“پلیز۔۔" اس کی آنکھیں نم ضرور تھیں مگر آنسوؤں پر قابو تھا۔ کبیر کو اب واقعی اس پر غصہ آرہا تھا اتنا کہ کاش وہ سچ مچ اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا سکتا۔
“کتنی منتیں کی تھیں نا میں نے بھی لیکن تم نہیں رکی اور آج تم چاہتی ہو کہ تمہارے ایک پلیز کہنے پر میں رک جائوں۔" وہ طنزیہ ہنس دیا۔ انابیہ کچھ نہیں بولی۔ بولتی بھی کیا۔ کچھ تھا ہی نہیں مزید کہنے کو۔ جب وہ اس کے روکنے پر نہیں رکی تو اسے بھی کوئی حق نہیں تھا اسے روکنے کا۔ وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ بس یہی سوچتے وہ پلٹ گئ۔ کبیر نے اس کی اس شکست خوردگی پر افسوس سے گہرا سانس بھرا۔ وہ نہ تو خود رک سکتی تھی نہ اسے روکنے کی ہمت کر سکتی تھی۔ وہ ویسی ہی تھی جلد ہار مان جانے والی۔ کم از کم کبیر کو وہ اب بھی ویسی ہی لگی تھی۔
“جلدی واپس آجائوں گا۔۔" انابیہ کے چلتے قدم رک گئے۔۔ "کچھ ضروری کام ہے ورنہ نہ جاتا۔۔" یہ کیا کہہ گیا تھا وہ۔ انابیہ تیزی سے اس کی طرف گھومی۔ جو سابقہ حالت میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ تاثرات بلکل نارمل تھے لیکن انابیہ کے تاثرات کا کیا جو پل میں بدل گئے تھے۔
“میٹنگ تم ڈیڈ کے ساتھ دیکھ لینا اور۔۔" وہ رک گیا۔ وہ کیوں رک گیا؟ انابیہ سے جیسے اس کا رکنا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔ "اور اپنا خیال رکھنا۔۔" کہتے ہی وہ اپنی چئیر کی طرف گھوم گیا اور انابیہ کو لگا جیسے وہ ابھی گر جائے گی۔ اسے جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ پلکیں جھپکنا تو جیسے اسے یاد ہی نہیں رہا۔ بےاختیار ہی وہ مسکرادی اور بنا کچھ کہے لیکن خوشی ساتھ لیے وہ وہاں سے چلی گی۔ کبیر نے مڑ کر دیکھا جہاں وہ اب نہیں تھی۔ وہ اپنا سافٹ کارنر ظاہر کر گیا تھا۔

●●●●●●●●●●●●

اس کی حیدرآباد جانے کی ساری تیاری مکمل تھی۔ انابیہ سے اس نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ لاہور جا رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ کچھ دن یہاں ہوگا نہیں تو کوئی وجہ تو اسے بتانا تھی۔ وہ کتنا جھوٹا بن گیا تھا بلکہ اسے لگنے لگا تھا کہ جھوٹ اس کی زندگی میں سانس کی طرح شامل ہوگیا ہے جو اسے ہر قدم پر لینا پڑتا تھا۔ انہی سوچوں میں غرق وہ اپنے کمرے میں صوفے پر لیٹا چھت کو دیکھ رہا تھا دفعتاً اس کے کانوں سے اس کے فون کی رنگ ٹکرائی اور رنگ ٹون بھی اس کے دوسرے فون کی تھی جو وہ فرہاد بن کر استعمال کرتا تھا۔ یہ سوچنے پر کہ کال انابیہ کی ہے وہ تیزی سے اٹھا اور سائڈ ٹیبل کی طرف بھاگا جہاں اس کے دونوں موبائل پڑے تھے۔ ایک خاموش اور دوسرا ہنوز بجتا ہوا۔ اس نے جھک کر اسکرین پر غور کیا تو کچھ حیران ہوا کیونکہ وہ کوئی غیر شناسا نمبر تھا۔حیران ہونے کی وجہ بس یہی تھی کہ اس نمبر پر اسے صرف انابیہ، فرہاد اور عالیان کال کر سکتے تھے۔ ماتھے پر سلوٹیں لیے اس نے کال آنسر کر کے فون کان سے لگایا لیکن بولنے میں شروعات نہیں کی کیونکہ وہ دوسری طرف کی آواز پہلے سننا چاہتا تھا۔
"کیا میں مسٹر رائڈر سے بات کر رہی ہوں؟؟" ایک لڑکی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ آواز اسی کی تھی۔ چہرے کی سنجیدگی مزید بڑھ گئ۔ اس نے فوراً خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔
“جی بلکل مگر مسٹر رائڈر ایک ہاری ہوئی لڑکی سے بات نہیں کرتا۔۔" چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اور لہجے میں اداکاری شامل کرتے ہوئے وہ بولا تو مسکان کا منہ حیرت سے کھلا۔ وہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ ہنس دی۔
“اور اس ہاری ہوئی لڑکی کے دو بدلے ہیں آپ کے سر جو وہ لینے کے لیے بے تاب ہے۔۔" وہ بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ ایک ہاتھ میں پکڑا فون کان سے لگائے اور دوسرے ہاتھ کی انگلی میں بالوں کی ایک لٹ گھماتے ہوئے وہ مسکرا کر بولی تھی۔
“اور مجھے بلکل اچھا نہیں لگے گا کہ ایک تیسرا بدلہ بھی میرے سر پر آجائے۔۔" وہ افسوس سے بولا تھا۔
“اب تم مجھے انڈر ایسٹیمٹ کر رہے ہو۔ ہلکا نہیں لینا مجھے۔ ہمارے مہمان تھے اس لیے رفتار ڈھیلی رکھی تھی۔۔" لٹ ہنوز اس کی انگلی پر گھوم رہی تھی اور چہرہ ہنوز مسکراہٹ سے سرشار تھا۔
“نمبر کہاں سے ملا؟" کبیر نے پوچھا۔
“نمبر کا کیا ہے وہ تو مل ہی جاتا ہے سوال یہ ہے کہ اب تم کب ملو گے؟" بجائے جواب دینے کے اس نے اپنا سوال سامنے رکھ دیا۔ کبیر نے گہرا سانس لیا شکر کہ وہ ابھی اس کے سامنے نہیں تھی ورنہ اس کے چہرے کے تاثرات بلکل بھی اچھے نہیں تھے۔ اس وقت وہ بلکل بھی اداکاری کے موڈ میں نہیں تھا۔
“لگتا ہے تیسری بار بھی ہرانا پڑے گا۔۔ "اس کے کہتے ہی وہ جھٹکے سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئ اور اس کے اگلے جملے کی منتظر ہوگئ۔ "تیاری کر لو پھر آج شام اسی سڑک پر ملوں گا میں تمہیں۔۔" مسکان نے بےساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا جیسے ہاتھ رکھنے سے اس کی تیز دھڑکنیں وہ روکنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
“میں تیار ہوں۔۔"خوشی کے مارے وہ بس یہی کہہ پائی۔ کبیر نےجان کے اسے اپنی ہنسی سنائی اور کال کاٹ دی۔

●●●●●●●●●●●●●●●

تو چلو ایک بار پھر چلتے ہیں حیدرآباد کی سڑکوں پر۔ آسمان میں روشنی اب بھی تھی کیونکہ سورج ابھی مکمل طور پر غروب نہیں ہوا تھا اور اسی شام میں ڈھلتے آسمان کے نیچے سڑک کے ایک طرف وہ تھی اس کی بائیک تھی اور انتظار تھا بےتابی۔۔ بےچینی۔۔ اور جان لے لینے والا انتظار۔ سرخ رنگ کا ٹاپ اور سیاہ رنگ کی جینز پہنے وہ اپنی بائیک کے ساتھ ٹیک لگائے دونوں بازو سینے پر لپیٹے منتظر سی کھڑی تھی۔ اس کے بال کھلے کھلے جوڑے میں مقید تھے جس کی دو لٹیں اس کے بلکل نیچرل میک اپ کیے چہرے پر گر رہی تھیں۔ سڑک پر رش نہ ہونے کے برابر تھا اسے یہ بھی پرواہ نہیں تھی کہ جس طرح وہ تن و تنہا سڑک پر کھڑی تھی کوئی نا کوئی گاڑی والا ضرور رک کر اس سے پوچھتا یا اسے تنگ کرتا مگر کہتے ہیں نا جب انسان خوشی کی سب سے اوپری منزل پر ہو تو وہ بس ارد گرد سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یہی کوئی حال اس کا بھی تھا۔ تبھی وقت کو اس پر ترس آیا اور انتظار کی گھڑی ختم ہوئی۔ دور سے ہی اس کی نظروں نے اسے دیکھ لیا جو تیز سپیڈ میں بائیک اسی کی طرف لا رہا تھا۔ وہ بلکل سیدھی ہوئی اور سانس روکے اسے دیکھے گئ۔ اگلے ہی لمحےمسٹر رائیڈر اپنی بائیک کے ساتھ اس کے سامنے تھا۔
"میں نے تمہیں شاید زیادہ ہی انتظار کروا دیا۔۔" اس نے بائیک پر بیٹھے بیٹھے ہی ہیلمٹ اتارتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
“اگر انتظار تمہارا کرنا ہو تو مجھے اس انتظار سے پیار ہے۔۔" اس نے قدرے دھیمی آواز میں کہا تھا لیکن آواز سنی جا سکتی تھی سو اس نے سن بھی لی۔
“دیکھ لو۔۔ خود کو مشکل میں پھنسا دیا ہے تم نے۔۔" ہیلمٹ اتارنے کی وجہ سے اس کے بال بکھر سے گئے تھے باقی رہی سہی کسر اب ہوا پوری کر رہی تھی۔
“سو تو پھنس گئ ہوں۔۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے اعتراف کیا اور بائیک کی طرف بڑھ گئ۔ "تیار ہو نا ہارنے کے لیے؟؟" مڑ کر اس نے کبیر سے پوچھا جس پر وہ ہنس دیا۔
“ہرانے کے لیے۔۔" کہتے ہی اس نے ہیلمٹ دوبارہ پہن لیا۔ حیدرآباد کی سڑکیں اب پھر سے پناہ مانگیں گی ان دونوں آفتوں سے۔
تقریباً آدھے گھنٹے کی ریس کے بعد وہ دونوں سڑک کے ایک کنارے پر کھڑے تھے۔ مسکان نے منہ پھر سے پھلایا ہوا تھا وہ اب کے تیسرے مقابلے میں بھی بری طرح سے ہاری تھی۔
“اب یہ تو غلط بات ہے ہار کو تسلیم کرنا چاہیے نہ کہ یوں منہ پھلانا چاہیے۔۔" کبیر نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں اپنی اپنی بائیک کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ "میں اتنی دور سے آتا ہوں تمہارے لیے اور تم ہار جاتی ہو۔ ترس کھائو تھوڑا مجھ پر۔۔" اس نے افسوس سے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا لیکن مسکان نے جیسے سوائے تمہارے لیے کے اور کچھ سنا ہی نہیں تھا۔
“چھوڑو یار اس ریس ویس کو۔ تم بتائو کتنے دنوں کے لیے آئے ہو؟؟" وہ مکمل طور پر اس کی طرف گھومتے ہوئے بولی۔
“اس بار آیا ہوں تو کچھ دن تو رہوں گا۔ سنا ہے تم عالم خان کی پوتی اور جہانزیب عالم خان کی بیٹی ہو۔۔" اپنے باپ اور دادا کا نام سن کر مسکان نے تفاخر سے گردن ہاں میں ہلائی۔
“دیکھو کتنی بری بات ہے تم میری دوست ہو اور مجھے یہ بات کہیں اور سے پتہ لگی ہے۔۔" کبیر کے چہرے پر ناراضگی ابھری جبکہ مسکان کے چہرے پر بےیقینی امڈ آئی۔ کیا اس نے اسے دوست کہا تھا؟ کیا اس نے سننے میں غلطی کی؟ اس نے دل ہی دل میں خود کو یقین دلایا کہ ہر محبت کا آغاز دوستی سے ہی تو ہوتا ہے سو ہو گیا۔ دوسری طرف کبیر نے بےساختہ لفظ دوست کا استعمال کرنے پر خود کو ڈھیروں لعنتیں دیں۔
“ایسا نہیں ہے میں تمہیں بتانے ہی والی تھی۔۔" اس نے کہا لیکن کبیر کے چہرے پر خفگی ہنوز برقرار تھی۔
“اوہو ناراض کیوں ہوتے ہو۔۔" وہ بلکل اس کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔۔ "چلو میں تمہیں اپنا حیدرآباد دکھاتی ہوں۔۔"
“ابھی نہیں کل صبح ضرور میں تمہارے ساتھ تمہارا حیدرآباد دیکھوں گا فلحال مجھے ایک ضروری کام ہے۔۔"اب کی بار کبیر نے مسکراتے ہوئے حامی بھری تو وہ بھی مسکرا دی۔ اب بس فلحال وہ مزید اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا اسی لیے بہانہ بنا گیا۔

●●●●●●●●●●●●

رات ہوگئ تھی اور وہ اب اپنے فلیٹ میں داخل ہوا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی ہر طرف چھائی ویرانی نے اس کو خوش آمدید کہا اور اس سانس روکے کمرے کو دیکھ کر اس کا دل ایک دم پھر سے بجھ گیا۔ بوجھل قدموں کے ساتھ وہ اندر آیا اور اس نے ساری بتیاں جلا دیں۔ اب تو ایک پل کے لیے بھی اس سے اندھیرا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ اسے کسی اپنے کی ضرورت تھی اور اس کا اپنا تو ایک ہی تھا جس کے لیے وہ یہ سب کچھ کر رہا تھا۔ کیا وہ اسے کال کرے؟
اس نے تیزی سے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور کی پیڈ پر اس کا نمبر ملانے لگا۔ پھر رک گیا۔ کیا وہ اس سے کبیر بن کر بات کرے یا فرہاد بن کر؟؟ افف وہ کس مشکل میں پھنس گیا تھا۔ ایک وقت میں دو دو کردار ادا کرنا کم از کم اس کے لیے بہت مشکل تھا۔ ایک بات جو وہ جانتا تھا وہ یہ تھی کہ فلحال وہ اس سے کبیر جہانگیر بن کر بات کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن کیسے؟ وہ خود اسے کیسے کال کر دے؟ ایک دم سے خود کو ہر طرح سے ایکسپوز کر کے وہ اپنے کیے دھرے پر پانی نہیں پھیرنا چاہتا تھا لیکن اس سے رہا بھی تو نہیں جا رہا تھا۔ شکست خوردہ حالت میں وہ کائوچ پر جا بیٹھا اور اپنی کنپٹی مسلنے لگا۔ سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں صرف ایک نام یاد آیا۔ اس نے تیزی سے اب موبائل پر دوسرا نمبر ملایا اور موبائل کان سے لگایا۔ صد شکر رنگ جا رہی تھی۔
“اللہ کرے سب خیر ہی ہو۔ کبیر جہانگیر کی کال آئی ہے اور وہ بھی مجھے۔۔" کانوں پر ائیر پوڈز لگائے وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔
“مجھے تم سے ایک کام ہے۔۔" وہ ایک ہاتھ سے کنپٹی مسلتے ہوئے بولا تو اسے دوسری طرف سے ہنسی سنائی دی۔
“عالیان سے سب کو کام ہی ہوتا ہو۔۔ خیر بولو میں سن رہا ہوں۔۔" اس کی نظریں سامنے سڑک پر تھیں۔
“مجھے انابیہ سے بات کرنی ہے لیکن میں خود اسے کال نہیں کر سکتا۔۔"
“کیوں تم کیوں نہیں کر سکتے۔۔ فرہاد بن کر کر لو۔۔" وہ جیسے اسے مشورہ دیتے ہوئے بولا کبیر نے سر نفی میں ہلایا۔
“وہ فرہاد سے اس طرح بات نہیں کرے گی جیسے کبیر سے کرے گی۔۔ تم کچھ بھی۔۔ کچھ بھی کہہ دینا بس کسی طرح میری اس سے بات کروا دو۔۔ میں پتہ نہیں کیا کہہ رہا ہوں لیکن تم سمجھ رہے ہو بس یہی کافی ہے۔۔" وہ کافی پریشان اور جھنجھلایا ہوا لگ رہا تھا۔
“ٹھیک ہے میں راستے میں ہوں۔ گھر پہنچ کر کچھ کرتا ہوں۔۔" اس نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔
“جلدی پلیز۔۔" اس کا انداز التجائیہ تھا۔
“اوکے اوکے ڈونٹ وری۔۔ میں کروا دوں گا بات۔۔" اب وہ مطمئن تھا اس لیے کال کاٹ دی اور کائوچ پر سر گرائے لیٹ گیا۔

●●●●●●●●●●●●

گھر پر قدم رکھتے ہی اس کا پہلا سامنا ردا سے ہوا جو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے آرہی تھی۔ اس کو دیکھ کر رک گئ۔ اس نے بھی بس ایک نظر اس پر ڈالی اور بنا کچھ کہے اسے اگنور کرتا لونگ روم کی طرف چلا گیا۔ اس کی اس قدر بیزاری پر ردا کا دل بری طرح دکھا تھا لیکن اس نے بھی تو اس کا دل دکھایا تھا نا اتنا ری ایکشن تو بنتا ہی تھا۔ وہ حق پر تھا اور وہ جو لونگ روم میں انابیہ سے ملنے جا رہی تھی الٹے پیر سیڑھیاں چڑھتے اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔
لونگ روم میں داخل ہوتے ہی اس نے سامنے بیٹھے ناصر صاحب اور انابیہ کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ جا بیٹھا۔
“دیر کیوں ہو گئ تمہیں؟؟" ناصر صاحب جو ویل چئیر پر بیٹھے تھے عالیان کو دیکھ کر اس سے پوچھنے لگے۔
"آج ذرا کام زیادہ تھا آفس میں۔۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟"
“میں تو ٹھیک ہی ہوں۔۔"
“ہاں طبیعت سے یاد آیا۔ انابیہ کبیر کو کال کر کے اس کی خیریت ہی پوچھ لو۔۔" اس بار وہ انابیہ سے مخاطب تھا اور اس کی بات پر انابیہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
“کیوں کیا ہوا ہے اسے؟؟" اس کے چہرے پر یکدم ہی کبیر کے لیے فکر اور پریشانی ابھری۔
“وہ۔۔ وہ جہانگیر انکل بتا رہے تھے جب سے لاہور گیا ہے طبیعت کچھ ناساز ہے اس کی بلکہ بہت زیادہ ہی ناساز ہے۔۔ میں نے کال کی تھی اسے بہتر ہے تم بھی کر لو ابھی جاگ رہا ہوگا۔۔"
“اچھا۔۔۔اوکے میں کرتی ہوں اسے کال۔۔"وہ اٹھ کر ناصر صاحب کی ویل چئیر کی طرف آئی تو عالیان فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھا۔
“رہنے دو ڈیڈ کو میں چھوڑ دیتا ہوں کمرے میں ۔۔تم اسے کال کر لو۔۔" اس نے آگے ہو کر ناصر صاحب کو ویل چئیر کے ہینڈل کو پکڑ لیا۔ انابیہ نے مسکراکر اسے تشکر بھرے انداز سے دیکھا اور ٹیبل سے اپنا فون اٹھاتے ہی باہر کی طرف چلی گئ۔
وہ کچھ دیر فون ہاتھ میں پکڑے لان میں ٹہلتی رہی اسی سوچ میں کہ پتہ نہیں وہ اس کی کال اٹھائے گا بھی یا نہیں۔ بالآخر اس نے ہمت مجتمع کر کے کال ملا دی۔
انتظار کرتے کرتے اسے آدھا گھنٹہ ہو گیاتھا اور وہ اسی طرح مکمل روشن کمرے میں کائوچ پر آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔ دفعتاً اس کا فون بجا۔ اس نے فوراً آنکھیں کھولیں اور فون کی اسکرین پر حیاتیی دیکھتے ہی جیسے اسے نئی زندگی ملی۔ کچھ دیر اس نے بیل بجتے رہنے دی اور پھر کال اٹھا لی۔
"ہیلو۔۔ کبیر۔۔" اس آواز کو سنتے ہی کبیر کی جیسے ساری تکان اتر گئ۔ یکدم ہی اس کا ویران دل ایک بار پھر آباد ہو گیا۔
“بیا۔۔" کس قدر نرمی تھی اس کی آواز میں۔ انابیہ کو لگا اس کے منہ سے بیا سننے میں اسے صدیاں گزر گئیں۔ "اس وقت کال کیوں کی؟" اس نے فوراً خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔ انابیہ کے چہرے سے مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔
“وہ۔۔ دراصل۔۔ تمہاری طبیعت۔۔" اس کے الفاظ گڈمڈ ہونے لگے۔
“کیا ہوا میری طبیعت کو؟" اس کا انداز پھر سپاٹ تھا لیکن وہ دل کھول کر اسے نہیں بتا سکتا تھا۔
“انکل بتا رہے تھے تمہاری طبیعت خراب ہے۔۔" تو یہ وجہ بتائی تھی عالیان نے۔ کمال کا بندہ تھا وہ۔
“ہاں تھوڑا فلو ہو گیا ہے زیادہ کچھ نہیں۔۔" اس نے پھر مختصراً جواب دیا اور ذرا سی کھانسی کر نے کی ایکٹنگ بھی کی۔
"تو تم نے میڈیسن لی؟" وہ اسی طرح لان میں ٹہل رہی تھی۔کتنی فکر تھی نا اسے۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کبیر کے لبوں پر بکھری۔
“ہاں لے لی تھی۔۔" اس کی میڈیسن وہی تو تھی جو اس سے بات کر رہی تھی۔
"اچھا۔۔ ٹھیک ہے تم آرام کر لو۔۔" اسے لگا وہ کال کاٹ دے گی۔
"نہیں میں آرام کر چکا ہوں۔۔" وہ اتنا روانی میں بولا کہ انابیہ کو تھوڑی حیرت ہوئی اور اس کے چلتے قدم ایک پل کے لیے رک گئے۔۔ "مم۔۔ مطلب اتنا آرام کر کے کیا ہوگا۔۔" وہ قدرے بوکھلا گیا۔ “تم بتائو میٹنگ کیسی رہی آج کی؟" وہ نہیں چاہتا تھا کہ انابیہ کال کاٹ دے اسی لیے بس بات کو طول دے رہا تھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ کھڑکی کی طرف چلا گیا۔
"اچھی تھی۔۔انکل سے بات نہیں ہوئی تمہاری؟" اس کے رکے ہوئے قدم اب پھر حرکت میں آئے۔ کبیر نے سلائیدنگ ڈور کھول دیا۔ ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا کمرے میں داخل ہوا اور اپنے ساتھ دور بیٹھی انابیہ کی خوشبو اور اس کی خیریت کا پیغام ساتھ لایا۔
“نہیں میری بات نہیں ہوئی۔" رات کے وسیع آسمان میں چاند چمک رہا تھا اور اس کی نظریں اسی چاند پر تھیں۔ اسے لگا جیسے انابیہ اس کے سامنے تھی وہ اسے دیکھ سکتا تھا۔
“کوئی بات نہیں صبح بات کر لینا۔۔" انابیہ نے نظریں اٹھا کر آسمان پر نور برساتے چاند کو دیکھا۔ کچھ پل دونوں طرف خاموشی ہوگئ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں جو مگن تھے۔۔ بےتحاشا۔۔
“کیا لاہور میں بھی ایسا خوبصورت چاند نکلا ہے جیسا کراچی میں ہے؟" وہ نظریں ہنوز چاند پر ٹکائے اس سے پوچھنے لگی۔
“نہیں چاند تو کراچی میں ہی ہے یہاں تو اس کا رپورٹر ہے۔۔" اس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا لیکن اس کی یہ بات انابیہ کے سر کے اوپر سے گزر گئ۔
"کیا مطلب؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا تو کبیر ہنس دیا۔
“کچھ نہیں۔۔ چاند ہے یہاں بھی ہے لیکن کراچی میں موجود چاند جیسا نہیں ہے۔۔" انابیہ کا سر گھوم کر رہ گیا۔ چاند تو ایک ہی ہوتا ہے ناجانے لاہور میں کون سا چاند نکل آیا ہے؟
“تم آرام کر لو تو بہتر ہے۔۔" اسے محسوس ہوا کہ شاید سارا فلو اس کے دماغ پر چڑھ گیا ہے اسی لیے ایسی عجیب باتیں کر رہا ہے۔
“لیکن مجھے آرام نہیں کرنا۔۔" اس نے تیزی سے کہا۔۔ "مطلب نیند نہیں آرہی پتہ نہیں آنکھیں بند کرتا ہوں تو گھٹن سی محسوس ہوتی ہے۔۔ ایسا کرو تم باتیں کرتی رہو شاید میں بور ہو کر سو ہی جائوں۔۔"
“کیا؟؟" انابیہ کا منہ حیرت سے کھلا۔ کیا وہ بور کرنے والی باتیں کرتی ہے؟ کبیر نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے سلائڈنگ ڈور واپس بند کر دیا۔ اسے خود پر ہنسی آرہی تھی۔
"تو میں تمہیں آج آفس میں گزرے دن کی کہانی سناتی ہوں۔ دیکھنا تم بور ہو جائو گے۔۔" انابیہ کو اب مزہ آرہا تھا۔ اب وہ اس سے کیسے کہتا کہ تم بس بولتی رہو بور تو اس نے کبھی ہونا ہی نہیں تھا۔۔ وہ بس اسے سارا دن کی کہانی سناتی گئ اور وہ انابیہ احمد عالم کو سننے والا بس اسے سنتا گیا۔ وہ اسے ہنساتی گئ اور وہ بےاختیار ہنستا گیا۔

●●●●●●●●●●●●●●

افق پر آسمان اپنے پورے زور سے چمک رہا تھا۔ اس کھلے آسمان کے کے نیچے جہاں تک نظر کی پہنچ ممکن تھی ہریالی ہی ہریالی تھی سبزہ ہی سبزہ تھا کھیت ہی کھیت تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا میں پیلے سرسوں کے اونچے اونچے پھول رقص کرتے معلوم ہو رہے تھے جیسے خوشی میں دائیں بائیں مدہوشی سے سر کو ہلا رہے ہوں۔ انہی قد آور پھولوں کے درمیان میں چلتی ہوئی مسکان تھی اور اس کے ساتھ اس کا مسٹر رائیڈر تھا۔ آج اس نے سفید رنگ کی قمیض شلوار پہن رکھی تھی جس کا دوپٹہ ایک کندھے پر ڈالے اپنے کھلے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستی ہوئی اب وہ اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔
"دور دور تک تمہیں جتنی بھی زمینیں دکھائی دے رہی ہیں یہ سب ہماری ہیں۔۔" سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ اور پینٹ کے ساتھ سیاہ رنگ کی پی کیپ پہنے کبیر کی سپاٹ نظریں دور دور تک سفر کر رہی تھیں۔ مسکان نے کل اس سے کہا تھا کہ وہ اسے اپنا حیدرآباد دکھائے گی اور اس نے شروعات اپنے گائوں سے کی۔
"یہاں کے لوگ میرے بابا جان اور دادا جان سے بہت خوش ہیں۔ دن رات ان کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔" ایک ہاتھ سرسوں کے پیلے پیلے پھولوں پر پھیرتے ہوئے اس نے نہایت ہی فخریہ انداز سے کہا۔ کیپ کے سائے کے نیچے کبیر کے تیور مزید سخت ہوئے جیسے اسے مسکان کی یہ بات بلکل پسند نہ آئی ہو۔ یکدم وہ تیزی سے اس کے سامنے آئی۔
"تمہیں پتہ ہے مجھے یہ جگہ بہت پسند ہے۔۔" وہ بلکل اس کے سامنے ہاتھ اپنی کمر پر باندھے الٹے قدم چلتی جا رہی تھی۔ "جب میں بہت خوش ہوتی ہوں تو میں بائیک لے کر سڑکوں پر نکل جاتی ہوں یا یہاں آجاتی ہوں۔۔ یہاں۔ آآآ۔" الٹے قدم چلتے چلتے اس کا پیر ایک پتھر سے ٹکرایا اس سے پہلے وہ کمر کے بل گرتی کبیر نے پھرتی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ اگلے ہی لمحے وہ بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ شکر کا سانس لیتے سیدھی ہوئی۔۔
"تھینک یو۔۔ سو مچ۔۔" اس نے قدرے گڑبڑا کر کہا جس پر کبیر صرف مسکرایا اور کچھ نہیں بولا۔ وہ کافی شرمسار ہوئی تھی اسی لیے اب بجائے الٹا چلنے کے وہ انسانوں کی طرح اس کے ساتھ سیدھا چل رہی تھی۔ کچھ دیر وہ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ بلکل خاموش رہی۔ اسے خود پر غصہ بھی آرہا تھا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد وہ خود کو کمپوز کر گئ تھی۔
"تم ٹھیک تو ہو نا؟"اس نے بہت ہی اپنائیت سے کبیر سے پوچھا۔کچھ دیر چلتے رہنے کے بعد اب وہ سوکھی مٹی والی زمین پر آگئے تھے۔ دائیں بائیں سبزہ اب بھی تھا۔ مسکان کو اس کی خاموشی بری طرح سے چبھ رہی تھی۔ وہ دونوں کب سے ساتھ تھے اور اب تک اس نے ایک بھی جملہ اس کے منہ سے نہیں سنا تھا۔
"ہاں۔۔" اس نے بہت ہی مختصراً جواب دیا تھا۔ مسکان نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو سامنے ہی دیکھ رہا تھا۔
"تو کچھ بول کیوں نہیں رہے؟؟" نظریں اس کے چہرے پر مرکوز کیے وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔ کبیر جانتا تھا وہ اسے ہی دیکھ رہی ہے لیکن پھر بھی اس نے سامنے سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔۔
"دراصل میں کھلی ہوا میں سانس لینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں پہلے کبھی بھی ایسی جگہ نہیں آیا تو بس ماحول کو observe کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور پلیز سامنے دیکھ کر چلو تم گر سکتی ہو۔" اب کے وہ ہلکا سا مسکرایا بھی تھا اور مسکان کو لگا وہ شاید اس کی نظروں سے شرما گیا ہے اس لیے اگلے ہی لمحے وہ خود بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔
"سیدھی طرح بولو تم میرے یوں دیکھنے سےکنفیوز ہو رہے ہو۔۔" اس نے بنا سوچے کہا تھا۔ وہ صاف صاف بات منہ پر بول دیتی تھی اور صرف کبیر ہی جانتا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بس اس کا دل ہی نہیں کر رہا تھا اسے دیکھنے کو اور اسے یہ ڈر بھی تھا کہ کہیں مسکان اس کی آنکھوں کی کیفیت ہی نہ جان لے۔ اسی دوران ایک عورت ان کے ساتھ سے گزرتے ہوئے رک کر انہیں دیکھنے لگی۔
"چھوٹی مالکن آپ یہاں؟؟" دونوں نے چونک کر اس سانوالے رنگ کی موٹی سی عورت کو دیکھا۔ وہ ہلکے سے کپڑے کی ساڑھی پہنے ہوئے تھی جس کا پلو اس کے سر پر تھا اور اسی سر کے اوپر وہ ایک گٹھڑی رکھے ہوئے تھی جسے اس نے دوسرے ہاتھ کے سہارے سے سر پر ٹکایا ہوا تھا۔ وہاں پر عموماً عورتوں کو ایسی ہی ساڑھیاں اور کلائیوں پر بھر بھر کے سفید چوڑیاں لگی ہوتی تھیں۔ مسکان کچھ انجان نظروں سے اسے دیکھے گئ۔
"پہچانا آپ نے آپ کی حویلی میں بھی آئی تھی۔۔" مسکان عجیب طرح سے مسکرائی اب حویلی میں تو بہت سی عورتیں آتی رہتی تھیں ہر کسی کی شکل یاد رکھنا تو اس کے لیے ناممکن سی بات تھی۔
"اچھا جی چھوڑیں۔۔ راستہ روکنے کے لیے معذرت۔۔" وہ فوراً سے ان کے سامنے سے ہٹی اور کبیر کو گھور کر دیکھنے لگی۔ وہ ضرور چھوٹی مالکن کا مہمان ہوگا جسے وہ زمینیں دکھانے لائی ہوں گی۔ بس یہی سوچتے وہ سر کو خم دیتے ان کے ساتھ سے گزر گئ۔ وہ دونوں اب پھر آگے کو چلنے لگے۔ جاتے جاتے اس عورت نے پلٹ کر پھر ان دونوں کو جاتا تھا دیکھا ناجانے چھوٹی مالکن کے ساتھ ایک لڑکے کو دیکھ کر اسے کچھ تو کھٹکا تھا۔
"بس یہ زمینیں ہیں تم لوگوں کی؟" مسکان کو اس کا سوال بےتکا لگا تھا لیکن صد شکر اس نے باتیں کرنا تو شروع کیں۔ اب یہاں سے گندم کے کھیت شروع ہو گئے تھے۔ اونچی اونچی گندم کی بالیاں بھی ہوا کے ساتھ جھوم رہی تھیں۔
"ان کے علاوہ بھی بہت زمینیں ہیں۔ اب ساری تمہیں دکھانے لگ گئ تو بہت دن اسی میں لگ جائیں گے۔۔" وہ ہنستے ہوئے بول رہی تھی۔ کبیر نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلایا۔ اسے صرف ایک بات کھٹک رہی تھی کہ ان سب پر ان کا بھی حق تھا جن کے ماں باپ بےدردی سے قتل کر دیے گئے تھے اور آج اس سب پر جہانزیب اور اس کی اولاد ناگ بن کر بیٹھے تھے۔
"ہماری بہت سی فیکٹریاں بھی ہیں۔ کچھ یہیں گائوں میں ہیں اور کچھ شہر میں۔۔یہاں گائوں میں جو ہماری سب سے اہم فیکٹری ہے اس کا نام سایہ ہے۔ سایہ بابا کو بہت عزیز ہے۔" اس کی اگلی بات پر کبیر کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور وہ پھر سر کو اوپر نیچے ہلانے لگا جیسے اس کی بات بڑے وثوق سے سن رہا ہو۔۔
"کبھی محبت کی ہے؟" اس نے یکدم ہی ایسا سوال پوچھا تھا اور کبیر اس سوال کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا اس لیے بےساختہ رک گیا۔ مسکان کو اس کے یوں رکنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ کیا اسے اس کا سوال برا لگا تھا؟ پھر اس کی خفہ خفہ نظر جب مسکان پر اٹھی تو اسے یقین ہو گیا کہ واقعی اسے اس کا یہ سوال برا لگا تھا۔ اس کے سوال کو نظرانداز کرتے وہ پھر سے چلنے لگا جبکہ مسکان ایک پل کے لیے اپنی جگہ سے ہل نہیں سکی پھر سر جھٹک کر اس کے پیچھے گئ۔ اس سے پہلے اس کے پاس پہنچتے ہی وہ کچھ بولتی کبیر فوراً سے بولا۔
"مجھ سے کچھ بھی پوچھنا بس محبت کا مت پوچھنا کیونکہ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔۔" مسکان کو اس کی آواز میں درد محسوس ہوا۔ وہ کئی سوالوں میں جکڑی گئ۔ کیا اسے محبت ہو کر ملی نہیں؟ کیا اسے محبت میں دھوکا ملا؟ کیا محبت کا قصہ ادھورا رہ گیا؟ جو بھی تھا اسے کم از کم اس کے رویے سے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اسے محبت ضرور ہوئی تھی۔ اب تھی یا ہے کے درمیان میں وہ اٹک سی گئ تھی۔
"کیا مجھے۔۔" اس نے رک کر گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کیا۔۔ "کیا مجھے تمہارے دل میں جگہ مل سکتی ہے؟" پھر تیزی سے بولی۔۔ " تھوڑی سی بس تھوڑی۔۔" کبیر جانتا تھاوہ ایسی کوئی بات ضرور کرے گی لیکن پھر اس نے اپنے چہرے پر کچھ حیرت والے تاثرات آنے دیے جیسے وہ ہر بات سے بلکل انجان ہو۔
"نہیں۔۔" اگلے ہی لمحے اس نے صاف انکار کر دیا۔ ایک سایہ مسکان کے چہرے پر سے آکر گزرا۔ دونوں رک چکے تھے اور ایک دوسرے کے روبرو کھڑے تھے۔
"ہم صرف دوست ہیں مسکان۔۔" اس نے جیسے صاف لفظوں کا استعمال کیا اور مسکان اگلے ہی لمحے گہرا سانس بھرتے ہنس دی۔ کبیر آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھے گیا۔
"ٹھیک ہے تم مجھے صرف دوست ہی سمجھو میں نے بس دل میں تھوڑی جگہ مانگی ہے۔۔" وہ اب مسکراتے ہوئے بول رہی تھی جبکہ کبیر ہنوز سنجیدگی سے اسے دیکھے گیا۔
"اتنا بتا دوں میں دوستی والے رشتے سے بہت آگے بڑھ چکی ہوں۔۔ اچھا چلو۔۔" اس نے آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑا۔ "میں تمہیں باقی کی زمینیں بھی دکھاتی ہوں۔۔" اور وہ بس اس کے ساتھ گھسیٹتا ہوا چلا گیا۔ یہ کیسی لڑکی تھی؟ یہ تو کہیں سے بھی جہانزیب کی بیٹی نہیں لگتی تھی۔ یہ تو بہت معصوم تھی۔ اس وقت اس کے ذہن میں ایک بات ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی کہ جب بھی اس کا دل ٹوٹے گا تو بری طرح ٹوٹے گا۔ کسی کا دل توڑنا تو قتل سے بھی بڑا گناہ تھا۔ یہ اس سے کیا ہو گیا تھا کیوں ہو گیا تھا؟ اس پل اس نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کا دل بولنے لگا۔۔
"یااللہ اسے سچ کبھی بھی پتہ نہ چلے۔ مجھے اس کی زندگی سے بہت آرام سے نکال دینا یوں کہ اسے یاد بھی نہ رہے کہ کبھی کبیر جہانگیر اس کی زندگی میں آیا بھی تھا۔ بس اسے لگے کہ مر گیا اس کا فرہاد میر۔۔" اس نے آنکھیں کھول دیں وہ اب نم تھیں اور اس کی مضبوط کلائی ہنوز اس کے ہاتھ میں تھی۔

●●●●●●●●●●●●●

خوشی کسے کہتے ہیں ؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
غم کسے کہتے ہیں؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
ہنسنا کسے کہتے ہیں؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
رونا کسے کہتے ہیں؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
آنسو کیسے بہتے ہیں؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
آنسو کیسے رکتے ہیں؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
جدائی کسے کہتے ہیں؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
وقت کیسے کٹتا ہے؟
محبت والوں سے پوچھو۔۔
کس کی کہانی کا انجام اچھا ہے
اور کس کا برا؟
اگر یہ سب جاننا ہے تو۔۔
محبت والوں سے پوچھو۔۔
آج وہ بہت عرصے بعد اپنی ڈائری کے قریب آئی تھی۔ اس پر ہاتھ پھیرتے ہی اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈوب گئے۔ اس نے ڈائری کا صفحہ وہیں سےکھولا جہاں اس نے وہی سوکھا گلاب رکھا ہوا تھا تب اس نے صفحے کے اختتام میں اپنے لکھے ہوئے آخری جملوں کو پڑھا۔
"مجھے بس اپنی قسمت سے صرف ایک شکایت ہے کہ وہ میرے دل میں ہے دماغ میں ہے سوچوں میں ہے تو میری زندگی میں کیوں نہیں ہے۔ وہ ہر پل ہر لمحے میرے ساتھ ہو کر بھی میرے ساتھ کیوں نہیں ہے؟" بےساختہ ہی وہ خود پر طنزیہ ہنس دی۔ وہ کتنی مایوس ہو گئ تھی اسے لگتا تھا کہ محبت اس کے لیے نہیں بنی غلط لگتا تھا۔ قلم اٹھا کر اس نے اگلے صفحے پر لکھنا شروع کر دیا۔
"میں جان گئ ہوں محبت میرے لیے ہی بنی ہے۔ تم میرے لیے ہی بنے ہو۔ تمہارا یوں میرے پاس آجانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ تم ناراض ہو کب تک رہو گے۔ ایک وقت آئے گا جب تم تھک جائو گے اور مجھ سے کہو گے کہ بیا سب بھول جاتے ہیں میں تھک گیا ہوں۔ ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ تب میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی کوئی سوال نہیں کروں گی بس تمہارا ہاتھ پکڑوں گی اور سر اثبات میں ہلا دوں گی۔ ہاں مجھے انتظار ہے اس وقت کا کبیر جہانگیر جب تم ہار مان لوگے۔ جب تم محبت کے آگے گھٹنے ٹیک دوگے اور مجھے یقین ہے وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے ۔۔ مجھے یقین ہے۔۔" اس نے قلم پرے رکھ کر ڈائری بند کی اور وہاں سے اٹھ گئ۔ عرصہ ہوا تھا اس نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے تھے مگر کبیر کے واپس اس کی زندگی میں آجانے سے اس نے خود سے کیا وعدہ توڑ دیا۔
لیکن لفظ محبت ہر ایک کے لیے ایک جیسا تو نہیں ہوتا جہاں کسی کو اس کے ملنے کا یقین ہوتا ہے وہیں کسی کو اس کے خود سے دور ہوجانے کا خوف ہوتا ہے۔
وہ سٹڈی روم میں سرخ صوفے کی ٹیک پر سر گرائے چھت پر لٹکتے سنہرے جھومر کو اپنی سبز کانچ سی متورم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے سامنے کانچ اور لکڑی کے بنے میز پر ایک بھولی بسری کتاب کھلی پڑی تھی۔ سفید صفحوں پر گرے سیاہ لفظ اس کمرے میں گونجتے اس کے دل کے درد کو محسوس کر رہے تھے۔
"میں جتنا دور بھاگتی رہی ہوں اس محبت سے اتنا ہی وہ محبت میرے پیچھے آتی رہی ہے۔ میں تھک گئ تھی میں نے ہار مان لی تھی کیونکہ بھاگتے بھاگتے میرا دل زخمی ہو گیا تھا اور اب۔۔ اب جب میرا یہی زخمی دل اس محبت کے پیچھے جانا چاہ رہا ہے تو وقت ایک دیوار کی طرح سامنے آجاتا ہے۔ کیوں ہوں میں ایسی جو محبت کرکے بھی اسے پانا نہیں چاہتی ۔۔ کیوں ہوں میں اتنی سنگدل جو میں اس کا دل دکھاتی ہوں۔ میں اس قابل ہی نہیں تھی کہ مجھ سے محبت کی جاتی یا محبت کا لفظ میرے دل پر لکھا جاتا۔۔ اب جب میں نے اس محبت کو خود سے دور کر دیا ہے تو کیوں ہوں میں اتنی تکلیف میں کیوں؟؟؟" آنکھوں سے پانی بہہ بہہ کر اس کے کانوں کی لو کو چوم رہے تھا۔
یہی لفظ محبت کسی کے لیے ساری عمر کا روگ بن جاتا ہے۔۔ بدلے کی آگ بن جاتا ہے۔۔ لفظ عشق بن جاتا ہے۔۔
وہ بھاگ رہی تھی۔ قہقہوں کا طوفان۔۔بےقابو بیابان کے اس پار۔۔ننگے پیر جھاڑیوں کو چیرتے ہوئے وہ دیوانہ وار بھاگ رہی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیاں جو اس کے قد کو چھوتی تھیں۔۔ جو اس کے بازوؤں کو زخمی کر رہی تھیں جو اس کے بالوں میں اٹک جاتی تھیں مگر اسے پرواہ نہ تھی بس بھاگتی جا رہی تھی پاگلوں کی طرح دیوانوں کی طرح جیسے کچھ کھو گیا ہو یا دور جا رہا ہو جسے وہ پانا چاہ رہی جس تک وہ پہنچنا چاہ رہی ہو۔ سورج اس کے سر پر تپ رہا تھا اور وہ پسینے سے شرابور اپنے زخمی ہوتے جسم کی پرواہ کیے بغیر تیز تیز سانس لیتی بس بھاگی جا رہی تھی۔ دفعتاً کسی چیز سے اس نے ٹھوکر کھائی اور منہ کے بل گری۔ اس کے سر پر پتھر لگا تھا بڑا سا پتھر اور اگلے ہی لمحے اس کا ماتھا لہو لہان ہو گیا تھا۔ وہ جو اوندھے منہ گری تھی بمشکل سیدھی ہوئی۔ سورج کی تیز روشنی اور تپش سے اس کی آنکھیں چندھیاں گئیں اور وہ جھاڑیوں کے عین درمیان گری ہوئ تکلیف سے کراہتی رہی۔
"کب تک بھاگتی رہو گی؟؟" اس کے آس پاس سوال ہونے لگا۔
"جب تک محبت نہیں پا لیتی۔۔" اس نے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور پھر ہاتھ سامنے کر کے دیکھا جو خون سے بھر گیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ ہنس دی۔
"وہ محبت تمہاری نہیں ہے۔۔" اس کی ہنسی یکدم غائب ہوئ جیسے اسے یہ کڑوا سچ پسند نہ آیا ہو۔
"میری نہیں ہے تو کسی اور کی بھی نہیں ہوگی۔۔" وہ پورا زور لگا کر چیخی اور اٹھ کھڑی ہوئ۔ "میں چھین لوں گی۔ میں حاصل کر لوں گی اسے اور جو میری راہ میں آئے گا اسے ان جھاڑیوں کی طرح چیرتی ہوئ چلی جائوں گی۔۔" اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور وہ پھر سے بھاگنے لگی اس محبت کے پیچھے جو اسے ہر حال میں حاصل کرنی تھی۔۔ دفعتاً اس کی آنکھ کھلی اور وہ لیٹے لیٹے ہی تیز سانس لیتے ہوئے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔ وہ کسی جنگل میں نہیں تھی بلکہ اپنے کمرے میں تھی ۔ وہ فوراً سے اٹھی۔۔ یہ کیسا خواب تھا؟ کیا ایک بار پھر اسےمحبت کے پیچھے جانا پڑے گا؟ کیا اسے پھر سے ایک کوشش کرنی پڑے گی؟
"میں جائوں گی کیونکہ مجھے چھٹکارا چاہیے اس اذیت سے۔۔ جو جو سبب بنا ہے میری اس اذیت کا میں اسے برباد کر دوں گی۔۔" اس نے اپنا پسینے سے شرابور چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے رگڑا۔۔ " جویریہ سلطان ایک بار پھر آرہی ہے تم دونوں کی زندگی میں۔ مجھے بھلانا فقط ایک بیوقوفی تھی۔۔" اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں سب تباہ کر دینے کی چمک۔

یہی لفظ محبت کسی کے لیے محض خوش فہمی بن کر رہ جاتا ہے اور انجام کا سوچے بنا ہی وہ بس حسین خواب بننے لگ جاتا ہے۔
اپنے کمرے کی خاموش پناہ گاہ میں وہ ایک قد آوار آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں نرمی سے برش پھیر رہی تھی۔ایک لمبا، خوبصورت شیشہ جس کے کناروں پر سنہری لکڑی کا کام تھا اور جو اس کے وجود کو خود میں مقید کیے ہوئے تھا ۔ وہ دوپہر والے سفید لباس میں ہی تھی۔ تبھی اس نے شیشے میں ہی اپنے پیچھے بیڈ پر بیٹھے ایک عکس کو دیکھا۔ وہ تو وہ خود ہی تھی یہ دیکھتے ہی وہ مسکرا دی۔۔
"انجام کا سوچے بغیر ہی محبت کر بیٹھی ہو۔۔" وہ عکس اس سے کہہ رہا تھا بلکہ اسے انجام سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ مسکرا کر سر جھٹک گئ۔
"آغاز اتنا حسین ہو تو انجام کی فکر کس کو ہے اور ویسے بھی آغاز انجام کا سوچ کر محبت کی تو کیا خاک محبت کی۔ محبت تو دماغ کو مفلوج کر دیتی ہے ساری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے اور اگر محبت کرنے کے بعد بھی کسی کا دماغ سلامت رہے تو کیا خاک محبت کی۔ " اس کے ہاتھ ہنوز اس کے بالوں میں چل رہے تھے اور وہ تو واقعی ہوش میں نہیں لگ رہی تھی۔
"اور اگر اسے تم سے کبھی محبت نہ ہوئی تو؟؟" مسکان بجلی کی تیزی سے اس عکس کی طرف گھومی اور گھور کر اسے شعلہ وار نظروں سے دیکھنے لگی جیسے اسے اس کی یہ بات سخت ناگوار گزری ہو۔۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسکان جہانزیب کسی سے محبت کرے اور بدلے میں اسے محبت نہ ملے۔ ہوگی اسےبھی محبت ہوگی تھوڑا وقت لگے گا لیکن میں بس ایک بات جانتی ہوں کہ میرا نام مسکان ہے اور میرے چہرے پر مسکان ہمیشہ رہے گی۔۔" پراعتماد آواز میں کہتی وہ دوبارہ شیشے کی طرف گھوم گئ۔
"جیو پھر اسی خوش فہمی میں۔۔" یہ کہتے ہی اس کا عکس سر جھٹک کر غائب ہو گیا۔ اسے سمجھانا مشکل تھا بھلا باولوں کو کون سمجھا سکا ہے۔۔

●●●●●●●●●●●

ایک خاموش رات۔۔ تاریکی میں ڈوبا آسمان اور اس کے نیچے کھڑی بلند و بالا خاموش عمارت۔۔ بند گیٹ کے اس پار ایک چوکیدار اپنی بندوق پکڑے کرسی پر بیٹھا تھا دفعتاً اس نے گیٹ کی دوسری طرف ایک وین کو رکتے ہوئے دیکھا جس کی ہیڈ لائیٹس سامنے سڑک پر پڑ رہی تھیں۔ وین کے دروازے کھلے اور سفید یونیفارم اور ماسک پہنے کچھ بندے باہر نکلے۔ ان کا رخ اس عمارت کے گیٹ کی طرف ہی تھا۔ ان کو اس طرف آتا دیکھ کر چوکیدار فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھ کر گیٹ کے بلکل پاس گیا۔۔
"کون ہو تم لوگ؟؟" اس نے گیٹ نہیں کھولا تھا اور وہیں سے پوچھنے لگا۔
"ہم سمارٹ مشینری سروسز سے آئے ہیں۔۔" ان میں سے ایک شخص نے کہتے ہوئے جیب سے کارڈ نکال کر گیٹ میں بنے سوراخ کے ذریعے چوکیدار کو تھمایا۔
"ہمیں جہانزیب سر نے یہاں بھیجا ہے فیکٹری کی ساری مشینری چیک کرنے کے لیے۔۔" وہ تفصیل دیتے ہوئے بتارہا تھا اور چوکیدار بغور کارڈ کو دیکھ رہا تھا۔
"کون ہے فیصل؟؟" آواز چوکیدار کے پیچھے سے آئی تھی۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا جہاں سیاہ وردی میں ملبوس گارڈ اس سے پوچھ رہا تھا۔
"سمارٹ مشینری سروسز سے آئے ہیں کہتے ہے صاحب نے بھیجا ہے فیکٹری کی مشینری چیک کرنے کے لیے۔۔"
"ہاں ہاں گیٹ کھول دو اور ان کو آنے دو۔۔" وہ گارڈ قدم اٹھاتا چل کر ان کے قریب آنے لگا۔ " میری صاحب سے بات ہوئی تھی انہوں نے مجھے آگاہ کر دیا تھا۔۔" وہ چوکیدار کو مزید تفصیل دے رہا تھا جس پر اس نے سر ہلاتے گیٹ کھول دیا۔ پھر وہ چھ بندوں کا گروپ اندر داخل ہوا۔ تین بندے چل کر اس گارڈ کے پاس جا رہے تھے جبکہ تین وہیں گیٹ کے پاس کھڑے جھک کر اپنا سامان اٹھا رہے تھے۔ تبھی آگے والے شخص نے گردن موڑ کر چوکیدار کے ساتھ کھڑے اپنے بندے کو دیکھا۔ سرمئی اور شہد رنگ آنکھوں میں پلاننگ واضح تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے سر کو خم دیا جیسے کہہ رہے ہوں ہم تیار ہیں۔جیب سے سپرے نکالا اور آگے والے نے گارڈ کے اور پیچھے والے نے چوکیدار کے منہ پر وہ سپرے کر دیا۔ اگلے ہی لمحے دونوں کچھ دیرکے لیے بےجان وجود کے ساتھ زمین پر ڈھے گئے۔ سرمئ آنکھوں والا بھاگتے ہوئے واپس پیچھے گیٹ کی طرف آیا۔
"تم تینوں ان دونوں کو کہیں دور چھوڑ آئو۔۔" فرہاد کا اشارہ اس گارڈ اور چوکیدار کے بےجان وجودوں کی طرف تھا۔ "اور ہم تین اندر جا کر وائرنگ دیکھتے ہیں۔۔" فرہاد کے کہنے پر کبیر نے پھرتی سے ماسک اتارا۔
"ایک منٹ ایک منٹ!! تمہارا اندر جانا تو پلان کا حصہ نہیں تھا۔۔" کبیر نے سوالیہ نظروں سے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں تھا تو اب ہو گیا ہے۔۔" اس نے بےنیازی سے کہتے ہوئے جھک کر کبیر کے قدموں میں پڑا بیگ اٹھایا۔۔
"نہیں تم اندر نہیں جائو گے۔۔" اس کا انداز تنبیہی تھا لیکن آواز متفکر تھی۔ فرہاد نے سیدھے ہو کر بغور آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔
"میں جائوں گا لیکن تم اندر نہیں آئو گے۔۔ تاروں سے کھیلنا مجھے بھی آتا ہے اچھا ہے نا ان کی ہیلپ ہو جائے گی۔ تم باہر سب کچھ سنبھالو۔۔" سپاٹ لہجے میں کہتے ہی وہ مڑا تو کبیر نے فوراً سے اسے بازو سے پکڑا۔۔
"فرہاد پلیز تم مت جائو وہ دونوں اس کام میں ماہر ہیں خود کو خطرے میں مت ڈالو۔۔" اس کا انداز اس قدر التجائیہ اور فکریہ تھا کہ ایک لمحے کے لیے فرہاد کو چپ سی لگ گئ۔۔
"میں جائوں گا۔ کیا پتہ اندر جہانزیب کے اور بھی بندے ہوں۔" ضدی انداز سے کہتے ہی اس نے اپنا بازو چھڑایا اور اندر کی طرف جانے لگا۔۔
"میں انتظار کروں گا جلدی آنا۔۔" کبیر نے وہیں کھڑے کھڑے بلند آواز میں کہا۔ فرہاد کے چلتے قدموں کو بریک لگی تو اس نے گھوم کر پیچھے کھڑے کبیر کو دیکھا۔
"فکر نہ کرو اس سانولے بھالو سے تمہاری جان اتنی جلدی نہیں چھوٹے گی۔۔" مسکراتے ہوئے بلند آواز میں کہتے ہی وہ ان دونوں بندوں کے ساتھ اندر چلا گیا۔ کبیر نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گہرا سانس بھرا اور پیچھے کھڑے دونوں بندوں کی طرف گھوما۔
"ان کو گاڑی میں ڈالو اور تم میں سے ایک ان دونوں کو اسی جگہ چھوڑ آئو جو فرہاد نے بتائی تھی۔۔" کبیر کی سنتے ہی دونوں نے گارڈ اور چوکیدار کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈالا۔ ایک ڈرائیونگ سیٹ میں بیٹھ کر وین کو وہاں سے لے گیا جبکہ دوسرا وہیں کبیر کے ساتھ رک گیا۔
انتظار کرتے کرتے اب کافی وقت گزر چکا تھا مگر فرہاد اور اس کے ساتھ جانے والے دونوں لڑکوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ کبیر کی بےچینی میں اب مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے وہ خود اندر جاتا اس کے قدم سامنے سے آتے ان دونوں لڑکوں کو دیکھتے ہی رک گئے۔ حیرت اور پریشانی کی بات تو صرف یہ تھی کہ وہ دو تھے فرہاد ان کے ساتھ کہیں نہیں تھا۔
"فرہاد کہاں ہے؟" اس کا چہرہ خوف سے سفید پڑنے لگا تھا۔
"وہ آجائیں گے۔ ہمیں نکلنا ہے فوراً۔۔" ان میں سے ایک لڑکا بولا تو کبیر اسے اگنور کرتا فیکٹری کے اندر جانے لگا دفعتاً وہ لڑکا اس کے سامنے دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا۔
"اند آگ لگنے شروع ہو گئ ہے جو کسی بھی وقت پوری طرح سے اس فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ ہمیں نکلنا ہے۔۔" اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کبیر نے اسے غصے سے پرے کیا۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا وہ اندر ہے اور تم مجھے کہہ رہے ہو ہمیں نکلنا ہے۔۔"
"سر وہ آجائیں گے پلیز۔۔ وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔ وہ پچھلی طرف سے نکل گئے ہیں۔۔" کبیر نے رک کر اسے دیکھا اور پھر دل کو تسلی دیتے باہر کی طرف مڑ گیا۔ ان کا رخ اب اپنی وین کی طرف تھا۔
آگ نے بس کچھ ہی وقت لیا تھا پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے۔ جہانزیب عالم کی فیکٹری "سایہ" اس وقت قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی۔ وہ اس جلتی فیکٹری سے تھوڑا دور ایک ایسے مقام پر کھڑے تھے جہاں سے باآسانی اس آگ کی زد میں آئی عمارت کو دیکھ سکتے تھے۔ ہر طرف گہما گہمی سی مچ گئی تھی۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی اس آگ کو شانت کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ کبیر جہانگیر کے لیے خوشی کا ماحول تھا لیکن اس کے چہرے پر صرف خوف کی رمق تھی۔ اسے صرف فرہاد میر کی فکر تھی جو اب تک لاپتہ تھا۔ ناجانے وہ کہاں تھا۔ کبیر کا ضبط اب جواب دینے لگا تھا وہ فوراً اپنے پیچھے کی طرف گھوما اور جارحانہ انداز میں اس لڑکے کی طرف بڑھ کر اس کا گریبان اپنے مضبوط شکنجے میں جکڑ گیا۔
"تم نے کہا تھا وہ نکل گیا ہے تو کہاں ہے وہ؟؟" اس کے اس قدر غرانے پر وہ لڑکا گھبرا کر اسے دیکھنے لگا۔ "پوری کی پوری فیکٹری راکھ بننے والی ہے اور اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔۔"
"سر انہوں نے کہا تھا۔۔"
"اس نے کہا اور تم نے اسے اکیلا اندر چھوڑ دیا۔۔" قہر برساتی آواز سے چیختے ہوئے اس نے زور سے اس لڑکے کا گریبان چھوڑا تو اسے سنبھلنے کا موقع نہ ملا جس کی وجہ سے وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے ہوا۔ کبیر کے اعصاب دھیرے دھیرے اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے اور وہ اسی بدحالی کے عالم میں اس جلتی ہوئی فیکٹری کی طرف گھوما جس کی آگ بھڑک بھڑک کر فلک کو چھو رہی تھی۔ تبھی کچھ سوچتے سمجھتے اس نے ایک قدم اٹھایا اور اس سے پہلے دوسرا قدم اٹھاتا کسی نے پھر اس کا بازو پکڑ کر اسے روکنے کی مزاحمت کی۔ کبیر اس گرفت پر نہیں گھوما بس سدھ بدھ سا اس آگ کو دیکھتا رہا۔
"وہ مر گیا ہے۔۔" اسے لگا یہ بات اس کے کانوں میں چیخ کر کہی گئ ہے جس نے اس کے کانوں کے پردوں کو چیرتے ہوئے اس کے اعصاب پر حملہ کیا ہے۔
"وہ نہیں مر سکتا۔۔ وہ میرا دوست ہے۔۔ ایسے کیسے؟؟ نہیں۔۔"اس کی آواز نے اس کا ساتھ دینا چھوڑ دیا یا شاید الفاظ ہی ایسے تھے جو اسے اپنے منہ سے نکالنا مشکل لگ رہا تھا۔
"مشن سکسیسفل۔۔ کبیر دی سائیکو پیتھ۔۔" اس کے کان کے قریب سرگوشی ہوئی۔ کبیر کا جسم پل بھر کے لیے ساکت ہو گیا۔۔ سانس رک گیا اور وقت تھم گیا۔ وہ اپنی جگہ سے بلکل نہیں ہل پا رہا تھا کچھ پل وہ اسی طرح کھڑا رہا بے یقینی کی حالت میں اور پھر اس نے بمشکل گردن گھما کر دیکھا جہاں سانولا بھالو چہرے پر مطمئن مسکراہٹ سجائے بلکل ٹھیک ٹھاک اسے دیکھ رہا تھا۔ کبیر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تو خود کو یقین دلانے کی اسے سب سے بہتر ترتیب سوجھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک زوردار پنچ فرہاد کے منہ پر دے مارا۔ سب کچھ اتنا روانی میں ہوا کہ فرہاد میر کو سمجھنے کا وقت ہی نہیں ملا تھا اور وہ بری طرح لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے کو ہوا۔ بروقت اس نے ایک لڑکے کا سہارا لیا ورنہ چکر کھاتے کھاتے ضرور زمین پر گرتا۔
"جاہل مطمئن بےغیرت انسان کہاں مر گئے تھے تم؟" شیر کے غرانے پر وہ جھرجھری لے کر ہوش میں آیا۔ آہستہ آہستہ تارے ہٹنے لگے تھے لیکن دماغ ابھی بھی گول گول گھوم رہا تھا۔ جواب نہ ملنے پر اس سے پہلے کبیر پھر آگے بڑھتا اس کے ہلتے قدموں کو دیکھ کر فرہاد تیزی سے بول اٹھا۔
"وہیں رک جائو۔۔ قریب مت آنا ورنہ میں بھی لحاظ نہیں کروں گا۔۔" ایک ہاتھ اپنے پنچ کی زد میں آئے گال پر رکھے اور دوسرا ہاتھ اس کی طرف اٹھاتے ہوئے وہ اسے تنبیہی انداز میں کہہ رہا تھا۔ کبیر کا میٹر اب کی بار پہلے سے زیادہ گھومنے لگا تھا۔
"میں بتاتا ہوں تمہیں لحاظ۔۔"اس نے کب کسی کی سننی ہوتی ہے اس لیے اس کی تنبیہ کو اگنور کرتا کبیر بھپرے شیر کی طرح اس کی طرف بڑھا۔
"کیا مذاق تھا یہ؟ کہاں دفن ہو گئے تھے جانتے ہو کتنا ڈر گیا تھا میں۔۔" اس کا گریبان کبیر کے ہاتھوں میں تھا اور خود اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ وہ کبیر کی اس قابل رحم حالت سے محظوظ ہو رہا تھا۔
"میں نے تم سے کہا تھا نا مجھ سے جان اتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گی اتنے نیک نہیں ہو تم۔۔" اس پر ایک قہقہہ لگاتے ہوئے فرہاد نے کہا تو کبیر نے زور سے اسے چھوڑ دیا۔
"ہائے تمہاری وہ ایموشنل باتیں قسم سے ایک پل کے لیے میری آنکھوں میں آنسو ہی آگئے تھے۔۔" نہایت ہی ڈرامائی انداز سے کہتے ہوئے اس نے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے کہا جو بلکل خشک تھے۔ کبیر کی رگیں تن گئیں اسے خود پر واقعی غصہ آرہا تھا کہ کیسے وہ اس ڈھیٹ کے لیے یکدم پریشان ہو گیا تھا۔ ایسے لوگ جلدی کہاں جان چھوڑتے ہیں وہ واقعی نیک نہیں تھا۔
"سو ڈھیٹ مرے ہوں گے تو تم پیدا ہوئے ہوگے۔۔"وہ خاصا تپے ہوئے انداز میں بولا۔
"ننانوے کیونکہ تمہارا مرنا ابھی باقی ہے۔۔" کہتے ہوئے وہ اس کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ "چھوڑو سب کچھ وہ دیکھو تمہارا خواب پورا ہو رہا ہے۔۔" رک کر اس نے کبیر کا چہرہ دیکھا "میری بدولت۔۔" ناز سے کہتے ہوئے اس نے سینے پر ہاتھ باندھ لیے۔ کبیر نے سر تا پیر اسے گھورا اور "ہونہہ" کر گیا۔۔ "یو ہیو نو آئیڈیا اینگری مین کہ مجھے کتنا مزہ آیا ہے وائرنگ کے ساتھ کھیلتے ہوئے۔۔"
"ڈونٹ وری ایسے مزے اب تمہیں آتے رہیں گے۔ تم نے مجھ سے دل تڑوایا ہے نا میں تم سے ایسے کام کرواتا رہوں گا۔۔" فرہاد کی ہنسی جھٹ سے غائب ہوئی اور آنکھوں میں کبیر کے لیے بڑبڑاہٹ واضح ہوئی۔ کبیر نے گردن موڑ کر بغور اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کا گال ایک طرف سے سوج گیا تھا یہ دیکھتے ہی اس نے اپنی ہنسی دبائی۔
"افسوس خون نہیں نکلا۔۔" افسوس سے سر جھٹک کر کہتے ہی وہ وہاں سے پلٹ کر جانے لگا۔ فرہاد نے اپنے سوجے ہوئے گال پر ہاتھ رکھا اور صرف چھونے پر ہی اس کی "آہ" نکل آئی۔
"بد اخلاق اور بدتمیز انسان ہونہہ۔۔" بڑ بڑ کرتے ہوئے وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا اور ان کے ساتھ آئے ہوئے لڑکے بھی جو ان کا تماشا دیکھ کر کافی مزے لے رہے تھے۔

●●●●●●●●●●●●●●

مدھم روشنی والے کمرے میں سائے بھولی بسری یادوں کی طرح کونوں سے چمٹے ہوئے تھے اور جہانزیب عالم خان بستر کے کنارے پر تنہائی کا بوجھ لیے ہاتھ میں ایک دھندلی تصویر پکڑے بیٹھا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والی لڑکی جو ہنستی مسکراتی کبھی اس حویلی میں گھوما کرتی تھی اب کتنے ہی سال گزر گئے ایک قبر کی ہو کر رہ گئ تھی۔ اس نے تصویر کو اس طرح تھام رکھا تھا جیسے گر جائے گی تو بکھر جائے گی۔ اس خاموش سانس روکے کمرے میں اس نے سرگوشی کی۔
"مجھے تمہیں مارنا نہیں چاہئیے تھا۔۔" اس کمرے کی دیواریں اس کے اعتراف کو جذب کرنے لگی۔ ہر طرف سے بو آرہی تھی۔ ندامت کی بو۔۔
“میں چاہتا تو تمہیں چھین لیتا۔ ناصر کو ڈرا دھمکا کے مار پیٹ کے یا تمہیں اٹھا کر یہاں اس حویلی میں واپس لے آتا۔۔" اس کا لہجہ مغموم تھا اور انگلیاں اس تصویر کے کناروں کو ٹریس کر رہی تھیں۔ پھر اس نے ہوا میں ایک گہرا سانس بھرا کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح۔۔ "لیکن تم تب بھی کونسا میری ہو جاتی بلکہ تم اس کا نام لے لے کر مجھے ہی مار دیتی۔۔ صرف تمہیں قتل کرنے کے بعد سے مجھے سکون نہیں ملا راحیلہ۔ میں اتنا پچھتا رہا تھا کہ اس رات میں نے خود سے وعدہ کر لیا کہ احمد اور ناصر کو بھی اس دنیا میں نہیں رہنے دوں گا کیونکہ وہی دونوں وجہ تھے جو میں نے تمہیں خود سے اتنا دور کر دیا جہاں سے میں تمہیں واپس کبھی نہیں لا سکتا۔۔" آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرتے رہے تھے لیکن ان آنسوؤں پر نہ ہی اس کمرے کی دیواروں کو ترس آیا اور نہ ہی اس تصویر میں مسکراتی سیاہ بالوں والی لڑکی کو ۔
“میں اپنا بدلہ لے چکا ہوں اور اب مجھے تم لوگوں کی اولاد سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ ویسے بھی بہت معصوم ہیں جو تم لوگوں کو انصاف تک نہ دلا سکی۔۔" اس نے کہتے ہی افسوس سے سر جھٹکا اور ایک ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھنے لگا۔ دفعتاً اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ جہانزیب نے ہڑبڑا کر تصویر اپنے پیچھے تکیے کے نیچے چھپا دی اور فوراً سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"آجائو۔۔" اگلی دستک پر اس نے دروازے کے اس پار کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔ ہلکی سی آواز سے دروازہ کھل گیا اور اگلے ہی لمحے دروازے کے اس پار سے مسکان کا مسکراتا ہوا چہرہ نمودار ہوا اور اس چہرے کو دیکھتے ہی جہانزیب کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔ سارے غم تو وہ جیسے چٹکی میں بھول گیا تھا۔
"آپ نے بلایا تھا بابا جان۔۔" اس نے چھوٹے چھوٹے قدم اندر رکھتے ہی پوچھا تو جہانزیب نے فوراً سے سر اثبات میں ہلایا۔ اسے کے آنے سے ویرانی میں ڈوبا کمرہ اب جاگ اٹھا تھا اور اس کی خوشبو پورے کمرے میں مہک اٹھی تھی۔ ہوا کے جھونکے سے کھڑکی بھی کھل گئ اور ہوائیں اسے سلام کرنے کمرے میں داخل ہو گئ تھیں۔
"اتنا مصروف ہوتا ہوں کہ لگ رہا ہے آپ کا چہرہ کتنے دنوں بعد دیکھ رہا ہوں۔۔" اس نے بڑے پیار سے مسکان کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے کہا جس پر اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
"کوئی بات نہیں بابا جانتی ہوں آپ بہت مصروف ہوتے ہیں میں نے تو کوئی شکایت نہیں کی۔۔"
"یہی تو مسئلہ ہے کہ آپ شکایت ہی تو نہیں کرتی۔۔"افسوس سے کہتے ہوئے اس نے گردن دائیں بائیں نفی میں ہلائی۔ "کیا کریں شکایت۔۔ کہا کریں بابا مجھے بھی وقت دیں۔۔"
"اور کام تھوڑے ہوتے ہیں جو میں بھی آپ کو تنگ کرنے لگ جائوں۔ ایسی فرمائش کر رہے ہیں جو مسکان چاہ کر بھی پوری نہیں کر سکتی۔" اس کی بات پر جہانزیب سر گرا کر ہنس دیا جیسے کہہ رہا ہو میں ہارا تم جیتی۔۔
"خیر مجھے آپ سے ضروری بات کرنی تھی۔" جہانزیب نے اس کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔ اب ان دونوں کا رخ صوفے کی طرف تھا۔
“میں جانتا ہوں آپ بہت چھوٹی تھیں جب آپ کی ماں ہمیں اس دنیا سے چھوڑ کر چلی گئیں۔" وہ دونوں ایک ساتھ ایک ہی صوفے پر بیٹھ گئے ۔ مسکان نے گردن موڑ کر اپنے باپ کو دیکھا جس کی آنکھوں کی نمی اس نیم اندھیر کمرے میں بھی چمکتی دکھائی دے رہی تھی۔ " جانتا ہوں کہ ایک بیٹی کی سب سے قریبی دوست ایک ماں ہی ہوتی ہے لیکن میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ کبھی بھی آپ کو ماں کی کمی محسوس نہ ہو۔ میں نے آپ کو ماں بن کر بھی پالا ہے آپ بتائیں کہیں مجھ سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہے؟" وہ قدرے نرمی سے پوچھ رہا تھا جبکہ مسکان کے چہرے پر ناسمجھی امڈ آئی۔
“ایسی بات نہیں ہے بابا جان۔ آپ میرے بہترین دوست ہیں۔۔" اس نے آگے بڑھ کر جہانزیب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
“تو جو باتیں ہمیں آپ کے منہ سے پتہ چلنی چاہیے وہ ہمیں گائوں کے لوگوں سے کیوں پتہ چل رہی ہیں؟" اب کی بار اس کے لہجے میں تفتیش کا عنصر شامل تھا البتہ آواز پہلے کے جیسے ہی نرم تھی۔ مسکان کو اب بھی ٹھیک سے اس کی باتوں کی سمجھ نہیں لگ رہی تھی۔
“آپ زمینوں پر گئی تھیں؟" اس کے پوچھنے پر مسکان نے فوراً سر کو ہاں میں جنبش دیتے ہوئے حامی بھری۔
“اکیلی؟؟" مسکان کی آنکھیں اب حیرت سے پوری کھلیں اب تو وہ بات کی تہہ تک بھی پہنچ چکی تھی بلکہ اچھی طرح سمجھ چکی تھی کہ گائوں والوں نے اس کے باپ کو ضرور اس کے ساتھ موجود لڑکے کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔۔
“اکیلی نہیں تھی۔ ساتھ میں ایک دوست تھا۔۔" اس نے بہت ہی پرسکون انداز میں جواب دیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بھی بلکل نارمل تھے کوئی ڈر خوف کچھ بھی نہیں تھا کیونکہ اس کا باپ صرف باپ نہیں ایک دوست بھی تھا جو شاید بس مسکان کا ہی دوست تھا۔
“آپ کی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے؟؟" اس سوال پر مسکان تھوڑا گڑبڑا کر نظریں چرا گئ۔
“نہیں۔۔" اب اس ایک لفظ کے علاوہ وہ کیا بتاتی کی بس ایک دن راہ چلتے کے ساتھ ریس لگائی تھی اور اسے اپنا دوست بنا لیا۔ اب ابا حضور کو کون بتائے کہ محبت دیکھ بھال کر تو نہیں کی جاتی۔
“تو پھر؟؟" جب اس نے دوبارہ نظریں اٹھا کر دیکھا تو اس بار اس کی نظریں صحیح معنوں میں اپنے باپ سے ملی تھیں۔
“وہ ایک بائیکر ہے۔۔" حلق میں ابھرتی گلٹی بمشکل نیچے کی۔۔ " بس ایک دن ریس لگائی تھی اس کے ساتھ تب سے دوستی ہو گئی۔ فرہاد میر نام ہے اس کا۔۔"
“صرف دوستی ہی ہے یا۔۔"
"دوستی ہے بابا جان بس دوستی۔۔" وہ تیزی سے مسکراتے ہوئے تسلی آمیز انداز میں بولی تو جہانزیب بھی مسکرا دیا۔ یہی تو ہنر تھا اس کا کسی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ لانے میں ذرا دیر نہیں لگاتی تھی۔
“مگر تھوڑا احتیاط کیا کیجئے ہمیں بلکل اچھا نہیں لگتا کہ گائوں کے چھوٹے لوگ آپ کے بارے میں اتنی بڑی بڑی باتیں کرنے کی ہمت کریں۔"
“اس کو اشتیاق تھا کھیتوں میں گھومنے کا ۔ خیر میں آئندہ احتیاط کروں گی۔۔" تبھی دروازے پر پھر سے دستک ہوئی۔ جہانزیب نے پہلے سامنے دیوار پر لگی قدیم زمانے کی گھڑی میں وقت دیکھا جس کی سوئیاں بارہ سے پلٹ چکی تھیں اور پھر دروازے کے اس پار کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔
“سائیں وہ۔۔" دلاور کو یوں اچانک دیکھ کر جہانزیب فوراً اپنی جگہ سے اٹھا۔
“کیا ہوا دلاور تم اس وقت؟؟" وہ عموماً اس وقت نہیں آتا تھا کوئی بہت ضروری بات بھی ہو تو وہ صبح کا انتظار ضرور کرتا تھا یوں جہانزیب کے آرام کرنے کے وقت میں خلل نہیں ڈالتا تھا۔
“سائیں وہ سایہ۔۔" اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور جہانزیب بس ناسمجھی سے اسے دیکھے گیا۔۔"سائیں سایہ (فیکٹری) جل کر راکھ ہو گئ ہے۔۔" یہ بات سنتے ہی اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور وہ پتھرائ نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ مسکان یہ خبر سنتے ہی اپنے باپ کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔
“کیسے جل گئ فیکٹری؟؟" وہ فوراً ہوش کی دنیا میں آتے ہی پھاڑ کھانے والے انداز میں چیخا۔
“ہمیں نہیں معلوم سائیں۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ جہانزیب اس کو دھکا دیتے باہر نکل گیا۔ دلاور لڑکھڑاتے ہی سیدھا ہوا اور پھر اس کے پیچھے بھاگا۔ مسکان بھی پریشانی کے عالم میں کمرہ ویران چھوڑ کر نکل گئ۔

●●●●●●●●●●●●

خان حویلی اس وقت ایک فیکٹری کا ماتم منا رہی تھی۔ لائوئنج میں بھی مکمل خاموشی تھی اور اس میں موجود سبھی چہروں پر پریشانی کے تاثرات واضح تھے سوائے عالم خان کے جو بڑے ہی اطمینان سے سربراہی صوفے پر بیٹھے آنکھیں چھوٹی کیے اپنے سامنے اضطراب کے عالم میں چکر کاٹتے جہانزیب کو دیکھ رہے تھے۔ وہ جس نے زندگی بھر سب کو نقصان دیے تھے خود کے ایک ہی نقصان پر اس کا یہ حال تھا کہ گزری رات سے وہ سکون سے نہیں بیٹھا۔ مسکان اور اس کا بھائی ظفر بھی وہیں موجود دائیں بائیں پڑے صوفوں پر بیٹھے تھے۔
“پریشان مت ہو ۔ ایک فیکٹری ہی تو تھی۔۔" اپنے باپ عالم خان کی آواز پر جہانزیب تیورا کر ان کی طرف گھوما۔ ماتھے پر پڑتے بل گواہ تھے کہ اسے اپنے باپ کی یہ بات بلکل پسند نہیں آئی تھی۔
“صرف فیکٹری نہیں تھی وہ بابا سائیں۔۔ میری بہت اہم فیکٹری تھی۔ بڑی تعداد میں مزدور کام کرتے تھے وہاں۔ میری تمام فیکٹریوں پر بھاری تھی وہ۔ ایسے کیسے آگ لگ گئ اسے؟" اس عالیشان لائونج میں اس کی سخت آواز گونج رہی تھی۔ عالم خان نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے جھکا دیا۔ تبھی چوکھٹ پر دلاور نمودار ہوا۔ اس کو دیکھتے ہی جہانزیب کے قدموں میں پھر سے حرکت آئی اور وہ اس کے قریب گیا۔
“سائیں۔۔ فیکٹری میں آگ لگنے کی وجہ وائرنگ خراب ہونا تھی۔۔" جہانزیب نے عجیب طرح سے چونک کر اسے دیکھا۔۔
“کیا بکواس کر رہے ہو؟ ابھی کچھ دن پہلے میں نے اپنی نگرانی میں ساری وائرنگ چیک کروائی تھی۔۔"
“وائرنگ خود بخود خراب نہیں ہوئی سائیں۔ کی گئ تھی۔۔" اب کی بار اس کی آنکھیں پھر حیرت سے پھیلی تھیں۔۔ "چوکیدار اور گارڈ کا کہنا ہے سمارٹ مشینری سروسز کی طرف سے کچھ لوگ آئے تھے جنہوں نے ان پر کسی چیز کا اسپرے کیا اور وہ دونوں جگہ پر بیہوش ہو گئے۔ ہوش میں آئے تو پتہ چلا وہ کسی نامعلوم جگہ پر تھے۔۔ " وہ ایک ایک بات کی جان کاری حاصل کر کے آیا تھا۔
“مشینری والوں نے تو آج کی رات آنا تھا نا؟؟" اس کی آنکھیں مزید وضاحت کی طلبگار تھیں۔
“ جی سائیں۔۔ میں ان کے پاس گیا تھا انہوں نے کل رات اپنی کوئی ٹیم ہماری فیکٹری میں نہیں بھیجی۔۔" ایک کے بعد ایک عجیب خبر جہانزیب کو بری طرح چونکا رہی تھی۔۔ "کل رات تو اس کی ٹیم کسی اور فیکٹری کے کام کے لیے گئ تھی۔۔ سائیں آپ کا کوئی دشمن جاگ اٹھا ہے۔۔"
“کچھ تو ملا ہوگا کوئ ثبوت تو ہوگا؟؟"
“کچھ بھی نہیں ملا سائیں۔۔ سارے سی سی ٹی وی کیمراز جل گئے تھے جو واحد ایک کیمرہ گیٹ کے پاس بچا تھا میں نے اسے پورا کھنگال لیا ہے کسی نے اس کی ساری فوٹیجز ڈیلیٹ کر دی ہیں۔۔ یہ جو کوئی بھی ہے بہت شاطر ہے سائیں۔۔"
“شاطر واطر میں نہیں جانتا۔۔ اسے ڈھونڈو۔۔" جہانزیب نے اس کالر سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ دلاور لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے ہوا۔۔ "جائو پتہ لگائو۔۔" وہ پھر دھاڑا تو دلاور سر اثبات میں ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔ جہانزیب اپنا سر پکڑے کھڑا تھا اور اسے اس حالت میں دیکھتے ہی مسکان اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئی۔
“بابا جان پرسکون ہو جائیں۔۔" اس نے تفکر آمیز لہجے میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔
“اب کیا کرو گے جہانزیب تمہارے دشمنوں کی فہرست چھوٹی تو نہیں ہے۔ کس کس کو پورے حیدرآباد میں گھسیٹو گے؟" عالم خان وہیں بیٹھے بیٹھے بولے۔ ظفر نے نظریں اٹھا کر اپنے باپ کو دیکھا۔۔
“یہ جو کوئی بھی ہے بابا سائیں۔۔ میرے قہر سے نہیں بچے گا۔۔" سرخ آنکھوں میں سب کچھ جلا کر بھسم کر دینے والا غصہ واضح تھا۔ عالم خان دل ہی دل میں اس پر ہنس رہے تھے۔

رات ہو گئ تھی اور وہ اس وقت آفس کے پارکنگ ایریا میں موجود تھا۔ اس کا رخ اپنی گاڑی کی طرف تھا۔ چھت پر لگی ایل ای ڈی لائیٹس سے جگمگاتا پارکنگ ایریا بلکل سنسان سا معلوم ہو رہا تھا۔ گاڑی کے قریب پہنچ کر اس نے جیسے ہی دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تبھی اس نے دروازے کے شیشے پر اپنے پیچھے کسی کا عکس دیکھا۔ سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک نقاب پوش شخص ہاتھوں میں بھاری سا ڈنڈا غالباً ہاکی پکڑے اسے مارنے کی غرض سے آرہا تھا۔ اس سے پہلے اپنے سر سے جاتا وہ پھرتی سے سامنے سے ہٹ گیا جس کی وجہ سے اس کا نشانہ چوک کر شیشے پر جا لگا۔ جھماکے سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ سیدھا ہوتے ہی وہ نقاب پوش دوبارہ اس کی طرف آیا تو اس نے ہوا میں ہی اس کے ہاتھوں میں جکڑی ہاکی پکڑ لی۔ مخالف پورا زور لگا رہا تھا لیکن عالیان نے بھی آج ساری طاقت لگانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ چہرے پر سخت تاثرات لیے دانت پر دانت جمائے وہ اسے روکنے کی پوری کوشش کرہا تھا تبھی اس نے ایک اور ماسک پہنے شخص کو آتا دیکھا اس کے ہاتھ میں بھی ویسی ہی ہاکی تھی۔ عالیان نے پھرتی سے ہاکی پر سے ایک ہاتھ ہٹا کر اس کے منہ پر زوردار مکا مارا اور پھر فوراً اس کے پیٹ پر لات ماری تو وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے اپنے ہی بندے پر جا گرا۔ ابھی اس نے سیدھا ہو کر سکون کا سانس ہی لیا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اس کے سر پر رکھ کر کوئی بھاری چیز ماری۔ درد سے اس کی آہ نکلی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے اپنے گردن کے پچھلے حصے پر ہاتھ رکھا تو اسے کچھ گرم گرم اور گیلا گیلا محسوس ہوا یقیناً خون۔۔ بمشکل گردن پر ہاتھ رکھے وہ اپنے پیچھے کی طرف گھوما بس اس کے گھومنے کی ہی دیر تھی کہ اگلا وار اس کے چہرے پر ہوا۔ خون اس کے منہ سے فوارے کی طرح پھوٹا اور اگلے ہی لمحے وہ کراہتا ہوا زمین پر گرا۔ سر میں درد کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور سب کچھ گول گول گھوم رہا تھا۔ منظر دھندلا دھندلا ہونے لگا تھا اور پھر اندھیرا چھا گیا۔ عالیان ناصر عالم خون میں لت پت زمین پر بےہوش گرا پڑا تھا۔

●●●●●●●●●●●●

یہ ایک سیاہ دیواروں والا وسیع کمرہ تھا جس کے چھت کے عین درمیان میں ایک بلب جھول رہا تھا۔ لکڑی کے فرش پر اس بلب کی روشنی کا ایک ہالہ سا بن رہا تھا جس پر ایک کرسی کے ساتھ بندھا عالیان اپنے پورے حوش و حواس میں سامنے صوفے پر بیٹھے ظفر نامی شیطان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا جو گہرے بھورے رنگ کی قمیض شلوار پہنے بڑے ہی اطمینان سے لائیٹر کی مدد سے سگریٹ سلگا رہا تھا۔ اس کے دائیں اور بائیں دو گارڈز بھی کھڑے تھے۔ اس کی آنکھیں بھی عالیان کی آنکھوں کی طرح سیاہ کالی تھیں۔ سیاہ فوجی کٹ بال اور کلین شیو والا وہ لڑکا ہو بہو اپنے باپ کی کاپی تھا۔
"کتنے پیار سے بات کی تھی میں نے تم سے۔ کتنا دوستانہ انداز تھا میرا۔۔ لیکن تمہیں پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی۔۔" ہوا میں سگریٹ کا دھواں چھوڑتے وہ جیسے طنزیہ افسوس سے بولا۔
"اب سمجھ آیا کیوں میرے باپ نے اپنی زبان میں تمہارے باپ کو سمجھایا۔ پیار کی زبان کے قابل جو نہیں ہو۔۔" دو انگلیوں میں سگریٹ پکڑے وہ اب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر عالیان کی بھنویں اکھٹی ہو گئیں۔
"میں چاہتا تو تمہارا قصہ پارکنگ ایریا میں ہی تمام کر وا دیتا لیکن تمہیں یہاں بندھا ہوا بےبس دیکھ کر اب مجھے زیادہ مزہ آرہا ہے۔۔" اس کے ہونٹ طنزیہ انداز سے مسکرائے اور عالیان ضبط سے بس اسے دیکھے گیا۔
"کزن کے علاوہ اور کیا رشتہ ہے تمہارا ردا کے ساتھ؟کیا لگتی ہے وہ تمہاری؟؟"وہ اپنی سیاہ آنکھیں اس کی سیاہ آنکھوں میں گاڑھے پوچھ رہا تھا۔ آج سیاہ آنکھوں کا آمنا سامنا ہو ہی گیا۔
"وہ میری زندگی ہے ظفر۔۔ اس کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ موت تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گی" عالیان نے تنبیہی انداز میں کہا تو ظفر استہزاء سے ہنستے ہوئے پیچھے ہوا۔
"تاریخ گواہ ہے ظفر جو چیز بھی چاہتا ہے اسے حاصل کر کے رہتا ہے۔ پیچھا تو میرے اچھے بھی نہیں چھوڑیں گے۔۔" وہ بلکل سیدھا اس کے سامنے کھڑا سگریٹ کے کش بھرتے ہوئے بڑےہی اطمینان سے بولا تھا۔
"وہ میری ہے۔۔" عالیان نے گردن اکڑا کر اترا کر کہا جیسے اپنا حق جتا رہا ہو۔ ظفر کی نگاہیں پہلے سے زیادہ سخت ہوئیں اور اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر مکر مسکراہٹ ابھری۔
"تو اسے میرا کر دیتے ہیں۔۔" اس نے چیلنجنگ انداز میں کہتے ہی گارڈ کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا اور اگلے ہی لمحے وہ گارڈ اس کے ہاتھ میں فون رکھ کر واپس اپنی جگہ پر سابقہ حالت میں کھڑا ہو گیا۔ عالیان کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے ایک نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔ اس کے چہرے کا رنگ ایک لمحے میں بدل گیا تھا شاید اس کے دماغ نے اسے ظفر کی شیطانی سے آگاہ کر دیا تھا۔
"ہیلو۔۔" فون کی دوسری طرف سے ایک لڑکی کی آواز سنتے ہی اس کے کان سائیں سائیں ہونے لگے۔
"کیسی ہو ردا ڈارلنگ؟" اس نے عالیان کو فاتحانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مزے سے پوچھا ۔
"کیا مسئلہ ہے؟؟" ردا نے کتاب کھٹاک سے بند کرتے ہوئے کرخت سی آواز میں کہا۔
"مجھ سے کسی نے کہا ہے تم اس کی ہو۔۔" اس کی فاتحانہ نظریں ہنوز عالیان کے فق ہوتے چہرے پر تھیں۔
"ہیں!! اب اچانک تمہاری طرح ایک اور چھچھورا کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟"وہ برا سا منہ بناتے ہوئے بولی۔ کچھ دیر ظفر خاموش رہا۔ دونوں کی سیاہ آنکھیں ایک دوسرے سے جنگ کر رہی تھیں اور پھر ظفر کی شاطر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
"میرے پاس آجائو۔۔" اس کے اس مطالبے پر عالیان کے تیور مزید سخت ہوئے۔ وہ بندھا ہوا نہ ہوتا تو اس کی گدی سے زبان کھینچ نکالتا یا اسے زندہ زمین میں گاڑھ دیتا۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا کیا؟؟ میں مر جائوں گی لیکن خود اپنے پیروں پر چل کر تم تک کبھی نہیں آئوں گی۔ ایسا کرو پھر سے کدنیپ کر لو۔" اسے بلا کا غصہ آیا تھا ۔
"اگر میں کہوں تمہاری کوئی قیمتی چیز میرے پاس ہے تب بھی نہیں؟" یہ وہ وقت تھا جب عالیان کے پسینے چھوٹنے لگے اور چہرے پر خوف کی رمق دوڑنے لگی۔
"میں اپنی قیمتی چیزیں سرعام نہیں رکھتی کہ کوئ بھی اٹھا کر لے جائے۔۔ خوامخواہ میرا ٹائم ضائع کررہے ہو تم۔۔"
"فون مت کاٹنا۔۔" وہ کاٹنے ہی لگی تھی پھر ظفر کی آواز پر رکی اور اگلے ہی لمحے اسے ظفر کی ویڈیو کال آنے لگی۔۔ "آخر اس شخص کا مسئلہ کیا ہے؟؟" اس نے اکتا کر کہتے ہوئے کال اٹینڈ کی اور سب سے پہلے اپنے چہرے سے کیمرہ ہٹا کر وہ اسے اپنے کمرے کا چمکتا ہوا سفید فرش دکھانے لگی۔
"دکھائو میری قیمتی چیز۔" وہ بھڑک کر بولی۔ ظفر کی سکرین پر اس کا چہرہ نہیں تھا لیکن ردا کی سکرین پر ظفر کا چہرہ ضرور دکھائی دے رہا تھا یکدم ہی ظفر کی شکل سے ہٹ کر کیمرہ اب جس بندھے ہوئے شخص کا چہرہ اسے دکھا رہا تھا اسے دیکھتے ہی ردا کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکلتی گئ۔ وہ عالیان تھا لیکن اسے اپنی آنکھوں پر جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔
"ردا۔۔ میری سنو۔۔ یہاں مت آنا۔۔ میں نکل جائوں گا یہاں سے۔۔" وہ بول رہا تھا اور وہ بےیقینی اور پھٹی آنکھوں سے سکرین پر اسے دیکھے جا رہی تھی۔ اسے یوں رسیوں میں بندھا ہوا دیکھ کر ردا کی آنکھیں یقین کرنے سے قاصر تھیں۔ پھر اس شیطان ظفر نے کال کاٹ دی۔ ردا کا خون تو جیسے ایک جگہ پر جم ہی گیا اور اسی بدحالی کے عالم میں اس نے کپکپاتی انگلیوں سے اسے کال دوبارہ کی۔
ظفر نے سگریٹ کا ایک کش بھرتے ہوئے موبائل کی سکرین عالیان کی طرف کی جس پر ردا ڈارلنگ کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس کا چہرہ برف کی طرح سفید پڑنے لگا۔ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بےبسی کی انتہا پر تھا۔
"فون اٹھائو لعنتی انسان۔۔" وہ سر پکڑے فون کان سے لگائے اضطراب کے عالم میں کمرے میں چکر کاٹ رہی تھی۔۔ بار بار ملانے پر آخر اس کی کال اٹھا لی گئ۔
"انہیں جانے دو ظفر۔۔" فون سے نکلتی اس کی منت بھری آواز اس کمرے میں گونج رہی تھی۔ سپیکر کھلا تھا۔ وہ دوبارہ فون عالیان کے قریب کر کے اس کی طرف جھک کر کھڑا ہو گیا۔
"جانے دوں گا۔۔ تم یہاں آجائو۔۔ میرے پاس۔۔"وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ عالیان شدت سے اس کے انکار کا منتظر تھا۔"ڈیل منظور ہے یا نہیں؟؟" ظفر نے دوبارہ پوچھا۔
"منظور ہے۔۔ " وہ فوراً سے بنا سوچے سمجھے بولی۔
"نہیں۔۔" عالیان چیخ پڑا۔۔ "مت آنا یہاں۔ میں بتا رہا ہوں تمہیں۔۔ یہاں آئ تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔"
"آپ چپ کریں۔۔ ظفر تم بتائو وعدہ کرتے ہو؟؟" اس کی آواز قدرے اونچی تھی۔
"پکا وعدہ۔۔ میں وعدہ خلافی نہیں کرتا۔۔ تم میرے پاس آجائو تو میں نے اس کا کیا کرنا ہے لیکن اگر نہ آئ تو اس کے پرزے پرزے کرکے پورے ملک میں پھیلا دوں گا۔۔صرف آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس۔" آواز میں شدید نفرت تھی اور ہونٹ دائیں جانب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔
"نہیں انہیں کچھ مت کرنا۔۔ میں آرہی ہوں۔۔" وہ تڑپ کر بولی۔ اس کا یوں تڑپ اٹھنا وہ بھی عالیان کے لیے عالیان کی سمجھ سے باہر تھا۔ اس سے پہلے عالیان پھر کچھ بولتا ظفر نے کال کاٹ دی۔۔ وہ اب سینے پر ہاتھ باندھے مضحکہ خیز انداز میں اسے دیکھ رہا تھا جو بےبس لگ رہا تھا۔۔
"وہ نہیں آئے گی۔۔" وہ مدھم اور کھوئی کھوئی آواز میں بولا۔
"وہ آئے گی۔۔" اس نے سگریٹ اپنے بوٹ کے نیچے مسلتے ہوئے یقین سے کہا۔
" وہ میری سب کچھ ہے لیکن میں اس کا کچھ نہیں ہوں۔۔ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔۔ اور میرے لیے وہ تم جیسے گھٹیا انسان کے پاس کبھی نہیں آئے گی۔۔"
"وہ تمہارے لیے تڑپ اٹھی تھی۔۔" کہتے ہی وہ وہاں سے پلٹ گیا۔ عالیان نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا۔۔ اگر وہ سچ مچ آگئ تو تو وہ کیا کرے گا؟؟ کاش کہ ردا کو اس سے بےتحاشا نفرت ہوجائے۔۔ وہ کبھی اس کے لیے یہاں نہ آئے۔۔ وہ سر گرائے مسلسل دل ہی دل میں خود سے کہتا گیا۔

●●●●●●●●●●●●●

وہ کچھ دیر اسی طرح اضطراب کے عالم میں کمرے میں چکر کاٹتی رہی۔ دل تھا کہ مسلسل بےچینی اور خوف سے دھڑکے جا رہا تھا اور دماغ تھا جو مکمل مائوف ہو چکا تھا۔ عالیان کا رسیوں میں جکڑا وجود اب تک جیسے اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ مختلف خیالوں کے ساتھ جو ایک خیال اور اسے ستائے جا رہا تھا وہ یہ تھا کہ اب وہ کرے تو کیا کرے؟ ظفر سے تو اس نے بڑی آسانی سے کہہ دیا تھا کہ وہ اس کے پاس چلی جائے گی لیکن عالیان۔۔ افف وہ اسے بھی تو جانتی تھی وہ واقعی جان سے مار دے گا اور ظفر کی بھی کیا گارنٹی تھی کہ وہ چلی بھی جائے تو وہ عالیان کو چھوڑ دے گا۔ ظفر کی پچھلی تمام کرتوتوں کی وجہ سے اس سے کوئی بھی توقع کی جا سکتی تھی۔
"افف میں کیا کروں؟؟ کیسے بچائوں ان کو؟ یااللہ میری مدد فرما۔۔" اس نے بےبسی سے سر اوپر اٹھا کر التجا کی۔ دفعتاً اس کے قدم رکے اور دماغ میں صرف ایک ہی لڑکی کا خیال آیا۔
"آپی۔۔" اس کے ہونٹ جیسے خود بخود ہلے اور مسکرائے بھی لیکن اگلے ہی لمحے اس کی مسکراہٹ پھر غائب ہو گئ۔ نہیں وہ انابیہ کو بیچ میں شامل نہیں کر سکتی بلکہ کسی کو بھی نہیں کر سکتی۔ اگر ظفر کو پتہ چلا تو عالیان کی جان کو اس شیطان سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ شکست خوردہ حالت میں ہی بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ سائڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ کی سنہری روشنی اس کے چہرے کی زرد رنگت کو ظاہر کر رہی تھی۔ ہوا میں گہرا سانس بھر کر وہ اپنی کنپٹی مسلنے لگی۔ پھر آنکھیں بند کیے اس نے دھیرے دھیرے اپنی گردن دائیں گھمائی اور پھر بائیں تبھی اس نے آنکھیں کھول دیں اور سب سے پہلی نظر اس کی چیز شے پر پڑی تھی وہ اس کے سائڈ ٹیبل کا دراز تھا۔ دماغ میں فوراً سے ہی کچھ کلک ہوا اور پھر۔۔ اور پھر یاد آنے پر وہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس دراز کی طرف جھپٹی۔ دراز کھولتے ہی اسے بلکل کونے میں پڑی ہوئی اپنی مطلوبہ چیز مل گئ۔ وہ ایک چھوٹا بھورے رنگ کا لکڑی کا ڈبہ تھا۔۔ یکدم ہی اس کے چہرے پر خوشی کی رمق دوڑنے لگی۔اس نے ہنستے ہوئے اپنی پیشانی پر رکھ کر ہاتھ مارا۔ اففف وہ اسے کیسے بھول سکتی تھی۔ وہیں فرش پر بیٹھے اس نے خوشی سے ڈبہ کھولا اور عین درمیان میں پڑی سفید چیز جیسے اس کی آنکھوں میں خوشی اور شکر کے آنسو لانے لگی۔
"انسان کے روپ میں شیطان!! تمہارے پاس آتی ہے صرف ردا کی لعنت۔۔ بلکہ لعنتیں۔۔" اس نے وہ چیز نکال کر اپنی مٹھی میں دبائی اور پھر چیلنجنگ انداز سے بولی۔۔ "اب دیکھتی ہوں کیسے تم عالیان کو واپس میرے پاس نہیں بھیجتے۔۔" وہ تیزی سے اٹھی اور اسٹڈی ٹیبل کی طرف گئ۔ اس کے پاس وقت بہت کم تھا اسے جو بھی کرنا تھا جلدی سے بھی جلدی کرنا تھا۔

●●●●●●●●●●○●

عالیان اسی طرح رسیوں میں جکڑا ہوا بیٹھا تھا۔ماتھے اور چہرے کے زخم اب بھی ویسے ہی تازہ لگ رہے تھے منہ ایک طرف سے سوجا ہوا تھا اور ہونٹ کنارے سے پھٹا ہوا تھا۔ اس نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہ آنکھیں بند کیں اور نہ ہی سر گرایا۔ سر کو اٹھائے وہ نظریں دور ایک دروازے پر ٹکائے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بلکل نارمل تھے لیکن اندر ہی اندر وہ کس خوف کا شکار تھا صرف وہی جانتا تھا۔ دفعتاً دروازہ کھلا اور دروازے کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں بھی خوف سے پوری کھلیں لیکن اندر آنے والی ردا نہیں تھی یہ دیکھتے ہی اس نے اطمینان کا سانس بھرا۔ ظفر اپنے دو گارڈز کے ساتھ اس کی طرف چلتا ہوا آرہا تھا۔ کچھ قدم لیتے گارڈز وہیں رک گئے جبکہ ظفر بلکل اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔
"بھول جائو۔۔ وہ کبھی نہیں آئے گی۔۔" اس کی آواز ویسی ہی پراعتماد تھی۔ ظفر نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا اور پھر اپنی کلائی میں پہنی گھڑی اس کے سامنے کی جو آٹھ بج کر بیس منٹ بجا رہی تھی مطلب آدھا گھنٹہ پورا ہوا۔ عالیان نے گھڑی سے نظریں ہٹا کر گردن دوسری طرف موڑ لی۔ ٹھیک پانچ منٹ مزید گزرنے کے بعد اس خاموش کمرے میں ایک آواز گونجنے لگی۔ عالیان نے گھبرا کر نظریں اٹھا کر ظفر کو دیکھا جو فاتحانہ انداز سے مسکراتے ہوئے اپنے بجتے ہوئے فون کی اسکرین اس کے سامنے کیے کھڑا تھا۔
"ردا ڈارلنگ کالنگ۔۔" اس نام کو دیکھتے ہی اس کا دل کیا وقت تھم جائے رک جائے یا وہ کسی طرح آزاد ہو جائے پھر ظفر کی گردن ہوگی اور اسکے ہاتھ لیکن افسوس وہ بےبس تھا۔
اسی طرح مسکراتے ہوئے اس نے کال اٹینڈ کر کے فون کان سے لگایا اس بار اس نے اسپیکر نہیں کھولا کیونکہ اس کی سوچ کے مطابق اسے کچھ ہی دیر میں بس دروازہ کھولنا تھا۔۔
"کہاں رہ گئ ہو یار کتنی دیر لگا دی اب کتنا صبر آزمائو گی؟؟" وہ عالیان کو دیکھتے ہوئے نہایت ہی ڈرامائی انداز میں دل پر ہاتھ رکھے بول رہا تھا۔ وہ بس اسے تپا رہا تھا اور وہ آخری حد تک تپ رہا تھا۔۔
"بس آگئ۔۔" ردا کی پرسکون آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی اتنی کہ عالیان کو لگا آج سب ختم۔
"کیا کروں سگنلز ہی اتنے ویک ہیں۔۔" اس بات پر ظفر کی مسکراہٹ تھوڑی پھیکی پڑی اور آنکھوں میں کچھ ناسمجھی امڈ آئی۔ عالیان بغور اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا لیکن ہر بات سے انجان تھا۔
"لو آگئ۔۔" وہ تقریباً چیخ کر بولی۔ ظفر کے کانوں کے پردے ہل گئے تھے لیکن سب کچھ اگنور کرتے وہ تیزی سے دروازے کی طرف گھوما۔
"کہاں ہو؟؟" اس کے لب بمشکل ہلے۔
"ابے پاگل۔۔ ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو۔ اپنا موبائل دیکھو واٹس ایپ پر ردا ڈارلنگ کے نام سے نوٹیفکیشن آئی ہو گی۔۔ بلکہ نوٹیفکیشنز۔۔" ظفر کا دماغ گھوم کر ہی رہ گیا۔ اس نے موبائل کان سے ہٹا کر چہرے کے سامنے کیا۔ عالیان نے اس کی پل بھر میں اڑتی رنگت دیکھی تھی آخر ایسا بھی کیا دیکھ لیا اس نے موبائل کی سکرین پر جو اس کی ہوائیاں ہی اڑ گئ تھیں۔۔ اس کا چہرہ برف کی مانند سفید پڑ گیا تھا اور جسم تو جیسے ہلنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا وہ مسلسل بس پھٹی آنکھوں سے موبائل کی اسکرین کو دیکھتا رہا اور عالیان اسے۔۔
"یہ۔۔ یہ سب تمہارے پاس۔۔" اس کی آواز کپکپا گئ۔
"آ آ۔۔ چھوڑو اس بات کو۔۔ جہاں سے بھی آئی بس آگئ۔۔ اب میری بات غور سے سننا۔۔" اس کے کان سائیں سائیں ہو رہے تھے۔ " تم بلکل نہیں چاہو گے کہ یہ سب دنیا کے سامنے آئے اسی لیے آدھے گھنٹے کے اندر اندر عالیان مجھے میرے سامنے چاہیے۔۔" اس کی آواز میں کھلا کھلم چیلنج تھا۔
"یہ سب میرے حوالے کر دو۔۔ورنہ۔۔"
"نا نا۔۔ دھمکی مت دینا۔ تم بلکل بھی اس کنڈیشن میں نہیں ہو کہ مجھے دھمکی دے سکو۔ اور یہ خیال تو ذہن سے نکال پھینکو کہ میں یہ کبھی تمہارے حوالے کروں گی۔ چپ چاپ عالیان کو چھوڑ دو ورنہ دو سال تو قومہ میں گزارے تھے نا باقی کی زندگی جیل میں گزارو گے سمجھے۔۔" تنبیہی لب و لہجے میں کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی۔
"ہیلو۔۔ ہیلو۔۔" ظفر بولتا رہ گیا لیکن کال کٹ گئ۔ اس نے کال دوبارہ ملائی لیکن اب کی بار اس کا نمبر بند تھا۔ عالیان ہر بات سے انجان اسے دیکھے جا رہا تھا اتنا تو اسے بھی یقین ہو گیا تھا کہ اس سبز آنکھوں والی خوبصورت بھوتنی نے ضرور کچھ کیا ہے۔ ظفر نے ایک غصیلی نظر سے عالیان کو دیکھا پھر تیزی سے اپنے گارڈز کی طرف گیا اور ان سے سرگوشی نما انداز میں کچھ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ عالیان نے دیکھا وہ دونوں گارڈز اس کی طرف آرہے تھے۔۔ کیوں؟؟ اس کا جواب بھی اسے کچھ ہی دیر میں مل جائے گا۔۔

●●●●●●●●●●●●

وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر اکیلی بیٹھی تھی۔ انابیہ اب تک واپس نہیں آئی تھی۔ اس نے صبح جانے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اسے آج آنے میں دیر ہو جائے گی۔ اس کا کام ہو گیا تھا اور اب اس کا دل بھی مطمئن تھا۔ سفید رنگ کی یو-ایس-بی لیپ ٹاپ سے نکال کر وہ چند لمحے ہاتھ میں پکڑے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے آنکھیں بند کیں۔ ذہن کی اسکرین اسے ماضی کے کچھ منظر دکھانے لگی اور وہ کچھ لمحوں کے لیے اس وقت میں چلی گئ جب یہ یو-ایس-بی اس کی زندگی کا حصہ بنی تھی۔
ویٹنگ ایریا میں قطار سے لگی کرسیوں میں وہ سیاہ برقعے میں لپٹی لڑکی ردا کے ساتھ بیٹھی تھی۔
"میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟؟" ردا نے سوالیہ نظروں سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ بجائے جواب دینے کے وہ اپنا بیگ ٹٹولنے لگی۔ ردا بغور اس کی ہر حرکت دیکھ رہی تھی۔ تبھی اس نے اپنی مطلوبہ چیز بیگ سے بالآخر برآمد کر لی۔ پھر اس نے ردا کا ہاتھ پکڑ کر وہ چیز اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ اپنے ہاتھ میں سفید رنگ کی یو-ایس-بی دیکھ کر اس کی آنکھوں میں کئی طرح کے سوال اٹھنے لگے۔
"اس یو-ایس-بی میں وہ تمام وائس نوٹس ہیں جو بھائی کے قتل سے دو دن پہلے ظفر نے ان کو کیے تھے۔ وہ مینٹل ٹارچر کرتا رہا تھا بھائی کو وائس نوٹس کے ذریعے انکو دھمکیاں بھی دیتا تھا اور قتل والے دن جب اس کی اور بھائی کی ہاتھا پائی ہوئی تھی اس کے مختصر مختصر کلپس بھی ہیں جو کسی نے مجھے بھیجے تھے۔ سب مناظر ان ویڈیو میں واضح ہیں کہ کیسے ظفر نے میرے بھائی پر گولیاں چلائی تھیں۔۔" ردا بنا پلک جھپکے اسے پوری محویت اور حیرت سے سنتی گئ۔
"تو آپ اس کے ذریعے اپنے بھائی کو انصاف دلا سکتی ہیں۔ مجھے کیوں دے رہی ہیں؟؟" اس کی آنکھیں کھلم کھلا وضاحت کی طلبگار تھیں۔
"میرے ماموں کی وجہ سے۔۔ جنھوں نے اپنے گائوں میں ہمیں پناہ دے رکھی ہے۔ ان کی بھی چھوٹی بیٹیاں ہیں اور وہ پولیس اور ظفر کے معاملے سے بلکل دور رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسی شرط پر ہمیں رہنے کی جگہ دی ہے۔ میں نے اپنی ماں کو بہت سمجھایا ہے کہ ہم اکیلے رہ لیں گے لیکن بھائی اور بابا کو انصاف ضرور دلائیں گے لیکن انہوں نے بھی اپنی قسم دے دی ردا۔ مجھے سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔۔" اس کا لہجہ پہلے سے زیادہ مغموم تھا۔
"پھر بھی یہ ایک بہت بڑا ثبوت ہے آپ کے پاس ہونا چاہیے۔"ردا نے جیسے اسے سمجھانے کی ایک اور کوشش کی۔
"میں جب جب اس یو-ایس-بی کو دیکھتی ہوں میرا دل کرتا ہے کہ میں خودکشی کر لوں لیکن کیا کروں اپنی ماں کا مزید امتحان نہیں لے سکتی کیونکہ سب میری ہی وجہ سے تو ہوا ہے۔۔ اس کا میرے پاس ہونا نہ ہونا برابر ہے۔۔ ردا۔" اس نے آگے بڑھ کر ردا کے دونوں ہاتھ پھر سے تھام لیے۔
"میں نہیں چاہتی کہ میری طرح ظفر تمہارے اپنوں کو نقصان پہنچائے اسی لیے میں یہ تمہیں دینے آئی ہوں۔ میں تمہاری طرح مضبوط نہیں ہوں اور میں جانتی ہوں یہ تمہارے پاس ہوگی تو ظفر تمہارے کسی اپنے کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا تم اس کا استعمال اسے دھمکانے یا ڈرانے کے لیے کر سکتی ہو لیکن جب تک اشد ضرورت نہ ہو اس سب کو ظفر کے سامنے مت آنے دینا۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا۔۔" ردا نے ٹرانس کی سی کیفیت میں سر اثبات میں ہلایا جیسے کوئی روبوٹ ہو۔
"دیکھو مجھے تم پر یقین ہے کیا پتہ تمہاری وجہ سے ہمیں بھی انصاف مل جائے بس میں اتنا جانتی ہوں کہ ظفر اب کسی لڑکی کے خاندان کو تباہ کرتے ہوئے سو بار سوچے۔۔" کہتے ساتھ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ردا بھی اس کے ساتھ ہی اٹھی کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ اب بھی اس کی نرم گرفت میں تھے۔ آگے بڑھ کر اس نے ردا کو گلے لگایا اور نقاب اپنے چہرے پر پھینک کر وہ الوداعی کلمات کہتے وہاں سے چلی گئ۔۔
منظر صاف ہونے لگا اور وہ ماضی سے نکل کر دوبارہ اپنے کمرے میں آ پہنچی۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے بیٹھی رہی۔ تبھی دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔ اس کا دل ایکدم ہی اچھل کے حلق میں آیا۔ تیزی سے اس نے سائڈ ٹیبل پر پڑا بائول اٹھایا جو چپس سے بھرا ہوا تھا اور لیپ ٹاپ کی سکرین آن کر کے بیٹھ گئ۔ پاکستان اور انڈیا کے میچ کی ہائی لائیٹس چل رہی تھیں۔ دستک دوبارہ ہوئی۔ گہرا سانس بھرتے اس نے "آجائو" کہا۔ اندر آنے والے شخص کو اس نے ایک نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اندر آنے والا شخص کون ہے۔ وہ مکمل طور پر لیپ ٹاپ میں محو اپنے آپ کو بےحد مصروف اور ہر معاملے سے لاتعلق دکھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تمہیں شرم نہیں آتی ہینا۔۔" اس کے بیڈ سے کچھ قدم دور کھڑے عالیان نے خفہ خفہ آواز میں اس سے کہا۔۔اس کی سانسیں جو کب سے اٹکی ہوئی تھی عالیان کی آواز سنتے ہی بحال ہو گئیں ۔
"کچھ کہا؟" ردا نے بڑی ہی معصومیت اور انجان نظریں اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے چپس کا ایک دانہ منہ میں ڈالا اور اگلے ہی لمحے اس کے زخموں کی زد میں آئے چہرے پر سے وہ نظریں ہٹانا بھول ہی گئ۔
"میں کتنی مصیبت میں پھنسا ہوا تھا اور تم بڑے مزے سے یہاں بیٹھی چپس کھا رہی ہو۔۔" ردا کے لیے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ سنجیدہ ہے یا مذاق کر رہا ہے وہ بس اس کے زخموں کو دیکھتی گئ اور پھر جھرجھری لے کر سیدھی ہوئی۔
"تو مصیبت میں آپ تھے میں نہیں۔۔" اس نے چہرے پر ناگواری سجائے اس پر سے نظریں ہٹا لیں۔
"یہ بھی ٹھیک ہے۔۔" اس نے سادگی سے کندھے اچکا کر کہا۔ ردا کو کہیں سے بھی نہیں لگا کہ یہ وہی شخص ہے جو اس سے ناراض تھا۔
"تم نے اسے ایسا کیا بھیجا تھا جسے دیکھتے ہی اس کے رنگ ڈھنگ اڑ گئے تھے؟"
"میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔۔ یو نو واٹ خود پر چڑھے سارے احسانوں کا بدلہ میں نے آپ پر یہ احسان کر کے دے دیا ہے چاہے جیسے بھی آپ کو اس سے غرض نہیں ہونا چاہیے۔۔" وہ نظریں ہنوز لیپ ٹاپ پر مرکوز کیے مصروف انداز میں اس سے کہہ رہی تھی جبکہ عالیان اس کے احسان والی بات پر ہلکا سا مسکرایا۔
"میں اسے احسان نہیں مانتا تمہاری ہی وجہ سے یہ ظفر نامی بلا اب میرے پیچھے پڑ گئ ہے۔۔" شریر لہجے میں بولا تو ردا نے انگارہ اگلتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"تو خوش ہو جائیں یہ بلا اب آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی کیوں کہا اس سے کہ میں آپ کی ہوں؟" وہ اس قدر بھڑکی تھی کہ عالیان ایک لمحے کے لیے بلکل چپ ہو گیا تھا۔ تبھی اس کے ہونٹ کے کنارے سے نکلتا خون دیکھ کر ردا کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور آنکھوں کی کیفیت بھی بدل گئ وہ اب انگارے نہیں اگل رہی تھیں۔
"آپ کو پہلے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے تھا نا۔۔" اس کی آواز اب بھی اونچی تھی لیکن اس بار اس میں فکر کی آمیزش بھی تھی۔
"میں نے سوچا جب ڈاکٹر گھر میں ہی ہے تو میں کیوں ہسپتال جا کر خوار ہوں۔۔" اس نے انگلی کی پشت سے اپنے ہونٹ کے کنارے سے خون صاف کیا۔ ردا پہلے تو ٹھٹکی لیکن پھر اس کے کندھے یکدم ہی ڈھیلے پڑ گئے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ ڈاکٹر تو گھر پر موجود تھی۔ بنا کچھ کہے وہ بیڈ سے اٹھ کر سیدھا الماری کی طرف گئ۔ عالیان کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا جو اب الماری سے کچھ نکال رہی تھی۔ پھر وہ اس کی طرف پلٹی اور اس کے ہاتھوں میں فرسٹ ایڈ باکس دیکھ کر وہ مبھم سا مسکرایا۔ ردا کو ہمیشہ کی طرح اس کی مسکراہٹ پھر سے زہر لگ رہی تھی۔
"ایک تو یہ لڑکا ہر بار غلط وقت ہی کیوں مسکراتا ہے؟؟" دل ہی دل میں کہتی وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"کہیں بیٹھ جائیں تو میں۔۔" وہ بول ہی رہی تھی کہ عالیان نے اس کے ہاتھ سے فرسٹ ایڈ باکس جھپٹ لیا۔ ردا نے اس حرکت پر چونک کر اسے دیکھا۔
"رہنے دو میں کیا کروں گا تم سے پٹی کروا کر۔۔ میں خود کر لوں گا۔۔" اس نے اپنائیت سے کہا تھا۔
"مگر۔۔" وہ پھر ٹوک دی گئ۔
"اگر مگر چھوڑو۔۔ کیوں خود کو مشکل میں ڈالتی ہو؟ ویسے بھی مجھے ان زخموں سے زیادہ دل پر لگے زخم تکلیف دیتے ہیں جب ان کا علاج کرنا ہو تو آنا۔۔" زخمی انداز سے کہتے ہی وہ مڑ گیا اور ردا ہکا بکا سی اسے دیکھے گئ۔ دروازے پر پہنچتے ہی وہ پھر رکا اور اس کی طرف گھوما۔۔
"میں نہیں جانتا تم نے کیا کیا ہے بس اس بات کی خوشی ہے کہ جو کچھ بھی کیا میرے لیے کیا۔۔ اس لیے تھینک یو سو مچ۔۔" تشکرانہ انداز اور بڑے ہی پیار سے کہتے ہی وہ چلا گیا جبکہ ردا کا وجود بلکل پتھر کا ہو گیا اور وہ بھاری تنفس کے ساتھ وہیں کھڑی رہی۔ کیا یہ شخص بھول گیا تھا کیسے اس دن ردا نے اس کی بےعزتی کی تھی کیسے آرام سے نفرت کا اظہار کر دیا تھا۔ وہ یوں آسانی سے کے لیے نرم کیسے پڑ سکتا تھا کیسے؟ اس کی ندامت سے بھری نظریں اب تک اس دروازے کے پار ٹکی تھیں جہاں سے وہ ابھی ابھی گیا تھا۔

●●●●●●●●●●●●●●

بالکونی کے کھلے دروازے سے صبح کی تازہ ہوا کمرے میں داخل ہوتے چاروں طرف گھوم رہی تھی اور ایسے میں وہ کھلی قمیض اور ٹرائوزر پہنے بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کیے بیٹھی چائے کے ایک ایک گھونٹ سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ وہ عموماً صبح خالی پیٹ چائے پینے کی عادی نہیں تھی لیکن آج اسے چائے کی اشد طلب ہوئی تھی شاید موسم کا اثر تھا۔ دفعتاً اس کے ساتھ بیڈ پر پڑا اس کا فون تھرتھرایا بس ایک ہی بار۔ گردن موڑ کر اس نے روشن اسکرین کو دیکھا جس پر وانیہ کا واٹس ایپ میسج سب سے اوپر دکھائی دے رہا تھا اس نے کوئی پکچر بھیجی تھی۔ چائے کا دوسرا گھونٹ بھرتے اس نے فون اٹھا کر اپنے شفاف اور بےداغ چہرے کے سامنے کیا اور وانیہ کے میسج پر کلک کیا۔ اس کی چیٹ کھل گئی تھی۔ سکرین پر جگمگاتی تصویر دیکھ کر انابیہ کا منہ خوشگوار حیرت سے کھل گیا کیونکہ تصویر کسی اور کی نہیں بلکہ کبیر جہانگیر کی تھی جو اپنی چئیر پر بیٹھا سپاٹ نظروں سے کسی فائل کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ تصویر کو دیکھنے سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسی نے چھپ کر لی ہے اور ایسا نیک کام بھی کسی اور نے نہیں وانیہ ملک نے کیا تھا۔ انابیہ آج کل آفس ذرا دیر سے جاتی تھی اسی لیے وانیہ نے اسے تصویر بھیج کر آگاہ کر دیا تھا کہ آج وہ لمحہ بھر کی دیر کیے بغیر آفس پہنچ جائے۔
بجلی کی تیزی سے وہ بیڈ پر سی اٹھی چائے کا کپ سائڈ ٹیبل پر رکھا جس میں چائے اب بھی باقی تھی اور وہ تیزی سے الماری کی طرف گئ۔ الماری کا دروازہ کھول کر وہ قطار میں ٹنگے کپڑوں کو آگے پیچھے کر کر کے دیکھنے لگی تبھی اس کی نظر اپنے ہلکے جامنی رنگ کے ایک نئے ریشمی گائون پر پڑی جو دو دن پہلے ہی اس کے ڈیزائنر نے بھجوایا تھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسی گائون کو نکالا اور اسے لیے واشروم میں گھس گئ۔
کچھ ہی دیر بعد وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں کو نیچے نیچے سے کرل کر رہی تھی۔ چہرے پر بہت ہی ہلکا میک اپ، ہونٹوں پر چمکتا ہوا گلوس اور گھنی پلکوں پر بھر بھر کے مسکارا اسے حسین و جمیل دکھا رہا تھا۔ بال کرل ہو گئے تو اس نے الماری کے ہینڈل کے ساتھ لٹکتے ہینگر میں سے ریشمی سکارف نکالا اور اسے پن کی مدد سے سر پر ٹکاتے ہوئے ایک سرا آگے اور دوسرا سرا سامنے گردن سے گھماتے ہوئے پیچھے پھینک دیا۔ قد آور شیشے کے سامنے خود کا مختصر جائزہ لیا سفید ہائی ہیلز پہنی سفید پرس اٹھایا اور تیزی سے کمرے سے نکل گئ۔
سیڑھیاں اترتے ہی اس کے کانوں سے بلینڈر مشین کی آواز ٹکرائی تو اس نے پہلے کچن میں جھانکا جہاں ردا آملیٹ بنانے میں مصروف تھی اور شہناز کائونٹر کے پیچھے کھڑی جوسر بلینڈر میں تایا ابو کے لیے جوس بنا رہی تھی۔
"عالیان کہاں ہے؟" بلینڈر خاموش ہوا تو اس نے وہیں دروازے پر کھڑے کھڑے پوچھا۔ ردا اس کی آواز پر اس کی طرف گھومی اور وہیں شہناز نے بھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"آفس چلے گئے ہیں۔۔" کہتے ساتھ ہی وہ دوبارہ آملیٹ کی طرف متوجہ ہو گئ جبکہ انابیہ کے چہرے پر ناگواری سی ابھری۔
"ملے بغیر ہی چلا گیا۔۔ خیر میں اسے کال کر لوں گی۔ " اس نے خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
اس بات پر ردا کچھ نہیں بولی وہ اس کے انابیہ سے ملے بغیر چلے جانے کی وجہ جانتی تھی۔ وہ بس کچھ بھی کر کے صبح صبح اسے اپنے چہرے کے زخموں سے آشنا نہیں کروانا چاہتا تھا۔
"آپی ناشتہ۔۔" وہ پلٹ کر جانے ہی لگی تھی کہ ردا نے اسے آواز دی۔
"میں چائے پی چکی ہوں ناشتے کا دل نہیں ہے۔۔" عام سے انداز میں کہتے ہی وہ پہلے تایا ابو کے کمرے کی طرف گئ۔ وہ ہمیشہ ان سے صبح مل کر ہی جاتی تھی۔ ردا نے افسوس سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔
"ناشتہ پیک کر وا دو ان کا۔ سب کے نخرے اٹھانے کا ٹھیکا بھی میں نے ہی لے رکھا ہے ۔۔ ہونہہ۔۔" شہناز نے اس کے حکم پر سر اثبات میں ہلایا۔

●●●●●●●●●●●

این-جے بلڈرز میں حسب معمول سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ لابی سے گزرتے وقت ورکرز رک رک کر اسے سلام کر رہے تھے جس کا وہ خوش اسلوبی سے جواب دیتی رہی۔ تبھی اس کی نظر دور کھڑے جہانگیر اور کبیر پر رکی جن کے چہرے کی سنجیدگی بتا رہی تھی ان کے درمیان حائل موضوع بہت ہی سنجیدہ ہے۔
"ہیلو میم۔۔ آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔" وانیہ ناجانے کب اس کے ساتھ کھڑی ہوئی۔
"کب نہیں لگتی!!" فخریہ انداز سے کہتے وہ آگے کو چلنے لگی۔ وانیہ بھی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔
"جب کبیر سر نہیں ہوتے۔۔" اس کے کہتے ہی انابیہ کا منہ خوشگوار حیرت سے کھلا اور وہ رک کر اس کی طرف گھومی۔ اگلے ہی لمحے وہ وانیہ کو دیکھتے زور سے ہنس دی جواباً وہ بھی ہنسنے سے خود کو نہ روک سکی۔
کبیر نے بےدھیانی میں گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی نظریں انابیہ پر رکیں جو اسی کی طرف آرہی تھی۔ ہلکے جامنی رنگ میں وہ بلکل گل یاس(lilac)لگ رہی تھی۔ محبت اور یادوں سے وابستہ خوبصورت پھول!!
"السلام علیکم!" قریب آکر اس نے خوش اسلوبی سے سلام کیا۔
" وعلیکم السلام!!" جہانگیر صاحب نے مسکراتے ہوئے اونچی آواز میں اس کے سلام کا جواب دیا جبکہ کبیر نے سر کو خم دیتے سرگوشی نما انداز میں۔
"تمہارا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ چلو شاباش اوپر میٹنگ روم میں آجائو کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔۔" ایک نظر کلائی میں پہنی گھڑی پر ڈالتے ہوئے جہانگیر صاحب عجلت میں کہتے ہوئے لفٹ کی طرف بڑھ گئے۔ وہ دونوں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیے۔
"بیمار بچہ اب کیسا ہے؟؟" انابیہ نے سرگوشی نما انداز میں اس سے پوچھا۔ آواز اتنی کم تھی کہ ان کے آگے چلتے جہانگیر صاحب کے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔
"بیمار بچہ اب بلکل ٹھیک ہے۔۔" گردن کو تھوڑا اس کی طرف جھکا کر کبیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ لفٹ کے دروازے جدا ہوتے ہی جہانگیر صاحب نے قدم اندر رکھ دیے اور ان کے پیچھے پیچھے ان دونوں نے بھی۔۔

“یعنی ہم اپنا پہلا وار کرنے میں کامیاب ہوئے۔۔" عالیان کی آواز پر فرہاد نے سر اثبات میں ہلایا جو چولھے کے سامنے کھڑا کھانا بنانے میں مصروف تھا۔ وہ دونوں اوپن کچن میں موجود تھے۔ عالیان مرکزی کائونٹر کے پیچھے سٹول پر بیٹھا اپنے سامنے پڑے کانچ کے ڈیکوریشن پیس پر انگلیاں چلا رہا تھا۔ اس کے بلکل پیچھے لونگ روم میں صوفے پر کبیر آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا ہوا تھا یا شاید سو رہا تھا۔
“ویسے کبیر۔۔" سٹول پر بیٹھے بیٹھے اس نے گردن موڑ کر کبیر کو دیکھا اور پھر چپ ہو گیا۔ وہ جب سے آیا تھا کبیر تب سے ایسے ہی لیٹا ہوا تھا۔ "اگنور کرنے کا یہ اچھا طریقہ ہے۔۔" ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں کہتے ہی وہ دوبارہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
“شکر کرو اگنور ہی کر رہا ہے ورنہ تو آج کل ہاتھ بھی بہت چل رہے ہیں اس کے۔۔" فرہاد نے کیبنٹ سے مصالحہ ریک نکال کر اپنے سامنے سلیب پر رکھتے ہوئے خفگی سے کہا۔ اسے اس دن والا کبیر کا زوردار پنچ یاد آیا تھا۔۔ "ورنہ تو بقول اس کے جو ہم دونوں نے اس کی زندگی مشکل میں ڈالی ہے نا اس سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔۔" اس کا انداز وارننگ دینے والا تھا۔ عالیان بےساختہ ہی ہنس پڑا۔
“یعنی مسکان کو محبت ہو گئی ہے۔۔" اس کا انداز چھیڑنے والا تھا اور آواز بھی اتنی تھی کہ کبیر سن سکتا تھا۔
“ایسی ویسی۔۔ وہ تو دیوانی ہو گئ ہے اس کی دیوانی۔۔" فرہاد کو اپنا سانولا چہرہ بڑا پیارا تھا اسی لیے اس نے اپنی آواز اتنی ہی رکھی کہ صرف عالیان سن سکے۔
“پتہ نہیں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں اس کو جو انابیہ، اسکی اپنی کزن اور اب مسکان بھی اسی پر مر مٹی ہیں۔ " عالیان نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے جیسے افسوس سے کہا۔
“جو خود سیلف اوبسیسڈ ہوتے ہیں نا انہیں دوسروں کی خوبصورتی کہاں نظر آتی ہے۔" فرہاد کا انداز طنزیہ تھا اور طنز کا رخ عالیان کی طرف تھا۔ اس نے بھنویں اٹھا کر اس پونی والے کو دیکھا۔ "مان لو عالیان ہی از ویری ہینڈسم!! تبھی تو میں نے یہ کام اس کو سونپا ہے۔ اس میں کچھ تو ہے جو اس سے محبت ہو جاتی ہے۔۔" آواز پھر کم تھی اور اب وہ سالن میں مصالحے کا چھڑکاؤ کر رہا تھا۔
“اچھا جی۔۔ تمہیں تو نہیں ہو گئ یہ بلا کی محبت اس سے؟؟" اس کے طنزیہ سوال پر وہ اس کی طرف گھوما۔ تاثرات بلکل نارمل تھے کیونکہ اسے یہ سوال برا نہیں لگا تھا۔۔
“میں اس کی مدد کے لیے ساری نوکریوں کو لات مار کر آیا ہوں۔ یہاں تک کہ حیدرآباد میں بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑا۔۔ اندازہ لگا لو۔۔" اس نے کندھے اچکا کر بےنیازی سے کہا تو عالیان کی بتیسی کھلی۔
“تمہارے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔ انابیہ جان سے مار دے گی۔۔" وہ چھیڑنے کے انداز میں بولا تھا جبکہ فرہاد سر نفی میں ہلاتے اپنی سالن کی طرف گھوم گیا۔
“ویسے کبیر۔۔" وہ پھر اس کی طرف گھومتے ہوئے اسے تیز آواز میں مخاطب کر گیا۔
“ہوں۔۔"آواز پر عالیان کے چہرے پر پہلے حیرت ابھری اور پھر ناگواری۔۔
"منحوس جاگ رہا تھا۔۔"دل ہی دل میں بڑبڑایا۔۔ "اب تم چلے ہی گئے تھے تو کچھ کام اور بھی نپٹا آتے۔۔ کم از کم حویلی میں تو داخل ہو جاتے۔۔" وہ اس کے کہنے کے کچھ دیر بعد تک چپ رہا۔
“ایک کام کی بات بتائوں تمہیں۔۔" کبیر نے آنکھوں پر سے بازو نہیں ہٹایا تھا۔عالیان کے چہرے پر ناگواری مزید ابھری وہ جانتا تھا کوئی نا کوئی طنز ہی مارنا ہے اس نے۔ “سیڑھیوں پر ایک ایک کر کے قدم رکھا جاتا ہے۔ پہلی پھر دوسری اور پھر تیسری تب جا کر منزل پر آسانی سے پہنچا جاتا ہے اور جو لوگ ڈائریکٹ اوپر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں نا سر کے بل گرتے ہیں۔ تمہاری طرح ۔۔" پھر وہ چپ ہو گیا۔ عالیان نے سر کو دو تین دفعہ اثبات میں ہلایا۔ اس کی بات پر سمجھ کر نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ٹھیک تھا کبیر نے طنز مارنا تھا سو مار لیا۔۔
"حویلی میں داخل ہونا اب میرے لیے مشکل نہیں ہے۔۔" وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔ "لیکن فلحال جہانزیب کو آگ لگی ہوئی ہے اور وہ اپنے دشمن تک پہنچنے کے لیے اپنے دماغ کو ہر اینگل سے استعمال کرے گا اور میں نہیں چاہتا کہ اس وقت میرا اس کے ساتھ آمنا سامنا ہو۔۔" وہ صوفے پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا اس طرح کہ عالیان کی طرف اس کی پشت تھی۔
“یعنی تم دوبارہ جائو گے۔۔" عالیان نے پوچھا نہیں اندازہ لگایا۔ کبیر اٹھ کر اس کے ساتھ پڑے سٹول پر آ بیٹھا پھر اس نے سیلنگ لیمپ کی تیز روشنی میں عالیان کا چہرہ دیکھا۔ ہونٹ کنارے سے زخمی اور ماتھے پر بینڈیج۔۔
“یہ تمہاری دھلائی کس نے کی ہے؟؟" فکریہ انداز میں پوچھتے ہوئے وہ اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا گیا۔اس کے سامنے ٹوکری میں کچھ پھل پڑے تھے اب وہ ان کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
“ظفر نے اغوا کیا تھا اسی کی عنایت ہے۔۔" وہ جو ٹوکری سے کوئی پھل نکالنے لگا تھا لمحہ بھر کو ٹھٹکا۔
“واٹ!!" اس کے چہرے پر قدرے حیرت تھی اور یہی حال فرہاد کا بھی تھا۔
“مگر کیوں اور تم نے ہمیں کیوں نہیں بتایا؟" اب کی بار سوال فرہاد نے کیا تھا۔ کبیر ہنوز اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔
“اسے ردا چاہیے جسے وہ کسی قیمت پر حاصل نہیں کر سکتا۔ رہی بات تم لوگوں کو بتانے کی تو تم لوگ حیدرآباد میں تھے اور آل ریڈی مشکل میں تھے۔۔"
“پھر اس نے چھوڑ کیسے دیا؟؟" کبیر نے ٹوکری میں سے ایک سرخ سیب نکالتے ہوئے پوچھا۔
“تمہیں بڑا افسوس ہے۔۔" عالیان کی آنکھوں اور آواز دونوں میں طنز تھا۔ کبیر کندھے اچکا کر سیب کو منہ کے قریب لے کر گیا۔
“دھلا ہوا نہیں ہے۔۔" فرہاد کی آواز پر وہ رکا۔ سخت نظروں سے اسے گھورا اور سیب اس کی طرف اچھال دیا جسے اس نے پھرتی سے کیچ کیا تھا۔
“دھو کر دو۔۔" انداز تنبیہی تھا اور فرہاد کی آنکھوں میں بڑبڑاہٹ واضح تھی۔۔"فکر نہ کرو اس کا بھی کچھ سوچتے ہیں ۔ فرہاد ہے نا اس کا بھی سارا بائیو ڈیٹا پتہ لگوا لے گا۔" کبیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی آمیز انداز میں کہا جبکہ فرہاد جو سنک میں کھڑے ٹونٹی کے پانی سے سیب دھو رہا تھا پلٹ کر ایک جلی کٹی نظر سے کبیر کو دیکھا اور پھر ٹونٹی بند کر کے ان کی طرف آیا۔۔ سیب کبیر کی طرف اچھالا جسے اس نے کیچ کر کے تشکرانہ آمیز انداز سے اسے دیکھا۔
“میں فلحال جتنا اس کے بارے میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ اپنی سٹڈیز کی وجہ سے یہیں کراچی میں رہتا ہے کہاں یہ نہیں معلوم۔۔ اس کی یونیورسٹی کا بھی نہیں پتہ لیکن ایک بات ہے اس کے ساتھ ہر وقت گارڈز ہوتے ہیں۔۔" عالیان کے پاس جتنی معلومات تھی اس نے بتا دی۔
“ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے اور اگر وہ کمزوری ہاتھ لگ جائے نا تو یہ گارڈز وغیرہ کچھ نہیں کر سکتے۔۔" فرہاد کائونٹر پر ہاتھ رکھے جھک کر کھڑا باری باری دونوں کو دیکھ رہا تھا پھر اس کی نظر کبیر پر رکی جو سیب ہاتھ میں جکڑے مزے سے کھا رہا تھا۔
“تمہارے کیا ارادے ہیں اب آگے کے؟؟" کبیر نے اس کے سوال پر نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
“میں مسکان کو ساری سچائی بتانے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن مجھے ایک ایسے بندے کی ضرورت ہے جس پر اسے بہت یقین ہو جو اس کا اپنا ہی ہو اور جہانزیب کی سچائی میرے ساتھ مل کر اسے بتائے۔" دونوں نے بے حد حیرت اور تعجب سے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔
“ایسے گھورو مت۔۔ مسکان ایک صاف دل کی لڑکی ہے اور بہت اچھی ہے۔ اپنے جلاد باپ سے بہت پیار بھی کرتی ہے اور جب اسے اپنے باپ کی حقیقت معلوم ہوگی تو وہ ہماری مدد کرے گی۔ جب تک گھر کے اندر کا بندہ جہانزیب کی پیٹھ پر وار نہیں کرے گا تب تک اسے نقصان پہنچانا مشکل ہے۔۔" اس کی اس بات پر فرہاد کا طنزیہ قہقہہ گونجا۔ کبیر نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
“جو باتیں تم کر رہے ہو سب اگر مگر پر مبنی ہے۔۔ رسکی کام ہے یہ کبیر۔۔" اس نے نہایت اونچی آواز میں خود کی ہنسی روک کر کہا۔۔ "اول تو ایسا بندہ ہی نہیں ہے جو تمہارے ساتھ مل کر جہانزیب کی گواہی دے اور اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ مسکان تمہارا ساتھ دے گی؟ اگر اس نے سب جا کر اپنے باپ کو بتا دیا تو۔۔ بھولو مت تمہارے دھوکے کا جان کر وہ تمہیں جان سے بھی مار سکتی ہے بیٹی وہ جہانزیب کی ہی ہے سمجھے۔۔"اس نے کھڑے کھڑے کائونٹر پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے غصے میں کہا۔اسے واقعی کبیر کے اس احمقانہ فیصلے پر بلا کا غصہ آیا تھا۔ رہی بات عالیان کی تو وہ بس خاموشی سے دونوں کو دیکھے جا رہا تھا۔۔
“فلحال جہانزیب کے معاملے کو پرے رکھ کر ظفر کا کچھ سوچتے ہیں۔ تمہارے پاس کچھ دن ہیں اس کے بارے میں سب پتہ لگائو اور ہاں میرے پاس دماغ ہے اور اسے اچھے سے استعمال کرنے کا طریقہ بھی میں جانتا ہوں۔۔" تنبیہی انداز سے کہتے ہوئے وہ دوبارہ سیب کھانے میں مصروف ہو گیا۔ عالیان اور فرہاد دونوں نے گہرا سانس بھرا۔ ماحول میں ایک تلخی اور خاموشی سی گھل گئی تھی اور عالیان کو سخت چڑ ہو رہی تھی تبھی اس نے کچن میں پھیلی خوشبو پر غور کیا۔
“خوشبو بہت اچھی آرہی ہے تم کیا بنا رہے ہو؟" عالیان نے معصومانیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے پوچھا تو فرہاد نے اس کے سوال پر بتیسی کھول کر اسے دیکھا۔
“ماش کی دال۔ " وہ اسی طرح مسکراتے ہوئے بولا جبکہ عالیان کے چہرے سے مسکراہٹ چھن سے غائب ہوئی۔۔
“تم بلکل بھی مہمان نواز نہیں ہو۔ پہلی بار جب آیا تھا تب بھی پانی پر ٹرخا دیا تھا اور آج بھی دال بنا دی وہ ماش کی۔۔ حد ہے یار۔۔" وہ ناگواری سے سر جھٹکتے ہوئے بولا۔ کبیر سیب چباتے چباتے ہنسا تھا۔
“تو تمہیں ہی جلدی تھی اس دن ورنہ میں نے تو تکوں کو مصالحہ لگا کر رکھا تھا۔ ہم دونوں نے تو بہت انجوائے کیا تھا۔۔" فرہاد شانے اچکا کر چولھا بند کر گیا۔ اس کی ماش کی دال پک چکی تھی۔
“اسے دال سبزی بہت پسند ہے اور یہاں تو زیادہ یہی پکتا ہے تم بھی عادت ڈال لو۔۔" اب کی بار کبیر بولا تھا۔
“اللہ وہ دن مجھ پر نہ لائے جب مجھے دال سبزی کی عادت ڈالنی پڑے۔۔ ویسے بھی اللہ سلامت رکھے ردا کے ہاتھوں کو کمال کے کھانے پکاتی ہے۔ یہ ماش کی دال تم دونوں ہی کھائو۔ میں تو گیا۔۔" وہ فوراً سے سٹول دھکیلتے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ "اللہ حافظ۔۔ خیال رکھنا اپنا۔۔" مسکراتے ہوئے کہتے ہی وہ وہاں سے چلا گیا۔
“تم تو کھانا کھا کر جائو گے نا؟؟" اس کے جاتے ہی فرہاد نے کبیر سے پوچھا جس پر اس نے سر اثبات میں ہلایا پھر ایک نظر ہاتھ میں پکڑے سیب کو دیکھا جو وہ تقریباً کھا چکا تھا۔ اس نے اپنی ساری بھوک خراب کر دی تھی۔
“اٹھو پھر جائو باہر چچا سے کہو تندور سے روٹیاں پکڑ کر لے آئیں۔۔" کبیر نے تابعداری سے سر ہلایا اور اٹھ کر چلا گیا۔ فرہاد اس کی کبھی کبھی کی فرمانبرداری پر کافی حیران ہوتا تھا۔

●●●●●●●●●●●●

جاری ہے۔۔۔۔ 


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?