رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا یہ بھی بتا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش تو مٹا کر نہیں گیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"اسے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دیں موم۔۔" عابس ہاتھ میں چائے کا کپ لیے لان میں میں موجود چئیر پر بیٹھا تھا آمنہ بیگم بھی اس کے ساتھ ہی موجود تھیں ۔۔
"مجھے اس کی بہت فکر ہے۔۔" وہ اداسی سے بولیں۔۔
"کہا نا ٹھیک ہو جائے گا۔۔" اس نے پھر سے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھتے سر اثبات میں ہلایا۔۔ تھوڑی ہی دور اپنے کمرے کی گلاس ونڈو سے وہ باہر جھانک کر دونوں کو لان میں بیٹھا دیکھ رہا تھا وہ جانتا تھا کہ اس وقت اسی کی بات ہو رہی ہے اور ایسا اسے آمنہ بیگم کا اداس چہرہ بتا رہا تھا۔ وہ سارا سارا دن ایسے ہی کمرے میں رہتا زیادہ باہر بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ ایسے میں اسے ڈرائیو تو بلکل نہیں کرنی تھی اپنی ماں کے لیے وہ زیادہ پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہتا تھا۔ بمشکل آج صبح وہ بس تھوڑی سی واک پر گیا تھا لیکن جلد ہی واپس آکر اس نے بےنام سا ناشتہ کیا اور واپس کمرے میں آگیا اور اب جبکہ شام ہونے والی تھی وہ کمرے میں ہی تھا۔ گردن گھما کر اس نے پیچھے ٹیبل پر پڑے کچھ فروٹس کو دیکھا جو کچھ ہی دیر پہلے نازو آمنہ بیگم کے کہنے پر اس کے لیے چھوڑ کر گئ تھی۔ اسے کافی کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور اس کی وجہ وقت پر کچھ نہ کھانا تھا۔ پھر کچھ فیصلہ کرتے وہ اس فروٹس کی ٹرے کی طرف بڑھ گیا۔ صوفے پر بیٹھے اس نے ایک سیب اور چھری ہاتھ میں لی اور سیب کاٹنے لگا۔۔
"آہ ہ ہ ہ!!!!" ایک کراہتی ہوئ آواز اس کے منہ سے نکلی کیونکہ اسکے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی چھری سے بری طرح زخمی ہوئ تھی۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی انگلی سے کافی خون بہہ چکا تھا۔ سفید ٹائلز پر بھی خون کے کچھ قطرے گرے ۔ اس نے چھری اور سیب واپس رکھا اور اٹھ کر الماری کی طرف آگیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ فرسٹ ایڈ باکس نکالتا اس کی نظر سائڈ پر پڑے ایک چھوٹے سے سیاہ ڈبے پر پڑی۔ وہ تو جیسے سب بھول ہی گیا تھا بجائے فرسٹ ایڈ باکس اٹھانے کے اس نے وہ چھوٹا ڈبہ اٹھایا۔ ڈبہ کھولتے ہی اس میں رکھی چیز اس کی آنکھوں میں پھر سے نمی لانے لگی تھی۔ انابیہ کا وہی بریسلٹ جو اس نے زمین پر سے اٹھا کر اپنے پاس رکھا تھا۔ اس کو نکال کر ہاتھ میں پکڑ کر اپنے سامنے کرکے دیکھنے لگا۔ وہ نازک ستاروں والا بریسلٹ اب صرف اس کی یادوں سے ہی بھاری محسوس ہورہا تھا۔ انگلی سے خون اب بھی بہہ رہا تھا مگر پرواہ کس کو تھی۔۔
"میں نے اسے تم سے اس لیے چرایا تھا کہ جب جب تمہیں نہ دیکھوں تو یہ مجھے تمہاری یاد دلاتا رہے۔۔" ایک کرب ایک درد اور دل میں اٹھتی تکلیف اسے پھر اس کی یاد دلانے لگے۔۔ اس کے پیچھے کھڑی الماری کی چمکیلی سطح اس کے غم زدہ چہرے کی عکاسی کررہی تھی اور وہ خود اس کے درد کو محسوس کر رہی تھی۔
"لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ اس چوری کی مجھے اتنی بڑی سزا ملے گی کہ ساری عمر اسی کو دیکھ کر تمہیں یاد کرنا میری قسمت میں لکھ دیا جائے گا۔۔" وہ اس بریسلٹ کو اپنے سامنے کیے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے کہہ رہا تھا۔
"لیکن بس اب میں تمہیں یاد نہیں کروں گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ بھی میرے پاس نہ ہو۔۔" وہ یہ کہتے غصے سے اپنی نم آنکھوں کو ڑگڑتا دوسری طرف کی بالکونی کی طرف بڑھا۔ بریسلٹ پھینکنے کے لیے اس نے اپنا ہاتھ زور سے ہوا میں اٹھایا لیکن کیا ہوا؟؟ پھر وہ ہاتھ آگے نہ بڑھا سکا وہ ہوا میں ہی رہ گیا اس کی ساری ہمت جواب دے گئ سارا غصہ کہیں دور جا مرا وہ اسی طرح اسکو اپنے ہاتھ میں زور سے جکڑے گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا۔ اس کا دل جیسے پھٹنے پر آگیا تھا آنسو اس کی آنکھوں سے زاروقطار بہہ رہے تھے اور اس بار وہ بے آواز نہیں بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اتنے دن اسکی آنکھیں نم رہیں لیکن آج وہ صحیح معنوں میں رو رہا تھا جو اتنا بوجھ اس کے دل پر کب سے تھا آج وہ سارا اتر رہا تھا۔ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے جکڑ رکھا تھا وہ کوئ پاگل سا لگ رہا تھا جس کا سب لٹ گیا تھا جس سے سب چھن گیا تھا۔ سب؟؟؟ سب ہی تو تھی انابیہ اس کے لیے سب کچھ ہی تو تھی اسے اور کسی سے غرض نہیں تھا وہ ہی نہیں رہی تو سب کا اس نے کیا کرنا تھا۔ وہ کافی دیر اسی طرح روتا رہا اور پھر جیسے تھک ہار کر چپ ہو گیا تھا۔ بہت کوشش کر کے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور لڑکھڑاتے قدم وہ کمرے میں آیا فرش سے ڈبہ اٹھایا بریسلٹ زور سے اس میں ڈالا اور اسے الماری کے اندر دے مارا۔ پھر دوبارہ سلائڈنگ ونڈوز سے باہر جھانکنے لگا۔ ایک ادھوری محبت کا قصہ مختصر ہوتا ہے لیکن اس کا درد بہت بڑا اور ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ایک دم سے اسے زور سے دروازہ کھلنے کی آواز آئ اور پھر ایک اور آواز!!
"تم جیسا گھٹیا اور بےوفا انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ایک لڑکی کیا چلی گئ تم سب کو بھول گئے میں کچھ دن اسلام آباد کیا چلا گیا تم نے میری ایک کال بھی ریسیو نہیں کی۔۔۔" عاصم غصے سے بھڑکتا اندر داخل ہوا تو کبیر کے تو جیسے ہوش اڑ گئے تھے وہ قدم اٹھاتا عاصم کے پاس چل کر جانے لگا جو نا جانے کب سے غصے میں بڑبڑائے جا رہا تھا۔۔
"تمہیں ذرا شرم نہیں آئ یہ سب کرتے کیا سمجھ رکھا ہے تم نے میں کوئ۔۔۔۔۔۔" الفاظ اس کے منہ میں رہ گئے جسم جیسے ساکت ہوگیا وہ ہل نہ سکا۔ کبیر چلتے چلتے زور سے اس کے گلے جا لگا اور ایک بار پھر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔۔ عاصم اپنی جگہ ویسے ہی کھڑا تھا کبیر کی رونے کی آوازیں اس کا دل جیسے چیر کر رہ گئیں اسے کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے وہ تو کبھی نہیں رویا تھا یہ اس کے لیے یہ بلکل ہی نئ سچویشن تھی جسکا سامنا اس نے کبھی نہیں کیا تھا یہ رونے کی آواز اس کے لیے بلکل نئ تھی جو اس نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔۔
"وہ کیوں چلی گئ ؟؟عاصم کیوں ؟؟ وہ مر جاتی۔۔۔ مگر یوں نہ جاتی۔۔ مجھے صبر آجاتا۔۔۔ وہ مجھے مار گئ ہے تو دفنا بھی جاتی۔۔" وہ کافی دیر اس کے ساتھ لگے روتا رہا اور وہ صرف اس کی سسکیوں کو سنتا رہا وہ کرتا بھی کیا کہاں سے لاتا تسلی بخش الفاظ ۔۔ کیسے اسے چپ کراتا۔۔ کیسے اسے کوئ امید دلاتا ۔۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگائے فرش پر چپ چاپ بیٹھے تھے۔ مکمل خاموشی تھی۔۔ آخر ایک طرف سے ٹوٹی۔۔۔
"تم روئے کیوں؟؟" عاصم اب بھی بے یقینی کے عالم میں بولا۔
" کیونکہ میں تکلیف میں ہوں اور اس تکلیف کو میں نے خود اپنے گلے کا ہار بنایا ہے۔ نام محبت ۔۔ کام صرف تباہ کرنا۔۔" دونوں کا رخ سامنے دیوار پر تھا۔۔
"پھر بھی میں نے تمہیں کبھی روتے نہیں دیکھا ۔۔"
"محبت ایسی ہی ہوتی ہے زیادہ تر رلاتی ہے۔۔" اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔۔
"تو پھر آگے کا کیا سوچا ہے کیا ساری زندگی یونہی گزارنی ہے؟؟" اب کی بار عاصم نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔۔
"کون ایسی زندگی گزارنا چاہے گا۔۔" وہ گہرا سانس بھرتے ہوئے بولا۔
"یہی تو بھول جائو سب۔۔"
"یہ سب سے مشکل کام ہے۔۔" وہ زخمی سا مسکرایا۔۔
"مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ۔ " نظریں ہنوز کبیر کے چہرے پر تھیں ۔
"میں ٹوٹے شیشے کی طرح چکنا چور ہو چکا ہوں تم شاید مجھے سمیٹ تو سکو لیکن کبھی جوڑ نہیں سکتے۔۔" خاموشی پھر سے حائل ہو گئ۔
"یونیورسٹی کب سے جانا شروع کرو گے؟" اس کی خاموش شکل دیکھتے ہوئے عاصم نے پوچھا۔
"اس جگہ نہیں جا سکتا جہاں صرف اس کے لیے جاتا تھا۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا۔۔
"میں تمہیں تمہارا فیوچر نہیں برباد کرنے دوں گا۔۔" انداز تحکمانہ تھا۔
"تو کیا کروں میں؟؟" یہ پہلی دفعہ تھا جو کبیر نے عاصم کو دیکھا۔۔
"ایک بیسٹ آپشن ہے میرے پاس۔۔" وہ یکدم بولا تو کبیر نے اسکی آنکھوں میں ایسے دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو
"لندن!!۔۔" وہ بولا تو کبیر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔ "ایسے کیوں دیکھ رہے ہو جہنم جانے کو نہیں کہا لندن کا کہا ہے۔۔"
"مگر کیوں؟؟"
"تم یہاں رہو گے تو ڈپریشن کے مریض بن جائو گے تمہیں ایک ڈیفرنٹ انوائرنمنٹ کی ضرورت ہے۔۔ لندن ٹھیک رہے گا۔۔" عاصم کو یہ بہترین حل لگ رہا تھا۔
"میں وہاں اکیلا رہوں گا تب بھی ڈپریشن کا مریض ضرور بنوں گا۔۔" اس نے نظروں کا زاویہ بدلتے ہوئے کہا۔۔
"ایک منٹ میں نے تو کہیں نہیں کہا کہ تم اکیلے جا رہے ہو۔۔۔" کبیر نے تیزی سے گردن گھما کر اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھا۔۔
"کیا مطلب ہے تمہارا؟؟"
"مطلب صاف ہے کہ میں بھی ساتھ جائوں گا تمہیں اکیلے بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتا۔۔" عاصم کندھے اچکاتے ہوئے بولا تو کبیر کی بھنویں تن گئ۔۔
"نو وےتم زارا کو کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہو؟؟"
"اب زارا کہاں سے آگئی بیچ میں؟؟ دیکھو کبیر ہم سب نے اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کر کے اپنا کیرئیر سیٹ کرنا ہے اینڈ آف کورس زارا کو بھی یہی کرنا ہے۔۔ شی کین ویٹ۔۔ اور میرے لیے محبت سے زیادہ اہم دوستی ہے جس کی تمہاری نظر میں کوئ اہمیت نہیں ہے۔۔" وہ روانی سے بولتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اور پھر مڑ کر اسے دیکھا تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔
"یہ میرا فائنل ڈیسیژن ہے اور تمہیں ایکسیپٹ کرنا ہوگا۔۔ جو سب میں نے آج دیکھا ہے یقین جانو میں مر کر زندہ ہوا ہوں کبیر۔۔۔ میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دے سکتا سمجھو۔۔۔" وہ نہایت سنجیدگی سے بولا تو کبیر ہلکا سا مسکرا دیا اور پھر سر اثبات میں ہلانے لگا۔۔ عاصم نے اسے غصے سے دیکھا۔۔ "بدتمیز!!" ایک سخت نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے تیز قدم لیتے چلا گیا۔۔
عاصم کے جانے کے بعد وہ مسلسل اس کے فیصلے پر غور و فکر کرتا رہا۔۔ کافی حد تک یہ سب کرنا اسے ٹھیک لگ رہا تھا لیکن پھر رک کر سوچتا کہ کیا پتہ وہ آجائے اور پھر سر جھٹک کر وہ بس یہی کہتا کہ اگر اسے آنا ہوتا تو اب تک آجاتی ورنہ جاتی ہی کیوں ایک کال تک بھی نہیں کی کال تو دور کی بات میسج تک کر کے بھی کچھ نہیں بتایا ۔۔ان ونوں عاصم نے دو دفعہ اس سے کال کر کے پوچھا بھی تھا جس پر اس نے مزید سوچنے کے ليے وقت مانگا۔۔ آخر دو دن بعد اس نے پکا فیصلہ کر لیا کہ وہ جائے گا اور یہ بات اس نے عاصم کو کال پر بتا دی تھی اب بس اسے گھر میں سب کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنا تھا اور اس کے ليے اس نے اگلے دن کا سورج طلوع هونے کا انتظار کیا۔۔
"یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟؟؟" ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی آمنہ بیگم نے اپنے بیٹے کے اچانک فیصلے پر حیرت سے پوچھا جبکہ عابس بھی ایسی بات کے لیے تیار نا تھا۔
"میں فیصلہ کر چکا ہوں موم۔۔" نظریں پلیٹ پر جھکائے آج وہ پہلے والے کبیر کی طرح بلکل فریش لگ رہا تھا۔۔
"یہ کیسا فیصلہ کیا ہے اور کیوں؟؟" آمنہ غصے اور پریشانی سے بولیں۔۔
"موم اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں ٹھیک اور خوش رہوں تو پلیز مجھے جانے دیں میں یہاں نہیں رہ سکتا مزید۔۔" نظریں اٹھا کر آمنہ بیگم کو دیکھا۔۔
"میرے خیال سے اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔۔" عابس نے جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔۔ "اگر تم وہاں خود کو سیٹ کر سکتے ہو تو اس میں واقعی کوئ برائ نہیں ہے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں۔۔"
"مگر عابس ۔۔۔" ان کی بات کاٹ دی گئ۔۔
"موم آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں وہ کوئ چھوٹا بچہ نہیں ہے اپنی زندگی کے فیصلے وہ خود کر سکتا ہے اور اسے کرنے دیں ویسے بھی عاصم ہوگا نا اس کے ساتھ میرے خیال سے کوئ ٹینشن کی بات نہیں ہے۔۔"
"اور جہانگیر صاحب؟؟ ان کو کیا کہو گے؟؟"
"وہ تو ویسے بھی چاہتے تھے کہ میں کسی انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ایجوکیشن حاصل کروں۔۔ جسٹ لائک برو!!" تاثرات نارمل تھے۔
"ہاں اور تم نے یہیں رہنے کی ضد کی تھی بھول گئے ۔۔ اچانک اتنے بڑے فیصلے کی کیا وجہ پیش کروں گی میں ان کو؟"
"تو جو سچ ہے سب بتا دیجئے گا مگر میرے جانے کے بعد۔۔۔ میں ان کا کوئ ری ایکشن نہیں دیکھنا چاہتا۔۔ فلحال آپ صرف اتنا بتا دیں کہ مجھے لندن جانا ہے۔۔۔" کہتے ساتھ اس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔۔
"تم تیاری کرو اپنی کبیر ڈیڈ کو میں سمجھا دوں گا سب ۔۔ مگر پلیز خود کو سیٹ کرو یہ سب میں برداشت نہیں کروں گا۔" کبیر نے اسکی بات پر سر اثبات میں ہلایا۔۔
"اچھا جیسے تم لوگوں کی مرضی لیکن کچھ دن رکو۔۔۔"
"رکنے کی وجہ؟؟" کبیر نے سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھا۔۔
"عابس کے لیے لڑکی دیکھی ہے رشتہ پکا ہو جائے تو تم چلے جانا۔۔" آمنہ بیگم نے پرسکون ہوتے ہوئے کہا جبکہ عابس نے کرنٹ کھا کر ان کو دیکھا۔۔ اور کبیر کی تو یہ خبر سنتے ہی بتیسی کھلی۔۔
"لڑکی بھی دیکھ لی یہاں تک کے رشتہ پکا کرنے کا بھی سوچ لیا اور مجھ غریب کو کوئ خبر ہی نہیں ہے۔۔" عابس نے نہایت افسوس بھرے لہجے میں کہا۔۔
" تمہیں خبر دے کر کیا کرتی اب بتا رہی ہوں نا تم نے پہلے بھی نخرہ ہی کرنا تھا ور اب بھی وہی کر رہے ہو۔۔ بس مجھے وہ لڑکی پسند ہے میری بہت اچھی دوست کی بیٹی ہے سرسری بات بھی ہو گئ ہے ایک دفعہ فائنل رشتہ لے کر جانا ہے بس۔۔۔" انکا لہجہ حتمی تھا۔۔
"واہ موم آپ نے تو ساری پلاننگ کر رکھی ہے۔۔" کبیر مسکراتے ہوئے بولا تو اگلے ہی لمحے عابس کی شعلہ وار نگاہوں نے اسے سیدھا ہونے پر مجبور کر دیا۔۔
"بس اب میں مزید کچھ نہیں سنوں گی ہر دفعہ تم لوگوں کی سننی پڑتی ہے بھولو مت میں ماں ہوں تم لوگ نہیں ہو میرے باپ۔۔" وہ دو ٹوک لہجے میں بولیں۔۔
"اب تو میں مٹھائی کھا کر ہی جائوں گا موم۔۔۔ چلیں برو پھر ہم دونوں ہی اپنی نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔۔" اس نے بمشکل اپنی ہنسی دبائے کہا۔ "موم دیکھیں بھائ بلش کر رہے ہیں۔" اس سے پہلے کہ عابس کوئ چیز اٹھا کر اس کے سر پر مارتا وہ فوراً سے اٹھ کر وہاں سے بھاگ گیا۔۔
"بدتمیز!! جاہل!! غصے سے میرا چہرہ سرخ ہو گیا ہوگا اور اسے دیکھو۔۔ موم دیکھیں بھائ بلش کر رہے ہیں!!۔۔ایڈیٹ!!" عجیب شکل بنائے وہ اسکی ہو بہو نقل اتارتے ہوئے نہایت غصے کے عالم میں بولا تو ساتھ بیٹھی آمنہ بیگم بھی ہنس دیں ۔۔
●●●●●●●●●●●●●
"آپ نے بلایا تایا ابو؟" کمرے کے ادھ کھلے دروازے کو دو انگلیوں کی پشت سے ناک کرتے اس نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔۔
"جی بچے اندر آجائو۔۔" بیڈ کے ساتھ کھڑے وہ ایک نیلے رنگ کی فائل ہاتھ میں پکڑے اس کا معائنہ کر رہے تھے تبھی انابیہ کی آواز سنتے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے۔۔
"سب سے پہلے تو ایڈمیشن کی مبارک ہو۔۔" لہجہ نہایت نرم۔۔ بیا سر کو خم دیے مسکرائ۔۔
"میں نے تمھارے لیے جو ڈرائیور لاہور بھجوایا تھا اسی کو بلوایا ہے پھر۔۔ تم پھر اسی کے ساتھ جائو گی۔۔" نظریں فائل پر مرکوز کئے ہوئے وہ بولے۔۔
"ڈرائیور نہیں گارڈ!!!" ناصر صاحب نے نظریں اٹھا کر سے دیکھا۔۔
"کیا مطلب ہے تمہارا؟؟" نظریں چراتے ہوئے نہایت انجان بننے کی کوشش کی گئ۔۔
"مطلب صاف ہے آپ جانتے ہیں کہ میں کسی پرسنل گارڈ کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہوتی آپ نے پھر بھی اسے بھجوایا۔۔ کوئ مجھ پہ نظر رکھے مجھے بلکل پسند نہیں ہے۔۔"
"وہ تم پر نظر نہیں رکھتا بس تمہیں بحفاظت یونیورسٹی پہنچاتا ہے۔۔ یقین کرو میں نے اسے اور اجازت نہیں دی۔۔"
"ایک یونیورسٹی ہی تو جاتی ہوں میں تایا ابو وہاں بھی میرے ساتھ ایک گارڈ جائے کیوں کس چیز سے خطرہ ہے ہمیں؟؟ ردا اور مناہل کی وین والا بھی کوئی عام آدمی نہیں تھا میں جانتی ہوں۔۔"
"تم میرے ساتھ بحث کر رہی ہو؟؟" ان کے چہرے پر ناگواری سی چھائ۔۔
"آئ ایم سوری مگر پلیز آپ کوئ عام ڈرائیور ارینج کردیں میرے لیے۔۔"
"میں نے کہا نا بیا وہ تمھیں زیادہ تنگ نہیں کرے گا۔ تمہاری بات بلکل فضول ہے۔ It doesn’t make any sense "انہوں نے فائل بیڈ پر رکھی ۔
"تو پھر بتا دیں آخر کس سے خطرہ ہے مجھے جو ایک پرسنل باڈی گارڈ ہوگا میرے ساتھ؟؟" اس نے اپنا لہجہ مضبوط کرتے ہوئے کہا۔۔
"اب سے تم کہیں بھی جائو گی وہ تمہارے ساتھ ہوگا۔۔ مجھے سختی کرنے پر مجبور نہیں کرو۔۔ رہی بات خطرے کی تو بہت جلد پتہ چل جائے گا تمہیں۔۔" لہجے میں تھوڑی سختی تھی مگر آواز دھیمی۔۔
"ٹھیک ہے نہ بتائیں میں بھی نہیں جائوں گی یونیورسٹی۔۔۔" وہ سینے پر ہاتھ باندھے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی۔۔
"یعنی تم نہیں مانو گی۔۔" اس نے اسی طرح ہاتھ باندھے گردن دائیں اور بائیں نہ میں گھمائ۔۔
"احمد عالم کی سب سے بڑی بیٹی اور آپ کی سب سے بڑی بھتیجی ہوں۔ سوچ لیں پھر۔۔" اسے اس طرح اپنے سامنے بارعب کھڑا دیکھ کر ناصر صاحب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔۔
"اچھا ٹھیک ہے تم جیتی میں ہارا۔۔ کوئ گارڈ نہیں ہوگا لیکن پھر تمہیں پک اینڈ ڈراپ میں خود دوں گا۔۔" انابیہ یکدم سیدھی ہوئ۔۔
"آپ سچ کہہ رہے ہیں؟" اسے اس بات کی خوشی تھی ۔۔
"بلکل۔۔"
"مگر آپ کا آفس ڈسٹرب ہوگا میری وجہ سے۔۔" اسے تھوڑی بہت شرمندگی بھی تھی اور خوشی بھی۔۔
"کوئ بات نہیں ۔ اب ہر بات میں تمہاری ہی تو نہیں مانوں گا احمد عالم کا بڑا بھائ اور تمہارا ہی تایا ہوں۔۔" اب کی بار انہوں نے بھی ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا تو انابیہ فوراً سے ہنس دی۔۔
"ایسے ہی ہنستی رہا کرو پریشان مت ہوا کرو جو بھی ہوگا ہم دونوں بھائ دیکھ لیں گے۔۔ بس اپنی سٹڈیز پر فوکس کرو بہت کچھ سوچ رکھا ہے میں نے تمہارے لیے۔۔ اور ہاں اپنا ٹائم ٹیبل شئیر کر دینا مجھے۔۔" انکے لہجے میں اتنی نرمی اور آنکھوں میں اپنے لیے اتنا پیار دیکھ کر اسکی آنکھیں لمحہ بھر کے لیے نم ہوئیں لیکن خود پر ضبط کرتے وہ مسکرا دی۔۔
"رہی بات ردا اور مناہل کی تو انکا کالج تو کچھ ہی فاصلے پر ہے وہ میرا ڈرائیور دیکھ لے گا۔۔ اب میں چلتا ہوں میری ایمپورٹنٹ میٹنگ ہے۔۔" دوبارہ سے فائل بیڈ پر سے اٹھائ اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے وہ وہاں سے چلے گئے ۔
●●●●●●●●●●●●●●●
"آپ اپنے وعدے پر قائم رہیں گی نا؟؟" جویریہ دیوار سے ٹیک لگائے کچن میں کام کرتی آمنہ بیگم سے مخاطب تھی۔۔
"میں نے کوئ وعدہ نہیں کیا جویریہ۔۔ مگر ہاں میری پوری کوشش ہوگی کہ جب وہ عابس کی شادی کے لیے واپس آئے گا تو اسی دن تم دونوں کی منگنی کر دوں گی۔۔" وہ پر سکون انداز میں بولی۔۔ " اچھا تم رکو میں ذرا اس کی پیکنگ میں مدد کرا دوں۔۔" وہ اس کے ساتھ سے ہو کر جانے لگی تو وہ فوراً ان کے سامنے ہوئ۔۔
"اگر آپ کہیں تو میں کرا دوں مدد؟؟" اس کے کہنے پر آمنہ نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا تو وہ فوراً زینے چڑھ کر اسکے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔
"ہاں ہاں میری تیاری مکمل ہے بس تم تھوڑی دیر تک آجانا۔۔" وہ فون کان سے لگائے عاصم سے بات کر رہا تھا اسی دوران جویریہ دروازے پر کھڑی کھنکھاری تو کبیر نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔۔
"تمہاری کوئ مدد کر دوں؟" وہ کمر پر ہاتھ باندھے اندر قدم رکھتے ہوئے بولی۔۔ جبکہ کبیر نے کوئ جواب نہیں دیا اور اپنا سامان سمیٹنے میں لگ گیا۔۔
"کم از کم جاتے ہوئے تو ناراض ہو کر مت جائو۔۔" اس نے بیڈ کے پاس فرش پر گری گھڑی اٹھا کر اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔۔ کبیر نے سرد نظروں سے اسے دیکھا اور گھڑی اس کے ہاتھ سے جھپٹ لی۔۔
"ناراض ان سے ہوا جاتا ہے جن سے کوئ رشتہ ہو اور میرا جویریہ تم سے اب کوئ رشتہ نہیں ہے بہتر ہے جان لو۔۔ اور جائو یہاں سے کیوں آئ ہو؟" اسکی نظریں اس پر نہیں تھیں۔۔ جویریہ کے چہرے پر دکھ کے ڈھیروں سائے لہرائے۔۔
"اور میرا کیا جس کا ہر رشتہ تم سے شروع ہو کر تم پر ختم ہوتا ہے۔۔" اس سے پہلے کبیر اسے پھر کچھ بولتا اس نے ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا۔۔ "اوکے اوکے نہیں کہہ رہی کچھ گولی مارو مجھے۔۔" جبکہ کبیر کا بس چلتا تو وہ سچ مچ اسے گولی مار دیتا۔۔
"میں تمھارے لیے ایک گفٹ لائ تھی۔۔" اس نے کندھے پر لٹکے پرس سے ایک چھوٹا سا گلابی ڈبہ نکال کر اس کے سامنے کیا۔۔ کبیر نے ایک تیکھی نظر سے پہلے وہ ڈبہ دیکھا پھر جویریہ کا مسکراتا چہرہ اور اس کے ہاتھ سے مسکراتے ہوئے لے لیا جس پر جویریہ کے چہرے پر اک بہار سی آئ لیکن اگلے ہی لمحے وہ بہار خزاں میں بدلی کبیر نے وہ ڈبہ اٹھا کر دروازے کی چوکھٹ پر دے مارا۔۔ جویریہ نے خفگی سے اس ڈبے کو دیکھا لیکن اگلے ہی لمحے خود کو کمپوز کر گئ ۔۔
"تم نے فائزہ کے ساتھ بہت غلط کیا۔۔" کبیر ہنوز اپنے کام میں مصروف تھا۔۔ "اسکی پڑوسن نے مجھے بتایا کہ اس کے منگیتر کو کسی نے کوئ ویڈیو بھیجی تو اس نے رات و رات ہی اس سے نکاح کیا اور کینیڈا لے گیا۔۔ کتنے خواب تھے اس کے کوئ عزت نہیں رہی اس کی اسے قید کر کے رکھ دیا ہے اس نے۔۔ تمہیں ایسا نہی۔۔۔۔۔"
"ول یو پلیز شٹ اپ۔۔" کبیر قدرے اونچی آواز میں دھاڑا تو جویریہ ڈر کے مارے ایک قدم پیچھے ہوئ۔۔"مجھے کوئ شوق نہیں ہے تمھارا فائزہ نامہ سننے کا۔۔ اس کے ساتھ جو ہوا اسکی ذمہ دار وہ خود ہے بلکہ تم بھی ہو۔۔ اب دفعہ ہو جائو یہاں سے میرا موڈ آگے ٹھیک نہیں ہے۔۔" وہ ایک دم بھڑکا تو جویریہ کا تو جیسے وجود کانپنے لگا پھر کچھ دیر دونوں خاموش رہے۔۔ کچھ دیر بعد کبیر نے پھر اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ واقعی بڑی ڈھیٹ ہے۔۔ وہ ون آرم صوفے پر فرش پر نظریں جھکائے خاموش بیٹھی تھی کبیر کی پیکنگ مکمل ہو چکی تھی وہ سر جھٹک کر باہر جانے ہی لگا کہ اس کی آواز پر رکا۔۔
"جانتے ہو وہ کیوں گئ تمہیں چھوڑ کر۔۔" نظریں ہنوز فرش پر جھکی تھیں چہرے پر بے پناہ سنجیدگی تھی۔ کبیر نے مڑ کر نہیں دیکھا مگر اس کے قدم ضرور رکے تھے۔۔
"کیونکہ اسے تم سے محبت نہیں تھی۔۔ اور جانتے ہو تمھارے ساتھ یہ سب کیوں ہوا۔۔" وہ اٹھ کر اسکی طرف گھومی اور طنزیہ مسکرائ کبیر کی اسکی طرف پشت تھی۔۔
"کیونکہ تم کو سزا ملی ہے۔۔" وہ رک رک کر اپنے جملے مکمل کر رہی تھی۔۔
"میری سچی محبت ٹھکرانے کی سزا مجھے دھتکارنے کی سزا۔۔" آہستہ آہستہ اسکی آواز تیزہو رہی تھی وہ اب بھی نہیں مڑا۔۔
"اب تو تمہیں میرے جذبات کا احساس ہوا ہوگا نا کہ کس طرح تم نے مجھے تڑپایا ہے قدرت کو بھی مجھ پر ترس آیا تمہیں نہیں آیا۔۔" اسکے الفاظ میں طنز تھا جو کبیر کو سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی وہ تیزی سے اسکی طرف گھوما چہرہ غصے سے سرخ تھا۔۔
"تم جیسی گھٹیا لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔۔ میری زندگی اپنے ہاتھوں سے برباد کر کے تم یہ کہہ رہی ہو کہ مجھے قدرت نے سزا دی ہے۔۔" وہ غصے میں بھڑکتا ایک قدم آگے آیا۔۔
"میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔" جواباً وہ بھی بھڑکی۔۔
"چیخو مت۔!!!" آواز حد سے زیادہ اونچی تھی۔۔
"کیوں نا چیخوں تم مجھ پر الزام لگائو اور میں چیخوں بھی نہ۔۔" اسکی پتلی آواز کمرے کی دیواروں سے ٹکرائ۔۔
"جب بات کھل ہی گئ ہے تو بتائو کیا کیا تھا تم نے ہاں بتائو مجھے؟؟" وہ لمحہ بھر اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھے گئ۔۔
"فائزہ نے کیا سب یو نو واٹ اس نے یہ سب کیوں کیا کیونکہ وہ میری دوست تھی اس سے میرے آنسو دیکھے نہیں گئے۔۔ ہاں میں سب جانتی تھی مگر یہ سب پلان میرا نہیں تھا میرا ہاتھ نہیں تھا میں نے روکا تھا اسے وہ نہیں مانی۔۔۔" وہ بہت صفائ سے اپنی ہر بات سے مکر رہی تھی۔۔۔
"جھوٹی، مکار، دھوکےباز، کیا کیا ہو تم چچ چچ۔ تم نے دوستی اچھے سے نہیں نبھائ ضدی محبت کیا نبھاتی۔۔۔اپنی دوست کی زندگی تم نے برباد کی۔۔ میں نہیں مانتا کہ ان سب میں صرف اس اکیلی کا ہاتھ ہے کوئ کیوں بلاوجہ کسی کی زندگی میں انٹرفئیر کرے گا۔۔" جویریہ نے بہت سارا تھوک نگلا۔۔
"میں تمہیں پھر کہہ رہی ہوں میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔" وہ ایک بار پھر بھڑکی اس کا یہی بھڑکنا ہی تو کبیر کو یقین دلا گیا تھا۔۔
"تم میری زندگی میں کہیں ایگزسٹ نہیں کرتی میں تم سے شدید نفرت کرتا ہوں اتنی کہ میں تمھاری جان بھی لے سکتا ہوں۔۔" وہ سخت لہجے میں کہتا ایک قدم آگے آیا۔
"تو لے لو نا جان میری یہی تو ہے میری سزا جو میں نے تم سے محبت کی۔۔"
"افسوس جویریہ ۔۔۔ میں لعنت بھیجتا ہوں تمھاری محبت پر۔۔۔" جویریہ کا چہرہ مارے خفت کے سرخ ہونے لگا۔۔
"فائزہ کو اس کے کیے کی سزا ملی ہے۔۔ مکافات عمل دیکھو جویریہ اور اپنی سزا کا انتظار کرو۔۔ جسے تم سزا کہہ رہی ہو نا وہ میرے لیے آزمائش ہے محبت کی آزمائش جس میں میں اترنے کی پوری کوشش کروں گا۔۔ لیکن تم ساری عمر اسی روگ میں گزار دو گی اپنے کیے کا ایک ایک حساب دو گی۔۔ اگر اس سب میں تمہارا ہاتھ ہے نا تو اس دنیا کی آگ میں جلو گی تم ۔۔ اس محبت کی آگ میں جلو گی تم۔۔۔" اس نے ایک ایک لفظ سختی سے کہا اور باہر نکل گیا پیچھے جویریہ اس کی باتیں سن کر تو جیسے فریز ہو گئ تھی۔ وہ ڈری تو بلکل نہیں تھی مگر اس کے چہرے سے یہ انکشاف ضرور ہو رہا تھا کہ پیچھے وہ بھی نہیں ہٹے گی اور کہیں پر وہ بہت زیادہ خوش بھی تھی کہ اس نے ایک ہی وار کیا لیکن بہترین کیا۔۔ دوستی؟؟ دوستی کی فکر کس کو تھی اسے تو محبت سے غرض تھی جسے وہ غلط صحیح ہر طریقے سے حاصل کرنا چاہتی تھی۔ محبت میں خود کو جھکا دیا جاتا ہے خود کو ہرا دیا جاتا ہے مگر یہ جویریہ کی محبت تھی جو خود جیت کر کبیر کو ہرانا چاہتی تھی۔۔
●●●●●●●●●●●●●●●
دل ہی اس کو جانتا ہے جس پر گزرا ہے ہی حال
عشق کا صدمہ زبانوں سے بیاں نہیں ہوتا
چھ مہینوں بعد:
آکسفورڈ سٹریٹ کی فٹ پاتھ وہ سیاہ پولو شرٹ کے ساتھ ہلکے بادامی رنگ کی چینو پینٹس پہنے ارد گرد سے بیگانہ بس چلتا جا رہا تھا۔ اسکا دماغ کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا۔ عاصم اس کے ساتھ مسلسل اسے کچھ کہے جا رہا تھا مگر اس کی باتوں پر تو جیسے اس کا دھیان ہی نہیں تھا۔ دائیں اور بائیں طرف کی دکانیں اور لوگوں کے ہجوم کی رونقیں اپنے پورے عروج پر تھیں۔۔ آکسفورڈ سٹریٹ کو یورپ کی بہترین شاپنگ سٹریٹس میں شامل کیا جاتا ہے جہاں پر بیشتر دکانیں ہیں اور لوگوں کا ہجوم تو یہاں ہر وقت ہی رہتا تھا۔۔ اسے لندن آئے ہوئے اب تقریباً چھ مہینے ہو گئے تھے مگر اس کی حالت میں کوئ تبدیلی نہیں آئ تھی۔ وہ ویسا ہی تھا جیسا پاکستان سے لایا گیا تھا۔
"کبیر!!!" ایک آواز جس پر اس کے قدم رکے نظریں فٹ پاتھ پر تھیں۔ اس کے اردگرس سے سب کچھ عدم ہونے لگا۔۔
"کبیر!!!" آواز پھر سے آئ اس نے چہرہ اٹھا کر دائیں اور بائیں دیکھا اب تک جو لوگوں کا ہجوم تھا وہ تو جیسے غائب ہی ہو گیا تھا وہ تنہا وہاں کھڑا تھا صرف ایک آواز تھی۔۔ کوئ تھا جو اسے کب سے پکار رہا تھا۔ یکدم اسے لگا جیسے اس کے کپڑے بھیگنے لگے تھے اس نے چہرہ اوپر کر کے دیکھا بارش تھر تھر برسنے شروع ہو گئ تھی کب؟؟ کیسے؟؟ اسے کچھ سمجھ نہیں آئ۔۔
"کبیر سنو نا میں کب سے پکار رہی ہوں تمہیں۔۔!!" وہ سمجھ گیا آواز اس کے عقب میں سے آرہی تھی وہ مڑ کیوں نہیں رہا تھا اسے یہ بھی سمجھ نہیں آئ۔۔
"کبیر!! کبیر!!" بہت مشکلوں سے وہ اپنے پیچھے کی طرف گھوما اور پھر جیسے ہل نہ سکا۔۔ وہ وہیں تھی سڑک کے عین درمیان میں بارش کے نیچے ہاتھ ہوا میں پھیلائے وہ گھوم رہی تھی ہنس رہی تھی اس کے قہقہے کبیر کے کانوں سے ٹکرا رہے تھے اور وہ دم سادھے اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔ پھر گھومتے گھومتے اس نے رک کر مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلایا وہ ہلکا سا مسکرا دیا۔ کیوں نہ خوش ہوتا اس کے سامنے انابیہ تھی اور جہاں انابیہ ہو وہاں خوشی فرض کر دو۔۔ مسکرانا فرض کر دو۔۔ بمشکل خوشی میں پاگل ہوتے اس نے ایک قدم اٹھایا پھر دوسرا ۔۔ پھر تیسرا ۔۔ قدم تھے جو بڑھتے ہی جا رہے تھے بارش تھی جو تیز ہوتی ہی جا رہی تھی آنکھیں تھیں جو مسلسل آنسو بہا رہی تھیں ہونٹ تھے جو مسلسل مسکرائے جا رہے تھے دل تھا جو خوشی کے مارے پھٹا جا رہا تھا وہ اس کے سامنے تھی ایک بار پھر۔۔ وہ اسے بلا رہی تھی اور وہ جا رہا تھا بس تھوڑا فاصلہ باقی تھا یکدم وہ کسی چیز سے ٹکرایا اور پیچھے کو ہوا اپنا سر ملتے اس نے سامنے دیکھا۔۔ چیز؟؟ وہ کوئ چیز نہیں ایک بھاری وجود کا انسان تھا جو اسے تیوڑیاں چڑھائے گھورے جا رہا تھا جس سے وہ ٹکرایا تھا۔ اس نے آس پاس دیکھا لوگوں کی چہل قدمی ویسی ہی تھی وہ آدمی اسے گھور کر اس کے ساتھ سے ہو کر چلا گیا۔۔
"کبیر!!!" اس نے مڑ کر دیکھا عاصم دور سے اسے آوازیں دیتے ہوئے بھاگتا ہوا آرہا تھا۔۔
"کبیر کہاں رہ گئے تھے تم میں کب سے ڈھونڈ رہا تھا تمہیں تم تو میرے ساتھ تھے پھر یہاں کیوں رک گئے؟؟" وہ تیز تیز سانس لیتے ہوئے بولا جبکہ کبیر کا چہرہ یکدم ہی زرد پڑنے لگا۔۔
"عاصم وہ وہاں۔۔۔" اس نے دوبارہ گردن اسی سڑک کی طرف گھمائی جہاں ابھی کچھ سیکنڈز پہلے اسے بیا بارش میں بھیگتی ہوئ دکھائی دے رہی تھی لیکن وہاں وہ نہیں تھی۔۔
"کیا ہے وہاں؟؟" عاصم نے وہاں چلتی بس ، گاڑیوں اور لوگوں کو سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا۔
"وہ تھی وہاں کہاں گئ؟؟" وہ جیسے ہوش میں نہیں تھا عاصم کو پھر سے اس کی پریشانی ہونے لگی۔۔
"نہیں ہے وہ وہاں بلکہ کہیں نہیں ہے۔۔" اس نے کبیر کو کندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔
"ابھی بارش تھی دیکھو مم میں ۔ بھیگ چکا ہوں۔۔" پھر یکدم اپنے کپڑوں پر ہاتھ پھیرنے لگا وہ خشک تھے پھر آسمان کو دیکھا وہ صاف تھا۔ "مم مجھے کک کیا ہو گیا ہے؟؟" کبیر نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ٹوٹے ہوئے لفظوں میں کہا آواز رندھی ہوئ تھی۔۔ اسے اپنی ٹانگوں سے جان ختم ہوتی محسوس ہوئ۔ عاصم اسے پکڑے تھوڑا آگے بس سٹاپ تک لے کر گیا اور وہاں بٹھا دیا بس سٹاپ پر بیٹھے لوگ اس کی خراب ہوتی طبیعت دیکھنے لگے۔ ساتھ بیٹھے ایک لڑکے نے عاصم کو پانی کی بوتل پکڑائ جس کو اس نے تھینکس بولتے لے لیا اور کبیر کو پلانے لگا۔۔ کبیر نے کچھ گھونٹ پانی پیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کرنے لگا۔۔ عاصم بلکل اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔
"کیا ہو گیا تھا تمہیں کبیر؟؟"
"وہ میری زندگی سے جا کر بھی میرے دل و دماغ سے کیوں نہیں جاتی۔۔۔ وہ میرے ساتھ نہ ہو کر بھی کیوں میرے ساتھ ہے وہ کیوں نہیں چلی جاتی؟" وہ نہایت بے بسی سے چیخ رہا تھا۔۔ عاصم کو ایک بار پھر اس پر ترس آنے لگا۔۔
"کبیر میں اس خاطر تمہیں یہاں لایا ہوں کہ تم سب بھول جائو مگر تم۔۔" عاصم کی بات کاٹتے وہ ایک دم بھڑک اٹھا۔۔
"ماضی کی یادوں کو ذہن سے جھٹکنا آسان نہیں ہوتا پھر خاص کر کے پہلی محبت کو بھلانا۔۔ ایمپوسیبل!!۔۔ اس شخص کو بھلانا آسان نہیں ہوتا اسکی آوازیں، اسکی باتیں، اس کے قہقہے یہ سب پیچھا نہیں چھوڑتے خواہ انسان کچھ بھی کرے وہ کہیں بھی چلا جائے چاہے وہ پاکستان کا شہر لاہور ہو یا یو– کے کا شہر لندن ۔۔" چیختے ہوئے اسکا چہرہ سرخ ہونے لگا تو عاصم نے اس کے کندھے پر تھپکی دینے شروع کر دی۔۔
"اچھا ریلیکس ہو جائو پلیز کبیر۔۔!!" لہجہ نہایت التجائیہ تھا۔۔ کبیر نے نم ہوتی سرخ آنکھوں سے اسے خفگی سے دیکھا اور اٹھ کر وہاں سے جانے لگا عاصم سر جھٹک کر اس کے پیچھے چل دیا۔ انسان آگے بڑھ بھی جائے تو دل نہیں بڑھتا وہ وہیں رک جاتا ہے وہ وہیں اٹک جاتا ہے۔۔ بس ایک شخص پر۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
سٹڈی ٹیبل پر بیٹھے وہ مسلسل اپنی ڈائری کے صفحے پلٹ رہی تھی دفعتاً وہ اس صفحے پر رکی جس کے درمیان میں وہی گلاب کا پھول تھا جو کبیر نے اسے دیا تھا بس فرق صرف یہ تھا کہ اب اس پھول کی پتیاں مرجھا چکی تھیں بلکل ویسے جیسے ان کی محبت مرجھا چکی تھی۔ کمرے میں صرف ٹیبل لیمپ کی روشنی تھی باقی ہر طرف اندھیرا تھا۔ بالکونی کا دروازہ کھلا تھا جس سے ہلکی ہلکی ہوا اندر داخل ہو رہی تھی۔ نرمی سے اس سوکھے مرجھائے ہوئے پھول پر اپنا ہاتھ پھیر کر وہ پھر سے صفحے پلٹنے لگی۔ایک خالی صفحے پر رک کر اس نے سامنے پڑے ہولڈر سے ایک بال پوائنٹ نکالا اور اس پر لکھنے لگی۔۔
"لوگ کہتے ہیں موو آن کرنا آسان ہوتا ہے میرے نزدیک یہ سب سے مشکل کام ہے۔۔ اور جو لوگ کہتے ہیں نا کہ ہاں ہم نے موو آن کر لیا تو یا تو وہ اتنے حساس نہیں ہوتے یا خود سے جھوٹ بولتے ہیں خود کو تسلیاں دے رہے ہوتے ہیں جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے خود کو تسلیاں دینا چھوڑ دی ہیں۔ اگر میں اسے ان چھ مہینوں میں بھی نہیں بھلا سکی تو آگے بھی یہ نہیں کر سکتی۔۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اسے بھلا کر اب آگے بڑھا جائے لیکن نہیں میں یہ نہیں کر سکی۔۔ میرا دل بند ہو چکا ہے اب نہ اس میں کوئ اور داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی جو اسکے اندر ہے وہ اب باہر نکل سکتا ہے ۔ میرے خیال سے یہ بہتر طریقہ ہے۔۔ میری اللہ سے یہی دعا ہے کہ اس کیفیت سے بس وہ نہ گزرے اسے مجھے بھولنے میں آسانی ہو۔ ہو سکتا ہے وہ مجھے بھول گیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ اذیت میں ہو اور اگر ایسا ہے تو اللہ اس کی اذیت ختم کردے۔ میں اپنے لیے یہ دعا نہیں کرتی کیونکہ مجھے یہ اذیت بہت پسند ہے اسے یاد کرتے رہنا مجھے بہت پسند ہے اگر اسے یاد کرنا چھوڑ دوں گی تو شاید اگلے لمحے کی سانس بھی مجھ پر بھاری پڑ جائے۔۔۔" رک کر اس نے دیکھا کہ اس کی ڈائری کا صفحہ تقریباً اسکے آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آئ کب وہ اتنا رونے شروع ہوگئ۔ اسے لکھتے ہوئے بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ گیلے صفحے پر لکھ رہی ہے ۔ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اس نے اپنے چہرے پر سے آنسو صاف کیے اور پھر وہ بھیگے صفحے کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی۔۔ ایک زخمی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری اور دوبارہ اسی لائن کے آگے سے لکھنے لگی۔۔
"مجھے بس اپنی قسمت سے صرف ایک شکایت ہے کہ وہ میرے دل میں ہے دماغ میں ہے سوچوں میں ہے تو میری زندگی میں کیوں نہیں ہے۔ وہ ہر پل ہر لمحے میرے ساتھ ہو کر بھی میرے ساتھ کیوں نہیں ہے؟" مزید لکھنے کی ہمت اس میں نہیں رہی ڈائری کو بند کیا اور پیچھے کر کے رکھ دی بال پوائنٹ کو واپس اپنی جگہ پر رکھ کر وہ کچھ دیر ایسے ہی ٹیبل پر سر رکھ کر بیٹھی رہی۔۔ کچھ ہی دیر میں کمرے کی ساری لائٹس آن ہو گئیں وہ تیزی سے سیدھی ہوئ اور مڑ کر دیکھنے لگی جہاں سویچ بورڈ کے پاس ردا سینے پر ہاتھ باندھے اسے ہی گھور رہی تھی۔۔
"کتنی دفعہ کہا ہے آپ سے کہ اتنا گھپ اندھیرا کر کے مت بیٹھا کریں۔۔" وہ کچھ قدم اپنی جگہ سے ہلتے ہوئے غصے سے بولی۔۔
"میرے اندر اتنا اندھیرا ہے کہ مجھے اس اندھیرے سے فرق نہیں پڑتا۔۔" وہ کرسی پر سے اٹھتے ہوئے عام سے لہجے میں بولی۔۔
"لیکن مجھے فرق پڑتا ہے اندر گھستے ساتھ کسی چیز سے میرا پیر زور سے ٹکرا جاتا ہے آج تو بچ گئ۔۔" اس نے خفگی سے کہا جبکہ انابیہ ہنس دی۔۔
"زیادہ ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کیا یونیورسٹی سے آکر بس اس کمرے میں ہی رہتی ہیں باہر نکلا کریں۔۔ تایا ابو بھی کتنا خفہ ہوتے ہیں۔۔" وہ اسے ڈانٹ رہی تھی مگر انابیہ بلکل خاموش تھی اور اسکی یہ خاموشی دیکھ کر ردا کا پارا مزید ہائی ہو رہا تھا۔۔
"کوئ دوست وغیرہ ہی بنا لیں ایسا کب تک چلے گا؟" اس نے ایک ابرو اٹھا کر پوچھا۔۔
"میں نے دوست بنانا چھوڑ دیے ہیں۔۔" اداسی سے کہتے وہ سامنے کائوچ پر جا بیٹھی۔۔
"مگر کیوں؟؟" وہ وہیں کھڑے کھڑے پوچھنے لگی۔۔
"میں خود کو دوستی کے قابل نہیں سمجھتی۔۔ میں دوست بنا کر انہیں چھوڑ دیتی ہوں۔۔ ویسے بھی تم ہو نا مجھے نہیں ضرورت مزید کسی کی۔۔" ردا نے اس کی بات پر گہرا سانس لیا اور سر جھٹک کر رہ گئ۔
"سونے کی تیاری کرتے ہیں مجھے نیند آرہی ہے۔۔" ردا کہتے ساتھ بیڈ کی طرف بڑھی۔
"مجھ سے تایا ابو کا اداس چہرہ نہیں دیکھا جاتا۔۔" وہ نظریں فرش پر ٹکائے اداسی سے بولی۔۔
"پتہ نہیں کہاں ہیں عالیان بھائ کوئ احساس بھی ہے ان کو؟ ہمیں تو چھوڑیں کم از کم اپنے باپ کا ہی خیال کر لیں۔۔" عالیان کے حوالے سے ردا کا لہجہ ہمیشہ سخت ہی ہوتا تھا۔۔
"مجھے لگتا ہے وہ کسی مشکل میں نہ ہو۔۔" بیا نے نظریں اٹھا کر سامنے کھڑی ردا کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
'بس کر دیں آپی کیا مشکل ہو گی مزے میں ہیں وہ تو۔۔ وہاں جا کر سب کو بھول جاتے ہیں۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔۔ انابیہ اب کی بار کچھ نہیں بولی۔ ردا بیڈ میں خود پر کمبل اوڑھے سو گئ تھی اور وہ کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی پھر اٹھ کر پہلے بالکونی کا دروازہ بند کیا۔ پھر ساری لائٹس آف کیں اور پھر ردا کے ساتھ جا کر لیٹ گئ۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ کافی دیر کروٹیں بدل بدل کر وہ آخر کار اٹھ کر بیٹھ گئ۔ بیڈ پر سے اٹھ کر دروازہ کھول کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ راہداری بتیوں سے جگمگا رہی تھی۔ زینے اتر کر وہ سیدھا نیچے آگئ۔ آخری زینے پر رک کر اس نے دیکھا ریلنگ کے عین نیچے والے کمرے کے ادھ کھلے دروازے سے روشنی کی ایک دھار سی نکل رہی تھی۔ یہ ناصر صاحب کا سٹڈی روم تھا۔ وہ چپ چاپ دبے قدم اس کمرے کی طرف بڑھ گئ۔ خاموشی سے اس نے وہ دروازہ کھولا تو اندر جھانکنے پر اس کی نظر سامنے کھڑے ایک شخص کی پشت سے ٹکڑائ جو غالباً ہاتھ میں پکڑی ایک کتاب کی طرف جھک کر کھڑا تھا۔ وہ فوراً وہاں سے واپس پلٹنے لگی لیکن ان کی آواز پر رکی۔۔
"اب آہی گئ ہو تو اندر بھی آجائو۔۔" وہ اس کی طرف گھومے نہیں تھے اور کتاب کو واپس سے سامنے شیلف میں رکھتے ہوئے بولے۔۔
انابیہ نے بہت سارا تھوک نگلا اور ان کی طرف بڑھی۔۔" کمرے کی بتی جل رہی تھی تو۔۔ میں نے سوچا دیکھ لوں۔۔"
"سوئی نہیں تم ابھی تک؟" اب کی بار وہ اس کی طرف گھومتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔
"نہیں بس نیند نہیں آرہی تھی۔۔"
"آپس کی بات ہے۔۔ مجھے بھی نہیں آرہی تھی۔۔" وہ مسکراتے ہوئے بولے تھے جبکہ انابیہ بس حیرت سے انہیں دیکھے گئ۔ کیا وہ سب کچھ بھول گئے تھے؟ کیسے میں نے ان کا اعتبار توڑا تھا کیا وہ بھول گئے تھے؟
"چونکہ ہم دونوں کو نیند نہیں آرہی تو ہمیں ساتھ بیٹھ کر باتیں کر لینی چاہئے۔۔" وہ پھر سے مسکراتے ہوئے بولے۔ وہ کچھ نہیں بولی بس قدم اٹھاتے ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ ایک دو دفعہ وہ ٹھنڈ کی وجہ سے بری طرح کھانسی بھی تھی اور احمد صاحب نے مڑ کر سر جھٹک کر اسے دیکھا جو بس قمیض شلوار کے ساتھ پتلا سا دوپٹہ سر پر اوڑھے ہوئے تھی۔وہ صوفے پر بیٹھنے لگی تھی تبھی احمد صاحب نے اپنی شال اتار کر اس کے کندھوں پر ڈال دی۔ اس کے قدم ایک پل کے لیے پھر سے رکے۔ احمد اب اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔۔
"بیٹھ بھی جائو۔۔" ان کی آواز پر بلآخر وہ صوفے پر بیٹھ گئ۔۔"مجھے بہت خوشی ہے انابیہ تم نے میری ہر بات مانی ہے۔۔" اس نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا یعنی وہ کچھ بھی نہیں بھولے تھے ان کو سب یاد تھا ۔
"تم نے مجھ سے کبھی پوچھا نہیں کہ یہ سب مجھے کیسے پتہ چلا کس نے بتایا۔۔"
"جس نے بھی بتایا کچھ نہ کچھ غلط ہی بتایا۔۔" وہ بولنا نہیں چاہتی تھی بس بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا۔
"تم اب بھی یہی کہہ رہی ہو؟" وہ ایک ابرو اٹھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھے گئے۔
"معذرت کے ساتھ۔۔ آپ نے جو بھی کہا تھا میں نے کیا۔ اب یہ سب باتیں آپ کیوں دہرا رہے ہیں؟" اپنا لہجہ مضبوط کرتے ہوئے اس نے بمشکل کہا۔۔
"بیا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ تم جانو تم نے غلط انسان سے محبت کی تھی میری جان۔۔ تم نے غلط شخص کو اپنے دل کا مکین بنایا تھا۔۔" وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک بار پھر اسے تکلیف سے دوچار کرہے تھے۔۔
"جانتی ہو اس دن میرے آفس کون آیا تھا ؟؟تم جانو گی تو خود بھی حیران ہوگی۔۔" اس نے انہیں ایسے دیکھا جیسے وہ واقعی جاننا چاہتی ہو۔
"اس لڑکے کی منگیتر۔۔" انابیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔۔ "ہاں بیا اس کی منگیتر آئی تھی۔۔ کتنی بکواس کی تھی اس نے تمہارے بارے میں مجھ سے کچھ بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔" وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھے گئ۔
"کیا نام بتایا تھا اس نے اپنا؟؟" بمشکل اس نے سوال کیا۔
"جویریہ نام تھا اس کا۔۔" ایک لمحے کے لیے اس کا دماغ بھک سےاڑا تھا۔
(جویریہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔ جب سے اسے پتہ چلا ہے کہ میں کسی لڑکی میں انٹریسٹڈ ہوں اس نے فائزہ کو ہم پر نظر رکھنے کے لیے کہا ہوا ہے۔) کبیر کی آواز جیسے اس کی سماعتوں سے ٹکڑائ۔ وہ لمحے بھر کے لیے اپنے باپ کا چہرہ دیکھتی رہی۔
(بکواس کرتی ہے۔ جن سے محبت کی جاتی ہے ان سے جڑے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا اور میں جانتا ہوں وہ کچھ نا کچھ ضرور کرے گی۔ مگر میں دیکھ لوں گا اسے۔) اس کے کندھے یکدم ڈھیلے پڑ گئے۔ یعنی ان کی محبت کے خلاف سازش ہوئ تھی۔ وہ ٹھیک کہتا تھا وہ ضرور کچھ کرے گی اور اس نے کچھ نہیں بہت کچھ کر دیا تھا۔
"بیا تم ٹھیک ہو؟؟" وہ اس کا سفید پڑتا چہرہ دیکھ کر پریشانی سے پوچھنے لگے۔
"میں ٹھیک نہیں ہوں بابا۔۔ " وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے ٹرانس کی سی حالت میں بولی۔ کہتے ساتھ وہ اٹھ کر ان کے قدموں میں جا بیٹھی۔۔
"بابا۔۔" اس نے نرمی سے ان کو مخاطب کیا۔ احمد اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔ پھر اس نے ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا لیکن اب کی بار وہ رو نہیں رہی تھی۔
"میں نے غلط انسان سے محبت نہیں کی تھی۔۔" اس نے ایک بار پھر وہی جملہ دہرایا۔۔ " ہمارے خلاف سازش ہوئ ہے وہ لڑکی اس کی منگیتر نہیں تھی اور یہ بات مجھے وہ بہت پہلے ہی بتا چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی کزن ایسا ویسا کچھ ضرور کرے گی کیونکہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔۔" احمد صاحب یک ٹک اس کا چہرہ دیکھے گئے۔ اس کی آنکھوں کو پڑھتے گئے۔۔
" میں نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا بابا لیکن پھر بھی میرے دشمن بن گئے مگر اب سب پیچھے رہ گیا ہے اب کوئی فائزہ مجھے دھکا مار کر نہیں جائے گی۔۔ کوئ نبیل مجھے نقصان پہنچانے کے منصوبے نہیں بنائے گا۔۔ کوئی جویریہ میری راہ میں کانٹے نہیں بچھائے گی۔۔ کیونکہ یہ سب میری محبت کے دشمن تھے اور محبت میں زندہ دفنا آئی ہوں۔۔" بولتے بولتے اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے تھے اور اس کی آواز لڑکھڑانے لگی تھی لیکن وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی جبکہ احمد صاحب پچھتاوے کے ارد گرد گھرنے لگے تھے۔۔
"انابیہ اپنی منمانیاں کر کر کے تھک چکی ہے اب وہ صرف آپ کی مانے گی آپ کی سنے گی اور اگر آپ کی سنے گی تو کبھی نہیں پچھتائے گی۔۔ میری بات سنے نا بابا۔" ضبط ٹوٹ گیا اور آنسو بہہ نکلے۔۔ "اب ہم اس بارے میں بات نہیں کریں گے کیونکہ مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔ آپ سن رہے ہیں نا ہم اس بارے میں اب بات نہیں کریں گے۔۔ " وہ بہتے آنسوؤں سے ان کی منت کر رہی تھی۔ احمد نے بمشکل سر اثبات میں ہلایا۔
"مجھے آپ سے بہت محبت ہے بابا اور میں جانتی ہوں آپ نے مجھے معاف کیا۔۔" وہ ان کے ہاتھوں پر نرمی سے بوسہ دیتے اٹھ کھڑی ہوئ اور مڑ کر ایک گہرا سانس لے کر لڑکھڑاتے قدم وہاں سے چلی گئ۔ پیچھے رہ جانے والے شخص کی دنیا ایک دم اندھیر ہونے لگی۔ وہ پتھر کے مجسمے کی طرح بے حس و حرکت ویسے ہی بیٹھے رہے۔
"تو کیا مجھ سے اتنی بڑی غلطی ہوگئ؟؟ کیا میں نے اپنی بیٹی کی خوشی کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر ڈالا؟؟ کیا میں اسے سمجھ نہیں سکا؟؟ کیا میں پچھتا رہا ہوں؟؟" کتنی ہی سرگوشیاں وہ بیٹھے سنتے رہے۔۔ انہیں لگا اس کمرے کی در و دیوار انہیں الزام دے رہے ہیں ۔۔ انہوں نے جھک کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا اس پر اس کا لمس اب بھی موجود تھا۔۔۔
●●●●●●●●●●●●●
وہ مسلسل ننگے پیر سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تھی۔ کالی گھنی رات کے آسمان پر گرج چمک کے ساتھ تیز ہوائیں بھی تھیں۔ اپنے بازوؤں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑے خود کو خود ہی میں لپیٹے وہ لڑکھڑاتے قدم چل رہی تھی۔ٹھنڈ کی شدت کی وجہ سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے جسم لرز رہا تھا مگر وہ چلتی جا رہی تھی۔ دفعتاً اس کی نظر سامنے کھڑے گھنگھرالے بالوں والے لڑکے کی طرف رکی۔ پل بھر کے لیے وہ رکی اور پھر اس کے قدموں کی رفتار تیز ہوئ لیکن پھر اس کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر رک گئ۔ حواس شل تھے۔۔ جسم ساکت تھا۔۔ آنکھیں پوری کھلیں تھیں۔ اس لڑکے کے تھوڑا ہی آگے ایک اور شخص کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی پسٹل کا رخ اب اس شخص کی جانب تھا۔
"نہیں۔۔ عالیان!!" وہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھے گئ۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئ تھی۔ وہ چیخ نہیں سکی۔ تبھی عالیان نے گولی چلا دی۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے اندر ہی اندر چیخے جا رہی تھی۔ پھر ایک اور گولی کی آواز۔۔
" وہ مر جائے گا۔۔" وہ بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیے سڑک کے کنارے ہی بیٹھ گئ ۔
"مت کریں ایسا پلیز!!!" سر کو جھکائے اور نفی میں ہلاتے ہوئے وہ اسے پکارتی جا رہی تھی۔ پھر جیسے خاموشی ہو گئ تھی۔ تیز تیز سانس لیتے اس نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ پھر جو دیکھا تو خوف کے مارے پیچھے ہوتی گئ۔ عالیان کے چہرے اور ہاتھوں پر خون ہی خون تھا۔ وہ شاک کے عالم میں اسے دیکھتی گئ سانس جیسے رک سا گیا تھا۔ ہاتھوں کے سہارے وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے پیچھے پیچھے جا رہی تھی۔
"مت جائو پلیز۔۔" اس کی درد بھری آواز پر ردا کا پیچھے گھسیٹتا وجود رک گیا۔
"ردا۔۔ دیکھو میرے ہاتھوں پر خون ہے۔۔" وہ روتے چیختے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔
"میں نے قتل کیا ہے ردا۔۔۔" وہ پھر سے دھاڑا۔ ردا کا وجود اس بار ٹھنڈ نہیں خوف کی وجہ سے کانپنے لگا تھا۔ آنسو اس کا چہرہ مکمل طور پر بھگو چکے تھے۔۔
"ردا!!!!" انابیہ کی آواز پر وہ جھٹکے سے اٹھی۔۔ سانسوں کی رفتار تیز تھی دل کی دھڑکن تیز تھی چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ انابیہ نے فوراً گلاس میں پانی ڈال کر اس کے لبوں سے لگایا۔ اس نے تیزی سے پانی پیا جیسے عرصے کی پیاسی ہو۔ وہ روہانسی ہو کر ہر طرف دیکھے گئ۔۔
"کیا بہت برا خواب دیکھا ہے۔۔" ردا نے اس کی آواز سنتے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔
"آپ صحیح کہہ رہی تھیں۔۔" وہ تھکی ہوئ آواز میں بولی۔۔
"کیا؟؟" انابیہ حیرت سے اسے دیکھے گئ۔
"وہ واقعی کسی مصیبت میں ہے۔۔" انابیہ نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔۔
"یہ بس خواب تھا ردا۔۔" اس کو تسلی دیتے ہوئے بولی لیکن پتہ نہیں کیوں ردا کو یہ محض خواب نہیں لگا۔
"سو جائو ابھی کافی رات باقی ہے۔۔" وہ اس کو تسلی دیتے ہوئے بولی تو ردا بہت سارا تھوک نگلتے لیٹ گئ۔ اب پتہ نہیں اسے نیند بھی آئے گی یا نہیں۔۔
●●●●●●●●●●●●●
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
وہ اس وقت اپارٹمنٹ کی صفائی میں مگن تھا۔۔اس کا لندن والا اپارٹمنٹ چھوٹا مگر بہت خوبصورت تھا۔ کچن کاونٹر صاف کرنے کے بعد وہ باہر لائونج میں آیا اور ناگواری سے سامنے ٹیبل پر پڑے کھانے کے خالی ڈبوں کو دیکھا جو کچھ دیر پہلے عاصم نے قریبی ہوٹل سے منگوائے تھے اور بے تکے طریقے سے کھا کر اب وہ ناجانے کہاں دفع ہو گیا تھا۔ کبیر چڑتے ہوئے ٹیبل تک آیا اور اب جھک کر سارا کچرہ اٹھا رہا تھا۔
"پتہ نہیں زارا اس لڑکے کے ساتھ کیسے گزارا کرے گی۔۔" اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔ عاصم ایسا ہی تھا گند پھیلانے میں ماہر اور کبھی صفائی کا کہہ دو تو بھاگ جایا کرتا تھا۔۔ اس کا دل کیا کہ اس سب کی تصویر کھینچ کر وہ زارا کو بھیج دے۔۔ ابھی وہ سب کچھ ڈسٹ بن میں ڈال کر ہاتھ دھو کر دوبارہ لائونج میں آیا ہی تھا تبھی اسے بیل کی آواز سنائی دی۔ وہ فوراً سے دروازے کی طرف لپکا۔ دروازہ کھولتے ہی اس کی نظر عاصم پر پڑی۔ اس سے پہلے وہ اسے وہیں کھڑے کھڑے ذلیل کرتا اس کی نظر اس کے ساتھ کھڑے ایک اور وجود پر پڑی۔۔ وہ کرن تھی۔ انڈین مسلم لڑکی جو ان ہی کی یونیورسٹی میں سکالرشپ پر پڑھتی تھی۔۔ چھوٹے کندھوں کے اوپر تک آتے سیاہ بال۔۔ گندمی رنگت اور سیاہ موٹی آنکھوں والی وہ بلاشبہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔۔ کبیر نے ایک نظر عاصم کو گھورا اور دونوں کو اندر آنے کا راستہ دیا۔۔
"کرن تم سے ملنا چاہتی تھی اسی لیے میں اسے یہیں لے آیا۔۔" کبیر کو ایک اکیلی لڑکی کا یہاں آجانا بلکل اچھا اور مناسب نہیں لگا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ عاصم اسے یہاں کیوں لایا ہے۔۔ وہ ان کے بیچ کی نہیں تھی ایون کے ان کے ڈیپارٹمنٹ کی بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی روز یونیورسٹی میں ان دونوں سے ہیلو ہائے کرنے آجاتی تھی۔ زیادہ ڈیٹیل میں کبھی بھی ان کی بات نہیں ہوئی اور ایسا کبیر کی وجہ سے ہوتا تھا وہ کسی کو زیادہ باتیں کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا تھا۔ عاصم نے ہی اس کے کان میں یہ بات ڈالی تھی کہ کرن شاید اسے پسند کرتی ہے اور تب سے کبیر کو اس لڑکی سے اور بھی زیادہ نفرت ہونے لگی تھی۔ وہ یونیورسٹی میں اسے اگنور کر کے چلا جاتا تھا لیکن عاصم کی وجہ سے نوبت یہاں تک آگئ تھی کہ اب وہ اس کے سامنے اسی کے اپارٹمنٹ میں کھڑی تھی۔۔
"کیوں؟؟" اس نے سپاٹ سے لہجے میں پوچھا۔۔ کرن مکمل طور پر اس کی طرف گھومی۔۔
"عاصم نے مجھے بتایا کہ تم پینٹنگ بہت اچھی کرتے ہو۔۔" اس کی آواز بے حد پتلی تھی۔ وہ ہمیشہ ان دونوں سے ہندی میں ہی بات کرتی تھی۔۔ کبیر نے پھر سے کھا جانے والی نظروں سے عاصم کو دیکھا تو وہ اس سے نظریں چرا گیا۔۔
"میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کوئی میرا چہرہ بھی کاغذ پر اتارے ۔ کیا تم رنگوں سے میرا چہرہ بنائو گے؟؟" وہ بہت معصومیت سے بول رہی تھی۔ اس سے پہلے کبیر صاف صاف اس کے منہ پر انکار کرتا عاصم تیزی سے بولا۔۔
"کیوں نہیں کرن میں اسی لیے تو تمہیں یہاں لایا ہوں۔۔ یہ ضرور بنائے گا تمہاری تصویر۔۔ ویسے بھی فارغ ہی ہے آج کل۔۔" اس کے ہاتھ میں پاپ کارن کا ڈبہ تھا بڑی ڈھٹائی سے اس نے پاپ کارن کے دانے نکال کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔۔ کبیر کا دل کیا دونوں کو اٹھا کر اپارٹمنٹ سے باہر پھینک دے۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ اس طرف۔۔" اس نے حامی بھرتے ہوئے کونے والے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔۔ کرن اس کے فوراً مان جانے پر بےتحاشا خوش تھی اتنی کہ شاید اچھل اچھل کر اپنی خوشی کا اظہار کرتی لیکن صرف کھل کر مسکرا دی وہ اب اس کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔ کبیر نے رک کر عاصم کو دیکھا جس کی ہنسی اسے زہر لگ رہی تھی۔ آگے بڑھ کر کر اس نے عاصم کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈبے کو زور سے اسی کے منہ پر اچھالا۔ وہ یکدم بوکھلا کر پیچھے ہوا۔۔ سارے دانے نیچے فرش پر گر گئے تھے۔۔
"دو منٹ میں مجھے یہ جگہ صاف چاہیے سمجھے تم۔۔۔" شہادت کی انگلی سے اسے تنبیہ کرتے وہ اب اسی کمرے کی طرف چل دیا۔۔
"جاہل ۔۔ کھڑوس۔۔۔ بدتمیز آدمی۔۔۔" عاصم نے ناگواری سے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔۔
وہ ووڈن فلور کا ایک چھوٹا کمرہ تھا لیکن بلکل خالی ہونے کی وجہ سے بڑا بڑا معلوم ہوتا تھا۔ سامنے دیوار پر ایک کھڑکی تھی جس سے روشنی ایک دھار کی طرح اندر آرہی تھی۔ ساتھ والی دیوار کے پاس ایک اسکیچ بورڈ پڑا تھا اور اس کے ساتھ ایک سٹول نما ٹیبل کے اوپر پینٹس اور برشز پڑے تھے ۔۔ وہ اندر آتے ہی ایک جگہ کھڑی ہوگئ تھی۔ جہاں وہ کھڑی تھی اس کے عقب میں ایک الماری تھی جس کے آگے دو کرسیاں پڑی تھیں۔۔ کبیر نے آگے بڑھ کر سکیچ بورڈ اٹھا کر بلکل کھڑکی کے سامنے رکھا جہاں روشنی میں آسانی سے پینٹنگ کر سکتا تھا۔۔ پھر چل کر اس کے عقب سے ایک کرسی اٹھا کر تھوڑا آگے بلکل اپنے سکیچ بورڈ کے سامنے کرن کے لیے رکھ دی۔ وہ مسکرا اس کرسی پر بیٹھ گئ۔ پھر اس نے دوسری کرسی اپنے لیے اٹھائ اور بلکل کھڑکی کے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔۔ وہ دونوں بلکل خاموش تھے۔۔ لیکن کرن کو اس کی خاموشی نئی نہیں لگ رہی تھی وہ جانتی تھی وہ ایسا ہی ہے خاموش طبیعت کا مالک۔ وہ دونوں ہاتھ اپنی ٹانگوں پر رکھے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بلکل کسی بت کی طرح اس کے سامنے بیٹھ گئ۔۔ کبیر نے کینوس پر پنسل چلانی شروع کر دی۔۔ ایک دفعہ اس نے اس کے چہرے کو دیکھا پھر کینوس کو۔۔ اس کے ہاتھ چل رہے تھے۔۔ یہی عمل اس نے پھر سے دہرایا۔۔ کرن مطمئن سی بیٹھی تھی۔۔ پھر اس نے دیکھا کافی دیر سے کبیر نے اس کے چہرے کو نہیں دیکھا جب کہ پینٹر ایک یا دو منٹ کے بعد اپنے سامنے بیٹھے وجود کو ضرور دیکھتا ہے۔۔
"شاید یہ ان پینٹرز میں سے ہے جو ایک دو دفعہ چہرہ دیکھنے پر اسے حفظ کر لیتے ہیں۔۔۔" اس نے دل ہی دل میں سوچا۔۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہونے والا تھا۔۔ کبیر نے اب تک اسے دوبارہ نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔ اسے نیند آنے لگی تھی۔۔ کافی دیر سے ٹانگیں لٹکائے اب اس کی ٹانگیں بھی دکھنے لگی تھی۔۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائ روکنے کی بھرپور کوشش کی۔۔ کسی خاموش پینٹر کے سامنے بلکل خاموشی سے بیٹھنا کتنا بورنگ کام ہوتا ہے اس کا اندازہ کرن کو اس ایک گھنٹے میں ہو گیا تھا۔۔ وہ بار بار نیند کو بھگانے کے لیے پلکیں جھپک رہی تھی کبیر کون سا اسے دیکھ رہا تھا۔۔ یکدم کبیر نے زور سے اپنے ہاتھ میں پکڑے برش کو زمین پر پٹخ دیا۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔۔ نیند تو ایسے بھاگی جیسے کبھی آئ ہی نہیں تھی۔۔
"سوری سوری۔۔ میں سونا نہیں چاہتی تھی۔۔ میں تو بس۔۔" وہ ٹوٹے ہوئے لفظوں میں اس سے معذرت کرنے لگی۔۔ جبکہ کبیر کے چہرے کے تاثرات کچھ اور ہی کہہ رہے تھے شاید اسے اس پر غصہ نہیں ہے تو کس پر ہے؟ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھی۔ اس نے دیکھا سارے رنگ زمین پر بکھرے پڑے ہیں۔۔ کبیر اب اس کی طرف پشت کیے کھڑا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔ کرن نے اسے مخاطب نہیں کیا۔۔ شاید اس کی پینٹنگ کمپلیٹ ہو گئ تھی۔۔ دل ہی دل میں خوش ہو کر اب وہ سکیچ بورڈ کی طرف چل دی۔ رک کر اس نے مسکراتے ہوئے کینوس پر بنی ہوئی شکل کو دیکھا یکدم اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئ۔۔ جسم اور نظریں ساکت سی اس چہرے پر جمی تھیں جو کبیر نے کینوس پر بنایا تھا۔۔ یہ اس کا چہرہ نہیں تھا۔ یہ تو ایک سفید دوپٹے میں لپٹی ہوئ بھوری آنکھوں والی لڑکی کا چہرہ تھا۔۔
"واٹ دا ہیل از دز؟؟ یہ میرا چہرہ نہیں ہے۔۔" حیرت سے بولتے ہوئے وہ کبیر کی طرف گھومی۔۔
"میں تم سے بات کر رہی ہوں۔۔ یہ تم نے میرا چہرہ نہیں بنایا۔۔" وہ اس سے پھر شکایت کر رہی تھی لیکن کبیر ہنوز کھڑکی سے باہر ہی دیکھ رہا تھا۔۔
"میں کتنی دیر سے بت بنے تمہارے سامنے بیٹھی ہوں اور تمہیں کوئ احساس ہے یا نہیں۔۔ اگر تمہارا من نہیں تھا تو صاف میرا منہ پر بول دیتے یہ سب کیا ہے؟؟؟" وہ اب کی بار حلق کے بل دھاڑی۔۔ کبیر نے پھر اسے اگنور کیا جیسے وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔۔۔
"یو نو واٹ۔۔ تم ایک سائیکو انسان ہو۔۔ اس بات کا اندازہ تو مجھے بہت پہلے ہی ہو گیا تھا۔۔ پھر بھی پتہ نہیں کیوں آگئ میں یہاں۔۔" اسے لگا وہ کسی پتھر کی مورتی سے بات کر رہی ہے۔ سر نفی میں ہلاتے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی وہاں سے نکل گئ۔۔ کبیر ویسے ہی وہیں کھڑا رہا۔۔
عاصم باہر صوفے پر بیٹھا ایل۔ای۔ڈی میں انگلش مووی دیکھ رہا تھا۔ تبھی اس نے کرن کو غصے سے باہر نکلتے دیکھا۔ اس نے صوفے پر سے اپنا بیگ اٹھایا اور کھا جانے والی نظروں سے عاصم کو گھورنے لگی۔۔۔
“Pakistanis are crazy, ill-mannered and ignorant people..”وہ غصے میں عاصم کو دیکھ کر ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہتے اپارٹمنٹ سے نکل گئ۔ عاصم ناسمجھی سے اسے دیکھتا رہا اور اٹھ کر کمرے کی طرف بھاگا۔۔
"خبیث انسان کونسی نسل کی چڑیل بنا دیا ہے اسے کہ ایسے آگ بگولہ ہو کر گئ ہے۔۔" کبیر نے مڑ کر اسے دیکھا اور بنا جواب دیے جھک کر اپنی چیزیں اٹھانے لگا۔۔ عاصم نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا اور اسکیچ بورڈ کی طرف بڑھ گیا۔۔ سامنے بنی تصویر کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے کھلیں۔ چھت کو دیکھ کر اس نے گہرا سانس بھرا اور پھر کبیر کو دیکھا۔۔
"یہ میں نے نہیں بنائ۔۔" کبیر نے خود پر اس کی نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔۔ عاصم نے بغور آنکھیں چھوٹی کر کے اسے عجیب طرح سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو پاگل ہے۔۔ کبیر نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔
"کہا نا یہ میں نے نہیں بنائ۔۔ میرا ہاتھ خود بخود چل رہا تھا جیسے وہ میرے قابو میں نہیں تھا۔" اس نے کہا تو عاصم نے اکتا کر زور سے زمین پر پیر مارا اور تیز قدم لیتے الماری کی طرف گیا۔ الماری کا دروازہ کھولتے ہی اس نے اندر پڑے بہت سارے کینوس اٹھا اٹھا کر باہر کبیر کے قدموں کے پاس پھینکنے شروع کر دیے اور پھر اس کی طرف گھوما۔۔ کبیر نے زخمی نظروں سے ان پینٹنگز کو دیکھا۔۔ کسی میں اس کا مکمل چہرہ بنا تھا۔۔ کسی میں صرف اس کی آنکھیں تھیں۔۔ کسی میں وہ کھل کر مسکرا رہی تھی۔۔ کسی میں وہ رو رہی تھی۔۔ کسی میں وہ مدھم سا مسکرا رہی تھی۔۔ کسی میں اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔۔ کسی میں اس کا سائڈ پوز اور کسی میں اس کے چہرے کا فرنٹ پوز۔۔۔۔۔
"یہ سب۔۔" عاصم نے تیز آواز میں زمین پر بکھری پینٹنگز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ "یہ سب تم نے راتوں کو جاگ جاگ کر بنایا ہے۔۔ تمہیں کیا لگا میں بے خبر ہوں۔۔۔" اس کی آواز حد سے زیادہ اونچی تھی۔۔ "وہ ہنستے ہوئے کیسی لگتی تھی روتے ہوئے کیسی لگتی تھی۔۔ تم نے ہر اینگل سے اس کی تصویریں بنا ڈالی ہیں کبیر۔۔۔ وہ کس قدر تمہارے دماغ کو جکڑے ہوئے ہے۔۔ کس قدر تمہارے حواسوں پر سوار ہے۔ چند دنوں میں تم اسے حفظ کر چکے ہو اس قدر یار۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟؟"
"میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔۔" اس نے دبی دبی آواز میں کہا۔۔
"یہ نفرت کرتے ہو تم اس سے۔۔ یہ ہاں۔۔" اس نے دوبارہ ان پینٹنگز کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔ "فور گاڈ سیک کبیر مجھے پاگل مت بنائو۔۔ بھول جائو اسے یار۔۔" اب کی بار اس کا انداز التجائیہ تھا۔۔
"خود ہی تو تم نے کہا ہے کہ میں اسے حفظ کر چکا ہوں۔ جو چیز حفظ کر لی جائے اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔۔" اس نے پھر عام سے لہجے میں کہا تو عاصم چپ سا ہو گیا۔ اسے سمجھانا بہت مشکل کام تھا۔ وہ سر جھٹک کر وہاں سے چلا گیا۔۔ زخمی دل کے ساتھ کبیر جھک کر تمام پینٹنگز کو اٹھا رہا تھا۔۔ ایک ایک کر کے اس نے بڑے طریقے سے ساری پینٹنگز الماری میں واپس رکھ دیں۔۔
●●●●●●●●●●●●●●●
تقریباً شام کے وقت سب لونگ روم میں بیٹھے تھے۔ انابیہ اور اس کے پیچھے پیچھے ردا بھی اسی دوران لونگ روم میں داخل ہوئے۔ وہ دونوں صبح بھی لیٹ اٹھی تھیں اور ناشتہ بھی اکیلے کیا تھا اس لیے اب جب سب ساتھ تھے تو شام کی چائے کے لیے وہیں آگئیں۔ ناصر صاحب انابیہ اور ردا کو اندر آتا دیکھ کر مسکرائے وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئ۔ جبکہ ردا وہیں کھڑی سخت نظروں سے سامنے مناہل کے ساتھ کھیلتی بلی کو دیکھ رہی تھی پھر بیا کی آواز پر اسکے ساتھ جا بیٹھی۔۔
"کیا ہوا ایسے کیوں رک گئ تھی؟"
"اس ایلفی کی وجہ سے۔۔" انابیہ نے اسکی نظروں کا پیچھا کیا تو اس سفید بالوں والی بلی کو دیکھا جس کے ساتھ مناہل کارپٹ پر بیٹھے کھیل رہی تھی۔۔۔ وہ زور سے ہنس دی۔۔
"کم آن تمہیں اب تک اس کی عادت نہیں ہوئ مجھے تو ہو گئ ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تمہیں تو بلیوں سے نفرت نہیں تھی اور ہاں اس کا نام فلوفی ہے ایلفی نہیں۔۔۔" وہ جیسے اسے یاد دلاتے ہوئے بولی۔۔
"فلوفی نہیں ایلفی ہی جچتا ہے اس پر۔۔ مجھے بہت بری لگتی ہے پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔۔" ابھی وہ کچھ اور بولتی ہی کہ فوراً سے اس بلی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر اس نے اپنی ٹانگیں اوپر کر لیں۔۔
"ہا ہا ہا سو کیوٹ!! دیکھو اسے تمھارے پاس آنا ہے۔ مجھے لگتا ہے اسے تم میں عالیان دکھتا ہے۔۔" وہ بلی اپنی چھوٹی سی گردن کو اوپر کیے ردا کو دیکھ رہی تھی۔۔اور اس کی یہ حرکت دیکھ کر بیا کو اس پر بڑا پیار آرہا تھا۔۔
"خدا کو مانیں آپی مجھ میں ایسا کیا اس گھونسلے سے ملتا ہے۔۔" وہ خاصا بدمزہ ہوئ۔۔ انابیہ نے نیچے جھک کر اسے اپنی گود میں لیا اور اس کے بال سہلانے لگی لیکن کچھ ہی سیکنڈز میں وہ سیدھا ردا کے اوپر کودی وہ اس سب کے لیے بلکل تیار نہیں تھی۔ ایک چیخ تھی اس کی جس پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے۔۔
"خدا کا واسطہ ہے میرا پیچھا چھوڑ دو۔۔" وہ منت بھرے لہجے میں بولی جبکہ فلوفی مزے سے اس کی گود میں سونے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ ناہیدہ بیگم اور احمد صاحب ان کو دیکھ کر ہنس دیے جبکہ ناصر صاحب پھر خاموش تھے اور اس خاموشی کو انابیہ نے ان کا چہرہ دیکھتے فوراً بھانپ لیا تھا۔۔
"میرے عالیان کی فیورٹ بلی ہے یہ۔" وہ زخمی سا مسکرائے۔۔ جبکہ ردا کے دل میں خیال آیا کہ شاید یہی وجہ ہے اسے یہ بلکل پسند نہیں ہے۔۔
"وہ آجائے گا آپ پلیز پریشان نہ ہوں۔۔" انابیہ نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ان کو تسلی دینے کی بھرپور کوشش کی ۔
"وہ کہاں ہیں ؟؟ میں کیسا باپ ہوں جو اسے نہیں ڈھونڈ سکا۔۔" ان کی آواز لڑکھڑانے لگی۔
"آپ نے کوشش تو کی ہے نا اس کی خاطر امریکہ تک گئے کافی دن وہاں رہے اسے ڈھونڈنے کے لیے۔۔ مگر آپ پریشان نہ ہوں اس کا پتہ جلد لگ جائے گا۔۔ بس تھوڑا صبر سے کام لیں"
"کتنا صبر؟؟ مجھے سمجھ نہیں آتا ہر آزمائش اور صبر سے مجھے ہی کیوں گزرنا ہوتا ہے جبکہ نہیں ہے مجھ میں صبر ایک ہمت تھی اب وہ بھی جواب دے گئ ہے۔۔" ان کے کندھے ڈھیلے پڑ گئے۔ چہرے کی رنگت زرد پڑنے لگی۔ آنکھوں میں ایک کرب سا ٹھہر گیا تھا۔۔
سفید چمکتی ہوئ ٹائلز پر چھت پر لگے ایل-ای-ڈی بلبز کی پڑتی روشنی ان ٹائلز کو مزید چمکدار بنا رہی تھی۔ ان ٹائلز سے آرائش راہداری پر اس کی ہائی ہیلز کی ٹک ٹک کا شور تھا۔ وہ نازک سراپے اور سنہرے بالوں والی لڑکی بلیک تھری پیس سوٹ پہنے مغرور چال سے چلتی جا رہی تھی۔ اسکی نیلی آنکھوں کا رخ سامنے لفٹ کی طرف تھا۔ لفٹ کا دروازہ کھلا۔۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا موبائل اپنے سامنے کیا۔۔ سکرین روشن کر کے ایک نمبر ملایا اور ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے ہاتھ سے فون کان کے ساتھ لگائے وہ لفٹ کے اندر شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔ رنگ جا رہی تھی۔ لبوں پر شاطر مسکراہٹ ابھری۔
ناصر عالم اپنا سر ہاتھوں میں جکڑے بیٹھے تھے اور انابیہ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے ان کے بلکل ساتھ اداس سی شکل بنائے بیٹھی تھی۔۔ وہاں موجود سب لوگوں کے منہ پر تو جیسے خاموشی کے تالے لگ گئے تھے۔۔ پھر یکدم وہ خاموشی ٹوٹی ۔ ٹیبل کے درمیان پر پڑے ایک فون کی رنگ سے۔۔ ناصر صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا یہ انہی کے فون کی آواز تھی تھوڑا آگے ہو کر انہوں نے فون اٹھایا اور ایک غیر شناسہ نمبر کو آنکھیں چھوٹی کیے حیرت سے دیکھنے لگے۔ پھر کچھ سوچ کر کال آنسر کر کے کان سے لگایا۔۔ سب کی نظروں کا مرکز اس وقت ناصر عالم ہی تھے۔
"ہیلو!!" انکی آواز بھاری ہونے کے باوجود اس وقت نرم سی تھی۔
"ہیلو!! سسر جی کیسے ہیں؟؟" ایک لڑکی کی آواز ان کے کان سے ٹکرائ مگر لفظ سسر سن کے وہ کچھ حیرت کا شکار ہوئے۔۔
"کون بول رہا ہے؟؟" اب کی بار ان کی آواز سخت ہوئی۔ اب لگ رہا تھا جیسے ناصر عالم اپنے رعب میں آئے تھے۔
"لو یہ کیا بات ہوئ؟ میں آپکو سسر جی بول رہی ہوں اور غالباً ایک بہو ہی اپنے سسر کو سسر بولتی ہے آپ پھر بھی پوچھ رہے ہیں کون۔۔ ہا ہا ہا انٹرسٹنگ۔۔" لفٹ کا دروازہ کھل گیا وہ باہر نکلی۔
"کیا بکواس کر رہی ہو لڑکی کونسی بہو؟ میری کوئ بہو نہیں ہے سمجھی۔۔" وہ بھڑکتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ جبکہ ان کے منہ سے لفظ بہو سن کر سب پر ایک سکوت سا چھا گیا اور منہ کھولے ان کو دیکھے گئے۔
"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپکا ایک ہی بیٹا ہے تو اس لحاظ سے میں آپ کی ایک ہی بہو ہوئ۔۔ Aliyan’s wife!! " وہ پارکنگ ایریا میں پہنچ چکی تھی چہرے پر بے پناہ مسکراہٹ سجائے۔۔
ناصر صاحب اپنی جگہ ساکت کھڑے رہے۔ انکو اپنے جسم سے روح نکلتی ہوئ محسوس ہوئ۔ وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوئ اور ایسا اسے دوسری طرف کی مکمل خاموشی بتا رہی تھی۔۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ لیے اس نے اپنے چہرے پر پھسلتی لٹ کو کان کے پیچھے کیا اور فاتحانہ چال لیے اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگی۔۔
انابیہ کچھ کہنے کے لیے آگے بڑھی تو ناصر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔۔
"میرا بیٹا کہاں ہے؟؟" لہجہ مزید تلخ ہوا۔
"جہاں بھی ہے بہت خوش ہے۔۔ ان فیکٹ ہم دونوں ہی ساتھ بہت خوش ہیں آپ پلیز یقین کر لیجیے۔۔" گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئ مگر گاڑی سٹارٹ نہ کی اور ایک ہاتھ سٹیرنگ پر رکھے فون کان سے لگائے وہ ایسے ہی بیٹھی رہی۔۔
"تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔" ان کے تاثرات ہنوز سخت تھے لیکن اگلے ہی لمحے انہیں ایما کا ایک زوردار قہقہہ سنائی دیا۔۔ انہوں نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں۔
"ویری فنی سسر جی۔۔ آپ کو لگتا ہے میں اتنی فارغ ہوں جو آپکے ساتھ مذاق کرنے کے لیے کال کروں گی۔۔" وہ یکدم سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔۔ " ذرا اپنا واٹس ایپ چیک کیجئے گا پلیز۔۔"
انہوں نے فوراً سے فون سامنے کر کے دیکھا اور جو دیکھا اس کے بعد ان کو لگا کہ وہ اندھے ہوگئے ہیں اور مزید کچھ نہیں دیکھ سکیں گے۔۔ ان کے چہرے کی اڑتی ہوئ رنگت دیکھ کر بیا فوراً سے آگے ہو کر موبائل کی روشن سکرین کو دیکھنے لگی۔ اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔۔ سامنے دو پکچرز تھیں جن میں سے ایک نکاح نامے کی تھی اور دوسری عالیان کے ساتھ ایک خوبصورت دلہن کی۔ یہ وہی لڑکی تھی جس کی تصاویر عالیان کے ساتھ وہ انسٹاگرام پر دیکھتی رہی تھی۔۔۔ وہ ہکا بکا سی رہ گئ۔
ناصر نے کچھ کہنے کے لیے فون دوبارہ کان سے لگایا لیکن اس کی آواز پر چپ سے ہو گئے۔۔
"یہ ہمارے نکاح کے پیپرز ہیں اور جو ہم دونوں کی پکچر آپکو دکھ رہی ہے یہ ہمارے نکاح کے دن کی ہے۔۔ کائنڈلی اب یقین کر لیجیے۔"
"میری اس سے بات کروائو۔۔" ناصر کو اپنی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئ محسوس ہوئ۔
"سوری وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔ وہ آپ سب کو بھول چکا ہے۔ اور آپ لوگ بھی اسے ڈھونڈنے میں اپنی انرجی ویسٹ نہ کریں۔ اسے اپنی زندگی گزارنے دیں اور ہاں وہ واپس کبھی نہیں آئے گا اس کا انتظار کرنا بھی فضول ہے۔۔" اس نے کال نہیں کاٹی تھی وہ ان کے اگلے جملے کے انتظار میں تھی مگر ناصر کے پاس تو جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔۔۔
"اسے بھول جائیں اور اگر نہیں بھول سکتے تو اس کے ساتھ اسکی وائف یعنی مجھے بھی یاد رکھیں۔۔۔" کہتے ساتھ اس نے کال کاٹ دی اور گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے نکل گئ۔۔۔
ناصر اسی طرح بے یقینی کے عالم میں صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئے۔۔ ان کا حلق خشک تھا اور دماغ جیسے مائوف تھا۔ سب لوگ بغور انکا زرد چہرہ دیکھنے لگے احمد انکی حالت دیکھتے فوراً سے ان کے سامنے آکر بیٹھے۔۔
"بھائی آپ ٹھیک ہیں؟؟" وہ بلکل ان کے سامنے زمین پر بیٹھے تھے۔۔ انابیہ نے بمشکل گلے میں ابھرتی گلٹی کو نیچے کیا بات کی تہہ تک تو وہ تقریباً پہنچ ہی چکی تھی۔۔
"ردا پانی لے کر آئو۔۔" ناہیدہ کے کہتے ردا فوراً سے اٹھی اور پانی لینے چلی گئ۔۔
"بھائ کچھ تو بولیں؟ بیا تم ہی بتا دو کیا ہوا ہے کس کی کال تھی؟؟" احمد نے صدمے میں کھڑی انابیہ سے پوچھا جو انکی آواز پر ہوش میں آئ۔۔ وہ خاموش رہی کچھ نہ کہہ سکی۔۔
"عالیان نے شادی کر لی۔۔" ناصر بمشکل بول پائے۔۔ کسی چیز کے گرنے کی آواز پر ان سب نے دروازے کی طرف کھڑی ردا کو دیکھا جس کے ہاتھ سے یہ جملہ سنتے ہی پانی سے بھرا کانچ کا گلاس چھوٹ کر فرش پر گرتے چکنا چور ہوگیا۔۔ پھر ہوش میں آتے ہی وہ جھک کر کانچ اٹھانے لگی اسی دوران پیچھے سے کام والی نے اسے روکا اور خود اٹھانے لگی وہ اٹھ کر بمشکل دو قدم لیتے پیچھے ہوئ۔۔ نظریں ہنوز کانچ کے ٹکڑوں پر تھیں اور دماغ کہیں اور۔۔ انابیہ حیرت سے اسے دیکھے گئ اور پھر ناصر صاحب کی آواز سنتے ان کی طرف گھومی۔۔
"وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ وہ میرا بیٹا ہو کر ایسا کیسے کر سکتا ہے؟؟" وہ تقریباً چیخ رہے تھے غصے سے دھاڑ رہے تھے۔۔ جبکہ احمد بے یقینی سے انہیں دیکھے گئے۔۔
"پلیز تایا ابو آپکی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔ بابا پلیز ان سے کہیں نا۔۔" وہ راحیلہ کو کھو چکی تھی مزید اس میں ہمت نہیں تھی اس سے انکی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔۔
"بھائی ریلیکس ہو جائیں۔۔" وہ ان کو پر سکون ہونے کا تو کہہ رہے تھے لیکن وہ خود ایک گہرے صدمے میں تھے۔ نظریں اٹھا کر انہوں نے انابیہ کو دیکھا جو مکمل طور پر ناصر صاحب کی طرف متوجہ تھی۔ وہ اسکی آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو دیکھ رہے تھے وہ اسے دیکھ رہے تھے۔۔
(بابا عالیان اچھا نہیں ہے وہ بہت برا ہے میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔۔) بیا کی وہی روتی ہوئ آواز انہیں پھر سے یاد آنے لگی۔
(بابا آپ یقین کرے میرا میں سچ بول رہی ہوں اس نے کہا تھا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔ ) انابیہ کی آواز ان کو ان کے کانوں کے پردے پھاڑتی ہوئ محسوس ہوئ۔آج انکو اپنی بیٹی کا یقین نہ کرنے کا بہت افسوس ہو رہا تھا ان کے دل میں ایک تکلیف سی اٹھی تھی۔۔
(میں نے غلط انسان سے محبت نہیں کی تھی۔۔)بے ساختہ انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔ انابیہ نے یکدم انکو دیکھا اور فوراً ان کی طرف بڑھی۔۔ "بابا!!" اسکی آواز پر ناصر نے سر اٹھا کر اپنے بھائ کی طرف دیکھا جو دل پر ہاتھ رکھے بیٹھے تھے۔۔
"احمد۔۔" وہ فوراً انکی طرف بڑھے۔۔ انابیہ اور ناہیدہ نے ان کو سہارا دیتے صوفے پر بٹھایا۔ مناہل پانی کا گلاس پکڑے کھڑی تھی انابیہ نے مڑ کر اس سے پانی لیا اور احمد صاحب کو پلانے لگی۔۔ انہوں نے دو گھونٹ پانی پیا اور بمشکل پیچھے ہوئے۔۔ ردا باہر سیڑھیوں پر بیٹھی تھی اندر سے آتی آوازیں سنتے وہ بھاگتے ہوئے اندر گئ۔۔
"کیا ہوا ہے بابا کو؟" اس نے انابیہ کو سائڈ پر کرتے ہوئے آگے بڑھ کر انکو دیکھا۔۔
"میں ٹھیک ہوں ۔۔ آپ۔۔۔ لوگ پریشان نہ ہوں۔۔۔" وہ دل پر ہاتھ رکھے بمشکل بول پائے۔
"شہناز ڈرائیور کو بولو گاڑی نکالے جلدی۔۔" ناصر نے دروازے پر کھڑی کام والی کو حکم دیا اور احمد کو ہاتھ کے سہارے سے اٹھنے میں مدد دینے لگے۔۔
"ہمیں ابھی ہاسپٹل جانا ہے ۔۔"
"نہیں بھائی جان میں ٹھیک ہوں اب۔۔" وہ تسلی دیتے ہوئے بولے۔۔
"بلکل نہیں ہم ابھی جائیں گے۔۔ ناہیدہ تم بھی ساتھ چلو۔۔" ناہیدہ سے کہتے وہ احمد صاحب کا بازو اپنے کندھوں پر حائل کرتے ہوئے انہیں باہر لے جانے لگے۔۔
"تایا ابو میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔۔" انابیہ فوراً انکے سامنے ہوتے ہوئے بے چینی سے بولی۔۔
"نہیں بچے زیادہ فکر کی بات نہیں ہے تم یہیں اپنی بہنوں کے پاس رکو دیکھو ان کی حالت انکا خیال رکھو۔۔ ہم جلد واپس آئیں گے۔۔" انکی بات سنتے انابیہ سائڈ ہوئ اور روتی ہوئ مناہل کے پاس جا کر اس کے آنسو صاف کرنے لگی۔ ایک نظر ردا کو دیکھا جو بلکل خاموش کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں صوفے پر بیٹھی تھی۔۔ وہ لوگ جا چکے تھے۔۔
"آپی ۔۔ بابا کو کچھ نہیں ہوگا نا۔۔ ہاں انکو کچھ نہیں ہوگا۔۔ وہ جلد واپس آئیں گے۔۔ انشاءاللہ وہ جلد آئیں گے۔۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔ انکو کچھ نہیں ہوگا۔۔" ردا تیز تیز بولے جا رہی تھی۔۔ اس کے جسم پر کپکپی سی طاری تھی۔۔ آنسو گالوں پر پھسل رہے تھے۔۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئ تھی اور یہی کچھ حال انابیہ کا بھی تھا وہ کیا کرتی کس طرح کس کو چپ کراتی وہ تو خود بھاری تنفس کے ساتھ کھڑی تھی اسکی ٹانگوں میں جان نہیں تھی اسے لگا وہ ابھی لڑکھڑا کر گر جائے گی مگر اسے خود کو مضبوط کرنا تھا کم از کم وہ اپنی بہنوں کے سامنے یوں ہمت نہیں ہار سکتی تھی۔۔ وہ مناہل کا ہاتھ پکڑ کر ردا کے ساتھ جا بیٹھی وہ خود درمیان میں تھی دائیں طرف ردا اور بائیں طرف مناہل تھی اس نے دونوں کا سر اپنے دونوں کندھوں پر رکھا اور باری باری انکا سر تھپتھپانے لگی۔۔
"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ رندھی ہوئ آواز سے بولی۔۔ اسکی سانس تو بلکل رک ہی گئ تھی۔۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب اتنا اچانک ہو جائے گا۔۔ ہر طرف پھر سے خاموشی تھی۔۔ کافی دیر ہو گئ تھی وہ تینوں اسی طرح خاموش بیٹھی تھیں۔ انابیہ اپنے پاس پڑے موبائل کو بار بار دیکھ رہی تھی اس دوران اس نے کافی دفعہ تایا ابو کا نمبر ملایا تھا مگر انہوں نے ایک دفعہ بھی کال اٹینڈ نہیں کی اس کی بے چینی میں اب مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
"بی بی جی کھانا لگا دوں؟" اس سے پہلے انابیہ اسے کوئ جواب دیتی اسکے فون کی رنگ بجنے لگی۔ اس نے تیزی سے فون اٹھایا ردا اور مناہل بھی کرنٹ کھا کر اسے دیکھنے لگی۔۔ " تایا ابو کالنگ" دیکھ کر اس نے گہرا سانس لیا اور دل پر ہاتھ رکھے کال اٹینڈ کی ۔۔
"کب سے کال کر رہی تھی میں۔۔" وہ کال اٹھاتے ہی گلہ کرنے لگی۔۔
"ہاں میری جان معافی چاہتا ہوں نہیں پتہ چلا بس ہم گھر ہی آرہے ہیں احمد کا چیک اپ کر لیا ہے ڈاکٹر نے ۔۔ سب ٹھیک ہے پریشان مت ہو ٹھیک ہے نا۔۔۔" وہ تحمل سے اسے تفصیل بتا رہے تھے۔ انابیہ کی تو جیسے سانس میں سانس آئ اور مسکراتے ہوئے وہ اپنی بہنوں کی طرف گھومی اس کے چہرے کے تاثرات اور ایک مسکراہٹ دیکھ کر وہ دونوں سمجھ گئیں تھیں کہ سب ٹھیک ہے دونوں نے ایک پرسکون سانس خارج کی۔ اس نے کال کاٹی اور شہناز کو آواز لگائ۔۔
"کھانا لگا دو وہ لوگ بھی آرہے ہیں۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو شہناز بھی مسکرا کر سر ہاں میں ہلاتے کچن کی طرف چلی گئ۔۔
"عالیان نے یہ بلکل بھی ٹھیک نہیں کیا بھائی۔۔" احمد گاڑی کی بیک سیٹ پر موجود تھے اور ناہیدہ انکے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔۔ جبکہ ناصر فرنٹ پیسنجر سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔
"نام مت لو اس کا۔۔" لہجے میں عالیان کے لیے سخت نفرت تھی۔۔
"ایسے نہ کہیں بیٹا ہے وہ آپ کا ویسے بھی اپنی زندگی کے فیصلے وہ خود کر سکتا ہے۔۔" ناہیدہ عالیان کی حمایت میں بولیں تو احمد نے سخت نظروں سے انکو دیکھا۔۔
"اگر اسے اپنی مرضی ہی کرنی تھی تو میری بیٹی کو کس آس میں انتظار میں رکھا۔۔ کیوں اسے میرے سامنے جھوٹا بنا دیا۔۔ یعنی وہ بیچاری سچ کہتی تھی کہ عالیان کو شادی نہیں کرنی اس سے۔۔ افففف میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ کیا کر دیا ناہیدہ۔۔ کیوں نہیں سنی اس کی میں نے آخر کیوں؟؟" اسی پچھتاوے نے ان کو آگھیرا جو کل رات سے ان کو گھیرے ہوئے تھا۔ بس ان کا دل تھا وہ واپس جا کر انابیہ کے لیے سب ٹھیک کر لیں۔ وہ خود اس لڑکے سے بات کر لیں گے۔ ہاں وہ اپنی بیٹی کی خوشی اس کو پھر سے لوٹا دیں گے۔۔
"میں تم دونوں سے بہت شرمندہ ہوں بلکہ بیا سے بھی۔۔ یقین جانو میں کبھی معاف نہیں کروں گا اسے کبھی نہیں۔۔" ناصر کے چہرے کے تاثرات ہنوز سخت تھے۔
"اب اس سب کا کیا فائدہ بھائ جان میری بیٹی کے ساتھ تو زیادتی ہو گئ نا۔۔۔" ناصر کچھ نہ بول سکے۔ کچھ دیر کے لیے گاڑی میں مکمل خاموشی چھا گئ۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی خطرناک ہوتی جا رہی تھی۔۔
گاڑی ہنوز سڑک پر چل رہی تھی۔ ان سے تھوڑا آگے ہی بائیں طرف ایک ٹرک تھا۔۔ ڈرائیور کو بلکل اندازہ نہیں تھا کہ ابھی تھوڑی ہی دیر میں کیا ہونے والا ہے وہ اپنی دھن میں نارمل سپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ٹرک بلکل اپنی لائن میں تھا یکدم سامنے والے ٹرک کے ڈرائیور نے ایک خطرناک ٹرن لے کر بلکل ان کے سامنے روک دیا۔۔ ڈرائیور نے ایک زوردار بریک دینے کی پوری کوشش کی لیکن جو ہوا سب آناً فاناً ہوا اسے کچھ سمجھ نہ لگی اور گاڑی اس بھاری بھرکم ٹرک سے جا ٹکڑائ۔۔
"آپی آپی!!!" وہ صوفے سے اٹھتے فوراً انابیہ کے پاس بھاگتے ہوئے کچن میں گئ ۔ وہ اس وقت شہناز کے ساتھ کھانے کا بندوبست کر رہی تھی کہ یکدم ردا کی آواز پر پلٹی۔۔
"کیا ہوا ہے ردا؟" وہ براہراست ردا کی آنکھوں میں دیکھے گئ۔۔
"پلیز ایک دفعہ پھر سے کال کر کے پوچھیں نا ان سے۔۔۔" وہ ڈری سہمی سی لگ رہی تھی۔
"ابھی تو بات ہوئی تھی آجائیں گے کیوں پریشان ہوتی ہو؟"
"نہیں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے بس ایک دفعہ ۔۔ پھر نہیں کہوں گی آپ سے بس ایک دفعہ اور تسلی مل جائے مجھے پلیز!!" وہ کپکپائ ہوئ آواز سے کہے جا رہی تھی یکدم انابیہ کے چہرے کے تاثرات بھی بدلے اور سر اثبات میں ہلاتے اس نے دوبارہ کال ملائ۔ رنگ جا رہی تھی اس نے کان فون سے لگائے ردا کو مسکرا کر دیکھا لیکن بس رنگ ہی جا رہی تھی دوسری طرف سے کوئ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔۔ چہرے پر سے مسکراہٹ یکدم غائب ہوئ۔۔
"میں دوبارہ ٹرائی کرتی ہوں۔۔" اس نے کپکپاتی انگلیوں سے کال دوبارہ ملائ۔۔ رنگ ہنوز جاری رہی تھی۔۔ اس کا دل خوف اور اندیشوں میں ایک بار پھر سے گھر چکا تھا۔۔
"نہیں اٹھا رہے؟؟" ردا نے آس بھری نگاہیں لیے اس سے پوچھا تو وہ سر نفی میں ہلانے لگی۔۔
"تم پریشان نہ ہو وہ پہلے بھی تو کال نہیں اٹھا رہے تھے نا لیکن دیکھو پھر خود کی تھی۔۔ ابھی آجائیں گے دیکھنا۔۔" ردا کا دل مزید تنگ سا ہونے لگا پتہ نہیں کیوں مگر اس کو بیا کی دی ہوئی تسلیوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔ وہ تیز قدم لیتی بیرونی دروازے کی طرف دوڑی اور وہیں کھڑی رہی۔۔ پیچھے کھڑی انابیہ پھر سے کال ملانے لگی اب تو کافی دیر ہو گئ تھی ہاسپٹل اب اتنا بھی دور نہیں تھا کہ اتنی دیر ہو جائے۔ وہ تھک ہار کر وہیں کرسی پر بیٹھ گئ۔۔
"مناہل کو دیکھو جا کر۔۔" شہناز اس کے حکم پر لائونج میں گئ تو دیکھا کہ وہ وہیں صوفے پر ہی سو گئ ۔۔ اس نے جا کر انابیہ کو بتایا تو اس نے کوئ بھی جواب نہ دیا بس ایسے ہی خاموش رہی۔۔ اس کا دل وحشت سے دھڑکے جا رہا تھا۔۔
"نہیں نہیں ماما جان کہتی ہیں مایوسی گناہ ہے ہمیں اچھے کی امید کرنی چاہیے سب بہتر ہوگا۔۔ تھنک پوزیٹیو انابیہ۔۔۔" وہ جیسے خود کو تسلیاں دیے جا رہی تھی اس کا دل تنگ ہونے لگا تو وہ بھی اٹھ کر ردا کے پیچھے چل دی موبائل اس کے ہاتھ میں تھا۔۔ ردا بیرونی دروازے کے زینوں پر اک امید لیے بیٹھی تھی۔ وہ بھی اس کے ساتھ آ بیٹھی مگر کچھ نہیں بولی کافی دیر خاموش رہی۔۔ دونوں کی نظریں سامنے گیٹ پر تھیں۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
گاڑی کا تو حلیہ اب پہچاننے والا ہی نہیں تھا۔۔ شیشے چکنا چور تھے۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ پیچھے احمد صاحب کی طرف کا دروازہ اور آگے ناصر صاحب کی طرف کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ باہر سڑک پر گرے پڑے تھے۔۔ احمد کی کراہتی ہوئ آواز صرف وہ خود سن سکتے تھے۔۔ سر پر گہری چوٹ چہرہ خون سے لت پت۔۔ بمشکل گردن موڑ کر انہوں نے ناہیدہ کی طرف دیکھا جن کی گردن دوسری طرف ڈھلکی ہوئ تھی اپنا ہاتھ انکی طرف بڑھانے کی کوشش کی مگر ساری طاقت جواب دے گئ۔۔
"آہ۔۔ بھائ۔۔" وہاں مکمل خاموشی تھی۔ وہ ہل نہیں پا رہے تھے۔ سوائے احمد کے سب کی آنکھیں بند تھیں ۔ کسی کے قدموں کی آہٹ پر انہوں نے باہر کی طرف دیکھا ایک شخص فاتحانہ مسکراہٹ لئے انکی طرف جھکا۔۔ چہرہ پہچاننے میں انہیں لمحے بھر کی دیر نہ لگی۔۔
"جہان زیب!!!" مشکل سے ان کے لب ہلے۔۔ وہ ہنوز مسکرائے جا رہا تھا۔ اور پھر ایک قہقہہ تھا جو اس کا گونجا تھا۔۔
"کیا کہا تھا تم نے تم زندہ ہو مجھے قبر تک پہنچانے کے لیے تم زندہ ہو۔۔۔ ہا ہا ہا!!" پھر ایک قہقہہ احمد اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہے تھے۔۔" لیکن دیکھو میں زندہ تھا تمہیں قبر تک پہنچانے کے لیے۔۔" تاثرات سخت تھے۔۔ اچانک وہاں لوگوں کی گاڑیوں کا ہجوم سا لگ گیا سب ان کی گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔
"ارے ارے دیکھو کوئ بچا لو انہیں۔۔۔" نہایت اداکاری سے جہانزیب اونچا اونچا کہنے لگا۔۔ پھر احمد کی طرف جھکا۔۔
"تم اگر یہاں بچ بھی گئے تو ہسپتال میں نہیں بچو گے۔۔ اب دیکھتے ہیں تمھاری قسمت۔۔۔" وہ دوبارہ ہنستے ہوئے پیچھے ہوا اور لوگ ان کو گاڑی سے نکال رہے تھے۔۔ ایمبولینس کا شور ان کے کانوں میں گونج رہا تھا۔۔ "اتنا بےبس کوئ کیوں ہو جاتا ہے؟" لوگ انہیں اسٹریچر پر ڈال رہے تھے اچانک سارا منظر دھندلا سا گیا انکی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔ ایک اندھیرا سا چھانے لگا تھا۔ کانوں میں آوازیں آنا بھی بند ہو گئیں تھیں۔۔ مکمل تاریکی مکمل خاموشی!!
●●●●●●●●●●●●●●●
"بس بہت ہوگیا۔ میرا سارا صبر جواب دے گیا ہے۔۔ میرا دل بند ہو جائے گا آپی کچھ کریں نا۔۔۔" ردا زینوں پر سے اٹھتے ہوئے تیزی سے بولی۔۔ انابیہ نے ریلنگ سے ٹیک لگائے زخمی نظروں سے اسے دیکھا دل تو اس کا بھی بند ہو رہا تھا کیونکہ اب تو بے حد دیر ہو گئ تھی اور ان کی کوئ خبر نہیں تھی۔۔ وہ وہیں ساکت جسم لیے بیٹھی رہی۔۔ یکدم اس کی توجہ ساتھ پڑے فون نے کھینچی۔۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا لیکن سامنے وہ نمبر نہیں تھا جس کا اسے انتظار تھا کوئ اور ان نون نمبر تھا۔ اس نے حیرت سے نمبر کو دیکھا اور پھر ردا کو جو اسے اشاروں میں کال اٹینڈ کرنے کا کہہ رہی تھی۔۔ کچھ سوچتے سمجھتے اس نے کال اٹینڈ کی۔۔
"ہیلو!! کیا انابیہ بات کر رہی ہیں؟؟" ایک پتلی سی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔۔
"جی میں انابیہ ہوں۔۔ آپ کون؟؟" کچھ ڈرتے سہمتے اس کے لب ہلے۔۔
"ڈاکٹر حاجرہ ۔۔ ناصر صاحب آپ کے کیا لگتے ہیں؟؟"
"میرے تایا ہیں۔۔ آ پ کیوں پوچھ رہی ہیں؟؟" اس نے ڈاکٹر کو گہرا سانس لیتے سنا۔
"آپ کو تحمل اور ہمت سے کام لینا ہوگا۔ آپ کے تایا کا شدید قسم کا کار ایکسیڈنٹ ہوا ہے ان کے ساتھ کچھ افراد اور بھی تھے۔۔ آپ کو اسی وقت ہاسپٹل آنا ہوگا۔۔۔" اس کے حواسوں نے کام کرنا بند کر دیا۔۔ وہ سانس لینا بھول گئ۔۔ وجود بھاری لگنے لگا۔۔موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا۔۔اس کے قدم لڑکھڑائے۔ ردا نے بجلی کی تیزی سے اسے بازو سے تھاما۔۔ اس کی ٹانگوں میں جان نہیں تھی ایک پل کے لیے اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سب سے مشکل کام لگا۔۔ "آپی!!!" ردا نے اسکی سفید پڑتی رنگت دیکھتے ہوئے اسے جھنجھوڑا۔۔
"ایکسیڈنٹ ردا۔۔ یہ کیا ہوگیا؟" وہ خوف کے عالم میں بولی تو ردا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔۔ انابیہ تیز قدم لیتے گاڑی کی طرف بھاگی ردا بھی فوراً سے اس کے پیچھے گئ۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے اس نے گاڑی سٹارٹ کی ردا اسکی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئ۔۔ چوکیدار نے گیٹ کھولا اور وہ ریورس کرتے گاڑی باہر لے آئ۔۔ سڑک پر پہنچتے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائ۔۔ ان چھ مہینوں میں اس نے اور ردا نے ناصر صاحب سے ڈرائیونگ سیکھ لی تھی اور یہ پہلی دفعہ تھا جب وہ اکیلے اس طرح سڑک پر گاڑی دوڑائے جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھی حواس شل لیے ردا سامنے سڑک کو دیکھ رہی تھی۔۔ ہاسپٹل کے سامنے اس نے گاڑی روکی اور خود کو بھاگتے ہوئے پایا۔۔ راہداری پر وہ مسلسل اپنی بے جان ٹانگوں سے بھاگے جا رہی تھی ۔
"یااللہ مجھے کسی ایسی آزمائش میں مت ڈالنا۔ میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔۔" سامنے ہی اسے آئ- سی- یو سے نکلتی ڈاکٹر دکھائ دی وہ فوراً سے اس کی طرف بھاگی۔۔
"ڈاکٹر میں انابیہ۔ میرے گھر والے سب کیسے ہیں؟؟"وہ روانی مگر تھکی ہوئی سانس میں بولے جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
"ناصر صاحب کو ہم نے روم میں شفٹ کر دیا ہے۔۔ احمد صاحب آئ- سی – یو میں ہیں انکی ہارٹ بیٹ نارمل نہیں ہو رہی وہ کافی زخمی حالت میں لائے گئے تھے۔۔" انابیہ کے آنسوؤں کی رفتار تیز ہو گئ وہ اپنا سر پکڑے کھڑی تھی۔۔
"ماما ۔۔ میری ماما جان وہ کہاں ہیں؟؟ آپ نے ان کا ذکر نہیں کیا بتائیں نا؟؟" وہ ڈاکٹر کے دونوں بازوؤں کو جکڑتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
"وہ جو عورت تھی ان کے ساتھ؟؟"
"تھی؟؟؟" بیا نے زیرلب دہرایا۔۔ "کیا مطلب ہے آپ کا تھی ؟؟ ہاں" وہ چیخنے لگی۔۔
"آئ ایم سوری!! آپکی ماما اور ڈرائیور حادثے والی جگہ پر ہی دم توڑ گئے تھے انکی ڈیڈ باڈی کو یہاں لایا گیا تھا۔"
ڈیڈ باڈی اس کی ماں کی ڈیڈ باڈی!! کوئی اس کے سامنے اتنی آسانی سے ایسے یہ کہہ دے گا اسے اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی جگہ پتھرائی سی کھڑی تھی۔۔
"ایسا نہیں۔۔۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر گلے میں اٹکا اسکے آنسوؤں کا پھندا اس کے لفظ دبا گیا۔۔ وہ قدم لیتے پیچھے گئ اور یکدم زمین پر گر گئ۔۔ وہ ڈاکٹر فوراً اس کی طرف بڑھی۔۔
"نرس!! پیچھے وہ لڑکی بے ہوش ہو گئ اسے اٹھا کر روم میں لے کر جائو۔۔ ہری اپ!!!۔" وہ پیچھے کھڑی نرس پر چیختے ہوئے بولی۔ اس کا اشارہ ردا کی طرف تھا جو ماما جان کی موت کا سنتےہی زمین پر ڈھیر ہو گئ تھی۔۔"انابیہ ہوش کرو ۔۔" وہ اسکو بازو سے پکڑے بیٹھی تھی۔۔
"ماما۔۔ میں کیسے رہوں گی؟؟" وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔۔" خود کو سنبھالو تمہیں ہمت سے کام لینا ہوگا۔۔" وہ اس سے کہہ رہی تھی تبھی پیچھے سے ایک نرس دوڑتے ہوئے آئ۔۔
"ڈاکٹر پیشنٹ بار بار کسی بیا کو پکار رہے ہیں انکی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔۔" بس اس کے یہ کہنے کی دیر تھی بیا فوراً سے اٹھی اور بھاگتے ہوئے آئ- سی- یو میں گئ۔۔ سامنے ڈھیروں پائپوں میں جکڑے چہرے پر آکسیجن ماسک پہنے وہ ادھ کھلی آنکھوں سے انابیہ کو اندر آتا دیکھ رہے تھے۔۔ اس کے قدم بھاری ہونے لگے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔ ایک قدم۔۔ دوسرا قدم ۔۔تیسرا قدم۔۔ وہ بمشکل چلتے ہوئے ان کے قریب آئ۔۔ احمد نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی تو بیا نے فوراً جھک کر ان کا ہاتھ تھام لیا۔۔ دوسرے ہاتھ سے انہوں نے آکسیجن ماسک اتارا ۔ اس نے روکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اتار دیا۔۔ انکی آنکھوں سے آنسو بہہ کر انکے کان کی لو کو چھو رہے تھے۔۔
"مجھے معاف کر دو بیا۔۔۔" وہ لڑکھڑاتی آواز میں بولے تو انابیہ ان کے چہرے پر نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگی۔
"ایسا مت کہیں بابا پلیز ٹھیک ہو جائیں۔۔۔" وہ روتے ہوئے بولی۔
"ایک بار کہہ دو تم نے مجھے معاف کیا۔۔۔" اپنے ہاتھوں میں پکڑا ان کا ہاتھ اس نے اپنے ہونٹوں سے لگایا۔
"خدا کے لیے بابا۔۔ مجھے گناہگار مت کریں۔۔ میں آپ کو بھی نہیں کھو سکتی۔۔۔" اس کے جسم سے بھی جان جا رہی تھی اور پیروں پر کھڑا ہونا اس وقت سب سے بڑا عذاب تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئ ایسے کہ اس کا چہرہ بابا جان کے چہرے کے بلکل قریب تھا۔
"میں تمہارا گناہ گار ہوں میں ہوں۔۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بہتی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔
"ناہیدہ۔۔۔ وہ کہاں ہے کیسی ہے؟؟" اس سوال پر اس نے کوئ جواب نہیں دیا بس پھوٹ پھوٹ کر بلند آواز سے رونے لگی اور انکے سینے پر سر رکھ گئ۔ وہ اس کے اس طرح رونے کی وجہ سمجھ چکے تھے۔۔
"تبھی میں کہوں مجھے سانس۔۔( انہوں نے بمشکل سانس لیا ) کیوں نہیں آرہا۔" انکی آواز سنتے وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ "وہ نہیں رہی تو میں کیسے زندہ رہ سکتا ہوں۔۔۔" اس نے تیزی سے چہرہ اٹھا کر تڑپ کر انہیں دیکھا۔۔۔
"بابا!!!" وہ درد سے چیخی۔۔ "مت کریں ایسا میں مر جائوں گی پلیز آپ ٹھیک ہو جائیں۔۔۔" منت التجا سب تھا اس کی آواز میں۔ کاش وہ وقت کو یہیں روک سکتی یا اس کے بعد جو ہونا تھا اس سے پہلے وہ خود مر جاتی۔
"بیا!!" وہ یکدم تیز تیز سانس لینے لگے۔۔
"جہانزیب۔۔۔ وہ جہان۔ وہ تھا وہاں ۔۔۔" آواز دم توڑ گئ۔۔ ان کا ہاتھ بیا کے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ دم سادھے انہیں دیکھے گئ جیسے اس کی خود کی جان بھی ساتھ ہی نکل گئ ہو۔۔ وہ خاموش ہو گئے ہمیشہ کے لیے اس کے سامنے!!!! ڈاکٹر نے اس صدمے میں بیٹھی لڑکی کو پیچھے کیا اور احمد صاحب کے بے جان وجود کی طرف بڑھی۔ ان کا سانس رک چکا تھا دل کی دھڑکن رک چکی تھی۔۔ یہ کیسی آفت آ پڑی تھی یہ کیسی قیامت آ پڑی تھی یہ کیوں سارا کا سارا آسمان ایک ہی دفعہ میں اس کے سر پر آ گرا تھا۔ یہ کیوں ایک ہی دم میں اس کے اپنے اس سے چھن گئے تھے۔۔ یہ کیسی آزمائش تھی۔۔ سب سے بڑی آزمائش تو یہ تھی کہ وہ خود زندہ تھی۔ اسے یہ زندگی گزارنی تھی۔۔ جن کے بغیر وہ ایک منٹ نہیں گزار سکتی تھی اب اسے یہ زندگی گزارنی تھی۔۔ آج صحیح معنوں میں اس کا سب کچھ ختم ہو چکا تھا آج اس کا سب کچھ اجڑ چکا تھا۔۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے مکمل بھیگ چکا تھا ۔۔
"میں تم سے نفرت نہیں کرتا بیا۔۔" وہ پیچھے ہوتے ہوتے دیوار سے جا ٹکرائی اور اس سے لگ کر کھڑی رہی کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں کسی صدمے میں۔
"تم میری بڑی بیٹی ہو بیا میں کیسے نفرت کر سکتا ہوں تم سے تمہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے۔۔" وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔۔اسکے قدم ساکت تھے جامد تھے۔۔ اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر حاجرہ اسکے بابا جان کی کھلی آنکھوں کو بند کر رہی تھیں۔ کاش کہ وہ ڈاکٹر کا ہاتھ جھٹک سکتی اور وہ آنکھیں کبھی نہ بند ہونے دیتی۔۔ لیکن سارا مسئلہ اس لفظ "کاش" کا ہی تو ہے۔۔ اس نے بمشکل سانس لینے کی کوشش کی اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔۔
"خود کو سنبھالو انابیہ۔۔ تمھیں اللہ نے آزمائش کے لیے چنا ہے اور وہ صرف اپنے خاص بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔" ڈاکٹر حاجرہ اسکے کے سامنے آتے ہوئے بولی۔۔
آزمائش؟؟ خاص بندے؟؟ کیا میں ہوں خاص بندی؟؟ میں نے تو ہمیشہ اپنے والدین کی نافرمانی ہی کی تھی میں تو ضدی تھی اپنی چلاتی تھی۔۔ انکا بھروسہ توڑا انکا مان توڑا ۔ ان کو کبھی نہیں سمجھا میں نے۔۔ ہمیشہ تو ان کی محبت اور خلوص پر شک کیا۔۔ یہ آزمائش نہیں ہے یہ سزا ہے میری۔۔!!
وہ یہ سب چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھی مگر اس کی آواز گلے میں دب گئ تھی مر گئ تھی۔۔ اس کا دل تھا جو چیخ رہا تھا دھاڑے مار رہا تھا۔۔
"چلو انابیہ تمہارے تایا کو ہوش آگیا ہے ان سے مل سکتی ہو تم۔۔" اس نے کرنٹ کھا کر ڈاکٹر کو دیکھا جیسے اس کے جان میں جان آئی تھی۔۔
"وہ ٹھیک ہیں؟؟" آواز دبی ہوئی تھی۔۔ ڈاکٹر حاجرہ نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے جانے لگی۔۔۔ وہ لڑکھڑاتے قدم انکا ہاتھ پکڑے ان کے ساتھ کھنچتی ہوئی اس کمرے میں داخل ہوئی جہاں ناصر صاحب آنکھیں بند کیے لیٹے ہوئے تھے۔۔ ان کے سر پر پٹی بندھی تھی۔۔ پیسنجر سیٹ پر ہونے کی وجہ سے انکے چہرے کا بیشتر حصہ شیشے کی وجہ سے زخمی تھا گلے پر بھی سٹچز کے نشان تھے ۔۔
"کیا یہ ٹھیک ہیں؟؟" جس طرح کی انکی حالت تھی اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یقین نہ کرتا کہ وہ ٹھیک ہیں۔۔ اس نے بےبسی سے ڈاکٹر کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گئیں اور ہاتھ میں پکڑی ایک فائل کی طرف متوجہ ہو گئ ۔۔کچھ تھا جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں جو وہ بتانا نہیں چاہ رہی تھیں مگر کب تک؟؟
انہوں نے بمشکل آنکھیں کھول کر سامنے کھڑی انابیہ کو دیکھا تو ہلکے سے اس کا نام لیا۔ انابیہ نے فوراً سے چہرہ ان کی طرف گھمایا۔۔ ایک آس تھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ جیسے ان سے کہہ رہی ہو کہ بس وہی ایک آخری سہارا ہیں اس کا۔۔ اس تنہا دنیا میں اب وہی ہیں جو اسکا ہاتھ پکڑ کر ہر کٹھن راستہ اسے پار کرا سکتے ہیں۔۔
"احمد کہاں ہے مجھے اس کے پاس لے چلو۔۔۔" مشکل سے انہوں نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔۔ لیکن سامنے مکمل خاموشی تھی ۔
"چپ کیوں ہو وہ سب ٹھیک ہے نا؟؟" ان کی ادھ کھلی آنکھیں بیا کے چہرے پر ٹکی تھیں۔۔ بنا سوچے سمجھے انابیہ نے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔ اس وقت وہ بس چاہتی تھی کہ تایا جان ٹھیک ہو جائیں انکی حالت ایسی نہیں تھی جو اتنی بڑی خبر برداشت کر سکتے۔۔
"بس گھر چلتے ہیں مجھے یہاں نہیں رہنا ۔۔ ان سے کہو مجھے ڈسچارج کریں مجھے میرے بھائی اور بھابھی سے ملنا ہے۔۔۔" وہ آہستہ آہستہ اپنا جملہ مکمل کرتے گئے۔۔ بیا نے اپنے آنسوؤں پر جو ضبط ان کے سامنے کر رکھا تھا وہ برقرار نہ رہ سکا ۔۔ وہ فوراً سے دوسری طرف گھومی اور منہ پر ہاتھ رکھے بے دردی سے روتی گئ۔۔ ناصر صاحب نے آنکھیں دوبارہ بند کر لیں وہ شاید انجیکشن کے زیراثر تھے۔۔ کچھ دیر ایسے ہی روتے روتے اس نے اپنا چہرہ رگڑا آنسو پونچھے اسی دوران ایک اور نرس بھاگتے ہوئے آئی تھی۔۔
"ڈاکٹر حاجرہ وہ لڑکی ہوش میں آگئ ہے اور بہت شور کر رہی ہے۔۔" ڈاکٹر فائل ہاتھ میں پکڑے فوراً اس کے پیچھے بھاگی۔ انابیہ کو تو جیسے اب ہوش آیا تھا کہ وہ اکیلی تو یہاں نہیں آئی تھی اسکے ساتھ ردا بھی تھی جسے اس سب میں وہ بلکل بھول گئ تھی۔۔ اب اسے اس کو بھی تسلیاں دینا تھیں اسکے آنسو بھی پونچھنے تھے اسے بھی سب بتانا تھا۔۔
"کیوں اللہ جی کیوں؟؟ مجھ میں تو صبر نہیں تھا۔۔ مجھے ہی کیوں اس آزمائش میں ڈال دیا؟" تر آنکھوں سے کہتے فوراً انکے پیچھے بھاگی۔۔ وہاں پہنچتے ساتھ اس نے دیکھا ردا بے دردی سے اپنی ڈرپس اتار رہی تھی۔۔ نرس اسے روکنے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی مگر وہ کسی کے قابو میں نہیں آرہی تھی۔۔اور وہ ڈرپ اتارنے میں کامیاب ہوئی۔ انابیہ نے دیکھا اسکے ہاتھوں پر خون تھا وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھی۔۔
"ردا کیا کر رہی ہو؟؟" وہ سوجی ہوئی آنکھوں مگر غصے سے اس پر بھڑکی۔۔
"آپی ماما جان کہاں ہیں؟؟ کہاں ہیں وہ؟؟" وہ انابیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے بولی تو انابیہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔ "ایک بار کہہ دیں وہ ٹھیک ہیں بس ایک بار۔۔ خدا کی قسم میں بلکل چپ بیٹھ جائوں گی ذرا سی چوں نہیں کروں گی۔۔ ایک بار کہہ دیں نا آپی۔۔۔ بولیں نا کچھ بول کیوں نہیں رہی آپ؟؟" وہ چیختے ہوئے روتے ہوئے تڑپتے ہوئے اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔۔ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی پیر جیسے زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔۔ انابیہ نے نے اسکا سرخ ہوتا روتا ہوا چہرہ اپنی ہتھیلیوں میں لے لیا۔۔
"ردا میری جان!!" ردا نے سسکتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔ وقت تھم گیا رک گیا۔۔ وہ اسکے اگلے الفاظ کی منتظر تھی۔۔
"ماما جان اور بابا جان کی ڈیتھ ہو گئ ہے۔۔" نہایت ہی دھیمی آواز میں اس نے اس سے کہا تھا لیکن لفظ ایسے تھے کہ ردا کو لگا کوئی زور سے اس کے کان میں چیخا ہے۔ اس کے اعصاب جواب دے گئے۔۔ کندھے ڈھیلے پڑ گئے۔۔ جو اب تک چیخ رہی تھی چلا رہی تھی وہ یکدم خاموش ہو گئ۔۔
●●●●●●●●●●●●●●●
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
اب کی فصل بہار سے پہلے
رنگ تھے گلستان میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں اب تمہیں خزاں والوں
جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
یہ اس کی زندگی میں وہ پہلی رات تھی جب اسے سب سے پہلا پینک اٹیک آیا تھا۔ وہ اکیلے کمرے میں نیم اندھیرا کیے بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے چیزوں کا پھیلاوا تھا۔ ماما جان اور بابا جان کے کپڑے۔۔ ان کی تصویریں اور دیگر چیزیں جن کا استعمال وہ اپنی زندگی میں کرتے تھے۔ آنکھوں سے پانی زاروقطار جاری تھا۔ ان کے کپڑوں سے ویسی ہی خوشبو اٹھ رہی تھی جیسے روز ان سے آتی تھی۔ جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن اپنی خوشبو چھوڑ جاتے ہیں چلو تھوڑا ترس تو ہم پر کھاتے ہیں۔ اس نے سارے کپڑے اکٹھے اٹھا کر اپنے سینے سے لگائے اور رونے لگی لیکن دبی دبی سسکیوں سے۔
“میں کیا کروں؟ میں کیسے آپ کو انصاف دلائوں گی؟ میں کیسے خودکو مضبوط کروں ماما جان؟ کیوں آپ نے مجھے لڑنا نہیں سکھایا کیوں مجھے عام لڑکیوں کی طرح زندگی گزارنے دی؟" وہ بھاری دل سے کہتی گئ۔ اس بار وہ بلند آواز میں نہیں روئی۔ کچھ دیر ایسے ہی گزر گئ تب اسے احساس ہوا اس کے ساتھ کچھ عجیب ہو رہا تھا جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔اسے محسوس ہوا اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ کپڑے وہیں فرش پر رکھ کر اس نے اپنے ہاتھ سامنے کر کے دیکھے پھر اسے معلوم ہوا نہ صرف ہاتھ بلکہ اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ کیا سردی کی وجہ سے؟ لیکن اسے تو ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی۔۔ اگلے ہی لمحے وہ ایک درد سے کراہ کر رہ گئ۔ بےساختہ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔ اس کے سینے میں بہت تکلیف ہو رہی تھی ساتھ ہی وہ مسلسل کانپ رہی تھی۔ اسے سانس لینے میں بھی مشکل ہونے لگی تھی۔ یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟ چند منٹوں میں اس کا چہرہ پسینے سے بھر گیا تھا۔ وہ فوراً سے کھڑی ہوئی اور اگلے ہی لمحے وہ دڑز سے زمین پر گری۔ اس کی ٹانگوں میں بلکہ پورے جسم میں جان نہیں تھی۔ گرتے ساتھ ہی وہ زمین پر لیٹ گئ اور کانپتے ہوئے بلند آواز سے رونے لگی۔ اس کا ایک ہاتھ سینے پر تھا اور دوسرا بےجان زمین پر پڑا تھا۔ کیا وہ مرنے والی تھی؟
" نہیں نہیں۔۔ " اس نے چیخنا شروع کر دیا چلانا شروع کر دیا۔۔
" ردا۔۔ ردا۔۔ " وہ مسلسل اسے ہانپتے ہوئے آوازیں دے رہی تھی لیکن کوئی نہ آیا۔ کچھ ہی دیر میں اس کا سر چکرانے لگا۔۔ پھر سب کچھ دھندلانے لگا ۔۔ اور پھر اندھیرا چھانے لگا۔ اس کی آواز اس کی آنکھوں کے ساتھ بند ہو گئ۔
بے بسی کی وہ کون سی آخری حد ہوتی ہے جس میں انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے؟؟؟ جب والدین ساتھ چھوڑ جائیں ۔ جب آپ انہیں شہر خاموشاں میں تنہا مٹی تلے دبا آئے۔۔ خود سے دور بہت دور چھوڑ آئیں وہاں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔۔ تب آپ کو سمجھ آتی ہے کہ اب تھپکی دینے والا کوئی نہیں ہے نہ بائیں طرف نہ دائیں طرف۔
اس نے گردن دائیں طرف گھمائی۔۔ ماما جان اس کے ساتھ کھڑی تھیں مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔
"خود کو اکیلا مت سمجھنا بیا۔۔ تم اکیلی نہیں ہو۔۔ ہار مت ماننا۔۔ حالات سے مت گھبرانا۔۔ لڑنا چاہے اکیلے ہی لڑنا پڑے مگر لڑنا اپنی بہنوں کے لیے۔۔ انکی ڈھال بننا۔۔ انکی ماں بننا۔۔۔" وہ مسکرائی تو بیا بھی مسکرا دی۔۔ چاند کی روشنی انکے چہرے کو مزید روشن کر رہی تھی۔۔ اس نے گردن بائیں طرف گھمائی۔۔ بابا جان اس کے ساتھ کھڑے تھے نظریں آسمان پر تھیں۔۔
"تم میرے لیے وہ خزانہ تھی جسے میں دنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا۔۔ تم مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔۔ میں نے تم سے کبھی نفرت نہیں کی صرف اس دنیا سے کی۔۔"انکی نظروں کا کا رخ اب بیا کے چہرے پر تھا۔۔" اگر کوئی تم سے کہے کہ تمھارے اردگرد دشمن ہیں تو یقین کر لینا کہ ایسا ہے۔۔ ہر انسان کا کوئی دوسرا انسان دشمن ہوتا ہے۔ جو آپکے پیچھے آپکو نقصان پہچانے کے منصوبے بنا رہا ہوتا ہے۔۔ بس ان کے منصوبوں کو کس طرح ناکام کرنا ہے یہ آپ کی صلاحیتوں پر ہے۔۔۔" اس نے بغور انکا چہرہ دیکھا اور پھر آسمان کو دیکھنے لگی۔۔ کچھ ہی سیکنڈز کی دیر تھی اس نے دائیں دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔۔ اس نے بائیں دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔۔ یکدم اس کی کی آنکھ کھلی ۔۔ وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھی۔۔ وہ جہازی سائز کے بیڈ کے عین درمیان میں لیٹی تھی۔۔ اس نے تیزی سے دائیں دیکھا وہاں ردا تھی گہری نیند میں۔۔ پھر اس نے بائیں دیکھا وہاں مناہل تھی نیند میں خراٹے لیتی۔۔ گہرا سانس بھرتی وہ بے ساختہ مسکرا دی۔۔
"خود کو اکیلا مت سمجھنا بیا۔۔ تم اکیلی نہیں ہو۔" ماما جان کی آواز اسے پھر سے سنائی دی۔۔ وہ پھر مسکرا دی۔۔ اور دوبارہ سے خود پر کمبل ڈالتے وہ لیٹ گئ۔۔ چھت کو کچھ دیر تکنے کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں۔ لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اب بھی تھی اور اب تو دل کو بھی سکون تھا۔۔ اسے جینا تھا اپنوں کے لیے اسے جینا تھا۔ وہ خود کو سنبھال لے گی سب کے لیے۔ وہ قربانی دیتی رہے گی جیسے دیتی رہی ہے۔ اب وہ اپنے آنسوؤں اپنی تکلیفوں کی قربانی دے گی۔ اپنا ہر دکھ پرے رکھ کر اپنوں کا دکھ دیکھے گی ۔ اپنے آنسو خود میں چھپا کر وہ سب کے آنسو پونچھےگی۔۔
●●●●●●●●●●●●●●●
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔