وہ جب گھر پہنچے تو جارحانہ انداز میں سیدھا لائونج میں گئے جہاں ردا اور مناہل ٹی وی کے سامنے بیٹھے ٹیسٹ میچ دیکھ رہی تھیں۔۔
"اور یہ کنگ کی سینچری مکمل ۔۔۔" ردا صوفے پر سے اٹھتے ہی پورا زور لگا کر چیخی تھی۔ خوشی کے مارے اچھلنے لگی اور گھومتے ہی سامنے کھڑے شخص کو دیکھتے ہی نہ صرف اس کی ہنسی رکی تھی بلکہ نینو سیکنڈز میں اس نے اپنی قبر، کفن اور پتہ سب سوچ لیا تھا۔
"انابیہ کہاں ہے؟؟" ان کی بھاری اور غصے بھری آواز سنتے ہی اس کے جسم سے جیسے کوئی کرنٹ سا گزرا ۔
"کمرے میں ہے۔۔" وہ بمشکل بول پائی۔
"میرے کمرے میں بھیجو اسے۔۔" یہ کہتے ہی انھوں نے ناہیدہ بیگم کو آواز دی جو کچن سے فوراً انکی آواز پر باہر آئیں۔ "تم بھی آئو بات کرنی ہے مجھے۔۔" وہ ناہیدہ اور ردا کو حکم صادر کرتے اپنے کمرے میں تیز قدم لیتے چلے گئے جبکہ ردا اور ناہیدہ کی نظریں ملیں تھیں جس پر ردا کندھے اچکاتے فوراً انابیہ کے پیچھے گئ۔۔
"آپی بابا بلا رہے ہیں آپکو۔۔۔" وہ اس وقت کمرے میں ٹہلتے ہوئے کانوں میں ہینڈ فری لگائے موبائل پر ایک نیا ڈرامہ دیکھ رہی تھی تبھی ردا اس کے پاس جا کر بولی۔۔
"اچھا جاتی ہوں۔۔ تمہارا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟" وہ کانوں سے ہینڈ فری نکالتے ہوئے بولی تبھی ردا نے آگے ہو کر اسے بازو سے پکڑا جس پر وہ اسے حیرت سے دیکھے گئ۔۔
"آپی کچھ ہوا ہے شاید۔۔ بابا کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ضرور کچھ ہوا ہے۔۔" اسکی بات سنتے ہی انابیہ کا بھی رنگ اڑا ضرور تھا۔
"کیا مطلب؟؟ کہیں عالیان نے تو کچھ۔۔" اس کا ذہن الجھن سا گیا تھا۔
"افف مجھے نہیں پتہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔۔ میں بتا رہی ہوں اگر وجہ وہ ہوا نا تو میں چھوڑوں گی نہیں اسے۔۔" ردا اسکی بات کاٹتے ہوئے دانت پیستے ہوئے بولی۔۔
"اچھا بازو چھوڑو دیکھنے تو دو جا کر۔۔" وہ ردا کی گرفت سے اپنا بازو آزاد کرتے ہوئے بولی۔۔
"میں بھی ساتھ آتی ہوں۔۔" انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا تو ردا بھی اسکے پیچھے چل دی۔۔
"کیا ہوا ہے کچھ بتائیں تو۔۔" احمد کمر پر ہاتھ باندھے نہایت غصے کے عالم میں کھڑے تھے تبھی ناہیدہ انکے پیچھے کھڑے بولی۔۔
"جو ہوا ہے اس سے برا کیا ہوگا میرے لیے۔۔" انھوں نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا اسی دوران انابیہ کمرے میں داخل ہوئی اسکے ٹھیک پیچھے ردا تھی جس نے دروازہ واپس سے بند کیا۔۔
"بابا آپ نے بلایا؟؟" وہ گھبرائی ہوئی آواز میں بولی جبکہ احمد صاحب اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔۔ اسے پہلی دفعہ انکی آنکھیں دیکھ کر بہت خوف ہو رہا تھا۔ انھوں نے بس ایک قدم اسکی طرف بڑھایا۔۔
"کبیر کون ہے؟؟" انابیہ کی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں اسے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی اسے لگا اسکے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئ ہے اور وہ ابھی دفن ہو جائے گی۔ جبکہ ناہیدہ بیگم منہ کھولے اپنے شوہر کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ردا کے تو مانو آج سارے طوطے اڑ گئے تھے۔۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں کبیر کون ہے؟؟" وہ تقریباً پوری آواز میں دھاڑے تھے اتنا کہ انابیہ انکی آواز سنتے واپس ہوش میں آئی۔
"مم ۔ میری۔۔ یونیورسٹی۔۔ مم میں پڑھتا ہے۔۔" وہ ٹوٹے ہوئے لفظوں میں بمشکل بول پائی۔
"صرف یونیورسٹی میں؟؟" انکی آواز پھر اونچی تھی۔
"مم میرا کلاس۔۔ فف۔۔فیلو بھی ہے۔۔" وہ بول نہیں پا رہی تھی۔ الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
"صرف کلاس فیلو؟؟" وہ ایک قدم اور اسکے قریب آئے۔۔ وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ وہ چہرہ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتی تھی۔
"آپ کیا سننا چاہتے ہیں اس سے کیسے سوال کر رہے ہیں ؟" ناہیدہ اسی طرح پیچھے کھڑے کھڑے تیز آواز میں بولی۔
"سچ صرف سچ۔۔۔" انھوں نے پیچھے مڑ کے ناہیدہ کو نہیں دیکھا انکی سخت نظریں اب بھی انابیہ پر تھیں۔۔
"بولو بیا کیا سچ ہے بتائو مجھے۔۔۔" انھوں نے ایک اور قدم بڑھایا اب وہ اسکے سامنے کھڑے تھے اس نے مارے خوف کےایک قدم پیچھے لیا۔
"با با۔۔ وہ۔۔۔" انھوں نے فوراً اسے ٹوکا۔۔
"کوئی جھوٹ نہیں۔۔کم از کم اب جھوٹ بول کر میرا مان مزید مت توڑنا۔۔ میں سب جانتا ہوں ۔۔ لیکن میں تم سے سننا چاہتا ہوں۔۔ خدا کی قسم آج تم جو بھی بولو گی میں یقین کروں گا لیکن وقتی جان چھڑانے کے لیے جھوٹ مت بولنا ۔ جو سچ ہے مجھے بتائو ۔" انکا لہجہ سخت تھا مگر آواز آہستہ تھی۔
"بولو بیا بولتی کیوں نہیں گونگی ہو گئ ہو کیا؟؟" انھوں نے اسکا بازو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے تیز آواز میں کہا۔ ناہیدہ فوراً آگے آئی مگر دوسرے ہاتھ کے اشارے سے احمد نے انہیں روک دیا۔۔ جبکہ انابیہ کا چہرہ مکمل بھیگ چکا تھا۔ پیچھے کھڑی ردا اپنے منہ پر ہاتھ رکھے زرد چہرے سے ان کو دیکھ رہی تھی۔
"محبت۔۔ کرتا۔ ہے ۔۔ وہ ہ ۔مجھ سے۔۔۔" وہ روتے ہوئے بولی۔۔
"اور تم؟؟" گرفت مزید سخت ہوئی۔ وہ کچھ نہیں بولی۔۔
"اور تم انابیہ؟؟؟" آواز پھر اونچی تھی۔۔
"مم میں۔۔ بھی۔۔" وہ ڈر کے مارے آنکھیں بند کر گئ کیونکہ اسے ایک زوردار تھپڑ کی توقع تھی۔انکی گرفت ایک دم ڈھیلی ہوئی اور انابیہ کے آنسوؤں کی رفتار اور تیز ہو گئ۔۔ چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔ "اعتبار" ۔۔ مکمل خاموشی ہو گئ۔۔ کچھ سیکنڈز بعد انابیہ نے چہرہ دھیرے سے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اپنے باپ کو دیکھا وہ سانس نہیں لے سکی اسے لگا اسکا دل ابھی پھٹ جائے گا اسکا باپ احمد عالم رو رہا تھا انکی آنکھوں میں آنسو تھے صرف اس کی وجہ سے۔۔وہ کچھ نہیں بول سکی سوائے۔
"بابا۔۔" اسکی پکار میں شدید درد تھا وہ سب دیکھ سکتی تھی مگر اپنے عزیزوں خاص کر اپنے باپ کو روتا ہوا بلکل نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔
"بلکل چپ!! نہیں ہوں میں تمہارا باپ۔۔۔ تم اگر مجھے باپ سمجھتی تو میرا مان ایسے نہ توڑتی۔۔۔" وہ درد بھری آواز میں بولے۔۔ " تم ایسا کیسے کر سکتی ہو تم نے ہم سب کو دھوکہ دیا ہے میں نے بھروسہ کیا تھا تم پر تم جانتی تھی تمہارا رشتہ طے ہوا ہوا ہے اور تم پھر بھی عشق معشوقی کے چکر میں پڑ گئ۔۔ تمہیں ذرا احساس نہیں ہوا میری عزت کا۔۔۔" وہ کچھ نہیں بول سکی وہ بولنا چاہتی تھی انکو سب بتانا چاہتی تھی مگر وہ صرف روتی رہی۔۔
"بابا ۔۔ وہ اچھا انسان ہے آپ ایک دفعہ اس سے ملیں۔۔ مجھے عالیان سے شادی نہیں کرنی آپ یہ بات جانتے تھے۔"
"تم نہایت بے شرم ہو انابیہ تم میں شرم مر چکی ہے۔۔ یہی وجہ تھی جو میں عورتوں کے گھر سے نکلنے پر راضی نہیں تھا۔۔ لیکن تمہاری ضد کی وجہ سے آج یہ سب ہو رہا ہے۔۔ کیسے ڈھٹائی سے کہہ رہی ہو کہ مل لیں اس سے ۔۔" انکے لفظ سخت تھے اتنے کہ انابیہ کا سینا چیر رہے تھے۔۔
"بے شرم نہیں ہے وہ بابا۔۔۔" اس بار آواز ردا کی تھی جو انکے سامنے آتے ہوئے بولی۔۔ "کیا آپ نے کبھی سمجھا ہے اسے کہ وہ کیا چاہتی ہے وہ نہیں کرنا چاہتی عالیان سے شادی تو نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ لڑکی کی مرضی کی اجازت تو ہمارا مذہب بھی دیتا ہے تو آپ۔۔۔" انھوں نے درشتی سے اسکی بات کاٹی۔۔
"تو کیا مذہب یہ کہتا ہے کہ چھپ چھپ کر عشق معشوقیاں کرو ہاں۔۔ کیا وقت دیکھنا پڑ رہا ہے مجھے کہ آج میری بیٹیاں میرے سامنے کھڑے ہو کر میرے فیصلوں کو غلط کہہ رہی ہیں۔۔۔" انابیہ نے ردا کا بازو پکڑ کر اسے پیچھے کھینچا۔۔
"ردا ایسے بات نہیں کر سکتی تم ان سے۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تنبیہی انداز میں بولی۔۔
"مگر آپی۔۔" ردا اس کے گھورنے پر چپ ہو گئ۔۔
"بابا عالیان اچھا نہیں ہے وہ بہت برا ہے میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔۔
"تم اچھی ہو؟؟ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو انابیہ کیا تم کسی کے قابل ہو جو تم کرتی پھر رہی ہو۔۔۔" اسکے پاس الفاظ نہیں تھے اسے بد کردار بنا دیا گیا تھا۔۔
"وہ نہیں کرنا چاہتا آپی سے شادی بابا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے۔۔" ردا وہیں کھڑے کھڑے بولی۔۔
"ایک کے بعد ایک نیا بہانہ ایک نیا جھوٹ۔۔ تمہاری بہن شادی ہی نہیں کرنا چاہتی اس سے۔۔"
"آپ یقین کیوں نہیں کر رہے ہماری کسی بھی بات کا؟؟" اب کی بار ردا کی آواز کافی اونچی تھی۔ وہ سخت نظروں سے انہیں گھور رہی تھی۔۔
"ردا!!!! چپ کر جائو۔۔" انابیہ اسے دیکھتے ہوئے پھر سے چیخی۔۔
"بابا آپ یقین کرے میرا میں سچ بول رہی ہوں اس نے کہا تھا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔ کبیر اچھا انسان ہے وہ برا نہیں ہے۔۔" وہ آگے ہوتے ہوئے منت کرتے ہوئے بولی۔۔
"یقین ہی تو نہیں رہا۔۔ اگر اب تم نے اس گھٹیا لڑکے کا نام میرے سامنے لیا تو میں لحاظ نہیں کروں گا۔۔۔" بولتے ہوئے انہوں نے اپنی جیب سے فون نکالا اور اس کے ہاتھ میں دیا ۔ اس نے ایک نظر فون کو دیکھا اور پھر نا سمجھی سے اپنے باپ کو جو اسے گھورے جا رہے تھے۔۔
"فون ملائو عالیان کو ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔۔" اس نے تیزی سے نمبر ملایا اور کال کی۔۔رنگ جا رہی تھی۔۔
"سپیکر آن کرو۔۔" انھوں نے سخت مگر آہستہ آواز میں کہا۔۔ انابیہ نے فوراً سپیکر کھولا ۔۔ کچھ ہی دیر میں فون سے عالیان کی آواز گونجنے لگی تھی۔۔
"السلام علیکم چچا جان۔۔" وہ یقیناً سو رہا تھا۔ اور نیند میں بولا۔۔
"میں انابیہ بات کر رہی ہوں۔۔" وہ تیزی سے بولی۔۔ عالیان نے آنکھیں ملتے ہوئے فون کان سے ہٹا کر اسکرین کو دیکھا اور پھر کان سے لگایا ۔
"تم چچا جان کے نمبر سے۔۔۔"
"چھوڑو اس بات کو یہ بتائو تم نے کہا تھا نا کہ مجھ سے شادی نہیں کرنی اور یہ بھی کہ تم واپس نہیں آئو گے۔۔" وہ روانی میں اک آس لیے بولی ۔۔
"میں واپس آئوں گا۔"۔ اس نے اسکا جواب صحیح سے نہیں دیا بلکہ ایک اور دھماکہ اس کے سر پر پھوڑ دیا۔۔ "اور میں آکر شادی بھی کروں گا لیکن۔۔" اس سے پہلے کہ وہ آگے بولتا احمد صاحب نے اس کے ہاتھ سے فون کھینچ کر کال کاٹ دی۔ انابیہ تو جیسے صدمے میں چلی گئ تھی۔۔۔ وہ ساکت نظروں سے ان کو دیکھے گئ۔
دوسری طرف عالیان بے یقینی سے اپنا فون دیکھنے لگا۔۔ "واٹ دا ہیل!! بات تو پوری سن لیتی۔۔" وہ سر جھٹک کر واپس سونے لگا۔۔
"اور کوئی جھوٹ ہے بیا تمہارے پاس؟؟" وہ ماتھے پر شکنے لئے اسے سخت نگاہوں سے گھور رہے تھے۔۔
"جھوٹا مکار!! " ردا کی آواز پر احمد صاحب نے اسے بھی گھورا۔۔ جبکہ انابیہ بے یقین سی کھڑی رہی۔ اسے لگا آج سب ختم ہو گیا سب کچھ ۔۔
"اور کچھ کہنا ہے تمہیں؟؟" احمد صاحب نے اسکی سرخ آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
"اب میری سنو۔۔۔ ہم کراچی جا رہے ہیں اپنا سامان سمیٹو۔۔ ہم صبح کی فلائٹ سے جا رہے ہیں۔۔۔" یہ ایسی بات تھی جس نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ انابیہ اسی طرح روتے ہوئے زمین پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئ۔ ردا فوراً اسکے پاس آ بیٹھی۔۔
"آپی!!! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بابا ہم اپنا سب کچھ چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟؟" آنسو ردا کی آنکھوں سے ٹم ٹم گر رہے تھے۔۔
"یہ سب پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔ میری ٹرانسفر ہو گئ ہے اور میں تم لوگوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔" تنبیہی انداز سے کہتے ہی ایک نظر انھوں نے روتے ہوئے انابیہ کو دیکھا جو کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بیٹھی تھی ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔ اسکے آنسو ایسے بہہ رہے تھے کہ کوئی بھی دیکھتا تو اس پر ترس ضرور کھاتا یہ تو پھر باپ تھا۔۔ وہ اسی طرح اسکے سامنے زمین پر بیٹھ گئے۔۔
"بیا!!!" انھوں نے بہت دھیمی آواز میں اسے پکارا۔۔" اتنا کیوں رو رہی ہو ؟؟ بہت محبت کرتی ہو اس سے؟" اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ بس روتی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔
"بتائو بیا کیا ہم سے بھی زیادہ محبت کرتی ہو اس سے؟؟" اس بار انکا لہجہ نرم تھا۔۔ وہ بس انہیں دیکھے جا رہی تھی۔۔
"بولو بیا اگر میں کہوں کہ ایک کو چنو ہم یا وہ۔۔ کسے چنو گی تم؟؟" یہ وہ سوال تھا جس سے انابیہ احمد سب سے زیادہ ڈرتی تھی اور وہ آج اس سے پوچھا جا رہا تھا۔۔ اسکے چہرے کی رنگت پیلی پڑ گئ۔۔
"جانتا ہوں مشکل سوال ہے تمھارے لیے آسان کر دیتا ہوں۔۔" ناہیدہ بیگم اٹھ کر انکے ساتھ آ بیٹھی۔۔ پل میں سخت پل میں نرم انابیہ کچھ نہیں سمجھ پا رہی تھی۔۔
" میں تمہیں آپشنز دیتا ہوں ۔۔ بلائو اسے۔۔ کہو اسے میرے سامنے تم سے نکاح کرے اور لے جائے تمہیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا مجھ سے میرا اکلوتا بڑا بھائی چھن جائے گا نا تمہیں تو تمہاری محبت مل جائے گی۔۔۔لیکن۔" اس کے آنسو اب بھی اسکے گالوں پہ بہہ رہے تھے۔۔
"پھر تمھاری زندگی میں صرف وہی ہوگا ہم نہیں۔ میں کم از کم اپنی زندگی میں تمہیں اپنی ماں، بہنوں اور خود سے کبھی نہیں ملنے دوں گا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ایسا کروں گا۔۔" وہ کچھ نہیں بولی وہ صرف انکا چہرہ دیکھ رہی تھی انکی آواز سن رہی تھی۔۔
"یا پھر بھول جائو اسے ہمارے ساتھ چلو۔۔" اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں۔۔
"تم سے غلطی ہوئی ہے شاید میں تمہیں معاف بھی کر دوں۔ لیکن اسے بھولنا ہوگا یا ہمیں۔۔۔" اس نے آنکھیں کھولیں وہ پہلے کی طرح سرخ تھیں۔۔
"میں تمہیں ایک اور موقع دوں گا تمہیں کراچی میں بھی پڑھنے دوں گا۔۔ تم ایک غلطی دوبارہ نہیں کر سکتی۔ میں جانتا ہوں ۔۔" اسکے آنسوؤں کی رفتار اب کم تھی۔۔
"سب کچھ پھر سے شروع کرو بھول جائو کہ تمہارا کبھی محبت جیسی بلا سے پالا پڑا تھا۔۔ وہ سیریس نہیں ہے تمہارے ساتھ بچے وہ استعمال کر رہا ہے تمہارا آجکل کے دور میں سوائے اپنوں کے کوئی مخلص نہیں ہوتا۔۔" انکی اس بات پر بیا تلخی سے ہنس دی کم از کم اس بات پر تو وہ یقین نہیں رکھتی تھی وہ کبیر کی محبت پر اندھا اعتبار کرتی تھی وہ اتنا تو جانتی تھی کہ وہ اس سے سچی محبت کرتا ہے اور اسکا استعمال کرنا!! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔
"میں تمہیں رات تک وقت دیتا ہوں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ۔۔" وہ یہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھ کر تیز قدم لیتے کمرے سے نکل گئے۔۔
"میں پانی لاتی ہوں۔۔" ردا اپنی بہن کی بےسدھ حالت دیکھتے ہوئے بولی۔۔ وہ جب کمرے سے گئ تو ناہیدہ انابیہ کے سامنے آکر بیٹھ گئ۔۔ انہوں نے مڑ کر ایک نظر دروازے کو دیکھا اور پھر انابیہ کو۔۔
"تمہارا باپ دل کا مریض ہے۔۔" اس نے یکدم نگاہیں اٹھا کر سامنے بیٹھی عورت کو دیکھا۔۔ وہ یہ بات نہیں جانتی تھی۔۔ایک کے بعد ایک بڑی خبر وہ بے یقینی کے عالم میں اپنی ماما جان کو دیکھے گئ۔۔
"خدا کا واسطہ ہے آپکو کہہ دیں ایسا نہیں ہے؟" وہ انکی آنکھوں میں امید سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"کوئی بھی بری خبر انکے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے بیا۔۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا۔۔ یاد رکھنا وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔ تمہارا غلط فیصلہ وہ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ۔۔" وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولیں۔۔ "ردا اور منو کو کچھ نہیں بتانا۔۔" وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی تبھی ردا پانی کا گلاس ہاتھ میں پکڑے اندر آئی اور بیا کو اپنے ہاتھوں سے پلانے لگی اور پھر اسے ہاتھ کا سہارا دے کر اٹھنے میں مدد دی اور اسے اپنے ساتھ لگائے وہاں سے اپنے کمرے میں لے گئ۔۔۔
●●●●●●●●●●●●
شام ہو گئ تھی احمد صاحب اپنے کمرے میں راکنگ چئیر پر بیٹھے چھت پر نظریں ٹکائے مسلسل جھول رہے تھے۔ انکے چہرے پر عجیب سی سوگواری تھی۔۔
"آپ کب تک اس طرح اداس بیٹھے رہیں گے؟؟" ناہیدہ سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگی وہ انکے دائیں طرف پڑے صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔ وہ انکے سوال پر کچھ نہیں بولے ۔۔
"ایک بات کہوں؟؟" ناہیدہ انکی مسلسل خاموشی دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"ہممم۔۔"
"آپ بیا کی بات مان لیں ایک دفعہ اس لڑکے سے بھی مل لیں کیا پتہ وہ ۔۔" احمد صاحب نے چہرہ اٹھا کر انکی طرف دیکھا ناہیدہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں اتنا سنگدل ہوں ۔۔ میں جانتا ہوں وہ پسند کرتی ہے اس لڑکے کو اگر وہ ایک اچھا انسان ہوتا تو میں ضرور اس بارے میں سوچتا۔۔" وہ سرد لہجے میں انکی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔۔
"کیا مطلب اچھا لڑکا نہیں ہے؟؟" ناہیدہ نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
"تمہیں کیا لگتا یہ سب مجھے خواب میں پتہ چلا ہے ۔۔ ظاہر ہے ناہیدہ کوئی تھا جس نے مجھے یہ سب بتایا اور وہ اور کوئی نہیں اس لڑکے کی اپنی منگیتر تھی وہ میرےآفس آئی تھی" یہ سنتے ناہیدہ کا منہ حیرت سے کھلا اور وہ گنگ رہ گئیں۔۔ "وہ ہماری بیٹی کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہے میں کیسے اس سے ملوں؟؟"
"تو آپ نے بیا سے کیوں کہا کہ وہ اسے بلائے اور نکاح کرے آپ تو جانتے ہیں پھر بھی؟؟" ناہیدہ کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی تھی۔۔
"افف ناہیدہ میں نے واقعی زیادتی کی ہے تمہارے ساتھ تمہیں چار دیواری میں رکھ کر۔۔۔۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے بولے۔۔
"کیا مطلب؟؟" وہ اچنبھے سے پوچھنے لگیں۔۔
"مطلب یہ کہ اگر وہ سنجیدہ ہوگا تو ہی تو آئے گا نا ورنہ وہ اسے ٹال دے گا۔۔ یہ میں نے اس سے اسی لیے کہا کہ وہ خود جان لے کہ اسے دھوکہ دیا جا رہا تھا۔ میں چاہتا ہوں وہ خود فیصلہ کرے اور مجھے وہ منظور ہوگا لیکن اسے پریشرائز کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اسے میری بیماری کا پتہ چلے۔۔۔" یہ آخری جملہ سنتے ہی ناہیدہ کے چہرے کے تاثرات پل میں بدلے تھے کچھ تھا جو انکے گلے میں اٹکا تھا۔۔۔
"آپ نے اسے اس لڑکے یا ہمیں چننے کا کہا ہے آپکو کیا لگتا ہے آپ نے اسے پریشرائز نہیں کیا؟؟" وہ خود کو کمپوز کرتے انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"یہ ضروری تھا۔۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اب پھر وہ میرا مان توڑے گی یا نہیں ۔۔" وہ بولے اور پھر گردن ناہیدہ کی طرف گھمائی۔۔ " جہانزیب تمہیں بھولا تو نہیں ہوگا نا۔۔ وہی جہانزیب جس نے اپنی محبت کا قتل اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ لڑکی جو میرے آفس آئی تھی میری بیٹی کی زندگی میں جہانزیب بن کر داخل ہو۔ میں اسے اس لڑکی سے بچانا چاہتا ہوں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میری بیٹی نے جس لڑکے کو اپنے دل میں جگہ دی ہے وہ اس کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تب بھی میں انابیہ کو یہاں نہیں رہنے دوں گا۔۔" کہہ کر وہ دوبارہ آنکھیں بند کر گئے۔ ناہیدہ کچھ دیر خاموش رہی۔ بڑی ہمت مجتمع کرکے انہوں نے ان سے اگلا سوال کیا۔
“وہ عالیان سے شادی نہیں کرنا چاہتی اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟؟"
“تو نہ کرے۔۔ بس میرے ساتھ چلے۔ میں کوئی زبردستی نہیں کروں گا۔ وہ میری مان میں اس کی مان لوں گا۔۔ اب مزید باتیں نہیں سامان پیک کرو۔ ہمیں صبح نکلنا ہے۔۔" وہ انکو حکم دیتے دوبارہ راکنگ چئیر پر جھولنے لگے۔۔ جبکہ ناہیدہ سوچوں کی دنیا میں دور جا چکی تھیں۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
وہ کمرے میں فرش پر گھٹنوں پر سر ٹکائے خاموش بیٹھی تھی۔ مسلسل رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں مکمل سوج چکی تھیں مگر اب وہ رو نہیں رہی تھی وہ بلکل خاموش تھی جیسے اسکا تو سب ختم ہو چکا تھا ۔۔ کیا ایسے ایک دم سب ختم ہو جاتا ہے کیا وقت ایسے ایک دم پلٹ جاتا ہے کیوں؟؟ ہم کیا کیا نہیں سوچ کر رکھتے اپنی زندگی کے لیے۔ انسان کیا ہوتا ہے؟ وہ ہر وقت اپنے ماضی حال اور مستقبل کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن مستقبل۔۔ مستقبل کے بارے میں تو صرف رب جانتا ہے تو وہ کیوں اپنے دماغ کو سوچ سوچ کر ہلکان کرتا ہے جس مستقبل کے بارے میں اسے کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا تو کیوں خواب دیکھ دیکھ کر اپنا مستقبل ڈیزائن کرنے لگ جاتا ہے۔ کیا وہ بھول جاتا ہے تقدیر رب لکھتا ہے مستقبل رب لکھتا سب وہ جانتا ہے تو وہ کیوں خوابوں میں خود کو غرق کر دیتا ہے۔ ہمیں ہر چیز نہیں مل جایا کرتی کیونکہ ضروری نہیں ہے ہر چیز ہمارے لیے ہو ہر حال میں ہمیں ہی ملے کبھی کبھی کمپرومائز بھی کرنا ہوتا ہے قربانی بھی دینی ہوتی ہے اور صبر وہ تو بہت کرنا ہوتا ہے۔۔
اور آج کی رات انابیہ نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کبھی بھی خواب نہیں دیکھے گی اور خواب دیکھ دیکھ کر خود کو کبھی دکھی نہیں کرے گی کیونکہ خواب انسان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حال کا سوچے گی ماضی کا سوچ سوچ کر ضرور تڑپے گی لیکن کبھی مستقبل کو ڈیزائن نہیں کرے گی جو کچھ اب اس کے ساتھ ہوگا وہ سب اسے اب دل سے منظور ہوگا۔
"آپی کچھ بولیں بات کریں ۔۔ مجھ سے آپکی خاموشی نہیں دیکھی جاتی۔۔" ردا اسکے سامنے بیٹھ کر اسکی منتیں کر رہی تھی لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھی رہی۔
"پلیز آپی بات کریں میں جانتی ہوں آپ فیصلہ کرنا چاہ رہی ہیں مگر کر نہیں پا رہی۔۔۔ آپی آپکی محبت سچی ہے اور میں جانتی ہوں آپ غلط انسان سے محبت نہیں کر سکتی وہ ضرور بہت اچھا ہوگا اور آپ سے سچی محبت کرتا ہوگا۔۔" اس نے زخمی نظریں دھیرے سے اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
"آپ سن رہی ہیں نا؟" وہ اسکی ویران آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔ وہ کچھ نہیں بولی۔۔ اسی دوران دروازہ کھلا اور مناہل اندر داخل ہوئی۔ دونوں نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔
"کیا؟؟؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے۔۔ اب ماما بابا کے کمرے سے لائونج تک کے راستے میں اتنا فاصلہ نہیں ہے جو مجھے کچھ سنائی نہ دیتا میں سب جانتی ہوں کیری آن!!" وہ قدم بڑھاتے بیڈ پر آ بیٹھی۔
"آپی آپ بتائیں اس کو سب ۔۔ بلائیں اسے کہیں لے جائے آپکو۔۔ میں ایسے نہیں دیکھ سکتی آپکو۔۔"ردا دوبارہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔
"فضول کے مشورے مت دو ردا یہ کیا کہہ رہی ہو تم جب بابا نے کہا کہ وہ آپی کے لیے اچھا نہیں ہے تو تم کیوں انہیں اپنی زندگی برباد کرنے کے مشورے دے رہی ہو۔۔۔" مناہل تیزی سے بولی۔
"تو کیا عالیان اچھا ہے؟؟ تم چپ کرو منو بلکل تم کچھ نہیں جانتی۔۔" وہ یکدم بھڑک اٹھی۔
"عالیان بھائی میں کیا برائی ہے؟ سب لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔" وہ جیسے ردا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"سب ایسے نہیں ہوتے سمجھی تم۔۔" ردا لال بھبھو کا چہرہ لیے چیخی۔
"چیخو مت مجھ پر چیخنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا فیصلہ آپی کو کرنا ہے بہتر ہے انہیں ہی کرنے دو۔۔" مناہل ہاتھ باندھے اسے گھورنے لگی۔۔
"میں انکو غلط فیصلہ کبھی نہیں کرنے دوں گی۔۔ سمجھنے کی کوشش کرو وہ محبت کرتی ہیں اس شخص سے کیسے چھوڑ دیں اسے۔۔" وہ منت بھرے انداز سے بولی۔۔
"مجھے تمہاری یہ باتیں سمجھ نہیں آتی براہ مہربانی انہیں مت بھڑکائو۔۔" بولتے بولتے اس نے ایک نظر انابیہ کو دیکھا جو واقعی قابل ترس لگ رہی تھی۔۔
"میں بھڑکا نہیں رہی انہیں سمجھا۔۔۔"
"چپ کر جائو تم دونوں۔۔۔" انابیہ اپنے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھے بلند آواز میں چیخی۔۔ دونوں نے یکدم اسے دیکھا۔۔ "پلیز چپ کر جائو پاگل کر دیا ہے مجھے۔۔" وہ روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔۔ اس کا سارا ضبط ٹوٹ چکا تھا۔۔ اس کا سارا صبر جواب دے چکا تھا۔۔وہ جو کب سے اپنے منہ کو سئیے بیٹھی تھی اب بھڑک اٹھی تھی۔۔
" میں کون ہوں ہاں کون ہوں میں؟؟ ایک جیتی جاگتی لاش۔۔۔ زندہ لاش ہوں میں سمجھے۔۔" اس نے سرخ متورم آنکھوں سے دونوں کو باری باری دیکھا۔۔ "لیکن پھر بھی میرا فیصلہ میں خود کروں گی۔۔ تم دونوں میرے معاملے سے دور رہو۔۔" اس نے انگلی اٹھا کے دونوں سے کہا۔ ردا اور مناہل اسے منہ کھولے دیکھے جا رہی تھیں انہوں نے آج سے پہلے انابیہ کو اتنا بھڑکتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ تو بہت نرم مزاج اور نرم لہجے میں بات کرنے والی لڑکی کو جانتے تھے یہ تو واقعی انکے لیے کون بن گئ تھی۔۔ وہ بات کرتے کرتے کھڑی ہو گئ اسکے ساتھ ہی ردا بھی کھڑی ہوئی۔۔ اب وہ ادھر ادھر پاگلوں کی طرح دیکھنے لگی جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔۔ کالا دوپٹہ اسکے سر سے ڈھلک کر اسکے کندھے پر آ گرا اسکے بکھرے سے بال ڈھیلے سے کیچر میں بندھے تھے۔۔ وہ بیڈ کی طرف بڑھی اور تکیوں کو زور سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اسکی مطلوبہ چیز وہاں بھی نہیں تھی۔ پھر وہ فوراً ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور بجلی کی رفتار سے موبائل وہاں سے اٹھا کر ہاتھ میں لیا اور اسکی سکرین کو دیکھنے لگی ۔وہ اپنا موبائل ڈھونڈ رہی تھی جو اسے مل گیا تھا۔۔
"میں فیصلہ کر چکی ہوں۔۔" وہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے بولی۔ ردا کے چہرے پر ایک دم خوشی لہرائی جیسے وہ جانتی تھی کہ اسکی بہن کیا کرنے والی ہے جبکہ مناہل نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے اسے افسوس سے دیکھا۔ ردا دو قدم بڑھاتی اسکے پاس گئ پھر اسکے جملے پر رکی۔۔
"محبت میرے لیے نہیں بنی۔۔" وہ ہاری ہوئی آواز میں بولی آنسو زاروقطار اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ اس نے ایک نظر اپنے موبائل کو دیکھا اور پھر ٹھیک اپنے سامنے والی دیوار کو۔ ردا نے اسکی نظروں کا پیچھا کرتے ہوئے گردن موڑ کر اسی دیوار کو دیکھا وہ شاید سمجھ چکی تھی کہ انابیہ کیا کرنے والی ہے۔۔ اسکی آنکھیں حیرت سے پوری کھلیں۔ پھر اس نے اپنی گردن اس کی طرف تیزی سے گھمائی۔
"محبت ۔۔ میرے۔۔ لیے۔۔ نہیں بنی۔۔۔" اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا موبائل پوری قوت سےسامنے دیوار پر دے مارا اتنا زور سے کہ اسکے حصے دور دور جا گرے تھے اسکی آواز سخت تھی اسکا چہرہ سرخ تھا۔۔ مناہل منہ پر ہاتھ رکھے موبائل کے ٹکڑوں کو دیکھ رہی تھی جبکہ ردا تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔۔ پھر بھاگتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئ ردا جیسے ہوش میں آتے فوراً اسکے پیچھے گئ۔۔
"آپی کہاں جا رہی ہیں؟؟" وہ اسکے پیچھے بھاگتے ہوئے بولی۔۔ انابیہ دروازے پر دستک دیے بغیر سیدھا ماما جان اور بابا کے کمرے میں گئ۔۔ احمد صاحب جو اسوقت راکنگ چئیر پر ہی بیٹھے تھے آہٹ پر نظریں اٹھا کر اسے دیکھنے لگے جو دروازے پر کھڑی تھی ناہیدہ بیگم بھی اسے اچانک اس طرح دیکھ کر دھنگ رہ گئیں۔۔ اسکی حالت پہلے سے کافی مختلف تھی۔۔ لیکن اس کی زخمی اور ویران نظریں صرف اپنے باپ کی طرف تھیں وہ تیز قدم لیتی انکے پیروں میں جا بیٹھی ۔۔
"مجھے۔ معاف۔۔ کردیں۔۔بابا۔۔۔" ٹوٹے پھوٹے لفظ اس نے روتے ہوئے ادا کیے۔۔ " میں واقعی بہت بری بیٹی ہوں۔۔ میں نے ہر بات میں اپنی منمانی کی ۔ میں نے آپکا بھروسہ توڑا ۔۔ آپکا مان توڑا ۔۔ میں معافی مانگتی ہوں پلیز بابا۔۔" وہ انکے گھٹنوں پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ احمد صاحب کے دل کو کچھ ہوا انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اسکے سر پر رکھا اور اس کے بالوں کو ہلکے سے سہلانے لگے۔
"مت کرو بیا ایسے اٹھ جائو۔۔" انکی آواز لرکھڑائی تھی۔ انابیہ نے گردن اٹھا کر اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے انکی آنکھوں میں دیکھا۔۔ "کراچی چلو گی نا؟" انکا ہاتھ اب تک اس کے سر پر ہی تھا۔ کچھ پل کے لیے وہ کچھ نہ بولی ردا پیچھے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی اس آس میں کہ وہ فوراً انکار کردے۔۔ لیکن انابیہ نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔
"بیا!" انکی آواز قدرے دھیمی تھی ۔ انابیہ انکی آنکھیں باری باری دیکھ رہی تھی وہ انکے اگلے الفاظ کی منتظر تھی۔ وہ اسے بتانا چاہتے تھے سب کچھ جو کچھ آج آفس میں ہوا تھا وہ سب بتانا چاہتے تھے لیکن وہ چپ رہے وہ اسے مزید پزل نہیں کرنا چاہتے تھے وہ بس چاہتے تھے کہ انابیہ اب اپنے فیصلے سے نہ مکرے۔
"جائو سامان پیک کرو صبح سات بجے کی فلائٹ ہے۔۔" احمد صاحب نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اسکے سر پر سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ وہ سر ہلاتی اٹھنے لگی تھی تبھی احمد صاحب نے اسکا ہاتھ نرمی سے پکڑا۔۔
"ایک وعدہ کرو۔۔۔ اس لڑکے کو نہیں پتہ چلنا چاہیے کہ تم کہاں جا رہی ہو بلکہ کسی کو بھی نہیں تمہاری کوئی دوست ہو تو اسکو بھی نہیں ۔ سمجھ رہی ہو نا؟ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ تمھارے پیچھے نہ آجائے۔۔" انابیہ نے صبر کا کڑوا گھونٹ بھرا۔
"ایسا ہی ہوگا آپ پریشان نہ ہوں۔۔" اس نے اٹکی ہوئی آواز میں کہا۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے اٹھ کھڑی ہوئی اور بھاری قدموں سے واپس جانے لگی۔ جاتے ہوئے اس نے ایک نظر ردا کو دیکھا جو اسے ملامت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
●●●●●●●●●●●●●
"آہ نصیبِ دشمناں۔۔۔ کیا فیصلہ کیا ہے آپ نے!!!" انابیہ الماری کے پٹ کھولے اسکے سامنے کھڑی تھی تبھی ردا کی طنزیہ آواز اسکے عقب سے آئی مگر اس نے جیسے سنا ہی نہیں تھا اور ایک بڑا سا سفری بیگ نکال کر بیڈ کے اوپر رکھ دیا۔۔
"آپ سن رہی ہیں مجھے؟؟" وہ چلتے چلتے اسکے پیچھے آئی۔
"ہاں سن رہی ہوں۔" مصروف انداز میں کہتے ہوئے اس نے بیگ کی زپ کھولی اور دوبارہ الماری کی طرف بڑھ گئ۔
"کیوں کر رہی ہیں آپ ایسا۔۔ کیسی محبت ہے یہ؟؟" ردا وہیں بیڈ کے ساتھ کھڑے افسوس سے بولنے لگی۔۔ انابیہ نے الماری سے کپڑے نکالے اور بیگ میں ڈالنے لگی اور پھر رک کر اس کی طرف گھومی۔
"محبت؟؟ میں کیسی اور کتنی محبت کرتی ہوں یہ سب میں جانتی ہوں اور میرا دل جانتا ہے کوئی نہیں جھانک سکتا اسکے اندر۔۔" سخت لہجے میں کہتی وہ مزید کپڑے نکالنے لگی۔ ردا نے بغور اس کی آنکھوں کا زخمی پن دیکھا۔
"یہی تو کہہ رہی ہوں آپی ہمارے لیے اپنی محبت کی قربانی مت دیں ہم نہیں سمجھ سکتے آپ کو ہم صرف اذیت دے سکتے ہیں آپ کو۔۔" اس کا انداز پھر سے التجائیہ تھا۔
"تو کیا چاہتی ہو تم میں اپنی محبت کے لیے اپنوں کو چھوڑ دوں ۔۔ تم لوگ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہو میں نہیں چھوڑ سکتی۔۔" اسکے کپڑے نکالتے ہاتھ رکے اور وہ پوری طرح ردا کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
"آپی آپی۔۔ میری بات سنیں۔۔" اس نے آگے بڑھ کر اسکے دونوں ہاتھوں کو تھاما اور اسے لیے صوفے پر جا بیٹھی۔۔ " کچھ نہیں ہوگا ہم آپ سے کہاں دور ہوں گے بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا آپ پلیز بات کر لیں اس سے۔۔" وہ نہایت نرمی اور رسانیت سے اسے سمجھا رہی تھی۔
"کچھ ٹھیک نہیں ہوگا سب خراب ہو چکا ہے۔۔" اپنے ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے وہ ناامیدی سے بولی۔ "تم پاگلوں والی باتیں کر رہی ہو ردا مانا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے مجھے۔۔ لیکن کیا گارنٹی ہے میں چلی بھی جائوں اس کے ساتھ تو اسکی فیملی مجھے اس طرح ایکسیپٹ کرےگی ۔ اس طرح لڑکیوں کی کوئی عزت نہیں رہتی۔۔ مانو وہ ایکسیپٹ کر بھی لیں تو تمہیں کیا لگتا اپنے شریف اور عزت دار ماں باپ کا دل دکھا کے میں کبھی اسکے ساتھ خوش رہ سکوں گی۔۔ نہیں کبھی بھی نہیں۔۔" بوجھل آواز سے کہتے کہتے وہ ذرا چپ ہوئی تو اس نے دیکھا ردا اسے شکوہ کن نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
"اس سب کا ڈر تھا تو کیوں کی محبت؟؟ اچھے سے جانتی تھیں نا آپ کہ یہ سب دشواریاں آپکی راہ میں آئیں گی تو روک لیتی خود کو۔۔" وہ اسے گھورتے ہوئے اب کی بار سرد لہجے میں بولی۔
"اکیس توپوں کی سلامی ہے تمہیں!! محبت سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی وہ تو بس ہو جاتی ہے۔ دل پر اختیار نہیں ہوتا میرا بھی نہیں تھا لیکن میں نے پھر بھی کوشش کی تھی۔۔ اسکی محبت نے مجھے مجبور کر دیا تھا میں کچھ نہیں کر سکی۔۔۔" اس نے نظروں کا زاویہ بدلا اور اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مسلنے لگی۔
"محبت کرنے پر اختیار نہیں تھا مگر محبت چھوڑنے پر اختیار ہے؟" اسکا سوال طنزیہ تھا۔ "آپ نے محبت کرنا تو خوب سیکھا لیکن محبت کے لیے لڑنا نہیں سیکھا محبت پر یقین کرنا نہیں سیکھا۔" آواز کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں ابھرتا طنز بھی واضح تھا۔
"محبت پر یقین ہے اپنی قسمت پر نہیں ہے اور قسمت کے خلاف کوئی ہتھیار نہیں ۔"
"قسمت کا کام آپکا نہیں ہے اللہ کا ہے آپ کا کام اس سے اپنی اچھی قسمت کے لیے دعا کرنا ہے اس پر بھروسہ کرنا ہے۔۔" اب کی بار ردا کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی۔۔" ایک بات بتایئں آپ نے کبھی اس کے ملنے کی دعا کی ہے؟"
"نہیں۔ کیونکہ مجھے اسے مانگنے کا بھی خوف ہے اور اسے کھونے کا بھی۔۔ یہی لکھا تھا میری قسمت میں جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو۔۔" ردا نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔۔ کتنی ڈرپوک تھی نا اس کی بہن۔۔ کتنی جلدی ہار مان لی تھی اس نے۔۔
"خود ہار مان لو اور الزام قسمت کو دے دو یہ بھی ٹھیک ہے ہونہہ۔۔" وہ سر جھٹکتے ہوئے بولی۔۔
"میں بھول جائوں گی اسے وہ بھی بھول جائے گا مجھے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ کچھ ہی مہینوں کی محبت ہے بھول جائے گی۔۔" وہ اب باقاعدہ اس سے نظریں چراتے ہوئے بولی۔۔
"ایک نظر کی محبت نہیں بھلائی جا سکتی اور آپ چلی ہیں مہینوں کی محبت بھلانے۔۔۔" وہ طنزیہ انداز سے مسکرائی۔ "خیر میں بھی کس پتھر سے سر مار رہی ہوں۔۔جیسی آپ کی مرضی۔۔ میں صرف ایک کام کر سکتی ہوں آپ کے لیے۔۔" بیا نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔ " دعا۔۔۔ میں آپ کے لیے اللہ سے دعا کر سکتی ہوں کہ آپ کو کبیر کو بھولنے میں آسانی ہو وہ آپ کو کبھی یاد نہ آئے کیونکہ اگر آپ اسے نہ بھلا سکی تو جس کرب سے آپ گزریں گی وہ نہ آپ سے برداشت ہوگا نہ مجھ سے۔۔۔" ردا یہ کہتے اٹھ کر الماری سے باقی کے کپڑے بیگ میں ٹھوسنے کے انداز میں ڈالنے لگی اور وہ خاموش بت بنے وہیں بیٹھے اسے کام کرتا دیکھ رہی تھی۔
اس سب کے بعد عالم ہاوس میں مکمل خاموشی تھی کوئی شخص کسی سے بات نہیں کر رہا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ انابیہ کے پاس تو جیسے الفاظ ختم ہو چکے تھے یا شاید اسکی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔۔ ردا بھی مکمل خاموش تھی وہ زیادہ تر باتیں انابیہ سے ہی کرتی تھی مگر آج اس کے ساتھ وہ بھی چپ تھی وہ مزید اس بارے میں انابیہ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی مزید اسے کچھ بھی سمجھانا اسے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فضول دماغ کھپائی ہی لگا تھا۔۔ اور مناہل نے تو پہلے سے ہی اس معاملے سے خود کو دور رکھا ہوا تھا اس کے نزدیک وہ اس بحث کے لیے ابھی چھوٹی تھی تو لہٰذا بڑوں کو ہی فیصلہ کرنے دیا جائے۔ کھانے کی ٹیبل پر بھی کسی نے کوئی بات نہیں کی چپ چاپ سب نے رات کا کھانا کھایا اور باری باری اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔۔ ردا اور مناہل بیڈ پر لیٹتے ہی سو گئے تھے جبکہ انابیہ جاگ رہی تھی ۔۔ تقریباً رات کے دو بج گئے تھے وہ سوئی نہیں تھی کبھی کروٹ دائیں کبھی بائیں۔۔ اسکی نیند تو جیسے اس سے روٹھ گئ تھی۔ اسکا دماغ سوچوں میں گم تھا اسکی سوچ باپ کی بیماری سے شروع ہو کر کبیر سے جدائی پر ختم ہوتی تھی۔ کل کا دن جدائی کا دن تھا اور جدائی آسان نہیں ہوتی۔ اس کی محبت کا اختتام کتنی جلدی ہو گیا۔ سارے وعدے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گئے۔ وہ اچھے دن کتنی جلدی گزر گئے اور یہ غم کی بھاری رات گزرنے کا نام نہیں لے رہی۔ گھڑی کی ٹک ٹک جیسے میلوں کا فاصلہ طے کر رہی تھی۔ وہ کبیر کو کبھی نہیں دیکھ سکے گی وہ اس سے دور چلی جائے گی ہمیشہ کے لیے۔۔ اسکے ذہن میں خود کے لیے بس ایک سوال تھا کیا وہ اسے بھلا پائے گی کیا اسکے لیے یہ آسان ہوگا؟؟ جس شخص سے دوری کا سوچتے ہی اسکی روح کانپ اٹھتی تھی کیا وہ اسے اپنے ذہن سے نکال پائے گی؟ اس سے بھی اہم سوال یہ تھا کیا وہ اسے بھلا پائے گا کیا اس کے لیے یہ آسان ہوگا؟ اسکی زندگی میں اب اور کیا کیا ہونا ہے وہ یہ تو نہیں جانتی تھی بس وہ اتنا جانتی تھی جو بھی ہوگا اب آسان نہیں ہوگا۔۔ اسکا ذہن ابھی سوچوں میں ہی ڈوبا ہوا تھا کہ اسکے کانوں میں فجر کی اذان گونجنے لگی۔ اذان ختم ہو گئ اور پھر سے خاموشی کا بسیرا ہو گیا اور وہ یوں ہی چھت کو تکتی رہی۔ آنکھیں کھلی تھیں اور آنسو بہتے جا رہے تھے۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد اسے یاد آیا کہ اذان کے بعد نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ اپنے آنسو صاف کر کے وہ اٹھی اور وضو کرنے چلی گئ ۔۔ وضو کر کے اس نے جائے نماز بچھایا اور اس پر نماز ادا کرنے لگی۔ سلام پھیرنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اسکا دل بھاری تھا۔ اس نے بس کچھ عربی میں چھوٹی چھوٹی دعائیں پڑھی اور رک کر اپنی ہتھیلیوں کو دیکھنے لگی۔ آنسو کا ایک قطرہ اس کی ہتھیلی پر گرا۔۔ پھر دوسرا۔۔ پھر تیسرا۔۔ اور یوں وہ زاروقطار رونے لگی دبی ہوئی آواز اور سسکیوں سے وہ منہ پر دونوں ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔
"میں کیا دعا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا اللہ جی۔۔ بس مجھے صبر عطا کریں اور مجھے معاف کر دیں ۔ اے زمین و آسمان کے مالک۔۔ پلیز مجھے صبر دیں اللہ جی میرے دل کو سکون دے دیں پلیز میری دعا قبول کریں۔۔۔ " روتے روتے وہ پھر سجدے میں جا گری اور اسی حالت میں پھر رونے لگی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ وہ اسی طرح جائے نماز پر لیٹی رہی اب وہ رو نہیں رہی تھی۔۔ اسی دوران اسے کمرے کے باہر سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی اس نے یکدم آنکھیں کھولیں یعنی کوئی جاگ رہا تھا ضرور ماما جان۔۔ وہ فوراً سے اٹھی جائے نماز اٹھایا اور اسے اپنی جگہ پر رکھ کر کمرے سے نکل کر لائونج کی طرف گئ جہاں کی لائٹس آن تھیں اسکا شک صحیح تھا ماما جان جاگ رہی تھیں وہ کچھ ضروری سامان کاٹن کے بڑے ڈبوں میں ڈال رہی تھیں۔
"ماما جان۔۔" اس نے انکی عقب سے ہی انکو پکارا جس پر ناہیدہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔
"کیا ہوا؟؟"
"بابا جان کہاں ہیں؟" اس نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"مسجد گئے تھے کہہ رہے تھے تھوڑی دیر لگے گی ضروری کام نپٹانے ہیں بس وہ جیسے آئیں گے ہم نے نکلنا ہے انکا حکم ہے کہ ہم تیار رہیں۔۔۔ تم جائو اور ان دونوں کو بھی جگا دو۔۔" انھوں نے دو کاٹن ایک دوسرے کے اوپر رکھے اور تیسرے کی طرف بڑھ گئیں۔
"جی بہتر۔۔" وہ جانے لگی تھی پھر انکی آواز پر رکی۔۔
"سنو!۔۔" ناہیدہ نے گردن گھما کر اسے روکا۔
"جی۔۔" اس کے رکتے ہی ناہیدہ مکمل طور پر اس کی طرف گھومی۔
"تم تو قید کی دیواریں توڑنا چاہتی تھی نا لیکن تم نے کیا کیا خود کو دیواروں میں خود ہی قید کر دیا۔ خاص لڑکی بننا چاہتی تھی نا لیکن خود کو محبت کے چکر میں کتنا گرا دیا۔" ان کے الفاظ تیر کی طرح اس کے سینے میں گھپ رہے تھے۔۔اس کا دل پھر سے رونے والا ہوگیا تھا۔”سب ضروری چیزیں ساتھ لے جانا سوائے اپنے دل کے جس میں وہ شخص ہے۔۔ اسے ساتھ لے کر جانے کے بجائے یہیں دفنا جائو تو بہتر ہوگا۔۔" اس نے دکھی نظروں سے انہیں دیکھا اور سر ہلاتے واپس مڑ گئ اپنے کمرے کی طرف جاتے اسکے قدم پل بھر کے لیے رکے اور فوراً ماما جان کے کمرے کی طرف پلٹ گئ۔ اندر جاتے ہی اس نے تیزی سے بیڈ کے سرہانے پڑا ماما جان کا فون اٹھایا۔۔
"بس ایک آخری دفعہ ماما جان۔۔۔" اس نے موبائل اپنے دوپٹے میں چھپایا اور تیز قدم لیتی اپنے کمرے میں گئ۔۔ ایک نظر بیڈ پر ڈالی جس پر صرف مناہل سو رہی تھی۔۔ پھر اسے واشروم سے پانی کی آواز آئی وہ سمجھ گئ کہ ردا واشروم میں ہے۔ اس نے دراز سے ایک سیفٹی پن نکالی اور اپنے ٹوٹے ہوئے موبائل کی طرف بڑھ گئ جو اب تک زمین پر ویسے ہی بکھرا ہوا پڑا تھا۔۔ اس نے وہ ٹوٹا ہوا موبائل ہاتھ میں اٹھایا اور سیفٹی پن کی مدد سے اس میں سے سم نکال کر ماما جان والے فون میں ڈالی یہ سب اس نے بہت تیزی سے کیا اور ایک دو دفعہ واشروم کی طرف گردن گھما کر بھی دیکھا جو اب تک بند تھا اور تیزی سے اٹھ کر چھت کی طرف بھاگی۔۔ اوپر پہنچتے ہی اس نے فون کی سکرین آن کی اور یکدم پریشانی کے سایے اسکے چہرے پر لہرائے کیونکہ اسکا کوئی بھی نمبر سم ڈالنے کے باوجود بھی موبائل میں نہیں آیا تھا کیونکہ وہ نمبرز فون میں ہی سیو کرتی تھی سم میں نہیں اور یہ اسکی بری عادت تھی لیکن اچھی بات یہ تھی کہ اسے کبیر کا نمبر زبانی یاد تھا اور آج اسے خود پر بے تحاشا پیار آیا۔۔ اس نے ذہن پر زور ڈالتے کبیر کا نمبر ملایا اور فون کان سے لگایا۔ وہ ایسا کیوں کر رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی۔۔ رنگ جا رہی تھی لیکن دوسری طرف سے کال نہیں اٹھائی گئ وہ یقیناً سو رہا تھا ۔۔ اس نے دوبارہ کال ملائی۔۔ اب کی بار کال اٹھا لی گئ تھی۔۔
"ہیلو۔۔" کبیر نے لیٹے ہوئے ہی فون کان سے لگایا ۔۔ اس نے دیکھا نہیں تھا کہ کال کس کی تھی اسکی وجہ اسکی گہری نیند تھی۔۔ دوسری طرف اسکی آواز سنتے ہی انابیہ کی آنکھیں پھر سے بھر آئی تھیں۔۔ شاید یہ آواز وہ اب دوبارہ کبھی نہیں سن سکے گی۔۔ کبیر نے فون کان سے ہٹا کر سکرین کو دیکھا اور سامنے حیاتیی دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پوری کھلیں اور نیند تو ایسے غائب ہوئی جیسے کبھی آئی ہی نہیں تھی۔
"بیا۔۔ ہیلو ۔۔ آواز آرہی ہے میری؟" وہ برق رفتاری سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"ہاں۔۔" وہ محض اتنا بولی۔
"اس وقت تم نے کال کی۔۔ از ایوری تھنگ اوکے؟؟" وہ اضطراب کے عالم میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاں سب ٹھیک ہے۔۔ بس ایسے ہی تم سے بات کرنے کو دل کر رہا تھا۔۔" اسکی آنکھوں میں آنسو تھے مگر اسکی آواز سے فلحال کبیر کو کوئی ایسا شک نہیں ہوا۔۔
"ہائے۔۔ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔۔" اس نے بے ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا۔
"کیا میں نے تمھاری نیند خراب کر دی؟؟"
"نہیں بلکل نہیں تم نے تو میرا دن خوشگوار بنا دیا۔۔ تو آج کسی کو ہم یاد آرہے ہیں مجھے کہیں کچھ ہو ہی نہ جائے ۔۔ " اس نے مسکراتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا۔
"کبیر۔۔۔" اس نے بہت نرمی سے اسکا نام لیا۔
"پتہ نہیں کیوں بیا لیکن تم ایسے میرا نام لے رہی ہو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ سیریسلی " وہ ہنستے ہوئے بولا
"مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔" ہلکی سی ہوا اس کے چہرے کو چھو کر گزری۔ اسے تسلی دے کر گزری۔ اسے ہمت دے کر گزری۔
" تو کہو نا ۔۔ میں وہ کچھ سننا چاہوں گا۔۔۔"
"مجھے۔۔" وہ رکی۔ وقت رک گیا۔ سب رک گیا۔
"تمہیں؟" اسکا تجسس بڑھا۔
"مجھے ۔۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔" اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اقرار وہ اس سے ایسے حالات میں کرے گی۔۔ اس کے آنسوؤں کی رفتار تیز ہو گئ۔کبیر نے کچھ پل کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔ یہ اقرار اس کے لیے صرف اقرار نہیں تھا۔ اس کا اطمینان تھا اور اسے ایک نئی زندگی بخش گیا تھا۔
"میں انابیہ احمد عالم آج اس بات کا اقرار کرتی ہوں کہ مجھے صرف تم سے محبت ہے کبیر ۔۔" اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں اور ذہن کی اسکرین پر صرف ایک چہرہ تھا۔ انابیہ کا چہرہ۔۔ وہ اس کے سامنے تھی اسی سیاہ لباس میں جس میں اس کے کھلے بال ہوا کے ساتھ رقص کرتے دکھائی دے رہے تھے اور وہ اس ہوا میں جھوم رہی تھی جیسے ہوا کی تال سے تال ملا رہی ہو ۔ جیسے ہوائیں اس کی ہوں۔ وہ بس ایک اشارہ کرے سب اس کا ہو جائے۔۔ کبیر اس کا ہو جائے۔
"تم کیا چاہتی ہو کہ تم قتل کے جرم میں جیل چلی جائو۔۔" اس نے آنکھیں دوبارہ سے کھولتے ہوئے اسے چھیڑنے کے انداز میں کہا۔ منظر بدل گیا اور وہ بدنصیب اپنے کمرے میں تھا۔
"قتل کے جرم میں؟؟" اس نے نا سمجھی سے فقرہ دہرایا۔۔
"ہاں بلکل۔۔" وہ محظوظ ہو رہا تھا۔
"کیوں؟؟"
"ظاہر ہے اگر تم صبح کے اس ٹائم اتنے پیارے انداز سے ایک نازک دل شخص سے اس طرح اظہار محبت کرو گی تو اسکا دل دھڑکنا بند ہو جائے گا اور اگر وہ مر گیا تو تم جیل جائو گی اور پھر تمہیں ہو گی سزائے موت یعنی پھانسی ۔۔" وہ اسکے اظہار پر ہوائوں میں بھی تھا اور اسے چھیڑ بھی رہا تھا۔۔
"اففف کبیر تم اور تمہاری فضول باتیں" وہ سنجیدہ تھی۔۔
"افف بیا تم اور تمہاری پیاری باتیں ۔" کبیر نے مسکراتے ہوئے اسی کے انداز میں کہا۔
"میں سیریس ہوں۔۔۔ کم از کم آج مذاق نہیں کبیر۔۔" اسکی آواز میں اب ضرور ایسا کچھ تھا جسے کبیر نے فوراً بھانپ لیا تھا۔۔
"جانتا ہوں تم سیریس ہو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟؟"
"اگر میں تم سے کہوں کہ ابھی اسی وقت مجھے اپنے ساتھ کہیں بہت دور لے جائو تو تم کیا کرو گے؟؟" اففف اتنے آنسو۔۔
"تو میں اسی وقت تم سے تمہارا ایڈریس پوچھوں گا۔۔" اسکی بات پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہنس دی۔۔
"ہنس کیوں رہی ہو میں ایسا ہی کروں گا۔۔" ہنس تو وہ خود بھی رہا تھا۔۔
"اور اگر میں تم سے کہوں کہ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں تو تم کیا کرو گے؟؟" یہ سوال بہت مشکل تھا۔۔
"تو میں یقین نہیں کروں گا۔۔" وہ اسکے سوال پر حیران نہیں ہوا تھا۔ اور ہنستے ہوئے بولا۔۔
"اور اگر میں کہوں کہ میں سچ بول رہی ہوں تو تم کیا کرو گے؟؟"
"کیا ہوا ہے تم واقعی ہارٹ اٹیک دے دو گی مجھے۔۔ پھر یاد کرتی رہنا ۔۔ ہونہہ صبح صبح فضول مزاق۔۔" ایک پل کے لیے کبیر کی ہنسی چھن سے غائب ہوئی تھی۔
"کبیر!!" وہ پھر دبی ہوئی آواز میں بولی۔۔
"میں نہیں سن رہا۔۔۔ پلیز کوئی فضول بات نہیں۔۔" اس نے بہت سارا تھوک نگلا اور کہا۔۔
"بابا کو سب پتہ چل گیا ہے۔۔" اس نے گیلی آواز سے کہا اور کبیر یکدم اپنی جگہ مبہوت ہو گیا۔
"ہمارے بارے میں؟؟" اس کے چہرے کے سارے رنگ اڑ گئے تھے۔۔
"ہاں۔۔ ہمارے بارے میں سب کچھ۔۔" اب وہ باقاعدہ آواز کے ساتھ رو رہی تھی۔
"کک۔۔ کیسے؟؟" اسکی آواز لرکھڑائی۔
"میں نہیں جانتی۔۔۔ وہ مجھے لے جا رہے ہیں کبیر۔۔" کبیر کو لگا اسکے کانوں میں سیخ ڈال دی گئ ہے۔
"کہاں ایسے کیسے لے جا سکتے ہیں ؟؟ تم پریشان نہ ہو میں بات کروں گا ان سے سمجھائوں گا انہیں۔۔" وہ اب تک ہوائوں میں تھا اسے لگا کسی نے زور سے اسے زمین پر پٹخ دیا ہو۔۔ ایسا کسی نے نہیں انابیہ احمد عالم نے کیا تھا۔۔
"اب دیر ہو چکی ہے۔۔ مجھے معاف کرنا کبیر میں ہماری محبت کے لیے کچھ نہ کر سکی۔۔" اس کی آواز شکست خوردہ تھی۔۔
"اگر تم مذاق کر رہی ہو تو جان لو بہت برا مزاق ہے یہ۔۔" وہ صدمے کی حالت میں بولا۔ یہ الگ بات تھی کہ انابیہ کی آواز سے اس کو یہ تو یقین تھا کہ کم از کم وہ اب مزاق کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔۔
"جس لڑکی کی پوری زندگی مذاق بن گئ ہو وہ کسی سے کیا مذاق کرے گی۔۔" وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے زخمی انداز سے بولی۔
"بکواس سب بکواس۔۔۔ تم انکو روک کر رکھو میں کچھ کرتا ہوں تمھیں ایسے جانے نہیں دوں گا ۔۔ بتائو مجھے کہاں لے جا رہے ہیں وہ تمھیں؟" وہ بےچینی کی حالت میں یکدم بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں نے کہا نا دیر ہو چکی ہے۔۔ سب ختم ہو گیا ہے۔۔" وہ پھر ناامیدی سے بولی۔
"بیا!!!!" اس نے چیختے ہوئے اسکا نام لیا۔۔ " تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ تم روک سکتی ہو انہیں اور یہ سب تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ہاں کیا سمجھ رکھا ہے تم نے محبت کو کھیل ہے تماشا ہے کوئی۔۔" وہ پہلی بار اس سے اتنے سخت لہجے میں بات کر رہا تھا۔۔ اسکی آنکھیں اور چہرہ ایک دم سرخ ہوا۔۔ "کچھ بھی کرو جانا مت۔۔" اس نے تیز قدم دروازے کی طرف لیے اور فون میں سے آتی ایک آواز پر اس کے قدم وہیں زنجیر ہو گئے۔
"آپی بابا بلا رہے ہیں دیر ہو رہی ہے۔۔ جلدی کریں ۔" مناہل دروازے پہ کھڑی بول کر چلی گئ۔۔ کبیر کو لگا اسکے پیر جم گئے ہیں اسکی روح جسم میں نہیں رہی بلکہ خون کا ایک قطرہ تک اسکے اندر نہیں رہا تھا۔۔ وہ مار دیا گیا تھا۔۔
"ہیلو بیا۔۔۔ سن رہی ہو۔۔ رک جائو جانا مت۔۔ سن رہی ہو نا ۔۔ قسم ہے بیا تمہیں محبت کی قسم ہے جانا مت میں آرہا ہوں۔۔ کم از کم یہ تو بتادو جا کہاں رہی ہو تم؟؟ اگر تم گئ تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا" وہ اس سے منتیں کر رہا تھا وہ رو رہا تھا گڑگڑا رہا تھا اسکے سامنے۔۔۔ کبیر جہانگیر جو کبھی نہیں رویا خاص کر کسی لڑکی کے لیے کبھی نہیں۔۔۔ یہ تو انابیہ تھی جس کے لیے وہ سب کر سکتا تھا مگر اسے یقین نہیں تھا۔۔ اسے یکدم اپنا وہ خواب یاد آیا جس میں انابیہ اسے طوفان میں اکیلا چھوڑ کر جا رہی تھی۔ وہ تب بھی اس سے اسی طرح منتیں کر رہا تھا مگر وہ نہیں رکی تھی۔۔ وہ آج بھی نہیں رکے گی۔۔
"اللہ حافظ!!! " اس نے روتے ہوئے فون کاٹ دیا۔۔ کبیر کے اعصاب اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
"ہیلو۔۔ ہیلو۔۔۔ بیا ۔۔۔ ایسا مت کرو۔۔" کال کاٹ دی گئ تھی۔۔ انابیہ نے فوراً سم نکالی اور اسے وہیں چھت پر پھینک دیا یہ سب اس نے روتے روتے کیا۔۔
کیا ہوا ایسے روتے کیوں ہو؟؟
محبت مار دی گئی۔۔
کیسے؟؟
گلا گھونٹ کر۔۔
سانس روک کر۔۔
کس نے مار دی؟؟
وقت نے، قسمت نے، اپنوں نے،اور۔۔
اور؟؟؟
انابیہ احمد عالم نے!!!
●●●●●●●●●●●●●
کبیر نے کال دوبارہ ملائی نمبر بند تھا اسنے یہی عمل دہرایا نمبر بند تھا ۔۔ او خدایا نمبر بند تھا۔۔ پیروں کے نیچے سے زمین نکلنا کیسا ہوتا ہے سر پر آسمان کا آگرنا کیسا ہوتا ہے یہ سب کوئی کبیر جہانگیر سے پوچھتا۔۔۔ اس نے تیز تیز قدم باہر کی طرف لیے۔ وہ کھلی شرٹ ٹرائوزر اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ہی بھاگنے کے انداز میں گھر سے نکلا اور گاڑی کی طرف دوڑا پھر رکا اسکے پاس چابی نہیں تھی۔۔
"او خدایا چابی۔۔" وہ دوبارہ تیزی سے اندر کی طرف بھاگا۔۔ اسے یاد نہیں تھا کہ آتے جاتے اسے کتنی چیزوں سے ٹھوکریں لگی تھیں وہ بس ہوش میں نہیں تھا۔۔ اس کی زندگی تاریک ہو چکی تھی اور تاریکی میں ٹھوکریں ہی تو لگتی ہیں۔۔ روشنی جا چکی تھی اسے اندھیروں میں دھکیل کر وہ تو جا چکی تھی۔۔
"کہاں رہ گئ تھی؟" احمد صاحب نے انابیہ کے آتے ہی اس سے پوچھا۔۔ وہ اپنے آنسو پونچھ کر آئی تھی۔ چہرے کے تاثرات نارمل تھے وہ الگ بات تھی کہ اس کی سرخ متورم آنکھیں دیکھ کر کوئی بھی پہچان سکتا تھا کہ وہ رو رو کر آئی ہے مگر سب نے نظرانداز کیا کیونکہ سب اسکے رونے کی وجہ جانتے تھے۔۔
"کہیں نہیں۔۔ بس آگئی ہوں۔۔" پھیکے انداز سے کہتے وہ تیزی سے باہر نکل گئ اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر جا بیٹھی۔۔ احمد صاحب نے دوسری گاڑی میں سارا سامان رکھوایا اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ میں بیٹھ کر ڈرائیو کرنے لگے جس میں ناہیدہ، انابیہ، ردا اور مناہل سب ساتھ بیٹھے تھے۔۔ جس گاڑی میں سامان تھا اسے انابیہ کا ڈرائیور ڈرائیو کر رہا تھا۔۔زندگی کہاں رکتی ہے۔۔ زندگی کی گاڑی چلنے لگی تھی آہستہ آہستہ وہ آگے بڑھ رہے تھے باقی سب پیچھے جا رہا تھا بس ایک اسکی سانس تھی جو اٹک چکی تھی۔۔ بس ایک دل تھا جو رک چکا تھا۔۔ یادیں دور رہ گئ تھیں ۔۔ محبت زندہ دفن کر دی گئ تھی۔۔
"کاش کہ اسی وقت مجھے موت آجائے۔۔" وہ دل ہی دل میں بولی۔ اس نے اپنی قمیض کا کونا سختی سے جکڑ رکھا تھا ۔۔ ردا نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھا اور پھر اسکے کندھے پر اپنا سر ٹکا گئ۔
کبیر نے تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔ " گیٹ کھولو۔۔۔" اونچی آواز میں اس نے چوکیدار سے کہا جو فوراً گیٹ کی طرف بڑھ کر گیٹ کھولنے لگا ۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور تیزی سے باہر لے آیا۔۔
"شٹ ایڈریس!" اس نے سٹیرنگ ویل پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور پھر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کال ملانے لگا۔ رنگ جا رہی تھی۔۔
" پک اپ تھا فون ڈیم”!! دانت پر دانت جماتے ہوئے اس نے کہا۔ زارا اس وقت گہری نیند میں تھی لیکن مسلسل رنگ کی وجہ سے وہ آنکھیں ملتے اٹھ ہی گئ۔
"کیا موت آگئی صبح صبح۔" اس نے بڑبڑاتے ہوئے کال آنسر کر کے کان سے لگایا۔۔۔
"ہیلو!!"
"زارا بیا کا ایڈریس جانتی ہو؟؟" وہ تیزی سے بولا۔ جبکہ زارا اسکے ایسے سوال پر حیران رہ گئ اور وہ بھی اس ٹائم۔۔
"کیا ہوا ہے صبح صبح تم۔۔۔۔"
'زارا!!!" وہ غصے سے دھاڑا۔۔ جبکہ زاارا دھنگ رہ گئ۔۔"میں تمھارے گھر آ رہا ہوں پانچ منٹ کے اندر باہر آئو۔۔"
"مگر۔۔۔" اس سے پہلے وہ کچھ کہتی کال کاٹ دی گئ۔۔ وہ ڈر کے مارے فوراً بیڈ پر سے اٹھی اسکی سخت آواز اسے ڈرانے کے لیے کافی تھی اتنا تو وہ جان گئ تھی کہ کوئی تو بات ہوئی ہے۔۔ اس نے الماری سے بس ایک بڑی سی کالی چادر نکالی اور پھیلا کے اوڑھ لی۔۔ وہ ٹرائوزر اور شرٹ میں تھی کپڑے بدلنے کا اس کے پاس بلکل بھی وقت نہیں تھا۔۔ کبیر سے اس کے گھر تک کا فاصلہ بس آٹھ سے دس منٹ کا تھا۔۔ اس لیے اس نے یہ سب کام جلدی میں کیا بیچاری نے تو منہ بھی نہیں دھویا تھا اور اسی طرح سیڑھیاں پھلانگتے باہر چلی گئ۔۔ تقریباً دو منٹ کے اندر کبیر آچکا تھا اور وہ گیٹ کے پاس کھڑی تھی۔۔
"گاڑی میں بیٹھو جلدی۔۔۔" وہ سر ہلاتے تیز قدم لیے اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر جا بیٹھی۔۔ کبیر نے گاڑی دوبارہ چلانی شروع کی۔۔
"کیا ہوا ہے کبیر سب ٹھیک تو ہے نا؟؟" وہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے بولی۔۔
"کچھ ٹھیک نہیں ہے زارا پہلے مجھے بیا کا ایڈریس بتائو جلدی۔۔" زارا بغیر کوئی سوال کیے اسے تیز تیز ایڈریس بتانے لگی۔۔
"پلیز کچھ بتا دو ۔۔ تمھیں میں نے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا۔۔۔"
"وہ چلی جائے گی زارا اسکا باپ اسے لے جائے گا۔۔"اس کہ حالت شکست خوردہ تھی اور اس کی بات سنتے ہی زارا کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
"کیوں اور کہاں؟؟" وہ بمشکل بول پائی۔
"اسکے باپ کو سب پتہ چل گیا ہے اس نے نہیں بتایا وہ کہاں جا رہی ہے۔۔۔" زارا کو لگا کہ یہ ابھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گا۔۔
"تم پریشان مت ہو ہم پہنچ جائیں گے وقت پر۔۔ بات کریں گے اسکے بابا سے ڈونٹ وری۔۔" اس نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔ اس کا شدت سے دل چاہا کہ بس یہ برا خواب ہو اس کی آنکھ کھلے اور وہ پہلی فرصت میں کبیر اور انابیہ کو یونیورسٹی میں ایک دوسرے کے ساتھ دیکھے۔۔
"کاش ایسا ہی ہو۔۔۔ میں نہیں رہ سکتا اسکے بغیر۔" زارا نے اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھا اگر وہ ایسا کہہ رہا تھا تو غلط نہیں کہہ رہا تھا۔۔ وہ گاڑی سڑکوں پر دوڑائے جا رہا تھا تقریباً کچھ ہی دیر بعد اس نے ایک کشادہ گلی میں گاڑی روکی۔۔ گاڑی سے اتر کر اس نے چاروں طرف نظر گھمائی وہاں بس چار یا پانچ گھر ہی تھے۔ زارا تیزی سے انابیہ کے گھر کی طرف لپکی اور ساتھ ہی کبیر بھی اس گھر کے گیٹ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس نے بیل پر ہاتھ رکھا اور ہٹانے کی زحمت بھی نہیں کی وہ مسلسل بیل بجائے جا رہا تھا زارا اسکے پیچھے ہی کھڑی تھی۔۔
"بیٹا یہ گیٹ نہیں کھلے گا۔۔۔" کبیر کو اپنے پیچھے ایک آواز آئی اس نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔ سفید داڑھی اور سفید ہی بالوں والا بوڑھا سا آدمی اپنے ہاتھ کمر پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
"کیوں نہیں کھلے گا انکل؟؟" زارا ایک قدم آگے آتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
"کیونکہ اس کے لیے ضروری کہ اندر کوئی ہو اور اندر کوئی نہیں ہے بچوں۔۔۔" اس آدمی نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہا۔۔
"کیا ۔۔ یہ ۔۔ لوگ۔۔۔" کبیر ٹوٹے ہوئے لفظوں میں کچھ بولنا چاہ رہا تھا۔۔
"چلے گئے ہیں اور میرے سامنے ہی گئے تھے۔ تم لوگ کون ہو انکے رشتہ دار ہو؟؟" اس آدمی نے باری باری دونوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں ہم۔۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں وہ کہاں گئے ہیں۔۔" کبیر تو اپنی جگہ سے نہ ہل سکا سارے سوال شاید زارا کو ہی کرنے تھے۔
"دیکھو بیٹا میں کچھ بھی نہیں جانتا ان لوگوں کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ کہاں گئے ہیں۔۔۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ احمد صاحب کی ٹرانسفر ہو گئ ہے۔۔" وہ آدمی اسی طرح کھڑا تھا۔
"پھر بھی انکل کچھ تو پتہ ہوگا نا آخر آپ انکے پڑوسی ہیں۔۔" زارا بلکل انکے سامنے کھڑی تھی۔۔ اس کی بات پر وہ آدمی ہنسنے لگا۔۔
"بیٹا جی۔۔ احمد صاحب سخت مزاج آدمی تھے یہاں کسی سے نہیں لگتی تھی انکی کبھی ضرورت کی بات بھی نہیں کی انھوں نے ہم سے ۔۔ میری تو مشکل سے مسجد میں ملاقات ہو جاتی تھی بس سلام دعا کی حد تک تھے وہ۔۔۔"
"تو کوئی اور جانتا ہوگا وہ کہاں گئے ہیں ہم یہاں کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔۔" کبیر پیچھے کھڑا ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا وہ شاید ہوش میں ہی نہیں تھا اسکی بولتی ہی بند تھی۔۔
"وہ دو بنگلے دیکھ رہی ہو۔۔" اس آدمی نے سامنے دو بنگلوں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔۔" ان دونوں گھروں کے ساتھ احمد صاحب کی بلکل نہیں بنتی بہت آزاد خیال لوگ ہیں یہاں کے یہ لوگ کچھ نہیں جانتے ہوں گے۔۔۔" پھر کونے میں ایک چھوٹے اور خوبصورت گھر کی طرف اپنی انگلی کا رخ کیا۔۔ " یہاں پر چار بچیاں اور ایک انکا چھوٹا بھائی اکیلے رہتے ہیں انکے ساتھ اگر کوئی مرد ہوتا تو شاید کچھ جانتا ہوتا۔۔" اور پھر اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا۔۔
"یہ ہے میرا غریب خانہ جہاں صرف میں اور میری معذور بیوی رہتے ہیں۔۔ " زارا آگے بڑھی۔۔
"آپ انکے آفس کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے؟؟" زارا اداسی سے آس لیے یہ آخری سوال پوچھنے لگی۔۔
"معذرت۔۔۔" وہ یہ کہتے آگے بڑھ گئے۔۔ زارا بت بنے انہیں جاتا دیکھنے لگی اور پھر کبیر کی طرف گھومی جو گیٹ کا سہارا لیے بمشکل کھڑا تھا۔۔ وہ فوراً اس کی طرف دوڑی۔۔
"تم ٹھیک ہو؟؟"
"دیکھا تم نے زارا محبت کرنے کا انجام۔۔۔" وہ زخمی انداز سے مسکراتے ہوئے بولا۔۔ زارا اسے اداسی سے دیکھے گئ۔۔ " وہ ٹھیک کہتی تھی محبت انسان کو اذیت دیتی ہے اتنی کہ انسان کہتا ہے کیوں کی محبت نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔"
"ایسی باتیں نہ کرو۔۔ ہم ڈھونڈ لیں گے اسے۔۔" وہ اسے امید دلاتے ہوئے کہنے لگی۔۔
"کہاں ڈھونڈو گی تم اسے۔۔ لاہور کے کس کس ایئرپورٹ کس کس ریلوے اسٹیشن کس کس بس اسٹیشن میں تم اسے ڈھونڈو گی۔۔ ڈھونڈا اسے جاتا ہے جو کھو گیا ہو زارا جو خود چھوڑ کر جائے اسے ڈھونڈا نہیں جاتا۔۔۔"
"تم ہار مان رہے ہو؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں ناامیدی دیکھ کر بولی۔۔
"محبت کے لیے دونوں طرف سے لڑنا ضروری ہوتا ہے۔ محبت پانا مشکل ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اگر ایک ہار مان جائے تو دوسرا کتنی بھی کوشش کر لے محبت کامیاب نہیں ہوتی۔۔۔"
"وہ مجبور ہوگی۔۔۔" اس جملے پر کبیر نے سخت تاثرات سے اسے دیکھا۔۔
"مجبوری مائ فٹ!!!! ایک کال کی بات تھی زارا وہ کچھ بتاتی مجھے ۔۔ تمہیں تو بتا سکتی تھی نا۔ اسے ڈیفینڈ کرنا بند کرو۔۔ وہ خود گئ ہے خود ۔۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہی؟؟ اس نے خود کہا کہ وہ کچھ نہیں کر سکی ۔۔ وہ ۔ ایک۔۔ ڈرپوک۔۔ لڑکی۔۔۔ تھی۔۔۔" وہ یک دم بھڑکا تھا زارا اسے ہانپتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔ " ایک کمزور لڑکی۔۔!! وہ مجھے برباد کر گئ ہے تباہ کر گئ ہے مجھے۔۔" یہ کہتے وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا زارا کچھ دیر صدمے میں وہیں کھڑی رہی۔۔ وہ ہوش میں تب آئ جب کبیر نے زور زور سے گاڑی کا ہارن دیا۔۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے گاڑی میں بیٹھی۔۔ گاڑی چلنے لگی تھی تھوڑی دیر بعد وہ سڑک پر آ چکے تھے۔۔ زارا نے اسکے سٹیرنگ ویل پر چلتے ہاتھوں کو دیکھا پھر اسکے پیروں کو پھر میٹر کو۔۔ وہ گاڑی کی رفتار کو جج کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔ گاڑی نارمل سپیڈ میں چل رہی تھی اتنے غصے میں بھی اس نے سپیڈ نہیں بڑھائ کیا وہ اسکا لحاظ کر رہا تھا؟؟ پھر اس نے ایک نظر اسکے چہرے کو دیکھا۔۔ وہاں غصہ نہیں تھا کچھ اور تھا اسکی حالت قابل رحم تھی۔۔کبیر نے اپنے چہرے پر نظروں کی تپش فوراً بھانپ لی۔۔
"کیا دیکھ رہی ہو؟؟" وہ اسکے سوال پر کچھ نہیں بولی۔۔ " ڈونٹ وری۔۔ میں سپیڈ نہیں بڑھائوں گا کیونکہ اس وقت میں اکیلا نہیں ہوں۔۔" وہ رکا کچھ دیر وہ خاموش تھے۔۔"لوگ کہتے ہیں کہ ایک شخص کے چلے جانے سے زندگی رک نہیں جاتی اور میں اس بات سے متفق تھا لیکن اب جان گیا ہوں وہ غلط کہتے تھے میری زندگی رک چکی ہے۔۔"
"کیا پتہ وہ آجائے تم صبر سے کام لو ایک دو دنوں میں وہ کال کرے گی ضرور۔۔ وہ بھی محبت کرتی ہے تم سے نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر۔۔" کبیر تلخی سے مسکرایا۔
"تم تسلیاں بہت اچھی دیتی ہو لیکن میں تسلیوں میں جینے والا شخص نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے ایسی کوئ امید ہے لیکن پھر بھی تمھارے کہنے پر میں صرف دو دن نہیں پوری زندگی اسکا انتظار کروں گا بس وہ آجائے اور مجھے کہے کہ میں سب چھوڑ آئ ہوں میں بغیر کسی گلے شکوے کے اس کی محبت قبول کروں گا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خود آئے۔۔ اگر قسمت نے مجھے اس سے اچانک ملایا تو وہ صرف میری نفرت دیکھے گی ۔۔ انا کا سخت برا انسان ہوں میں۔" وہ بظاہر اپنے ہر تاثرات چھپانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسکی آنکھیں یہ بتانے کے لیے کافی تھیں کہ اس وقت اس سے زیادہ دکھ میں کوئ نہیں ہے۔۔
"مگر کبیر۔۔۔۔" وہ کچھ کہنے لگی کہ کبیر نے اسکی بات کاٹی۔۔
"کبیر جب محبت کرتا ہے تو پوری دنیا دیکھتی ہے اور جب نفرت کرتا ہے تب بھی ساری دنیا دیکھتی ہے صرف وہ نہیں دیکھ سکے گی۔۔"
"تم اتنی سخت باتیں کیوں کر رہے ہو؟؟"
"کیوں نہ کروں وہ مجھے ایسا کر گئ ہے وہ مجھے ویران اور بنجر کر گئ ہے ۔۔" وہ تیزی سے بولا۔۔" تم جانتی ہو اس نے کیا کیا ہے میرے ساتھ۔۔ اس نے مجھے منہ کے بل گرایا ہے۔۔ وہ اتنی ظالم ہے کہ مجھ سے محبت کا اقرار کر کے مجھے چھوڑ گئ۔۔" وہ چپ ہو گیا۔ زارا کچھ نہیں بولی۔۔ اس کا گھر آچکا تھا اس نے گاڑی روکی۔۔ زارا دروازہ کھول کر اترنے لگی تھی لیکن رک کر اسکی طرف گھومی۔
"پلیز کبیر خیریت سے گھر پہنچنا میں مزید بری خبریں برداشت نہیں کر سکتی۔۔"
"فلحال کے لیے وعدہ کیونکہ ضروری کام نپٹانا ہے۔۔" اس نے دکھی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ زارا اسے افسردگی سے دیکھ کر اتر گئ ۔۔ کبیر نے گاڑی کی رفتار بڑھائ جیسے اسے کہیں جانے کی جلدی تھی ۔۔
"سب سے پہلے تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا جس نے میری زندگی برباد کی۔۔" وہ تیوڑیاں چڑھائے سامنے سڑک کو دیکھے جا رہا تھا سپیڈ مزید بڑھائ۔
جہاز اپنی اڑان بھر چکا تھا۔ وہ ٹیک لگائے جہاز کی کھڑکی سے باہر سفید بادلوں کو دیکھ رہی تھی۔۔
"کاش کہ تم مجھے دوبارہ کبھی نہ ملو۔۔۔" دل ہی دل میں کہتے وہ اپنی آنکھیں موند گئ۔۔
"جدائ کیا ہوتی ہے؟؟"
"موت۔۔۔۔"
●●●●●●●●●●●●●●
کبیر نے گاڑی ایک لکتڑی کے بنے دروازے والے گھر کے سامنے روکی اور تیزی سے اتر کر دروازہ زور زور سے پیٹنے لگا۔۔ یہ عام سی گلی کا عام سا گھر تھا۔۔
"آرہا ہوں کیا توڑنا ہے ہمارا دروازہ۔۔" نومی سر پر سفید ٹوپی پہنے مسلسل دروازہ بجنے پر غصے سے دروازہ کھولنے کے لیے گیا۔۔
"ارے بھائی آپ؟" سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ حیران ہوتے ہوئے بولا۔۔ کبیر بنا کچھ بولے اسے ہاتھ سے پرے کرتے تیزی سے آگے بڑھ کر اندر گیا۔۔ وہ اسی طرح غصے میں سیڑھیاں عبور کرتے ایک کمرے کی طرف گیا اور زور سے اسکا دروازہ کھولا۔۔ جویریہ گہری نیند میں تھی لیکن دروازے کی آواز سنتے ڈر کے مارے فوراً اٹھ گئ۔۔ کبیر تیزی سے آگے بڑھا اور اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ سے نیچے اتار کر اپنے سامنے کیا۔ جویریہ اسکا سرخ غصے سے بھرا چہرہ دیکھ کر دھنگ رہ گئ جیسے اس نے کوئ بھوت دیکھ لیا ہو۔۔
"تت۔۔ تم؟؟" اسکے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔
"ہاں میں۔۔" اسکا بازو اب تک اسکی سخت گرفت میں تھا۔۔
"بازو چھوڑو میرا درد ہو رہا ہے مجھے۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔" اسے کبیر کا یہ طریقہ بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔۔کبیر نے گرفت مزید سخت کرتے ہوئے اسے آگے کیا۔۔
"دوسروں کو درد دیتے ہوئے تمہیں بڑا مزہ آتا ہے۔۔۔ کیا بتایا ہے تم نے انابیہ کے باپ کو ہاں؟" اسکی آواز حد سے زیادہ تیز ہوئ۔۔
"آہستہ بولو کوئ آجائے گا۔۔" اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔۔
"مجھے پرواہ نہیں ہے جو پوچھا ہے وہ بتائو۔۔"
"کیا بول رہے ہو تم میں۔۔۔"
"بکواس بند کرو جویریہ انجان مت بنو سچ بتائو مجھے غصہ مت دلائو ورنہ خدا کی قسم تمھارا وہ حال کروں گا کہ یاد رکھو گی۔" وہ جارحانہ انداز میں کہتا گیا۔
"میں نہیں جانتی تم کیا کہہ رہے ہو؟؟ آہ ہ۔۔" کبیر نے زور سے اسکا بازو چھوڑا جویریہ نے گہرا سانس لیا لیکن اگلے ہی پل وہ پھر کراہ کر رہ گئ۔۔ کبیر نے سختی سے اسکے بال اپنی مٹھی میں جکڑے۔
"میرا ضبط مت آزمائو۔۔۔" وہ پھر غرایا۔
"اچھا پلیز بتاتی ہوں چھوڑو مجھے۔۔" اسکے کہنے پر کبیر نے بال چھوڑے تو نہیں لیکن گرفت تھوڑی کمزور کی۔۔
"یہ ۔۔ سب ہاں یہ سب فائزہ نے کیا ہے۔۔۔" فائزہ کا نام سنتے ہی اسکا دماغ گھومنے لگا تھا۔۔
"وہ تمھارے اشاروں پر ناچتی ہے۔۔" وہ اسے سرد آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔
"ہاں لیکن اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں ہے میں عام سی لڑکی کیسے کچھ بھی کر سکتی ہوں اپنا دماغ استعمال کرو۔۔" وہ اسکا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ اتنی سخت جان کا بازو ہٹا سکے۔۔
"اسکی کیا دشمنی مجھ سے تم ہی ہو جو میرے پیچھے پڑی ہو۔۔" گرفت مزید سخت کی وہ پھر کراہ کر رہ گئ۔۔
"چھوڑو مجھے کبیر۔۔۔" وہ چیخی۔۔
"جب تک سب نہیں بتاتی نہیں چھوڑوں گا۔۔" وہ بضد تھا۔۔
"بتا تو رہی ہوں اس نے بدلہ لیا ہے تم سے۔۔" ایک لمحے کے لیے وہ ناسمجھی سے اسے دیکھے گیا۔۔
"کس چیز کا بدلہ؟"
"وہ جو تم نے اس سے معافی منگوائی تھی تو اس نے کہا تھا کہ وہ ضرور تم سے بدلہ لے گی اس نے ہی کچھ کیا ہے۔۔ بتائو تو ہوا کیا ہے؟؟"
"اسکا باپ اسے لے گیا ہے انکو کسی نے سب بتایا ہے اور ایسا تمہارے یا فائزہ کے علاوہ کوی نہیں کر سکتا۔۔۔" ایک لمحے کے لئے جویریہ کو اپنی ساری تکلیف بھول گئ اس کا دل کیا خوشی سے ناچنا شروع کر دے مگر ابھی اسے اپنے تاثرات نارمل رکھنے تھے۔۔
"کیا ؟؟ یہ تو برا ہوا۔۔۔ یقین جانو کبیر میرا اس سب میں کوئ ہاتھ نہیں ہے میں تو اپنی محبت دفنا بیٹھی تھی سب بھول بھال چکی تھی یہ سب اس منحوس عورت نے تم سے بدلے کے لیے کیا ہے اگر مجھے پتہ ہوتا تو ضرور بتاتی تمہیں۔۔۔" کبیر نے زور سے اسے پیچھے دھکیلا وہ لڑکھڑا کر بیڈ پر گر گئ۔۔
"اگر اس سب میں تم ہوئ تو بخشوں گا نہیں۔۔ تم مجھے کچھ بھی کر کے حاصل نہیں کر سکتی جویریہ میں صرف بیا سے محبت کرتا ہوں سمجھی تم وہ نہیں تو کوئ نہیں۔۔۔" وہ اسے شہادت کی انگلی سے تنبیہ کرتے وہاں سے نکل گیا۔۔ جویریہ اسکے جاتے ہی زور زور سے قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔۔۔
"میں کامیاب ہوئ میں کامیاب ہوئ۔۔ میں جویریہ سلطان کامیاب ہوئ۔۔ میں نے کر دکھایا۔۔" وہ پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہی تھی ۔
"نہ صرف تمھاری زندگی سے میں نے تو اسے شہر سے ہی نکلوا دیا۔۔" وہ ہاتھ پر ہاتھ مارے ہنسے جا رہی تھی۔۔
"تمہاری زندگی میں صرف میں ہوں صرف میں اب تم دیکھو میں کیسے بناتی ہوں اپنی جگہ کبیر تم صرف میرے ہو صرف میرے ۔۔"
اس نے باہر آتے ہی غصے سے گاڑی کو لات دے ماری اور سر پکڑے ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا۔۔ پھر یکدم جیب سے موبائل نکالا اور واٹس ایپ کھولا پھر عبید نامی شخص کو وہی ویڈیو بھیج دی جس نے فائزہ کے ہوش اڑائے تھے نہ صرف وہ ویڈیو بلکہ اس بار اس کے پاس مزید کچھ پکچرز تھیں وہ بھی اس نے ساتھ ہی بھیجی۔۔
"میں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے والا شخص نہیں ہوں لیکن جو میری زندگی میں انٹرفئیر کرے گا میں اسکی زندگی جہنم بنا دوں گا" اس نے سر اوپر کیے آسمان کو دیکھا اور ایک گہرا سانس لے کر دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گیا۔۔
●●●●●●●●●●●●●
چلو یہ خواہشات تمام کرتے ہیں
اب ہم تم ترکِ وفا کرتے ہیں
تمہاری منزل اور ہماری منزل اور ہے
اب ہم اس سفر کا اختتام کرتے ہیں
منظور نہیں جو قسمت کو ساتھ ہمارا
اب ہم یہ قصئہ محبت تمام کرتے ہیں
ملیں گے کسی دورِ حیات میں دوبارہ
یہی امید ہم خدا سے کرتے ہیں
منظور جو ہوتا تم کو ساتھ ہمارا
نچھاور تم پر اپنی وفائیں کرتے
نہیں یقیں تم کو ہماری وفائوں پر
بس یہی گلہ ہم خدا سے کرتے ہیں
تم کو تمہاری جیت مبارک
ہم اپنی ہار تسلیم کرتے ہیں
مخلصی جرم ہے اس دورِ حیات میں
اس لیے خود کو سزا کا حقدار سمجھتے ہیں
چلو یہ خواہشات تمام کرتے ہیں
اب ہم تم ترک وفا کرتے ہیں
)علینہ کمال)
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سفید ٹائلز سے آرائش راہداری عبور کرتے وہ ایک کمرے کے سامنے آکر رکے۔ ایک ہاتھ بڑھا کر انہوں نے ہلکے سے دروازہ کھولا۔ سامنے ہی ریولونگ چئیر اور سیاہ لکڑی کے ٹیبل سے لے کر دیوار گیر ڈھیروں کتابوں سے لدی بک شیلفز تک احمد صاحب کی نظروں نے سفر کیا وہاں سوائے ان چیزوں کے کوئ بندے کی ذات انہیں نہیں دکھی۔ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے انہوں نے اپنا رخ دائیں جانب موڑا اور نظر وہاں کھڑے ایک شخص پر رکی ۔ انکے قدم ہلے۔ سامنے دیواروں سے جڑے دو گول زینوں کو پار کرتے وہ آگے بڑھے۔ سٹڈی کے ساتھ ہی وہ سفید چمکدار ٹائلز سے آرائش ایک بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جس کے درمیان میں سرخ رنگ کے صوفے گولائی میں سیٹ کیے گئے تھے۔ ان صوفوں کے ٹھیک اوپر ایک خوبصورت بڑا سا سفید بتیوں سے جگمگاتا ہوا فانوس تھا جو اس کمرے کی سادگی میں اور خوبصورتی پیدا کر رہا تھا۔ ناصرعالم شیشے کے سلائڈنگ ڈور کے سامنے کھڑے تھری پیس سوٹ پہنے جیبوں میں ہاتھ ڈالے باہر لان میں پھیلے سبزے کو دیکھ رہے تھے۔ روشنی اب بھی تھی جو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔۔ آہٹ پر انہوں نے گردن موڑ کر دیکھا احمد چلتے ہوئے انکے پیچھے آ کھڑے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح قمیض شلوار میں ملبوس تھے۔
"بچیاں ٹھیک ہیں اب؟؟" وہ وہیں کھڑے پوچھنے لگے۔
"نہیں بھی ہیں تو ہو جائیں گی آپ پریشان نہ ہوں۔۔" احمد صاحب نے روکھے انداز میں جواب دیا۔
"جب آئیں تھیں تو بہت خفا تھیں۔۔ بیٹھو۔۔" انہوں نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود بھی صوفے کی ٹیک پر بازو پھیلائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گئے۔۔ احمد انکے بلکل سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے ۔
"ظاہر ہے اپنا گھر چھوڑ کر آئیں ہیں آہستہ آہستہ سیٹ ہو جائیں گی۔۔" وہ تسلی دیتے ہوئے بولے۔
"تمہیں انہیں یہاں نہیں لانا چاہئیے تھا احمد۔۔ تم جانتے ہونا۔۔"
"جی بلکل جانتا ہوں لیکن کوئ اور چوائس نہیں تھی۔۔" وہ ان کی بات ادھوری چھوڑتے ہوئے تیزی سے بولے۔ "آپ بھی تو یہی چاہتے تھے۔"
"ویسے تو میں بہت خوش ہوں میرا اکیلا پن ایک دم دور ہوگیا ہے۔۔" وہ مدھم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولے۔۔ “ کسی بھی بات سے پریشان مت ہونا احمد میرے اس گھر میں کوئ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ۔۔" اب کی بار تسلی ناصر صاحب کی طرف سے دی گئ۔
"پھر بھی یہ کراچی ہے انکے بہت نزدیک ہیں ہم ۔۔ میں پہلے بھی دوسرے شہروں میں جاتا رہا ہوں لیکن میں اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا کیونکہ آپ ہوتے تھے انکے ساتھ۔۔ آپ کو لاہور چھوڑ کر نہیں آنا چاہئے تھا۔۔" وہ پل بھر رکے۔۔ " اتنے سالوں بعد انہوں نے اچانک میرے سر پر ٹرانسفر کا دھماکہ پھوڑ دیااور کچھ مجبوری بھی تھی مجھے آنا پڑا۔۔" وہ افسوس بھرے لہجے سے کہنے لگے۔۔ ٹرانسفر کے علاوہ جو وجہ تھی وہ ناصر صاحب کو نہیں بتانا چاہتے تھے۔
"تم اچھے سے جانتے ہو راحیلہ کے بعد میں وہاں مزید رہتا تو پاگل ہو جاتا اسکی آوازیں اسکے آخری پل مجھے نہیں رہنے دیتے تھے وہاں ۔۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ عالیان بھی پاگل ہو جائے۔۔" وہ گلوگیر لہجے میں بولے۔
"آپ نے عالیان کو امریکہ بھیج کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔ " احمد کے لہجے میں خفگی تھی۔
"جانتا ہوں لیکن اسکی حالت دیکھتے ہوئے مجھے یہی مناسب لگا۔۔" اب کی بار انکی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں تھیں ۔ "میں بلکل اچھا شوہر اور اچھا باپ ثابت نہیں ہوا۔ اپنی بیوی کو تحفظ تو دے نہیں سکا اور اپنے بیٹے کو بھی خود سے دور کر دیا۔۔ " لاچاری، بےبسی، افسوس سب ایک ساتھ آنسو کے چہرے پر امڈ آیا۔
"اس میں آپکا کوئی قصور نہیں ہے بھائ سب میری غلطی ہے مجھے آپکے پیچھے نہیں آنا چاہیے تھا۔۔ لیکن میں کیا کرتا اس حیوان کی باتیں سن گیا تھا میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔" ماضی ایک بار پھر انہیں یاد آنے لگا تھا ۔
کئی سال پہلے:
"ہاں ہاں ڈھونڈو اسے پاتال سے بھی ڈھونڈ کر لائو۔۔" احمد دروازے کی عقب میں کھڑے اندر سے آتی آوازوں کو غور سے سن رہے تھے۔
"سائیں ڈھونڈ تو رہے ہیں آپ حکم کیجئے۔۔" سفید پگڑی پہنے نظریں جھکائے وہ اپنے مالک سے مخاطب تھا۔ گھنی کالی مونچھیں اور کالے ہی بالوں والا شخص جسکی آنکھوں میں نفرت ہی نفرت تھی مسلسل ہاتھ پیچھے کمر پر باندھے اس عالیشان کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔
"میں اس کی زندگی آہستہ آہستہ برباد کروں گا شالا۔۔ اسکی نسلوں کو تباہ کر دوں گا مگر دھیرے دھیرے ۔" پھر ایک زوردار قہقہہ گونجا اس کمرے میں۔۔ احمد کے ماتھے پر ڈھیروں پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔
"ابھی اسے اپنی زندگی گزارنے دوں گا۔۔ وہ خوشیاں بانٹے گا اسکی اولاد ہوگی۔۔" ایک اور قہقہہ ۔۔ "پھر مزہ آئے گا۔۔ اسکا ٹھکانہ ڈھونڈ کر رکھو۔۔ وہ ساری عمر اس خوش فہمی میں رہے گا کہ ارے جہانزیب تو بھول بھال گیا۔۔ لیکن جہانزیب نہیں بھولتا ۔ ہولے ہولے وار کروں گا میں۔۔" احمد نے ضبط سے مٹھیاں بھینچ لیں لیکن صبر کی حد ہوتی ہے کس سانپ کو پال رکھا تھا انہوں نے اس حویلی میں۔۔ وہ دھڑلے سے کمرے میں داخل ہوئے اور جہانزیب کو اسکے گریبان سے پکڑ کر چند سیکنڈ گھورنے لگے اور ایک زوردار مکا اسکے جبڑے پر رسید کیا۔۔ وہ قدرے ہل کر رہ گیا۔۔ شالا فوراً آگےبڑھا تو احمد نے ایک مکا اسے بھی رسید کیا تو وہ بھی دور جا کے لگا۔۔
"کان کھول کر سن لے جہانزیب میرے ہوتے ہوئے تو انکا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔۔ اپنی سوچ بدل لے نہیں تو میں تیرے چہرے کا نقشہ بدل دوں گا ۔۔ بھول مت بابا سائیں نے تجھے عزت دی ہے اگر انکو تیرے ارادے بتا دوں تو منٹوں میں تو یہاں سے فارغ۔۔" وہ تیز آواز سے دھاڑتے ہوئے بولے۔۔ جہانزیب نے سرد نگاہوں سے انکو دیکھا اور اپنے ہونٹوں کے پاس سے نکلتے خون کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے اٹھ کھڑا ہوا۔
"تو جائو نا احمد بتا دو بابا سائیں کو سب ۔ لیکن کیا ہے نا تم سے زیادہ میری سنتے ہیں وہ چچ چچ۔۔ تیرا مان ٹوٹ جائے گا۔۔ جا شاباش۔۔ جا نا۔۔" وہ چیختے ہوئے بولا تبھی احمد دوبارہ آگے بڑھے لیکن اس بار جہانزیب کے گارڈز جو ناجانے کب اندر آگئے انہوں نے مل کر احمد کو جکڑ لیا۔
"چھوڑو مجھے زلیلوں میں بابا سائیں کا دوسرا بیٹا ہوں۔۔" وہ بمشکل اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے غرائے۔
"نہ نہ احمد تصحیح کرو دوسرا نہیں تیسرا بیٹا۔۔ میں جہانزیب عالم خان ہوں انکا پہلا بیٹا پھر ناصر اور پھر تو۔۔" انگلی کا اشارہ وہ احمد کی طرف کرتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر بولا۔
"خبیث ہو تم جہانزیب۔۔ بھولو مت تمہاری ماں یہاں ہماری چوکھٹ پر پھینک کر گئ تھی تمہیں۔۔" جہانزیب نے طیش سے مٹھیاں بھینچ لیں وہ آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ عالم خان اندر کمرے میں داخل ہوئے۔
"یہ کیا شور مچا رکھا ہے تم دونوں نے؟" غصے اور رعب کی علامت کالی گھنی مونچھیں سر پر گدی کی پگ ڈالے وہ تیز دھار آواز سے گرجے تو گارڈز نے ایک دم احمد کو چھوڑا اور پیچھے ہوئے۔
"آپکی غیر موجودگی میں اور کیا ہوگا بابا سائیں ایک طوائف کا بیٹا ہونے کے طعنے مل رہے ہیں مجھے ۔۔ آپکی چوکھٹ پر پھینک دیے جانے کے طعنے مل رہے ہیں مجھے اور کیا ہوگا بابا سائیں۔۔۔" موقعے پر چوکا لگایا تھا جہانزیب نے انکو دیکھتے ہی اپنے ہونٹوں کے گرد خون صاف کرنے لگا۔۔ اداکار کہیں کا!!
"یہ بھائی جان کو مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے بابا سائیں اسے سمجھا لیں ورنہ میں۔۔۔"
"ورنہ کیا؟؟ " وہ اونچی آواز میں دھاڑے۔۔ "ورنہ کیا احمد؟؟"
"ورنہ اسکی لاش ڈھونڈتے پھریں گے آپ۔۔۔" بس اتنا ہی کہنا تھا کہ ایک زوردار تھپڑ عالم خان نے آگے بڑھ کر احمد کے چہرے پر دے مارا ۔ وہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے بابا سائیں کا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
"بس اب۔۔ اگر اب تم نے جہانزیب کے خلاف کچھ بھی کہا تو میں بہت برا پیش آئوں گا۔۔ سمجھے!!" احمد چند سیکنڈز انہیں گھورتے رہے۔
"واہ بابا سائیں آپکے اس تھپڑ نے آج یہ ثابت کر دیا کہ یہی آپکی سگی اولاد ہے ہم نہیں۔۔" وہ دکھ بھرے لہجے میں بولے لیکن تاثرات ہنوز سخت تھے۔
"یہ بھی بیٹا ہے میرا تم لوگوں کی طرح بھول کیوں جاتے ہو؟" وہ دونوں بازو ہوا میں پھیلاتے ہوئے دھاڑے۔
"جس کی ماں اسے آپ کے آنگن میں پھینک کر چلی گئ۔ یہ تو اتنی عزت کے قابل ہی نہیں تھا۔عزت اسے دیں جو عزت سمجھتا ہے۔۔"
"احمد !!!! بکواس بند کرو اپنی۔۔" وہ حلق کے بل دھاڑتے ہوئے آگے بڑھے۔
"کس کس کی بکواس بند کریں گے آپ ؟ سب جانتے ہیں کہ آپ کی غلطی کی سزا خان حویلی اب تک بھگت رہی ہے اور آج آپ کو ناصر بھائ کی حرکت پر غصہ آرہا ہے ارے انہوں نے تو نیک کام کیا عزت بنایا راحیلہ کو اپنی اور اس گھٹیا شخص سے بچایا ان کو اور یہ معصوم لوگوں کا قاتل۔۔ ہمارے جوان چچا جان کا قاتل۔ ارے خون سے کھیلنا تو اسکا شیوہ ہے۔۔" وہ ایک ایک جملہ سختی سے ادا کر رہے تھے۔
"بس بہت ہوگیا!!!" انہوں نے ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا۔
"جی اب بس بہت ہوگیا آپکو اپنا یہی بیٹا مبارک ہو میں نہیں رکوں گا یہاں جہاں میرے بھائ کی کوئ عزت نہیں ہے۔۔ جہاں ہمارے بابا سائیں ہماری کہی کسی بات کا یقین نہیں کرتے۔۔" وہ مڑ کر جانے لگے۔۔ پھر رکے۔
"ٹھیک ہے جائو تم بھی یاد رکھنا کہ کوئ جائیداد میں حصہ نہیں ہے تم دونوں کا مر گئے تم دونوں میرے لیے۔۔" جہانزیب شائع انداز میں مسکرایا لیکن اس کی طرف بابا سائیں متوجہ نہیں تھے البتہ احمد نے ضرور یہ زہریلی مسکراہٹ دیکھی تھی یہی تو وہ چاہتا تھا خان حویلی پر قبضہ۔ آج اسےوہ بھی مل گیا۔ وہ ہر وقت کا بادشاہ تھا۔ وقت اس کا تھا۔
"ہم زندہ ہیں بابا سائیں اور اگر یہ گھٹیا انسان میرے یا میرے بھائ کے پیچھے آیا تو اسے قبر تک پہنچانے کے لیے ہم زندہ ہیں بابا سائیں۔۔" یہ کہتے ساتھ وہ رکے نہیں اور وہاں سے چلے گئے۔
موجودہ وقت:
"کاش میں نہ آتا۔۔"وہ ماضی سے واپس آچکے تھے۔ کمرے میں گھٹن زدہ ماحول بن گیا تھا۔
"تم نے بہت احتیاط کی تھی احمد اسی لیے وہ ایک دم ہم تک نہیں پہنچ سکا اسے وقت لگا ہمیں ڈھونڈنے میں۔۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر احمد صاحب کے ساتھ جا بیٹھے۔۔" چھوڑو ان باتوں کو اب سب صحیح ہے۔"
"کچھ صحیح نہیں ہے بھائ مجھے اسکا ایک ایک لفظ یاد ہے اب اسکا نشانہ آپ ہوں گے یا ہمارے بچے۔ آپ نہیں جانتے مجھے ہر شخص میں وہی دکھائی دیتا ہے۔"
"پہلے کی بات اور تھی اب اسے مجھ تک پہنچنے کے لیے سخت پلاننگ سے کام لینا ہوگا ۔۔ شاباش اٹھو اور جھٹکو ان باتوں کو خوامخواہ کوئ سن گیا تو پریشان ہی ہو جائے گا۔۔" انہوں نے احمد کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا تسلی آمیز انداز میں کہا۔
"میں نے اپنی بیٹیوں کو کمزور کر رکھا ہے بھائ ایک دل کرتا ہے کہ انابیہ کو سب بتا دوں لیکن بجائے حالات سے لڑنے کے وہ ڈر ڈر کر زندگی گزارے گی۔ وہ بیوقوف ہے کسی کی بھی باتوں میں آجاتی ہے۔۔"
"لیکن وہ سمجھدار ہے اب ۔۔ کچھ ٹائم اور گزرنے دو پھر جو مناسب لگا وہی کریں گے۔۔" وہ انکے کندھے پر ہاتھ رکھے نرمی سے بولے جس پر احمد نے محض سر اثبات میں ہلایا ۔
●●●●●●●●●●●●●
مسلسل سڑکوں پر گاڑی دوڑانے کے بعد وہ تقریباً چار بجے کے قریب گھر پہنچا۔۔ گاڑی سے نکلتے اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور اندر جانے لگا۔
"افف نازو تم کب صحیح صفائ کرنا سیکھو گی مجھے تو۔۔۔" آمنہ بیگم نازو کو سنائے جا رہی تھیں تب ہی کبیر کو اندر آتا دیکھ کر چپ ہو گئیں۔۔ وہ قدرے حیرانی سے اسے دیکھے جا رہی تھیں جو اب تک نائٹ سوٹ میں تھا انکو لگا شاید وہ یونیورسٹی سے آئے گا مگر اسکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ کافی پریشان ہے اور یونیورسٹی ایسے تو وہ جا بھی نہیں سکتا تھا۔۔ وہ انکو ایسے اگنور کرتے وہاں سے سیڑھیاں عبور کرکے جانے لگا جیسے وہاں کوئ تھا ہی نہیں۔۔ وہ اس کے پیچھے نہیں گئیں۔
"یہ ضرور لڑ کر آیا ہےمگر یہ تو بلاوجہ ایسے نہیں کرتا اور یہ رات والی حالت میں کیوں ہیں کیا ہوا ہوگا؟؟؟" انکے ذہن میں مختلف خیالات جنم لینے لگے مگر وہ جانتی تھیں ابھی اس سے بات کرنا فضول ہے۔۔ کمرے میں پہنچتے ہی اس نے اپنے پیچھے دروازہ دھڑام سے بند کیا اور سر پکڑے ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا۔ وہ چیخنا چاہتا تھا چلانا چاہتا تھا مگر خود پر ضبط کر رکھا تھا۔۔ اس نے آس پاس کمرے کو دیکھا اور طیش کے عالم میں بیڈ کی طرف بڑھا۔۔ بیڈ شیٹ تکیے سب اس نے اتار کر زمین پر پٹخ دیے۔۔ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھتے اس نے اس پر پڑا سامان اٹھا پھینکا پرفیومز، شیونگ کریم، نائٹ کریمز ناجانے کیا کیا جو ترتیب سے رکھا گیا تھا اگلے کچھ ہی پل میں زمین پر بے دردی سے بکھرا پڑا تھا۔۔ صوفے کے کشن بھی اٹھا پھینکے ۔ سائڈ ٹیبل پر پڑا جگ اور گلاس اس نے بے دردی سے زمین پر پھینکا جس کا کانچ دور دور تک پھیل گیا تھا۔۔ سٹڈی ٹیبل پر پڑی کتابیں، لیپ ٹاپ، سٹیشنری، فائلز کچھ بھی اب ویسے نہیں تھا سب کچھ زمین پر ڈھیر تھا۔۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ ذرا سا بھی نہیں چیخا نہ ہی چلایا۔۔ پھر تھک ہار کر تیزی سے سانس لینے لگا۔۔ سکون تو اسے اب بھی نہیں آیا تھا لیکن جو غبار اس کے اندر کب سے پل رہا تھا وہ شاید نکل چکا تھا۔۔ سامنے دیوار پر لگی اسی پینٹنگ پر تو اسکی نظر اب پڑی تھی وہ جارحانہ انداز میں اسکی طرف بڑھا اور اسے اتار کر ان آنکھوں کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا پھر پاگلوں کی طرح ادھر ادھر نظریں دوڑائیں تو ایک چیز پر اسکی نظر رکی۔۔ فرش پربکھرے ہوئے سامان میں موجود کٹر پر۔۔ اس نے آگے بڑھ کر تیزی سے وہ کٹر اٹھایا اور ہاتھ میں پکڑے کینوس کی طرف بڑھایا اسکا ارادہ تھا کہ اس کا برا حشر کر دے لیکن اس کا ہاتھ وہیں رک گیا۔۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ سختی سے لب بھینجتے اس نے کینوس دیوار پر دے مارا۔۔ لیکن وہ آنکھیں خراب نہیں کیں جن آنکھوں سے محبت تھی جن کو دیکھ کر وہ جیتا تھا وہ بھلے اصلی نہیں تھیں پینٹ سے بنائیں گئ تھیں اور بھلے اسکو اس وقت شدید نفرت ہو رہی تھی لیکن پھر بھی وہ اسے دور پھینک تو سکتا تھا مگر ایک کٹر سے تشدد!!! یہ اس کے بس کی بات نہیں تھی یہ حوصلہ اس میں نہیں تھا۔۔ وہ سر دونوں ہاتھوں میں جکڑے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔ اس وقت سب سے زیادہ ضبط اس نے اپنے آنسوؤں پر کر رکھا تھا مگر آنکھوں کے آنسوؤں پر۔۔ دل کے آنسو وہ نہیں روک سکتا تھا اسکا دل دھاڑے مار مار کر رو رہا تھا۔۔ کافی دیر وہ ایسے ہی بیٹھا رہا اور پھر سر اٹھا کر کمرہ دیکھنے لگا جس پر تو گویا قیامت آئ تھی۔۔ ہاتھ اپنی جیب کی طرف بڑھایا اور فون نکال کر ایک کال ملائ۔۔
"نوید کاکا۔۔ فوراً اوپر میرے کمرے میں آئیں۔۔۔" کہتے ساتھ اس نے فون بیڈ پرپٹخا۔۔ تھوڑی دیر میں ایک ادھیڑ عمر شخص دروازہ کھٹکھٹاتے کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کی حالت دیکھ کر تو جیسے صدمے میں چلا گیا۔
"کاکا مجھے یہ کمرہ تھوڑی ہی دیر میں پہلے جیسا چاہئیے اور ہاں موم کو پتہ نہ چلے۔۔" کہتے ساتھ اس نے وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالے اور واشروم میں گھس گیا ۔۔ کاکا تو جیسے پریشان ہی ہو گئے تھے کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔۔ انہوں نے ابھی کام شروع ہی کیا تھا کہ آمنہ بیگم بھی آ پہنچی اور منہ کھولے اس طوفان کی زد میں آئے کمرے کو پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگیں۔
"بی بی صاحبہ آپ کو نہیں آنا چاہئے تھا چھوٹے صاحب مجھ پر غصہ ہوں گے۔۔" وہ زمین پر جھک کر شیشے کے ٹکڑے اٹھاتے ہوئے بولے۔
"کاکا آپ اٹھیں یہ آپ کا کام نہیں ہے اور جائیں نازو کو بھجوا دیں پلیز۔۔" ان پر حکم کرتے وہ جھک کر پرفیوم کی شیشیاں اپنے ہاتھوں سے اٹھا نے لگیں۔ انہوں نے اپنے زہن کو کئی طرح کے سوالوں سے جکڑ رکھا تھا ۔
"ارے ارے بڑی بیگم آپ ہٹیں میں کر دیتی ہوں ۔۔ " نازو اندر داخل ہوئ تو آمنہ بیگم سے کہنے لگی ۔
"یہ سب صاف کر دینا میں چلتی ہوں اور کبیر کو پتہ نہ چلے کہ میں آئ تھی تمھیں دیکھے تو کہہ دینا کاکا کو تم نے بھیجا ہے سمجھ گئ۔۔۔" حکم صادر کرتے وہ پریشانی کے عالم میں وہاں سے جانے لگیں تبھی ان کی نظر چوکھٹ پر گری ایک پینٹنگ پر رکی۔ انہوں نے ناسمجھی سے اس پینٹنگ کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے انہوں نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس پر بنی خوبصورت آنکھیں دیکھتے ہی ان کو ان کے سارے سوالوں کے جواب مل گئے تھے۔دکھ سے آنکھیں بند کرتے وہ پینٹنگ اپنے ساتھ لے گئیں۔
●●●●●●●●●●●●●
سیاہ بادلوں سے ڈھکی رات میں چمکتا چاند آسمان پر خاموش لٹکا ہوا جیسے ڈھیروں اداسی سے بھرا ہوا جیسے کسی سے بات نہ کرنا چاہتا ہو جیسے خاموشی اسے پسند ہو۔ وہ خاموشی سے کبھی گھنے کالے بادلوں میں چھپ جاتا پھر سامنے آتا پھر چھپ جاتا پھر آجاتا۔ وہ آسمان پر تنہا تھا آج ستارے نہیں تھے اس کے ساتھ جو اسکے اردگرد ٹمٹماتے آج وہ اکیلا اس لڑکی سے بے آواز باتیں کر رہا تھا جو آسمانی رنگ کا دوپٹہ سر پر لپیٹے سفید رنگ کی قمیض شلوار پہنے بالکونی میں ہینگنگ چئیر پر بیٹھے اداس سوجی ہوئ بے دریغ آنسوؤں سے گیلی آنکھیں چاند پر ٹکائے ہوئے تھی۔ چاند جو اس کا خاموش رازدار تھا۔ اس کی سرگوشیاں سنتا تھا اس کا دوست تھا کیا وہ اس کی کہانی اس شہر پہنچا سکتا تھا جہاں وہ اپنی محبت کو زندہ درگور کر آئی تھی؟
"کچھ بھی کرو جانا مت۔۔" کبیر کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔"کچھ بھی کرو جانا مت۔۔" وہ خاموش بیٹھی اسکی گونجتی ہوئی آواز سن رہی تھی ۔۔" کچھ بھی کرو" وہ کیا کرتی وہ پہلے بھی سپیکر سے باہر آتی اسکی منتیں سن رہی تھی اور اب بھی وہ اسکی گونجتی آواز صرف سن ہی سکتی تھی کچھ کر نہیں سکتی تھی۔
“اگر تم گئ تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔" معافی؟؟ اسکی تو دعا تھی وہ کبیر سے کبھی دوبارہ نہ ملے۔۔ معافی کی نوبت کبھی آئے ہی نہ وہ مشکل گھڑی اسکے سامنے کبھی آئے ہی نہ۔
"قسم ہے بیا تمہیں محبت کی قسم ہے جانا مت" اسکی منتیں اسکا رونا اس پر چلانا ایک بار پھر اس کا دل چھلنی ہونے لگا ایک بار پھر اسکی آنکھ اشک بار ہونے لگی جو سارے سفر سے لے کر اب تک نہیں روئی پھر رونا چاہ رہی تھی۔۔ نظریں اب بھی چاند پر ٹکی تھیں۔
"میں جانتی تھی۔۔" آنسوؤں پر ضبط کرتے وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولنے لگی۔۔ "میں جانتی تھی کہ ہم بچھڑنے کے لیے ملے ہیں میں پھر بھی محبت کے راستے پر چل دی ۔۔ یہ جانتے ہوئے کہ تم مجھے نہیں مل سکتے میں پھر بھی محبت کر بیٹھی ۔۔ یہ جانتے ہوئے کہ محبت میرے لیے نہیں بنی۔ تم میرے نہیں تھے کبھی نہیں تھے لیکن تمھیں کھو دینے سے میں خود کھو گئ ہوں ایسے ویرانے میں جہاں صرف تنہائی ہے۔۔" خاموشی نے پھر آ گھیرا وہ چند پل اسی طرح بیٹھی رہی اور اس کی چھت سے لٹکتی چئیر اب بھی پینڈولم کی طرح جھولتی رہی۔
"جسے چھوڑ آئ ہیں اب اسے چاند میں ڈھونڈنے کا کیا فائدہ۔۔۔" اسے پتہ بھی نہ چلا کہ ردا کب اس کے ساتھ نیچے بچھی گراس کارپٹ پر آ بیٹھی۔۔انابیہ نے اسکی آواز سنتے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔
"تم کب آئ؟؟"
"جب آپ مکمل طور پر چاند کو دیکھنے میں مصروف تھیں ۔۔" وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔
"وہ تو بس کمرے میں تھوڑی گھٹن ہو رہی تھی۔اس لیے یہاں بیٹھ گئ۔۔" اس نے یہی جواز پیش کیا۔
"یعنی آپ مکر رہی ہیں؟"
"کس بات سے؟؟"
"کہ آپ واقعی اسے یاد کر رہی ہیں۔۔"
"یاد اسے کیا جاتا ہے جو بھول جائے نہ میں اسے بھولی ہوں اور نہ بھولوں گی بلکہ اسے بھلانا میرے بس میں نہیں ہے۔۔۔" اس کی نظریں اب پھر آسمان پر تھیں۔
"یہ تو میں جانتی تھی۔۔" وہ طنزیہ انداز سے ہنسی۔۔"یعنی آپ خود کو اذیت میں رکھیں گی۔۔"
"اذیت؟؟" وہ کرب سے مسکرا دی۔۔ "تمہیں پتہ ہے مجھے ایسے لگتا جیسے میں نے کوئ حسین خواب دیکھا ہو جس میں وہ ایک شہزادہ تھا۔۔ میں کوئ شہزادی تو نہیں تھی مگر وہ میرے لیے شہزادہ بن کر آیا تھا مجھے اپنے ساتھ اپنی دنیا میں لے جانے کے لیے اور میں بھی اس کے ساتھ جانے لگی لیکن۔۔" اس نے رک کر گہرا سانس لیا۔۔ "میں اسے اس سفر میں اکیلے چھوڑ کر واپس اپنی اسی دنیا میں آگئ۔۔"
"تو اگر آپ اسے خواب ہی سمجھیں تو آپ کے لیے آسانی ہو جائے گی کیونکہ خواب بھلائے جا سکتے ہیں۔۔" ردا نے اس سے کہا۔۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو تم خواب بھلائے جا سکتے ہیں مگر سب سے بہترین اور بدترین خواب کبھی نہیں بھولتے وہ ساری عمر ساتھ رہتے ہیں۔۔"
"تو پھر آپ بتائیں کہ یہ آپ کے لیے بہترین خواب تھا یا بدترین؟؟"
"آغاز بہترین اور حسین تھا مگر انجام بدترین سے بھی بدتر۔۔" اس نے زخمی انداز سے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تو پھر بہتر یہی ہے آپ اس حقیقت کو حقیقت ہی سمجھے خواب نہیں۔۔" ردا سر جھٹکتے ہوئے بولی۔
"اس سے آخری دفعہ بات کرتے ہوئے مجھے لگا کہ میں کمزور پڑ جائوں گی اپنا ارادہ بدل دوں گی اور۔۔" بولتے بولتے اس نے یکدم ردا کے چہرے کا بدلا ہوا تاثر دیکھا اسے خود سمجھ نہیں آئ کہ اس نے یہ ذکر کیوں چھیڑا۔۔
"کیا مطلب آخری دفعہ بات؟؟" ردا نے تعجب سے اسے دیکھا۔
"چھوڑو کچھ نہیں۔۔ کافی رات ہوگئ اندر چلتے ہیں۔۔" حلق میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتی وہ ہینگنگ چئیر سے اٹھ کر اندر جانے لگی۔۔ تبھی ردا تیزی سے اٹھ کر اس کا راستہ روکے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔
"میں نے کچھ پوچھا ہے؟" اس نے سوالیہ ابرو اٹھائ۔ "کب ہوئ آپکی آخری دفعہ بات کیسے ہوئ؟؟"
"فون پر۔۔" وہ جگہ سے ایک انچ نہ ہلی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ردا ایسے جان نہیں چھوڑتی۔۔
"مگر آپ نے فون میرے سامنے توڑا تھا۔۔"
"فون توڑا تھا ردا سم نہیں۔۔ ماما جان کے فون میں اپنی سم ڈال کر بات کی تھی میں نے ۔۔ ہو گیا؟؟" وہ کہہ کر سائڈ سے ہو کر جانے لگی جب ردا نے فوراً اسے بازو سے پکڑا اور پھر اسکے سامنے ہوئ۔
"ایسی کیا آفت آگئ تھی؟؟ کیا بات کی تھی آپ نے؟؟" اس نے باری باری اسکی دونوں آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
"کیوں ہر بات کے پیچھے پڑ جاتی ہو۔۔ ہو گیا جو ہونا تھا اب کیا فائدہ۔۔ فکر نہ کرو میں نے اسے ایسا کچھ نہیں کہا کہ وہ میرے پیچھے یہاں تک آجائے گا" وہ بلاوجہ غصہ کرنے لگی تھی۔
"یہی تو کیا کہا تھا آپ نے مجھے بتائیں؟" انابیہ نے اس کے بگڑتے ہوئے تیور دیکھے تو جیسے ہار مان گئ۔۔
"بس یہی کہ میں جا رہی ہوں بابا سب جان گئے ہیں۔۔"
"بس یہی؟؟"
"نہیں۔۔"
"شروعات کہاں سے کی تھی؟؟"
"اقرارِ محبت۔۔"
"واٹ؟؟" اس کا منہ حیرت سے کھلا۔۔ سر ہاں میں ہلاتے وہ بیڈ کی جانب بڑھ گئ اور تکیے ٹھیک کرنے لگی۔۔ ردا پھر اس کے پیچھے آئ۔
"کیوں کیا یہ سب؟؟ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے؟" وہ دبی دبی غرائ تھی۔
"نہیں ہے مجھے اندازہ نہ ہی لگانا ہے۔۔"
"آپ نے اسے ایک پل کی خوشی دے کر اس کے سر پر اچانک اتنا بڑا بم پھوڑ دیا۔۔یو ہرٹ ہم۔۔ میں نہیں جانتی تھی آپ اتنی بے رحم ہو سکتی ہیں۔۔" 2ہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"شٹ اپ ردا پلیز۔۔"
"کیوں؟؟ ایسا کیوں کیا آپ نے؟؟" اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا یا شاید وہ دینا نہیں چاہتی تھی۔
"نہیں بتائیں گی؟؟ میں بتائوں؟" اس کے ایسے انداز پر انابیہ نے نظروں کا رخ اسکی طرف کیا۔
"آپ نے یہ سب اس لیے کیا کہ وہ آپ سے نفرت کرنے لگے۔۔" انابیہ نے یکدم نظریں چرائیں۔۔ " کیا لگتا ہے اس طرح وہ بھول جائے گا سب ؟؟ بھول ہے آپ کی۔۔ وہ اب بھی یاد کرے گا آپ کو لیکن نفرت بھی کرے گا۔۔آپ کو کال کرنی ہی نہیں چاہئیے تھی یا آپ اس سے کبھی نہ کہتی کہ آپکو محبت ہے اس سے اففف آپی کیا ثابت کرنا چاہتی تھی آپ کہ آپ ہار مان گئ ہیں آپ نہیں لڑ سکی محبت کا دفاع نہیں کر سکی۔۔۔"
"میں کال نہ بھی کرتی تب بھی یہی ہوتا ہر طرف سے برا میرے ساتھ ہی ہونا تھا۔۔"
"آپ کال نہ کرتی تو وہ مان جاتا کہ کوئ مجبوری ہوگی آپ کی۔ ناجانے کیا ظلم ہوا ہوگا آپ کے ساتھ۔۔۔ آپ نے اسے کال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ آپ کال کر سکتی تھیں بعد میں تو پہلے بھی کر سکتی تھیں آپ نے اسے ثابت کر دیا کہ آپ سب روک سکتی تھیں اسے بلا سکتی تھیں آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ کی محبت کمزور تھی۔۔ آپ کو کال کرنی ہی تھی آپی تو پہلے کر دیتی کیا پتہ وہ سب ٹھیک کر دیتا سمجھا لیتا بابا کو۔۔ لے جاتا آپ کو۔۔۔"
"کیا ٹھیک کر لیتا وہ؟؟" وہ یکدم بھڑکی۔
"آپی وہ۔۔۔" وہ روہانسی ہو کر اسے دیکھنے لگی۔
"بابا ہارٹ پیشنٹ ہیں ۔۔" وہ بہتے آنسوؤں سے چیخ کے بولی تو ردا ششد رہ گئ۔۔۔ برف کے مجسمے کی طرح بغیر کوئ حرکت کیے وہ انابیہ کو دیکھے گئ۔
"کیا کرتی میں ہاں ؟ میں نے بابا کا بھروسہ توڑا تھا بھولو مت میں نے ان کا مان توڑا تھا۔۔ جانتی ہو انہوں نے مجھے آپشنز کیوں دیے تھے کیونکہ انہیں پھر بھی ایک آس ایک امید تھی کہ اب کی بار انابیہ وہی فیصلہ کرے گی جو اسکا باپ چاہتا ہے ۔۔ جو بھی ہے تھے تو وہ پرانے خیالات کے مالک نا انکی جگہ کوئ اور باپ ہوتا نا تو رکھ کے میرے منہ پر چپیڑ مارتا اور مجھے چوائسز نہیں دے رہا ہوتا بلکہ زبردستی مجھے لے کر جانے کی تیاری کرتا مجھے کمرے میں بند کر دیتا میرا فون جو میں نے توڑا تھا وہ میرا باپ توڑتا۔۔" وہ یک ٹک پھٹی آنکھوں سے انابیہ کا چہرہ دیکھے گئ۔
"لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور آخری دفعہ مجھ پر بھروسہ کیا۔ میں ان کا دل پھر سے چھلنی نہیں کر سکتی تھی ساری عمر کا روگ ساتھ لے کر نہیں چل سکتی تھی میں کسی لڑکے کو اپنے باپ کے سامنے لا کر کھڑا نہیں کر سکتی تھی۔ میں محبت تو کر سکتی تھی لیکن اس کے لیے لڑ نہیں سکتی تھی ۔۔ ہاں میں نے جان کے فون کیا تھا اور جو تم نے سمجھا بلکل ٹھیک سمجھا ۔۔ میں نے اس لیے کیا کیونکہ میں محبت کرتی ہوں ردا اس سے میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے لیے تڑپ تڑپ کر مرے۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھے جگہ جگہ ڈھونڈتا پھرے۔ ایک دفعہ کا رونا ساری عمر کے رونے سے بہتر ہے۔۔ میں نے جان کے اسے کال کی اور غلط ٹائم پر کی تاکہ وہ جان جائے کہ انابیہ سب کر سکتی تھی لیکن اس نے نہیں کیا۔۔ میں نے کہا اس سے کہ میں ہماری محبت کے لیے کچھ نہ کر سکی تاکہ وہ جان جائے کہ انابیہ ایک کمزور لڑکی ہے جو محبت کا دفاع تک نہیں کر سکی جس نے کوئ کوشش تک نہیں کی۔۔۔" وہ اتنا روانی میں بولے جا رہی تھی کہ تھک کر گہرے سانس لینے لگی اور ردا پتھر بنے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"میں نہیں جانتی کہ بابا کو کیا بتایا گیا ہے کس نے بتایا لیکن مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ضرور انہیں کچھ غلط بتایا یا دکھایا گیا ہے ان سے غلط بیانی کی گئ ہے میں نہیں جانتی کون ہے میرا دشمن اور میں ان سے پوچھوں گی بھی نہیں کیونکہ میں سوائے اسکی یاد کے سب لاہور میں دفنا آئ ہوں۔۔ میں نے ہمیشہ بابا کی آنکھوں میں غصہ اور رعب دیکھا تھا لیکن اس دن میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے ردا جن کی وجہ میں تھی۔۔ اس دن میں نے ان کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت بھی دیکھی تھی۔ انھوں نے اپنی طرف سے میرے لیے اچھا ہی سوچا ہوگا۔۔۔ میرے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے اگر ان کو کچھ ۔۔"
"آپی!!سوچ سمجھ کر بولیے گا۔۔" ردا ایک دم پھٹ پڑی۔۔ اسکا چہرہ مکمل بھیگ چکا تھا وہ فوراً آگے ہو کے انابیہ کے گلے لگ کر بلک بلک کے رونے لگی۔۔ اور کافی دیر اس کے گلے لگ کر روتی رہی۔۔
"آئ ایم سوری ۔ میں نہیں بتانا چاہتی تھی تمہیں یہ سب اب چپ ہو جائو۔۔۔" اس نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
"نہیں آپی مجھے معاف کر دیں مجھے کوئ حق نہیں ہے آپ کو اس طرح سے روک روک کر سوال جواب کرنے کا۔۔" وہ روتے ہوئے بولی۔
"تمہیں سارے حق ہیں ردا بس میرے لیے پریشان ہونا چھوڑ دو۔۔ میں نے محبت کو اپنوں پر قربان کیا ہے میں نے اسے کوی دھوکا نہیں دیا نہ ہی کسی اور لڑکے کے لیے اسے چھوڑا ہے مجھے کوئ پچھتاوا نہیں ہے اگر میں روتی ہوں چیختی ہوں چلاتی ہوں اداس ہوتی ہوں تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوگا کہ مجھے کوئ ریگریٹ ہے بس میں اسے بھلا نہیں سکتی اس پر میرا کنٹرول نہیں ہے آفٹر آل وہ میری محبت ہے کوئ گپ تو نہیں ۔۔" وہ ہلکا سا مسکرا دی۔۔ جس پر ردا بھی مسکرائ۔
"لیکن آپ میرے سامنے اسکا نام لے کر نہیں روئیں گی۔۔۔" اس نے انگلی اٹھا کر اس سے کہا جس پر اس نے سر ہاں میں ہلایا۔۔ "اور ایک اور بات آپ آئندہ مجھ سے پوچھے بغیر کوئ کام نہیں کریں گی۔۔ مجھ سے مشورہ لیں چاہے پھر آپ کو پسند نہ آئے ۔۔ میں بھلے عمر میں آپ سے چھوٹی ہوں لیکن دماغ میں عقل اور سمجھداری آپ سے زیادہ رکھتی ہوں۔۔" ردا ہاتھ سینے پر باندھے اسے کہنے لگی جبکہ انابیہ نے شکل بنائے اسے سر تا پیر دیکھا اور پھر بولی۔۔ "ہمم صحیح ۔۔" پھر وہ دونوں کھلکلا کر ہنستے ہوئے اپنے آنسو پونچھنے لگیں۔
●●●●●●●●●●●●●●
"ایک تو میں اپنی بھولنے والی بیماری سے بڑی تنگ ہوں سوچ سوچ کے اب یاد آیا۔۔" سائرہ بیگم چارپائی پر بیٹھے کٹے ہوئے سیب کی ایک ڈلی منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔۔ صحن میں بلب کی روشنی تھی۔
"کیا اماں ایسا کیا یاد آگیا؟؟" جویریہ نے ہاتھوں میں پکڑی گیلی قمیض ہوا میں جھاڑی اور اسے تار پر پھیلاتے ہوئے بولی۔۔ بال ڈھیلے جوڑے میں باندھے لمبی قمیض کے آستین کہنیوں تک فولڈ کیے وہ ابھی کپڑے دھو کر انہیں سکھانے کے لیے تار پر پھیلانے میں مصروف تھی۔۔
"اے نومی یہ صبح ہی صبح کون ہمارا دروازہ ہی توڑنے لگا تھا؟؟" نومی نے اپنی سائیکل کی چین ٹھیک کرتے کرتے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا جویریہ فوراً بول پڑی۔۔
"کوئ نہیں اماں دودھ والا تھا۔۔ فکر نہ کریں خوب سنا کے بھیجا ہے میں نے۔۔ کیوں نومی؟؟" نومی عجیب شکل بنائے اسے دیکھنے لگا اور پھر اوپر نیچے سر ہلانے لگا۔
"ہائے کل خبر لوں گی اسکی بھلا کوئ ایسے پیٹتا ہے دروازہ میں تو خود اٹھ جاتی لیکن بڑا درد تھا میری ٹانگوں میں۔۔" وہ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے درد سے بولیں ۔
"رہنے دو نا اماں میں نے خوب بےعزت کیا ہے نہیں بجائے گا آئندہ ایسے دروازہ۔۔" وہ ان کے پاس وہیں چارپائی پر آ بیٹھی۔
"دھل گئے سارے کپڑے۔۔ شاباش میری سگھڑ بیٹی۔۔۔" وہ تار پر قطار سے دھلے کپڑے ٹنگے دیکھتے ہوئے بولیں۔ تو وہ فوراً سے مسکرا دی۔۔"منحوس بڑا بد نصیب ہے وہ جسے تیری قدر نہیں ہے۔۔" اس کے چہرے سے یکدم مسکراہٹ غائب ہوئ۔۔
"منحوس تو نہ کہیں اسے۔۔" وہ نہایت دھیمی آواز میں بولی۔۔
"کیوں نہ کہوں میری پھول جیسی بیٹی کو انکار کیا ہے اس نے۔۔"
"کیا خالہ نے انکار کر دیا؟؟" اس نے گردن موڑ کر انہیں حیرت سے دیکھا۔۔
"نہیں۔۔ لیکن کوئی جواب بھی نہیں دیا ۔۔ وہ بیچاری کیا کرے اسکا بیٹا مانے تو نا۔۔"
"آپ ایک بار پھر سے بات کریں نا خالہ سے۔۔" وہ زخمی انداز سے بولی۔
"نہ جی اب نہیں کرنی میں نے اس سے بات۔۔ بھلا میری خوبصورت بیٹی کو کوئ کمی ہے لڑکوں کی ہزار لڑکوں کی لائن لگ جائے تمہارے لیے تو ۔۔ کمی کیا ہے تم میں۔۔ کیوں بھیک مانگتی پھروں اس سے ۔۔ وہ نہیں تو کوئ اور سہی۔۔"
"ہزار لڑکے نہیں صرف ایک کبیر چاہئیے آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں؟" وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔۔
"تم کیوں نہیں سمجھ رہی میری بچی مت ذلیل ہو اس کے لیے۔۔"
"ذلیل ہونا منظور ہے بس وہ مل جائے۔۔" اس نے نظریں زمین پر ٹکائیں۔
"آخری بار پھر سے بات کروں گی آمنہ سے اگر وہ نہ مانی تو۔۔"
"انہیں ماننا پڑے گا۔۔" وہ تیزی سے بولی۔۔ سائرہ بیگم چپ اپنی بیٹی کا اداس چہرہ دیکھنے لگی۔۔
"مجھے کبیر ٹھیک نہیں لگ رہا عابس۔۔" آمنہ بیگم اور عابس ڈائیننگ ٹیبل پر ناشتے کے لیے آمنے سامنے بیٹھے تھے تبھی انھوں نے عابس سے پوچھا۔
"کیوں کیا ہوا ہے اسے؟؟" اس کے بریڈ پر مکھن لگاتے ہاتھ رکے۔
"دو دنوں سے بجھا بجھا ہے بات بھی نہیں کرتا مذاق بھی نہیں کرتا ہنستا بھی نہیں ہے اور تو اور یونیورسٹی بھی نہیں جا رہا کل بھی اسکی ایک کلاس فیلو زارا آئ تھی اس سے ملنے اس سے بھی زیادہ بات نہیں کی۔۔۔" وہ کبیر کی چینج ہوتی روٹین بتانے لگیں۔
"عاصم کہاں ہے؟؟" وہ اسی طرح آمنہ بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"زارا کہہ رہی تھی اس کی پھپھو فوت ہو گئ ہے تو اسلام آباد گیا ہے۔۔"
"تو آپ زارا سے ہی پوچھ لیتی کہ کیا ہوا ہے۔۔"
"میں نے پوچھا تھا اسے خود نہیں پتہ۔۔ مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے اس کی۔۔ " وہ پیشانی پر فکریہ انداز میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولیں۔
"پریشان نہ ہوں میں آج رات کو پوچھوں گا اس سے۔۔" کہتے اس نے بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔۔
"کیسے نہ ہوں پریشان دو دن پہلے جو اس کے کمرے کا حال تھا تہس نہس کر رکھا تھا اس نے۔۔" ان کی آواز تھوڑی اونچی ہوئی جبکہ عابس منہ کھولے انہیں دیکھنے لگا۔۔
"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟؟ " وہ قدرے حیرانی سے پوچھنے لگا۔۔ اور پھر اٹھ کر اسکے کمرے کی طرف جانے لگا۔
"عابس رکو۔۔ تمہارا آفس۔۔۔" انکی آواز پر اس نے چہرہ موڑ کر انہیں دیکھا۔۔
"بھاڑ میں گیا آفس۔۔۔ آپ یہیں رکے میں بات کرتا ہوں اس سے۔۔" اور دوبارہ چلنے لگا۔۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اسکی نظروں نے پورے کمرے کا سفر کیا لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔۔ پھر الٹے پیر اس کے دوسرے کمرے میں جانے لگا اب کی بار دروازہ کھولتے ہی اسے وہ سامنے کھڑا نظر آگیا۔۔ وہ ڈارک بلو سلیولیس شرٹ کے ساتھ بلیک ٹرائوزر پہنے بڑے سے کینوس پر سبز رنگ کی پہاڑیاں بنانے میں مصروف تھا۔۔
"کبیر۔۔" عابس نے دروازے پر کھڑے کھڑے اسے پکارا۔۔ کبیر نے آواز سنتے گردن موڑ کر اپنے بھائ کو دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دیا۔ اسکے ایک ہاتھ میں برش تھا اور دوسرے ہاتھ میں ووڈن پیلیٹ تھا۔۔ بال بکھرے سے تھے۔
"بھائی۔۔ اندر آجائیں وہاں کیوں کھڑے ہیں؟" اسے مسکراتا دیکھ کر عابس بھی مسکرا دیا اور قدم لیتے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ عابس اس سے عمر میں چھ سال بڑا تھا پھر بھی دونوں بھائی قد میں برابر تھے۔
"کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟؟" کبیر نے اسے گھورتا ہوا پایا تو مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔
"تمہارا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔" وہ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"کیا دکھا پھر آپ کو؟؟" وہ پھر مسکرایا۔
"نقلی مسکراہٹ۔۔ اذیت، تکلیف اور اداسی جسے تم چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔۔" عابس سنجیدہ تھا اور اسکی سنجیدگی نے اس کے چہرے سے نقلی مسکراہٹ بھی غائب کر دی۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے آئ ایم فائن۔۔" اس نے فوراً نظریں چرائیں۔
"اچھا تو میری آنکھوں میں دیکھ کر بولو۔۔" لہجہ سپاٹ تھا۔۔
"آپ کیا سننا چاہتے ہیں؟؟" اس نے ہاتھ میں پکڑی چیزیں ٹیبل پر رکھیں۔
"وہ جو تم بتانا نہیں چاہتے۔۔" کبیر خاموش رہا۔۔ اسکا ایک برش نیچے گر گیا تھا جسے اٹھانے کے لیے وہ جھکا۔۔ "کوئ محبت کا قصہ ہے؟؟" وہ اسی طرح جھکا رہا وہ سیدھا ہونا بھول گیا تھا۔
"تھا۔۔" صدمے کی حالت سے نکلتے ہی فوراً بولتے ہوئے وہ سیدھا ہوا۔۔ اب کی بار دونوں کی نظریں ملیں۔
"کیا مطلب تھا؟؟" عابس آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگا۔۔
"تھا مطلب تھا اب نہیں ہے۔۔۔"
"کیوں؟؟"
"جو گزر گیا سو گزر گیا ۔۔ میرا ماضی تھا میں نہیں دہرانا چاہتا بھولنا چاہتا ہوں۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے بڑے اطمینان سے بولا۔
"یہ تو اچھا ہو گا کہ تم بھول جائو۔۔ خود کو سیٹ کرو موم پریشان ہوتی ہیں تمہیں ایسے دیکھ کر۔۔۔ سب بھول جائو موو آن کرو۔۔"اسکے کندھے پر تھپکی دیتے وہ وہاں سے جانے لگا لیکن دروازہ کھولتے ہکا بکا رہ گیا کیونکہ آمنہ بیگم سامنے کھڑی تھیں کبیر نے گردن تھوڑی ٹیڑھی کر کے دیکھنا چاہا سامنے ان کو دیکھ کر لمحہ بھر وہ بھی ٹھٹکا۔
"موم جو بھی تھا وہ بھول گیا ہے مزید اس بارے میں یہاں کوئ بات نہیں ہو گی نہ ہی مجھے گھر کا ماحول خراب چاہئیے۔۔" ایک تنبیہی نظر کبیر پر ڈالی اور چلا گیا۔ جبکہ آمنہ بیگم آنکھوں میں ڈھیروں سوال لیے اسے دیکھے گئیں ۔
"تو یہ وجہ تھی جو تم جویریہ کے لیے انکار کرتے رہے۔۔" کبیر نے کوئ جواب نہیں دیا اور ٹیبل پر جھک کر اپنا سامان اٹھانے لگا۔۔ آمنہ نے اب کوئ سوال نہیں کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ کوئ جواب نہیں دے گا اور سر جھٹک کر وہاں سے نکل گئیں۔ کبیر نے گردن گھما کر ان کو جاتے ہوئے دیکھا وہ چلی گئیں لیکن اسکی نظریں اب بھی راہداری پر ہی تھیں۔
●●●●●●●●●●●●●●●
بالکونی کا دروازہ کھولے وہ تازہ ہوا کو اپنے اندر سمونے لگی۔۔ ان دنوں میں یہ سکھ کا گہرا سانس تھا جو اس نے لیا تھا۔ کھلے بال اس کی کمر پر پھیلے ہوئے تھے۔ منٹ کلر کا شارٹ فراک اور سفید ٹرائوزر پہنے وہ چہرے سے بلکل فریش لگ رہی تھی لیکن اسکی آنکھوں کے گرد پڑتے سیاہ حلقے یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ اسکی نیند اب بھی پوری نہیں تھی وہ ان دنوں ایک لمحے کے لیے بھی سکون سے نہیں سو پائ تھی۔ تھوڑا آگے جا کر اس نے ریلنگ پر ہاتھ رکھے بالکونی سے باہر جھانکا جہاں تک اسکی نظر جاتی تھی وہاں تک سبز گھاس پھیلی ہوئ تھی۔ یہ صرف گھر کے پچھلے حصے کا لان تھا بہت وسیع۔ جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہاں نیچے کچھ گارڈز بھی تھے جو کسی روبوٹ کی طرح پہرا دے رہے تھے۔ اس نے قدم واپس لیے اور وینیٹی کی طرف آئ پھر اپنےبالوں کو جوڑے میں باندھنے لگی ایک نظر دیوار گیر گول آئینے میں آتے اپنے عکس کو دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے بالوں پر سے ہاتھ ہٹا دیے وہ پھر سے آبشار کی طرح اسکی کمر پر گر گئے۔
"تم پر کھلے بال بہت اچھے لگتے ہیں۔۔ کیا تم انھیں روز نہیں کھول سکتی؟؟" کبیر کی آواز اسے پھر سے سنائی دینے لگی۔ سر جھٹک کر وہ پھر سے انہیں جوڑے میں لپیٹنے لگی دراز سے ایک کیچر نکالا اور اپنے بال اس میں مقید کر دیے۔ پھر ایک نظر کمرے میں دوڑانے لگی ان دنوں میں پہلی بار اس نے کمرے پر غور کیا تھا وہ بلکل ویسا نہیں رہا تھا جس میں وہ آج سے چھ سال پہلے آئ تھی وہ مکمل چینج تھا فرنیچر سے لے کر دیوار پر لگیں پینٹنگز حتیٰ کے ڈیکوریشن پیسز، پردے، دیواروں کا رنگ سب مختلف اور بہت خوبصورت تھا۔ وہ جب سے آئ تھی اس کا دماغ کہیں اور تھا اس نے کسی چیز پر بھی غور نہیں کیا تھا اور آج ایک پل کے لیے اس کا بڑے زوروں سے دل کیا کہ وہ سارا گھر تسلی سے دیکھے۔ اس کے چہرے پر ایک مدھم سی مسکراہٹ آئ اور وہ فوراً بیڈ کی طرف گئ اپنا منٹ کلر کا دوپٹہ اٹھایا اور سر پر اوڑھتی دروازے کی طرف بڑھی۔۔ باہر نکلتے ہی اسکی نظر چاروں طرف گھومنے لگی۔ سفید چمکتی ٹائلز سے مزین راہداری عبور کرتے وہ ہر طرف اپنی نظر دوڑا رہی تھی۔ ایک ہاتھ ریلنگ پر رکھے وہ بلکل مرکز میں کھڑی ہوگئ۔ دائیں اور بائیں دونوں طرف سے گولائ زینے نیچے کی طرف جاتے تھے۔ اس نے ریلنگ سے گردن نیچے جھکا کر دیکھا نیچے جاتی دونوں طرف کی سیڑھیوں کے اختتام پر درمیان میں سنہری لکڑی کے بنے ٹیبل پر رکھا ایک بڑا سا سفید پھولوں کا گلدان تھا۔ وہ سفید پھول رکھنے کی وجہ جانتی تھی وہ راحیلہ بیگم کو بہت پسند تھے۔۔ ایک بار پھر اسے انکی یاد آنے لگی۔ چہرے کے سامنے دھیرے دھیرے ایک منظر ابھرنے لگا۔
"تائ جان آپ ہمیشہ سفید پھول ہی اس گلدان میں کیوں ڈالتی ہیں؟؟" بالوں کی دو پونیاں بنائے وہ چہرے پر بےپناہ معصومیت لیے ہاتھ میں چپس کا پیکٹ پکڑے سامنے کھڑی راحیلہ بیگم سے پوچھنے لگی جو گلدان میں سفید پھول ڈال رہی تھیں۔
"کیونکہ مجھے یہ بہت پسند ہیں۔۔" وہ اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"تو سفید ہی کیوں آپکو اور پھول پسند نہیں ہیں کیا؟" اس نے پاس پڑا سٹول گھسیٹا اور اس پر بیٹھ گئ۔۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے مجھے سب پھول بہت پسند ہیں مگر وائٹ روز اور وائٹ ٹیولپ سے مجھے کچھ خاص لگائو ہے۔۔" چہرے پر ہنوز مسکراہٹ تھی۔
"لیکن وائٹ ہی کیوں؟؟ روز تو ریڈ بھی ہوتے ہیں اور ہاں ٹیولپ پنک بھی ہوتے ہیں میں نے باربی تھمبلینا میں دیکھے تھے۔۔" وہ معصوم سی شکل بنائے پوچھ رہی تھی۔
"بلکل وہ بہت سے کلرز میں ہوتے ہیں۔ لیکن سفید رنگ کی اپنی جگہ ہے مجھے لگتا ہے سفید رنگ بہت صاف ہوتے ہیں بہت پاکیزہ۔۔ یہ امن و سلامتی کی عکاسی کرتے ہیں اور اس سے کوئ نفرت نہیں کرسکتا یہ سب سے منفرد ہوتے ہیں۔ "
"یعنی آپ کو وائٹ کلر پسند ہے۔۔ "
"بلکل ایسا ہی ہے۔۔ تمہیں کونسا کلر پسند ہے؟" وہ پھول ڈال چکی تھیں پھر پوری طرح سے اس کی طرف گھومی۔
"مجھے تو سارے کلرز پسند ہیں۔۔" وہ چپس کا دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔۔
"بلکل جیسے اسے ہر کھانے کی چیز پسند ہے۔۔" وہ گھنگھرالے بالوں والا بچہ ہاتھ میں فٹبال لیے اندر داخل ہوا تو بیا کے ہاتھ میں پکڑا چپس کا پیکٹ دیکھتے ہوئے بولا۔۔
"ہاں بلکل اور مجھے کھاتا ہوا دیکھ کر تمھارے پیٹ کے چوہے کودنا شروع کر دیتے ہیں۔۔" اس نے بڑے ہی معصومانہ انداز سے چپس کا پیکٹ اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے کہا۔
"ہاں اور تمہیں کم از کم میرا خیال نہیں ہے تو میرے چوہوں کا ہی رکھ لیا کرو۔۔" وہ نہایت خفگی سے بولا۔
"تم نے پال رکھیں ہے نا تم ہی پرواہ کرو ان کی۔۔ ہونہہہ" وہ ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔۔ عالیان اس کے ساتھ سے ہوکر گزر گیا۔۔ اس نے ایک نظر اسے جاتے دیکھا اور پیکٹ اپنے سامنے کرکے دوبارہ راحیلہ بیگم کی طرف گھومی۔
"ہاں تو ہم امپورٹنٹ ڈسکشن کر رہے تھے نا تائ جان ۔۔۔ آآآ چور بھوکا۔۔ تائ جان۔۔۔۔" اسے پتہ ہی نہیں چلا کب عالیان واپس آیا اور تیزی سے اس کے ہاتھ سے پیکٹ جھپٹا اور اڑن چھو ہوگیا۔
"عالیان کیا بدتمیزی ہے۔۔" راحیلہ بیگم اونچی آواز میں بولی جبکہ وہ جا چکا تھا۔۔ اور پھر روتی ہوئی انابیہ کے آنسو صاف کرنے لگیں۔
"چھوڑو بیا میں تمہیں اور لا دوں گی رونا بند کرو پلیز۔۔" وہ نیچے جھک کر اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی تو بیا فوراً سٹول سے اٹھی۔۔
"ابھی دیکھیں میں کیسے لے کر آتی ہوں اس سے واپس۔۔" وہ آنسو صاف کرتے لال بھبھو کا چہرہ لیے تیز قدم لیتے اس کے پیچھے گئ۔۔۔ یادوں کا تسلسل پھر سے ٹوٹا وہ وہیں کھڑی تھی بے حس و حرکت۔۔ پھر وہ چہرہ اٹھا کر سیلنگ دیکھنے لگی تو اسکی نظر درمیان میں لٹکے بڑے سے فانوس پر پڑی۔ "وائو!!!" بےساختہ اسکے منہ سے نکلا۔۔ پھر اس کا ارادہ زینے اترنے کا تھا مگر نظریں بے ساختہ بائیں جانب کے دو کمروں کی طرف رکیں۔ جن میں سے پہلا کمرہ وہ تھا جس پر مناہل نے آتے ساتھ قبضہ کر لیا تھا اس کی یہ خواہش پوری ہوئ تھی وہ کھکھلا کر ہنس دی۔۔ کمرے کا دروازہ کھول کر اسکی نظروں نے چاروں طرف سفر کیا وہ بلکل ویسا ہی تھا جیسے اسکا اور ردا کا ۔ سب ایک جیسا تھا اس نے وہیں سے دروازہ بند کیا اور ساتھ والے کمرے کی طرف بڑھی مگر پھر بےساختہ اس کے قدم رکے کیونکہ وہ عالیان کا کمرہ تھا۔ بمشکل ہاتھ بڑھا کر اس نے دروازہ کھولا وہ کمرہ بھی پہلے جیسا نہیں تھا وہ بلکل چھ سال پرانا بچوں والا کمرہ نہیں تھا بلکہ بلیک اور کیوی گرین کے تھیم کا نہایت ڈیسنٹ اور خوبصورت کمرہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے وہ اندر آتی گئ۔۔ جہازی سائز سیاہ بیڈ اس پر بچھی سیاہ بیڈ شیٹ اور کیوی گرین کمفرٹر، تکیوں اور کشنز سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔ گہری سرمئی رنگ کی دیواریں فلوٹنگ شیلوز، مختلف اور بہت سی اینٹیک پینٹنگز اور اس کی تصویروں سے بھری پڑی تھیں۔ سامان جتنا کم تھا دیواریں اس سے زیادہ بھری پڑی تھیں۔ بیڈ سے آگے ایک سیاہ چمکتا ہوا صوفہ تھا جس پر تین سبز کشنز تھے۔ بیڈ کے بائیں طرف سٹڈی ایریا تھا۔ بالکونی کے دروازے کے دائیں اور بائیں طرف سیاہ مخملی پردے سبز موٹی ڈوریوں میں بندھے تھے۔۔ اس کا ذہن ایک دم پیچھے دوڑا۔
"توبہ توبہ عالیان تم کتنے بڑے ہو گئے ہو اورتمہارا کمرہ کیا بچوں والا ہے ہا ہا ہا۔۔" بیا ہنستے ہوئے جیسے اس کے کمرے کا مذاق اڑا رہی تھی۔۔ دراز قد کے اس بچے نے نظر گھما کر دانت نکالتی ہوئ انابیہ کو گھورا اور فوراً اسکی طرف بڑھا۔۔ اسکی اونچی پونی کو بے دردی سے کھینچنے لگا جس پر بیا کی چیخ نکلی۔
"میری چیزوں کا مذاق اڑانے سے تم باز نہیں آئو گی نا۔۔" وہ اپنی کالی آنکھیں اس کی بھوری آنکھوں میں گاڑھتے ہوئے بولا۔۔
"اگر اسی وقت تم نے میرے بال نہیں چھوڑے تو میں جو تمہارا حشر کروں گی نا دنیا دیکھے گی۔۔" اسکی دھمکی سنتے اس نے فوراً سے اس کے بال چھوڑے۔
"اففف 9 کلاس میں چلے گئے ہو اور اپنی دوست پر تشدد کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی بتائوں گی تایا جان کو اور آیندہ آئوں گی بھی نہیں۔۔" وہ ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔ عالیان نے یکدم بےچینی سے اسے دیکھا۔۔
"تو کیا تم بھی موم کی طرح ناراض ہو جائو گی اور مجھے چھوڑ کے چلی جائو گی؟" وہ جیسے رونے والا ہو گیا تھا۔۔
"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔" بیا ہکلائ۔۔
"میں چلا جائوں گا تم لوگوں کو چھوڑ کر یاد بھی کرو گے تو نہیں آئوں گا۔۔"
"ایسا کیوں کہہ رہے ہو میں صرف مذاق کر رہی تھی۔۔" اس معصوم سی بچی کے چہرے پر یکدم اداسی کا بسیرا ہوا۔ وہ اس کا دوست تھا اور جب بھی جانے کی باتیں کرتا تھا اس کا دل بری طرح سے دکھتا تھا۔
"یہ سب چیزیں موم کی پسند کی تھیں۔ لاہور میں بھی تو میرا کمرہ ایسے ہی ہوتا تھا نا۔۔ اسی حساب سے بابا نے سیٹ کیا ہے۔۔"
"تمہیں کیا ہوتا جا رہا ہے تم اب میرے پہلے جیسے دوست نہیں رہے۔۔" بیا نے فرش پر گرا بھالو ہاتھ میں اٹھایا اور اسے سہلانے لگی۔۔
"مجھے موم کی بہت یاد آتی ہے لاہور میں بھی آتی تھی لیکن یہاں بھی آتی ہے۔ تم لوگ یہیں آجائو نا۔۔" وہ نہایت معصومیت سے بولا۔
"تم واپس آجائو ہم پھر سے فن کریں گے۔۔"
"نہیں میں وہاں نہیں جائوں گا ڈیڈ کہتے ہیں میں وہاں بیمار رہتا ہوں۔۔"
"ہم اتنا دور رہتے ہیں ہماری دوستی اس لیے کمزور ہو گئ ہے۔۔" اس کی اداس نظریں بھالو پر ہی تھیں عالیان نے بغور اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھا۔
"لیکن پھر بھی تم میری سب سے اچھی دوست ہو یو نو بیسٹ فرینڈ۔۔" عالیان نے ہنستے ہوئے فٹبال بیا کے سر پر دے مارا اور وہ چکرا کے نیچے جا گری وہ فوراً اس کی طرف بڑھا اور نیچے بیٹھ گیا بیا ہنسنے لگی تو وہ بھی ہنس دیا۔ پھر دونوں ایک ساتھ بولے۔
“We were friends, we are friends and we will remain friends..”
وہ جھٹکے سے ماضی سے نکلی۔۔ ہر طرف سب پہلے جیسا تھا وہ اسی کمرے میں موجود تھی۔ اسکی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔۔
"نہیں ہو تم میرے دوست۔۔ بلکہ تم نے تو مجھے دوستی کی ایسی سزا دی ہے عالیان کہ میں چاہ کر بھی تمہیں معاف نہیں کروں گی آج میں جس حال میں ہوں اس کی وجہ صرف تم ہو۔۔ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔ شدید نفرت۔ جھوٹے ہوتم مکار ہو تم ۔" اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ نفرت سے بولی اور پھر تیز قدم لیتے وہاں سے نکل کر زینے اترکر نیچے جانے لگی۔۔ اس طرف کی زینوں کے اختتام پر دائیں طرف کچن تھا اور اس کے ساتھ ہی ڈائیننگ روم ۔ اس نے جھانک کر اندر دیکھا وہاں کوئ نہیں تھا۔ وہ وہیں سے بائیں جانب مڑ گئ جہاں ایک بڑا سا لونگ روم تھا۔۔ سامنے ہی اسے صوفے پر ناصر صاحب اور انکے ساتھ احمد صاحب بیٹھے دکھائ دیے۔ ناصر صاحب نے نظریں فون سے اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا دیے۔۔
"اندر آجائو بیا۔۔" وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے انکے سامنے صوفے پر بیٹھ گئ۔۔ احمد صاحب مکمل طور پر اخبار میں گم تھے۔
"کیسی طبیعت ہے تمھاری؟؟"
"طبیعت؟؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں طبیعت ردا بتا رہی تھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسی لیے زیادہ کمرے میں رہتی ہو ۔۔ آج باہر آئ ہو۔۔" وہ بہت نرمی سے بات کر رہے تھے جبکہ بیا کو بہت شرمندگی ہوئ۔۔
"دراصل تایا ابو۔۔"
"میں جانتا ہوں بیا لاہور تمھارا گھر تھا ایک دم نئ جگہ انسان ایڈجسٹ نہیں کر پاتا مگر اس طرح سے کمرے میں بند نہ رہو سٹریس کا شکار ہو جائو گی۔۔" وہ ترکی با ترکی بولے تو اس نے سر جھکا لیا۔۔
"آگے کا کیا سوچا ہے تم نے؟؟" آگے ہو کر فون ٹیبل پر رکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا ۔ وہ مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہونا چاہتے تھے۔۔
"آگے کا؟؟" اس نے سر پھر اٹھایا۔
"ہاں بیا آگے کا کیا ہو گیا ہے ایسے ڈر ڈر کے بات کیوں کر رہی ہو؟"
"نہیں وہ میں بس۔۔۔ آپ کس حوالے سے پوچھ رہے ہیں؟؟" اس نے خود کو کمپوز کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔
"ایک ہی تو خواب ہے تمھارا پڑھنے کا اسی کا پوچھ رہا ہوں کیا کرنا ہے؟؟" وہ ہنستے ہوئے بولے۔ خواب؟ اب کیا رہ گیا تھا خوابوں میں کچھ بھی تو نہیں۔ سب خواب ایک بلبلے کی طرح تھے جو تھوڑا اوپر اڑتے ہی پھوٹ جاتے ہیں۔ اس نے کوئ جواب نہیں دیا پھر دھیرے سے نظریں اٹھا کر احمد صاحب کی طرف دیکھا جو گلاسز پہنے اب تک اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔۔ ناصر اسکے جواب کے منتظر تھے۔۔
"نزدیک کی یونیورسٹی میں پتہ کروا دوں گا بھائ۔۔" بیا نے کرنٹ کھا کر اپنے باپ کی طرف دیکھا لیکن انہوں نے نظریں اخبار پر سے نہ ہٹائیں۔۔"مناہل کے رزلٹ میں ابھی ٹائم ہے اور ردا کا تو مائگریشن کا ایشو ہے بس ان کا بھی کچھ سوچتا ہوں۔۔" اب کی بار انہوں نے اخبار ٹیبل پر رکھا گلاسز اتار کر جیب میں ڈالے اور یکدم بیا کو دیکھا وہ انہیں ہی دیکھ رہی تھی یکدم جیسے بوکھلا سی گئ لیکن اگلے ہی پل حیران ہوئ احمد صاحب اسے دیکھتے ہوئے مسکرائے تو جواباً وہ بھی مسکرا دی۔۔
"چلو احمد نے تو سارے مسئلے ہی حل کر دیے۔۔" ناصر صاحب خوشی کے عالم میں بولے۔۔
"کیا تمہاری عالیان سے ان دنوں بات ہوئ ہے؟؟"جو اب تک مسکرا رہے تھے اب نہایت اضطراب کے عالم میں بیا سے پوچھنے لگے جبکہ عالیان کا نام سنتے ہی بیا کے دل کو جو تکلیف پہنچتی تھی اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ ان کے سوال پر وہ سر نفی میں ہلانے لگی۔۔
"دو دنوں سے میری بات نہیں ہوئ اس کا نمبر بھی بند ہے بہت ہی غیر ذمہ دار لڑکا ہے ایک دفعہ آجائے نا تو دونوں مل کر اس سے بدلہ لیں گے۔۔" وہ پھر ہنس کر موبائل کی طرف متوجہ ہو گئے جبکہ بیا نہیں ہنسی وہ سنجیدہ شکل بنائے ایسے ہی بیٹھی رہی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
جاری ہے۔۔۔۔۔