Share:
Notifications
Clear all

Muhabbat ka qissa by Hadia Muskan ep(3)

1 Posts
1 Users
0 Reactions
200 Views
(@hadiamuskan)
Eminent Member Customer
Joined: 9 months ago
Posts: 14
Topic starter  

ہر سمت محبت ہوگی اور محبت کی بات ہوگی

تم میرے ساتھ ہوگی تو کیا ہی بات ہوگی

اس حسین رات میں جو تم بھی آجائو

تو کیا ہی بات ہو گی کیا ہی رات ہوگی

نہ میری ذات ہوگی نہ میری بات ہوگی

بس تمہاری زات ہوگی تمہاری بات ہوگی

نہ ہمیں دنیا کا غم ہوگا نہ اسکی بات ہوگی

بس اک چاند ہوگا اور تمہاری بات ہوگی۔

بس میں تمہارا اور تم میری ہوگی

ایسا میرا نصیب ہو تو کیا ہی بات ہوگی

تب میری جیت ہوگی نہ کوئی مات ہوگی

بس اک حسین رات ہوگی اور کیا ہی بات ہوگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" محبت کیا ہوتی ہے؟؟؟"

" زندگی۔۔"

آسمان پر رات نے سیاہ پر پھیلا لیے اور چاند نے اپنا سفید نورانی مکھڑا دکھایا جس کے نور کی پھوار تلے وہ دونوں بیٹھےتھے۔ ایک آسمان پر نور برساتے چاند کو دیکھے اور دوسرا اپنے سامنے بیٹھے چاند کو دیکھے۔رات گہری تھی خوبصورت تھی ۔رات کا آسمان چاند کی روشنی اور ٹمٹماتے ہوئے تاروں سے جگمگا رہا تھا۔ چاند خوش تھا کہ آج وہ تنہا نہیں اس کے اردگرد ستارے ہی ستارے تھے جو اسکی تنہائی بانٹ رہے تھے اسکی خوشی کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ دونوں بھی تنہا نہیں تھے وہ بھی ساتھ اسی خوبصورت آسمان کے نیچے بیٹھے تھے۔ تو آئو!ذرا چاند کی باتیں کریں یا چاند سے باتیں کریں۔۔ کچھ اپنی کہیں تو کچھ اس کی سنیں۔ وہ ہتھیلیوں پر چہرہ ٹکائے سامنے بیٹھی لڑکی کی آنکھوں میں کھویا ہوا تھا جو آسمان سے بےآواز باتیں کر رہی تھیں جو چاند کو اپنی محبت کی داستان سنا رہی تھی۔ نرم ہوا انکو چھو کر گزررہی تھی اسکو خود پر رشک آرہا تھا ۔۔ رات کی مہک ہوا میں ہر سو پھیل رہی تھی۔

"اس خاموش رات کے آسمان میں چاند تیر رہا ہے اور ستارے اس کے اردگرد جھوم رہے ہیں۔۔ کیا خوبصورت منظر ہے !! اور تم یہ نظارہ چھوڑ کر مجھے دیکھ رہے ہو۔۔ کتنے بدنصیب ہو تم۔۔" انابیہ نے نظروں کا رخ اسکی جانب کرتے ہوئے کہا۔

"کیا مجھ سے زیادہ کوئی خوش نصیب ہوگا؟؟ تم میرے سامنے بیٹھی ہو میرے لیے اس سے زیادہ خوبصورت اور حسین منظر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔" کیا انداز تھا محبت کے اقرار کا جو اس نے کیا تھا۔

"تم تھکتے نہیں ہو؟؟"

"میں ساری عمر بھی تمہیں دیکھنے میں صرف کر دوں تب بھی تھکوں گا نہیں "۔۔ وہ اپنا ہاتھ نرم گھاس پر پھیر رہی تھی۔

"کیا تم چاند سے باتیں کرتے ہو؟؟" وہ پھر آسمان پر چاند کو دیکھتے ہوئے بولی۔

"ہاں کبھی کبھی کرتا ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے ناراض ہے۔۔"

"کیوں بھلا؟؟"

"کیونکہ میں نے اس سے کہا کہ تم اس سے زیادہ خوبصورت ہو۔۔۔" کبیر نے ایک پل بھی اس سے نظر نہیں ہٹائی تھی۔

"اور تم نے کیوں کہا ایسا؟ وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے سمجھے۔۔" انداز تنبیہی تھا۔ اسے برا لگا تھا کیونکہ چاند اس کا دوست تھا۔

"میرے لیے خوبصورت وہ ہے جو میرے سامنے ہے چاند مجھ سے بہت دور ہے۔۔" کبیر نے اسکی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے چاند کو دیکھا اور پھر اسکو۔۔ "مجھے اس سے جلن ہو رہی ہے میں تمھارے سامنے بیٹھا ہوں اور تم مجھے چھوڑ کر اسے دیکھے جا رہی ہو۔۔۔" اس نے خفگی کا اظہار کیا۔ انابیہ نے حیرت سے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا اور پھر مسکرانے لگی۔

"اسے بھی تو مجھ سے جلن ہو رہی ہے نا کہ وہ آسمان پر چمک رہا ہے اور تم اسے چھوڑ کر مجھے دیکھے جا رہے ہو۔۔"

"جلنے دو اسے۔۔" اور پھر رک کر بولا۔۔ "اٹھو بیا میں تمھارے ساتھ اس نرم گھاس پر ننگے پیر چلنا چاہتا ہوں۔۔" وہ اس کی بات سنتے اسکے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی اور یونہی گھاس پر ننگے پیر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔

"کیا میں تمھارا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں؟؟" انابیہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔بس اپنے ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑے وہ خاموشی سے قدم بہ قدم اس کے ساتھ چلنے لگی۔۔ ان دونوں کے چہروں پر انوکھی مسکراہٹ تھی جو ہر محبت کرنے والوں کے چہرے پر ہوتی ہے۔

"میرا دل کرتا ہے کہ تم یونہی ساری عمر میرے ساتھ رہو۔۔ اور میں ہر رات تمہارا ہاتھ پکڑے کھلے آسمان کے نیچے چلتا رہوں۔۔۔" اس نے جیسے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

"اور پھر؟؟"

"پھر کیا۔۔ جب ہم چلتے چلتے تھک جائیں تو ایک گھنے سے درخت کے نیچے بیٹھ جائیں گے۔۔"

"پھر؟؟"

"پھر ہم اس درخت کو اپنی محبت کا قصہ سنائیں گے۔۔"

"درخت کو؟؟" اس نے پہلے تو بےیقینی سے اس پاگل کو دیکھا اور پھر زور زور سے ہنسنے لگی۔۔

"ہنس کیوں رہی ہو؟؟" ہنس وہ بھی رہا تھا۔۔۔ انابیہ مزید ہنسنے لگی۔ وہ ہنس ہنس کر دوہری ہو رہی تھی۔۔ دور سے ایک تیز طوفان انکی طرف بڑھ رہا تھا وہ انکے قریب آرہا تھا لیکن وہ دونوں مسلسل مسکرائے جا رہے تھے انکا دھیان ہی نہیں تھا اتنے میں وہ انکے بلکل قریب آگیا۔۔ کبیر کی آنکھوں میں تیز ہوا کی وجہ سے مٹی چلی گئ وہ اپنے ہاتھوں سے آنکھوں کو ڑگڑ رہا تھا۔۔ پھر اس نے دیکھا کہ بیا کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں نہیں تھا طوفان اور تیز ہوا۔۔

"بیا !!! کہاں ہو تم؟؟" وہ بمشکل آنکھیں کھولے اسے پکار رہا تھا۔۔ مٹی اسکے گلے تک میں چلی گئ ۔

"بیا ؟؟" اسکی آواز کم تھی وہ مسلسل کھانس رہا تھا۔ طوفان کم ہوا اور اسے وہ دور جاتی ہوئی دکھائی دی۔

“ رکو بیا۔۔" وہ تیزی سے اسکی طرف بھاگا۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسکی آواز سن سکتی تھی وہ پورا زور لگا کر چیخا تھا۔۔طوفان پھر آیا۔۔

"تم کیوں جا رہی ہو مجھے چھوڑ کر رک جائو۔۔۔" طوفان اسے آگے نہیں بڑھنے دے رہا تھا۔۔ وہ پھر بھی بڑھ رہا تھا لیکن وہ ایک دفعہ بھی نہیں رکی نہ اس نے پیچھے مڑ کے اسے دیکھا۔۔

"اگر تم گئئ تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔ رک جائو پلیز!!" اس طوفان میں اسکے آنسو نہیں دکھ رہے تھے۔۔ وہ ٹھوکر کھا کر زمین پر منہ کے بل گرا لیکن وہ نہیں رکی وہ جا چکی تھی۔

یکدم اس کی آنکھیں کھلیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ وہ اپنے بیڈ پر تھا۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ کمرے میں اے-سی کی ٹھنڈک تھی۔ اس نے سائڈ لیمپ آن کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی صرف ایک آواز تھی اسکی تیز تیز سانس لینے کی آواز۔ اسکے دل کی دھڑکن کی رفتار تیز تھی۔ اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا وہ مکمل بھیگا ہوا تھا اسے گرمی نہیں لگ رہی تھی اسے خوف تھا۔۔ اس نے جگ میں سے گلاس میں پانی انڈیلا اور اسے لبوں سے لگا کر غٹاغٹ پی گیا۔

"یہ کیسا خواب تھا؟؟" وہ اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا اسے گھٹن ہو رہی تھی۔۔ سلائڈنگ ونڈو کا شیشہ ہٹا کر وہ چاند کو دیکھنے لگا۔۔ آسمان صاف تھا کوئی طوفان نہیں تھا بس ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا تھی۔۔ وہ آج سے پہلے اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا تھا جتنا آج ہو رہا تھا کیونکہ آج سے پہلے اسے ایسے خواب نہیں آئے۔ وہ اسی طرح کھڑا رہا ۔ اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔

"سب سے خطرناک چیز کیا ہوتی ہے؟؟؟"

"جدائی۔۔"

●●●●●●●●●●●●

 

ایک اور دن طلوع ہوا سورج کی روشنی احمد صاحب کے گھر پر پڑ رہی تھی سب اپنی اپنی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے ۔ ناہیدہ بیگم کچن میں پراٹھے بنا رہی تھیں جن کی خوشبو پورے گھر میں پھیل رہی تھی۔۔ احمد صاحب صوفے پر بیٹھے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔۔ ردا ناک چڑھائے ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی آج اسکی چھٹی تھی لیکن اسے صبح ہی صبح جگا دیا گیا تھا بقول اسکی ماما جان کے انکے گھر مہمان آیا ہوا تھا ۔ بیا اور منو کمرے میں تیار ہو رہی تھیں کیونکہ ان بدقسمتوں کی چھٹی نہیں تھی۔۔

"ردا جائو اوپر سےعالیان کو بلا لائو ناشتے کے لیے۔۔۔" ناہیدہ بیگم پراٹھا توے پر ڈالتے ہوئے بولیں جبکہ ردا کے تو سر پر جیسے بم کا گولہ لگا ہو۔

"اتنی صبح وہ اٹھ ہی نہ جائے آوارہ کہیں کا۔۔" لفظ آوارہ اس نے آہستہ بولا تھا جو ناہیدہ نے نہیں سنا تھا۔۔

"وہ صبح جوگنگ پہ گیا تھا جاگ رہا ہے جائو بھی۔۔۔" وہ پیر پٹختی کچن سے نکل گئ۔ اس کے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے گہرا سانس لیا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔

"یسسس۔۔۔" عالیان کی آواز گونجی یعنی وہ واقعی جاگ رہا تھا۔۔ دروازہ صرف بند تھا وہ لاکڈ نہیں تھا مگر وہ اندر نہیں گئ۔

"ماما ناشتے کے لیے بلا رہی ہیں۔۔" وہ باہر سے ہی تیز آواز میں بولی۔ واپس جانے کے لیے پلٹی ہی تھی پھر اسکی آواز پر رکی۔

"سوری میں نے نہیں سنا اندر آکر بتائو۔۔۔" ایسی بات پر ردا کا تو مانو خون کھول گیا ہو۔

"میرا کام تھا بتانا اور میں نے بتا دیا۔۔۔" وہ اب بھی باہر سے ہی بولی تھی۔

"ٹھیک ہے مت آئو میں بھی نہیں آرہا کہہ دوں گا کہ کوئی بلانے نہیں آیا پھر خالہ جان کتنا غصہ ہوں گی چچ چچ۔۔۔" اسکا دل کیا دروازے کو لات دے مارے لیکن ماما جان اففف۔۔ پھر خود کو کمپوز کرتی دروازہ کھولنے لگی۔۔ دروازہ کھولتے ہی اسکو ٹھیک اپنے سامنے ہی کھڑا دیکھ کر اسکا دل حلق میں آکر دوبارہ اپنی جگہ گیا۔۔ وہ غالباً نہا کے نکلا تھا۔۔ بال گیلے تھے جو اس کے ماتھے پر چپکے ہوئے تھے۔۔ بلیک ٹریک سوٹ پہنے لبوں پر شرارتی مسکراہٹ لیے کھڑا وہ شخص اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ بلکل نارمل انداز میں دیکھ رہا تھا لیکن ردا کو اس کا دیکھنا ہمیشہ عجیب والا دیکھنا ہی لگتا تھا۔

"ماما ناشتے پہ بلا رہی ہیں۔۔" وہ اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے بولی۔

"یہ تو میں سن چکا ہوں۔۔" ڈھیٹ کہیں کا۔۔

"تو میرا میٹر گھمانے کی کیا ضرورت تھی پھر۔۔" اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ چہرے پر بھی تپش واضح تھی۔

"کتنی دیر ہے ناشتے میں؟" کہتے ہی وہ چوکھٹ سے ٹیک لگا گیا اور بازو سینے پر لپیٹے اسے دیکھتا رہا۔

"بس تھوڑی۔۔۔ آپ نیچے آجائیں۔۔" جان چھڑانے کے انداز میں کہتے ہی وہ پلٹنے لگی پھر اس کے اگلے حکم پر رک گئ۔

"میں پہلے ایک گلاس فریش جوس پیوں گا۔۔" ردا کو اسکی مسکراہٹ سخت زہر لگ رہی تھی اس سے بھی زیادہ اس کا دیکھنا۔

"میں کوئی آپکی نوکرانی نہیں ہوں سمجھے۔۔۔" سرد برفیلی آواز تھی اس کی۔

"اوکے تم جائو تمہارا یہ جملہ ٹھیک ایسے ہی میں خالہ تک پہنچا دوں گا۔۔" وہ کندھے اچکا کر ڈھٹائی سے بولا۔

"یہ بار بار آپ مجھے انکی دھمکی کیوں دے رہے ہیں؟؟"

"کیونکہ تم سوائے انکے اور چھپکلی کے اور چوہے کے اور کاکروچ کے اور ہاں انابیہ کے۔۔کسی سے نہیں ڈرتی۔۔" بچپن میں وہ جن جن چیزوں سے ڈرتی تھی عالیان نے ایک ہی جملے میں سب کا ذکر کر ڈالا۔۔ ردا کا چہرہ اب مارے خفت اور غصے کے سرخ ہونے لگا تھا۔

"لاتی ہوں۔۔" وہ لمبے ڈگ بھرتی وہاں سے گئ ایک فاتحانہ مسکراہٹ عالیان کے چہرے پر بکھر گئ۔

کمرے سے کچن تک کے راستے تک وہ خود کو ڈھیروں لعنتیں دیتی گئ کہ بچپن میں چھپکلی، چوہوں اور اپنی ماں کے ڈر سے وہ کیوں اس کے پاس چلی جاتی تھی۔

وہ اب ایک ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے واپس آئی ۔کمرے کا دروازہ ویسے ہی کھلا تھا۔۔

"لے آئی میں جوس۔۔" وہ اب بھی اندر نہیں آئی تھی۔۔ عالیان شیشے کے سامنے کھڑا کلائی میں گھڑی پہن رہا تھا پھر اسکی طرف گھوما۔

"تو اندر بھی لے آئو میں جانتا ہوں گلاس اڑ کے نہیں آئے گا۔۔" اس بار لہجہ سپاٹ تھا۔

"بڑا ڈھیٹ ہے آکر خود نہیں لے سکتا۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔ یہ تو طے تھا کہ وہ اندر نہیں جائے گی اگر اس شخص کے چہرے پر یہ شاطر لڑکوں والی مسکراہٹ نہ ہوتی تو وہ شاید چلی بھی جاتی اس نے دروازے کے بائیں طرف پڑے آسٹول کو دیکھا اور پھر ایک عجیب انداز سے مسکرائی۔

"میں نے کہا نا میں آپکی نوکرانی نہیں ہوں۔۔" گلاس کو سٹول پر رکھ کر وہ بھاگنے کے انداز میں وہاں سے چلی گئ۔

"افففف اتنا شک!!!" وہ پورا زور لگا کر ہنسا تھا ۔ پھر سٹول کی طرف بڑھا اور اس پر سے جوس کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگایا اور اگلے ہی لمحے وہ جوس اس کے منہ سے فوارے کی طرح پھوٹا۔۔

"آئے ہائے اتنا گندا ذائقہ۔۔ یااللہ یہ لڑکی تو مجھے جان سے مار دینا چاہتی ہے۔۔" اس نے گندی سی شکل بناتے ہوئے گلاس واپس وہیں پر رکھ دیا۔ "سبز آنکھوں والی خوبصورت بھوتنی۔۔"حلق تک کڑوا ہو گیا تھا اس کا۔۔

●●●●●●●●●●●●●●

 

"آپی اس انسان کا میں گلا دبا دوں گی۔۔" عالیان کو جوس دینے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں آئی۔

"کس کی بات کر رہی ہو؟؟" انابیہ بیگ میں چیزیں ڈال رہی تھی تبھی ردا کو بھڑکتا ہوا دیکھ کر پوچھنے لگی۔

" امریکہ سے آئے ہوئے بندر کی ۔۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ رشتہ اسکا آپ سے طہ ہوا تھا منگنی آپ سے ہونی تھی اور فری وہ میرے ساتھ ہو رہا ہے۔۔" غصے سے کہتے وہ بیڈ پر دڑز کر کے بیٹھ گئ۔

"وہ ہر لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہے ردا۔۔۔" وہ اسکی طرف گھومی اور اسٹڈی ٹیبل سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئ۔

"لیکن میں ہر لڑکی جیسی بلکل بھی نہیں ہوں اور منو کو تو گڑیا گڑیا کرتا رہتا ہے جیسے اسکی سگی بہن ہو اور مجھے تو ایسی گندی سی مسکراہٹ لئے دیکھتا ہے دل تو کرتا ہے بتیسی توڑ دوں۔۔ چھچھورا نہ ہو تو۔۔۔" اس کی آواز بلند ہوئی۔۔

"شششش۔۔ آہستہ بولو کوئی سن لے گا اور ویسے بھی اگر اسے پتہ چلا نا کہ تم نے اسکے کیا اعلیٰ اعلیٰ نام رکھیں ہیں تو وہ تو بیہوش ہی ہو جائے گا۔۔۔"

"میری بلا سے پوری دنیا سنے۔۔ رہی بات بیہوش ہونے کی تو اب تک میرا نمکین جوس پی کر تو واقعی ہو گیا ہوگا۔۔" ردا نے کہا تو انابیہ منہ کھولے اسے دیکھ کر رہ گئ۔

"تم نے اس کے جوس میں نمک ڈالا ہے کیا؟؟" وہ بے یقینی کے عالم میں بولی مگر ردا کو تو جیسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔۔

"شکر کریں زہر نہیں ڈالا۔۔اگر اب اس نے مجھے طعنے ماریں یا کوئی بھی بدتمیزی کی تو قسم سے میں اسکا لحاظ نہیں کروں گی۔۔" اس کا غصہ تو واقعی ساتویں آسمان پر تھا۔ انابیہ کو اس کے ایسے رویے پر کبھی کبھی کافی حیرت ہوتی تھی۔

"ہاں ابھی تو جیسے بڑا کرتی ہو۔۔" اس کی آواز قدرے آہستہ تھی۔۔

"بس بس ۔۔۔ آکر ناشتہ کر لیں۔۔" کہتے ساتھ وہ اٹھ کر چلی گئ۔۔ بیا اسے جاتا دیکھ رہی تھی اور پھر سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئ۔

 

●●●●●●●●●●●●●

 

"تو پھر کیا سوچا ہے تم نے عالیان؟؟"سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے ۔ احمد صاحب سربراہی نشست پر براجمان تھے تبھی انھوں نے اپنی ساتھ والی کرسی پر بیٹھے عالیان کو مخاطب کیا۔۔

"کس بارے میں چچا جان؟؟ " اس نے نظریں اٹھا کر انکو دیکھا ۔۔ انابیہ کے کان بھی انھیں کی طرف تھے مگر وہ نظریں پلیٹ پر جھکائے بیٹھی تھی۔

"اپنے اور بیا کے بارے میں۔۔۔ اب آہی گئے ہو تو یہ ذمہ داری بھی پوری کرتے جائو۔۔" انابیہ کے چہرے پر گھبراہٹ واضح تھی۔۔ چہرے کا رنگ سفید پڑنے لگا تھا۔ ناجانے عالیان اپنی بات سے پھر ہی جائے۔ اس کی تو عادت ہے انابیہ سے کچھ اور کہتا ہے اور گھر والوں سے کچھ اور۔

"میں چاہتا ہوں کہ انابیہ اپنی سٹڈیز پوری کر لے میں بھی ایم بی اے کر کے آجائوں تو پھر ضرور۔۔۔۔" اسکے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے وہ بلکل ایزی تھا۔

"پڑھائی شادی کے بعد بھی ہو سکتی ہے۔۔۔" وہ ناشتہ کر چکے تھے اور اب رومال سے ہاتھ صاف کر رتے ہوئے بولے۔

"بلکل مگر میں ابھی اپنی اسٹڈیز میں کوئی انٹرفئیر نہیں چاہتا۔۔ شادی کا کیا ہے وہ ہو ہی جانی ہے۔ آپ فکر نہ کریں شادی میں آپکی بیٹی سے ہی کروں گا ۔۔" اسکی اس بات پر انابیہ نے نظریں اٹھا کر اسے گھورا۔ "جھوٹا!!" وہ زیرلب بڑبڑائی۔

"چلو جیسے تمہاری مرضی۔۔ بھائی جان سے بات کی ہے؟؟" وہ کرسی پر تھوڑا پیچھے ہو کر بیٹھے۔ انابیہ نے سکھ کا گہرا سانس لیا۔۔ اس کے باپ نے کوئی زور زبردستی نہیں کی اور فوراً مان گئے۔

"جی میں ان سے یہ بات کر چکا ہوں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔"

"اور واپسی کب ہے تمھاری؟؟"

"بس کچھ اور دن آپ لوگوں کے ساتھ رہوں گا اور پھر کچھ دن ڈیڈ کے ساتھ پھر واپس امریکہ ۔۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ کوئی ہے جس کو میرے یہاں آنے کی خوشی نہیں ہوئی۔۔۔" یہ آخری جملہ اس نے ردا کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ردا نے ایک نظر اسے گھورا اور پھر چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔

"کس کی بات کر رہے ہو بھلا؟؟" اس بار ناہیدہ بیگم نے پو چھا تھا۔۔

 “ردا۔۔۔" اس نے ڈائریکٹ بولا۔۔ جبکہ ردا بیچاری کو چائے پیتے ہوئے ایک دم اچھو لگی۔۔ اسے اتنے ڈائریکٹ اپنا نام لیے جانے کی توقع نہیں تھی۔۔

"یہ میں کیا سن رہی ہوں ردا کچھ کہا ہے تم نے؟؟" ناہیدہ تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورتے ہوئے بولیں۔

"نن -- نہیں مذاق کر رہے ہیں ہینا عالیان بھائی۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔۔۔" اور پھر دانت پر دانت جماتے ہوئے بولی۔۔" بتائیں نا انکو کہ آپ مذاق کر رہے ہیں۔۔"

"بلکل نہیں میں سنجیدہ ہوں خالہ۔۔۔" ردا ایک دم بوکھلا کر رہ گئ جبکہ انابیہ چائے میں چمچ ہلاتے ہوئے دبی دبی ہنس رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسے تنگ کر رہا ہے جیسے بچپن سے کرتا تھا۔۔ ہاں لیکن یہ الگ بات ہے کہ اب ردا کو اسکا تنگ کرنا بلکل پسند نہیں تھا ۔۔ ان دو سالوں میں اسکے حوالے سے ردا کی رائے اب کافی بدل چکی تھی۔۔

"کیا کہا ہے اس نے؟؟" ناہیدہ عالیان کے معاملے میں کافی سیریس تھیں ۔

"بہت کچھ کہا ہے اس نے خالہ مجھے۔۔ کیا بتاؤں۔۔" ڈرامائی انداز سے بولا اور پھر ایک نظر ردا کے چہرے کو دیکھا جسکے رنگ ڈھنگ اڑ گئے تھے۔۔ اور پھر منہ کھول کر ہنسنے لگا۔۔ "مذاق کر رہا ہوں۔۔ اس نے کچھ بھی نہیں کہا ۔۔ میں اسے تنگ کر رہا تھا بس۔۔ بلکہ اس گھر میں سب سے زیادہ خوشی ہی ردا کو ہوئی ہے میرے آنے کی۔۔۔" ردا نے سکھ کا گہرا سانس لیا اور پھر زبردستی مسکرا دی لیکن یہ آخری بات اسکے لیے پھر طنز تھی۔ وہ دانت پیس کر رہ گئ۔

 "گھٹیا امریکہ میں رہنے والا اصلی افریقہ کا بندر۔۔" یہ اسکی دل کی آواز تھی۔

"تم بھی نا عالیان خوامخواہ میری بچی کا خون سکھا دیا۔۔" احمد صاحب ہنستے ہوئے بولے جبکہ ردا اٹھ کر برتن سمیٹنے لگی۔۔

"چائے ٹھنڈی کردی تم نے بچے۔۔" ناہیدہ اسکی چائے کو دیکھتے ہوئے بولیں۔

"میں کافی لوں گا خالہ چائے نہیں پیتا۔۔ ردا تم میرے لیے کافی لائو لیکن بنا چینی اور نمک کے۔" عالیان نے گہری مسکراہٹ لیے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ چینی کی تو سمجھ میں آتی تھی لیکن یہ نمک والی بات ناہیدہ بیگم کو کچھ ہضم نہیں ہوئی تھی جبکہ انابیہ نے ایک بار پھر اپنی ہنسی دبانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ ردا نے ضبط سے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر ہونٹوں سے جبراً مسکرائی اور سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے چلی گئ۔

 

●●●●●●●●●●●●●

 

وہ زارا کے ساتھ اس وقت اپنی کلاس میں بیٹھی تھی۔ انکی پہلی کلاس ختم ہو چکی تھی اور سر پڑھا کر جا چکے تھے۔تقریباً باقی سٹوڈنٹس بھی جا چکے تھے بس کبیر اور عاصم دو لڑکوں کے ساتھ سامنے کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ زارا انابیہ سے مسلسل کچھ کہے جا رہی تھی لیکن وہ صرف سر ہلا رہی تھی جیسے وہ اسے سن رہی ہو لیکن وہ مکمل طور پر سامنے کھڑے کبیر کی طرف کھوئی ہوئی تھی جیسے اسکے فری ہونے کا انتظار کر رہی ہو جیسے اسے کچھ کہنا ہو۔۔

"تم سن تو رہی ہو نا؟؟" زارا نے اسے کھویا ہوا دیکھ کر پوچھا۔ جس پر اس نے پھر سر ہلایا۔۔ زارا نے اسکے کندھے پر ایک چت لگائی۔

"کیا ہوا سن تو رہی ہوں۔۔" وہ اپنا کندھا ملتے ہوئے بولی۔

"سارا دھیان تو تمہارا اسکی طرف ہے مجھے کیا خاک سن رہی ہو۔۔" وہ چڑھتے ہوئے بولی۔

"نہیں دراصل مجھے اس سے بات کرنی ہے۔۔" ابھی اس نے کہا ہی تھا کہ کبیر وہاں سے ایکسکیوز کرتا ٹھیک اسکے سامنے ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔

"بولو۔۔" وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔۔ وہ بس حیرت سے اسے دیکھے گئ۔۔ وہ خاصا شرمندہ بھی ہوئی۔

"بولو بھی کب سے گھور رہی ہو جیسے کوئی بات کرنی ہو اب بولو میں سن رہا ہوں۔۔۔" اس کے کہنے پر وہ یکدم سیدھی ہوئی۔

"وائو کیا محبت ہے دیکھو فوراً سمجھ گیا کہ تمہیں اس سے بات کرنی ہے۔۔" زارا ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے بڑی معصومیت سے بولی۔ جس پر کبیر چہرے پر مسکراہٹ سجائے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔

"اوئے کباب میں ہڈی تم یہاں میرے پاس آئو۔۔۔" عاصم زارا سے مخاطب تھا اسکے ساتھ کھڑے لڑکے بھی جا چکے تھے۔۔

"اے۔۔ یہ سستے عاشقوں کی طرح مجھے مت پکارا کرو۔۔ یہ میرے پاس آئو کیا ہوتا ہے ہاں۔۔۔" زارا اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے تیز آواز سے بولی۔

"آئی مین میرے ساتھ آئو انکو بات کرنے دو نا۔۔" وہ گھبرا گیا تھا۔

"ہاں اب ٹھیک ہے کیری آن لو برڈز ہم آتے ہیں۔۔" زارا یہ کہتے ہی اسکے ساتھ چلی گئ۔

"کیا پاگل ہیں یہ دونوں؟؟" انابیہ انکو جاتا دیکھ کر بولی۔۔ کلاس میں صرف وہی دونوں رہ گئے تھے۔

"مٹی ڈالو۔۔ تم بتائو نا کیا بات کرنی ہے ٹینشن ہو گئ ہے مجھے تو۔۔" انابیہ نے اس کو اپنی طرف متوجہ پا کر ایک گہرا سانس لیا۔

"میرا کزن واپس آگیا ہے۔۔" کبیر کو رات والا خواب یاد آگیا وہ یکدم سنجیدہ ہوا تھا اسے انابیہ کی یہ بات کرنے کی توقع نہیں تھی وہ خاموش ہو گیا ۔

 “کیا ہوا؟؟" اس کی آواز پر وہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔

"تمہارا فیانسی؟؟"

"فیانسی نہیں ہے وہ میرا۔۔" وہ تیزی سے بولی۔۔

"واٹ ایور۔۔۔ مگر تم نے تو کہا تھا کہ وہ نہیں آئے گا پھر کیوں آگیا ؟؟کیا کہا اس نے بابا کیا کہتے ہیں تمھارے؟؟" ایک ہی سانس میں اس نے اکٹھے سوال کر ڈالے۔ اس کے چہرے پر خوف کی رمق انابیہ دیکھ سکتی تھی۔

"کام ڈائون کبیر کیا ہو گیا؟ پوری بات تو سن لو۔۔"اس نے اسے ایک ہی سانس میں بولتے ہوئے روکا۔۔

"ہاں بتائو۔۔" اس کے چہرے سے پریشانی واضح دکھائی دے رہی تھی۔۔

"اس نے کہا ہے کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔۔ میں اپنی پڑھائی مکمل کروں پھر وہ سب کو بتا دیگا کہ اسے شادی نہیں کرنی۔"

"تمہیں یقین ہے وہ اپنی بات سے مکرے گا نہیں ۔۔" کبیر کے دل کو تھوڑا اطمینان ہوا۔

"اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اول تو وہ آئے گا ہی نہیں اور جب وہ بابا کے سامنے انکار کر دیگا تو بابا نے کہیں تو میری شادی کرنی ہو گی نا تو میں انکو تمہارا بتا ۔۔ دوں ۔۔۔ گی۔۔ " اس کی آخری بات پر وہ خود حیران ہوئی۔ جبکہ کبیر مسکرانے لگا۔

"فائن تم بتا دینا میں لے آئوں گا اپنے گھر والوں کو۔۔ویسے تم نے مجھے یہ بڑی خوشی کی خبر دی ہے قسم سے۔۔" وہ تھوڑا آگے ہو کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جس پر وہ کنفیوژ ہو گئ تھی۔۔ وہ تھوڑا خاموش رہی۔ اور پھر کافی دیر بعد بولی۔۔

"تم میرا انتظار کر سکتے ہو؟؟" اسکی آنکھوں میں امید تھی۔۔

"مجھے انتظار سے نفرت ہے ۔۔ لیکن پھر بھی کتنا؟؟ ڈگری پورے ہونے تک کا؟؟" وہ واپس پیچھے ہوتے ہوئے بولا۔۔

"نہیں۔۔ تب تک جب تک میں ایک کامیاب انسان نہیں بن جاتی جب تک میں بزنس کی دنیا میں قدم نہیں جما لیتی۔۔" یہ اس کی سب سے بڑی خواہش تھی۔۔

"یہ تو بہت دیر ہے بلکل نہیں۔۔ میرا بس چلے تو ابھی موم کو لے آئوں تمھارے گھر مگر میں تمھارے لیے مشکلات کا سبب نہیں بننا چاہتا۔۔۔ بزنس تم شادی کے بعد کرنا یقین کرو میں تمھارے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں بنوں گا۔۔"

"بات رکاوٹ کی نہیں ہے میں اپنے بل بوتے پہ سب کرنا چاہتی ہوں۔۔"

"بلکل حیاتیی تم سب اپنے بل بوتے پر ہی کرنا میں صرف تمہیں موٹیویٹ کروں گا۔۔" وہ ہنوز مسکرا رہا تھا جبکہ بیا کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔۔ پھر اسکی مسکراہٹ غائب ہو گئ۔۔

"دراصل میں بہت ڈر گیا ہوں۔۔۔ تم مجھے کبھی چھوڑ کے تو نہیں جائو گی نا؟؟" وہ یکدم سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔۔ انابیہ نے بےچینی سے اسے دیکھا۔۔

"تم یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟؟" وہ اسکے چہرے پر اداسی دیکھتے ہوئے بولی۔۔

"کیونکہ میں نے کل بہت برا خواب دیکھا تھا تم میرے ساتھ ہوتی ہو اور پھر مجھے طوفان میں تنہا چھوڑ جاتی ہو۔۔ تم میری منتیں کرنے کے باوجود بھی واپس نہیں آتی۔ میں دکھنےمیں بھلے کمزورنہیں ہوں مگر میرا یہ دل تمھارے معاملےمیں بہت کمزورہے۔۔"

"لیکن وہ تو بس خواب تھا نا۔۔"

"ہاں وہ بس خواب تھا برا خواب۔۔ انسان جس چیز کے بارے میں سارا دن ٹینشن لیتا ہے رات کو خواب میں بھی وہی سب دیکھتا ہے۔۔ اب تو کوئی پرابلم نہیں ہے کوئی دیوار نہیں ہے ہمارے درمیان کوئی کانٹے نہیں ہیں۔۔ اب تو تم میری ہو سکتی ہو۔۔"۔ وہ اداسی سے مسکرایا۔۔

"کیا ایسا ہوگا؟؟" اسکی آواز دبی ہوئی تھی۔۔

"تمہیں میرے لیے ہی بنا گیا ہے۔ تم مجھے ہی ملو گی۔۔" وہ ایسے بول رہا تھا جیسے قسمت کے کاغذات پڑھ کر آیا ہو۔۔

"تمہیں یقین ہے؟؟" پتہ نہیں کیوں مگر اس کے دل میں کوئی ڈر سا تھا۔ اسے اپنی قسمت پر ہمیشہ شک رہتا تھا۔۔ اسے یقین کرنا نہیں آتا تھا۔

"یہ میری دعا ہے۔۔ اس رب نے اگر ہمیں ملایا ہے نا تو وہ بہتر جانتا ہے کہ تمہیں کیسے میری زندگی میں شامل کرنا ہے بس تم اپنے رب پر بھروسہ رکھو۔۔" اسکی آواز میں نرمی تھی۔ اسے یقین کرنا آتا تھا۔۔

"ایک بات پوچھوں؟؟" انابیہ آنکھوں میں چمک لیے اس سے پوچھنے لگی ۔

"پوچھو؟؟"

"میں ہی کیوں کوئی اور کیوں نہیں؟؟" یہ سوال کبیر کو عجیب سا لگا لیکن جواب بہت آسان تھا۔۔

"جب تم ہو تو کوئی اور کیوں؟؟"

"اگر میں نہ ہوتی تو اور کوئی ہوتا؟؟"

"تمہیں ہونا تھا بیا۔۔ تم نہ ہوتی تو میں بھی نہ ہوتا۔۔ تمہیں اور مجھے ساتھ ہونا تھا۔۔ یہ پہلے سے طے تھا۔۔" اب کی بار وہ جھینپ کر مسکرا دی۔۔

"تمہاری باتیں مجھے پاگل کر دیں گی۔۔" وہ نظریں اسکے چہرے پر سے ہٹاتے ہوئے بولی۔

"اور تم نے مجھے پاگل کر دیا ہے۔۔" وہ اسکو نظریں چراتے ہوئے دیکھ کر مسکرایا۔

"جبکہ میں تم سے ایسی باتیں نہیں کرتی پھر بھی۔۔"

"تمہیں باتیں کرنے کی ضرورت ہے بھی نہیں ہے تمہاری یہ آنکھیں ہی کافی ہیں مجھے پاگل کرنے کے لیے۔۔" اسکی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ وہ کچھ نہیں بولی کیونکہ اسکی اس بات کا اس کے پاس واقعی کوئی جواب نہیں تھا وہ بس ہنسنے لگی تھی۔

"اب میں ایک بات پوچھوں؟؟" اس خاموشی کو توڑتے ہوئے وہ بولا۔

"پوچھو۔۔" اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔

"کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟؟" کبیر نے آس بھری نگاہوں سے اس سے پوچھا۔ جسکا جواب دینے کی بجائے وہ نظریں چرا گئ کم از کم اس کا جواب وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نہیں دے سکتی تھی۔۔

"بتائو نا۔۔" وہ تجسّس کا شکار ہوتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

"پتہ نہیں۔۔" وہ یہ کہتے ہوئے تھوڑا ہچکچائی۔۔۔ وہ سر کو خم دے کر مسکرا دیا اور کچھ نہیں بولا۔۔ محبت کا اقرار اسکے لیے سب سے مشکل کام تھا وہ محبت کر تو سکتی تھی مگر اسکا اظہار وہ اسکے بس کی بات نہیں تھی۔۔

 

●●●●●●●●●●●

 

"پتہ نہیں سمجھتا کیا ہے خود کو۔ ایک دم سب کے سامنے میرا نام لے کر صبح صبح ہارٹ اٹیک ہی دینے لگا تھا۔۔" ردا اس وقت چھت میں موجود تھی۔ اس کے ہاتھوں میں پائپ تھا جس کے ذریعے وہ دیوار کے سامنے قطار میں پڑے گملوں کو پانی دے رہی تھی۔ آج کے دن گیلی مٹی کی خوشبو بھی اس کے موڈ کو خوش گوار کرنے میں ناکام رہی تھی۔

"منحوس کہیں کا!! بندر کہیں کا!! ایک دفعہ یہ یہاں سے چلا جائے سکون کا سانس لوں گی۔۔" وہ اس سے پہلے مزید کچھ بولتی تبھی اس کے عقب میں سے آواز گونجی۔

"ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔۔ کتنے اچھے اچھے ناموں سے مخاطب کرتی ہو تم مجھے۔۔" وہ کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی کیونکہ آواز سن کر مڑنے کے قابل تو رہی نہیں تھی۔ رہی بات پائپ کی تو وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔

"گھومو اس طرف۔۔" بس اس کے کہنے کی دیر تھی ردا روبوٹ کی طرح تیزی سے اس کی طرف گھومی۔ عالیان چوکھٹ سے ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

"میں خالہ کو بتانے والا تھا کہ آپ کی بیٹی جس کا نام ردا احمد عالم ہے کتنی بدتمیز اور منہ پھٹ ہے۔" وہ اسی طرح کھڑی رہی اس بات سے بے نیاز کہ آس پاس کی زمین پائپ کے بہتے پانی سے گیلی ہو چکی ہے۔

"نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہ تم نے صبح میرے جوس میں نمک ملایا تھا جس کا ذائقہ میرے حلق سے اب تک نہیں جا رہا۔۔" اب کی بار وہ سختی سے بولا تھا۔ کہتے ساتھ وہ قدم اٹھاتے اپنے بائیں طرف جانے لگا۔ ردا کی نظریں اب اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھیں۔

"اور اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہیں بتایا میں نے کیوں؟" اس نے جھک کر نلکہ بند کیا جس کے ساتھ پائپ لگا تھا۔ کچھ ہی دیر میں پائپ سے پانی نکلنا بند ہو گیا۔ ردا نے آس پاس چھت کو دیکھا جدھر پانی ہی پانی جمع ہو گیا تھا۔

"مجھے بتانا چاہئیے تھا۔ افسوس۔۔" وہ سیدھا ہو کر سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا۔۔ " سب کے سامنے بھائی بھائی کرنے کے بجائے مجھے انہیں ناموں سے مخاطب کیا کرو تاکہ سب کو پتہ چلے کہ تم کتنی تمیز دار اور با اخلاق لڑکی ہو۔۔" پھر سے طنز اور اب کی بار ساتھ میں اس کے چہرے پر سجی تپا دینے والی مسکراہٹ جو ردا کو آخری حد تک تپانے کے لیے کافی تھی۔

"تاریخ گواہ ہے جو کام میں نے زندگی میں نہیں کیے ایک دفعہ تو ضرور کر کے دیکھتا ہوں۔ احسان۔۔ میں نے تم پر احسان کیا ہے جو میں نے کبھی کسی پر نہیں کیا۔۔" وہ اسے زچ کر رہا تھا اور وہ ہو رہی تھی۔

"گننا شروع کر دو۔۔ عالیان ناصر عالم کا تم پر پہلا احسان۔۔ گنتی یاد رکھنا کیونکہ ایک ایسا وقت آئے گا جب میں تم سے سود سمیت احسانات کا بدلہ مانگوں گا اور تمہیں بدلہ دینا ہوگا۔۔" ردا کا ضبط جواب دینے لگا تھا۔ ہمت مجتمع کر کے وہ قدم اٹھاتے بلکل اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔

"تو جائیں سب کو بتا دیں جو بتانا ہے۔ جو کام کبھی کسی کے لیے نہیں کیا میرے لیے بھی نہیں کریں۔ براہ مہربانی مجھ پر احسان مت کریں۔۔" وہ اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے چیلنجنگ انداز سے بولی تو عالیان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

"اور یہ میں اور تم دونوں جانتے ہیں کہ پھر خالہ تم سے کتنا ناراض ہوں گی۔ اتنا کہ شاید کچھ عرصہ تم سے بات کرنا بند کردیں۔۔" اس نے تھوڑا جھک کر کہا تو ردا نے ایک قدم پیچھے کو لیا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا ناہیدہ کو عالیان بہت عزیز تھا ان کی بیٹیوں سے بھی زیادہ۔۔

"میں نے منہ پر ٹیپ نہیں باندھ رکھی۔ بتائوں گی انہیں کہ آپ کا بھانجا بہت بدتمیز ہے حد سے زیادہ۔۔" وہ لہجے میں مزید سختی لاتے ہوئے بولی۔

"ہاں بتا دینا جیسے انہوں نے تو تمہاری ہی ماننی ہے۔۔ ہینا۔۔" وہ پھر ہنسا تھا۔ اس سے بات کرنا پتھر پر سر مارنے کے برابر تھا۔ اس لیے وہ سر جھٹک کر وہاں سے لمبے لمبے ڈگ بھرتی چلی گئ۔ اس کے جاتے ہی عالیان ہاتھ پر ہاتھ مارے زور زور سے ہنسنے لگا تھا۔

"وائو۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا اس پٹاخہ لڑکی کو تپانے میں اتنا مزہ آئے گا۔ ہونہہ تمیزدار لڑکی۔۔" اس نے یہ کہتے ہی نلکہ پھر سے کھول دیا تھا۔ فل سپیڈ میں نکلتا پانی چھت کو پھر سے گیلا کر رہا تھا اور وہ اسے ایسےہی چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔

ردا اپنے کمرے میں پہنچتے ہی سر پکڑے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی۔

"افف۔۔ پتہ نہیں کس منحوس کا چہرہ دیکھا لیا تھا صبح۔۔" بولتے ہوئے اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر لگے آئینے پر گئی تو اسے یاد آیا کہ اٹھتے ساتھ اس نے آئینے میں اپنا عکس ہی تو دیکھا تھا۔ دل تو کر رہا تھا شیشہ ہی توڑ دے پھر پیر پٹختی وہ بیڈ پر جا بیٹھی۔ کچھ ہی دیر میں اسے ناہیدہ بیگم کی اونچی آواز سنائی دی جو چھت سے آرہی تھی۔۔ تیزی سے کمرے سے نکل کر اس نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے کھڑے ہی پوچھا۔

"پانی کی دشمن لڑکی۔۔۔نلکہ کیوں بند نہیں کیا پوری چھت گیلی کر دی۔۔۔ کام ڈھنگ سے کرنا نہیں ہوتا تو بگاڑا تو مت کرو۔۔" ان کے کہتے ہی اس نے سر پر ہاتھ دے مارا۔ نلکہ تو بند تھا۔۔

"بیڑا غرق ہو جائے عالیان تمہارا تو۔۔" اونچا اونچا بڑبڑاتے وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے اوپر چلی گئ اور اب اسے پانی کی اہمیت پر ایک بڑا سا لیکچر سننا تھا۔۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

"جو بھی کہو یار ایگزامز سر پر ہیں اور مجھے تو بڑی ٹینشن ہے۔"وہ چاروں ایک ساتھ گراونڈ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے تبھی عاصم بڑی سنجیدگی سے پیپرز کی ٹینشن لیتے ہوئے بولا۔۔

"ٹینشن لینے سے بہتر ہے کہ پڑھ لو۔۔" زارا ناک پر چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔۔

"یہ بھی الگ ٹینشن ہے کہ پڑھا بھی تو نہیں جاتا۔۔"

"اب اسکا تو ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے کیوں زارا۔۔" اس بار آواز انابیہ کی تھی۔

"بلکل ایسا ہی ہے۔۔" زارا نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"ایگزام فوبیا ہے نا بیچارے کو ۔۔ ایگزامز سے بڑا ڈرتا ہے۔۔" کبیر انگلیوں پر بال پوائنٹ کو بڑی مہارت سے گھماتے ہوئے بول رہا تھا۔۔

"عاشق کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔۔" عاصم اترا کر بولا۔۔

"کون ہے عاشق کہاں ہے عاشق دکھائی نہیں دے رہا۔۔" زارا انجان بنتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔ جبکہ عاصم ابرو اچکا کے اسکی یہ حرکت بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔

"چشمہ صاف کر لو پھر نظر آجائے گا۔۔" وہ طنزیہ انداز سے بولا تو زارا فوراً سے اپنا چشمہ صاف کرنے لگی۔۔

"ابھی بھی نہیں دکھائی دے رہا قسم سے۔۔۔" وہ نہایت معصوم شکل بنائے بولی جبکہ انابیہ منہ پر ہاتھ رکھے دبی دبی ہنس رہی تھی۔۔

"ایک تم دونوں ہو جو ایک دوسرے کی محبت اشاروں اشاروں میں سمجھ گئے اور ادھر میں لنچ پر بھی لے کر گیا آئسکریم بھی کھلائی کتنے جتن کیے ایون کہ بےعزت بھی ہوا ہوں اور پھر بھی لوگوں کو عاشق نہیں دکھائی دے رہا کمال ہے!" عاصم نے خفگی سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔۔

"کام تو سارے ملازموں والے کیے ہیں۔۔" انابیہ ٹھوڑی پر انگلی رکھتے ہوئے عاصم کو دیکھ کر بلا کی سنجیدگی لیے بولی۔اس کی اس بات پر زارا پھٹ کر ہنسی تھی۔۔

"اسے ان سارے کاموں کی پریکٹس ہے۔ پہلی بار تھوڑی نا کر رہا ہے۔" کبیر کی زبان کو بولتے بولتے ایک دم بریک لگی۔ زارا نے سخت نظروں سے عاصم کو دیکھا اور پھر عاصم نے کبیر کو۔۔

"سمجھ گئ شک تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ میں پہلی لڑکی نہیں ہوں۔۔" وہ غصے سے عاصم کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔

"بلکل ٹھیک کہ رہی ہو۔ پہلی لڑکی لائبہ تھی۔" وہ پھر بے دھیانی میں بولا۔ عاصم بوکھلا کر زارا کو دیکھنے لگا اور پھر تنبیہی نگاہوں سے کبیر کو۔

) کمینے کو ویسے تو ایک بھی نام یاد نہیں ہوتا آج لائبہ کیسے یاد رہا ہے۔ ) وہ دل ہی دل میں کبیر کو سو اعزازات سے نواز چکا تھا۔

"شرم تو نہیں آتی نا تمہیں۔۔" زارا افسوس بھرے لہجے میں عاصم کو دیکھ کر رہ گئ۔

"نہیں نہیں زارا یہ بکواس کرنے کی عادت ہے اس کو۔۔" وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے بولا۔ انابیہ نے ایک نظر کبیر کو دیکھا جس کی بتیسی کھلی ہوئی تھی تو رکھ کر نوٹ بک اس کے سر پر ماری۔۔

"آئوچچ!!! یار مارا کیوں؟؟" وہ اپنا سر ملتے ہوئے کراہ کر رہ گیا۔۔

"کچھ تو شرم کرو کیوں بریک اپ کرانے پر تلے ہو۔۔ دوست ہے وہ تمہارا۔۔" وہ لہجے کو سخت کرتے ہوئے بولی جبکہ کبیر عجیب سی شکل بنائے اسے افسوس سے گھورے جا رہا تھا۔۔

"ہاں تو اچھا ہے نا اس کے بھانڈے پھوڑ رہا ہے۔۔ میں بھی تو جانوں کتنی لڑکیوں کا عاشق بنا پھرتا رہا ہے یہ۔۔" غصے سے اب اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔۔

"میری بات۔۔" وہ اب اپنی صفائی میں کچھ بولتا کہ زارا نے درشتی سے اس کی بات کاٹی۔

"خبردار جو مجھ سے بات کی ۔۔ منہ توڑ دینا ہے میں نے تمہارا ۔ " وہ نہایت غصے کے عالم میں بھڑکی۔عاصم نے خفگی سے کبیر کو دیکھا جو اب بھی اس کے حال پر ہنس رہا تھا۔ جیسے ہی کبیر کی نظر انابیہ کی خود پر جمی سخت نظروں پر پڑی تو فوراً سے اسے اپنا دکھتا سر یاد آیا تھا۔۔

اسی دوران انابیہ کا فون رنگ کرنے لگا اس نے فون ہاتھ میں پکڑا اور ایک دم ٹھٹھک کر رہ گئ کیونکہ سکرین پر عالیان کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس نے کال آنسر کر کے کان سے لگایا۔۔

"میں باہر کھڑا ہوں آجائو۔۔" اس کا جملہ سنتے ہی وہ حیرت کا شکار ہوئی۔

"اچھا میں آئی۔۔" اس نے کال بند کی اور انکی طرف متوجہ ہو گئ۔ "اوکے گائز میرا ڈرائیور آگیا ہے میں چلتی ہوں پھر ملیں گے۔۔" اس نے اٹھتے وقت ایک نظر کبیر کو دیکھا جو اسے دیکھتے ہی مسکرایا تھا۔ وہ تینوں ویسے ہی بیٹھے تھے زارا منہ پھلائے، عاصم روندو شکل بنائے، کبیر بے غم اور وہ وہاں سے چلی گئ۔

"ایک تو اسکا ڈرائیور وقت کا بڑا پابند ہے۔۔" زارا اسکے جاتے ہی بولی۔۔

"زارا مجھے بیا کا نمبر چاہیے۔۔" کبیر نے زارا سے کہا۔۔

"واٹ؟؟" وہ کافی حیران ہوئی۔ وہ کبیر کے ایسے مطالبے کے لیے بلکل تیار نہیں تھی۔

"فارسی نہیں بولی میں نے۔۔"

'آئی مین مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو ؟ اتنا وقت ہو گیا اور تمھارے پاس اسکا نمبر نہیں ہے۔۔ سٹرینج۔۔" وہ منہ کھول کر ہنسی تھی۔۔

"بس بس زیادہ کھی کھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے جتنا کہا ہے اتنا کرو۔۔" وہ بلکل نہیں ہنسا تھا۔۔

"اچھا دیتی ہوں پہلے میں اس سے اجازت لے لوں خوامخواہ مجھ پر غصہ ہوگی۔۔۔"

"تمہیں اس وقت اسکے غصے سے زیادہ میرے غصے کی پرواہ ہونی چاہیے ۔۔۔ نہیں؟" کبیر ایک ابرو اچکاتے ہوئے بولا۔

"ایک منٹ! تم میرے سامنے زارا کو غصہ کر کے تو دکھائو۔۔" عاصم اسکی بات کے بعد تیزی سے بولا اور پھر رک کر زارا کو دیکھ کر سر جھکا گیا۔

"تم چپ کرو میں اپنی دوست سے بات کررہا ہوں ہینا زارا؟" زارا نے گردن ہاں میں ہلائی اور زبانی کبیر کو نمبر بولنے لگی جسے وہ موبائل میں نوٹ کرنے لگا اور حیاتیی کے نام سے سیو کر کے زارا کو دیکھ کر مسکرایا۔۔

"تھینک یو سو مچ چشمش تم واقعی بہت اچھی دوست ہو۔۔۔" زارا بھی کھلکلا کر مسکرا ہی رہی تھی کہ چشمش سن کر ایک دم سیدھی ہوئی۔ اور تیز نظروں سے اسے گھورنے لگی ۔۔

"بدتمیز ہونہہ۔۔" جس پر وہاں بیٹھے کبیر کا قہقہہ گونجا۔

وہ تیز تیز قدم لیتی پارکنگ کی طرف آئی جہاں اس کی اپنی ہی گاڑی کھڑی تھی ۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھی جہاں عالیان کالا چشمہ لگائے بیٹھا تھا اور اسے دیکھ کر ایک مسکراہٹ پاس کی ۔۔ بجائے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولنے کے اس نے بیٹھنے کی غرض سے بیک سیٹ کا دروازہ کھولا کہ پھر اندر بیٹھی دو لڑکیوں کو حیرت سے دیکھ کر وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئ۔۔ مناہل دانت نکالے اسے دیکھ رہی تھی جبکہ ردا کے منہ پر بارہ بجے ہوئے تھے۔۔

"تم دونوں کیا کر رہی ہو یہاں؟؟" وہ انکو تیوڑیاں چڑھاتے ہوئے دیکھ کر بولی۔۔ اسکا لہجہ سخت تھا۔۔

"انابیہ سب یہاں کھڑے کھڑے ہی پوچھنا ہے بیٹھ تو جائو۔۔" عالیان گردن موڑ کر پیچھے دیکھتے ہوئے بولا۔۔ اس نے دروازہ زور سے بند کیا اور گھوم کر جا کر پیسنجر سیٹ پر بیٹھ گئ۔

"یہ مجھے لینے کے لیے پورا ٹولا لانے کی کیا ضرورت تھی؟؟" وہ ہاتھ سینے پر باندھے ڈرائیو کرتے ہوئے بندے کو گھور کر رہ گئ۔۔

"ایک سیکنڈ لیٹ می کلئیر۔۔۔ مجھے کوئی شوق نہیں تھا آنے کا میں زبردستی لائی گئ ہوں۔۔" یہ بات تو طے تھی کہ جب تک عالیان یہاں رہے گا ردا کا منہ ایسے ہی سوجا رہے گا۔۔

"اوہو آپی سیدھی طرح بولیں نا کہ ہمارا یہاں کباب میں ہڈی بننا آپ کو ہضم نہیں ہو رہا۔۔۔" منو شرارتی انداز سے کہنے لگی جس پر انابیہ نے گردن موڑ کر ایک تلخ نگاہ اس پر ڈالی جس پر وہ گردن نیچے کر گئ۔۔

"منہ تو بلکل بند کر کے بیٹھنا منو۔۔" وہ اسے غصے سے گھورنے لگی تبھی عالیان نے اسکی بات کاٹی۔۔

"خبردار جو میری گڑیا کو کچھ کہا تو۔۔ ویسے بھی ان دونوں کو میں ساتھ لایا ہوں۔ "

"جو بھی ہے تمہیں بھی نہیں آنا چاہیے تھا۔۔" وہ دوبارہ آگے مڑتے ہوئے بولی۔۔

"مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اکیلے آنا مجھے مناسب نہیں لگا اس لیے انکو بھی ساتھ لے آیا ہوں۔۔ "

"آہاں شکر ہے تھوڑی تہذیب تو باقی ہے تم میں۔۔" انابیہ نے ایک ابرو اچکاتے ہوئے کہا۔ عالیان نے ڈرائیو کرتے ہوئے گردن موڑ کر ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی جسے وہ اگنور کرکے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ اسی دوران انابیہ کے موبائل پر بیپ بجی جس پر ردا کا میسج تھا۔

"تھوڑا خیال کر لیں چغل خور ہمارے ساتھ ہی بیٹھی ہے ساری نیوز گھر جا کر دے دے گی کہ کتنے پیار سے بات کرتی ہیں آپ اس گھونسلے سے۔۔۔" لفظ گھونسلہ دیکھ کر وہ زور سے ہنسی۔۔

"گھونسلہ ہاہاہاہاہا۔۔" وہ پھٹ کر ہنسی اور پھر یکدم منہ پر ہاتھ رکھ کر سیدھی ہو گئ۔ جبکہ ردا کے تو ڈر کے مارے ہاتھ سے فون ہی گر گیا۔۔ عالیان نے ایک نظر انابیہ کو دیکھا اور پھر بیک ویو مرر کی مدد سے ردا کو جو جھک کر اپنا فون اٹھانے میں مصروف تھی لیکن اسکو سمجھ کچھ نہیں آیا تھا اور کندھے اچکا کر دوبارہ سامنے دیکھ کر ڈرائیو کرنے لگا۔

گاڑی میں تھوڑی دیر خاموشی چھا گئ تھی۔ پھر اس خاموشی کو انابیہ کے اگلے سوال نے توڑا تھا جب عالیان نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے روکی۔۔

"ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟؟" وہ اچنبھے سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔

"ریسٹورنٹ والوں کے برتن دھونے!! کم آن انابیہ یہاں کیوں آیا جاتا ہے۔۔" اس نے سن گلاسز اتار کر ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

"کبھی ڈھنگ سے جواب نہیں دینا اس نے۔۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑا کر گاڑی سے اتری۔۔ عالیان اور مناہل آگے آگے چل رہے تھے اور انابیہ اور ردا انکے ٹھیک پیچھے۔۔

"ماما بابا کو پتہ ہے اس سب کا؟؟" داخلی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اس نے ردا کے کندھے سے کندھا مارتے ہوئے رازداری سے پوچھا۔ ریسٹورنٹ میں رش نہ ہونے کے برابر تھی۔

"جی بلکل ۔۔بابا ویسے تو بڑی سختی کرتے ہیں اور اسکے ساتھ اتنی آسانی سے بھیج دیا۔۔ آئوچ!!!" ردا ابھی بول ہی رہی تھی کہ عالیان انکو دیکھنے کے لیے پیچھے مڑا تبھی ردا کا سر اسکے بازو سے زور سے ٹکرایا کہ اس بیچاری کا تو سر ہی چکرا گیا۔۔

"ہائے میرا سر کس کھمبے سے ٹکرا گئ میں؟؟؟ " وہ اپنا سر مل رہی تھی تبھی سامنے عالیان کو دیکھ کر یکدم چپ ہو گئ۔۔ وہ اسکے بلکل ہی سامنے کھڑا تھا۔

"دیکھ کر تو چلو ۔ زبان کی طرح آنکھوں کا بھی استعمال کر لیا کرو۔۔" وہ اسے سر پکڑے کھڑا دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔ انابیہ دونوں کو باری باری دیکھ رہی تھی۔

"آپ نے کیوں ایک دم بریک لگا دی؟" اس نے سر پر سے ہاتھ ہٹایا۔

"ہاں تو تمہیں کس نے کہا ہے بلکل میرے ہی پیچھے چلنے کو۔۔" اسکی اس بات پر وہ خاصا شرمندہ ہوئی۔۔ اور پھر انکو آگے کر کے وہ خود انکے پیچھے چلنے لگا۔

"ہاں تو ڈیسائڈ ہوا کہ کیا کھانا ہے؟" وہ چاروں اب ریسٹورنٹ کے اندر آمنے سامنے ہو کر بیٹھ گئے۔۔ ایک طرف مناہل اور عالیان تھا اور انکے ٹھیک سامنے انابیہ اور ردا مینیو کارڈ ہاتھ میں پکڑے گم صم بیٹھی تھیں۔۔

"جی کر لیا ہے۔۔" بیا کارڈ پر سے نظریں ہٹاتے ہوئے بولی۔۔

"منو دیکھو جھجکنے کی ضرورت نہیں ہے تم اپنے بھائی کے ساتھ آئی ہو ۔۔۔"

ردا نے گردن موڑ کر انابیہ کو دیکھا اور سر نفی میں ہلانے لگی۔۔ "مجھے تو بہن سمجھتا نہیں ہے پتہ نہیں کن ہوائوں میں ہے۔۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔

"ایکسکیوز می۔۔۔" اس نے ویٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور اسکے آنے پر اپنا آرڈر دینے لگا۔۔

"تھینک یو سو مچ بھائی ۔۔ واقعی میں آج بہت مزہ آیا۔۔" وہ چاروں کھانا کھا کر اب دوبارہ گاڑی میں بیٹھ چکے تھے تبھی مناہل اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولی۔۔

"اٹس اوکے منو۔۔" یہ کہہ کر اس نے ایک نظر انابیہ پر ڈالی اور پھر ایک نظر مرر کے ذریعے پیچھے بیٹھی ردا پر۔۔

"لگتا ہے تمھاری ان دونوں بہنوں کو شکریہ کہنا نہیں آتا۔۔ تم انکو بھی سکھائو نا ۔۔" نظریں انابیہ اور ردا پر مرکوز کیے وہ مناہل سے مخاطب تھا۔

"ہاں تو۔۔۔" ردا کچھ کہہ ہی رہی تھی کہ بیا نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔" بہت شکریہ آپکا۔۔۔" اور زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسے دیکھنے لگی۔۔

"یہ ہوئی نا بات۔۔۔" یہ کہتے وہ سامنے سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا جبکہ بیا اور ردا تو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور کر رہ گئیں۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ گنگناتے ہوئے باہر نکلی۔ اس کے ہلکے میک اپ کیے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کالے بال کیچر میں ایک جوڑے کی شکل میں مقید تھے جسکی دو لٹیں سامنے چہرے پر گر رہی تھیں ۔ اسکا ارادہ سیدھا سیڑھیاں اتر کر نیچے جانے کا تھا کیونکہ یہ کبیر کے واپس آنے کا وقت تھا تبھی راہداری سے گزرتے ہوئے اس کی نظر ساتھ والے کمرے پر ٹھہری۔ بجائے سیڑھیاں اترنے کے وہ کبیر کے اس کمرے کی طرف بڑھ گئ جہاں وہ صرف پینٹنگ کرتا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا سامنے بہت ساری پینٹنگز تھیں لیکن جویریہ کی نظریں جس پر ٹکی تھیں وہ سب سے منفرد تھی جس کو سب سے الگ رکھا گیا تھا۔ وہ چہرے پر بےپناہ غصہ لیے اس پینٹنگ کی طرف آئی اور کھڑے ہو کر اسے نفرت بھری نگاہوں سے گھورنے لگی ۔ آج سے پہلے اسے کبھی کسی سے اتنی نفرت نہیں ہوئی تھی جتنی اسے ان آنکھوں سے ہو رہی تھی جن پر کبیر مر مٹا تھا۔۔ اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اس پر پھیرنے لگی اور پھر اپنے لمبے ناخنوں کا رخ اس کی طرف کیا۔ اس کا بس چلتا تو اس لڑکی کی سچ میں اصلی آنکھوں کو اپنے ناخنوں سے نکال دیتی لیکن اصلی آنکھیں تو دور وہ اس کینوس پر بنی آنکھوں کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔۔ اس نے ایک دم اپنا ہاتھ روک کر پیچھے کیا۔

"نہیں نہیں جویریہ ابھی صحیح وقت نہیں ہے۔۔ اس بیوقوفی کی وجہ سے کبیر تم سے اور دور ہو جائے گا ۔۔ بار بار وار کرنے سے اچھا ہے ایک ہی دفعہ میں ایسا وار کرو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ایک ہی دفعہ میں کچھ ایسا کروں گی کہ یہ آنکھیں تمہیں کبھی نہیں دکھیں گی کبیر کبھی نہیں۔۔۔" اسی دوران اسکے فون کی بیپ اسے واپس اپنی دنیا میں لائی۔ سر جھٹک کر اس نے فون کی سکرین اپنے سامنے کی جس پر فائزہ کا میسج تھا۔۔

"جب بھی فری ہو مجھے کال کرنا ضروری بات کرنی ہے تم سے۔۔۔" اس کے لب بے ساختہ مسکراہٹ میں ڈھلے۔ فوراً اوکے لکھ کر اسے ریپلائی کیا اور واپس دروازے کی طرف مڑ گئ اور وہاں سے نکل گئ ۔ ابھی وہ نکلی ہی تھی کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کبیر نے اسے دیکھا ایک لمحے کے لیے وہ گھبرا گئ اور پھر چلتے چلتے اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"آگئے تم۔۔ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔" اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔۔ تم کیا کر رہی تھی وہاں؟؟" اس نے آنکھوں سے اسی کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"وہ۔۔ ہاں خالہ نے کہا تھا کہ میں دیکھ لوں کمرہ صاف ہے کہ نہیں ورنہ نازو سے صاف کروا لوں۔۔۔ اس لیے دیکھنے گئ تھی۔۔" وہ سفاکی سے جھوٹ بولتی گئ۔

"ویل۔۔۔ میں اپنے کمرے خود صاف کرتا ہوں۔۔ تمہیں یہ سب دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔" اس کی بات سنتے وہ بمشکل مسکرائی۔

"اچھا چھوڑو۔۔ تم فریش ہو کر آجائو پھر ہم لنچ کریں گے ساتھ۔۔۔" اسے یہ کہتے وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے جانے لگی۔۔ کبیر سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے ہی لگا تھا کہ اس نے مڑ کر اس کمرے کو دیکھا اور پھر نیچے جاتی جویریہ کو اور پھر اسی کمرے کی طرف جانے لگا ۔۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے ارد گرد نظر گھمائی کچھ گڑبڑ نہیں لگ رہی تھی ۔ پھر اسی پینٹنگ کی طرف بڑھا۔۔ ان آنکھوں کو دیکھتے ہی وہ سب بھول گیا اور اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئ۔ اس نے آگے بڑھ کر اس پینٹنگ کو اتار کر ہاتھوں میں لیا اور وہاں سے لے کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے جائزہ لیا کہ اسے کہاں لگانا چاہیے۔ پھر ایک نظر اپنے بیڈ کو دیکھا اور پھر اسکے سامنے دیوار کو۔

"پرفیکٹ پلیس!!!" اسکی مسکراہٹ گہری ہوئی اور آگے بڑھ کر اسے دیوار پر لگانے لگا۔

 

●●●●●●●●●●●●●

 

احمد صاحب اپنے کمرے میں بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھے اپنی گھڑی اتارنے میں مصروف تھے۔۔ وہ ابھی ہی آفس سے آئے تھے۔ انکے چہرے سے پریشانی واضح تھی تبھی ناہیدہ بیگم ہاتھوں میں پانی کا گلاس پکڑے انکے سامنے کھڑی ہوئیں جسے انہوں نے شکریہ کہتے ہوئے اچک لیا۔ ناہیدہ وہیں انکے ساتھ بیٹھ گئیں۔

"آپ پریشان لگ رہے ہیں کچھ ہوا ہے کیا؟؟" وہ انکے چہرے پر پریشانی دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔ احمد صاحب نے گلاس لبوں سے لگا کر دو گھونٹ پانی پیا اور گلاس وہیں سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔۔

"نہیں اتنا خاص کچھ نہیں ہوا۔۔" انھوں نے ناہیدہ کی طرف نہیں دیکھا مگر وہ انہیں کو دیکھ رہی تھیں۔۔

"تو اب آپ مجھ سے بھی چھپائیں گے۔۔ آپ چھپا سکتے ہیں مجھ سے؟" اتنی دیر میں یہ پہلی دفعہ تھا جب انہوں نے ناہیدہ کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ناہیدہ کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ وہ ایک دم ساکت رہ گئیں اور پھر انہیں دیکھنے لگی جبکہ احمد صاحب مسکرا رہے تھے۔

"میں نے تم لوگوں کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے نا بہت پابندیاں لگائیں ہیں نا۔۔ میں واقعی ایک برا شوہر اور برا باپ ثابت ہوا ہوں۔۔" نا جانے کیوں انکی آنکھیں نم ہونے لگیں تھیں۔ ناہیدہ کو سمجھ نہ آئی کہ آج وہ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔ وہ پچھلے کچھ دنوں سے ان میں تبدیلی محسوس کر رہی تھیں ۔

"ایسا نہیں ہے آپ ایک بہت اچھے شوہر اور ایک بہت اچھے باپ ہیں۔۔ آپ نے کوئی زیادتی نہیں کی آپ نے ہمیشہ ہم سے محبت کی ہے اور یہ آپکی محبت کرنے کا طریقہ تھا۔ آپ صرف ہمیں پروٹیکٹ کرنا چاہ رہے تھے اور کچھ نہیں ۔" وہ نہایت نرم لہجے میں بول رہی تھیں۔۔

"جو بھی کہو۔ میں نے ہمیشہ سے تمہیں اس گھر میں قید رکھا ہے۔۔ صرف ایک شخص کے ڈر سے۔۔" آخری جملہ انہوں نے بہت نفرت سے ادا کیا تھا۔ "میں ایک رات سکون سے نہیں سو سکتا۔ ہر پل مجھے لگتا ہے میرے گھر کی دیواریں اتنی کچی ہیں کہ کوئی بھی انہیں پار کر کے آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ مجھے خوف آتا ہے ناہیدہ۔۔" احمد اپنا خوف کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے ناہیدہ پر بھی نہیں وہ خود کو ہر وقت مضبوط دکھاتے تھے لیکن کچھ دنوں سے انہیں واقعی ڈر لگ رہا تھا۔

"مت سوچا کریں اتنا اپنی طبیعت کا بھی پتہ ہے آپ کو اور ویسے بھی اس نے اپنا بدلہ لے لیا ہے نا باجی کی جان لے کر اب تو بہت سال ہو گئے ہیں وہ تو سب بھول بھی گیا ہوگا۔۔" احمد نے فوراً سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔

"تمہاری بھول ہے ناہیدہ جہانزیب کچھ نہیں بھولتا۔ میرے سامنے اس نے میرے خاندان کے دو افراد قتل کیے ہیں اور میں کچھ نہیں کر پا رہا اور یہ سوچنا کہ وہ سب بھول گیا ہے ہماری سب سے بڑی بیوقوفی ہوگی۔۔" کچھ پل وہ خاموش ناہیدہ کی آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر مکمل طور پر ان کی طرف گھومے اور ہاتھوں پر گرفت سخت کر لی۔۔ "کراچی چلتے ہیں ناہیدہ بھائی جان کے پاس۔۔ ہم وہاں محفوظ رہیں گے۔۔" ناہیدہ بنا پلک جھپکے انہیں دیکھتی رہی اور پھر یکدم انہوں نے اپنے ہاتھ احمد صاحب کی گرفت سے آزاد کروائے لیے۔

"میری بچیاں احمد۔۔ ان کی سٹڈیز۔۔ نہیں۔۔ ہم کہیں نہیں جا رہے۔۔ آپ خوامخواہ اتنی ٹینشن لے رہے ہیں۔۔" وہ ان سے نظریں چرا گئ تھیں۔ ناصر نے احمد کی بہت دفعہ منتیں کی تھیں کہ وہ یہ شہر چھوڑ کر ان کے پاس چلے جائیں ان کا گھر ہر لحاظ سے محفوظ تھا لیکن احمد نے ان کی کبھی بھی نہیں مانی اور آج انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ بھائی جان کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔

"میرے آفس والوں نے میرا کراچی ٹرانسفر کر دیا ہے۔۔" ناہیدہ نے برہمی سے گردن موڑ کر انہیں دیکھا وہ نظریں جھکائے بیٹھے تھے۔ اس خبر پر وہ بری طرح سے چونکی تھیں۔

"تو آپ ان سے کہیں وہ اپنا مطالبہ واپس لے لیں۔ آپ بہت اچھی پوسٹ پر ہیں احمد وہ ضرور آپ کے فیصلے کو اہمیت دیں گے۔۔"

"مگر ناہیدہ۔۔"

"اگر مگر کچھ نہیں۔۔ میں کیا جواز پیش کروں گی؟ میری بچیاں ڈریں گی انہیں سب باتوں سے انجان ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔۔" ان کا انداز تنبیہی تھا۔ احمد نے گہرا سانس بھرا اور ان کی طرف گھومے۔

"ٹھیک ہے میں ان سے کہ دوں گا اپنا مطالبہ واپس لے لیں۔۔اب خوش؟؟" ان کے فوراً مان جانے پر ناہیدہ جبراً مسکرائی اور اٹھ کر جانے لگیں تبھی احمد کی آواز پر رکیں۔

"بچوں سے کہنا کل شام تیار رہیں میں نے حویلی میں بکنگ کرائی ہے۔۔" ناہیدہ نے پلٹ کر انہیں دیکھا وہ مسکرا رہے تھے جس پر وہ بھی مسکرا کر سر اثبات میں ہلاتے ہی کمرے سے نکل گئیں۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

لاہور میں ہمیشہ سے رہتے ہوئے بھی وہ آج زندگی میں پہلی مرتبہ حویلی ریسٹورنٹ آئی تھی۔ صرف وہی نہیں اس کی بہنوں کو بھی حویلی دیکھنے کا شرف پہلی مرتبہ دیکھنا نصیب ہوا تھا۔ حویلی کے بالائی حصے میں کھلے آسمان کے نیچے وہ بلکل خاموش بیٹھی تھی جبکہ اس کے باقی گھر والے کھانے میں مگن تھے۔ ملائی بوٹی، چکن کڑاہی اور اچار گوشت سب کھانے اس کے منتظر سے ٹیبل پر پڑے تھے لیکن اس نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی۔ وہ گرل کے بلکل ساتھ والی نشستوں میں بیٹھے تھے جہاں سے گردن موڑ کر وہ با آسانی بادشاہی مسجد دیکھ سکتی تھی وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔ تبھی اس کے کانوں سے پیانو کی دھن ٹکرانے لگی۔ وہ کس گانے کی دھن تھی اس کے لیے جانچنا بہت مشکل تھا لیکن کچھ دیر بعد ہی ایک گلوکار اسی دھن کا گانا گانے لگا۔ انابیہ نے گردن موڑ کر دور کھڑے اس گلوکار کو دیکھا جو ہاتھ میں مائیک پکڑے "گلی میں آج چاند نکلا" گا رہا تھا۔ وہ بےاختیا ہی مسکرا اٹھی اور پھر آسمان پر چمکتے ہوئے چاند کو دیکھنے لگی جس کی چمک سیاہ آسمان کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کر رہی تھی۔ لاہور میں اتنا خوبصورت چاند نکلے تو یہ گانا تو بنتا ہی تھا۔۔

"بچے کچھ کھا بھی لو۔۔" وہ چاند کو دیکھ رہی تھی جب احمد صاحب کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔

"میں کھا چکی ہوں بابا۔۔ مزید نہیں کھا سکتی۔۔" اس نے عام سے لہجے میں کہا اور پھر گردن موڑ کر مسجد دیکھنے لگی تبھی اس کی نظروں نے دور گرل سے ٹیک لگائے کھڑے ایک شخص کو پایا۔ وہ پلک جھپکنا بھول گئ کیونکہ وہ شخص کوئی اور نہیں کبیر جہانگیر ہی تو تھا۔۔وہی مسکراتا ہوا چہرہ۔۔ ایک ساتھ دو دو چاند کیسے نکل گئے؟؟

کیا یہ اس کا وہم تھا؟؟ وہ پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی تبھی اس کے ساتھ بیٹھی ردا نے اسے بازو سے ہلایا۔۔

"کیا ہو گیا ہے کوئی بھوت دیکھ لیا ہے؟؟" ردا نے اس کے چہرے کی اڑتی ہوئی رنگت کو دیکھتے ہوئے کہا۔ انابیہ نے پھر سے اسی جگہ دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے آس پاس بھی نظر دوڑائی وہ کہیں نہیں تھا۔۔

تو وہ اس کا خواب تھا۔۔ اس نے گہرا سانس بھر کر ردا کو دیکھا اور سر نفی میں ہلا دیا۔ ردا کندھے اچکا کر پھر سے کھانے میں مصروف ہو گئ۔۔

حویلی میں کھانا کھانے کے بعد وہ فوڈ اسٹریٹ میں پیدل چلنے لگے۔ روزمرہ کی طرح اس دن بھی فوڈ اسٹریٹ لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر طرف دکانوں پر رش لگا ہوا تھا۔ اس کے بائیں طرف کچھ لوگوں کا گروپ کھڑا کٹھ پتلیوں کا تماشا دیکھ رہا تھا تبھی اس کے قدم بھی بےاختیار اس طرف بڑھ گئے۔ وہ اب ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر ان کٹھ پتلیوں کو ناچتے ہوئے دیکھ رہی تھی جن کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھوں میں تھی۔ ساتھ ہی ایک عورت ڈھولک بھی بجا رہی تھی اور اس کی نظر جس کٹھ پتلی پر جمی تھی وہ بہت خوبصورت تھی جو سنہرے رنگ کا چمکیلا لہنگا چولی پہنے ہوئے تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے اب تالیاں بجانی شروع کیں۔ اسے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا تبھی کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔

"یہ کٹھ پتلی میں ہوں۔۔" اس کے تالیاں بجاتے ہاتھ ہوا میں ہی رک گئے اور اس کا جسم پل بھر کے لیے ساکت ہوگیا۔۔ "جس کی ڈوریاں تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔" وہ بول رہا تھا اس کے کان کے قریب جھک کر اور اس میں ہمت نہ ہوئی کہ پلٹ کر اسے دیکھ سکے۔۔

"تم مجھے کنٹرول کرتی ہو۔۔" اس نے تیزی سے اپنی گردن اس کی طرف گھمائی اور کبیر نے بھی اسی تیزی سے اپنا چہرہ پیچھے کیا۔۔ وہ اسے پوری کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور وہ پاگل مسکرا رہا تھا۔۔

"تم۔۔ تم یہاں؟؟" بمشکل اس کے لب ہلے۔۔

"کیوں مجھ پہ ban لگا ہوا ہے؟" وہ سینے پر ہاتھ باندھے کہنے لگا۔

"میری فیملی ہے یہاں۔۔ دور ہٹو مجھ سے۔۔" وہ اس سے کچھ قدم لیتے دور ہوئی اور تبھی اس نے دیکھا اس کے گھر والے دور ایک جیولری کی دکان میں موجود تھے اور ان سب کی اس کی طرف پشت تھی۔۔ صد شکر۔۔ اس نے گہرا سانس بھر کر تیز نظروں سے کبیر کو گھورا اور وہاں سے بھاگ کر سیدھا ان کے پاس چلی گئ۔۔ کبیر کے چہرے پر چھائی بہار کہیں دور چلی گئ اور وہ افسردگی سے کھڑا اسے دیکھتا رہا۔۔

"آپ ٹھیک تو ہیں؟؟" وہ ردا کے ساتھ کھڑے گہرے سانس لینے لگی جو اپنی انگلیوں میں انگوٹھیاں پہن پہن کر دیکھ رہی تھی۔۔

"نہیں کچھ نہیں۔۔ یہ عالیان کہاں ہے؟" اس نے فوراً بات بدلی۔۔

"انہیں حویلی میں کوئی پرانا دوست مل گیا تھا۔ وہیں پر ہیں۔۔ یہ کیسی لگ رہی ہے؟" اس نے کہتے ساتھ اپنا ہاتھ انابیہ کے سامنے کیا جس میں ایک بڑے نگینے والی انگوٹھی چمک رہی تھی۔۔

"بہت اچھی ہے۔۔ ایسا کرو میرے لیے بھی دیکھو کوئی اچھی سی۔۔" ردا سر اثبات میں ہلاتی دوبارہ انگوٹھیوں کی طرف متوجہ ہو گئ۔ اس نے گردن موڑ کر دوبارہ اسی جگہ دیکھا۔ اب وہ وہاں نہیں تھا۔ محبت بھی ایک بہت بڑی ٹینشن ہے۔۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔

 

●●●●●●●●●●●●●

 

زارا اور کبیر تقریباً ساتھ ساتھ ہی یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے۔ وہ دونوں ہی آج لیٹ ہو گئے تھے۔ دونوں ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے تبھی کبیر کی نظر کوریڈور میں کھڑی انابیہ پر پڑی۔ وہ کسی لڑکے کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔ کبیر کے قدم وہیں رکے۔ وہ لڑکے کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا کیونکہ اس کی طرف اس لڑکے کی پشت تھی لیکن شاید وہ جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔۔ اگلے ہی لمحے اس نے دیکھا کہ اس لڑکے نے انابیہ کے سامنے کچھ پیپرز کیے جنہیں اس نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھوں سے لے لیے۔ وہ کیا بات کر رہے تھے اتنی دور سے اس کے لیے سننا مشکل تھا۔ مسئلہ باتیں کرنے کا نہیں تھا اس کا بار بار مسکرانا تھا۔ زارا نے نظروں کا رخ کبیر کی طرف کیا جو ناگواری سے انابیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔ اسی دوران وہ لڑکا گھوما اس کا چہرہ کبیر کو واضع ہوا۔ وہ اسے ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا لیکن اس کے نام سے واقف تھا۔ انابیہ مسکراتے ہوئے وہاں سے جانے لگی تھی تبھی اس کی نظر ان دونوں پر پڑی۔ کندھے پر بیگ ٹھیک کرتے اب وہ ان کی طرف بڑھ گئ۔

"کہاں تھے تم دونوں کتنا لیٹ کیوں ہو گئے؟؟" وہ ان دونوں کی طرف متوجہ تھی۔

"یہ لڑکا کون تھا؟" بجائے جواب دینے کہ کبیر سنجیدہ سی شکل بنائے اس سے پوچھنے لگا۔ انابیہ کو اس کا سوال بے تکا بلکل بھی نہیں لگا تھا۔

"نبیل کی بات کر رہے ہو؟" کبیر کو اس کے منہ سے نبیل کا نام بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔۔

"ہمارا سینئر ہے۔۔ تمہیں پتہ ہے اس نے مجھے بہت امپورٹینٹ نوٹس دیے ہیں۔۔" اس نے پیپرز اس کے سامنے کرتے ہوئے نہایت خوشی سے کہا۔ " ہی از سچ آ ڈائون ٹو ارتھ پرسن۔۔ کہہ رہا تھا کہ مزید نوٹس بھی مجھے پرووائڈ کر دے گا۔ اچھا ہوا نا ہمارے ایگزامز میں ہمیں کافی ہیلپ ہو گی۔۔" آخری بات اس نے زارا کو دیکھتے ہوئے کہی۔

"اور ہماری کلاس میں اسے صرف تم ہی کیوں ملی نوٹس دینے کے لیے؟؟" اب کی بار انابیہ کو اس کی بات بے تکی لگی تھی۔ اس کی مسکراہٹ یکدم ہی غائب ہوئی۔ کبیر سخت نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔

"ایکسکیوز می مطلب کیا ہے تمہارا؟؟" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔

"تم اب اس سے کوئی نوٹس نہیں لو گی سمجھی۔۔ بلکہ بات بھی نہیں کرو گی۔۔" انابیہ کو اس کا تنبیہی انداز بلکل سمجھ نہیں آیا تھا۔ اس نے مزید اس کی کوئی بات نہیں سنی اور اس کے ساتھ سے ہو کر چلا گیا۔ انابیہ ہکا بکا سی اسے جاتا دیکھتی رہی۔

"اسے کیا ہوا ہے؟" وہ زارا کی طرف گھومتے ہوئے الجھے ہوئے انداز میں بولی۔۔

"پتہ نہیں شاید اسے تمہارا کسی لڑکے سے یوں بات کرنا پسند نہیں آیا ۔۔" زارا کندھے اچکاتے ہوئے بولی وہ خود بھی کبیر کے ایسے رویے پر کافی حیران تھی۔۔

"دماغ خراب ہو گیا کیا اس کا۔ میں صرف بات کر رہی تھی کبیر ایسا تو نہیں کرتا۔۔"

"ہاں یہی تو جائو اسے کلئیر کر دو کہ تم بات ہی تو کر رہی تھی۔ اس سے بات کرو بس وہ تھوڑا پوزیسو ہو گیا ہے شاید تم بات کرو گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ آگے ہو کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دینے لگی۔۔

"نو وے۔۔ مجھے جو بتانا تھا میں اسے بتا چکی ہوں۔ مزید صفائیاں نہیں دوں گی میں زارا۔ وہ اس طرح سے مجھے زلیل نہیں کر سکتا میں قطعاً برداشت نہیں کروں گی۔۔" اس کا لہجہ کافی تلخ تھا۔۔

"تو اس میں کیا برائی ہے تمہیں بات کرنی چاہیے۔۔ کیا پتہ کیا بات ہو ورنہ وہ ایسا نہیں کرتا تم بھی جانتی ہو۔۔" زارا کو اب کی بار اس پر تھوڑا غصہ آیا تھا۔

"وہ خود بات کرے میں نہیں جائوں گی۔۔" وہ سختی سے کہتے پیر پٹخ کر وہاں سے چلی گئ۔ زارا محض سر جھٹک کر رہ گئ۔

وہ جب کلاس میں آئی تو اس کی نظروں نے پوری کلاس کا سفر کیا وہاں کبیر نہیں تھا یعنی وہ کلاس میں نہیں آیا۔ وہ زارا سے تو کہہ آئی تھی کہ وہ اب اسے صفائی نہیں دے گی لیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ پریشان نہیں تھی۔ اسے واقعی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کبیر نے اس سے اتنی تلخی سے بات کیوں کی؟ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے وہ اپنی نشست پر جا بیٹھی۔ اس کی نظریں مسلسل دروازے پر ٹکی تھیں کہ بس کہیں سے وہ آجائے وہ بات کر لے گی وہ اسے سمجھا لے گی۔ آہستہ آہستہ کلاس سب سٹوڈنٹس سے بھرنے لگی تھی زارا بھی آگئ تھی عاصم بھی آگیا تھا بس وہ نہیں آیا تھا۔ اس کا دل جیسے بند ہونے لگا تھا۔ زارا اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ایک پل کے لیے اس کا دل کیا زارا سے ہی پوچھے لیکن پھر کچھ نہیں بولی۔وہ مسلسل لب کاٹتے اس کا انتظار کرتی رہی ۔ آخر کار وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئ۔ زارا اس کی بےچینی دیکھ سکتی تھی لیکن اب کی بار اس نے بھی کوئی بات نہیں کی۔ یکدم وہ تیزی سے اپنی سیٹ سے اٹھی۔ زارا نے گردن اٹھا کر اسے حیرت سے دیکھا۔ وہ سیدھا عاصم کے پاس گئ تھی۔

"کہاں ہے تمہارا سنکی دوست؟؟" وہ اس کی سیٹ پر جھکتے ہوئے اتنا زور سےبولی کہ کلاس میں موجود سب کی گردنیں اس کی طرف گھومیں۔ عاصم ہڑبڑا کر اس کا سرخ چہرہ دیکھنے لگا۔

"باسکٹ بال ہال میں۔۔" اس کی بات سنتے ہی اس نے تیزی سے اپنا بیگ اٹھایا اور کلاس سے نکل گئ۔ سامنے سے ان کے انگلش کے سر آرہے تھے یہ انہی کی کلاس کا وقت تھا مگر انابیہ سر کو جھکاتے ان کو اگنور کرتے وہاں سے چلی گئ۔

کبیر اس وقت اپنا سارا غصہ اکیلے ہال میں اس بال پر اتار رہا تھا۔ مسلسل کھیلنے کی وجہ سے وہ تھک بھی چکا تھا۔ سیدھا ہو کر اس نے بال باسکٹ میں اچھالا۔ یہی عمل وہ بار بار کرتا رہا۔ اس بار جیسے ہی اس نے بال باسکٹ میں اچھالا تو وہ سیدھا انابیہ کے پیروں میں جا کر رکا۔ کبیر اس سے پہلے آگے بڑھتا اس کی نظر سامنے کھڑی لڑکی پر پڑی۔ وہ کچھ پل ایسے ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر انابیہ نے جھک کر بال کو اٹھایا اور پوری قوت سے کبیر کی طرف پھینکا وہ اس حملے کے لیے بلکل تیار نہیں تھا مگر پھر بھی اس نے پھرتی سے بال کو کیچ کر لیا اور سر پر لگنے سے خود کو بچا لیا۔ وہ اس کے چہرے پر غصہ دیکھ سکتا تھا اسے حیرت ہوئی کہ اپنی کلاس کبھی نہ چھوڑنے والی آج کیسے چھوڑ آئی مگر وہ کچھ نہیں بولا اور بڑے آرام سے بال اس کی طرف دوبارہ پھینک دیا۔ بال اب کی بار پھر سے اس کے پیروں میں تھا۔ انابیہ نے جھک کر بال دوبارہ اٹھایا اور ایک بار پھر پورا زور لگا کر اس نے بال کبیر کی طرف پھینکا اور اب کی بار اس نے بازو سامنے کر کے بال خود کو لگنے دیا تھا۔ درد سے اس کے منہ سے آواز بھی نکلی تھی اسے اندازہ نہیں تھا اس چاول کے دانے کے برابر وزن کی لڑکی میں اتنا زور ہو گا۔۔

"آئوچ یار تم باسکٹ بال میں حصہ کیوں نہیں لے لیتی کتنا زور ہے تم میں ۔" وہ درد سے اپنا بازو ملتے ہوئے بول رہا تھا اسے واقعی زور کی لگی تھی۔۔

"ضرور لے لیتی اگر بال باسکٹ میں اچھالنے کے بجائے بار بار تمہارے سر پر مارنی ہوتی تو خوشی خوشی لے لیتی حصہ۔۔" اس نے کندھے سے بیگ اتار کر وہیں فرش پر رکھتے ہوئے نہایت غصے کے عالم میں کہا تو کبیر آگے سے ہنس دیا۔۔

"توبہ توبہ۔۔کتنے بدتمیز ہو نا تم افف۔۔" اسے اس کے ہنسنے پر اور بھی تپ چڑھ رہی تھی۔

"مجھے لگا ناراض میں ہوں لیکن تمہارا غصہ تو مجھے ناراض بھی نہیں ہونے دیتا۔۔" وہ ابھی بول رہا تھا کہ انابیہ قدم اٹھاتے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔ کبیر نے جھک کر بال دوبارہ اس کو تھمایا۔ اب کی بار انابیہ نے بال اس کے سر پر مارنے کی بجائے باسکٹ میں اچھال دیا۔۔۔

"وائو۔۔ نشانہ اچھا ہے۔ میں اب بھی یہی کہوں گا تمہیں ٹیم جوائن کرنی چاہیئے۔۔" وہ کسی اینگل سے اب ناراض نہیں لگ رہا تھا۔ زارا ٹھیک کہہ رہی تھی اسے ایک دفعہ بات کرنی چاہیے تھی اور صد شکر کہ وہ ٹائم ضائع کیے بغیر اس سے ملنے آگئ۔۔

"میں اس لڑکے کو نہیں جانتی۔ تمہیں مجھ پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں کتنا ہرٹ ہوئی ہوں تمہارے رویے سے۔ یو ہیو نو آئیڈیا۔۔" اس کی آواز اب کی بار نرم تھی اور لہجے میں شکوہ شکایت ۔ کبیر کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔۔

"تمہیں لگا میں نے تم پرشک کیا۔ میں ایسا کیوں کروں گا؟؟" وہ کچھ حیرت کا شکار ہوتے ہوئے بولا۔۔

"تو پھر تم نے ایسے ری ایکٹ کیوں کیا؟"

"میں اتنی چھوٹی سوچ کا مالک نہیں ہوں اور کم از کم صرف کسی سے بات کرنے پر تم پر شک تو کبھی نہیں کر سکتا۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولا۔ انابیہ نے پھر ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"میں نبیل کو ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر دو تین دفعہ اسے فائزہ کے ساتھ دیکھ چکا ہوں بس اس لیے مجھے اس کا تم سے ملنا پسند نہیں آیا۔۔ آئو وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔" اس نے کونے میں بیٹھنے کی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں اس کا بیگ اور مزید چیزیں پڑی تھیں۔

"فائزہ کون ہے؟؟" وہ اب اس کے پیچھے لپکی۔ کبیر نے جھک کر انرجی ڈرنک اٹھایا اور منہ سے لگایا اور وہ اس کے جواب کی منتظر سی اس کا چہرہ دیکھے گئ۔

"وہی جس نے تمہیں جان کر دھکا مارا تھا۔۔" وہ کہتے ساتھ نیچے فرش پر چونکڑی مار کر بیٹھ گیا۔

"جان کر نہیں غلطی سے اور اس نے معافی بھی مانگی تھی۔۔" وہ بھی اب اس کے سامنے ہی بیٹھ گئ تھی۔

"جان کر ۔۔" وہ دوبارہ تصحیح کرتے ہوئے بولا۔۔

"میری کسی سے دشمنی نہیں ہے تو وہ ایسا کیوں کرے گی میں تو جانتی بھی نہیں ہوں اسے۔۔"

"وہ میری کزن جویریہ کی بیسٹ فرینڈ ہے اور جویریہ۔۔" اس نے رک کر گہرا سانس لیا۔۔ " جویریہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔ جب سے اسے پتہ چلا ہے کہ میں کسی لڑکی میں انٹریسٹڈ ہوں اس نے فائزہ کو ہم پر نظر رکھنے کے لیے کہا ہوا ہے۔۔" انابیہ گنگ سی اسے سنتی گئ۔

"اسی لیے فائزہ سے جڑا ہر بندہ مجھے مشکوک لگتا ہے۔ تم خود بتائو بیا چالیس سٹوڈنٹس کی کلاس میں اسے صرف تم ہی کیوں ملی نوٹس دینے کے لیے جبکہ ہماری کلاس کے کافی سٹوڈنٹس اس کے دوست ہیں وہ کسی اور کو بھی تو دے سکتا تھا۔۔" انابیہ واقعی لاجواب رہ گئ تھی شاید اسے کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔

"کیا وہ تم سے اتنی محبت کرتی ہے؟؟" کچھ تھا اس کی نظروں میں جو کبیر نے فوراً نوٹ کر لیا تھا۔۔

"بکواس کرتی ہے۔ جن سے محبت کی جاتی ہے ان سے جڑے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا اور میں جانتا ہوں وہ کچھ نا کچھ ضرور کرے گی۔ مگر میں دیکھ لوں گا اسے۔۔" وہ اسے یقین دلاتے ہوئے بولا۔

"تو یہ وجہ تھی مجھے لگا تم اتنے پوزیسو ہو کہ مجھ پر شک کرنے لگے ہو۔۔" وہ خود پر ہنستے ہوئے بولی۔۔

"اگر تمہیں مجھ سے محبت ہو گی تو صرف مجھ سے ہوگی مجھے یقین ہے۔ اگر نہیں ہوگی تو بھی مجھے قبول ہے کیونکہ میں محبت میں زور زبردستی کا قائل نہیں ہوں۔ میں کبھی اس لڑکی کی زندگی جہنم نہیں بنائوں گا جس سے میں بےانتہا محبت کرتا ہوں۔۔ میں آج بھی تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ انابیہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور بس رشک بھری نظروں سے اسے دیکھتی ہی رہی۔۔

"آئی ایم سوری۔۔" وہ اٹھتے ساتھ بولی تو کبیر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔”میں نے تمہیں بال مارا نا اس لیے بول رہی ہوں۔۔میں غصے میں تھی۔۔" آواز میں ندامت اور شرمندگی واضح تھی۔

"چھوڑو یار کس کس کے لیے معافی مانگو گی کل تم نے نوٹ بک بھی ماری تھی اور اب بال۔۔ اللہ نے مجھے بڑا صبر دے رکھا ہے۔۔" وہ خفگی ظاہر کرتے ہوئے بولا تو انابیہ نے آگے ہوکر پھر سے اس کے بازو پر مارا اور "بدتمیز " کہہ کر ہنسنے لگی۔ کبیر ایک پل کے لیے مبہوت ہو کر بس اسے دیکھتا رہا اور وہ ہنس ہنس کر وہاں سے چلی گئ۔ وہ وہیں کھڑا رہا ایسے جیسے وہ اس پر جادو کر گئ ہو اور وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکا ہو۔۔

ہال سے نکلتے ہی اسے نبیل دکھائی دیا تھا وہ فوراً اس کی طرف گئ۔

"یہ آپ کے نوٹس۔۔ " وہ نوٹس اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی نبیل نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔۔

"مگر یہ تو میں نے آپ کو دیے تھے۔۔"

"اور مجھے ہی کیوں دیے تھے؟" اسے غصہ آرہا تھا مگر خود پر کنٹرول کر گئ۔ "مطلب مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے میرے خیال سے یہ ایک تیار نوالہ ہے اور میں اس کی عادی نہیں ہوں میں اپنے نوٹس خود بنائوں گی یہ آپ واپس لے لیں اور براہ مہربانی آئیندہ مجھے کچھ بھی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ریکویسٹ سمجھ لیں یا آرڈر ۔۔چلتی ہوں۔۔" وہ ایک ہی سانس میں کانفیڈینٹلی سب کچھ اس سے کہتے ہی وہاں سے چلی گئ۔

"گھمنڈی لڑکی۔۔۔" وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے جاتا دیکھنے لگا۔۔

 

●●●●●●●●●●●●●

 

"بچے تمہیں کچھ چاہیے تو نہیں؟؟" عالیان بیڈ پر ٹانگیں پھیلائے نظریں لیپ ٹاپ پر جمائے بیٹھا تھا اسی دوران ناہیدہ کمرے میں آئی تو اس سے پوچھنے لگی۔۔

"نہیں خالہ تھینکس ۔۔۔" اس نے نظریں اٹھا کر انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔

"اچھا اگر کچھ چاہیے ہوا تو ردا سے کہہ دینا میں اوپر کپڑے دھونے جا رہی ہوں۔۔" انھوں نے مسکرا کر عالیان کو دیکھا تو وہ بھی مسکرا دیا۔۔

"جی بہتر۔۔" وہ ان کے جاتے ہی دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ وہ کوئی نئ انگلش مووی دیکھ رہا تھا تبھی اس نے دیکھا کہ اسکے لیپ ٹاپ کی چارج ختم ہونے والی تھی۔ اس نے فلم پاز کی اور اپنے بیگ کی طرف بڑھ گیا۔ بیگ کو الٹا پلٹا کر ساری چھان بین کر لی مگر اس میں چارجر نہیں تھا۔

"یہیں تو ہونا چاہیے تھا کہاں گیا؟؟" اپنے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے اسے یاد آیا کہ وہ تو کراچی میں ہی چھوڑ آیا تھا۔

"ڈیم اٹ!! اب کیا کروں ابھی تو آدھی فلم بھی نہیں ہوئی ۔۔" اس نے بیڈ کے کنارے لات مارتے ہوئے غصے سے کہا اور پھر وہیں کائوچ پر ٹیک لگائے ڈھیر ہو گیا۔۔

"انابیہ سے لے لیتا ہوں اسکے پاس تو ہوگا ہی۔۔" وہ بجلی کی رفتار سے اٹھا اور سیڑھیاں پھلانگتے اسکے کمرے کی جانب چل دیا۔۔ وہ جب اسکے کمرے کی طرف پہنچا تو اس نے دیکھا کہ دروازہ آدھے سے زیادہ کھلا ہوا تھا ۔ اس نے بغیر دستک دیے قدم اندر رکھے۔ ابھی وہ دروازے میں ہی کھڑا تھا کہ اسکی نظر دائیں طرف کھڑی کھلے بالوں والی لڑکی پر پڑی جسکی اس وقت اس کی طرف پشت تھی وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ کہیں کھو گیا تھا۔ ردا آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بالوں پر برش پھیر رہی تھی۔ اسکے شہد رنگ بال بہت لمبے نہیں تھے لیکن خوبصورت بہت تھے۔۔ اس کا برش کرتا ہاتھ رکا اسے گمان ہوا جیسے اسکے ٹھیک پیچھے دائیں طرف کوئی کھڑا ہے وہ تیزی سے اسکی طرف گھومی اتنا کہ اسکی کمر پر جھولتے بال بائیں کندھے پر آ گرے ۔ وہ عالیان کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر ششد رہ گئ جو آنکھیں چھوٹی کئے اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ دراز قد لڑکی فوراً بیڈ کی طرف لپکی اور اس پر سے اپنا دوپٹہ اچک کر دوسری طرف گھومتے ہوئے اسے سر پر اوڑھنے لگی اور پھر خود پر ضبط کرتے گہرا سانس لیتے وہ پھر اسکی طرف پلٹی۔۔ کھلے بال یکدم ہی دوپٹے میں چھپ گئے تھے۔۔

وہ اب تک اسے ایسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے خوبصورت لڑکیاں دیکھی نہیں تھیں لیکن جتنی حسین ردا اسے آج لگی شاید کوئی نہیں لگا۔

"حد ہو گئ عالیان بھائی کہاں کھو گئے؟؟" اسکی غصیلی آواز سنتے وہ جیسے واپس اپنی دنیا میں آیا ہو۔

"وہ ہ ہ۔ وہ ۔۔ م میں۔۔۔ " ایسے وہ پہلی دفعہ گھبرایا تھا۔۔

"کیا وہ وہ وہ میں میں۔۔۔ آپکو مینرز نہیں ہیں کہ لڑکیوں کے کمرے میں knockکر کے جایا جاتا ہے۔ یہ امریکہ نہیں ہے۔۔" ردا اسکے ٹوٹے ہوئے لفظوں کو کاٹتے ہوئے بھڑکی۔

"مجھے لیپ ٹاپ کا چارجر چاہئیے تھا وہی لینے آیا تھا انابیہ سے۔۔" وہ خود کو کمپوز کرتے ہوئے بولا۔ ردا اسکی بات سنتے تیز تیز قدم لیتی سائڈ ٹیبل کے دراز کی طرف بڑھی اور اس میں سے چارجر نکال کر عالیان کے ہاتھ میں دیا۔۔

"یہ لیں چارجر اور اب جائیں یہاں سے۔۔۔" وہ اسے چارجر تھما کر واپس مڑ گئ۔ عالیان نے اسے دیکھا اور پھر واپس جانے لگا تبھی اسکے قدم رکے شاید ابھی ایک منٹ پہلے کی گئ بے عزتی اسے اب یاد آگئی تھی۔۔

"ایک منٹ۔۔۔ یہ مینرز مجھے سکھانے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اچھے سے پتہ ہیں۔۔" وہ ایک پل رکا ردا نے پلٹ کے کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھا جسکے چہرے پر سے گھبراہٹ کی جگہ غصے نے لے لی تھی۔۔

" دروازہ آدھے سے زیادہ کھلا تھا اس لیے غلطی ہو گئ مجھ سے۔۔ اور ویسے بھی اگر اتنی پرواہ ہوتی ہے نا کہ کوئی تمھارا سر بغیر دوپٹے کے نہ دیکھ لے تو اسے پورا بند کر کے بیٹھا کرو۔" اس نے دروازے کو زور سے پیر سے دھکیلتے ہوئے کہا۔۔ "بھولنا نہیں چاہئیے کہ یہاں امریکہ کا بگڑا ہوا عالیان بھی رہنے آیا ہے۔۔" اس نے ہاتھوں میں پکڑا چارجر زور سے زمین پر دے مارا اور نہایت ڈھٹائی سے کہتا وہاں سے چلا گیا جبکہ ردا گنگ رہ گئ۔ اسکا منہ تو جیسے کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔۔

"ایک تو بے غیرتی اور اوپر سے بدتمیزی۔۔ افف پتہ نہیں کب واپس جائے گا یہ۔۔ اب کیا میں اپنے گھر میں دروازے لاک کر کے بیٹھا کروں۔۔ ڈھیٹ کہیں کا غلطی بھی اپنی اور سنا کر بھی مجھے چلا گیا۔۔۔" اس قدر بےعزتی پر اس کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور وہ اس سماں جائے۔

اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ ادھر ادھر چکر کاٹنے لگا۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اسے اتنا غصہ کیوں آیا جبکہ واقعی غلطی بھی اسکی اپنی ہی تھی۔

"ہاں تو کیا ہوا ایک ذرا سا اسکے بالوں کو کیا دیکھ لیا آگ بگولہ ہو گئ۔۔۔ آخر کزن ہوں کچھ زیادہ ہی حیا والی بنتی ہے۔۔"وہ خود سے ہی بڑبڑائے جا رہا تھا۔۔ وہ اس لڑکی کے بارے میں بات کر رہا تھا جس نے اسے کچھ دیر پہلے ہر سوچ سے بیگانہ کر دیا تھا۔۔

"پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو جیسے کوئی حسین پری۔۔۔" وہ بولتے بولتے رکا اور پھر مسکرانے لگا۔۔

" مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حجاب کے بغیر وہ اتنی خوبصورت ہوگی۔۔" بولتے بولتے وہ پھر رکا اور سر جھٹکنے لگا۔ "تو اس کا کیا مطلب ہے کہ خود خوبصورت ہو تو اگلے بندے کی عزت نہیں ہے کہ اسے سنا دی جائے۔۔۔"

" کیا ہو گیا ہے تمہیں عالی۔۔۔ بس اب میں مزید یہاں رہا تو پاگل ہو جائوں گا مجھے واپس جانا چاہیے بس جلد ہی چلا جائوں گا یہاں سے۔۔۔" وہ جیسے خود کو کوستے ہوئے بولا۔۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

اگلے دن اس کی طبیعت کچھ ناساز تھی اس لیے ناچاہتے ہوئے بھی ردا کے اصرار پر اس نے یونیورسٹی سے چھٹی کی تھی۔

"یہ لیں آپی سوپ پئیں ۔۔"ردا ہاتھوں میں سوپ کا بائول لئے اسکے ساتھ صوفے پر آ بیٹھی۔ انابیہ لائونج میں ہاتھ میں ریموٹ پکڑے ٹی وی کے سامنے صوفے پر ٹانگیں اوپر کئے بیٹھی تھی۔

"میں ٹھیک ہوں بہن۔۔ بخار نہیں ہے اب ۔۔ خوامخواہ چھٹی کرا دی۔۔" وہ بائول اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی۔۔

"چلیں کوئی بات نہیں کبھی کبھی موقع ملتا ہے کروا لیا کریں خدمتیں اور اب کسی کام کو ہاتھ نہیں لگانا کل ذرا سے کپڑے کیا دھو لیے بیمار ہی پڑ گئیں آپ تو۔۔" اسکی اس بات پر انابیہ نے چہرہ اٹھا کے اسے گھورا۔۔

"ذرا سے کپڑے!!!۔۔توبہ کرو بہن زیادہ کپڑے بولتے ہوئے منہ ٹوٹتا ہے تمہارا۔۔" لہجہ کافی غصیلا تھا۔

"چلو تھوڑے زیادہ ہوں گے لیکن ایسے بیمار تو نہیں ہوتے نا اور کونسا آپ نے اکیلے دھوئے تھے ماما جان بھی تو تھیں آپکے ساتھ ۔ خیر آپ یہ پئیں میں ذرا ہانڈی دیکھ لوں ماما اکیلے کچن میں مصروف ہیں۔۔" وہ اٹھ کر چلی گئ۔۔

"جاہل کوکنگ بہت اچھی کرتی ہے۔!!" وہ سوپ پینے میں مصروف تھی مگر ردا کی کوکنگ کی دات دیے بغیر رہ نہ سکی۔ تبھی عالیان اسکے سامنے والے صوفے پر آ بیٹھا اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ بھی تھا۔

"یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہےعالیان؟؟" اس نے سوپ کا بائول ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس سے پوچھا ۔

"کراچی جانے کا ٹکٹ۔" وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔انابیہ ایک دم سیدھی ہوئی۔

"کب کی؟؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔۔

"کل شام کی ۔۔"

"واٹ!! اتنی جلدی۔۔" وہ شاک کی حالت میں اسے دیکھنے لگی۔

"تو رکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔" اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری تھا۔

"پھر بھی تم نے کچھ دن رہنا تھا۔۔۔" وہ پل بھر رکی۔۔" ایک سیکنڈ کسی نے کچھ کہا ہے؟"

"مجھے کون کچھ کہے گا سوائے ۔۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا۔

"ردا کے۔۔۔" وہ فوراً بولی اور پھر ہنسنے لگی۔۔ "کم آن عالیان تم بھی اسکی باتوں کا مائنڈ کرتے ہو۔۔" وہ ہنستے ہوئے اسے کہہ رہی تھی۔۔

"زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے مانا کے میں شریف انسان نہیں ہوں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ یوں ہر بار میری بے عزتی کرے گی۔۔۔" انابیہ کی ہنسی بھک سے اڑی۔

"بتایا اس نے مجھے کل کا۔۔ غلطی بھی تو تمہاری تھی نا۔۔ اسے بس غصہ آگیا تھا اسکا ارادہ تمہیں ہرٹ کرنے کا نہیں تھا۔۔"

"ہرٹ مائے فوٹ۔۔ میں نے سینے میں اتنا نازک دل نہیں رکھا ہوا کہ کسی کی بھی باتوں سے ہرٹ ہو جائے گا۔۔ پتہ نہیں اسے مجھ سے کیا مسئلہ ہے میری ہر بات کو دوسرے معنوں میں لے جاتی ہے۔" وہ اسکی بات کے فوراً بعد بولا۔

"حالانکہ اسے ایسا نہیں سوچنا چاہیے تمھارے بارے میں ۔۔ تم جیسے بھی ہو اسے تو چھوٹی بہن سمجھتے ہو نا۔۔" عالیان کو ایک دم کھانسی لگی جیسے وہ اس جملے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔ بہن والی بات سیدھا اس کے گلے میں کانٹے کی طرح اٹکی تھی۔

"آر یو اوکے؟؟" وہ یکدم اسے کھانستا ہوا دیکھ کر بولی ۔

"ہاں بہن بلکل بہن۔۔ بہن ہی تو سمجھتا ہوں۔۔" وہ اب بھی کھانس رہا تھا۔

"خیر رہنے دو ان باتوں کو یہ بتائو سوپ پیو گے؟؟" وہ اپنا بائول اسکے سامنے کرتے ہوئے بولی۔

"جی نہیں شکریہ مجھے تم سے محبت نہیں بڑھانی تمھارا جھوٹا کھا پی کر۔۔" انابیہ کا چہرہ ایک دم سرخ ہوا اور تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورنے لگی۔۔

"تم سے کوئی اچھی بات کی امید نہیں کی جا سکتی ویسے۔۔۔ میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا پہلے بھی تو مجھ سے چھین کر کھاتے تھے۔۔" وہ ہونہہ کے انداز میں بولی۔

"اور کوستا ہوں خود کو ۔۔ یہی تو وجہ ہے کہ تھوڑی بہت محبت ہے تم لوگوں سے تبھی صبر کا گھونٹ پی جاتا ہوں۔۔۔"

"تم اور صبر امپوسیبل۔۔۔" وہ اس کی بات پر ہنس دی اور سر جھٹک کر دوبارہ سوپ پینے لگی۔

عالیان کافی دیر موبائل میں گھسا وہیں بیٹھا رہا۔۔ سوپ کا بائول ہاتھ میں پکڑے وہ اب اٹھ کھڑی ہوئی ایک نظر عالیان کو گھورا جس کی شرٹ کے فرنٹ بٹن کھلے تھے۔۔

"شرٹ کے بٹن بند کرو۔ صرف اپنی خالہ جان ہی نہیں تھوڑی شرافت کا مظاہرہ ہمارے سامنے بھی کر لیا کرو۔۔" تیوڑیاں چڑھائے تنبیہی انداز سے کہتے وہ پیر پٹختی وہاں سے چلی گئ۔ عجیب سی شکل بنائے وہ اسے جاتا دیکھتا رہا اور پھر دل ہی دل میں بڑبڑاتے ہوئے شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا۔

وہ وہاں سے سیدھا کچن میں گئ جہاں ردا سلاد بنانے میں مصروف تھی۔۔

"ردا ذرا ہانڈی دیکھنا میں آتی ہوں " ناہیدہ بیگم اسے حکم دیتے کچن سے چلی گئیں۔ وہ ان کے جانے کے فوراً بعد ردا کے پاس گئ۔

"ایک بریکنگ نیوز دوں؟؟" انابیہ اسکے کانوں کی طرف جھکتے ہوئے بولی۔۔

"ہوں۔۔"

"وہ جا رہا ہے۔۔"

"شکر اللہ کا۔۔۔ " وہ کھیرا کاٹتے ہوئے بولی۔

"وہ تمہاری وجہ سے جا رہا ہے بہن۔۔۔ سوچو بابا پوچھیں گے اس سے اگر اس نے بتا دیا تو۔۔۔" ردا کا کھیرا کاٹتا ہوا ہاتھ رکا اور چہرا اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھنے لگی۔ "مانا کہ غلطی ہمیشہ اسکی ہوتی ہے مگر ردا وہ مہمان ہے ہمارے گھر اگر تم تھوڑا لحاظ کر لیتی تو یقین جانو تمہارا کچھ نہ جاتا۔۔ اب اتنا برا بھی نہیں ہے!!" اس نے ایک کھیرے کا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا جبکہ ردا نے سخت نظروں سے اسے دیکھا۔

"برا تو وہ بہت ہے۔۔ خیر!! آپ کیا چاہتی ہیں میں اب اس سے اپولوجائز کروں؟؟" اس نے چھری ٹیبل پر پٹختے ہوئے کا۔

"میں تمہیں فورس تو نہیں کروں گی لیکن اگر معافی مانگ لو تو تمہارے لیے ہی بہتر ہوگا۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔

"لائو یہ مجھے دو میں کر دیتی ہوں تم ہانڈی دیکھ لو۔۔" وہ اسکے سامنے سے سبزی لیتے ہوئے بولی جبکہ ردا واقعی سوچوں کی دنیا میں کہیں دور چلی گئ تھی۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

صبح کے وقت آفس میں حسب معمول لوگوں کی چہل قدمی تھی۔ اپنے اپنے کیبنز میں بیٹھے ورکرز اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ایسے میں کبیر ہشاش بشاش سا ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ پہنے شیشےکے دروازے سے داخل ہوا۔ سامنے سے ہی عابس کی سیکرٹری نظریں ایک فائل پر جھکائے چلتی ہوئی آرہی تھی۔ دفعتاً نظریں اٹھاتے ہی اس نے سامنے سے آتے کبیر کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے فوراً اس کی طرف بڑھ گئ۔

"گڈ مارننگ سر۔۔ کیسے ہیں آپ؟؟" وہ مسکراتی ہوئی شکل لیے اسے دیکھے گئ تو کبیر بھی مسکرا دیا۔۔

"ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور ہینڈسم۔۔" وہ دونوں آئی بروز کو اٹھاتے ہوئے بولا۔

No doubt.” " وہ زیرلب بڑبڑائی۔

"بھائی فری ہیں؟" وہ اب آگے کو چلنے لگا تو سیکرٹری بھی اس کے ساتھ چل دی۔

"جی دو گھنٹوں بعد ان کی میٹنگ ہے تب تک فری ہیں۔۔" کبیر نے محض سر ہلایا تبھی اس کے قدم پیچھے سے آتی ایک آواز پر رکے۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔

"آر یو بلائینڈ؟ دیکھ کر نہیں چل سکتے اندھے ہو کیا؟؟" سفید شرٹ اور بھورے رنگ کی پینٹ میں ملبوس گھنگھرالے بالوں والا لڑکا سامنے کھڑے نظریں جھکائے ادھیڑ عمر شخص پر چلا رہا تھا۔ کبیر نے باری باری دونوں کو دیکھا اور پھر اس کی نظریں ان کے پیروں کے قریب فرش پر پڑی جہاں دو کپ ٹوٹے گرے پڑے تھے جن میں سے گرتا مائع ان سفید ٹائلز کو گندہ کر گیا تھا۔

"معذرت چاہتا ہوں صاحب۔۔" وہ اسی طرح سر کو جھکائے ندامت سے بولا تو عالیان کا پارا مزید ہائی ہوا۔

"معزرت مائی فٹ۔۔اگر یہ کافی مجھ پر گر جاتی تو؟؟ تو کیا ہوتا تمہارے ساتھ جانتے ہو؟" کبیر کو ایک بار پھر اس کے چلانے کی آواز آئی۔ وہ تیز قدم لیتے ان کے قریب گیا۔

"کیا ہو گیا کیوں چلا رہے ہیں آپ؟؟" آواز پر عالیان نے سامنے کھڑے لڑکے كو دیکھا ۔

"پارٹی ہو رہی ہے آئو تم بھی شامل ہو جائو۔۔" عالیان نے طنزیہ انداز سے کہا تو کبیر کی بھنویں تن گئ۔

" دیکھ نہیں رہےمجھ سے ٹکڑا کر ساری کافی گرا دی ہے اس نے۔ پتہ نہیں کیسے کیسے لوگوں کو رکھا ہوا اس آفس میں ۔" کبیر نے اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ اس کے کپڑے بلکل صاف تھے کافی کا ایک قطرہ تک اس پر نہیں گرا تھا۔

"اتنا چلانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کافی آپ پر گری نہیں ہے۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔ عالیان نے تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورا ۔

"اور اگر گر جاتی تو؟؟" وہ اسی طرح ماتھے پر ڈھیروں بل لئے بولا۔

"لیکن گری نہیں ہے۔۔" کبیر پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے گھورے گیا اور پھر کچھ قدم لیتے بلکل اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔" نہ ہی یہاں کوئی اندھا ہے نہ ہی بہرا۔ اس لیے آواز آہستہ رکھ کر بات کیجئے۔ ان سے غلطی ہوئی ہے اور انہوں نے معذرت کر لی ہے۔" رک کر ادھیڑ عمر شخص کی طرف گھوما۔۔

" آپ جائیں اور یہ سب صاف کروادیں۔۔" کبیر نے بلا کی نرمی سے اس سے کہا تو وہ سر کو خم دیتا وہاں سے چلا گیا۔ ایک دفعہ پھر شہد رنگ اور کالی آنکھیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور اسی طرح سرد مہری سے دیکھتے دیکھتے کبیر وہاں سے پلٹ کر سامنے لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ عالیان اسی طرح بھنویں سکیڑ کر اس کی پشت کو دیکھے گیا اور پھر اس کی توجہ اس کے ہاتھ میں پکڑے بجتے ہوئے فون نے کھینچی۔

عابس آفس میں ٹیبل کے کنارے ہاتھوں میں کچھ کاغذوں کا پلندہ لیے کھڑا تھا۔ تبھی آہٹ پر سر اٹھا کر سامنے کھڑے کبیر کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوا۔۔

"واٹ آ سرپرائز تم اس وقت یہاں؟؟ یونیورسٹی نہیں گئے؟" کاغذات کو ٹیبل پر اچھالتے وہ کبیر کی طرف بڑھا۔

"گیا تھا بس کچھ خاص تھا نہیں اس لیے یہاں آگیا۔۔" اس کا یونیورسٹی سے واپس آجانا انابیہ کا یونیورسٹی نہ آنا تھا تو دل نے کہاں لگنا تھا اسی لیے بس ایک کلاس لیتے ہی وہ بھی واپس آگیا تھا۔

"خیر اچھا کیا میں تو ایک دوست کے آنے کی توقع کر رہا تھا۔۔" کبیر نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔ اس سے پہلے وہ اس دوست کے بارے میں پوچھتا دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔۔

"عالی میرے دوست تمہارا ہی انتظار تھا۔۔" عابس فوراً آگے ہوتے اس کے گلے لگا۔ کبیر نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ عالی یعنی عالیان۔۔ کچھ ہی سیکنڈز لگے تھے اسے اب پہچاننے میں کہ یہ ناصر عالم کا بیٹا عالیان ناصر عالم ہے۔ جتنا بر امیج اس کے زہن میں عالیان کے حوالے سے بنا ہوا تھا وہ اس سے بھی زیادہ بدتمیز تھا ہونہہ۔۔

"تم تو عید کا چاند ہو گئے عالی۔۔ خیر آئو بیٹھو۔۔" پھر ہاتھ اٹھا کر کبیر کی طرف اشارہ کیا۔ " اس سے ملو میرا چھوٹا بھائی۔۔"

"کبیر جہانگیر۔۔" سرد مہری سے اس کا نام لیتے عالیان آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھور رہا تھا۔

"لگتا ہے تم دونوں کی ملاقات ہو گئ ہے۔۔" عابس نے باری باری دونوں کا چہرہ دیکھا اور دونوں کے چہروں پر نا گواری کا بسیرا تھا۔۔ "اور شاید یہ ملاقات اچھی نہیں رہی۔" وہ سر جھٹکنے کے انداز میں بولا۔

"اوکے بھائی میں چلتا ہوں۔۔ " کبیر نے کہا تو عابس نے اسے تعجب سے دیکھا۔

"مگر کیوں؟ ابھی تو تم آئے ہو اور۔۔"

"وہ مجھے یاد آیا عاصم سے ملنا تھا۔۔ آپ بیٹھیں اپنے دوست کے ساتھ۔" ایک نظر عالیان کو دیکھا۔ " مجھے ویسے بھی آپ کے دوست سے مل کر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔۔" نہایت سپاٹ لہجے میں بولا تو عالیان نے پھر سر تا پیر اسے گھورا۔

"ہاں تم تو جیسے سیلینہ گومیز ہو نا جس سے مل کر مجھے تو بڑی خوشی ہوئی ہوگی۔۔ بائے دا وے سوری  ٹوسے تمہارا بھائی بہت ریوڈ ہے۔۔" اب وہ نظریں عابس میں مرکوز کیے بولا۔

"اونسٹلی سپیکنگ۔۔ میں نے بھی تمہارے بارے میں جتنا برا سوچا تھا اس سے کہیں زیادہ بدزبان ہو تم۔۔" کبیر نے بھی حساب برابر کیا۔

"اوکے اوکے فائن۔۔" عابس نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا۔ " میرے آفس میں اب لڑنا مت شروع ہو جانا۔۔پلیز۔۔"

"مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے بدتمیز لوگوں کے منہ لگنے کا۔۔"کبیر ایک سخت نظر عالیان پر ڈالتے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا۔ وہ اب راہداری سے تیز تیز قدم لیے چل رہا تھا۔ چہرے پر انتہا كى ناگواری سی چھائی ہوئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اسے عالیان سے اتنی نفرت کیوں ہو رہی تھی۔کوئی وجہ تو تھی خیر۔۔ سر جھٹکتے وہ اسی طرح چلتا ہوا باہر نکل گیا۔۔

 

●●●●●●●●●●●●

 

وہ کافی سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ اسے معافی مانگ لینی چاہیے۔۔ معافی ہی تو ہے زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا وہ پھر سے اس پر طنز کی بوچھاڑ کرے گا۔ فاتحانہ انداز سے مسکرائے گا جو بھی کرے گا وہ ماما جان کی ڈانٹ اور بابا جان کی ناراضگی سے زیادہ سخت نہیں ہوگا۔

"اسکا کیا پتہ ماما اور بابا جان کو ایک کی دس لگا کر سنا دے گا۔۔" کچھ دیر خود کے ساتھ بڑبڑاتے آخر اس نے فیصلہ کیا اور تیز قدم لیتے اس کے کمرے تک پہنچی ۔ دروازہ کھلا تھا اور وہ دیکھ سکتی تھی کہ عالیان اپنے کپڑے بیگ میں ڈال رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ ائیر پوڈز لگائے کسی سے بات بھی کر رہا تھا۔۔

"نہیں یار کل پہلے کراچی جائوں گا پھر کچھ دنوں تک واپس آئوں گا ۔۔" بات کرتے اسکی نظر چوکھٹ پہ کھڑی لڑکی پر پڑی ۔ "میں بعد میں بات کرتا ہوں تم سے۔۔" یہ کہتے اس نے کال ڈسکنیکٹ کی اور اسکی طرف متوجہ ہوا۔۔

"کوئی کام ہے کیا؟؟" وہ ائیر پوڈز اتارتے ہوئے نہایت سپاٹ لہجے میں بولا۔

"مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔۔" وہ دروازے پر کھڑے کھڑے بولی۔

"ہاں تو کرو بات لیکن میری سننے کی سکت زیادہ تیز نہیں ہے تم اندر آسکتی ہو میں انسانوں کو کھاتا نہیں ہوں۔۔" اکھڑ انداز سے کہتے وہ دوبارہ کپڑے بیگ میں ڈالنے لگا جبکہ ردا خاصا شرمندہ ہوئی۔۔

"نہیں نہیں ایسا نہیں ہے میں آ ہی رہی تھی اندر۔۔" وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتے اندر آئی جبکہ عالیان ہنس دیا اسے اس دن والی ردا کی حرکت یاد آگئی تھی۔

"اچھا تو بولو کیا کہنے آئی ہو تم یہ آگ کا دریا پار کر کے۔۔" وہ نظروں سے دروازے سے اس تک آنے کا راستہ ناپتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا۔۔

"میں۔۔۔ آپ سے سوری کرنے آئی تھی۔۔" وہ نظریں نیچے کیے ہوئے بولی۔

"ہوہوہو۔۔ ویٹ آ منٹ۔۔۔ ردا احمد عالم آئیں ہیں مجھ سے معافی مانگنے۔۔۔ زہے نصیب۔!!" اس نے انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔۔ ردا نے آنکھیں اٹھا کر اسے سنجیدگی سے دیکھا۔

"آپ میری وجہ سے جا رہے ہیں؟؟" اب کی بار اسکی نظر بیڈ پر پڑے کپڑوں پر تھی۔

"تمہیں ایسا کیوں لگا؟؟"

"شاید اس لیے کہ آپ ناراض ہیں مجھ سے۔۔" عالیان اسکی بات پر پھر ہنس دیا۔

"میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگا تم سے؟" وہ ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے ہنستے ہوئے پوچھنے لگا۔

"شاید میں نے آپ سے کچھ زیادہ ہی بدتمیزی کی ہے۔۔"

"شاید نہیں یقیناً!!!۔ خیر میں اتنی چھوٹی باتوں پر میدان چھوڑ کر جانے والوں میں سے نہیں ہوں اور تم سے ناراض تو بلکل بھی نہیں ہوں بلکہ میں تو کافی انجوائے کرتا رہا ہوں۔۔ سیریسلی۔۔" ردا نے ایک نظر اسے دیکھا شاید وہ محظوظ ہو رہا تھا۔

"تو پھر آپ کیوں جا رہے ہیں اتنی جلدی؟؟"

"تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہیے نا ۔۔۔ نہیں؟" ردا کا دل کر رہا تھا کہ اسے چیخ چیخ کر کہے کہ ہاں ہاں میں بہت شکر کروں گی تمہارے جانے کا بلکہ شکرانے کے نفل بھی پڑھوں گی اور اتنی جلدی واپس جانے کے تو دو ایکسٹرا نفل بھی پڑھوں گی لیکن وہ مزید خرابی نہیں چاہتی تھی آفٹر آل مہمان ہے جانا تو ہے ہی اس نے تو اچھا ہے عزت سے جائے۔۔

“دراصل ماما بابا بہت خوش تھے آپکے یہاں ہونے سے۔۔ ماما جان تو آپکو ویسے بھی بہت یاد کرتی ہیں نا پھر پتہ نہیں آپ کب واپس آئیں اس لیے پوچھ رہی تھی۔۔۔" وہ خود پر کنٹرول کرتے ہوئے بولی ۔

"اوہ تو یہ بات ہے خیر مجھے ضروری کام ہے اس لیے جانا ہے کچھ دن ڈیڈ کے ساتھ بھی گزارنے ہیں اس لیے لیکن میں کال کرتا رہوں گا خالہ کو ڈونٹ وری۔۔۔" وہ دوبارہ بیگ کی طرف متوجہ ہوا۔۔

"کیا ضروری کام؟؟" وہ اسکے اس سوال پر ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا کیونکہ اسے تو کوئی ضروری کام نہیں تھا۔

"مت جائیں ماما واقعی خفا ہونگی۔۔ اگر ضروری کام نہیں ہے ورنہ کوئی مسئلہ نہیں۔۔"

"جانا ضروری ہے میں اگر کچھ اور دن یہاں رہا تو مجھے کچھ ہو جائے گا۔۔" وہ یکدم سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔۔ جبکہ ردا حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"ہیںں!!! ایسا کیا ہو جائے گا آپکو یہاں؟؟" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھے گئی۔

"وہی ہو جائے گا جسکا مجھے ڈر ہے۔۔۔۔" وہ اپنی کالی آنکھوں سے مکمل اسکی سبز کانچ سی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔

"ایسا کیا؟؟" ردا اس سے پوچھ رہی تھی جبکہ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش اسکی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا۔ وہ کچھ نہیں بول پایا۔۔

"بھائی!!!" اسکی اگلی آواز میں جیسے وہ ہوش میں آیا تھا۔

"نقصان ردا نقصان۔۔۔ نقصان ہو جائے گا نا میرا۔۔" وہ تیزی سے خود کو کمپوز کرتے ہوئے بولا۔

"نقصان؟؟؟" اسے پھر سمجھ نہیں لگی۔۔

"ہاں نا تم نہیں سمجھو گی رہنے دو۔۔ تمہیں کیا پتہ میرے فائدے نقصان کا۔۔۔" وہ دوبارہ اپنے بیگ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔۔ جبکہ رداعجیب سی شکل بنائے اسے دیکھ رہی تھی پتہ نہیں کیا ہے یہ انسان وہ اسے ہی نہیں سمجھ سکی تھی تو اسکے فائدے نقصان کیا سمجھتی۔

"اچھا جیسے مرضی آپکی میں چلتی ہوں۔۔" وہ مزید اسکی منتیں نہیں کرنا چاہتی تھی اور ویسے بھی وہ معافی مانگنے آئی تھی جو اس نے مانگ لی اس لیے پلٹ کر جانے لگی لیکن پھر اسکے ایسے جملے پر رکی جسکی اسے بلکل توقع نہیں تھی۔۔

"کیا تم مجھے یاد کرو گی؟؟" ردا کے قدم وہیں جم گئے اور پھر اس نے پلٹ کر اسے دیکھا جو آنکھیں چھوٹی کئے سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ ردا نے کوئی جواب نہیں دیا۔

"آئی مین تم لوگ یعنی تم تینوں؟؟" وہ جیسے تصحیح کرتے ہوئے بولا۔۔

"منو تو ظاہر ہے کرے گی۔۔ آپی کا مجھے نہیں پتہ۔۔۔ رہی بات میری۔۔۔" وہ رک کر دو قدم آگے آئی اور ہاتھ سینے پر باندھےغور سے سر تا پیر اسے دیکھنے لگی اور پھر بولی۔۔

"میں آپکو بلکل یاد نہیں کروں گی نیور۔۔" وہ گردن اٹھا کر ایک ایک لفظ چبا کر بولتے وہاں سے چلی گئ۔۔ عالیان نے جاتے ہوئے اسکے سر پر اوڑھے گلابی دوپٹے کو دیکھا جسے اس نے بڑے سلیقے سے حجاب میں لے رکھا تھا اور زخمی اندا ز سے مسکرایا۔۔

"شاید میں تمہیں یاد کروں۔۔ مجھے نہیں آنا چاہیے تھا۔۔" اس نے بہت سارا تھوک نگلا اور دوبارہ بیگ میں کپڑے ڈالنے لگا۔

 

●●●●●●●●●●●●

 

"حد ہی ہو گئ فائزہ مجھے کل کا کہہ کر تم نے آج کال کی ہے۔۔" جویریہ کان سے فون لگائے اور ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے ٹیرس کے چکر کاٹ رہی تھی۔

"یار اصل میں کل میرے سسرال والے آگئے تھے ورنہ میں نے تو تمہیں کال کرنی تھی پھر وہ لوگ رات کو لیٹ واپس گئے تھے میں نے سوچا تم سو گئ ہوگی ۔ پھر صبح یونیورسٹی چلی گئ اب واپس آئی ہوں تو۔۔۔" وہ ایک ہی سانس میں بولے جا رہی تھی تبھی جویریہ نے اسے روکا۔۔

"اچھا اچھا بس بس سمجھ گئ بڑی بزی تھی تم۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولی۔

"اور نہیں تو کیا بہت کام تھے مجھے۔۔" وہ صوفے پر لیٹے بالوں کی ایک لٹ انگلی پر گھماتے ہوئے بول رہی تھی۔

"خیر سے آئے تھے تمہارے سسرال والے؟؟"

"شادی کی تاریخ رکھنے کے لیے آئے تھے۔۔۔" وہ تھوڑا شرما کر بولی تھی۔۔

"ہائے سچی۔۔۔۔" جویریہ زور سے چیخی ۔

"ہاں ہاں بلکل سچ۔۔"

"اففف تم کتنے آرام سے بتا رہی ہو اتنی بڑی بات۔۔۔ بہت مبارک ہو۔۔ کب کی رکھی ہے ڈیٹ؟؟" وہ کافی ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے بول رہی تھی۔

"نومبر کے فسٹ ویک۔۔۔"

"ہائے ۔۔ یہ تو بہت لیٹ نہیں ہے ؟" وہ خفگی سے بولی۔۔

"ہاں ہے تو مگر عبید ابھی پاکستان نہیں آسکتے نا اس لیے۔۔"

"چلو کوئی بات نہیں اچھا ہے تیاری ہو جائے گی۔۔۔ یہ بتائو تم نے کل کیا ضروری بات کرنی تھی؟" اس نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا۔۔

"ارے ہاں اچھا یاد کرایا۔۔" وہ فوراً صوفے پر سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔ " اس لڑکی کے بارے میں بمشکل جو پتہ چل سکتا تھا بس وہی پتہ لگا پائیں ہوں۔۔"

"جیسے کہ؟؟؟" اس نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔

"جیسے کہ اسکے گھر کا ایڈریس اور اسکے فادر کے آفس کا ایڈریس۔۔ دونوں میرے پتے میں ہیں ۔" فائزہ فاتحانہ انداز سے بول رہی تھی۔۔

"زبردست اور؟؟"

"اسکے فادر گورنمنٹ آفیسر ہیں اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔۔۔ انکے بارے میں جتنا پتہ چلا ہے وہ کافی تو نہیں ہے مگر یہ کہ وہ ایک اکھڑ مزاج انسان ہیں اور اتنے زیادہ سوشل بھی نہیں ہیں ۔۔" وہ اسے آہستہ آہستہ ساری ڈیٹیل دیے جا رہی تھی جبکہ جویریہ غور سے اسے سن رہی تھی۔۔

"اور مزید کچھ؟؟" وہ اور بھی جاننا چاہتی تھی۔۔

"نہیں اور کچھ نہیں پتہ چلا۔۔ اسکے فادر اتنا سوشل نہیں ہیں جویریہ صرف یہی کچھ پتہ لگانے میں اتنا ٹائم لگا ہے مجھے اور تو اور اسکی فیملی کے بارے میں تو انکے آس پڑوس والے بھی کچھ نہیں جانتے۔۔۔" جویریہ نے اس کی بات پر سر جھٹکا۔۔

"یہ کافی نہیں ہے میرے پاس اسکے خلاف کیا ہے جو میں اسکے باپ تک پہنچائوں۔۔۔" اسکے چہرے پر ناگواری سی چھائی۔

"ڈونٹ ٹیک می ٹو ایزی جویریہ ڈارلنگ ۔۔۔ میرے پاس ایک ایسی چیز ہے جو اس انفارمیشن کے ساتھ کافی ہوگی اس لڑکی کو کبیر کی زندگی سے نکالنے کے لیے۔۔۔" وہ تھوڑا فاتحانہ انداز سے بولی۔

"کیا چیز؟؟" اس نے تیزی سے پوچھا جیسے اسے کوئی امید بندھی ہو۔۔

"میں تمہیں کچھ پکچرز بھیج رہی ہوں انہیں دیکھو اور سوچو کیا کرنا ہے۔۔۔" فائزہ یہ کہتے اسے واٹس ایپ پر پکچرز سینڈ کرنے لگی۔۔ جویریہ نے کان سے فون ہٹا کر اسکی سکرین اپنے سامنے کی جس پر فائزہ کے نمبر سے کچھ تصویریں دیکھ کر پہلے تو اسے شدید غصہ آیا اور تیوڑیاں چڑھائے ایک ایک کرکے انہیں دیکھنے لگی۔۔ وہ ہر اس پل کی تصویریں تھیں جب جب انابیہ اور کبیر ساتھ ساتھ تھے۔۔ کسی نے بہت ہی احتیاط اور چالاکی سے انکی چھپ کر تصویریں بنائیں تھیں۔۔

"کمبخت ہے تو واقعی خوبصورت۔۔۔ " وہ زیرلب بڑبڑائی۔

"اب ایک اور خبر سنو۔۔" فائزہ کی آواز پر اس نے فون دوبارہ کان سے لگایا۔

"اس لڑکی کی منگنی ہو چکی ہے۔۔" یہ ایسا جملہ تھا جس کی جویریہ کو بلکل بھی توقع نہیں تھیں۔۔

"منگنی؟؟ او مائی گاڈ۔۔" وہ کافی حیرت کا شکار ہوئی۔

"بھئ میرے تو جو کانوں نے سنا میں نے تمہیں بتا دیا اب تم اچھے سے جانتی ہو کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔ آج سے میرا کام ختم۔ کبیر اور انابیہ کے معاملے میں تم اب فائزہ کو نہیں جانتی سمجھی۔۔" وہ اسے وارننگ دینے کے انداز میں بولی۔۔

"تھینک یو سو مچ ۔۔۔ یہ سب کافی ہے بلکہ بہت کافی ہے اب تم دیکھتی جائو میں اس کے ساتھ کرتی کیا ہوں ۔۔فکر نہ کرو تمہارا نام نہیں آئے گا اس لیے میں ابھی کچھ نہیں کروں گی تھوڑا آرام سے تاکہ کبیر کا شک مجھ پر سے اور تم پر سے مکمل طور پر ہٹ جائے ۔۔ ابھی جی لینے دو انہیں کچھ دن پھر ایک ہی دفعہ سانس نکالوں گی۔۔۔" وہ روانی میں کہہ رہ تھی۔۔ سخت نفرت بھرا لہجہ تھا اسکا۔پھر اس نے کال کاٹ دی اسکا دماغ سوچوں میں چلا گیا۔۔

"گورنمنٹ آفیسر۔۔۔ سخت مزاج انسان۔۔ انابیہ کی منگنی۔۔" اسکی آواز قدرے دھیمی تھی۔ وہ جیسے لفظوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر یکدم اسکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی۔۔۔

 "میں سمجھ گئ تمہارا باپ کیسا انسان ہے۔۔ اور مجھے کیا کرنا ہے۔۔" وہ فون ٹھوڑی سے لگائے سوچوں میں گم ٹہلنے لگی۔چہرے پر عجیب سی خوشی تھی۔۔

 

●●●●●●●●●●●●

 

یہ ایک نیا دن تھا اور آج کے دن اسے واپس جانا تھا۔ وہ اس وقت اپنے کمرے میں تھا۔ وہ کافی بور ہو چکا تھا۔ گھر پر سوائے ناہیدہ کے کوئی تھا ہی نہیں۔ انابیہ یونیورسٹی گئ تھی۔ ردا اور مناہل بھی کالج گئے تھے اور احمد صاحب بھی آج ضروری کام سے آفس گئے تھے۔ وہ موبائل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا تبھی اسے انابیہ کا میسج آیا۔۔

"اوکے آتی ہوں۔۔"اس نے کچھ دیر پہلے انابیہ کو جلدی آنے کا میسج کیا تھا یہ اسی میسج کا جواب تھا۔ کچھ دیر مزید انتظار کرنے کے بعد وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکلا اور سیڑھیاں پھلانگتے نیچے کے پورشن میں آگیا۔۔کمرے میں تو جیسے اس کا سانس بند ہو رہا تھا۔ وہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا تبھی اس کی نظر بائیں طرف کمرے میں کھڑی سفید بڑی سی چادر میں لپٹی ایک عورت پر پڑی جو نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ راحیلہ تھی۔ اس کا رنگ فق سے اڑا۔ بےساختہ قدم اٹھاتے وہ اندر جانے لگا۔ دروازے میں کھڑے ہو کر اس نے غور سے دیکھا وہ راحیلہ نہیں ناہیدہ تھی۔ وہ تشہد کی حالت میں بیٹھی تھی اور وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ان کے ساتھ فرش پر آ بیٹھا۔۔ انہوں نے سلام پھیرا اور پھر اپنے ساتھ بیٹھے وجود کو دیکھا جس کی آنکھیں نم تھیں۔۔

"ایک پل کے لیے مجھے لگا یہاں موم کھڑی ہیں۔۔۔" اس کی تر نظریں جائے نماز پر ٹکی تھیں۔۔

"تمہیں ان کی یاد آرہی ہے؟؟" ناہیدہ نے بڑی نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔ وہ آنکھیں بند کر گیا۔۔

"کب نہیں آتی۔۔" وہ زخمی سا مسکرایا۔۔ "آپ میں مجھے وہی دکھتی ہیں۔۔"

"تو مت جائو میرے پاس ہی رہ جائو۔۔ " ان کی آنکھیں بھی نم ہو نے لگی تھیں۔۔

"کیسے؟؟ کیسے رہ لوں یہاں؟؟ نہیں رہ سکتا اس شہر میں جہاں ان کا قتل ہوا تھا۔۔۔ اس ملک میں کیسے رہ لوں جس کا قانون انہیں انصاف نہیں دلا سکا۔۔" وہ اب باقاعدہ رو رہا تھا۔۔ ناہیدہ بس آنسو بہاتی اسے دیکھ رہی تھیں۔۔۔

"میرے ڈیڈ اتنے بڑے بزنس مین ہو کر کچھ نہیں کر سکے ان کے لیے۔۔ چچا جان کچھ نہیں کر سکے۔۔۔ میں کچھ نہیں کر سکا خالہ۔۔ ان کا قاتل سرعام گھوم رہا ہوگا آزادی سے اور ہم۔۔ہم صرف روز آنسو بہاتے ہیں۔۔" اس کے لہجے میں شکوہ ہی شکوہ تھا خود کے لیے ۔ سب کے لیے۔۔ اسے سب سے گلہ تھا۔ اور سب سے دور رہنے کی یہی وجہ تھی وہ سب کو سزا دے رہا تھا وہ خود سزا دے رہا تھا۔

"چپ ہو جائو عالیان مت رو ایسے۔۔ اللہ ہے نا وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے۔۔" اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ پلکیں آنسوؤں سے بھاری ہوگئ تھیں۔

"اللہ چاہتا تو یہ سب نہ ہوتا نا۔۔ اس نے کیوں لے لی مجھ سے میری ماں؟؟ وہ کیوں نہیں کرتا میری مدد؟؟" وہ اس حد تک ناامید ہو چکا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔۔

"تم کرتے ہو اس سے دعا؟؟" ناہیدہ نے اس سے پوچھا وہ بس خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھے گیا۔۔

"نہیں۔۔ نہیں کرتا میں۔۔" اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڑگڑا اور آنسو صاف کیے۔۔ ناہیدہ افسوس سے اسے دیکھے گئ۔۔کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو دونوں نے مڑ کر دیکھا وہاں انابیہ کھڑی تھی۔۔ عالیان اپنی جگہ سے اٹھا اور مڑ کر وہاں سے جانے لگا۔ انابیہ نے ایک نظر اس کے چہرے کو دیکھا وہ سمجھ گئ کہ وہ روتا رہا تھا۔ اس کے جاتے ہی وہ ناہیدہ کے پاس گئ۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی ناہیدہ خود بولنے لگی۔۔

"وہ ٹوٹا ہوا ہے۔۔" انہوں نے کہا اور پھر آگے بڑھ کر انابیہ کا چہرہ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ "تم اسے سنبھال لو گی نا۔۔" وہ پوری آنکھیں کھولے انہیں دیکھے گئ۔۔

"وقت اسے سنبھال لے گا۔۔ وقت سب کو سنبھال لیتا ہے۔۔۔" اس نے انہیں کوئی جھوٹی امید نہیں دلائی۔۔ کوئی جھوٹی آس نہیں لگائی۔۔اور وہاں سے چلی گئ۔ اس کا ارادہ سیدھا اپنے کمرے میں جانے کا تھا لیکن اس کا نرم دل افف۔۔ بیگ وہیں لائونج میں صوفے پر پھینک کر وہ سیڑھیاں پھلانگتے اوپر گئ۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ دیکھ سکتی تھی عالیان صوفے کی پشت پر سر گرائے آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ ٹھنڈی آہ بھر کے اس نے دروازے پر دستک دی تو عالیان نے فوراً سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اندر گئ اور سیدھا اس کے سامنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گئ۔

"تم ٹھیک ہو؟" اس کا انداز فکریہ تھا۔ عالیان سیدھا ہو کر بیٹھا۔

"مجھ جیسا انسان کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ مجھے تنہائی کی عادت ہو گئ ہے سو تم جا سکتی ہو۔۔" اس نے سپاٹ سے لہجے میں بنا اس کی پرواہ کیے کہا۔

"اگر کوئی مسئلہ ہے تو تم مجھ سے شئیر۔۔"

"تم کچھ نہیں جانتی انابیہ اور مجھے تمہارے قسمت پر رشک آتا ہے کہ تم ہر بات سے انجان ہو۔۔" وہ درشتی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ انابیہ پیشانی پر بل لیے اسے دیکھنے لگی۔ "چلی جائو انابیہ خوامخواہ مجھ سے کوئی بدتمیزی ہو جائے گی اور میں تمہیں مزید ہرٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔" اس کے کہتے ہی انابیہ بنا کچھ بولے تابعداری سے سر ہلاتے ہی کمرے سے نکل گئ۔۔عالیان افسوس بھری نگاہوں سے دروازے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ ابھی ابھی گئ تھی۔ اس کا دل کیا کہ پاگلوں کی طرح روئے۔ اسے کیا ہو گیا تھا وہ خود اپنوں کا دل دکھاتا تھا۔ بس وہ جلد سے جلد یہاں سے جانا چاہتا تھا۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

"خالہ اب آپ ایسے دکھی ہوں گی تو مشکل ہو جائے گی۔۔"احمد صاحب کے گھر کے تمام افراد اس وقت لائونج میں موجود تھے کیونکہ عالیان واپس جانے کے لیے تیار کھڑا تھا تبھی اس نے ناہیدہ بیگم کا اداس چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔

"تو مت جائو نا کچھ اور دن رہ لو۔۔" وہ آنکھوں میں آنسو لیتے ہوئے بولیں۔۔

"مجبوری نہ ہوتی تو ضرور رکتا۔۔" اس نے یہ جملہ کہتے ہوئے ایک نظر ردا کو دیکھا جیسے وہ اس سے کچھ کہہ رہا تھا لیکن ردا اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔

"چھوڑو بھی ناہیدہ کوئی جا رہا ہو تو اسے خوشی خوشی سفر پر بھیجتے ہیں۔۔ بھائی جان کے ساتھ بھی تو تھوڑا وقت گزارے۔۔" احمد صاحب اپنی بیگم کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔

" آپ فکر نہ کریں دوبارہ جب بھی فری ہوں گا آپ کے پاس ضرور آئوں گا وعدہ۔۔۔" وہ انکے گرد اپنا حصار باندھتے ہوئے بولا جس پر وہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلانے لگیں۔

"یہ ہوئی نا بات پھر مجھے اجازت دیں۔۔۔ فلائٹ نکل جائےگی۔۔۔"

"ہاں چلو میں گاڑی نکالتا ہوں۔۔" احمد صاحب ٹیبل پر سے اپنا موبائل اور گاڑی کی چابیاں اٹھاتے ہوئے بولے۔۔

"بھائی میں بھی جائوں گی آپکو ائیر پورٹ چھوڑنے۔۔" مناہل فوراً عالیان کے سامنے آتے ہوئے معصومیت سے بولی۔۔

"کیوں نہیں گڑیا چلو تم بھی ساتھ۔۔" عالیان نے اسکے سر پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"تم دونوں میں سے کوئی جانا چاہتا ہے ساتھ؟؟" احمد صاحب ساتھ کھڑی انابیہ اور ردا سے مخاطب تھے۔۔ اس سے پہلے کہ وہ انکار کرتیں عالیان فوراً بول پڑا۔۔

"ردا جانا چاہتی ہے چچا جان اس نے مجھ سے کہا تھا۔۔" وہ شرارتی مسکراہٹ لیے اسے دیکھنے لگا جبکہ آج تو واقعی ردا کا دل کیا کہ ٹانگیں توڑ ہی دے اسکی جبکہ انابیہ کی ہنسی چھوٹی تھی لیکن پھر جب ردا کی غصیلی نظر اس پر پڑی تو وہ ایک دم سیریس ہو گئ۔۔

"ہاں ٹھیک آئو تم لوگ میں گاڑی نکالتا ہوں۔۔۔" وہ باہر جانے لگے تو ردا بھی پیر پٹختی انکے پیچھے چل دی اور مناہل بھی خوشی خوشی جانے لگی جبکہ عالیان قدم بڑھاتا انابیہ کے سامنے کھڑا ہوا۔۔

"اوکے پھر چلتا ہوں انابیہ اپنا خیال رکھنا۔۔" وہ ناہیدہ بیگم کی موجودگی کی وجہ سے تھوڑا اونچا بولا۔ "تم نہیں چلو گی ساتھ؟" اس کے پوچھنے پر انابیہ نے مسکراتے ہوئے سر نفی میں ہلایا۔ "جیسی تمہاری مرضی۔۔میں تمہیں یاد کروں گا پارٹنر لیکن تم سے زیادہ تمہاری ہٹلر بہن یاد آئے گی مجھے۔۔" وہ تھوڑا جھک کر نہایت آہستہ آواز میں آنکھ کو ونگ کرتے ہوئے بولا۔

"اچھے سے سمجھ گئ ہوں میں تمھارے ارادے ۔۔" اس نے بھی دھیمی آواز میں اس سے کہا۔۔۔ جس پر وہ ہنس دیا اور وہاں سے جانے لگا جبکہ وہ نہیں ہنسی تھی اور سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی اندر جاتے اس نے دیکھا کہ اسکا فون مسلسل بج رہا تھا۔ اس نے بیڈ پر سے فون اٹھایا اور ان نون نمبر دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر آخر کار کال اچک لی۔

"ہیلو۔۔۔ کون بول رہا ہے؟؟" انابیہ نے سخت لہجے میں پوچھا۔

"وہی جو آپکی محبت میں گرفتار ہے وہی جو آپکی آنکھوں پر فدا ہے وہی جسکا سر اب تک آپکی ماری ہوئی نوٹ بک اور بازو آپ کی ماری ہوئی بال کی وجہ سے دکھ رہا ہے۔۔" وہ روانی میں بولےجا رہا تھا جبکہ انابیہ کا حیرت سے منہ کھل گیا وہ اس کی آواز دو سیکنڈز میں پہچان گئ تھی اس نے فون کان سے ہٹا کر اسے گھورا اور پھر کمرے میں نظر دوڑانے لگی وہاں کوئی نہیں تھا تبھی اس نے سکون کا گہرا سانس لیا اور پھر تیز قدم لیتی دروازے کے پاس گئ اور باہر جھانک کر اسے لاک کر دیا اور دوبارہ فون کو کان سے لگایا۔۔

"کیا ہوا پہچانا نہیں تھوڑا اور انٹروڈکشن دوں؟" کبیر کوئی جواب نہ ملنے پر دوبارہ بولا۔

"تم۔۔۔ تم نے مجھے کال کیسے کی؟؟" وہ تھوڑا غصے مگر دھیمی آواز میں بولی۔۔

"یقین جانو کال کرنا مشکل نہیں ہے بہت آسان ہے ۔۔" اس دنیا میں ایک ہی ڈھیٹ تھا وہ تھا کبیر جہانگیر۔۔

"حد ہے۔۔۔ نمبر کس نے دیا تمہیں؟؟" وہ ایک کے بعد ایک سوال کیے جا رہی تھی۔۔

"دی ون اینڈ اونلی زارا مبین نے۔۔۔" وہ ڈھٹائی سے اسے تنگ کیے جا رہا تھا۔۔

"اس زارا کی بچی کی تو میں۔۔۔۔" وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔

"یار اسے معاف کردو۔۔ میں نے زبردستی لیا ہے۔۔"

"ہاں تمہیں بھی اچھے سے جانتی ہوں میں۔۔"

"اچھا واقعی۔۔ "

"جی بلکل۔۔"

"ویسے تمھارے گھر کی کھڑکیاں بہت پیاری ہیں سوچو تم یہاں سے شہزادی کی طرح کھڑی باہر جھانکو اور میں شہزادے کی طرح نیچے کھڑا تمہیں دیکھوں ۔۔ افففف کیا سماں ہوگا۔۔۔" وہ مزے لے کر بول رہا تھا جبکہ انابیہ کو لگا کہ اسکے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئ ہو وہ فوراً کھڑکی کی طرف بھاگی اور باہر جھانکنے لگی پہلے دائیں دیکھا پھر بائیں اس نے ہر طرف دیکھ لیا تھا لیکن باہر انسان نام کی کوئی چیز نہیں تھی اسکی تو جیسے روح جسم سے نکل کر دوبارہ داخل ہوئی تھی۔۔

"جھوٹے باہر تو کوئی نہیں ہے کہاں ہو تم؟؟" وہ فون کان سے لگاتے پھر اس پر برسی۔

"تمھارے دل میں۔۔" وہ یکدم مسکراتے ہوئے بولا جبکہ انابیہ کا دل کیا اسکا سر ہی پھاڑ دے جا کر۔۔

"کیا ہوا نہیں ملا غور سے ڈھونڈو وہیں ہوگا سوائے تمہارے دل کے میرا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے۔۔" اس کے بعد اسکا زوردار قہقہہ گونجا۔۔" تم تو واقعی ڈر گئ بھلا میں وہاں کیوں آئوں گا بیا اور ویسے بھی مجھے ایڈریس نہیں معلوم۔۔۔" وہ ہنستے ہوئے بمشکل بول پا رہا تھا۔۔

"ہاں تو یہ بھی پوچھ لو زارا سے۔۔" وہ ہونہہ کہ انداز میں بولی۔

"مجھے فلحال ضرورت نہیں ہے جب آئوں گا تو ایسے آئوں گا کہ دنیا دیکھے گی۔۔" انابیہ اسکی اس بات پر ہلکا سا مسکرائی۔

"تب کی تب دیکھی جائے گی۔۔" وہ اسی طرح مسکراتے ہوئے بولی۔

"دیکھ لینا۔۔۔ ہاں یاد آیا تمھارا کبھی نہ ہونے والا منگیتر کہاں ہے؟" وہ ایک ہاتھ جیب میں ڈالے لان کی گھاس پر چل رہا تھا۔

"وہ تو چلا گیا ۔۔ بلکہ ابھی ہی گیا ہے۔۔"

"چلو شکر یہ ٹینشن تو گئ۔۔۔ قسم سے جب تک وہ یہاں تھا مجھے تو عجیب عجیب سے خیال آتے تھے۔۔" اس نے شکر کا سانس لیتے ہوئے کہا۔۔

"ہاں اچھا ہوا۔۔۔ ویسے تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی اسے مجھ میں واقعی کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔" وہ بولتے بولتے بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔

"تو ظاہر ہے میری دعائیں کام کر رہی ہیں میرے علاوہ تم کسی اور کو پسند آئو گی بھی نہیں۔۔" وہ اسے چھیڑنے کے انداز میں بولا۔۔

"کیا مطلب ہے تمھاری اس بات کا ؟؟"

"مطلب اب ہر کسی کی پسند کبیر جہانگیر جیسی تو نہیں ہو سکتی نا۔ کوئی تمہیں مجھ سے زیادہ نہیں چاہ سکتا۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے زرا اترا کا بولا۔

"اوہ تو یہ بات ہے۔۔۔۔ یہ بتائو کال کیوں کی تھی؟؟" وہ فون کان سے لگائے اسی طرح بیڈ پر ڈھے گئ۔۔

"ایسے ہی میرا دل کر رہا تھا۔۔ اب دل کچھ کہے تو اس کی سننی تو پڑتی ہے۔۔" کیا معصومانہ انداز تھا اس کا!!!!

"ویسے اتنی عادت اچھی نہیں ہوتی۔۔۔"

"کیوں نہیں ہوتی؟؟"

"کچھ بھی ہو سکتا ہے مطلب کچھ بھی۔۔" اسے خود سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔۔۔

"کیا کہنا چاہتی ہو ذرا تفصیل دینا پسند کرو گی؟؟" اب کی بار وہ سنجیدہ تھا۔۔

"مطلب اگر میں کہیں چلی جائوں تم چلے جائو تو کیا کرو گے تم؟؟" وہ صرف اسے تنگ کرنے کے انداز میں مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی لیکن وہ واقعی سنجیدہ ہو گیا تھا۔۔

"زیادہ فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں کیوں جائوں گا کہیں اور اگر تم گئ کہیں بھی مجھے چھوڑ کے تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ انا کا سخت برا انسان ہوں۔۔" وہ سخت لہجے میں کہہ رہا تھا جبکہ انابیہ نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔

"اچھا جی۔۔۔ مجھے تو لگا تم کہو گے نہیں بیا تم اگر مجھے چھوڑ کر گئ تو میں مر جائوں گا تمھارے بغیر جی نہیں سکوں گا۔۔" وہ ڈرامائی انداز میں بول رہی تھی۔۔

"ویری فنی ۔۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں مر جاؤں گا مگر ہاں میری زندگی موت سے بدتر ہوگی۔۔۔" وہ یکدم چپ سی ہو گئ ۔۔۔ایک خوف کے گرد گھر گئ۔۔۔

"توبہ توبہ اتنی خطرناک باتیں نہ کرو۔۔" اس نے جھرجھری لے کر سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔۔

"توبہ توبہ تم نے ہی شروع کی تھیں۔۔" وہ کندھے اچکا گیا۔۔

"اب میں ہی کہہ رہی ہوں نا۔۔ کچھ اور بات کرو۔۔"

"سیریسلی تم مزید باتیں کرنا چاہتی ہو میرے ساتھ ۔۔ کیا بات ہے۔۔"

"شکر کرنا چاہیے تمہیں اس بات کا۔۔۔ خیر آج تو تم نے ایسے اچانک کال کی ہے آیندہ دھیان رکھنا میری بہنیں ہر وقت میرے سر پر ہوتی ہیں ردا تو سب جانتی ہے مگر پھر بھی مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔" انداز تنبیہی تھا۔

"اوکے اوکے سمجھ گیا اور کوئی حکم؟؟" وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔۔ وہ کافی دیر اس سے اسی طرح باتیں کرتی رہی۔۔

 

●●●●●●●●●●●●●

 

نیلے رنگ کا آسمان بلکل صاف تھا جس پر ہلکے ہلکے سفید خوبصورت بادل تیر رہے تھے ایسے میں وہ گرائونڈ میں موجود ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ مکمل طور پر اپنے سامنے کھلے لیپ ٹاپ کی سکرین میں گم تھی۔ سفید قمیض شلوار اور سفید دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ ادھر ادھر سے بلکل بےگانہ تھی تبھی اس کی آنکھوں کے سامنے ایک خوبصورت گلاب کا پھول نمودار ہوا۔ اس کی نظریں سکرین سے ہٹ کر اس ہاتھ پر رکیں جو پھول کو اس کی ڈنڈی سے پکڑے ہوئے تھا۔ پھول تھامنے سے پہلے اس نے گردن گھما کر دیکھا تو اس کی بھوری آنکھیں شہد رنگ آنکھوں سے ٹکرائیں۔ عین اس کے پیچھے کھڑےکبیر کے چہرے پر سجی مسکراہٹ دیکھتے اس نے سر نفی میں ہلایا اور دوبارہ گردن سامنے موڑ کر پھول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ کبیر گھوم کر اب اس کے ساتھ ہی بینچ پر آ بیٹھا۔۔

"ہائو بیوٹی فل اٹ از!!" وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے اس سرخ گلاب کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی تبھی اس نے کبیر کو دیکھا جو اس کے سامنے ایک ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھے گئ۔

"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ میں نے تمہیں پھول دیا ہے اب تم بھی مجھے کچھ دو۔۔" پھول دینے والا شکایت کر رہا تھا۔۔

"کیوں آج کوئی خاص دن ہے؟؟" وہ تعجب سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔

"ضروری نہیں ہے کہ انسان کسی خاص دن ہی کسی کو کچھ دے۔ مجھے تمہارے لیے یہ پھول پسند آیا میں لے آیا اب تمہیں بھی تو کچھ دینا چاہیے نا مجھے۔۔" وہ خفگی سے بول رہا تھا۔

" اب مجھے کیا الہام ہونا تھا کہ تم میرے لیے پھول لا رہے ہو ۔۔"

"رہنے دو انابیہ میڈم دل بڑا ہونا چاہئے ورنہ دینے کے لیے انسان کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے۔۔" وہ روٹھنے کے انداز میں ہاتھ سینے پر باندھے پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ منہ کھولے اسے دیکھی گئ۔۔ پھول دینے والا ناراض ہو گیا تھا۔۔

"ایسی بات نہیں ہے میرا دل بہت بڑا ہے اتنا کہ کہ۔۔" وہ جیسے رک کر سوچنے لگی۔" کہ میں تمہیں یہ پورا درخت دے سکتی ہوں وہ بھی جڑوں سمیت۔۔۔" وہ اپنے بائیں طرف ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زرا اترا کر بولی۔ کبیر نے گردن بائیں طرف گھما کر اس درخت کو حیرت سے دیکھا اور پھر اسے جیسے کہہ رہا ہو مذاق کر رہی ہو نا۔۔

"نہیں نہیں یہ اپنی جگہ پہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔" اس کے بولتے ہی انابیہ زور سے ہنس دی۔۔ وہ ہنس ہنس کر دوہری ہو رہی تھی۔۔

"میں نے کون سا دے دینا ہے میں تو بتا رہی تھی کہ دیکھو میرا دل کتنا بڑا ہے۔۔" کبیر نے پھر ایک خفا خفا نگاہ اس پر ڈالی اور خفگی سے چہرہ دوسری طرف موڑ گیا۔۔

"اچھا اچھا ٹھیک ہے میرے پاس شاید کچھ ہے۔۔" اس نے لیپ ٹاپ اپنے سائڈ پر رکھا اور جھک کر بیگ کی سامنے والی جیب ٹٹولنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں اس نے اس جیب میں سے ایک انگوٹھی برآمد کی۔ بلیک کلر ایک کوپر کی رنگ جس کے درمیان میں سنہری سی لکیر بنی تھی انابیہ نے دو انگلیوں میں پکڑ کر اس کے سامنے کی۔ کبیر نے آنکھیں چھوٹی کیے اس انگوٹھی کو دیکھا اور پھر انابیہ کو۔

"کسی کو رنگ دینے کا مطلب تو جانتی ہو نا تم؟" وہ شرارتی انداز سے انابیہ کو دیکھتے ہوئے بولا۔ اس کا چہرہ ایک دم سرخ ہوا۔۔

"بہت اچھے سے جانتی ہوں لیکن اس کے علاوہ اب اور کچھ ہے نہیں میرے پاس اگر تمہیں نہیں چاہئیے تو۔۔۔" اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کبیر نے اس کے ہاتھ سے وہ رنگ جھپٹ لی اور تیزی سے اپنی انگلی میں پہن لی۔ انابیہ نے حیرت سے اس کی انگلی میں پہنی اس انگوٹھی کو دیکھا جو اسے بلکل فٹ آئی تھی جیسے خاص طور پر اس کا ناپ لے کر بنائی گئ ہو۔۔

"یہ تم نے اسپشل میرے لیے خریدی ہے نا۔۔" اس کی آواز پر وہ سیدھی ہوئی۔

"بلکل بھی نہیں یہ تو مجھے شاپ میں پسند آئی تھی افسوس سے مجھے پوری نہیں تھی ۔۔" وہ کندھے اچکاتے ہوئے تھوڑا افسوس کرتے ہوئے بولی۔

"ویل۔۔ تو تم نے خریدی کیوں؟؟"

"کہا نا پسند آگئ تھی۔ اب اگر کچھ پسند آجائے تو دل اسے چھوڑنے پر کہاں مانتا ہے۔۔"

"بلکل اب کوئی پسند آجائے تو دل اسے چھوڑنے پر کہاں مانتا ہے۔۔" یہ بات اس نے مسکراتے ہوئے انابیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہی تو وہ جھینپ کر نظریں چرا گئ۔ پھر جیسے کچھ یاد آتے ہی چونک کر اس کی طرف گھومی۔۔

"تم نے ایک بات نوٹ کی یہ تمہارے نصیب میں تھی اسے تم تک آنا تھا۔ یہ میری انگلی کے لیے نہیں بنی تھی مگر پھر بھی میں نے خرید لی کیونکہ میرے ذریعے اسے تم تک پہنچنا تھا۔۔" وہ بلا کی معصوم تھی اور وہ یہ اقرار چیخ چیخ کر کر سکتا تھا۔۔

"بلکل جیسے تم میرے نصیب میں ہو اور تم مجھ تک ضرور آئو گی۔۔" وہ ایک پل کے لیے خاموش رہ گئ۔ کیا یہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے؟ کیا وہ اس کے نصیب میں ہو سکتی ہے؟ لیکن کیسے اتنے اچھے نصیب کیسے؟ اس کے زہن میں پھر سے بہت سے سوال گردش کرنے لگے تھے وہ رخ موڑ کر دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔۔

"بائے دا وے تم میرے سوال کا جواب کب دو گی؟" کبیر کی آواز پھر اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔

"تمہارے سوال کا جواب نہیں دے سکتی کیونکہ مجھے خود بھی نہیں پتہ کہ اس سوال کا جواب مجھے کیا دینا چاہیے۔۔" وہ اب کی بار تھوڑے پھیکے انداز میں بولی۔

"ہر سوال کا جواب صحیح دینا چاہیے۔ تمہیں بھی جو درست لگتا ہے وہ جواب دو بیا لیکن جو سوال میرا ہے اس کا جواب دماغ سے نہیں دل سے پوچھ کر دو۔۔"

"اور دل کی آواز مجھ تک پہنچتے پہنچتے مر جاتی ہے۔ دل کی بات میرے منہ تک نہیں پہنچ پاتی۔۔" اسے لگا اس کی آواز بھیگنے لگی ہے۔۔

"ٹھیک ہے اگر تم مزید وقت لینا چاہتی تو لے لو اتنا پریشان مت ہو۔۔" وہ اب اپنی انگلی میں پہنی اس انگوٹھی کو دیکھنے لگا۔ انابیہ نے ایک پل کے لیے بھی اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹائیں ۔۔

"جب تم میرے ساتھ ہوتے ہو تو مجھے اچھا لگتا ہے۔۔" کبیر نے چونک کر سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ " میرا دل کرتا ہے کہ میں تمہاری باتیں سنتی رہوں۔۔" ایک ہلکی سی ہوا ان دونوں کو چھو کر گزری تھی۔ اس نے اس پر سے نظریں ہٹا لیں مگر کبیر یک ٹک اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور اب وہ نظریں پھول پر جھکائے اس کی پتیوں کو نرمی سے سہلا رہی تھی۔ وہ اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔

"تم آس پاس ہوتے ہو تو میں خود کو محفوظ سمجھتی ہوں۔ اس خیال کو سوچ سوچ کر بہت خوش ہوتی ہوں کہ تم سے زیادہ محبت مجھ سے کوئی نہیں کر سکتا۔۔" بولتے بولتے اس نے جھک کر بیگ میں سے اپنی ڈائری نکالی۔ "مجھے خود سے محبت نہیں تھی لیکن تمہاری محبت نے مجھے خود سے محبت کرنا سکھا دیا ہے۔۔" سیاہ ڈائری اب اس کے ہاتھوں میں تھی۔۔

"یونیورسٹی سے جا کر بھی میں صرف تمہیں سوچتی ہوں۔۔" وہ اب ڈائری کے صفحے پلٹ رہی تھی۔۔

"ہر لمحے اس بات سے ڈرتی رہتی ہوں کہ بس وہ وقت کبھی نہ آئے جو تمہیں مجھ سے دور کر دے۔۔" صفحوں کے عین درمیان میں اس نے گلاب کو رکھا اور ڈائری بند کر کے اس نے گردن دوبارہ اس کی طرف گھمائی ۔

"کیا یہ تمہارے سوال کا جواب ہے؟؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی جس پر اس نے محض سر اثبات میں ہلایا۔ وہ کچھ بول نہیں سکا یا شاید الفاظ نہیں تھے۔ مجھے تم سے محبت ہے، مجھے تم سے عشق ہے، آئی لو یو۔۔یہ وہ سرسری اور شاٹ کٹ جملے نہیں تھے۔ یہ اس کی پوری کہانی تھی۔ یہ اس کے خالص جزبات تھے جو بلآخر اس کی زبان پر آہی گئے تھے اور یہی جملے تو تھے اس کے سوال کا مکمل جواب جو دماغ سے نہیں دل سے پوچھ کر دیے گئے تھے۔

"آسمان کتنا صاف ہے نا۔۔" وہ اب کی بار سر آسمان کی طرف اٹھائے بیٹھی تھی۔۔

"صاف، پرنور، بے داغ اور بلا کا خوبصورت!!" کبیر صرف اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔

"مجھے آسمان پر تیرتے ہوئے سفید بادل بہت پسند ہیں۔۔" وہ ہنوز آسمان میں بادلوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔

"مجھے بھی یہ سفید چہرہ بہت پسند ہے۔۔" لفظ چہرہ سنتے ہی انابیہ نے اسے دیکھا۔

"میں آسمان کی بات کررہی ہوں۔۔" وہ جیسے اسے یاد دلاتے ہوئے بولی۔۔

"اور میری بات تم سے شروع ہو کر تم پر ختم ہو جاتی ہے۔۔" وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا تو وہ جھینپ کر مسکرا دی اور دوبارہ سے اپنا لیپ ٹاپ ہاتھ میں لیے بیٹھ گئ۔ وہ اب بھی ویسے ہی اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ ساری عمر بھی اس کے ساتھ بیٹھا رہے تو بھی اس کا دل کبھی نہ بھرے۔۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

دن گزر ہی جاتے ہیں اچھے برے جیسے بھی۔۔

وقت بھی چلتا رہتا ہے کیونکہ اسکا کام ہوتا ہے چلتے رہنا ۔۔

وقت کسی کے لیے نہیں رکتا ۔۔

ہم رکتے ہیں وقت کے لیے ہم کرتے ہیں انتظار صحیح وقت کے لیے۔۔

 بھلا وقت نے کب کیا ہے کسی کا انتظار ۔۔

وقت کبھی اجازت مانگ کر نہیں آتا۔۔

وہ بس آجاتا ہے۔۔ اچھا بن کر یا برا بن کر۔۔

اور یہی اس کی اچھی بات ہے۔۔

کہ وقت بدلتا رہتا ہے۔۔ کبھی اچھا کبھی برا۔۔

ان سب کا وقت بھی گزر ہی رہا تھا دن گزرتے گئے۔۔ عالیان واپس امریکہ جا چکا تھا۔۔ جویریہ واپس اپنے گھر جا چکی تھی۔۔ اگر کوئ چیز بڑھی تھی وہ تھی محبت انکی محبت جس نے بڑھنا تھا وقت کے ساتھ وہ بھی بڑھتی گئ اتنی کہ اب جدائ تکلیف دہ ہو سکتی تھی۔ سب کچھ پہلے کی طرح نارمل تھا لیکن کب تک وقت نے پلٹا بھی تو کھانا تھا نا ۔

وہ اس وقت اپنے امریکہ والے اپارٹمنٹ میں تھا۔ اس کے بکھرےبکھرے بال اور ادھ کھلی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ ابھی سو کر اٹھا ہے۔ گرے بغیر آستینوں کی شرٹ اور بلیک ٹرائوزر پہنے عالیان نے لائونج کے ووڈن فلور پر قدم رکھتے ہی ایک زوردار انگڑائی لی اور تبھی اس کی نظر سلائیڈنگ patio ڈور سے باہر کے منظر پر ٹھہری۔ قریب جا کر اسے معلوم ہوا کہ باہر بارش ہوتی رہی ہے بلکہ ہلکی ہلکی بوندا باندی اب بھی جا ری ہے۔ آسمان پر سیاہ بادلوں کا بسیرا تھا اور زمین پوری طرح گیلی تھی۔ اس سوسائٹی میں اور بھی اپارٹمنٹس تھے لیکن فلحال پوری سوسائٹی خاموش سی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے ڈور کے بلکل سامنے تھوڑا سا سبزہ تھا یا یوں کہہ لیں ایک چھوٹا سا لان تھا۔ جب سے وہ پاکستان سے آیا تھا تب سے اسے سبز رنگ میں کچھ کشش سی معلوم ہوتی تھی وجہ بھی وہ اچھے سے جانتا تھا ایون کہ امریکہ آنے سے پہلے وہ کراچی میں اپنا کمرہ بھی سبز اور سیاہ رنگ کی تھیم میں سجا آیا تھا۔ اس نے اب تک ڈور کھولا نہیں تھا اس سے پہلے وہ وہاں سے پلٹتا اس کی نظر سامنے چھتری کے سائے میں بھاگتی ہوئی ایک لڑکی پر ہمیشہ کی طرح آج بھی رکی جو اپنے اپارٹمنٹ کی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس میں غور کرنے والا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا سوائے ایک چیز کے۔۔ اس کا حجاب!! یقیناً وہ اسے کسی کی یاد دلاتا تھا۔ سر جھٹک کر اس نے پردے کھینچ دیے۔ یہ پردے پہلے یہاں نہیں ہوتے تھے بھلا باہر کا خوبصورت منظر چھپانے کے لیے کوئی پردے کیوں لگاتا؟ لیکن پاکستان سے آنے کے بعد عالیان کو صرف اس حجاب والی لڑکی کی وجہ سے لگانے پڑے جو آئے روز اسے نظر آتی تھی اور وہ بغور اسے دیکھنے لگتا تھا جبکہ وہ پہلے بھی وہاں آتی جاتی اسے نظر آتی تھی لیکن اب وہ اسے کسی کی یاد دلاتی تھی۔۔ اس کے بعد وہ سیدھا کچن کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا اپارٹمنٹ چھوٹا مگر خوبصورت تھا۔ اسے اپنے لیے کافی بنانی تھی۔ ابھی اس نے ایک کپ نکال کر کائونٹر پر رکھا ہی تھا کہ اسے بیل کی آواز سنائی دی۔ اس کے کندھے ایک دم کوفت سے ڈھیلے پڑ گئے۔ دروازےپہنچ کر اس نے دیوار پر لگے ڈیوائس پر فوراً ڈور کا بٹن دبا دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس وقت کون آسکتا ہے۔ سر جھٹک کر وہ دوبارہ کچن کائونٹر کی طرف بڑھ گیا۔ ٹھیک پانچ منٹ کے بعد دروازہ کھلا اور ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اندر آتے ساتھ ہی اس نے لونگ کوٹ اتارا جو کافی گیلا تھا سر پر سے beret اتارا اور دونوں چیزیں بلکل دروازے کے ساتھ والی الماری کے اندر لٹکا دیں۔ سب سے آخر میں اس نے اپنے لونگ شوز اتارتے ہوئے بائیں طرف کھڑے عالیان کو دیکھا جو کپ میں چمچ چلاتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر فوراً سے مسکرا دی۔ شوز اتار کر کونے میں رکھے اور بھاگتے ہوئے عالیان کے گلے جا لگی۔ اتنا زور سے کہ اسے سنبھلنے تک کا موقع نہ ملا۔۔

"تم تو روز ایسے ملتی ہو جیسے بڑے دنوں بعد ملی ہو۔۔" وہ جب پیچھے ہوئ تبھی عالیان نے اس نیلی آنکھوں والی لڑکی سے کہا جس کے سنہرے بال کافی گیلے تھے۔

"یو ہیو نو آئیڈیا میرے لیے یہ کچھ گھنٹے بھی دنوں کے حساب سے ہوتے ہیں۔۔" وہ اس سے زیادہ تر اردو میں بات کرتی تھی ۔ وہ اردو بولنا جانتی تھی اسکی وجہ اسکے باپ کا پاکستانی ہونا تھا جنہوں نے ایک امریکن عورت سے شادی کی تھی۔ اپنے بچپن کے دس سال اس نے پاکستان میں گزارے تھے باقی کے یہیں امریکہ میں۔۔

"ہوہو۔۔ کم آن۔۔ " مزاق اڑانے والے انداز سے کہہ کر وہ دوبارہ کپ کی طرف پلٹا۔۔"کافی پیو گی؟؟"کپ میں چمچ چلاتے ہوئے اسے نے ایما سے پوچھا۔۔

"ہاں ۔۔۔ لیکن تم نہیں میں بنائوں گی ہم دونوں کے لیے۔۔" وہ اسکے ہاتھ سے کپ جھپٹتے ہوئے خوش ہوتے ہوئے بولی۔ وہ کندھے اچکاتے لائونج میں اکلوتے پڑے تھری سیٹر پر جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر میں وہ دونوں ہاتھ کپ میں پکڑے اسکے بلکل ساتھ بیٹھ گئ ۔

"آج میں سارا دن تمھارے ساتھ سپینڈ کروں گی اور تم منع نہیں کرو گے۔۔"مڑ کر اس نے دیکھا آج بھی سلائڈنگ ڈور پر پردے پڑے تھے۔ اسے بہت برا لگتا تھا لیکن اب کی بار اس نے عالیان سے کچھ نہیں کہا وہ جانتی تھی وہ پھر پردے ہٹانے سے منع کر دے گا۔۔ "کل بھی تم نے مجھے بھیج دیا تھا میں کوئ ایکسکیوز نہیں سنوں گی۔۔۔" وہ کپ اسکے سامنے کرتے ہوئے بولی جبکہ عالیان نے کوئ جواب نہیں دیا۔۔

"تم سن رہے ہو نا؟؟" جواب نہ ملنے پر وہ دوبارہ بولی۔۔

"ہاں ہاں ایما میں سن رہا ہوں۔۔۔"

"تو جواب کیوں نہیں دیا؟" وہ اسے گھورنے لگی تھی۔۔

"تم نے کویسچن نہیں کیا آرڈر دیا ہے۔۔" وہ کافی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے پرسکون انداز میں اس سے گویا ہوا۔

"ہاں تو گردن ہلا سکتے تھے نا۔" اس نے خفہ ہوتے ہوئے کہا۔ " کرس نے کال کی تھی کہہ رہا تھا آج کلب میں ملیں گے تم چلو گے نا؟؟" اس نے آنکھیں اسکے چہرے پر ٹکائے پوچھا۔۔

"آف کورس کرس کہے اور میں نہ جائوں۔۔"

"فائن میں تو ریڈی ہوں تم بھی ریڈی ہو جائو پہلے ہم دونون لنچ پر جائیں گے پھر انہیں جوائن کریں گے ۔۔" پھر کچھ پل دونوں میں خاموشی حائل ہو گئ۔ کافی کا ایک ایک گھونٹ بھرتے ہوئے وہ بغور گردن موڑ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان سے آنے بعد وہ کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہو گیا ہے۔ رہی بات عالیان کی تو اس کی نظروں کی تپش سے وہ ضرور غیر آرام دہ محسوس کر رہا تھا۔۔

"تم جانتے ہو تم میں کیا چیز مجھے زیادہ پسند ہے؟ عالیان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔۔ "تم یہاں امریکہ میں رہتے ہو اکیلے آزاد۔۔ اور تمہاری بہت لڑکیوں سے دوستی بھی ہے مگر آج تک تم نے کسی لڑکی کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھا۔ میرے علاوہ تو تم کسی کو اپنے اپارٹمنٹ تک آنے کی اجازت نہیں دیتے۔" وہ پھر کچھ دیر خاموش ہو گئ۔ عالیان اسے سن رہا تھا مگر دیکھ نہیں رہا تھا۔ وہ کافی پینے میں مصروف تھا۔

"محبت کا تو نہیں پتہ مگر تم مجھے پسند کرتے ہو میں جانتی ہوں۔" کافی کا گھونٹ بھرتے بھرتے عالیان رکا۔ محبت کے نام پر اسے صرف ایک لڑکی کی یاد آتی تھی۔

"مجھے تم سے بہت محبت ہے بس میرے ہو جائو عالیان۔ مجھے تمہیں حاصل کرنا ہے۔ مجھے تم تک رسائی چاہیے۔" عالیان نے پہلو بدلا۔ اسے ایما کی باتیں سخت چبھ رہی تھیں۔

"اپنی حد میں رہو ایما۔ “You know you are seducing meوہ اپنا لہجہ سخت کرتے ہوئے بولا۔

"تو اس میں غلط کیا ہے عالیان مجھے تم سے محبت ہے تمہیں بھی ہو جائے گی مجھ سے محبت۔۔" ایما نے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ عالیان نے ناگواری سے سر جھٹکا۔ اس سے پہلے وہ ہاتھ نکالتا ایما نے گرفت سخت کر لی۔ کپ نیچے فرش پر رکھ کر وہ دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑے بیٹھ گئ۔

"ایما پلیز۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟" اس نے ایک نظر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔ تم جیسے کہو گے ویسے ہوگا۔۔" اس نے ہار مانتے ہوئے کہا ہاتھ اب بھی اس کی گرفت میں پی تھے۔۔ "تم اب کبھی واپس تو نہیں جائو گے نا؟؟" وہ آس لیے پوچھ رہی تھی۔

"کہاں؟ پاکستان کی بات کر رہی ہو۔۔"

"ہاں۔۔" ایما نے تیز تیز سر اثبات میں ہلایا۔

"جائوں گا۔۔" جواب مختصر تھا۔۔ایما نے یکدم گردن اٹھا کر اسے دیکھا۔

"مگر کیوں تمہیں پاکستان نہیں پسند تھا اب کیوں؟؟" یکدم اس کی آنکھوں میں خوف سا ابھرا۔

"ہاں میں نے کہا تھا مگر میرے ڈیڈ کا سارا بزنس پاکستان میں ہے وہ سب چھوڑ کے میں یہاں کیا کروں گا۔"وہ اپنا ہاتھ چھرواتے ہوئے سپاٹ سے انداز میں بولا۔

"اور میں؟ میرا کیا ہوگا مجھے چھوڑ جائو گے؟؟" اس نے بہت سارا تھوک نگلتے ہوئے کہا۔

"مشرقی لڑکیوں کی طرح بیہیو کیوں کر رہی ہو۔۔ ہم دوست ہیں اور کس نے کہا کہ دوست ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں آگے بھی تو بڑھنا ہوتا ہے۔۔"

دوست؟؟ لفظ دوست سن کر اسکے چہرے کا رنگ ایک پل کے لیے اڑ گیا تھا ۔۔ یعنی وہ اتنی بڑی غلط فہمی میں تھی وہ بس اسکے لیے دوست تھی اور کچھ نہیں ۔

"کیا میں تمھارے لیے صرف دوست ہوں؟؟" اسکی آواز جیسے کسی کھائ سے آئ تھی جس پر عالیان نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر ایک زوردار قہقہہ گونجا تھا اس اپارٹمنٹ میں اس کا۔۔ ایما فق چہرے سے اسے دیکھے گئ۔۔

"تو ڈئیر تم نے کیا سمجھ لیا تھا خود کو میرے لیے؟ تم نے کیا مجھے اتنے کچے کردار کا مالک سمجھ رکھا ہے جو تم یہاں بیٹھے مجھے seduce کرو گی اور میں ہوجائوں گا۔۔" وہ اسی طرح ہنستے ہوئے بولا۔۔ ایما کو لگا وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔۔

"میں نے تمہیں زندگی مان لیا ۔۔ میں تم سے شادی ۔۔'" وہ ابھی بول رہی تھی تبھی عالیان نے فوراً اسکی بات کاٹی۔۔

"دیکھو ایما۔۔ میں نے تم سے کبھی نہیں کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا اور اگر تم نے خود سے ایسا سوچ لیا تو اس میں میرا کوئی فالٹ نہیں ہے سمجھی۔۔۔" وہ یکدم سرد لہجے میں بولا۔ جبکہ ایما کی ساری خوش فہمیاں وہ بھک سے اڑا گیا تھا۔۔

"تو جو اتنی کھلی چھوٹ تم نے مجھے دے رکھی ہے کہ میں با آسانی تمہاری اپارٹمنٹ آجاسکتی ہوں تم سے دن رات باتیں کر سکتی ہوں اس سب کا کیا مطلب تھا؟" وہ ایک دم بھڑک اٹھی۔ اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئ۔ عالیان کو اسکا بھڑکنا بلکل پسند نہیں آیا تھا اسی لیے تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورنے لگا۔ عالیان جب یہاں آیا تھا تو لڑکیوں میں سب سے پہلی لڑکی ایما تھی جو اس کی دوست بنی تھی۔ وہ بہت اچھی تھی۔اس کے ڈیپارٹمنٹ کی نہیں تھی پھر بھی سٹڈیز میں اس کی کافی مدد کرتی تھی اس کے علاوہ بھی اگر عالیان کو امریکہ میں کوئی دقت پیش آتی تھی ایما ہمیشہ اس کی مدد کے لئے حاضر ہوتی تھی بس یہی وجہ تھی کہ وہ ایما کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا تھا۔ اسے لگتا تھا وہ امریکہ کی ایک بروڈ مائینڈ لڑکی ہوگی اور دوستی کو بس دوستی تک محدود رکھے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ایما اس کی محبت میں بری طرح مبتلا ہو گئ تھی۔

"میں نے کبھی کوئی زبردستی نہیں کی تمھارے ساتھ۔۔ ڈونٹ فورگیٹ تم خود آتی رہی ہو میرے پاس۔۔۔ میں نے بتایا تھا کہ شادی نام لفظ سے مجھے الرجی ہے سمجھی تم۔۔ نائو لیو می الون۔۔" اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

"میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی۔۔ تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی مت کرو

 But I’ll never let you go from here تمہیں میرے ساتھ رہنا ہوگا۔۔ جائز یا ناجائز طریقے سے تمہاری مرضی۔۔I don’t know anything" وہ ایک ہی سانس میں تیز تیز بولے گئ۔ "مجھے پاکستانی ٹیپیکل لڑکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا جو تمہارے لیے آنسو بہاتی رہے گی اور پھر بھول جائے گی۔ مجھے تمہیں حاصل کرنے کے بہت سے طریقے آتے ہیں۔۔"

"میں بھی دیکھتا ہوں تم کیسے روکے رکھتی ہو مجھے۔۔ یو کین گو نائو۔۔" وہ محض طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے بولا جس پر ایما کو اور آگ لگی۔۔

"گو ٹو ہیل!!" وہ غصے سے تیز قدم لیتی وہاں سے چلی گئ۔۔ اپارٹمنٹ سے باہر نکل کر وہ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف گئ۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی۔ گاڑی سٹارٹ نہیں کی بس کچھ دیر سٹیرنگ پہ ہاتھ رکھے بیٹھ کر وہ زور زور سے چلاتی رہی پھر ایک گہرا سانس لیتے اس نے پرس میں سے موبائل نکالا اور کال ملانے لگی۔

"ڈیڈ وہ پاکستان واپس چلا جائے گا مجھے چھوڑ کر۔۔" وہ روتے ہوئے بولی۔۔

"ہنی تم رو کیوں رہی ہو کہیں نہیں جائے گا وہ۔۔" فون سے ایک بھاری مردانہ آواز گونج رہی تھی۔۔

"بٹ دز ٹائم ہی از سیریس ڈیڈ۔۔" مسلسل رونے کی وجہ سے وہ بمشکل بول پا رہی تھی۔۔۔

"ڈونٹ وری ہنی مجھے کچھ ٹائم لگے گا آنے میں۔۔ کچھ مسائل حل کر کے آئوں گا تمھارے پاس۔۔ دیکھتا ہوں کیسے جاتا ہے وہ۔۔"

"آپ جلدی آجائیں۔۔ ایم ویٹنگ۔۔" اس نے یہ کہتے فون رکھ دیا ۔۔ اب وہ تھوڑی پر سکون تھی۔۔

سارا دن وہ اپنے اپارٹمنٹ میں رہا کہیں نہیں گیا وہ اکیلے رہنا چاہتا تھا اسے لگ رہا تھا جیسے ہر چیز سے اسکا دل اچاٹ ہونے لگا اور اسکے نزدیک موڈ خراب ہونے کی وجہ ایما تھی۔۔ تھری سیٹر پر بیٹھے بیٹھے اس نے لیپ ٹاپ پر ایک فلم لگائ جسے اس نے آدھے میں ہی چھوڑ دیا تھا اور پھر دوسری وہ بھی پوری نہیں دیکھ سکا ۔۔ آخرکار اکتا کر اٹھ کر کچن کی جانب چل دیا فریج سے ایک ڈرنک نکال کر گلاس میں انڈیلا اور ایک ہی سانس میں پی گیا۔ اس کے فوراً بعد وہ کمرے میں گیا اور فون ہاتھوں میں لیے سنگل بیڈ پر لیٹ گیا۔۔ سب سے پہلے اس نے انسٹا کھولا اور مسلسل سکرول کرنے لگا۔۔ اسکی آنکھیں جیسے بھاری ہونے لگی تھیں سر بھی درد کر رہا تھا اسے سمجھ نہیں آئ وہ کب اسی طرح سو گیا جب اسکی آنکھ کھلی تو تقریباً شام ہو گئ تھی اسکے سر میں درد سا تھا ایک نظر ٹائم پر ڈالتے وہ حیران رہ گیا تھا کہ وہ مسلسل چار گھنٹے سوتا رہا تھا جبکہ وہ بارہ بجے سو کر اٹھا تھا ۔

"شاید ڈرنک کا اثر تھا۔۔" اس نے سر جھٹکنے کے انداز میں کہا۔۔ پھر اس نے فون اٹھایا اور اتنے سارے میسجز اور کالز دیکھ کر دھنگ رہ گیا۔۔ ہینری، کرس، ڈیوڈ اور عابد سب کے میسجز تھے لیکن سب کی بات ایک ہی تھی کہ وہ کلب میں اسکا ویٹ کر رہے ہیں وہ بیڈ پر سے فوراً اٹھا اور جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔۔

وہ جب کلب پہنچا تو ان سب کو ڈھونڈنے کے لیے اسکی نظروں نے چاروں طرف سفر کیا وہ سب ایک کونے میں کھڑے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے تبھی ہینری کی نظر اس پر پڑی تو ہاتھ کے اشارے سے اسے بلانے لگا ۔۔ پورے کلب میں میوزک کا شور تھا وہ انکو دیکھتا انکی طرف بڑھ گیا۔۔

"ہائے lucifer یو آر لیٹ۔۔"سانولی رنگت کا کرس اسکی طرف ہنستے ہوئے دیکھ کر تیز آواز میں بولا۔۔

Yeah I know.. I was engaged in some work.” "عالیان نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکراتے ہوئے جھوٹ بول دیا۔

"اٹس اوکے برو۔۔ ٹیک اٹ۔" ڈیوڈ نے ایک گلاس اسکے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا جسے اس نے مسکراتے ہوئے فوراً تھام لیا۔

"ایما نظر نہیں آرہی تمہارے ساتھ؟" اب کی بار عابد نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔

"وہ کیوں نظر آئے گی میرے ساتھ؟؟" عالیان نے ماتھے پر ڈھیروں بل لیے اسے دیکھا۔

"آف کورس شی از یور گرل فرینڈ۔۔ تمھارے ساتھ ہونا چاہیے اسکو۔۔" عابد کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔

"او کم آن عابد وہ کوئ میری ون اینڈ اونلی گرل فرینڈ نہیں ہے جو ہر وقت میرے ساتھ پائ جائے گی۔۔۔" اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔

"یہ ہوئ نا عالیان والی بات ۔۔ بائے دا وے اتنا غصہ کیوں ہو؟؟" اس کے چہرے کے تاثرات عابد کو کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ وہ کبھی ایسے روکھے پھیکے اور سنجیدہ لہجے میں بات کرنے کا عادی نہیں تھا۔۔

"پتہ نہیں ۔۔ آئ تھنک آئ ایم نوٹ فیلنگ ویل۔۔۔"

"تمہیں تو پسینہ آرہا ہے ۔۔" عابد نے اسکے ماتھے پر نمودار ہونے والے قطروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔ عالیان نے اپنا گلاس عابد کو پکڑایا اور اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔ اسکا دم گھٹ رہا تھا۔۔

"آہ ہ ۔۔ میرا سر پھٹ جائے گا۔۔۔" وہ اپنا سر پکڑتے ہوئے چیخا۔۔اس کے سر میں پہلے سے درد تھا رہی سہی کسر وہاں کا تیز اور اونچا میوزک پوری کر رہا تھا۔۔

"تمہارا رنگ بھی پیلا پڑ رہا ہے عالیان۔۔۔" وہ اسکی زرد پڑتی رنگت دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں فکرمندی سے بولا۔۔

"میں باہر جا رہا ہوں۔۔۔" عالیان یہ کہتے اپنا سر پکڑے تیز قدموں سے باہر جانے لگا جبکہ عابد بھی اسکی پرواہ کرتے ہوئے اسکے پیچھے چل پڑا۔ وہ باہر نکل آیا میوزک کا شور کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔

"کیا اب تم بہتر فیل کر رہے ہو؟" اندھیرا چھا گیا تھا بارش بھی بلکل رک چکی تھی مگر آسمان پر کالے بادل اب بھی تھے۔ اور وہ دونوں اب سڑک کے کنارے چلتے جا رہے تھے۔ اسکے سوال پر عالیان نے سر اثبات میں ہلایا۔۔

"ہوا کیا تھا تمہیں؟؟"

"پتہ نہیں کافی دیر سے طبیعت صحیح نہیں ہے میری۔۔"

"تو بتا دیتے عالیان مجھے میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا کلب آنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔ بلکہ ابھی چلو ڈاکٹر کے پاس۔۔" وہ تفکر آمیز انداز میں بولا۔

"نہیں اب میں ٹھیک ہوں ضرورت نہیں ہے۔۔" وہ واقعی اب ٹھیک تھا۔ باہر کی ہوا نے اس کے اعصاب پر مثبت اثر ڈالا تھا۔

"کوئ پریشانی لے رکھی ہے تم نے؟"

پریشانی؟؟ کیا اسے بھی پریشانی لینے آتی تھی ۔۔ وہ یکدم سنجیدہ ہوا۔۔

"ہاں شاید۔۔" وہ محض اتنا بولا۔۔

"کیا؟؟" وہ اس کے چہرے پر اضطراب دیکھ سکتا تھا۔

“مجھے پاکستان واپس جانا ہے۔۔" اسے اپنی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔

“پاکستان؟؟" عابد بری طرح چونکا تھا۔۔ "ابھی تو آئے ہو پھر کیوں جانا ہے؟؟"

“مجھے ہمیشہ کے لیے جانا ہے پاکستان اپنی فیملی کے پاس۔۔" وہ رک کر عابد کی طرف گھوما۔ "مجھے لگتا تھا کہ مجھے اپنی فیملی سے نفرت ہے لیکن عابد مجھے ان سب سے بہت محبت ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ دو سال میں نے کس کو اذیت میں رکھا ان کو جنہیں میں سب سے زیادہ چاہتا ہوں یا خود کو۔۔" اسے لگا اسے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔ عابد پورے وثوق سے اسے سن رہا تھا۔

“میں نے کتنا وقت برباد کر دیا بجائے پاکستان میں رہ کر اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینے کے میں یہاں آ کر کیا بن گیا ہوں۔ میں نے تباہ کر دیا خود کو عابد ۔۔" اس کا سر اس کے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ عابد نے تڑپ کر اسے کلائیوں سے پکڑا۔

“سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر واپس پاکستان جا کر تمہارے دل کو سکون ملتا ہے تو ضرور جائو۔۔" وہ تسلی آمیز انداز میں بولا توعالیان نے روتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔

“میری ماں کے قاتل سرعام گھوم رہے ہوں گے۔۔ مجھے بدلہ لینا ہے۔۔میں سب چھوڑنا چاہتا ہوں۔مجھے ایسی زندگی نہیں گزارنی ۔" وہ رو رہا تھا کسی چھوٹے بچے کی طرح بلک بلک کر عابد نے آگے ہو کر اسے گلے سے لگایا اور اس کے سر پر تھپکی دینے لگا۔ آس پاس سے گزرتے لوگ ان کو رک رک کر دیکھ رہے تھے۔

" بس کچھ بھی ہو جائے یہاں سب کلئیر کر کے میں واپس جا کر ایم-بی-اے بھی وہیں سے کروں گا۔۔ میں خود کو بدلنا چاہتا ہوں۔" اس نے پیچھے ہو کر اپنا تر چہرہ اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی پھر سے شروع ہو گئ اور وہ اسی طرح سڑک کے کنارے چلتے رہے۔

 

●●●●●●●●●●●●●●

 

وہ اس وقت بلند عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔ کالے رنگ کا برقعہ، مہرون رنگ کا سٹولر اور آنکھوں پر سیاہ رنگ کا چشمہ پہنے وہ سر کو تھوڑا اوپر کیے اس عمارت کو دیکھ رہی تھی اور پھر قدم اٹھاتے اندر بڑھنے لگی۔ وہ تھوڑی گھبراہٹ کا شکار ہوئ اور پھر ایک گہرا سانس لیتے ریسیپشن کی طرف بڑھ گئ۔۔ ریسیپشنسٹ ایک دبلا پتلا لڑکا تھا جو انٹرکام اٹھائے کھڑا تھا وہ وہیں کچھ دیر اسکے فری ہونے کا انتظار کرنے لگی۔۔

" ہیلو میم۔۔ ہائو کین آئ ہیلپ یو؟" انٹرکام واپس رکھتے ہوئے وہ سامنے کھڑی لڑکی کی طرف متوجہ ہوا۔

"مجھے احمد عالم صاحب سے ملنا ہے۔۔" وہ فوراً بولی۔۔

"آپکی کوئ اپوئنمنٹ تھی انکے ساتھ؟؟"

"نن۔۔ نہیں مگر میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے۔۔" وہ تھوڑا گھبراتے ہوئے بولی۔۔

"اوکے آپ مجھے اپنا نام بتائیں پھر میں ان سے پوچھ کر آپکو بتاتا ہوں۔۔۔" اس نے انٹرکام دوبارہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔۔

"جویریہ سلطان۔۔" ایک ٹھنڈی آہ بھر کے اس نے اپنا نام بتایا۔ اسکا نام سنتے ہی ریسیپشنسٹ نے سر ہلایا۔۔

"سر کوئ جویریہ سلطان آپ سے ملنے آئ ہے۔۔" وہ مسلسل ریسیپشنسٹ کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔۔ " سر انکو آپ سے کوئ ضروری بات کرنی ہے۔۔اوکے سر۔۔"

"آپ جائیں وہ فری ہیں۔۔" ریسیپشنسٹ نے اسے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

"آفس کس طرف ہے انکا؟" اسکو خوشی ہوئ کہ وہ مل سکتی تھی۔۔

"سیکنڈ فلور پر۔ آپ لفٹ کا استعمال کر سکتی ہیں۔۔" اس لڑکے نے مسکرا کر کہا۔۔

"تھینک یو سو مچ۔۔" جویریہ نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور لفٹ کی طرف چل دی۔۔

"آجائیں۔۔" احمد صاحب اپنی کرسی پر براجمان تھے تبھی انکے آفس کے دروازے پر دستک ہوئ۔۔

"السلام علیکم سر۔۔" وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔

"وعلیکم السلام۔۔ بیٹھیں۔۔۔" احمد صاحب نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا۔۔" معذرت۔۔ مگر میں نے آپکو پہچانا نہیں ۔"

"آپ مجھے جانتے ہی نہیں ہیں تو پہچانے گے کیسے۔۔" وہ ان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔

"اگر آپ ضروری سمجھیں تو بتا دیں اپنے بارے میں۔۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولے۔

"میرا نام جویریہ ہے ۔۔۔ آپکی شخصیت کے بارے میں جیسا سنا تھا آپکو ویسا ہی پایا۔۔" وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے بولی۔۔

"براہ مہربانی محترمہ مدعے پر آئیے۔۔" انکے چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔ ان کا بات کرنے کا یہی طریقہ کار تھا۔۔

"شیور!! میں آپکی بیٹی انابیہ کے بارے میں بات کرنے آئ ہوں۔۔" اپنی بیٹی کا نام سنتے ہی احمد صاحب کے ماتھے پر بل پڑے۔

"میری بیٹی کا نام تو لے لیا ہے تو اب جو بھی بولنا ہے سوچ سمجھ کر بولنا کیونکہ میں کوئ فضول بکواس سنوں گا نہیں۔۔" جویریہ انکو پہلی نظر میں ہی پسند نہیں آئ تھی۔۔

"سوچ سمجھ کر تب بولتی کہ آپ کی بیٹی نے میری زندگی میں مداخلت نہ کی ہوتی۔۔" اس بار اسکا لہجہ بھی سرد تھا۔

"پہیلیاں نہ بجھائو لڑکی سیدھا سیدھا بولو کیا کہنا چاہتی ہو میری بیٹی کے بارے میں۔" وہ اسے گھورتے ہوئے بولے۔ اب کی بار ان کی آواز اونچی تھی۔

" آپکی بیٹی میرے منگیتر سے چکر چلا رہی ہے ۔۔" وہ فوراً بولی تو انہوں نے دھڑلے سے اسکی بات کاٹی۔۔

"بس!! کہا تھا کوئ بکواس نہیں۔۔" وہ مرکزی ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے دھاڑے۔

"بکواس نہیں یہ حقیقت ہے احمد صاحب اپنی بیٹی کو سمجھا لیں اب بھی وقت ہے اسے کہیں دور ہو جائے میرے منگیتر سے۔۔" اس نے انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔۔ احمد صاحب کے کان سائیں سائیں ہونے لگے وہ کچھ بھی سن سکتے تھے مگر یہ سب نہیں۔۔

"اور ہاں وہ صرف اسکے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہے شادی وہ مجھ سے کرے گا۔ ہی از ناٹ سیریس ود ہر۔۔ مگر میں اتنی بےغیرت نہیں ہوں جو یہ سب برداشت کروں۔۔" ٹائم پاس؟؟؟ کیا انکی بیٹی ٹائم پاس کے لیے تھی احمد صاحب کا چہرہ مارے خفت کے سرخ ہونے لگا تھا۔

"ہو گیا تو اب دفعہ ہو یہاں سے۔۔" انھوں نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت سردمہری سے کہا۔۔

"میں جانتی تھی آپ یقین نہیں کریں گے کچھ ہے میرے پاس جو آپکو یقین دلانے کے لیے کافی ہوگا۔۔" یہ کہتے ہی اس نے بیگ میں سے موبائل نکالا اور اسکی سکرین روشن کر کے انکے سامنے کیا۔ جسے انہوں نے فوراً اسکے ہاتھ سے اچک لیا تھا۔۔ بیا کی تصویریں کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ کر انکا خون واقعی کھولنے لگا تھا انکے ماتھے پر شکنے پڑنے لگی اور سختی سے موبائل اسے واپس کیا۔۔

"دیکھیں سر مجھے آپ باعزت اور شریف انسان لگتے ہیں مگر جو آپکی بیٹی کر رہی ہے وہ کہیں سے بھی شرافت کے زمرے میں نہیں آتا۔۔ اسے سمجھائیں پلیز کہ میرا گھر بننے سے پہلے ہی اجاڑنے کی کوشش نہ کرے۔۔" احمد صاحب کچھ نہیں بولے وہ بولنے کے قابل رہے ہی نہیں تھے وہ لڑکی انکی بولتی بند کر گئ تھی انکو اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ انابیہ اس سب میں ملوث تھی۔۔

"میں مزید کچھ نہیں کہوں گی اگر آپ یا آپکی بیٹی کی وجہ سے میرا گھر اور زندگی برباد ہوئی تو میں وہ کروں گی جو پوری دنیا دیکھے گی مگر آپ سے نہیں دیکھا جائے گا۔۔۔ " وہ یہ کہتے اٹھ کر وہاں سے تیز قدم لیتے نکل گئ اسکے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی آج اسے لگ رہا تھا کہ سارے میدان وہ فتح کر آئی ہے اور ایسا اسے احمد صاحب کی اڑتی ہوئی رنگت بتا رہی تھی۔ پیچھے رہ جانے والا شخص بے یقینی کے عالم میں ویسے کا ویسا بیٹھا رہا وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا تھا۔۔ انکے آفس میں گہری خاموشی سی چھا گئ تھی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے انھوں نے اپنا فون اٹھایا اور ایک نمبر ملا کر کان سے لگایا ۔

"میں اپنا مطالبہ واپس لیتا ہوں ۔ میری ٹرانسفر کنفرم کردو اور ہاں کل کی فلائٹ کے ٹکٹس کا بندوبست بھی کرو۔۔۔ پانچ بندوں کے۔۔" انھوں نے فون پھینکنے کے انداز میں ٹیبل پر رکھا اور کرسی سے پشت لگائے چھت کو افسوس بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔۔

●●●●●●●●●●●●●●

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?