Share:
Notifications
Clear all

Muhabbat ka qissa by Hadia Muskan epi (6)

1 Posts
1 Users
0 Reactions
216 Views
(@hadiamuskan)
Eminent Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 14
Topic starter  

نومبر کی یہ آخری تاریخیں تھیں۔۔ کچن میں موجود وہ شہناز کے ساتھ کھانے کا انتظام دیکھ رہی تھی۔ اس ایک ہفتے میں وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔۔ اپنے ایموشنز اپنے آنسو دل میں دبائے وہ بظاہر اپنے آپ کو بہت مضبوط دکھا رہی تھی لیکن وہ اندر سے کتنی بکھری ہوئی تھی یہ بس وہ جانتی تھی۔۔ ردا اور مناہل کو بھی باتوں باتوں میں ہنسانے کی کوشش کرتی تھی مناہل تو کس حد تک سنبھل بھی گئ تھی مگر ردا ہنوز خاموش ہی رہتی تھی اور اسکی خاموشی اس کو بھی بہت اداس کرتی تھی۔۔
"شہناز جائو ردا اور مناہل کو کھانے کے لیے بلا لائو۔۔" وائٹ کلر کا لمبا فراک اور اس کے اوپر ہلکے پنک کلر کی سویٹر اور پنک ہی گرم سٹولر سر پر لپیٹے وہ ایک شیلف کے سامنے کھڑے سلاد بنانے میں مصروف تھی۔۔ تبھی اس نے شہناز سے کہا جو اس وقت ایک بائول میں سوپ ڈال رہی تھی۔۔
"جی میں یہ پہلے صاحب جی کو دے آئوں؟؟" وہ سوپ کا بائول ہاتھ میں پکڑے انابیہ سے پوچھنے لگی۔ شہناز مناہل کی عمر کی تھی۔ وہ حسن چچا کی بیٹی تھی۔ حسن چچا ناصر صاحب کے پرانے ملازم تھے۔
"نہیں یہ تم مجھے دو۔۔ دیکھنا وہ دونوں کھانا ضرور کھائیں۔۔ میں نہیں کھائوں گی۔۔" اس نے بائول اس کے ہاتھوں سے لیتے ہوئے کہا۔۔ شہناز اداسی سے اسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔ وہ اتنے دنوں سے کھانا ٹھیک سے نہیں کھا رہی تھی اور رات کا کھانا تو بلکل ہی چھوڑ دیا تھا۔
سٹڈی روم کے اندر داخل پوتے ہی وہ دو گولائی زینوں کی طرف بڑھ گئ۔ کمرہ مکمل روشن نہیں تھا بس کہیں کہیں ایل-ای-ڈی بلب جل رہے تھے۔ اس نے وہیں کھڑے سامنے شخص کو دیکھا جو اسکی طرف پشت کیے ہوئے تھے۔۔ ناصر صاحب ویل چئیر پر بیٹھے سلائڈنگ ڈور سے باہر کا اندھیرا دیکھ رہے تھے۔۔ وہ زخمی انداز سے مسکرا دی۔۔ منظر بدلا!!!
وہ ڈاکٹر حاجرہ کے آفس میں بلکل ان کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔۔ ڈاکٹر اپنی نشست پر بیٹھی ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے اس کی کپکپاتی ہوئ انگلیوں اور اس کی زرد پڑتی رنگت کو بغور دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے نظروں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس ہوتے ہی سامنے ڈاکٹر کو دیکھا جو ہنوز اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ اپنا نچلا لب اس نے دانتوں تلے دبایا اور بمشکل بولی۔
"بتائیں۔۔ اب کیا بتانا ہے آپ کو؟؟" ڈاکٹر خاموشی سے اسے دیکھے گئ۔۔ "اب کچھ بھی چھپانے کا فائدہ نہیں ہے۔۔ مجھے سمجھ آگئی ہے میں بہت ڈھیٹ ہوں فکر نہ کریں مجھے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔" وہ طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے بولی جیسے خود پر ہنس رہی ہو۔
"مجھے ناصر صاحب کے بارے میں بات کرنی ہے۔" اپنا چشمہ ناک پر ٹکاتے ہوئے انہوں نے نظروں کا زاویہ بدلتے ہوئے کہا۔
"وہ۔۔۔" ڈاکٹر حاجرہ نے رک کر ایک گہرا سانس لیا۔۔" وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ایکسیڈنٹ میں ان کی ٹانگیں بری طرح سے متاثر ہوئ ہیں ۔" ایک کے بعد ایک بڑی، بری اور بدترین خبر!! وہ صدمے سے انکا چہرہ دیکھے گئ۔
"میں جانتی ہوں یہ تمھارے لیے بہت مشکل وقت ہے۔۔ مگر وقت ہی تو ہے گزر جائے گا۔۔"
"آپ میری تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔۔ یہ وقت نہیں ہے یہ قیامت ہے میرے لیے۔۔"
"مجھ سے زیادہ کوئ بہتر طریقے سے تمھاری تکلیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔۔" انابیہ نے اس کے چہرے پر درد بھری مسکراہٹ ابھرتے ہوئے دیکھی۔۔"جب تمہیں میں نے ہسپتال کی راہداری میں اپنوں کے لیے بھاگتے دوڑتے دیکھا تھا نا مجھے بے ساختہ اپنا آپ یاد آیا تھا۔۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سے میں بھی گزری تھی۔۔ بس فرق صرف یہ ہے انابیہ کہ تمھاری عمر کم ہے۔۔" حاجرہ نے اپنا ہاتھ بیا کے ہاتھ کی طرف بڑھا کر اسے نرمی سے تھاما۔
"اب سب کا خیال تم نے رکھنا ہے اپنی بہنوں کا اپنے تایا کا اور کوئ نہیں رکھ سکتا کوئ ہے ہی نہیں۔۔" وہ اسے نرمی سے سمجھا رہی تھی جس پر اس نے محض سر ہلایا۔۔
"وہ ٹھیک تو ہو جائیں گے نا؟؟"
"میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔۔ بس پروپر کئیر کی ضرورت ہے انہیں وہ جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔۔ انشاءاللہ۔۔۔" اپنی سسکیوں کو دبائے وہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔
اس پر چھایا سکوت ٹوٹا ہاتھ میں پکڑا سوپ کا بائول ٹھنڈا ہو گیا تھا۔۔ سر جھٹک کر وہ دوبارہ سے حال میں آئ اور قدم اٹھاتے انکے پاس جا کھڑی ہوئ۔
"کیا سوچ رہے ہیں؟؟" وہ انکے سامنے زمین پر بیٹھتے ہوئے نرمی سے پوچھنے لگی۔۔ ناصر نے نظروں کا رخ اسکی طرف کیا۔ ان کے سر پر اب بھی سفید پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ انہیں دیکھ کر مسکرائ مگر وہ نہیں مسکرائے نہ ہی مسکرا سکتے تھے۔۔ پھر چمچ میں سوپ بھرتے ان کے منہ کے قریب لے کر گئ جسے انہوں نے بغیر ضد کیے منہ میں لے لیا۔۔
"اہممم ٹھنڈا ہو گیا ہے۔۔" عجیب سی شکل بنائے انہوں نے کہا۔۔ اتنی سردی میں تو کچھ بھی جلدی ٹھنڈا ہو سکتا تھا۔۔
"اوپس!! سوری۔۔ میں دوبارہ گرم کر لاتی ہوں۔۔" وہ معذرت کرکے اٹھ کر جانے لگی تو ناصر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا۔
"نہیں چاہئیے۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔" انہوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔ "میرے پاس بیٹھو گی تھوڑی دیر؟" سر ہاں میں ہلاتے وہ اٹھ کر ٹیبل تک گئ بائول ٹیبل پر رکھا اور پھر انکی ویل چئیر گھسیٹتے صوفے کے پاس لے آئ اور خود بلکل ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئ۔۔
"بابا کی یاد آرہی ہے آپ کو؟؟" کچھ دیر خاموشی کے بعد اس نے پوچھا۔
"ہر وقت ہی تو آتی ہے۔۔ ایسا لگتا ہے ابھی کہیں سے آجائے گا اور کہے گا بھائ جان یہاں ایسے اداس کیوں بیٹھیں ہیں میں مر گیا ہوں کیا۔۔۔" وہ نہایت افسردگی سے بولے تو بیا نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے اداس ہو گئ لیکن آنسوؤں پر ضبط کر رکھا تھا وہ اس وقت انکی سننا چاہتی تھی ۔۔
"کیا ہو گیا نا یہ سب ۔۔ تم لوگوں کو میری ضرورت تھی اور دیکھو میں تو خود محتاج ہو گیا ہوں۔۔" آنکھیں نم تھیں۔۔
"آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔" اس نے آگے ہو کر انکی جھولی میں پڑے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا۔۔
"کاش!! ایسا ہی ہو۔۔" وہ انکی آنکھوں میں امڈتے آنسو دیکھنے لگی۔۔
"ایسا ہی ہوگا۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے انہیں روزانہ کی طرح امید دلائ۔۔ دونوں طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔۔
"تایا ابو۔۔" اس نے نرمی سے ان کو مخاطب کیا۔۔ نظریں اٹھا کر انہوں نے بیا کو دیکھا۔۔ "ایکسیڈنٹ کیسے ہوا تھا؟؟" بہت مشکل سے اس نے ان سے یہ سوال کیا تھا۔۔
"وہ۔۔ آہ۔۔" ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کی مگر سر پر گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انکو تکلیف سی ہوئ۔۔ بے ساختہ انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا۔۔
"نہیں رہنے دیں پلیز دماغ پر زور نہ دیں۔۔۔" وہ یکدم سہم گئ۔۔
"وہ ٹرک یکدم سامنے آگیا تھا پھر۔۔" وہ وقفے وقفے سے یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ دوبارہ سے وہ خطرناک منظر انکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔۔ اس نے فکرمندی سے انہیں دیکھا اور خود کو کوسنے لگی کہ آخر یہ ذکر چھیڑا ہی کیوں۔۔
"رہنے دیں تایا ابو بھول جائیں۔۔"
"نہیں مجھے یاد کرنے دو مجھے کرنا ہے۔۔ وہ ٹرک ایک دم سے سامنے آگیا تھا پتہ نہیں کیسے؟؟" انابیہ نے بےیقینی سے انہیں دیکھا۔
"ٹرک ایک دم سامنے کیسے آگیا؟؟ آئ مین وہ تو اپنی لین میں ہوگا نا۔۔ ڈرائیور ہوش میں تھا نا؟؟"
"ہاں وہ ہوش میں ہی تھا۔۔ٹرک نے اچانک ہی ٹرن لیا تھا۔۔شاید ٹرک ڈرائیور سے بیلنس نہ ہو پایا ہو؟؟"
"کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ بس ایکسیڈنٹ ہی تھا؟؟" ناصر حیرت اور صدمے سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔۔
" تو پھر کیا تھا؟؟"
"سازش۔۔" اس نے تیزی سے بغیر سوچے سمجھے کہا۔۔
"سازش؟؟"
" جہانزیب کون ہے؟؟" یہ سوال ناصر کے لیے غیر متوقع تھا۔۔
"جہانزیب؟؟" گلے میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے ہوئے وہ بولے۔۔ انابیہ باری باری ان کی دونوں آنکھوں کو دیکھنے لگی جیسے ان میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ رہی ہو۔۔۔
"تم کیوں پوچھ رہی ہو؟؟ اور تم نے یہ نام کہاں سنا؟؟" ان کے چہرے میں خوف سا تھا جسے انابیہ نے فوراً بھانپ لیا۔۔
"بابا جان جب اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تب انہوں نے نام لیا تھا اس کا۔۔"
"صرف نام؟؟" ان کے پوچھنے پر انابیہ سر نفی میں ہلانے لگی۔۔
"جہانزیب تھا وہاں۔۔۔۔ میں کچھ یہی سمجھ سکی۔۔۔" وہ احمد کا کہا ہوا جملہ دہراتے ہوئے بولی۔۔ ناصر کے چہرے پر ایک تاریک سایہ لہرایا۔۔ انکو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔ جس کا خوف تھا وہی ہوا جہانزیب نے ان سے ان کے پیارے ایک بار پھر چھین لیے۔۔ ان کو گھٹن محسوس ہونے لگی۔۔ انابیہ پھر پریشانی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔
"یعنی یہ واقعی ایکسیڈنٹ نہیں تھا۔۔۔" انہیں لگا ان کی آواز کسی کھائ سے آئ ہو۔۔ "یہ ایک سوچی سمجھی اس کی سازش تھی۔۔ یہ قتل تھا!!" انہوں نے بے ساختہ نگاہیں اٹھا کر انابیہ کو دیکھا جو بغور انکا چہرہ ہی دیکھ رہی تھی۔۔ "میں ایک بار پھر ہار گیا۔۔ وہ ایک بار پھر جیت گیا۔۔"
"پولیس اس ٹرک ڈرائیور کو ڈھونڈ رہی ہے تایا جان ہم ضرور جیتیں گے۔۔۔" وہ ان کو تسلی دیتے ہوئے بولی ایک امید باندھتے ہوئے بولی۔۔
"وہ ہمیشہ ایسا وار کرتا ہے کہ اپنے پیچھے کوئ سراغ نہیں چھوڑتا۔۔ جیسے پولیس راحیلہ کے لیے کچھ نہیں کر سکی۔۔۔ احمد اور ناہیدہ کو بھی انصاف نہیں دے سکے گی۔۔۔" وہ نہایت افسردگی سے بولے۔۔ جبکہ راحیلہ کا نام سن کے انابیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔۔
"مگر تائ جان کی وفات تو کینسر سے ہوئ تھی نا۔۔" وہ براہراست انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی تو ناصر نے سر نفی میں ہلا دیا۔۔
"اسے زہر دیا گیا تھا۔۔۔" انابیہ بے ساختہ پیچھے ہوئ۔۔ آنکھوں میں کچھ حیرت اور کچھ صدمہ لیے پتھر کا مجسمہ بنے وہ سامنے ویل چئیر پر بیٹھے ناصر صاحب کو دیکھے گئ۔۔ جو نظریں جھکائے بیٹھے تھے۔۔
"آپ نے کیوں چھپایا مجھ سے؟؟" کچھ بے یقینی کے عالم میں وہ ان سے پوچھنے لگی۔۔ شکوہ کن نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔ ناصر خاموش رہے ان کے پاس جواب نہیں تھا۔۔
"کون ہے یہ جہانزیب؟؟" لہجہ سخت تھا۔۔ وہ ہنوز نظریں جھکائے بیٹھے تھے۔۔ انابیہ نے پھر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔۔
"ایک طوائف کا بیٹا، میرا بڑا سوتیلا بھائ، میرے چچا جان ابرار خان کا قاتل، راحیلہ کا قاتل، خان حویلی کا موجودہ مالک، جہانزیب عالم خان!!" کہتے وہ چپ ہو گئے۔۔ مکمل خاموشی تھی۔ انابیہ کا دماغ تو جیسے الجھ کر رہ گیا تھا۔۔ لبوں کو ہلکی سی جنبش دی لیکن سمجھ نہ آیا کیا کہے کیا پوچھے۔۔ بولنے کی سکت نہیں تھی مگر سننے کی تھی وہ ان کے اگلے جملوں کی منتظر تھی انکی اگلی بات سننا چاہتی تھی۔۔ حیرت سے دوچار آنکھیں ناصر کے چہرے پر مرکوز تھیں ۔ اگلے پل ناصر نے خاموشی توڑ دی وہ اسے مزید بتانا چاہتے تھے۔۔
"میرے بابا سائیں نے ماں سے شادی کرنے سے پہلے ایک طوائف سے شادی کی تھی۔۔ بس ان کا رشتہ دو سال تک چل سکا اور پھر دونوں میں علیحدگی ہو گئ اور وہ جہانزیب کو بابا سائیں کے پاس ہی چھوڑ کر چلی گئ۔۔" انابیہ نے اٹھ کر کمرے کی مزید لائٹس آن کر دی۔۔ مکمل اندھیرے میں اسے الجھن سی محسوس ہونے لگی تھی۔۔ ناصر صاحب کی آواز وہ اب بھی سن رہی تھی۔۔
"کچھ مہینوں بعد بابا سائیں کی شادی ماں سے ہوئ۔۔ وہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے اور اس حویلی میں وہ مقام ان کو کبھی نہیں دیا جو ایک طوائف کو دیا گیا تھا۔۔ جیسے جیسے ہم نے ہوش سنبھالا احمد کو بابا سائیں سے نفرت ہونے لگی ۔ وجہ ماں پر ہونے والی ظلم و زیادتی تھی۔۔ جہانزیب کو بابا سائیں کی محبت ہم سے زیادہ ملتی تھی وہ اسے زیادہ پیار کرتے تھے اگر کبھی کبھار وہ ہمیں غلطی سے پیار کر دیتے تو وہ جل کر بھسم ہو جاتا۔ اسے ہمیشہ ہم دونوں بھائیوں سے نفرت تھی۔۔" آگے بڑھ کر اس نے سلائڈنگ ڈور کھول دیا۔۔ ٹھنڈی ہوا کمرے میں داخل ہونے لگی۔۔ وہ اب بھی ان کو سن رہی تھی۔۔
"اکیس سال کی عمر میں اس نے اپنا پہلا قتل کیا تھا۔۔ میرے چچا جان ابرار خان کا۔۔ راحیلہ اور ناہیدہ کے بابا کا۔۔۔" وہ دوبارہ وہیں صوفے پر ان کے سامنے بیٹھ گئ تھی۔۔ اس نے بغور ان کا چہرہ دیکھا۔۔ انکی آواز، چہرے کے تاثرات، لہجہ کچھ بھی نارمل سا نہیں تھا۔۔
"کیا وجہ تھی قتل کرنے کی؟؟" اس نے بے بسی سے سوال کیا۔۔
"گدی کے لیے۔۔۔" انہوں نے مختصراً جواب دیا۔۔ انابیہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔ اس نے اب کی بار کچھ نہیں کہا۔۔
"چچا جان کی عمر اس وقت پینتیس سال تھی۔ راحیلہ سمجھدار تھی مگر ناہیدہ کافی چھوٹی تھی تقریباً تیرہ سال کی تھی۔۔ بابا سائیں ان کو اپنی جگہ دینا چاہتے تھے۔۔ انکو گدی نشین بنانا چاہتے تھے اور یہ بات جہانزیب سے ہضم نہیں ہو رہی تھی کچھ بھی کر کے وہ یہ جگہ حاصل کرنا چاہتا تھا اور اس نے حاصل کر لی چچا جان کی جان لے کر۔۔۔" رک کر انہوں نے گہرا سانس لیا۔۔ انابیہ نے پاس پڑے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور ان کو پلانے لگی۔۔
"اس نے ان کو دھوکے سے مارا تھا۔ دھوکے سے ان کو گودام میں بلا کر اس نے رسی سے گلا گھونٹ کر بےدردی سے ان کو مار دیا۔ احمد کو کچھ شک تھا اسی لیے ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی گودام میں چلا گیا لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ چچا کو مار چکا تھا اور پھر۔۔" زہن میں دھیرے دھیرے ایک منظر ابھرنے لگا اور زبان منظر کو بیان کرنے لگے۔۔

ماضی:
(جس دن ابرار خان کا قتل ہوا۔۔)
ہسپتال کے بستر پر لیٹے سولہ سے سترا سال کے لڑکے نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ منظر پہلے تو دھندھلایا ہوا تھا اور سر میں بھی بہت درد تھا۔ ان کے سر پر پٹی بھی بندھی تھی۔ جسم میں جان بھی نہیں تھی کہ وہ تھوڑا ہل سکتے۔ جب ان کی سبز آنکھیں پوری طرح سے کھلیں تو ان کی نظر سب سے پہلے اپنے والد صاحب عالم خان پر پڑی جو تیزی سے ان کی طرف آئے۔۔
"احمد میرے بچے۔۔ تم ٹھیک ہو نا؟" ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اندازہ لگانا بہت آسان تھا وہ روتے رہے ہیں۔
"بابا سائیں خود کو سنبھالیں " ناصر فوراً سے ان کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ بابا سائیں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے پر پیار دیا تو احمد نے ان کا ہاتھ درشتی سے جھڑک دیا۔ ان کی اس حرکت پر ناصر نے خفگی سے انہیں دیکھا جبکہ عالم خان بھی ان کی اس بیزاری پر کس قدر تکلیف سے گزرے تھے۔ تبھی احمد نے چہرہ دوسری طرف کیا تو ان کی نظریں دور کھڑے دیوار سے ٹیک لگائے جہانزیب پر رکی جس کے چہرے کے تاثرات بظاہر نارمل تھے لیکن صرف احمد جانتے تھے وہ اندر سے کتنا خوش ہے اور ان پر ہنس رہا ہے۔
"شیطان!!! طوائف کے بیٹے!!" وہ فوراً سے غراتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھے۔ ناصر اور بابا سائیں یکدم پریشانی سے انہیں دیکھے گئے۔۔ "قاتل۔۔ تم نے چچا جان کو مار دیا۔۔ قاتل۔" وہ بستر پر سے اٹھ کر جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھے۔ پتہ نہیں کیسے لیکن ان کی ٹانگوں میں جان آہی گئ تھی نہ صرف ٹانگوں میں بلکہ ہاتھوں میں بھی۔ اس کے پاس پہنچتے ہی انہوں نے ایک زوردار مکا اس کے جبڑے پر رسید کیا۔ جہانزیب لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے ہوا۔ سب کچھ اتنی جلدی جلدی میں ہوا تھا کہ ناصر اور بابا سائیں کو کچھ سمجھ ہی نہ آئ۔ ناصر تیزی سے احمد کے قریب گئے اور ان کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر انہیں روکنے کی بھرپور کوشش کی جو کسی بھپرے شیر کی طرح جہانزیب پر لپکے تھے۔۔
"چھوڑو دیں بھائی جان۔۔ آج یہ مرے گا میرے ہاتھوں سے۔۔" وہ پھر سے غرائے لیکن ناصر نے ان کو نہیں چھوڑا۔
"احمد رک جائو کیا کر رہے ہو یار؟؟ ہوا کیا ہے کچھ بتائو تو؟؟" وہ ہر بات سے انجان تھے بلکہ سب ہی انجان تھے سوائے احمد کے۔۔
"اس نے چچا جان کو مارا بھائ۔۔ اس خبیث انسان نے۔۔" انہوں نے اپنا آپ چھڑانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناصر نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ آج کسی قیمت پر احمد کو نہیں چھوڑیں گے۔
"پاگل ہو گئے ہو کیا؟؟ کیا بکواس کیے جا رہے ہو؟" اب کی بار رعبدار آواز بابا سائیں کی تھی جو ان کی طرف آئے جبکہ جہانزیب کسی ماہر اداکار کی طرح مظلوم سی شکل بنائے کھڑا تھا جیسے ہر بات سے انجان ہو جیسے اس پر الزام لگایا جا رہا ہو۔۔
"آپ بیچ میں نہ آئیں۔۔ میں آپ سے نہیں اس طوائف کے بیٹے سے بات کر رہا ہوں۔۔" احمد نے ناگواری سے انہیں دیکھتے ہوئے تنبیہی انداز سے کہا جبکہ ناصر انہیں پکڑے پھر سے انہیں گھورنے لگے۔۔ "ہوش میں آئو احمد۔۔"
"وہ میرا بیٹا ہے۔۔" انہوں نے تیز آواز سے جتا کر کہا۔۔
"آپ کو یقین ہے؟؟" احمد کا انداز طنزیہ تھا۔ جبکہ ان کی اس بات پر بابا سائیں کا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا اور وہیں رک گیا۔ اگر احمد کا چہرہ پہلے سے اتنا زخمی نہ ہوتا تو آج یہ ہاتھ کبھی نہ رکتا۔۔
"رک جائیں بابا سائیں بیٹا ہے وہ آپ کا۔۔" اتنی دیر میں یہ وہ پہلا جملہ تھا جو جہانزیب کے منہ سے نکلا تھا۔ "کس بات کا بدلہ لے رہے ہو احمد؟؟ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟؟" وہ بہت ہی لاچاری اور مظلومیت سے کہنے لگا۔ بابا سائیں نے ایک گہرا سانس بھر کر اپنے بیٹے جہانزیب کو دیکھا۔۔
"میں کیوں ماروں گا چچا جان کو؟" پھر بابا سائیں کی طرف گھوما۔۔ " یہ ہمارے دشمنوں نے کیا ہے بابا سائیں انہوں نے جان لی ہے چچا کی۔ میں آپ کو پہلے بھی آگاہ کر چکا تھا نا؟" وہ سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھے گیا جس پر انہوں نے سر کو اثبات میں جنبش دی۔۔
"بلکہ جب میں گودام میں آیا تو میں نے دیکھا کچھ لوگ مل کر تمہیں بری طرح سے پیٹ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ تم بیہوش ہو گئے۔۔ ایک تو میں نے تمہاری جان بچائی ہے اور تم سارا الزام مجھ پر ڈال رہے ہو۔۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔۔" دیکھو زرا یہ کون کس کو خدا کا خوف دلا رہا تھا جسے خود خدا کا خوف نہیں تھا جسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ کیا منہ لے کر جائے گا وہ رب کے پاس۔۔ احمد نے دانت پر دانت جمائے مٹھی زور سے دبائ اتنی کہ ان کے ہاتھ کے پشت کی رگیں نمایاں ہونے لگیں۔
"جھوٹے مکار!!" میں آج تمہیں جان سے ماردوں گا۔۔" وہ پھر سے آگے بڑھے اس بار ناصر نے ان کو چھوڑ دیا۔ ساری دنیا جو بھی کہے لیکن احمد جھوٹ نہیں کہہ سکتا۔ جہانزیب کا گریبان ان کے مضبوط شکنجے میں تھا تبھی شور شرابہ سنتے ہی وہاں ڈاکٹر آگئے۔۔
"یہ ہسپتال ہے کبڈی کا میدان نہیں۔۔" ڈاکٹر اندر آتے ہی سختی سے بولا۔ ناصر نے احمد کو بازو سے پکڑا ۔۔
"چھوڑو دو۔۔ کوئی یقین نہیں کرے گا۔۔" انہوں نے بہت ہی ہار ماننے والے انداز میں کہا اور جہانزیب کو گھورا۔ احمد نے خود پر ضبط کرتے ہی اسے چھوڑ دیا۔ وہ کس قدر بےبس تھے ۔ ان کے چہرے پر کس قدر تکلیف تھی۔۔ سب سے جہانزیب محظوظ ہورہا تھا۔۔

موجودہ وقت:
"احمد کا یقین صرف میں نے راحیلہ اور ناہیدہ نے کیا تھا بابا سائیں نے نہیں کیا۔۔ ہمارے پاس اس کے خلاف کوئ ثبوت نہیں تھا جیسے آج نہیں ہے۔۔ ہم اس وقت بھی بے بس تھے جیسے آج ہیں۔" ان کا سر پھر سے جھک گیا۔۔ "اسے اپنی عزت بہت پیاری تھی۔۔ اور احمد سے جہاں تک ہو سکتا تھا اسکی عزت کی دھجیاں ضرور اڑا دیتا تھا حویلی میں، باہر پورے حیدرآباد میں اسے جہاں موقع ملتا وہ جہانزیب کو زلیل کر دیتا تھا کیونکہ وہ قاتل ہے۔۔ اس نے تو بس ایک نام رکھا ہوا تھا جہانزیب کا۔۔ قاتل قاتل۔۔۔بس یہی دشمنی تھی اسکی احمد سے اسی سب کا بدلہ لیا ہے اس نے۔۔" انابیہ نے گہرا سانس بھر کر انہیں دیکھا۔ اس کے اپنے سب کس قدر بےبس تھے نا اور آج وہ بھی کسی ایسے ہی مرحلے سے گزر رہی تھی۔۔
"آپ سے کیا دشمنی تھی؟؟" انہوں نے سر اٹھا کر انابیہ کو دیکھا۔۔
"مجھ سے۔۔" کہتے ساتھ وہ ہنس دیے۔۔ انابیہ کو ان کی ہنسی کی وجہ سمجھ نہیں آئ۔۔ "میں نے کام ہی ایسا کیا تھا اس کے ساتھ۔۔" وہ کچھ ناسمجھی سے بس انہیں دیکھے گئ۔۔

ماضی:
(ابرار خان کا قتل ہوئے چار سال گزر گئے تھے۔۔)
"کچھ کریں ناصر۔۔" راحیلہ بیڈ کی پائینتی کا سہارا لیے کھڑی خوفزدہ آواز سے ناصر سے کہہ رہی تھی ۔ جامنی رنگ کی ہمرنگ قمیض شلوار، کندھوں پر شال لپیٹے، لمبے کالے گھنے بال جو آدھے کندھے سے آگے اور باقی پیچھے کو کھلے تھے، وہ کسی پتھر کے مجسمے کی طرح ساکت کھڑی تھی ۔ ناصر اضطراب کے عالم میں ادھر ادھر چکر کاٹ رہے تھے۔۔ کالے رنگ کی قمیض شلوار پہنے وہ مکمل خاموش تھے گو کے الفاظ ختم ہو چکے تھے۔
"میں کسی صورت کل اپنے باپ کے قاتل سے نکاح نہیں کروں گی۔۔ روک لیں یہ سب۔۔" انکی آواز رندھی ہوئ سی تھی ، سیاہ بڑی بڑی آنکھیں مکمل سوجی ہوئیں تھی جیسے کافی دیر روتی رہی ہوں۔۔ ناصر نے رک کر پلٹ کر ایک غصیلی نظر راحیلہ پر ڈالی۔۔
"فضول باتیں مت کرو۔۔ کیسے ہونے دے سکتا ہوں میں یہ سب؟ بیوی ہو تم میری۔۔" لہجہ سخت اور حتمیہ تھا۔۔ راحیلہ نے بمشکل نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ کچھ دن پہلے ہی سب سے چھپ کر نکاح کر چکے تھے۔ اس کے اگلے دن ہی دھوم دھام سے احمد اور ناہیدہ کا بھی نکاح ہو گیا تھا لیکن ان دونوں کے نکاح کے بارے میں احمد اور ناہیدہ کو بعد میں معلوم ہوا تھا۔۔
"اور اس خبر سے بڑے بابا سائیں اور جہانزیب دونوں ہی بے خبر ہیں۔۔ کیا کریں گے آپ نکاح کیسے روکیں گے ہاں؟" نا چاہتے ہوئے بھی ان کی آواز سخت ہوگئ۔
"سب کو بتا دوں گا ضرورت پڑی تو اس حویلی میں چیخ چیخ کر بتا دوں گا کہ بیوی ہو تم میری۔۔ " وہ بھڑکتے ہوئے دو قدم آگے آئے۔ راحیلہ کی تو جیسے سانس رک سی گئ تھی۔
"ایسا مت کیجئے گا وہ مار دے گا آپ کو۔۔" انکی آواز سے خوف واضح تھا۔ ناصر نے انکی آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو دیکھا اور پھر ایک گہرا سانس لے کر سر جھٹک کر رہ گئے۔۔
"یار تم رو کیوں رہی ہو؟ نہیں مارے گا وہ مجھے نہ ہی مار سکتا ہے۔۔" وہ قدم اٹھاتے انکے سامنے جا کھڑے ہوئے ۔ تو وہ یکدم با آواز رونے لگ گئ۔ ناصر کے تو جیسے چھکے ہی چھوٹ گئے تھے۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے میں کچھ اور سوچتا ہوں پلیز رونا بند کردو۔۔" وہ بڑی نرمی سے انکے چہرے پر سے آنسو پونچھتے ہوئے بولے۔۔
"آپ احمد سے کوئ مشورہ لیں نا۔۔" روتی ہوئ آواز سے وہ ایک بار پھر بولیں۔۔
"کیا مشورہ لوں اس سے؟ بلایا تھا میں نے اب تک نہیں آیا۔۔ پتہ نہیں اس کو کیوں غصہ ہے مجھ پر؟" وہ سر پکڑے کھڑے ہوگئے۔
"آگیا ہوں میں۔۔ اور نہیں ذرا ایک بات بتائیں سب کچھ خود کرنے کے بعد اب مجھ سے کس چیز کا مشورہ چاہئیے۔۔ چھپ کر نکاح کر لیا مشورہ تو دور بتانا تک ضروری نہیں سمجھا اب کیوں ضرورت پڑ گئ میری اور میرے مشوروں کی؟؟" کمرے میں داخل ہوتے ہی احمد تیزی سے بولے گئے اور شکوہ کن نظروں سے باری باری دونوں کو دیکھے گئے۔ ان کی موجودگی پر ناصر خوشی سے مسکرائے۔
"اب تو ہو گیا نا۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں ؟؟" ناصر اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے بولے۔
"ناہیدہ کہاں ہے احمد؟؟" راحیلہ ان کے آس پاس ناہیدہ کو نہ دیکھتے ہوئے ان کا پوچھنے لگی۔
"تمہارے لیے رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی ابھی نیند کی دوائ دے کر سلا کر آیا ہوں۔۔"
"اس وقت؟" وہ سرگوشی نما انداز میں بولی اور پھر کھڑکی کے پار دیکھنے لگیں آسمان پر اب بھی اندھیرا چھانے میں تھوڑا وقت باقی تھا۔
"ایک تو ان دونوں بہنوں کا رونے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔۔" ناصر کی بربراہٹ واضح تھی تو راحیلہ نے ایک تیز نظر ان پر ڈالی۔۔
"آپ اس وقت کیا کر رہے ہیں اس کے کمرے میں جہانزیب یا بابا سائیں نے دیکھ لیا تو قیامت لے آئیں گے۔۔۔" احمد ناصر کی طرف بڑھتے ہوئے تیزی سے بولے تو ناصر ابرو اچکا کر ان کو دیکھنے لگے۔
"بیوی ہے یہ میری۔۔ ڈرتا نہیں ہوں کسی سے۔۔" وہ براہراست انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نڈر ہو کر بولے۔ احمد نے انہیں سر سے لے کر پیر تک پورا گھورا۔۔
"او آئی سی۔۔ تو جائیں نا ڈر کس بات کا ہے بتا دیں نا سب کو کہ بیوی ہے یہ آپ کی۔۔۔" وہ سینے پر ہاتھ باندھے طنزیہ اور چیلنجنگ انداز سے کہنے لگے ۔
"بتا تو دوں لیکن اس پاگل کو جو بیوہ ہونے کا خوف ہے۔۔" آنکھ کے اشارے سے راحیلہ کو مخاطب کیا تو ان کا چہرہ غصے سے فوراً سرخ ہونے لگا۔
"فضول کے مشورے مت دو تم احمد۔۔" وہ سرخ ہوتے چہرے سے احمد کو کہنے لگی تو وہ کندھے اچکاتے ساتھ پڑے صوفے پر جا بیٹھے۔
"جو کرنا ہے کرو میرے دماغ میں کوئ آئیڈیا نہیں ہے فلحال۔" وہ اپنے آپ کو ان کے معاملے سے لاتعلق دکھا تو رہے تھے لیکن یہ صرف وہی جانتے تھے کہ سارا دن حربے سوچ سوچ کر ان کے دماغ کا ستیاناس ہو گیا تھا۔
"ہاں اپنی محبت تو تمہیں پلیٹ میں سجا کر ملی ہے نا۔۔ مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔" ان کی اس بات پر احمد نے بھنویں سکیڑ کر ان کو دیکھا۔
"طنز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ بابا سائیں کا فیصلہ تھا یہ۔۔۔" وہ جیسے تصحیح کرتے ہوئے بولے۔
"بس بس بڑا بھائ ہوں تمہارا ہلکا نہ لینا۔۔ سب جانتا ہوں۔۔ بس فیصلہ کر لیا ہے میں نے۔۔۔" راحیلہ اور احمد نے ایک ساتھ ںظر اٹھا کر ان کو دیکھا کہ آخر اتنی جلدی کون سا فیصلہ کر لیا انہوں نے۔
"اپنا ہر ضروری سامان لے لو راحیلہ۔۔ میں اور تم آج رات ہی لاہور کے لیے نکل جائیں گے۔۔" ان کا یہ فیصلہ محض فیصلہ نہیں تھا کوئ بم تھا جو ان دونوں کے سر پر پھوڑا گیا تھا ۔۔ احمد تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھے۔۔ راحیلہ بے یقینی کے عالم میں انہیں دیکھے گئ۔۔ دونوں تو جیسے پلکیں جھپکنا بھول ہی گئے تھے۔
"کیا ہو گیا ایسی کیا انہونی بات بول دی میں نے کہ طوطے ہی اڑ گئے دونوں کے۔۔" ناصر نے باری باری ان دونوں کی اڑتی ہوئ رنگت دیکھی۔
"کیا بول رہے ہیں بھائ؟؟ آپ یہ حویلی چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟؟" احمد بمشکل بول پائے اور سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھنے لگے۔
"یہ گدی نہ چچا جان کی تھی نہ میری ہوگی نہ ہی تمھاری ہو سکے گی۔۔ یہ صرف جہانزیب کی ہے۔۔" وہ دکھی انداز سے مسکراتے ہوئے بولے۔
"پھر بھی آپ اتنی آسانی سے سب اس کے حوالے کر کے چلے جائیں گے؟؟" وہ کچھ بےیقینی سے انکا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
"سب میرا تھا ہی کب؟؟ نہ میرے بابا سائیں میرے رہے اور نہ یہ سب کچھ ۔۔ انہوں نے کبھی ہمارا یقین نہیں کیا۔۔ کیا تو صرف اس جہانزیب کا۔۔۔" آواز میں کچھ درد سا تھا۔۔
"آپ مجھے بھی چھوڑ جائیں گے؟؟" احمد کے گلے میں پھانس کی طرح کچھ اٹک سا گیا تھا۔
"کوئ اور چارہ نہیں ہے احمد۔۔ یہاں رہا تو راحیلہ کو کھو دوں گا۔۔ تم تو سمجھو۔۔۔" ناصر نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو احمد نے فوراً ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"ٹھیک ہے۔۔ آپ جائیں جانے کا بندوبست کریں۔۔" انکے چہرے پر ابھرتی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے ناصر کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے۔۔ ان سب میں راحیلہ اب تک خاموش ساکت سی کھڑی تھی انکو صرف ایک غم تھا۔
"میری بہن!!!" بس یہ دو لفظ تھے جو وہ بمشکل کہہ پائیں۔
"اس کی فکر نہ کرو وہ میرے ساتھ ہے راحیلہ۔۔۔" احمد نے تسلی بخش انداز سے کہا۔"جہانگیر سے رابطہ کریں اور اسے کہیں کہ لاہور میں کسی گھر کا بندوبست کر دے۔۔۔ میں اس بات کو یقینی بنائوں گا کہ جہانزیب کو کچھ پتہ نہ چلے کہ آپ کب گئے کہاں گئے۔۔۔" وہ یہ سب کہتے تیزی سے وہاں سے نکل گئے۔ ناصر انکو جاتا ہوا دیکھ کر اداسی سے مسکرائے اور پھر راحیلہ کی طرف گئے۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔" راحیلہ نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے انکو دیکھا اور سر اثبات میں ہلا گئ۔

موجودہ وقت:
"آپ ان کو ساتھ لے گئے تھے؟؟" وہ کافی ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔ محبت کے قصے دلچسپ ہوتے ہیں بہت ہی زیادہ۔
"جس سے محبت کی جاتی ہے اسے بیچ راستے میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔ محبت کر کے اسے نبھانا پڑتا ہے آخری سانس تک۔۔" انابیہ کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئ۔۔ وہ تو اپنی محبت کو بیچ راستے میں تنہا چھوڑ آئ تھی۔ اس نے تو محبت نہیں نبھائ تھی۔
"اور اگر محبت کو چھوڑنا مجبوری ہو تو؟؟" وہ مرجھائ ہوئ آواز سے پوچھنے لگی۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں۔
"مجبوری بھی تو پھر مختلف طرح کی ہوتی ہے۔۔ لیکن پھر بھی جیسا کہ میں نے کہا محبت حاصل کرنے کی آخری دم تک کوشش کرنی چاہئے پھر آگے آپکی قسمت۔۔"
"جب آپ چلے گئے تو اس کے بعد کیا ہوا؟؟" وہ مزید اسکے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے آنسوؤں پہ کیا ہوا ضبط تایا ابو کے سامنے توڑ بیٹھے گی۔
"میرے جانے کے ٹھیک دو دن بعد۔۔۔" وہ اسے مزید بتانے لگے اور وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے انہیں سن رہی تھی۔۔۔ وقت ایک بار پیچھے گیا۔

ماضی:
(جس رات ناصر اور راحیلہ حویلی چھوڑ کر لاہور آگئے تھے اس رات کے ٹھیک تین بعد۔۔)
لاہور میں اس رات بارش تھر تھر برس رہی تھی۔ بارش کے ساتھ آسمان پر گرج چمک بھی تھی۔ ناصر اس وقت کچن میں فریج کا دروازہ کھولے کھڑے تھے۔ ایک پانی کی بوتل نکال کر کچن کاونٹر کی طرف بڑھے اسی دوران انکے دروازے پر دستک ہوئ پھر بیل بجی۔
"اس وقت کون ہو سکتا ہے؟" وہ زیرلب بڑبڑائے۔۔ انہوں نے بوتل وہیں رکھی اور دروازہ کھولنے کی غرض سے وہاں سے چلے گئے۔ دروازہ کھولتے ہی وہ سامنے کھڑے دو بندوں کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئے۔ احمد اور ناہیدہ انکے سامنے مکمل بھیگے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ تیزی سے سامنے سے ہٹے اور ان کو اندر آنے کا کہا۔ دروازہ بند کر کے وہ دوبارہ ان کے پیچھے چل دیے۔۔ وہ دونوں سر تا پیر بھیگے ہوئے تھے۔ ناہیدہ بڑی سی چادر میں لپٹی مسلسل چھینکے جا رہی تھی۔
"سب سے پہلے تو اس کمرے میں جائو چینج کر لو جا کر۔ احمد میں تمھارا یہیں انتظار کر رہا ہوں۔۔" ناصر نے تیوڑیاں چڑھائے احمد سے کہا تو وہ ناہیدہ کو لیے بائیں طرف کے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ ہی دیر میں احمد سفید رنگ کا کرتا شلوار پہنے، کرتے کے سلیوز کہنیوں تک فولڈ کیے، گیلے بال کنگھی کی مدد سے پیچھے کیے ناصر صاحب کے سامنے کھڑے تھے جو ان کو بڑی ہی سخت نظروں سے صوفے پر بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ احمد خود کو کمپوز کرتے ایک گہرا سانس لیتے انکے سامنے صوفے پر جا بیٹھے۔
"وہ۔۔۔۔" کچھ کہنے کے لیے لب ہلائے مگر اپنے اوپر ان کی سخت نظریں دیکھ کر ایک پل کے لیے چپ ہو گئے۔۔ بہت سارا تھوک نگلا اور ہمت مجتمع کر کے دوبارہ کہنے لگے۔ ناصر کو لگا وہ اپنے یہاں تشریف لانے کی وجہ بتائیں گے مگر۔۔
"جوشاندہ ہوگا آپ کے پاس؟؟" کچھ ڈرتے سہمتے وہ آخر بول ہی پڑے۔ ناصر نے غصے سے انہیں دیکھا اور مٹھی بھینجتے اٹھ کر کچن کی طرف چل دیے۔۔ احمد نے ان کو جاتے دیکھا تو سکھ کا سانس لیا۔۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ان کو ہاتھوں میں دو کپ پکڑے آتے ہوئے نظر آئے۔ ناصر نے قریب آکر ایک غصیلی نظر سے ان کو دیکھا اور پھر دونوں کپ انکی طرف بڑھا دیے۔ احمد نے ڈرتے ہوئے مسکرا کر دونوں کپ تھام لیے۔
"شکریہ!! صرف ناہیدہ کے لیے چاہیے تھا میں تو ٹھیک ہوں۔۔" ناصر نے آگے سے کچھ نہ کہا اور آنکھ کے اشارے سے انکو جانے کا حکم دیا۔ احمد جانتے تھے کہ وجہ پوچھے بغیر وہ چھوڑیں گے تو نہیں اس لیے اپنا کپ وہیں ٹیبل پر رکھ کر وہ دوسرا کپ ناہیدہ کے لیے کمرے میں لے گئے۔
"بہتر۔۔" ٹیبل پر رکھا کپ دیکھ کر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر اپنی نشست پر جا بیٹھے۔
"کیا ہے یہ؟" احمد کپ منہ سے لگائے بیٹھے تھے ان کے سوال پر پہلے انہیں دیکھا پھر چونک کر کپ کو دیکھنے لگے۔
"جوشاندہ ہے۔۔" مختصراً جواب دے کر وہ دوبارہ گھونٹ بھرنے لگے۔ ناصر کی بھنویں تن گئیں۔۔
"بکواس بند کرو۔۔ کیا سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے؟؟" اگلے ہی لمحے وہ غرائے۔
"تو آپ مجھے کچن بتا دیتے میں خود بنا لیتا آپ کو زحمت۔۔۔"
"احمد احمد میرا صبر مت آزمائو۔۔۔" وہ انکی بات کاٹتے ہوئے طیش میں آکر بولے۔
"اوکے اوکے بتاتا ہوں۔۔" احمد نے جیسے ہار مانتے ہوئے ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا۔۔ "جہانزیب ڈھونڈ رہا ہے آپ کو؟؟"
"تو ڈھونڈنے دو تم یہاں کیوں آگئے؟؟" لہجہ مزید تلخ ہوا۔
"نہیں بنوں گا میں آپ پر بوجھ۔ مت ہوں پریشان۔۔" احمد نے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ انکی بات سنتے ناصر سر نفی میں ہلانے لگے۔ "خود تو آپ اس کی لڑکی لے کر بھاگ آئیں پیچھے اس نے میرا دماغ خراب کر کے رکھ دیا تھا۔۔ " انداز میں بےزاری واضح تھی۔
"لیکن تمھیں حویلی چھوڑ کر نہیں آنی چاہئیے تھی میں نے سوچا چلو تم تو ہوگے نا بابا سائیں کے ساتھ تم کیوں چھوڑ آئے ان کو؟؟"
"جہاں آپ کی عزت نہ ہو وہ جگہ چھوڑ دینی چاہئیے۔۔ میں نے بھی چھوڑ دی۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولے۔
"کیا ہوا تھا؟؟"
"بابا سائیں نے ہاتھ اٹھایا تھا مجھ پر سب کے سامنے بھائ کیا آپ یقین کریں گے؟؟" احمد دکھ بھرے لہجے میں بولے تو ناصر کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
"مگر کیوں؟؟"
"کیونکہ میں نے ہمیشہ کی طرح جہانزیب کو اس کی اوقات یاد دلائی تھی اس لیے۔۔" وہ پھر سے کندھے اچکاتے ہوئے بولے۔"آپ کو مارنے کی دھمکیاں دے رہا تھا وہ۔۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو ایک زوردار مکا اس کے منہ پر رسید کر دیا میں نے۔۔" پھر رک ان کا چہرہ دیکھنے لگے۔ "میں ڈر گیا ہوں بھائ۔۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔ ہم دونوں ساتھ ہوں گے تو وہ ہمیں آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکے گا بلکہ ڈھونڈ بھی نہیں سکے گا۔۔ میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا بھائ۔۔"
"تم میرے لیے آئے ہو؟؟" ناصر نے نہایت نرمی سے ان سے پوچھا۔
"نہیں مینار پاکستان دیکھنے کے لیے۔۔" انداز طنزیہ تھا اور چہرے پر سنجیدگی۔
"اور اگر اس نے تمہارا پیچھا کیا ہوا تو؟" ان کے چہرے پر پریشانی واضح تھی۔
"نہیں پہنچ سکتا وہ یہاں۔۔ میں بہت احتیاط سے آیا ہوں۔۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوئ ہوگی۔۔"
"تمہیں یقین ہے؟؟" وہ اب بھی پریشان تھے۔
"بھائی جان میں سب کو بتا کے آیا ہوں کہ جا رہا ہوں میں اور جو لوگ بتا کر جاتے ہیں وہ دن کی روشنی میں سب کے سامنے جاتے ہیں اور جہانزیب کا بھی یہی خیال تھا کہ میں اس کے سامنے جائوں گا جبکہ میں چھپ کر رات کو نکلا ہوں تاکہ وہ پیچھا نہ کر سکے۔۔ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا وہ اور ویسے بھی اس کا ہم سے کیا لینا دینا اس نے تو شکر کیا ہوگا کہ ہم سب کچھ اس کے لیے پلیٹ میں سجا کر آگئے ہیں ۔۔" وہ روانی میں انہیں بتائے جا رہے تھے تسلی دیے جا رہے تھے۔۔ "اور ہاں میں اور ناہیدہ اب سے یہیں رہیں گے۔۔ کچھ مہینوں بعد سی-ایس-ایس کے امتحان ہوں گے تو وہ دوں گا۔ دماغ سے ایسی کوئی بھی سوچ نکال دیں کہ میں یہاں سے جائوں گا۔۔"
"وہ تو میں جانتا ہوں تم ایک ضدی انسان ہو۔۔" وہ اب کی بار پرسکون انداز میں بولے۔
"تعریف کرنے کا شکریہ لیکن سب کہتے ہیں کہ میں آپ پر ہی گیا ہوں۔۔" معصومانہ انداز سے مسکراتے ہوئے وہ انہیں دیکھ رہے تھے۔۔
"بالکل بھی نہیں تم میں اور مجھ میں صرف ایک چیز ملتی ہے۔۔ ہماری سبز آنکھیں۔۔ باقی میں تم سے ہر لحاظ سے مختلف اور بہتر انسان ہوں۔۔" کہتے ساتھ وہ دونوں ہی ہنس دیے۔۔ بارش کی رفتار اب پہلے سے کم ہو گئ تھی۔
موجودہ وقت:
کھلے سلائڈنگ ڈور سے ٹھنڈی ہوا اندر داخل ہو رہی تھی۔ انابیہ کو ٹھنڈ کا احساس ہوا تو اٹھ کر سلائڈنگ ڈور واپس بند کرنے لگی۔ اس نے باہر اندھیرا چھائے آسمان کی طرف دیکھا جو مکمل بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
"اس کے بعد ہم ساتھ بہت خوش رہنے لگے تھے۔ " ان کی دکھ سے بھری آواز پر وہ پھر سے انکی طرف گھومی اور ہلکا سا مسکرا دی۔
"پھر ہماری زندگی میں عالیان آیا جیسے برے وقت کے بعد اچھا وقت آتا ہے۔" وہ دکھ سے مسکرا دیے۔
" اس کے تین سال بعد اللہ نے احمد کو تمھاری صورت میں بہترین تحفہ دیا۔ اس دن جتنا وہ خوش تھا اتنا میں نے اسے اس کی شادی میں بھی نہیں دیکھا تھا۔۔" اس کے ہونٹوں پر بکھرا ہلکا سا تبسم پل بھر میں غائب ہو گیا۔۔ نظریں جھکا کر اب وہ ٹائلز کو دیکھ رہی تھی۔
"ہماری زندگی بہت حسین تھی بلکل کسی بہار کے موسم کی طرح لیکن تیرہ سالوں بعد وہ جہانزیب نامی طوفان پھر سے آگیا ہماری زندگی تباہ کرنے کے لیے۔۔" انابیہ نے اپنا جھکا سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"میں نے بہت روکا تھا راحیلہ کو کہ اس عورت کو کام پر مت رکھنا لیکن اس نے صرف اپنی چلائی میری نہیں سنی۔۔" وہ افسردگی سے کہے جا رہے تھے اور انابیہ ان کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔ وہ ایک دم الجھن کا شکار ہوئی۔
"ہمدردی کا بھوت سوار تھا اس پر۔ اس عورت پر ترس کھاتے آخر اس نے اسے رکھ لیا۔" ناصر رک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگے جیسے وہ کچھ سمجھ نہ پا رہی ہو۔
"تمہیں یاد تو ہے نا وہ کام والی؟؟" انابیہ نے پوری آنکھیں حیرت سے کھولے شاک سے انہیں دیکھا اور سر اثبات میں ہلا گئ۔ اسکا ذہن تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑا ۔ وہ اس پل میں چلی گئ جب اس نے پہلی دفعہ ایک نا معلوم عورت کو اپنے گھر پر دیکھا تھا۔

ماضی:
بالوں کی دو گتیں بنائیں سر پر پی کیپ پہنے انابیہ معصومانہ چال میں چلتے لائونج میں داخل ہوئی۔ ڈارک بلیو جینز کے اوپر بلیک آدھے آستینوں کی شرٹ پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ لائونج میں داخل ہوتے ہی اس نے راحیلہ کو کسی اور عورت کے ساتھ کھڑے دیکھا۔ راحیلہ نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا تو وہ قدم اٹھاتے انکے کے ساتھ جا کھڑی ہوئی۔
"ہو از شی؟؟" اپنے سامنے کھڑی عورت کو اس نے سر تا پیر بڑے غور سے دیکھتے ہوئے راحیلہ سے پوچھا۔
"یہ ہماری نئی میڈ ہے۔۔" راحیلہ نے اسے بتایا۔ اس کی کڑی نظریں اب بھی اسی عورت پر تھیں جو اسے مسکراتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی۔ انابیہ کو اس کی مسکراہٹ ذرا پسند نہیں آئی۔
"مجھے یہ پسند نہیں آئی۔۔" اس کی اس بات پر جہاں راحیلہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا وہیں اس عورت کے چہرے سے مسکراہٹ بھی غائب ہوئی تھی۔
"بری بات انابیہ۔۔" انہوں نے فوراً ٹوکا۔
"بری بات یا اچھی بات مجھے نہیں پتہ۔ مجھے بس یہ اچھی نہیں لگی۔۔" وہ سینے پر ہاتھ باندھے اب بھی اسی کو دیکھے جا رہی تھی جس کے چہرے پر ناگواری سی پھیلی ہوئی تھی۔
"پہلی بار میں کسی کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیئے۔۔ شی از ویری نائس۔۔" راحیلہ نے اس کے سر سے کیپ اتار کر اسے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا۔
"میں آپ کے لیے بہت مزے کے کھانے بنائوں گی جی۔ مجھے ہر چیز۔۔۔"
"بلکل بھی نہیں مجھے صرف تائ جان اور ماما جان کے ہاتھ کا کھانا اچھا لگتا ہے۔ " وہ تیزی سے اس عورت کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔ راحیلہ اس کی اس حرکت پر خاصا شرمندہ ہوئ لیکن کچھ نہیں بولیں۔
“Your work is to clean home only. Stay away from kitchen ”
وہ اس پر حکم صادر کرتے اسے پھر سے گھورنے لگی۔ اس کو اتنا سیریس دیکھ کر راحیلہ نے بمشکل اپنی ہنسی دبائ۔ جبکہ اس کی انگریزی باتیں سامنے والی عورت کے سر پر سے گزر گئیں۔۔ وہ عجیب سی شکل بنائے سامنے بیٹھی چھوٹی میڈم کو دیکھنے لگی۔
"اس کا مطلب ہے کہ آپ صرف صفائی وغیرہ دیکھا کریں گی۔ کچن کا کام میں اور ناہیدہ ہی کریں گے۔" راحیلہ اس کو ہنستے ہوئے انابیہ کا حکم بتانے لگی۔
"تو بی بی جی کیا تنخواہ بھی مجھے یہی دیں گی؟" وہ ڈرتے سہمتے پوچھنے لگی تو انابیہ نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی اور اٹھ کر جانے لگی۔ اس کے جاتے ہی راحیلہ زور زور سے ہنسنے لگی۔
وہ جھٹکے سے حال میں آئ۔ جسم ساکت تھا آنکھیں حیرت سے پھیلیں تھیں اور وہ انہیں حیرت زدہ آنکھوں سے ناصر صاحب کو دیکھ رہی تھی۔
"کیا اس عورت نے زہر دیا تھا تائ جان کو؟؟" ناصر نے اس کے سوال پر سر ہاں میں ہلایا۔ "آئ کانٹ بیلیو اٹ۔۔۔"
"ایسا ہی ہے انابیہ۔۔ وہ صرف ایک میڈ نہیں تھی اسے جہانزیب نے بھیجا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ اتنے سالوں بعد ہی وہ ہم تک کیوں پہنچا اور کیسے پہنچا؟"
"آپ کو یقین ہے کہ یہ جہانزیب کا کام تھا؟؟"
"نہ ہوتا اگر اس رات مجھے کال نہ آتی۔۔" ناصر پھر ماضی کی طرف چلے گئے۔

ماضی:
راحیلہ کو مرے ہوئے تین دن ہو گئے تھے۔ ناصر صاحب کی ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ وہ اپنے کمرے میں اندھیرا کیے بیڈ پر بیٹھے تھے۔ اسی دوران باہر لائونج سے ٹیلی فون کی بیل کی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائ۔ انہوں نے اگنور کرنے کی کوشش کی۔ بیل ہنوز بج رہی تھی۔
"اففف کیا کوئ نہیں ہے جو اس منحوس کو اٹھا لے۔۔" وہ کافی اونچی آواز سے دھاڑے۔ راحیلہ جب سے انہیں چھوڑ کر گئ تھی تب سے وہ تلخ مزاج ہو گئے تھے۔ آخرکار وہ خود اٹھ کھڑے ہوئے۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی انہوں نے سامنے کھڑی آٹھ سالہ ردا کو دیکھا جو ہاتھ کو اونچا کر کے فون تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی لیکن اس کی کوشش ناکام جاتی رہی۔ ٹیلی فون اس سے کافی اونچائ پر رکھا گیا تھا۔ گردن موڑ کر انہوں نے دیکھا ناہیدہ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا وہ دیکھ سکتے تھے کہ وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ احمد ضرور آفس گئے ہوں گے۔ بیل ہنوز بج رہی تھی۔ وہ قدم اٹھاتے ٹیلی فون تک گئے ردا کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ مسکرا وہاں سے بھاگ گئ۔ انہوں نے ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔
"کون بول رہا ہے؟؟" ریسیور اٹھاتے ہی وہ سپاٹ لہجے میں پوچھنے لگے۔
"صاحب جی میں۔۔ دلشاد ہوں جی۔۔" ناصر کے کان سے اسی کام والی کی آواز ٹکرائ۔ آواز سنتے ہی جیسے ان کا خون کھولنے لگ گیا۔
"گھٹیا عورت کہاں مر گئ ہو تم؟ جلدی اپنا پتہ بتائو میں نہیں چھوڑوں گا تمہیں اپنے ہاتھوں سے گلا دبا دوں گا تمھارا۔۔۔" لہجہ سخت پتھریلا۔۔ جان لینے کی حد تک خطرناک لہجہ تھا ان کا۔۔
"مجھے معاف کر دیں صاحب مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا۔۔" وہ روتے سسکتے ہوئے بول رہی تھی۔ ناصر کا پارا مزید ہائی ہونے لگا۔
"مکار عورت ڈرامے بند کرو تمہیں ذرا رحم نہیں آیا میری بیوی کو زہر دیتے ہوئے ۔ ارے اس نے تو تم سے ہمدردی کر کے اس گھر میں جگہ دی تھی اور تم نے کیا کر دیا اس کے ساتھ۔ ایک دفعہ میرے سامنے آجائو خدا کی قسم رتی برابر رحم نہیں کروں گا تم پر۔۔" ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس عورت کو ٹیلی فون سے ہی کھینچ لیتے۔
"صاحب جی میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے مہربانی کر کے میری سن لے میں آپ کو سب بتائوں گی۔۔" وہ منت بھرے لہجے میں روتے ہوئے بولے جا رہی تھی۔
"کیا کہنا ہے بولو۔۔" وہ ایک بار پھر اس پر چیخ پڑے۔
"میں نے یہ سب جہانزیب کے کہنے پر کیا ہے میں نہیں جانتی اس کی کیا دشمنی ہے آپ سے جی۔۔ مگر اس نے مجھے پیسے دیے تھے جی۔۔" جہانزیب کا نام سنتے ہی ناصر کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئ تھیں۔۔ ایک سکتہ سا طاری ہو گیا تھا ان پر۔
"اسی کے کہنے پر آئ تھی جی میں۔۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ موقع پاتے ہی میں راحیلہ بیگم کو زہر دے دوں۔۔ لیکن میرا یقین کیجئے جی میں جب سے آپ لوگوں کے ساتھ رہنا شروع ہوئ تھی نا مجھے انسیت سی ہو گئ تھی رحم سا آگیا تھا جی۔۔ میں اپنا ارادہ ترک کر کے جانے ہی والی تھی سارے پیسے اس کے منہ پر مارنے۔ لیکن اس نے میری بیٹیوں کو یرغمال بنا لیا تھا مجھے ڈراتا تھا کہ میری بیٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مجھے بھجوائے گا صاحب جی میں ڈر گئ تھی اور مجھ سے یہ گناہ سرزد ہو گیا۔۔۔" ناصر شاک کے عالم میں اس کی سنے جا رہے تھے۔
"اور تم نے اپنی بیٹیوں کے لیے میرے بیٹے کے سر سے ماں کا سایہ چھین لیا؟؟" ان کی آواز میں صدیوں کا دکھ تھا۔
"میری بیٹیاں تو اس نے واپس نہیں کی نہ کرے گا۔۔" اس کے آنسوؤں کی رفتار مزید تیز ہو گئ۔۔ پھر اپنے آنسو پونچھ کر ہمت مجتمع کر کے بولنے لگی۔۔ " وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہے قصہ ختم کرنے کے لیے۔ میں ایک گائوں میں چھپی ہوئی ہوں جی کل شام تک آپ تک پہنچ جائوں گی۔ میں آپ کے ساتھ تھانے جا کر ساری گواہی دے دوں گی صاحب جی سب بتا دوں گی بس مجھے معاف کر دیں۔۔"
"تم آئو گی کل؟؟" ایک امید سی ملی تھی ناصر کو۔ ان کا چہرہ مکمل تر ہو چکا تھا۔
"جی جی صاحب میں اپنی پوری کوشش کروں گی اگر میں کل شام تک آپ تک پہنچ گئ تو میں اس کے خلاف گواہی دوں گی اور اگر کل نہ پہنچ سکی تو سمجھ جائیے گا اس نے مجھے ڈھونڈ نکالا۔۔"
"میں انتظار کروں گا۔۔" کہتے ساتھ ناصر نے ریسیور رکھ دیا۔

موجودہ وقت:
"میں نے اس کا اگلے دن انتظار کیا وہ نہیں آئ۔ بہت دفعہ اسی نمبر پر کال بھی کی ہر بار وہ بند ہوتا تھا۔ میں سمجھ گیا وہ اب کبھی نہیں آسکے گی۔۔" انابیہ نے ان کی آواز میں بےحد کمزوری محسوس کی۔ ان کی آنکھیں نم تھیں چہرہ جھکا ہوا تھا۔
"کیا تھا اگر میں بس اس کی ایک یہ ضد کبھی پوری نہ کرتا۔ میں ہمیشہ اس کی ضد کے آگے بےبس ہو جاتا تھا۔ اس لیے احمد کسی پر بھروسا نہیں کرتا تھا۔۔" ان کا جھکا چہرہ پچھتاوے میں گھرا ہوا تھا۔
"آپ جہانزیب کے پیچھے نہیں گئے؟؟" اس نے آگے جھک کر ان کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا۔
"جانا چاہتا تھا حویلی۔۔ احمد نے نہیں جانے دیا۔ میں اس سے بہت لڑا بہت بحث کی حتیٰ کہ اس کے چہرے پر دو تھپڑ بھی جھڑ دیے لیکن اس نے مجھے نہیں جانے دیا۔ وہ ڈرتا تھا کہ مجھے بھی کھو دے گا بہت ڈرتا تھا۔۔" آواز رندھی ہوئ سی تھی۔
"آپ لاہور چھوڑ کر کیوں آگئے تھے؟؟" آج وہ سب جاننا چاہتی تھی۔۔ ناصر نے ایک گہرا سانس لیا۔ ان کا حلق خشک ہونے لگا تھا۔ انابیہ نے آگے بڑھ کر انہیں ایک گلاس پانی دیا تو انہوں نے بس دو گھونٹ ہی لیے۔
"میں نے لاہور میں وہ گھر راحیلہ کے لیے خریدا تھا۔ میں جب جب اس گھر کو دیکھتا تھا مجھے اس پر غصہ آتا تھا مجھے خود پر گھن آتی تھی کہ میں اس گھر میں اپنی بیوی کی حفاظت کو کیوں یقینی نہیں بنا سکا؟ کیوں اس گھر کی دیواریں اتنی کمزور تھیں کہ کوئ بھی آسانی سے اس میں گھس کر میری بیوی کو قتل کر گیا۔ دوسری طرف عالیان نے مجھے پریشان کر دیا تھا آدھی آدھی رات کو اٹھ کر رونے لگ جاتا تھا۔ اسے جھٹکے لگتے تھے۔ ہر طرف راحیلہ دکھائ دیتی تھی اسے۔ بس مجھے یہی ٹھیک لگا کہ مجھے وہ جگہ چھوڑنی ہے۔۔" وہ سب کچھ اسے تفصیل سے بتائے جا رہے تھے۔
"احمد نے مجھےبہت روکا لیکن آخر کار اسے میری سچویشن کا اندازہ ہو گیا تھا پھر مان گیا اور میں عالیان کو لے کر کراچی چلا گیا انہیں دنوں میرا رابطہ جہانگیر سے ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے بزنس سٹارٹ کرنا ہے مگر پانٹنرشپ پر۔ میں مان گیا مگر میری شرط تھی کہ ہم کراچی میں ہی سٹارٹ لیں گے ۔ اسے فیصلہ کرنے میں تھوڑا وقت لگا اسکی فیملی لاہور میں ہوتی تھی اس لیے۔۔ لیکن جیسے تیسے کر کے اس نے حامی بھر لی اور ہم نے کراچی میں اپنا بزنس عروج پر پہنچایا۔"
"آپ نے عالیان کو امریکہ کیوں جانے دیا؟؟" ایک کے بعد ایک سوال وہ آج ہر سوال کا جواب حاصل کرنا چاہتی تھی۔
"یہ بھی میری غلطی تھی۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولے۔ "میں جب سے عالیان کو تم لوگوں سے علیحدہ کر کے یہاں لایا تھا وہ مجھ سے اکھڑا اکھڑا رہتا تھا اسے لگتا تھا ہر چیز کا ذمہ دار میں ہوں۔ ایک دفعہ اس نے مجھ سے کہا وہ امریکہ جا کر پڑھنا چاہتا ہے میں نے کوئ اعتراض نہیں کیا مجھے لگا وہ شاید باہر جائے گا تو صحیح ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا میں ایک بار پھر بری طرح ہارا تھا۔۔" انابیہ بغور انکا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔۔
"وہ وہ بن گیا جو میں کبھی نہیں چاہتا تھا۔۔ میں اسے ہر بار کہتا تھا کہ واپس آجائو لیکن وہ ٹال دیتا۔ میں چاہتا تھا بس وہ ایک دفعہ آجائے میں اسکی تم سے شادی کرا دوں اور شاید تم اسے میرا پرانا عالیان بنا دو لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔۔ مجھے لگتا تھا وہ تمھیں پسند کرتا ہے لیکن ہر بار اس کا ٹالنا مجھے یقین دلا گیا کہ شاید وہ صرف تمہیں اپنا دوست ہی سمجھتا تھا۔۔" انہوں نے رک کر سوالیہ نظروں سے انابیہ کو دیکھا۔ "کیا تم پسند کرتی ہو اسے؟؟" وہ یکدم بوکھلا سی گئ۔ اسے ایسے سوال کی بلکل توقع نہیں تھی۔
"نہیں۔۔" اس نے دوٹوک جواب دیا۔ وہ کچھ نہیں بولے کچھ سیکنڈز خاموشی رہی جسکو انابیہ نے توڑاا۔
"کیونکہ ایسا وہ چاہتا تھا کہ میں اسے پسند نہ کروں۔ وہ ایسے کام کرتا تھا کہ اسے پسند نہ کیا جائے۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ وہ جب تک میرا دوست تھا بہترین دوست تھا شاید مجھے پسند بھی تھا لیکن وہ جھوٹا ہے تایا ابو دھوکےباز ہے۔ اس نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ جب سے امریکہ گیا تھا بہت ہرٹ کرتا رہا تھا وہ مجھے۔۔ معاف کیجئے گا مگر آپکا عالیان بہت برا ہے بہت زیادہ۔" وہ بولتے بولتے رکی اسے احساس ہوا کہ وہ ایک باپ کے سامنے کچھ زیادہ ہی بول گئ تھی۔ اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ ایک باپ کے سامنے یہ کہنا کہ اس کا بیٹا کتنا برا ہے اس باپ کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ انابیہ کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے۔۔
"معافی چاہتی ہوں تایا ابو۔۔" وہ شرمندگی سے بولی تو وہ اذیت سے مسکرا دیے۔
"نہیں تم ٹھیک کہتی ہو وہ ایسا ہی ہو گیا ہے۔۔ میں نے راحیلہ کے بعد اس کو بھی ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔۔"
"بس اب آرام کریں کافی رات ہو گئ ہے باقی باتیں صبح۔۔" وہ اٹھ کر انکی ویل چئیر گھسیٹتے لے جانے لگی۔ دو گولائ زینوں کے ایک طرف انہوں نے سلائڈ سی بنوا دی تھی تاکہ انکی ویل چئیر بآسانی آجاسکے۔ وہ جا چکے تھے نہ ہی دونوں کی حالت سنبھلی تھی نہ آنسوؤں پر قابو پایا گیا تھا۔

●●●●●●●●●●●●●

آج وہ کافی دنوں بعد یونیورسٹی آئ تھی۔ ایگزامز قریب تھے اور ان دنوں اس کی سٹڈیز کافی بری طرح سے متاثر ہوئیں تھیں ۔ بھورے رنگ کے پیروں کو چھوتے فراک پر سفید رنگ کی ہوڈی اور اس کے ساتھ سفید ہی رنگ کے سکارف کو سلیقے سے حجاب میں لیے کندھے سے بیگ ٹکائے اور ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے وہ یونیورسٹی کی راہداری پر تیز تیز قدم اٹھاتے ایک لڑکی کے ساتھ چلتی جا رہی تھی۔
"اب کتنی دیر منہ پھلائے رہنے کا ارادہ ہے؟" پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ لڑکی اب انابیہ کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے جو حرکت تم نے کی ہے میں منہ بھی نہیں پھلا سکتی۔۔" وہ کافی غصے میں تھی اور تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورنے لگی۔ عالیہ اسے دیکھ کر ہنسنے لگی۔ انابیہ کے قدم رکے اس کو اس کے ایسے ہنسنے پر کافی تپ چڑھی تھی۔
"تم نے کہا تھا تم میرے بنائے ہوئے نوٹس سے صرف ہیلپ لو گی اور تم نے اے ٹو زیڈ اسی کی پریزینٹیشن دے دی۔۔" وہ اس کے سامنے ہو کر غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ اس سے کہنے لگی۔ وہ ضبط کرنا چاہتی تھی لیکن نہیں کر پائ۔
"اچھا تو کیا ہوا اتنا آگ بگولہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟" وہ نہایت ڈھٹائی سے بول رہی تھی جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑا ہو۔
"تم نے مجھ سے غلط بیانی کر کے نوٹس لیے تھے تو کیا میں اب غصہ بھی نہ ہوں؟" لہجہ سخت پتھریلا تھا آواز بھی کافی اونچی تھی۔
"تو تم دوبارہ بنا لینا تمھارے لیے کونسا مشکل کام ہے۔۔ ویسے بھی تمہاری پریزینٹیشن کی باری کل ہے۔۔ اب نہیں ہوں تمھاری جتنی لائق ٹائم بھی تو نہیں ہوتا نا میرے پاس۔۔" نہایت ڈھٹائی سے وہ کہتے پھر سے چلنے لگی۔
“ سوشل میڈیا اور فیشن شو سے فارغ ہو تو کچھ کرے نا ہونہہ۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑائ۔ "بنا تو میں لوں لیکن آئیندہ مجھ سے کوئ بھی ایسی امید مت رکھنا سمجھی۔۔" وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے بولی ۔جان تو اس نے بھی نہیں چھوڑنی تھی۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے مجھ سے اتنی اونچی آواز میں بات مت کیا کرو۔۔" انابیہ نے اسے گھور کر دیکھا جیسے کہہ رہی ہو ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری۔ وہ دونوں سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے ۔
"تمہارے بھلے کے لیے ہی تو کہہ رہی ہوں ورنہ۔۔ آہ!!!!" آخری سیڑھی پر اس کا پیر بری طرح سے پھسلا تھا اور وہ وہیں آخری سیڑھی پر گر کر بیٹھ گئ۔۔" آہ ہ ہ ہ!!" وہ درد سے کراہ کر رہ گئ اس بار پھر اس کا پیر بری طرح سے دکھا تھا لیکن اگلے ہی لمحے عالیہ کا قہقہہ اس کے ہوش اڑا گیا تھا۔ اس نے زخمی انداز سے اس کو دیکھا جو مسلسل منہ پر ہاتھ رکھے اس پر ہنسے جا رہی تھی۔ ایک گھوری اس پر ڈال کر وہ دوبارہ اپنے دکھتے ہوئے پیر کی طرف متوجہ ہو گئ۔ اسے اٹھنا مشکل لگ رہا تھا۔ آج کوئ کبیر جہانگیر نہیں تھا جو اس کے لیے پریشان ہوتا اس کے لیے دوڑ کر آتا اس کو اپنے ہاتھ کا سہارا دے کر اٹھنے میں مدد دیتا۔ آج کوئ زارا نہیں تھی جو اس کا درد محسوس کرتی اسے اپنے ساتھ لگائے چلنے میں مدد دیتی۔۔ آج عالیہ تھی جو اس کے گرنے پر ہنس رہی تھی خوش ہو رہی تھی۔۔
"کیوں آخر ہر بار میں ہی کیوں؟؟" دل ہی دل میں اسے پھر اپنی قسمت پر صرف افسوس ہوا۔
ہنستے ہنستے عالیہ کا برا حال ہو گیا تھا انابیہ وہیں آخری سیڑھی پر بیٹھی تھی اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں تھیں مگر وہ اس وقت کم از کم عالیہ کے سامنے رو نہیں سکتی تھی۔
"اوکے اوکے سوری اصل میں ہنسی ہی نہیں رکتی میری بڑی ہی کمینی ہے۔۔" جب اس کے دل کو ٹھنڈک پہنچی تو اپنا ہاتھ انابیہ کی طرف بڑھا کر کہنے لگی۔۔ انابیہ نے نم آنکھوں سے اسے گھورا پھر اس کا ہاتھ۔۔ اس کے ہاتھ کو دیکھ کر بھی اس نے ایسے اگنور کیا جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ بمشکل ہینڈ ریلنگ کا سہارا لیتے وہ کھڑی ہو گئ۔
"تم تو ٹھیک ہو میں ایسے ہی پریشان ہو رہی تھی۔۔" طنزیہ انداز سے کہتے وہ وہاں سے چلی گئ۔ انابیہ دانت پیس کر رہ گئ ۔ پھر سر جھٹک کر لڑکھڑاتے قدم وہ وہاں سے سیدھا گراونڈ میں چلی گئی۔ ایک تو اتنی ٹھنڈ بھی تھی اس نے دھوپ دیکھ کر جیسے شکر کیا اور وہیں دھوپ میں گھاس پر بیٹھ گئ۔ بیگ اتار کر اپنے ساتھ رکھا اور پھر آگے ہو کر اپنے پیر کو آگے پیچھے دائیں بائیں آہستہ آہستہ گھمانے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اسے کافی تکلیف ہو رہی تھی۔ اس کا دل بری طرح رو رہا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے گلے شکوے بھی کیے جا رہی تھی کہ آخر ہر تکلیف اسے ہی کیوں پہنچتی ہے؟ اس کے اچھے دوست اور ماں باپ کیوں چھین لیے گئے؟ وقت صرف اس کے لیے کیوں برا ہے؟ سب تو خوش ہیں تو آخر وہ کیوں نہیں ہے؟ تبھی اس نے اپنے سامنے سفید جوتے پہنے ہوئے قدموں کو دیکھا اور پھر بلیک ٹرائوزر میں ملبوس موٹی ٹانگوں کو ۔ آہستہ آہستہ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک گول مٹول چہرے والی کافی موٹی لڑکی کھڑی تھی۔ اس کے دیکھتے ہی وہ گھنگرالے بالوں اور سرخ گالوں والی لڑکی مسکرا دی۔۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ لڑکی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا پیر دیکھنے لگی۔ اس نے اپنا ہاتھ انابیہ کے پیر تک بڑھایا تو اس نے سٹپٹا کر اپنا پیر فوراً پیچھے کیا۔
"رہنے دیں۔۔" وہ قدرے بوکھلاتے ہوئے بولی۔۔
"کیا زیادہ دکھ رہا ہے؟؟" اس کے کہتے ہی انابیہ نہ میں سر ہلانے لگی۔
"شیور۔۔" کہتے ساتھ وہ اٹھ گئ۔ انابیہ نے گہرا سانس لیا کہ وہ جانے کے لیے آخر اٹھ گئ لیکن اگلے ہی لمحے اسے حیرت سے دیکھنے لگی جو بلکل اس کے ساتھ آ کر گھاس پر بیٹھ گئ تھی۔
"میں بیٹھ جائوں؟؟" بیٹھ تو وہ گئ تھی ۔ انابیہ نے سر ہاں میں ہلایا تو وہ پھر مسکرا دی۔وہ دوبارہ اپنے پیر کی طرف متوجہ ہو گئ۔
"نام کیا ہے تمہارا ؟؟" وہ ہنوز اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"انابیہ۔۔" اس نے نظریں وہیں اپنے پیر پر جمائے کہا۔
"ہممم۔۔۔ میرا نام لالی ہے۔۔" انابیہ نے اچنبھے سے اسے دیکھا اسے لگا شاید اس نے نام صحیح سے نہیں سنا۔
"مطلب لاریب۔۔ وہ سب لوگ مجھے لالی لالی کہتے ہیں نا ۔۔" کہتے ساتھ وہ ہنس دی۔ اس کے گال مزید سرخ ہونے لگے وہ سمجھ گئ تھی کہ سب اس کے سرخ گالوں کی وجہ سے ہی اسے لالی کہتے ہوں گے ۔
"یہ لو اس سے تمھیں آرام آجائے گا۔۔" اس نے پین کلر اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ انابیہ نے بغیر مسکرائے اس سے وہ پین کلر لے لی ۔ " اور ہاں گھر جا کر اپنے پیر پر بام لگا لینا اور پھر ایک موٹی سی جراب پہن لینا خاصا آرام آئے گا۔۔"
"ہوں۔۔" وہ اسے کوئ ڈاکٹر لگ رہی تھی یہ سب کہتے ہوئے۔ انابیہ نے سر ہاں میں ہلاتے ہاتھ میں پکڑی ٹیبلیٹس بیگ میں ڈالنی چاہی لیکن پھر اس کی آواز پر رکی۔
"اس میں سے ایک لے لو باقی تو واپس کر دو نا۔۔" انابیہ کا چہرہ خفت کے مارے سرخ ہونے لگا۔ اس کا دل کیا پورا پلتا واپس اس کے منہ پر مار دے لیکن اسے بھی تو ساری نہیں رکھنی چاہئے تھی نا اففف۔۔ اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اس نے ایک گولی نگلی اور باقی اسے تھما دی ۔ لالی پھر سے مسکرا دی۔۔ اس کا دل کیا کہ اس سے صاف صاف کہہ دے کہ چلی جائے وہ یہاں سے میرا موڈ اچھا نہیں ہے بلا بلا بلا !!!
"تم نے مائینڈ تو نہیں کیا نا؟؟" اس نے کافی نرم آواز سے پوچھا شرمندگی واضح تھی۔ انابیہ نے سر نفی میں ہلایا۔
"دراصل میرے جسم میں کافی درد رہتا ہے مجھے پین کلرز کی ایمرجنسی میں ضرورت پڑ جاتی ہے ۔" انابیہ گہرا سانس بھر کر رہ گئ۔ اسے اس کی باتوں میں کوئ دلچسپی نہیں تھی آخر کیوں وہ اس کو بلاوجہ بتائے جا رہی تھی۔ وہ چلی کیوں نہیں جاتی؟
"اس بیماری کی وجہ سے اب اتنا بھاری جسم ہے تو درد تو ہوگا نا ۔۔" انابیہ کے پیروں پر حرکت کرتے ہاتھ ایک دم رکے۔ اس نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جو اب بھی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔
"(اوبیسٹی) “!!Obesity انابیہ نہایت دبی ہوئ آواز میں بولی۔ اس کے کہتے ہی لالی نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلا دیا۔ اس کی آنکھیں پہلے تو حیرت سے پھیلیں اور پھر شرمندگی اور ندامت سے وہ سر جھکا گئ۔
"کب سے ہے تمہیں یہ بیماری؟؟" اسے لگا اس کی آواز کسی کھائ سے آرہی ہو۔۔ نظریں ہنوز جھکی ہوئیں تھیں۔۔
"ٹین ایج سے۔۔ شکر ہے تمہاری آواز تو صحیح سے سنی ورنہ تو مجھے لگا تم کوئ روبوٹ ہو سر کبھی اوپر نیچے کبھی دائیں بائیں ہلاتی ہو بس۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔" وہ سر اس طرح ہلاتے ہوئے ہنستے ہوئے اس کی نقل اتار رہی تھی۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب انابیہ کو اس پر غصہ نہیں آیا اور یہ بھی پہلی دفعہ تھا کہ وہ زبردستی نہیں مسکرائ تھی۔۔
"اچھا لگا تم سے مل کر۔۔" انابیہ نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسے کہا تھا۔
"بس ابھی ایک منٹ پہلے ہی تمہیں اچھا لگا ہینا۔۔۔" وہ پھر سے ہنس دی جبکہ انابیہ کی مسکراہٹ غائب ہوئ۔
"مطلب؟؟" وہ الجھی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
"ظاہر ہے ابھی ٹھیک ایک منٹ پہلے سے تمہیں میرا یہاں ہونا بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ میری بیماری پتہ چلنے کے بعد اچھا لگا تمہیں میرا ساتھ۔۔۔" یہ طنز نہیں تھا لیکن انابیہ خاصا شرمندہ ہوئ اور شرمندگی اس کے چہرے پر واضح تھی۔۔ اس کا دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
"میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں تھا۔۔" لالی نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ بے ساختہ اس نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ "بس مجھے اچھا نہیں لگتا کوئ مجھ سے یوں ہمدردی کرے۔۔ تم جب مجھے اگنور کر رہی تھی نا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا بلکل ایسے جیسے میں ایک نارمل لڑکی ہوں قسم سے۔۔۔" اس کی ہیزل آنکھیں انابیہ کی بھوری آنکھوں سے ہمکلام تھیں۔
"تمہارا ویٹ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی بنسبت کم ہے۔۔" آواز ہنوز نرم تھی۔
"ہاں کیونکہ میں نے کافی کنٹرول کیا ہے۔ اپنی ڈائٹ کنٹرول سے، میڈیسنز سے، واک سے، پوزیٹیو تھنکنگ سے، ہنسنے مسکرانے سے اور ہاں خود کو موٹیویٹ کرنے سے۔" لالی نے اس کے کندھے پر سے ہاتھ ہٹا دیا۔ انابیہ اسے حیرت سے دیکھے گئ کہ آخر یہ بھی تو ہے جو اپنی بیماری کو خود پر ہاوی نہیں کرتی خوش رہتی ہے اللہ کا شکر کرتی ہے اور صبر کرتی ہے اور ہم تھوڑی سی تکلیف سے گزریں تو غصہ لوگوں پر اتارنے لگ جاتے ہیں بد اخلاق ہو جاتے ہیں ۔ہم پر تھوڑا سا امتحان آجائے سیڑھیوں سے گر جائیں تو اللہ سے گلے شکوے کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسے بے ساختہ اپنا گرنا یاد آیا تھا۔۔
"میں نے دیکھا تھا تمہیں گرتے ہوئے۔۔۔" اس کی آواز پر انابیہ پر چھایا جمود ٹوٹا۔۔" تمہاری دوست بجائے تمہاری ہیلپ کرنے کے تم پر ہنس رہی تھی۔۔"
"دوست نہیں ہے وہ میری۔۔۔" اس نے فوراً اسے ٹوکا۔
"اوکے دوست نہیں بھی تھی انسان تو تھی نا۔۔" بولتے بولتے لالی اپنے بیگ کی طرف گھومی۔ اس میں سے جوس کی بوتل نکالی اور اس کا ڈھکن کھول کر پینے ہی لگی تھی پھر رک انابیہ کے سامنے کیا تو اس نے مسکرا کر سر نہ میں ہلا دیا۔ وہ کندھے اچکا کر اس سے گھونٹ بھرنے لگی۔۔
"اچھا تو کہاں تھے ہم؟؟ " بوتل واپس میں رکھتے ہوئے وہ دوبارہ انابیہ کی طرف متوجہ ہوئ۔
"کہ وہ انسان تو تھی نا۔۔" اس نے لالی کو یاد دلاتے ہوئے کہا۔
"ہاں انسان تو تھی ہی نا اسے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا خیر چھوڑو اسے۔۔ میں نے تمھارے چہرے پر اداسی دیکھی تھی۔ اس لیے تمہارا ہال چال پوچھنے آگئ۔۔ لیکن جب تمہارے سامنے آکر بیٹھی تو میں نے دیکھا کہ تمہارے چہرے پر چھائی اداسی اور تکلیف ابھی کی نہیں ہے بہت پرانی ہے جیسے تم سے کچھ کھو گیا ہو۔۔" انابیہ کو لگا جیسے وہ کسی ماہر سائیکالوجسٹ کے ساتھ بیٹھی ہو جس پر اس کے دکھوں کا انکشاف ہوا ہو۔ وہ حیرت سے اسے دیکھے گئ۔۔
"کس ڈیپارٹمنٹ کی ہو؟؟" لالی کو اس کا سوال اچانک اور غیر متوقع لگا۔۔
"ایچ-آر ۔۔ یہاں اپنی کزن کو ڈھونڈنے کے لیے آئ تھی پتہ چلا وہ گھر چلی گئ ہے۔۔" وہ ہر بات کا تفصیلی جواب ضرور دیتی تھی اور پھر مسکرا بھی جاتی تھی۔ "تو بتائو تم نے کیا کھویا ہے؟؟" بھولی وہ اب بھی نہیں تھی۔۔
"بہت کچھ۔۔" لالی نے اس کے چہرے پر ابھرتے کرب کو دیکھا تھا اور پھر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کا ہاتھ گرم تھا جبکہ انابیہ کے ہاتھ برف کی مانند ٹھنڈے تھے اسے لگا جیسے کسی نے اس کے ٹھنڈ میں لرزتے وجود پر نرمی سے گرم چادر اوڑھ دی ہو۔۔
"اب بتائو کیا کیا کھویا؟؟" بہت دنوں بعد وہ کسی ایسے دوست سے ملی تھی اس کا دل چاہا کہ آج پھوٹ پھوٹ کر رو دے لیکن پھر جیسے ضبط کر گئ اور اسے تفصیل سے بتانے لگی۔۔
"میں نے عالیان کو دوست بنایا وہ مجھ سے چھن گیا۔۔ میں نے زارا اور عاصم کو دوست بنایا وقت نے مجھ سے وہ بھی لے لیے۔۔ میں نے کبیر سے محبت کی مجھے وہ بھی راس نہ آئ میں نے اسے بھی کھو دیا۔۔ میں نے بابا جان ماما جان تائ جان سے بہت پیار کیا وہ تو مجھے چھوڑ کر اللہ کے پاس چلے گئے۔۔ میں جن سے پیار کرتی ہوں وہ مجھ سے کیوں چھن جاتے ہیں؟ میرے تایا ابو ویل چئیر پر ہیں۔۔وقت سب کے لیے ظالم ہوتا ہے یا اس کا یہ خاص کرم صرف مجھ پر ہے؟" اس کا ضبط ٹوٹ گیا۔۔ آنسو زاروقطار بہنے لگے۔۔ آج وہ سارا صبر ہار بیٹھی۔ وہ تکلیف دہ سسکیوں سے رونے لگی۔۔ لالی نے بےساختہ آگے ہو کر اسے گلے سے لگایا۔۔ وہ کچھ پل اس کے حصار میں رہی۔۔ اسے یہی تو چاہئیے تھا۔۔ وہ ماما جان اور بابا جان کے جانے کے بعد کافی دن نہیں روئ تھی اس نے خود کو مضبوط بنا رکھا تھا وہ سب کو تسلیاں دیتی تھی لیکن کوئ اسے تسلی دینے والا نہیں تھا اور آج اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوا تھا۔۔ اس کا دل کر رہا تھا لالی اسے کبھی نہ چھوڑے وہ ایسے ہی اس کے حصار میں رہے روتی رہے اپنا دل ہلکا کرتی رہے۔۔ لالی نے بھی کوئ مزاحمت نہیں کی وہ کچھ پل ایسے ہی اس کی سسکیوں کو سنتی رہی۔۔ پھر اس کی کمر پر تھپکی دی۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں تھیں لالی نے پیچھے ہو کر اس کے سامنےپانی کی بوتل کی تو اس نے چند گھونٹ پانی کے پیے اور بوتل پھر سے اسے تھما دی۔۔ پھر اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنے لگی۔۔
"بس یہی چاہتی تھی میں کہ آج تم ہمت ہار کر بس ایک دفعہ کھل کر رو لو۔ جو آنسو تمہارا دل بند کیے ہوئے ہیں آج انہیں بہہ جانے دو اور دیکھو میں کامیاب ہوئ۔۔" انابیہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔ بےساختہ اسے تائ جان کی بات یاد آئ کہ پہلی ہی بار میں کسی کے بارے میں کوئ رائے قائم نہیں کرنی چاہیئے۔۔
"تم نے جن کو کھویا سب تم سے مخلص تھے نا؟؟" انابیہ نے سر ہاں میں ہلایا ۔ "اور اب تک تمہیں ان جیسا کوئ دوست دوبارہ نہیں ملا ہینا؟؟" انابیہ نے پھر سر ہاں میں ہلایا۔۔ لالی نے اپنی نوٹ بک کھولی اور اس کے آخر سے ایک صفحہ آدھے میں سے پھاڑا۔۔ انابیہ ناسمجھی سے اس کی ہر حرکت دیکھے جا رہی تھی۔ پھر اس نے اس آدھے صفحے کو بہت سے چھوٹے چھوٹے حصوں میں پھاڑ دیا اور پھر گھاس میں پھیلا دیے ۔ انابیہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔
"دیکھو۔۔ فرض کرو گراونڈ کا یہ حصہ جدھر صرف ہم بیٹھیں ہیں یہ دنیا ہے اور یہ پھیلی ہوئ گھاس اور یہ کاغذ کے ٹکڑے انسان ہیں۔۔" وہ غور سے اسے سنے جا رہی تھی اور الجھی الجھی نظروں سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔
"دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں ایک وہ جو sincere ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو hypocritical ہوتے ہیں ۔ سمجھ لو یہ جو چند کاغذ کے ٹکڑے ہیں یہ sincere یعنی مخلص لوگ ہیں اور یہ جو دور تک پھیلی ہوئ گھاس ہے یہ hypocritical لوگ ہیں یعنی وہ جو اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ اور ہوتے ہیں یو نو جنہیں منافق کہا جاتا ہے۔۔" انابیہ سمجھ گئ تھی وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔۔
"مطلب یہ ہے میری بات کا کہ اس دنیا میں مخلص لوگ بہت کم اور منافق لوگ بہت زیادہ ہیں اور وہ انسان بہت خوش قسمت ہوتا ہے جس کے نصیب میں اچھے اور سچے لوگ آتے ہیں۔ بس کچھ بھی کر کے کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اچھے لوگ آپ سے ناراض نہ ہوں لیکن پھر بھی اگر وقت آپ سے ان کو چھین لیتا ہے تو ہاں پھر آپ بدقسمت انسان ہوئے کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ آپ کو مخلص لوگ ملیں انابیہ۔۔"
آسمان پر بادل چھا گئے تھے دھوپ کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔ اسے ٹھنڈ کا احساس ہونے لگا تھا۔۔
"کبھی کبھی ہمیں خود اچھے برے لوگوں کی پہچان کرنی ہوتی ہے خود انہیں ڈھونڈنا ہوتا ہے جیسے میں نے تمہیں ڈھونڈا۔۔۔" وہ پھر مسکرا دی جبکہ انابیہ نہیں مسکرائ۔۔
"میں اچھی نہیں ہوں میں تو تمہیں اگنور کر رہی تھی۔۔" وہ زخمی انداز سے مسکرائ۔
"تم ایسی تھی نہیں تم ایسی بن رہی تھی لیکن نہیں بن سکی۔۔ کیونکہ تم بہت اچھی ہو بہت زیادہ ۔" وہ دونوں بیک وقت مسکرا دیں۔
"ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ لوگ نہیں کرتے سب اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس سے شکوے کرنے کی اجازت قطعاً نہیں ہے۔ ہمیں صرف صبر کرنا ہوتا ہے اور وہ صبر کرنے والوں کو بےتحاشا انعامات سے نوازتا ہے۔" انابیہ غور سے اسے سن رہی تھی پھر کچھ دیر خاموش رہی۔ اس کی خاموشی پر انابیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جبکہ لالی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"میری دوست بنو گی؟؟" اس کے سوال پر انابیہ کی مسکراہٹ چھن سے غائب ہوئ۔
"میں دوستی کے قابل نہیں ہوں۔۔" وہ دکھ بھری آواز میں بولی۔
"ایسے مت کہو ۔ تم بہت اچھی ہو۔۔" اس نے بیگ سے ایک چاکلیٹ نکال کر انابیہ کو دی تو اس نے مسکراتے ہوئے لے لی۔۔ دوستی ہو گئ تھی وہ تو بہت پہلے ہی ہو گئ تھی۔
"تمہارے پیر میں آرام ہے اب؟؟" اس کے سوال پر انابیہ نے کرنٹ کھا کر اپنے پیر کو دیکھا وہ ٹھیک تھا وہ اسے باآسانی دائیں بائیں گھما سکتی تھی۔ وہ خوش ہوئ اور پھر حیرت سے مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی تو لالی بھی ہنس دی۔
"کسی بھی درد کو لے کر بیٹھی رہو گی تو وہ مزید تکلیف دےگا ۔ اگنور کرنا ہی ہے تو اپنی تکلیفوں کو کرو وہ ایسے غائب ہوں گی جیسے سرے سے تھیں ہی نہیں۔۔ صرف اللہ کی دی گئ نعمتوں کا شکر کرو بس انہیں کبھی اگنور مت کرنا۔۔۔" انابیہ پھر اسے حیرت سے دیکھے گئ وہ کوئ عام لڑکی نہیں تھی وہ کوئ موٹیویشنل سپیکر تھی۔ وہ بھی تو یہی کرتی تھی اپنی بیماری کو اگنور اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی بیماری پر کنٹرول کر پا رہی تھی ورنہ عموماً obesity کے شکار لوگ اور بھی مختلف بیماریوں میں گھر جاتے ہیں۔
اسی دوران اس کا فون بجنے لگا۔ اس پر چھایا سکوت ٹوٹا تو وہ فون کی طرف متوجہ ہوئ۔
"چلتی ہوں اب اپنا خیال رکھنا اور ہاں خوش رہا کرو کچھ بھی ہو جائے آلویز تھنک پوزیٹیو۔۔" وہ مسکرا کر اٹھ کر جانے لگی۔ جانے سے پہلے اس نے گھاس پر سے وہ کاغز کے ٹکڑے اٹھا لیے تھے۔۔ وہ وہیں بیٹھی رہی فون پر ردا کی کال تھی اس نے کال اٹینڈ کی اور اس سے بات کرنے لگی۔۔ بات کرتے کرتے اس کی نظر اپنی نوٹ بک کے گتے پر پڑی جس پر لالی پنسل سے اپنا نمبر لکھ کر گئ تھی ساتھ ایک سمائلی فیس بھی بنا تھا۔ وہ اس نے کب لکھا تھا شاید جب وہ خیالوں میں کھوئ ہوئ تھی۔ وہ بے ساختہ مسکرا دی۔۔ فون سے ہنوز ردا کی آواز آرہی تھی۔

●●●●●●●●●●●●

مناہل تیز تیز قدم لیتے بائیں طرف کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہی تھی۔ تبھی ہینڈ ریلنگ پر ہاتھ رکھے وہ لونگ روم میں سے آتی کچھ مردانہ آوازوں پر ر کی۔ وہاں جانے کے بجائے وہ سیدھا کچن میں گئ جہاں ردا اور شہناز کھانے کا انتظام دیکھ رہی تھیں۔
"تایا جان کے کوئ مہمان آئیں ہیں کیا؟؟" اس نے اندر جاتے ساتھ ہی ردا سے پوچھا جو ٹرالی پر کھانے کی مختلف اشیاء سجا رہی تھی۔ ردا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جہانگیر انکل آئیں ہیں۔۔" چہرے پر بےپناہ سنجیدگی سجائے اسے نے مناہل کو جواب دیا۔ جبکہ جہانگیر انکل کا نام سنتے ہی اس کے چہرے پر خوشی لہرائ۔
"واقعی !! میں مل کر آتی ہوں۔۔" وہ تیزی سے جانے ہی والی تھی تو ردا کی آواز پر رکی۔
"وہ اکیلے نہیں ہیں ان کے دونوں بیٹے بھی ہیں ساتھ۔۔" ردا نے ایک تیز نظر اس پر ڈالتے ہوئے کہا تو وہ رک گئ۔
"او وو۔۔اچھا کیا بتا دیا۔خیر میں کمرے میں جا رہی ہوں ۔" کہتے ساتھ وہ سیڑھیاں عبور کر کے وہاں سے چلی گئ۔ ردا ہنوز کام میں مصروف تھی۔
"ڈیڈ نے جب سے یہ بری خبر مجھے دی تو کچھ بھی کر کے کراچی آنا چاہتا تھا لیکن بزنس کے سلسلے میں اسلام آباد پھنس کر رہ گیا تھا۔۔" عابس صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ناصر صاحب سے مخاطب تھا جو ان کے سامنے ویل چئیر پر اپنے اردگرد شال لپیٹے بیٹھے تھے۔
"اور میں بدقسمتی سے لندن میں تھا۔۔" کہتے ساتھ کبیر نے زوردار چھینک ماری۔ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے اسے سخت زکام لگا ہوا تھا ناک بھی سرخ ہو رہی تھی۔ مسلسل ہاتھ میں پکڑے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر ناک ڑگڑتا اور پھر چھینک مارتا۔
"بیٹا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو کیوں آئے آرام کرتے۔۔" ناصر اس کی ایسی حالت دیکھتے ہوئے پریشانی سے بولے ۔
"آنا بھی تو تھا نا انکل۔۔ مجھے ویسے بھی آپ سے ملنا تھا۔۔ یقین کریں مجھ سے آپ کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی۔۔" وہ نہایت افسردگی سے بولا ۔ جہانگیر سر جھکائے ناصر کے برابر صوفے پر بیٹھے تھے۔
"احمد انکل کی موت کا بھی مجھے بہت افسوس ہے دو دفعہ ہی ملا تھا ان سے وہ بھی جب وہ یہاں کراچی آئے تھے بہت اچھے انسان تھے۔" اب کی بار آواز عابس کی تھی۔
"میں تو لاہور میں رہ کر بھی ان سے کبھی نہیں ملا لیکن پھر بھی ڈیڈ سے ان کی بہت تعریف سنتا رہا ہوں۔۔ " کبیر نے ایک اور ٹشو نکالتے ہوئے کہا۔۔ کچھ پل خاموشی رہی۔۔ جہانگیر تو مکمل خاموش تھے اور بار بار دکھی نظروں سے اپنے دوست ناصر کو دیکھ رہے تھے۔ ان کو ویل چئیر پر بیٹھا دیکھ کر تو جیسے ان کا دل کٹ سا جاتاتھا۔
"بس جو اللہ کو منظور بچوں۔" یہ کہتے انہوں نے عابس کو دیکھا۔۔" تمہاری شادی تھی نا اسی مہینے؟"
"جی دو دن بعد ہے۔۔"
"کاش کہ میں آپاتا۔۔" وہ زخمی انداز سے بولے۔
"آپ آجائیں نا انکل۔۔" کبیر نے ان کو دیکھتے ہوا کہا۔
"میں بچیوں کو چھوڑ کر نہیں آسکتا معذرت چاہتا ہوں بچے۔۔"
کبیر کی طبیعت زیادہ خراب ہونے لگی تھی وہ وقفے وقفے سے چھینکے جا رہا تھا اب کی بار اس کے سر میں بھی شدید درد ہونے لگا تھا۔
"بیٹا تم گھر جائو جا کر آرام کر لو بھائی کی شادی کی ساری ذمہ داریاں بھی تم نے دیکھنی ہے۔۔" ناصر اس سے کہہ رہے تھے۔ کبیر نے ایک نظر سامنے بیٹھے اپنے والد صاحب کو دیکھا تو انہوں نے بھی سر اثبات میں ہلایا۔
"ڈرائیو تم مت کرنا میرے ڈرائیور کے ساتھ چلے جائو۔۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا تو ناصر نے اس کی ناساز طبیعت دیکھتے ہوئے کہا۔
"آئو میں تمہیں باہر تک چھوڑ دیتا ہوں۔۔" عابس بھی اس کے ساتھ اٹھ کر جانے لگا۔
باہر آتے ہی وہ گاڑی کی طرف بڑھا ڈرائیور نے اس کے لیے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا تو وہ اس میں بیٹھ گیا۔
"آرام کر لینا شام تک ہم واپس نکل جائیں گے لاہور کے لیے۔ میں کچھ دیر ڈیڈ کے ساتھ ہوں پھر میں اور تم ساتھ ہی جائیں گے۔۔۔" عابس گاڑی کے دروازے کے پاس کھڑے کھڑے اس سے کہنے لگا تو وہ اس ہر بات پر ہاں ہاں میں سر ہلا رہا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی اور گیٹ کی طرف لے گیا۔ کبیر سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ ناک مزید سرخ ہو گئ تھی۔ گاڑی نے گیٹ کو پار کیا تو اس نے ذرا سی گردن ٹیڑھی کر کے دیکھا جہاں ایک اور گاڑی آرہی تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی دوسری طرف موڑ لی۔ انابیہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے مکمل طور پر ہاتھ میں پکڑے موبائل میں گم تھی اس نے اپنے گھر کے گیٹ سے نکلتی گاڑی کو نہیں دیکھا پھر اچانک سر اٹھا کر سامنے دیکھنے لگی ۔ اس کی پہلی نظر ہی نمبر پلیٹ پر پڑی وہ گاڑی ناصر کی تھی۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا تبھی اس کا ڈرائیور گاڑی گیٹ سے اندر لے گیا۔
کبیر نے بےساختہ گردن موڑ کر پیچھے شیشے سے باہر دیکھا گیٹ کے اندر جاتی گاڑی کی اس کو بس اک جھلک سی دکھائ دی اور وہ اندر چلی گئ۔
"یہ جو گاڑی ابھی گھر کے اندر گئ ہے یہ کس کی ہے؟؟" اس نے گردن واپس سامنے موڑتے ہوئے ڈرائیور سے پوچھا۔
"جی یہ چھوٹی صاحبہ کی ہے ابھی یونیورسٹی سے آئیں ہیں۔۔"
"احمد کی انکل کی بیٹی؟؟" پتہ نہیں کیوں لیکن اس کے دل کو ضرور کچھ ہوا تھا۔۔
"جی انکی بڑی بیٹی۔۔" ڈرائیور کے کہتے ہی اس نے سر اثبات میں ہلایا اور دوبارہ پیچھے ہو کر آنکھیں بند کیے کہیں کھو گیا۔۔اس کی گاڑی کافی آگے آچکی تھی گھر کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ راستے ایک بار پھر سے مل کر بھی جدا ہو گئے تھے۔ وہ ایک بار پھر سے قریب آکر دور ہو گئے تھے۔
انابیہ نے گاڑی سے نکلتے سامنے دروازے پر کھڑے عابس کو انجان نظروں سے دیکھا۔ وہ کان سے فون لگائے کھڑا تھا۔ وہ قدم چلتے اس کے سامنے آئ۔ عابس نے اسے دیکھتے ہی فون کان سے ہٹایا کال ڈسکنیکٹ کی اور ہلکا سا مسکرا دیا۔
"آپ؟؟؟" انابیہ کے لب ہلے مگر پھر اسکی آواز پر رک گئ۔
"عابس ہوں۔۔ پہچانا؟؟" وہ ہنوز مسکراتے ہوئے بولا ۔ انابیہ کچھ دیر اسے دیکھے گئ اور پھر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں شاید اسے یاد آگیا تھا۔
"جہانگیر انکل کے بیٹے۔۔ کیسے ہیں آپ؟؟" اب کی بار وہ بھی مسکرا دی۔
"یادداشت اچھی ہے۔۔ ویسے اب کی بار تم نے مجھے دیکھ کر غصہ نہیں کیا۔۔" کہتے اس کا قہقہہ گونجا تھا۔انابیہ کے شرمندگی سے گال سرخ ہونے لگے۔ انابیہ بچپن میں صرف دو بار احمد صاحب کے ساتھ کراچی آئ تھی جبکہ عابس کافی دفعہ کراچی جاچکا تھا لیکن انابیہ اور احمد صاحب سے صرف دو دفعہ ہی ملا تھا۔ تب انابیہ کو پتہ چلا تھا کہ عابس عالیان کا دوست ہے بس اس لیے وہ ان دونوں کو ساتھ بیٹھا دیکھ کر تپ جاتی تھی اور عابس کو خاصا ڈانٹ دیا کرتی تھی ۔ اس کی بحث کا موضوع صرف یہ ہوتا تھا کہ عالیان صرف میرا دوست ہے۔
"کیا ہوا کہاں کھو گئ؟؟" عابس نے اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ وہ سر جھٹک کر رہ گئ۔۔ "وہ جس کے لیے ہم دونوں لڑتے تھے وہ بڑا بیوفا نکلا۔۔" عابس نے ہنستے ہوئے بڑے افسوس سے کہا۔۔" پتہ چلا مجھے باہر جا کر شادی کر لی ہے صاحب نے۔۔ ایک دفعہ میرے ہاتھ لگ جائے تمہارا بدلہ بھی لوں گا اس سے ۔۔" انابیہ اس کی بات پر مسکرا دی۔
"وہ نہیں آئے گا۔۔" وہ نظریں جھکائے ہوئے افسردگی سے بولی۔
'آئے گا بڑا خبیث ہے تنگ کرنا اور سرپرائز دینا اس کی بچپن کی عادت ہے۔۔"
انابیہ نے زرا سا رخ موڑ کر بہت نرمی سے اسے ٹوکا "چھوڑیں اسے عابس بھائی۔۔ یہ بتایئں جہانگیر انکل بھی آئیں ہیں؟؟" وہ موضوع بدلتے ہوئے بولی۔ جہانگیر تو کہیں گئے ہی نہیں تھے مگر ان سے مل کر انابیہ کو ہمیشہ بہت خوشی ہوتی تھی۔۔
"جی بلکل وہ اندر ہیں۔۔" وہ مسکرا کر اندر جانے لگی تو عابس بھی اس کے پیچھے چل دیا۔ اندر جاتے وقت اس کے ذہن میں صرف ایک سوال تھا اگر جہانگیر صاحب اور عابس دونوں یہاں ہیں تو گاڑی میں کون گیا تھا؟ پھر ذہن جھٹک کر لونگ روم میں چلی گئ۔ سامنے ہی جہانگیر صاحب اور ناصر صاحب اسے آتا دیکھ کر مسکرائے ۔ اس نے باری باری دونوں سے دلاسے لیے سلام کیا اور وہیں ایک صوفے پر بیٹھ گئ۔۔وہ کافی دیر ان سے باتیں کرتی رہی ۔
"ڈیڈ میں چلتا ہوں ہمیں لاہور کے لیے بھی نکلنا ہے۔۔" عابس نے کلائ میں پہنی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
"میں تمہارے نکاح والے دن ہی آئوں گا۔۔ آفس میں بہت کام ہے سب نپٹا کر آجائوں گا۔۔" جہانگیر اس کو دیکھتے ہوئے بولے تو وہ سر ہلاتا سب سے ملتا الوداعی کلمات کہہ کر جانے لگا۔۔ انابیہ بھی اس کے ساتھ اسے سی آف کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
"مجھے بہت خوشی ہوتی اگر تم بھی آتی میری شادی پر۔۔" بیرونی دروازے پر پہنچتے ہی عابس نے گردن اس کی طرف موڑ کر اس سے کہا۔
"میں ضرور آتی مگر حالات آپ کے سامنے ہیں۔۔" وہ نظریں سامنے لان کی طرف ٹکائے بولی۔
"اچھا لگا تم سے مل کر۔۔ ایک بات کہوں؟؟" انابیہ نے نظروں کا رخ عابس کے چہرے کی طرف کیا۔۔
"ناصر انکل کا اب تم ہی ایک سہارا ہو۔ اگر وہ تمہیں کوئ ذمہ داری سونپے تو انکار مت کرنا۔۔چلتا ہوں۔۔" وہ اس سے کہتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ وہ وہیں کھڑی رہی اسے عابس کی بات سمجھ میں نہیں آئ تھی۔ وہ چلا گیا تو وہ بھی واپس اندر چلی گئ۔ وہ سیدھا اپنے کمرے میں گئ فریش ہو کر کپڑے بدلے اور بیٹھ کر اپنے ایگزامز کی تیاری کرنے لگی۔ وہ بیڈ پر ٹانگیں سیدھی کیے گود میں لیپ ٹاپ رکھے بیٹھی تھی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئ تھی کہ مناہل کمرے میں آئ۔
"آپکو تایا جان سٹڈی روم میں بلا رہے ہیں۔۔" اس کے کہتے ہی اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اٹھ کر جانے لگی۔
"آپ نے بلایا ۔۔" جہانگیر صاحب اب بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔ اس کو دیکھتے ہی جہانگیر صوفے پر سے اٹھ کر اس کے سامنے گئے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی ہاتھ پیچھے کمر پر باندھے وہ امید بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
"کیا ہوا انکل سب ٹھیک تو ہے نا؟؟" ان کو مکمل خاموش دیکھ کر وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔
"ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپنا چاہتا ہوں تمہیں۔۔" لہجہ قدرے سنجیدہ تھا۔ انابیہ کچھ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔ پھر اس نے دیکھا جہانگیر صاحب نے ہاتھ آگے کیے جن میں ایک نیلے رنگ کی فائل جکڑی ہوئ تھی۔ اس نے کچھ حیرت سے پہلے اس فائل کو دیکھا اور پھر جہانگیر صاحب کو۔
"یہ تمہاری ہے۔۔" انہوں نے فائل مزید اس کے سامنے کی۔۔
"میری؟؟" آنکھوں میں ڈھیروں سوال لیے اس نے وہ فائل تھام لی۔۔
"ناصر نے اپنے سارے شئیرز تمہارے نام کر دیے ہیں۔۔" کہتے ساتھ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے دوسری طرف گھوم گئے۔
"کیا؟؟؟" اس کا یہ کیا کافی بڑا تھا۔ جہانگیر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تو وہ قدرے بوکھلا کر رہ گئ۔۔
"مم میرا مطلب کیوں؟؟" وہ بمشکل کہہ پائ۔
"کیونکہ اب میرے ساتھ بزنس تم دیکھو گی۔۔" انابیہ کو لگا کہ کوئ ایٹم بم اس کے سر پر آگرا ہو۔ اس کی آواز گلے میں ہی پھنس کر رہ گئ تھی۔ شاک کے عالم میں اس نے ناصر صاحب کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
پھر لڑکھڑاتے قدم انکی ویل چئیر تک گئ۔
"تایا جان مجھ سے پوچھ تو لیتے۔۔" وہ شکوہ کن نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔
"مجھ سے بات کرو انابیہ یہ میرا فیصلہ ہے۔۔" جہانگیر کی نظریں سلائڈنگ ڈور سے باہر تھی ۔
"معاف کیجئے گا بہت غلط فیصلہ ہے یہ آپ کا۔۔" اس نے کہہ تو دیا تھا لیکن پھر اپنے ہی کہے پر شرمندہ سی ہو گئ۔
"میرے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوئے نہ آگے ہوں گے۔۔" لہجہ سپاٹ اور پر اعتماد تھا۔
"آپ سمجھ نہیں رہے۔۔۔" اس کی آواز رندھی ہوئ سی تھی۔
"میں سمجھ رہا ہوں انابیہ اور تم بھی سمجھو میرا یہ فیصلہ غلط نہیں ہے۔۔" انہوں نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"نہیں نہیں میں یہ نہیں کر سکتی تایا جان میری تو تعلیم بھی مکمل نہیں ہے میں کیسے کر سکتی ہوں؟" وہ دبی ہوئ آواز میں کہے جا رہی تھی۔
"تم کر سکتی ہو بیا۔ تمھارا خواب تھا یہ۔۔" ناصر نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی اور پھر پیروں کے بل فرش پر ان کے سامنے بیٹھ گئ۔
"میں جانتی ہوں یہ میرا خواب ہے مگر یہ خواب ڈگری حاصل کرنے کے بعد پورا ہو تو بہتر ہے۔۔ میں بزنس کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتی۔۔"
"یعنی کچھ کچھ جانتی ہو چلو جتنا جانتی ہو اتنا کافی ہے آہستہ آہستہ باقی کا بھی جان جائو گی۔۔" آواز جہانگیر کی تھی۔ انابیہ نے چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھا پھر ان کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔
"مت کریں ایسا میں آپ لوگوں کی محنت پر پانی پھیر دوں گی۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔ اتنا بڑا بزنس سنبھالنا آسان کام نہیں ہے انکل۔۔" وہ لرزتی ہوئ آواز سے کہہ رہی تھی لیکن ناصر اور جہانگیر نے تو جیسے پکا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اس کی نہیں سن رہے تھے۔
"انابیہ انابیہ خود پر بھروسہ رکھو ۔۔بی کونفیڈینٹ۔۔ تم سب کر سکتی ہو بہت انٹیلیجینٹ ہو تم۔ اور تم اکیلی تو نہیں ہو نا میں ہوں تمہارے ساتھ تمہیں سب سکھائوں گا۔۔ تمہارے تایا ابو کا خواب ہے یہ اسے پورا کر دو۔۔" وہ اسے کنوینس کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔
"اور میری سٹڈیز؟؟"
"فکر نہ کرو ذرا سا بھی اثر نہیں پڑے گا تمھاری سٹڈیز پر۔۔ میں اسے اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔" وہ ہر بار کی طرح پھر سے اسے تسلی دیتے ہوئے بولے۔
"اور عالیان؟؟ اگر وہ واپس آگیا تو؟؟ اس سب پر اس کا حق ہے۔۔" ایک کے بعد ایک خدشہ!!
"اس کا نام مت لو بیا۔۔ میرا کوئ بیٹا نہیں ہے وہ واپس آیا بھی تو میں اسے یہاں گھسنے ہی نہیں دوں گا۔ اس سب پر صرف تمہارا اور تمہاری بہنوں کا حق ہے۔۔" ناصر کا لہجہ سخت پتھریلا تھا۔ ایک بیٹے کے لیے اس کے باپ کے منہ سے اتنے سخت الفاظ سن کر اس کا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔
"بس فیصلہ ہو گیا۔۔ مجھے تمہاری ہیلپ کی ضرورت ہے انابیہ۔۔ پریپئیر یور مائنڈ فار ایوری تھنگ۔۔" جہانگیر کا انداز تنبیہی تھا۔
"میں تمہیں سٹرانگ دیکھنا چاہتا ہوں بیا ۔ میں چاہتا ہوں تم ہر چیز ہر انسان سے لڑنے کے لیے تیار رہو۔” وہ باری باری دونوں کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔ دونوں کے چہرے مطمئن تھے انہیں کوئ خدشہ کوئ ڈر نہیں تھا انہیں انابیہ پر پورا یقین تھا اگر کسی کو نہیں تھا تو خود انابیہ کو اپنے آپ پر نہیں تھا۔ اس نے مزید بحث نہیں کی کیونکہ وہ سمجھ گئ تھی اب کسی بحث کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ گہرا سانس لیتے اس نے جیسے ہار مان لی تھی۔
"مجھے وقت چاہئیے سوچنے کے لیے۔۔"
"جتنا وقت لینا چاہو لو مگر فیصلہ یہی ہونا چاہئیے۔۔" اس نے بھاری دل کے ساتھ سر اثبات میں ہلایا اور وہاں سے چلی گئ۔۔
"اس کو پریشرائز نہیں کرنا چاہئیے ہمیں۔۔" اس کے جاتے ہی ناصر افسوس بھرے لہجے میں بولے۔
"یہ اس کے لیے بہت ضروری ہے۔۔" جہانگیر ان کے سامنے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئے۔

●●●●●●●●●●●

کبھی سمندر کی لہروں کو جوش مارتے دیکھا ہے؟؟
کبھی اس کی لہروں کا بےہنگم شور سنا ہے؟؟
مجھے لگتا ہے اس کے ٹھاٹھیں مارنے کی کوئ وجہ ہے۔۔
یا شاید یہ اس کا اندازِ بیان ہے۔۔۔
یوں ٹھاٹھیں مارتا ہے جیسے اپنی خوشی ہم سے بیان کر رہا ہو۔۔
یا جیسے غم میں پاگل ہو رہا ہو۔۔
ایسا ہی کوئی بےہنگم سا شور اس کے اندر بھی پل رہا تھا۔ ایسے ہی غم میں وہ بھی پاگل ہو رہی تھی۔ اپنے سامنے سیاہ آسمان کے نیچے کھڑے وہ اس سمندر کی لہروں کے شور کا موازنہ وہ اپنے اندر پلتے شور سے کر رہی تھی۔ کون زیادہ غم میں تھا؟ وہ جو ہمیشہ سے کراچی شہر کا حصہ رہا ہے یا وہ جو کچھ مہینوں پہلے اس شہر میں آئی تھی جہاں ان کے نصیب نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ ان کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ کراچی ( دا سٹی آف لائیٹس)۔۔ روشنیوں سے جگمگاتا شہر جہاں آتے ہی ان کی زندگی اندھیر ہو گئ تھی۔ تیز ہوا میں اسے ٹھنڈ کا احساس ہوتا تو خود پر اوڑھی شال کو وہ مزید خود پر لپیٹ لیتی۔ ردا پچھلے کچھ دنوں سے کبھی کبھی شام کے وقت یہاں کچھ دیر تنہا رہنے کے لیے ضرور آتی تھی۔ ایک سکون کی تلاش میں جو شاید لہروں کی آوازیں اس کے اعصاب کو بخشتی تھیں۔کہتے ہیں سکون چاہتے ہو تو سمندر کا رخ کرو۔ تمہاری آنکھوں کو راحت ملے گی۔۔ رک کر اس نے ان تیز ہواؤں میں آنکھیں بند کر کے ایک گہرا سانس لیا تبھی اس کی کلائی پر اس نے کسی کا لمس محسوس کیا۔ اس نے تیزی سے اپنی آنکھیں کھولیں تو نظریں اس کے ساتھ کھڑے ایک بچے پر رکیں جو مسکراتے ہوئے اس کی کلائ پکڑے ہوئے کھڑا تھا۔ دس سالہ بچہ جو سر پر اونی ٹوپی اور بدن پر قمیض شلوار کے اوپر اونی سویٹر پہنے جو اس کے داہنے کندھے سے پھٹی ہوئ تھی کھڑا اسے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"باجی تمہارا کلائیوں پر یہ گجرے بڑے جچیں گے۔۔اللہ قسم۔۔" اس بچے نے بڑی معصومیت سے اپنی گردن کے درمیانی حصے کا گوشت پکڑتے ہوئے کہا۔ ردا نے تیوڑیاں چڑھائے اس کے دوسرے ہاتھ میں پکڑے گجروں کو دیکھا اور سختی سے اپنی کلائ چھڑائ۔
"ارے باجی غصہ کیوں ہوتی ہو ہم سچ کہہ رہا ہوں تمہارا کلائ۔۔۔"
"خبردار!! شرم نہیں آتی تمہیں باجی بھی کہتے ہو اور کلائیاں بھی دیکھتے ہو۔۔" اس نے فوراً غصے سے اسے جھڑکا۔
"اے باجی۔۔ ہم پٹھان ہوں۔ چھوٹا خان کہتے ہیں سب ہم کو۔" اس نے سینہ تان کر تھوڑا اترا کر کہا۔" ایسا ویسا سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔" وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا کر دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔
"اچھا باجی۔۔" ردا نے گردن گھما کر پھر سے اسے گھورا۔" ارے نہیں دیکھ رہا تمہارا کلائ۔۔" وہ ہڑبڑاتے ہوئے بولا وہ پھر سے دبی دبی ہنسی۔۔" ہم تم کو تیسری دفعہ یہاں دیکھ رہا ہوں۔۔ تم آتی ہو اور آدھے گھنٹے بعد چلی جاتی ہو وجہ بتائو گی؟؟"
"یہاں جو بھی آتا ہے تم اسے صرف گجرے بیچتے ہو یا اس کی تشریف لانے کی وجہ بھی پوچھتے ہو؟؟" اب کی بار وہ صرف اسے دکھانے کے لیے غصے سے بولی تھی۔
"ہم تو کسی کو یوں منہ نہیں لگاتا اپنا کام کرتا ہوں اور اندھیرا چھاتے ہی گھر کو روانہ ہو جاتا ہوں۔۔" وہ اب ڈنڈے پر گجروں کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔۔
"تو تم یہی کام کرتے ہو پڑھائی وڑھائ نہیں کرتے کیا؟؟" پتہ نہیں کیوں مگر اس کا دل کیا وہ اس چھوٹے خان سے مزید باتیں کریں۔
"او باجی۔۔ دو وقت کی روٹی مل جائے ہم غریب کے لیے یہی بہت ہے۔۔ پڑھائی وڑھائ کو گولی مارو۔۔ مورے کہتی ہے یہ امیروں کا شوق ہے غریبوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔" وہ نہایت ہی افسوس سے بول رہا تھا۔
"مم۔۔ مورے کون؟؟" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھے گئ۔
"مورے یعنی ماں۔۔"
"اور کیا کہتی ہے تمہاری مورے؟"
"اور جی وہ کہتی ہے گجرے سارے بیچ کر آنا۔۔ اب خرید لو نا۔۔" وہ بڑی معصومیت سے بولا تھا۔
"اچھا یہ ایک کتنے کا دیتے ہو؟؟" ردا نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
"او باجی لینا ہے تو دو لو نا اللہ نے دو کلائیاں دی ہوئی ہیں تم کو شکر ادا کرو اور دونوں پہنو۔۔"
"شکر تم نے یہ نہیں کہا کہ اللہ نے دو پیر بھی دیے ہیں ان پر بھی پہنو۔۔" وہ ہونہہ کے انداز میں بولی۔
"اس پر تو پازیبیں پہنتے ہیں باجی تم کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔۔" وہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا تو ردا نے حیرت سے اسے دیکھا اور سر جھٹک کر رہ گئ۔۔
"اب تم نے صرف دانت نکالنے ہیں یا قیمت بھی بتانی ہے؟؟" وہ چڑھتے ہوئے بولی۔
"ایک گجرہ سو روپے کا لیکن اگر تم دو لو گی نا تو ہم تم کو ڈیڈھ سو میں دو دوں گا۔۔"
"تو تم دو پہنا کے ہی چھوڑو گے۔۔چلو دے دو۔۔" چھوٹے خان نے خوشی خوشی دونوں گجرے نکال کر اسے دیے تو آخر اس نے پہن لیے اور شولڈر کراسنگ بیگ میں سے اسے دو سو روپے نکال کر تھمائے۔
"باجی ڈیڈھ سو بولے تھے۔۔" وہ دو سو سو کے گلابی نوٹ دیکھتے ہوئے بولا۔
"اصل قیمت دو سو بنتی ہے تو پوری لو۔۔" چھوٹے خان نے کندھے اچکا کر پیسے قمیض کی جیب میں ڈال لیے۔
"اچھا یہ بتاؤ تمہاری مورے کے علاوہ اور کون کون رہتا ہے تمہارے ساتھ؟؟" وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔
"بس مورے کے علاوہ کوئی نہیں رہتا ۔۔" ردا نے اس کے لہجے میں چھپے ہوئے کرب کو ضرور محسوس کیا تھا۔۔
"تمہارے بابا اور کوئ بہن بھائی وغیرہ؟؟" اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"ابو تو بہت پہلے ہی دنیا سے چلا گیا تھا اور ہم اکلوتا ہوں۔۔" وہ عام سے لہجے میں بولا تھا۔ ردا کو لگا شاید اسے پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔
"پھر بھی تم خوش نصیب ہو تمہارے پاس تمہاری مورے تو ہے نا میرے پاس تو دونوں نہیں ہیں۔۔" وہ دکھی انداز سے بولی ۔ سامنے ایک چٹان تھی تو وہ اسی پر بیٹھ گئ۔
"اوو تبھی تو تم اتنا اداس ہوتی ہو۔۔ ایک بات تو بتائو۔۔" وہ اس کے سامنے ہی کھڑا ہو گیا۔۔ "تم روتی رہتی ہو نا؟؟"اس کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر چھوٹے خان کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔
"ہوں۔۔" وہ مختصراً بولی اور نظریں جھکا گئ۔۔
"مورے کہتی ہے مرنے والوں کے پیچھے روتے نہیں ہوتے اللہ خفا ہو جاتا ہے۔۔"ردا نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جب ان کی یاد آتی ہے تو رونا تو آجاتا ہے نا۔۔" وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
"مورے کہتی ہے اگر مرنے والے کی یاد آئے تو اس کے لیے دعا کیا کرو۔۔ بہت ساری دعا کیا کرو۔۔ ان کو ثواب بھی ملے گا اور تمہارا دل کو سکون بھی۔۔"
"پھر بھی تمہیں نہیں لگتا اللہ نے غلط کیا ہے ماما بابا کو بھی اپنے پاس بلا لیا میرے تایا ابو بھی معزور ہو گئے۔۔" وہ خفگی سے بولی تو چھوٹا خان ایک دم اس پر بھڑک پڑا۔
"ہائے باجی۔۔ توبہ کرو جلدی سے توبہ کرو۔۔ مورے کہتی ہے اللہ سے بس دعاکرتے ہیں اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔ اس سے گلے شکوے نہیں کرتے۔۔" وہ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھے گئ۔
"میں گلہ نہیں کررہی میں تو بس۔۔" اس کے الفاظ گڈمڈ ہونے لگے۔
"وہ رب الکائنات ہے۔ اس کے فیصلوں پر سوال نہیں کیا کرتے۔۔ صبر شکر کرتے ہیں۔۔ مورے کہتی ہے وہ بہتر جانتا ہے اپنے فیصلوں کو۔۔ انسان کی کیا اوقات جو اس سے گلے شکوے کرے۔۔" وہ اس کی باتوں سے خاصا متاثر ہو رہی تھی۔
"اور کیا کہتی ہے مورے؟؟" وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے اس سے پوچھنے لگی۔
"مورے تو ہر دن کچھ نا کچھ کہتی رہتی ہے۔ اب تم تو یہاں آتی جاتی رہتی ہو۔۔ ہم پھر کبھی تم سے باتیں کروں گا ۔ ابھی اگر وقت پر گھر نہ پہنچا تو جو مورے ہمیں کہے گی نا وہ ہم تم کو بتا بھی نہیں سکوں گا۔۔" وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تیز قدم لیتے آگے گیا پھر رک کر اس کی طرف گھوما۔۔
"خوبصورت آنکھوں کو رونا نہیں چاہئیے۔۔" تیز ہوا کی وجہ سے وہ تھوڑی اونچی آواز سے بولا۔
"یہ بھی مورے کہتی ہے؟؟" وہ بمشکل ہنسی دبائے بولی۔
"نہ مڑے۔۔اللہ نگہبان ۔۔" وہ ہاتھ ہوا میں ہلاتے وہاں سے بھاگ گیا۔ وہ اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی تبھی اس کی نظر دور سیاہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑے ایک لڑکے پر رکی جو سگریٹ کے کش بھرتے ہوئے مسلسل اسے ہی گھور رہا تھا۔ وہ جو بھی تھا بہت ہی بری طرح سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس طرح سے گھورنے والوں کے لیے ردا کے دل میں ان کی ٹانگیں توڑنے کا خیال آتا تھا لیکن جن نظروں کے حصار میں وہ آج تھی ان نظروں نے اسے زندگی میں پہلی بار بری طرح خوفزدہ کیا تھا۔ وہ سر جھٹک کر اپنے کپڑے جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئ۔ اب اسے گھر جانا تھا ورنہ اس کے انتظار میں بیٹھی مورے جو اس کا حشر کرے گی تو اسے اس کی اپنی مورے یاد آجائے گی۔۔ ووہ ہنستے ہوئے وہاں سے چلی گئ۔۔ پیچھے سمندر کی لہریں ویسے ہی شور مچا رہی تھیں اور وہ نظریں۔۔ وہ نظریں ہنوز اس پر ٹکی تھیں۔

●●●●●●●●●●●

دو دن بعد:
جہانگیر ہاوس میں شادی کی تیاریاں اپنے پورے عروج پر تھیں۔ آج عابس جہانگیر کی بارات تھی۔ پورا گھر ریڈ اور وائٹ تھیم میں خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ڈیکوریشن کے لیے سرخ اور سفید پھولوں کا استعمال کیا گیا تھا۔گولڈن لائیٹس اور عین درمیان میں لگا بڑا سا فانوس گھر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔ سیڑھیوں کی ہینڈ ریلنگ کی ڈیکوریشن میں بھی سفید اور سرخ پھولوں کا ہی استعمال کیا گیا تھا۔ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔
"اففف نازو سستی مت دکھائو تیز تیز ہاتھ چلائو۔۔۔" آمنہ بیگم اپنے سامنے ٹیبل پر گفٹس اور مٹھائیوں کے ڈبے سمیٹ کر رکھ رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ نازو کو بھی ڈانٹے جا رہی تھیں۔ اسی دوران کبیر نظریں ہاتھ میں پکڑےموبائل پر مرکوز کیے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوا تو ناہیدہ بیگم اسے بھی غصے سے گھورنے لگی۔۔
"تم ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے؟؟" کبیر نے ان کی آواز پر سر اٹھا کر انہیں دیکھا جو اسے تیوڑیاں چڑھائے دیکھ رہی تھیں۔ اس نے بلو ڈینم جیکٹ اور وائٹ پینٹ پہن رکھی تھی۔ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔ پھر ان کی نظر سیڑھیوں سے اترتی جویریہ پر پڑی۔
"دیکھا میری بیٹی تیار بھی ہو گئ ہے۔۔" وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ کبیر نے ایک نظر اسے دیکھا اور اگلے ہی پل رخ پھیر گیا ظاہر ہے اسے ایسا ہی کرنا تھا کیونکہ سامنے والی لڑکی جویریہ تھی انابیہ نہیں۔۔ سرخ رنگ کی ریشمی ساڑھی کا پلو دوسری طرف سے پکڑے وہ کسی ماڈل سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں لگا گہرا کاجل اور میک اپ سے لدا چہرہ اسے بظاہر بہت خوبصورت دکھا رہا تھا۔۔ہلکے ہلکے قدم لیتے وہ اس سے تھوڑا دور مگر سامنے کھڑی تھی۔ آمنہ بیگم بھی اٹھ کر تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں۔ ان کے جانے کے بعد وہ بلکل اس کے قریب ٹھیک اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔
"کیسی لگ رہی ہوں؟؟" اس نے بڑی معصومیت اور امید سے پوچھا۔ کبیر نے نظریں اٹھا کر اسے سر تا پیر اس سرخ ساڑھی میں ملبوس دیکھا پھر طنزیہ سا ہنس دیا۔
"خونی۔۔ قاتل۔۔ میری محبت کا خون کرنے والی!!" اس نے جویریہ کو دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ سختی سے کہا۔ جویریہ کے چہرے سے مسکراہٹ چھن سے غائب ہوئ۔ چہرے پر ناگواری سی چھا گئ۔
"سن لی تعریف؟ اب ہٹو یہاں سے۔۔" وہ ایک کڑی نظر اس پر ڈالتے وہاں سے چلا گیا اور جویریہ کے جسم میں تو جیسے کوئی حرکت باقی نہ رہی تھی وہ وہیں بے یقینی کے عالم میں کھڑی رہی۔ پلٹ کر جانے ہی لگی تھی کہ دروازے سے اندر آتی ہوئ ایک لڑکی کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئ۔
"فائزہ۔۔" بے ساختہ اس کے ہونٹ ہلے۔ ایک خوف سا اس پر طاری ہو گیا تھا اس کے اچانک یہاں آجانے کی توقع اسے بلکل نہیں تھی۔فائزہ فاتحانہ انداز سے مسکراتے ہوئے اس کے سامنے آئ۔ جویریہ کو لگا وہ ڈراؤنا خواب دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا مجھے دیکھ کر تمہارے چہرے کے رنگ ڈھنگ کیوں اڑ گئے؟؟" اس کا انداز طنزیہ تھا۔
"تم۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟" بظاہر اس نے چہرے کے تاثرات چھپانے کی ناکام کوشش کی۔
"میں تمھارے گھر پر نہیں ہوں کبیر کا گھر ہے یہ اور شادی والا گھر ہے تمھیں یہ سوال نہیں پوچھنا چاہئیے۔۔" اس کی اس بات پر جویریہ گہرا سانس بھر کر رہ گئ۔
"نہیں میرا مطلب۔۔۔"
"تمھارا جو بھی مطلب ہے مجھے اس سے کوئ سروکار نہیں ہے۔۔ میں کبیر سے ملنے آئ ہوں۔۔" انداز سپاٹ تھا۔
"کیوں؟؟" ایک خوف ایک خدشہ سا لاحق ہونے لگا تھا اسے۔۔ فائزہ نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا جیسے وہ اسے بتانا ضروری نہیں سمجھتی تھی۔۔" چلی جائو یہاں سے فائزہ۔ " حلق میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے ہوئے وہ بولی۔
"کیوں تمہیں کس چیز کا خطرہ ہے مجھ سے؟؟"وہ سینے پر ہاتھ باندھے اسے دیکھے گئ۔ "میں بس جاننے آئ ہوں کہ تم نے کبیر سے کیا کہا تھا جو اس نے وہ ویڈیو عبید کو بھیجی۔۔کیونکہ میں جانتی ہوں تم نے ضرور اسے ایسا کچھ کہا ہے میرے خلاف ورنہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے والا انسان نہیں ہے۔۔" وہ تیزی سے بولے گئ۔
"نہیں !! میری آج منگنی ہونی ہے اس سے ۔ میں نے بہت انتظار کیا ہے اس وقت کا۔ میں اپنی منزل کے بہت قریب ہوں تم ایسا کچھ نہیں کرو گی میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔۔" وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بےبسی سے بولی۔ "تم نے میری بہت مدد کی تھی تم بھی تو چاہتی تھی نا کہ کبیر صرف میرا ہو۔ اب تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔۔ چلی جائو۔۔" اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
"میں نہیں جائوں گی۔۔" وہ ٹس سے مس نہ ہوئ۔
"تمہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے فائزہ تمہیں میں نے انوائٹ کیا ہے کسی اور نے نہیں۔۔" جویریہ کے پیروں تلے زمین نکل گئ کیونکہ اس کے عقب میں جو آواز تھی وہ کبیر جہانگیر کی تھی وہ ابھی تک اسی حلیے میں تھا۔۔ اس میں مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئ۔وہ چلتا ہوا اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ نظروں کا رخ فائزہ پر تھا۔۔
"اس نے سارا الزام تم پر ڈالا تھا کہ تم نے مجھ سے بدلہ لیا ہے۔۔ کیا ایسا ہے؟" وہ فائزہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔ جویریہ نے کرنٹ کھا کر اسے دیکھا۔
"غلط۔۔ میں نے تم سے کوئ بدلہ نہیں لیا ۔۔" جویریہ کا دل کیا کہ وہ اسی وقت وہاں سے غائب ہو جائے۔۔ کہیں بھاگ جائے۔ "میں نے یہ سب ایک دوست کے لیے کیا تھا اور میں نے صرف اس کی مدد کی تھی اسے صرف انفارمیشن دی تھی باقی سب اس نے خود کیا ہے۔۔ یہ گئ تھی اس کے فادر کے آفس اس نے وہاں جھوٹ بولا تھا کہ یہ تمہاری منگیتر ہے ۔ اس نے انابیہ کے کیریکٹر پر کیچڑ اچھالا تھا۔۔ لیکن میں یہ نہیں کہتی کہ میں تمھاری گناہگار نہیں ہوں۔۔" اور یہ وہ وقت تھا جس کے آنے کا جویریہ کو کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ یکدم زمین پر زور سے پٹخ دی گئ تھی۔ اس کے قدم لڑکھڑانے لگے تھے۔۔ تنفس بھاری تھا سانس لینا مشکل تھا۔۔ کبیر نے افسوس بھری نگاہوں سے جویریہ کا سفید پڑتا چہرہ دیکھا۔۔
"میں نے تم لوگوں کی پکچرز بنوائی تھیں کسی سے اور کوستی ہوں خود کو کہ کس ڈائن کے لیے میں یہ سب کرتی رہی ہوں۔ مجھے میرے کیے کی سزا ملی ہے اور اب بھی مل رہی ہے میں ساری زندگی عبید کے دل میں جگہ نہیں بنا سکوں گی۔۔ تم نے بہت اچھا کیا کبیر میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا لیکن میں اکیلی کیوں سزا بھگتوں؟ یہ بھی بھگتے گی مجھ سے زیادہ بھگتے گی۔۔" اس نے نفرت سے ہاتھ اٹھا کر شہادت کی انگلی کا رخ جویریہ سلطان کے چہرے کی طرف کیا۔
"کس سے بنوائی تھیں تم نے پکچرز؟؟" کبیر نے ایک ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔
"نبیل سے۔۔ اس نے کی تھی میری مدد۔۔" وہ نظریں جھکائے ندامت سے بولی۔۔
“ڈیم!!شٹ!!!" کبیر نے دانت پر دانت جمائے اپنی ہتھیلی پر مکا مارتے ہوئے کہا۔۔"اسی وقت اس کو جان سے مار دینا چاہیئے تھا جب وہ بیا کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔۔" وہ نہایت غصے میں بول رہا تھا۔۔فائزہ نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
" وہی نبیل جس کے شرافت کے قصیدے پوری یونیورسٹی میں مشہور ہیں ۔۔ ایک نمبر کا۔۔" بولتے بولتے اسکی کی زبان کو بریک لگی اور گہرا سانس لیتے نظریں پھر سے جھکا گئ۔ " میں اچھے سے جانتی ہو ں اس کو جھوٹا ہے وہ۔۔"
"افسوس ہوتا ہے تم دونوں پر مجھے ۔۔تم دونوں کو ذرا ترس نہیں آیا مجھ پر کیا بگاڑا تھا میں نے تم دونوں کا۔۔" کبیر کو اپنی آواز کمزور ہوتی ہوئ محسوس ہوئ۔
"مجھے معاف کر دو کبیر۔۔ جب تک تم معاف نہیں کرو گے میری سزا کم نہیں ہو گی۔۔" فائزہ منت بھرے لہجے میں اس سے کہنے لگی۔ کبیر نے کچھ نہیں کہا وہ خاموش رہا۔
"چلی جائو فائزہ۔۔" بمشکل کبیر کے لب ہلے تھے۔۔ فائزہ مایوس کن نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔" تمہارا شکریہ کہ تم نے آکر مجھے سب بتایا میری تکلیف کم ہوگی تو میں ضرور اس وقت تمہیں معاف کر دوں گا۔۔ اور جب تک نہیں ہوگی تم دونوں بھی اسی طرح تکلیفوں میں جکڑی رہو گی۔۔" فائزہ کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے اور سر اثبات میں ہلاتے وہ بمشکل قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئ۔۔ اس کے جاتے ہی کبیر جویریہ کی طرف گھوما۔ تیزی اور بےدردی سے اس کا بازو جکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔ وہ درد سے کراہ کر رہ گئ۔۔ آنکھوں میں ڈھیروں آنسو تھے۔۔
"میں تمہارا کبھی نہیں ہو سکتا۔ موم کو یہ سب بتا دوں گا۔۔ تمہارا میری زندگی میں آنے کا خواب چکنا چور۔۔ تھینکس ٹو فائزہ کہ اب میں موم کو آمادہ کر سکتا ہوں ورنہ یو نو واٹ۔۔ میں تم سے منگنی کر نے کے لیے تیار تھا کیونکہ میں نے ہار مان لی تھی مگر شاید میں بھول گیا تھا کہ میں کبیر جہانگیر ہوں۔ انا کا سخت برا۔۔ بلا کا ضدی۔۔" جھٹکے سے اس کے بازو کو چھوڑا اور سیڑھیاں عبور کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ جویریہ وہیں فرش پر گر کر بیٹھ گئ۔۔ آنسو زاروقطار اس کا چہرہ بھگو رہے تھے وہ بری طرح سے ہاری تھی۔۔

●●●●●●●●●●●

کمرے میں پہنچتے ہی کبیر نے کچھ دیر سوچتے سمجھتے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی سکرین روشن کر کے سامنے کی اور کال ملائ۔ فائزہ لٹکے ہوئے چہرے کے ساتھ گیٹ سے باہر آئ۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا سامنے سکرین پر کبیر کا نام دیکھ کر وہ کچھ حیرت کا شکار ہوئ اور پھر اگلے ہی لمحے کال اچک کر فون کان سے لگایا۔
"کہاں ہو تم؟؟" کبیر تیزی سے بولا۔
"میں باہر گاڑی کے پاس ۔۔ اگر تمہیں بات کرنی ہے تو میں اندر آجائوں؟؟" وہ چہرے پر امید لیے بولی۔
"نہیں تم گاڑی میں بیٹھ جائو مجھے تم سے بس ضروری بات کرنی ہے۔۔" اس کی بات سنتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھ گئ اور ڈرائیور کو چلنے کا کہا۔
"تم نے کہا تھا کہ نبیل نے تمہاری مدد کی تو کیا اسے کوئی مجبوری تھی آئ مین اس نے یہ کام پیسوں کے لیے کیا یا کوئی دھمکی وغیرہ دے کر تم نے اس سے یہ کام کروایا؟؟" وہ ماتھے پر بل لیے کمرے میں ٹہلتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"نہ ہی وہ مجبور تھا نہ ہی اسے پیسوں کی ضرورت تھی اور نہ ہی میں نے اسے کوئ دھمکی دی تھی۔ وہ سب تو میں نے۔۔" وہ تھوڑا رکی اور کبیر کو اس کا رکنا بلکل پسند نہیں آیا۔۔
" بولو میں سن رہا ہوں۔۔" انداز تھوڑا سخت تھا۔
"میں نے اپنے ایکس بوائے فرینڈ کے تھرو یہ سب کروایا نبیل اس کا بہت اچھا دوست تھا تو۔۔" اس کی بات پر کبیر نے گہرا سانس لیا۔
"تم لوگ محض دوستوں کے کہنے پر دوسروں کی زندگی کیوں برباد کرتے ہو؟ غلط صحیح کیوں نہیں دیکھتے؟؟" فائزہ نے ندامت اور شرمندگی کے مارے سر جھکا دیا۔۔ “خیر تمہیں معافی چاہئیے تھی نا؟؟" اس کے اگلے جملے پر اس کا چہرہ پھر سے اٹھا۔
"ہاں کبیر جب تک تم معافی نہیں دو گے اللہ بھی مجھے معاف نہیں کرے گا۔۔" وہ تیزی سے بولی۔
"لیکن سب جانتے ہیں کبیر بغیر فائدے کے کسی کو کوئ چیز نہیں دیتا۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
"سمجھ گئ تمہیں مجھ سے کیا چاہئیے کبیر؟؟ میں دوں گی۔۔" وہ فوراً مان گئ۔
"ود ان فائیو منٹس مجھے وہ سب فائلز، ویڈیوز ،پکچرز وغیرہ وغیرہ۔۔ جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے نبیل کے خلاف۔۔ مجھے اپنے موبائل میں چاہئیے۔۔"انداز تحکمانہ تھا۔ فائزہ کچھ پل بول نہیں سکی۔
"مگر میرے۔۔" کبیر نے درشتی سے اس کی بات کاٹی۔۔
"تمہارے پاس ہے آئ نو۔۔ جس اعتماد سے تم نے نبیل کے کیریکٹر کے بارے میں سب اندر کہا تھا مجھے یقین ہے تمہارے پاس کچھ نا کچھ ضرور ہے۔۔۔" وہ بڑے اعتماد سے بولا تھا۔
"لیکن اس نے یہ سب دوست کے کہنے پر کیا تھا تم۔۔" کبیر نے پھر سے اس کی بات کاٹی۔۔
"یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔۔ تم نے بھی تو دوست کے کہنے پر سب کیا تھا نا میں نے تمہیں بخشا ؟؟نہیں نا تو اسے کیسے چھوڑ دوں۔۔ میری تم میں سے کسی کے ساتھ کوئ دشمنی نہیں تھی تم لوگوں نے بلاوجہ میری زندگی۔میں مداخلت کی ہے فائزہ۔۔" اس کی آواز اب کافی اونچی تھی اور لہجہ حد سے زیادہ سخت۔۔" اس کی اس نقلی شرافت کا جنازہ تو اب میں نکالوں گا۔۔ تم یہ کام کرو گی یا میں فون رکھوں؟؟"
"میرا نام تو نہیں آئے گا نا دیکھو میں پہلے ہی بہت کچھ بھگت چکی ہوں۔۔" حلق میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے ہوئے وہ بولی۔۔
"جہاں تک مجھے علم ہے تم آج کی فلائٹ سے کینیڈا واپس جا رہی ہو۔۔" وہ رکا۔ " تم اپنے ڈیڈ کو کینیڈا ساتھ لے جانے کے لیے آئ تھی اور تمہارا اب یہاں کوئ نہیں ہے یعنی تم پاکستان آخری دفعہ آئ ہو۔۔ تو سوچو نبیل تمہارا کیا بگاڑ لے گا۔ پھر بھی بلیو می تمہارا نام نہیں آئے گا۔۔" فائزہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ وہ کچھ پل پھر سے خاموش رہی ۔ وہ اپنے دشمنوں کی اتنی خبر صرف اس لیے رکھتا تھا تاکہ ان کو آسمان سے زمین پر پٹخ سکے۔
"ٹھیک ہے مگر ٹائم بڑھا دو۔ کیونکہ جو چیزیں تمہیں درکار ہیں وہ میرے لیپ ٹاپ میں ہیں۔۔"
"اور تمہارا لیپ ٹاپ کہاں ہے؟؟"
"میرے پاس گاڑی میں ہی۔۔"
"اوکے دس منٹ۔۔ تمہارے پاس دس منٹ ہیں اس سے زیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔۔" وہ موبائل پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولا۔
"اور پھر تم مجھے معاف کر دو گے نا۔ پلیز کبیر دل سے۔۔"
"نو منٹ۔۔ ہری اپ فائزہ۔ یو ڈونٹ ہیو مچ ٹائم۔۔۔" تیزی سے کہتے اس نے کال کاٹ دی۔ فائزہ نے گہرا سانس لیتے تیزی سے ساتھ پڑا لیپ ٹاپ ہاتھوں میں لیا اسے جلد از جلد یہ کام کرنا تھا۔۔
ٹھیک دس منٹ میں اسے فائزہ سب کچھ بھیج چکی تھی۔ موبائل کی سکرین اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ وہ بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ایک ایک پکچر اور ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ ان میں ایسا کچھ ضرور تھا جو اس معاشرے میں نبیل کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ہر وقت جھوٹی شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔
"چچ چچ آج کل کے منافق لوگ۔۔" سر جھٹکتے ہوئے اس نے دوبارہ ایک نمبر ملایا۔ کال فوراً اٹھا لی گئ تھی۔
"ایک ضروری کام ہے عاصم۔۔"
"حکم۔۔" اس کے کانوں میں عاصم کی آواز گونجی اس نے عاصم کو سمجھا دیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ فون بیڈ پر اچھالتے وہ وارڈروب کی طرف گیا۔ اپنے کپڑے نکالے اور واش روم میں گھس گیا۔

●●●●●●●●●●●

وہ اپنے کمرے کی بالکونی کے دروازے سے ٹیک لگائے اور ہاتھ سینے پر باندھے دھوپ میں کھڑی تھی۔ دھوپ کی روشنی کمرے میں پھیل رہی تھی۔ وقفے وقفے سے وہ بیڈ پر پڑی اسی نیلی فائل کو گردن گھما گھما کر دیکھ رہی تھی۔ آج دو دن ہو گئے تھے اور وہ اب تک کوئ فیصلہ نہیں کر پائ تھی۔ ان دنوں میں جہانگیر صاحب کافی دفعہ کال بھی کر چکے تھے جس پر وہ بس ان سے سوچنے کے لیے مزید ٹائم مانگتی رہی تھی۔ ناصر صاحب نے بھی اس سے کافی دفعہ اس حوالے سے بات کی تھی اور انکو بھی وہ یہی جواب دیتی رہی۔ وہ انہیں سوچوں میں گم تھی اسی دوران ردا کمرے میں آئ۔ بیڈ پر پڑی اسی فائل کو دیکھ کر وہ سر جھٹک کر رہ گئ۔۔
"اب اتنا مشکل فیصلہ بھی نہیں ہے جو آپ نہیں کر سکتی۔۔" اس نے ردا کی آواز پر گردن گھما کر اسے دیکھا جو ہاتھوں میں نوڈلز کا بائول لیے کھڑی تھی۔ کارپٹ پر جس جگہ دھوپ پڑ رہی تھی ردا وہیں جا کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ۔ اب فورک کی مدد سے وہ نوڈلز کھا رہی تھی۔
"میرے ساتھ بیٹھ جائیں۔۔" ردا نے نظریں اٹھا کر اس سے کہا تو وہ اس کے ساتھ اسی کے انداز میں بیٹھ گئ۔ اس نے نوڈلز کا بائول اس کے سامنے پیش کیا تو اس نے فوراً انکار کر دیا۔ وہ کندھے اچکا کر کھانے لگی۔
"میں آپ سے ضروری بات کرنا چاہتی تھی "
"کہو میں سن رہی ہوں۔۔" نظریں جھکائے وہ کارپٹ پر بنے پھولوں کے ڈیزائن پر اپنی انگلی پھیر رہی تھی۔۔
"اسے کال کر لیں۔۔" ردا نے نظریں ملائے بغیر کہا تھا۔ انابیہ نے برق رفتاری سے کارپٹ پر سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
"کیوں؟؟" اسے تعجب ہوا۔
"کیوں کا کیا مطلب ہے آپ اسے یاد کرتی ہیں نا۔۔" وہ اب بھی بائول میں فورک چلائے جا رہی تھی نظریں ہنوز جھکی ہوئیں تھیں۔۔
"ہم اس بارے میں بات کیوں کر رہے ہیں؟؟" لہجہ تھوڑا بہت سخت تھا۔
"میں بس چاہتی ہوں آپ خوش رہیں۔۔ ایک کام کر لیں یا اسے کال کر لیں یا بزنس یس کریں۔۔" اب کی بار اس نے نظریں اٹھا کر انابیہ کو دیکھا۔
"پہلی بات میں خوش ہوں۔۔ دوسری بات کبیر اور بزنس کا آپس میں کوئی کنیکشن نہیں ہے۔۔"
"آپ کے منہ سے اب بھی اس کا نام کتنا اچھا لگتا ہے۔۔" ردا نے مسکراتے ہوئے کہا تو انابیہ نظریں چرا گئ۔ "آپ اس سے اب بھی عشق کرتی ہیں نا۔۔" ردا نے ہلکی سی مسکراہٹ لیے پیار بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔۔
"نہیں میں اس سے صرف محبت کرتی ہوں۔۔" اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ ردا کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئ۔۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔ محبت عشق ایک ہی تو بات ہوئی بھلا۔۔ دونوں میں کیا فرق؟؟" وہ عجیب سی شکل بنائے پوچھنے لگی۔۔
"دونوں میں بہت فرق ہے۔۔" اس نے پھر نظریں کارپٹ پر جھکائے ہوئے کہا۔
"مثلاً؟؟" اس کے اصرار پر انابیہ کے لبوں پر پھر سے حرکت ہوئ۔
آمنہ بیگم کپڑے تبدیل کر چکی تھیں۔ ٹی پنک کلر ان پر کافی جچ رہا تھا۔ باقی تیاری ابھی بھی رہتی تھی تبھی ان کے دروازے پر دستک ہوئ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور سامنے کھڑے وجود کی حالت دیکھ کر دھک سے رہ گئیں۔ جس کا خوبصورتی اور نفاست سے کیا ہوا میک اپ اب کہیں سے خوبصورت نہیں لگ رہا تھا۔۔ آنکھوں میں لگایا ہوا کاجل بہہ بہہ کر اس کی آنکھیں اور چہرہ کالا کر گیا تھا۔
"جویریہ میری بچی یہ کیا حال کر دیا ہے تم نے اپنا؟؟" انہوں نے فکرمندی سے اسے بازوؤں سے پکڑ کر پوچھا۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھے گئ۔۔
"محبت میں ایک حد ہوتی ہے جبکہ عشق بےحد ہوتا ہے۔۔ اور جس چیز میں حد اور ایک توازن نہ ہو وہ صرف نقصان کا باعث بنتی ہے چاہے وہ کچھ بھی ہو آپ کے ایموشنز ہی کیوں نا ہوں۔۔" وہ کارپٹ کے ڈیزائن پر پھر سے انگلیاں چلاتے ہوئے بولی۔
"آپ کے بیٹے سے عشق جو کیا ہے یہ حال تو ہونا تھا۔۔" جویریہ رو نہیں رہی تھی لیکن مسلسل رونے کی وجہ سے اس کا گلہ بیٹھ گیا تھا۔۔ آمنہ نے بڑی نرمی سے اس کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر کمرے کے اندر کیا۔۔
"کبیر نے کچھ کہا ہے تم سے بتائو مجھے میں ابھی جا کر اس کی خبر لوں گی۔۔" انہوں نے اس کے بالوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"کوئی فائدہ نہیں ہوگا اب کوئی فائدہ نہیں۔۔" وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔۔ آمنہ نے پھر سے تڑپ کر اس کا چہرہ دیکھا۔
"میرے نزدیک محبت ایک پیارا اور خوبصورت جذبہ ہے لیکن عشق کی میری نظر میں کوئ اہمیت نہیں ہے۔۔ عشق میں صرف "میں "ہوتی ہے " میری زات" ہوتی ہے "خودغرضی" ہوتی ہے لیکن محبت میں یہ سب نہیں ہوتا۔۔ محبت میں "اس" کی خوشی کے لیے ہار مان لی جاتی ہے خود کوجھکا دیا جاتا ہے اور "اس" کی خوشی میں خود کو ڈھال لیا جاتا ہے۔۔" ردا کہنی ایک گھٹنے پر ٹکائے اور ایک ہاتھ گال پر رکھے بغور اسے دیکھ اور سن رہی تھی۔۔
"آج بھی اس کی زبان پر ایک ہی نام ہے۔۔ انابیہ ۔۔۔ انابیہ۔۔۔ انابیہ۔۔۔ میں کیوں نہیں ہوں؟؟ میرا نام کیوں نہیں ہے؟؟ میں نے پہلے محبت کی تھی۔۔۔ میرا کیا؟؟ میرے عشق کا کیا؟؟ میں نے کیا کیا نہیں کیا خالہ اس لڑکی کو اس کی زندگی سے نکالنے کے لیے۔۔ اس کے عشق میں کیا کیا منصوبے نہیں بنائے۔۔ آپ نہیں جانتی۔۔۔ آپ نہیں جانتی۔۔" وہ آخر میں چیخ پڑی تھی۔ آمنہ صدمے سے ایک قدم پیچھے ہوئ۔ ان کے بیٹے کی تکلیفوں کی وجہ یہ لڑکی ہے؟؟ جو خود ان کے سامنے سراپا تکلیف بنی کھڑی ہے۔
"محبت کو زوال نہیں ہوتا عشق کو زوال ہوتا ہے۔۔ محبت آپ کو رسوا نہیں کرتی عشق رسوا کرتا ہے۔۔ محبت تو سب سے کی جاتی ہے لیکن عشق میں صرف ایک کو بت بنا کر دن رات اس کی پوجا کی جاتی ہے۔۔ "
"میں نے جب سے ہوش سنبھالا میں نے اسے چاہا۔۔ دن رات صرف اس کا نام لیا۔۔ میری ذات کو فراموش کر کے صرف اس کا سوچا ۔ لیکن مجھے کیا ملا میری ذات میرے عشق میری محبت کو کیا ملا؟؟ دھتکار۔۔ میں یہ سب تو ڈیزرو نہیں کرتی تھی۔۔" آمنہ بیگم کو کھڑا رہنا مشکل لگا وہ دھک سے بیڈ کی پائنتی پر بیٹھ گئیں ۔ انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ شاید ایک خواب تھا جو جلد ختم ہوجائے گا۔۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا یہ سب ان کی بھانجی کا کیا دھرا تھا۔
"محبت وہ ہوتی ہے جو میں اس سے کرتی ہوں تم سب سے کرتی ہوں۔ میں تم سب کے لیے اسے چھوڑ سکتی ہوں۔۔ کیونکہ میں صرف محبت کرتی ہوں۔۔ اگر میں عشق کرتی تو خودغرض بن جاتی اور اپنی تمام محبتوں کو بالائے تاق رکھ کر ایک اس بت کے پیچھے چل کر سب فنا کر دیتی۔۔۔" وہ دونوں اب بھی سابقہ حالت میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھی تھیں۔
"میں نے اس لڑکی کے کردار پر الزام لگائے۔۔ اسے اس کے باپ کی نظروں میں گرایا۔۔ میں نے جھوٹ بولے۔۔ اس کے باپ کی بےبسی دیکھ کر میں بہت محظوظ ہوئی۔۔ لیکن مجھے پچھتاوا نہیں ہے سنا آپ نے مجھے پچھتاوا نہیں ہے۔۔ یہ میرے عشق کی انتہا تو دیکھیں خالہ میں سب تہس نہس کر دوں گی اس کے لیے صرف اس کے لیے۔۔۔" وہ ہنس رہی تھی وہ چیخ رہی تھی وہ دیوانی تھی۔۔۔آمنہ جھٹ سے اٹھی اور آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ اس کے چہرے پر دے مارا۔ وہ سرخ متورم اور غصیلی نظروں سے انہیں دیکھے گئ۔
"جو عشق کرتا ہے وہ اس عشق کو حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے تجاوز کر جاتا ہے وہ ہر گناہ کر جاتا ہے۔ اسے اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ گناہ کس نوعیت کا ہے بس وہ سوچنے سمجھنے کے صلاحیت سے فارغ ہو جاتا ہے۔۔"
" خود غرض لڑکی ہو تم۔۔ محبت کے نام پر کالک ملتے ہوئے تمہیں ذرا شرم نہیں آئ۔۔" وہ دبی دبی آواز میں اس پر غرائ۔۔ جویریہ نے لاچار نظروں سے ان کی سرد نظروں کو دیکھا۔
"میرے بیٹے کو تکلیف میں مبتلا کر کے تم کہتی ہو تم اس سے عشق کرتی ہو تو تھو ہے ایسے عشق پر۔۔" انہوں نے درشتی سے اسے بازوسے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔۔" کیسی لڑکی ہو تم؟؟ ایک لڑکی ہوتے ہوئے تم نے اس لڑکی کے کیرکٹر پر کیچڑ اچھال کر اسے اس کے باپ کے سامنے شرمندہ کروایا۔ کسی پر الزام لگانا اور جھوٹ بولنا کتنا گناہ ہے تمہیں اندازہ ہے؟؟ اس معصوم لڑکی کو میرے کبیر کی زندگی سے نکالنے میں تمہارا ہاتھ تھا۔۔ آئی کانٹ بیلیو اٹ۔۔۔" ان کا لہجہ حد بدرجہ سخت تھا۔
"میں تمہیں اچھی اور معصوم لڑکی سمجھتی تھی لیکن تم نے کیا کیا؟؟ تمہیں صرف اپنی تکلیف دکھائ دے رہی ہے۔۔ جو تکلیف تم نے کبیر کو دی ہے اس کا کیا؟؟ اس لڑکی کی تکلیف کا کیا ہاں؟؟؟ صرف میں۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔" وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہی تھیں۔۔ جویریہ انہیں تر آنکھوں سے خاموش بت بنے بس انھیں دیکھے گئ۔۔
"کسی کو زبردستی خود سے محبت نہیں کروائ جاتی۔۔ کسی کی زندگی میں زبردستی شامل نہیں ہوا جاتا۔۔ اپنے دل پر اختیار ہوتا ہے دوسروں کے دلوں پر نہیں۔۔ تم اس کی خوشی میں خوش ہو جاتی نا تب میں مانتی تمہاری محبت سچی ہے لیکن تم نے ثابت کر دیا تمہیں صرف خود سے محبت ہے۔۔ تم اپنے دل کی تسکین کے لیے بس اسے حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔ تو دیکھ لو جویریہ سلطان وہ تمہیں نہیں ملا اور نہ ہی ملے گا۔۔" انہوں نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔ " کوئی منگنی نہیں ہوگی۔۔ میں اپنے بیٹے کی محبت کی قاتلہ کو اس کی زندگی میں شامل نہیں ہونے دوں گی۔۔۔ جائو جو کرنا ہے کر لو۔۔ تم تو سب کر سکتی ہونا۔۔دفع ہو جائو یہاں سے۔۔ اوجھل ہو جائو میری نظروں سے ورنہ شادی والا گھر ہے میں تمہاری اصلیت سب کو بتانے میں ذرا دیر نہیں کروں گی۔۔" آمنہ نے تیزی سے اسے بازو سے پکڑا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے اسے کمرے سے نکال دیا۔

وہ دونوں بس کچھ دیر خاموش بیٹھی رہیں تبھی اس خاموشی کو ردا کی آواز نے توڑا۔۔
"کیا پتہ وہ بھی آپ کو یاد کرتا ہو۔۔ اب تو عالیان نامی مشکل بھی ختم ہو گئ ہے جب کوئ رکاوٹ نہیں ہے تو خود کو اس سے دور کیوں رکھا ہوا ہے؟ کیا پتہ وہ بھی آپ کی طرح تکلیف میں ہو۔۔" کہتے ہوئے اس نے ناگواری سے اپنے نوڈلز والے بائول کو دیکھا جو اب خالی ہو چکا تھا۔
"میں ڈرتی ہوں۔۔ کیا ہوگا اگر وہ مجھے پہچاننے سے انکاری ہو جائے۔۔ کیا ہوگا اگر وہ مجھ سے کہے کہ اسے مجھ سے نفرت ہے۔۔ کیا ہوگا اگر وہ کہے کہ انابیہ مر گئ ہے اس کے لیے۔۔"
"کیا ہوگا اگر وہ کہے کہ واپس آجائو انابیہ۔۔ کیا ہوگا اگر وہ کہے کہ میں تمھاری یاد میں مر رہا ہوں۔۔" ردا تیزی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔ انابیہ کے چہرے پر کرب سا ابھرا۔ "ایک دفعہ کال کر لیں پھر آگے آپ کی مرضی۔۔" وہ اٹھ کر چلی گئ انابیہ وہیں بیٹھی رہی خاموش۔۔ دل تو اس کا بھی تھا کہ ایک دفعہ بات کر لے مگر تایا ابو۔۔۔ وہ ان کے لیے آخری امید تھی۔۔ اسے ان کا سہارا بننا تھا۔۔ وہ اپنا سب کچھ اسے سونپ رہے تھے اس پر بھروسہ کر رہے تھے۔۔افف ردا کس مصیبت میں پھنسا گئ تھی اسے۔۔ وہ سر جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئ ایک گھوری فائل پر ڈالی اور اسے اٹھا کر الماری میں پٹخ دیا جبکہ یہ اس کا خواب تھا مگر وہ اس سب کے لیے تیار نہیں تھی۔ جن ٹراماز سے وہ گزری ہے اسے لگتا تھا وہ اب کچھ نہیں کر سکے گی اس کا دماغ کام کرنا بند ہو گیا ہے وہ اب اپنا کوئ خواب اچیو نہیں کر سکے گی۔۔ اس کا دماغ تو جیسے پھٹنے کو تھا۔ پھر جا کر بیڈ پر بیٹھ گئ۔ کچھ دیر وہ بلاوجہ سامنے ٹیبل پر پڑے ایکویریم میں تیرتی مچھلیوں کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کا زہن اپنے موبائل کی طرف گیا۔ بےساختہ نظریں گھما کر اس نے سائڈ ٹیبل پر پڑے اپنے موبائل کو دیکھا اور پھر اٹھا لیا۔ بنا سوچے سمجھے اس نے ایک نمبر ملا دیا۔ یہ اس کا دوسرا موبائل تھا یہ اس کا نیا نمبر تھا ۔ پھر اس نے کال ملا دی۔ ایک گہرا سانس بھر کر موبائل اس نے کان سے لگایا۔ رنگ جا رہی تھی یعنی اس نے اتنے عرصے میں بھی اپنا نمبر چینج نہیں کیا تھا بند نہیں کیا تھا۔ دل ہی دل میں اس نے شکر ادا کیا۔ اگلے ہی لمحے کال اٹھا لی گئ تھی۔
"ہیلو!! کون بات کر رہا ہے؟؟" اس کا دل عجیب طرح سے دھڑکنے لگا۔ اس کی آواز!!!! وہ آج بھی ویسی ہی تھی نرم!! دھیما لہجہ اس کا دل کیا کہ آج وہ بولتا رہے اور وہ سنتی رہے اس نے اپنی نم آنکھوں کو بند کر لیا۔
"کال کی ہے تو اب بولو بھی کون ہو؟؟" وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہونے میں مصروف تھا۔ جواب نہ ملنے پر اس نے فون کان سے ہٹا کر دیکھا کال اب بھی جاری تھی۔۔ دوسری طرف انابیہ نے آنکھیں کھولیں آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ہمت مجتمع کر کے اس نے لبوں کو ہلکی سی جنبش دی لیکن پھر فون میں سے آتی ایک آواز پر رک گئ۔
"کبیر جلدی تیار ہو بیٹا بارات لے کر جانی ہے لڑکی والے کیا سوچیں گے۔۔" آواز آمنہ بیگم کی تھی۔ اسے بات سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی تھی۔ تیزی سے فون کان سے ہٹایا اور کال کاٹ دی۔
"پتہ نہیں کیا فارغ لوگ ہیں۔۔" دوسری طرف کبیر اچانک کال کٹ جانے پر خاصا تپ کر بولا اور پھر سر جھٹک کر تیزی سے تیار ہونے لگا آفٹر آل اس کے بھائ کی شادی تھی۔۔ اسی دوران اسے عاصم کا میسج بھی آیا جس میں لکھا تھا کہ کام ہو گیا۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر سجی ۔
"اپنی یہ وائرل پکچرز اور ویڈیوز دیکھ کر دوسروں کے فوٹو شوٹ کرتے وقت وہ آئندہ ہزار بار سوچے گا۔۔" اور جب نبیل جیسے منافق لوگوں کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے نا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ وہ اب مطمئن سا اپنی تیاری میں مصروف ہو گیا۔
انابیہ کسی صدمے کی حالت میں بیٹھی رہی جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔" بارات۔۔ لڑکی والے۔۔اوو خدایا وہ شادی کر رہا ہے۔۔" یہ وہ پہلی بات تھی جو وہ جملہ سننے کے بعد تیزی سے اس کے ذہن میں آئ تھی۔ اس کا دماغ مائوف ہونے لگا تھا۔ چند مہینوں میں وہ اسے بھلا بیٹھا تھا اور اب شادی بھی کر رہا تھا وہ بھی اتنی جلدی۔۔ اس نے اسکا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔۔ لوگ تو سالوں انتظار کرتے ہیں اس کی چند مہینوں میں ہی برداشت ختم ہو گئ تھی۔۔کیا وہ اتنی جلدی بھلائ جا سکتی تھی؟؟ کیا اس کی محبت اتنی کمزور تھی؟؟ وہ تو نہیں بھولی چاہ کر بھی نہیں بھولی اسے تو وہ کیسے بھول گیا تھا ۔ اس کا دماغ شدید الجھن کا شکار ہو گیا تھا۔ طرح طرح کی باتوں نے سوچوں نے اس کے دماغ کو بری طرح سے جکڑ لیا تھا۔۔ آنسو ٹم ٹم اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔ وہ بےآواز رو رہی تھی۔۔ پھر رک کر اپنے آنسو پونچھنے لگیں۔۔ اس کا دل بری طرح سے زخمی ہوا تھا۔۔
"وہ سب بھلا کر اپنی زندگی میں آگے بڑھ گیا ہے تو میں کیوں نہ بڑھوں میرا بھی حق ہے۔۔" وہ مسلسل اپنے آنسو صاف کر رہی تھی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔ سوال یہ تھا کہ اسے شادی کی اتنی جلدی کس بات کی تھی؟؟ کیا وہ اس کی یادوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہا تھا؟؟ اس نے موبائل دوبارہ اپنے سامنے کیا جہانگیر صاحب کا نمبر ملایا اور فون کان سے لگا لیا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں کال اٹھا لی گئ تھی۔۔
"میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔ میں آپ کے ساتھ بزنس جوائن کروں گی۔۔" اس نے کال اٹینڈ ہوتے ہی کہا۔
"شکر آخر تم نے بہتر فیصلہ کر ہی لیا۔۔ میں ابھی تمہیں ہی کال کرنے والا تھا بہت ڈانٹنے والا تھا۔۔" وہ رک کر ہنسنے لگے۔۔ " خیر۔۔ ویلکم ٹو دی ورلڈ آف بزنس۔۔" وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔ کال کٹ گئ تھی۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد جہانگیر صاحب نے اس کے لیے کچھ پیپرز بھجوائے تھے جسے اس نے غور سے پڑھ کر سائن کر دیا تھا۔ وہ خوش تھی کیونکہ اب اس کے دل پر کوئ بوجھ نہیں تھا اب اسے کوئ خوش فہمی نہیں تھی کہ کبیر اسے یاد کر رہا ہوگا ڈھونڈ رہا ہوگا۔ اس نے اپنی آخری کوشش ضرور کی تھی وہ پرسکون تھی۔ اسے آگے بڑھنا تھا ہر میدان فتح کرنا تھا۔ ایک آخری دفعہ اس نے اپنی نم آنکھیں مکمل طور پر صاف کیں۔
اس کی زندگی میں اب ایک نیا چینج آیا تھا۔ وہ ہر روز صبح تیار ہو کر یونیورسٹی جاتی پھر گھر آکر فریش ہو کر سیدھا آفس چلی جاتی۔ جہانگیر اسے ہر چھوٹی بڑی چیز سمجھاتے تھے۔ کچھ دنوں اسے کافی مشکل لگ رہا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ سب سمجھ رہی تھی۔ وہ بزنس کی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی۔ ایک نیا ماحول نئے لوگوں کے چہرے۔۔ وہ خود کو ایڈجسٹ کرنے کی بھرپور کوشش کرتی تھی اور خاصا کامیاب بھی ہوتی تھی۔ جہانگیر جو بھی میٹنگ اٹینڈ کرتے وہ اس میں ضرور شامل ہوتی۔ ان کا وے آف ٹاک ، وے آف پریزینٹیشن ، وے آف ڈسکشن اسے بہت متاثر کرتی تھی۔ ایک اور چیز اس نے ضرور سیکھی تھی Hypocritical لوگوں کی پہچان کرنا اور یہ کام وہ بزنس کی دنیا میں ہی سیکھ سکتی تھی۔ اب سارا دن اس کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا جو وہ رونے دھونے میں گزارتی۔ وہ اپنا یہ کام آدھی آدھی راتوں کو سرانجام دیتی تھی۔ سار ا دن تھک ہار کر بھی اسے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی کبھی جاگ کے گزارتی تو کبھی رو کر۔

●●●●●●●●●●

جاری ہے۔۔۔۔۔


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?