Share:
Notifications
Clear all

Muhabbat ka qissa by Hadia Muskan epi (7)

1 Posts
1 Users
0 Reactions
174 Views
(@hadiamuskan)
Eminent Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 14
Topic starter  

چھ مہینوں بعد:
( انابیہ کو لاہور چھوڑے ہوئے اب ایک سال ہو گیا تھا۔)

"یار اسے یہاں کب تک رکھنا ہے؟" ایک لڑکا جھنجھلا کر بولا۔ اس کا اشارہ سامنے پڑی بیہوش لڑکی پر تھا۔ وہ اکیس سالہ ایک دوسرے لڑکے سےمخاطب تھا جو اس بیہوش لڑکی کے سامنے کرسی پر بیٹھا اردگرد سے بیگانہ اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اسی دوران اس لڑکے کا فون بجنے لگا وہ جیسے ہوش کی دنیا میں آیا۔ کرسی سے اٹھتے اس نے کال اٹینڈ کی۔۔
"جی بابا سائیں آتا ہوں۔۔" کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی۔ چہرے پر ناگواری سی چھا گئ۔ تیوڑیاں چڑھائے وہ وہاں موجود ان تینوں لڑکوں کی طرف گھوما۔۔
"مجھے جانا ہے ایمرجنسی ہے۔۔" اس کے اس جملے پر وہ تینوں لڑکے اسے عجیب طرح سے گھورنے لگے۔
"اوو بھائی تو اس کا کیا ہوگا؟ دیکھ ہم نے کبھی اس طرح کے کام نہیں کیے۔" اشارہ اسی لڑکی کی طرف تھا۔ ظفر نے اس لڑکی کو دیکھا ہلکی سی مسکراہٹ پھر اس کے لبوں پر آئ۔
"اس کا خیال رکھنا بہت تیز ہے یہ۔۔ میں جلدی واپس آئوں گا۔ پھر لے جائوں گا اسے یہاں سے۔۔" اس نے لائٹر کی مدد سے سیگریٹ جلاتے ہوئے کہا۔
"جتنی بھی تیز ہو ہے تو لڑکی نا۔ ہا ہا ہا ہا۔" آواز دوسرے لڑکے کی تھی۔ ظفر نے سخت نظروں سے اسے دیکھا تو وہ فوراً سیدھا ہوا۔
"ہاتھ مت لگانا اسے۔ بھروسہ کر رہا ہوں تم لوگوں پر۔۔ مجبوری ہے ابھی اسے گھر پر نہیں لے جا سکتا۔" لہجہ سخت پتھریلا تھا۔ وہ وارن کرتا اپنے گارڈز کی طرف مڑ گیا جو اس سے تھوڑا پیچھے کھڑے تھے۔
"ہاں ہاں بھائ تیری امانت ہے۔۔ بس جلدی آکر لے جانا اسے یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے ہم پکڑے بھی جا سکتے ہیں۔۔" وہ سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔
کچھ ہی دیر بعد اس بیہوش لڑکی کے جسم میں تھوڑی سی حرکت پیدا ہوئ۔دھیرے دھیرے اس نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی منظر دھندلا تھا۔ اس کے سر میں شدید درد تھا۔ اسے اپنے جسم میں بھی تکلیف محسوس ہوئ کیونکہ وہ کافی دیر ایک سخت زمین پر پڑی رہی تھی۔ بمشکل اس نے نیم بند آنکھوں کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کی۔ منظر اب بھی دھندلا تھا۔ اپنی سبز آنکھوں سے اس نے آس پاس جگہ پہچاننے کی کوشش کی اسے سمجھ نہیں آیا وہ کہاں تھی۔اسے محسوس ہوا اس کے ہاتھ بندھے تھے۔ آہستہ آہستہ کچھ ہی دیر میں سب کچھ اس پر واضح ہونے لگا وہ کسی زیرتعمیر بلڈنگ میں تھی۔۔ جگہ جگہ سیمینٹ کے توڑے اور بڑے بڑے سریے تھے۔ پھر اس کے کانوں میں کچھ لڑکوں کے ہنسنے کی آوازیں آئیں بےساختہ اس نے گردن دوسری طرف گھما کر دیکھا جہاں تین لڑکے بیٹھے کچھ کھیل رہے تھے۔ لڈو ، شطرنج یا تاش اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ لڑکوں کو دیکھتے ہی اس پر ایک خوف سا طاری ہوا اس نے فوراً سے خود کا جائزہ لیا۔ وہ اسی طرح حجاب میں تھی پھر جیسے گہرا سانس لے کر شکر کیا کہ وہ فلحال تک ٹھیک تھی۔ اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں اسے انابیہ کی یاد آرہی تھی۔ وہ یہاں سے کیسے نکلے گی۔ وہ اسے کیسے ڈھونڈے گی کیسے بچائے گی۔ پھر خود کو کوسنے لگی انابیہ کے ہزار دفعہ منع کرنے کے باوجود وہ اکیلے ڈرائیو کرتے ہوئے سمندر پر آجاتی تھی اسے وہاں الگ سا سکون ملتا تھا لیکن آج اس کی قسمت خراب تھی اسے یہاں آنا ہی نہیں چاہئیے تھا وہ رونے لگی مگر آواز نکالے بغیر۔۔ اس کا حلق خشک ہونے لگا بےساختہ وہ زور زور سے کھانسنے لگی۔ وہ اپنی آواز نہیں نکالنا چاہتی تھی۔ وہ لڑکے اس کی کھانسی کی طرف متوجہ ہوئے۔
"لگتا ہے ہوش آگیا ہے ۔۔" آپس میں کھسر پھسر کرتے وہ اٹھ کر اس سامنے آکھڑے ہوئے۔
"پانی۔۔ پانی!!!" وہ اب بھی بری طرح کھانس رہی تھی۔ ایک لڑکے نے گلاس میں پانی ڈالا اور جھک کر اس کے قریب لے گیا۔ اس کے ہاتھ بندھے تھے اس لیے بغیر کوئ ضد کیے اس نے اس لڑکے کے ہاتھ سے پانی پی لیا۔ پھر ایک نظر ان کو دیکھنے لگی۔
"ابے اس کی تو آنکھیں بھی سبز ہیں۔۔" اس کے سامنے بیٹھا ہوا لڑکا جیسے حیرت اور شرارت سے بولا۔زندگی میں پہلی بار اسے اتنا خوف محسوس ہوا تھا۔ وہ اتنی بےبس ہوئ تھی۔ وہ لڑکے اسے دیکھ کر عجیب طرح سے مسکرا رہے تھے۔ اسے انابیہ کا کہا جملہ یاد آیا ۔
" کسی کی ٹانگیں توڑنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی تمھارا ایسے لوگوں سے پالا پڑے۔۔"
اس کا دل کر رہا تھا کہ اس سے پہلے اس کے ساتھ کچھ غلط ہو وہ مر جائے۔ وہ شدت سے رو دینا چاہتی تھی۔
"اپنے ظفر بھائ کی چوائس کی دات دینی پڑے گی۔۔" ظفر کا نام سنتے ہی اس کا دماغ بھک سے اڑا تھا وہ کسی صدمے کی حالت میں انکو دیکھے گئ۔وہ لڑکے ہنستے ہوئے اس کے سامنے سے ہٹ گئے۔ ردا نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کے جاتے ہی وہ آیتہ لکرسی پڑھنے لگی پھر چار قل پڑھے مزید بھی اسے جو جو کچھ آتا تھا وہ پڑھتی گئ۔ پھر کافی دیر ایسے ہی بیٹھی رہی سوچتی رہی اسے کچھ کرنا تھا اسے یہاں سے نکلنا تھا۔ آس پاس بہت سی ایسی چیزیں تھی جو اس کے ہاتھ لگ جاتی نا تو ان لڑکوں کو لگ پتہ جاتا لیکن وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔
تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا چلتے ہوئے اس کے سامنے آرکا پھر جھک کر اس کے آگے ایک ٹرے رکھی جس میں ایک روٹی اور کوئ شوربے والا سالن تھا جس میں ایک عدد چکن کی چھوٹی سی بوٹی بھی تھی ساتھ ایک بڑا سا آلو۔ اس سالن کو دیکھ کر اسے بےساختہ کراچی کا سمندر یاد آنے لگا۔ افف اتنا پانی۔۔ اس کا دل کافی برا ہوا۔
"یہ کھا لو۔۔" اس کی آواز پر ردا نے اسے گھورا۔
"میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔۔" بلا کی معصومیت لیے اس نے لڑکھڑاتی آواز سے کہا۔ اس لڑکے کو اس پر ترس سا آیا تھا۔
"آآآآ۔۔ میں اپنے ہاتھوں سے کھلا دیتا لیکن ظفر جان لے لے گا۔۔" شرارت سے کہتے ساتھ وہ اس کے بندھے ہاتھ کھولنے لگا۔ ردا نے آس پاس نظر گھمائ باقی کے دونوں لڑکے اس سے کافی دور کھڑے سیگریٹ کے کش چڑھا رہے تھے۔ پھر ایک نظر سامنے پڑی پلیٹ کو دیکھا ۔ اس کے ہاتھ کھل چکے تھے۔ وہ لڑکا اس کے سامنے کرسی پر ہی بیٹھ گیا تھا ظاہر ہے وہ اس پر نظر رکھ رہا تھا کہ وہ کھانا کھا لے تو ہاتھ دوبارہ باندھ دے۔
"تم لوگ مجھے یہاں کیوں لے آئے ہو؟؟" آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ "مجھ معصوم پر تھوڑا تو ترس کھائو۔۔" ساتھ ہی ساتھ وہ بڑی معصومیت سے روٹی کا نوالا توڑ کر کھانے لگی۔ سالن کافی بدمزہ تھا ۔ " میں ظفر سے کہوں گی اتنا بد زائقہ کھانا کھلایا ہے تم لوگوں نے مجھے۔۔" روتے روتے وہ ناک کو بھی کھینچے جا رہی تھی۔ وہ لڑکا اسے دیکھے جا رہا تھا زہن میں صرف ایک بات تھی کہ یہ تو بڑی کوئ معصوم اور سادی سی لڑکی ہے اس کی مسکراہٹ گہری ہوئ۔ ردا نے یہ یقینی بنایا کہ اس لڑکے کو لگے کہ وہ بڑے آرام سے کھانا کھا رہی ہے۔ اس نے پلیٹ اپنے ہاتھ میں اٹھائ اور منہ کے قریب لے جا کر گھونٹ بھرنے لگی اس لڑکے کو وہ پھر سے بلا کی معصوم لگی۔ ردا نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا جو مسلسل چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے وہ شوربے والی پلیٹ اس کے منہ پر اچھال دی اور تیزی سے اٹھ کر دوسری طرف بھاگی۔ دل ہی دل میں وہ بہت ہی خوش تھی۔۔
" آہ ہ ہ ہ عورت کتنی پیاری اور معصوم چیز ہے۔ اللہ رحم کرے مردوں پر۔۔" وہ ہنستے ہوئے تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ اس لڑکے کی آواز پر وہ دونوں سیگریٹ پھینکتے اس کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔ اس کی آنکھیں نہیں کھل پا رہی تھی۔ نشانہ اچھا تھا ردا کا اور مرچیں بھی اچھی تھیں۔
"ابے کمینوں اس کے پیچھے جائو۔۔" ان میں سے ایک تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ دوسرا ظفر کو کال ملانے لگا۔۔ ردا نے گردن گھما کر دیکھا ایک لڑکا تیزی سے اس کے طرف بھاگتے ہوئے آرہا تھا۔ اس نے رفتار مزید بڑھائ پھر اس کی نظر سامنے پڑے ایک سریے پر پڑی۔ اس نے جھک کر وہ سریا اٹھایا۔۔ وہ لڑکا اس کے بہت قریب پہنچ گیا تھا کمال کی سپیڈ تھی اس کی۔۔
"یااللہ مدد!!" کہتے ساتھ اس نے گھوم کر اس لڑکے کے سر پر وہ سریہ دے مارا۔ پتہ نہیں کیسے مگر آج اس کے بازوؤں میں بڑی جان آگئ تھی۔ وہ لڑکا لڑکھڑا کر گر گیا۔ سکون اسے اب بھی نہ ملا تو اس کی ٹانگوں پر بھی زور زور سے مارنے لگی۔ آج اس نے اپنی یہ خواہش بھی پوری کر دی تھی ٹانگیں تو ٹوٹ ہی گئ ہوں گی۔۔صحیح کہتے ہیں بات جب عزت پر آئے تو آر دیکھنا چاہئیے نہ پار۔ اٹھا لاٹھی اور سر پہ مار۔۔
اس کا سانس پھولنے لگا تھا۔ وہ رک کر تیز تیز سانس لیتے اسے دیکھنے لگی پھر سامنے دیکھا تو دوسرا لڑکا بھی بھاگتا ہوا آرہا تھا۔۔ وہ طنزیہ مسکرائ۔۔
"لگتا ہے پہلی دفعہ کدنیپنگ کی ہے۔۔ چچچ معصوم۔۔" وہ تیزی سے آگے کی طرف بھاگی لڑکا اب بھی اس کے پیچھے تھا۔۔ بھاگتے ہوئے ایک دیوار کی اووٹ میں ہو کر کھڑی ہو گئ۔ سریے کو ایسے تھاما جیسے بابر اعظم اپنا بلا پکڑتے ہوئے گراونڈ میں نظریں گھماتا ہے۔۔ بس اس کے آنے کی دیر تھی۔ ردا نے اس کے آتے ہی اس کے منہ پر شاٹ لگایا تھا۔ وہ تھوڑا دور جا کر گرا۔ اس بیچارے کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ دیوار کے اس پار ایک کرکٹ فین کھڑی ہوگی۔۔ اس کو مارتے ہی وہ تیزی سے باہر کی طرف بھاگی اسے یقین تھا مرا ان میں سے کوئ بھی نہیں ہوگا مر بھی گیا ہوا تو جس کے چہرے پر سالن الٹایا تھا وہ تو زندہ ہی ہوگا۔۔ وہ آس پاس دیکھتے ہوئے بھاگ رہی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا باہر کا راستہ کہاں سے ہوگا ۔ تیز تیز سانس لیتے وہ بائیں طرف مڑ گئ۔ وہ بھاگ ہی رہی تھی کہ کسی نے زور سے اس کا بازو دبوچ کر اسے دوسری طرف کھینچ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔۔ وہ جو بھی تھا ردا کے منہ پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ اس طرف گھپ اندھیرا تھا وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ ردا نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس کی گرفت اس کے بازوؤں پر مزید سخت ہو گئ۔۔"شش!!!!"
"ڈھونڈو اسے ورنہ ظفر جان سے مار دے گا۔۔"انہی میں سے ایک لڑکے کی آواز اسے دور سے سنائی دینے لگی۔ اس نے مزاحمت کرنا چھوڑ دی۔ اس لڑکے نے اس کو بازو سے پکڑا اور دوسری طرف کھینچ کر لے گیا۔ وہ اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ ایک بچی کی طرح اس کے پیچھے پیچھے کھنچی چلی جا رہی تھی۔۔ روشنی بڑھنے لگی۔ ایک بلب کی روشنی اس کا چہرہ واضح کرنے لگی مگر وہ پیچھے تھی۔ اس نے اس کے بالوں کو دیکھا۔۔ گھنگھرالے بال۔۔ پھر اس نے اسکے ہاتھوں کو دیکھا جن کی نسیں ابھری ہوئیں تھیں۔۔ ایک پل کے لیے اسے بلکل یقین نہیں آیا۔ وہ شاید اسے باہر لے آیا تھا ۔کچھ ہی دیر میں وہ اس کی طرف گھوما۔ ردا شاک کے عالم میں پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گئ۔۔
“کیا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں؟؟" وہ ٹرانس کی سی حالت میں بےساختہ بول اٹھی۔۔
“کیا تم خوابوں میں مجھے دیکھتی ہو؟" عالیان اس کی شاک حالت دیکھتے ہوئے بولا۔ "ایسے دیکھ رہی ہو جیسے میں مر گیا تھا اور اب اچانک میری روح تمھارے سامنے آگئ ہو۔۔" ۔ وہ کچھ پل کے لیے کچھ بول نہیں سکی شاید اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کم روشنی میں بھی عالیان کے کانوں میں پہنی بالیاں چمک رہی تھیں۔
"چلو یہاں سے وہ آجائیں گے۔۔" ردا اپنی جگہ سے نہ ہلی وہ صدمے کی حالت سے نکل آئ تھی۔ عالیان نے اسے گھور کر دیکھا۔۔" چلو ۔۔" کچھ سوچتے سمجھتے وہ اس کے پیچھے چلنے لگی۔۔ سامنے وہی گاڑی تھی جو ردا کی تھی مطلب عالیان کی ہی تھی اس کے جانے کے بعد سے ردا کے استعمال میں تھی۔۔ وہ حیرت کا شکار ہوئ کہ گاڑی اسے کہاں سے ملی وہ تو سمندر کے آس پاس ہونی چاہیئے تھی اور وہ یہ یہاں کیسے آیا لیکن اس نے کچھ نہیں پوچھا فلحال وہ گھر جانا چاہتی تھی بعد میں پوچھ لے گی۔ انہی سوچوں کے دوران اس نے اپنے پیچھے ایک گاڑی کو رکتے دیکھا تو فوراً عالیان کی طرف گھومی جو گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
"یہ لوگ کون ہیں؟" وہ سرگوشی نما انداز میں بولی۔
"تمہیں اس سے مطلب۔۔ گاڑی میں بیٹھو جلدی۔۔" وہ اس پر حکم صادر کرتے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ردا پیر پٹختی گاڑی میں جا بیٹھی۔
گاڑی میں پیسنجر سیٹ پر بیٹھے وہ مکمل خاموشی سے باہر اندھیری سڑک کو دیکھ رہی تھی۔ عالیان ڈرائیو کرتے کرتے ایک نظر اس کو ضرور دیکھتا تھا۔
"تم یہاں کسیے پہنچی؟؟" خاموشی کو توڑتے ہوئے وہ بولا۔ ردا نے گردن نہیں موڑی تھی۔
"کدنیپ ہوئ تھی۔۔" وہ دبی ہوئ آواز سے بولی۔
"کون لوگ تھے؟؟"
"نہیں پتہ۔۔" وہ اسے نہیں بتانا چاہتی تھی اس لیے انجان بن گئ۔۔ وہ دوبارہ سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔
"تمہیں میرا شکرگزار ہونا چاہئیے میں نے تم پر ایک اور احسان کیا ہے۔۔" وہ مسلسل بری طرح سے اگنور ہو رہا تھا اس لیے جتانے لگا۔۔ اب کی بار ردا نے گردن گھما کر اسے گھورا۔
"میں نے اپنی مدد خود کی ہے۔۔" وہ غصے سے دانت پر دانت جمائے بولی۔
"ہاں تم نے بھاگ کر ہمت دکھائ۔ بٹ فور یور کائینڈ انفارمیشن تم غلط جگہ بھاگ رہی تھی باہر کا راستہ وہاں سے نہیں تھا۔۔" ایک پل کو ردا نے واقعی شکر ادا کیا کہ اگر وہ باہر نہ آتی تو ظفر ضرور آجاتا۔
"فکر نہ کریں میں قرض نہیں رکھتی جلدی چکا دوں گی عالیان بھائی۔۔" اس کا رخ دوبارہ کھڑکی سے باہر تھا جبکہ عالیان خاصا تپ گیا تھا۔
"میں تمہیں ابھی موقع دے سکتا ہوں قرض چکانے کا۔۔" نظریں ہنوز سامنے سڑک پر تھیں ۔
"کیسے؟؟" وہ گردن اس کی طرف موڑتے ہوئے بولی۔
"زیادہ نہیں بس مجھے صرف عالیان کہا کرو بھائی نہیں ہوں میں تمہارا۔۔۔" وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا۔ ردا نے اسے عجیب سی شکل بنا کر دیکھا۔
"کیوں عزت راس نہیں ہے؟؟" عالیان اس کی بات پر فوراً ہنس دیا۔۔
"ایسی عزت نہیں چاہئیے جس میں تم میری بہن جائو۔۔" دل ہی دل میں استغفراللہ کہنے لگا۔۔ پھر ردا کی حیرت زدہ شکل دیکھ کر سانس بھر کر رہ گیا۔۔"مطلب نہ میں تمہارا بھائی ہوں نہ ہی کچھ اور۔۔ خود کو مجھ سے منسلک کرنے کی کوشش مت کرو۔۔ تم میری کچھ نہیں لگتی ۔ " وہ لہجہ تھوڑا سخت کرتے ہوئے بولا۔
"فائن۔۔" کہتے ساتھ ردا دوبارہ کھڑکی کی طرف گھوم گئ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی آخر اس شخص کو مسئلہ کیا ہے اس سے۔
"تم یہاں کراچی میں کیا کر رہی ہو؟؟" اس کے سوال پر ردا حیرت کا شکار ہوئ یعنی وہ ابھی تک گھر نہیں گیا تھا سوائے ردا کے وہ ابھی کسی سے نہیں ملا تھا۔
" میرے سر میں درد ہے ابھی کوئ سوال نہیں۔۔" کڑک لہجے میں کہتی وہ سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گئ۔۔ عالیان نے ایک تیز نظر اس پر ڈالی اور ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا۔گاڑی ہنوز نارمل سپیڈ سے سڑک پر چل رہی تھی۔
گھر پہنچتے ہی وہ تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر نکلی اور بھاگتی ہوئ اندر جانے لگی۔ سیڑھیوں کے اختتام پر ہی انابیہ پریشانی سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔ ردا فوراً بھاگتے ہوئے اس کے گلے جا لگی۔ انابیہ نے سکھ کا سانس لیا۔
"یااللہ شکر۔۔ کہاں تھی تم ؟؟ " وہ نم آنکھوں سے اسے بازوؤں سے تھامے پوچھنے لگی۔ اس سے پہلے ردا کچھ بتاتی انابیہ کی نظر بیرونی دروازے سے آتے عالیان پر پڑی۔ اس کے اس طرح اچانک سامنے آجانے سے وہ شاک میں چلی گئ۔ پھر قدم اٹھاتی اس کی طرف گئ۔ جس چہرے پر ابھی کچھ دیر پہلے صدمہ تھا اب اس پر غصہ تھا نفرت تھی۔ اسکا دل کیا کہ ایک زوردار تھپڑ جھڑ دے اس کے منہ پر لیکن پھر خود پر ضبط کر گئ۔عالیان نظریں جھکائے کھڑا تھا۔
"کہاں لے کر گئے تھے تم اسے؟؟ " اس کا سوال بے تکا تھا۔ عالیان نے ناسمجھی سے اس کے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا۔ ردا بھی حیرت کا شکار ہوتے اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئ۔
"بتائو پوچھ رہی ہوں کچھ کہاں لے کر گئے تھے میری بہن کو؟؟ کیوں ہماری زندگیوں پر عذاب بنے پھرتے ہو تم۔ اچانک غائب ہو جاتے ہو اچانک آجاتے ہو اور آتے ساتھ میری بہن کو اغوا کر لیتے ہو۔۔ چاہتے کیا ہو تم؟؟" اس کے لفظ محض لفظ نہیں تھے تیر تھے جو سیدھا عالیان کے سینے میں گھپ رہے تھے۔ وہ اپنے ڈیفینس میں کچھ نہیں بولا۔ بولتا بھی کیا۔ اس کے گلے میں پھانس کی طرح کچھ اٹک سا گیا تھا۔ وہ محض دکھ بھری نظروں سے اسے دیکھے جا رہا تھا جو سراپا سوال بنی اس کے سامنے کھڑی تھی۔
"آپی ایسا کچھ نہیں ہے آپ میری بات سنے۔۔" ردا نے اسے کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا تو اس نے تیزی سے اسے جھٹکا۔۔
"میں اس سے بات کر رہی ہوں۔۔" وہ دوبارہ اس کی طرف گھومی۔
"آپی انہوں نے ہی تو جان بچائ ہے میری۔۔"ردا ایک بار پھر تیزی سے بولی۔ انابیہ نے اب اپنی نظروں کا رخ ردا کی طرف کیا اور حیرت سے اسے دیکھے گئ۔
"کیا مطلب؟"
"میں کدنیپ ہوئ تھی۔۔ یہ اگر وہاں نہ آتے تو میں یہاں نہ آتی۔۔" انابیہ اپنی جگہ تھم سی گئ۔
"کس نے کیا ؟" وہ بمشکل اپنے لب ہلا پائ۔
"ظفر نے۔۔" ردا نے مختصراً کہا جبکہ یہ نام وہاں کھڑے انابیہ اور عالیان دونوں کے لیے انجان تھا۔ اس نے نظریں اٹھا کر باری باری دونوں کو دیکھا جن کی نظروں کا مرکز وہی تھی۔
"ظفر جہانزیب۔۔ جہانزیب عالم کا اکلوتا بیٹا۔۔" اب ردا نے تھوڑا تفصیل سے بتایا۔۔انابیہ بے ساختہ ایک قدم پیچھے ہوئی۔ اس کے دل کی دھڑکن جیسے رک سی گئ تھی۔ عالیان اپنی جگہ ساکت سا کھڑا تھا۔
"جہانزیب !! " عالیان نے سختی سے مٹھی بھینجتے اس کا نام لیا۔ انابیہ اور ردا دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کے منہ سے جہانزیب کا نام سن کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ سب جانتا ہے۔۔" میری ماں کا قاتل!!" وہ پھر سے غصے میں بولا۔
"تم سب جانتے ہو؟؟" انابیہ کو اپنی آواز کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اب حیران ہونے کی باری عالیان کی تھی۔
"کیا تم بھی؟؟" اس کے پوچھتے ہی انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا۔
"لیکن ابھی بہت کچھ اور ہے جو تمہیں جاننا ہے۔۔" وہ رکی اور ردا کی طرف متوجہ ہوئی۔۔ "ظفر کو کب سے جانتی ہو تم؟؟"
"چھ مہینے پہلے سے۔۔" کچھ دیر سوچ کر اس نے جواب دیا۔۔ " لیکن وہ نہیں جانتا کہ میں اس کی کزن ہوں۔ اس نے صرف مجھے سمندر پر دیکھا تھا بس تب سے پیچھے پڑ گیا ہے۔۔"
"اور تمہیں کیسے پتہ کہ وہ جہانزیب کا بیٹا ہے؟؟: اس بار سوال عالیان کا تھا۔
"اس کے سوشل ہینڈل سے۔۔"
"تو تم نے مجھے کبھی کیوں نہیں بتایا؟" انابیہ شکوہ کن نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
"میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی بس اس لیے۔۔" وہ سر جھکائے دبی ہوئی آواز میں بولی۔۔
"تم پاگل ہو کیا اتنے خطرناک انسان کے بارے میں مجھ سے چھپایا تم نے۔۔" اس نے سختی سے اسے بازو سے دبوچا۔ عالیان روکنا چاہتا تھا مگر پھر رک گیا۔۔ " تمہیں منع کیا تھا نا میں نے ردا تم کیوں باز نہیں آتی اکیلے باہر جانے سے ہاں۔۔" وہ بلا کی سختی لیے اس پر بھڑک رہی تھی۔
"پلیز آپ پھر کبھی ڈانٹ لیجیے گا ۔۔ میرے سر میں بہت درد ہے۔۔ پتہ نہیں کیا مارا تھا اس نے میرے سر پر۔۔" وہ سر پر ہاتھ رکھے تھوڑا کراہ کر بولی۔ عالیان ضبط سے مٹھی بھینچ گیا جبکہ انابیہ کے تو ہوش ہی اڑ گئے تھے۔
"کوئی زخم تو نہیں آیا سر پر؟" وہ فوراً آگے بڑھتے ہوئے فکرمندی سے اس سے پوچھنے لگی۔
"نہیں کوئی زخم نہیں ہے میں اب آرام کرنا چاہوں گی۔۔" اس نے نرمی سے انابیہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور پھر ایک نظر عالیان کو دیکھ کر سیڑھیاں عبور کرتی چلی گئ۔۔ اس کے جاتے ہی انابیہ نے عالیان کو دیکھا جو نظروں میں سختی لیے سامنے دیکھ رہا تھا ۔
"ایک دفعہ یہ ظفر میرے ہاتھ لگ جائے بخشوں گا نہیں ۔۔" سختی سے کہہ کر اس نے انابیہ کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ "اب تم کیوں گھور رہی ہو کچھ رہ گیا ہے سنانے کو تو وہ بھی سنا دو میں کھڑا ہوں یہی۔۔" انداز طنزیہ تھا وہ ہاتھ سینے پر باندھے اس کے سامنے ہی کھڑا ہو گیا۔۔ " اب میں اپنے گھر کی لڑکیوں کو اغواء کروں گا کمال ہے۔۔ الزام تو ڈھنگ کا لگایا کرو یار۔۔" اس کے اس طرح شکوہ کرنے پر انابیہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
"کالے ہوتے جا رہے ہو۔۔" اس نے ڈائریکٹ بولا تھا۔ عالیان ہلکا سا مسکرا دیا۔
"برے کاموں کا اثر ہے۔۔" ماتھے پر پڑتے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔ انابیہ مڑ کر جانے ہی لگی تھی کہ پھر اس کے سوال پر رکی۔
"ڈیڈ جاگ رہے ہیں؟؟"
"ہاں وہ لیٹ سوتے ہیں۔۔" اس نے مڑ کر کہا۔۔ بس اس کے کہنے کی دیر تھی وہ قدم اٹھاتا ناصر صاحب کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔ انابیہ وہاں سے نہ ہلی ۔ وہ وہیں کھڑی رہی اسے خوف تھا کہ ناجانے تایا ابو ایسے اچانک عالیان کو دیکھ کر کیسے ری ایکٹ کریں گے ۔ پھر قدم اٹھاتے لونگ روم میں صوفے پر جا بیٹھی۔ ساتھ ہی ناصر صاحب کا کمرہ تھا۔
کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اس نے دیکھا کہ ناصر صاحب ویل چئیر پر اس کی طرف پشت کیے بیٹھے تھے۔ ویل چئیر کو دیکھتے ہی اس کے قدم وہیں منجمد ہو گئے وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
"لیکن ابھی بہت کچھ اور ہے جو تمہیں جاننا ہے۔۔" ماتھے پر ڈھیروں پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔ ناصر آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے۔
"ڈیڈ۔۔" کپکپاتی ہوئی آواز سے اس نے ان کو پکارا۔ انہوں نے تیزی سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ عالیان کی آواز وہ کیسے نہیں پہچان سکتے تھے۔ اپنی الیکٹرک ویل چئیر کو تھوڑا سا گھماتے وہ اس کی جانب مڑے پھر حیرت اور صدمے سے اسے دیکھے گئے۔ جس کے آنے کی امید وہ کھو بیٹھے تھے وہ اب اچانک یوں ان کے سامنے کھڑا تھا۔ انہیں لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں ۔ وہ وہیں دروازے پر کھڑا تھا۔ آنکھیں نم تھیں جسم ساکت تھا۔۔وہ قدم اٹھاتا ان کے قریب آنے لگا۔۔
"وہیں رک جائو یہاں مت آنا۔۔" اپنا ہاتھ ہلکا سا اوپر کر کے انہوں نے اسے رکنے کا کہا۔ آواز قدرے اونچی تھی۔ وہ بت بنے کھڑا رہا۔۔
"ڈیڈ!!!" گلے میں پھانس کی طرح کچھ اٹکا تھا۔۔
"نہیں ہوں میں تمہارا ڈیڈ چلے جائو یہاں سے۔۔" وہ پھر سے گرجے۔ باہر کھڑی انابیہ نے اب کی بار ان کی آواز سنی۔ جس بات کا اسے ڈر تھا وہی ہوا۔ وہ تیز قدم لیتے ان کے کمرے کی طرف بڑھی لیکن پھر رک گئ یہ سوچ کر کہ باپ بیٹے کا معاملہ ہے شاید اسے بیچ میں نہیں پڑنا چاہئیے۔
"ڈیڈ۔۔ میں بیٹا ہوں آپکا۔آپ کا عالیان ہوں۔" وہ رندھی ہوئی آواز سے کہنے لگا۔۔
"میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔۔ بیا!! بیا!! بیا!!!۔" کہتے ساتھ وہ زور زور سے انابیہ کو پکارنے لگے۔ اپنا نام سنتے ہی وہ بجلی کی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی ۔ عالیان برف کا مجسمہ بنے انہیں دکھی نظروں سے دیکھنے لگا۔
"اسے کہو دفع ہو جائے یہاں سے۔۔ بیا اس سے کہو مجھ سے اس کا وجود برداشت نہیں ہو رہا۔۔" وہ پھر سے دھاڑے۔۔ وہ پھٹی آنکھوں سے اپنے باپ کی بےرخی دیکھتا رہا۔
"پلیز تایا ابو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔" وہ انکے سامنے بیٹھتے ہوئے پریشانی سے بولی۔۔
"اسے کہو صرف اس کمرے سے نہیں اس گھر سے بھی دفع ہو جائے۔۔ مجھے یہ اس گھر میں نہیں چاہئیے۔۔"
"عالیان جائو یہاں سے پلیز ان کی طبیعت خراب ہو جائے گی خدا کے لیے۔۔" بس اس کے کہنے کی دیر تھی عالیان لڑکھڑاتے قدم وہاں سے چلا گیا۔۔ اسے جاتا دیکھ کر انابیہ کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے ۔
"میک شیور وہ کل تک یہاں نہ ہو۔۔" وہ روہانسی ہو کر انہیں دیکھے گئ۔

●●●●●●●●●●

وہ تایا ابو کو دوا دے کر باہر نکل آئی۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے اس نے لونگ روم میں نظر گھمائی وہ وہاں نہیں تھا۔ کیا وہ واقعی چلا گیا تھا؟ کمرے سے باہر نکل کر اس نے اسے بیرونی دروازے کی سیڑھیوں میں بیٹھا دیکھا۔ دل ہی دل میں شکر ادا کرتی وہ اپنے کمرے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ۔ ہینڈ ریلنگ پر ہاتھ رکھے اس کے قدم ایک آواز پر رکے تھے۔۔ اس کے رونےکی آواز سسکیوں کی آواز۔۔ وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ وہ رو رہا تھا اسے یقین نہ آیا تو تیز قدم اٹھاتی اس کے ساتھ جا بیٹھی۔ عالیان اپنا سر بازوؤں میں جکڑے جھکائے بیٹھا
تھا۔۔کچھ سوچتےسمجھتے اس نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ عالیان نے سر نہ اٹھایا وہ جانتا تھا اس کے کندھے پر اس وقت ہاتھ کس کا ہو سکتا ہے۔
"میں بہت برا بیٹا ہوں انابیہ۔۔ مجھے افسوس ہے میں زندہ واپس کیوں آگیا۔ میں وہیں کیوں نہیں مر گیا؟" وہ روتے ہوئے بول رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ انابیہ صدمے کی حالت میں اسے دیکھے گئ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اس نے تیزی سے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر سے واپس ہٹا لیا۔ اس کا دل کیا اٹھ کر وہاں سے چلی جائے مگر اس پر غصہ اپنی جگہ وہ اتنی سنگدل نہیں تھی کہ اسے روتا بلکتا چھوڑ کر وہاں سے چلی جائے۔۔ وہ کافی دیر ایسے روتا رہا وہ اس کی آواز سنتی رہی ۔ اس کو تکلیف ہو رہی تھی وہ چاہ رہی تھی کہ کسی طرح وہ چپ ہو جائے اور ایسا ہی ہوا تھوڑی دیر بعد وہ چپ ہو گیا لیکن سر ہنوز جھکا ہوا تھا۔ انابیہ نے خوف سے اسے دیکھا اور اس کو بازو سے پکڑ کر ہلکا سا جھنجھوڑ ا۔
"نہیں مرتا میں۔۔ مرنا ہوتا تو جو کچھ سہ کر آیا ہوں مر جاتا۔۔" اسکی آواز پر وہ یکدم سیدھی ہوئ۔
"ڈیڈ ویل چئیر پر کیوں ہیں؟؟ تم لوگ یہاں کیوں ہو؟؟ چچا جان اور خالہ جان کہاں ہیں؟ مجھے سب بتائو انابیہ پلیز۔۔" انابیہ نے دیکھا اسکی آنکھیں سرخ تھیں چہرہ سرخ تھا۔ اسے اس پر رحم آنے لگا تھا۔ اتنے ٹائم کی نفرت تو وہ جیسے بھول ہی گئ تھی۔ یہ وہ عالیان نہیں تھا جس سے اسے نفرت تھی۔
"بولو انابیہ۔۔" اس نے سرخ متورم آنکھیں لیے اس سے پھر سے کہا۔۔ پھر سب کچھ اسے تفصیل سے بتانے لگی۔۔ شروع سے لے کر آخر تک ۔۔ لاہور سے لے کر کراچی تک۔۔ کبیر سے لے کر جہانزیب تک۔۔ وہ بھی اب رونے لگی تھی اسے سب کچھ بتاتے ہوئے۔ کالے گھنے آسمان پر بادل تھے۔۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی ساتھ چل رہی تھی۔۔
"یعنی تمھاری محبت میں نے چھینی۔۔ ڈیڈ اس حال میں میری وجہ سے ہیں۔۔ چچا جان خالہ جان کی موت کا ذمہ دار بھی میں ہوں۔۔" اس نے زور سے دو دفعہ اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا تھا۔ انابیہ نے بےساختہ اس کے ہاتھ روکے۔
"نہیں نہیں تم نے کچھ نہیں کیا۔۔ ہاں میری محبت کے چھن جانے میں تمہارا قصور ہے مگر بابا جان اور ماما جان کی موت کے ذمہ دار تم نہیں ہو۔۔"
"میں ہوں۔۔ اگر اس دن ایما فون نہ کرتی تو یہ سب نہ ہوتا۔۔ چچا جان کی طبیعت خراب نہ ہوتی۔ وہ ہاسپٹل نہ جاتے اور یہ سب نہ ہوتا۔۔ اللہ کرے تمہیں قبر میں بھی سکون نہ ملے ایما۔۔" وہ پھر سے رونے لگ گیا اس کا دل جیسے پھٹنے کو تھا۔۔
"تم نے اس دن جھوٹ کیوں بولا تھا؟؟" انابیہ اسی دن کی بات کر رہی تھی جب اس نے احمد صاحب کے کہنے پر عالیان کو فون کیا تھا۔
"میں نے جھوٹ نہیں بولا تھا انابیہ۔۔" وہ سچ بول رہا تھا۔
"مگر تم نے مجھ سے کہا تھا تم شادی نہیں کرو گے واپس بھی نہیں آئو گے اس دن تم نے کال پر کہا کہ تم واپس بھی آئو گے شادی بھی کرو گے۔۔" وہ باری باری اس کی کالی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"کیونکہ تم نے میری پوری بات نہیں سنی تھی۔۔ میں نے کہا تھا میں آئوں گا مگر تمہارے لیے نہیں انابیہ۔۔ میں نے شادی کرنی تھی مگر تم سے نہیں ۔۔" وہ حیرت سے پھر اسے دیکھے گئ اسے سمجھ نہیں آیا وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
"تو کس کے لیے آنا تھا اور کس سے شادی کرنی تھی؟؟" اس کے سوال پر وہ کچھ دیر چپ رہا۔
"ردا سے۔۔" وہ پلکیں جھپکنا بھول گئ تھی۔۔ "میں جب لاہور آیا تھا مجھے اسی وقت ردا سے محبت کا خدشہ ہو گیا تھا اسی لیے بھاگ گیا وہاں سے۔۔ لیکن واپس جا کر مجھے پتہ چلا کہ جس محبت سے میں ڈرتا تھا وہ تو مجھے ہو گئ ہے اور بری طرح سے ہو گئ ہے۔۔" وہ نہایت مرجھائی ہوئی آواز سے کہے جا رہا تھا جبکہ انابیہ کے کان سائیں سائیں ہونے لگے۔۔
"کبھی نہیں۔۔" وہ تیزی سے بولی۔ عالیان نے برہمی سے اسے دیکھا۔۔ "وہ کسی سے بھی محبت کر سکتی ہے مگر تم سے نہیں کرے گی۔۔ میں جانتی ہوں اسے مر جائے گی تم سے محبت نہیں کر سکے گی۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہی تھی۔۔
"جانتا ہوں۔۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔۔" انابیہ بے بسی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"تم شادی شدہ ہو عالیان۔۔ اس کے ساتھ یہ ظلم مت کرنا وہ چھوٹی ہے بہت اس سے ایسا کچھ مت کہنا۔۔ اپنی محبت چاہو تو دفن کردو۔۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی وہ بری طرح سے ٹوٹے۔۔"
"شادی میری مرضی سے نہیں ہوئ تھی۔۔ ایما نے جو بھی کہا جھوٹ تھا۔ اور ویسے بھی وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ لیکن پھر بھی میں چاہتا ہوں ردا کو میری محبت کا علم نہ ہو۔۔کبھی نہ ہو۔ کیونکہ میں خودغرض نہیں رہا۔۔"
"کیا تم مجھے سب تفصیل سے بتانا پسند کرو گے؟؟" اس کی بات پر عالیان نے سر اثبات میں ہلایا اور اسے سب بتانے لگا۔۔

ایک سال پہلے:

وہ اپنے اپارٹمنٹ میں تھا۔ جس رات انابیہ نے اسے کال کی تھی یہ اس سے اگلی صبح تھی۔ وہ لیپ ٹاپ کی سکرین آن کیے اپنے ایگزامز کی تیاری کر رہا تھا۔ اسی دوران اسے ڈور بیل کی آواز آئی ۔ لیپ ٹاپ بیڈ پر رکھتے وہ دروازے تک گیا اور دیوار پر لگے ڈیوائس کا ڈور بٹن دبا کر دوبارہ کمرے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ دوبارہ باہر آیا تو اس نے دیکھا ایما دروازے سے ٹیک لگائے اسے مسرور ہو کر دیکھ رہی تھی۔
"مجھے تو لگا تم ناراض ہو مجھ سے۔۔" وہ اس کے سامنے آتے ہوئے بولا۔
"تھی مگر زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔۔ تم نے تو منانا تھا نہیں ۔۔" دروازے سے ہٹ کر وہ سیدھا اندر آگئ اور کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اس سے شکوہ کر رہی تھی۔ عالیان بےساختہ مسکرا دیا۔
"چلو اچھی بات ہے ویسے میں منانے کا سوچ رہا تھا۔۔" اس نے آنکھ کو ونگ کرتے ہوئے کہا۔
"اب کبھی کوئی ناراضگی نہیں آئے گی ہمارے درمیان۔" وہ اعتماد سے کہہ رہی تھی۔
"اچھا!!" وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔
"اب تم مجھ سے کبھی دور نہیں ہوگے۔۔"
"ہمم۔۔۔"
"میں اپنا حصار تمہارے گرد اتنا تنگ کر دوں گی کہ تم چاہ کر بھی نہیں نکل سکو گے۔۔" وہ اطمینان سے کھڑی تھی۔
"ہمم اور کیا کرو گی؟" عالیان آنکھیں سکیڑے اسے دیکھنے لگا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اس کے جذبات کو مذاق میں لے رہا تھا۔
"تمہیں خود سے محبت کرنے پر مجبور کر دوں گی۔۔"
"میں مجبور نہیں ہوں گا۔۔" وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے دیکھ رہے تھے۔
"تمہیں ہونا ہوگا۔۔" بس یہ کہنے کی دیر تھی۔۔ عالیان کو لگا کسی نے پیچھے سے کوئی چیز اس کے سر پر دے ماری ہو۔۔ وہ درد سے کراہ کر رہ گیا۔ سب کچھ گول گول گھومنے لگا وہ زور سے فرش پر گرا۔۔ ہر طرف دھندلا دھندلا ہونے لگا۔
"یہاں پر جتنے بھی کیمراز ہیں انکو ڈی ایکٹیویٹ کر وا دو جلدی۔۔" کہتے ساتھ وہ فرش پر عالیان کی طرف جھک کر بیٹھی اور اس کے خوبصورت سفید چہرے پر نرمی سے انگلی پھیرنے لگی۔
"تم صرف میرے ہو۔۔" وہ طنزیہ انداز سے مسکرا رہی تھی۔۔" اسے اٹھا کر لے آئو۔۔" وہ کہتے ساتھ اٹھ کر باہر جانے لگی۔۔ عالیان تکلیف سے آنکھیں موند گیا۔ ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا تھا۔
اس نے دھیرے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔۔ شروع میں ہر طرف منظر دھندلا تھا لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ہر اس پر واضح ہونے لگا۔ وہ ایک بیڈ پر لیٹا ہوا تھا ۔ اس نے آس پاس دیکھا وہ کسی وسیع کمرے میں تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ اس نے اپنا ہاتھ سر پر رکھا تو اسے پتہ چلا کہ اس کےسر پر پٹی بندھی تھی۔ اسے کچھ کچھ یاد آیا کہ وہ پہلے بھی ہوش میں آیا تھا شاید وہ اس وقت کسی پلین میں تھا۔ تبھی اس کو کوئی سوئی بازو پر چبھائی گئ تھی تو وہ دوبارہ بیہوش ہوگیا تھا ضرور بیہوشی کا انجیکشن۔۔ "آہ ہ ہ!!" دماغ پر زور ڈالتے ڈالتے اسے پھر سے درد ہونے لگا۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بمشکل کوشش کرنے لگا۔ اسے لگا جیسے اس کی ٹانگوں میں جان نہیں تھی۔ اس نے گلاس ونڈو سے باہر جھانکنے کی کوشش کی تو اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ وہ ایک اونچی عمارت کے بالائی حصے میں تھا۔۔ باہر دیکھنے پر اسے سڑک پر چلتی گاڑیاں چیونٹیوں کی مانند لگ رہی تھیں۔۔ اسی دوران اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ ایما اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر اس کے قریب آئی۔
"فائنلی تمہیں ہوش آگیا۔۔"
"کہاں ہوں میں؟؟" اس نے پتھریلی نظروں سے اسے گھورا۔۔ وہ خاموشی سے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھے گئ۔ "ایما۔۔ مجھے میرے اپارٹمنٹ چھوڑ کر آئو ابھی۔۔" وہ دانت پر دانت جمائے بولا۔ پھر اسے ایما کا قہقہہ سنائی دیا۔
"عالیان تم امریکہ میں نہیں ہو جو تمہیں اپارٹمنٹ چھوڑ دوں۔۔" عالیان کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئ۔ "تم اٹلی میں ہو۔۔" کہتے بلکل اس کے قریب ہوئی اتنا کہ اب وہ اس کی آنکھوں میں خوف دیکھ سکتی تھی۔ "میں نے کہا تھا نا میں تمہارے گرد اپنا حصار اتنا تنگ کر دوں گی کہ تم چاہ کر بھی نہیں نکل سکو گے اور یہ اٹلی میرا حصار ہے عالیان تم یہاں سے کبھی نہیں نکل سکتے۔۔" عالیان نے تیزی سے اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑا۔
"بکواس بند کرو اپنی۔۔ میں یہاں نہیں رہوں گا۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دہشت دیکھ سکتی تھی۔ بےساختہ اس نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر رکھا اور ہنسنے لگی۔ عالیان کا پارا مزید ہائی ہوا تو گرفت سخت کر گیا۔
"کسی بہانے تم میرے قریب تو ہوئے۔۔" عالیان نے جھٹکے سے اسے چھوڑا وہ لڑکھڑاتے ہوئےتھوڑا دور ہوئی۔۔ پھر تیز قدم لیتے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ کوئی عجیب سا دروازہ تھا۔ اس نے کھولنے کی کوشش کی مگر بےسود۔۔میٹل کا بنا ہوا ایک مضبوط دروازہ تھا وہ۔ ایما ہنستے ہوئے اس کی ہر ممکن کوشش دیکھ رہی تھی۔
"عالیان اپنی انرجی مت ویسٹ کرو۔۔ یہ بائو میٹرک ہے میرے، ڈیڈ اور راج کے علاوہ کوئی نہیں کھول سکتا۔" وہ فاتحانہ انداز سے مسکرائی ۔ عالیان لب بھینجتے اس کے قریب آیا۔
"پلیز۔۔ مجھے واپس بھجوا دو۔۔ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔۔" وہ منت کرنا نہیں چاہتا تھا مگر ناچاہتے ہوئے بھی وہ بےبسی کا شکار ہوا۔ ایما کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔
"ایسے مت کہو۔۔ میں تمہیں نہیں جانے دے سکتی۔۔ یو نو آئی لو یو۔۔" وہ کافی نرمی سے بولی۔
"بٹ آئی ڈونٹ۔۔" وہ تقریباً دھاڑا۔ ایما نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ اسی دوران ایک اور شخص اس کمرے میں داخل ہوا۔ تھری پیس سوٹ پہنے کلین شیو کیے مظہر درانی عالیان کے سامنے آکھڑا ہوا۔۔ ڈارک گرے بالوں والا وہ شخص عالیان کو سر تا پیر دیکھنے لگا اور پھر چلتا ہوا جا کر اس کمرے میں پڑے اکلوتے کائوچ پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا۔
"پسند اچھی ہے تمھاری ایما۔۔" وہ عالیان کو غور سے سر تا پیر دیکھتے ہوئے بولا۔
" تمہاری تعریف؟؟" عالیان ابرو اچکاتے اسے دیکھنے لگا۔۔
"مظہر درانی۔۔ ایما کا ڈید۔۔ اٹلی کا ڈون۔۔ اٹالین مافیا میں مجھے سٹون ہارٹ کہا جاتا ہے۔۔اور کچھ جاننا ہے تمہیں؟؟" عالیان بےساختہ ایک قدم پیچھے ہوا۔ وہ کہاں پھنس گیا تھا مافیا کے لوگوں میں۔ اس نے اپنا سر ہاتھوں میں جکڑ لیا۔ ایما فوراً سے اسے بازو سے تھامے دیکھنے لگی کچھ پریشانی اور کچھ فکرمندی سے۔ عالیان نے جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا اور پھر تیز قدم لیتے وہ مظہر درانی کے سامنے گیا اور قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
"تم چاہے کوئی ڈون ہو یا کوئی سٹون ہارٹ۔۔ آئی ڈونٹ کئیر ۔۔ مجھے امریکہ واپس بھجوائو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔" وہ طیش بھرے انداز سے کہنے لگا۔
"عالیان!! ہی از مائی ڈیڈ۔۔" ایما تیزی سے کہتے اس کے پیچھے آئی۔۔ عالیان نے اسے وہیں رکنے کا اشارہ کیا تو اس کے قدم رکے۔۔
"ہو گا تمھارا ڈیڈ میرا کچھ نہیں لگتا سمجھی۔۔" شہادت کی انگلی سے اسے تنبیہ کرتا وہ دوبارہ اس شخص کی طرف مڑا جو اطمینان سے بیٹھا مسکرائے جا رہا تھا۔
"تمہاری چوائس بہت زبردست ہے ایما۔۔ میں بہت امپریس ہوا ہوں اس سے۔۔" نظریں عالیان پر مرکوز کیے وہ ایما سے مخاطب تھا۔ ایما مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
"میں کوئی دکان میں پڑا شو پیس نہیں ہوں جو اسے پسند آیا اور اٹھا کر لے آئی۔۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں۔۔ گوٹ اٹ؟" اس کا انداز تنبیہی تھا۔
"پتھر کی مورتیاں مجھے ویسے بھی نہیں پسند ہیں۔۔ ایک جیتا جاگتا انسان ہی تو چاہئیے مجھے۔۔ تیز دماغ۔۔حاضر دماغ۔۔ پھرتیلا۔۔۔" وہ لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہتا گیا تو عالیان کے کان سائیں سائیں ہونے لگے وہ آخر کیا چاہتا تھا اس سے۔
"مدعے پر آئو مظہر درانی۔۔۔" وہ لب بھینجتے ہوئے کہنے لگا تو جواباً کا قہقہہ سنتے ہی وہ خاصا تپ گیا۔
"اوکے۔۔ پوائنٹ پر آتے ہیں۔۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھتے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ عالیان کا دل کیا ایک زوردار مکا ہی جھڑ دے لیکن پھر ضبط کر گیا ۔
"پہلے تو اپنے ذہن سے بھاگنے کا ارادہ ترک کردو۔۔ اٹلی سے بھاگنا آسان کام نہیں ہے۔۔ تمہارا پاسپورٹ اور دیگر ضروری اشیاء سب میرے قبضے میں ہیں۔۔ تمہاری کوئی آئڈینٹٹی نہیں ہے۔۔ تم پوری طرح سے مجھ پر ڈیپینڈینٹ ہو۔۔" عالیان کے چہرے کا رنگ بھک سے اڑا تھا۔ گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے وہ سامنے کھڑے شخص کو دیکھے گیا۔
"دوسری بات میری بیٹی تم سے محبت کرتی ہے۔ یو ول ہیو ٹو میری مائی ڈاٹر۔۔ اور ایسا کل ہی ہوگا۔۔ تم تیار ہو یا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔" تحکمانہ انداز سے کہتے وہ اپنی جگہ سے ہلتے عالیان کے اردگرد چکر کاٹنے لگا۔
"یہ تو وہ کام ہے جو تمہیں ہر حال میں کرنا ہے۔۔ اب دوسرے کام کی طرف آتے ہیں۔۔" اس کے قدم رکے اور وہ اس کے عقب میں کھڑا مسکرانے لگا۔۔ عالیان ضبط سے لب بھینچ گیا۔۔ وہ اس کے کان کے قریب گیا۔۔ "مافیا ورلڈ میں قدم جمانے کا کام۔۔" وہ اس کے کان میں سرگوشی نما انداز سے بولا۔۔ عالیان کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔۔ وہ کرنٹ کھا کر اس کی طرف پلٹا۔
"بلکل نہیں میں تمہارے ساتھ اس غلط کام میں شامل نہیں ہوں گا۔۔" وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولا تو مظہر سر نفی میں ہلاتے ہوئے ہنسنے لگا۔۔
"کم آن عالیان ۔۔ ایسا کون سا غلط کام تم نے نہیں کیا جو مافیا تمہیں غلط لگ رہا ہے۔۔ شراب نوشی تم کرتے رہے۔۔۔ لڑکیوں سے ناجائز تعلقات تمہارے رہے۔۔ گیمبلنگ کا شوق تمہیں رہا۔۔ ایک مافیا تمہیں
غلط لگ رہا ہے ویری فنی۔۔۔" عالیان اپنی جگہ پتھر کا ہو گیا تھا۔۔ وہ واقعی لاجواب کر دیا گیا تھا۔ باقی سب تو ٹھیک تھا مگر یہ لڑکیوں سے ناجائز تعلقات والی بات پر اس نے ایما کو خفگی سے دیکھا جس پر وہ نظریں چرا گئ۔ تو اپنے باپ کو آمادہ کرنے کے لیے اس نے عالیان پر یہ گھٹیا الزام لگایا تھا۔ ناجانے اور بھی اپنے باپ سے کیا کیا جھوٹ بولیں ہوں گے محض اسے حاصل کرنے کے لیے۔۔ وہ کچھ پل خاموش رہا۔۔
"ڈیڈ یہ اس کی پرسنل لائف ہے۔۔" ایما اپنے باپ کو ٹوکتے ہوئے بولی۔
"کسی کے بھی کام کو اس کے سامنے برا بھلا کہو گے تو وہ آپکو آپکی اوقات تو دکھائے گا نا ہنی۔۔"
"میں نے جو بھی کیا لیکن کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ سب زیادتیاں اور ظلم میں نے خود کے ساتھ کیے ہیں اور تمہاری بیٹی کے ساتھ میرا کوئی ناجائز تعلق نہیں ہے مائینڈ اٹ۔۔" وہ انگلی اٹھا کر بولا تھا۔
"اپنے گناہوں کو جسٹیفائی مت کرو۔۔۔ بہرحال یہ صرف ایک آپشن ہے ۔۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم نے میری بیٹی سے شادی کر کے ساری زندگی اس چار دیواری میں گزارنی ہے یا میرے ساتھ قدم بہ قدم چلنا ہے۔۔" وہ رک کر اس کی اڑتی ہوئی رنگت دیکھنے لگا۔۔ پھر ایک قدم لیتا اس کے بلکل سامنے آیا۔
"تمہارا بریلئینٹ مائنڈ۔۔ تمہارے آئیڈیاز۔۔ تمہارے شاندار ریکارڈز تمہیں بہت آگے پہنچا سکتے ہیں۔۔ خود کو اس چار دیواری میں ضائع مت کرنا۔۔ سوچ لو ساری عمر اپنی بیوی کے ہاتھوں کو دیکھتے رہو گے۔۔ اپنی خواہشات پوری نہیں کر سکو گے۔۔ اگر میرے ساتھ چلو گے تو ایک شاندار زندگی گزارو گے۔۔ باقی فیصلہ تمہارا اپنا ہے۔۔ کل نکاح تک ٹائم ہے تمہارے پاس اچھے سے سوچ لینا۔۔۔" اس کے کندھے پر تھپکی دیتے وہ وہاں سے چلا گیا۔ عالیان کے دماغ کو الجھن کا شکار کر کے۔۔۔ وہ وہیں برف کی مانند جما رہا۔۔ آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔۔ لب باہم پیوست تھے۔۔ جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی۔۔ ایما بھی چلی گئ تھی۔۔ وہ تنہا اس چار دیواری میں رہ گیا تھا۔
وہ ساری رات سو نہیں سکا تھا۔ اس کا بیڈ آرام دہ ہونے کے باوجود بھی نیند اس سے بہت دور تھی۔۔ وہ شدید الجھن کا شکار تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ آن کی آن میں یہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا تھا کیوں ہو گیا تھا۔۔ وہ کبھی بیڈ پر لیٹے چھت کو دیکھتا۔۔ کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتا ۔۔ کبھی کائوچ پر جا بیٹھتا اور کبھی بلاوجہ چکر کاٹتا رہتا۔۔ کل اس کا نکاح ہونا تھا وہ بھی ایما کے ساتھ جو اس نے کبھی نہیں چاہا تھا۔ وہ تو ایم بی اے کر کے واپس جانا چاہتا تھا اپنے ڈیڈ کا بزنس سنبھالنا چاہتا تھا ۔۔ خود کو بدلنا چاہتا تھا اور ردا کے ساتھ شادی کر کے ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتا تھا۔۔ لیکن اس کے چاہنے ناچاہنے سے کیا ہوگا۔۔۔ ہونا تو وہی تھا جو اس کی قسمت میں لکھا تھا۔۔ وہ شدت سے رو دینا چاہتا تھا۔۔ وہ اتنی بےبسی کا شکار آج سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔۔۔
"تم نے بددعا دی ہے نا انابیہ مجھے۔۔ میں نے ہمیشہ تمھارے ساتھ ظلم کیا ہے تمہیں تکلیف دیتا رہا ہوں یہ جانتے ہوئے کہ تم مجھے پسند کرتی تھی۔۔ میں نے ہر بار تمہارا دل دکھایا ہے۔ تم میری بیسٹ فرینڈ تھی پھر بھی میں نے اپنے ہر دکھ ہر تکلیف کا بدلہ تم سے لیا۔۔ ٹھیک کر رہی ہو تم اور بددعائیں دو مجھے میں اسی قابل ہوں۔۔۔" آخر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔ سارا ضبط سارا صبر ہار گیا۔۔۔ انابیہ ہمیشہ اسے پسند تھی بس شاید اسے محبت نہیں تھی یا شاید اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ جب امریکہ آگیا تھا تو سب کو بھول گیا تھا۔ وہاں کی عیاش زندگی نے اسے اپنوں سے نفرت کرا دی تھی۔۔ ناصر اسے بار بار آنے کا کہتے یا شادی کا کہتے تو وہ تپ جاتا تھا بھڑک جاتا تھا۔۔ بس اسی لیے اپنی ہر عیاشی وہ انابیہ کو ضرور دکھاتا تھا اسے ٹارچر کرتا تھا اسے زچ کرتا تھا اور اس میں وہ کامیاب رہتا تھا۔۔ وہ بھول جاتا تھا کہ وہ اس لڑکی کو تنگ کر رہا ہے جو اس کی کبھی بیسٹ فرینڈ رہی تھی۔۔ لیکن اس بار لاہور جاتے ہوئے اس کا دل ضرور بدلا تھا اور ایسا ردا کو دیکھنے کے بعد ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی عالیان کے دل نے ایک بیٹ ضرور مس کی تھی لیکن وہ پھر اگنور کرتا رہا۔ اسے بہت دیر سے پتہ چلا محبت نامی بلا اس کے ساتھ چمٹ گئ ہے۔۔ اگر اسے ردا سے محبت نہ بھی ہوتی تو تب بھی وہ انابیہ سے شادی کبھی نہ کرتا۔۔ اس نے رئیلائز کیا تھا کہ وہ ان دونوں بہنوں کے قابل نہیں تھا اس لیے وہاں سے بھاگ کر واپس امریکہ آگیا تھا۔ اسکے نصیب میں نہ تو انابیہ تھی نہ ہی ردا اس کے نصیب میں صرف ایمان درانی تھی۔

اگلے دن اس کا اور ایما کا نکاح ہو گیا تھا۔۔ وہ اسی بلڈنگ کے ایک دوسرے بڑے سے ہال نما کمرے میں تھا۔ مظہر درانی اور ان کے دیگر دوست یار بھی وہاں موجود تھے۔ وہ ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ نکاح اس کی توقع سے بھی زیادہ شاندار ہوا تھا۔۔ سفید ٹائلز کا وہ پورا کمرہ بہت خوبصورتی سے سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ ایما اور وہ دونوں ساتھ صوفے پر بیٹھے تھے۔ اس نے سفید رنگ کی شیروانی زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایما سرخ رنگ کا کامدار جوڑے اور ہلکی سی جیولری کے ساتھ ہنستی مسکراتی شکل لیے بیٹھی تھی۔
"کیسا لگ رہا ہے ایمان درانی آئی مین ایما کا ڈئیر ہزبینڈ بن کر؟؟" ایما نے سر تھوڑا اس کی طرف جھکا کر سرگوشی نما انداز میں پوچھا۔۔ وہ کچھ نہیں بولا ایسے ہی سنجیدہ شکل بنائے خاموشی سے بیٹھا رہا۔
"دیکھو آج میں نے فل ڈریس پہنا ہے۔۔ کیا کہتے ہیں؟؟ ہاں!! قمیض شلوار ۔۔ یو نو ہم دونوں کے ڈریسز میں نے خود ڈیزائن کیے ہیں بلکل تمہارے ٹریڈیشن کے مطابق۔۔۔" وہ بولے جا رہی تھی لیکن عالیان تو جیسے سن ہی نہیں رہا تھا ۔ وہ اب بھی خاموش تھا ۔۔ ایما نے مزید کچھ نہیں پوچھا تو اس نے سکھ کا سانس لیا۔۔ اسے گھٹن محسوس ہو رہی تھی تو اٹھ کھڑا ہوا۔۔ وہاں موجود سب لوگوں کی نظروں کا مرکز وہی تھا۔ مظہر نے اپنے ایک گارڈ کو اشارہ کیا تو وہ عالیان کے ساتھ آ کھڑا ہو۔ اس نے ایک نظر اپنے ساتھ کھڑے گارڈ کو دیکھا اور پیر پٹختے اس کے ساتھ جانے لگا۔وہ گارڈ کے ساتھ اسی کمرے میں چلا گیا تھا۔ گارڈ نے دروازہ کھولا تو وہ اندر چلا گیا ۔ اس کے پیچھے دروازہ واپس بند کر دیا گیا تھا۔ ایک گہرا سانس لیتے وہ کائوچ پر جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر بیٹھے رہنے کے بعد وہ دوبارہ دروازے کی طرف گیا۔ اس کے وہاں جاتے ہی دروازہ کھل گیا گارڈ اب دوبارہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔
"کچھ چاہئیے تمہیں؟؟" عالیان پہلے تو حیران ہوا اور پھر اس سے نظریں چرا گیا۔۔
"تمہیں کیسے پتہ میں دروازے کے پاس کھڑا ہوں؟؟ " اس کے پوچھتے ہی سامنے کھڑے گارڈ نے ہاتھ اوپر کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا وہاں ایک کیمرہ نصب تھا۔
"اوووو۔۔" عالیان نے ہونٹ گول کیے۔ "مظہر کو بلائو مجھے بات کرنی ہے اس سے۔۔" اس طرح ڈھٹائی سے اس کے باس کا نام لیتے ہوئے گارڈ نے اسے سر تا پیر گھورا۔۔" گھور کیوں رہے ہو روبوٹ؟؟"عالیان نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا تو وہ خاصا تپا تھا اور سر اثبات میں ہلاتے دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔۔ تھوڑی دیر میں مظہر آگیا تھا۔
"آئو مظہر تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا میں۔۔" اس کے آتے ہی وہ کائوچ سے اٹھ کر اس کے سامنے گیا۔۔
"تم میں تمیز نہیں ہے؟؟" اس کی اتنی ڈھٹائی پر اسے بہت تپ چڑھی تھی۔۔ آج تک کسی نے مظہر کو اس کے نام سے کبھی نہیں پکارا تھا اسے باس، سر یا سٹون ہارٹ کہا جاتا تھا۔۔
"نہیں کوڑیوں کے دام بیچ کر کھا گیا ہوں ساری تمیز۔۔" وہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے ہی کھڑا تھا۔۔
"سسر ہوں میں تمہارا۔۔" اس نے جیسے عالیان کو یاد دلاتے ہوئے کہا۔۔
"زبردستی کا سسر۔۔ سسر نہیں ہوتا۔۔ ویل مجھے تم سے بات کرنی تھی مظہر۔۔" وہ جتنا اسکے نام لینے سے چڑتا تھا عالیان اتنا ہی بار بار اس کا نام ضرور لیتا تھا۔۔
"بولو کیا کہنا ہے؟؟"
"یہی کہ مجھے بھیک میں دو وقت کی روٹی نہیں چاہئیے ۔ میں تمہارے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔ صرف مجھے سمجھا دو کرنا کیا ہے؟؟"
"ہمم گڈ۔۔ راج تمہیں سب سمجھا دے گا ڈونٹ وری۔۔" اس نے اطمینان سے کہا تو عالیان پھر سے اسے گھورنے لگا۔
"راج کون ہے؟؟" اس کے پوچھتے ہی مظہر نے اپنے تھوڑا پیچھے کھڑے چوڑی جسامت والے گارڈ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ وہی گارڈ تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے عالیان کے ساتھ تھا۔ عالیان نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور پھر مظہر کو۔۔
" سیریسلی!!!" وہ آنکھیں چھوٹی کیے مظہر کو دیکھنے لگا۔ "نو وے اپنے کسی سپیشل بندے کو بھیجو جو مجھے اچھے سے گائڈ کرے۔۔ ایسے گھسے پٹے گارڈز کو دروازے کی حد تک رکھو۔۔" عالیان نے سر جھٹکنے کے انداز سے کہا تو راج اسے قہر برساتی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
"ایکسکیوز می۔۔ یہ صرف گارڈ نہیں ہے میرا بہت قابل اور خاص بندہ ہے۔۔" مظہر نے دانت پیستے ہوئے کہا تو عالیان پوری آنکھیں کھولے راج کو دیکھنے لگا۔۔
"تو تم نے اپنے اتنے قابل بندے کو میری دم کیوں بنا رکھا ہے۔۔ زیادتی ہے اس کے ساتھ۔۔" راج کا تو دل کیا آج اپنی پستول کی ساری گولیاں اس کے سر میں اتار دے۔۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔ تم اب عام انسان نہیں ہو اس لیے میں نے تمہاری رکھوالی کے لیے اپنا اتنا قابل بندہ رکھا
ہوا ہے۔۔" اس کی بات پر عالیان پھٹ کر ہنس پڑا۔۔
"مظہر !! مظہر !!مجھے تم لوگوں کے علاوہ کسی سے خطرہ نہیں ہے۔۔ خیر بس مجھے جو بتانا تھا بتا دیا جسے چاہے مرضی بھیجو مجھے گائڈ کرنے کے لیے۔۔ آئی ڈونٹ کئیر۔۔" مظہر اس کی ڈھٹائی دیکھ کر رہ گیا دل ہی دل میں اپنی بیٹی کو بےشمار اعزازات سے نوازتے ہوئے وہ دانت پیستے وہاں سے چلا گیا۔

●●●●●●●●●●●

یہ دوپہر کا وقت تھا۔ عالیان اور ایما دونوں ہی سیاہ رنگ کی Mercedes G-Wagon کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ عالیان نے اب ہلکے سرمئی رنگ کی شرٹ کے گہرے نیلے رنگ کی پینٹ پہن رکھی تھی جبکہ ایما نے پھر سے لیمن کلر کی لمبی سی کامدار قمیض کے ساتھ کھلا پاجامہ اور ہم رنگ ڈوپٹہ کندھے پر پھیلا رکھا تھا۔ سنہرے بال ہمیشہ کی طرح کھلے تھے۔ نیا نیا شوق تھا اور عالیان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اسے اسی طرح تیار ہونا پڑتا تھا لیکن یہ الگ بات تھی کہ عالیان ایک نظر اٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھتا تھا اور اگر دیکھتا بھی تھا تو صرف نفرت کی نگاہ سے۔
"اب بتائو گی ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟" آخر کار جھنجھلا کر اس نے دوبارہ وہی سوال کیا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ پوچھ رہا تھا۔
"اففوو!!! مینشن جا رہے ہیں ہم۔۔" بالآخر ایما نے بھی اسے جواب دے ہی دیا۔
"کس کے مینشن؟؟" اس نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور ناسمجھی سے پوچھنے لگا۔
"ظاہر ہے ہمارے مینشن یعنی درانی مینشن۔۔۔"
"مگر کیوں؟؟"
"اوہ گاڈ!!! عالیان کیا تم نے میرے ساتھ اس بلڈنگ میں رہنا تھا جہاں جگہ جگہ کیمرے انسٹالڈ تھے؟؟" عالیان نے اسے سختی سے گھورا۔ پیسنجر سیٹ پر راج بیٹھا تھا اور وہاں ڈرائیور بھی موجود تھا اب بھلا یہ بات کوئی کرنے کی تھی لیکن اگلے ہی لمحے اپنا رخ کھڑکی کی طرف موڑ گیا جیسے کہہ رہا ہو مجھے کیا۔
"وہ ڈیڈ کی ورک پلیس ہے۔۔ ہمیں یہیں آنا تھا۔۔" وہ دوبارہ بولی عالیان نے گردن نہیں گھمائی وہ اب بھی باہر دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ مینشن پہنچ گئے تھے۔ سیاہ بڑے گیٹ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ان کی گاڑی پار ہو کر اندر گئ۔ عالیان پھٹی آنکھوں سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جدھر تک دیکھو گارڈز ہی گارڈز تھے۔ ایک لمحے کے لیے اس پر خوف سا طاری ہو گیا تھا اسے لگ رہا تھا کہ شاید وہ اب کبھی پاکستان اپنوں کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ مینشن کی خوبصورتی تو اس نے جیسے دیکھی ہی نہیں تھی۔گیٹ سے لے کر مینشن کے مرکزی دروازے تک کا راستہ اسے اتنا لگا جتنا وہ بلڈنگ سے یہاں تک طے کر کے آیا تھا۔ راہداری کے دائیں اور بائیں طرف بڑے بڑے لان تھے جہاں تک نظر جاتی تھی وہاں تک گرینری تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے خوبصورت باغ کے بیچ و بیچ ایک محل کھڑا ہو۔ گاڑی سے نکل کر وہ دونوں راہداری عبور کرتے اب اندر جانے لگے۔ ایما نے قریب آکر اس کے بازو پر اپنی گرفت ایسے جمائی جیسے عالیان نہیں باپ کی جاگیر ہو۔ ایسا عالیان سوچ رہا تھا۔۔ مینشن دو رنگوں سے بنایا گیا تھا سفید اور گہرے سرمئی رنگ سے۔ داخلی دروازے سے پہلے اونچے اونچے ستون کھڑے تھے جس کے اندر ایک ہال نما جگہ تھی جہاں پر سیاہ رنگ کے صوفے چمک رہے تھے۔ ستونوں کے ساتھ لگے سفید پردے سیاہ ڈوریوں میں بندھے تھے ساتھ ہی ساتھ مختلف پینٹنگز اور اور اینٹیک پیسز اس حصے کو اور خوبصورت دکھا رہے تھے۔ اب اس کے بعد آتا تھا شاہی طرز کا اونچا سیاہ لکڑی کا داخلی دروازہ جسے دو گارڈز نے مل کر کھولا تھا۔ اندر جاتے ہی عالیان کو لگا جیسے وہ کسی محل میں آگیا تھا خیر وہ باہر سے بھی کم نہیں تھا مگر جو خوبصورتی اور شان اس کے اندرونی حصے کی تھی عالیان نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ دروازے کے تھوڑا آگے ہی فرش پر ایک جانور کی شکل کا قالین بچھا تھا۔ دیواروں پر پرانے طرز کے نقش و نگار تھے اور یہ واحد چیز تھی جو اسے سخت زہر لگی تھی۔ عجیب عجیب انسانی شکلوں سے سجی دیواریں وہاں کے رہنے والوں کے لیے ضرور کشش کا باعث بنتی ہوں گی۔ اگر چھت کی طرف نظر اٹھائو تو سارا آسمان اور سفید خوبصورت بادل تیرتے دکھائی دیں کیوںکہ چھت شیشے کی بنی تھی اور یوں کہہ لو کہ وہ شیشہ سیاہ رنگ کے پنجرے میں قید تھا جس کے ساتھ قطار در قطار بڑے بڑے فانوس لٹک رہے تھے۔کسی ماہر معمار کا کام لگتا تھا۔ قد آور کھڑکیوں کو چیرتے ہوئے روشنی اندر داخل ہو رہی تھی۔ عین درمیان میں گہرے نیلے اور سیاہ رنگ کے بڑے بڑے صوفے تھے۔ایک کونے میں لاتعداد کرسیوں والا شاہی ڈائیننگ ٹیبل تھا اور دوسرے کونے میں سیاہ رنگ کا بڑا پیانو ٹیبل تھا۔ اندر بھی کوںوں میں لاتعداد ستون بنے تھے اور مختلف راہداریاں مینشن کے اور اندر لے جاتی تھیں۔ دیواروں پر مختلف مہنگی مہنگی پینٹنگز اور ہر طرف خوبصورت آرٹ کیے ہوئے واس سٹولز پر پڑے تھے۔ ایما اس کا ہاتھ پکڑے اسے مزید اندر لے جانے لگی۔ اب ان دونوں کا رخ وسیع زینوں کی طرف تھا جن کے عین درمیان میں سرخ قالین چپکا ہوا تھا۔ ان زینوں کو پار کرتے وہ اسے سیدھا اوپر ایک کمرے میں لے گئ۔
"یہ رہا ہمارا کمرہ!! کیسا ہے؟؟" وہ مسکراتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی تو عالیان نے بس سر اثبات میں ہلایا۔
وہ سرخ سفید اور سیاہ رنگ میں ڈوبا ایک خوبصورت، شاندار اور وسیع کمرہ تھا۔ دیواریں سفید جبکہ سارا فرنیچر سرخ اور سیاہ رنگ کا تھا۔ سیاہ پردے ڈوریوں میں بندھے تھے اور ان کے پار ایک وسیع بالکونی تھی جس سے باہر کا سارا منظر بہت ہی دلکش معلوم ہوتا تھا۔
ایما کچھ قدم لیتے اس کے بلکل قریب آئی۔ عالیان نے اس کی نیلی آنکھوں میں جھانکا جو اسے اس وقت زہر لگ رہی تھیں۔ اگلے ہی پل وہ شاک رہ گیا۔ ایما نے بڑی نرمی سے اس کے دونوں کو ہاتھوں کو تھاما اور رونے لگی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ عالیان اس کی حالت دیکھتے محظوظ ہونے کی بجائے پریشان ہو گیا۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ روتے ہوئے اس کے گلے لگ گئ۔
"میں جانتی ہوں میرا طریقہ غلط تھا لیکن کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔ تم چھوڑ جاتے مجھے۔۔" پہلی دفعہ تھا جب عالیان کو اس لڑکی کے گلے لگنے سے شدید گھٹن محسوس ہو رہی تھی اور وہ لڑکی جو اب اس کی اپنی بیوی تھی۔ فوراً سے ہڑبڑا کر وہ پیچھے ہوا۔ ایما کو اس کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری تھی۔
"مم ۔۔ مجھے فریش ہونا ہے۔۔ واش روم کس طرف ہے؟" سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے نظریں چراتے ہوئے وہ بولا۔۔ ایما فوراً سے مسکراتے ہوئے وارڈروب کی طرف گئ اس میں سے کپڑے نکالے اور عالیان کو تھمایا دیے۔
"اس طرف ہے واش روم۔۔" ہاتھ کے اشارے سے اسے واش روم بتایا تو وہ تیزی سے اس میں گھس گیا۔۔
جب وہ فریش ہو کر باہر نکلا تو کمرے میں چاروں طرف نظر گھمائی۔ ایما وہاں نہیں تھی۔ اس نے شکر کا گہرا سانس لیا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا پھر دروازہ لاک کر لیا۔ اسے بہت سخت نیند آرہی تھی۔ ساری رات اس کی جاگتے ہوئے گزری تھا ۔ وہ چاہتا تھا کوئی اسے ڈسٹرب نہ کرے۔ قدم اٹھاتا بیڈ کی طرف بڑھا اور گہری نیند سو گیا۔ نیند کے دوران اسے کئ دفعہ دروازہ پیٹنے کی آوازیں آئیں تھیں مگر وہ اگنور کرکے سوتا رہا۔ جو بھی تھا پیٹتا رہے خود ہی چلا جائے گا۔ چہرے پر مسکراہٹ طاری کیے وہ تکیہ سر پر رکھ کر سو گیا۔

●●●●●●●●●●●●

کچھ دن ایسے ہی گزر گئے تھے۔ اب وہ راج سے پراپر ٹریننگ لینے لگا تھا۔ وہ راج کے ساتھ اس وقت لان میں کھڑا تھا اور اسے غور سے دیکھے جا رہا تھا جو پسٹل میں گولیاں ڈال رہا تھا۔ سامنے قطار سے کچھ کانچ کی بوتلیں پڑیں تھیں۔ جس پر راج مہارت سے نشانہ مارے جا رہا تھا۔
"پسٹل چلانے آتی ہے؟؟" راج نظریں ہاتھ میں پکڑی پسٹل پر جھکائے اس سے پوچھنے لگا۔
"ہاں آتی ہے۔۔"
"ہمم گڈ!!"
"پانی والی ۔۔" راج نے برہمی سے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ "چھروں والی بھی۔۔" اس نے اتنے تفاخر سے کہا جیسے کسی ہائیلی ڈیمیج بندوق کا نام لیا ہو۔ راج ہنوز اسے بےیقینی سے دیکھ رہا تھا۔۔ "اب گھور کیوں رہے ہو ؟؟ میرا تعلق کسی مافیا سے نہیں رہا جو دن میں دس بار پسٹل کی گولیاں لوگوں کے سروں میں اتارتا رہا ہوں گا۔ ایک لوفر سا سٹوڈنٹ تھا اور کچھ بھی نہیں۔۔"
"اب سیکھ لو۔۔۔" راج سر نفی میں ہلاتے ہوئے دوبارہ سامنے متوجہ ہوگیا۔۔
"ایک بات بتائو۔۔ تم ہندو ہو؟؟" راج نے اس کے بے تکے سوال پر پھر اسے گھورا۔
"تمہیں اس سے کیا؟؟"
"ایسے ہی تمہار نام راج ہے نا مجھے لگا شاید تم ہندو ہو۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے کہنے لگا۔
"ہاں ہوں۔۔"
"پھر تو مبارک ہو۔۔ میری اور تمہای بلکل نہیں جمے گی۔۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان اور ہندو کبھی ساتھ نہیں رہ سکے۔۔"
"مجھے تمہارے ساتھ جمانی بھی نہیں ہے۔۔ کام پر فوکس کرو۔۔" اس نے تیز آواز سے کہا۔
"اچھا اچھا جھاڑ کیوں رہے ہو۔۔ میں آہستہ بھی سن سکتا ہوں۔۔ویسے بھی یہ مجھے نہیں سیکھنا۔۔"
کیوں؟؟"
"کیونکہ مجھے یہ کسی معصوم پر نہیں چلانی۔۔"
"تم کسی گائوں میں نہیں ہو جہاں معصوم لوگ ہوں گے یہ مافیا اور گینگسٹرز کی دنیا ہے۔ یہاں کوئی عام نہیں ہے۔۔"
"وٹ ایور!! میں کبھی کسی کا قتل نہیں کروں گا۔۔"
"تمہیں کرنا پڑے گا۔۔ یہاں عام سے عام انسان کو وحشی اور درندہ بننا پڑتا ہے۔۔" کہتے ساتھ اس نے پسٹل عالیان کو تھمائی۔ کافی حد تک وہ چلانا تو سیکھ گیا تھا بس نشانہ پرفیکٹ بنانا تھا۔ اس نے سامنے پڑی ایک بوتل کی طرف اپنی پسٹل کا رخ کیا اور ٹھاہ!!!۔ نشانہ پرفیکٹ تھا۔۔
"تم پر زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے۔۔" راج نے ہاتھ سینے پر باندھے جیسے اس کے نشانے کی دات دیتے ہوئے کہا تو عالیان کندھے اچکا کر ہلکا سا مسکرا دیا۔

●●●●●●●●●●●●

دن گزرتے جا رہے تھے مگر عالیان کے لیے تو وقت جیسے رک ہی گیا تھا۔ وہ اس وقت مینشن کے لونگ روم میں موجود تھا۔ مظہر ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ٹھیک اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ ایما اس کے ساتھ والے صوفے پر موجود تھی جبکہ راج مظہر کے ساتھ گارڈ کی طرح ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"راج کسی سے جلدی امپریس نہیں ہوتا۔ تم سے ہوا۔۔" مظہر پوری طرح سے عالیان کی طرف متوجہ تھا جو سنجیدہ شکل بنائے بیٹھا تھا جبکہ ایما اس کی تعریف پر ضرور مسکرائی تھی۔
"پچھلے مشن میں بھی تم نے اس کا کافی ساتھ دیا تھا۔۔" وہ پھر سے تعریف کر رہا تھا۔ ایک ہفتے پہلے ہی وہ راج کے ساتھ چوری کے ایک مشن پر گیا تھا جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
"وہ عام سا مشن تھا ۔۔" عالیان صوفے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا ۔
"یعنی تمہیں خاص کام چاہئیے رائٹ۔۔۔" مظہر ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔عالیان کچھ نہیں بولا اسے واقعی ان چوری ڈکیتیوں میں بلکل انٹرسٹ نہیں تھا۔ اسے ان لوگوں میں رہتے اب کافی مہینے ہو چکے تھے اور اب تک وہ صرف ایک ہی مشن میں گیا تھا راج کے ساتھ۔۔ ان کی باتوں کے دوران ایک گارڈ اور حاضر ہوا۔
"باس آپ کو کچھ ضروری بتانا ہے۔۔" وہ آتے ساتھ بولا۔
"تمہیں پتہ نہیں ہے کہ میں ابھی اپنی فیملی کے ساتھ ہوں۔۔" وہ آواز اونچی کرتے سخت لہجے میں بولا۔۔ عالیان نے بگڑے ہوئے تیوروں سے اسے دیکھا۔ "فیملی!! ہونہہ۔۔"
"سوری سر مگر آپ کو بتانا بہت ضروری ہے۔۔" مظہر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتانے کو کہا۔
"مارکو کا پتہ چل گیا ہے۔۔" یہ خبر سنتے ہی مظہر فوراً سیدھا ہوا۔
“Davvero!!”(واقعی(!!
بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔اسے جیسے یقین نہیں آیا تھا۔ "راج اس سے مارکو کا ایڈریس پتہ کرو اینڈ گو آفٹر ہم۔۔" اس کے حکم پر راج فوراً اس گارڈ کو لیتے لونگ روم سے باہر چلا گیا۔
"مارکو کون ہے؟؟" عالیان نے مظہر سے پوچھا جس کے چہرے پر بےتحاشا خوشی تھی۔
"میرے کروڑوں روپے اور ڈائمنڈز ہڑپ کر بیٹھا ہوا ہے۔ بہت مشکلوں سے ملا ہے۔۔ بس ایک بار میرے ہاتھ لگ جائے۔۔" بولتے بولتے رک کر عالیان کو دیکھنے لگا۔۔ تبھی راج دوبارہ آیا۔۔
"باس۔۔ اجازت دیں۔۔ میں اسے آپ کے پیروں میں لا کر پھینکوں گا۔۔" وہ مظہر سے کہہ رہا تھا۔
"عالیان کو بھی ساتھ لے کر جائو۔۔" عالیان نے برق رفتاری سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"ابھی ہی میں ایک مشن سے آیا ہوں تھوڑا وقت تو دو۔۔" وہ جیسے گلہ کر رہا تھا۔
"نو وے عالیان یو ہیو ٹو گو۔۔" انداز تحکمانہ تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی عالیان کو اٹھنا پڑا۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا کپڑے چینج کیے پسٹل اٹھائی اور نکل گیا۔
گاڑی ایک گھر کے سامنے رکی اور اس میں سے پانچ لوگ باہر نکلے۔ یہ اٹلی کا ایک چھوٹا سا گائوں تھا۔
“ جب تک میں نہ کہوں کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا۔۔"راج اپنے ساتھ آئے گارڈز کو ہدایات دیے جا رہا تھا دو کو دروازے پر رکنے کا کہا ایک کو گھر کی پچھلی سائڈ پر بھیجا۔ اب بچے وہ اور عالیان۔
"اور میں؟؟" عالیان نے سب کو پوزیشن سنبھالتے دیکھ کر راج سے پوچھا۔
"تم میرے ساتھ اندر چلو گے۔۔" کہتے ساتھ اس نے پسٹل ہاتھ میں پکڑ کر رخ گھر کی طرف کیا۔ یہ ایک ہلکے پیلے رنگ کا گھر تھا جس میں بےتحاشا سیاہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں باہر سے نظر آتی تھیں۔
"تمہیں نہیں لگتا ہماری فوج کم ہے۔۔" وہ بڑی چالاکی اور احتیاط سے ساتھ ساتھ اندر جا رہے تھے تبھی عالیان بول رہا تھا راج نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی راج نے پسٹل کا رخ سامنے کیا۔ ان کے بلکل سامنے سیڑھیاں اوپر جاتی تھی۔ دائیں طرف چھوٹا سا لونگ روم تھا راج وہاں گیا جبکہ عالیان بائی طرف کچن میں گیا۔ سامنے سلیپر پر اس نے گندے برتن پڑے ہوئے دیکھے یعنی واقعی گھر میں کوئی تو تھا۔ پیروں تلے زمین تو تب نکلی جب اسے انہی برتنوں میں ایک فیڈر دکھائی دیا تھا۔ یعنی یہاں کوئی بچہ بھی موجود تھا۔
"انفارمیشن کے مطابق وہ یہاں اکیلا ہے بس بیوی بچے ہوں گے۔۔" بیوی بچوں کا سنتے ہی عالیان کے قدم رکے۔۔پھر وہ دونوں ایک ساتھ سیڑھیوں کے قریب گئے۔
"ویٹ تمہارا ان کے ساتھ تو کچھ کرنے کا ارادہ نہیں ہے؟" وہ جیسے فکرمندی سے پوچھنے لگا۔۔ راج نے گھوم کر اسے دیکھا۔۔
"کتنی دفعہ کہا ہے اپنے کام سے کام رکھا کرو۔ ضرورت پڑی تو یہ گولیاں اس کے بیوی بچوں میں بھی اتاروں گا۔۔" عالیان کے کان سائیں سائیں ہونے لگے۔۔ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔ ایک خوف سا اس کے وجود پر طاری ہوگیا۔ راج سے کسی بھی کام کی توقع کی جا سکتی تھی اور ایسا اس نے پچھلے مشن میں ہی بھانپ لیا تھا۔۔
اوپر بھی بلکل نیچے کی طرح دائیں بائیں کمرے تھے۔ اس نے عالیان کو دائیں کمرے کی طرف جانے کا کہا اور خود بائیں کی طرف گیا۔۔ بڑی احتیاط سے عالیان نے دروازہ کھولا اور تیزی سے پسٹل کا رخ سامنے کیا۔ پھر جیسے برف کا مجسمہ بن گیا۔ سامنے ہی ایک پریگنینٹ عورت اپنے ایک چھوٹے بچے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اندر آتے لڑکے کے ہاتھ میں گن دیکھ کر اس نے ڈر کے مارے اپنے بچے کو اپنی باہوں میں چھپا لیا۔وہ بچہ یکدم سہم کر رونے لگا۔ خوف کے مارے عالیان کا جسم لرزنے شروع ہو گیا تھا۔۔ بچے کی آواز سنتے ہی راج فوراً اس ہی کمرے میں آیا ۔
"آہاں ۔۔ تمہارا کیا ارادہ تھا کہ مجھے پتہ نہ چلے۔۔" وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے عالیان کو دیکھے گیا۔
"نو نو نو۔۔ دے آر انوسینٹ۔۔۔" وہ ہڑبڑا کر راج کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا۔ راج نے ایک غصیلی نظر سے اسے دیکھا اور ایک زوردار مکا اس کے منہ پر مارا تو وہ لڑکھڑا کر ڈریسنگ ٹیبل سے جا ٹکرایا جس کا کونا اس کے سر کے پچھلے حصے پر بری طرح سے لگا تھا۔ پسٹل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گئ۔
"ڈونٹ ڈئیر ٹو انٹرفئیر۔۔۔" غصے سے کہتے راج تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ وہ عورت صوفے پر اپنے بیٹے کو باہوں میں قید کیے بیٹھی تھی۔
"مارکو کہاں ہے؟؟ " اس نے سختی سے پوچھا۔ پسٹل کا رخ اس عورت کی طرف تھا۔
"مم مجھے نہیں معلوم۔۔۔" وہ لڑکھڑائی ہوئی آواز سے اردو میں ہی بولی۔۔ راج کی عالیان کی طرف پشت تھی۔۔
"دیکھو میں تمہیں جان سے مار دوں گا وہ یہیں ہے بتائو مجھے۔۔" اس نے پسٹل کا گھوڑا کھینچتے ہوئے ایک بار پھر سختی سے کہا تو وہ عورت رونے شروع ہو گئ۔
"میں کچھ بھی نہیں جانتی ہم پر رحم کرو۔۔"
"میں تین تک گنوں گا نہیں بتایا تو تم اور تمہارا بچہ جان سے جائیں گے۔۔" وہ عجیب طرح سے مسکرایا۔۔
"راج۔۔۔ شی از پریگنینٹ۔۔پلیز شو سم مرسی۔۔" وہ التجائیہ انداز میں بولتے اٹھ کھڑا ہوا مگر راج نے اس کی نہیں سنی۔۔
"ایک!!!" گنتی شروع ہو گئ تھی۔ عالیان پھٹی آنکھوں سے دیکھے گیا۔ کچھ سوچتے سمجھتے فرش پر جھکا۔۔
"دو!!!!" فرش پر پڑی اپنی پسٹل اٹھائی اور کپکپاتے ہاتھوں سے اس کا رخ راج کی پشت پر کیا۔۔ عورت نے اپنے بچے کو ساتھ چپکائے آنکھیں بند کر لیں۔۔
"تین!!!! ٹھاہ۔۔۔" اس کے تین کہتے ہی گولی چل گئی۔ راج کو لگا اس کی کمر میں آگ سی لگ گئئ ہے کوئی چیز پورے زور سے اس کی کمر میں گھپ کر اسے چیر گئ ہے۔ عورت نے حیرت سے بند آنکھیں کھولیں ۔۔ عالیان نے پسٹل پر اپنی گرفت مضبوط کی۔۔
"یہاں عام سے عام انسان کو وحشی اور درندہ بننا پڑتا ہے۔۔" لفظ گونجنے لگے تھے۔۔
راج بمشکل اس کی طرف گھوما۔ چہرہ پسینے سے شرابور تکلیف سے دوچار۔۔ آنکھیں تکلیف سے سرخ۔۔ چہرہ تکلیف سے سرخ۔۔ اس نے بمشکل اپنی پسٹل کا رخ عالیان کی طرف کیا۔ اس سے پہلے گولی وہ چلاتا عالیان نے ایک دفعہ پھر ٹریگر دبا دیا۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ عالیان کو اس وقت صدمے میں ہونا چاہئیے تھا شاک ہونا چاہئیے تھا مگر ایسا کچھ نہیں تھا وہ حاضر دماغ تھا۔ تیزی سے سائڈ ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں فروٹس اور چھری پڑی تھی۔۔ چھری ہاتھ میں لیتے تیزی سے اپنے بازو اور گردن کے کونے میں کٹ لگائے۔ اسے شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ عورت حیرت زدہ شکل لیے اسے دیکھے جا رہی تھی بچہ بھی خاموش ہو گیا تھا۔ اپنے بازو سے نکلتے خون کو اپنے ہونٹوں کے کونے پر لگایا جیسے وہاں زخم ہو۔۔وہ جانتا تھا گارڈز ضرور اوپر آئیں گے۔۔ تیزی سے عورت اور بچے کو پکڑ کر دوسرے کمرے میں بند کیا بس بچہ روئے نہ اور وہیں آکر راج کے قریب فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ پسٹل خود سے دور پھینک دیا۔ یہ سب کچھ اس نے بجلی کی تیزی سے کیا۔۔ اسی دوران تینوں گارڈز اندر داخل ہوئے۔۔ ان کے آتے ہی وہ نہایت اداکاری سے کراہنے لگا۔
"مارکو۔۔ او اوپر گگ گیا ہے۔۔ تینوں جائو اسے پپ پکڑو۔۔" اداکاری بھی اچھی تھی۔۔ وہ تینوں گارڈز تابعداری سےتیزی سے اوپر کی طرف بھاگے۔ ان کے جاتے ہی عالیان نے تیزی سے اٹھ کر پسٹل اٹھائی اور اس عورت اور بچے کو باہر نکالا بچے کو گود میں اٹھایا اور انہیں لے کر جانے لگا۔۔
"آپ کا بہت شکریہ ۔۔میں واقعی نہیں جانتی مارکو کہاں ہے۔ وہ ملے تو اس چھوڑنا مت وہ میرے بچے کا قاتل ہے۔۔" وہ عورت عالیان کا ہاتھ پکڑے احتیاط سے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔۔ اس کی بات پر عالیان نے اسے شاک سے دیکھا اور سر اثبات میں ہلاتا اسے باہر لے آیا ۔ تھوڑی دور آکر ایک ٹیکسی روکی عورت اور بچے کو اس میں بٹھایا۔۔
"آپ کے پاس مارکو کی کوئی تصویر ہے؟؟" وہ دروازے سے اندر ہو کر اس عورت سے پوچھنے لگا۔۔
"نہیں۔۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟؟" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔
" شٹ!!!بس اس کی شکل دیکھنی تھی۔۔" پیچھے ہوتے ہوئے اس نے زور سے دروازے پر ہاتھ مارا۔
"ہاں اوپر اسی کمرے میں دراز میں رکھی ہے۔۔" ایک ہلکا سا تبسم بکھرا اس کے چہرے پر۔۔
"آپ کو پتہ ہوگا نا آپ کو کہاں جانا ہے؟؟" اس نے عورت سے پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے سر ہاں میں ہلا گئ۔ گاڑی جانے لگی تو وہ دوبارہ گھر کی طرف گیا۔۔ اب کی بار وہ سیدھا راج کی طرف گیا یہ میک شیور کرنے کہ وہ واقعی مر گیا ہے نا۔ ظاہر ہے اب اس کا زندہ بچنا عالیان کے لیے خطرناک تھا۔ اس نے اس کی نبض چیک کی۔۔ شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔" مر گیا۔۔" وہ زیرلب بڑبڑایا۔۔ اسے اب تک شاید ٹھیک طرح سے معلوم نہیں تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا پہلا قتل کیا ہے۔ ابھی اسے صرف اس عورت اور بچے کی فکر تھی اور اب اپنی تھی۔۔ پھر دراز کھول کر ایک تصویر نکالی سنہری داڑھی اور سنہرے بالوں والا وہ ایک چالیس سے پینتالیس کے درمیان عمر کا مرد تھا۔۔ گارڈز کی قدموں کی آواز آتے ہی اس نے تصویر واپس رکھی اور دراز بند کر کے دوبارہ کنپٹی پر ہاتھ رکھے اداکاری کرنے لگا۔۔
"سر وہ وہاں نہیں ہے۔۔" ان میں سے ایک تیز تیز سانس لیتے بولا۔
"میرے سامنے گیا تھا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟" وہ پوری قوت لگا کر دھاڑا۔۔
"سر۔۔ چھت پر نیچے جانے کا ایک اور دروازہ بھی ہے وہ وہیں سے بھاگ گیا ہوگا۔ ہم وہاں تک بھی گئے لیکن نہیں ملا۔" اب آواز دوسرے گارڈ کی تھی۔ تبھی انہیں آنے میں دیر ہو گئ تھی۔۔ عالیان دل ہی دل میں فاتحانہ انداز سے مسکرایا۔۔
"اسے پھر ڈھونڈ لیں گے اسے دیکھو مر گیا ہے کیا؟؟" ایک گارڈ اس کے حکم پر راج کی لاش کی طرف بڑھا۔۔
"یس سر۔۔ ہی از ڈیڈ۔۔"
"اس کی ڈیڈ باڈی کو احتیاط سے گاڑی میں ڈالو ہمیں نکلنا ہے۔۔" وہ انکو حکم دیتے ایک اور گارڈ کے ساتھ نیچے آگیا۔۔
"یہاں کوئی کیمرہ نہیں ہے؟؟"عالیان نے چاروں طرف نظر گھماتے ہوئے پوچھا۔۔
"نو سر یہ ایک عام سا گھر ہے اندر بھی کوئی کیمرہ نہیں ہے اور اس سٹریٹ میں بھی نہیں ہے۔" قسمت ہر طرح سے اس کا ساتھ دے رہی تھی۔۔ سر اثبات میں ہلاتے وہ گاڑی میں جا بیٹھا۔ دل عجیب طرح دھڑک رہا تھا۔۔ سانس بمشکل آرہی۔ گھٹن محسوس ہوتے ہی اس نے اپنی شرٹ کے اوپری بٹن کھول دیے اور آنکھیں موندے سیٹ سے ٹیک لگا کر پیچھے ہوا۔ اب اسے ایک جھوٹی کہانی تیار کرنی تھی۔

●●●●●●●●●●●●

مینشن پہنچتے ہی اسے پتہ چلا کہ ایما اور مظہر کسی کام سے گئے ہیں تو وہ سیدھا سیڑھیاں عبور کرتا کمرے میں چلا گیا۔ کمرے کا دروازہ کھولتے وہ اندر گیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے پسٹل کو حیرت سے دیکھنے لگا چہرے کے تاثرات ایک دم بدلے تھے۔۔ اس کا سانس پھر سے تیز ہونے لگا تھا۔ آنکھوں کے آگے راج کی لاش گھوم رہی تھی۔ سرخ متورم آنکھوں سے وہ اس پسٹل کو دیکھے گیا۔ یہ وہی پسٹل تھی جس سے وہ ایک قتل کر کے آیا تھا۔وحشت زدہ نظروں سے پسٹل کو دیکھتے ہی اس نے زور سے زمین پر پٹخ دیا۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے تیز تیز بہنے لگے تھے۔ ہر چیز جیسے رک چکی تھی۔ پیشانی پر آتا پسینہ وہ اپنے ہاتھوں سے رگڑ کر صاف کرنے لگا۔ اس نے چونک کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا وہ خون سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ پھٹی آنکھوں سے اپنے ہاتھوں کو آگے پیچھے سے دیکھنے لگا خون اس کی بازوؤں تک تھا پھر چونک کر ایک نظر اٹھا کر اپنے ساتھ پڑے آئینے میں دیکھا اس کے چہرے پر بھی خون تھا۔ بےساختہ ایک قدم پیچھے ہوا اور پھر بجلی کی تیزی سے واشروم کی طرف بھاگا۔ واش بیسن میں اپنے ہاتھ مل مل کر دھونے لگا خون اب بھی تھا ۔ ہینڈواش، صابن، فیس واش سب چیزیں اس نے استعمال کر ڈالی خون نہیں جا رہا تھا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے گیا۔ خون نہیں جا رہا تھا۔۔ وہ چیختا گیا چلاتا گیا مگر خون نہیں جا رہا تھا۔ اسے لگا کہ شاید اب یہ خون کبھی نہیں جائے گا۔ اس کے اس پہلے قتل کے اثرات کبھی نہیں جائیں گے۔ اسے سکون کبھی نہیں آئے گا۔ ساری ہمت ہار کر وہ لڑکھڑاتے قدم کمرے میں آیا اور وہیں فرش پر گر کر بیٹھ گیا۔۔چہرہ پانی سے تر ماتھے پر گیلے بال چپکے ہوئے۔۔ کافی دیر وہ روتا رہا چیختا رہا چلاتا رہا کوئی بھی اسے سننے والا نہیں تھا اسے تسلی دینے والا نہیں تھا۔ پھر تھک ہار کر اسی طرح فرش پر لیٹ گیا۔۔ سرخ آنکھیں اب بھی کھلی ہوئیں تھیں۔ کوئی صدمہ سا اس پر طاری تھا۔۔
"پہلے تم شرابی تھے۔۔۔ جوے باز تھے۔۔ دلوں کو توڑنے والے تھے اور اب تمہارے گناہوں کی لسٹ میں ایک گناہ اور شامل ہوگیا۔۔ قتل!!! اب تمہارے ٹائٹلز میں ایک ٹائٹل اور شامل ہو گیا۔۔ قاتل!!!" وہ کھلی آنکھوں سے چھت کو دیکھے جا رہا تھا۔
"کیوں؟؟ کیوں؟؟ کیوں؟؟" وہ زور زور سے زمین پر ہاتھ مارنے لگا۔ وہ پھر سے چیخنے لگا۔ کب ختم ہوگی اس کی یہ سزا؟؟ چیخ چیخ کر اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ بےساختہ اپنا سر پکڑے وہ پھر سے بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کیے پھر سے پھوٹ پھوٹ کر با آواز رونے لگا۔ کمرے میں ہر طرف اندھیرا ہو گیا تھا اچانک اس کی آنکھوں میں کہیں سے تیز روشنی پڑنے لگی۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں تو اس کی نظر ایک مسکراتے ہوئے چہرے پر رکی۔ سفید حجاب اور سبز آنکھوں والا صاف شفاف چہرہ۔۔۔وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا تھا۔۔ وہ اس کے بلکل سامنے تھوڑا دور فرش پر بیٹھے مسکرا رہی تھی۔۔
"ردا!!" اس نے نہایت دھیمی آواز سے اسے پکارا۔۔ ردا کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔
"دیکھو۔۔ میرے ہاتھوں پر خون ہے۔۔" اپنے ہاتھ بے بسی سے اس کے سامنے پھیلاتے ہوئے وہ بولا۔ وہ خاموشی سے بس مسکراتی گئی۔۔
"مم میں قاتل ہوں۔۔" آواز رندھی ہوئی تھی۔ ردا سر نفی میں ہلانے لگی۔
"پرسکون ہو جائیں ۔۔" وہی چہکتی ہوئی پیاری آواز۔
"پرسکون؟؟" تم نے نہیں سنا شاید میں قتل کر کے آیا ہوں۔۔" وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن چیخا نہیں تھا۔۔ردا نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا اور دھیرے دھیرے دائیں سے بائیں ہوا میں ہی پھیرنے لگی یوں کہ اس کی ہتھیلی کا رخ اس کے چہرے کی طرف تھا۔اس کے ہاتھ کا سایہ عالیان کے چہرے سے ہوکر گزر رہا تھا۔ ایک عجیب سا سکون اس کے جسم میں اترنے لگا تھا۔ اپنے چہرے پر وہ اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر سکتا تھا جبکہ وہ اس سے دور تھی۔ دھیرے دھیرے وہ فرش پر لیٹ گیا۔ آنکھیں نیم کھلی تھیں منظر دھندلانے لگا تھا ردا کا چہرہ دھندلانے لگا تھا پھر اندھیرا چھا گیا۔۔ وہ پرسکون نیند وہیں فرش پر سو گیا۔

●●●●●●●●●●●

اگلی صبح جب وہ فریش ہو کر نکلا تو ایما تیزی سے کمرے میں آتے ہی اسے پریشانی سے دیکھنے لگی۔
"تم ٹھیک ہو؟؟" وہ نرمی سے اس کا بازو پکڑتے ہوئے بولی۔
"ہاں۔۔" وہ محض اتنا بولا۔ اس نے آدھے بازوؤںکی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ تبھی ایما کی نظر اس کے بازو کے زخم پر پڑی اور پھر گردن پر۔ وہ بےساختہ آنکھیں کھولے اسے دیکھے گئ۔
"تمہیں کتنے زخم آئیں ہیں کچھ لگا تو لیتے۔۔" وہ اب بھی کچھ نہیں بولا تو ایما اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"ڈیڈ بہت غصے میں ہیں تمہیں بلا بھی رہے ہیں۔۔ مجھے بتائو کیا ہوا تھا؟؟" وہ فکرمندی سے پوچھنے لگی تو عالیان نے اسے ایک نظر گھورا۔ موڈ اس کا ویسے بھی ٹھیک نہیں تھا۔
"تمہیں کیوں بتائوں؟؟ میں مظہر کو ہی بتائوں گا۔۔" جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور سرد نظر اس پر ڈالتے وہاں سے چلا گیا۔۔ سیڑھیوں پر اس کے قدم کچھ پل کے لیے رکے۔ سامنے ہی مظہر سر پر ہاتھ رکھے غصے سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے کیا کہنا ہے۔ وہ ساری کہانی ترتیب دے چکا تھا۔ ایک گہرا سانس لیتے وہ سیڑھیاں عبور کرتے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایما بھی آگئ تھی۔۔ مظہر نے ایک غصیلی نظر سے اسے دیکھا اور جارحانه انداز میں اس کی طرف بڑھ کر اس کا گریبان جکڑ لیا۔ عالیان اس سب کے ليے بلکل تیار نہیں تھا۔
"ڈیڈ!! لیىو ہم۔۔" وہ فوراً سے آگے آتے ہوئے بولی مگر مظہر نے اس کی نہیں سنی۔
"راج کیسے مرا؟؟ تمہارے ہوتے ہوئے وہ کیسے مر گیا؟؟" اس کا گریبان اپنے ہاتھوں سے پکڑے وہ غصے سے اس پر دھاڑ رہا تھا۔
"ڈیڈ آپ اس کی حالت بھی تو دیکھیں۔۔ چھوڑیں اسے۔۔" ایما نے بہت کوشش کی اس کا ہاتھ ہٹانے کی مگر وہ اپنی جگہ سے نه ہلا۔
"گریبان چھوڑو مظہر۔۔" اس نے سختی سے مظہر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔"
"گریبان چھوڑو مظہر" اب کی بار وہ غرایا تھا۔ مظہر نے ایک دفعہ اس کی سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھا اور پھر چھوڑ دیا۔۔ "میں کوئی تم لوگوں کا پالتو کتا نہیں ہوں جسے جیسے مرضی ٹریٹ کرو گے۔ ڈونٹ فورگیٹ۔۔ تمہاری بیٹی کا شوہر ہوں۔۔" ایک ایک لفظ سختی سے ادا کرتا وہ صوفے پر جا بیٹھا۔ مظہر مٹھی بھینچ کر رہ گیا۔۔
"آئو یہاں بیٹھو میں تمہیں سب بتاتا ہوں۔۔ زیادہ بھڑکنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔" اس نے اطمینان سے کہا تو مظہر تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورتے ہوئے سامنے صوفے پر جا بیٹھا۔
"تم نہیں مرے تو راج کیسے مر گیا؟؟ وہ میرا اتنا قابل بندہ ۔۔۔خیر مجھے سب صحیح سے بتائو۔۔" وہ خود کو پرسکون کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔
" ہم جب وہاں پہنچے تب راج نے تینوں گارڈز کو نیچے رہنے کا کہا تھا صرف مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔" پھر گردن قطار سے کھڑے تینوں گارڈز کی طرف گھمائی۔۔" ایسا ہی تھا نا؟؟" وہاں موجود تینوں گارڈز نے اس کے سوال پر سر ہاں میں ہلایا۔
"جب ہم اوپر گئے تو اس نے مجھے دائیں طرف کمرے میں جانے کو کہا اور خود بائیں میں گیا۔۔ جس کمرے میں میں گیا تھا وہیں الماری میں مارکو چھپا ہوا تھا۔ میں نے الماری کھول کر نہیں دیکھی مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ وہاں ہو سکتا ہے۔" مظہر نے ایک کڑی نظر سے اسے گھورا۔۔
"میرے مڑنے سے پہلے ہی اس نے پیچھے سے میرے سر پر وار کیا ۔ مجھے گہری چوٹ آئی تھی۔۔"
"رکو۔۔" مظہر نے فوراً اسے ٹوکا۔ "اس کے سر پر زخم دیکھو کہاں ہے؟" مظہر نے اپنے گارڈز سے کہا جو سر ہلاتے اس کے قریب آیا۔ عالیان نے ابرو اچکا کر ناگواری سے اسے دیکھا۔
"مظہر!!" اس نے سختی سے اس کا نام لیا۔
"ڈیڈ!!" ایما نے بھی ناگواری سے اسے دیکھا۔۔ گارڈ نے اس کے بال ادھر ادھر کر کے دیکھا۔ وہاں پر واقعی ایک زخم تھاا۔
"یس سر۔۔" اس نے سر ہاں میں ہلاتے ہوئے کہا تو مظہر نے فوراً سے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا اشارہ کیا۔
"تمہیں اگر میرا۔۔۔"
"آگے بولو۔۔" وہ پھر ٹوک دیا گیا۔خود پر ضبط کرتے عالیان نے ایک گہرا سانس لیا۔
" جب اس نے کوئی چیز میرے سر پر ماری تو میں لڑکھڑا کر زمین پر گرا ۔ پسٹل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا تھا۔ پھر اس نے کسی نوکیلی چیز سے میری گردن اور بازو پر وار کیا۔ میرا پسٹل جھپٹا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ کچھ سیکنڈز بعد مجھے گولی کی آواز آئی میں نے اٹھنے کی کوشش کی اسی دوران دوسری گولی کی آواز۔ میں لڑکھڑاتے قدم اٹھ کر وہاں گیا تو میں نے دیکھا راج زمین پر پڑا ہے اور مارکو وہاں نہیں ہے۔ میرے سر پر چوٹ کی وجہ سے مجھے بہت چکر آرہے تھے تو پھر میں بھی وہیں گر گیا۔۔" پھر رک گارڈز کو دیکھا۔" ایسا ہی تھا نا؟؟" گارڈز نے پھر سر ہاں میں ہلایا۔۔
"رکو گولیاں اس نے تمہیں کیوں نہیں ماری؟؟" اس کے اس سوال پر عالیان طنزیہ ہنس دیا۔
"مظہر تم خود کو مافیا کا کنگ کہتے ہو۔۔ اس کی جگہ اگر تم بھی ہوتے تو یہی کرتے۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔
"سیدھی بات کرو۔۔" مظہر کو خاصا تپ چڑھی تھی۔
"ظاہر سی بات ہے اگر وہ مجھے مارتا تو گولی کی آواز پر راج وہاں آجاتا اور مارکو مارا جا سکتا تھا۔۔ اس کا اصل دشمن راج تھا۔۔ جیسے کہ تم نے اس کی ڈیڈ باڈی پر دیکھا ہوگا۔ اس کی پیٹھ پر بھی گولی لگی تھی۔۔ عقل کی بات ہے راج کو اس کے آنے کا علم نہیں تھا اور اس بیچارے پر پیچھے سے وار کیا گیا اور جب وہ اس مارکو کی طرف مڑا ہوگا تو مارکو نے اس کے سینے پر بھی گولی چلا دی۔۔ تو راج کی ساری ہمت جواب دے گئ ہوگی۔۔ سمپل۔۔" عالیان دل ہی دل میں اپنے دماغ کی دات دیے بغیر رہ نہیں سکا۔ رہی بات مظہر کی تو اسے کچھ کچھ یقین ہونے لگا تھا۔
"اس سب کے بعد میں نے ان کو اس کے پیچھے اوپر جانے کا کہا کیوںکہ نیچے تو وہ جا نہیں سکتا تھا ان کی موجودگی کی وجہ سے۔ تھوڑی دیر بعد یہ واپس آئیں تو انہوں نے کہا وہ اوپر ایک دوسرے دروازے سے بھاگ گیا ہے۔۔" پھر گارڈز کو دیکھا۔۔ " ایسا ہی تھا نا؟؟" انہوں نے پھر سر ہاں میں ہلایا۔
"وہاں کہیں بھی کیمرہ نہیں تھا۔ بس پھر ہم واپس آگئے۔۔" عالیان نے بڑی چالاکی سے کہانی ترتیب دے رکھی تھی ۔
"مارکو کیسا دکھتا تھا؟؟" مظہر کو بھی سکون نہیں تھا۔ اس سوال پر جہاں عالیان نے اسے گھورا تھا وہیں ایما نے بھی حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا۔
"جب تمہیں میرا یقین نہیں ہے تو بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔۔" وہ اٹھ کر جانے لگا تو مظہر نے تیزی سے اسے بازو سے دبوچ کر اپنی طرف گھمایا۔
"جواب دو عالیان ۔" اس نے اس کی کالی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سختی سے کہا۔ عالیان نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔
"سنہرے بال۔۔سنہری داڑھی۔۔ سفید رنگت۔۔ The blonde man۔۔" تیزی سے کہتے اپنا بازو چھڑایا اور پیر پٹختا وہاں سے چلا گیا۔۔ ایما سر نفی میں ہلاتے اپنے باپ کو افسوس سے دیکھنے لگی۔
"مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی ڈیڈ۔۔" وہ مظہر کے سامنے آتے ہوئے افسوس بھرے لہجے میں بولی۔۔
"یہ ضروری تھا۔۔"
"میری بات سنے ڈیڈ۔ ہی از مائی لو۔۔ آپ کو اس کی عزت کرنی ہوگی۔ ورنہ میں اسے یہاں سے دور لے جائوں گی۔۔ سمجھے آپ۔۔۔" مظہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنجنگ انداز میں کہتے وہ بھی وہاں سے چلی گئ۔۔ مظہر آنکھیں چھوٹی کیے اسے جاتا دیکھنے لگا۔

●●●●●●●●●●

تقریباً شام ڈھلنے کو تھی سورج غروب ہونے والاتھا۔ وہ اس وقت مینشن کے جم میں موجود تھا۔ بلیک سلیو لیس شرٹ پہنے ٹریڈ مل کے رننگ ڈیک پر وہ تیز تیز بھاگ رہا تھا۔ جسم پسینے سے شرابور تھا۔ گھنگھرالے بال ماتھے پر بکھرے تھے۔ وہ کافی دیر سے دوڑے جا رہا تھا۔ ہارٹ ریٹ مانیٹر اسکی ہارٹ بیٹ فاسٹ شو کر رہا تھا۔ اس نے وہیں سٹاپ کی اور ہینڈ ریل پر ہاتھ رکھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگا وجہ سپیڈ کا کافی تیز ہونا تھا ۔ سر کو جھکائے وہ ویسے ہی کھڑے تیز تیز سانس لیے جا رہا تھا۔
"جس طرح سے تم محنت کر رہے ہو مجھے تم پر شک نہیں کرنا چاہئیے تھا۔۔" اسے اپنے عقب سے مظہر کی آواز آئی تو اس نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ وائٹ کلر کا تھری پیس سوٹ پہنے گرے بالوں کو جیل سے پیچھے کیے وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ چہرے پر تلخ سی مسکراہٹ تھی۔
"معذرت کرنے آئے ہو؟؟" اس نے ساتھ پڑی جوس کی بوتل ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
"یہی سمجھ لو۔۔" وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔
"ضرورت نہیں ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ راج تمہارا بہت خاص بندہ تھا۔ تمہیں اس کی موت کا بہت زیادہ دکھ ہے اور کوئی اپنا چھوڑ جائے تو انسان کے دماغ کے سکریو کافی ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔۔" کہتے ساتھ اس نے بوتل منہ سے لگائی۔
"اب ایسا بھی نہیں ہے ہاں مجھے دکھ ہے مگر میں اب اس کے دکھ میں مر نہیں رہا۔۔" مظہر سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا۔۔
"ویری بیڈ مظہر!!" بوتل واپس وہیں میز پر رکھ کر وہ مظہر کے سامنے گیا۔
"اب تم ہو نا مجھے تم میں ویسے بھی کچھ کچھ راج دکھنے لگا ہے۔۔"
"توبہ کرو مظہر اب میں اس کی طرح کالا تو نہیں ہوں ۔" وہ جیسے ناک چڑھاتے ہوئے بولا تو مظہر فوراً ہنس دیا۔
"تو مارکو پھر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔" مظہر نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"ہاتھ میں آیا ہی کب تھا۔۔" عالیان نے دل ہی دل میں کہا۔ بظاہر تاثرات نارمل ہی رکھے۔ "کوئی بات نہیں اپنے بندوں کو دوبارہ اس کو ڈھونڈنے کے کام میں لگائو اس بار ضرور مل جائے گا۔" ہاتھوں سے اپنے بالوں کو ماتھے سے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں اب یہی کروں گا۔۔" اس نے رک کر پھر عالیان کا چہرہ دیکھا۔ "میں تمہیں ایک اور چانس دیتا ہوں راج کا بدلہ لینے کا۔۔"
"ضرور پہلے مل تو جائے۔ یہ بتائو ڈائمنڈ تمہارے ہیں؟؟" مظہر نے اس کی بات پر سر اثبات میں ہلایا۔۔ "پھر تم یہ کام مجھ پر چھوڑ دو۔۔ اپنے ایک گارڈ کو کہو مجھ سے کنٹیکٹ میں رہے لیکن۔۔" وہ قدم اٹھاتا بلکل اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔۔" اس بار مجھ پر یقین کرنا ہوگا۔۔" عالیان نے اپنی سیاہ آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑتے ہوئے کہا۔
"ڈن۔۔" مسکرا کر کہتے وہ وہاں سے چلا گیا۔ عالیان آنکھیں چھوٹی کیے اس کی پشت کو دیکھے گیا۔
"ایک دفعہ۔۔ بس ایک دفعہ میں کسی طرح یہاں سے نکل جائوں پیچھے مڑ کے تم لوگوں کو دیکھوں گا تک نہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ میں تم لوگوں کا اعتماد حاصل کرلوں۔ تم لوگوں کے اتنے قریب ہو جائوں کہ غلطی سے بھی تم لوگ مجھ پر شک نہ کر سکو۔ چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔ تم مافیا کے لوگ جھوٹے۔۔ مکار۔۔خودغرض۔۔اور بےرحم ہوتے ہو۔ تم لوگ کبھی کسی کے اپنے نہیں بن سکتے کبھی نہیں۔۔۔"

●●●●●●●●●●●●

مینشن کی سیڑھیاں عبور کرتے ایک ہاتھ میں کافی کا کپ پکڑے دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے اپنے کمرے میں داخل ہوا تب ہی اس کی نظر ایما پر پڑی جو بیڈ پر چپس کے پیکٹس، چاکلیٹس، جوس کے کینز اور پتہ نہیں کیا کیا پھیلائے بیٹھی تھی۔ ہاتھ میں ایک چپس کا بائول پکڑے وہ مسلسل کھانے میں مصروف تھی تبھی سامنے کھڑے عالیان سے نظریں ملیں تو اسے مسکرا کر دیکھنے لگی۔۔
"میری زندگی میں بےسکونی بھر کر خود سکون سے ٹھوسے جا رہی ہے۔۔" دل ہی دل میں بڑبڑاتے وہ اگلے ہی لمحے خود کو کمپوز کر گیا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔ ایما کو اس کا موڈ آج خاصا خوشگوار لگ رہا تھا۔
"کہاں تھے تم؟؟" چپس کا دانہ منہ میں کڑچ کڑچ کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"فلم دیکھ رہا تھا۔۔" عالیان نے مختصراً جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے ٹانگیں لمبی کیے بیٹھ گیا۔
"ہممم میرے بغیر۔۔" وہ خفگی سے پوچھنے لگی۔۔ "خیر کیا پی رہے ہو؟" اس کے ہاتھ میں پکڑے کپ کو دیکھ کر ایک دم پوچھنے لگی۔
"کافی پی رہا ہوں۔۔ تم پیو گی؟؟" ہلکا سا رخ اس کی طرف موڑ کر پوچھا۔
"ہاں اگر تم اپنی کافی ہی دے دو تو۔ " عاجزانہ انداز میں بولی۔
"جی نہیں۔۔ اگر پینی ہے تو اپنے لیے بنا لائو۔۔" جھڑکنے کے انداز میں کہتے وہ کپ لبوں سے لگا گیا۔ ایما آنکھیں چھوٹی کیے اسے سر نفی میں ہلاتے ہوئے دیکھنے لگی اور پھر دوبارہ سے اپنی چپس کی طرف متوجہ ہو گئ۔
"ایک بات بتائو ۔۔ تمہیں اپنی فیملی کی یاد آرہی ہے کیا؟؟" سوال غیر متوقع تھا۔ عالیان نے اس کو نہیں دیکھا۔
"ظاہر ہے سب کو آتی ہے۔۔" نظریں ہنوز کپ پر جھکائے وہ سپاٹ سے لہجے میں بولا۔۔"ویسے تمہیں کیسے پتہ چلا؟؟" اب کی بار نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"تم رات کو نیند میں اپنے ڈیڈ کو بہت یاد کرتے ہو۔۔ ایک نام اور بھی لیتے ہو۔ کیا؟ کیا؟" دماغ پر شہادت کی انگلی مارتے ہوئے سوچنے لگی۔۔ "ہاں ردا۔۔ یہی نام لیتے ہو۔۔" کافی پیتے پیتے بیچارے کو بےساختہ اچھو لگی۔ "آر یو آل رائٹ؟؟" وہ فکرمندی سے پوچھنے لگی۔۔
"میں نیند میں نہیں بولتا۔۔"سنبھل کر کچھ دیر بعد یقین سے بولا۔
"کافی دنوں سے میں نوٹ کر رہی ہوں تمہیں۔۔ ویسے ہے کون ردا؟؟"
"کوئی بھی نہیں ۔۔" وہ فوراً مکر گیا۔
"کوئی تو ہے خیر چھوڑو۔۔" وہ سر جھٹک کر اس سے نظریں ہٹا گئ۔۔" تمہارے ڈیڈ کو کال کی تھی میں نے۔۔" اب کی بار عالیان کرنٹ کھا کر اس کی طرف پلٹا۔۔ آنکھوں میں حیرت شاک صدمہ سب تھا۔" مجھے پتہ چلا وہ تمھیں امریکہ میں ڈھونڈ رہے ہیں میں نے سوچا سب بتا دینا چاہئیے تاکہ ان کی تکلیف کم ہو۔۔"
"تمہیں بہت پہلے بتا دینا چاہئیے تھا ایما۔۔" اس کی آواز کھائی سے آئی ہوئی لگی۔
"مجھے ایسا کوئی خیال نہیں آیا۔۔لیکن اب وہ تمہارا انتظار نہیں کریں گے۔۔ یہاں سے جانے کے خواب نکال دو اپنے ذہن سے۔۔" انداز تحکمانہ تھا۔
"میرا اب ایسا کوئی ارادہ ہے بھی نہیں وہ مجھ سے اب نفرت کرتے ہوں گے۔۔ میں یہ سب ایکسپٹ کرنے کی کوشش کر تو رہا ہوں۔۔" وہ نہایت کرب بھری آواز میں بولا جبکہ ایما فاتحانہ مسکرا دی۔
"سب ایکسپٹ کر ہی لیا ہے تو مجھے بھی کر لو۔۔" منت بھرے لہجے میں بولی تو عالیان خاموش رہا۔ " تمہیں پتہ ہے۔۔جب میں نے پہلی بار تمہیں کلب میں دیکھا تھا نا تو میں تمہاری ان ڈارک بلیک آئیز کی دیوانی ہو گئ تھی۔ کچھ بھی کر کے بس مجھے تم سے دوستی کرنی تھی لیکن میرے ایک ہی قدم بڑھانے پر تم نے میرے لیے آسانی کر دی۔۔" اس کا دل کیا کہ راج کی جگہ گولیاں وہ اس لڑکی کے سینے میں اتار دیتا۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی امریکہ آنا نہیں ایما سے دوستی کرنا تھی۔ اس نے نظریں اٹھا کر اسے نہیں دیکھا تھا۔
"پھر ہماری دوستی گہری ہوتی گئی اتنی کہ۔۔۔" عالیان پھر سے کھانسنے لگا زور زور سے۔۔ ایما کو سمجھ نہیں لگی کہ یہ کھانسی سچ مچ کی تھی یا ایکٹنگ۔
"بکواس کافی ہے۔۔" کہتے ساتھ اس نے کپ سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔۔ "اور تم ماضی کو بیچ میں مت لائو۔۔" غصے سے کہتے وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ ایما نے فوراً سے اس کا پاتھ پکڑ کر روکا۔
"اوکے فائن نہیں بات کرتے پاسٹ کی۔ آئی ایم سوری۔۔" پہلے تو اسے اس کے بھڑکنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی لیکن پھر دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی کہ اس کا اچھا خاصا موڈ خراب کردیا کیا ضرورت ہے پاسٹ چھیڑنے کی اسے نہیں پسند تو بس نہیں پسند بات ختم۔۔۔ عالیان اس پر ایک گھوری ڈالتے دوبارہ بیٹھ گیا۔۔
"ایما ڈئیر۔۔" نرمی سے اس کے گال پر پھسلتی لٹ کو کان کے پیچھے کیا تو وہ جزبز سی ہوئی۔ "پریذینٹ کی بات کرو فیوچر کی کرو بس پاسٹ کی نہ کرو۔۔" اس سے پہلے ایما زیادہ فری ہوتی وہ فوراً سے پیچھے ہو گیا۔۔ "افف یقین جیتنے کے لیے کیا کیا کرنا پڑے گا نفرت ہے مجھے ایما تم سے ہونہہ۔۔"
وہ بلش کرتے مسکرا گئ اسی دوران اس کے فون کی بیل بجی۔ اس نے کال اٹینڈ کی اور اوکے کہہ کر کاٹ دی۔۔
"ڈیڈ کہہ رہے ہیں نیچے جا کر گارڈز سے ملو انہیں کچھ کہنا ہے۔۔" وہ عالیان کی طرف گھومتے ہوئے بولی۔۔
"مظہر خود کدھر ہے؟؟" وہ حیرت سے پوچھنے لگا۔۔
"ڈیڈ امریکہ گئے ہوئے ہیں۔۔" وہ اس کی بات پر سر ہلاتا نیچے جانے لگا۔
"سر مارکو کا پتہ چل گیا ہے۔۔" وہ عین ان دو گارڈز کے سامنے کھڑا سنجیدگی سے انہیں سن رہا تھا۔
"کہاں ہے وہ؟؟"
"ایک پرانی بلڈنگ میں۔۔"
"وہ پھر بھاگ جائے گا۔۔" وہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے بولا۔
"نو سر جو بندہ ہم نے اس کے پیچھے لگا رکھا تھا اس نے موقع پاتے ہی اسے وہیں پکڑ کر باندھ دیا ہے۔۔"
"گڈ!!! مظہر کیا کہتا ہے؟؟"
"سر ان کا کہنا کہ ہم آپ کے ساتھ جائیں۔ آپ اس سے سوال جواب کریں۔ اگر وہ ٹھیک ٹھیک بتائے تو اس جگہ پر جا کر ڈائمنڈز لے آئیں اور پھر اس کا کام تمام کر دیں ۔"
"یعنی ایک اور قتل۔۔۔" وہ زیرلب بولا اور گہرا سانس لیتے ان کی طرف متوجہ ہوا۔ " آٹھ سے دس گارڈز کی ٹیم تیار کرو ہم ابھی جا رہے ہیں۔۔" ان پر حکم کرتے وہ تیاری کرنے چلا گیا۔
کچھ ہی دیر بعد بلڈنگ کے بالائی منزل پر ایک کمرے میں رسیوں میں جکڑے مارکو کے سامنے پسٹل ہاتھ میں پکڑے وہ اس کی طرف جھک کر کرسی میں بیٹھا ہوا تھا۔ چہرے پر بے پناہ سنجیدگی تھی۔ اس کمرے میں صرف ایک بلب کی ہلکی روشنی تھی باقی ہر طرف اندھیرا تھا۔ دو گارڈ اندر دروازے کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے جبکہ باقی گارڈز اس نے باہر پہرے کے لیےچھوڑ رکھے تھے۔
"مارکو۔۔ مسٹر گولڈ !!!" دھیرے سے اس کے پکارنے پر مارکو نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ ماتھے پر زخم کا نشان۔۔ہونٹ کونے سے پھٹا ہوا۔۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھے گیا۔۔
"مظہر کے ڈائمنڈز کہاں ہیں؟؟" اس نے سخت بھری آواز سے پوچھا۔
"کون ہو تم؟؟" وہ بمشکل پوچھ پایا۔
"فلحال تک تو عالیان ہوں لیکن اگر منہ نہیں کھولا تو تھوڑی دیر تک تمہاری موت بن جائوں گا۔۔" وہ پسٹل اس کے سامنے لہراتے ہوئے بولا۔
"کوئی ڈائمنڈز نہیں ہیں میرے پاس۔۔ " وہ صاف مکر گیا۔
"جانتا تھا تم تنگ کرو گے۔۔" اس نے آگے ہو کر اس کو تھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ سامنے کیا۔ "سچ بتا دو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ اپنی بات کا پکا ہوں۔بیلیو می۔۔"
"میں نے کہا نا میرے پاس نہیں ہے۔" وہ درد سے بلک کر ایک بار پھر بولا۔ عالیان نے جھٹکے سے اس کی گردن چھوڑی اور پسٹل کی نوک اس کی پیشانی پر رکھی۔۔
"تو کس کے پاس ہیں؟؟" وہ تیزی سے دھاڑا۔
"لیزا کے پاس۔۔" وہ ڈر کے مارے بول پڑا۔ عالیان بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھے گیا۔
"کون لیزا؟؟" مارکو نے کچھ کہنے کے لیے لب ہلائے ہی تھے کہ اسی دوران ایک گولی کی آواز آئی۔ سیدھا پیشانی پر گولی لگنے کی وجہ سے مارکو عالیان کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ پھر دو گولیاں اور گونجیں اس کے سامنے کھڑے گارڈز بھی زمین پر ڈھیر ہوگئے۔ اس نے بےساختہ گردن موڑ کر دیکھا وہاں مکمل اندھیرا تھا۔۔ تبھی ہیل کی ٹک ٹک گونجنے لگی۔ عالیان بغور اس طرف دیکھنے لگا جہاں سے ہیلز کی آواز آ رہی تھی۔ ہلکی ہلکی روشنی میں اس عورت کا چہرہ نمودار ہونے لگا۔ عالیان اسے دیکھتے جیسے سانس لینا بھول گیا تھا اور پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گیا۔ سفید ریشمی ٹاپ کے ساتھ سیاہ رنگ کی جینز اور سیاہ ہیلز پہنے وہ انگلیوں پر مہارت سے گن کو گھما رہی تھی۔ بال رول کیے شانوں پر پھیلے تھی چہرہ ہیوی میک اپ سے لدا ہوا۔ وہ اسے دیکھ کر گردن ایک طرف گرائے مسکرا رہی تھی۔ عالیان کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے تھے اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ عورت جو اس دن ڈری سہمی اپنے بچے کو خود سے لگائے راج سے زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی وہ ایسے اس کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔
"تم سے دوبارہ مل کر بہت خوشی ہوئی لڑکے۔۔" وہ ہرنی چال چلتے اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔عالیان نے گارڈز کو آواز دینے کے لیے ہونٹوں کو جنبش دی۔
"نہ نہ ان کو آواز دینے کا فائدہ نہیں ہے۔۔ وہ میرے بندوں کے قبضے میں ہیں۔۔" عالیان کی رنگت سفید پڑنے لگی۔
"تم کیوں ڈر رہے ہو مجھ سے۔۔ تم نے تو میری اور میرے بچوں کی جان بچائی تھی۔۔" وہ اپنی بھوری آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولی۔۔ پھر موبائل کی سکرین روشن کر کے اس کے سامنے کی۔ عالیان حیرت سے اس پکچر کو دیکھے گیا جس میں ایک نومولود بچہ کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔
"یہ صرف تمھاری مہربانی ہے کہ یہ دنیا میں آیا ۔۔" کہتے ساتھ اس نے موبائل اس کے سامنے سے ہٹایا۔۔
"تم ہو کون؟؟" عالیان دھیمی آواز سے پوچھنے لگا۔
"اس مرے ہوئے انسان کی بیوی تھی اب بیوہ ہوں۔۔ نام لیزا مہر۔۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولی جبکہ عالیان ایک بار پھر شاک کے عالم میں اسے دیکھنے لگا۔"تم نے اپنے شوہر کو مار دیا۔۔" وہ دبی ہوئی آواز میں بولا تو لیزا پھر سے ہنس دی۔
"میرے بچے کا قاتل ہے اور اب تیسرے کو بھی مارنا چاہتا تھا۔۔ بہت چھپتی رہی ہوں اس سائیکو انسان سے میں۔۔ میری کمزور حالت میں یہ مجھے مار دینا چاہتا تھا جیسا آسان بھی تھا اس لیے اس نے چالاکی سے میرا پتہ مظہر تک پہنچایا تاکہ وہ ہی میرا قصہ تمام کر دے۔۔ لیکن افسوس کہ مظہر نے اپنے نکموں کو بھیج دیا۔۔ اوپس!! آئی ایم سوری تمہارا تو احسان ہے مجھ پر۔۔" عالیان کے دماغ میں ہزاروں سوال تھے بس سمجھ نہیں پا رہا تھا کیا پوچھے کیا نہ پوچھے۔
"سمجھ گئ۔۔ تمہیں بہت سوال کرنے ہیں نا۔۔" اس کا رنگ ایک دم سے اڑا۔۔" آئو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔ آئو آئو ڈرو نہیں۔۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑتے اسے پچھلی سائڈ سے باہر لے جانے لگی۔ باہر روشنی میں کچھ کرسیاں بےترتیبی سے پڑی تھیں۔ لیزا نے آگے ہو کر دو کرسیوں کو آمنے سامنے رکھا ایک پر عالیان بیٹھ گیا اور ٹھیک اس کے سامنے لیزا۔۔
"میری اور مارکو کی شادی پسند کی تھی۔ کافی ٹائم بعد مجھے پتہ چلا اس نے مجھ سے دولت کے لیے شادی کی تھی جب میں تیسری بار ماں بننے والی تھی۔۔ میرا پہلا بیٹا تو اس سے پتہ نہیں کیسے بچ گیا لیکن میرے اگلے بچے کو اس نے دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا تھا اور یہ بھی مجھے دیر سے پتہ چلا تھا۔۔ میں نے ٹھان لی کہ بس ایک دفعہ میں اب کی بار اس سے کسی طرح بچ جائوں پھر میں اسے بتائوں گی کہ لیزا مہر آخر کس آفت کا نام ہے۔۔" آسمان نے آہستہ آہستہ نارنجی رنگ اختیار کر لیا تھا۔ عالیان بغور اس کی بات سن رہا تھا۔
"مارکو اور مظہر میں کیا تعلق ہے؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"دونوں بہت گہرے دوست رہے ہیں بس ڈائمنڈز نے دڑاڑ ڈال دی۔۔" کہتے وہ ہنسنے لگی۔۔ " جن ڈائمنڈز کے لیے تم یہاں آئے ہو جانتے ہو وہ کس کے ہیں؟؟"
"مظہر کے۔۔" وہ فوراً بولا جیسے کہ اسے بتایا گیا تھا۔۔
" میرے۔۔" ہر ایک خبر اس کو ضرور حیران کرتی تھی اور اب بھی وہ حیرت کا شکار ہوا تھا۔۔ " میرے ڈائمنڈز ہیں مظہر کے کہنے پر مارکو نے مجھ سے چرائے تھے لیکن خود ہی ہڑپ کر بیٹھ گیا۔ دونوں نے آپس میں ڈیل کی تھی جو مارکو نے توڑ دی اور غائب ہو گیا۔۔ بھول جائو ان کو وہ میرے ہیں اور مجھے دوبارہ مل گئے ہیں مظہر کا باپ بھی قبر سے آئے نا تو وہ بھی مجھ سے نہیں لے سکتا۔۔" لہجہ سخت پتھریلا تھا۔۔" چاہو تو بتا دینا اسے کہ لیزا نے اپنی چیز واپس لے لی۔۔"
"پھر تو آپ کو اس سے خطرہ ہو جائے گا۔۔" جواباً اسے لیزا کا قہقہہ سنائی دیا۔
"مظہر مجھ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا میں اٹلی میں ہی رہوں نا تب بھی۔۔ بہت اوپر کی چیز ہوں میں اس سے۔ یہ تو اب تک میں اندھی بنی رہی تھی محبت کی وجہ سے۔۔ یو نو لو از بلائینڈ۔۔۔" وہ پھر ہنس دی اور رک کر عالیان کو دیکھنے لگی۔۔ "یہ بتائو تم رحم دل انسان اس بے رحم مافیا کی دنیا میں کیا کر رہے ہو اور مظہر سے کیا تعلق ہے تمہارا؟؟؟"
"میں پاکستان سے ہوں اور مظہر کا داماد ہوں۔" وہ ناگواری سے بولا۔
"اوہ اس کی سائیکو بیٹی کے ہزبینڈ ہو۔۔ چچ چچ چچ۔۔ کیسے پھنس گئے؟؟ ضرور زبردستی کی گئ ہوگی۔۔ اس کی بیٹی تو جس چیز کے پیچھے پڑ جائے حاصل کر کے چھوڑتی ہے۔۔ افسوس ہوا ۔۔" وہ سر افسوس سے نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔۔ "خیر کچھ مہینوں بعد میں اپنے بچوں کو لے کر واپس افغانستان چلی جائوں گی۔۔ ابھی تو بہت سے کام نپٹانے ہیں۔۔ یہ بتائو تمہارے گارڈز کا کیا کروں؟؟" وہ طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"مظہر کے گارڈز ہیں میرے بس میں ہوتا تو سب کو مروا دیتا لیکن ان کو چھوڑ دیں ورنہ مظہر پھر مجھ پر یقین نہیں کرےگا۔۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔
"ہا ہا ۔۔ فائن ۔۔ اب چلتی ہوں۔۔ آئی ہوپ ہمارے راستے دوبارہ نہ ٹکرائیں کیونکہ میں تمہارے احسان کا بدلہ اتار چکی ہوں تمہاری جان بخش کر۔۔ اگلی بار ایسی امید مت رکھنا۔۔" آنکھ کو ونگ کرتے وہ وہاں سے چلی گئ۔ اندھیرا چھانے لگا تھا اگلے دن نے تو روشن ہونا ہی تھا ناجانے عالیان کی اندھیری قسمت کب روشن ہو گی۔ وہ ٹھنڈی آہ بھرتے آسمان کو دیکھنے لگا

●●●●●●●●●●●

"تم نے مجھ سے جھوٹ بولا مظہر۔۔۔" وہ اس وقت لونگ روم میں موجود تھے۔ مظہر پیشانی پر ڈھیروں بل لیے اونچی لمبی ٹانگوں والے سٹول پر پڑے سفید رنگ کے خوبصورت واس پر بنے ڈیزائن پر مسلسل انگلیاں پھیرے جا رہے تھا۔ عالیان اس کے بلکل پیچھے کھڑا اس سے مخاطب تھا۔۔
"کیا جھوٹ بولا میں نے ہاں؟؟" وہ تیزی سے عالیان کی طرف گھوما۔ چہرے کے تاثرات ہنوز بگڑے ہوئے تھے۔
"ڈائمنڈز تمہارے نہیں ہیں۔۔" اس کے پوچھتے ہی وہ بنا سوچے سمجھے فوراً سے بولا۔۔
"بکواس مت کرو اور مجھے یہ بھی بتائو کہ اب بھی کوئی الماری سے نکلا تھا جس نے تمہارے سر پر مارا اور پھر مارکو کے سر میں گولی اتار گیا اور تمہیں پھر سے زندہ چھوڑ دیا کیونکہ اس کا اصلی دشمن مارکو تھا تم نہیں۔ بلا بلا بلا بلا۔۔۔" وہ طنزیہ مگر غصے سے کہتا قدم قدم اس کے قریب آیا۔ عالیان نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔
"میں نے پہلے کہا تھا مجھ پر یقین کرنا پڑے گا۔۔" وہ دانت پر دانت جمائے بولا۔۔
"ہاں تو بتائو نا کیسے کروں یقین بجائے مجھے سب بتانے کے تم یہاں مجھے جھوٹا کہہ رہے ہو۔۔" اسکی آواز قدرے اونچی تھی۔۔
"کیونکہ تم نے جھوٹ بولا اور جھوٹ بولنے والے کو جھوٹا ہی کہا جاتا ہے۔۔" اس کی آواز تیز نہیں تھی۔ اسے خود کو قابو میں رکھنا تھا۔ کچھ پل خاموشی سے وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔۔" لیزا کون ہے؟؟" اس سوال پر مظہر ایک دم سیدھا ہوا۔ چہرے کا رنگ ایک دم بدلا تھا۔۔
"تم کیسے جانتے ہو اس کو؟؟" صدمے سے بولا۔۔
"وہ آئی تھی اس جگہ۔۔ اس نے مار دیا مارکو کو۔۔ ڈائمنڈز اسی کے ہیں نا؟؟" آواز کو تھوڑا اونچا کرتے اب وہ بلکل اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔
"تو اس نے تمہیں کیوں چھوڑ دیا؟؟" پھر وہی سوال۔۔۔
"تمہیں ہر بار میرے بچ جانے کا افسوس کیوں ہوتا ہے؟؟" وہ پل بھر کے لیے خاموش ہو گیا۔
"عالیان !!!! بتائو مجھے اس نے تم سے کیا کہا؟؟" عالیان نے اطمینان سے ہاتھ سینے پر باندھے۔ مظہر کا پارا پھر سے ہائی ہونے لگا۔
"اس نے مجھے زندہ اس لیے چھوڑا تاکہ میں آکر تمہیں بتا سکوں کہ وہ اپنی چیز لے گئ ہے اور تمہارا باپ بھی قبر سے آئے تو اس سے اس کی چیز دوبارہ نہیں لے سکتا۔۔" تیزی سے کہتے ہوئے رکا اور باری باری اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔" ایسا اس نے کہا تھا مظہر درانی۔۔ وہ ڈائمنڈز اس کے تھے وہ لے گئ۔۔" مظہر کے پیروں کے نیچے سے زمین اب صحیح معنوں میں نکلی تھی۔
"اور میرے کروڑوں روپے؟؟" اس کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے۔
"وہ اب تم مارکو کی قبر سے جا کر لے لو کیونکہ میرے پوچھنے سے پہلے لیزا اسے مار چکی تھی۔۔" اس کے چہرے کے تاثرات یکدم بدلے۔۔ "میں نے کہا تھا مظہر میرا یقین کرنا پڑے گا۔۔" کہتے ساتھ وہ تیز قدم لیتے وہاں سے چلا گیا۔ مظہر وہیں ششد کھڑا رہا کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں کسی صدمے میں۔۔۔

●●●●●●●●●●●

وہ اس وقت اپنے آفس میں موجود تھا۔آفس میں مدھم سی بتیاں جل رہی تھیں۔ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ٹانگیں ٹیبل پر پھیلائے وہ آنکھیں موندے ہوئے تھا۔ اسے اٹلی میں آئے ہوئے اب گیارہ مہینے اور کچھ دن اوپر ہو گئے تھے۔ مظہر کا اعتماد بھی وہ کافی حد تک حاصل کر چکا تھا اس کے ہر وہ کام کر کے جو راج اس کے لیے سر انجام دیتا تھا۔ مزید دو قتل بھی وہ کر چکا تھا ایک سیلف ڈیفینس میں اور دوسرا بھی مجبوری میں لیکن اب تک اسے بھاگنے کا کوئی طریقہ نہیں ملا تھا اسے بار بار یہی لگتا تھا کہ شاید اب وہ اس قید سےکبھی رہا نہیں ہو سکتا۔ دفعتاً اس کی آنکھیں کھلیں۔ انگڑائی لیتے ہوئے وہ سیدھا ہوا اور پھر گلاس ونڈو سے باہر دیکھنے لگا۔ آسمان پر مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے وہ کرسی سے اٹھا کوٹ پہنا اور آفس سے نکل گیا اسے مینشن پہنچنا تھا۔
مینشن پہنچتے ہی راہداری عبور کرتے وہ لونگ روم سے آتی ایما اور مظہر کی آواز پر رکا۔ تھوڑی سی اوٹ میں ہو کر
وہ چھپ کر ان کی گفتگو سن رہا تھا۔ آواز کلئیر تھی۔
"جانا ضروری ہے کیا ایما؟؟" آواز مظہر کی تھی۔ وہ انہیں دیکھ نہیں سکتا تھا مگر سنجیدگی سے سن رہا تھا۔
"آپ کیوں نہیں چاہتے کہ میں جائوں دبئی۔۔" جبکہ دبئی کا نام سنتے ہی عالیان کی آنکھیں پوری کھلیں تھیں۔
"جس دن تمہاری دوست کی شادی ہے اس کے کچھ دن ہی بعد ہی مسٹر فرانسیسو کی گرینڈ پارٹی ہے۔ ہائو کین یو فورگیٹ؟؟ تم جانتی ہو وہ تمہارے نہ ہونے سے کتنے ناراض ہوں گے۔۔"
"اوہو ڈیڈ وہ کافی دنوں بعد ہے میں آجائوں گی ۔ میں اپنی فرینڈ کی شادی نہیں مس کر سکتی۔۔" عالیان کے رکے ہوئے قدموں میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ تیز قدم لیتے وہاں سے جانے لگا جو اسے سننا تھا وہ سن چکا تھا۔ ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر سجی تھی۔ دبئی کے نام پر ایک امید سی بندھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے اسے بس کل کے دن کا انتظار تھا۔

●●●●●●●●●●●

اگلے دن ایما اپنے ایگزیبشن میں بزی تھی وہ سار دن مینشن نہیں آئی عالیان کو آرام سے ساری تیاری کرنے کا موقع ملا تھا۔ رات ہو گئ تھی اور وہ تھکی ہاری مینشن آئی تھی۔ اس کا ارادہ سیدھا اپنے کمرے میں جانا تھا سو وہ ادھر ہی گئ۔۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اس نے ہر طرف اندھیرا پایا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں ہر طرف روشنی ہو گئ تھی اس نے بے ساختہ ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھا اور پھر جیسے ہر طرف دیکھ کر وہ سب دیکھنا بھول گئ تھی۔ پورے کمرےمیں گلاب کی پتیوں کی مہک تھی۔ وہ کمرے کے فرش پر دور دور تک پھیلیں ہوئیں تھیں ۔ ہر طرف سرخ گلاب ہی گلاب تھے۔۔ فیری لائیٹس ۔۔ ریڈ ہارٹ بیلونز۔۔ درمیان میں ایک ٹیبل اس کے گرد دو کرسیاں۔۔
"کینڈل لائٹ ڈنر۔۔۔" وہ ہلکی سی آواز میں بولی۔۔افف کیا یہ اس کا کمرہ تھا اتنا سجا ہوا۔ وہ ادھر ادھر نظر گھمانے لگی اسے لگا جیسے وہ غلط کمرے میں آگئ تھی۔ اسی دوران اسے اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ وہ کرنٹ کھا کر مڑی تو سامنے ہی عالیان ایک ہاتھ میں ریڈ ہارٹ بیلونز اور دوسرے ہاتھ میں سرخ گلابوں کا بوکے پکڑے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا۔ پھر گھوم کر اس کے سامنے آیا۔ بیلونز ہاتھوں سے چھوڑ دیے تو وہ چھت پر جا لگے۔ دوسرے ہاتھ میں پکڑا بوکے اس کے سامنے مسکراتے ہوئے پیش کیا جسے حیرت کا شکار ایما نے کچھ سوچتے سمجھتے تھام لیا۔ عالیان نے ایک ہاتھ کمر کے پیچھے کرتے سر کو تھوڑا سا جھکاتے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے سامنے کیا ۔
" ول یو بی مائن فورایور؟؟" ایما پہلے تو مسکرا کر اسے دیکھنے لگی ۔
" آئی ایم آل ریڈی یورز۔۔" پھر ایک ہاتھ سے اپنے فراک کا کونا پکڑتے سر کو تھوڑا جھکاتے پھر اسی ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کا دل خوشی سے پھٹے جا رہا تھا کہ یہ سب عالیان نے کیا ہے اففف اس کے عالیان نے کیا ہے اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے اور اگر یہ خواب ہی تھا تو بس اس کی آنکھ کبھی نہ کھلے۔۔ عالیان اس کا ہاتھ پکڑتے اسے ٹیبل تک لایا کرسی پیچھے گھسیٹتے اسے کندھوں سے تھام کر اس پر بٹھایا اور پھر سامنے کرسی پر جا بیٹھا۔
"یہ سب تم نے میرے لیے کیا؟؟" وہ اب تک حیرت کا شکار تھی۔ عالیان نے آس پاس نظر دوڑائی۔ پیشانی پر ہاتھ کا چھجا بنایا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔۔
"ویل۔۔ آئی گیس میری تم ہی ایک وائف ہو اور کوئی دکھائی بھی نہیں دے رہا تو ہاں شاید تمہارے لیے ہی کیا ہے۔۔" وہ کندھے اچکا کر بےنیازی سے بولا۔۔ ایما نے آگے ہو کر کہنیاں ٹیبل پر ٹکائیں اور ہاتھوں میں سر گرائے کچھ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھے گئ۔۔ " کم آن ایما۔۔" وہ اسے اس طرح سے گھورتا ہوا دیکھ کر بولا۔۔
"تھینک یو سو مچ۔۔" وہ محض یہی کہہ سکی۔
"اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اب تمہارے علاوہ میری زندگی میں ہے ہی کون۔۔ اب تم ہی تو ہو مائی وائف مائی لائف۔۔" یہ سب کہتے ہوئے اس کے دل پر کتنی چھریاں چل رہی تھیں اس کا اندازہ اسے آج اس وقت ہو رہا تھا۔۔
"تم نے مجھے معاف کر دیا ؟" بے ساختہ اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں تھیں۔
"نہ صرف معاف میں نے تمہیں ایکسپٹ بھی کر لیا ہے۔ میری قسمت میں یہی سب تھا۔ میں تھک گیا ہوں خود سے لڑ لڑ کر بس اب موو آن کرنا چاہتا ہوں۔۔"
"مجھے نہیں سمجھ آرہا میں کیا کہوں؟؟" وہ سر نفی میں ہلاتےہوئے بولی۔۔
"کچھ بھی نہ کہو ڈئیر ایما۔۔ بس یہ سب انجوائے کرو۔۔" اس نے سامنے ٹیبل پر سجی مختلف فرینچ اور اٹالین ڈشز کی طرف اشارہ کیا تو ایما مسکرا دی۔۔
"فائن۔۔" اس نے چھری کانٹا ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے کہا۔۔ عالیان سرد نگاہوں مگر مصنوعی مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ مکمل طور پر چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھانے میں مصروف تھی۔۔
"ایگزیبشن کیسا رہا تمہارا؟؟" کچھ دیر کی خاموشی کو عالیان نے توڑتے ہوئے پوچھا۔۔
"مور گریٹ دین مائی ایکسپیکٹیشن۔۔"
"ہمم۔۔ یہ تو اچھی بات ہے۔ نیکسٹ منتھ کے کیا پلانز ہیں تمہارے؟؟" وہ نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے بولا اب کی بار ایما نے سر اٹھا کر اسے تعجب سے دیکھا۔۔
"کیوں پوچھ رہے ہو؟؟"
"ایسے ہی جاننا چاہتا تھا تم زیادہ بزی تو نہیں ہوگی۔۔ ایکچلی آئی وانٹ ٹو سپینڈ مور ٹائم ود یو۔۔" وہ اسے تفصیل سے بتاتے ہوئے بولا۔۔ایما کے چہرے پر ہلکا سا تبسم بکھرا وہ قدرے حیرت سے اس شخص کو دیکھے گئ جو اسے پچھلے کچھ مہینوں سے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔۔
"کیا ہوا؟؟" وہ اسے خاموش دیکھتا ہوا بولا تو ایما سر جھٹک کر رہ گئ۔۔
"نہیں کچھ نہیں۔۔ میں بزی نہیں ہوں۔۔" وہ دوبارہ سے کھانے میں مصروف ہوگئ۔ عالیان کے چہرے پر ناگواری سی چھاگئ وہ اس کے منہ سے خود نکلوانا چاہتا تھا کہ وہ دبئی جانا چاہتی ہے۔۔۔ ایما کا ہاتھ میں پکڑا کانٹا ہوا میں رکا جیسے اسے کچھ یاد آیا تھا۔۔
"ہاں یاد آیا میں نے تو نیکسٹ منتھ فرینڈ کی شادی میں دبئی جانا ہے۔۔" عالیان دل ہی دل میں مسکرایا جبکہ چہرے کے تاثرات نارمل تھے۔۔
"اوو اچھا۔۔" وہ پل بھر کے لیے رکا۔ کانٹا اور چھری واپس رکھا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔ "کیا تم رک نہیں سکتی؟؟" ایما نے نظریں اٹھا کر تعجب سے اسے دیکھا وہ اس سے ریکویسٹ کر رہا تھا وہ بھی رکنے کی اس سے۔۔۔
"آ آ آ۔۔۔کیوں؟؟" وہ وجہ جاننا چاہتی تھی اور جواب اس کو اس کی توقع کے مطابق ہی ملا۔
"بہت مشکلوں سے سب ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں میں ہمارے درمیان۔۔ تم اس طرح سے کچھ دنوں کے لیے میری نظروں سے غائب ہو جائو گی تو میں پھر سے ڈپریس ہو جائوں گا۔۔ میں تو تمہیں ابھی سے مس کرنے لگا ہوں۔۔" اس نے اس کے لہجے میں منت اور التجا نوٹ کی تھی۔
"میں رک جائوں گی عالیان تمہارے لیے صرف تمہارے لیے میں جانے کا ارادہ ترک کر سکتی ہوں۔۔" وہ زبردستی مسکرایا۔۔ "بلکہ ایک کام کرتے ہیں۔۔ تم بھی ساتھ چلو نا میرے۔۔" اور یہ وہ جملہ تھا جس کو سننے کے لیے اس نے دل پر پتھر رکھ کر اتنی محنت کی تھی۔۔
"مم۔ میں؟؟" وہ انجان بنتے ہوئے بولا۔۔
"ہاں تم۔۔" وہ ایکسائٹڈ تھی۔
"مظہر نہیں مانے گا۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا۔
"اہمم۔۔ ڈیڈ کو مجھ پر چھوڑ دو۔۔ تم یہ بتائو کہ تم جانا چاہتے ہو میرے ساتھ یا نہیں؟؟"
"اگر تم اتنا انسسٹ کر رہی ہو تو ظاہر ہے میں جانا چاہوں گا لیکن مظہر۔۔۔۔"
"میں نے تم سے کہا نا ڈیڈ میری بات ضرور مانیں گے۔۔ تمہیں یہی لگتا ہے نا کہ وہ اب بھی تم پر بھروسہ نہیں کرتے؟؟"
"آئی ایم شیور۔۔ اسے مجھ پر بھروسہ نہیں ہے۔۔"
"تم نے اتنا کچھ کیا ہے ان کے لیے۔۔ تم نے خود کو پروو کیا ہے۔۔ وہ تم سے بہت خوش ہیں میرا یقین کرو۔۔" ایما نے تھوڑا آگے جھک کر نرمی سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو اس نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا۔ وہ جیسا چاہ رہا تھا سب ویسا ہی ہو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا ایما مظہر کو منا ہی لے گی۔ اب بس اسے کسی طرح دبئی پہنچنا تھا ۔

●●●●●●●●●●●●

اگلے دن وہ اپنے کمرے میں اسی طرح پریشانی سے چکر کاٹ رہا تھا۔ ایما مظہر سے بات کرنے گئ تھی اور اسے گئے ہوئے کافی دیر بھی ہو گئ تھی۔ کہیں نا کہیں اسے یقین کے ساتھ خوف بھی تھا کہ مظہر منع نہ کر دے یہ اس کے پاس شاید آخری چانس تھا اٹلی سے نکلنے کا ۔ کافی دیر بعد ایما سست سست قدم لیتی کمرے میں آئی۔عالیان یکدم سیدھا ہوا وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے اسے کوئی انتظار نہیں تھا کوئی بےچینی نہیں تھی وہ بلکل سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ ایما نے اسے دیکھتے ہی نظریں چرا لیں اور سر جھکا لیا۔۔
"کیا ہوا ایسے منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے؟؟" وہ بلکل سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔
"وہ۔۔ دراصل۔۔" وہ اپنی انگلیاں آپس میں مڑوڑنے لگی۔ عالیان کے چہرے پر ناچاہتے ہوئے بھی ناگواری سی چھائی۔" ایکچلی میں نے ڈیڈ کو منانے کی بہت کوشش کی مگر۔۔" وہ جیسے بول نہیں پا رہی تھی۔۔ پھر نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ "وہ مان گئے ہیں۔۔" وہ تیزی سے کہتے اچھل کر اس کے گلے لگی۔ عالیان بےساختہ ایک قدم پیچھے ہوا وہ اس سب کے لیے تیار نہیں تھا لیکن پھر اس کی بات سمجھتے ہی وہ کھل کر مسکرایا آخر بات بن ہی گئ تھی۔ خوشی کے مارے اس نے بھی ایما کے گرد اپنا حصار قائم کیا تھا۔
"اب ہم دبئی جائیں گے۔۔ تم خوش ہو نا؟؟" وہ پیچھے ہوتے ہوئے چہک کر بولی۔
"ہاں کیوں نہیں تم خوش تو میں خوش۔۔" وہ واقعی بےحد خوش تھا۔۔
"او گاڈ مجھے یقین نہیں آرہا کہ فائنلی اب ہم دونوں ساتھ جائیں گے۔۔" وہ خوشی کے مارے چیخے جا رہی تھی ۔ عالیان اس کو اتنا ایکسائٹڈ دیکھ کر کافی حیرت کا شکار ہوا تھا اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایما اتنی خوش ہو گی۔۔
"لیکن ہمارے ساتھ گارڈز بھی ہوں گے۔۔"
"تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟؟" عالیان کو واقعی اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا شاید ۔۔ کہتے ساتھ وہ دوسری طرف گھوم گیا۔
"مسئلہ ہے نا ہماری پرائیویسی ڈسٹرب ہو گی۔۔" اس کی بات پر عالیان آنکھیں رول کرتے گہرا سانس بھر کے رہ گیا اور دوبارہ اس کی طرف گھوما اب کی بار چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ تھی۔
"کوئی بات نہیں ایما ڈئیر ایک دفعہ چلے تو جائیں اب گارڈز میں اتنے مینرز تو ہوں گے ہی نا۔ ہر وقت تو نہیں چپکے رہیں گے ہمارے ساتھ۔۔" اس کی بات پر ایما کے گال سرخ پڑنے لگے۔
"اچھا ٹھیک ہے تیار ہو جائو ہمیں جانا ہے۔۔" وہ وارڈروب کی طرف بڑھتے ہوئے بولی تو عالیان ناسمجھی سے دیکھے گیا۔
"ابھی کس لیے؟؟" وہ اس کے پیچھے جاتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"میرا فرینڈ ہےاس نے ایک پارٹی ارینج کی ہے۔ آئی وانٹ ٹو انٹروڈیوس یو ٹو مائی اٹالین فرینڈز۔ " وہ کپڑے نکالتے ہوئے بولی۔ جبکہ عالیان نے ناک سے مکھی اڑائی۔ اسے ان سب میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔
"ویسے تم کتنے فرینڈز بناتی ہو یار۔ ۔۔" وہ رخ بدلتے ہوئے بولا۔۔
"میں جس جگہ جاتی ہوں آٹھ سے دس فرینڈز میرے خود ہی بن جاتے ہیں۔ اب میں ہوں ہی اتنی چارمنگ پرسنیلٹی کی مالکن تو کیا کیا جا سکتا ہے۔۔ " وہ لٹھ مار انداز سے کہتی اپنے کپڑے ہاتھوں میں پکڑے واش روم میں گھس گئ۔
" چارمنگ پرسنیلٹی ہونہہ۔۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑاتا کمرے سے باہر چلا گیا۔۔

●●●●●●●●●●●●

آسمان پر اندھیرا چھا گیا تھا۔ گاڑی ایک نائٹ کلب کے سامنے رکی۔ عالیان پچھلی سیٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولتے باہر نکلا۔سیاہ ڈریس شرٹ کے ساتھ سیاہ پینٹ پہنے اور بالوں کو ماتھے پر سیٹ کیے وہ بلاشبہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔ ایما اپنی لانگ ٹیل سنبھالتے اس کے ساتھ جا کھڑی ہوئی اور اسکے بازو پر اپنے دونوں ہاتھوں سے گرفت جمائے وہ اب مسلسل مسکرائے جا رہی تھی۔ سرخ رنگ کا ٹائٹ لونگ ٹیل ڈریس جس کے آستین سرے سے تھے ہی نہیں اور کھلے بالوں کو شانوں پر پھیلائے وہ عالیان کے ساتھ کسی ڈریم کپل کی طرح چلتے ہوئے مین انٹریس سے کلب میں داخل ہوئی۔ ہر طرف سٹروب لائیٹس، میوزک کا شور اور لوگوں کا بھرپور ہجوم تھا۔ ایسی جگہ اس کے لیے نئ نہیں تھی مگر وہ کافی ٹائم بعد اب کسی کلب میں آیا تھا۔ مختلف قسم کے لوگوں کے کولون، ڈرگ اور بئیر کی بو اسے پہلے تھوڑی بہت نئ لگی لیکن پھر خود کو جیسے اس نے اس ماحول میں ایڈجسٹ کرلیا تھا۔ ایما کے فرینڈز اس سے آکر گلے لگ کر مل رہے تھے۔ وہ ہر کسی کو عالیان کا تعارف خوش دلی سے کرا رہی تھی۔ سرد نگاہوں اور زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ ان لڑکیوں کو دیکھے جا رہا تھا جو اس کے آگے پیچھے گھوم رہی تھیں۔ ایما کے کچھ فرینڈز اسے اور عالیان کو زبردستی ڈانس فلور تک لے کر جانا چاہ رہے تھے تو عالیان نے تیزی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
"ایما آئی ڈونٹ وانٹ ٹو گو۔۔ تم جائو میں بار کاونٹر پر تمہیں ملوں گا۔۔" وہ ایما کے کان کے قریب جھک کر اس سے تیز آواز میں کہنے لگا۔
"نہیں عالیان تم میرے ساتھ چلو وہ انسسٹ کر رہے ہیں۔۔" وہ بھی تیز آواز میں اس سے کہنے لگی۔
“نو ایما تم جائو میرا بلکل بھی موڈ نہیں ہے ڈانس کا۔۔" وہ کہتے ساتھ تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔ ایما اس کے پیچھے جانے ہی لگی تھی کہ پھر اس کے کچھ دوست اسے زبردستی پکڑ کر ڈانس فلور پر لے گئے۔ وہ اب بار کاونٹر کے سامنے رکھے سٹولز میں سے ایک سٹول پر بیٹھ گیا۔ سامنے بہت سی شیشے کی بوتلوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ کاونٹر کے اس پار کھڑے لڑکے نے ایک بئیر کا گلاس اس کے سامنے پیش کیا تو بلا جھجک اس نے ہاتھ میں تھام لیا۔ ابھی ایک گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اس کے ساتھ سٹول پر ایک عورت آ بیٹھی۔ اس نے گردن کو تھوڑا موڑ کر اس کی طرف دیکھا اور دوبارہ سامنے مڑ گیا۔ ایک دم اس کی آنکھیں پوری کھلیں اس نے کرنٹ کھا کر گردن دوبارہ گھمائی۔
"لیزا۔۔ آپ یہاں؟؟ اپنا نام سنتے ہی لیزا نے رخ اس کی طرف موڑا اور سر جھٹک کر پھر سے ہنس دی۔
"تم یہاں بھی آگئے؟؟" اور پھر آس پاس دیکھنے لگی۔
"ڈونٹ موو۔۔ میں اکیلا نہیں ہوں ایما اور مظہر کے گارڈز بھی ہیں وہ آپ کو دیکھ لیں گے۔۔" اس نے فکرمندی سے کہا۔
"ہاں ہاں یہی دیکھ رہی تھی۔ خیر میرا رخ اس طرف ہے وہ نہیں دیکھ سکتے جاتے وقت ماسک پہن لوں گی۔۔" پھر رک اس کی طرف مڑی۔۔
" آپ پلیز میری طرف نہ دیکھیں۔۔ ایما ڈانس تو کر رہی ہے لیکن توجہ میری طرف ہی ہے۔۔" اس نے نظریں سامنے شیشے کی بوتلوں پر جمائے کہا۔
"میں تو سمجھی تم بھاگ بھی گئے ہوگے۔۔" اپنے سامنے پڑا شیشے کا گلاس اٹھا کر لبوں سے لگاتے ہوئے لیزا نے عالیان سے کہا۔
"کیسے بھاگوں سمجھ نہیں آرہا کہ۔۔۔" وہ رکا۔۔ "کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں؟؟" ایک آس لیے پتہ نہیں کیوں مگر عالیان نے لیزا سے پوچھا تو وہ سر نفی میں ہلانے لگی۔
"مجھے دو دن بعد افغانستان جانا ہے ۔۔" وہ صاف مکر گئ۔
"اتنا مشکل کام نہیں ہے آپ کو بس میری تھوڑی سی مدد کرنی ہے پلیز انکار مت کیجئے گا میں واپس جانا چاہتا ہوں۔۔" وہ رندھی آواز سے کہنے لگا تو لیزا نے ایک گہرا سانس لیا پھر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
"میں بھی یہی چاہتی ہوں تم یہاں خود کو ضائع مت کرو۔ ٹھیک بتائو مجھے کیا کرنا ہے؟؟" وہ دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔
"آپ کو بس میرے ایک دوست سے کانٹیکٹ کرنا ہے میں یہ کام نہیں کر سکتا۔۔" وہ جلدی جلدی بول رہا تھا۔
"تم مجھے اس کا نمبر دے دو۔۔"
"نمبر؟؟ وہ تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔۔ لیکن ہاں مجھے اس کا انسٹاگرام اکاؤنٹ یاد ہے۔" وہ یاد آتے ہی تیزی سے بولا نظریں ہنوز سامنے تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھنے سے پرہیز کر رہے تھے کیونکہ ایما کو اس طرح شک ہو سکتا تھا۔
"ہاں بتائو مجھے اس کی آئی ڈی۔۔" لیزا نے پرس میں سے موبائل نکالا انسٹا کھولا اور اس سے پوچھنے لگی تو عالیان نے تیزی سے آئی ڈی بتائی۔ "کیا یہی ہے؟؟" لیزا نے فون تھوڑا سا ترچھا کر کے اسے دکھایا تو اس نے گردن تھوڑی سی موڑ کر دیکھا اور سر اثبات میں ہلایا۔
"ڈن۔۔" اس نے ریکویسٹ بھیجتے ہوئے کہا۔۔" اب بتائو اسے کہنا کیا ہے؟؟"
"سب سے پہلے تو آپ نے اسے میرے بارے میں سب بتانا ہے کہ میں یہاں تک کیسے پہنچا۔ آپ نے اس سے کہنا ہے کہ میں ایک شادی اٹینڈ کرنے کے لیے دبئی آئوں گا اگلے مہینے۔۔ بس کسی طرح کر کے مجھے وہاں سے لے جائے۔۔" کہتے ساتھ اس نے لوکیشن، دن اور وقت لیزا کو بتا دیا۔
"تمہیں یقین ہے وہ آئے گا؟؟"
"وہ ضرور آئے گا اس کے پاس دبئی میں اتنی پاورز ہیں کہ اتنا تو کر ہی لے گا۔۔ لیکن آپ پلیز اسے آج ہی بتا دیں کیا پتہ وہ امریکہ میں ہو تو پھر جلدی سے وہاں پہنچ سکے۔۔"
"ڈونٹ وری سمجھو کام ہو گیا۔۔ اب میں چلتی ہوں۔" اس نے پرس میں سے اپنا ماسک نکالا اور منہ پر چڑھا لیا۔۔
"میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔۔" وہ سر ہلاتے اب وہاں سے اٹھ کر چلی گئ۔ وہ وہیں بیٹھا رہا اب شاید کچھ سکون سا تھا اسے۔ تھوڑی دیر میں ایما بھی وہیں اس کے ساتھ آ بیٹھی۔
"یہ تمہارے ساتھ لڑکی کون تھی؟؟" وہ مکمل طور پر اس کی طرف گھومتے ہوئے بولی۔
"یہاں پر ہمیشہ کی طرح ہر لڑکی ہی میرے آگے پیچھے گھوم رہی ہے باتیں کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے وہ بھی بس یہی کر رہی تھی۔۔" اس نے آنکھ کو ونگ کرتے ہوئے کہا جبکہ ایما خاصا تپ گئ۔
"لگتا ہے تم نے زیادہ پی لی ہے اٹھو جانا ہے ہمیں ۔۔ " وہ اس کو بازو سے پکڑتے لے کر جانے لگی۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی خوشی کے مارے شاید اس نے زیادہ پی لی تھی مگر وہ اپنے پورے ہوش و حواس میں تھا بس سر میں پھٹنے کے قریب درد تھا۔۔ وہ کلب سے باہر آچکے تھے۔ ساری سمیلز کہیں پیچھے رہ گئ تھیں۔ میوزک کا شور بھی اب نہیں تھا۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے چلے گئے۔

●●●●●●●●●●●●

ڈائننگ ہال میں لمبی میز طرح طرح کے کھانوں سے سجی تھی۔ سربراہی کرسی پر مظہر بیٹھا کھانے میں مصروف تھا جبکہ اس کے بائیں طرف عالیان بیٹھا تھا اور اور اس کے ساتھ ہی ایما بھی سکون سے کھانا کھا رہی تھی۔ نیپکن سے اپنے ہاتھ صاف کر کے وہ اٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ پھر مظہر کی آواز پر رکا۔
"بیٹھے رہو مجھے بات کرنی ہے۔" مظہر کھانا کھا چکا تھا۔ کہنیاں ٹیبل پر ٹکائے ہاتھوں کی انگلیاں باہم ایک دوسرے میں پیوست کیے اب وہ سنجیدگی سے عالیان کو دیکھ رہا تھا۔
"میں سن رہا ہوں۔۔" لہجہ نارمل تھا اور نظریں مظہر پر تھیں۔
"میں چاہتا ہوں اپنے دل و دماغ سے یہ خیال نکال دو کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں ہے۔ مجھے ہے عالیان۔ تم نے واقعی میرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ میں یہ سب کبھی نہیں بھلا سکتا۔۔" اس کا لہجہ کافی نرم تھا۔ عالیان چہرے پر نارمل سے تاثرات لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ " زیادہ گارڈز ساتھ بھجوانا میری مجبوری ہے۔ تم لوگوں کی سیکیورٹی کے لیے بہت ضروری ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے دشمنوں کو کوئی بھی موقع ملے۔آئی ہوپ تم سمجھ رہے ہوگے۔" عالیان نے سر اثبات میں ہلایا۔ سمجھ تو وہ سب رہا تھا۔ اتنے دنوں میں کم از کم وہ مظہر کو تو سمجھ ہی چکا تھا۔ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ گارڈز صرف اس پر نظر رکھنے کے لیے ہی بھیجیں جا رہے ہیں۔ مظہر سب کر سکتا ہے مگر عالیان پر کبھی بھروسہ نہیں کر سکتا یہ تو بس ایما کی ضد کے آگے اسے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ذرا سی گردن گھما کر اس نے ایما کو مسکرا کے دیکھا۔ اتنی مسکراہٹ تو بنتی ہی تھی آخر وہی تو وجہ بنی تھی عالیان کی اٹلی سے نکلنے کی ۔
"میں آفس کے لیے نکل رہا ہوں۔ تم بھی ریڈی ہو کر آجانا۔" اس کے حکم پر عالیان دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔ " ایک کمپنی کے ساتھ میٹنگ ہے آج۔ بہت بڑی ڈیل ہے۔ میں اس کی ذمہ داری تمہیں سونپنا چاہتا ہوں۔ تم دبئی سے آجائو تو پھر اپنا کام دیکھ لینا۔ یہ وقت ہے عروج پر پہنچنے کا ہے عالیان اور یہ وقت تمہارا ہے۔۔" عالیان ہلکا سا مسکرایا۔ ( بلکل یہ وقت میرا ہے۔ تم دیکھنا کیسے تمہاری سکھائی ہوئی ٹرکس کیسے میں تم پر ہی آزماتا ہوں۔)
"اٹس اے گریٹ اونر فور می مظہر۔۔" وہ سر کو تھوڑا سا خم کرتے ہوئے بولا۔ مظہر مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھ کر اب گارڈز کے ساتھ وہاں سے جا رہا تھا۔
"دیکھا میں نے کہا تھا نا۔۔" ایما مسکراتی ہوئی شکل لیے اسے دیکھ رہی تھی۔ عالیان نے سر ہاں میں ہلایا۔ وہ خاموش رہا اس کے ذہن میں اگر کوئی خیال تھا تو بس یہی کہ کیا پتہ لیزا نے عابد سے کانٹیکٹ کیا ہوگا یا نہیں۔۔

●●●●●●●●●●

وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے سیاہ تھری پیس سوٹ پہنے کھڑکی سے باہر بھاگتی ہوئی اونچی اونچی عمارتوں کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔ یہ دبئی تھا اس کی امیدوں کا شہر۔ اسے مافیا کی دنیا سے نکالنے والا شہر۔
"میں نے کہا نا میں آپکی نوکرانی نہیں ہوں۔۔۔" اونچی عمارتیں جیسے غائب ہو گئیں تھیں اب جو سامنے تھا وہ ردا کا چہرہ تھا۔
"ہائے میرا سر کس کھمبے سے ٹکرا گئ میں؟؟؟ " وہی چہرہ وہی تاثرات وہی آواز!! وہ کچھ بھی بھولا نہیں تھا۔ "کیا وہ وہ وہ میں میں۔۔۔ آپکو مینرز نہیں ہیں کہ لڑکیوں کے کمرے میں knockکر کے جایا جاتا ہے۔ یہ امریکہ نہیں ہے۔۔" وہی سرخ چہرہ وہی غصہ۔ وہ جیسے پھر سے ماضی میں چلا گیا تھا۔
"میں۔۔۔ آپ سے سوری کرنے آئی تھی۔۔" اس کا التجائیہ انداز۔ اس کی ندامت سے جھکی نظریں۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر گیا۔ لبوں پر تبسم سا بکھر گیا۔
"میں آپکو بلکل یاد نہیں کروں گی نیور۔۔۔" اس کا اٹھا ہوا سر۔۔ اس کا ایٹیٹیوڈ۔ وہ واقعی کچھ نہیں بھولا تھا۔ اس کے ہاتھ پر کسی نے نرمی سے ہاتھ رکھا تھا۔ اس نے تیزی سے آنکھیں کھول کر گردن گھما کر دیکھا۔ مسکراہٹ ایک دم غائب ہوئی کیونکہ سامنے وہ چہرہ نہیں تھا جس کی اسے چاہت تھی۔ وہ ردا نہیں تھی وہ ایما تھی۔ چمکیلی سنہری میکسی کے ساتھ بے تحاشا میک اپ کیے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
"کہاں کھو گئے عالیان؟ رات کو بھی خاموش تھے۔ کیا تمہیں خوشی نہیں ہے یہاں آنے کی؟؟" ایک ہی ساتھ میں بہت سے سوال۔ عالیان کا دل کیا کہ اس کے سارے سوال اس کے منہ پر دے مارے۔
"نہیں کچھ نہیں بس ایسے ہی سر میں درد ہے۔۔" اس نے ٹالنے کی کوشش کی۔
"تم نے رات میں بھی یہی کہا تھا میڈیسن تو لی تھی تم نے۔۔"
"کبھی کبھی وہ میڈیسن ہمیں آرام نہیں دیتی جو ہم درد کے لیے لیتے ہیں شاید ہمیں کچھ اور چاہئیے ہوتا ہے۔۔" کہتے ساتھ وہ رخ دوبارہ موڑ گیا۔ اس کی بات ایما کے سر کے اوپر سے گزر گئ۔ اس کے فون کی بیل بجی تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گئ۔ وہ دونوں کل رات کو ہی دبئی پہنچ چکے تھے اور اب ان کی اگلی منزل میرج ہال تھی۔ اس کے کانوں میں ایما کی ہنس ہنس کے باتیں کرنے کی آوازیں کسی سیخ کی طرح لگ رہی تھیں۔ دل کر رہا تھا کہ چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر کود جائے یا اسے دھکا دے دے۔۔ بس وہ جانتا تھا کہ اب اگر وہ یہاں سے بھاگ کر واپس پاکستان نہ جا سکا تو زندہ رہنے کی خواہش اس میں نہیں رہے گی۔ وہ پھر سے دکھی نظریں لیے باہر دیکھ رہا تھا۔ ایما اب بھی کال میں مصروف تھی۔
کچھ ہی دیر میں وہ ویڈنگ وینیو پر پہنچ گئے تھے۔ عالیان نے گہرا سانس بھر کے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر نکلا۔ ہمیشہ کی طرح ایما اب پھر اس کے ساتھ قدم بہ قدم چلتی ہال میں اینٹر ہوئی۔ویڈنگ ہال بہت خوبصورت اور بڑا تھاجو پوری طرح وائٹ اور گولڈن تھیم سے ڈیکور تھا۔ درمیان میں سفید راہداری اور اس کے دائیں بائیں سیمی سرکل ٹیبلز کے اردگرد سفید کرسیاں تھیں جن پر کہیں کہیں لوگ بیٹھے دکھائی دے رہے تھے اور کہیں خالی تھیں کچھ لوگ آپس میں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہاں بھی اس کے جان پہچان کے بہت سے لوگ تھے۔ ہر کسی سے بخوشی ملتے ہوئے وہ سب کو عالیان سے ملا رہی تھی۔ وہ چہرے پر نقلی مسکراہٹ سجائے ان سے ملتا اور پھر اس کی نظریں چاروں طرف سفر کرنے لگتی لیکن وہاں وہ نہ تھا جس کی اسے تلاش تھی۔ آنکھوں میں ڈھیر ساری افسردگی سی پھیل گئی تھی لیکن بظاہر تاثرات نارمل رکھنے کی پوری کوشش کی۔ ایما اس کا ہاتھ چھوڑتے سامنے لڑکیوں کے ایک گروپ کی طرف بڑھ گئی۔ اسے لگا اس کے ہاتھ جیسے کسی ہتھکڑی سے آزاد ہوئے ہیں۔وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے سٹیج سے تھوڑے دور پڑے صوفوں میں سے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا وہ گہری سوچ میں گم تھا۔ تبھی اس نے ایما کو دیکھا جو پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے ہی ڈھونڈ رہی ہے۔ آنکھیں چھوٹی کیے وہ بغور اس کے چہرے پر خوف دیکھ سکتا تھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی ایما نے گہرا سانس لیا اور سر جھٹک کر تیز قدم لیتے اس کی طرف بڑھنے لگی عالیان تلخی سے مسکرایا۔
"تمہیں لگا میں بھاگ گیا۔۔" انداز طنزیہ تھا۔ ایما نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"مجھے تمہاری فکر ہے۔۔" وہ جھوٹ بول رہی تھی اسے صرف ڈر تھا کہ وہ بھاگ جائے گا اور یہ بات عالیان اسی وقت سمجھ گیا تھا جب وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر اسے ڈھونڈ رہی تھی۔
"کچھ نہیں ہے ایما میرے صرف سر میں درد ہے تم جائو فرینڈ کی شادی ہے انجوائے کرو۔۔" وہ نارمل انداز سے بولا۔
"اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو ہم ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں برائیڈ اور گروم کو آنے میں ٹائم ہے۔۔" وہ نرمی سے بولی تو عالیان نے آگے ہو کر اس کا ہاتھ تھاما اور مسکرا کر اسے دیکھا۔
"خوامخواہ میری وجہ سے اپنی خوشی سپوئل مت کرو۔ جائو تمہاری فرینڈز تمہیں ہی دیکھ رہی ہیں۔ میری طبیعت تھوڑی سیٹ ہو تو میں تمہارے پاس ہی آتا ہوں۔۔"
"آر یو شیور؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تو عالیان نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔ ایما چلی گئ ۔ وہ صوفے سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گیا۔ کافی دیر وہ ایسے ہی بیٹھا رہا۔
"تو کیا ہمارا انوسینٹ سا لوسیفر مافیا جوائن کر کے زیادہ خطرناک لوسیفر تو نہیں بن گیا؟؟" عالیان نے کرنٹ کھا کر تیزی سے آنکھیں کھولیں۔ گردن گھمائی ساتھ جو شخص بیٹھا تھا وہ حلیے سے پہچانا تو نہیں جا رہا تھا مگر وہ فوراً پہچان گیا۔
"عابد!!!" وہ دبی ہوئی آواز سے چلایا۔
"حوصلہ رکھو حوصلہ کیوں سب کو شک کراتے ہو۔۔" عالیان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی دل تھا کہ پورے ہال میں اچھلنا شروع کر دے۔
"او۔۔ تھینکس لیزا۔۔ یو ہیو نو آئیڈیا آئی ایم سو ہیپی۔۔"
"ہاہاہا۔۔ بس زیادہ کھی کھی نہ کرو ایما دیکھ لے گی اور میرا نام لینے سے بھی پرہیز کرو ورنہ یہیں چھوڑ جائوں گا۔ دل تو کرتا ہے اس ایما کو وہاں جا کر ماروں جہاں پانی کا ایک گھونٹ اسے میسر نہ ہو۔" وہ دانت پر دانت جمائے ایما کو دیکھتے ہوئے سرد مہری سے بولا۔اس کے کہنے پر عالیان نے گردن سیدھی کی۔ ایما کی اس کی طرف پشت تھی۔
"ہاں تو کیا پلین ہے تمہارا؟؟"
"سامنے پلر کے پاس میرا بندہ دکھائی دے رہا ہے؟؟" عالیان نے سامنے دیکھا وہاں ایک آدمی کھڑا تھا اور "ہوں" کیا۔۔ " ابھی کچھ ہی دیر میں برائڈ اور گروم اینٹر ہوں گے۔ تمام لائیٹس آف ہو جائیں گی صرف ایک سپاٹ لائٹ ہوگی جس کا فوکس گروم اور برائیڈ پر ہوگا ساتھ میں بہت سی فوگ بھی ہوگی اور میری وجہ سے کچھ زیادہ ہی ایکسٹرا فوگ ہوگی۔۔ وہ سپاٹ لائٹ لگانے میں تھوڑی سی دیر کرے گا۔۔" عالیان نے پھر سے "ہوں" کیا وہ اسے غور سے سن رہا تھا نظریں سامنے مرکوز کیے۔۔ عابد نے سامنے اپنے بندے کو سر ہلا کر اشارہ کیا۔
“ میں کائونٹ ڈائون شروع کرتا ہوں۔ آر یو ریڈی؟؟"
"یس۔۔"
"ایک۔۔۔ دو۔۔۔۔ گِو می یور ہینڈ۔۔(عالیان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑا)۔۔ 3۔" ہر طرف اندھیرا ہو گیا۔ وہ دونوں تیزی سے اٹھے۔ ایما جھٹکے سے پیچھے مڑی۔ وہ بہت دور کھڑی تھی اسے ایک خوف سا محسوس ہوا۔ اندھیرے کے باعث اسے کچھ نظر نہیں آیا۔۔ وہ تیزی سے عابد کا ہاتھ پکڑے ہال کی پچھلی طرف آیا۔ پھر سامنے کھڑے دو گارڈز کو دیکھ کر وہ دونوں اوٹ میں ہوگئے۔
"شٹ!!" بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
" ڈونٹ وری اس کا بندوبست کرتا ہوں۔۔" اس نے کانوں میں ائیرپوڈز پہن رکھے تھے۔۔ " ان دونوں گارڈز کو یہاں سے ہٹائو کچھ بھی کر کے ہری اپ۔۔" وہ تیزی سے بولا۔ اندر ہال میں سپاٹ لائٹ آن ہوگئ تھی۔ سفید رنگ کی لانگ میکسی پہنے برائڈ گروم کے بازو میں بازو ڈالے مسکراتے ہوئے آرہی تھی۔ ایما دوبارہ گھومی۔ اب اتنی روشنی تھی کہ اسے پیچھے کھڑے لوگ دکھائی دے رہے تھے مگر عالیان نہیں تھا اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ پھر مین انٹرینس میں کھڑے ایک گارڈ کو کال ملانے لگی۔ ایک عورت اس کے ساتھ سے گزری تو اسے دھکا مار گئ موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ غصے میں اسے انگلش میں برے الفاظ سے مخاطب کرتے وہ جھک کر فون ڈھونڈنے لگی۔
"ایما میم تم دونوں کو بلا رہی ہیں جس شخص کی نگرانی کرنی تھی وہ بھاگ گیا ہے جلدی سے اندر جائو دونوں۔۔" عابد کا وہی بندہ ان دونوں گارڈز سے مخاطب تھا۔
"مگر ہمیں تو کوئی کال نہیں آئی۔۔" وہ دونوں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولے۔
"مجھے جو بھیج دیا ہے وہ بیچاری خود ہلکان ہوئے جا رہی ہیں جائو ڈھونڈو اسے۔۔" وہ گارڈز سر ہلاتے تیزی سے اندر کی طرف بھاگے۔ عابد ائیرپوڈز کی وجہ سے سب سن سکتا تھا۔ گارڈز اندر کی طرف بھاگے تو وہ اور عالیان باہر کی طرف بھاگے۔ باہر نکلتے ہی سامنے اورنج Lamborghini کھڑی تھی۔
"ہو ہو!!!" عالیان نے پرجوش انداز میں اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور تیزی سے دونوں اس میں سوار ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نکل پڑی۔ عالیان نے سکھ کا سانس لیا آخر کار جان چھوٹ گئ تھی۔۔ قید سے رہائی مل گئ تھی۔۔ وہ پرسکون تھا۔۔ اگر کوئی بےچین تھی تو وہ ایمان درانی تھی۔ دوست کی شادی تو جیسے وہ بھول ہی گئ تھی تیزی سے باہر گارڈز کی طرف گئ۔
"یو بلائینڈ پیپل!!" وہ غصے سے گارڈز پر دھاڑی۔۔ "آہ۔ گدھوں وہ کیسے بھاگ گیا؟؟ اوہ گاڈ۔۔" وہ اپنا سر پکڑے کھڑی تھی۔
"میم ہم ڈھونڈ لیں گے اتنی جلدی کہیں۔۔۔" الفاظ اس کے منہ میں رہ گئے ایما نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا۔ چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔۔ "مجھے وہ چاہئیے۔۔ آج ابھی ۔۔ اسی وقت۔۔ سمجھے تم لوگ۔۔" اس کے سینے پر زور سے مار کر وہ پھر سے دھاڑی۔۔ گارڈز پھر سے حرکت میں آئے۔
"میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی عالیان۔۔ You betrayed me" سرخ متورم آنکھوں میں غصہ تھا آنسو تھے۔ لائینر پھیل چکا تھا۔۔ ہئیر سٹائل خراب ہو گیا تھا۔ غصے سے روتے چیختے اس نے پرس اٹھا کر گاڑی پر دے مارا کچھ گارڈز اسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھے مگر اس نے ان کو زور سے پرے دھکیلا۔ "اسے ڈھونڈو۔۔" وہ پھر سے چیخی۔ آس پاس کافی لوگ جمع ہو گئے تھے مگر اسے اس وقت عالیان کے بھاگ جانے کا خیال تھا۔
گاڑی دبئی کی سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔ عالیان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔
"ہم کہاں جا رہے ہیں اب؟؟" وہ اس وقت ڈرائیو کرتے عابد سے مخاطب تھا۔
"سب سے پہلے ہم شارجہ جائیں گے میرے گھر۔۔ بس کچھ ہی مسافت پر ہے۔ وہاں پہنچ کر تمہارے پاسپورٹ کا کچھ کریں گے۔۔" نظریں سامنے سڑک پر تھیں۔
"کتنا وقت لگے گا پاسپورٹ بننے میں؟؟"
"بس کچھ دن۔۔ جہاں اتنے مہینوں صبر کیا بس کچھ دن اور میرے دوست۔۔ پھر تو اپنے گھر اپنی فیملی کے ساتھ ہوگا۔۔"
"انشاءاللہ۔۔" بےساختہ اس کے منہ سے نکلا۔۔ "تمہارا احسان ہے مجھ پر عابد میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔۔"
"بھلانا بھی نہیں چاہئیے۔۔" کہتے ہی دونوں کا قہقہہ گونجا۔

●●●●●●●●●●●●

جاری ہے۔۔۔۔۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?