اگلے دن کا سورج نکلے اب کافی دیر ہو چکی تھی۔ گھر کے سب افراد اس وقت ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے۔ ناصر عالم، عالیان ،انابیہ اور ردا سب اپنا پنا ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔
"ردا تم کسی نتیجے پر پہنچی ہو یا نہیں ؟؟" ناصر صاحب کے مخاطب کرنے پر ردا نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔ آخر انہیں جلدی کس بات کی تھی؟؟ وہ ان سے پوچھنا چاہتی تھی لیکن بہت مشکل تھا۔۔
"میں اپنا جواب آپ سب کو بتا چکی ہوں۔۔" اس نے نظریں پھر سے پلیٹ کی طرف جھکا لیں ناصر صاحب نے رک کر اسے دیکھا۔
"کمال ہے۔۔ اب اتنا بھی کیا سوچنا۔۔ میں تمہیں گارنٹی دیتا ہوں میرا بیٹا تمہیں خوش رکھے گا۔۔" بس "میرا بیٹا" کہنے کی دیر تھی اور انڈے والی ڈبل روٹی ردا کے گلے میں بری طرح پھنسی تھی اور کھانس کھانس کر بیچاری کا برا حال ہو گیا تھا۔ انابیہ نے فوراً جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے تیزی سے گلاس لیا اور دو گھونٹ پانی بھر کر انابیہ کو دیکھنے لگی جو اسے ایسے لاچاری سے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو میرا کوئی قصور نہیں ہے۔۔ اس کی کھانسی مکمل طور پر رکی تو نہیں تھی اور مدھم آواز میں کھانستے ہوئے اب اس نے عالیان کو دیکھا جو نظریں پلیٹ پر جھکائے اپنے آملیٹ میں کانٹا چلا رہا تھا کبھی ادھر کبھی ادھر۔۔ وہ اس سے نظریں چرا رہا تھا۔۔ وہ سب جانتا تھا۔۔ انابیہ سب جانتی تھی۔ سب ملے ہوئے تھے۔۔ اس نے اتنا گہرا سانس لیا کہ آواز سب نے سنی تھی اور بنا کچھ کہے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ تایا ابو اور انابیہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جبکہ عالیان ہنوز نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔ وہ سب کو نظر انداز کرتی تیز تیز قدم لیتے ڈائیننگ روم سے نکل گئ۔
"اسے کیا ہوا؟؟" ناصر صاحب نے اس کے اس طرح جاتے ہی پوچھا۔
"وہ نہیں جانتی تھی کہ ہم اس کے اور عالیان کے رشتے کی بات کررہے ہیں۔۔" انابیہ نے بڑے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
"اسے کیوں نہیں بتایا تم لوگوں نے؟؟" اب کی بار وہ سختی سے بولے تھے۔۔ انابیہ خاموش رہی شاید اسے بھی اپنی غلطی کا احساس بری طرح سے ہو رہا تھا۔
"میں دیکھ کر آتا ہوں اسے۔۔" عالیان اپنی کرسی گھسیٹتے ہی اٹھ کر ڈائیننگ روم سے نکل گیا۔ اس نے پہلے کچن میں دیکھا تھا وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ سیدھا باہر کی طرف آیا۔ اس نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو وہ اسے ریلنگ پر کھڑی نظر آئی۔ اس کا رخ دوسری طرف تھا وہ عالیان کو نہیں دیکھ سکی عالیان دبے قدموں سیڑھیاں چڑھتے اوپر گیا۔
"تم ٹھیک ہو؟؟"
"ٹھیک؟؟" وہ تیورا کر اپنے پیچھے سے آتی ہوئی آواز کی طرف گھومی۔۔ " ٹھیک دکھائی دے رہی ہوں میں آپ کو؟" اس کی آنکھیں سرخ اور نم تھیں۔۔ وہ پھر عالیان کو سنائے گی اور عالیان کو سننا ہوگا۔
"آپ لوگوں نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔۔ آپ سب ملے ہوئے ہیں۔۔" وہ مزید اونچی آواز میں بھڑکی۔۔ " اور آپ۔۔ آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں ہاں۔۔ آپ کے اور میرے درمیان ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ اور ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے جس کی بنا پر آپ مجھے تنگ کریں یا میرا مذاق بنائیں ۔۔" وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھ کر تنک تنک کر بول رہی تھی۔
"پتہ نہیں کیا سوچ کر میں کل رات آپ سے ریکویسٹ کرنے چلی آئی۔۔ آپ سب جانتے تھے اور آپ میری حالت سے محظوظ ہو رہے تھے۔۔" اس کی آنکھوں سے آنسو ابل ابل کر اس کی ٹھوڑی سے ٹپکنے لگے تھے۔ عالیان کو اسے ایسے روتے ہوئے دیکھ کر واقعی تکلیف اور شرمندگی ہو رہی تھی۔
"آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں مجھ سے شادی؟؟" اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ رگڑ کر اس سے پوچھا۔۔ وہ سچ جاننا چاہتی تھی۔ وہ اس کے دل کی بات جاننا چاہتی تھی۔
"ڈیڈ کی خواہش ہے یہ۔۔" اس نے عام سے لہجے میں بلکل مختصر سا جواب دیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے ردا کے کندھے ڈھیلے پڑ گئے۔۔ کیا یہ شخص اظہار کرنا نہیں جانتا یا کرنا نہیں چاہتا یا ایسا کچھ تھا ہی نہیں اس کے دل میں؟؟
"خواہش ہاں۔۔" وہ روتے ہوئے طنزیہ ہنسی۔۔"اور عالیان ناصر عالم کب سے اپنے بڑوں کی خواہشات کا احترام کرنے لگا؟؟" اس کا انداز اٹل طنزیہ تھا۔۔ عالیان نے باری باری اس کی دونوں آنکھوں میں دیکھا۔
"آپ کی اور آپی کی شادی بھی سب کی خواہش تھی نا تب یہ احترام کیوں نہیں جاگا؟"
"انف ردا۔۔ تم انابیہ کا نام یوں مجھ سے نہیں جوڑ سکتی۔۔ مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا۔۔ میں بہت عزت کرتا ہوں اس کی۔۔ تم اب حد سے تجاوز کر رہی ہو۔۔" یہ پہلی بار تھا جب عالیان کو اس پر واقعی بہت غصہ آیا تھا اور اس بار اس نے غصہ دبانے کی کوشش بلکل نہیں کی تھی۔۔
"تو پھر ٹھیک ہے نہ بتائیں سچ۔۔ میں بھی انکار کرتی ہوں اس شادی سے۔۔" وہ دو ٹوک جواب دیتے ہی مڑ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔
"مجھے محبت ہے تم سے۔۔" وہ دو قدم ہی چلی تھی پھر اس کے قدم ایسے رکے جیسے کسی نے اسے زبردستی روک دیا ہو جیسے عالیان نے اسے روک دیا ہو۔۔ وہ بےساختہ ہی مسکرا اٹھی آخر اس شخص نے اپنے دل کی بات اس سے کر دی تھی۔
"تم سے شادی میری اپنی خواہش ہے۔۔ میں نے بابا سے کہا تھا۔۔ میں نے انابیہ کو منع کیا تھا۔۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ تمہیں اس محبت کی بھنک بھی پڑے۔ میں تم سے شادی تو کرنا چاہتا تھا لیکن اظہار محبت کیے بغیر۔۔۔" ردا کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی اور وہ اس کی طرف گھومی۔۔ وہ سابقہ حالت میں ہی کھڑا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔
"کیوں نہیں چاہتے تھے آپ کہ مجھے اس سب کا علم ہو؟؟"
"کیونکہ میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں لیکن اپنی محبت کی تذلیل مجھ سے قطعاً برداشت نہیں ہوگی ردا۔۔ میں جانتا ہوں تم مجھے پسند نہیں کرتی اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ اگر تمہیں میری محبت کا علم ہو جاتا تو تم اسی طرح میری پاک محبت کی دھجیاں اڑا دیتی۔۔" ردا دو قدم چل کر اس سامنے آئی۔ عالیان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا وہ بنا لفظوں کے جیسے اس سے شکوہ کررہی تھی۔۔ لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی۔۔
"تم نہیں جانتی میں نے اس محبت کے لیے کیا کیا قربانی دی ہے۔۔ اس محبت کی ہی طاقت نے مجھے اُس بےرحم دنیا سے نکلنے میں مدد دی ہے۔۔ اگر یہ محبت میری ذات سے نہ جڑتی تو میں کبھی یہاں نہ آسکتا میں شاید وہیں خوش رہتا ایما کے ساتھ لیکن نہیں مجھے اس محبت نے کہیں کسی کے ساتھ نہیں رہنے دیا۔ یہ مجھے یہاں واپس لائی ہے۔ اس لیے میں اپنی محبت کی توہین برداشت نہیں کر سکتا۔۔" اس کا انداز شکست خوردہ تھا۔۔ وہ پرانے اور کٹھن دن اسے پھر سے یاد آنے لگے تھے۔۔
"آپ مجھےاتنا بےرحم اور بدلحاظ سمجھتے ہیں؟؟" وہ کچھ بےیقینی سے اسے دیکھے گئ۔۔ "اگر آپ مجھے سب سچ بتا دیتے تو میں اتنی سختی کا مظاہرہ کبھی نہ کرتی۔۔ آپ نے میری ذات کی توہین کی ہے میرا مذاق اڑا کر۔۔ مجھے دوسروں کے جذبات کی قدر کرنے آتی ہے۔۔ مجھے دل رکھنے آتے ہے۔۔ اور سب سے بڑی بات مجھے محبت کی عزت کرنے آتی ہے۔۔ آپ مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔۔" وہ ایک ایک لفظ افسوس سے کہتی گئ۔ عالیان کو لگا وہ کچھ زیادہ ہی بول گیا ہے اور اب اسے خاصا شرمندگی کا سامنا ہو رہا تھا۔۔ وہ مزید کچھ کہے بنا مڑ کر پھر جانے لگی اور ایک بار پھر اس کی آواز پر رکی۔۔ اسے رکنا پڑتا تھا ۔۔
"تو اب تمہارا جواب کیا ہے؟؟"
"مجھے مزید وقت چاہیے۔۔" کہتے ساتھ وہ رکی نہیں اور سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔ عالیان مسکرایا تھا اس نے اگر ہاں نہیں کی تو اس نے نہ بھی نہیں کی۔
"جتنا وقت لینا ہے لے لو۔۔ مجھے وقت نے ایک کام خوب سکھایا ہے۔۔ انتظار کرنا۔۔ اور مجھے انتظار کرنے آتا ہے۔۔" وہ جا چکی تھی۔۔ وہ وہیں ریلنگ کا سہارا لیے کچھ دیر کھڑا رہا۔۔
وہ اپنے کمرے میں آتے ہی بند دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی روتی رہی پھوٹ پھوٹ کر آواز کے ساتھ۔۔ اسے اتنا رونا کیوں آرہا تھا آخر کیوں؟؟ کیا وہ اس کے اظہار پر خوشی سے رو رہی تھی؟؟ کیا وہ اس کی باتوں پر رو رہی تھی؟؟ کیا اسے خود پر رونا آرہا تھا کہ اس نے منہ پر انکار کیوں نہیں کیا ؟؟ مزید وقت کیوں مانگا؟؟ یا کیا وہ اپنی دل میں دبی محبت کے ہاتھوں رو رہی تھی؟؟ کیوں آخر کیوں؟؟ وہ روتے روتے اسی طرح فرش پر دروازے سے ٹیک لگائے بیٹھ گئ۔۔ وہ مر جائے گی لیکن کبھی اپنی محبت کا انکشاف عالیان پر نہیں ہونے دے گی۔۔
“محبت انسان کو فقیر بنا دیتی ہے تو اظہار کرکے خود کو مزید کیوں گرانا۔۔ وہ دل میں ہی دبی رہے تو بہتر ہے دب کر مر ہی جائے تو بہتر ہے۔۔" اس نے پھر سے اپنے آنسو بےدردی سے پونچھے۔
●●●●●●●●●●●●●
تقریباً رات کے دو بج رہے تھے اور ردا بیڈ پر بیٹھی ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ اس کی طرف کا لیمپ آن تھا جس کی زرد روشنی اسے پڑھنے میں مدد دے رہی تھی۔ اسے مکمل خاموشی میں پڑھنا اچھا لگتا تھا لیکن اسی دوران اسے اپنے ساتھ سوئے وجود کی تیز تیز سانس لینے کی آواز آئی۔ اس نے گردن تیزی سے گھما کر دیکھا۔ وہ انابیہ تھی جو آنکھیں بند کیے تیز تیز گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ ردا نے ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرے پر رکھا وہ پسینے میں نہائی ہوئی تھی۔ ایک دم ردا کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔
"آپی۔۔ آپی۔۔" اس نے اسے کندھے سے جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی۔ اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔
"یااللہ۔۔ آپی آنکھیں کھولیں۔۔" اس نے بلکل اس کے قریب ہو کر اسے پھر سے جگانے کی کوشش کی۔ اس کے سانسوں کی رفتار مزید تیز ہو گئی تھی۔ اب کی بار اس نے آنکھیں کھول دیں۔۔ ردا نے اسے اٹھنے میں مدد کی۔ اس نے ردا کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا۔ اس پر لرزا طاری ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ اور جسم کانپ رہے تھے۔
"پا۔۔ ن۔نی۔۔" اس کے ہونٹ بمشکل ہلے۔ ردا سمجھ گئ تھی اسے پانی چاہئیے۔ اس نے آرام سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور سائڈ ٹیبل پہ پڑے جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر اس کے منہ کے قریب لے گئ۔ اس نے ایک ایک گھونٹ کر کے پانی پیا تھا۔ ردا تیزی سے بیڈ سے اٹھی۔ اس نے کمرے کی ساری لائیٹس آن کر دی تھیں۔۔ بالکونی کا دروازہ بھی کھول دیا تھا لیکن اس کی حالت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی اسے سانس نہیں آرہا تھا۔ اب تو ردا کو گنتی بھی بھول گئ تھی کہ اسے کتنی بار پینک اٹیکس (( panic attacks آچکے تھے لیکن یہ دوسری دفعہ اتنا شدید تھا۔ وہ اس کے برابر بیٹھ کر اس کے ہاتھ ملنے لگی۔۔ انابیہ نے اپنا کپکپاتا ہوا ہاتھ سینے پر رکھا اسے سانس نہیں آرہا تھا۔۔ اس کے سینے میں تکلیف ہو رہی تھی اور پسینہ تھا جو پانی کی طرح بہے جا رہا تھا۔۔ اس نے ایک ہاتھ سے ردا کا ہاتھ سختی سے پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے بیڈ شیٹ کو جکڑ رکھا تھا۔
"آپی۔۔ آپ نے میڈیسن کیوں نہیں لی تھی؟" ردا نے سونے سے پہلے اسے دوائی لینے کو کہا تھا مگر اس نے نہیں لی اور بغیر دوائی کے ہی سو گئ تھی۔
کچھ ہی دیر میں سب کچھ اس کے سامنے دھندلانے لگا۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور اگلے ہی لمحے اندھیرا چھانے لگا۔ سب کچھ گول گول گھوم رہا تھا اور دیکھتے دیکھتے ہی وہ بیڈ پر پیچھے کی طرف ہو کر گر گئ۔۔
"آپی۔۔" ردا پورا زور لگا کر چیخی تھی۔۔ وہ آگے ہو کر پھر سے اسے جھنجھوڑنے لگی۔۔ انابیہ بیہوش ہوئی تھی اور ردا کی رنگت سفید پڑ گئ تھی۔ وہ برق رفتاری سے کمرے سے بھاگی اور سیدھا عالیان کے کمرے میں گئ۔ اس بار اس نے دروازے پر دستک نہیں دی کیونکہ وہ لاکڈ نہیں تھا۔ عالیان سیدھی طرف کروٹ لیے سو رہا تھا۔
"عالیان اٹھیں پلیز اٹھیں۔۔" وہ اس کے سر پر کھڑی اس کا بازو ہلانے لگی اتنے زور سے کہ عالیان ہڑبرا کر اٹھا۔
"کون ہے؟؟ " کمرے میں مکمل اندھیرا تھا اسی لیے اسے اپنا ساتھ کھڑا وجود پہچاننے میں مشکل ہو رہی تھی۔۔
"آپی۔۔ آپی بیہوش ہو۔گئ ہے۔۔۔" وہ مسلسل روتے ہوئے ہدھکیاں بھر بھر کے بول رہی تھی۔" جلدی کریں نا۔۔" اس نے اس کو بازو سے کھینچتے ہوئے چیخ کر کہا۔ عالیان کی نیند ایک سو پچاس کی سپیڈ سے بھاگی تھی۔ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا چابی اور موبائل اٹھایا اور ردا کا ہاتھ پکڑے کمرے سے نکل کر انابیہ کے پیچھے بھاگا۔۔
ہسپتال کی چمکتی ہوئی راہداری سنسان معلوم ہو رہی تھی۔ اتنی خاموشی میں وہ کرسی پر سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی۔ تبھی اسے اپنے قریب کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے تیزی سے سر اٹھا کر دیکھا وہاں عالیان کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی جو اس نے ردا کی طرف بڑھائی ہوئی تھی اور وہ اس بوتل کو اگنور کرتی کھڑی ہو گئ۔
"وہ کیسی ہیں؟؟ آپ کی ڈاکٹر سے بات ہوئی؟؟ بتائیں نا۔۔" وہ پرامید سی اسے دیکھتی گئ۔ عالیان نے ایک پل کے لیے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں میں جھانکا۔
" ان دونوں بہنوں کے پاس آنسوؤں کا خزانہ ہے۔۔" یہ بات وہ اس کے منہ پر نہیں بول سکتا تھا فلھال تو بلکل بھی نہیں۔۔ " اب یہ آنکھیں کتنے آنسو بہائیں گی؟؟" وہ گہرا سانس بھر کر بیٹھ گیا۔ ردا منتظر سی اسے دیکھے گئ۔
"وہ ٹھیک ہے لیکن ابھی ہوش میں نہیں ہے۔۔" اس سے پہلے ردا کا ضبط جواب دے جاتا اس نے جواب دینا ہی مناسب سمجھا تھا۔۔ "کب سے ہو رہا ہے یہ سب؟؟" اس نے پوچھتے ساتھ اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ ردا اپنے ہاتھوں سے اپنے بازو ملتے بیٹھ گئ۔ وہاں بہت ٹھنڈ تھی اتنی کہ شاید برداشت کرنا مشکل تھا کم از کم اس حال میں جب وہ صرف ایک قمیض شلوار اور دوپٹہ پہنے ہوئی تھی۔ ساتھ والا بھی انسان ہی تھا اسی مٹی سے بنا تھا جس سے ہر انسان بنایا گیا تھا اور وہ بھی ایک شرٹ اور ٹرائوزر میں تھا خیر ٹھنڈ اسے بھی لگ رہی تھی لیکن وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
"جب سے ماما بابا کی ڈیتھ ہوئی ہے۔۔ انہیں تقریباً ہر رات ہی ایسے پینک اٹیک آتے رہتے ہیں۔۔ دوائی لیتی تھی تو ٹھیک رہتی تھیں۔۔" وہ اب اپنے ہاتھوں کو آپس میں مل کر تھوڑی گرمائش حاصل کر رہی تھی۔۔
"تو تم نے کبھی مجھے کیوں نہیں بتایا؟؟" وہ عام سے انداز میں بولا تھا۔
"آپی نے منع کیا تھا۔۔ سوائے میرے اور منو کے اور کوئی نہیں جانتا تایا ابو بھی نہیں ۔۔"
"ردا وہ اتنی تکلیف میں تھی تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا میں اس کا علاج کرواتا۔۔" اب کی بار وہ نہایت خفگی سے بولا تھا۔
"آپ کو کیا لگتا ہے میں نے ان سے علاج کا کبھی نہیں کہا ہوگا۔۔" وہ الٹا اس پر خفہ ہونے لگی۔۔ "وہ نہیں مانتی تو کیا کروں۔۔ ایک دفعہ علاج کروایا تھا۔۔ وہ دوائیوں میں اتنا ناغہ کرتی ہیں۔۔"
"وہ خود سے اتنی بڑی جنگ لڑ رہی ہے اور مجھے دیکھو جسے کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔۔" اس نے بہت افسوس سے اپنے گھٹنے پر مارتے ہوئے کہا تھا۔۔ پھر ان دونوں کے درمیان مکمل خاموشی رہی کچھ ہی دیر بعد ایک نرس باہر آئی۔
"ان کو ہوش آگیا ہے اور وہ مسلسل روئے جا رہی ہیں۔۔ شاید آپ ردا ہیں وہ آپ کو بلا رہی ہیں۔۔" نرس نے اس کی حالت کی اطلاع دی تو ردا بھاگتے ہوئے روم میں گئ تھی جہاں تھوڑی دیر پہلے اسے شفٹ کیا گیا تھا۔۔ عالیان بھی اس کے پیچھے گیا تھا۔
"آپ خود کو اس تکلیف سے رہا کیوں نہیں کر دیتی آپی۔۔ آپ خود کو خود ہی ٹھیک کر سکتی ہیں۔۔" ردا اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں دبائے بلکل اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی لیکن اس کی آنکھیں مکمل سوجی ہوئی تھیں۔ چہرے کی رنگت پیلی پڑ رہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں اب بھی ڈرپ لگی ہوئی تھی۔۔ عالیان صوفے پر بیٹھا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔
"تو دعا کرو مجھے موت آجائے۔۔" وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی۔
"انف از انف انابیہ۔۔ کوئی کوئی وقت قبولیت کا ہوتا ہے یار۔۔" اس کی مایوس کن بات سن کر عالیان غصے سے بول کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ پڑی ایک کرسی کھینچ کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔
"مجھے بتائو آخر کیا بات ہے کس بات نے تمہیں اتنا کمزور بنا دیا ہے۔۔" وہ اب کی بار نرمی اور فکرمندی سے بولا تھا۔۔
"میں مضبوط ہی کب تھی۔۔ میں ہمیشہ سے ڈرپوک اور کمزور لڑکی رہی ہوں۔۔ میں کبھی کچھ کر ہی نہیں سکتی۔۔ پتہ نہیں میں مر کیوں نہیں جاتی آخر۔۔ مجھے اس سب سے رہائی چاہیئے عالیان۔۔ مجھے ماما جان کے پاس جانا ہے۔۔ میں بزدل بن کر نہیں رہنا چاہتی اس دنیا میں۔۔ مجھے سکون چاہیئے۔۔ مجھے ماما جان کا حصار چاہیئے۔۔ میں ان کے پاس جا کر بہت رونا چاہتی ہوں بہت زیادہ۔۔۔" وہ اب کی بار پھر سے رونے لگی تھی۔ عالیان بے طرح سے حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا اسے کم از کم انابیہ سے ایسی باتوں کی توقع بلکل بھی نہیں تھی اور اس کی اس بڑھتی مایوسی کو دیکھ کر وہ تو جیسے افسوس ہی کر سکتا تھا۔
"یہ تم بول رہی ہو انابیہ تم؟" وہ جیسے بےیقین سا اسے دیکھتا رہا۔۔" تم وہ لڑکی ہو جس نے خالہ اور چچا جان کے جانے کے بعد اپنی بہنوں کو سنبھالا۔۔ تم وہ لڑکی ہو جس نے میرے معزور باپ کو اتنے سال سنبھالا۔۔ تم وہ لڑکی جس نے این۔جے کو اتنا اوپر پہنچا دیا کہ اس کا کوئی مقابل نہیں ہے۔۔ تم وہ لڑکی ہو جو سب کی ڈھال بنی رہی ہو۔۔ تم اپنے گھر کا مرد بنی رہی ہو۔۔تم خود کو کمزور کہہ رہی ہو؟؟ " وہ تھوڑا رکا۔۔ انابیہ نے اپنے چہرے پر گرتی لٹوں کو روتے ہوئے کان کے پیچھے اڑس کر ایک با پھر اسے دیکھا۔
"میری غیر موجودگی میں تم نے وہ سب کیا جو میں کبھی نہ کر سکتا۔۔ مجھ میں تو کیا کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے جتنی تم میں ہے۔۔ اگر کسی کو مرنا چاہیے تھا تو وہ میں تھا جو کبھی تم لوگوں کی ڈھال نہیں بن سکا کبھی تم لوگوں کے کام نہیں آسکا۔۔ غلط کاموں میں ملوث ہو کر میں نے خود کو تم لوگوں سے دور کر دیا جس کی سزا اللہ نے مجھے دی ہے۔۔ اگر میں مایوس نہیں ہوا تو تمہیں کس بات نے اتنا مایوس کر دیا کہ تم موت کی دعا کرتی ہو؟؟" وہ اسے بہت نرمی سے ڈانٹ رہا تھا اور وہ نم آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔۔
"میں ایک لڑکی ہوں اور مجھے ہمیشہ اپنے لڑکی ہونے پر افسوس رہا ہے۔۔ تم تو نہیں تھے خود مصیبت میں تھے میں تو تھی نا یہاں اور یہ بھی جانتی تھی کہ میرے ماں باپ اور تائی جان کا قتل ہوا ہے۔۔ میں نے کیا کیا؟؟ ہاں کیا کیا میں نے۔۔ میں انہیں انصاف نہیں دلا سکی۔۔ میں کچھ نہیں کر سکی۔۔ بس ہر رات یہ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹنے پر آجاتا ہے۔۔ میں مریض بن گئ ہوں اور اس کا علاج کہیں نہیں ہے۔۔ میں کوئی رات سلیپنگ پلیز کے بغیر سو نہیں سکتی۔۔ ہر دو یا تین راتوں کے بعد مجھے پینک اٹیک آتے ہیں ۔۔ تم بتائو مجھے زندہ رہنے کا حق ہے؟؟ وہ وقت دور نہیں ہے جب میں پاگل کہلائی جائوں گی۔۔ میں ایک ہاری ہوئی لڑکی ہوں عالیان مان لو۔۔۔" اب کی بار وہ اونچی اور درد بھری آواز میں بولتی جا رہی تھی۔ ردا اپنی بہن کی حالت دیکھ کر ایک بار پھر سے آبدیدہ ہو گئ۔
"میں سب ٹھیک کر دوں گا۔۔ میں تم دونوں سے وعدہ کرتا ہوں انابیہ مجھے جب موقع ملے گا۔۔ میں جہانزیب کو تمہارے قدموں میں لا کر پھینک دوں گا۔۔ مجھے تم دونوں کے ساتھ کی ضرورت ہے۔۔ ایسا ہی رہا تو مجھے ہمت کون دے گا۔۔ پلیز۔۔" اس نے آگے ہو کر اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔ " ڈپریشن کی دنیا سے نکل آئو انابیہ۔۔ اس وقت ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کی بہت ضرورت ہے۔ ایسے ہی ہار مانتی رہو گی تو کیسے چلے گا۔۔"
"مجھے اس سے بدلہ لینا ہے۔۔" وہ رندھی ہوئی آواز میں جیسے کسی بچے کی طرح ضد کرتے ہوئے بولی تھی۔
"ہم لیں گے۔۔ لیکن ابھی نہیں۔۔ ہمیں اس وقت صبر سے کام لینا ہے۔۔ میں جزبات میں آکر تم لوگوں کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔۔ تم آج سے سونے کی دوائیاں نہیں لو گی۔۔ تم بغیر سوچوں کے بغیر ڈپریشن کے بغیر دوائیوں کے سو گی۔۔ سمجھی تم۔۔" عالیان اسے سمجھا رہا تھا اور وہ اس کی ہر بات پر سر ہلاتی رہی۔۔
"اس کی ساری دوائیاں مجھے اپنے کمرے میں چاہیے۔۔" اس نے تحکمانہ انداز سے ردا کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"مگر ۔۔"
"اگر مگر کچھ نہیں۔۔ اسے خود کو مضبوط بنانا ہوگا اور جو لوگ دوائیوں پر زندہ رہتے ہیں وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ وقت خود کو مضبوط بنانے کا ہے۔۔ اپنی کمزوریوں سے تمہیں خود لڑنا ہوگا اور اس کے لیے کوئی ڈاکٹر کوئی حکیم تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔۔" انابیہ نے مسکراتے ہوئے اس کی بات پر سر ہلایا۔ اسے یہی تو چاہیئے تھا کوئی ایسا شخص جو اسے موٹیویٹ کرے اسے ہمت دے۔ انسان کو دوائیوں سے زیادہ مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے اور عالیان جیسے ایک دوست کی بھی۔
●●●●●●●●●●●●●●
اگلی صبح وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ گئ۔ اس نے گردن موڑ کر اپنی دوسری طرف دیکھا۔ ردا وہاں نہیں تھی۔ پھر اس نے سامنے گھڑی میں وقت دیکھا۔ ابھی بس نو ہی بجے تھے یعنی سب ناشتے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔ وہ لوگ تقریباً فجر کے قریب گھر واپس آئے تھے اور ردا نے ہی اس سے کہا تھا کہ صبح جلدی اٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ آرام کرتی رہے لیکن انابیہ بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی تھی۔ وہ فوراً بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور اگلے ہی لمحے اس کا سر چکرایا اور وہ پھر سے بیٹھ گئ۔ اس نے بیٹھے بیٹھے تین چار گہرے سانس لیے اور کمرے میں موجود کچھ چیزوں پر فوکس کرنے کی کوشش کی۔ اس کی نظریں سامنے پڑے ایکویریم میں تیرتی مچھلیوں پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ کہتے ہیں مچھلیوں کو دیکھنے سے اعصاب کو سکون ملتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر اٹھ کھڑی ہوئی اب وہ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ اٹھتے ساتھ اس نے اپنے کھلے بالوں کو ایک جوڑے کی شکل میں باندھا اور واشروم کی طرف چل دی۔ تھوڑی دیر بعد وہ نکلی اور قدآوار آئینے کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ کپڑے بھی وہ تبدیل کر چکی تھی۔ مسٹرڈ کلر کی سادی سی قمیض شلوار پہنے اور ہم رنگ دوپٹے کو بس سرسری سا حجاب کی طرز میں سر پر لپیٹے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ سیڑھیوں کی شروعات میں ہی اس نے نیچے کھڑے ایک شخص کو دیکھا جو اس کی طرف پشت کیے کھڑا کھلے بیرونی دروازے کے پار جھانک رہا تھا۔ ایک پل کے لیے اس کے قدم رکے۔ پھر آہستہ آہستہ وہ بےیقینی کی حالت میں سیڑھیاں اترتی گئ۔
اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتے ہی کبیر نے گردن گھما کر دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور اگلے ہی لمحے وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔ کیا اس پر رات والی میڈیسن کا اثر تھا یا وہ ہوش میں نہیں تھی یا جو سامنے کھڑا تھا وہ اس کا وہم تھا یا پرچھائی جسے وہ ہاتھ لگائے گی اور وہ غائب ہو جائے گا۔
"اب تمہاری طبیعت کیسی ہے؟؟" کیا کوئی تھا جو اسے ایک چٹکی کاٹتا۔۔ اسے جھنجھوڑ کر نیند سے جگاتا۔۔ اسے بتاتا کہ انابیہ تم خواب دیکھ رہی ہو اب جاگ جائو۔۔۔ وہ بس ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے گئ۔ کبیر نے ہاتھ اٹھا کر ہوا میں ایک چٹکی بجائی اور وہ جھرجھری لے کر حال میں آئی۔۔
"کیا ہوا؟؟ طبیعت کیسی ہے اب؟؟" اسے بتائو کہ اس کا صرف یہاں آجانا ہی کافی تھا۔ حال احوال پوچھ کر سامنے کھڑی لڑکی کو ہارٹ اٹیک دینا ضروری ہے کیا؟؟
"ٹھیک نہیں بھی تھی تو اب بلکل ٹھیک ہوں۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"اب۔۔ اب ایسا کیا ہوا؟" اس کے انداز میں شرارت تھی نہیں بھی تھی تو انابیہ کو ضرور محسوس ہوئی تھی۔۔
"تم اچھے سے جانتے ہو۔۔"
"نہیں میں نہیں جانتا۔۔" وہ مکر گیا اور وہ ہنس دی۔
"تمہیں کس نے بتایا میری طبیعت کا؟" اس نے فوراً سے پوچھا تھا۔
"میں نے۔۔" جواب کہیں اور سے آیا تھا۔ دونوں نے بیک وقت گردن گھما کر دیکھا جہاں عالیان لونگ روم کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے سینے پر بازو لپیٹے کھڑا انہیں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
"بھئ میں نے سوچا کل رات ہم نے اتنی پریشانی سے گزاری ہے تو جس کا تمہارے لیے سب سے زیادہ حق ہے پریشان ہونے کا اسے کیسے بخشا جائے۔۔" وہ ان دونوں کو چھیڑنے کی مکمل تیاری کر کے آیا تھا۔۔ "اور دیکھو کیسے دوڑا دوڑا چلا آیا۔۔ " کبیرنے بڑی تنبیہی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ وہ قدم اٹھاتا ان کے ساتھ سے ہو کر کچن کی طرف چلا گیا۔
"یہ پاگل ہے۔۔" انابیہ نے اس کے جاتے ہی کہا تھا۔۔
"واقعی۔۔" کبیر نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔ "خیر تم آج کے دن آرام کرو آفس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اور ڈیڈ سنبھال لیں گے۔۔"
"مت کرو اتنی پرواہ کل کو وہی اکھڑ مزاج کبیر بن گئے تو ۔۔" وہ جیسے منت کرتے ہوئے بولی۔۔
"میں اب بھی وہی اکھڑ مزاج کبیر ہی ہوں۔۔ زیادہ مت سوچو انسانیت اور بزنس پارٹنر کی حیثیت سے پوچھنا میرا فرض تھا۔۔" اب کی بار اس کا انداز ویسا ہی تھا جیسا روزانہ ہوتا تھا۔۔ انابیہ کی آنکھیں اب پوری کھل گئ تھیں اور وہ نیند سے جاگ گئ تھی۔۔ خواب ٹوٹ گیا اور حقیقت سامنے تھی۔
●●●●●●●●●●●●●●
پورا کچن اس وقت پراٹھوں کی مہک سے جی اٹھا تھا اور یہی خوشبو عالیان کو یہاں تک کھینچ لائی تھی۔ اندر آتے ہی اس نے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو اس کی طرف پشت کیے بڑے مزے سے پراٹھے بنانے میں مصروف تھی۔ وہ قدم اٹھاتا بلکل اس کے ساتھ جا کھڑا ہوا اور سیدھا ہاتھ بڑھا کر اسے نے پراٹھا توڑنے کی کوشش کی تبھی ردا نے گرم گرم چمٹا اس کے ہاتھ پر مارا تھا۔
"آئوچ یار۔۔ کتنی بدتمیز ہو تم۔۔" چمٹے کی تپش ہاتھ پر پڑتے ہی اس نے برق رفتاری سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا۔
"تو آپ کو کس نے کہا بدتمیز کے پراٹھے کو ہاتھ لگائیں؟" وہ کاٹ کھانے والے انداز میں بولی تھی۔
"چیک کر رہا تھا کہ کیسا بنایا ہے تم تو بجائے پراٹھے کے مجھے ہی کھانے لگی ہو۔۔" ردا نے ہونہہ کرنے کے انداز میں اسے دیکھا اور دوبارہ بیلن کی طرف متوجہ ہو گئ۔۔ عالیان وہیں کھڑا اسے روٹی بیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بڑے سلیقے سے سلیوز پیچھے کی طرف فولڈ کر رکھے تھے اور بیلن پر اپنی مضبوط گرفت رکھتے ہوئے اس نے ہمیشہ کی طرح بہت ہی گول روٹی بیلی تھی۔
"اب کیوں کھڑے ہیں میرے سر پر جائیں یہاں سے مجھے کام کرنے دے۔۔" وہ خاصا تپ کر بولی تھی۔
"میں۔۔ میں پراٹھے بنانا سیکھ رہا ہوں۔۔" کوئی بات نہیں بنی تو اس نے یہی بول دیا۔ ردا نے نظریں اٹھا کر عجیب طرح سے اسے دیکھا اور سر جھٹک کر روٹی توے پر ڈالنے لگی۔۔
“ پھر اپنی بیوی کے لیے بنایا کروں گا۔۔" وہ بڑے مزے سے بولا تھا۔۔ جس کے جواب میں اسے ردا کا زوردار قہقہہ سنائی دیا تھا۔
"آپ کے ہاتھ کے سڑھے ہوئے پراٹھے دیکھنے سے پہلے آپ کی بیوی اندھی ہو جائے تو بہتر ہے۔۔" اس نے ہنستے ہنستے کہا تھا۔
"کیوں خود کو بددعائیں دے رہی ہو لڑکی۔۔ کل بھی کہا تھا کوئی کوئی وقت قبولیت کا ہوتا ہے۔۔" اس کی ہنسی جھٹ سے غائب ہوئی تھی لیکن نظریں اٹھا کر اس نے عالیان کو دیکھنے کی ہمت نہیں کی تھی اور اس کی یہ خاموشی عالیان کو بہت پیاری لگی تھی۔ مشرقی لڑکیاں جب شرماتی ہیں تو بس خاموش ہوجاتی ہیں۔ وہ مدھم سا مسکرا کر وہاں سے چلا گیا وہ اس کا زیادہ امتحان نہیں لینا چاہتا تھا۔
●●●●●●●●●●●●●●
جہازی سائز بیڈ پر ایک بڑا سا لکڑی کا صندوق منہ کھلا پڑا ہوا تھا جس کے سامنے بیٹھا سفید داڑھی اور سفید بالوں والا عمر رسیدہ شخص اس میں جھانک جھانک کر چیزیں نکال رہا تھا۔۔ گاڑیاں، لکڑی کے بنے گھوڑے، جہاز۔۔ ایک ایک کرکے وہ ہر چیز نکال کر اسے بھیگی آنکھوں سے دیکھتا اور بیڈ پر رکھتا جاتا۔ وہ اس کے بچوں کے بچپن کے کھلونے تھے جو وہ خود ان کے لیے لایا کرتا تھا اور وہ خوشی سے پاگل ہو جایا کرتے تھے لیکن پھر وقت نے اس کے دونوں بیٹوں کو اس سے دور کر دیا اتنا کہ چاہ کر بھی اس شخص نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ بس تھوڑی دیر کے لیے یہ صندوق نکال کر ان کی تصویریں اور کھلونوں کو دیکھ دیکھ کر بہت روتا تھا باپ جو ٹھہرا۔۔ عالم خان کو اب بھی اپنے انھی دونوں بیٹوں پر غصہ تھا نہ وہ جہانزیب کے ویری بنتے نہ یہ سب ہوتا۔۔ ان کی نظر میں جہانزیب کا رتبہ اور عزت اور بھی بڑھ گئ تھی۔ اس نے اکیلے ہی سب کچھ سنبھالا ہوا تھا۔ وہ اپنے باپ کا اس عمر میں بھی بہت خیال رکھتا تھا۔۔ وہ ہمیشہ احمد اور ناصر کی خالی جگہ کو پر کرنے کی کوشش کرتا تھا اور کبھی کبھار تو ان کو یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ ان کے دو بیٹے اور بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ وہ خوش تھے اور آگے بھی رہتے اگر سچائی پر سے پردہ نہ ہٹتا۔۔
دفعتاً ان کے دروازے پر دستک ہوئی۔۔ وہ تیزی سے ساری چیزیں اٹھا اٹھا کر واپس صندوق میں ڈالنے لگے۔۔ دستک دوبارہ ہوئی۔۔ اب کی بار انہوں نے صندوق کا منہ بند کیا اور دروازے کے اس پار کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔۔ دروازہ کھلتے ہی ان کی نظروں نے وہاں شالا کو کھڑا دیکھا جو مسکراتے ہوئے اب اندر آنے کی اجازت طلب کررہا تھا۔۔
"آجائو شالا۔۔ بڑا وقت گزر گیا تمہاری شکل دیکھے ہوئے۔۔ کتنے کمزور ہو گئے ہو تم۔۔" وہ بلکل بھی ویسا رعبدار چہرے اور چوڑی جسامت کا مالک نہیں رہا تھا جیسے وہ پہلے ہوا کرتا تھا۔۔اس سب کے برعکس اب وہ نہایت کمزور جسم کا مالک تھا۔۔ چہرا اترا ہوا، رنگت بھی پھیکی تھی اور آنکھوں کے گرد حلقے بہت سیاہ تھے۔۔
"بس سائیں گائوں سے آج ہی واپس آیا تو سوچا آپ سے مل لوں۔۔" اس نے بہت ہی عام سے لہجے میں کہا۔ عالم خان بیڈ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
"آواز بھی بہت کمزور لگ رہی ہے۔۔ خیر اچھا کیا آگئے۔۔ آئو یہاں بیٹھو۔۔" وہ چلتے چلتے صوفے پر جا بیٹھے اور وہیں کچھ دور کھڑے شالا کو بھی بیٹھنے کو کہا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ان کے سامنے جا بیٹھا۔۔
"گائوں میں تو سب ٹھیک ہے نا؟؟" انہیں کچھ تو شک تھا اور ایسا شالا کا اترا ہوا چہرہ بتا رہا تھا۔
"سب ٹھیک ہے سائیں۔۔" وہ مختصراً بول کر تھوڑا رکا۔۔"مجھے کینسر ہے سائیں۔۔" عالم خان کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔۔ تو اس کی کمزوری کی وجہ اس کی بیماری تھی۔
"سن کر بہت افسوس ہوا۔۔ اللہ تمہیں اس بیماری سے نجات دے۔۔" وہ دعا دے کر تھوڑا ٹھہرے۔ "جہانزیب نے تو مجھے ایسا کچھ نہیں بتایا۔۔ میں نے پوچھا بھی تھا اس سے تو جواب میں اس نے کہا تم گائوں جانا چاہتے تھے۔۔ بعد میں بھی کوئی زکر نہیں کیا اس نے۔" ان کی اس بات پہ وہ تلخی سے مسکرایا۔
"سائیں یہ تو ہماری فطرت میں شامل ہے کہ جب کسی شخص سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہتا تو دن بھر اس کا ذکر کرنا ہمیں اپنے وقت کا ضیاع لگتا ہے۔۔" ماحول میں ایک تلخی سی گھل گئ تھی۔ شالا کی باتیں تو جیسے ان کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔ وہ ایسی باتیں کیوں کرہا تھا خود سے اندازہ لگانا ان کے لیے مشکل تھا۔
"جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ایسی سوچیں ہمارے گرد گردش کرنے لگتی ہیں۔۔ زیادہ مت سوچا کرو شالا تم جلد صحت یاب ہو جائو گے۔۔"
"جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہی لوگوں کے اصل چہرے ہم پر واضح ہوتے ہیں سائیں۔۔۔" اس نے کہتے ہوئے ایک نظر اٹھا کر عالم خان کی آنکھوں میں دیکھا وہ ناسمجھی سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔
"ہر رات میں تکلیف سے گزرتا ہوں اور یہی لگتا ہے کہ آج رات میری آخری رات ہے۔۔ ہر دن مجھے لگتا ہے آج کا دن میرا اس دنیا میں آخری ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔۔ مجھے موت نہیں آرہی سائیں لگتا ہے مجھ جیسے گناہگار شخص سے موت بھی بیزار آچکی ہے۔۔" اس کی آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا تھا۔ اتنا تو عالم خان پر واضح ہو ہی گیا تھا وہ صرف اپنی سنانے نہیں آیا تھا وہ ضرور ان سے کچھ ضروری کہنے آیا تھا۔۔ شالا ان ملازموں میں سے نہیں تھا جو مالک کو اپنے دکھڑے سنانے آتے ہیں۔
"سائیں میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔۔" بلآخر وہ مدعے پر آرہا تھا۔
"پوچھو۔۔"
"آپ نے کبھی احمد اور ناصر سائیں کو ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟؟" اس کے سوال پر عالم خان نے گہرا سانس بھرا۔
"میں کیسے ڈھونڈتا انہیں۔۔۔ انہوں نے میرا دل دکھایا ہے اگر انہیں احساس ہوتا تو لوٹ آتے۔۔ وہ ضرور اپنی زندگیوں میں خوش ہوں گے۔ باپ کو کس نے یاد رکھنا ہے۔۔" ان کے لہجے میں سخت شکایت تھی۔ وہ کس قدر بدگمان کر دیے گئے تھے۔
"خوشی ان کا حق تھی ۔وہ خوش رہتے سائیں بہت خوش رہتے اگر ہم نے انہیں خوش رہنے دیا ہوتا۔۔" اس نے نہایت افسوس سے کہا تو عالم خان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ "ہم نے تو انہیں تباہ کر دیا سائیں۔۔ ہم نے تو ان کی ساری خوشیاں ان سے چھین کر انہیں خالی ہاتھ چھوڑ دیا۔۔" اس کے آنسوؤں کی رفتار تیز ہوتی گئ۔۔ یہ اس کے ندامت کے آنسو تھے۔ عالم خان کے کان جیسے سائیں سائیں ہونے لگے۔
"آپ اپنے آنگن میں سالوں ایک آستین کا سانپ پالتے رہے سائیں جو پیار پیار میں آپ کو ڈستا چلا گیا اور آپ کو پتہ تک نہیں چلا لیکن اب آپ کو اس زہر کا احساس ہوگا جو وہ آپ کے وجود میں بھرتا چلا گیا اب آپ پر اس زہر کا اثر ہوگا سائیں اور آپ سے برداشت نہیں ہوگا۔۔"
"کس کی بات کررہے ہو؟؟" ان کی آواز میں واضح کپکپاہٹ دی۔
"آپ کا بیٹا جہانزیب۔۔ جسے کبھی آپ سے محبت نہیں تھی۔۔ اسے صرف اس محل سے محبت تھی اس بادشاہت سے محبت تھی گدی سے محبت تھی۔۔ جس کے لیے اس نے سب پہلے ابرار سائیں (عالم خان کا چھوٹا بھائی) کو راستے سے ہٹایا تھا۔۔" اور یہ وہ وقت تھا جب عالم خان کو اپنے ہی کمرے میں اکتاہٹ ہونے لگی۔۔ ہر طرف سے گھٹن نے انہیں آگھیرا۔۔ اپنے کرتے کے اوپری بٹن کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے کھول کر انہوں نے سانس لینے کی کوشش کی۔
"مجھے۔۔ مجھے میرے بیٹوں سے ملنا ۔۔ ہے شالا۔۔"
"کون سے بیٹے سائیں؟ کون سے بیٹے؟؟ احمد؟؟ وہ تو مارا گیا ۔۔" یہ ایک ایسا جملہ تھا جس نے ان کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔۔ "اور ناصر۔۔ وہ تو زندہ ہو کر بھی مردہ ہے۔۔" وقت رک گیا۔۔ سانس رک گیا۔۔ اور عالم خان کو لگا وہ زندہ زمین میں گاڑھ دیا گیا ہے۔
"میں تھا اس دن ٹرک میں۔۔ میرے ان ناپاک ہاتھوں میں تھا اس ٹرک کا اسٹئیرنگ۔۔" اس نے ہوا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر انہیں افسوس اور ملامت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ " میں نے موڑا تھا ٹرک ان کی جانب اور پھر۔۔" وہ بولتے بولتے رک گیا۔۔" پھر ان کی گاڑی سیدھا آکر اس ٹرک میں گھپتی چلی گئ۔۔" عالم خان نے آنکھیں پوری کھول کے گہرا سانس لیا اور کرب سے آنکھیں بند کر گئے۔۔ وہ منظر جو انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا وہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔
"میں نے سنی تھی انکی چیخیں سائیں۔۔۔" وہ پھٹ پڑا۔۔" وہ ہار گئے سائیں اور آپ کا بیٹا جہانزیب جیت گیا۔۔" وہ روتا چلا گیا۔۔ اور وہ خاموشی سے بیٹھے رہے۔۔ اگر یہ سب کچھ ان سے کوئی اور کہتا تو وہ کبھی یقین نہ کرتے لیکن سامنے بیٹھا شخص جہانزیب کا سب سے قریبی تھا اور مرنے والا تھا۔۔ مرنے والے جھوٹ نہیں بولتے۔۔ انہیں یقین کرنا پڑ گیا۔
"مجھے سزا دیں۔۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے مار دیں سائیں۔۔ میرے لیے جہنم کی آگ تیار کر دی گئ ہے۔۔ " وہ رو رو کر ان سے ہاتھ باندھے التجا کر رہا تھا مگر وہ تو کچھ بولنے کے قابل رہے ہی نہیں تھے۔ سب سے زیادہ گنہگار تو وہ خود کو سمجھ رہے تھے۔۔ وہ تھے بھی۔۔
"میرے جیسا شخص کسی کو کیا سزا دے گا شالا تمہیں قدرت نے سزا دے دی ہے۔۔ اب مجھے اپنی اور جہانزیب کی سزا کا انتظار ہے۔۔" کچھ دیر بعد کمرے میں خاموشی چھا گئ۔۔ سچائی تو کھل گئ تھی۔۔ سارا منظر جو کب سے دھندھلایا ہوا تھا اب واضح ہو گیا تھا۔۔اب کیا رہ گیا تھا بولنے کو ؟ اب کیا رہ گیا تھا کرنے کو؟
تو کرو دل کھول کر ماتم۔۔
کرو دل کھول کر پچھتاوا۔۔
●●●●●●●●●●●●●
جابر حسن نے گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روکی۔ یہ اس کا وہ گھر تھا جس میں وہ کبھی کبھار جولیٹ کے ساتھ آتا تھا۔ جولیٹ اس کی گرل فرینڈ تھی۔ ورنہ زیادہ تر وہ اپنے دوسرے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ آج کی رات بھی اس نے اپنے دوسرے گھر میں ہی گزارنی تھی لیکن اس کا کچھ ضروری سامان یہاں اس گھر میں تھا جو اسے چاہیئے تھا اسی لیے چلا آیا۔ ابھی اس نے جیب سے چابی نکال کر دروازے کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ دروازہ لاک نہیں تھا بلکہ ہلکا سا کھلا بھی تھا۔ بجائے اندر جانے کے وہ وہیں ششد کھڑا رہا پھر تیزی سے جیب سے موبائل نکال کر ایک کال ملانے لگا۔۔ کال فوراً اٹھا لی گئ تھی۔
"جولیٹ تم گھر آئی تھی؟؟" اس نے فوراً سے پوچھا۔
"ہاں آئی تھی تم نہیں تھے اس لیے رکی نہیں۔۔" وہ چونگم چباتے ہوئے ڈرائیو کررہی تھی۔
"میں نے منع کیا تھا میری غیر موجودگی میں یہاں مت آنا۔۔" وہ تیزی سے بھڑک اٹھا۔۔
"کیا ہوگیا ہے یار۔۔ میرے ڈائمنڈ کے ائیر رنگز روم میں رہ گئے تھے۔۔ تم جانتے ہو وہ بہت قیمتی ہیں۔۔"
"بکواس بند کرو۔۔ تم نے دروازہ لاک نہیں کیا۔۔ ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ تم صبح کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔۔" وہ جتنا غصے سے بول سکتا تھا بول رہا تھا۔
"اوو۔۔ ایم سوری۔۔ میں۔۔"
" شٹ اپ۔۔ تم اچھے سے جانتی ہو یہاں تمہاری وجہ سے کوئی گارڈ بھی نہیں ہے۔۔ کتنی غیرذمہ دار ہو تم۔۔کل صبح چابی مجھے میرے ہاتھ میں چاہیے۔۔ غلطی کردی میں نے تمہیں چابی دے کر۔۔" اس نے درشتی سے کہتے ہی فون کاٹ دیا۔ پینٹ کی پچھلی جیب سے اس نے ریوالور نکال کر اسے لوڈ کیا اور اندر جانے لگا وہ کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔ دروازہ کھلتے ہی سامنے راہداری تھی۔۔ وہ دبے دبے قدم اندر جا رہا تھا۔ راہداری کے اختتام پر لائونج تھا جوو بلکل نارمل ہی لگ رہا تھا۔ دائیں ہاتھ پر اس کا کمرہ تھا اس نے جھٹ سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ وہاں بھی کچھ مشکوک نہیں تھا۔ گہرا سانس بھر کے اس نے ریوالور اور فون ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرنے لگا۔ اس کی نظر پھر سے اپنے فون پر رکی۔ اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ تھی۔ شیطان کے دماغ میں کچھ چل رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا اور ایک اور کال ملانے لگا۔ اب وہ کافی پرسکون لگ رہا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں ہینگنگ چئیر پر بیٹھی لیپ ٹاپ پر کچھ ضروری کام کررہی تھی تبھی اس کے پاس پڑا اس کا فون بجنے لگا۔ فون اٹھا کر اس نے دیکھا پھر سے ایک ان نون نمبر سے کال آرہی تھی۔ پہلے تو اس کا دل کیا کال اٹھائے ہی نہ لیکن پھر کچھ سوچتے سمجھتے اس نے کال اٹھا لی۔۔
"کیسی ہو انابیہ میڈم۔۔ بڑے دنوں سے تمہارا حال نہیں پوچھا سوچا ایک کال تو بنتی ہے۔۔" وہی آواز انابیہ کے کانوں سے ٹکرائی تو اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
"ایک دفعہ مجھے بتا دو آخر تم کیا چاہتے ہو؟؟" اس نے لب بھینچتے ہوئے پوچھا تو اسے زوردار قہقہہ سنائی دیا۔۔
"مجھے جو چاہیئے وہ تو جب مل جائے گا تو بتائوں گا۔۔ پہلے تم بتائو یہ کون ہے جو تمہارے لیے ہم سے لڑ رہا ہے؟" اس کے اس سوال پر وہ طنزیہ ہنس دی۔
"اسے جان گئے تو سب بھول جائو گے۔۔"
"ویل۔۔ تم مجھے ابھی جانتی نہیں ہو۔۔ اچھا ہے اب ذرا لڑنے میں مزہ آئے گا۔۔ ایک دفعہ وہ میرے سامنے آئے اسے مار کر اس کی لاش تمہارے گھر کے سامنے پھینک کر جائوں گا۔۔" وہ چیلنجنگ انداز میں کہتے ہی فون کاٹ گیا۔ انابیہ کے چہرے کا رنگ ایک دم سے بدلا تھا۔ اس نے فوراً سے فرہاد کا نمبر ملایا تھا لیکن اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔ اسے اس کی فکر تھی۔۔
وہ اب جھک کر درازوں میں اپنی مطلوبہ چیزیں ڈھونڈ رہا تھا تبھی ایک زوردار جھناکے سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز پر اس نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور نیچے زمین پر جھک گیا۔ وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا پھر کچھ دیر میں اس نے سر اٹھا کر اپنے بائیں طرف دیکھا جہاں ایک بڑا سا پتھر گرا پڑا تھا اور پھر اس نے ڈرتے سہمتے گردن گھما کر اپنے پیچھے کھڑکی کو دیکھا جس کا شیشہ چکناچور ہو گیا تھا۔ لمحے میں اسے سمجھ لگی کہ کسی نے کھڑکی سے ایک بڑا پتھر اندر کمرے میں پھینکا تھا۔ وہ لرزتے ہوئے جسم کے ساتھ تیزی سے اٹھا اور فوراً سے اپنا ریوالور اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اب وہ ہلکے ہلکے قدم اٹھاتا اس کھڑکی طرف جا رہا تھا۔ تھوڑی اوٹ میں ہو کر وہ تھوڑی دیر کھڑا رہا اور پھر اندھا دھند باہر کی طرف گولیاں برسانے لگا۔۔ تھک ہار کر اس نے پھر سے گہرا سانس لیا۔ اسی ثانیے میں اسے ایک اور آواز سنائی دی۔ اس نے گردن دروازے کی طرف گھمائی۔ کوئی باہر سے ڈور ناب کو گھمائے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اسے اچھے سے یاد تھا کہ وہ مین ڈور لاک کر کے آیا تھا۔۔ پھر کوئی اندر کیسے آسکتا ہے؟
"جولیٹ۔۔ کیا یہ تم ہو؟؟" اس کے لب ناچاہتے ہوئے بھی کپکپا رہے تھے۔۔۔ " یہ کیا مذاق ہے جولیٹ۔۔" اس نے ریوالور کو سامنے کی طرف تانا اور قدم اٹھاتا دروازے کی طرف جانے لگا۔ ڈور ناب پر حرکت رک گئ تھی۔ وہ تیزی سے دروازے کی طرف بھاگا اور دروازہ کھول کر پھر سے گولیاں برسانے لگا۔۔ اب کی بار پھر سامنے کوئی نہیں تھا۔۔ اس کے پسینے چھوٹنے لگے تھے۔۔ اس نے لائونج میں تقریباً ہر طرف نظریں گھمائی تھیں لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ تبھی اس نے گردن مین ڈور کی طرف گھمائی جو پورا کھلا ہوا تھا اور اس کے پار اندھیرا تھا مکمل اندھیرا۔۔ کوئی تھا جو اس کے گھر میں گھس چکا تھا۔ وہ راہداری کی طرف قدم اٹھانے ہی لگا تھا کہ اسے اپنے پیچھے سے ایک اور آواز آنے لگی۔ کوئی زور زور سے فرش پر پر بھاری چیز مار رہا تھا اور اب کی بار آواز سامنے والے کمرے سے آرہی تھی۔ خوف کیا ہوتا ہے آج اس کے معنی سے وہ خود بری طرح آشنا ہوا تھا۔۔ خوف نے اسے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا۔۔ آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف آوازیں تھیں کبھی کیسی اور کبھی کیسی۔۔
"کون ہے یہاں؟؟ میں پوچھتا ہوں کون ہے؟؟ " وہ اب اس کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ تبھی کسی نے پیچھےسے بری طرح اس کی گردن کو زنجیر سے جکڑ لیا۔۔اس کا سانس جیسے بند ہونے لگا تھا۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا تھا۔ مقابل نے اپنی گرفت مزید سخت کی اتنی کی جابر کا منہ سرخ اور نیلا ہونے لگا ۔ وہ بمشکل اپنے آپ کو مسلسل چھڑانے کی کوشش کرہا تھا لیکن مقابل کی گرفت بھی کمال کی تھی۔ کچھ دیر وہ اور اسی حال میں رہتا تو ضرور مر جاتا لیکن اسے مرنا نہیں تھا کیونکہ وہ شخص اسے مارنا چاہتا ہی نہیں تھا۔ اس نے فوراً سے زنجیر سے اس کی گردن آزاد کی اور وہ زور سے زمین پر اوندھے منہ گر گیا۔ وہ شخص گھٹنوں کے بل اس تیز تیز سانس لیتے ہوئے وجود کے سامنے بیٹھ گیا۔ جابر نے سر اٹھا کر گہرے سانس لیتے ہوئے اسے دیکھا اس کے چہرے پر فل ماسک تھا اور وہ زنجیر کو اپنے بازو پر لپیٹ رہا تھا۔۔
"کون ہو تم؟؟ کیا۔۔ کیا چاہتےہو؟؟" وہ بمشکل بول پارہا تھا۔۔ لیکن جواب میں اسے صرف قہقہہ سنائی دیا ۔ اس شخص نے دایاں ہاتھ سیدھا کر کر کے ہوا میں بازو کو ایک جھٹکا دیا تو اس کے ساتھ سے لپٹی زنجیر اس کے ہاتھ میں سانپ کی طرح لہرائی تھی۔ یہ عمل صرف جابر کو ڈرانے کے لیے تھا۔۔ تو کیا وہ اب اسے اس زنجیر سے پیٹے گا؟؟
"ڈرو مت ۔۔ میں اتنا ظالم نہیں ہوں۔۔"بلاخر وہ بولا۔۔ پھر اس نے آس پاس لائونج کو دیکھا اور بیزاری سے سر جھٹک کر رہ گیا۔
"یو نو ۔۔ یہ جگہ مجھے کچھ اچھی نہیں لگی۔ میری جگہ چلتے ہیں۔۔" اس نے چہرہ تھوڑا آگے جھکا کر مزے سے کہا۔۔ تبھی سامنے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے تین بندے باہر نکلے۔۔ان سب کے چہرے بھی ماسک میں چھپے ہوئے تھے۔۔جابر کی آنکھیں مزید پھٹ گئی تھیں۔ وہ بری طرح پھنسا تھا۔۔
"مجھے چھوڑ دو۔۔ میں نے کیا بگاڑا ہے تم لوگوں کا۔۔" دو بندوں نے اسے بازو سے جکڑ کر اٹھایا۔ وہ چیخ چیخ کر منتیں کررہا تھا۔ تیسرا شخص ایک رومال میں کچھ لگا رہا تھا۔ جابر سمجھ گیا تھا اسے بیہوش کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔
"مجھے جانے دو۔۔" وہ پھر سے التجائیہ انداز میں بولا۔۔ وہ سوائے منتوں کے اور کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ مکمل طور پر طور پر ان کے قبضے میں تھا۔۔ وہ تیسرا شخص اب وہ رومال اس کے چہرے کے قریب لے گیا تھا جس کی بو سے فوراً اس کا سر چکرانے لگا تھا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ آنکھیں بند کرگیا تھا۔
●●●●●●●●●●●●
اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ ہر طرف منظر دھندلا دھندلا معلوم ہو رہا تھا اور سر میں بھی عجیب سا درد اٹھ رہا تھا۔ مسلسل ہلنے کی کوشش پر اسے معلوم ہوا کہ وہ کسی کرسی سے بندھا ہوا ہے۔ آنکھیں مکمل کھولنے پر اس نے آس پاس جگہ کو دیکھا جو اس کے لیے انجان تھی۔ وہ ایک سفید چمکتے ہوئے مکمل بتیوں سے جگمگاتے ہال نما کمرے میں موجود تھا۔ دفعتاً دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔۔
"کون ہو تم؟؟ مجھے یہاں اس طرح کیوں باندھا ہے؟ چاہتے کیا ہو مجھ سے؟؟" فرہاد کے اندر داخل ہوتے ہی اس نے اس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا اور اگلے ہی لمحے وہ اس کے بلکل سامنے کھڑا تھا۔ جابر نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا۔ اس کا چہرہ اب بھی فل ماسک سے چھپا ہوا تھا۔
“امید ہے تم مجھے زیادہ تنگ نہیں کرو گے۔۔" جابر نے دیکھا اس کے ہاتھ میں ریموٹ تھا لیکن کس چیز کا؟ وہاں آس پاس ایسا کچھ نہیں تھا جو ریموٹ سے چلتا ہو۔ تبھی اس نے اپنی کرسی پر غور کیا جس سے وہ بندھا ہوا تھا اور اگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔ وہ کوئی عام چئیر نہیں تھی بلکہ ایک الیکٹرک چئیر تھی جس کے والٹیج کافی ہائی ہوتے ہیں اور ایک یا دو بار میں ہی انسان کا کام تمام کر دیتے ہیں۔
وہ انہی پھٹی نگاہوں سے سامنے اطمینان سے کھڑے شخص کو دیکھے گیا۔ فرہاد نے جب اس کے اڑتی رنگت اور اس کے چہرے پر پھیلے خوف کو دیکھا تو طنزیہ انداز سے ہنسا۔
“کیا کہا تھا تم نے انابیہ جی سے؟؟ " وہ ٹھوڑی پر ریموٹ رکھتے ہوئے جیسے سوچنے کے انداز میں بولا۔۔ "ہاں!! خوف۔ سب سے خوبصورت چیز خوف ہے لیکن کسی دوسرے کے چہرے پر اور آپ صرف اس کے خوف سے محظوظ ہو رہے ہوں۔۔" اس نے ہو بہو جابر کے الفاظ دہرائے۔۔" ٹھیک کہا تھا تم نے۔ تمہارے چہرے پر پھیلے خوف سے میں بہت محظوظ ہو رہا ہوں۔۔ قسم سے۔۔۔" وہ تھوڑا اس کی طرف جھکا اور بولا۔۔
“لیکن پتہ ہے کیا تم اب صحیح طرح سے خوف والی سچویشن سے گزرے ہو۔ اگلی دفعہ کسی کو ڈیٹیل میں خوف کی ڈیفینیشن دے سکو گے۔۔"
"اوو۔۔ تو تم اس لڑکی کے عاشق ہو۔۔" جابر نے طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو جواباً فرہاد نے ہنستے ہوئے فخریہ انداز سے سر اوپر نیچے ہلا کر اعتراف کیا۔۔ وہ اب اس کی کرسی کے ارد گرد چکر لگانے لگا۔۔
“ تمہاری زندگی اس وقت تمہارے ہاتھ میں ہے اور اگر چاہتے ہو کہ یہ اس عاشق کے ہاتھ میں نہ آئے تو زبان کا استعمال احتیاط سے کرنا اور جو پوچھوں اسی کا جواب دینا۔۔" وہ بلکل اس کے پیچھے رک گیا۔۔
“میں نے نمک حلال کر کے کھایا ۔۔ آزما کر دیکھ لو۔" وہ بہت ڈھٹائی سے نڈر بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ فرہاد نے پیچھے کھڑے کھڑے ہی اسے دات دینے والے انداز سے دیکھا۔
“زیادہ بڑی بڑی باتیں نہ کرو۔۔ایک جھٹکا کافی ہوتا ہے حلال نمک کو حرام کرنے کے لیے۔۔" اس نے کہتے ہوئے ریموٹ اس کے کندھے پر رکھا۔ جابر نے بمشکل تھوک نکلتے ہوئے گردن تھوڑی گھما کر اپنے کندھے پر ریموٹ کو دیکھا۔۔ وہ اب چل کر پھر سے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔
“بتائو کس کے لیے کام کرتے ہو؟؟ " وہ اب ریموٹ کو اوپر نیچے کر کے دیکھ رہا تھا لیکن سامنے سے جواب نہ آنے پر اس نے آنکھیں چھوٹی کیے جابر کو دیکھا جو بلکل خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“جیسی تمہاری مرضی۔۔" کہتے ساتھ اس نے بٹن دبا دیا اور اگلے ہی لمحے اس چئیر سے نکلتا کرنٹ جابر کا برا حال کرنے لگا۔۔ اسے لگا جیسے کرنٹ اس کے جسم کے اندر تک سرائیت کرنے لگا ہے۔ فرہاد نے بٹن پھر سے دبایا اور سب پھر سے نارمل ہو گیا۔۔ اگر وہ دس سیکنڈز مزید اسی حالت میں رہتا تو ضرور بیہوش ہوجاتا اور مزید دس سیکنڈز رہتا تو مر بھی جاتا لیکن فرہاد کا ارادہ اسے مارنے کا نہیں بلکہ اس کا منہ کھلوانے کا تھا۔۔
“اب بتائو؟؟" اس نے جھک کر اس کے پیشانی کے بالوں سے جکڑ کر اس کا چہرہ اٹھایا۔
"حنان زبیر۔۔ زبیر انڈسٹریز کا سی-ای-او " اس نے گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے کہا۔ تو ثابت ہوا ایک جھٹکا کافی تھا حلال نمک کو حرام کرنے کے لیے۔
“کیا چاہتا ہے وہ انابیہ سے؟؟"
“اس کی اکڑ۔۔ اس کا ایٹیٹیوڈ ختم کرنا چاہتا ہے۔۔ اور۔۔" وہ سانس لینے کے لیے رکا ۔ بال اب تک فرہاد کے مظبوط شکنجے میں تھے۔۔ "اور۔ وہ زبیر انڈسٹریز کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتی ہے۔۔" فرہاد نے زور سے اسکے بال چھوڑے اور وہ پھر سے چہرہ جھکا گیا۔
“میری بات غور سے سنو۔۔ میرا تم لوگوں تک پہنچنا بہت آسان کام ہے کیونکہ تم لوگ کمزور ہو لیکن مجھ تک پہنچنا تم لوگوں کے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ میں کمزور انسان بلکل بھی نہیں ہوں۔۔" اس کا انداز سخت اور تنبیہی تھا۔
“انابیہ تم لوگوں کے بارے میں جو کچھ بھی جانتی ہے اس نے خود تک محدود کر رکھا ہے اگر میں اسے یہ سب بتا دوں تو وہ تم لوگوں کو تباہ کرنے لیے کس حد تک جا سکتی ہے اس کا اندازہ تمہیں تو کیا مجھے بھی نہیں ہے لیکن صرف میں اسے روک سکتا ہوں۔۔ اس کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ میں اس دنیا کو تم لوگوں کے لیے جہنم بنا دوں گا۔۔ سمجھے " وہ روانی میں اس سے کہتا گیا تو جابر نے بمشکل سر اثبات میں ہلایا۔
“گڈ۔۔" فرہاد نے زور زور سے اس کا چہرہ تھپتھپایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا۔۔ پیچھے رہ جانے والے جابر نے سر پھر سے گرا دیا۔
اس نے ابھی دروازہ لاک کر کے ماسک اتارا ہی تھا کہ اس کا فون بجنے لگا۔ پینٹ کی جیب سے اس نے موبائل نکال کر سامنے کیا اور اسکرین پر چمکتا نام دیکھ کر ایک لمحے کے لیے مسکرا کر اس نے کال اٹینڈ کر لی۔
“ہیلو۔۔ میں جولیٹ بات کر رہی ہوں۔۔" فون کے دوسری طرف سے آتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔
"جانتا ہوں۔۔" مختصراً کہہ کر وہ سامنے کھڑی اپنی بائیک کی طرف بڑھ گیا۔
“میں بیلجیئم پہنچ چکی ہوں اور میری ماں کا علاج بھی شروع ہو چکا ہے۔۔ میں تمہاری بہت مشکور ہوں۔ تم نے میری مدد کی بس اسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میں نے تمہیں کال کی۔۔" جواباً اسے فرہاد کی ہنسی سنائی دی۔
“شکریہ کی ضرورت نہیں ہے۔۔ تم نے میری مدد کی اور میں نے تمہاری سمپل۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے عام سے لہجے میں بولا۔۔
“تم نہیں جانتے جب جابر جیسے گھٹیا انسان نے مجھے ماں کے علاج کے لیے پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا تو میں کتنی پریشان ہو گئ تھی تبھی خدا نے تمہیں میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا تھا۔۔" وہ مغموم لہجے میں کہتی گئ۔
“اب تم جانتی ہو نا تمہیں کیا کرنا ہے؟؟" وہ بائیک پر سوار ہوتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔۔
"ہاں۔۔ ماں کا علاج ہوتے ہی میں انہیں لے کر بیلجیئم سے کسی اور ملک روانہ ہو جائوں گی تم جابر کے حوالے سے بلکل بھی پریشان مت ہونا۔۔ فون رکھتی ہوں۔۔" اس نے کہتے ساتھ فون کاٹ دیا۔ اب وہ تھوڑا پرسکون تھا۔۔
●●●●●●●●●●●●
این۔جے میں اس وقت ضروری میٹنگ چل رہی تھی۔ کمپنی کے تمام سینئیر ورکرز میٹنگ روم میں موجود تھے۔ ہمیشہ کی طرح سربراہی نشست پر جہانگیر اور ان کے بائیں طرف انابیہ اور کبیر دونوں ساتھ بیٹھے تھے۔ جہانگیر کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا تھا اور ان کے ٹھیک پیچھے دیوار سے لگی اسکرین پر اسی پلازے کی تھری۔ڈی ویڈیو چل رہی تھی۔ فلحال یہی پراجیکٹ ان کا اہم مرکز تھا جس کا کسی بھی دوسری کمپنی کے ساتھ کوئی کنیکشن نہیں تھا ۔ یہ این۔جے کا زاتی پراجیکٹ تھا۔ وہ مسلسل اس پراجیکٹ سے ریلیٹڈ ورکرز کوگائڈ کر رہے تھے۔ انابیہ دونوں کہنیاں ٹیبل پہ دھرے ہاتھوں کو باہم پیوست کیے اور نظروں کو مکمل طور پر جہانگیر صاحب پر مرکوز کیے انہیں سن رہی تھی۔ دفعتا اس کی توجہ اس کے بجتے ہوئے فون نے کھینچی۔ کبیر جو کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اس کی نظر بھی ٹیبل پر پڑے اس کے فون کی اسکرین پررکی جس پر فرہاد کا نام جگمگا رہا تھا۔ میٹنگ میں خلل پڑ رہی تھی انابیہ نے معزرت خواہانہ انداز میں جہانگیر صاحب کو دیکھ کر کال کاٹ دی۔ وہ پھر سے بولنے لگے تو کال دوبارہ بجنے لگی۔۔
"کیا مصیبت ہے۔۔۔" اس نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اب کی بار نہ صرف کال کاٹی بلکہ موبائل بھی آف کر دیا۔ اس بارجہانگیر صاحب بولتے ہوئے نہیں رکے تھے اور نہ ہی انہوں نے انابیہ کودیکھا تھا۔
"اگر کسی اہم بندے کی بہت اہم کال ہے تو تم ایکسکیوز کر سکتی ہو۔۔" کبیر نے آگے ہو کر تھوڑا اس کی طرف جھک کر کہا تو اس نے تنبیہی نظروں سے اسے گھورا جیسے اسے اس کی یہ بات بلکل پسند نہ آئی ہو او ر دوبارہ رخ جہانگیر صاحب کی طرف موڑ گئ۔
صرف یہی نہیں اس نے رات میں اسے دوبارہ بھی کال کی تھی جب وہ اپنے گھر پر تھی اور غالباً نہا کر نکلی تھی۔ بلآخر اس نے کال اٹینڈ کر ہی لی۔۔
" لگتا ہے مس ٹیولپ مجھ سے ناراض ہیں۔۔" کال اٹینڈ ہونے پر اس نے سب سے پہلے یہی کہا تھا۔
"نہیں ہوں۔۔" اس نے بہت ہی مختصر سا جواب دیا تھا۔
"میں نے آپ کو کتنی کالز کی کہ میں گنتی بھی بھول گیا ہوں۔۔ اور آپ مسلسل بےدردی سے کاٹتی رہیں ایون کہ جان چھڑانے کے لیے فون بھی آف کردیا اور مجال ہے جو دوبارہ آن کرنے پربھی میری کال اٹھائی ہو۔۔ آپ مجھ سے جان چھڑا رہی ہیں؟" وہ اتنی روانی اور سنجیدگی سے اپنی خفگی کا اظہار کرتا گیا کہ انابیہ کچھ بول ہی نہ سکی اور چپ چاپ سی اس کے گلے شکوے سنتی گئ۔
"جو لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جاتا۔۔ بھلے آپ انہیں بدلے میں محبت نہ دے کم از کم ان کی قدر تو کریں۔۔" وہ بولتا گیا اور وہ سنتے سنتے آکر بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔
"اور جب میں تمہیں کال کرتی ہوں تو آگے سے نمبر بند ہوتا ہے تب کا کیا؟" اب کی بار چپ ہونے کی باری فرہاد کی تھی۔۔ دونوں طرف کچھ دیر خاموشی رہی اور انابیہ کو لگا اس نے واقعی کچھ غلط کہہ دیا ہے۔۔ اففف۔۔ وہ یہ بھی تو کہہ سکتی تھی کہ وہ بزی ہوتی ہے۔۔ وہ میٹنگ میں تھی۔ وہ فارغ لڑکی نہیں ہے۔ ایک سو ایک بہانے تھے بنانے کو۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ لیکن اس نے بھی اپنا شکوہ پیش کردیا۔
"آپ مجھے کال کرتی رہی ہیں؟" وہ بےیقینی کے عالم میں بولا۔
"نہیں نہیں۔۔ بس کل رات کو ایک ہی دفعہ کی تھی وہ بھی تمہیں خطرے سے آگاہ کرنے لیے۔۔" اس کا دل کیا اٹھے اور سامنے دیوار پر جا کر اپنا سر دے مارے۔
"خطرہ؟ ہا ہا ہا۔۔ مس ٹیولپ آپ شاید بھول رہی ہیں کہ خطرے میں میں نہیں آپ تھیں۔"اب کی بار وہ ہنس کر بولا۔
"تھی؟؟ تھی مطلب؟؟" وہ بےطرح سے حیران ہوتے ہوئےبولی۔
"تھی مطلب تھی۔۔ اب کوئی خطرہ نہیں ہے آپ کو۔۔ فرہاد نے آپ کی طرف آتے سارے خطروں کو واپسی کی ٹرین پر بٹھا دیا ہے۔۔" وہ کچھ بول نہ سکی وہ بولتی بھی کیا۔ وہ تو اسے چپ ہی کرا گیا تھا۔۔
"مجھے آپ کو بہت کچھ بتانا ہے کیا ہم مل سکتے ہیں؟؟" کیا عاجزانہ انداز تھا اس کا۔۔ انابیہ نے گہرا سانس بھرا۔
"نہیں۔۔" کچھ لوگوں کو انکار کرنابہت مشکل کام ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی کسی کی بہتری کے لیے انکار بھی کرنا پڑے تو سو دفعہ انکار ہے۔۔ "تم مجھے فون پر ہی بتا دو۔۔"
"جیسے آپ کی مرضی۔۔" اس کے لہجے میں شکایت نہیں تھی لیکن انابیہ کو ضرور محسوس ہوئی تھی۔ " یہ سب حنان زبیر اس بےعزتی کا بدلہ لینے کے لیے کررہا تھا جو آپ نے اس کی کی تھی۔۔" زبیر کا نام سنتے ہی انابیہ جیسے حیرت سے کچھ بول ہی نہ سکی۔۔
"اس سے یہی توقع کی جا سکتی تھی۔۔مجھے اندازہ ہونا چاہیے تھا۔۔" اس نے افسوس سے گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہا۔۔
"آپ بےفکر رہیں وہ اب کچھ نہیں کرے گا کیونکہ اس کا چہرہ ظاہر ہو گیا ہے۔۔ آپ ویسے بھی ان کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہیں۔۔"
" تم نے میرے لیے جو کچھ بھی کیا اس کے لیے میرے پاس تمہارے لیے سوائے تھینکس کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔۔" اس نے اپنے چہرے پر چپکے ہوئے گیلے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔
"محبت میں کیوں کیا؟ کیسے کیاَ ؟ کس لیے کیا؟ یہ باتیں اہم نہیں ہوتیں۔۔ بس اس کے لیے کیا یہی بات دل کو تسکین اور راحت بخشتی ہے۔۔ اور بدلے میں اس سے ملا تھینکس بھی تیجوری میں چھپا کر رکھ دینے کو دل کرتا ہے۔۔۔" اب اس کی باتیں انابیہ کا دل کاٹ رہی تھیں۔۔ ایک سچی محبت کرنے والا دل ہی سچی محبت کے لیے دکھتا ہے۔
"تم نے میرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔۔ میں تہے دل سے تمہاری مشکور ہوں اور اب میں چاہتی ہوں تم اپنی زندگی کے بارے میں سوچو۔۔ میرے پیچھے خود کو خوار مت کرو۔۔"
"ٹھیک ہے۔۔ ایک ریکویسٹ کر سکتا ہوں؟؟" وہ معصومیت بھرے لہجے میں بولا تو انابیہ نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ ناجانے وہ اب اس سے کیا درخواست کر بیٹھے۔۔
"بولو۔۔"
" میں جانتا ہوں کہ آپ کی زندگی میں ہمیشہ فرسٹ آپشن کوئی اور ہوگا۔۔ لیکن مجھ سے وعدہ کریں جب بھی آپ کو دوسرے آپشن کی ضرورت ہوگی وہ دوسرا آپشن میں ہوں گا۔۔۔" وہ اس سے ریکویسٹ کررہا تھا اور وہ خاموش تھی۔۔ "بولیں مس ٹیولپ۔۔ وعدہ کریں مجھ سے۔۔"
"میں وعدہ کرتی ہوں مجھے جب بھی تمہاری ضرورت ہوگی میں تمہیں چنوں گی ۔۔ لیکن صرف ضرورت پڑنے پر۔۔" اتنا تو وہ اس کے لیے کر ہی سکتی تھی۔۔ اتنا توہ اس سے کہہ ہی سکتی تھی۔
"اور میں دوڑتا ہوا چلا آئوں گا۔۔۔"
"تمہارا نمبر میرے پاس سیو رہے گا لیکن صرف میں ضرورت پڑنےپر کال کر سکتی ہوں تم نہیں۔۔" وہ تحکمانہ انداز میں بولی تو فرہاد نے فورا حامی بھری۔۔۔ انابیہ نے مسکراتے ہوئے کال کاٹ دی۔
وہ کھلے آسمان کےنیچے کھڑا اب آنکھیں بند کیے آسمان کی طرف سر اٹھائے ہوئے کھڑا تھا۔
"میں یہیں ہوں ہمیشہ تمہارے لیے۔۔ میں جانے کے لیے نہیں تمہیں پانے کے لیے آیا ہوں۔۔۔"اس نے انکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
●●●●●●●●●●●●
"پیپر کیسا رہا تمہارا؟" گاڑی میں ایک طویل خاموشی کے بعد عالیان نے ردا سے پوچھا۔ اس دن کے بعد سے وہ آج کالج گئ تھی کیونکہ اس کے ایگزامز شروع تھے ۔
"اچھا تھا۔۔" وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔ عالیان نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور سر جھٹک کر سامنے سڑک کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی۔۔ وہ گاڑی چلانے میں مگن تھا تبھی ردا بولی۔
"گاڑی روکیں۔۔" اس کا انداز تحکمانہ تھا ۔ عالیان نے چونک کر اسے دیکھا جیسے اسے کچھ سمجھ نہ لگی ہو۔ "آپ کوسنائی نہیں دیا؟ میں نے کہا گاڑی روکیں۔۔" وہ پھر کاٹ کھانے والے لہجے میں بولی تو عالیان تیوڑیاں چڑہائے اسے گھورنے لگا۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے کیا ؟ " وہ بھی بھڑک اٹھا۔
"ہاں ہو گیا ہے۔۔ اور اگر آپ نے گاڑی نہ روکی تو۔۔ تو۔۔ تو میں باہر کود جاؤں گی۔۔" عالیان نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ واقعی پاگل ہو گئ ہو۔
"شوق سے کودو۔۔" وہ لاپرواہی سے کہتادوبارہ سامنے دیکھنے لگا۔ ردا نے افسوس سے اسے دیکھا اور پھر دروازے کی طرف گھومی۔مسلسل کوشش پر بھی وہ کھل نہیں رہا تھا۔ وہ دوبارہ اس کی طرف گھومی جس کے چہرے پر اب بھی غصہ تھا۔ اس نے دروازے اپنی طرف سے لاک کر کھے تھے۔
"گاڑی روک دیں ورنہ وہ پیچھے رہ جائے گا۔۔" اب کی بار اس آواز میں التجا تھی۔۔ اس نے پھر چو نک کر ردا کو دیکھا۔
"کون؟؟؟"
"بھٹے والا۔۔۔" وہ اتنا چیخ کر بولی کہ عالیان نے ایک زوردار بریک سے گاڑی روک دی۔۔ دونوں نے آگے کی طرف جھٹکا کھایا اور پیچھے ہوئے۔۔ سب کچھ جلدی جلدی میں ہوا۔۔ ردا نے خفگی سے اسے دیکھا جو کچھ دیر لاچاری سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
"تو یہ بات تم آرام سے بھی تو کہہ سکتی تھی نا۔۔" اسے اس پر غصہ نہیں ٰ آرہا تھا بلکہ خود پر ترس آرہا تھا۔۔ ردا اپنا چہرہ اس کے چہرے کے تھوڑا قریب لے جا کر باری باری اس کی دونوں آنکھوں میں دیکھنے لگی اور بولی۔
"مجھے آرام سے بات کرنے نہیں آتی۔۔ کر لیں گے گزارا میرے ساتھ؟" وہ کچھ پل اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ عالیان کی طرف کے شیشے میں سے دھوپ اندر آرہی تھی جس کی روشنی میں اس کی ہلکی سبز آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔ " ابھی بھی وقت ہے انکار کردے۔۔" عالیان نے اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹا لیں۔۔ وہ مزید اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ آگے ہو کر اس نے گاڑی کے لاک کھول دیے اور گاڑی ریورس پر چلا نے لگا۔ ردا نے اسے دیکھا وہ اس سے نظریں چرا رہا تھا بےاختیار ہی وہ مسکرا اٹھی۔۔ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر وہ باہرنکلنے لگا تو ردا بھی تیزی سے اس سے پہلے نکلی اور تقریباً بھاگتے ہوئے پیچھے بھٹے والے کی طرف گئ۔۔ عالیان بھی سر جھٹک کر اس کے پیچھے گیا۔
"ایک اچھا سا گرم گرم بھٹا تیار کر دیں۔۔" وہ چہک کر سامنے کھڑے ادھیڑ عمر شخص سے کہنے لگی۔
"جی ایک بنائوں یا دو بنا دوں؟؟" اس کے پوچھنے پر ردا نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا تب اسے اپنے ساتھ کھڑے شخص کی موجودگی کا احساس ہوا۔
"جی نہیں ایک ہی بنائیں ۔۔ لڑکے بھٹے نہیں کھاتے۔۔" کیا اندازہ لگایا تھا ردا نے!! اس کی اس بات پر نہ صرف بھٹے والا بلکہ عالیان بھی حیران ہوا تھا۔
"تم سے کس نے کہا کہ لڑکے بھٹا نہیں کھاتے؟" وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھے گیا۔
"مطلب خود سوچیں نا وہ کھاتے ہوئے کیسے لگے گیں۔۔۔" عالیان نے دونو ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔
"ابھی بتاتا ہوں کیسے لگیں گے۔۔" بھٹے والے نے جو بھٹا ردا کے لیے تیار کیا تھا عالیان نے برق رفتاری سے اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔۔ ردا نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو یہ میرا ہے۔
"غور سے دیکھنا۔۔" آنکھ مارتے ہوئے اس نے شرارت سے کہا ۔ اس کے انداز سے ایک لمحے کے لیے وہ اسے بلکل پرانا والا عالیان لگا تھا۔۔ ردا منہ بنائے اسے دیکھے گئ اور وہ مزے سے دونوں ہاتھوں میں بھٹا پکڑے کھا رہا تھا۔۔ وہ اسے دکھا رہا تھا کہ لڑکے بھٹا کھاتے ہوئے کیسے لگتے ہیں ۔۔ ہو سکتا ہے اچھے لگتے ہوں لیکن ردا کو تو وہ بہت زہرلگ رہا تھا۔۔
"اس کے لیےبھی بنا دیں۔۔ ورنہ مجھے ہی کھا جائے گی۔۔ لڑکی بھٹا کھائو عالیان نہیں۔۔" اس نے تھوڑا اس کی طرف جھک کر کہا اور فوراً پیچھے کو ہوا۔۔ ردا پیر پٹختی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔۔
وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑی تھی تبھی عالیان اس کے پاس آیا۔۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں بھٹے تھے۔۔ ایک آدھا کھایا ہوا اور دوسرا پورا جو وہ ردا کی طرف بڑھائے کھڑا تھا۔۔
"اب لو بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔۔" ردا نے خفگی سے اسے دیکھا اور بھٹا اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔
"دیکھ لوں گی میں آپ کو۔۔" اس نے چیلنجنگ انداز سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"دیکھ لینا۔۔لیکن زیادہ غور سے مت دیکھنا ورنہ بعد میں گلہ کرو گی کہ عشق ہو گیا ہے میری صورت سے۔۔" ردا نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے سے اسے دیکھا اور وہ ہنستے ہوئے اس کے ساتھ سے ہو کر ڈرائونگ سیٹ کی طرف جانے لگا ۔ ردا جو اب دل ہی دل میں بڑبڑاتے ہوئے بھٹے کو دونوں ہاتھوں سے منہ کے قریب لے جا رہی تھی۔۔ ہوا میں گونجتی "ٹھاہ۔۔" کی آواز پر نہ صرف رکی بلکہ بھٹا بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔۔ آواز بہت قریب سے آئی تھی نہ صرف گولی کی بلکہ کسی کی درد بھری چیخ کی بھی کسی کی کراہتی ہوئی آواز جو اس کے پیچھے سے آرہی تھی۔۔ اس کے پیچھے تو۔۔۔ وہ ہل نہ سکی ۔۔ جم سی گی۔۔ سانس رکنے لگا۔۔۔ بمشکل حرکت کرتے ہوئے وہ اپنے ٌپیچھے کی طرف گھومی۔۔ پھر جو دیکھا اس کے بعد اسےلگا وہ اندھی ہو گئ ہو۔۔ مر گئ ہو۔۔ عالیان کی سفید شرٹ کابازو پورا سرخ ہو چکا تھا،، خون ابل ابل کر اس کے بازو سے بہہ کہ زمین پر گر رہا تھا۔ وہ گاڑی کا سہارا لیے تکلیف میں کھڑا تھا۔ وہ دور کھڑی سیاہ گاڑی کو دیکھ چکا تھا جس میں بیٹھے شخص نے گولی چلائی تھی پھر وہاں سےچلا گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ردا کو لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی لیکن اسے لینا تھا۔۔۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے لیکن وہ صدمے کی حالت میں اس کا بازو پکڑے بس پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے آنسو اس کے لیے بہہ رہے تھےاپنی تکلیف تو وہ جیسے بھول ہی گیا تھا۔
" پریشان مت ہو۔۔ گولی چھو کر۔۔ گزری ہے۔۔. مجھے یقین ہے۔۔" وہ کراہتی ہوئی آواز میں تکلیف سے بولا لیکن ردا اسے نہیں سن رہی تھی۔ وہ انھیں بدحواس قدموں سے بیک سیٹ کی طرف گئ۔ دروازہ کھولا اور اپنے بیگ میں سے کچھ نکالنے لگی۔۔ وہ دوبارہ جب اس کی طرف آئی تو اس نے دیکھا اس کے ہاتھ میں سکارف تھا۔۔ وہ ہمیشہ اپنے بیگ میں ایک اور سکارف ضرور رکھتی تھی۔۔ اب وہ اس کے بازو پر جس جگہ سے خون نکل رہا تھا وہاں اس سکارف کو لپیٹ کر باندھنے لگی۔ عالیان نے اس کے حرکت کرتے ہاتھوں کو دیکھا اس کے ہاتھوں پر خون کے نشان لگنے لگے تھے لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔
"ہمیں ہاسپٹل جانا ہے جلدی گاڑی میں بیٹھیں۔۔" وہ تحکمانہ انداز میں کہتے ہی اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔ اب کیا فائدہ صاف کرنے کا اس نے تو دیکھ لیے تھے۔ وہ سر ہلاتا ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔
"اوہو۔۔ پیسنجر سیٹ پر بیٹھیں ۔ ایسے میں گاڑی کیسے چلائیں گے؟" ردا نے کہا تو پہلے تو وہ کسی ردعمل کا اظہار کر ہی نہ سکا لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ ہنس دیا ۔۔ کم از کم وہ صدمے کی حالت سے تو باہر آئی۔۔اس کی ہنسی ردا کو بلکل اچھی نہیں لگی۔وہ اسے کیسے بتاتی کہ اس کی تو جان پر بنی ہوئی ہے اور وہ اس حال میں بھی کیسے ہنس سکتا ہے؟؟
●●●●●●●●●●●●●●
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی اس کا دوسرا بازو پکڑے وہ اسے تقریباً بھاگتے ہوئے اندر لے جا رہی تھی۔ خون کافی بہہ چکا تھا اتنا کہ جو پیلا سکارف اس نے باندھا تھا وہ بھی مکمل سرخ ہو گیا تھا۔ تبھی چلتے چلتے ردا کی نظر سامنے سے آتے ایک میل ڈاکٹر پر ٹھہری جو اپنے وارڈ بوائے کے ساتھ چلتا ہوا انہی کی سمت آرہا تھا۔۔
"ایکسکیوز می ڈاکٹر۔۔ دیکھیں انہیں گولی لگی ہے آپ پلیز ان کا زخم دیکھ لیں ۔۔" وہ روانی میں بولتی گئ۔۔
"اوہو۔۔ یہ تو پولیس کیس ہے۔۔ ہمیں پہلے پولیس کو انفارم کرنا پڑے گا۔۔"
"جی بلکل مجھے پتہ ہے۔۔ آپ ان کا ذخم دیکھیں پولیس کو کوئی بھی کال کردے گا۔۔ ان کا کافی خون بہہ چکا ہے۔۔ ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ۔۔" اس کا انداز اتنا التجائیہ تھا کہ عالیان کو اب اپنے زخم سے زیادہ اس کی فکر ہونے لگی تھی۔
"دیکھئے محترمہ ہم کہیں بھاگے نہیں جا رہے۔۔ ہمیں پہلے کال کرنی ہے۔۔" وہ نہایت اطمنانیت سے موبائل پر دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ اس کی اس حرکت پر ردا کا دل کیا اس پاگل ڈاکٹر کا سر پھاڑ دے۔۔
"میں آپ سے کہہ رہی ہوں ان کا کافی خون بہہ گیا ہے اور آپ فون پر لگے ہیں۔۔" اس بار اس کی آواز حد سے زیادہ اونچی تھی۔
"او بی بی آہستہ بولو یہ ہاسپٹل ہے یہاں اور بھی مریض ہیں۔۔" اب کی بار اس کا پارا مزید ہائی ہوا تھا۔۔
"تو میں کیا یہاں اسے فلم شوٹ کرانے کے لیے لائی ہوں۔ آپ کو اور مریضوں کی پرواہ ہے تو اس کی کیوں نہیں؟؟" وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں سامنے کھڑے "ڈھیٹ" ڈاکٹر سے بولی تو عالیان نے اسے التجائیہ نظروں سے دیکھا کہ بس چپ کر جائو لیکن ساتھ والی بھی ردا تھی جب تک سامنے والے کا سر نہیں پھوڑ دے گی سکون سے نہیں بیٹھے گی۔ اسی دوران وہاں کا شور شرابہ سنتے ہی ایک لیڈی ڈاکٹر ان کی طرف آئیں۔۔
"یہ سب یہاں کیا ہو رہا ہے؟؟" وہ سخت لہجے میں پوچھنے لگی تبھی ان کی نظر ردا پر پڑی ۔
"او ردا تم یہاں؟؟"ان کے مخاطب کرنے پر ردا نے ان کو دیکھا۔ وہ ڈاکٹر حاجرہ ہی تھیں۔ اس دن کے بعد بھی وہ کافی دفعہ ناصر صاحب کو ہسپتال لاتی رہی تھیں سو بہت دفعہ ان کی ملاقات حاجرہ سے بھی ہوتی رہی تھی۔
"ڈاکٹر حاجرہ۔۔ دیکھے نا۔۔ یہ ڈاکٹر ہم سے بدتمیزی کر رہے ہیں۔۔ علاج ہی نہیں کر رہے۔۔" اس بار بڑے معصومانہ انداز میں اس سے گلے شکوے کرنے لگی جبکہ اس میل ڈاکٹر کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جیسے کہہ رہا ہو کی صرف میں بدتمیزی کررہا تھا؟؟ ڈاکٹر حاجرہ نے تنبیہی نظروں سے اسے دیکھا اور پھر نرمی سے ردا کو۔۔
"ڈونٹ وری ۔۔ تم اپنے پیشنٹ کو میرے ساتھ لائو۔۔" پیار سے کہتے ہی اس نے میل ڈاکٹر کو دیکھا۔۔ " اور آپ پولیس کو انفارم کریں۔۔ اٹس آ پولیس کیس۔۔" اس ڈاکٹر نے عاجزانہ انداز میں سر ہلایا۔ جاتے جاتے ردا نے منہ ٹیڑھا کرکے ہونہہ کرکے اسے دیکھا تھا۔۔
اس کی پٹی ہونے کے بعد پولیس وہاں پہنچ گئ تھی۔ وہ ہسپتال کے ایک روشن کمرے میں بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا اور اس کے ٹھیک سامنے سیاہ وردی میں ملبوس پولیس آفیسر تفتیشی نظروں سے اسے ہی گھور رہا تھا۔ اسی کے ساتھ کھڑا ایک اور آفیسر اس کا سارا بیان ریکارڈ کر چکا تھا۔
"تمہارے بیان کے مطابق گولی کس نے چلائی تم نہیں جانتے۔۔ نہ تو تمہارا کوئی دشمن ہے اور نہ ہی تم نے کسی کا چہرہ دیکھا کیونکہ گولی بہت دور سے چلائی گئ تھی اور نہ ہی تمہیں گاڑی کا ماڈل اور نمبر ٹھیک سے یاد ہے۔۔ اگر تمہیں کچھ معلوم ہے تو بس یہ گاڑی کا رنگ سیاہ تھا۔۔" وہ تھوڑا اس کے چہرے کے قریب ہوا۔ " تمہیں نہیں لگتا یہ بہت ہی کم معلومات ہے۔۔" وہ کچھ پل ایک دوسرے کی آنکھوں میں براہ راست دیکھے گئے اور پھر اس کی خاموشی پر ضبط کرتے ہوئےانسپکٹر گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے پیچھے کو ہوا۔
"میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔۔" وہ صاف مکر گیا۔ سیاہ وردی والے نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے بیڈ کے کنارے کھڑی لڑکی کو دیکھا اور دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ عالیان نے بغور اس کی نظروں کو خود سے ردا تک سفر کرتے دیکھا تھا۔
“دیکھو لڑکے سیدھی سی بات ہے تھا تو یہ کوئی تمہارا ذاتی دشمن۔۔ جس طرح کا منظر تم نے بتایا ہے لگتا تو یہی ہے۔۔" بولتے بولتے اس کی نظر پھر سے ردا پر جا ٹھہری۔ "بقول تمہارے یہ لڑکی تمہاری کزن ہے۔" آفیسر نے ردا پر نظریں جمائے عالیان سے کہا۔ عالیان نے گردن گھما کر ردا کو دیکھا اور پھر بھنویں سکیڑ کر اس پولیس والےکو۔
“بی بی تمہارا کسی سے کوئی چکر وکر تو نہیں چل رہا؟؟" ردا کے چہرے کا رنگ یکدم اڑا اور عالیان کے تیور مزید سخت ہوئے آفیسر کے بات کرنے کا انداز اسے بلکل پسند نہیں آیا تھا۔۔ "وہ مطلب ایسے بہت سے کیسز دن میں کئی دفعہ آتے ہیں ہمارے پاس کہ لڑکی کے عاشق نے اس کے بھائی پر فائر کر دیا۔۔ منگیتر کو مار دیا وغیرہ وغیرہ۔۔" اسے لگا وہ بس مزے لے رہا ہے۔
"ہوتے ہوں گے ایسے کیسز لیکن ہمارا ان کیسز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔ یہ معلوم کرنا آپ کا کام ہے کہ فائیر کس نے کیا تھا۔۔" عالیان نے اپنا غصہ دبانے کی بھرپور کوشش کی۔لہجہ مزید سخت ہو سکتا تھا مگر وہ خود پر ضبط کرتا ہوا تنبیہی انداز میں بولا۔
"ہم اچھے سے جانتے ہیں ہمیں کیا کرنا ہے۔۔ خیر۔۔" وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔" ہم نے تمہارا بیان لے لیا ہے کچھ بھی پتہ چلا تو تمہیں ضرور آگاہ کریں گےلیکن تم بھی برخوردار اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔۔ چلتے ہیں۔۔" وہ کہتے ساتھ اس کمرے سے چلا گیا۔۔ ردا نے کھڑے کھڑے گہرا سانس لیا اور عالیان کی طرف گھومی۔
"گولی ظفر نے چلائی تھی۔ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی تو آپ نے ان کو کیوں نہیں بتایا؟؟" اس کی تفتیشی نظریں عالیان پر ٹکی تھیں۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں پاگل ہوں؟؟ میں بھی اچھے سے جانتا ہوں کہ گولی اسی نے چلائی ہے لیکن پولیس کو بتانے کا کیا فائدہ وہ ان کے نیچے کام کرتی ہے۔۔آج تک پولیس نے کیا کیا ہے ہمارے لیے۔۔ خوامخواہ ان کی نظر میں آجاتے۔۔" وہ بازو پر ہاتھ رکھتا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا جبکہ ردا ایک دم ٹھنڈی پڑ گئ۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا پولیس نے آج تک کیا ہی کیا تھا ان کے لیے۔
"گھر چلتے ہیں۔۔" وہ اس کے قریب آکر بولا تو ردا نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اسے دیکھا۔
●●●●●●●●●●●
اس نے جب گھر کے اندر قدم رکھا تو سب سے پہلے اس نے مرکزی دروازے پر کھڑی اپنی اماں کو پایا جو شاید اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔ ان سے سلام کرنے اور گلے ملنے کے بعد وہ سیدھا لائونج میں چلی گئ۔
"ہاتھ منہ دھو لے۔ میں تیرے لیے کھانا لگائے دیتی ہوں۔۔" وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے بولیں۔ جویریہ صوفے پر بیٹھ گئ۔
"رہنے دیں اماں۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔" اس نے کہتے ساتھ سر پیچھے صوفے کی ٹیک پر گرا دیا اور آنکھیں موندھ گئ۔ وہ کافی تھکی ہوئی سی لگ رہی تھی۔
کبیر کے لندن واپس جانے کے بعد سے وہ بلکل پاگل اور سائیکو ہو گئ تھی۔ اس نے کئی دفعہ خود سے تنگ آکر جان لینے کی کوششیں بھی کی تھیں۔ وہ بہت چلاتی تھی بہت چیختی تھی اتنا کہ بیہوش ہو جاتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی وہ ایسی زندگی بلکل نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ واقعی اسے اس کے کیے کی سزا مل رہی ہے اور خود کو اسی خیال سے بچانے کے لیے وہ دوبارہ زندگی میں واپس آتی گئ۔ اسے خود کو بتانا پڑتا تھا کہ اس نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔ وہ حق پر تھی۔ ایک محبت ہی تو ہوتی ہے جس پر انسان کا حق ہوتا ہے۔ اس نے تعلیم دوبارہ سے شروع کی اور صحیح معنوں میں شروع کی۔۔ پھر کچھ ہی مہینوں بعد اس کی دوست نے اسے اپنے ڈیڈ کی کمپنی میں کام دلوا دیا۔ وہ خوش تھی کیونکہ وہ لوگ اسے کافی فیور بھی دیتے تھے جس کی وجہ سے وہ کام کے ساتھ اپنی تعلیم بھی کر رہی تھی اور اب اسے اس کمپنی میں کام کرتے ہوئے ڈھائی سال ہو گئے تھے۔ وہ اتنی اچھی پوسٹ پر کام کر رہی تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنا پرانا خستہ حال گھر بیچ کر ایک بہت اچھی جگہ پر بہت اچھا گھر خریدا تھا۔ وہ عالیشان محل تو نہیں تھا مگر بہت خوبصورت تھا۔۔
اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول دیں اور دوبارہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئ تبھی اس نے دیکھا اماں اس کے سامنے بیٹھی اسے دیکھے جا رہی تھیں۔
"کیا ہو گیا ہے اماں؟ ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں؟" اس نے مسکراتے ہوئے ان سے پوچھا۔
"اس دکھ کو دیکھ رہی ہوں جو تو بظاہر تو نہیں دکھا رہی لیکن ماں ہوں نا ڈھکے چھپے جذبات دیکھ لیتی ہوں۔۔" جویریہ کی مسکراہٹ غائب ہو گئ اور اس نے اپنی اماں سے نظریں چرا لیں۔ اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ وہ اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اچھے برینڈ کے کپڑے، ڈائی شدہ کھلے بال اور میک اپ سے آرائش چہرہ اس کے ہر دکھ اور تکلیف پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔
"میری مان لے۔۔ چھوڑ دے یہ آفس کے کام وغیرہ۔۔ کیوں خود کو تھکا رہی ہے؟" سائرہ بیگم نے بڑے نرم لہجے میں اس سے کہا۔
"کام چھوڑ دوں گی تو پھر سے ہسپتالوں کے چکر لگاتی رہو گی اماں۔۔" وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے گویا ہوئی۔ سائرہ بیگم اٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھیں۔
"بھول جا نا اس کو۔۔" ان کا انداز پھر سے التجائیہ تھا۔
"بھول جائوں گی۔۔ مر جائوں گی تو بھول جائوں گی۔۔ لیکن جب تک زندہ ہوں یہ عذاب ساتھ رہے گا۔۔"
"میں نے اتنے اچھے رشتے دیکھیں ہیں تیرے لیے۔۔ چھوڑ دے اس کم ظرف کا پیچھا۔۔" جویریہ نے تکلیف سے چور نظروں سے انہیں گھورا اور پھر اپنے بیگ کی طرف متوجہ ہو گئ۔
"آمنہ بتا رہی تھی کہ کراچی میں اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی کام کرتی ہے۔۔" اس کے بیگ کھنگالتے ہاتھ رک گئے۔"دیکھ لیجئو وہ اس سے شادی بھی رچا لے گا۔۔ تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔۔" انہوں نے اب کی بار تلخ لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑی ہوئیں جبکہ جویریہ پتھرائی سی بیٹھی رہی اور پھر سر جھٹک کر رہ گئ اسے یقین تھا کہ کبیر بھی کسی اور سے شادی نہیں کر سکتا ایسا ہوتا تو وہ جویریہ سے ہی کرتا۔
"کون سی لڑکی؟؟" پھر بھی ناجانے کیوں اس نے پوچھ ہی لیا۔ سائرہ بیگم جو کچن کی طرف جا رہی تھیں پل بھر کو رکیں اور اس کی طرف گھومی۔
"اللہ جانے۔۔ مجھے تو نام بھی یاد نہیں آرہا۔ آمنہ نے بتایا تو تھا۔۔" وہ ذہن پر زور دیتے ہوئے سوچنے لگی لیکن یاد نہیں آیا۔جویریہ اپنا بیگ اٹھا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ تبھی سائرہ بیگم اونچی آواز میں بولی۔۔
"یاد آگیا۔۔ انابیہ۔۔ ہاں انابیہ نام تھا اس کا۔۔"کہتے ساتھ وہ چلی گئیں اور یہ وہ پل تھا جب جویریہ سلطان سیڑھیاں چڑھتے بری طرح سے لڑکھڑائی۔ بروقت اس نے ریلنگ کا سہارا لیا ورنہ وہ بری طرح سے گر جاتی۔ اس کا سانس تو جیسے رک گیا تھا۔ ایک بار پھر وہی نام جو ہمیشہ اس کے سانس رکنے کی وجہ بنتا تھا۔ اس نے بجلی کی تیزی سے اپنے بیگ سے فون نکالا اور بیگ ہاتھ سے چھوڑ دیا جو لڑکتے لڑکتے نیچے جا گرا۔ بمشکل ریلنگ کا سہارا لیے اس نے دوسرے ہاتھ کی کپکپاتی انگلیوں سے فیس بک کھولی۔ این۔جے بلڈرز کراچی کی ایک جانی مانی کمپنی تھی اس نے فوراً سے ان کا آفیشل اکاؤنٹ کھولا اور سکرول کرتی چلی گئ۔ پھر اس کی نظر ایک تصور پر رکی۔ وہ پریس کانفرنس کی کچھ تصویریں تھیں جن میں ہر جگہ وہی چہرہ تھا جس نے جویریہ کے چہرے کی رنگت کو سفید کر دیا تھا۔ اس نے موبائل بند کیا اور لڑکھڑاتے قدم اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔
●●●●●●●●●●●
صبح کے گیارہ بج چکے تھے اور وہ اس وقت ایک کیفے میں موجود تھی۔جس جگہ وہ بیٹھی تھی وہاں تازہ گلابوں کی خوشبو کو وہ اچھی طرح محسوس کر پا رہی تھی مگر یہ مہک بھی اس کے چہرے کے تاثرات کو خوشگوار کرنے میں ناکام ثابت ہورہی تھی۔ ہلکے سبز رنگ کا گائون اور ہم رنگ سکارف سر پر اوڑھے وہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے ایک پیر جھلاتی ہوئی گردن موڑ کر گلاس ونڈو سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ آفس جانے سے پہلے وہ سیدھا یہیں آئی تھی کسی کے بلانے پر۔۔ اور اب اسے انتظار کرتے ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا۔کچھ ہی دیر پہلے ویٹر اس کے سامنے کافی کا کپ رکھ کر گیا تھا۔ اکتاہٹ سے اس نے ایک گہرا سانس بھر کر اپنی کلائی میں پہنی گھڑی میں وقت دیکھا۔اب تو حد ہی ہو گئ تھی۔ اس نے ٹیبل پر پڑا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا تبھی اسے کن انکھیوں سے اپنی طرف کوئی شخص آتا ہوا دکھائی دیا۔ آخرکار انتظار کی گھڑی ختم ہوئی۔
“تھوڑی دیر کے لیے معذرت اور میرا انتظار کرنے کے لیے شکریہ۔۔" وہ اس کے قریب آکر کھنکھارا اور پھر سامنے رکھی چئیر پر بیٹھ گیا۔ حنان زبیر سرمئ رنگ کا تھری پیس سوٹ پہنے خوشگوار موڈ کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا۔۔ انابیہ نے گھونٹ بھر کے اپنا کپ ٹیبل پر رکھا۔ "ویسے یہ تو غلط بات ہے آپ نے صرف اپنے لیے ہی کافی منگوائی ہے۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے افسوس سے بولا۔ انابیہ نے ایک تلخ نگاہ اس پر ڈالی۔ اب زہر تو اس کیفے میں ملتا نہیں تھا ورنہ وہ ضرور اس کے لیے زہر منگوا دیتی۔
“اصولاً تو میرے لیے بھی کافی آپ کو منگوانی چاہیے تھی آفٹرآل میں آپ کی ریکویسٹ پر آئی ہوں لیکن شاید آپ کو بھی مزید تین سال درکار ہوں گے وقت کا پابند ہونے میں۔۔" اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم پیوست کیے کہنیاں ٹیبل پر ٹکائے بڑے ہی اطمینان بھرے لہجے میں کہا تو حنان زبیر ہنس دیا۔
“چلیں کوئی بات نہیں آپ میری ریکویسٹ پر آگئ ہیں یہی کافی ہے۔۔" وہ صبح آفس کے لیے تیار ہو رہی تھی تبھی حنان کا میسج اس کے موبائل پر آیا تھا کہ وہ اس سے ملنا چاہتا ہے جس کے جواب میں اس نے اوکے لکھا اور اس کے بتائے ہوئے پتے پر آگئ تھی۔
“ کام کی بات کریں کیوں بلایا ہے؟؟" اس نے سرد مہری سے کہتے ہوئے کپ دوبارہ اچک لیا۔
"ایک بزنس مین ہونے کے ناطے میں ٹو دا پوائنٹ بات کروں گا۔۔ آپ تو جانتی ہے بزنس مین کا ایک ہی کام اس کا پسندیدہ کام ہوتا ہے۔۔" اس نے کہتے ساتھ اپنا پہلو بدلا اور پیچھے کی طرف ٹیک لگا گیا۔۔
“ڈیلنگ۔۔" انابیہ نے گھونٹ بھر کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں جواب دیا۔
“ایگزیکٹلی!!اور یہی ڈیلنگ مجھے آپ تک لائی ہے مس انابیہ۔۔" وہ اطمنانیت سے بولا جبکہ اس کی بات پر انابیہ طنزیہ انداز سے مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
“سیدھی طرح کہیں نا مسٹر حنان کہ ڈیلنگ نہیں بلکہ ڈر آپ کو کھینچ لایا ہے مجھ تک۔۔ ایک باڈی گارڈ سے ڈر گئے آپ چچ چچ!!" اس کی آنکھوں میں ابھرتا طنز دیکھ کر حنان کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔
"باڈی گارڈ سے نہیں آپ سے۔۔" وہ آگے ہوتے ہوئے بولا۔۔ " آپ سے ڈر گیا ہوں۔۔ مجھے تو لگا میرا چہرہ ظاہر نہیں ہوگا لیکن دیکھیں آپ نے اور آپ کے سو کالڈ گارڈ نے آخر پکڑ ہی لیا مجھے۔۔ آپ سے ڈرنا چاہیے ایک باڈی گارڈ کو میرے پیچھے لگائے رکھا اور مجھے بھنک تک نہ پڑنے دی۔۔ امپریسو۔۔" وہ دات دینے کے انداز میں بولا تو انابیہ کے ہونٹ ایک دفعہ پھر فاتحانہ مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔
“لیکن ندامت اور شرمندگی سے تو میرا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے اسی لیےمیں نے جو کچھ بھی کیا ہے مجھے اس کا رتی بھر افسوس بھی نہیں ہے میں رائٹ پر تھا۔۔ جو کچھ آپ نے اس دن بھری محفل میں میرے ساتھ کیا یہ سب تو بنتا تھا۔۔ ایک بزنس پرسن ہونے کی حیثیت سے آپ کو دوسرے بزنس پرسن کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے ورنہ ایسے ری ایکشن تو دیکھنے کو ملیں گے۔۔ نیوٹن کے ٹھرڈ لائ سے تو آپ اچھی طرح واقف ہوں گی نا؟؟" اس کی اس قدر ڈھٹائی پر انابیہ لب بھینچے اسے کاٹدار نظروں سے دیکھے گئ۔
“تو اب ذرا میرے Give and take rule کی بات کرتے ہیں۔۔" اس کے چہرے پر مطمئن مسکراہٹ کا بسیرا تھا اور انابیہ کے چہرے پر زمانے کا غصہ تھا۔۔ "آپ مجھے اس بات کی گارنٹی دیں کہ زبیر انڈسٹریز کے بارے میں آپ جو کچھ بھی جانتی ہیں آپ اسے خود تک محدود رکھیں گی اور میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ آپ کے باڈی گارڈ کو کچھ نہیں کہوں گا۔۔" انابیہ کے ماتھے پر اب باقاعدہ بل پڑنے لگے تھے۔۔
"جب آپ کے علم میں یہ بات تھی تو بجائے مجھے تنگ کرنے اور مجھ پر حملے کروانے کے آپ کو مجھ سے ڈر کر رہنا چاہیے تھا۔۔" اب کی بار وہ ادھر ادھر کے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر بھڑکی۔ اس کا ضبط جواب دے گیا تھا۔ حنان نے اسے ہاتھ سے شانت ہونے کا اشارہ کیا۔
"اپنا بی پی ہائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔بجائے ماضی کے ہم مستقبل کی بات کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔ آپ ہمیں بھول جائیں ہم آپ کے گارڈ کو بھول جائیں گے کیونکہ وہ کوئی تیس مار خان نہیں ہے جو میرے خلاف کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔میں حنان زبیر ہوں اور وہاں لے جا کر مارتا ہوں جہاں انسان پانی کے لیے تڑپتا ہے۔۔"
"آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں؟؟" وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے اس قدر غرائی تھی کہ کیفے میں موجود آس پاس کے لوگوں نے اسے گردن گھما کر دیکھا تھا۔۔ حنان نے ارد گرد اپنی طرف متوجہ لوگوں کو دیکھا۔۔
“دھیرے مس انابیہ دھیرے۔۔۔" اس نے ہاتھ اوپر نیچے کرتے ہوئے کہا تو وہ گہرا سانس بھرتے پیچھے ہو گئ۔۔ "اسے دھمکی سمجھیں یا کچھ بھی۔ اب سے نہ آپ مجھے جانتی ہیں نہ میں آپ کو۔۔ ڈیل منظور ہے تو بتائیں نہیں تو وقت دے سکتا ہوں آپ کو سوچنے کے لیے۔۔"
کچھ پل دونوں طرف خاموشی رہی۔ حنان اس کے جواب کا منتظر تھا اور وہ مکمل خاموش بیٹھی سخت نظریں لیے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی۔
"منظور ہے۔۔" وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی اپنا پرس اٹھایا اور ٹیبل کے دہانوں پر ہاتھ رکھے تھوڑا اس کی طرف جھکی۔۔" اگر میرے گارڈ کو کچھ بھی ہوا تو میں بھی انابیہ احمد عالم ہوں وہاں لے جا کر ماروں گی جہاں سانس تک نہیں لے سکو گے۔۔" انتہائی غصے میں کہتے ہوئے وہ سرد نگاہوں سے اسے گھور کر وہاں سے چلی گئ۔وہ ایسوں کی دھمکیوں سے ڈرنے والی لڑکی نہیں تھی مگر فرہاد نے اس کے لیے بہت کچھ کیا تھا اور وہ اس کی زندگی کے لیے کم از کم اتنا تو کر ہی سکتی تھی ورنہ اس شخص کو اس کے کیے کی سزا دینا انابیہ کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ ۔۔ حنان زبیر نے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور جب تک وہ منظر سے غائب نہ ہوئی تب تک دیکھتا ہی رہا۔۔اسے اب انابیہ کے حوالے سے کافی اطمینان تھا۔
پارکنگ میں پہنچتے ہی وہ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھی جہاں ڈرائیور پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولے اس کا منتظر کھڑا تھا تبھی چلتے چلتے دور کھڑے ایک بائیک پر بیٹھے شخص پر نظر پڑتے ہی اس کے قدم بےساختہ رک گئے۔۔ وہ وہی تھی Ninja ZX-10R اور اس پر سوار سیاہ ہیلمٹ پہنے شخص وہی تھا۔۔ سٹیل کی انگوٹھیوں والا فرہاد میر۔۔ اپنی زندگی کا دشمن۔۔جو اس کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا۔۔ جسے اپنی جان سے زیادہ انابیہ کی جان کی فکر تھی۔ دانت پر دانت جمائے اور مٹھی بھینچے وہ اسے دیکھے گئ۔۔ آج اس کا دل کیا کہ سارا غصہ وہ اس سر پھرے پر اتار ہی دے اور ایسا ہی ہوتا اگر وہ وہیں رکتا۔ انابیہ نے جیسے ہی اس تک جانے کے لیے اپنے قدموں کو حرکت دی تو فرہاد نے فوراً سے اپنی بائیک سٹارٹ کی اور بڑے ہی ڈھیٹوں کی طرح اس کے سامنے سے ہوتا ہوا چلا گیا۔ وہ منہ کھولے حیرت اور غصے سے اسے جاتا ہوا دیکھے گئ۔
“جاہل بدتمیز!!اس کے لیے میں کیسے کیسے لوگوں سے ڈیلنگ کرتی پھر رہی ہوں اور اسے دیکھو زرا۔۔ فرہاد کہیں کا!! میر کہیں کا!!" سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اونچا اونچا چیخ کر وہ پیر پٹختی اپنی گاڑی میں جا بیٹھی۔
●●●●●●●●●●●
شام میں گھر آتے ہی وہ سیدھا عالیان کےکمرے میں گئ تھی۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اس نے چاروں طرف نظر گھمائی لیکن وہ وہاں نہیں تھا پھر اس نے گردن بائیں طرف گھماکر دیکھاجہاں سلائیڈنگ ڈور کے شیشے سے وہ باآسانی دوسری طرف ٹریڈ مل پر بھاگتے ہوئے لڑکے کو دیکھ سکتی تھی۔ سر نفی میں ہلاتے ہوئے اس کے قدم اب اس جانب بڑھ گئے۔ سلائڈنگ ڈو ر کھولتے ہی وہ دیوار سے ٹیک لگائے ارو ہاتھ سینے پر باندھے افسوس بھری نگاہوں سے اسے دیکھے گئ جو آدھی آستینوں کی پولو شرٹ اور ٹراؤزر پہنے کانوں میں بڑے ہیڈفونز لگائے پسینے سے شرابورمسلسل ٹریڈمل پر بھاگ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں عالیان کو وہاں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے بھاگتے ہوئے گردن گھما کر تھورآ پیچھے دیکھا جہاں وہ کھڑی اسے بغور آنکھیں چھوٹی کیے گھورے جا رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ ہنسا، مشین روکی اور ہیڈفونز اتار کر اس نےفرش پر قدم رکھے۔
"کب سے کھڑی ہو یہاں؟" اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"یہ کیا طریقہ ہے؟ کل تمہیں گولی لگی ہے اور بجائے آرام کرنے کے تم ان مشینوں کے ساتھ لگ گئے ہو۔۔" انابیہ نے اس کے سوال کو اگنور کرتے ہوئے تیوڑیاں چڑھائے اس سے کہا اور بجائے جواب دینے کے وہ ہنستے ہوئے اس کے ساتھ سے ہو کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"میں نے کچھ پوچھاہے جواب دینا پسند کرو گے؟" وہ فوراً سے اس کے پیچھے آتے ہوئے بولی ۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔" اس نے مختصراً جواب دیتے ہوئے الماری میں سے تولیہ نکالا جس سے اب وہ اپنا چہرہ اور گردن صاف کر رہا تھا۔ انابیہ نے بغور اس کا بازو دیکھا جس پر اب بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ایک دم سے اس کے چہرے پر افسردگی سی چھائی تھی۔
"تمہیں یقین ہے گولی ظفر نے چلائی تھی؟" نظریں اس کے بازو پر ٹکائے ہوئے انابیہ نے اس سے پوچھا جس پر اسنے سر اثبات میں ہلایا۔ " پہلے باپ اور اب بیٹا۔۔ پتہ نہیں چاہتے کیا ہیں یہ ہم سے؟" وہ پھر کچھ نہیں بولا اور سائڈ ٹیبل پر پڑی پانی کی بوتل اٹھا کر پانی پینے لگا۔ انابیہ نے بغور اس کا چہرہ دیکھا جس پر پھیلا سکون اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
"تمہارے چہرے پر کس بات کا اطمینان ہے ہاں؟ کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں؟ ایک بات بتا دوں عالیان یہ اٹلی نہیں ہے۔۔" پانی پیتے پیتےوہ رک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ بوتل واپس ٹیبل پر رکھی اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
" تو کیا کروں؟ ڈر جاؤں تمہاری طرح؟" اس کے تاثرات نارمل تھے لیکن آواز میں ضرور تلخی تھی۔ انابیہ کے تاثرات بلکل ڈھیلے پڑ گئے۔۔ "چل رہا ہے میرے دماغ میں بہت کچھ۔ لیکن میں فلحال کچھ نہیں کر سکتا کیوںکہ سارے دروازے بند دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر میں دروازے توڑ نہیں سکتا صرف انتظار کر سکتا ہوں ان کے کھلنے کا۔۔اور مجھے یقین ہے اگر آج وقت ان کا ہے تو ایک دفعہ وقت میری مٹھی میں ضرور ہوگا۔۔ " اس نے اپنی بند مٹھی انابیہ کے سامنے کرتے ہوئے کہا جو اس کی سیا ہ آنکھوں میں درد ، تکلیف، غصہ، بدلے کی آگ سب دیکھ سکتی تھی۔۔"اور تب تم دیکھنا کیسے میں ایک ہی وار میں ان کو تباہ کر دوں گا۔۔ میں نے جزبات میں آکر فیصلے کرنا چھوڑ دیا ہے اب میں دماغ کا استعمال کرنا چاہ رہا ہوں اور دماغ کہتا ہے صبر کرو۔" ایک ہی سانس میں وہ سب کچھ کہتا اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ انابیہ نے گہراسانس بھرا اور بلکل خاموش سی کھڑی رہی۔
" مجھے تم سے ایک کام ہے۔۔" اس کی آواز پر عالیان نے شرارتی انداز سے مسکرا کر اسے دیکھا۔
"اب آئی نا لائن پر۔۔ جانتا تھا۔۔حکم کرو۔۔" وہ سراوپرنیچے ہلانے لگا تبھی انابیہ کے قدم ہلے۔ اس کا رخ عالیان کی طرف نہیں تھا بلکہ سامنے دیوار کی طرف تھا۔ دیوار کے سامنے رکتے ہی اس نے سامنے لگی بڑی تصویر کو دیکھا جو کہ ایک شیشے کے فریم میں قید تھی۔ وہ ایک فیملی فوٹو تھی۔ ماما جان اور بابا جان ساتھ کھڑے مسکرا رہے تھے۔ ان کی مسکراہٹ کتنی دلکش تھی نا اسے لگا شاید وہ پہلی بار انہیں اتنے غور سے دیکھ رہی ہے۔ ان دونوں کے بلکل ساتھ تایا ابو اور تائی جان تھے۔ وہ بھی مسکرا رہے تھے۔ ان دونوں کے آگے عالیان اور انابیہ ساتھ کھڑے تھے اور ماما جان اور بابا جان کے آگے ردا اور منو موجود تھے۔ سب کتنے خوش تھے نا۔ یہ ساری مسکراہٹیں کہاں دفن ہو گئیں تھیں؟ ان سب کی خوشیوں کو کس کی نظر کھا گئ تھی؟ کیوں کسی سے ان کا سکون برداشت نہیں ہوا؟ کیوں ان سب کو چپ چاپ شہر خاموشاں میں چھوڑ دیا گیا؟ اس سے بھی بڑا سوال کیا انہیں کبھی انصاف ملے گا؟ یا ان مسکراہٹوں کے قاتل سرعام پھرتے رہیں گے۔۔ ملے گا ۔۔ انہیں انصاف ضرور ملے گا۔۔
●●●●●●●●●●●●
سیاہی آسمان میں گھل چکی تھی اور ٹھنڈ نے شدت اختیار کر لی تھی۔ ایسے میں وہ سڑک پر سفید گاڑی کی رفتار نارمل رکھتے ہوئے ڈرائیو کر رہا تھا۔
"جہانگیر انکل نے میرے لیے ایک گارڈ اسائن کیا تھا اور اسے میں نے نکال دیا تھا۔۔" وہ اسی تصویر کو دیکھتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ گلوگیر لہجے میں بولی۔ عالیان نے مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ پشت کیے کھڑی تھی۔ "تم تو جانتے ہو مجھے گارڈز سے نفرت ہے وجہ بھی تم جانتے ہو۔۔" وہ سابقہ حالت میں ہی کھڑی تھی۔
اس نے رفتار تھوڑی سی بڑھائی شاید وہ بہت جلدی میں تھا یا شاید وہ تجسس کا شکار تھا۔ اسے جلد پہنچنا تھا۔
“اسے نکالنے کے باوجود بھی وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ میرے منع کرنے کے باوجود بھی ہر جگہ میری مدد کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ میں پچھلے دنوں سے کچھ مشکلات میں جکڑی ہوئی تھی جو صرف وہ جانتا ہے اور اسی کہ وجہ سے شاید میں زندہ بھی ہوں۔۔" وہ اس کی طرف گھومی اور تب اس نے عالیان کے چہرے پر پھیلی بےتحاشا حیرت کو دیکھا ۔ اس کے ذہن میں بہت سوال تھے مگر وہ چپ رہا وہ بس اس کی سننا چاہتا تھا۔
اس نے ایک ہاتھ سٹیرنگ پر رکھے دوسرے ہاتھ سے ڈیش بورڈ پر پڑا اپنا فون اٹھایا اور پھر ایک نمبر ملا کر فون کان سے لگایا۔۔ رنگ جا رہی تھی۔
"پریشان مت ہو۔ اب سب ٹھیک ہے۔ " اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا اور پھر چل کر اس کے قریب گئ۔ اب کی بار وہ بس خفگی سے اسے دیکھ رہا تھا شاید اس لیے کہ انابیہ نے اسے ہر بات سے انجان کیوں رکھا۔
بس رنگ ہی جا رہی تھی اور مسلسل جا رہی تھی۔ کافی دفعہ ملانے پر بھی جواب ندارد۔ اس نے اکتا کر فون واپس سے ڈیش بورڈ پر پٹخ دیا۔ اب کی بار اس کے دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر تھے اور خاموش نظریں سامنے سڑک پر۔
“اب یہ سب تم مجھے کیوں بتا رہی ہو؟؟" اس کے انداز میں شکایت تھی وہ ضرور ہرٹ ہوا تھا۔ انابیہ تلخی سے مسکرائی۔۔
“میں چاہتی ہوں تم اسے جا کر روکو۔ اسے منع کرو کہ میرا پیچھا چھوڑ دے۔ میں بہت دفعہ منع کر چکی ہوں وہ باز نہیں آتا۔ تم میرے کزن ہو اور اسے اچھے سے سمجھا سکتے ہو چاہے تو سختی کرو چاہے جو بھی۔ "
اس نے گاڑی روک دی۔۔اسے جہاں پہنچنا تھا وہ وہاں پہنچ گیا تھا۔ ونڈ اسکرین سے جھانک کر اس نے دائیں طرف گھر کو دیکھا۔
“ فرہاد میر نام ہے اس کا اور وہ پاگل ہے۔ محبت کرتا ہے مجھ سے اور تبھی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ خیر میں تمہیں اس کا ایڈریس واٹس ایپ کر دیتی ہوں جب تمہیں مناسب لگے چلے جانا۔۔" وہ یہ کہتے ہی وہاں سے جانے لگی۔ پھر رک کر اس کی طرف گھومی۔۔ "وہ بہت تیز ہے بہت زیادہ۔۔ اور ڈرتا تو کسی کے باپ سے بھی نہیں ہے۔۔ آئی ہوپ تم کامیاب رہو گے۔۔" وہ چلی گئ اور عالیان بالکل ششد کھڑا رہا۔ اس کی آخری بات میں ایسا کیا تھا جسے اس نے یوں حیران پریشان کر دیا تھا۔ اگلے ہی لمحے جیسے اسے سمجھ آگئ تھی۔ لمحہ بھر کی دیر کیے بغیر وہ الماری کی طرف بڑھا کپڑے نکالے اور واش روم میں گھس گیا۔ اسے جلد از جلد اس گارڈ کے پتے پر پہنچنا تھا۔
اور اب وہ اس پتے پر کھڑا تھا جس پر پہنچنے کے لیے وہ کب سے بےچین تھا۔ گاڑی سے اتر کر وہ گیٹ تک گیا۔ گیٹ کھلا تھا اور وہاں کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا۔ بنا ادھر ادھر دیکھے وہ گیٹ کو پار کرتے داخلی دروازے تک بڑھ گیا۔ دروازہ بند تھا لیکن اسے یقین تھا آج ایک دروازہ تو ضرور کھلے گا وہ دروازہ جس تک اسے انابیہ کے ذریعے پہنچایا گیا تھا۔
“میں جانتا ہوں انابیہ تم نے مجھے اس دروازے تک کیوں پہنچایا ہے۔۔" ایک گہرا سانس بھر کر اس نے گھنٹی بجائی۔۔ پہلی اور پھر دوسری۔۔ اور دروازہ کھل گیا۔ تبھی ایک شخص دروازے کے اس پار سے عالیان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
“کون ہو بھائی؟؟" بڑی بڑی سرمئی آنکھیں۔۔ سانولی رنگت۔۔ پونی میں بندھے بال۔۔ گھنی داڑھی اور قد میں تقریباً عالیان کے برابر کھڑا شخص اس سے پوچھ رہا تھا۔
“انابیہ کا کزن۔۔ عالیان ناصر۔۔ اندر آسکتا ہوں؟" اس نے قدرے نرمی سے کہا۔۔ تو سامنے کھڑے شخص نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ عالیان مسکرایا اور اس کے ساتھ گھر کے اندر چلا گیا۔
●●●●●●●●●●●●
وہ لونگ روم میں ٹانگیں اوپر کیے صوفے پر بیٹھی تھی۔ عالیان کو گئے ہوئے دو گھنٹوں سے زیادہ وقت گزر گیا تھا۔ ایک نظر گھما کر اس نے تایا ابو کے کمرے کی طرف دیکھا جس کا دروازہ بند تھا یعنی وہ سو چکے تھے۔ پھر اس نے ایک نظر موبائل کو دیکھا جو بلکل اس کی طرح خاموش پڑا تھا۔ اسے ایک دفعہ تو کال کر کے اطلاع کرنی چاہئے تھی۔ وہ خود تو خاموش تھی لیکن اس کا دماغ مسلسل بولے جا رہا تھا کہ انابیہ تم نے جو بھی کیا بلکل ٹھیک کیا۔ تمہیں یہی کرنا تھا۔ دوسری طرف اس کا ضمیر تھا جو مسلسل اسے ملامت کر رہا تھا کہ انابیہ تم نے ایک محبت کرنے والے شخص کا استعمال کیا ہے۔۔ اس کا دماغ تو جیسے پھٹنے پر آگیا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر جکڑ کر جھکا گئ۔
“میں جانتی ہوں میں نے تمہارا استعمال کیا ہے۔ ایک محبت کرنے والے دل کا استعمال کیا ہے لیکن میں کیا کرتی میرے پاس کوئی دوسرا آپشن تھا ہی نہیں۔۔" بے ساختہ آنسو آنکھوں سے جھلک پڑے۔
“میں عالیان کو اس قدر ٹوٹا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی مجھے اسے تمہارے دروازے تک پہنچانا تھا۔ تم نے کہا تھا نا مجھے جب تمہاری ضرورت ہو تو میں تمہیں چنوں۔۔ تو میں نے چن لیا تمہیں کیونکہ مجھے۔۔" پل بھر کو رکی۔۔ "ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔۔ اور میں جانتی ہوں تم میرے لیے کچھ بھی کر سکتے ہو ۔۔ کچھ بھی۔۔" اس کی آواز جیسے کانپ رہی تھی۔ “اور میں۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتی۔۔ ایک لفظ محبت بھی نہیں۔۔ میں جانتی ہوں اس سب کے لیے تم مجھے معاف کر دو گے۔۔ تم کر دو گے۔۔" اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھے۔ پھر اس نے شیشے سے باہر دیکھا جہاں گیٹ سے ایک گاڑی اندر داخل ہوئی۔ عالیان واپس آگیا تھا۔ اس نے تیزی سے اپنے دوپٹے سے اپنا چہرہ رگڑ کر صاف کیا تاکہ آنسوؤں کے کوئی آثار بھی باقی نہ رہیں۔ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا لیکن پھر لونگ روم کے کھلے دروازے سے وہ انابیہ کو بیٹھا دیکھ کر اس کی طرف جانے لگا۔
"تمہیں سو جانا چاہیے تھا۔۔" وہ فوراً اندر آتے ہی بولا۔
“سو جائوں گی ۔۔ تم بتائو۔ ایسی بھی کیا ایمرجنسی ہو گئ تھی جو آج رات ہی چلے گئے؟؟" اس کی تفتیشی نظروں کا مرکز عالیان کا چہرہ تھا ۔
"تم یہی تو چاہتی تھی۔۔" وہ کندھے اچکا کر بولتے ہوئے صوفے پر ٹک کر بیٹھ گیا۔
"تو ہو گیا وہ منع؟؟ دھمکی دے کر آئے ہو؟؟" وہ اداکاری اچھی کر لیتی تھی لیکن سامنے والا بھی اداکاری فوراً پہچان لینے میں ماہر تھا۔
"ڈرامے بازیاں مت کرو۔۔ بہرحال تم جو چاہتی تھی بلکل ویسا ہی ہوا ہے۔۔ تم نے ٹھیک کہا تھا وہ بہت تیز ہے لیکن انابیہ میڈم وہ تمہاری توقعات سے بھی زیادہ تیز ہے۔۔ تم اتنے دنوں میں اسے اتنا نہیں جان سکی جتنا میں اسے کچھ گھنٹوں میں جان گیا ہوں۔۔" انابیہ کی سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر تھیں وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا اس کے لیے خود سے جاننا تھوڑا مشکل تھا۔
اس نے ناک کے ذریعے گیلی سانس اندر کھینچی اور کہا۔۔"اسے اس بارے میں پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔ وہ ہرٹ ہوگا۔۔"
“وہ پہلے سے ہی ہرٹ ہے مزید کیا ہوگا۔۔" عالیان نے عام سے انداز میں کہا لیکن انابیہ کو ضرور تکلیف محسوس ہوئی تھی۔ "ایک ایسی بات بتائوں اس کے بارے جو تم بھی نہیں جانتی؟" اب کی بار وہ آگے ہوتے ہوئے تیزی سے بولا۔ انابیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور سر ہاں میں ہلایا۔ وہ جاننا چاہتی تھی۔ ایسا بھی کیا تھا جو وہ نہیں جانتی اور عالیان ایک ملاقات میں ہی جان گیا؟
“وہ جہانزیب کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔۔" اور یہ بات صرف بات نہیں تھی ایک بم تھا جو اچانک سے انابیہ کو اپنے سر پر پھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ "میں نہیں جانتا کیسے لیکن انابیہ وہ اس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے ۔۔"
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟؟" وہ بےطرح سے حیران ہوتے ہوئے بولی۔
“وہ ہمارے بہت کام آسکے گا بہت۔۔" اس کے چہرے پر مطمئن مسکراہٹ تھی لیکن انابیہ کا چہرہ برف کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔۔
"عالیان مجھ سے وعدہ کرو نہ تو تم خود کو کچھ ہونے دو گے نہ اسے۔۔" وہ ٹرانس کی سی حالت میں بول رہی تھی۔۔ “مجھ سے وعدہ کرو عالیان کوئی خون خرابہ نہیں کرو گے۔۔"
"انابیہ انابیہ۔۔ اپنی جان کی گارنٹی نہیں دے سکتا لیکن ہاں ان ہاتھوں سے اب کسی گناہگار کا قتل بھی نہیں ہوگا وعدہ۔۔ ہم صرف کھیل کھیلیں گے۔۔ جہانزیب کو اس کے طریقے سے نہیں اپنے طریقے سے سبق سکھائیں گے۔۔" اس نے بڑے اعتماد سے کہا۔ وہ اس کے چہرے پر پھیلا خوف اور اس کی اڑتی رنگت دیکھ سکتا تھا۔ ایک دم سے اسے لگا جیسے اسے گھٹن محسوس ہونے لگی ہے اس لیے بنا کچھ کہے وہ اٹھ کر وہاں سے سیڑھیاں پھلانگتے چلی گئ۔ عالیان وہیں بیٹھا رہا۔ وہ اب بھی مطمئن تھا۔
●●●●●●●●●●●
دھوپ کی ترچھی کرنیں خان حویلی پر پڑ رہی تھی۔ اس مکمل سفید حویلی کی اپنی ہی شان تھی اور خوبصورتی میں تو سب کو مات دیتی تھی۔ پورچ میں زاروقطار گاڑیاں کھڑی تھیں تبھی ان گاڑیوں کے درمیان سے ایک ہیوی بائیک تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن پھر ٹھیک گیٹ کے سامنے کھڑے گارڈز کو دیکھ کر بائیک ایک زوردار بریک سے روک دی گئ۔ آس پاس اڑتی دھول ہی دھول جمع ہو گئ تھی اس کی وجہ بائیک کی رفتار تھی۔ سیاہ وردی پہنے گارڈز کے عین درمیان میں سفید قمیض شلوار اور سر پر سفید پگڑی پہنے دلاور کھڑا تھا۔ شالا کے بعد اب دلاور ہی جہانزیب کا سب سے قریبی اور وفادار بندہ تھا اور اسی کی وجہ سے بائیک کو رکنا پڑا ورنہ تو شاید وہ گارڈز کو چیرتی ہوئی نکل جاتی۔
بائیک پر بیٹھے بیٹھے ہی اس نے سیاہ ہیلمٹ اتارا ۔ بیک وقت ہی اس کا ہئیر کیچر بھی بالوں سے جدا ہو کر زمین پر گر گیا تھا۔ ہیلمٹ کو ہاتھوں میں پکڑے اس نے اپنے سر کو دائیں بائیں جھٹکا تو اس کے کھلے بھورے بال شانوں پر بکھر گئے۔ دلاور کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے وہ بڑے سٹائل سے بائیک سے اتری ہیلمٹ اس پر رکھا اور اب چل کر اس کے قریب جانے لگی۔ کالی لیدر کی جیکٹ اور پینٹ پہنے ۔گندمی رنگت۔ بھوری آنکھیں۔ کھلے بھورے بال جو کندھوں سے تھوڑا نیچے آتے تھے اور لمبے قد کی مالکن اب دلاور خان کے سامنے کھڑی سینے پر ہاتھ باندھے سر تا پیر اسے گھور رہی تھی۔
"چھوٹی مالکن آپ ایسے اکیلے باہر نہیں جا سکتیں۔ سائیں کو پتہ چلے گا تو وہ غضب کا غصہ ہوں گے۔" اس نے قدرے نرم اور عاجزانہ لہجے میں سامنے کھڑی لڑکی سے کہا۔
“ہمم۔ سائیں کو پتہ چلے گا تو غضب کا غصہ ہوں گے۔۔ سمجھ گئ۔۔" تھوڑا رکی اور پھر غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ "آپ کو شوگر ہے نا؟" اس نے آنکھیں چھوٹی کیے دلاور سے پوچھا جس پر اس نے حیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سر کو ہاں میں جنبش دی۔
“آپ کو ڈاکٹر نے میٹھا کھانے سے منع کیا ہے اور آپ کی بیوی نے بھی۔۔"وہ مزے سے بول رہی تھی جبکہ دلاور بس ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔" سنا ہے آپ بابا کے بعد اپنی بیوی سے بہت ڈرتے ہیں۔۔ کیا ہوگا جب ان کو پتہ چلے گا کہ ان کا شوہر ایک کپ چائے میں تین چمچ چینی ڈال کر پیتا ہے۔ وہ بھی صبح شام۔ چچ چچ۔۔" وہ افسوس سے سر جھٹکتے ہوئے بول رہی تھی جبکہ اس کے پاس اس قدر معلومات پر تو دلاور خان اپنا کھلا منہ بند کرنا بھول ہی گیا۔
“میں کہیں نہیں جا رہی خوش۔۔ فلحال آپ کے لیے سرونٹ کوارٹر خالی کروانے جا رہی ہوں۔ جو کبھی کبھی آپ اپنے گھر جاتے تھے وہ بھی نہیں جا سکیں گے۔۔ ظاہر ہے بیگم سب جاننے کے بعد غضب کا غصہ ہوں گی۔۔ آپ کو کوارٹر کی ضرورت تو پڑے گی۔۔" سر ہلاتے ہلاتے وہ کہہ کر پلٹ کر جانے لگی جبکہ دلاور تو فوراً سے اس کے پیچھے گیا۔
“ارے چھوٹی مالکن اس کو کچھ بھی مت بتائیے گا نہ صرف وہ میری اماں بھی مجھے گھر میں نہیں گھسنے دیں گی۔۔ وہ غضب کا ناراض ہوں گے۔۔" وہ التجائیہ انداز میں کہتا گیا تو مسکان کے چہرے پر مسکان پھیلی۔ گول چہرے پر ڈمپل نمایاں ہوئے۔
"آئندہ روکیں گے میرا راستہ؟؟" وہ تنبیہی انداز میں پوچھنے لگی۔
“میری ایسی کیا مجال جو میں آپ کا راستہ روکوں۔ وہ تو بس سائیں کا حکم تھا کہ آپ کو اکیلا نہ چھوڑیں۔۔" اس کا انداز عاجزانہ تھا۔
“تو ٹھیک۔۔ سب گارڈز کو سمجھا دیں ۔۔ نہ بابا کو کچھ پتہ چلے گا اور نہ آپ کی بیگم کو۔۔" وہ تھوڑا اس کی طرف جھک کر فاتحانہ انداز سے بولی۔۔" اب جائیں اور گیٹ کھلوا دیں۔ اس بات کو یقینی بنائیے گا کہ کوئی بھی میرے پیچھے نہ آئے سمجھے آپ۔۔" جس پر دلاور نے بمشکل سر اثبات میں ہلایا۔
"گیٹ کھول دو۔۔" اس نے تیز آواز سے کہا تو اگلے ہی لمحے گیٹ کھول دیا گیا۔ مسکان جہانزیب مسکراتے ہوئے بائیک پر سوار ہوئی ہیلمٹ پہنا اور سر کو دلاور کی طرف گھمایا۔
“شوگر کو ہلکا مت لیں۔۔ اپنا خیال رکھا کریں زندگی نے بار بار کب ملنا ہے۔۔" کہتے ہی وہ تیز سپیڈ سے بائیک کو اڑاتے ہوئے لے گئ۔ دلاور خان نے مسکراتے ہوئے اسے جاتے دیکھا۔۔
"دوسروں کو زندگی پر سبق دینے والی خود کی زندگی کی دشمن ہے۔۔" وہ اس کی بائیک کی حد سے زیادہ تیز سپیڈ کو دیکھ کر بولا تھا۔
●●●●●●●●●●●
اس کے بعد وہ تقریباً ایک گھنٹہ بغیر رکے حیدرآباد کی سڑکوں پر اپنی بائیک جہاز کی طرح اڑاتی رہی۔ پھر کچھ دیر کے لیے اس نے بائیک ایک سڑک کے کنارے روکی۔ اس سڑک کے ٹھیک دائیں طرف کھیت تھے اور بائیں طرف دوسری سڑک تھی۔ اس سے پہلے وہ ہیلمٹ اتار کر ایک گہرا سانس لیتی ایک بائیک اس کے ساتھ سے ہوتے ہوئے گزری جسکی رفتار بہت نارمل تھی۔ وہ اس بائیکر کو دیکھتی رہی جس نے اگلے ہی لمحے چلتی بائیک سے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ سر کو جنبش دی اور ہاتھ کو چیلنجنگ انداز سے اس کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ ہیلمٹ کے اندر مسکان کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ مقابل اسے چیلنج کر رہا تھا تو وہ جہانزیب عالم خان کی اکلوتی بیٹی مسکان جہانزیب کیسے رکتی۔ اس نے تیزی سے بائیک سٹارٹ کی اور اس کے پیچھے دوڑائی۔ دوسرے بائیکر نے اپنی بائیک کی رفتار مزید بڑھائی۔ وہ آگے تھا اور مسکان اس سے پیچھے۔ پیچھے رہنے کے ڈر سے مسکان نے بھی رفتار تیز کی اور اگلے ہی لمحے وہ آگے تھی اور وہ پیچھے تھا۔ وہ اپنی بائیک کو دائیں بائیں جھکاتی ہوئی جا رہی تھی۔ دفعتاً پیچھے والا اس کے برابر آیا۔ مسکان نے دائیں طرف گردن گھما کر اسے دیکھا جو بائیں ہاتھ کا انگوٹھا اٹھا کر اسے دات دے رہا تھا جس پر اس نے سر کو تھوڑا خم دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بائیکر پھر سے آگے ہو گیا۔ مسکان نے سر جھٹکا وہ اسے ڈاج کر گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سپیڈ بڑھاتی۔ مقابل نے آگے جا کر بائیک روک دی۔۔ اسے دیکھتے ہی مسکان بھی اس کے قریب جا کر رکی۔ وہ اب بائیک سےاتر گیا تھا جبکہ مسکان نے بائیک پر بیٹھے بیٹھے ہی ہیلمٹ اتارا۔ تیز ہوا کا جھونکا اس کے بالوں کو چھیڑ گیا تھا۔
“کیا ہوا؟ اتنی جلدی ہار مان لی؟" اس نے گہرے گہرے سانس بھرتے ہنستے ہوئے کہا۔ ہیلمٹ کے اندر سے ہی اسے اس شخص کی ہنسی سنائی دی۔" وہ ہیلمٹ کب اتارے گا؟؟" وہ دل ہی دل میں خود سے کہہ رہی تھی۔۔ تبھی اس نے ہیلمٹ اتار دیا۔۔ وہ کچھ اور مانگ لیتی تو وہ بھی اسے ملتا۔ وہ اپنی نظریں اس کے چہرے پر سے ہٹانا بھول ہی گئ۔ کچھ چہرے پہلی نظر میں ہی اتنے اچھے لگ جاتے ہیں کہ ان پر سے نظریں ہٹانا بدقسمتی سمجھی جاتی ہے۔
“تھکی ہوئی تو آپ لگ رہی ہیں۔۔" اسکی آواز پر وہ جھرجھری لے کر سیدھی ہوئی۔ وہ اس کی بائیک کے بلکل ساتھ کھڑا تھا اتنا کہ وہ اس کی آنکھوں کے اندر گہرائی تک دیکھ چکی تھی۔ پھر اس نے اپنی نظریں اس پر سے ہٹا دیں۔ وہ کیا سوچے گا کہ پہلی دفعہ کوئی خوبصورت لڑکا دیکھا ہے۔ دل ہی دل میں خود کو کوستے بائیک سے اتری گئ۔
"فرہاد میر۔۔" اس نے اپنا ہاتھ مسکان کی طرف بڑھایا۔ مسکان نے اس کے دستانہ پہنے ہاتھ کو دیکھا جس کی درمیان کی تین انگلیوں میں تین بڑی بڑی سلور انگوٹھیاں تھیں۔
"مسکان جہانزیب عالم۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے فرہاد کا ہاتھ تھام کر کہا۔
"خود پر نہیں تو حیدرآباد کی سڑکوں پر رحم کریں۔" وہ اچھا بولتا تھا۔ وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ کر اس کی بائیک کو دیکھنے لگی۔
"کافی خوبصورت ہے آپ کی Ninja ZX-10R۔۔" وہ بائیک کے چاروں طرف گھوم کر اسے دیکھ رہی تھی۔
"آپ کی بائیک بھی کمال کی ہے۔ " جواباً اس نے بھی اس کی بائیک کو سراہتے ہوئے کہا جو ڈارک بلیو کلر کی تھی۔
"آپ کو حیدرآباد میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔ نئے آئیں ہیں کیا؟" وہ اب اس کے سامنے کھڑی تھی۔
"میری رہائش کراچی کی ہے۔ حیدرآباد جاب کے سلسلے میں آیا تھا۔۔آج واپس جانا ہے۔" یکدم ہی مسکان کے چہرے پر اداسی چھائی۔ ایسا کیوں ہوا اس کا اندازہ اسے اتنی جلدی نہیں ہو سکتا تھا۔
"ہم دیر سے ملے۔۔"اس نے اتنا افسوس سے کہا تھا کہ فرہاد نے پورا گھوم کر اسے دیکھا۔ اس کی خود پر جمی نظریں دیکھ کر وہ ایک دم بوکھلا سی گئ۔۔"مم۔ میرا مطلب پہلے مل لیتے تو میں اپنی ہار کا بدلہ لے لیتی آپ سے۔۔" اس نے فوراً خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔
"تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ میرے پاس ابھی کافی وقت ہے میں آپ کو مجھے ہرانے کا ایک موقع دے سکتا ہوں۔۔" مسکان کے چہرے پر ایک دم بہار سی آئی ۔
"سچ میں؟؟" وہ خوشی سے اس قدر چلائی تھی کہ فرہاد نا سمجھی سے اسے دیکھے گیا اور اگلے ہی لمحے مسکرا بھی دیا۔ اس سے پہلے مسکان کو ایک اور ضروری کام کرنا تھا۔
"بس ایک منٹ۔۔ مجھے ایک ضروری کال کرنی ہے۔۔" اس نے روانی میں کہتے ہوئے پینٹ کی جیب سے موبائل نکال کر چہرے کے سامنے کیا۔ ایک نظر اٹھا کر اس نے فرہاد کو دیکھا جو اس کی بائیک کی طرف متوجہ تھا۔ اس نے کوئی نمبر نہیں ملایا ۔ فون سائلنٹ پر کیا۔۔ اسے وائیبریشن موڈ سے ہٹایا۔ اور برائیٹنیس بلکل کم کردی۔ پھر فرہاد کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
"اوہو۔ اس میں تو بیلنس ہی نہیں ہے۔۔ آپ مجھے اپنا فون دے سکتے ہیں مجھے بہت ضروری کال کرنی ہے۔۔"اس نے معصومانہ انداز سے کہا تو فرہاد نے فوراً اپنا فون اسے دیا۔
"تھینک یو۔۔مسٹر رائڈر۔" اس نے مسکراتے ہوئے دوسری طرف گھوم کر ایک نمبر ملایا۔ فرہاد اس بات سے بلکل انجان تھا کہ وہ جس نمبر پر کال کر رہی تھی وہ اس کی اپنی ہی جیب میں بج رہا تھا۔ بس کام ہو گیا تھا وہ دوبارہ اس کی طرف گھومی۔
"نہیں اٹھا رہی لگتا ہے کہیں کھو گئ ہے۔۔" اس نے فرہاد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گم صم انداز سے کہا۔
"پھر کب آئو گے؟" فرہاد نے اس کے ہاتھ سے فون لیا اور جیب میں ڈالا۔
"کب آئوں؟؟" کمال ہے وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر حال میں آئی۔
"مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ جب دل کرے آجانا۔ حیدرآباد دل سے ویلکم کرتا ہے۔۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے اپنی بائیک کی طرف بڑھ گئ۔ فرہاد تھوڑا اس کی طرف جھکا اور بولا۔
"جب بلائو گی آجائوں گا۔۔" یہ جملہ اس کی توقع کے بلکل برعکس تھا۔ یہ کیا کہہ دیا تھا اس نے؟ کیا وہ بلائے گی اور وہ آجائے گا؟ وہ ایسا کیوں کرے گا؟ وہ بس اسے سوالیہ نظروں سے دیکھے جا رہی تھی جو اب اپنا ہیلمٹ پہن رہا تھا۔
"ہرانا مت۔ ایک لڑکی سے ہار کر مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔" وہ بائیک پر سوار ہو چکا تھا اور وہ۔۔ وہ تو کہیں اور ہی تھی۔ وہ اسے کیسے بتاتی وہ تو کب کی ہار گئ تھی۔ اس نے اپنا ہیلمٹ پہنا۔ دونوں نے ایک ساتھ بائیک کو ریس دی اور تیزی سے نکل گئے حیدرآباد کی سڑکوں پر۔۔
وہ سٹڈی روم سے ابھی باہر ہی نکلی تھی کہ اس نے عالیان کو دیکھا جو بنا اسے دیکھے سیڑھیاں پھلانگتے اپنے کمرے کی طرف گیا۔ اسے تو آفس میں ہونا چاہئیے تھا؟ وہ گھر کیوں آیا؟ دل میں ہی خود سے سوال کرتے ہوئے اس نے سٹڈی روم کا دروازہ بند کیا اور باہر لان میں چلی گئ۔ آج وہ اپنا تیسرا پیپر دے کر آئی تھی۔ اسے عالیان سے بات کرنی تھی جب وہ اسے کالج لینے کے لیے آیا تھا تو اس نے سوچا وہ اسی وقت بات کر لے گی لیکن سارے راستے وہ ہمت ہی نہ کر سکی اور اب عالیان کو یوں اچانک گھر میں دیکھ کر اس کے دل نے پھر سے کہا کہ موقع اچھا ہے وہ اب اس سے بات کر لے۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمت تو اب بھی نہیں ہو رہی تھی لیکن آج نہیں کہ سکے گی تو دن بہ دن مشکل ہوتی جائے گی۔ انہی سوچوں کو دماغ پر سوار کیے وہ لان میں ادھر ادھر ٹہل رہی تھی تبھی اس کی نظر عالیان پر پڑی جو گیٹ کی طرف تقریباً بھاگتے ہوئے جا رہا تھا۔ کیا وہ اسے آواز دے؟؟
"عالیان!!!" ہمت مجتمع کر کے آخر اس نے آواز دے ہی دی۔ اپنا نام سنتے ہی عالیان نے دائیں طرف گردن موڑ کر اسے دیکھا اور پھر اس کی طرف جانے لگا۔ وہ چاہے کتنی بھی عجلت میں ہو ردا بلائے اور وہ نہ جائے ہو ہی نہیں سکتا۔
"اگر آپ کے پاس وقت ہو تو مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔" اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔
"ظاہر ہے وقت ہے ورنہ وہاں سے بھاگ کر کیوں آتا۔۔" اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر ردا جانتی تھی کہ مسکراہٹ بس پل بھر کی ہے۔
"میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔۔" وہ تھوڑا رکی۔ عالیان بغور اسے دیکھ اور سن رہا تھا۔ "اور میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ۔۔" وہ پھر رکی۔ عالیان کا سانس بھی رک گیا تھا البتہ ناجانے کیوں مگر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی تھی۔ وہ کس فیصلے کی بات کر رہی ہے شاید وہ سمجھ چکا تھا۔
"کہ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔" اس نے گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا اور عالیان کو لگا کسی نے اس کی سانسیں اس سے چھین لیں۔ مسکراہٹ یکدم ہی اس کے چہرے سے غائب ہو گئ۔
"وجہ؟؟" بمشکل وہ یہی پوچھ سکا۔
"وجہ ہونا ضروری ہے کیا؟" وہ اس کی آنکھوں میں کرب دیکھ سکتی تھی۔
"کم از کم میرے لیے ہاں۔۔" کھلے آسمان کے نیچے بھی اسے گھٹن نے آ گھیرا۔
"کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ میں آپ کو پسند نہیں کرتی؟؟"
اس کے بولتے ہی وہ تیزی سے بولا۔۔"صرف پسند نہیں کرتی یا شدید نفرت کرتی ہو؟" ردا نے یکدم تڑپ کر اسے دیکھا۔
"جو سمجھنا ہے سمجھیں۔ مجھے بس یہی کہنا تھا۔۔" کوفت سے کہتے ہی وہ وہاں سے جانے لگی۔ عالیان نے ہوا میں گہری سانس خارج کی اور اس کے پیچھے لپکا۔ وہ اب اس کے سامنے اس کی راہ روکے کھڑا تھا۔
"میں تمہارے فیصلے کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ میں تمہیں فورس بھی نہیں کروں گا۔ لیکن پھر بھی ایک دفعہ پھر سے سوچ لو۔۔" وہ کیا کر رہا تھا ؟؟ منت؟؟ التجا؟؟ ردا کا دل کیا وہاں سے بھاگ جائے۔
"میں نے سوچ لیا ہے دل سے بھی اور دماغ سے بھی۔ دونوں یہی کہتے ہیں کہ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔" اس کے گلے میں کچھ اٹک گیا تھا جسے وہ اندر نہیں کر پا رہی تھی۔
"میرے دل میں بسی تمہاری محبت نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ میں ایسا نہیں تھا جیسا مجھے تمہاری محبت نے بنا دیا ہے۔ کیا تم مجھے ایک موقع نہیں دے سکتی؟؟" وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گیا اور ردا کو لگا جیسے کسی نے اس کا دل مٹھی میں دبا کر سارا خون نچوڑ دیا ہو۔
"تو میں نے نہیں کہا تھا آپ کو کہ میرے لیے خود کو بدل دیں۔۔" وہ یکدم چلائی۔ "یہ دیکھیں۔۔" اس نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔۔ "چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر۔۔ پلیز میں التجا کرتی ہوں آپ سے۔ نہیں کرنی مجھے آپ سے شادی ۔ نفرت ہے مجھے آپ سے۔۔" وہ ایک ایک لفظ نفرت سے چیختے ہوئے ادا کرتی گئ۔ عالیان کو لگا کسی نے رکھ کر اس کی محبت کو تھپڑ دے مارا ہے۔ اس کے وجود پر ٹھنڈا پانی پھینک دیا ہے۔ اسے زندہ زمین میں گاڑھ دیا گیا ہے۔ وہ چلی گئ اور وہ وہیں کھڑا رہا۔۔ ایک برف کے مجسمے کی طرح ۔ ایک بےجان وجود کی طرح۔۔ جسے وقت سے پہلے ہی مار دیا گیا ہو۔۔ اس کا انتظار رائیگاں چلا گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ خود کو بدل کر وہ ردا کے قابل ہو جائے گا لیکن ردا کا کیا جو اسے خود کے قابل سمجھتی ہی نہیں تھی بلکہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ نفرت ایک ایسا لفظ جس کا اظہار ہم بلا تاخیر کر دیتے ہیں جبکہ محبت کا اظہار کرنے میں ہم صدیاں گزار دیتے ہیں۔
●●●●●●●●●●●●
وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں ریلنگ کا سہارا لیے کھڑی نارنجی رنگ میں بدلتے آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی سرخ آنکھیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ وہ کتنی دیر سے روتی رہی ہے۔ عالیان کے پاس سے آنے کے بعد وہ ایک لمحے کے لیےبھی چپ نہیں ہوئی۔ وہ اسے توڑ کر آئی تھی خود کیسے نہ بکھرتی۔ اس کی آنکھوں میں تکلیف ، آنسو اب تک اس سے بھولے نہیں تھے۔ انہی سوچوں کے دوران اسے اپنے پیچھے سے کسی کی آواز آئی۔۔
"کیا کہا ہے تم نے عالیان سے؟؟" انابیہ کی آواز پر وہ اس کی طرف گھومی تو اس نے دیکھا وہ بالکونی کے دروازے کے ساتھ کھڑی سخت نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔ وہ اس کے اس قدر سخت تاثرات کو دیکھتے ہی جان گئ تھی کہ عالیان اس کے پاس گیا تھا اور اسے سب بتا چکا تھا۔ کیسے نہ بتاتا وہ اس کی دوست تھی۔ وہ غم میں تھا تکلیف میں تھا اور دکھ میں انسان سب سے پہلے اپنے دوست کے پاس ہی تو جاتا ہے۔
"کس بارے میں؟" وہ مکمل طور پر خود کو انجان ظاہر کرتے ہوئے دوبارہ آسمان کو دیکھنے لگی۔ اس کی اس قدر ڈھٹائی پر انابیہ کا ضبط جواب دے گیا۔
"مجھے بیوقوف مت بنائو۔۔" اس نے سختی سے اس کو بازو سے دبوچ کر اپنی طرف گھمایا۔ ردا اس قدر سختی پر کراہ کر رہ گئ۔ "جانتی ہو وہ میرے آفس آیا تھا۔ روتا رہا ہے وہ ردا۔۔" اس نے چلا کر کہا۔ ردا کا دماغ بھک سے اڑا۔۔ اس کا آخری جملہ اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح لگنے لگا۔ اس سے پہلے انابیہ پھر کچھ کہتی اس نے گردن گھما کر نیچے کھڑے گارڈز کو دیکھا۔ وہ ان کے سامنے تماشا نہیں لگانا چاہتی تھی اسی لیے ردا کو بازو سے کھینچتے ہوئے وہ کمرے کے اندر لے گئ۔ دروازہ بند کیا اور اس کی طرف گھومی جو کسی صدمے کی حالت میں کھڑی تھی جس کے دماغ میں صرف ایک فقرہ گھوم رہا تھا۔۔ "روتا رہا ہے وہ ردا۔۔۔ روتا رہا ہے وہ۔۔"
"کل میں نے اس کی آنکھوں میں بےبسی دیکھی تھی تکلیف دیکھی تھی کہ وہ اپنوں کا بدلہ کیوں نہیں لے پا رہا۔ صرف اس کی تکلیف ختم کرنے کے لیے میں نے وہ کیا جو میں کبھی نہ کرتی ردا صرف اس کے لیے۔۔" انابیہ نے اس کے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا۔۔" اور تم۔۔ تم تو محبت کرتی ہو نا اس سے تم کیسے رلا سکتی ہو اسے؟؟" وہ قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ردا نے تڑپ کر بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کیا کہا تم نے اس سے نفرت کرتی ہو؟ دو سال اس نے مجھے تکلیف میں رکھا میں اس سے نفرت نہیں کر سکی تم کون ہوتی ہو اس سے محض یہ کہنے والی؟؟" وہ اب کی بار سارا ضبط توڑ کر باآواز رونے لگی۔ انابیہ نے اسے چھوڑ دیا اور وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گری۔ انابیہ کا دل ایک دم ہی اس کے لیے نرم پڑ گیا۔
"بہن ہوں میں تمہاری اچھے سے جانتی ہوں تم کتنی محبت کرتی ہو اس سے۔ کیا مزہ آتا ہے تمہیں اور کبیر کو بلاوجہ محبت کرنے والوں کو تکلیف دیتے ہوئے۔۔" وہ اس کے سامنے بیٹھ گئ جو مسلسل آنسو بہائے جا رہی تھی۔۔" ردا یہ محبت خوش قسمت لوگوں کو ملتی ہے۔۔ میں نے مجبوری میں گنوائی تھی تمہیں کیا مجبوری ہے جو اس کا دل دکھاتی ہو"
"تو کیا کروں میں بتائیں نا کیا کروں؟؟" وہ یکدم پھٹ پڑی۔ آنسوؤں کی رفتار تیز ہو گئ اور سرخ آنکھوں سے وہ انابیہ کو دیکھے گئ۔۔ " میری وجہ سے انہیں گولی لگی تھی میری وجہ سے۔۔" اس نے زور سے اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ انابیہ کا دل یکدم اس کے لیے تڑپ اٹھا۔ "آپ نے تو صرف ان کے بازو پر بندھی سفید پٹی دیکھی تھی نا تو میرا کیا آپی جس نے ان کی بازو سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتا خون دیکھا تھا۔۔ میرے دل کا کیا آپی جس نے یہ سب برداشت کیا تھا۔۔" وہ بلند آواز میں رو رہی تھی اس سے کہہ رہی تھی اور وہ گنگ سی بس اسے دیکھے جا رہی تھی۔
"صرف ایک دفعہ۔۔ ایک دفعہ ظفر نے ان کو میرے ساتھ دیکھا اور گولی چلا دی۔۔ سوچیں اگر اسے ہماری شادی کا پتہ چلے گا تو وہ کیا کر بیٹھے گا ان کے ساتھ۔۔" اس نے رک کر گہرے سانس لیے وہ رو رو کر تھک چکی تھی۔ انابیہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر سائڈ ٹیبل تک گئ۔ جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس کی طرف لائی جسے ردا نے اگلے ہی لمحے جھٹک دیا۔
"پلیز ردا تھوڑا سا پی لو۔۔" وہ ہاتھوں میں گلاس پکڑے اس سے منت کرتے ہوئے بولی۔۔
"میں یہ سب ان کے لیے ہی تو کر رہی ہوں۔ مجھے ان کے ساتھ سے زیادہ ان کی زندگی پیاری ہے۔ میں خود غرض نہیں ہوں۔ مجھے محبت کا حصول نہیں چاہیئے مجھے ان کی زندگی چاہیئے۔۔" انابیہ نے آگے ہو کر اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کیے۔
"شادی سے انکار مت کرو۔ تم دونوں کا رشتہ جب مضبوط ہو جائے گا تو وہ کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ تم دونوں ایک ہو جائو گے تو اس کے لیے تمہیں جدا کرنا ناممکن ہوگا۔۔ نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے ردا۔۔" وہ اسے رسانیت سے سمجھا رہی تھی۔ "عالیان اب ہمارے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں ہونے دے گا۔ اسے میری دوستی اور تمہاری محبت کی ضرورت ہے لیکن سب سے زیادہ اسے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے کیونکہ محبت انسان کو طاقت دیتی ہے۔ یہ وقت ڈرنے کا نہیں لڑنے کا ہے۔ ہمیں سب سے اپنا بدلہ لینا ہے۔ تم سمجھ رہی ہو نا۔۔" وہ اس کی ہر بات پر کسی چھوٹی بچی کی طرح سر اثبات میں ہلا رہی تھی۔ وہ سمجھ گئ تھی۔ انابیہ نے زمین سے گلاس اٹھا کر اس کے منہ سے لگایا تو ردا نے تیزی سے ایک ہی سانس میں پانی پیا۔۔
"ایم سوری آپی۔۔ ایم رئیلی سوری۔۔" وہ اس کے گلے لگتے ہوئے بولی۔ انابیہ نے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اسے چپ کرانے لگی۔
عالم خان اس وقت راکنگ چئیر میں بیٹھے اسے آگے پیچھے جھلا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں ۔ وہ سو نہیں رہے تھے بلکہ گہری سوچوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جس دن سے جہانزیب کے چہرے سے پردہ ہٹا تھا تب سے ہی وہ خود کو ہر چیز کا مجرم سمجھ رہے تھے اور جب انسان کو اپنے جرم کا احساس ہو جائے تو اس کی نیند اس سے روٹھ جاتی ہے۔ ایسی ہی کچھ کشمکش میں وہ بھی گھرے تھے۔ تبھی ان کو اپنی آنکھوں پر کسی کا لمس محسوس ہوا۔ جھولتی ہوئی راکنگ چئیر ایک پل کے لیے رک گئ تھی۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ان ہاتھوں کو چھوا جو ان کی آنکھوں پر موجود تھے اور اگلے ہی لمحے ان کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔
“میں پہچان گیا آپ کو۔۔ میری پیاری سی مسکان والی شہزادی!!" انہوں نے پیار بھرے لہجے میں کہا تو مسکان کھل کر ہنس دی۔
“آہ۔۔دادا جان آپ نے پھرسے پکڑ لیا۔۔" ان کی آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹاتے ہی وہ بڑی ہی معصومیت سے بولتے ہوئے ان کے سامنے کارپٹ پر آ بیٹھی۔ دادا جان نے آگے ہو کر اس کے سر پر نرمی سے دلاسہ دیا تو وہ پھر سے مسکرا دی۔
"آپ پھر سے بائیک لے کر نکل گئ تھی نا۔۔"وہ شکایت کر رہے تھے جبکہ مسکان دانتوں تلے زبان دبا گئ۔ “میں نے کھڑکی سے دیکھ لیا تھا۔ آپ کیوں نہیں سنتی؟"
“چھوڑیں نا دادا جان بس بابا سے مت کہیے گا۔ ہماری بات ہمارے درمیان رہنے دیں۔۔" اس نے آنکھ مارتے ہوئے سرگوشی نما انداز میں کہا تو عالم خان سر جھٹک کر رہ گئے۔ مسکان کو سمجھانا مشکل کام تھا۔
“مسکان کے ہوتے ہوئے آپ اداس کیوں بیٹھے تھے وہ بھی اندھیرا کر کے؟" عالم خان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئ تھی ۔ اس سے کچھ بھی چھپانا ناممکن کام تھا۔
“میں بھلا کیوں اداس ہوں گا اور اب تو بلکل بھی نہیں ہوں۔۔" وہ صاف مکر گئے۔
“یہ ہوئی نا بات جہاں مسکان ہوتی ہے وہاں مسکراہٹ فرض ہوتی ہے۔۔"عالم خان کھل کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کام میں تو وہ ماہر تھی۔ اداسی کو مسکراہٹ میں بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتی تھی۔
"راحیلہ اور ناہیدہ کو یاد کر رہے تھے نا۔۔"وہ رک کر ان کا چہرہ دیکھنے لگی جس پر ایک کرب سا ابھرا تھا جیسے ہمیشہ ابھرتا تھا۔۔ "بیس سال کی ہو گئ ہوں اور بچپن سے آپ یہی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ان سے ضرور ملوں گی۔ میرا تجسس ہے کہ ختم نہیں ہوتا اور انتظار ہے جو مزید وقت مانگتا رہتا ہے۔"
“ان سے ملنے کا اشتیاق اب ختم کردیں۔ وہ جہاں پر ہیں ان سے ملنا اس جہاں میں ممکن نہیں۔۔" وہ کچھ ناسمجھی سے انہیں دیکھے گئ۔ وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے اس کی سمجھ سے یہ بات باہر تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر مسکان کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔
“آپ کے چہرے پر مسکان مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ میں راحیلہ اور ناہیدہ کا خیال نہیں رکھ سکا لیکن میں آپ کا ہر طرح سے خیال رکھنا چاہتا ہوں۔آپ مجھ سے دور نہ جایا کریں۔ آپ کی صورت میں مجھے راحیلہ اور ناہیدہ دوباری ملی ہیں۔۔" وہ یک ٹک خاموشی سے ان کی بھیگی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔"کوئی تھا جس نے ان کو مجھ سے چھین لیا لیکن اب میں آپ کو خود سے دور نہیں جانے دوں گا۔۔" ایک آنسو جو ناجانے کب ان کی آنکھ سے بہہ کر ٹھوڑی سے ٹپکنے ہی لگا تھا کہ مسکان نے تیزی سے اسے اپنی ہتھیلی میں لے لیا اور بڑی ہی سنجیدگی سے اس چمکتے ہوئے آنسو کو دیکھتی رہی جیسے یہ قطرہ اسے بہت عجیب لگا ہو۔ یہ ایک قطرہ آنکھ سے بلاوجہ تو نہیں بہتا۔ ایسی کون سی اذیت ہوتی ہے جو اس ایک قطرے کے گرنے کا سبب بنتی ہے؟ کسی کی جدائی؟ کسی کی محبت؟ کوئی تنہائی؟ کوئی بیماری؟ کوئی زخم؟ ان سب حالات سے وہ کب گزری تھی جو اس قطرے میں چھپا کرب جان سکتی۔
“کسی کو بھی اتنا موقع مت دیجئے گا کہ وہ آپ کے دل سے کھیل جائے۔ آپ کو دکھ دے۔ میں نے آپ کا نام مسکان رکھا تھا صرف س لیے کیونکہ مسکان صرف آپ کے لیے بنی ہے۔۔" وہ اب اپنے ہاتھ سے ان کے چہرے پر بہتے آنسو صاف کرنے لگی۔ وہ ان کو کہیں سے بھی جہانزیب کی بیٹی نہیں لگتی تھی وہ بہت مختلف تھی۔ بہت صاف دل ہنستی مسکراتی۔ وہ کبھی بھی اس کے باپ کی اصلیت اس کے سامنے ظاہر نہیں کریں گے نہ ہی ہونے دیں گے۔ وہ اپنے باپ کو آئیڈیل مانتی تھی اور جب سچ سے واقف ہوگی کہ اس کا باپ اس کے اپنوں کا ہی قاتل ہے تو وہ کس قدر ٹوٹ جائے گی بکھر جائے گی۔ کچھ بھی کرکے وہ مسکان کی مسکراہٹ ایسے ہی اس کے چہرے کا حصہ رہنے دینا چاہتے تھے۔
●●●●●●●●●●
گیٹ کے دروازے ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو اس کی بائیک تیزی سے سیدھا پورچ میں گئ۔ چوکیدار اب گیٹ دوبارہ سے بند کر رہا تھا۔ دور کھڑا وہ شخص اب گھر کے اندر جا رہا تھا کہ چوکیدار دور سے ہی بولا۔
“السلام عليكم صاحب جی۔۔" اس نے وہیں سے پلٹ کر دیکھا۔ وہ ہمیشہ سلام کرنے میں پیچھے رہ جاتا تھا۔
“وعلیکم السلام۔۔"مسکرا کر تھوڑا سر کو خم دے کر کہتے اب وہ اندر جانے لگا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ہیلمٹ تھا جو اس نے اندر گھستے ساتھ کونے میں پڑے ٹیبل پر رکھا۔ شوز اتار کر وہیں سائڈ پر رکھے پھر جرابیں اتار کر انہیں جوتوں میں ٹھونس دیں۔ سامنے ہی اوپن لائونج تھا جہاں پہنچتے ہی اس نے انگوٹھیوں سمیت دستانے اتارے اور لائونج کے وسط میں پڑے ٹیبل پر رکھ دیے۔ سیاہ جیکٹ اتار کر اس نے وہیں صوفے کی پشت پر پھیلا دی۔۔ گہرا سانس بھر کر اس نے سفید شرٹ کے اوپری بٹن کھولے۔ کف کہنیوں تک فولڈ کیے اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا جو بلکل ہی لائونج کے ساتھ تھا۔ کمرے میں اندھیرا تھا سو اس نے ساری بتیاں جلا دیں اگلے ہی لمحے کمرہ مکمل روشن ہو گیا تھا۔ بغیر ادھر ادھر دیکھے وہ سیدھا واشرم میں چلا گیا۔ واش بیسن میں جھک کر اس نے چار سے پانچ دفعہ پانی ہتھیلیوں میں بھر بھر کے اپنے چہرے پر پھینکا اور پھر رک کر سانس لیتے ہوئے وہ اب بیسن کے دہانوں پر دونوں ہاتھ رکھے شیشے میں اپنا تر چہرہ دیکھ رہا تھا۔ تب اس نے اپنی شہد رنگ آنکھوں میں غور کیا وہ کس قدر تھکی ہوئی معلوم ہورہی تھیں اور مسکراتے ہوئے اپنے چہرے کو دیکھنے لگا اس کی شیو بڑھ چکی تھی لیکن اچھی لگ رہی تھی سو ایسے ہی چھوڑ دی۔ مڑ کر اس نے ٹاول ہینگنگ میں سے ٹاول اتار کر اپنا چہرہ صاف کیا اور کمرے میں چلا گیا۔
کمرے میں پہنچتے ہی وہ ایل شیپ صوفے پر ڈھے گیا۔ صوفے کی پشت پر سر رکھا اور آنکھیں بند کر گیا۔
••••••••••
(کبیر جہانگیر بچپن سے ہی غصے کا تیز، بلا کا ضدی اور انا کا سخت برا تھا۔ اس سے لوگوں کی باتیں اور اپنی زندگی میں بلاوجہ کی مداخلت کبھی بھی برداشت نہیں ہوتی تھیں کوئی اگر اسے منہ سے کچھ کہتا تھا تو وہ ہاتھوں سے اسکی طبیعت اچھے سے صاف کردیتا تھا۔ کتنی ہی دفعہ جہانگیر صاحب خاص طور پر اس کی پرنسپل کے بلانے پر کراچی سے لاہور جاتے تھے۔
“دیکھیے جہانگیر صاحب اگر آپ کے بیٹے نے اپنے غصے پر قابو نہ کیا تو میں اب آخری دفعہ آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں اسے سکول سے نکال دوں گی۔۔ چھٹی جماعت سے ہی اس کا یہ حال آگے جا کر نا جانے کیا کرے گا۔۔" پرنسپل کی باتیں ان کے کانوں میں سیخ اور دماغ پر پتھر کی طرح لگتی تھیں۔ انہیں کراچی میں بزنس شروع کرنے کا سخت پچھتاوا ہوتا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ آٹھویں جماعت میں تھا۔ وہ سکول سے گھر آیا تو بجائے گھر کے اندر جانے کے وہ سیدھا لان میں گیا جہاں جہانگیر صاحب اور آمنہ بیگم بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جہانگیر صاحب نے سر اٹھا کر اس دراز قد لڑکے کی طرف دیکھا جو چلتا ہوا انہی کے پاس آرہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ان کی آنکھیں حیرت سے پوری کھل گئی تھیں اور جسم تو جیسے برف کا ہو گیا تھا۔ اس کی سفید شرٹ کے ایک طرف سرخ خون کا دھبہ تھا۔ شرٹ بری طرح پھٹی ہوئی تھی۔ منہ کے کنارے سے خون نکل رہا تھا۔ آمنہ بیگم اسے دیکھتے ہی اپنی جگہ سے اٹھیں۔
“کبیر یہ سب؟؟ یہ سب کیا ہے؟؟" آمنہ بیگم نے فکرمندی سے اسے بازوؤں سے پکڑتے ہوئے پوچھا۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ نظریں اور چہرہ دونوں سپاٹ تھے۔ بجائے کچھ کہنے کے اس نے آگے بڑھ کے ایک کاغذ اپنے والد صاحب کے سامنے کیا۔ وہ کچھ پل اس کے چہرے پر سے نظریں نہیں ہٹا سکے اور پھر انہوں نے کھوئے کھوئے انداز میں اس کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔
“مجھے سکول سے نکال دیا ہے۔۔" وہ جو کاغذ خود پڑھنے والے تھے رک گئے۔۔"پرنسپل آپ کو خود کال کرنے والی تھی میں نے منع کر دیا اور کہا کہ مجھے سرٹیفیکیٹ دے دیں لیکن میرے ڈیڈ کو میری وجہ سے تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"روانی میں کہتے ہی وہ پلٹ کر جانے لگا۔
“کبیر۔۔" جہانگیر نے خود پر ضبط کرتے اسے آواز دی۔ کبیر کے قدم رکے وہ واپس ان کی طرف گھوما۔
“غلطی اس لڑکے کی تھی ڈیڈ۔ اس نے بیڈ ورڈز کا استعمال کیا تھا۔ میری غیر موجودگی میں میری بکس پھاڑی تھیں میں نے تب بھی اسے کچھ نہیں کہا پھر اس نے باسکٹ بال کھیلتے ہوئے میرے آگے ٹانگ رکھ دی جس کی وجہ سے میں منہ کے بل گر گیا مجھ سے برداشت نہیں ہوا تو میں نے اس کا سر پکڑ کر بینچ سے مار دیا۔" تھوڑا رکا جہانگیر صاحب کے تاثرات دیکھے اور پھر بولا۔۔ "ایک دفعہ نہیں بہت دفعہ وہ بھی بری طرح سے۔۔ وہ ہسپتال میں ہے اس کے ڈیڈ کی کال آپ کو آنے والی ہوگی۔ اس کے علاج پر جو بھی خرچہ آئے کر دیجئے گا۔۔" اور پھر وہ چلا گیا۔ جہانگیر صاحب ہل نہیں سکے۔ ہوش میں وہ تب آئے جب ان کے فون پر کسی کی کال مسلسل آرہی تھی۔ ہوا میں گہرا سانس بھرتے ہوئے انہوں نے فون اٹھایا۔ کال اٹینڈ کی ایک نظر آمنہ کو دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھیں اور پھر چلے گئے۔
اس کے بعد پورا ایک سال کبیر جہانگیر نے سکول کی شکل نہیں دیکھی۔ اس ایک سال میں وہ گھر میں ہی رہا تھا۔ باہر نہیں جاتا تھا۔ کسی سے کچھ خاص بولتا بھی نہیں تھا یہ وہ سال تھا جس میں اس نے پینٹنگ میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ جہانگیر صاحب، عابس اور آمنہ بیگم سب نے اس سے بہت کہا وہ ایڈمیشن لے لے۔ وہ نہیں مانتا تھا اور بس ایک ہی بات کہتا تھا۔۔
"میرے لیے یہی بہتر ہے کہ کچھ عرصہ میں سکول نہ جائوں کسی سے نہ ملوں آپ لوگ پلیز مجھے تنگ مت کریں ورنہ مجھ سے بعد میں گلہ مت کیجیے گا کیونکہ میں مزید آپ لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہتا۔۔" وہ سب کو چپ کروا جاتا تھا۔ جہانگیر نے اس سے بہت کہا کہ وہ ان کے ساتھ کراچی چلے کسی طرح میٹرک کر لے پھر وہ اسے باہر بھیج دیں گے۔ وہ نہیں مانا اور باہر کا سن کر تو سخت چڑ جاتا تھا۔ بلآخر ایک سال گزرنے کے بعد اس نے خود عابس سے کہا کہ وہ ایڈمیشن لینا چاہتا ہے۔ اس بات پر سب کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ اب کبیر کافی بہتر تھا سب کو یقین تھا کہ وہ کسی سے بھی ہاتھا پائی تو کیا بات بھی نہیں کرے گا۔ پہلے دن وہ عابس کے ساتھ سکول گیا تھا۔ عابس اس کے ساتھ اندر جانے تک کا ارادہ رکھتا تھا۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ دونوں باہر نکلے تو کبیر کی نظر دور کھڑی ایک سیاہ رنگ کی ہیوی بائیک پر رکی۔ وہ کچھ پل کھویا کھویا اسے دیکھتا رہا۔ عابس کچھ کہنے کے لیے اس کی طرف گھوما تو اپنے بھائی کو بائیک میں کھویا دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا۔ آگے بڑھ کر اس نے کبیر کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہوا اور اس کے ساتھ اندر جانے لگا۔
نویں اور دسویں کے سال بہت ہی پرسکون گزرے تھے نہ صرف پرسکون بلکہ کبیر جہانگیر نے بورڈ میں ٹاپ بھی کیا تھا۔ یہ خبر سب کے حیران ہونے کی تو نہیں مگر خوشی کا باعث ضرور بنی تھی کیونکہ پڑھائی میں تو وہ شروع سے ہی اچھا تھا۔ اسی خوشی میں عابس نے جہانگیر صاحب سے چھپ کر اسے ویسی ہی سیاہ رنگ کی بائیک گفٹ کی تھی۔ اس دن کبیر کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔
"اسے بہت احتیاط سے چلانا ۔۔" اس نےحکم نہیں دیا تھا درخواست کی تھی کیونکہ کبیر سے درخواست کرکے ہی بات منوائی جا سکتی تھی۔۔ فرسٹ ائیر کے دنوں میں اس کی دوستی عاصم چوہدری سے ہوئی تھی اس کے پاس بھی ایسی ہی بائیک ہوتی تھی۔ دونوں کالج کے بعد ریس کے لیے نکل جاتے تھے اور کبیر ہمیشہ اس سے ہار جاتا تھا کیونکہ عاصم کی بائیک چلانے میں مہارت بہت زبردست تھی۔ وہ جب بھی تیز چلانے کا سوچتا اسے عابس بھائی کی درخواست یاد آجاتی تھی۔
"تم سے نہیں ہوگا کبیر رہنے دو۔۔" دونوں میں دوستی بہت زیادہ بڑھ گئ تھی۔ اگر اس طرح سے کبیر کو کوئی اور کہتا تو اس کے دانت سلامت نہ ہوتے۔ وہ بس بےنیازی سے کندھے اچکا جاتا تھا۔ ایک دفعہ جیتنے کے چکروں میں اس کا بری طرح ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کی ٹانگ اور بازو دونوں میں فریکچر آئے تھے۔ خبر جہانگیر صاحب تک تو نہیں پہنچی تھی مگر عابس اس سے بہت ناراض ہوا تھا اتنا کہ اس سے بائیک بھی لے لی تھی۔ اس نے کوئی ضد بھی نہیں کی تھی جبکہ اسے بری طرح سے اس بائیک کی عادت ہو گئ تھی۔ اس کی روزانہ اتری ہوئی شکل اور بےزار رویہ دیکھ کر عاصم نے اسے ایک بائیک خرید کر دی تھی۔
"نہیں عاصم یہ میں تم سے نہیں لے سکتا بھائی کو پتہ چلا تو بہت غصہ ہوں گے۔۔" اس نے صاف انکار کر دیا۔۔
"بکواس مت کرو مجھے تمہیں ہرانے کی عادت ہو گئ ہے اور ویسے بھی یہ میرے گھر پر ہوا کرے گی۔۔" کبیر اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔
"اور جب کبھی ایکسیڈنٹ ہوا تو تمہیں کیا لگتا ہے بھائی کو خبر نہیں پہنچے گی؟" عاصم نے کچھ پل سینے پر ہاتھ باندھے بڑی خاموشی سے اسے دیکھا۔ پھر ایک موبائل اس کے سامنے کیا۔ کبیر کی آنکھوں میں ناسمجھی ابھری۔
"جب جب بائیک چلائو گے تمہارے پاس یہ فون ہوگا جس میں صرف عاصم چوہدری کا نمبر ہوگا۔ یعنی تمہارے ایکسیڈنٹ کی خبر صرف مجھے ہوگی اور ہسپتال کے خرچے ففٹی ففٹی کر لیں گے۔۔ ٹھیک نا؟؟" وہ کچھ بول ہی نہیں سکا۔ کس پلانر سے واسطہ پڑ گیا تھا اس کا۔۔ ماننے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا سو اسے ماننا پڑا۔ وہ روز صبح جم کے بہانے اٹھ کر گھر سے نکل جاتا اور کافی کافی دیر دونوں سڑکوں پر بائیک جہاز کی طرح اڑاتے رہتے تھے۔ سیکنڈ ائیر کے ایگزامز کے بعد اس کی چھٹیاں تھیں سو وہ صبح آرام سے بارہ بجے کے قریب اٹھتا تھا اسی لیے اسے ہر حال میں دس بجے سے پہلے گھر پہنچنا ہوتا تھا تاکہ کسی کو شک نہ پڑے لیکن اس دن وقت دس سے پلٹ گیا تھا بلکہ بہت پلٹ گیا تھا۔ یہ اس دن کی آخری ریس تھی جو کبیر کو ہر حال میں جیتنی تھی اسی لیے اس نے چیٹنگ کی تھی وہ بجائے روڈ کے شاٹ کٹ کے چکر میں بازار کے اندر گھس گیا تھا جہاں پر ایک لڑکی اس کی بائیک سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اس نے بس ایک نظر اس لڑکی کے چہرے کو دیکھا تو اسے خود پر بڑا پیار آیا کہ اس کی وجہ سے وہ لڑکی جان سے نہیں گئ۔ وہ اسے مسلسل ڈانٹ رہی تھی لیکن وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا بس نیچے جھک کر اس کی چیزیں اٹھانے میں مصروف تھا۔ سامان اس کے ہاتھ میں تھما کر اس نے پھر اس لڑکی کے تمتماتے چہرے کو غور سے دیکھا۔
"کیا یہ لڑکی اسے دوبارہ ملے گی؟" خود سے کہہ کر وہ بائیک پر سوار ہو گیا اور وہاں سے چلا گیا۔۔
"چیٹنگ کے باوجود بھی تم ہار گئے۔ چچ چچ چچ۔۔" سڑک کے کنارے وہ دونوں اپنی اپنی بائیک کے ساتھ کھڑے تھے جب عاصم نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے اس سے کہا۔ کبیر کچھ نہیں بولا بلکہ سر جھکا کر ہنسنے لگا۔ اب وہ اسے کیسے بتاتا اس کے ہارنے کی وجہ وہ لڑکی تھی۔
"تم گھر جائو۔۔ میں آتا ہوں۔۔" وہ تیزی سے کہتا بائیک پر سوار ہو گیا۔
"اے رک دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔" عاصم اس سے کہہ رہا تھا لیکن اس نے کب سننی تھی وہ تو کب کا چلا گیا۔۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی وہ دوبارہ اس بازار میں اسی جگہ آکھڑا ہوا لیکن اب وہ لڑکی وہاں کہیں نہیں تھی۔۔ کچھ دن بعد اسے اپنی ہی یونیورسٹی میں دیکھ کر اسے اپنی قسمت پر جم کے رشک آیا تھا۔۔ "تو دعائیں ایسے قبول ہوتی ہیں کبیر جہانگیر۔۔" اسے دیکھتے ہی کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔)
••••••••••
جب اس نے آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلے اس نے اپنے سامنے والی دیوار کو دیکھا جس کا ایک حصہ بھی پینٹنگز سے خالی نہیں تھا۔ وہ دیوار اس کی پینٹنگز سے بھری پڑی تھی جہاں تک نگاہ جاتی تھی بس اسی کا چہرہ دکھائی دیتا تھا تبھی اس کی نظر درمیان میں لگی سب سے بڑی پینٹنگ پر رکی جو اس نے پچھلے دنوں بنائی تھی۔ سرمئ رنگ کے سکارف سے نکلتا کھلا کھلا چہرہ۔ ماتھے پر کٹے بینگز۔ گھنی پلکوں کی چھاؤں میں اٹھی ہوئی اس کی بادامی آنکھیں۔۔بے تاثر چہرہ۔۔ اور اس کے کھلے بال۔۔
"اس دنیا میں کوئی بھی تمہیں کبیر جہانگیر سے زیادہ نہیں چاہ سکتا۔ تمہیں چاہنے والا پہلا اور آخری شخص صرف میں ہوں۔ تم پر مر مٹنے کا اور تمہارے لیے مار دینے کا حق صرف کبیر جہانگیر کا ہے اور یہ حق میں کیسے کسی اور کو سونپ سکتا تھا۔۔" اس کی نظریں ہنوز اس کی آنکھوں پر جمی تھیں۔ وہ ہمیشہ اسے اصلی آنکھیں معلوم ہوتی تھیں جیسے انابیہ اس کے سامنے ہو اور وہ براہراست اس کی آنکھوں سے ہمکلام ہو۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"تمہارے پروں کو کاٹنا تو دور کوئی صرف انہیں بری نیت سے دیکھے گا بھی تو میں اس امر کو یقینی بنائوں گا کہ وہ دوبارہ ان آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھ سکے گا۔۔" وہ چلتا ہوا اس چہرے کے قریب جا کھڑا ہوا۔۔ "میں اب کسی کو بھی ہماری زندگی جہنم نہیں بنانے دوں گا۔۔" اس کی آنکھوں میں چیلنج تھا اور آواز پر اعتماد تھی۔ وہ اگر ایسا کہہ رہا تھا تو ایسا کرنے کی طاقت بھی رکھتا تھا۔ محبت اور وقت انسان کو بہت مضبوط بنا دیتے ہیں۔
اگلے ہی لمحے اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔"ناجانے سچ جاننے کے بعد تم میرے ساتھ کیا کرو؟" مسکراتے مسکراتے وہ وہاں سے ہٹ کر باہر لائونج میں چلا گیا۔ ابھی وہ وہاں پہنچا ہی تھا کہ جیکٹ کی جیب میں پڑا اس کا فون بجنے لگا۔ آگے بڑھ کر اس نے صوفے کی پشت سے جیکٹ اٹھائی۔ جیب سے موبائل نکالا اور جیکٹ وہیں پھینک کر فون کان سے لگائے کھڑا ہو گیا۔
"ہیلو کبیر کہاں ہو؟" دوسری طرف کوئی عجلت میں پوچھ رہا تھا۔
"کتنی دفعہ کہا ہے مجھے کبیر سر کہا کرو۔۔" وہ ہمیشہ کی طرح اسے یاد دلاتے ہوئے بولا۔ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔
"تم سے عمر میں چار سال بڑا ہوں اور بھولو مت تم میرے سٹوڈنٹ ہو۔ بجائے مجھے سر کہنے کے تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو۔ کتنے شرم کا مقام ہے۔۔"وہ ناگواری اور افسوس سے کہتا گیا جبکہ کبیر کھل کر ہنسے بغیر رہ نہیں سکا۔۔ "خیر گھر پر ہو تو دروازہ کھولو۔۔" یکدم ہی کبیر کا چہرہ سنجیدہ ہوا اور کال کاٹ کر وہ دروازے تک گیا۔ چوکیدار گیٹ کھول چکا تھا تب دروازے پر کھڑے کھڑے اس نے دیکھا وہ چوکیدار سے گلے مل کر کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک سفری بیگ تھا کبیر کو دیکھتے ہی وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے قریب آیا۔
"منہ کیا دیکھ رہے ہو۔۔ اسے پکڑو۔۔" اس کے ہاتھ میں بیگ تھماتے ہی اس نے سر سے کیپ اتاری۔ بال ہمیشہ کی طرح پونی میں بندھے تھے۔ کبیر بس کچھ ناگواری سے اسے دیکھے گیا۔
"دو دن یار۔۔ صرف دو دن۔۔" کبیر نے چہرے پر صدمہ لیے اسے دیکھ کر کہا۔۔ فرہاد نے ایک تلخ نظر اس پر ڈالی۔ اب وہ پھر اسے سنائے گا۔ بجائے کچھ کہنے کے وہ اندر چلا گیا۔ کبیر فوراً اس کے پیچھے لپکا۔
"تم کوئی جاب ڈھنگ سے کیوں نہیں کرتے۔ ہر دن ایک جاب پر لگاتا ہوں اور اسے چھوڑ آتے ہو۔۔" اس نے غصے سے کہتے ہوئے اس کا سفری بیگ پھینکنے کے انداز میں زمین پر رکھا۔ آواز پر فرہاد نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی۔
"بدتمیز انسان آرام سے ۔۔ ضروری سامان ہے اس میں۔۔" اپنے بیگ کو دیکھتے ہوئے اس نےتنبیہی انداز میں کبیر سے کہا جو سینے پر ہاتھ باندھے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ "کیا کروں دل نہیں لگتا تمہارے بغیر میرا کہیں۔۔" اس نے چڑتے ہوئے کہا تھا۔ کبیر نے افسوس سے گہری سانس سانس خارج کی۔
"کل بات کریں گے۔ یہ بتائو کھانے میں کیا بنایا ہے؟" اسے بھوک لگ رہی تھی اسی لیے اب تھوڑا نرمی سے بولا تھا۔ کبیر نے سر تا پیر اسے گھورا اور جواب ندارد۔ فرہاد نے اس کی خاموشی پر برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا۔
"بھوکا سونا پڑے گا سمجھ گیا۔۔اچھا نا کب تک گھورتے رہو گے۔ اتنی نکچڑی لڑکی تھی کیا بتائوں توبہ زیادہ دن رہتا تو پاگل ہو جاتا۔۔" کبیر سے ملنے کے بعد یہ اس کی دوسری جاب تھی جسے وہ پھر سے لات مار آیا تھا اور ہر بار بہانہ یہی ہوتا تھا کہ اس کی میڈم بہت نخرے دکھاتی ہے۔ دونوں بار اس کو جاب پر کبیر نے لگایا تھا۔ پہلی دفعہ یہیں کراچی میں اور اگلی جاب کے سلسلے میں وہ لاہور گیا تھا۔ اب پھر سب چھوڑ چھاڑ کر وہ کبیر کے پاس آ بیٹھا تھا۔ یہ گھر بھی کبیر کا تھا لیکن فرہاد بھی اس کے ساتھ یہیں رہتا تھا۔ اوپر والا کمرہ فرہاد کے پاس ہوتا تھا بلکہ سمجھ لیں پورا گھر ہی اس کے استعمال میں ہوتا تھا کیونکہ کبیر کا زیادہ وقت یا تو آفس میں گزرتا تھا یا اپنے دوسرے گھر میں جہاں وہ جہانگیر صاحب کے ساتھ رہتا تھا یا پھر انابیہ کے ساتھ کیونکہ اسے ہر وقت اس پر بھی نظر رکھنا ہوتی تھی۔
"میں آرام کرتا ہوں۔ جاتے ہوئے چوکیدار سے کہنا گیٹ صحیح سے بند کر دے ۔ تمہارے چکر میں لوگ فرہاد میر کو ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے۔۔" فرہاد بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا اسی لیے بس اتنا ہی کہتے وہ اوپر والے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی کبیر نے گہرا سانس بھرا اور ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا۔۔ ایک نظر اس نے اپنے کمرے کو دیکھا جسے وہ لاک کر چکا تھا ویسے تو دونوں میں بہت دوستی ہو چکی تھی اور فرہاد بنا اجازت کے اس کی چیزوں میں ہاتھ بھی نہیں مارتا تھا لیکن پھر بھی وہ رسک نہیں لیتا تھا۔ اندر اس کا قیمتی خزانہ تھا۔ کچھ ہی دیر میں لائونج کو ویران چھوڑ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
●●●●●●●●●●●●●
جاری ہے۔۔۔۔