انابیہ اس وقت موبائل ہاتھ میں لئے انسٹاگرام کھولے کمرے میں اکیلے بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ وہ مسلسل سکرول کر رہی تھی۔ سکرول کرتے کرتے اسنے پتہ نہیں کیا سوچتے سمجھتے عالیان کی پروفائل کھولی ۔ اس نے آج ایک اور پوسٹ ڈالی تھی جس میں وہ پھر ایک سنہرے بالوں والی لڑکی کے ساتھ کھڑا تھا۔
"توبہ توبہ پھر ایک نئی لڑکی !! ہے یہ شخص میرے قابل؟ ہونہہ" اسکا دل کافی برا ہوا۔ اس نے ایپ بند کی اور ٹائم پر نظر ڈالی بارہ بجنے میں پانچ منٹ تھے۔ کمرے میں صرف سائڈ لیمپ کی روشنی تھی۔ اسنے موبائل سائڈ ٹیبل پہ رکھا اور اپنے ہاتھوں سے کنپٹی مسلنے لگی۔۔ اسی دوران مناہل دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئ۔۔
"کیا ہے لڑکی سونا نہیں ہے کہاں ہے تمھاری بڑی بہن؟؟" منو کو اندر آتا دیکھ کر وہ اس پر برسنے لگی۔
"جی بس سونے ہی والے تھے آپکو کچھ دکھانا ہے اوپر آئیں گی؟" وہ تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے بولی۔
"جی نہیں مجھے نیند آ رہی ہے صبح دیکھ لوں گی۔۔" وہ بیڈ پر سے چادر کھینچتے ہوئے بولی۔۔
"صبح تک بہت دیر ہو جائے گی ۔۔ پلیز آپی آجائیں ۔۔" منو اسے مسلسل پلکیں جھپکاتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔ بیا کو اتنا معصوم چہرہ دیکھ کر اٹھنا ہی پڑا۔۔ وہ خوشی سے اسکا ہاتھ پکڑے اوپر کمرے کی طرف لے کر جانے لگی۔۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی دائیں ہاتھ کی طرف ایک ہال نما کمرہ تھا۔ اسنے دروازہ کھولا اب اچانک سے منو کہیں غائب ہو گئ تھی وہ اسکے ساتھ نہیں تھی ہر طرف اندھیرا تھا گہرا اندھیرا۔ اسنے بمشکل سوئچ بورڈ ڈھونڈ کے کمرے کی لائٹس آن کیں۔۔
ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔ ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔ ہیپی برتھڈے ڈئیر انابیہ۔۔ ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔۔"
وہ منہ پہ ہاتھ رکھے پھٹی آنکھوں سے سامنے دیکھتی ہی رہ گئ ۔ ردا اور مناہل دانت نکال نکال کے ہنس رہی تھیں ۔ وہ کمرہ ان دونوں نے بہت سادگی اور بہت خوبصورتی سے سجایا تھا۔۔سرخ پتیوں سے بھرے ہوئے ٹیبل کے درمیان میں ایک چاکلیٹ کیک تھا جسکے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی چھری تھی۔ کیک کے بائیں طرف کچھ گفٹس پڑے تھے اور دائیں طرف کچھ کینڈلز تھیں۔۔ پیچھے دیوار پہ کچھ فیری لائٹس لگی تھیں اور درمیان میں ہیپی برتھڈے کے بیلونز لگے تھے۔
"آپی آگے آجائیں کیک کاٹے۔۔" ردا اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی۔ انابیہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے آگے آئ اور بلکل درمیان میں کھڑی ہو گئ۔ ردا نے اسکے ہاتھ میں چھری پکڑائی اور وہ کیک کاٹنے لگی۔ اسکی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کے گرا تھا۔ باری باری ان دونوں کو کیک کھلایا ۔ اور اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرنے لگی۔
"ہمیشہ کی طرح آپکو آج بھی یاد نہیں تھا ہینا؟" ردا اسکی آنکھ میں آنسو دیکھتے ہوئے بولی۔
"ہمیشہ کی طرح یہ میرے لیے خاص دن نہیں تھا۔۔" وہ زخمی انداز سے مسکرائ۔۔
"ایسا نا کہیں یہ آپکا اسپیشل دن ہے۔۔" ردا اسکے گال پر تھوڑا سا کیک لگاتے ہوئے بولی۔
"اسکو اسپیشل تم لوگ بناتے ہو ورنہ یہ میرے لیے اسپیشل تب ہوتا اگر اس دن تائ جان فوت نہ ہوتیں۔" ردا اور مناہل نے افسوس سے سر جھکا لیا۔ یکدم کمرے میں خاموشی سی چھا گئ تھی۔۔ انابیہ نے آنسو صاف کر کے باری باری دونوں کو دیکھا۔
"اچھا یار کیا ہو گیا ہے۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔" اس نے دونوں کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے تھوڑا چہک کر کہا۔ وہ دونوں اب مسکرا کر اسے تحفے دکھا رہی تھیں جو انہوں نے اس کے لیے خریدے تھے۔
●●●●●●●●●●●●●●
لاہور میں یہ صبح کے دس بجے کا وقت تھا ۔ وہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہو رہی تھی ۔ آج انکی کلاس گیارہ بجے ہونی تھی ۔ تبھی اسکے فون کی رنگ بجنے لگی ۔ وہ فون کی طرف بڑھی۔ اسکرین پر زارا کا نام دیکھ کر اسکے چہرے پر مدھم سی مسکراہٹ آئ اور پھر کال آنسر کر کے فون کان سے لگایا۔
"آج صبح صبح ہی لوگوں کو ہمارا خیال کیسے آگیا؟؟" انابیہ تھوڑا کھلکھلا کر بولی۔
"کیوں بھئی ہم فون نہیں کر سکتے کیا؟" جواباً زارا بھی کھلکلائ۔
"کیوں نہیں حکم کیجئے۔۔"
"ہاں تو میں نے کہنا تھا کہ یونیورسٹی پہنچ کر باہر ہی گیٹ کے پاس رکنا اور اور اپنے ڈرائیور کو جانے کا کہہ دینا۔۔" فون کی دوسری طرف سے زارا کی آواز گونج رہی تھی۔
"کیا؟؟ کیا کہہ رہی ہو میں باہر کھڑے ہو کر کیا کروں گی؟" وہ تھوڑا ہڑبڑا کر پوچھنے لگی۔
"اوہو باقی میں تمہیں بعد میں بتا دوں گی فلحال تمہیں یہی کرنا ہے۔۔ اوکے بعد میں ملیں گے۔۔" کہتے ساتھ اسنے کال کاٹ دی۔۔ انابیہ فون کو حیرت سے گھورنے لگی اور پھر سے اپنی تیاری میں مصروف ہو گئ۔
یونیورسٹی پہنچ کر وہ گاڑی سے نکلی اور ڈرائیور کو جانے کا کہنے لگی لیکن ڈرائیور نے گاڑی اپنی جگہ سے نہ ہلائ۔۔
"میں نے آپ سے کہا آپ چلے جائیں۔۔" انابیہ کی آواز آہستہ مگر سخت تھی۔۔
"سوری میم جب تک آپ اندر نہیں چلی جاتی میں نہیں جا سکتا۔۔" وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا تو وہ اسے گھورنے لگی۔۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب انابیہ احمد نے اس ڈرائیور کے منہ سے کوئ جملہ سنا تھا شکل سے تو اسے اسکے ڈرائیور ہونے پر شک تھا ہی لیکن آج اسکی آواز سن کر اسے کچھ کچھ یقین ہونے لگا تھا کہ یہ صرف اسکے ڈرائیور کے طور پر نہیں بھجوایا گیا۔
"دیکھیں آپ ڈرائیور ہیں آپ کا کام ختم ہوا آپ جا سکتے ہیں ۔" اس نے سختی سے لب بھینجتے ہوئے کہا۔۔ وہ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے فوراً باہر نکل کر اسکے سامنے کھڑا ہوا۔۔
"سوری اگین میم ۔۔ میرا کام ختم نہیں ہوا آپ پلیز اندر جائیں۔۔" اب کی بار اسکا شک یقین میں بدل گیا وہ واقعی ڈرائیور نہیں تھا وہ کوئ گارڈ تھا۔۔
"بوڈی گارڈ!!" اس کے ہونٹ نہیں ہلے وہ دل ہی دل میں بڑبڑائ۔۔
"فائن لیکن آپ مجھے آرڈر نہیں دے سکتے۔۔ جانتے ہیں نا آپ۔۔"
"بالکل میں آپ کو آرڈر نہیں دے سکتا۔۔ ریکویسٹ کر رہا ہوں۔۔" وہ آنکھیں سکیڑ کر اسے نرمی سے کہنے لگا۔۔ انابیہ نے ایک تیز نظر اس پر ڈالی اور یونیورسٹی کے اندر چلی گئ۔۔ گارڈ کو اطمینان ہوا تو گاڑی میں جا بیٹھا اسی دوران اسکے فون پر کال آنے لگی۔
"یس سر۔۔" وہ کانوں میں ائیر پوڈز لگائے بولا۔۔
"تم پانچ منٹ لیٹ ہو گئے تھے لگتا ہے اپنی ڈیوٹی صحیح سے نہیں نبھا رہے؟"
"سوری سر وہ اندر نہیں جا رہی تھیں بحث میں ٹائم لگ گیا۔۔"
"اسکے ٹائم ٹیبل کے مطابق اسکی کلاس کا یہی ٹائم تھا تو وہ کیوں نہیں جا رہی تھی؟؟" ناصر اچنبھے سے اس سے پوچھنے لگے۔۔
"آئ ڈونٹ نو سر۔۔ شاید اپنی فرینڈ کا ویٹ کر رہی ہوں۔۔" وہ اندازہ لگاتے ہوئے بولا۔
"خیر وہ چلی تو گئ نا تم نے اندر جاتے دیکھا ہے نا؟"
"یس سر وہ چلی گئیں ہیں۔۔" وہ فوراً سے بولا تو ناصر نے گہری سانس لی۔۔
"اسے شک نہیں ہونا چاہیے۔۔ وہ کمفرٹیبل فیل نہیں کرے گی۔۔"
"آئ ول ٹرائ مائ بیسٹ سر۔۔" کال کاٹ دی گئ وہ گاڑی چلاتے ہوئے یونیورسٹی سے نکل گیا۔۔۔
انابیہ اندر گئ تو اسے زارا کی کال دوبارہ آنے لگی۔۔
" آئ ایم ویٹنگ بیا۔۔" اس کے بولنے سے پہلے ہی زارا بول پڑی ۔
"میرا ڈرائیور۔۔۔"
"چلا گیا وہ میں نے دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے باہر آئو۔۔" بیا اسکی بات سنتے باہر جانے لگی۔ اسی دوران ایک چمکتی ہوئی کالی civic اسکے سامنے آرکی۔
"اندر آجائو۔۔" ونڈ اسکرین سے زارا نے اپنا چہرہ تھوڑا آگے کر کے اسے کہا۔ انابیہ تیوڑیاں چڑھائے اسے گھورنے لگی اور تیز قدم لیتے پیسنجر سیٹ پر جا بیٹھی۔
"اب بتائو یہ سب کیا ہے اور کہاں لے جا رہی ہو؟" کچھ دیر گزرنے کے بعد اس نے ڈرائیو کرتی لڑکی سے پوچھا۔۔
"کدنیپ کر کے لے جا رہی ہوں تمہیں۔۔ زیادہ چوں چیں کی تو بہت اذیت پہنچے گی تمہیں ۔۔ بہت سخت اور بری کدنیپر ہوں میں۔۔" اس کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا وہ چہرہ موڑ کر شیشے سے باہر دیکھنے لگی۔۔ زارا اسکی اس حرکت پر پھٹ کر ہنسی تھی۔۔ اس کی ہنسی پر انابیہ نے برہمی سے چہرہ اسکی طرف موڑا۔۔
"سیریسلی میں تمہیں خطرناک کدنیپر لگتی ہوں تم تو ڈر گئ۔۔" وہ پھر سے قہقہہ لگانے لگی۔ وہ بس آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔
"بہت مزہ آرہا ہے کیا؟ اب سیدھی طرح بتائو کہاں لے جا رہی ہو؟؟" وہ اسے شعلہ وار نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"یعنی تم سسپنس نہیں رہنے دوگی؟؟" انابیہ نے سر نفی میں ہلایا۔۔ زارا نے ایک گہری سانس لی۔
"میرے گھر۔۔"
"کیا؟؟؟" وہ پورا زور لگا کے چیخی۔۔
"میرے کانوں کے پردے لوہے کے نہیں بنے آہستہ چیخو پھٹ جائیں گے"۔ وہ ایک ہاتھ سٹیرنگ ویل پر اور ایک ہاتھ اپنے کان پر رکھتے ہوئے بولی۔۔
"تمہارے گھر ؟؟ کیوں کس لیے؟" انابیہ بھی جب تک بال کی کھال تک نہ پہنچ جائے سکون سے نہیں بیٹھتی۔۔
"یہ تم تھوڑی دیر چپ ہو کر نہیں بیٹھ سکتی؟ ایک بات کے ساتھ چپک ہی جاتی ہو۔۔" وہ تھوڑا رکی۔۔
"مجھے ڈرائیونگ میں کونسنٹریٹ کرنے دو ورنہ میرے گھر پہنچنے کی بجائے اوپر پہنچ جائیں گے۔۔" زارا اب اسے غصے سے کہہ رہی تھی۔۔ "اللہ تمہیں پوچھے کبیر۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑائ۔۔
"بہت بری ہو تم زارا۔۔" وہ دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔
"ہا ہا ہا اور کچھ؟" وہ تھوڑا ہنسی تھی۔
"اور تم بدتمیز بھی ہو۔۔"
"اچھا اور؟؟" ڈھٹائی سے پوچھے جا رہی تھی۔۔
"اور ڈھیٹ بھی ہو۔۔" وہ ہاتھ باندھے سیٹ پر پیچھے ہو کر بیٹھ گئ۔۔ اب اسکی نظریں زارا پر تھیں ۔
"اور کچھ رہتا ہے؟" زارا نے ہنستے ہوئے چہرہ اسکی طرف موڑا تھا۔۔
"راستہ ختم ہو جائے گا لیکن تمھاری شان میں کہے جانے والے الفاظ نہیں۔" اب کی بار بیا بھی تھوڑا مسکرائ تھی۔۔
"ہاں ٹھیک ہے کہتی رہو جو کہنا ہے۔۔"
"بس مجھے اور کچھ نہیں کہنا ہونہہ۔۔" وہ دونوں مسکرا رہی تھیں۔۔ کچھ ہی دیر بعد گاڑی ایک خوبصورت بنگلے کے سامنے رکی۔ زارا کے ایک دو ہارن پر چوکیدار نے گیٹ کھولا تو وہ سیدھا پورچ میں گاڑی لے گئ۔۔
"لو جی پہنچ گئے ہم۔۔ چلو اندر چلتے ہیں۔۔" وہ تیزی سے گاڑی سے نکلی جبکہ انابیہ آہستہ آہستہ قدم لئے چل رہی تھی۔
"بیا ڈر کیوں رہی ہو میرے گھر پہ سوائے مماں کے کوئ نہیں ہے۔"
"نہیں میں ڈر نہیں رہی۔۔ اصل میں آج سے پہلے میں ایسے کسی دوست کے گھر نہیں گئ نا اس لیے تھوڑا جھجک رہی ہوں۔۔” وہ جزبز ہوتے ہوئے بولی۔
"جھجکنے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمھای بیسٹ فرینڈ کا گھر ہے۔۔" وہ اسکے گرد بازو حائل کرتے ہوئے بولی۔
"ایک منٹ۔۔" وہ رکی۔ "تم مجھے بیسٹ فرینڈ سمجھتی تو ہونا؟ زارا کچھ امید لیے اس سے پوچھنے لگی۔
"آف کورس ۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے میں ایسے ہی کسی کے ساتھ کہیں بھی چلی جاتی ہوں۔۔" وہ دونوں اب اندر داخل ہو چکی تھیں۔۔ سامنے ہی ایک عورت لال رنگ کی ساڑھی پہنے انہیں دیکھتے ہی انکی طرف قدم بڑھانے لگی۔۔ انھوں نے ہلکا سا میک اپ کر رکھا تھا اور بالوں کو جوڑے میں باندھے وہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔ بہت نرمی سے انھوں نے انابیہ کو گلے سے لگایا۔۔
"مائ موم مائ پیراڈائز۔۔" زارا اپنی ماں کا انٹروڈکشن کرواتے ہوئے بولی۔۔
"ہیپی برتھڈے ڈئیر۔۔" نرمین بیگم انابیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔ تبھی زارا نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا۔۔
"مماں یہ سرپرائز تھا یار۔" جبکہ انابیہ منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ہنسنے لگی۔
"اوپس سوری۔۔ چلو کوئی بات نہیں تم جائو اسے روم میں لے جائو میں کچھ کھانے کے لیے بھجواتی ہوں تم لوگوں کے لیے۔" وہ دونوں سر ہلاتے زینے چڑھ کر اوپر جانے لگیں۔
وہ اب کمرے میں آچکی تھیں۔ زارا کا کمرہ بہت وسیع اور بہت خوبصورت تھا۔
"تمھاری مماں بہت سمارٹ اور خوبصورت ہیں زارا ۔۔" وہ دیوار پہ لگی فریم دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔
"ہاں سب یہی کہتے ہیں۔۔یہاں آئو آگے ہی دیر ہو گئ ہے۔۔" زارا اپنی الماری سے کپڑے نکالتے ہوئے بولی۔۔انابیہ کی نظریں بیڈ پر پھیلے ہوئے کالے رنگ کے ڈریس پر رکی جس پر بہت محنت سے باریک کام کیا گیا تھا۔۔ دیکھنے سے ہی لگ رہا تھا کہ جیسے کسی کے لیے خاص بنوایا گیا ہو۔۔ وہ ایک بہت کھلے گھیر کی مکمل سیاہ میکسی تھی جیسے کسی شہزادی کے لیے بنائی گئ ہو۔۔اس کا گھیر چمک رہا تھا اتنا کہ اگر اندھیرے میں اسے دیکھا جائے تو یوں لگے جیسے سیاہ آسمان چھوٹے چھوٹے ٹمٹماتے ہوئے تاروں سے بھر گیا ہو۔
"تمھارا یہ ڈریس تو بہت ہی پیارا ہے زارا وائو۔۔۔۔" وہ اس سیاہ میکسی کی تعریف کرتے ہوئے بولی۔
زارا فوراً آگے بڑھی اور بیڈ پر سے اس میکسی کو اٹھا کر انابیہ پر رکھتے ہوئے اسکا جائزہ لینے لگی۔۔
"پرفیکٹ!!" زارا نے اسے اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ وہ اسکی اس حرکت پر چونکی۔۔
"نن نہیں میں نے اس لیے تعریف نہیں کی یہ تمہارا ہے۔۔" وہ قدرے بوکھلا گئ۔۔
"نہیں یہ میرا نہیں تمھارا ہے۔ جائو شاباش ڈریسنگ روم میں جائو اور پہن کے آئو۔" وہ ڈریس اسکے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولی۔۔
"کیوں میں کیوں پہنوں یہ تمہاری چیز ہے میں کیسے لے سکتی ہوں؟؟"
"بیا بیا۔۔ یہ میرا نہیں ہے تمہارا ہی ہے سمجھو نا۔۔ جلدی سے پہنو تمھاری برتھڈے سیلیبریٹ کرنی ہے۔"
"مجھے پتہ ہوتا کہ تم اس لیے لائ ہو مجھے تو میں کبھی نہ آتی۔۔"
"اچھا بعد میں لڑ لینا قسم سے کچھ بولوں گی بھی نہیں لیکن اسوقت مجھے غصہ نہ دلائو اب جائو" اسے تھوڑا آگے دھکیلتے ہوئے بولی۔۔ آخرکار وہ ڈریسنگ روم میں چلی گئ۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ باہر نکل آئ زارا اسے دیکھتے ہی جیسے صدمے میں چلی گئ ہو۔ وہ اسے سر تا پیر دیکھ رہی تھی۔
"حسین ترین!!" وہ محض اتنا کہہ سکی۔ انابیہ چلتے چلتے فل مرر کے سامنے آ کھڑی ہوئ اور خود کا جائزہ لینے لگی۔ وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
"تم بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہو زارا۔۔" وہ زارا کی طرف گھومتے ہوئے بولی جس نے سنہرے رنگ کا کافتان ڈریس پہن رکھا تھا۔
"تم سے زیادہ نہیں۔۔" وہ یہ کہتے ہوئے اپنی ڈریسنگ کی طرف گئ۔
"بیا تم یہاں شیشے کے سامنے آکر بیٹھو میں لینس لگا لوں اور کم از کم یہ ماسی والی گت بھی کھولدو آج کے دن۔۔" ماسی والی گٹ سنتے ہی وہ اسے گھورنے لگی جبکہ وہ اس کی سخت نظروں سے انجان اس کے ساتھ کھڑے اب آنکھوں میں لینس ڈال رہی تھی۔
"تمھاری ماما بھی ہونگی نا برتھڈے پر؟" انابیہ نے اپنے بال کھولتے ہوئے کہا۔
"نہیں وہ تو چلی گئ ہوں گی۔۔" لینسز ڈالنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے اب پانی نکل رہا تھا۔
"کہاں؟" وہ تھوڑا حیرانی سے پوچھنے لگی۔
"وہ ایک بزنس پرسن ہیں انکے ساتھ کام کرنے والوں نے آج ایک لنچ رکھا ہے وہ وہی گئ ہیں۔۔"۔ وہ لینس ڈال چکی تھی۔
"تو کیا تم نے صرف ہم دونوں کے لیے اتنی محنت کی اتنا خرچہ کیا۔۔" وہ پھر سوال کرنے لگی۔
"چاروں کے لیے۔" وہ اس کی تصحیح کرتے ہوئے بولی۔
"چاروں کے لیے؟؟؟ مطلب دو ہم اور دو اور کون؟؟" اسکا برش کرتے کرتے ہاتھ رکا۔
"تم کتنے سوال کرتی ہو اففف۔۔ پتہ چل جائے گا بعد میں۔۔۔ دیکھو مجھے تمہیں تیار کرکے خود بھی ہونا ہے باہر ساری ڈیکوریشن مکمل ہو گئ ہے۔۔ اب سوال نہیں ورنہ میں ٹیپ لگا دوں گی منہ پر۔۔" وہ میک اپ کے سامان کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں تیار ہو چکی تھیں۔ زارا اب اپنے جوتے پہن رہی تھی تبھی اس نے انابیہ کو دیکھا جو سر پر جالی کا سیاہ دوپٹہ اوڑھ رہی تھی۔ چہرے پر میک اپ نہ ہونے کے برابر تھا۔
"اے یہ تم کیا کر رہی ہو؟ ایسی میکسی کے ساتھ دوپٹے بھی رکھے جاتے ہیں کیا؟" وہ تھوڑا حیران ہوتے ہوئے بولی۔۔
"کیوں دوپٹہ تو میں سر پر ضرور ٹکاتی ہوں چاہے کچھ بھی ہو۔ اور یہ اسکے ساتھ ہی تھا سو میں نے پہن لیا۔"وہ کندھے اچکاتے شیشے میں دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے بولی۔۔ اسکی کمر پر اسکے لمبےبال جھول رہے تھے ۔۔
"اچھا ٹھیک ہے چلو لان میں چلیں۔۔" وہ اب اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔۔
"تم نے بتایا نہیں باقی دو لوگوں کون ہیں؟" وہ اسکے چہرے پر نظریں ٹکائے بول رہی تھی۔۔
"اچھا بتاتی ہوں لیکن پلیز بدمزگی مت کرنا ہم نے بڑی محنت کی ہے۔" وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں ۔
"کبیر اور عاصم۔۔" اس کے قدم وہیں جم گئے۔۔ زارا نے مڑ کر اسے دیکھا۔
"کیا ہوا رک کیوں گئ؟" وہ تھوڑی دیر یوں ہی کھڑی رہی۔۔
"کچھ نہیں چلو۔۔" وہ کچھ خرابی نہیں چاہتی تھی اس لیے ایک گہرا سانس لیتے چلنے لگی۔ ایسے دوست بہت مشکل سے ملتے ہیں خاص کر زارا جیسے۔
●●●●●●●●●●●●●●●●
"اسے پتہ ہے کہ ہم دونوں بھی یہیں ہیں؟ " عاصم اور کبیر دونوں اس وقت ڈیکوریشن کا معائنہ کر رہے تھے۔ کبیر نے سیاہ ڈریس شرٹ کے ساتھ سیاہ پینٹ پہن رکھی تھی اور بال جیل کی مدد سے پیچھے کر رکھے تھے اس طرح کہ تھوڑے ماتھے پر بھی پڑے تھے جبکہ عاصم نے وائٹ ڈریس شرٹ کے ساتھ بھورے رنگ کی پینٹ زیب تن کی ہوئ تھی۔ وہ دونوں ہی بلاشبہ بہت ہینڈسم لگ رہے تھے۔۔
"شاید زارا نے بتا دیا ہو۔۔" کبیر پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے نظریں سفید اور گلابی کیک پہ مرکوز کیے ہوئے بولا جس پر انابیہ لکھا تھا۔ عاصم "ہممم" کرتے ہوئے تھوڑا سا گھوما تھا تبھی سامنے سے ان دونوں کو آتا دیکھا۔
" آگئیں دونوں۔۔" اسنے کبیر کی طرف جھک کر بولا تھا۔ کبیر کی ان کی طرف پشت تھی عاصم کی آواز پر وہ اسی طرح جیبوں میں ہاتھ ڈالے پیچھے مڑا۔۔ انابیہ نے اسے آتے ہی دیکھ لیا تھا اس لیے وہ اب نظریں جھکائے چل رہی تھی وہ اس کی طرف نہیں دیکھنا چاہتی تھی یا شاید ہمت نہ کر سکی۔۔ جبکہ کبیر کے دل کی دنیا کو وہ پوری طرح ہلا چکی تھی ۔ وہ تو سادگی میں ہی قیامت ڈھاتی تھی اور آج کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔
اس کی آنکھیں مکمل طور پر اس میں کھو گئ تھیں ۔ یہ آنکھیں صرف آنکھیں نہیں تھیں کیمرہ تھیں۔۔ ایک ایسا کیمرا جو صرف اس لڑکی کو کیپچر کرتا تھا۔۔ جو اس کا ہنسنا۔۔ اس کا مسکرانا۔۔ اس کا رونا۔۔ اس کے آنسو۔۔ سب کچھ اس کی میموری میں قید کر چکا تھا۔
ان دونوں کے درمیان راستہ اتنا نہیں تھا جتنا وہ اس وقت کبیر کو لگ رہا تھا شاید محبت میں راستے طویل ہو جاتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ راستہ نہ صرف طویل تھا بلکہ کٹھن بھی تھا۔ آہستہ آہستہ وہ قریب آتی گئ۔۔ فاصلہ طے ہوتا گیا پھر ایک وقت تھا جب وہ عین اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب انابیہ نے چہرہ اٹھا کے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا بس کچھ پل کے لیے بلکہ کچھ سیکنڈز کے لیے پھر اس نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا کیونکہ وہ کبیر ہی تھا جو مسلسل اسکی آنکھوں میں دیکھ سکتا تھا ۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔۔
"اب ہٹ بھی جائو کبیر۔ کیا نظر لگانی ہے؟" زارا ابرو اچکائے کبیر کو دیکھ رہی تھی۔۔
"ڈونٹ وری زارا۔۔ میری نظر نہیں لگتی بیا کو تو بلکل نہیں لگے گی۔۔"وہ انکو راستہ دیتے ہوئے بولا ۔ انابیہ نے ایک نظر اس پر ڈالی اور آگے بڑھ گئ۔
"ویسے مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ ڈریس تم پر اتنا جچے گا۔۔" اس نے تھوڑا جھک کے اس کے کان میں کہا تھا۔ تو اس کے چلتے قدموں کو بریک لگی۔۔
"تمہیں کیسے پتہ کہ میں نے یہی پہننا تھا؟" وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگی۔
"تم دونوں کیا سرگوشیاں کر رہے ہو؟" زارا انہیں باتیں کرتا دیکھ کر پوچھنے لگی۔ جس پر کبیر سر نفی میں ہلانے لگا۔
لان بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ وہ چاروں طرف دیکھ کر رہ گئ یہ سب اسپیشل اس کے لیے کیا گیا تھا آج اس کو اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا اگر وہ کہتی تھی کہ اسے ایسا انسان ضرور ملے گا جو اسے ڈیزرو کرتا ہوگا تو وہ صحیح کہتی تھی کیونکہ اسے ایسے دوستوں سے نواز دیا گیا تھا۔۔ وہ کبھی اپنی سالگرہ اپنی مرضی سے نہیں مناتی تھی لیکن کبھی کبھی دوستوں کی خوشی کے لیے اپنا غم بھولنا پڑتا ہے چاہے وہ کتنا بڑا ہو۔۔اس نے آگے بڑھ کے کیک کاٹا۔ ایک چھوٹا سا پیس اس نے زارا کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا اور پھر زارا نے اسکو۔۔ کبیر اور عاصم ہاتھ باندھے انہیں دیکھتے رہے ۔
"کیا ہے اب ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ ہم نہیں کھلانے والے بہتری اسی میں ہے خود ہی کھالو۔۔" زارا انکو گھورتا ہوا دیکھ کر بولی۔
"ہمیں ایسی امید بھی نہیں ہے۔۔" عاصم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا تو کبیر نے اسے کہنی ماری۔ کبھی تو کسی کا لحاظ کر لیا کرے یہ لڑکا۔
"ہونی بھی نہیں چاہئیے۔۔ بلکہ ایک کام کرو خود بھی کھائو اور ہمیں بھی سرو کرو۔" انابیہ اور کبیر تماشا دیکھ رہے تھے۔
"یہ لڑکیوں کے کام ہیں بہتر ہے لڑکیاں ہی کریں ۔۔" عاصم کی یہ بات سنتے ہی انابیہ اسکی جانب غصے سے دیکھنے لگی۔
"آج کے دور میں کوئ کام لڑکے یا لڑکی کا نہیں ہوتا ۔۔ کام کام ہوتا ہے ۔ لڑکیاں صرف گھرداری ہی نہیں کرتی وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتی ہیں ۔۔ سمجھے؟" وہ چھری عاصم کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے غصے سے بولی۔ عاصم کو سمجھ نہیں آیا کہ اس میں اتنا بھڑکنے کی کیا ضرورت تھی۔۔ لیکن اسے پتہ ہونا چاہیئے تھا کہ ان کے ساتھ ساتھ وہ بھی بزنس کی سٹوڈنٹ ہے۔ اس کے بھی اونچے اونچے خواب ہیں۔
"اچھا اچھا ہم کر دیتےہیں کوئ مسئلہ نہیں۔۔" کبیر نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ جبکہ عاصم ہاتھ میں چھری پکڑے تیوڑیاں چڑھائے اپنے دوست کو گھور رہا تھا۔۔ اسی پل کبیر نے زارا کو آنکھ کے اشارے سے کچھ کہا جس پر اسنے سر اثبات میں ہلایا۔
"جی نہیں یہ کیک تو عاصم ہی کاٹے گا۔۔ بیا تم کبیر کے ساتھ جائو اسے تم سے بات کرنی ہے۔۔" زارا عاصم کو بازو سے پکڑ کر کیک کی طرف لائی جبکہ اسکی آخری بات سنتے ہی کبیر نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اسکی طرف کوئ متوجہ نہیں تھا۔ "حد ہی ہو گئ زارا کو کب عقل آئے گی ایسے بھیجتے ہیں کسی کو۔۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔ انابیہ کے چہرے پر ناگواری سی گزری شاید وہ جانتی تھی کہ اسے کیا بات کرنی ہے۔
"جائو نا بیا۔۔" وہ اسے تھوڑا آگے دھکیلتے ہوئے بولی۔ اس نے ایک نظر اٹھا کر کبیر کو دیکھا اور آگے کو چلنے لگی۔
وہ دونوں اب لان میں اکٹھے چل رہے تھے۔ زارا کے گھر کا لان بہت ہی بڑا اور خوبصورت تھا ۔ مسلسل ہوا چل رہی تھی جسکی وجہ سے انابیہ کے بال اڑ اڑ کے اسکے شانوں پر بکھر رہے تھے۔ کافی دیر خاموشی رہی اور اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہونے لگا۔۔
"مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئ ۔" اس خاموشی کو کبیر کی آواز نے توڑا۔۔ وہ دونوں سامنے دیکھتے ہوئے چل رہے تھے۔
"بلکہ میں نے اس لفظ محبت کو ایک لفظ سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مجھے لگتا تھا کہ انسان کو کبھی محبت نہیں ہو سکتی۔ بلکہ میں تو ہنستا تھا ان لوگوں پر جو محبت کرتے تھے میرے نزدیک یہ ایک بیکار فعل تھا۔" وہ بولتے بولتے تھوڑا رکا ۔ وہ جیسے کچھ سننا نہیں چاہتی تھی وہ بھاگ جانا چاہتی تھی کہیں دور بہت دور۔۔ وہ ڈر رہی تھی وہ اسی پل سے ڈرتی تھی وہ اسے چیخ چیخ کر بتانا چاہتی تھی کہ چپ کر جائو مجھے کچھ نہیں سننا۔ وہ مسلسل اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم مسلنے لگی۔ ہوا تیز ہو گئ تھی ۔۔
"لیکن دیکھو جس محبت سے میں بھاگتا تھا وہ میرے پیچھے پڑ گئ ہے۔" انابیہ نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔
"مجھے محبت ہے بیا ۔۔ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ " اس نے آنکھیں دوبارہ کھولیں ان میں نمی تھی۔ "مجھے پتہ ہی نہیں چلا کب کیسے تم میرے لیے اتنی اہم ہو گئ۔۔ میں تمہیں بتانا چاہتا تھا لیکن میں ہمت نہیں کر سکا۔ میں ڈرتا تھا بلکہ میں ابھی بھی ڈر رہا ہوں۔۔" وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔
وہ دونوں اب رک چکے تھے انکے سامنے کیاری تھی مختلف پھولوں کی کیاری۔۔ نرمین بیگم کو پھول بہت پسند تھے اسی لیے ان کے لان میں چاروں طرف پھولوں کی چھوٹی چھوٹی کیاریاں تھیں۔۔ انابیہ پھولوں کے سامنےاب گھاس پر بیٹھ گئ تھی اس طرح کے اس کا وہ خوبصورت جوڑا چاروں طرف پھیل گیا تھا۔۔ اسکی آنکھ سے ایک آنسو جھلکا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے ایک خوبصورت سرخ پھول کو چھوا ۔ کبیر نے اسکے ہاتھ کو دیکھا پھر اس پھول کو کوئ شک نہیں کہ دونوں ہی نرم و ملائم لگ رہے تھے۔۔
"تم نے کبھی پھولوں پر غور کیا ہے کبیر؟؟" وہ اسی طرح پھول کی پتیوں پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی اور کبیر ویسے ہی کھڑا اسے سن رہا تھا۔
"یہ کتنے پیارے ہوتے ہیں نا نازک بھی ہوتے ہیں۔۔ آہ ہ ہ!!" وہ بولتے بولتے رکی کیوںکہ اسکی شہادت کی انگلی پر ایک کانٹا چبا تھا۔۔ کبیر فوراً زمین پر بیٹھ کر اسکا ہاتھ دیکھنے لگا جس پر خون کی ایک بوند سی بن گئی تھی ۔ انابیہ نے چہرہ اٹھا کے اسے دیکھا جو اسکا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا۔ اس نے ہاتھ نہیں کھینچا۔۔
"لیکن اس میں یہ جو کانٹے ہوتے ہیں یہ انسان کو اذیت پہنچاتے ہیں کہ پھر انسان سوچتا ہے کہ آخر اس نے اس پھول کو ہاتھ ہی کیوں لگایا نہیں لگانا چاہیے تھا۔۔" وہ تھوڑا زخمی انداز سے مسکرائ تھی کبیر اسکے قریب بیٹھا تھا اتنا کہ وہ اسکی متورم آنکھوں میں نمی دیکھ سکتا تھا۔
"محبت بھی ایسی ہی ہوتی ہے ایک خوبصورت احساس دلوں کو نرم کر دینے والا احساس ایک خوبصورت جزبہ ۔۔ لیکن یہ محبت انسان کو اذیت بھی دیتی ہے بلکل اسی کانٹے کی طرح۔۔ انسان کا سکھ چین سب چھین لیتی ہے اسے بہت تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں ۔ پھر وہی انسان کہتا ہے کہ اسے محبت کرنی ہی نہیں چاہئیے تھی کیوں کی محبت؟" وہ اب بھی ایک دوسرے کو ہی دیکھ رہے تھے کبیر کے چہرے پر سنجیدگی تھی جبکہ انابیہ کے چہرے پر ایک ہلکی اور زخمی مسکراہٹ۔
"تو ہم ایک کام کرتے ہیں ۔۔ ہم اپنی محبت سے کانٹے نکال دیتے ہیں۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا اسکا ہاتھ اب تک اسکے ہاتھ میں تھا۔
"کیا تم ہر پھول میں سے کانٹے نکال سکتے ہو؟؟"
"نہیں۔۔ لیکن کوشش تو کی جا سکتی ہے نا۔۔" اب وہ بھی تھوڑا مسکرا یا تھا ۔
"لوٹ جائو کبیر میرے پیچھے خود کو خوار مت کرو۔ میں جس راستے پر ہوں وہاں میں اکیلے ہی چل سکتی ہوں ۔"
"میں جس راستے پر بھی چل لوں میری منزل تم ہی ہو۔۔" کبیر کی آنکھوں میں زخمی سا تاثر ابھرا تھا۔ انابیہ نے اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا لیں۔
"یہ بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن۔۔" وہ اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں سے چھڑاتے ہوئے بولی۔
"ناممکن کچھ نہیں ہوتا بیا ایک کوشش کر کے دیکھو اتنا مشکل نہیں ہے۔ مجھے ایک موقع دے کے تو دیکھو۔" وہ دونوں اب کھڑے ہو چکے تھے۔
"میں ہمیشہ خود سے ایک بات کہتی ہوں۔۔" وہ ایک لمحہ رکی۔۔"محبت میرے لیے نہیں بنی۔۔۔تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔۔" یہ کہتے ہی وہ واپس جانے کے لیے مڑ گئ۔ وہ ابھی دو قدم چلی تھی پھر اسکی آواز پر رکی۔
"کیا یہ کافی نہیں ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے؟" اسکے لہجے میں منت تھی۔ وہ رک گئ۔ اور ایک گہرا سانس لیا۔۔
"میری منگنی ہو چکی ہے۔۔" یہ کہتے وہ تیزی سے وہاں سے نکل گئ۔ پیچھے رہ جانے والا شخص برف کے مجسمے کی مانند کھڑا رہا اسے اس جملے کی توقع نہیں تھی ۔ وہ حرکت نہیں کر سکا اسے لگا شاید وہ کبھی حرکت نہیں کر سکے گا۔ وہ اب زارا اور عاصم تک پہنچ چکی تھی اور وہ وہیں تھا۔۔ ہوا رک چکی تھی۔
"زارا مجھے گھر جانا ہے۔" زارا اور عاصم کیک کاٹ کر کے پلیٹس میں سرو کر چکے تھے۔
"بیا کیک تو کھا لو ابھی وقت ہی کیا ہوا ہے اتنی جلدی کیا ہے۔۔ کبیر کہاں ہے؟" زارا پریشان حالت میں اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں تمہارے کمرے میں جا رہی ہوں چینج کرنے اور پھر مجھے یونیورسٹی ڈراپ کر دینا میرا ڈرائیور پہنچنے والا ہوگا ۔۔" وہ روکھے سوکھے انداز میں حکم صادر کرتے جانے لگی سامنے سے کبیر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا آرہا تھا وہ بغیر اسے دیکھے اس کے ساتھ سے ہو کر چلی گئ۔ کیا انسان اتنی جلدی انجان بن جاتا ہے؟ ابھی وہ ان کے ساتھ مل کر ہنس رہی تھی اور اب یکدم اسے نظرانداز کرتے وہ اس کے ساتھ سے ہو کر چلی گئ اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
"میں جا رہا ہوں عاصم تم نے چلنا ہے یا رکو گے؟" کبیر سنجیدگی سے اسے کہہ رہا تھا۔
"کبیر کیا ہوا ہے تم دونوں تو بات کرنے گئے تھے کیا ہوا ہے کچھ بتائو پلیز مجھے ٹینشن ہو رہی ہے۔۔" زارا کبیر کے سامنے آتے ہوئے بولی ۔
"کچھ نہیں ہوا زارا میں کل بات کروں گا تم سے فلحال میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ تم چل رہے ہو؟" زارا سے کہتے وہ عاصم سے مخاطب تھا۔۔ عاصم نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر مسکراتے ہوئے زارا کو دیکھا۔۔وہ بھی مسکرا دی۔
"صبح ملاقات ہوگی۔" عاصم ہاتھ ہلاتا کبیر کے ساتھ چلا گیا۔ زارا بھی انکے جانے کے بعد اپنے کمرے میں گئ۔
"سپیڈ کم کر یار کیا ہو گیا ہے مجھے نہیں مرنا۔۔ تجھے مرنا ہے تو مر۔۔" عاصم پیسنجر سیٹ پر بیٹھے کبیر کو بول رہا تھا جو اس وقت گاڑی چلا نہیں اڑا رہا تھا۔۔
"کبیر پلیز یار ہوا کیا ہے کچھ بتا دے پلیز۔۔ انابیہ نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو تیرا غصہ ساتویں آسمان پر ہے؟؟" وہ اسے مسلسل کہے جا رہا تھا لیکن کبیر تو جیسے سن ہی نہیں رہا تھا۔۔ " کہا بھی تھا مجھ سے لڑکی پٹانے کی کلاسز لے لے لیکن تجھے تو میں دنیا کا سب سے بڑا احمق لگتا تھا نا۔۔ اب دیکھ لیا نا انجام۔"
"عاصم چپ کر جائو ورنہ میں کہیں گاڑی ٹھوک دوں گا۔۔ کہا ہے نا صبح بات کریں گے۔۔" اسنے عاصم کو درشتی سے ٹوکتے ہوئے سپیڈ مزید بڑھائ۔
"تمہیں بہت غصہ آتا ہے کبیر تمہارے اس غصے کا میں کیا کروں نہایت ضدی انسان ہو تم ۔۔ اپنی ضد کی وجہ سے ایک دن پچھتائو گے تم۔۔ گاڑی۔۔ آہستہ۔۔ کرو۔۔" وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا اسے غصے سے کہہ رہا تھا۔۔ کبیر نے تیوڑیاں چڑھائے سڑک کے بیچ و بیچ ایک زوردار بریک کے ساتھ گاڑی روک دی۔
"بہت ہو گیا اترو ۔۔" وہ مکمل طور پر اسکی طرف گھومتے ہوئے بھڑکا تھا۔
"مجھے آنا ہی نہیں چاہئیے تھا تمہارے ساتھ ۔۔اپنی گاڑی میں آنا چاہیے تھا۔ "وہ اس پر ایک غصیلی نظر ڈالتا گاڑی کا دروازہ کھولتے باہر نکل گیا۔۔ کبیر دوبارہ گاڑی اڑانے کے انداز میں چلانے لگا۔۔ کافی دیر وہ سڑکوں پر ایسے ہی گاڑی چلاتا رہا۔
●●●●●●●●●●●●●●●●●
"یہ سب کیا تھا بیا؟" انابیہ بیڈ پر بیٹھے نیچے جھک کر اپنے سنیکرز پہن رہی تھی۔ وہ کپڑے بدل چکی تھی واپس صبح والے حلیے میں آچکی تھی۔ تبھی زارا زور سے دروازہ کھولتے اندر کمرے میں داخل ہوئ تھی۔
"کیا؟" اس نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
"بنو مت تمہارے اور کبیر کے درمیان کیا بات ہوئ تھی وہ اتنا غصے میں گیا ہے یہاں سے؟" زارا اب اسکے سر پر کھڑی تھی۔
"یہی کہ میری منگنی ہو چکی ہے۔۔" وہ نظریں جھکائے بولی۔
" وااااٹ؟؟" زارا منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔" بکواس کر رہی ہو جھوٹ بول رہی ہو۔۔"
"تم نے مجھے اتنا گھٹیا سمجھ رکھا ہے جو میں اس طرح کے جھوٹ بولوں گی۔" وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہی ایک قدم آگے آتے ہوئے غرائ تھی۔
"کب ہوئ تھی منگنی؟؟"
"بس میرا کزن سے رشتہ ہوا تھا وہ امریکہ میں ہوتا ہے اب۔۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کب آئے گا لیکن جب بھی آئے گا میرے بابا میرا اس سے نکاح کر دیں گے۔۔" انابیہ اب دبی ہوئ آواز میں اس سے بات کر رہی تھی۔
"تو بیا تم۔۔۔"
"پلیز زارا مجھ سے اور کچھ مت پوچھو پلیز میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔۔" اسکی آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے تھے۔۔ اس کی ایسی حالت پر زارا کے کندھے ڈھیلے پڑ گئے۔ اس نے آگے ہو کے اسکے بندھے ہوئے ہاتھوں کو نرمی سے پکڑا ۔
"اوکے اوکے ۔۔ میں نہیں پوچھتی رونا مت۔" زارا کو جیسے اس پر ترس سا آیا۔ " چلو میں تمہیں یونیورسٹی چھوڑ دوں۔" وہ سر اثبات میں ہلاتے اس سے پہلے کمرے سے نکل گئ۔
●●●●●●●●●●●●●●
زارا اسے چھوڑ کے جب واپس آئ تو اس نے بیڈ پر پڑے اسی کالے جوڑے کو افسردگی سے دیکھا جو کبیر نے انابیہ کے لیے لیا تھا اور سر جھٹک کر وہیں بیڈ پر لیٹ گئ۔۔ اسی دوران اسے عاصم کی کال آئ۔ اس نے فون کان سے لگایا اور دھڑلے سے اٹھی۔۔ "کب کیسے؟ کون سے ہسپتال میں؟؟ میں آتی ہوں؟" وہ تیزی سے اٹھ کر کمرے سے نکلی۔۔
"مزہ تو بہت آرہا ہوگا۔ ایسا کرو ایک ایکسیڈنٹ اور کر آئو۔۔" وہ دونوں ہسپتال کے ایک سفید اور روشن کمرے میں تھے۔ کبیر بیڈ پر بیٹھا تھا اور عاصم اس سے تھوڑا دور دیوار سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ڈاکٹر کبیر کے سر پر پٹی باندھ رہا تھا اور کبیر مسلسل اپنی شان میں کہے جانے والے جملوں کو سنتے ہوئے عاصم کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
"پریشانی کی بات نہیں ہے چھوٹی موٹی چوٹ ہے جلد ٹھیک ہو جائے گی۔۔ آپکی قسمت اچھی تھی جو ایکسیڈنٹ بہت بڑا نہیں تھا۔" ڈاکٹر اسکے سر پر پٹی کو اردگرد سے لپیٹتے ہوئے بولا۔
"قسمت تو اسکی واقعی بہت اچھی ہے جو اتنے ایکسیڈنٹ کرنے کے بعد بھی یہ صحیح سلامت بچ جاتا ہے۔۔" عاصم اپنی جگہ سے تھوڑا آگے ہوتے ہوئے بولا۔۔
"کوئ بات نہیں ہوتا رہتا ہے ایسا۔۔ بس انسان کو تھوڑی احتیاط کرنی چاہئے۔۔ کچھ میڈیسنز بتائوں گا جو آپکے سر ، گردن اور بیک کے درد کو آرام فراہم کریں گی۔"
"اس کا دماغ ٹھکانے لگانے کے لیے بھی کوئی دوائی دے دیں۔۔" عاصم اس کی حالت پر واقعی محظوظ ہورہا تھا۔۔ کبیر کا بس نہیں چل رہا تھا یہاں سے کچھ اٹھائے اور سیدھا اس کے سر پر دے مارے تاکہ اگلے ہی لمحے اس کے ساتھ اس سفید بستر پر وہ بھی بیٹھا ہو۔۔
" میں گھر جا سکتا ہوں؟؟" کبیر نے نظریں ڈاکٹر پر مرکوز کیے کہا۔
"جی بلکل آپ جا سکتے ہیں لیکن آیندہ احتیاط کیجئے گا۔" ڈاکٹر اسے ہدایت دے کر جانے ہی لگا تھا کہ زارا دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئ۔ اس کو دیکھتے ہی کبیر نے پھر عاصم کو ہی گھورا۔۔
"یہ سب کیسے ہوا کبیر؟؟" وہ اندر آتے ساتھ پوچھنے لگی۔
"میں بتاتا ہوں۔ کبیر کار میں بیٹھا پھر اسنے سپیڈ بڑھائ اسے مزہ نہ آیا تو اور بڑھائ پھر اسکے سامنے ایک اور کار آئ اس نے سوچا ایک بار سامنے والے کی کار میں کار مار کے دیکھتا ہوں اور ایکسیڈنٹ ہو گیا اور پھرر۔۔۔"
"چپ ہو جائو ہر وقت مذاق کے موڈ میں ہوتے ہو تم۔۔ حالت تو دیکھو اسکی۔۔" وہ روانی میں بولے جا رہا تھا تبھی زارا نے غصے سے اسے ٹوکا۔۔ ڈاکٹر جا چکا تھا۔۔
" اوہ مائی ڈئیر زارا۔۔۔حالت تو ٹھیک ہے اسکی بلکل اور تم پریشان نہ ہو یہ ہر مہینے غصے میں ایسے ایکسیڈنٹ کرتا رہتا ہے عادت ڈال لو" اس نے زارا سے کہا اور کبیر کو دیکھا۔۔" گھورو مت۔۔۔ اور ہاں۔۔ ایکسیڈنٹ کرتے ہوئے دیکھ لیا کرو کہ سامنے والی گاڑی کسی امیر انسان کی ہے یا بیچارے غریب ڈرائیور کی۔۔ اسکی گاڑی کا نقشہ بگاڑ دیا پیچھے سے۔۔"
"اور ضرور تم نے اسکو اسکے نقصان کے پیسے دے دیے ہونگے۔۔ فکر نہ کرو بتا دینا کتنے غریب ہوئے ہو تم۔۔ میں دے دوں گا تمہیں۔۔" اسکی یہ بات سنتے عاصم ہنس پڑا۔ اسے اس کے ہنسنے کی وجہ سمجھ نہیں آئ تھی۔۔
"مجھے دینے کی ضرورت نہیں ہے وہ عام سی گاڑی تھی ویسے بھی خستہ حال تھی۔" وہ تھوڑا رکا اور پھر کبیر کی طرف جھک کر اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔۔ "اپنی (مرسڈیز) Mercedes کا سوچو۔۔ چچچ بیچاری کا فرنٹ برباد کردیا تم نے۔۔" شرارتی مسکراہٹ اسکے لبوں پر بکھری تھی۔ جبکہ کبیر کے تو جیسے طوطے اڑ گئے تھے ۔
"حد ہے اب ڈیڈ سے کیا کہوں گا میں۔۔" وہ افسوس سے بولا تو اسکی بات پر زارا بھی ہنس دی۔
"تم اپنے ڈیڈ سے ڈرتے ہو؟" زارا اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔
"اس عمر میں سب ہی ڈرتے ہیں کیونکہ آپ اسی شخص کا پیسا برباد کر رہے ہوتے ہو۔۔ اور ویسے بھی میں نے کہا نا ہر مہینے کے ایکسیڈنٹ سے اسکی ہڈیوں پر خرچہ نہیں ہوتا گاڑیوں پر ضرور ہوتا ہے۔"
"اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے تم شاید بھول رہے ہو میرا ایک عدد بڑا بھائی بھی ہے بابا کو خبر تک نہیں ہوگی۔۔" اس نے جیسے مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا۔۔
"تمہیں اتنا غصہ آتا ہے کبیر؟" زارا آنکھیں پوری طرح کھولتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"تم جانتی تھی؟؟" وہ اسے جواب دینے کی بجائے سوال کر رہا تھا۔
"کیا؟؟"
"یہی کہ بیا کی منگنی ہوئی ہوئ ہے۔۔" اس بار حیران ہونے کی باری عاصم کی تھی۔
"نہیں مجھے خود اسکے منہ سے آج پتہ چلا ہے ۔۔"
"کمال ہے تم تو اسکی دوست ہو نا پھر بھی۔۔"
"کبیر مجھے واقعی نہیں پتہ تھا۔۔ میں نہیں جانتی اس نے کیوں نہیں بتایا لیکن میں اس سے ڈیٹیل میں بات کروں گی۔۔ ڈونٹ وری۔۔ تم اب عاصم کے ساتھ گھر جائو اور آرام کرو۔۔" کبیر نے اسکی بات سن کے سر اثبات میں ہلایا۔
"چلو ۔۔ ملازم حاضر ہے۔۔" عاصم نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تھا جسے اس نے جھٹکا تھا اور خود ہی کھڑا ہو گیا ۔ عاصم کندھے اچکاتا اسکے ساتھ چلنے لگا۔۔
●●●●●●●●●●●●
وہ جب سے زارا کے گھر سے آئ تھی تب سے کچھ بے چین سی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔ اس نے اپنے چہرے پر پانی کی کچھ چھینٹے ڈالی اور پھر رک کر شیشے میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔۔ پھر اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا ۔ اسکے سر میں شدید درد تھا ۔ اس نے نل بند کیا اور کمرے میں آگئی۔پھر کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ جب بھی کسی چیز کے بارے میں زیادہ سوچتی تھی اس کا سر پھٹنے لگتا تھا۔ دراز سے سر درد کی گولی نکالی گلاس میں پانی انڈیلا اور پانی کے ساتھ گولی نگل لی ۔۔
"میں کیا کروں ایسے سوچ سوچ کے میرا سر پھٹ جائے گا ۔۔" اسی دوران ردا اور مناہل یونیفارم پہنے کمرے میں آئیں ۔۔
"آپی کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہیں؟" ردا بیڈ پر ڈھے جانے کے انداز میں بولی۔۔ انابیہ نے اسکے سوال پر کچھ نہیں کہا نہ ہی اسکی نظریں اسکی جانب تھیں۔۔ جواب نہ ملنے کی صورت میں ردا اسکے چہرے کو دیکھنے لگی۔۔
"آپی میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔"
"پاستا۔۔" بیا اچانک بولی۔
"پاستا؟؟؟" ردا تھوڑا حیران ہوئ تھی۔
"ہاں پاستا۔۔"
"پاستا کہاں سے آگیا بیچ میں؟"
"پاستا بنائوں گی۔۔۔ تم کھائو گی؟؟" انابیہ اسکی طرف گردن گھماتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
"آپی اسے چھوڑیں یہ تو ڈائٹنگ پہ ہے۔۔ میں ضرور کھائوں گی۔۔" مناہل پاستا کا نام سنتے ہی انابیہ کی طرف گھومی ۔۔
"اے۔۔ کونسی ڈائٹنگ؟؟؟" ردا اسکی اس بات پر برا سا منہ بناتے ہوئے بولی۔۔
"شرم کرو موٹی میں تو سمجھی تم نے ڈائٹنگ شروع کی ہوگی لیکن تم ڈھیٹ۔۔۔"
"ہاں تو تم بھی کھایا کرو نا زیادہ کہ ان ہڈیوں پر تھوڑا گوشت چڑھے جیلس خاتون۔۔ ہونہہ" مناہل منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔۔
"ارے یار چپ ہو جائوکیا سوتنوں کی طرح ہر وقت لڑتی رہتی ہو۔۔" انابیہ ان دونوں کے درمیان میں آتے ہوئے بولی۔۔
"اللہ نہ کرے یہ میری سوتن ہو پہلے میں اپنے شوہر کو شوٹ کروں گی اور پھر اسے۔۔" ردا نے دو انگلیوں سے پستول بناتے ہوئے کہا۔
"ہاں میں تو جیسے مری جا رہی ہوں تمہاری سوتن بننے کے لیے اور ویسے بھی ایک ہی وقت میں دو بہنیں ایک دوسرے کی سوتنیں نہیں بن سکتیں۔۔"
"لڑتے رہو دونوں میں جا رہی ہوں پاستا بنانے تم لوگوں کا دل ہو تو چینج کرکے آجانا کھانے۔۔" کہتے ساتھ وہ وہاں سے چلی گئ۔۔
"بس بس جانتی ہوں میں زیادہ مجھے مت سکھائو اور کوئ اتنی موٹی نہیں ہوں میں سمجھی نا۔۔" اس کے جانے کے بعد بھی وہ دونوں چپ نہیں ہوئیں اور ردا اسکو دھکا مارتے ہوئے واشروم کی طرف بڑھ گئ۔ جبکہ مناہل اسے ناک چڑھائے دیکھنے لگی۔
"توبہ ہو گئ ایک تو بندے کے سر میں درد ہو اور ان چڑیلوں کی آوازیں برداشت کرو حد ہے۔۔" وہ کیبینیٹ سے چیزیں نکالتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔۔ اور ناہیدہ بیگم اس کے پیچھے کھڑے اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔۔
"اب آج کچن میں بھول کے آہی گئ ہو تو کچن گندا مت کرنا ۔۔" ناہیدہ کی آواز سنتے اس نے گردن موڑ کے پیچھے دیکھا۔ اسکی ماں ہاتھ باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
"آپ کب آئیں؟؟"
"جب تم میری دونوں بیٹیوں کو چڑیلیں بول رہی تھی۔۔" انکے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔
"تو اس میں کوئی شک؟؟"
"شک تو کوئی نہیں ہے کیونکہ وہ اعلیٰ نسل کی چڑیلیں ہیں۔۔" کچن میں دونوں کا قہقہہ گونجا تھا۔۔
"میں بور ہو رہی تھی سوچا کچھ بنا ہی لوں۔۔"
"یہ تو اچھی بات ہے مگر تم ابھی آئ ہو تھکی ہو گی جائو میں بنا دیتی ہوں۔۔" ناہیدہ بیگم پلیٹس نکال کر شیلف پر رکھ رہی تھیں۔۔
"ماما جان میں نے کہا میں بور ہو رہی ہوں۔۔" اس نے دوبارہ دہرایا ۔
"اچھا ٹھیک ہے کرو جو کرنا ہے میں دیکھ کر آئوں دونوں نے ایک دوسرے کا قتل تو نہیں کر لیا۔۔۔" وہ دوبارہ ہنسی تھیں۔۔
پاستا بنانے کے بعد اس نے پلیٹس میں نکالا اور ٹرے میں رکھ کر اپنے کمرے میں ہی لے گئ وہ تینوں بھی کمرے میں ہی بیٹھی تھیں۔
"لو جی کیا یاد رکھو گے کہ انابیہ احمد عالم نے تم لوگوں کے لیے پاستا بھی بنایا تھا۔۔" ٹرے بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ تھوڑا احسان جتانے کے انداز میں بولی۔۔
"جی بلکل ہم یاد رکھیں گے کہ ہماری آپی جو کبھی کبھی صرف بور ہونے کی وجہ سے غلطی سے کچن کا رخ کر لیتی ہیں اور پھر صرف ایک پاستا بنا کر احسان جتاتی ہیں۔۔" ردا اس کو چھیڑتے ہوئے بولی۔۔
"بس شکر کرو کہ اتنا بھی کرتی ہے۔۔۔ ورنہ تم تو صرف رات کے برتن دھوتے ہوئے پوری دنیا کو سناتی ہو ۔۔" اب چھیڑنے کی باری ماما جان کی تھی وہ بھی ردا کو۔
"کچھ تو خدا کا خوف کریں ناہیدہ بیگم۔۔ تین ٹائم کے برتن دھلواتی ہیں آپ مجھ سے۔۔" ردا نے افسوس بھری نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔جس پر وہاں بیٹھے سب لوگ ہنسنے لگے تھے۔۔
وہ کچھ بھولی تو نہیں تھی اسے کبیر کی باتیں اب بھی سنائی دے رہی تھیں لیکن اس وقت وہ اپنی ماما جان اور بہنوں کے ساتھ تھی جن کی ہنسنے کی آوازیں اسے سکون بخش رہی تھیں۔ یہ اسکے لیے خوبصورت لمحہ تھا۔۔ اسکے دل میں اچانک خیال آیا کہ اگر کبھی اسے اپنی ان دونوں محبتوں میں سے ایک کو چننا پڑا تو وہ کیا کرے گی۔۔ یکدم اسکے چہرے کی ہنسی خوف میں بدل گئ۔ وہ جانتی تھی کچھ بھی اسکی مرضی کا نہیں ہوگا اسکے نصیب میں کبیر نہیں عالیان ہوگا۔ لیکن پھر سر جھٹک کر انکے ساتھ ہنسنے لگی۔۔ کل کس نے دیکھا ہے کل کیا ہو کون جانتا ہے کیا پتہ اسے وہ سب ملے جو وہ چاہتی ہے آزادی، ڈگری، ایک مقام ، اپنی مرضی کے فیصلے اور کبیر سب کچھ۔۔۔ وہ سوچوں کی دنیا سے باہر آچکی تھی انکے ہنسنے کی آوازیں پھر سے آنے لگی تھی وہ پھر انکے ساتھ مسکرانے لگی تھی۔
●●●●●●●●●●●●●
وہ یونیورسٹی آتے ہی کلاس میں جانے کے بجائے سیدھا گراونڈ میں آکر گھاس پر بیٹھ گئ۔ اس میں بلکل بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی کا بھی سامنا کرے اس لیے فلحال اس نے تنہا بیٹھنے کو فوقیت دی۔ بیگ سے لیپ ٹاپ اور نوٹ بک نکالی اور لیپ ٹاپ آن کر کے نوٹ بک پر لکھنے لگی۔ ابھی اسے بیٹھے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئ تھی کہ کبیر اسکے ساتھ آ بیٹھا اسکے ہاتھ میں اسی ڈریس کا بیگ تھا۔
"گفٹس واپس کرنے کے لیے نہیں دیے جاتے۔۔" وہ بیگ اسکے سامنے گھاس پر رکھتے ہوئے بولا۔ انابیہ نے بے دھیانی سے بیگ کو دیکھا پھر کچھ کہنے ہی لگی تھی مگر کبیر کے سر پر لگی بینڈیج دیکھ کر اس کے ہونٹ رک گئے۔
"یہ تمہیں چوٹ کیسے آئ ہے؟؟" وہ فکرمندی سے پوچھنے لگی کیونکہ وہ اس کے ایکسیڈنٹ سے انجان تھی۔
"یہ تو معمولی سی چوٹ ہے ٹھیک بھی ہو گئ ہے۔۔" اس نے عام سے لہجے میں کہا۔۔
"پھر بھی تمہیں دھیان رکھنا چاہیے نا اور اسے لے جائو میں کسی سے گفٹس نہیں لیتی ایکسپینسو تو بلکل نہیں لیتی۔" نظریں نوٹ بک پر جمائے وہ خشک لہجے میں بولی۔
"کم آن بیا یہ ایک ڈریس ہے کوئ آئ فون کا نیا ماڈل تو نہیں۔ یہ میں نے تمھارے لیے لیا تھا ۔۔" اس کے چہرے پر اداسی سی چھائی ہوئی تھی البتہ ڈریس واقعی مہنگا تھا۔
"کس حق سے؟" اس نے برہمی سے چہرہ کبیر کی طرف گھمایا۔
"اس سے تمہارا کیا مطلب ہے میرے خیال سے ہم بہت اچھے دوست ہیں۔۔ ایم آئ رائٹ؟" کبیر نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"دوست؟؟" وہ طنزیہ مسکرائ۔ "جو سب کچھ تم نے کل کہا تھا وہ ایک دوست کی حیثیت سے کہا تھا؟" اسے بےساختہ کل والا دن یاد آیا۔۔
"جو میرے دل میں تھا میں نے تم سے کہہ دیا اور میں اپنی ایک ایک بات پر اب بھی قائم ہوں۔۔" وہ بولا تو انابیہ فوراً بولی۔۔
"یہ جانتے ہوئے کہ۔"
"کہ تمہاری منگنی ہو چکی ہے۔۔" اس کی بات ادھوری کر کے کبیر نے خود مکمل کی۔ وہ دونوں اب خاموش تھے۔ پھر خاموشی ٹوٹی۔
"کیا ہم تھوڑی دیر بات کر سکتے ہیں؟" وہ کچھ امید لیے پوچھنے لگا۔
"ہم کب سے بات ہی کر رہے ہیں۔۔" اس نے بیگ میں سے کچھ نوٹس نکالتے ہوئے مصروف انداز میں کہا۔
"میں چاہتا ہوں کہ تمھاری اٹینشن میری طرف ہو۔" اس نے جیسے درخواست کرتے ہوئے کہا۔ انابیہ نے چہرہ موڑ کر آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔
"سمجھ گئ۔۔" اس نے لیپ ٹاپ بند کیا پھر نوٹ بک بند کی اور سب کچھ بیگ میں واپس ڈال کر وہ کبیر کی طرف مکمل طور پر گھومی۔ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھا اور سپاٹ چہرے سے اسے دیکھنے لگی۔
"کہو کیا کہنا ہے۔۔" کبیر اسکی اس حرکت پر مسکرایا اور سر جھٹکنے لگا۔
"بولو بھی ۔۔" وہ اسکو مسکراتا دیکھتے ہوئے بولی۔
"اچھا اچھا بول رہا ہوں ۔۔" وہ ہمیشہ کی طرح بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ بلکل نہیں مسکرائ وہ نہایت سنجیدہ تھی۔
"کب ہوئ تھی تمہاری منگنی؟"
"منگنی؟" اسے یاد آیا اس نے کل لفظ منگنی کا استعمال کیا تھا۔ ایک دم وہ گھبرا سی گئ پھر دل میں خود کو ڈھیروں لعنتیں دیتے ہوئے وہ نارمل ہوئ۔ اس کی یہ خاموشی اور یوں نظریں چرانا کبیر کو بری طرح چبھ رہا تھا۔وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
"دیکھو بیا۔ تم جانتی ہو کہ مجھے تم سے محبت ہے لیکن میں تمہارے دل کی بات سے انجان ہوں۔ ہو سکتا ہے تمہیں مجھ سے محبت نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو مجھے بتا دو میں قدم پیچھے لے لوں لیکن مجھ سے جھوٹ مت بولنا۔ مانا کہ واپس لوٹنا میرے لیے مشکل ہوگا مگر میں تمہارے لیے اتنی قربانی دے سکتا ہوں۔۔" حلق میں ابھرتی گلٹی کو اس نے بمشکل نیچے کیا اور نظریں اٹھا کر کبیر کو دیکھا وہ کس قدر سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آنکھیں انابیہ کے جواب کی منتظر تھیں مگر وہ کیا جواب دے؟ وہ بس اتنا جانتی تھی کہ اگر اس میں اقرار کرنے کی ہمت نہیں ہے تو انکار کرنے کا حوصلہ بھی اس میں نہیں ہے۔
"کوئی منگنی نہیں ہوئی۔" ہمت مجتمع کر کے اس نے یہ جملہ بولا۔ کبیر نے آنکھیں چھوٹی کیے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔"جب مجھے اس دنیا میں آئے ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا میری تائ جان نے مجھے اپنے بیٹے کے لیے مانگ لیا تھا۔ میرے بڑوں کی یہی خواہش ہے کہ میری شادی میرے کزن سے ہی ہو ۔"کبیر پورے وثوق سے اسے سن رہا تھا۔۔ "جب میں دس سال کی ہوئی تو تائ جان کی وفات ہو گئ۔ سب کہتے ہیں کہ ان کی موت کینسر سے ہوئ تھی لیکن مجھے یاد ہے وہ بلکل ٹھیک تھیں ان کی موت کینسر سے نہیں ہوئ۔ خیر۔۔" ماضی کی یادوں سے اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں لیکن آنسوؤں کو آنکھ سے نکلنے کی اجازت بلکل نہیں دی گئ۔ "ان کے آخری لمحات میں ہم سب ان کے ساتھ تھے تب بھی انہوں نے یہی کہا کہ میری شادی ہر حال میں ان کے بیٹے سے ہی ہو۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں بہت زیادہ بلکل جیسے ایک ماں اپنی بیٹی سے کرتی ہے۔۔"وہ ایک لمحے کو چپ ہوئ تو کبیر نے کچھ بولنے کے لیے اپنے لبوں کو حرکت دی۔
"تو تم اپنی تائ کی آخری خواہش کیوں نہیں پوری کرنا چاہتی؟؟" انابیہ نے اس کے سوال پر نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"میں نے ایسا کب کہا؟؟"
"تمہارے ہونٹ جھوٹ بول سکتے ہیں لیکن تمہاری آنکھیں نہیں میں انہیں پڑھ سکتا ہوں۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔ "تمہاری آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ تم اس رشتے سے بلکل بھی خوش نہیں ہو۔۔" جیسے کتابیں پڑھنے والا گہرائی میں جا کر ایک کتاب کو پڑھتا ہے کبیر بلکل ویسے ہی اس کی آنکھوں میں گہرائی تک پہنچ چکا تھا۔
"میں ان سے بہت محبت کرتی تھی حد سے زیادہ اسی لیے ان کی خواہش پر میں نے حامی بھر لی تھی کیونکہ میں اس رشتے سے کافی مطمئن بھی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ سب خراب ہوتا گیا یہاں تک کے مجھے اپنے کزن سے نفرت ہونے لگی۔ وہ امریکہ جا کر بلکل بھی ویسا نہیں رہا جیسا ہوتا تھا۔ وہ بہت بدل گیا ہے۔" وہ نظریں جھکائے افسردہ آواز میں کہے جا رہی تھی اور وہ اس کا اداس چہرہ بھی اپنی آنکھوں سے کیپچر کر گیا تھا۔
"تو تم انکار کر دو۔ آئی ہوپ تمہارے گھر والے انڈرسٹینڈ کریں گے۔"
"بات میرے انکار یا اقرار کی نہیں ہے وہ بھی مجھے پسند نہیں کرتا اسے مجھ سے شادی نہیں کرنی اور تو اور وہ واپس بھی نہیں آنا چاہتا۔"
"بڑا ہی بدنصیب ہے کوئی تمہیں ناپسند کر سکتا ہے بھلا۔۔" اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔
"پتہ نہیں۔۔ وہ میرا بہت اچھا دوست ہوا کرتا تھا ناجانے ایسا کیوں ہو گیا ہے خیر وہ انکار کردے تو زیادہ بہتر ہے میں نہیں کرسکتی۔۔"اس نے مغموم لہجے میں کہا۔
"انکار تمہارا حق ہے۔۔"
"حق وہاں جتایا جاتا ہے جہاں آپ کو امید ہو کہ آپکی بات مانی جائے گی ۔ تایا جان کے بہت احسانات ہیں خاص کر مجھ پر ۔ میں نہیں چاہتی دونوں بھائیوں میں دراڑ پر جائے وہ بھی میری وجہ سے۔۔" اسکا انداز مایوس کن تھا۔۔
"تو تم کر لوگی اس سے شادی؟؟" حلق میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے کرتے کبیر نے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ کتنا مشکل سوال تھا نا۔
"نہیں میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں میں بزنس کی دنیا میں قدم جمانا چاہتی ہوں۔۔ میں چاہتی ہوں دنیا مجھے کامیاب انسان کے نام سے جانے۔ میں فاتح بننا چاہتی ہوں۔ میں انڈیپینڈینٹ ہونا چاہتی ہوں۔ میں سب کچھ حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ یہ میرا خواب ہے جسے میں ہر حال میں پورا کرنا چاہتی ہوں۔۔ لیکن میرے پیروں میں زنجیریں ہیں جنھیں میں چاہ کے بھی نہیں توڑ سکتی۔۔" وہ روانی میں کہتی جا رہی تھی آنکھیں اب بھی نم تھیں۔
"اور میں تمہیں سب کچھ اچیو کرتے دیکھنا چاہتا ہوں بس وہ کبھی نہ آئے۔ آمین۔۔" وہ دونوں ایک ساتھ مسکرائے۔
"چلو اٹھو کلاس کا ٹائم ہے۔۔" بیا اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے بولی۔
"مگر میں کچھ دیر اور تمہارے ساتھ بیٹھنا چاہتا ہوں باتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔" اس نے جیسے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔۔
"تمہیں کیوں لگتا ہے میں مزید تمھارے ساتھ بیٹھوں گی باتیں کروں گی؟" وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔
"شاید یہ میری محبت کا مان اور اعتماد ہے جسے تم ابھی توڑ کے چلی جائو گی آئ نو۔۔" وہ جو اٹھنے والی تھی اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں۔۔
"ٹھیک ہے نہیں جاتے لیکن ایک شرط ہے۔۔ " کہتے ساتھ اسنے لیپ ٹاپ دوبارہ نکال کر سامنے رکھا۔ "تم میرے ساتھ مل کر پریزینٹیشن کی تیاری کرو گے۔" وہ لیپ ٹاپ کی سکرین آن کرتے ہوئے بولی۔ وہ پریزینٹیشن بہت اچھی دیتا تھا اسی لیے انابیہ نے بھی موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ اس طرح سے کبیر کے اس کے ساتھ کچھ دیر اور بیٹھنے کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور انابیہ کی پریزینٹیشن کی تیاری بھی بہت اچھے سے ہو جائے گی۔۔
"میں اور تمہارے ساتھ یہاں بیٹھ کر صرف پریزینٹیشن کی تیاری کروں ؟؟ میں کر سکوں گا؟" وہی شرارتی مسکراہٹ لیے اسے دیکھنے لگا۔ انابیہ نے اسکی اس بات پر اسے گھورا۔
"صرف کام کوئ فضول باتیں نہیں۔۔" اس کا انداز تنبیہی تھا۔
"ہائے تمہیں میری باتیں فضول لگتی ہیں؟" دل پر ہاتھ رکھے اس نے نہایت ہی ڈرامائی انداز سے کہا تو انابیہ پھر سے اسے شعلہ وار نظروں سے دیکھنے لگی۔
"اچھا فائن کرتے ہیں کام کسی بہانے تم ساتھ تو ہوگی نا۔۔" اس نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا جبکہ انابیہ اسے ہنوز گھور ہی رہی تھی اور سر جھٹک کر اسکرین کی جانب دیکھنے لگی اسی دوران کبیر کی نظر ساتھ ہی گرے ہوئے چمکدار ستاروں والے بریسلٹ پر پڑی جو انابیہ کی کلائ میں روز ہوتا تھا اس نے چپکے سے بریسلٹ اٹھایا اور اور بڑی مہارت سے اسے اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال لیا اسے خود سمجھ نہیں آئ اس نے ایسا کیوں کیا اور ہنسنے لگا۔
"کیوں فضول میں ہنس رہے ہو؟" وہ اسکی ہنسی کی آواز سنتے اسکی طرف گھومی۔۔
"نہیں ایسے ہی کچھ یاد آگیا تھا۔۔ " وہ یکدم سنجیدہ ہوا۔ " ایک بات بتائوں؟"
"ہمممم۔ بتائو۔۔" وہ لکھ رہی تھی۔۔
"تم پر کھلے بال بہت اچھے لگتے ہیں۔۔ کیا تم انھیں روز نہیں کھول سکتی؟؟" وہ غالباً کل کی بات کر رہا تھا۔ اس نے چہرہ پھر سے اٹھا کے اسے دیکھا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ڈائریکٹ بولی۔۔ " نہیں " انداز سپاٹ تھا۔۔
"یہ بھی ٹھیک ہے۔۔" وہ کہہ کر آسمان کو دیکھنے لگا۔۔
"لگتا ہے بارش ہونے والی ہے۔۔" وہ کالے بادلوں کو دیکھتے ہوئے بولا جو ناجانے کب آسمان پر چھا گئے تھے۔ بیا نے بھی سر آسمان کی طرف اٹھایا۔
"چلو جلدی جلدی ختم کرتے ہیں اس سے پہلے بارش ہو جائے۔۔" انابیہ کا رخ اب اسکی طرف تھا۔ کبیر نے سر اثبات میں ہلایا اور کام میں لگ گیا۔
●●●●●●●●●●●●●●
"اچھا بھلا بیا کے ساتھ بیٹھا تھا موسم بھی اتنا اچھا ہو رہا تھا لیکن تو میری جان کا وبال۔۔" وہ عاصم کے ساتھ سر حمدان کے آفس سے نکلا تھا موڈ خاصا بدمزہ تھا۔
"اچھا جی اب وہ آگئی تو میں جان کا وبال؟؟" دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک دوسرے کو گلی سڑھی سنا رہے تھے۔
"ہاں تو اور کیا منحوس انسان تمہیں کس نے کہا تھا میری ساری کی ساری اسائنمنٹ کاپی کرنے کے لیے؟"
"میں نے تم سے پوچھ کے ہی لی تھی تمہاری اسائنمنٹ۔۔" عاصم اپنا دفاع کرتے ہوئے بول رہا تھا۔۔
"شاباش اور تو نے سارا کاپی پیسٹ ما رلیا۔۔۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن تیری عقل تو گٹوں میں ہیں۔۔" کبیر نے اس کے پیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت ہی غصے سے کہا۔
"اچھا یار بخش بھی دے نہیں گئ ہوگی انابیہ دوبارہ بیٹھ جا اسکے ساتھ جا کر ۔۔ آگے ہی سر حمدان نے اتنی سنائی ہے ۔۔" وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔۔
"تو ڈیزرو بھی کرتا تھا میں تو فضول میں انکی ڈانٹ سن کر آیا ہوں۔۔" کبیر اپنے ماتھے پہ آتے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے بولا۔۔ تبھی دونوں کی نظر انابیہ پر پڑی جو ہاتھ میں وہی ڈریس کا بیگ اٹھائے کندھے سے اپنا بیگ لگائے زمین پر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چل رہی تھی جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو ۔ ایک پل کے لیے کبیر اسکے ہاتھ میں وہ بیگ دیکھ کر مسکرایا تھا۔
"کیا ہوا انابیہ کچھ کھو گیا ہے کیا؟؟ " عاصم نے اسکی نظروں کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔۔
"میرا بریسلٹ نہیں مل رہا میں نے کہیں گرا دیا شاید۔۔" کبیر کی مسکراہٹ گہری ہوئ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی اسکی طرف متوجہ نہیں تھا۔۔
"اوو ہاں عاصم۔۔ زارا تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے باہر گیٹ کی طرف گئ ہے تمہارا فون بھی بند جا رہا ہے ۔۔" اسکی بات سنتے عاصم نے اپنے سر پر ہاتھ دے مارا۔
"شٹ!! ہم دونوں نے لنچ پر جانا تھا میں کیسے بھول سکتا ہوں اففف۔ سوری انابیہ میں تمھارے ساتھ ضرور ڈھونڈ دیتا لیکن وہ زارا مجھے کچا کھا جائے گی مجھے جانا ہوگا۔۔" وہ سب کچھ ایک ہی سانس میں کہتا تیزی سے وہاں سے باہر کی طرف بھاگا۔۔ انابیہ اسے بھاگتا ہوا دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگی۔
"بہت قیمتی بریسلٹ تھا کیا؟؟" کبیر عاصم کے جانے کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"نہیں نہیں عام سا بریسلٹ تھا بس مجھے بہت پسند تھا۔۔" وہ اسی طرح ہنستے ہوئے بولی۔ کبیر نے پھر بھی اسے واپس نہ کیا وہ اب تک اسکی جیب میں ہی تھا۔۔ وہ دونوں کوریڈور میں آمنے سامنے کھڑے تھے کہ اچانک انہیں پانی کی بوندوں کے گرنے کی آواز آئ۔
"ارے بارش!!" وہ نہایت جوش سے بولی۔ اس سے پہلے کبیر کچھ بولتا اس نے اپنا سامان کبیر کو تھمایا اور بھاگ کر آسمان پر سے برستی بارش کے نیچے سر کو اوپر کیے ہاتھ ہوا میں پھیلائے کھڑی ہو گئ۔ بارش کی رفتار ہلکی تھی اتنی کہ ایک ایک قطرہ اسے خود پر گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔ کچھ ہی پل میں بارش نے شدت اختیار کر لی اتنی کہ وہ مکمل طور پر بھیگ گئ مگر اسے تو جیسے ہوش ہی نہیں تھا۔ کبیر چہرے پر بے پناہ مسکراہٹ لئے اسے بارش میں چھوٹے بچوں کی طرح بھیگتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور پھر سارا سامان ستون کے ساتھ رکھ کر وہ قدم اٹھاتا اسکے پیچھے بلکل اسی کے انداز میں کھڑا ہو گیا ۔۔ بازو پھیلائے اور سر کو اوپر اٹھائے وہ دونوں ایک ہی انداز میں کھڑے تھے۔ انابیہ نے کچھ کہنے کے لیے اپنے ہونٹ کھولے۔۔ پانی کے قطرے اس کے منہ میں جانے لگے۔۔ کبیر کے کانوں سے اس کی آواز ٹکرائی۔۔
“ Look at the rain long enough, with no thoughts in your head and you gradually feel your body falling loose, shaking free of the world of reality. Rain has the power to hypnotize.”
(Haruki Murakami)
"ہیپنوٹائز۔!!" کبیر نے آنکھیں کھولیں ۔ "بارش میں ہیپنوٹائز کرنے کی طاقت ہے۔۔ محبت میں بھی تو ہیپنوٹائز کرنے کی طاقت ہے۔۔" وہ سر جھٹک کر ہوش کی دنیا میں آیا۔۔ وہ عین اسکے پیچھے کھڑا تھا اتنا کہ اگر وہ مڑتی توضرور اس سے ٹکرا جاتی اس نے کچھ قدم پیچھے لیے۔۔ کچھ ہی دیر بعد وہ پیچھے مڑی وہ ستون سے ٹیک لگائے ہاتھ سینے پر باندھے سر تا پیر بھیگا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے خود کو دیکھا جیسے وہ اب ہوش میں آئ ہو اور فوراً بھاگ کر چھت کے نیچے کوریڈور میں کھڑی ہو گئ۔
"یااللہ مجھے تو گھر جانا تھا اب ایسے کیسے جائوں گی؟؟" وہ اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔ صد شکر اس نے لمبا فراک پہنا ہوا تھا اور دوپٹہ بھی اچھا خاصا بڑا تھا۔ اسی دوران اسکا فون بجا۔ "لو ڈرائیور بھی آگیا ۔۔" اس نے اپنے سر پر ہاتھ دے مارا کبیر اب بھی ہنس ہی رہا تھا۔۔
"پھر ملیں گے بائے ۔۔" انابیہ نے اسکو دیکھا نہیں تھا اپنا سامان اٹھایا اور وہاں سے تیز قدم لیتے چلی گئ۔ کبیر اسے جاتے دیکھ رہا تھا اور دوبارہ بارش میں اسی طرح کافی دیر کھڑا رہا۔ بارش تیز تھی تب بھی ۔۔ بارش ہلکی ہوئی تب بھی۔
●●●●●●●●●●●●●
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
"تمہاری ماں کیوں نہیں آئ؟؟" آمنہ بیگم اور جویریہ ایک ساتھ چلتے ہوئے لائونج میں داخل ہوئے ۔۔
"شام میں آئیں گی پھپھو کی طرف گئیں ہیں ضروری کام تھا۔۔ کبیر کے ایکسیڈنٹ کا پتہ چلا تو آج ہی وقت نکال کے آئ ہوں۔۔" وہ کافی دنوں بعد اس سے ملنے آئ تھی اس لیے خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
"اچھا کیا۔۔ اب آئ ہو تو کچھ دن رہ کر جانا میں ویسے بھی تمہیں بہت یاد کرتی ہوں۔۔ نوید کاکا یہ سامان اوپر کمرے میں پہنچا دیں اور نازو سے کہیں کہ کمرہ بھی دیکھ لے ذرا جویریہ بی بی آئی ہیں۔۔" ان کی آواز پر نوید کاکا آئے اور جھک کر سارا سامان اٹھانے لگے۔
"خالہ کبیر کہاں ہے گھر پر نہیں ہے کیا؟؟" وہ اپنی متلاشی نظروں سے آس پاس کبیر کو ڈھونڈتے ہوئے بولی۔۔
"آج اتوار ہے نا تمہیں پتہ ہونا چاہیے وہ کہاں ہوگا کیا کر رہا ہوگا۔۔" وہ کچھ دیر پرسوں انداز میں انہیں کا چہرہ دیکھے گئ۔
"پینٹنگ۔۔۔" وہ دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بولی۔۔ "میں مل کر آتی ہوں اس سے۔۔" وہ کہتے ساتھ اوپر کمرے کی طرف بھاگی۔
کبیر اس وقت آدھے بازوؤں کی سرمئی ٹی شرٹ اور گہرے سبز رنگ کی کارگو پینٹ پہنے بڑے سے کینوس کے سامنے کھڑا تھا ۔ یہ سفید چمکدار ٹائلز سے مزین کمرہ تھا جو اس نے صرف پینٹنگ کے لیے مخصوص کر رکھا تھا جہاں صرف اسکی بنائ ہوئ پینٹنگز تھیں۔ سلائڈنگ ڈور کے پار بالکونی سے روشنی اندر آ رہی تھی ۔ اسکی پینٹنگ تقریباً مکمل تھی بس وہ فنشنگ میں مصروف تھا۔ پینٹنگ اسکا واحد شوق تھا اور اتوار والے دن وہ اپنا یہ شوق پورا کرتا تھا۔ وہ مسلسل ان آنکھوں کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا جو اس نے کینوس پر رنگوں کی مدد سے بنائ تھیں۔ ان آنکھوں کے تھوڑا اوپر ہی اس نے ایک عربی فقرہ لکھ رکھا تھا جسے وہ دہرانے لگا۔۔
"انا ضائع في عينيك"
)میں تمہاری آنکھوں میں کھو گیا ہوں۔)
کمرے کا دروازہ کھلا تھا وہ بغیر دستک دیے اندر داخل ہوئ کبیر کی اسکی طرف پشت تھی اسکے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی کیونکہ وہ بہت دنوں بعد اس سے ملنے آئ تھی لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ خوشی کہاں گئ؟
سامنے کینوس پر بنی آنکھوں کو دیکھتے ہی اسکے چہرے سے خوشی غائب ہو گئ اس کے قدم وہیں منجمد ہو گئے اس نے غصے سے مٹھی بھینچ لی اس کا دل کیا سب کچھ جلا کر بھسم کردے ۔ کبیر نے آہٹ پر گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
"اوہ جویریہ۔۔ واٹ آ پلیژنٹ سرپرائز!!" اس نے برش اور پینٹس جھک کر ٹیبل پر رکھے۔ اس کی شرٹ کے سامنےکےحصے پر پینٹ کے نشان بھی تھے۔ وہ اتنا مسرور ہو کر ان آنکھوں کو بنا رہا تھا کہ بس ہر چیز سے بیگانہ ہو گیا تھا۔
" کیسے ہو اور تمھاری چوٹ کیسی ہے؟؟" اسکے چہرے پر کوئی آثار نہیں تھے وہ سنجیدہ تھی۔
"ٹھیک ہے اس ایک چوٹ پر کافی پروٹوکول مل رہا ہے مجھے۔۔" وہ مسکرایا تھا لیکن وہ نہیں مسکرائ۔ کچھ قدم لیتے وہ اس کینوس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ کبیر نے غور سے اسے دیکھا جو ٹکٹکی باندھے بس ان آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔
"یہ آنکھیں اسی کی ہیں؟؟" نظریں انھیں آنکھوں پر جمائے وہ اس سے پوچھ بیٹھی۔۔
"ہاں۔۔" کبیر نے نہیں پوچھا کون سی آنکھیں کس کی آنکھیں؟؟ اس نے بڑی ڈھٹائی سے ہاں بولا تھا کوئ تیر تھا تو جو سیدھا جویریہ کے سینے پر جا لگا ۔
"اتنی محبت کرنے لگے ہو اس سے کہ بغیر دیکھے اسکی آنکھیں بنا ڈالیں؟؟" اسے حیرت تھی۔۔
"کس نے کہا کہ میں نے یہ بغیر دیکھے بنائ ہیں؟ اسکا چہرہ ہر پل میرے سامنے ہوتا ہے بلکہ وہ مجھے حفظ ہو چکی ہے۔ وہ مجھے کبھی بھولتی ہی نہیں ہے۔۔" وہ ساتھ ساتھ اپنی باقی پینٹنگز ایک جگہ اکٹھی کر رہا تھا۔
"تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تمھاری یہ باتیں مجھے کتنی تکلیف دیتی ہیں اور تم پھر بھی۔۔"
"تو مت کرو تم اسکا زکر کیوں کر رہی ہو۔۔" وہ اسکے سامنے ہوتے ہوئے تیزی سے بولا۔۔
"کیسے نہ کروں ذکر آج ہی میں آئ ہوں اور وہ آگئی ہمارے درمیان۔۔" اسکا انداز رو دینے والا تھا۔۔ کبیر کے وجود میں قہر نے کروٹ لی۔۔
“ واٹ دا ہیل۔۔۔"وہ غصے سے اسکی طرف بڑھا ۔۔ "ہم دونوں کے درمیان نہ کچھ تھا نہ ہی کچھ ہے اور نہ ہی کبھی کچھ ہوگا سمجھی۔۔" وہ سرد آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔اس کی آنکھوں میں انتہا کی بیزاری تھی صرف جویریہ سلطان کے لیے۔۔
"آہ ہ ہ کبیر۔۔" وہ آنکھوں میں آنسو لیے زخمی انداز سے مسکرائ۔"کیوں نہیں دکھتی تمہیں میری محبت کیوں آخر کیوں؟؟"
"یہ محبت نہیں ہے جویریہ یہ ضد ہے تم محبت نہیں کرتی مجھ سے تم صرف مجھے حاصل کرنا چاہتی ہو۔ محبت میں زور زبردستی نہیں ہوتی محبت میں خود کو جھکا لیا جاتا ہے مان لیا جاتا ہے لیکن تم یہ نہیں سمجھو گی۔۔" وہ دوبارہ اسکے سامنے سے ہٹ کر اپنے کام میں لگ گیا تھا۔
"کیا کہا تم نے مجھے محبت نہیں ہے میں جو تمہارے لیے ذلیل و خوار ہو رہی ہوں تمھارا یہ رویہ برداشت کر رہی ہوں کس لیے صرف اس لیے کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔" وہ تیزی سے اس کے سامنے آتے ہوئے غصے سے بولی۔۔
"تو مت ہو ذلیل و خوار میرے لیے کیوں خود کو گرا رہی ہو کوئ سیلف ریسپیکٹ نام کی چیز ہے بھی تمھارے اندر یا نہیں۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں طیش سے دیکھ رہا تھا۔
"کتنا اچھا ہو نا کہ وہ لڑکی بھی تمہیں یہی سب کچھ کہے تمھاری محبت کو ٹھکرائے پھر میں تم سے سیلف ریسپیکٹ کا پوچھوں گی کبیر۔۔" وہ اس کے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر بولی۔۔
"اول تو ایسا ہوگا نہیں اور بالفرض وہ ایسا کرے بھی نا تب بھی میں اپنی محبت اس پر تھوپوں گا نہیں ۔۔ لیکن جانتی ہو ایسا بلکل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔" کبیر کی مسکراہٹ گہری ہوئ اور جویریہ کے تو مانو کسی نے کانوں میں سیسہ انڈیل دیا ہو۔۔
"کاش کہ وہ تمھیں چھوڑ دے۔۔" کبیر نے ایک سخت نظر اس پر ڈالی لیکن اگلے ہی لمحے مسکرا گیا۔
"تو چھوڑ دے۔۔کیا ہوگا؟ تم آجائو گی میری زندگی میں؟ ہونہہ۔۔" جھک کر اس کی دکھی آنکھوں میں دیکھا۔ "جانے والوں کے پیچھے میں نہیں جاتا۔۔ میں نے کہا نا محبت میں زور زبردستی نہیں ہوتی میں بھی نہیں کروں گا۔۔" وہ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گئ۔
"کیا ہے اس میں جو مجھ میں نہیں ہے کیا زیادہ خوبصورت ہے وہ؟؟" وہ واقعی قابل رحم لگ رہی تھی۔
"بس محبت ہے کیوں ہے کیسے ہے مجھے نہیں پتہ۔ میں تمھیں جوابدہ نہیں ہوں۔۔" اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔
"میں مر جاؤں گی مت کرو میرے ساتھ ایسا۔۔" وہ بےبسی کی انتہا پر تھی۔۔
"آخر تمھارا مسئلہ کیا ہے کیوں ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو۔ جائو یہاں سے بعد میں بات کریں گے تمھاری دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔" اس کا اشارہ دروازے کی طرف تھا۔ وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی کبیر نے آنکھوں سے اسے دوبارہ اشارہ کیا وہ ویسے ہی کھڑی تھی۔
"ٹھیک ہے مت جائو میں جاتا ہوں ہر چیز کی ذمہ دار تم خود ہوگی۔۔" وہ غصے سے کہتا دروازے کی جانب گیا جویریہ ایک دم سہم گئ وہ بھی اسکے پیچھے گئ۔
"کبیر رکو میری بات سنو۔۔" کبیر تیز قدم لئے چل رہا تھا اور وہ اسکے پیچھے آرہی تھی۔
"کبیر کہاں جا رہے ہو پلیز رک جائو۔۔" وہ دونوں سیڑھیاں اتر چکے تھے۔ ان کو دیکھتے آمنہ بیگم ان کی طرف بڑھی۔
"کیا ہوا تم دونوں کو کہاں جا رہے ہو تم؟؟" وہ پریشانی سے دونوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
"دوستوں کی طرف جا رہا ہوں موم۔۔" اسکے چہرے پر اب بھی غصہ تھا۔
"سنڈے ہے آج کے دن تو تم کہیں باہر نہیں جاتے ہمارے ساتھ ٹائم سپینڈ کرتے ہو اچانک کیا ہوا؟"
"موم کہا نا جانے دیں۔۔" وہ رکا نہیں اور باہر کی جانب چل دیا۔۔
"کیا ہو ا اسے؟؟"
"آپ پریشان نہ ہوں میں لے کر آتی ہوں اسکو۔۔" جویریہ بھاگنے کے انداز میں اسکے پیچھے گئ۔
"آئ ایم سوری کبیر مت جائو۔۔ تم غصے میں صحیح ڈرایئو نہیں کرتے پلیز۔۔" وہ اسکے سامنے آتے ہوئے بولی ۔ اسکا چہرہ مکمل آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔۔ ایک پل کے لیے کبیر کو اس پر ترس آیا۔ گہرا سانس بھر کر اس نے اپنی پیشانی کو چھوا۔
"کیوں کر رہی ہو خود کے ساتھ ایسا بھول گئ ہم کتنے اچھے دوست تھے۔۔" اب کی بار اس کی آواز روئی جیسی نرم تھی ارر وہ اب بھی رو رہی تھی۔
"آئ ایم سوری۔۔" وہ محض اتنا کہہ پائی۔
"واٹ سوری ہاں ؟ دیکھو جویریہ میں تمھاری ایک غلطی نظرانداز کر چکا ہوں مجھے مجبور مت کرو کہ میں تم سے سختی سے پیش آئوں۔ تم نے فائزہ کو میرے پیچھے لگایا ہے نظر رکھنے کے لیے میں پھر بھی کچھ نہیں بولا آخر وہ کیا بگاڑ لے گی میرا مگر تم میری نظروں میں مزید گرنے کی کوشش نہ کرو۔۔ ہم بہت اچھے کزنز تھے اور ہیں بہتر ہے یہی رشتہ رہنے دو ۔۔ اپنی محبت کے فلسفے مجھے مت سنایا کرو یقین جانو یہ مجھ پر کوئ اثر نہیں کریں گے۔ سمجھی تم۔۔" جویریہ نے زخمی اور سرخ متورم آنکھوں سے اسے دیکھا اور سر اثبات میں ہلایا۔ " فائزہ سے دور رہو۔۔ جائو اندر میں ایک ضروری کال کر کے آتا ہوں۔ اور یہ آنسو صاف کرو خوامخواہ موم مجھ پر غصہ ہوں گی۔۔" کبیر نے اپنی جیب سے فون نکالا اور دوسری طرف ہوگیا جبکہ جویریہ اپنے آنسو صاف کرتے اندر جانے لگی۔۔
"کیا ہوا کچھ بتائو گی؟" وہ جیسے لائونج میں آئ آمنہ اس سے پوچھنے لگی۔۔
“کچھ نہیں خالہ ایک چھوٹا سا مذاق کیا تھا میں نے وہ غصہ ہو گیا مگر اب سب ٹھیک ہے آپ پریشان نہ ہوں۔ میں فریش ہو کر آتی ہوں۔" وہ مسکراتے ہوئے ان کو تسلی دیتے وہاں سے چلی گئ۔
"آخر پرابلم کیا ہے اس لڑکے کی؟" اس کے جانے کے بعد آمنہ خود سے بولی۔
وہ کمرے میں آئ تو اس نے اپنے پیچھے دروازہ زور سے بند کیا اور پھر اسی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی ہو گئ اسکی آنکھیں غصے اور رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں ۔ وہ دیوانہ وار بیڈ کی طرف بڑھی اور بیڈ شیٹ زور سے کھینچ کر زمین پر پھینک دی۔ وہ چلانا چاہتی تھی مگر نہیں چلائی پھر اسی طرح بیڈ شیٹ سختی سے جکڑے زمین پر بیٹھ گئ وہ رونا چاہتی تھی مگر پھر آنسو صاف کرنے لگی۔۔
"صحیح کہا تم نے کبیر تم شاید میری ضد بن گئے ہو لیکن تم میری محبت تھے اور جب محبت ضد بن جائے نا تو اس سے خطرناک دنیا میں کوئ چیز نہیں ہوتی۔۔" وہ رک کر پھر آنسو پونچھنے لگی۔۔
"تم نے میری محبت کی تذلیل کی ہے تم نے میری محبت کی قدر نہیں کی۔۔ تم میرے نہیں ہو سکے تو کیا ہوا میں تمھاری زندگی میں انابیہ تو کیا کسی عورت کو بھی نہیں آنے دوں گی۔۔" پھر اپنے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے بولی۔۔ " میں جویریہ سلطان آج یہ قسم کھاتی ہوں کہ اس لڑکی کو تمھاری زندگی سے ایسے نکال پھینکوں گی جیسے دودھ میں سے مکھی۔۔ مجھے جو کرنا ہوا میں کروں گی صحیح یا غلط مجھے چاہے جھوٹ کا سہارا لینا پڑے چاہے قتل کرنا پڑے میں سب کر گزروں گی اور آخر میں تمہیں میرا ہونا ہوگا۔۔" وہ اب پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھی ۔ وہ عاشق نہیں تھی نہ ہی دیوانی تھی وہ بس ضدی اور جنونی تھی اور ضد چاہے محبت میں کی جائے یا نفرت میں خسارے میں انسان خود ہی پڑتا ہے۔۔
"مجھے بلکل اچھا نہیں لگا کبیر وہ تمھاری وجہ سے روئ ہے۔" آمنہ اور کبیر دونوں لونگ روم میں صوفے پر بیٹھے تھے۔ کبیر صوفے سے ٹیک لگائے پیچھے ہو کر بیٹھا تھا جبکہ آمنہ بیگم اسکے سامنے والے صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔
"وہ میری نہیں اپنی احمقانہ باتوں کی وجہ سے روئ ہے موم۔۔"
"آخر ایسا بھی کیا کہہ دیا تھا اس بیچاری نے؟؟ جانتے ہو نا اکیلی ہوتی ہے ایک ہی چھوٹا بھائی ہے اسکا۔۔ میں اسے یہاں بلاتی ہوں اور تم اسے رلا دیتے ہو۔۔"
"فور گاڈ سیک موم مجھے بلیم مت کریں ۔۔" وہ آگے ہوتے ہوئے بےزاری سے بولا۔
"یہی حالات رہے تو پھر تو بہت مشکل ہو جائے گی میں نے تم دونوں کے بارے میں کیا کیا سوچ رکھا ہے اور۔۔" کبیر نے یکدم نظریں اٹھا کر ان کو دیکھا۔۔
"نو وے۔ اگر ایسی ویسی کوئ بھی سوچ ہے آپکی تو اسے ابھی دفن کردیں۔۔" اب کی بار اس کی آواز میں زور تھا۔
"کیوں دفن کردوں اچھی لڑکی ہے مجھے پسند ہے تمھارے لیے۔۔"
"لیکن مجھے وہ پسند نہیں ہے بہتر ہوگا یہ چیپٹر یہیں کلوز کردیں میں اسکے بارے میں مزید بات نہیں کرنا چاہوں گا۔۔" اسکا انداز سپاٹ تھا۔۔ آمنہ اب مزید اس سے بات نہیں کر سکیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کبیر اپنی بات کا پکا ہے اسکا انکار انکار ہی رہے گا۔
●●●●●●●●●●●●●●
"اففف کتنا خوبصورت ڈریس ہے یہ آپی۔۔ آپ نے مجھے کل ہی کیوں نہیں دکھایا؟؟" ردا وہی کالی میکسی ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی جو کبیر نے انابیہ کو تحفے میں دی تھی۔۔
"کیسے دکھاتی میں گھر آتی ہوں تو تم تو ایسے سوئ پڑی ہوتی ہو جیسے جنگ سے آئ ہو۔۔" بیا نیچے فرش پر بیٹھے مناہل کا سائینس پراجیکٹ کمپلیٹ کرنے میں مصروف تھی۔
"کافی اچھی پسند ہے آپکے۔۔۔ آپکے کیا؟؟ کیا کہوں؟۔۔" وہ تھوڑا چھیڑنے کے انداز میں بولی۔۔
"ردا کی بچی اپنا یہ اسپیکر آہستہ کر کے بولا کرو۔۔۔ فلحال کچھ نہیں ہے وہ میرا۔۔" اس بار انابیہ کے گال سرخ ہونے لگے تھے۔۔
"لو جی عشق دونوں کی طرف سے پھوٹ رہا ہے اور انکو دیکھو۔۔ فلحال کچھ نہیں ہے وہ میرا ہونہہ۔۔" وہ اس کی نقل اتارتے ہو منہ چڑھا کے بولی۔۔
"تم شرافت کے دائرے میں نہیں رہو گی ہینا واپس رکھو اسے کوئی آجائے گا۔۔" اسے غصہ آنے لگا تھا۔ اسی دوران انکے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئ۔۔ دونوں نے ایک دم گردن گھما کر دیکھا۔۔
"جلدی رکھو اسے۔۔" وہ سرگوشی کرتے ہوئے بولی جبکہ ردا کے ہاتھ تیز تیز چلنے لگے اس نے جوڑے کو گھسانے کے انداز میں بیگ میں ڈالا۔۔ تبھی احمد صاحب اندر داخل ہوئے۔۔
"آئی ہوپ میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب نہیں کیا ہوگا۔۔" وہ ان دونوں کو باری باری دیکھتے ہوئے بولے۔۔ جبکہ وہ دونوں حیرانی سے انکو دیکھے گئیں۔۔
"بابا جان آپ ہمارے کمرے میں؟؟" انابیہ حیرت سے پوچھنے لگی۔۔
"کیوں میں نہیں آسکتا کیا؟؟" چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
"نہیں نہیں وہ دراصل آپ زیادہ آتے نہیں ہیں نا اس لیے پوچھا۔۔" وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔
"تم کیا کونے میں بیگ لیے کھڑی ہو۔۔ کیا ہے اس میں؟؟" اب انکا رخ ردا کی طرف تھا۔
"وہ وہ۔۔ ہاں وہ ساتھ والی کو کپڑے دیے تھے نا سینے کے لیے وہی بھجوائیں ہیں اس نے تو میں دیکھ رہی تھی۔ آپ بیٹھے میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں۔" وہ قدرے بوکھلا کر رہ گئ اور قدم اٹھاتے کمرے سے بھاگنے کے انداز میں نکل گئ جبکہ احمد صاحب سر جھٹک کر ہنس دیے۔۔
"میں تھوڑی دیر بیٹھ جائوں تمھارے ساتھ؟؟"
"بابا آپکو اجازت کی ضرورت نہیں ہیں بیٹھیں پلیز۔۔" وہ پراجیکٹ کا سامان سائڈ پر کرتے ہوئے بولی۔ احمد صاحب بیڈ پر بیٹھ گئے۔۔
"یہاں بیٹھو میرے ساتھ۔۔" انہوں نے کہا تو وہ انکے ساتھ ہو کر بیٹھ گئ۔ "کیا تم اب بھی ناراض ہو مجھ سے؟" وہ اس کی طرف گردن گھماتے ہوئے بولے۔
"کیوں بھلا میں کیوں ناراض ہوں گی آپ سے؟" وہ نظریں اپنی ہتھیلیوں پر جھکائے بیٹھی تھی۔
"یعنی تم بھول بھی گئ ہو۔۔" وہ مسکرائے انکی مسکراہٹ بہت دلکش تھی اور جب وہ مسکراتے تھے تو انکی سبز آنکھیں بہت چھوٹی ہو جاتی تھیں لیکن وہ کم ہی مسکراتے تھے وہ انکا چہرہ دیکھنے لگی وہ ان سے اور ماما جان سے بہت پیار کرتی تھی اتنا کہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔۔
"وہ برا وقت تھا اسے بھولنا ہی تھا میں بھول گئ آپ بھی بھول جائیں موو آن کرتے ہیں ۔۔" اس نے چہرہ واپس جھکا لیا۔۔ دونوں خاموش ہو گئے۔
"میں تم سے نفرت نہیں کرتا بیا۔۔" انھوں نے اس کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔۔اس نے یکدم نظریں اٹھائیں۔"تم میری بڑی بیٹی ہو میں کیسے نفرت کر سکتا ہوں تم سے تمہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے۔۔" انکی آواز میں بہت نرمی تھی۔۔ انابیہ کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے۔۔
"میں تھوڑا سخت مزاج ہوں لیکن میں سب کے ساتھ ایسا ہوں یہ میری فطرت میں ہے میں ایسے ہی ماحول میں بڑا ہوا ہوں تو کیا سب یہی سوچنا شروع کر دیں کہ میں سب سے نفرت کرتا ہوں۔۔" وہ کچھ نہیں بولی۔۔
"لڑکیاں بہت معصوم اور نازک ہوتی ہیں اور باہر کی دنیا بہت ظالم بس یہی مائنڈ تھا میرا اسی لیے نہیں چاہتا تھا کہ میری بیٹیاں دنیا کی نظروں میں آئیں انکے جال میں پھنس جائیں مگر میں غلط تھا۔۔" وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں مسلنے لگی ۔
"میں غلط تھا ہمیں اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنانا چاہئے تاکہ وہ سب سے مقابلہ کر سکیں سبکو جواب دے سکیں اپنے لیے آواز اٹھا سکیں۔۔ عورتوں کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے ۔ میں بس چاہتا تھا کہ لوگ میری بچیوں پر انگلی نہ اٹھائیں لیکن میں یہاں بھی غلط تھا۔۔ لوگوں کا تو کام ہوتا ہے باتیں کرنا مجھے چاہیئے کہ میں تمھاری ڈھال بنوں کوئ تمھارے خلاف بولے تو گدی سے اسکی زبان کھینچ لوں۔" وہ اب بھی اسکا چہرہ دیکھ رہے تھے وہ اسکے گرتے آنسو دیکھ سکتے تھے۔۔ اسکے آنسوؤں کی وجہ بس یہی تھی کہ وہ انکا مان توڑ چکی تھی وہ غلطی کر چکی تھی محبت کی غلطی۔۔ اسکا دل بند ہو رہا تھا۔۔
"لیکن ایک بات پر میں اب بھی قائم ہوں اور وہ ہے شادی۔۔۔"اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں وہ جانتی تھی کہ انکی اگلی بات یہی ہوگی۔۔
"شادی بہت ضروری ہے بیا انسان کتنا بھی پڑھ لکھ جائے وہ اکیلے زندگی نہیں گزار سکتا خاص کر ایک لڑکی۔۔ یہ فیکٹ ہے اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔۔ تم پڑھنا چاہتی ہو پڑھو جتنا چاہتی ہو پڑھو لیکن عالیان جب بھی آئے گا تمھاری شادی ہوگی وہ تمھیں پڑھنے سے نہیں روکے گا میں گارنٹی دیتا ہوں۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا؟"
لیکن عالیان ہی کیوں کوئ اور کیوں نہیں کبیر کیوں نہیں وہ شخص جس سے وہ محبت کر بیٹھی تھی جسکا نام وہ اپنے دل پر لکھ چکی تھی۔ وہ انھیں بتانا چاہتی تھی لیکن کیسے بتاتی کس منہ سے بتاتی کیا کہتی کہ انکی بیٹی محبت کر بیٹھی ہے ۔ اسکا شک صحیح جا رہا تھا وہ ہار رہی تھی یہ اسکے دل کی آواز تھی جسے سوائے اسکے کوئ نہیں سن سکتا تھا ۔۔ اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوئے۔۔ احمد صاحب کی آواز دوبارہ گونجنے لگی تھی۔۔
"تمھاری ماں نے مجھے بتایا کہ تم شادی نہیں کرنا چاہتی ہو۔۔"
کیوں صرف یہی کیوں؟؟ یہ کیوں نہیں بتایا کہ عالیان سے شادی نہیں کرنا چاہتی پوری بات کیوں نہیں بتائ۔ اسکی آواز صرف وہ سن سکتی تھی۔۔
"دیکھو بیا میں کیا پتہ کب تک زندہ رہوں بھولو مت تمھاری دو بہنیں اور بھی ہیں میں سب کی ذمہ داری سے فارغ ہو کر سکون سے مرنا چاہتا ہوں ورنہ مجھے قبر میں بھی سکون نہیں ملے گا۔۔" اس نے تڑپ کر گردن گھمائ۔۔
"بابا یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو۔۔" اتنی دیر میں یہ پہلا جملہ تھا جو احمد صاحب نے بھی سنا تھا وہ اسکی بات پر مسکرا دیے۔۔
"یہ بھی فیکٹ ہے بچے کسی نے نہیں رہنا یہاں۔۔ سب نے جانا ہے۔۔ بیا عالیان بہت اچھا لڑکا ہے برائٹ فیوچر ہے اسکا تم خوش رہو گی۔۔" وہ اب اسے تسلیاں دیتے ہوئے بول رہے تھے۔
تو کیا لڑکے کا خالی برائٹ فیوچر ہونا شادی کے لیے کافی ہوتا ہے کیا محبت کوئ معنی نہیں رکھتی کیا لڑکے کا کردار کوئ معنی نہیں رکھتا؟؟ اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو بس لڑکی کا کردار اور اسکا صبر۔۔۔وہ خود سے سوال کیے جا رہی تھی اس میں ہمت نہیں تھی کہ یہ سارے سوال وہ اپنے باپ سے کرتی بےشک وہ اس وقت نرم لہجے میں بات کر رہے تھے لیکن وہ نہیں بھولی تھی وہ احمد عالم کے ساتھ بیٹھی ہے۔۔ وہ سب کے سامنے پٹر پٹر بول سکتی تھی لیکن اس شخص کے آگے اسے چپی لگ جاتی تھی کچھ وہ انکی عزت بھی کرتی تھی کچھ محبت بھی کچھ وہ ان سے ڈرتی بھی تھی۔۔
"میں جانتا ہوں وہ تھوڑا بدل گیا ہے لیکن بیٹا ماحول کا اثر ہے مجھے تم پہ یقین ہے کہ تم اسے بدل لوگی۔۔"
وہی پاکستانی والدین کی ٹیپیکل چھوٹی ذہنیت والی باتیں جنھیں لگتا ہے کہ لڑکی اچھی ہے کافی ہے لڑکا چاہے جیسا بھی ہو ہماری لڑکی ہے نا قربانی کا بکرا وہ اسے ٹھیک کر دے گی اور لڑکی بیچاری ساری عمر اس انسان کے ساتھ اسی آس میں گزار دیتی ہے کہ آج یا کل اسکا شوہر ضرور انسان کا بچہ بن جائے گا۔۔ مسئلہ محبت کا نہ ہوتا تو وہ شاید مان بھی لیتی لیکن کمبخت محبت جو اسکے پیچھے پڑ گئ تھی۔۔ یہ سب باتیں اسکے ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔۔
"تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔" یہی تو مسئلہ تھا جو ہو رہا تھا وہ اس سے دیکھا ہی نہیں جا رہا تھا بس مزید بدتر نہ ہو اسکے ساتھ۔۔
"ردا کی چائے تو نہ آئ میں خود ہی جا کے دیکھتا ہوں۔۔" وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی مسکرا دی۔۔ وہ جاچکے تھے۔۔۔ وہ اسی انداز میں ٹانگیں لٹکائے بیڈ پر لیٹ گئ اور چھت کو دیکھنے لگی۔۔
"تو انابیہ احمد عالم یہ ہے تمھاری قسمت۔۔ شاید تمہیں سب مل بھی جائے لیکن کبیر بلکل نہیں وہ نہیں مل سکتا کیونکہ محبت تمھارے لیے نہیں بنی اگر تمھارے لیے کوئ بنا ہے تو وہ ہے عالیان ناصر عالم۔۔" اس نے آنکھیں بند کر لیں اور زخمی انداز سے مسکرانے لگی۔
●●●●●●●●●●●●●●
"سب سے حسین چیز کیا ہوتی ہے؟؟"
"محبت۔۔"
اگلے دن کا سورج نکلے کافی دیر ہو گئ تھی۔ آسمان بلکل صاف تھا۔ کھڑکی سے روشنی کمرے میں ہر سو پھیلی تھی ۔ انابیہ اور ردا دونوں گہری نیند میں سو رہیں تھیں تبھی انابیہ کی آنکھ کھلی اور آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئ پھر خود پر سے چادر ہٹائی اور ایک زوردار انگڑائی لی وہ ایک کھلی قمیض اور ایک کھلے ٹرائوزر میں ملبوس تھی۔ وہ فجر پڑھ کر سوتی نہیں تھی لیکن آج اسے بہت نیند آ رہی تھی اس لیے آٹھ بجے کا الارم سیٹ کر کے سو گئ۔۔
"واہ میری تو الارم کے بغیر ہی آنکھ کھل گئ۔۔" خود پر حیران ہوتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر سامنے دیوار پہ لگی گھڑی کو دیکھتے ہی اسکا منہ کھل گیا۔۔
"ہائے میں مر گئ دس بج گئے۔۔" وہ فوراً فون کی طرف لپکی یہ دیکھنے کے لہے کے الارم کیوں نہیں بجا اور پھر اپنے سر پر ہاتھ دے مارا کیونکہ اس نے amکی جگہ pmلگا دیا تھا۔۔ اور ساتھ ہی زارا کی دو مسڈ کالز بھی دیکھی۔۔
"لعنت ہو تم پر انابیہ اندھی کہیں کی۔۔ بہری کہیں کی۔۔" خود کو ڈھیروں ٹائٹل دیتے ہوئے وہ معصوم گہری نیند میں سوئی ہوئی ردا کی طرف بڑھی اور اسکے اوپر سے زور سے چادر کھینچ ڈالی اور اس نے بھی مارے ڈر کے آنکھیں کھولیں سامنے اسکی بہن لال بھبھو کا چہرہ لئے اسے گھور رہی تھی۔۔
"جاہل لڑکی تم نے کالج نہیں جانا تھا؟؟" وہ ہاتھوں میں چادر پکڑے اس پر برسنے لگی۔۔
"جانا ہے میرا پریکٹیکل ہے وہ بھی بارہ بجے ۔۔ اور یہ کیا موت کے فرشتے کی طرح میرے سر پر کھڑی ہیں آپ؟" وہ اسی طرح لیٹے ہوئے غصہ ہو رہی تھی ظاہر ہے اسکی نیند میں خلل ڈالا گیا تھا۔۔۔
"ہاں تو کیا مجھے نہیں جگا سکتی تھی۔۔" اس نے چادر واپس اس کے اوپر ڈالی اس نے تو آرام سے جانا تھا اور اس کو یہ بات صبح فجر تک پتہ تھی اب کیسے بھول گئ ۔ ردا منہ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ آنکھیں موند گئ۔
"منحوس منو خود چلی گئ سکول مجھے جگا نہیں سکتی تھی۔۔" اب باری بیچاری مناہل کی تھی۔۔۔ دور کلاس میں بیٹھی مناہل کو ایک زوردار چھینک آئی۔۔ سب لڑکیاں یکدم اسکو دیکھنے لگیں ظاہر ہے اتنی خطرناک چھینک۔۔۔
"کیا ہوا مناہل تم ٹھیک تو ہو نا ؟؟" اسکے ساتھ بیٹھی ایک سانولی سی لڑکی اس شہد رنگ بالوں والی لڑکی سے پوچھنے لگی جسکے بال اونچی پونی میں بند ھے تھے۔۔۔
"کچھ نہیں۔۔ وہ جسے ہلاکو خان کی بہن ہونا چاہیے تھا نا مگر غلطی سے ہمارے گھر پیدا ہو گئ ضرور میری شان میں تعریف کر رہی ہوں گی۔۔۔" وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔۔
"شرم کرو تمہاری بڑی بہن ہے۔۔۔" اس لڑکی نے اسے کہنی ماری۔
"تم مجھے مت سکھائو مجھے پتہ ہے میری بڑی بہن ہے میں انکی بہت عزت کرتی ہوں۔۔ "
"اور انہیں پتہ چل جائے نا کہ انکی کیا عزت کی جاتی ہے تو وہ تو تمہیں گھر سے ہی نکلوا دیں۔۔" جس پر وہ دونوں مسکرا دی۔۔
"گرلز خاموش ہو کر بیٹھیں یہ کون باتیں کر رہا ہے۔۔" ٹیچر کی آواز سنتے وہ دونوں سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں۔۔۔
وہ تقریباً بیس منٹوں کے اندر اندر تیار ہو کر اپنا بیگ اٹھانے لگی ۔ "اور زارا منحوس زیادہ کالز نہیں کر سکتی تھی کیا مجھے؟" غلطی اس کی اپنی تھی لیکن منحوس اور جاہل کون تھے زارا، ردا، اور مناہل۔۔۔ وہ تیار ہو کر کمرے سے باہر نکلی تبھی صوفے پر بیٹھی ناہیدہ بیگم نے اسے سر تا پیر گھور کر دیکھا سامنے ٹی وی پر ایک خوبصورت ہوسٹ کا چہرہ جگمگا رہا تھا وہ اس وقت مارننگ شو دیکھ رہی تھیں۔۔
"ماما جان آپ نے بھی نہیں جگایا مجھے؟؟" وہ انکو غصے سےدیکھتے ہوئے بولی۔۔ اب باری ناہیدہ بیگم کی تھی۔۔
"تم روز تو خود جاگ جاتی ہو آج مجھے الہام ہونا تھا میں سمجھی تمہاری کلاس لیٹ ہے۔ " وہ ٹی وی کا والیوم کم کرتے ہوئے بولیں۔۔ جس پر وہ افف کرتے پیر پٹخ کر باہر جانے لگی۔۔
"اچھا ناشتہ تو کر جائو۔۔" وہ اسکے جاتے ہوئے پیچھے سے بولیں۔۔
"یونی سے ہی کچھ کھالوں گی۔۔۔ " وہ رکی نہیں اور ناہیدہ شانے اچکاتے ہوئے دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔۔
یونیورسٹی پہنچتے ہی سامنے سے چلتی زارا اسے نظر آگئی تھی وہ سمجھ گئ تھی اسکی پہلی کلاس تو ختم۔۔
"لڑکی اتنا لیٹ؟؟" زارا اسے پریشانی سے دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ اسے اپنی روداد سنانے لگی۔۔
"لو جی حد کرتی ہو تم بیا۔۔" اسکی متلاشی نظریں کبیر کو ڈھونڈ رہی تھیں جسکو زارا نے نوٹ کر لیا تھا۔۔
"ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے اسی کے پاس جا رہے ہیں ہم۔۔" زارا کی آواز پر اس کی نظریں ایک دم سیدھی ہوئیں جو چاروں طرف گھوم رہی تھیں۔
"مطلب؟؟ وہ کلاس میں نہیں تھا کیا؟؟" ظاہر ہے ورنہ وہ دونوں اسکے ساتھ ہوتے اس لیے حیرت سے پوچھنے لگی۔۔
"نہیں وہ کلاس میں نہیں تھے۔ وہ ہال میں ہیں کچھ دنوں بعد انکا باسکٹ بال کا فائنل ہے تم بھول گئ؟؟"
"او ہاں یاد آیا۔۔" وہ واقعی بھول گئ تھی۔۔
"ہاں آجکل پریکٹس میچ چل رہے ہیں۔۔ چلو ان دونوں نے کہا تھا میں تمہیں لے کر وہی آ جائوں ۔۔"
"لیکن کلاس؟؟ میری پہلی بھی مس ہوئی ہے۔۔" اسے اپنی اگلی کلاس کا غم تھا۔۔
"کم آن بیا اگلی کلاس میں تیس منٹ ہیں اور ویسے بھی انگلش کی ہے مس بھی ہو گئ تو ایشو نہیں ہے انھوں نے انسسٹ کیا تھا۔۔" اس کے کہتے ہی وہ سر اثبات میں ہلا کر اسکے ساتھ چلنے لگی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
سب لڑکے ہال میں باسکٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے انھوں نے ٹیم کا ایک ہی طرح کا یونیفارم پہنا ہوا تھا کیونکہ وہ ایک ہی ٹیم آپس میں پریکٹس کر رہی تھی ۔۔ بال اس وقت کبیر کے ہاتھ میں تھا اور سب اسکے ارد گرد بال چھیننے کے لیے جمع تھے لیکن اسکے ہاتھ سے بال لینا آسان کام نہیں تھا وہ اکیلا سب کے لیے کافی تھا تبھی اس نے اچھل کے بال باسکٹ کی طرف پھینکا اور بال سیدھا باسکٹ کے اندر۔۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور سب کبیر کبیر کے نعرے لگانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بال پھر اسی کے ہاتھ میں تھا پھر سب اس سے چھیننے میں لگے تھے اسی دوران اسکی نظر اندر آتی انابیہ پر پڑی جو مہرون رنگ کی سادہ قمیض شلوار میں بھی بہت حسین لگ رہی تھی وہ وہیں کھو گیا تھا اچانک بال اسکے ہاتھوں سے چھین لیا گیا اور دوسرے لڑکے نے موقع پاتے بال باسکٹ میں اچھال دی ۔۔ ہال میں موجود سب لڑکوں کا قہقہہ گونجا۔۔
تم حسن کی خوراک دینا ہو شاید تمہیں معلوم نہیں
محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پر نور آجاتا ہے
"انابیہ تم فائنل دیکھنے مت آنا ورنہ یہ لڑکا ہمیں ہروا دیگا۔۔" عاصم دور سے اونچی آواز میں بولا تھا جس پر وہاں موجود سب لوگ زور زور سے ہنسنے لگے اور انابیہ کے تو مارے شرم کے گال سرخ ہونے لگے تھے۔۔
"یہ لڑکا تو گیا کام سے۔۔" آواز زارا کی تھی جس پر انابیہ نے اسے زور سے کہنی دے ماری اور وہ درد سے کراہ کر رہ گئ۔۔ کبیر اب اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔
"میں واقعی اب کسی کام کا نہیں رہا میں تو بہت پہلے ہی ہار چکا ہوں۔۔" وہ اسکے بہت قریب کھڑا تھا۔ مسلسل کھیلنے کی وجہ سے اسکے بال سارے ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔۔ اس کا چہرہ مزید سرخ ہونے لگا تھا ایک تو وہ اسکے بلکل سامنے اور پھر اسکی باتیں!!!
" ہائے تم تو بلش بھی کرتی ہو یار ایسے تو میرے لیے مشکل ہو جائے گی۔۔" اسکی شہد رنگ آنکھیں بیا سے ہمکلام تھیں۔۔
"اب بس بھی کردو اففف شرمندہ کر دیا مجھے ۔۔" جو بھی تھا وہ اسکی آنکھوں میں کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ وہ اسے بغیر دیکھے آگے بڑھنے لگی تب ہی اسکا سر چکرایا کبیر نے پھرتی سے اسے بازو سے پکڑ کر سنبھالا دوسری طرف سے زارا نے بھی اسکا ہاتھ تھاما۔۔
"تم ٹھیک تو ہو ؟؟" وہ ایکدم پریشان ہوتے ہوئے پوچھنے لگا تو وہ فوراً سنبھلی۔۔
"ہاں پتہ نہیں چکر آگئے تھے۔۔ شاید صبح ناشتہ نہیں کیا نا اس لیے۔۔" وہ اسے کیسے بتاتی کہ اس کی ساری رات روتے روتے گزری ہے ناشتہ تو بس بہانہ تھا۔۔
"واٹ ؟؟ یہ کیا بات ہوئی ناشتہ نہیں کر کے آئی۔۔" اسکی گرفت اب بھی بیا کے بازو پر تھی پھر احساس ہونے پر اس نے اس کا بازو چھوڑ دیا۔۔ "تم چلو میرے ساتھ ۔۔" اس نے آگے ہو کر اس کو کلائی سے پکڑا۔ انابیہ نے ایک نظر اپنی کلائی کو دیکھا اور پھر زارا کو۔ وہ مزاحمت کر کے اس کے سامنے کبیر کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"کبیر اسکو چکر آرہے ہیں تھوڑی دیر رکو۔۔" زارا اسے روکتے ہوئے بولی۔۔
"نہیں زارا یہاں میرے پاس ابھی کچھ کھانے کے لیے نہیں ہے اسے کیفیٹیریا لے جا تا ہوں کچھ کھائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔۔" وہ اس کے کہنے پر رکا نہیں اور اسکی کلائی پر نرم گرفت رکھتے اسے لے جانے لگا۔
"آئی ایم فائن نائو۔۔" ہال سے نکلتے ہی اس نے مزاحمت کرتے اپنی کلائی چھڑوا لی۔ محبت اپنی جگہ لیکن اسے بار بار کبیر کا یوں ہاتھ یا بازو پکڑنا بلکل پسند نہیں تھا۔۔کبیر نے ایک نظر اسے مسکرا کر دیکھا اور پھر سامنے دیکھنے لگا اسے برا نہیں لگا تھا۔ وہ اسکے ساتھ ایک چھوٹی بچی کی طرح چلتی جا رہی تھی وہ مسلسل اسے دیکھے جا رہی تھی وہ سنجیدہ تھا وہ اس کے لیے سنجیدہ تھا وہ اسکے ناشتہ نہ کرنے پر اسکے لیے سیریس ہو گیا تھا پریشان ہو گیا تھا اسکے دل میں محبت بڑھتی جا رہی تھی ۔
"آئندہ ناشتہ کئے بغیر مت آنا۔۔" وہ اسکے سامنے برگر اور جوس رکھتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے بولا۔۔
"یہ میں نہیں کھائوں گی۔۔" وہ برگر کو دیکھتے ہوئے منہ چڑھا کر بولی۔۔
"نہیں ہوگی تم موٹی۔۔ خیر میں کچھ اور لے آتا ہوں۔۔" وہ واپس جانے کے لیے مڑنے لگا تو وہ تیزی سے بولی۔
"رہنے دو میں کھا لیتی ہوں ویسے بھی اب تم نے اس پر پیسے لگا دیے ہیں۔۔" اسے موٹے ہونے کا ڈر کبھی نہیں تھا بس یہاں کا برگر اسے کچھ خاص پسند نہیں تھا۔
"سیریسلی تمہیں میرے پیسوں کی فکر ہے۔۔" وہ اسکی اس بات پر ہنسنے لگا اور کرسی کھینچ کر بلکل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
"میرا مذاق مت اڑائو وہاں کافی نہیں تھا جو یہاں بھی۔۔" وہ برگر ہاتھ میں لیتے ہوئے منہ بسور کر بولی۔۔
"اچھا نہیں ہنستا اب خوش۔۔" وہ پھر اسے گھورنے لگی کیونکہ وہ مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا۔۔
"تمہارا مجھے دیکھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے کہیں اور بھی دیکھ لو ۔۔ ایسے دیکھو گے تو میں کھائوں گی کیسے؟" وہ اسے غصے سے جھڑکنے لگی۔۔
"مطلب ہنسوں بھی نہیں تمہیں دیکھوں بھی نہیں تو کیا کروں؟؟" کبیر نے لاچاری سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
"تو کچھ اور دیکھ لو موبائل یوز کر لو فلحال مجھے نہ دیکھو۔۔"
"میں نے اگر تمہیں دیکھنا چھوڑ دیا تو تمہیں میرا یہ دیکھنا بڑا یاد آئے گا۔۔" بیا کی رنگت پھیکی پڑ گئ اور اس نے اس کی اڑتی ہوئی رنگت فوراً نوٹ کی تھی۔
"مذاق کر رہا ہوں تم تو سیریس ہو گئ۔۔" وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔
"ایسا کچھ نہیں ہے خوامخواہ کی خوش فہمی۔۔۔" اس نے کہہ کر برگر کی ایک بائٹ لی۔ وہ آج بھی ویسا ہی تھا بدزائقہ۔
"تمہیں دیکھنا چھوڑ دیا تو میری آنکھیں ویران ہو جائیں گی۔۔" وہ اتنی سنجیدگی سے بولا تھا کہ انابیہ اس کو دیکھتے ہی بےاختیار ہنس دی۔
"یقیناً تم پاگل ہو۔۔ "
"صرف انابیہ کے لیے۔۔" اس نے اعتراف کیا تھا۔۔
"ہمیں تم سے خطرہ ہے کیونکہ تم پاگل ہو۔۔" وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔ "تمہیں پاگلوں کے ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔۔"
"مجھے صرف انابیہ کی ضرورت ہے۔۔"
"لیکن مجھے پاگلوں کا علاج کرنے نہیں آتا۔۔ بزنس کی سٹوڈنٹ ہوں۔۔"
"جانتا ہوں لیکن میرا علاج صرف تمہارے پاس ہے۔۔"
"لگتا ہے تم فلمیں بہت دیکھتے ہو۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتے ہوئے افسوس سے بولی تھی۔۔
"اب کم از کم میرے ایموشنز کو ڈائیلاگ مت کہہ دینا پلیز۔۔ " اس نے اسکی بات کاٹی۔۔" ویسے بھی میرے خیال سے میں اس دنیا کا واحد لڑکا ہوں جو فلمیں نہیں دیکھتا۔۔" کہتے ہوئے اس نے جیسے فخر محسوس کیا تھا۔۔
"واقعی؟؟ تو تم فری ٹائم میں کیا کرتے ہو؟؟" اس نے دو تین بائٹس لے کر برگر واپس رکھ دیا۔ اس سے زیادہ وہ نہیں کھا سکتی تھی۔
"زیادہ کچھ نہیں بس پینٹنگ کا شوق رکھتا ہوں۔۔"
"آہاں!! میں بھی پینسل اسکیچ بنا لیتی ہوں۔۔ رنگوں سے کھیلنا میرے بس کی بات نہیں۔۔" وہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے ہتھیلیوں کا پیالہ بنائے اس میں سر دبائے بیٹھی تھی۔۔
"پھر تو ہماری کافی جمے گی۔۔" وہ بھی اسکے انداز میں آگے ہو کر بلکل ویسے ہی بیٹھ گیا۔۔
"کیا مطلب ہے تمہارا؟؟" وہ جزبز ہوتے پیچھے ہوئی۔۔
"ایک تو یہ جو تم جان بوجھ کے انجان بنتی ہو نا واللہ بڑی معصوم لگتی ہو۔۔" وہ آنکھیں چھوٹی کیے مسکرا رہا تھا۔
"زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ چلو تمہاری پریکٹس ہے ورنہ سب مجھے الزام دیں گے۔۔" وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔وہ بھی اٹھ کر اسکے ساتھ چلنے لگا۔۔ وہ دوبارہ ہال پہنچے تو کبیر لڑکوں کی طرف بڑھ گیا جبکہ وہ زارا کے ساتھ نیچے زمین پر بیٹھ گئ۔۔
"اب کیسی طبیعت ہے تمھاری؟؟" زارا اسے آتا دیکھ کر فوراً پوچھنے لگی۔۔
"ٹھیک ہوں ۔"
"گڈ۔۔۔" وہ کہتے ساتھ فون دیکھنے لگی۔
اسکی نظریں کبیر پر ہی جمی تھیں جو اپنی ٹیم کو گیم سے سےمتعلق ٹپس بتا رہا تھا۔۔ وہ اسکی ایک ایک حرکت دیکھ رہی تھی۔۔ کبیر نے کچھ لڑکوں کی کمر پر تھپکی دی اور پھر جھک کر زمین سے بال اٹھا کر اسے شہادت کی انگلی پر گھمانے لگا۔ وہ اسکی انگلی کو بال کو اور پھر چہرے کو مسلسل دیکھ رہی تھی۔۔ کبیر نے اچانک آنکھیں اٹھا کر اس بھوری آنکھوں والی لڑکی کو دیکھا اور یکدم آنکھ ماری پھر مسکرانے لگا ۔۔ اس کی اس حرکت پر وہ ایک دم سیدھی ہو کر آس پاس دیکھنے لگی زارا فون میں بزی تھی اور عاصم ایک لڑکے سے بات کرنے میں بزی تھا اس نے گہری سانس لے کر کبیر کی طرف دیکھا وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر بےساختہ مسکرا دی بال اب بھی اسکی انگلی پر ہی گھوم رہا تھا۔۔
●●●●●●●●●●●●●●●
گھر پہنچ کر وہ اپنی گاڑی سے اتری ۔ اس کے چہرے پر عجیب سی خوشی تھی شاید آج یونیورسٹی سے آنے کے بعد اسکا موڈ کافی اچھا تھا پھر ایک نظر پورچ میں کھڑی دوسری گاڑی کو دیکھا یعنی احمد صاحب گھر پر تھے وہ عموماً اس ٹائم گھر آتے تو نہیں تھے ۔۔
"اوہو بیا کیا فضول ٹینشن لیتی رہتی ہو انکا گھر ہے جب دل کرے آئیں۔۔" خود کو کوستے وہ اندر بڑھنے لگی اسکے چہرے پر پھر مسکراہٹ تھی لیکن یہ خوشی پل بھر کی تھی شاید۔۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی وہ سامنے ایک شخص کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گئ۔۔ وہ شخص اسکی طرف پیٹھ کئے کھڑا تھا اور احمد صاحب سے باتیں کر رہا تھا۔۔ وہ اسے میلوں دور سے پہچان سکتی تھی یہ تو پھر دروازے سے لائونج تک کا فاصلہ تھا۔۔ لمبا قد، کسرتی جسم، مکمل گھنگھرالے بال،کف کہنیوں تک فولڈ، ہاتھوں کی نسیں ابھری ہوئیں، کلائی میں لگے مختلف سیاہ رنگ کے بینڈز، سفید شرٹ اور سیاہ پینٹ والا وہ شخص اس کے رنگ ڈھنگ اڑا گیا تھا۔۔ اسکے قدم وہیں زنجیر ہو گئے۔۔ چہرے کا رنگ فق سے اڑ گیا۔۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔ اسے لگا اسکا دل ابھی دھڑکنا بند ہو جائے گا۔۔ جس پل کا اسے ڈر تھا وہ پل آگیا تھا۔۔۔ وہ آگیا تھا۔۔ وہ اسکے سامنے تھا۔۔۔ سب ختم۔۔ اسکی کہانی تو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔۔
"بیا بچے وہاں کیوں کھڑی ہو دیکھو تو کون آیا ہے۔۔۔" احمد صاحب دروازے کا سہارا لئے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر اسے کہنے لگے۔۔ اس لڑکے نے چہرہ پیچھے موڑ کر اسے دیکھا تو اسکی رات سی کالی آنکھیں انابیہ کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ اس کے کانوں میں چھوٹی گول بالیاں چمک رہی تھیں۔اسے دیکھتے ہی اس کے ہونٹ دائیں طرف مسکراہٹ میں ڈھلے۔ وہ اسکی سفید پڑتی ہوئی رنگت دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ بمشکل آگے بڑھی جیسے اسے کوئی زبردستی چلا رہا ہو اسکے قدم بھاری تھے۔۔ وہ عین انکے سامنے آکھڑی ہوئی۔۔ احمد صاحب کا فون رنگ کرنے لگا وہ ایکسکیوز کرتے باہر چلے گئے اور وہ۔۔۔ وہ بت بنے کھڑے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"کیسی ہو؟؟" وہ اب بھی مسکراتے ہوئے اس سے مخاطب تھا۔۔
"تم نے تو کہا تھا تم نہیں آئو گے ۔۔ پھر کیوں آگئے؟؟" اسکی آواز لرکھڑائی تھی ۔
"سرپرائز!!" اسکے ہونٹ شرارتی انداز سے مسکرائے ۔۔" بائے دا وے یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔۔" وہ یکدم سنجیدہ ہوا۔۔
"تم نے جھوٹ بولا تھا مجھ سے۔۔"وہ غصہ نہیں تھی وہ گھبرائی ہوئی تھی۔۔
"میں اپنی مرضی کا مالک ہوں کم از کم تمہیں جوابدہ تو نہیں ہوں۔۔" انداز سپاٹ تھا۔۔ "اور مجھے تو لگا تم مجھے دیکھ کر خوش ہوگی لیکن یہاں تو کچھ اور ہی معاملہ ہے ویسے اتنے اچھے ویلکم کے لیے شکریہ۔۔" اس نے سر کو خم دیتے طنزیہ انداز سے کہا۔۔
"میں کیوں خوش ہوں گی۔۔۔۔"اسکی آواز منہ میں رہ گئ۔۔
"معافی بچوں آفس سے کال تھی۔۔ یہ کیا تم دونوں یہیں کھڑے ہو۔۔" احمد صاحب اندر آتے انہیں ویسے ہی کھڑا دیکھ کر پوچھنے لگے۔۔
"کچھ نہیں چچا جان۔۔ انابیہ کو میرے آنے کی اتنی خوشی ہوئی کہ کھڑے کھڑے میرا حال پوچھنے لگی۔۔" شرارتی مسکراہٹ اسکے چہرے پر تھی اور نظریں انابیہ کے چہرے پر تھیں۔۔ وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے جانے لگی۔ وہ اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔
وہ کمرے میں آئی تو بیگ زور سے اٹھا کے دائیں جانب پھینکا اور سر پکڑ کر کھڑی ہو گئ۔۔
"وہ کیوں آگیا کتنی خوش تھی میں کیوں میری خوشیوں کو آگ لگانے آگیا وہ کیوں؟" اسکی آواز میں درد تھا اور آنکھوں میں پانی۔۔
پھر اسکے اندر کی آواز گونجی۔۔" اسے تو آنا تھا نا انابیہ۔۔"
"مگر اس نے کہا تھا کہ نہیں آئے گا۔۔" وہ خود سے مخاطب تھی۔۔
"اس نے کہا تم نے مان لیا۔۔ تم بھول گئ تھی کہ تمھارے مقدر میں یہی شخص ہے۔۔ " آواز پھر گونجی۔۔
"اسے آنا ہی تھا تو کبیر کیوں آیا میری زندگی میں؟ کیوں میں ایسی کشمکش میں پھنس گئ ہوں آخر کیوں؟؟" اسکا سر پھر اسکے ہاتھوں میں جکڑ ہوا تھا۔۔ آواز چلی گئ تھی الفاظ ختم ہو چکے تھے۔۔ خاموشی بڑھ چکی تھی۔۔ لیکن ایک آواز اب بھی تھی۔۔۔ اسکی سسکیوں کی۔۔ اسکے رونے کی آواز۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
"اور سنائو بچے کیسا وقت گزرا اور اتنے عرصے بعد آئے ہو تمہیں اپنی خالہ کی یاد نہیں آئی؟؟" احمد صاحب ، ناہیدہ بیگم اور عالیان تینوں اس وقت لائونج میں موجود تھے۔ وہ ناہیدہ بیگم کو بچپن سے ہی خالہ کہتا تھا وہ انھیں چچی نہیں کہتا تھا۔۔
"کیوں نہیں خالہ مجھے آپ سب کی یاد آتی رہی تھی تبھی تو میں تقریباً ہر روز آپ لوگوں سے کال پر بات کرتا تھا۔۔" اسکے ہاتھوں میں چائے کا کپ تھا۔۔
"ہاں اور کبھی کبھی بھول بھی جاتے تھے۔۔" وہ اس سے شکوہ کررہی تھیں۔۔
"بھولتا نہیں تھا بس وقت نکالنا مشکل تھا۔۔ "
"کراچی گئے تھے توبھائی کو بھی ساتھ لے آتے ۔۔" احمد صاحب اب اس سے مخاطب تھے۔۔
"آپ تو جانتے ہیں نا چچا جان کہ وہ لاہور نہیں آتے انکی یہاں سے اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں اور میں بھی دو سالوں بعد آیا ہوں میرا دل بند ہو جانے لگتا ہے یہاں۔۔ موم کی آوازیں آنے لگتی ہیں انکی یاد آنے لگتی ہے تبھی یہ سب چھوڑ کر میں یہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔" ماں کے ذکر پر اسکی آواز لڑکھڑانے لگتی تھی۔۔
"اچھا یار چھوڑو یہ سب باتیں اتنے عرصے بعد آئے ہو تم ۔۔ اچھی باتیں کرو۔۔" انکی آنکھوں میں اپنی بہن کا ذکر سنتے ہی آنسو آنے لگیں۔۔
"خالہ عرصہ تو نہیں ہوا۔۔ دو سال ہی ہوئے ہیں۔۔"
"کم از کم میرے لیے تو یہ عرصہ ہی تھا نا۔۔" ناہیدہ کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔۔
"جانتا ہوں آپ مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں اسی لیے آپکو اسپیشل کال کرتا تھا میں۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا تبھی ردا اور مناہل کو آتا دیکھ کر انکی طرف گھوما وہ دونوں یونیفارم میں تھیں اور دونوں نے حجاب لے رکھا تھا۔۔ ردا اسے دیکھتے ہی حیران ہوئی اور بغیر سلام دعا کئے وہ فوراً کمرے کی طرف بھاگی ۔۔ باہر بیا کی گاڑی وہ دیکھ چکی تھی ۔۔وہ جانتی تھی کہ اسکی آپی اس وقت کس حال میں ہوگی۔۔ عالیان کی نظریں اس پر جمی تھیں جو تیزی سے کمرے کی طرف بھاگی ۔۔۔
"عالیان بھائی کیسے ہیں آپ؟؟ " مناہل اسکے ساتھ صوفے پر تھوڑا دور ہو کر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔
"میں تو ٹھیک ہوں گڑیا تم کیسی ہو؟؟" وہ مسکرا کر پوچھنے لگا۔
"میں بھی ٹھیک میں نے آپکو بہت مس کیا۔۔ اب آپ واپس تو نہیں جائیں گے نا؟؟" وہ اسکی آنکھوں میں امید سے دیکھتے ہوئے بولی جس پر وہ صرف مسکرایا اور کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔
ردا جب کمرے میں داخل ہوئی تو فوراً انابیہ کی طرف بڑھی جو نیچے فرش پر اکڑو بیٹھی تھی۔۔
"آپی ایسے کیوں بیٹھی ہیں آپ ٹھیک تو ہیں نا؟؟" وہ اسکے ساتھ نیچے بیٹھ گئ تھی۔۔
"ردا وہ آگیا وہ واپس آگیا اس نے تو نہیں آنا تھا نا اس سے پوچھو وہ کیوں آیا ہے۔۔" وہ روتے ہوئے بولی۔۔ ردا نے آگے ہو کر اسکے ہاتھ پکڑ لئے۔۔
"کچھ نہیں ہوگا آپی ریلیکس ہو جائیں پلیز۔۔" وہ اسکے ہاتھ نرمی سے پکڑے اسے تسلی دیے جا رہی تھی۔۔
"وہ باہر بیٹھا ہے ردا اور تم کہہ رہی ہو ریلیکس ہو جائوں۔۔ کیسے ہو جائوں میں ریلیکس ہاں وہ لے جائے گا مجھے یہاں سے وہ اسی لیے آیا ہے۔۔۔ بابا نے کہا تھا وہ آئے گا تو وہ اس سے میری شادی کر دیں گے۔۔میری ساری دعائیں رائیگاں چلی گئیں۔۔" اسکی آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہہ رہے تھے۔۔
"دعائیں رائیگاں نہیں جاتیں۔۔" اس کے علاوہ ردا کے پاس الفاظ نہیں تھے وہ کیا کہتی کیسے تسلی دیتی اپنی بہن کو وہ جانتی تھی کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے وہ نہ بھی کرتی تب بھی وہ کسی صورت اس شخص سے شادی کے لیے راضی نہ ہوتی۔۔
تقریباً ایک گھنٹہ گزر چکا تھا وہ روتے روتے سو گئ تھی اور اب جاگی تھی اس کے سامنے سٹڈی ٹیبل پر ردا بیٹھے اپنے اگلے پریکٹیکل کی تیاری کر رہی تھی۔۔ اس کے سر میں ایک شدید درد کی لہر دوڑی۔۔
"ردا سب کہاں ہیں؟؟" اس نے اٹھتے ساتھ اسے مخاطب کیا تھا۔
"بابا کچھ دیر کے لیے آفس گئے ہیں ابھی آجائیں گے ۔۔ ماما جان کچن میں ہیں اور منو سٹڈی روم میں پڑھنے گئ ہے۔۔" وہ ایک ہی بار میں سب کا بتانے لگی۔۔
"اور وہ؟ بول دو وہ نہیں تھا میں نے برا خواب دیکھا ہے؟"
"بلکل نہیں وہ باہر بیٹھا ہے کوئی خواب نہیں تھا حقیقت ہے۔۔" اسکی نظریں کتاب پر جھکی تھیں۔۔
"جائو اسے کہو میں نے بات کرنی ہے اس سے۔۔ بلا کر لائو۔۔" وہ سنجیدگی سے بولی جس پر ردا اسکی طرف گھومی۔۔
"میں؟؟ کبھی نہیں میں اسکے سامنے نہیں جانے والی عجیب طرح سے گھورتا ہے وہ ۔۔۔ مجھے اس سے گھن آتی ہے۔۔" اس نے تیوڑیاں چڑھائے اس سے کہا تھا۔۔
"یعنی تم نہیں جا رہی؟؟" وہ بھی لڑنے کے موڈ میں تھی۔۔
"آپی آپ۔۔۔ وہ خود پر ضبط کرتے رکی۔ " جاتی ہوں۔۔" اس نے کرسی زور سے دھکیلی وہ واقعی غصے میں تھی۔
"میں چھت پر جا رہی ہوں وہی بھیجنا اسکو۔۔" ردا نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی اور پیر پٹختی باہر چلی گئ۔۔
وہ لائونج میں آئی تو وہ سامنے ہی صوفے پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔
"چڑیا کا گھونسلہ ہونہہ۔" وہ اس کے گھنگھرالے بالوں کو دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
"آپ کو آپی بلا رہی ہیں چھت پر۔۔ بات کرنی ہے انکو۔۔۔" وہ سڑھے ہوئے لہجے میں کہتے ساتھ واپس جانے کے لیے مڑی تبھی اسکی آواز پر رکی۔۔
"رکو۔۔۔" اس نے موبائل پر سے نظریں اٹھا کر اسے پکارا اور چلتے ہوئے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"جی۔۔۔" اس نے چہرہ اٹھا کر اس چھ فٹ کے لڑکے کو دیکھا۔
"تم وہی ردا ہو نا جو مجھے بھائی بھائی کہتے تھکتی نہیں تھی۔۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا تھا وہ بھی ردا تھی ڈھیٹوں کی طرح اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔
"جی میں وہی ردا ہوں پر افسوس آپ وہی عالیان بھائی نہیں ہیں۔۔" اپنے سینے پر ہاتھ باندھے وہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہے۔۔
"یہ میری ذاتی زندگی ہے میں جو بھی کروں تمہیں مجھ سے اس طرح سے بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بھولو مت تم مجھ سے چھوٹی ہو۔۔" انداز تنبیہی تھا۔
"جی بلکل اور آپکو بھی مجھے روک کر سوال جواب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔" وہ دو ٹوک جواب دیتے وہاں سے چلی گئ۔۔
"دونوں ہی بہنیں اپنی خوبصورتی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔۔ نخرہ بہت ہے ان میں۔۔۔ " اور پھر یک دم مسکرایا۔۔ "جچتا بھی ہے۔۔" کہتے ساتھ سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔۔ تیسری منزل پر پہنچتے ہی اس نے سامنے کھڑی انابیہ کو دیکھا اور پھر آس پاس چھت کو۔۔ اس کے قدم وہیں رکے۔۔ وقت لمحے بھر کے لیے پیچھے گیا۔۔ آنکھوں کے سامنے کا منظر بدل گیا۔
"پکڑ سکتی ہو تو پکڑ کے دکھائو۔۔" آگے آگے گھنگھرالے بالوں والا لڑکا تھا اور اسکے پیچھے سبز آنکھوں والی لڑکی۔۔ وہ اسے پکڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔
"میں آپکو پکڑ لوں گی بھائی دیکھ لینا ۔۔" وہ آٹھ سالہ بچی تیرہ سالہ لڑکے کے پیچھے مسلسل بھاگ رہی تھی۔۔
"عالیان وہ گر جائے گی۔۔" انابیہ کونے میں بیٹھی اپنی گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔ تبھی ردا گر گئ۔۔ عالیان اسکی طرف بڑھا اور اسکی کہنی دیکھنے لگا جس پر سے سکن ادھڑ چکی تھی انابیہ بھی گڑیا پھینک کر اسکی طرف دوڑی۔۔
"کہا تھا نا میں نے۔۔" وہ اسکا بازو دیکھتے ہوئے بولی۔ پھر دونوں نے سر اٹھا کر ردا کو دیکھا جو دانت نکالے ہنس رہی تھی۔۔
"اتنی چھوٹی چوٹوں سے مجھے کچھ نہیں ہوتا۔۔" وہ اب بھی دانت نکال رہی تھی اور اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑنے لگی پھر زور سے عالیان کو کندھوں سے پکڑا۔۔۔
"پکڑ لیا نا دیکھا۔۔" اب کی بار انابیہ بھی ہنس دی۔۔
"چیٹر۔۔ گرنے کا بہانہ کر کے مجھے پکڑا ہے تم نے ۔۔۔" عالیان منہ بناتے ہوئے بولا۔۔
"گری تو میں سچ کی ہوں جھوٹے۔۔۔" وہ پوری قوت سے چیخی تھی۔۔
"ردا وہ بڑا ہے تم سے تمیز کرو۔۔" اسکے سر پر ایک چت لگاتے ہوئے وہ بولی۔۔
"ہاں آپ تو انکی ہی سائڈ لیں گی نا ۔۔" ردا نے منہ پھلا لیا تھا۔۔
"اسے چھوڑو عالیان آئو نا میری گڑیا دلہن بنے انتظار کر رہی ہے اور تمہارا گڈا اسکی بارات نہیں لایا۔۔"
"تو کرنے دو انتظار مجھے نہیں لانی کوئی بارات۔۔" وہ اسے چڑھاتے ہوئے بولا۔۔
"ایسے تو نہ بولو چلو میرے ساتھ ۔۔" وہ اسکا ہاتھ پکڑے اسے ساتھ لے جانے لگی اور عالیان ہنسنے لگا۔
وقت تیزی سے کیوں گزرتا ہے اسکو پر کیوں لگ جاتے ہیں؟؟ وہ اب تک دروازے پر کھڑا تھا اور پھر چل کر اسکے ساتھ جا کھڑا ہوا۔۔
"مجھے گڈے کی بارات اسی وقت لے آنی چاہئے تھی۔۔" اسکی آواز پر انابیہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا وہ اس کے ساتھ کھڑا تھا۔۔ "میں نے دیر کردی اور اب سب بگڑ چکا ہے۔۔۔" آواز میں نمی تھی۔۔ وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگی وہ اس سے سوال کرنا چاہتی تھی وہ اس پر غصہ ہونا چاہتی تھی مگر وہ کچھ نہ کر سکی۔۔"بلکہ سب ٹھیک ہی ہے شاید میں بگڑ چکا ہوں۔۔" وہ تلخی سے مسکرایا۔۔
"یقیناً۔۔" انانیہ نے زیرلب بولا تھا مگر وہ سن چکا تھا۔ اسے دکھ ہوا تھا۔
"خیر۔۔ کیا بات کرنی تھی تمہیں؟؟" عالیان نے اس کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گئ۔۔ آج اسے گھٹن ہو رہی تھی کیونکہ آج ہوا نہیں تھی کیونکہ آج کبیر نہیں تھا کیونکہ آج عالیان تھا۔ وہ عالیان جو کبھی اس کا بہترین دوست ہوا کرتا تھا۔
"تم جانتے ہو کہ مجھے کیا کہنا ہے۔۔" وہ رک رک کر بولی۔۔ "تم نے جھوٹ بولا تھا مجھ سے کہ تم نہیں آئو گے ۔۔"
"تمہاری سانس اب تک ادھر ہی اٹکی ہوئی ہے۔۔"
"میری پوری زندگی تم پر اٹکی ہے عالیان بلکہ تم ایک کانٹے کی طرح میری حلق میں اٹک چکے ہو جسے نہ میں نگل سکتی نہ اگل سکتی ہوں۔" وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔۔
"تم کیا چاہتی ہو؟" عالیان نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
"ایک وقت تھا جب میں اس دنیا میں تمہارے ساتھ خود کو سب سے زیادہ محفوظ سمجھتی تھی۔۔" وہ رکی۔۔ "اور اب میں تم سے ڈرتی ہوں اور نفرت بھی کرتی ہوں۔۔" وہ اسکی اس بات پر عجیب طرح سےمسکرایا۔۔ تھوڑا حیران بھی ہوا۔
"نفرت کی تو سمجھ آتی ہے مگر ڈرنے والی بات ہضم نہیں ہوئی۔۔" اس نے ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔
"تمہاری حرکتیں عالیان ۔۔ وہ ایسی ہیں کہ تم سے ڈرا جائے۔۔"
"یو نو واٹ ۔۔ تم میری انسلٹ کر رہی ہو۔۔" اسکی مسکراہٹ غائب ہوئی۔
"حقیقت تم جیسے لوگوں کو انسلٹ لگتی ہے۔۔" اب وہ بھی طنزیہ مسکرائی۔۔
"ایک بات غور سے سننا۔۔۔ مانا کہ میں شریف انسان نہیں ہوں لیکن۔۔" وہ تھوڑا آگے ہوا۔۔ " احمد عالم کی بیٹیوں کے لیے میں شریف انسان ہوں کم از کم تم لوگوں کو مجھ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔ ایسے الفاظ کا چنائو کرو جو مجھے تکلیف نہ دیں انابیہ۔۔" وہ اس کے اس جملے پر خاصا شرمندہ ہوئی۔۔
"اس میں برا ماننے والی بات نہیں ہے عالیان تم جان کر مجھے اپنی فضولیات دکھاتے تھے۔۔ دکھاتے تھے نا؟؟"
"تمھارا اشارہ میرے سوشل میڈیا کی طرف ہے۔۔۔ تو ہاں میں جان بوجھ کر تمہیں اپنی ہر پوسٹ پر ٹیگ کرتا تھا۔۔۔جانتی ہو کیوں؟؟" وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔
"کیوں؟؟" اس کی آواز بمشکل نکلی۔۔
"تاکہ انابیہ میڈم تم خود شادی سے انکار کردو۔۔" وہ پھر رکا۔۔"مجھے تم سے شادی نہیں کرنی۔۔۔ مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔۔" یہ تو وہ جانتی تھی اسی لیے اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا وہ سنجیدہ تھی۔
"تم جانتے ہو میں انکار نہیں کر سکتی۔۔"
"میں بھی۔۔ تم جانتی ہو میں اسپیشل تم سے فیس ٹو فیس بات کرنے کے لیے آیا ہوں تمہارے دل سے مجھ سے شادی کرنے کا خیال نکالنے کے لیے کیونکہ ڈیڈ مجھے پریشرائز کرتے ہیں لیکن یہاں آکر تو میں خود سرپرائز ہو گیا یہ جان کر کہ تمہیں تو واقعی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے مجھ میں ۔۔ ہے تو بس نفرت۔۔" وہ بول رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔۔
"تم شادی ہی نہیں کرنا چاہتے یا مجھ سے نہیں کرنا چاہتے؟" انابیہ کی تفتیشی نگاہیں اس کے دودھ جیسے سفید چہرے پر تھیں ۔
"میں اپنی اکیلی زندگی سے بہت خوش ہوں شادی بوجھ ہے۔۔ میں تم سے تو کیا کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتا نہ کروں گا اکارڈنگ ٹو می یہ ایک فضول عمل ہے۔۔۔ ہاں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اور ردا بہت خوبصورت ہو اور تم میری اچھی دوست ہو بھلے تم مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتی۔۔" شرارتی مسکراہٹ لئے وہ چہرہ پھیر گیا تھا جبکہ بیا نے دانت پر دانت جمائے ۔۔ ردا کا نام اسکے منہ سے سن کر اسکا دل کیا اسکا منہ ہی توڑ دے۔
"ابھی اگر ردا یہاں ہوتی تو تمھاری ٹانگیں سلامت نہ ہوتیں۔۔" اس نے اسکی آخری بات کو بلکل نظرانداز کیا۔۔عالیان کا قہقہہ گونجا تھا۔۔
"قسم سے میں اس سے بہت ایمپریس ہوا ہوں۔۔ کافی بدل گئ ہے۔۔" اس نے آنکھ کو ونگ کرتے ہوئے کہا۔۔ وہ کچھ نہ بولی کچھ پل خاموش رہی۔
"تم پڑھو انابیہ تم پڑھنا چاہتی ہو نا اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیو۔۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تم نے میرے بارے میں یہاں کسی کو کچھ نہیں بتایا۔۔ ایک وعدہ کرتا ہوں تم سے ۔۔۔ وہ یہ کہ میں واپس جا رہا ہوں ۔۔" بیا نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔"اور ایم بی اے کر کے آئوں گا یا شاید تب بھی نہیں مجھے یہ ملک پسند نہیں ہے میں وہاں بہت خوش ہوں ۔ مجھے یہاں سکون نہیں ملتا میں بہت سٹریس میں آجاتا ہوں۔۔ جب تمہاری پڑھائی مکمل ہو جائے گی میں تب واضح طور پر سب کو بتا دوں گا کہ ہم شادی نہیں کر رہے۔۔ ابھی سب کو ایسے ہی سمجھنے دو جیسے وہ سمجھ رہے ہیں ورنہ یہ سب مجھے واپس نہیں جانے دیں گے۔۔تم اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارو۔۔۔" وہ کچھ پل اس کے چہرے پر سے اپنی حیرت زدہ نظریں نہیں ہٹا سکی۔ وہ فون پر کچھ اور سامنے کچھ اور تھا۔
"اور تم یہ احسان مجھ پر کیوں کر رہے ہو؟؟" انابیہ نے تفتیشی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"کچھ زیادہ ہی ایکسٹرا نفرت کر رہی ہو تم مجھ سے میں اب اتنا بھی ڈیزرو نہیں کرتا۔۔" اس نے خفگی سے کہا تو وہ اگلے پل ہی وہ رخ پھیر گئ۔
"آئی ایم سوری۔۔۔" وہ نظریں گملے پر مرکوز کئے بولی۔۔
"اٹس اوکے۔۔۔ سوری تم پر جچتا نہیں ہے۔۔" وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"بابا کو اتنا پتہ ہے کہ تم پر امریکہ کے ماحول کا کچھ اثر ہوا ہے انہیں لگتا ہے میں تمہیں بدل سکتی ہوں۔۔" اس کی یہ بات سنتے ہی عالیان کا ایک زوردار قہقہہ گونجا ۔۔۔
"سیریسلی!!" وہ اب بھی ہنس رہا تھا۔۔ "یہ تمہارا کام نہیں ہے انابیہ۔۔"
"بلکل یہ میرا کام نہیں ہے۔۔ ہدایت انکو ملتی ہے جو ہدایت کی چاہ کرتے ہیں۔۔ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔ اور وہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔۔" یہ کہہ کر وہ پلٹی اور پھر رکی۔۔ "اپنی بات پر قائم رہنا مسٹر عالیان۔۔۔" اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا جس پر عالیان نے سر اثبات میں ہلایا اور وہ چلی گئ۔
"میں خود کو تمہارے قابل نہیں سمجھتا انابیہ بلکہ تم تو کیا کسی بھی اچھی اور نیک لڑکی کے قابل نہیں سمجھتا۔۔ بس مجھے محبت نہ ہو۔ مجھے محبت سے نفرت ہے۔" ایک تلخ مسکراہٹ اسکے چہرے سے ہو کر گزری۔۔ وہ کافی دیر وہیں کھڑا رہا۔۔