یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو سیاہ آسمان اور تھرتھراتی بارش کے نیچے تن و تنہا کھڑی اپنی قسمت پر افسوس کررہی ہے جس کی قسمت میں صرف تنہائی ہے۔۔ عارضی۔۔مستقل۔۔ اسے نہیں معلوم۔۔اس کا وجود تھر تھر کانپ رہا ہے، چہرہ سردی سے سفید پڑ رہا ہے، ہونٹ سردی کی شدت سے نیلے پڑ رہے ہیں لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں ہے ایسے جیسے ایک بت کو لا کر اس تیز بارش میں کھڑا کر دیا گیا ہو اور وہ کسی چیز کو محسوس نہ کر سکتا ہو۔ وہ سیاہ کپڑوں میں ملبوس مکمل بھیگی ہوئ لڑکی روئے جا رہی ہے۔ اس کی کھلی آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں اور بارش سے چہرہ ایسے تر ہے کہ کہاں آنسو ہیں کہاں بارش کا پانی ہے فرق کرنا مشکل ہے۔
" اس طوفانی بارش میں خود کو کیوں غرق کر رہی ہو؟؟" ایک آواز اس کے آس پاس سے گونجنے لگی تھی۔
" میں انتظار کر رہی ہوں۔۔" وہ کپکاتی ہوئی آواز میں مختصراً جواب دینے لگی۔ اس کے ہونٹ جو کافی دیر سے برف کی مانند سخت تھے بمشکل ہل سکے تھے۔
" کس کا؟؟" آواز پھر سے گونجی۔ سوال پھر سے ہوا۔
" اس وقت کا جب مجھ سے چھینی گئ محبتیں مجھے واپس لوٹا دی جائیں گی۔۔" بارش نے مزید شدت اختیار کر لی لیکن اس نے اپنے قدم نہ ہلائے۔
" تو تمہیں یقین ہے ایسا ہوگا؟؟" سوال پھر سے ہوا۔
" یقین ہی تو نہیں ہے لیکن پھر بھی انتظار کرنے کو دل کرتا ہے۔۔" آواز مزید لڑکھڑانے لگی تھی ناامیدی کے ساتھ افسوس کے ساتھ۔
" جب یقین نہ ہو تو انتظار فضول ہے۔انتظار کے لیے یقین ضروری ہے جیسے بھوک کے لیے خوراک۔۔جیسے پیاس کے لیے پانی۔۔ جیسے کامیابی کے لیے محنت۔۔ جیسے محبت کے لیے کوشش۔۔" آواز آنا بند ہو گئ۔ خاموشی نے ایک بار پھر سے اسے آ گھیرا اور وہ یونہی کھڑی رہی یہ سوچتے ہوئے کہ کیا پتہ یہ شدت سے برستی بارش اس کے درد، غموں اور تکلیفوں کو دھو ڈالے۔
تو چلو اس کہانی کا آغاز کرتے ہیں۔ محبتوں اور نفرتوں کی جنگ کرتے ہیں۔ کون جیتے گا کون ہارے گا وقت سب جانتا ہے۔ محبت کے قصے کتنوں کے پورے کتنوں کے ادھورے ہوں گے وقت سب جانتا ہے۔ انتظار کے بعد کسے پھول ملیں گے کسے کانٹے وقت سب جانتا ہے۔۔
غرض سب ہی تومحبت کے گرد گھومتے ہیں •
کسی کے قصے پورے کسی کے ادھورے ہیں•
●●●●●●●●●●●●●
لاہور میں ساون کی تھرتھراتی بارشوں کے ساتھ آسمان میں گرج چمک نے ایک شور سا برپا کر رکھا تھا۔ ایسے میں ہسپتال کے ایک روشن بتیوں سے جگمگاتے کمرے میں ایک عورت بیڈ پر لیٹی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ تکان زدہ چہرہ، سفید رنگت، حلقوں کے گرد گھری ہوئیں سوجی آنکھیں۔ دفعتاً اس کی پلکوں میں لرزش ہوئی۔ ڈھیروں پائپوں میں جکڑی اس عورت نے آہستہ آہستہ اب اپنی آنکھیں کھولنے کی بمشکل کوشش کی۔ سب کچھ دھندلا دھندلا سا تھا۔ سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ آنکھیں کھولتے ہی ان کی نظر اپنے شوہر پر پڑی جو ان کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیے بیٹھے تھے۔ پھر انہوں نے اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے اپنے تیره سالہ بیٹے عالیان کو دیکھا جو ان کے بائیں طرف بیٹھا کب سے آنسو بہائے جا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے انہی تھکی ہوئی سفر کرتی آنکھوں سے انہوں نے بلکل اپنے سامنے کھڑی اپنی بہن ناہیدہ کو دیکھا جو ساری امیدیں ہارےان کے بیڈ کی پائینتی کے پاس کھڑی تھیں۔ احمد صاحب بھی ان کے ساتھ ہی سر کو جھکائے اور آنسوؤں کو ضبط کیے کھڑے تھے۔ اس وقت سب کے ساتھ ساتھ یہ ناہیدہ کے لیے بھی بہت کٹھن وقت تھا کیونکہ وہ عورت جو بیڈ پر لیٹے اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی وہ نہ صرف ان کی جھیٹانی تھیں بلکہ ان کی سگی بڑی بہن بھی تھیں۔
"بیا۔۔ میری بچی۔۔ بیا ۔۔ کہاں ہے؟" انہوں نے بمشکل اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔ سب سے پہلے جو نام ان کی زبان پر آیا تھا وہ انابیہ کا تھا۔انابیہ جو کونے میں پڑے ایک صوفے پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھے کب سے روئے جا رہی تھی تائ جان کے منہ سے اپنا نام سن کر تیزی سے اٹھی اور ان کے سرہانے جا کھڑی ہوئ۔۔
"میں یہاں ہوں۔۔ آپ کے پاس تائ جان آپ ٹھیک ہو جائیں پلیز۔۔" گلابی رنگ کے پرنسس فراک میں ملبوس وہ دس سالہ بھوری آنکھوں اور بھورے بالوں والی ایک پیاری بچی تھی جس کا رو رو کر فلحال برا حال تھا۔ وہ راحیلہ سے بہت پیار کرتی تھی۔ راحیلہ بھی اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔
"آپ پلیز ٹھیک ہو جائیں۔ آج میری برتھڈے پر مجھے یہی تحفہ دے دیں گھر چلیں تائی جان۔۔" وہ ان کی پیشانی پر ہلکا ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔ راحیلہ نے نرمی سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا تو اس نے سوجی ہوئی آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا۔
"تم میری بہادر۔۔ بیٹی ہو بیا۔۔ میں ہر پل تمہارے ساتھ ہی ہوں گی۔۔" ان کو بولتے ہوئے بھی بہت تکلیف ہو رہی تھی۔۔"ناہیدہ تم تو ۔۔مت رو ایسے میرے بعد ۔۔تم نے ہی تو سب سنبھالنا ہے نا۔" انہوں نے نظروں کا رخ ناہیدہ کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ انہیں زندگی کی امید نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کس تکلیف میں تھی اور اس تکلیف میں بھی اگر کچھ لمحوں کے لیے انہیں سانس لینے کا موقع مل رہا ہے اپنے پیاروں سے آخری دفعہ بات کرنے کا موقع مل رہا ہے تو یہ کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔۔
"میں کیسے کروں گی سب باجی یہ میرے لیے بہت مشکل ہے آپ ایسے کیسے جا سکتی ہیں مجھے یوں تنہا چھوڑ کر۔" ناہیدہ اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں ان سے شکوہ کرنے لگی۔
"تم سب کر سکتی ہو بس ہماری یہ فیملی کبھی ٹوٹنے مت دینا انکو جوڑ کر رکھنا۔۔" وہ تھوڑا رکی "میری بیا کو میرے عالیان کا کرنا چاہے کچھ بھی ہو میں رہوں یا نہ رہوں ۔ میری آخری خواہش ہی سمجھ لو۔"
"بیا میری بہو ہی بنے گی لیکن تم بھی ہمارے ساتھ ہوگی ہمارے بچوں کی خوشی دیکھو گی۔۔" ناصر اپنی بھیگی آنکھوں سے اپنی بیگم کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولے۔
"میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے میں بہت بدقسمت ہوں بہت زیادہ۔۔" یکدم ناصر کو اپنے ہاتھوں پر راحیلہ کی گرفت کمزور ہوتی ہوئ محسوس ہوئی۔ وہ پتھر کے ہو گئے اور کچھ ہی پل میں سامنے پڑا وجود بےجان ہو گیا۔۔
"نہیں راحیلہ پلیز ایسے مت کرو تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔۔" وہ اپنی بیوی کو بے بسی سے دیکھتے ہوئے اسکی منتیں کیے جا رہے تھے۔ وہ جا چکی تھی سب کو چھوڑ کر اکیلے انکے گھر کی بڑی جس نے دونوں بھائیوں کو جوڑ کے رکھا تھا جس نے اپنی بہن کا ہر قدم پر ساتھ دیا تھا جس نے انابیہ سے اپنی بیٹی کی طرح پیار کیا تھا۔ وہ چلی گئ۔۔
کمرے کے دروازے کی اوٹ میں کھڑا شخص تیزی سے باہر کی طرف بھاگا۔ وہ ایک ڈاکٹر کے حلیے میں تھا۔ہسپتال کی عمارت سے باہر نکلتے ہی اس نے سرجیکل ماسک چہرے سے ہٹایا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ پھر ہاتھوں کی پشت سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کر کے اس نے پینٹ کی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور کال ملانے لگا۔۔
" بولو شالا۔۔" دوسری طرف سے ایک بھاری مردانہ آواز گونجی۔۔
"وہ مر گئ ہے سائیں۔۔۔" اس نے قدرے دھیمی آواز میں کہا۔ دوسری طرف سے بنا کچھ کہے فون کاٹ دیا گیا تو وہ ادھر ادھر دیکھتے ہی سیدھا اپنی گاڑی کی طرف بھاگا۔۔
وہ اس وقت ایک نیم اندھیر کمرے میں ہاتھ میں ایک لڑکی کی تصویر پکڑے راکنگ چئیر پر بیٹھا تھا۔ اس خاموش پناہ گاہ میں صرف اس چئیر کی آواز گونج رہی تھی۔ وہ سیاہ آنکھوں اور سیاہ لمبے بالوں والی خوبصورت لڑکی تصویر میں مسکرا رہی تھی اور اس کی مسکراہٹ دیکھ کر جہانزیب کے ہونٹوں پر بھی طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔
"آہ راحیلہ۔۔ تم ان سب کے لیے مجھے چھوڑ کر گئ تھی جو تمہاری حفاظت تک نہ کر سکے۔۔" اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔
"تم لوگ پچھتائو گے ہر قدم پر۔۔ تم لوگ مجھے یاد رکھو گے۔۔ میرے نام سے کانپو گے۔۔ اور کچھ نہیں کر سکو گے۔ تم لوگ بےبس ہو ناصر اور احمد۔۔ اور بےبسی سے محظوظ ہونا جہانزیب کو بہت پسند ہے۔۔۔" وہ کھل کے مسکرایا اور اگلے ہی لمحے اس نے اس تصویر کو پھاڑ دیا۔ اپنے ہاتھ میں اس تصویر کے ٹکڑوں کو مڑوڑتے ہوئے وہ کافی دیر ایسے ہی بیٹھا رہا۔۔
آٹھ سال بعد:
لاہور میں آج نیلے رنگ کا آسمان بلکل صاف دکھائی دے رہا تھا گو کہ گرمی اپنے پورے عروج پر تھی۔ ایسے میں وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر گود میں لیپ ٹاپ لیے بیٹھی تھی۔ کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک تھی۔ پردے ڈوریوں میں بندھے تھے۔ بند کھڑکیوں کے شیشوں سے کمرے میں داخل ہوتی روشنی پورے کمرے کو روشن کیے ہوئے تھی۔۔
"کیا مصیبت ہے ویبسائٹ کو بھی آج ہی کچھ ہونا تھا۔۔ " چہرے پر بےپناہ سنجیدگی لیے وہ لیپ ٹاپ کی چمکتی ہوئ اسکرین کو دیکھے جا رہی تھی اور یہی آس لیے بیٹھی تھی کہ شاید اب چل جائے مگر بےسود ویبسائٹ ہنوز ایرر دے رہی تھی۔ اب کی بار اس کی پیشانی پر بل پڑنے لگے تھے کیونکہ یہ تو حد ہی ہو گئ تھی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ انتظار کرنا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے نا۔ اسی دوران ایک اور لڑکی ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے کمرے میں داخل ہوئی اور کمرے کی حالت دیکھ کر دھنگ رہ گئ۔
"آپی اللہ کا واسطہ ہے کمرہ تو صاف کر کے بیٹھا کریں۔ صبح سے اس منحوس کے ساتھ چپکی ہوئ ہیں۔"
کپ کو سائڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے ردا کب سے بڑبڑائے جا رہی تھی اور انابیہ تو جیسے سن ہی نہیں رہی تھی اور مسلسل لیپ ٹاپ پر بس انگلیاں چلانے میں مصروف تھی۔
"میں نے آج چھٹی اس لیے تو نہیں کی کہ میں اب۔۔۔۔۔" الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے اور ہاتھ دونوں کانوں پہ جا لگے ظاہر ہے چیخ ہی ایسی تھی انابیہ صاحبہ کی۔
"کیا ہو گیا آپی کیا کر رہی ہیں ابھی پورا محلہ جمع ہو جائے گا احمد عالم صاحب کے دروازے پر-" لیکن انابیہ اسے نہیں سن رہی تھی اور خوشی کے مارے بہن کو زور سے پکڑے کمرے میں اچھلنے لگی۔
اس نے رک کر تیز تیز سانس لیتے مسکراتی ہوئ شکل لیے پوچھا۔“Guess what??”
"ایسا بھی کیا ہوگیا جنت کا ویزہ لگ گیا ہے کیا؟" ردا بس ناسمجھی سے اسے دیکھے گئ۔ اسے تو ہر بات پر مذاق کرنا ہوتا تھا اور انابیہ بیچاری ٹھہری سنجیدہ مزاج لڑکی۔۔
اس کی ایسی بات پر انابیہ کے دل سے "آہ" نکلی۔۔ " اہمم ایسے میرے نصیب کہاں۔ اس سے بھی اچھی خبر ہے یہ میرے لیے۔" اسے چھوڑو کر اب وہ بیڈ پر سے اپنا سیاہ دوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھ رہی تھی۔
"تو پھر عالیان مر گیا ہوگا؟" ردا اور اس کے اندازے!!! وہ تیورا کے اس کی طرف گھومی۔
"ہائے عالیان کہاں سے آ گیا بیچ میں ۔۔ جائو دفع ہو یہاں سے ساری خوشی کو آگ لگا دی۔" وہ خاصا بدمزہ ہوئ۔
"اوکے اوکے۔۔ آئی ایم سوری۔۔" ردا عین اس کے سامنے جا کھڑی ہوئ جو کمرہ چھوڑ کے جانے ہی والی تھی۔۔۔"اب بتا بھی دیں گھوریں تو نا۔" وہ مسلسل اسے کھا جانے والی نظروں سےگھور رہی تھی۔
" فائن لیکن اب تم صرف سنو گی۔۔" شہادت کی انگلی اٹھائے جب اس نے تنبیہی انداز میں اسے دیکھا تو ردا کسی فرمانبردار کی طرح فوراً سر اثبات میں ہلانے لگی۔
"مجھے اسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن مل گیا ہے یار میں اتنی ایکسائٹڈ ہوں۔۔۔" ایک تو وہ خوبصورت اور پھر اسکا مسکرانا!!
" بس اس لیے؟؟" ردا عجیب انداز سے بولی۔ انابیہ کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئ۔۔
" کیا بس؟؟ میں جس یونیورسٹی میں چاہتی تھی وہیں ایڈمیشن ملا ہے مجھے اور پتہ ہے اتنی آسانی سے وہاں ایڈمیشن نہیں ملتا۔۔۔"
" ہاں تو ایڈمیشن تو ملنا ہی تھا ظاہر ہے آپ نے ان کا
پاس کیا تھا اور تو اور آپ کے SAT ( Scholastic Assessment Test)
ایف۔ایس۔سی میں بھی اتنے اچھے نمبرز تھے۔" انابیہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھے اس نے کہا۔ اس نے تیزی سے اپنا کندھا چھڑوایا۔۔
"خیر جو بھی۔۔۔ میں ماما کو بتاتی ہوں جا کے تم یہ کمرہ صاف کرو شاباش ۔ " اس پہ حکم کرتے ہی وہ کمرے سے بھاگنے کے انداز میں چلی گئ۔ ردا نے پلٹ کر غصیلی نظروں سے اسے جاتے دیکھا۔۔
" ہاں کیوں نہیں مفت کی نوکرانی جو ملی ہوئی ہے آئندہ قسم ہے مجھے جو فضول میں چھٹی کروں۔" اپنے ساتھ بڑبڑاتے ہوئے وہ ناچاہتے ہوئے بھی صفائی کرنے لگ گئ۔
ناہیدہ بیگم اس وقت سنک میں ناشتے کے برتن دھونے میں مصروف تھیں جب وہ کچن میں آکر برتن سمیٹنے لگی۔
" ماما جان مجھے یونیورسٹی میں ایڈمیشن مل گیا ہے۔" اس کی آواز پر نل بند کر کے ناہیدہ بیگم انابیہ کی جانب مڑی۔
"کب ایپلائ کیا تھا تم نے؟" خوشی تو انکو تھی مگر چہرے پر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی۔
" ایف۔ایس۔سی کے رزلٹ کے بعد سے ہی کوشش میں لگی تھی " بات تو ماما جان سے کر رہی تھی مگر نظریں کہیں اور تھیں۔
"ہمم۔۔ مبارک ہو لیکن جانتی ہو نا بابا اجازت کبھی نہیں دیں گے اور مجھ سے امید رکھنا فضول ہے ۔" سپاٹ لہجے میں کہتی وہ پھر سے کاموں میں مصروف ہو گئیں ۔
"ہاں جانتی ہوں۔ میں آپ سے سفارش کرانے آئ بھی نہیں ہوں اپنی خوشی شئیر کرنے آئ تھی۔ جو اللہ یہاں تک لایا ہے آگے کا راستہ بھی وہی دکھائے گا۔" برے موڈ سے بولتے ہی وہ رکی نہیں۔
ناہیدہ پلٹ کر کچن کے دروازے کو افسوس بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی جہاں سے وہ ابھی ابھی گئ تھی۔ ۔ گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا تھا۔ کاش کہ وہ ہر جگہ اپنی بیٹیوں کا ساتھ دے سکتیں۔۔
وہ دوبارہ کمرے میں آئ تو سیدھا الماری کی طرف بڑھی۔ ردا کمرہ صاف کرنے میں مصروف تھی جو تقریباً وہ صاف کر چکی تھی۔
"چلو ہمیں جانا ہے۔۔" اس نے الماری سے برقعے نکالے ایک ردا کی طرف اچھالا اور دوسرا خود پہننے لگی۔
"مگر کہاں؟؟" ردا برقعہ ہاتھوں میں پکڑے حیرانی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"بھاڑ میں!!! کتنے سوال کرتی ہو ۔۔" وہ ناک چڑھاتے ہوئے بولی۔
"وہاں آپ اکیلے ہی جایئے گا ابھی کہاں جانا ہے یہ بتایئں؟ " وہ بھی اسی کی بہن تھی۔۔
"میری کالج کی جو دوست تھی نا سعدیہ اس نے ریسینٹلی ایک اورفن ایج کھولا ہے وہ وہاں یتیم بچوں کی کفالت کرتی ہے خیال رکھتی ہے۔ میں نے اللہ سے دعا کی تھی اگر مجھے اسی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا نا تو میں ان بچوں کے لیے کچھ گفٹس لے کر جائوں گی۔ بچے بھی خوش ہونگے اور سعدیہ بھی۔۔" روانی میں بولتے بولتے وہ برقعہ پہن چکی تھی اور اب آئینے کے سامنے کھڑی حجاب لے رہی تھی۔ گول بیضوی چہرہ، بھوری بادامی پرکشش آنکھیں، گھنی پلکیں، پتلی سی ناک اور دل کو بھا جانے والی مسکراہٹ۔۔وہ آئینے کے سامنے کھڑی پتلی لمبی لڑکی واقعی بہت خوبصورت تھی۔
"وائو!! اتنی سی عمر میں انٹرسٹنگ!! یہ تو اچھی بات ہے مگر ماما کو کیا کہیں گے؟؟ " ردا اب تک ویسے ہی کھڑی تھی۔
"کچھ بھی کہہ دیں گے بابا ویسے بھی کراچی گئے ہوئے ہیں شاید شام تک آجائیں گے ہمیں جلدی کرنی ہوگی۔۔" وہ عجلت میں بولتی گئ۔
"اچھا مگر میں یہ برقعہ نہیں پہنوں گی۔ کیا ضروری ہے کہ برقعہ ایونجرز بن کر جائیں۔" ردا برقعے کو عجیب طرح سے دیکھتے ہوئے بولی۔
"اففووو ابھی کے لیے پہن لو اور جلدی کرو۔۔" اس کے بار بار کہنے پر آخر ردا نے برقعہ پہن ہی لیا تھا۔
وہ دونوں ہی اب باہر آئیں ناہیدہ بیگم صوفے پر بیٹھی چاول صاف کر رہی تھیں انکو اپنے سامنے برقعہ پہنے تیار کھڑا دیکھ کر حیران ہوئیں۔
" ماما جان ہمیں ذرا بازار جانا تھا کچھ ضروری کتابیں چاہئے ردا کو۔۔" اپنا نام سنتے ہی ردا نے کرنٹ کھا کر انابیہ کو دیکھا۔۔
"جج۔۔ ہاں۔۔۔جی مم مجھے چاہئیے کتابیں۔۔" وہ قدرے بوکھلا کر رہ گئ ۔۔ " کم از کم بتا تو دیتی ملبہ میرے سر ڈالنا ہے میں تیاری کر کے آتی۔۔" اس نے انابیہ کے کان میں سرگوشی کی جس پر انابیہ نے اسے کہنی ماری۔
"تم دونوں جانتے ہو نا احمد صاحب گھر پر نہیں ہیں۔۔" وہ چاولوں کی تھالی پر نظریں جھکائے بولیں۔
"جی تبھی تو جا رہے ہیں۔۔آپ فکر نہ کریں ہم جلدی واپس آجائیں گے پرامس۔۔" انابیہ تھوڑا جھجک کر بولی۔۔
"اچھا ٹھیک ہے جائو مگر جلدی آنا۔۔" آخرکار اجازت مل جانے پر دونوں نے گہری سانس لی اور باہر کی طرف چل دیں۔۔ باہر سڑک پر آکر انہوں نے رکشہ روکا اور اس پر سوار ہو گئیں۔
"کاش کہ گاڑی چلانے آتی ہوتی فضول میں پورچ میں کھڑی تھی بابا بھی نہیں تھے کتنا مزہ آتا ۔۔ اس گرمی میں رکشوں میں اچھل اچھل کے جائوحد ہے۔۔" ردا کو برقعے نے تنگ کیا ہوا تھا اور اوپر سے سورج بھی پتہ نہیں آج کے دن ہی اتنا کیوں تپا ہوا تھا۔۔
"زیادہ نخرے کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں بھی اسی مٹی کی بنی ہوں جس سے تم بنی ہو۔۔" وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولی۔ ردا نے ہونہہ کر کے اسے دیکھا۔۔
"جھوٹ بول کر آنے کی کیا ضرورت تھی؟" ردا اپنی سبز کانچ کی آنکھوں سے اس کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
"کونسا جھوٹ؟؟" انجان بنتے اس نے بیگ میں سے موبائل نکالا اب اس کا دھیان موبائل کی طرف تھا جس پر وہ ٹائپنگ کررہی تھی۔
"یہی کہ ہم کتابیں لینے جا رہے ہیں۔"
"تو کتابیں بھی لینی ہیں میری بہن۔۔" سعدیہ کو میسج کرنے کے بعد وہ اب فون واپس بیگ میں رکھ رہی تھی۔۔ " تمھاری الماری میں کچھ کتابوں کے لیے جگہ خالی تھی سو۔۔"۔ ردا نے ایک دم گردن گھما کر اسے دیکھا وہ سمجھ گئ تھی کہ وہ کیا کہنے والی ہے۔۔
"سچی!!" ردا کے چہرے پر ایک دم بہار آئ۔۔ وہ تقریباً چیخ کر بولی تھی جس کی وجہ سے رکشے والے نے بھی مڑ کر انہیں دیکھا اور پھر بڑبڑاتے ہوئے سامنے دیکھنے لگا۔ وہ لمبی سفید داڑھی والا ادھیڑ عمر شخص تھا اور اس طرح سے لڑکیوں کا چیخنا اسے بلکل پسند نہیں آیا تھا۔۔
"جی بلکل لیکن دو سے زیادہ مت لینا تمھارے ناولز ہوتے بھی مہنگے ہیں خیال کرنا میری جیب کا۔۔" ردا واقعی بہت خوش ہوئ ۔۔
وہ دونوں رکشے سے اتری اور بازار میں سے بچوں کے لیے کپڑے کھلونے اور مزید کھانے پینے کی اشیاء خریدنے لگیں۔ بازار میں بہت لوگوں کے ہجوم میں وہ ردا کا ہاتھ اتنے زور سے پکڑے چل رہی تھی کہ اس کا ہاتھ سرخ ہونے لگا تھا۔ لوگوں کا رش، دکانداروں کی آوازیں اور اوپر سے گرمی ردا کا تو سر چکرا کر ہی رہ گیا تھا۔
"آپی بس نا یہ کافی سامان ہے میں تھک گئ ہوں۔۔" وہ دونوں ہاتھوں میں شاپنگ بیگز پکڑے چل رہی تھیں تبھی ردا قدرے تھکے ہوئے انداز میں بولی ۔۔
"ہاں بس چلتے ہیں صرف مٹھائ رہ گئ ہے تم نے بکس لے لی نا؟؟" وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی تو ردا نے سر ہاں میں ہلایا۔ وہ دونوں پھر سڑک کے قریب آئیں تبھی ایک ہیوی بائک نے انکے سامنے زور سے بریک ماری ٹکر ہوئ نہیں تھی لیکن انابیہ کی چیخ سب نے سنی تھی اسکے ہاتھوں سے بیگز اور پھولوں کا گلدستہ گر گئے تھے۔ وہ لڑکا فوراً بائیک سے اترا اور نیچے جھک کر سامان اٹھانے لگا اس نے سیاہ چمکتا ہوا ہیلمٹ، سیاہ ٹی شرٹ اور سیاہ ہی پینٹ پہن رکھی تھی۔ پورا کا پورا بلیک مین تھا۔۔
"اندھے ہو گئے ہو کیا بائیک چلانے نہیں آتی تو کیوں سڑکوں پر لوگوں کو مارنے کے لیے نکل آتے ہو۔۔" وہ مسلسل اس لڑکے کو سنائے جا رہی تھی لیکن وہ سامان اٹھانے میں مصروف تھا آگے سے کچھ بولا نہیں وہ شاید بہت جلدی میں تھا۔
"اوو بھائ کیا اندھے ہونے کے ساتھ ساتھ بہرے بھی ہو۔۔" اس کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔۔ وہ اب بھی چپ تھا اس نے اس کو سامان اور وہ گلدستہ پکڑایا اور دوبارہ بائیک پر سوار ہوتے تیزی سے نکل گیا۔ انابیہ نے ایک نظر اسکے گلے میں پڑے سلور سے لاکٹ کو دیکھا جس پر ایک کھوپڑی بنی تھی اور پھر جاتے ہوئے اسکی پشت کو بس ہیلمٹ کی وجہ سے وہ چہرہ نہ دیکھ سکی۔۔
"اچھا بس بھی کردیں مجھے وہ بیچارہ جلدی میں لگ رہا تھا دیکھا آپ نے اس نے کوئ بحث بھی نہیں کی اور ہمارا سامان بھی اٹھا کر دیا۔۔" ردا اپنی بہن کو چپ کراتے ہوئے بولی جو اب بھی مسلسل غصے میں بڑبڑا رہی تھی۔۔
"بیچارہ نہیں کوئ شودا تھا آیا بڑا بیچارہ۔ اور بحث کرتا بھی کیوں جبکہ غلطی اس کی اپنی تھی۔" وہ ہاتھ کے اشارے سے رکشہ روکتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے دوسرے ہاتھ میں پکڑے اپنے ٹیولپس دیکھے شکر وہ نہیں گرے تھے۔
"بھائ بس دائیں ہاتھ پر اس برائون گیٹ کے سامنے روک دیں۔۔" کچھ ہی دیر میں وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے تھے۔۔ دونوں نے اترتے ہوئے اپنا سارا سامان دھیان سے اتارا اور گھر کی طرف بڑھ گئیں۔۔
" کیا اس نے گھر پر ہی کھول رکھا ہے یتیم خانہ؟؟" ردا اس بڑے سے گھر کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔
" ہاں بلکل۔۔" وہ بیل بجاتے ہوئے بولی۔ بیل بجانے پر چوکیدار نے دروازہ کھولا تو وہ اندر داخل ہوئیں سامنے ہی لان میں سعدیہ بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی پھر انابیہ کو دیکھتے فوراً اسکی طرف آئ۔۔
" ارے انابیہ کیسی ہو؟؟" وہ اسکے گلے لگتے ہوئے بولی۔۔
"میں تو بلکل ٹھیک تم سناؤ تم اور تمہارے بچے کیسے ہیں؟" وہ بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ کر خوشی سے بولی۔
"سب ٹھیک اندر تو آئو۔۔"
"نہیں یار ابھی بہت دیر ہو گئ ہے گھر جانا ہے یہ لو ان بچوں کو دینا مجھے ایڈمیشن مل گیا ہے نا اسی خوشی میں لائ ہوں انکے لیے۔۔" وہ سارا سامان سعدیہ کے سامنے کرتے ہوئے بولی۔
"بہت بہت مبارک ہو لیکن اس سب کی کیا ضرورت تھی؟؟ اچھا بیٹھو نا پلیز پہلی دفعہ آئ ہو بہن بھی ہے تمھارے ساتھ اچھا نہیں لگتا نا۔۔" وہ انسسٹ کر رہی تھی لیکن انابیہ کو صرف ایک ہی ڈر تھا کہ کہیں بابا جان بجائے شام کے ابھی ہی نہ آجائیں۔ خوامخواہ ماما جان کو بھی سننی پڑے گی۔
"نہیں یار پھر کبھی پرامس ابھی واقعی بہت دیر ہو گئی ہے رکشے والا بھی باہر کھڑا ہے ہم چلتے ہیں۔۔" وہ دونوں پھر ایک دوسرے کے گلے لگی اور الوداعی کلمات کہتے انابیہ اور ردا واپس جانے لگیں۔
سڑک پر ہنوز رش تھا وہ تیزی سے بائیک چلاتے اسی جگہ واپس آیا جہاں پر وہ لڑکی اس کے بائیک سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ اس نے ایک جگہ بائیک روکی اور اتر کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ وہاں سب کچھ ویسا ہی تھا بس وہ نہ تھی تبھی اس کی نظر زمین پر گرے ہوئے پھول پر ٹھہری۔ اس نے جھک کر وہ پھول اٹھایا تو جانا وہ نقلی ٹیولپ تھا۔ اس لڑکی کو شاید ٹیولپس بہت پسند تھے اور یہ موسم ٹیولپس کا نہیں تھا اسی لیے بس اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے وہ یہی ٹیولپس اپنے ساتھ لے گئ۔آسمان کی طرف سر اٹھاتے ہوئے اس نے ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح سانس خارج کی اور ہار مان کر دوبارہ سے بائیک پر سوار ہوا اور وہاں سے چلا گیا اس امید پر کہ کبھی نہ کبھی تو وہ اسے ضرور ملے گی۔
●●●●●●●●●●●●●
سورج کی سنہری کرنیں پگھلی ہوئی ندیوں کی طرح جہانگیر ہاؤس پر گر رہی تھیں۔ سیاہ اور سفید رنگ میں بنا جہانگیر ہاؤس خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔عین درمیان میں پتھریلی راہداری کے دائیں اور بائیں تا حد نگاہ پھیلا سبزہ تھا۔ جہاں پر راہداری کا اختتام ہوتا تھا وہیں سے آگے گہری بھوری ووڈن فلور کی گول لابی تھی جس پر دو سفید ستون کھڑے تھے۔ اونچا اور بڑا داخلی دروازہ پار کر کے اندر دیکھو تو سامنے ہی ایک شاندار وسیع و عریض اونچی چھت والا لائونج تھا جو سفید رنگ کے صوفوں اور سنہرے جھومر سے مزین تھا۔ صوفوں کے ٹھیک دائیں طرف شیشے کی بنی ریلنگ والے زینے اوپر کی طرف جاتے تھے۔ لائونج کے بائیں طرف ڈائیننگ ایریا اور اسی کے ساتھ کچن بھی تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور اس خاموشی میں ایک آواز شامل ہوئی۔ کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز۔۔۔
"اب کیا توڑ دیا نازو؟؟" سفید قمیض شلوار اور کندھے پر دوپٹہ ڈالے آمنہ بیگم تیز تیز قدم لیتی کچن کی طرف گئیں تو انہوں نے دیکھا نازو (کام والی) جھک کر کانچ کے ٹکڑے اٹھا رہی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے میں وہ تیسری بار آمنہ بیگم کا قیمتی جگ توڑ چکی تھی۔
"ہاتھ سے مت اٹھائو زخمی ہو جائو گی۔۔" وہ اس کے قریب جاتے ہوئے بولیں نازو نے سر اٹھا کر دیکھا آنکھوں میں ندامت واضح تھی۔۔
"کوئی بات نہیں بیگم صاحبہ میں اٹھا لیتی ہوں۔۔" وہ ہنوز جھک کر کانچ کے بڑے بڑے ٹکڑے صاف کر رہی تھی۔
"اچھا احتیاط سے کرنا اور کبیر جاگ گیا کہ نہیں؟" ان کی دکھی نظریں سامنے ٹوٹے ہوئے جگ کی طرف ہی تھیں۔ کبھی کبھی انہیں اپنے نرم دل پر بہت غصہ آتا تھا۔۔
"نہیں جی۔۔ وہ اب تک سو رہے ہیں۔۔" سر اثبات میں ہلاتی وہ کچن چھوڑ کر زینوں کی طرف بڑھ گئیں۔ نازو کا سارا غصہ اب کبیر جہانگیر پر اترے گا۔۔
کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ سیدھا اندر گئیں۔ جہازی سائز کے بیڈ پر وہ الٹا لیٹا گہری نیند میں تھا۔ وہ ہلکے سرمئی رنگ کی دیواروں والا ایک نہایت ہی سادہ سا کمرہ تھا جس کے عین درمیان میں گہرے سرمئی رنگ کا بیڈ، ساتھ ایک بڑا سرمئی رنگ کا صوفہ، کونے میں سٹڈی ٹیبل اور دوسری طرف ہلکے سرمئی رنگ کے پردے تھے جو کمرے میں اندھیرے کا سبب بن رہے تھے۔ آمنہ بیگم بجائے اس کے پاس جانے کے سیدھا پردوں کی طرف گئیں۔
"کبیر بیٹا اٹھ بھی جائو دن کے بارہ بج گئے ہیں سورج سر پہ ہے۔" آمنہ بیگم کھڑکی سے پردےہٹاتے ہوئے
مسلسل بولے جا رہی تھی لیکن کبیر تو جیسے سن ہی نہیں رہا تھا اور سارے گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہا تھا۔ پھربالکونی کے دروازے سے آتی سورج کی تیز روشنی چہرے پر پڑتے ہی اس کی بند آنکھیں مزید چندھیا گئیں تو وہ ناگواری سے کروٹ دوسری طرف کر کے پھر سے سو گیا۔
"بس بہت ہو گیا اگر اب تم نہ اٹھے نا تو میں تم پہ پانی پھینک دوں گی۔" اب کی بار وہ اس کے سر پہ کھڑی تھیں۔ پانی کا نام سنتے ہی کبیر نے چہرہ موڑ کر خفگی سے اپنی ماں کو دیکھا۔
"کیا ہے یار اٹھ گیا ہوں۔ کوئی سونے بھی نہیں دیتا سکون سے۔" انگڑائ لیتے وہ آخر اٹھ ہی گیا۔ بال ماتھے پر اس طرح بکھرے تھے کہ آنکھیں بمشکل دکھائی دے رہی تھیں۔
"ایک دفعہ جاگ کر تم دوبارہ اتنا کیسے سو سکتے ہو توبہ ہے۔۔۔" اس بار انکا رخ صوفے کی طرف تھا جو کپڑوں کے پھیلاوے سے سجا ہوا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ فجر کی نماز کے بعد وہ جم جاتا تھا اور چونکہ آج کل چھٹیوں کی وجہ سے وہ فارغ تھا اس لیے واپس آکر سو جایا کرتا تھا۔
"ایک مشہور ڈاکٹر نے کہا تھا کہ زیادہ سونا صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔" کبیر اپنے بالوں کو ہاتھوں سے پیچھے کرتے ہوئے آمنہ بیگم کے غصے کی پرواہ کیے بغیر مزے سے بول رہا تھا۔
"اور یہ کس پاگل ڈاکٹر نے کہا تھا؟ یقیناً وہ خود بھی اتنا ہی سوتا ہوگا تبھی اتنی بہکی بہکی باتیں کرتا تھا۔" تھی تو وہ غصے میں لیکن سامنے والا بھی بڑا ڈھیٹ تھا۔
"ہا ہا ہا۔۔فائن میں ہار مانتا ہوں۔ آپکی ڈانٹ ختم ہو گئی ہو تو میں فریش ہونے جائوں ؟" آمنہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کو کہا اور سر جھٹک کر خود کچن کی طرف چل دیں۔
فریش ہو کر وہ گہرے نیلے رنگ کی جینز کیساتھ آدھی آستینوں والی سفید ٹی شرٹ پہنےسیدھا کچن کی طرف آیا۔ بال اسی طرح ماتھے پر بکھرے تھے۔ اس کے بال مکمل طور پر گھنگھرالے نہیں تھے لیکن ان میں تھوڑا کرل تھا ۔ شہد رنگ آنکھیں، نہایت صاف رنگت، گھنے بھورے بال،شارپ جا لائن، دراز قد کے ساتھ ورزشی جسامت۔ وہ بلاشبہ ایک ہینڈسم لڑکا تھا۔
"کیا مطلب میں اکیلے ناشتہ کروں گا؟" ٹیبل پر صرف ایک بندے کا ناشتہ دیکھ کر اس نے جیسے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔کچن میں آمنہ بیگم ناذو کو دن کے کھانے کی ہدایات دیے جا رہی تھیں تبھی اس کی آواز پر اس کی طرف پلٹیں۔۔
"نہیں تو کیا خیال ہے اسی پاگل ڈاکٹر کو بلا لوں جو دیر سے اٹھنے کے مشورے دیتا ہے؟" آمنہ چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ سجائے کبیر کی طرف گھومی۔۔ "اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں جوائن کروں تو جان لو میں ناشتہ صبح کر چکی ہوں ایک گھنٹے بعد میں لنچ لوں گی۔" اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اسے چھیڑ رہی تھیں۔
" مینڈ یور ویز کبیر۔۔ کب تک بچے بنے رہو گے۔۔ عابس سے ہی کچھ سیکھ لو اس وقت تک تو وہ آفس کے آدھے کام بھی دیکھ چکا ہوگا اور تم۔۔" وہ بولتے بولتے گہرا سانس بھر کر چپ ہو گئیں۔ اسے سمجھانا مشکل کام تھا۔
" موم بھائی اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کر چکے ہیں تو ظاہر ہے اب انہیں آفس ہی سنبھالنا ہے۔۔ میری تو ابھی تک یونیورسٹی سٹارٹ نہیں ہوئ۔۔" بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے وہ ناگواری سے بول رہا تھا۔
" بات سٹڈیز کی نہیں ہے۔۔ خود کو وقت کے ساتھ ساتھ میچور بنائو ۔ ابھی سے کوشش کرو گے تو عابس جیسے بن سکو گے۔۔۔" آمنہ اسے کہتے ہی پھر سے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔۔ کبیر عجیب سی شکل بنائے پھر سے ناشتہ کرنے لگا۔
●●●●●●●●●●●●●●
یہ شام کا وقت تھا اور ڈھلتے سورج نے آسمان کو نارنجی رنگ دیا تھا۔ بیڈ پہ وہ موبائل ہاتھ میں پکڑے کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی جیسے کوئی ضروری کال کرنی ہو پر ہمت نہ کر پا رہی ہو۔ اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا تھا وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اس نے موبائل وہیں بیڈ پر پٹخ دیا اور کنپٹی مسلنے لگی۔۔اس کے عقب میں کھڑکی کے پاس ردا کارپٹ پر تصویروں کا پھیلاوا لے کر بیٹھی تھی۔ وہ کافی دیر سے انابیہ سے ان تصویروں کے حوالے سے باتیں کر رہی تھی۔ کبھی اپنی بچپن کی تصویر دیکھ کر ہنسنے لگ جاتی اورکبھی پرانی یادوں میں کھو کر خاموش ہو جاتی ۔ اس نے گردن گھما کر ردا کو دیکھا۔ ڈوبتے سورج کی ترچھی کرنیں کھڑکی سے پار ہو کر کمرے میں پڑ رہی تھیں۔ وہ قدم اٹھاتی اس کے سامنے جا بیٹھی۔
"یہ کیا پھیلاوا بنا رکھا ہے تم نے ہاں ۔۔" ردا نے اس کی آواز پر نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"میں سمیٹ دوں گی ویسے بھی صفائی میں نے ہی کرنی ہے۔۔" وہ جتانے کے انداز میں بولی اور پھر ہاتھ میں پکڑی ایک تصویر کو دیکھ کر مسکرائ۔
"یہ دیکھیں آپ کے کالج کی فرینڈز گروپ فوٹو۔۔" وہ مسکراتے ہوئے تصویر اس کے سامنے کرتے ہوئے بولی تو انابیہ نے اس سے وہ تصویر تھام لی۔ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری اور پھر اس نے وہ تصویر وہیں پھیلاوے میں رکھ دی۔ ردا نے عجیب سی شکل بنا کر اسے دیکھا۔
" ارے جی بھر کر دیکھ تو لیں۔ کیا پتہ اب یہ آپ کے ساتھ نہ ہوں۔" انابیہ کچھ نہیں بولی وہ ہنوز خاموش رہی۔
"اچھا آپ نے کبھی بتایا نہیں ان میں سے آپ کی بیسٹ فرینڈ کون سی ہے؟؟" اس نے وہی تصویر دوبارہ ہاتھ میں اٹھا لی۔ اب کی بار اسے اس کی کچھ اور تصاویر بھی ملی تھیں جن میں اسی طرح انابیہ کالج یونیفارم پہنے انہیں لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔
" کوئ بھی نہیں۔۔" اس کے ایسے جواب پر ردا نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
" اچھا تو پھر پانچ چھ لڑکیوں کا جو یہ ٹولا ہے یہ سب کیوں ہیں ؟؟"
" یہ جسٹ فرینڈز ہیں۔۔" جواب دو ٹوک تھا۔
"تو سعدیہ کون ہے جس کے گھر گئے تھے ہم؟" اس کے سوالوں کی لسٹ تو جیسے ختم ہی نہیں ہو رہی تھی انابیہ نے آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
"وہ بھی بس فرینڈ تھی۔۔ " وہ پیچھے ہو کر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھ گئ۔ آنکھوں میں مزید اداسی در آئی۔
"کیا آپ کسی کو بیسٹ فرینڈ نہیں بناتی یا کوئ آپ کو نہیں بناتا؟" وہ سراپا سوال بنے اس سے پوچھے جا رہی تھی۔ انابیہ تلخی سے مسکرا دی۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں سنگدل ہوں؟" اس نے زخمی مسکراہٹ لیے اس سے پوچھا۔
"بلکل بھی نہیں آپ تو بہت اچھی ہیں نرم دل ہیں۔۔" جواب بہت آسان تھا اسے دینے میں سیکنڈز کی دیر بھی نہیں لگی۔
"کیا تم بیسٹ فرینڈ کا مفہوم جانتی ہو؟؟" اب کی بار سوال کرنے کی باری انابیہ کی تھی۔۔
"بیسٹ فرینڈ وہ ہوتا ہے جس سے آپ بلا جھجک اپنے دل کی ہر بات شئیر کر سکیں ۔ جو آپ کے دھکڑے سنتے ہوئے کبھی بور نہ ہو جو آپ کو بہترین مشورے دے سکے۔ آپ سے بہت پیار کرے اور جو ہر مشکل میں آپ کا ساتھ دے۔" وہ روانی میں مسکراتے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔ انابیہ ہنس کےسر نفی میں ہلانے لگی۔ ردا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"یہ سب کام تو کوئی بھی دوست کر لیتا ہے چاہے مجبوری ہی کیوں نہ ہو۔ بیسٹ فرینڈ وہ ہوتا ہے جو دوسرے دوستوں کی موجودگی میں آپ کو کبھی اگنور نہ کرے۔ آپ اس کے لیے سب سے اہم ہوں۔" وہ دونوں براہ راست ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ "جانتی ہو سب سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہوتا ہے؟ اپنے پسندیدہ لوگوں سے اگنور ہونا۔۔" اس نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب دیا۔ "میں نے سکول سے لے کر کالج تک بہت دوست بنائے مگر بہت کچھ کر کے بھی بیسٹ فرینڈ نہیں بنا سکی اور نہ اب بنائوں گی کیونکہ مجھے اگنور ہونے سے بہت ڈر لگتا ہے۔" وہ کہتی جا رہی تھی اور ردا بغور اس کا چہرہ دیکھتے اسے سنتی جا رہی تھی۔
"لیکن اب مجھے کوئ افسوس نہیں ہے کیونکہ شاید مجھے یقین ہے کہ اس دنیا میں اللہ نے وہ انسان ضرور رکھا ہوگا جو مجھے ڈیزرو کرتا ہوگا اور جو مجھے کبھی اگنور نہیں کر سکے گا" انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے وہ ہنس دی۔
"وہ بہت بدنصیب لوگ تھے جنھوں نے آپ کی قدر نہیں کی۔" ردا اسے دکھی انداز سے دیکھتے ہوئے بولی۔
"وہ بدنصیب نہیں تھے میں بےوقوف تھی۔ کہاں عزت ملتی ہے کہاں ذلت بس یہ نہیں سمجھتی تھی میں۔۔" اور پھر کندھے اچکا کر کہنے لگی۔ "مگر اب بےوقوف نہیں رہی۔۔" وہ کچھ دیر ایسے ہی ہنستی رہی اور پھر رک کر بولی۔"میرا بس ایک بیسٹ فرینڈ تھا اور اس کے ہاتھوں بھی میں کھل کے اگنور ہوئ ہوں۔۔" وہ پھر تلخی سے مسکرا دی۔
"ان کا تو نام بھی مت لیجیے گا جس طرح امریکہ جا کر رنگ انہوں نے بدلا ہے نا ایسے تو گرگٹ بھی نہیں بدلتا۔" وہ عالیان کے ذکر پر ہمیشہ کی طرح خاصا بدمزہ ہوئ۔
"اس کو بھی کیا کہہ سکتے ہیں۔ خیر میری صرف اب تم بیسٹ فرینڈ ہو اور میرے خیال سے اگر آپ کی بہن ہی آپ کی بیسٹ فرینڈ ہو نا تو اس سے بڑی دنیا کی کوئ نعمت نہیں ہوتی۔۔" ردا کے چہرے پر تبسم بکھرا تو اٹھ کے اس کے پاس چلی گئ۔
"آپ مجھ سے کچھ بھی شئیر کر سکتی ہیں فلحال یہ بتائیں تایا ابو سے بات کی؟" اس کے سوال پر انابیہ سر نفی میں ہلانے لگی۔ اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئ تھی۔۔
"ہمت نہیں ہو رہی کہیں وہ بھی منع نہ کر دیں۔۔" یکدم اس کے چہرے پر دکھ کے سائے لہرائے۔
"انہوں نے پہلے کب آپ کو انکار کیا ہے جائیں اٹھے اور ابھی کال کریں۔۔" وہ اس کو حکم دیتے ہوئے بولی تو کچھ سوچتے سمجھتے انابیہ دوبارہ اپنے موبائل کی طرف بڑھ گئ اور بیڈ پر بیٹھ گئ۔ آخرکاراس نے کال کا بٹن دبا دیا کیونکہ ضروری تھا۔۔ دوسری طرف سے سیکنڈز میں کال اٹھا لی گئ۔۔
" ہیلو۔!!" بھاری مردانہ آواز گونجی۔
" السلام علیکم تایا ابو۔۔" وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
"وعلیکم السلام۔۔ کیسی ہو میری بیٹی؟" ناصر عالم اپنے آفس کی کرسی پہ براجمان تھے۔ ہلکی سبز آنکھیں، قلموں سے سفید بال اور ہلکی ہلکی داڑھی انہیں ایک وجیہہ شخصیت کا مالک دکھا رہے تھے۔
"میں تو ٹھیک ہوں۔ آپ بتائیں آپ کی طبیعت کیسی ہے؟"
"بس تمھاری دعائیں ہیں بچے میں بھی ٹھیک ہوں۔ سب خیریت ہے نا آواز سے پریشان لگ رہی ہو۔۔" وہ ہر روز ان سے فون پر بات کرتی تھی اسی لیے آج انہوں نے اس کی آواز میں پریشانی بھانپ لی تھی۔
" جی سب ٹھیک ہے اللہ کا شکر۔۔ بس آپ سے ایک بات کرنی تھی۔" اب کی بار وہ پھر بیڈ پر بیٹھ گئ اور بس یہی سوچے جا رہی تھی کہ تایا ابو ہی اب اسکی آخری امید ہیں۔
"بولو بچے میں سن رہا ہوں۔۔۔" وہ ہمیشہ کی طرح اسے سے نرمی سے بات کر رہے تھے۔۔اس نے گہری سانس لی اور اپنی خواہش ناصر صاحب کو بتا دی۔
"ہممم خیر تم پریشان نہ ہو میں بات کروں گا احمد سے ۔" انہوں نے پھر نہایت نرمی کا مظاہرہ کیا۔
"شکریہ تایا ابو اللہ حافظ۔۔"
دوسری جانب سے بھی دعا دیتے ہوئے فون رکھ دیا گیا۔۔انابیہ کی پریشانی میں کمی تو ہوئی تھی مگر احمد صاحب کی باتیں سننا ابھی رہتی تھیں۔
●●●●●●●●●●●●●●
"میں آ جائوں بھائ؟" احمد اس وقت ناصر کے کمرے کے دروازے پہ کھڑے تھے۔
"آجائو یار۔۔۔" ناصر ہاتھ میں اخبار لیے ٹانگ پر ٹانگ رکھے صوفے پہ بیٹھے تھے۔
"آپ نے بلایا تھا بھائ ؟"
"ہاں ضروری بات کرنی تھی تم سے بیٹھ جائو" اخبار ٹیبل پہ رکھ کر اب وہ مکمل طور پر احمد کی طرف متوجہ ہوگئے۔ "بیا کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن ملا ہے وہ پڑھنا چاہتی ہے آگے۔" بجائے بات کو طول دینے کے انہوں نے نہایت صاف گوئی کا مظاہرہ کیا اور ادھر ادھر کی باتیں کیے بغیر مدعے کی بات کی۔۔
“مجھے تو ایسی کوئی خبر نہیں دی گئ۔ میرے منع کرنے کے باوجود بھی وہ پیچھے نہیں ہٹی کمال ہے۔۔۔" ناصر انہیں گھور رہے تھے۔۔ "آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟" اب کی بار وہ تھوڑا پیچھے ہوتے ہوئے بولے۔۔
"میں بس چاہتا ہوں کہ وہ جو چاہتی ہے اسے کرنے دو۔" چہرے پر سنجیدگی تھی۔
"ناممکن آپ جانتے ہیں بھائی میں اسے کالج چھوڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ وہ اسی کالج میں پڑھے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔" وہ بلکل نارمل انداز میں بات کر رہے تھے۔
"کیوں یونیورسٹی جانے میں کیا برائی ہے؟؟" ناصر صاحب کی پیشانی پر لکیریں واضح ہونے لگیں۔
"کوئی برائی نہیں ہے نہ ہی میں چھوٹی ذہنیت کا مالک ہوں آپ اچھے سے جانتے ہیں وجہ کیا ہے۔۔"
"تمہیں کس چیز کا خوف کھائے جا رہا ہے احمد؟ اب کیا ہم ڈر کے مارے اپنی بیٹیوں پر پڑھائی کی پابندی لگا دیں۔۔ وہ یونیورسٹی جائے گی اور ہر حال میں جائے گی۔ مت بھولو وہ میری بھتیجی ہونے کے ساتھ ساتھ میرے عالیان کی ہونے والی بیوی بھی ہے میں اس سے وعدہ کر چکا ہوں۔ بہتری اسی میں ہے کہ اسے پڑھنے دو۔۔ " اب کی بار انکے ہاتھ میں پھر اخبار تھا۔ جبکہ احمد صاحب تیوڑیاں چڑھائے اپنے بھائ جان کو گھورے جا رہے تھے۔
"بھائ میں بس چاہتا ہوں کہ اگر وہ پڑھنا ہی چاہتی ہے تو اسی کالج میں پڑھے آپ جانتے تو ہیں کہ۔۔" وہ ایک لمحہ رکے اور ایک گہری سانس خارج کی۔۔" خیر یہ بتایئں عالیان کب واپس آئے گا امریکہ سے؟"
"فون کی تھی میں نے اسے کہتا ہے کچھ مہینے لگ جائیں گے۔ تبھی کہہ رہا ہوں تب تک بیا کو اپنی مرضی کرنے دو عالیان آجائے پھر وہ جانے اور بیا۔۔" اب کی بار وہ پھر احمد صاحب کی طرف متوجہ تھے۔
" احمد اپنے دل سے ہر قسم کا خوف نکال دو پلیز۔۔" وہ جانتے تھے احمد کو کون سی پریشانی کھائی جا رہی ہے۔ صرف ایک شخص کی جو انہیں تباہ کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈتا رہتا ہے۔۔
"ٹھیک بس وہ جلد آئے میں اس ذمہ داری سے فارغ ہونا چاہتا ہوں " انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔
"ایسا ہی ہوگا لاہور واپسی کب ہے تمھاری؟"
"بس آج ہی نکلوں گا۔ ابھی کچھ کام ہے چلتا ہوں خیال رکھیے گا۔۔" کہتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے کی جانب چل دیے ۔۔ ناصر صاحب انکی پشت کو دیکھے گئے اور پھر اپنی اخبار کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
"گڈایوننگ ڈیڈ۔۔ گڈ ایوننگ موم۔۔" یہ شام کا وقت تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر جہانگیر صاحب اور آمنہ پر پڑی جو اس وقت لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تبھی کبیر ان سے ملنے آیا۔۔ وہ صبح سے لے کر اب تک دوستوں کے ساتھ تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے آمنہ بیگم نے اسے فون پر یہ خبر دی تھی کہ اس کے ابا حضور تشریف لے آئیں ہیں تو براہ مہربانی اس سے پہلے وہ خود اسے کال کریں وہ گھر پہنچ جائے۔ بقول اس کے جہانگیر صاحب کو اچانک آنے کے سرپرائزز دینے کا بہت شوق ہے اگر وہ کال کر کے بتا دیا کریں تو وہ کم از کم اس دن گھر سے باہر نہ جائ
"سلام برخوردار؟" جہانگیر صاحب نے نظریں گھما کر اپنے صاحبزادے کی طرف دیکھا۔
"اوہ۔۔ السلام علیکم۔" بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے نہایت معصومیت سے بولا ۔ وہ ہمیشہ سلام کرنا بھول جاتا تھا اور یہ بات جہانگیر صاحب کو غصہ دلاتی تھی۔۔
“ وعلیکم السلام۔۔ جناب کہاں تھے آپ؟" وہ بھی باپ تھے یہ سوال تو کرنا تھا۔
"دوستوں کے ساتھ تھا ڈیڈ۔۔" وہ نہایت خوش اسلوبی سے بولا۔ جہانگیر صاحب نے بغور اس کا مطمئن خوش چہرہ دیکھا۔ اب وہ کہیں سے بھی انہیں وہ کبیر نہیں لگتا تھا جو بچپن میں سکول میں کسی کی ٹانگ توڑ آتا تھا۔ کسی کے چہرے کا نقشہ بگاڑ آتا تھا یا کسی کے دانت توڑ آتا تھا۔ غصہ تو اسے اب بھی آتا تھا لیکن وہ ہاتھاپائی سے پرہیز کرتا تھا۔ ضدی تو وہ اب بھی تھا لیکن اب اسے خود پر کافی حد تک کنٹرول کرنے آتا تھا۔
"آپ کب آئے کراچی سے؟" اس نے بات کا رخ اپنے اگلے سوال سے ایک دم بدل دیا۔۔
"آج ہی آیا ہوں ذرا فری تھا سوچا تم لوگوں سے مل لوں۔ صبح واپس جانا ہے ۔" ٹانگ پہ ٹانگ رکھے وہ ساتھ ساتھ چائے کے گھونٹ بھر رہے تھے۔
"ناصر انکل کی سنائیں وہ کیسے ہیں ؟" آمنہ بیگم نے اس کے لیے بھی چائے بنا دی تھی اور اب انہوں نے اس کے سامنے رکھ دی تو کبیر نے اپنی ماں کی طرف ایک مسکراہٹ پاس کی اور کپ اچک لیا۔۔
"وہ اکثر بیمار رہتا ہے بیٹے کی بہت ٹینشن لیتا ہے اور بیٹا ہے کہ اسے کوئی پرواہ ہی نہیں ۔ اتنا بھی نہیں ہوتا کہ باپ سے آکر مل ہی لیا کرے۔۔ " آمنہ بیگم دونوں کی گفتگو توجہ سے سنے جا رہی تھیں۔
“ تم بھی میاں جلدی جلدی پڑھو اور بھائ کے ساتھ یہاں کا کاروبار سنبھالو۔۔ میں کاروبارمزید بڑھانا چاہتاہوں۔" ان کا انداز تنبیہی تھا ۔ کبیر کے چہرے پر پھر سے ناگواری سی چھائ۔۔
"اتنا بڑھا بڑھا کے کیا کرنا ہے آخر حد ہی ہو گئ۔" وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا ۔ "بھائ سے ملے آپ؟" بلا کی سنجیدگی لیے وہ اپنے باپ سے مخاطب تھا۔
"میں گھر آنے سے پہلے آفس ہی گیا تھا۔ ماشاءاللہ زبردست سنبھالا ہوا ہے۔ خیر آخر بیٹا کس کا ہے ۔ میں تھوڑا آرام کرنا چاہوں گا اب ۔۔صبح واپس جانا ہے۔" وہ اندر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے کبیر انہیں دیکھ کر مسکرایا۔
"موم برا مت مانیے گا لیکن کوئی اور انسان نہیں ملا تھا آپ کو؟" کبیر ان کے جانے کے فوراً بعد آمنہ سے سرگوشی نما انداز میں بولا۔
"شرم کرو باپ ہے تمھارا۔۔ نازووو یہ سب اٹھا کے اندر لے جائو۔اور تم زرا اپنی روٹین درست کرو۔۔" حکم صادر کر کے وہ بھی اندر کی جانب چل دیں۔۔ وہ کندھے اچکا کر وہیں کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا ۔
●●●●●●●●●●●●●●
لاہور میں احمد عالم صاحب کے گھر میں اس وقت سب ڈائننگ ٹیبل پر رات کے کھانے کے لیے اکٹھے بیٹھے تھے سوائے انابیہ کے۔
"انابیہ کہاں ہے؟" سربراہی کرسی پر براجمان احمد صاحب کی نظریں اپنی دوسری بیٹی ردا پر تھیں۔
"وہ۔۔۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کو بھوک نہیں ہے ۔" ردا پلیٹ پر نظریں جھکائے دھیمی آواز سے بولی۔
سر اثبات میں ہلاتے ہوئے وہ اب کھانا کھانے لگے۔ دو لقمے لینے کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انکا رخ انابیہ کے کمرے کی جانب تھا۔ ناہیدہ بیگم بھی پریشانی کی حالت میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور انکے پیچھے چل دیں۔
"آپی تو گئ۔۔۔" مناہل چاول سے بھرا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔۔ وہ اب ردا کے غصے میں اور اضافہ کر رہی تھی۔
"بکواس بند کرو اور کھانا کھائو چپ کر کے ۔۔" ردا سے کھانا نہ کھایا گیا تو وہ بھی برتن سمیٹنے لگی۔
انابیہ اضطراب کے عالم میں اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی تبھی دروازہ زور سے کھلا تو وہ ڈر کے مارے پیچھے کو ہو دی۔
"بابا۔۔" اس کی آواز جیسے کسی کھائ سے آئ ہو۔
"مت کہنا مجھے بابا۔۔ مجھے باپ ہونے کا حق دیا کیا تم نے؟ جانتی ہو تم جیسی نا فرمان اولاد ہوتی ہے جو اس زمین پر در در کی ٹھوکریں کھاتی ہیں۔" لہجہ نہایت سخت تھا۔۔انابیہ کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا تھا۔ وہ بس مایوس کن نظروں سے اس شخص کی جانب دیکھے جا رہی تھی جو اسکا باپ تھا اور شاید اسکے زوال کا منتظر ۔۔۔
"تمھیں کیا لگتا ہے بھائ جان کو بیچ میں لا کر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائو گئ۔۔ نہیں بچے نہیں تمھاری یہ ضد پوری نہیں ہو سکے گی ۔ کیونکہ جس دن عالیان واپس آگیا نا میں تمہیں اسکے ساتھ رخصت کردوں گا ۔ پھر دیکھتا ہوں کس طرح ہوگا تمہارا یہ ڈگریوں کا ارمان پورا۔۔۔" ایک کے بعد ایک سخت جملہ اس کے دل کو مزید چھلنی کر رہا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو زاروقطار بہنے لگے۔۔ سینے میں اک درد سا اٹھ رہا تھا۔۔
" تم یہ سب صرف میری ضد سے کر رہی ہو تم اچھے سے جانتی ہو کہ میں یونیورسٹی کے خلاف ہوں کیوں ہوں تمہیں بتانا فرض نہیں سمجھتا۔۔۔ایک بات میری کان کھول کر سن لو جب تک اپنی منمانی کر سکتی ہو کرو اگر مجھے کوئی بھی الٹی سیدھی خبر ملی تمھارے بارے میں تو یاد رکھنا بہت برا پیش آئوں گا بہت برا۔۔۔" شہادت کی انگلی سے اسے تنبیہ کرتے ہوئے وہ جا چکے تھے۔ اور انابیہ کے آنسو اسکا چہرہ مکمل طور پر بھگو چکے تھے۔ وہ شکست خوردہ حالت میں وہی فرش پہ بیٹھ گئ ۔ ناہیدہ کے لیے اب اپنی بیٹی کی ایسی حالت ناقابل برداشت تھی جو مسلسل روئے جا رہی تھی۔۔
"ماما جان یہ ۔۔ جو۔۔انسان۔۔۔مجھے اتنی ۔۔۔ باتیں۔سنا کے گئے ہیں ۔۔۔یہ میرے باپ تھے۔۔۔اتنی نفرت ۔۔۔۔۔اپنی بیٹی سے ۔۔۔کوئ کیسے کر سکتا ہے کیسے ماما جان؟؟؟" وہ روتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں بول رہی تھی۔۔ ہمیشہ روتے ہوئے جیسے اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ دیتی تھی آج بھی وہ بمشکل بول پا رہی تھی۔
"میں نے۔۔۔آج تک مانگا۔۔کیا۔ ہے آپ لوگوں سے۔۔ ہاں۔۔کیا ضد کی میں نے بس ایک۔۔۔۔ خواہش ہے میری پڑھنے کی۔۔۔۔میرا حق ہے یہ۔۔۔ میں تو کبھی بوجھ نہیں بنی۔۔۔وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ہمیشہ سے کرتے ہیں ۔۔۔پھر بھی نافرمان اولاد میں ہوں۔۔۔" ناہیدہ اسکے پاس فرش پہ بیٹھے اپنی بیٹی کے آنسو صاف کرنے لگی۔
"خدا کے لیے چپ ہو جائو ۔ نہیں ہو تم نافرمان۔۔ تم بہت اچھی بیٹی ہو ۔ تم پڑھنا چاہتی ہو اللہ چاہے گا تو تم ضرور پڑھو گی۔۔ بس کسی کی بھی باتوں میں مت آنا باہر دنیا کے لوگ چہروں سے کچھ اور اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں ۔" انہوں نے رک کر اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ " جو تمھارے نصیب میں ہوگا وہ تمھیں ضرور ملے گا ۔۔ جو نہیں ہو اسی میں اپنی بہتری سمجھنا۔۔"
تو کیا اسکے نصیب میں عالیان تھا؟۔۔وہ بےبسی سے اپنی ماں کا چہرہ دیکھنے لگی۔
"وہ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟؟" وہ انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بےبسی سے پوچھ رہی تھی۔
"ایسے نہیں بولو تم کیوں ایسی باتیں سوچتی رہتی ہو تمھارے بابا تھوڑے سخت مزاج ضرور ہیں مگر وہ تم سے نفرت نہیں کرتے۔ انہوں نے ہمارے سارے حقوق پورے کیے ہیں کبھی کوئ کوتاہی نہیں کی۔۔۔تم بس اپنے نصیبوں کے لیے دعا کیا کرو۔ اٹھو جائو اور منہ دھو لو میں تمھارے لیے کھانا بھجواتی ہوں۔" اسکے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔ جبکہ اس کے دماغ میں اب تک اسکے باپ کی باتیں گھوم رہی تھیں ۔ وہ ایسے کیوں تھے کیوں نہیں چاہتے تھے انکی بیٹیاں بھی آگے بڑھیں؟؟ وہ کیوں اتنی سختی کرتے تھے؟ بس یہ سوال ہر روز اسکے دماغ میں گردش کرتا رہتا تھا اور اسکا جواب اسے وہ خود دے سکتے تھے۔۔
ناہیدہ ہاتھوں میں دو چائے کے کپ پکڑے اپنے کمرے میں جا رہی تھیں تبھی انکی نظر بیرونی دروازے پر پڑی جہاں احمد صاحب پشت کیے کھڑے تھے۔۔ انکے قدم اب اس جانب مڑ گئے اور ان کے ساتھ جا کھڑی ہوئیں۔ چائے کا ایک کپ ان کے سامنے کیا۔۔ احمد نے پہلے اپنی طرف بڑھتے کپ کو دیکھا پھر ناہیدہ کو جو نظریں نیچی کیے اداس سی کھڑی تھیں۔۔ کچھ سوچتے سمجھتے انہوں نے کپ پکڑ لیا۔۔ ناہیدہ وہاں سے جانے لگی تھی تبھی احمد نے انکو بازو سے پکڑ کر روکا۔۔
"ناراض ہو؟؟" وہ ان کو اپنے سامنے کرتے ہوئے بولے۔
"نہیں ہونا چاہیے؟؟" شکوہ کن نظروں سے انہوں نے احمد صاحب کو دیکھا۔
"نہیں ہونا چاہیے۔۔ کیونکہ تم کسی بات سے بھی بے خبر نہیں ہو۔۔" وہ انکا بازو چھوڑتے ہوئے بولے۔
"پھر بھی آپ کو نہیں لگتا آپ نے ضرورت سے زیادہ ہی ڈانٹ دیا اسے۔۔" ان کی آنکھوں سے خفگی واضح جھلک رہی تھی۔۔
"ہاں شاید کچھ زیادہ ہی۔۔" انہوں نے سرسری انداز سے کہا۔۔
"شاید؟؟" وہ آنکھیں چھوٹی کیے انہیں دیکھ کر رہ گئیں۔
"تم ہی بتائو میں کیا کروں وہ کیوں باز نہیں آجاتی؟؟ جس کالج میں پڑھ رہی تھی وہیں پر کنٹینیو رکھ سکتی تھی۔۔ لیکن نہیں یونیورسٹی کی رٹ لگا رکھی ہے اس نے۔۔۔ وہ کالج اچھا تھا میری جان پہچان بھی تھی اور کوئ خطرے والی بات بھی نہیں تھی۔۔ تم بتائو وہ کیوں نہیں سمجھتی کیا ہر بات کھول کھول کر بتانا ضروری ہے اسے؟؟" وہ تیزی سے کہتے گئے تو ناہیدہ نے نظریں جھکا لیں۔۔
"پھر بھی آپکے اتنے سخت الفاظ اتنے سخت جملے اس سے برداشت نہیں ہو رہے تھے اسے لگتا ہے آپ اس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک بیٹی ہے۔۔۔" وہ نہایت دکھی انداز سے بولی تو احمد نے کچھ حیرت سے ان کو دیکھا۔۔
"لو جی!! ایک نمبر کی پاگل لڑکی ہے یہ تو۔۔ مانا میں غصے میں کنٹرول کھو بیٹھتا ہوں مگر اب ایسا بھی نہیں ہے۔۔۔ بہت عزیز ہے وہ مجھے۔۔۔" پھر رک کر چائے کا کپ لبوں سے لگایا اور پھر مسکرا دیے۔۔ "اسے سمجھایا کرو ناہیدہ۔۔ سمجھایاکرو کہ سب کرے مگر اپنے باپ سے ضد کرنا چھوڑ دے ورنہ میں شاید اس سے زیادہ برا ثابت ہو سکتا ہوں۔۔" وہ سر اثبات میں ہلاتے وہاں سے چلی گئیں۔۔ احمد صاحب کچھ دیر کھڑے رہے اور پھر گہرا سانس لیتے دروازہ بند کر کے اندر کی جانب چل دیے۔
●●●●●●●●●●●●●
اگلی صبح اسکی آنکھ قریب سے آتی ہوئ فجر کی اذان سے کھلی۔ سر میں شدید درد کے باوجود وہ وضو کرنے کے لیے واشروم کی جانب چل دی۔ جائے نماز پہ نماز ادا کرنے کے بعد اس نے قرآن کی تلاوت شروع کی۔ تلاوت کرتے کرتے اسکی نظر ایک آیت پر رکی۔۔
"اے ایمان والو ! صبر اور نماز کے ذریعے سے مدد چاہو، اللہ تعالٰی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے (153. 2)"
کافی دیر اس آیت کو دیکھنے کے بعد اس نے اپنی تلاوت وہیں مکمل کی اور قرآن پاک کو اسکی جگہ پہ رکھ کر وہ الماری کی طرف مڑ گئ ۔الماری کے اندر سے کپڑے نکالے اور استری کرنے لگی۔ ابھی اس نے سویچ دبایا ہی تھا کہ اسکا فون بجنے لگا۔ استری بند کر کے اس نے سائڈ ٹیبل سے اپنا فون اٹھایا۔ سکرین پہ عالیان کا نام دیکھتے ہی اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ۔ ایک نظر ٹائم پہ ڈالی اور فون کان سے لگایا۔
"ہیلو۔۔۔"
"انابیہ میڈم میں نے آپ کا حال چال پوچھنے کے لیے فون نہیں کیا۔ صرف اتنا سن لو کہ میرے باپ سے میرے حوالے سے سوال مت کیا کرو سمجھ آئ کیونکہ میں نہیں آئوں گا۔" اس کا لہجہ کافی سرد تھا۔
انابیہ نے موبائل کان سے ہٹا کے اسے گھورا اور پھر کان سے لگایا۔
"سن رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں؟"
"بلکل میں سن رہی ہوں۔ پہلی بات مجھے تمہارے حوالے سے بات کرنے کا کوئ شوق نہیں ہے۔ دوسری بات تایا ابو کو اپنے ارادے سچ سچ کیوں نہیں بتا دیتے کہ وہ کوئی امید ہی نہ لگائیں " اس نے اب کی بار سختی کا مظاہرہ کیا۔۔
"بتا دوں گا صحیح وقت آنے پر بلکہ تم ہی بتا دینا۔۔ "
"میں کیوں بھلاااا۔۔۔۔" دوسری جانب سے فون کاٹ دیا گیا۔
"سمجھتا کیا ہے یہ خود کو بدتمیز انسان ہونہہ۔۔۔" فون کو بیڈ پہ اچھال کر وہ غصے سے بڑبڑانے لگی۔
"کیا کہہ رہا تھا آپی کیوں اتنے غصے میں ہو؟" ردا جائے نماز کو رکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔۔
"کہتا ہے کہ میں کبھی واپس نہیں آئوں گا تایا کو تم خود بتا دو ہونہہ!!" وہ خاصا بدمزہ ہوئ تھی۔۔
"تو آپکو تو خوش ہونا چاہیے نا جائیں بتا دیں سب کو۔" اس بات پر انابیہ آگے سے ہنس دی۔
"بھلا میں کیوں اپنے پیروں پہ خود کلہاڑی ماروں۔ بابا اسی آس میں رہیں گے کہ وہ آئے گا اور میں اپنی سٹڈیز کمپلیٹ کر لوں گی ۔ تعلیم حاصل کر کے میں انڈیپینڈنٹ ہونا چاہتی ہوں ردا اور پھر میں دیکھوں گی کون کرتا ہے مجھ سے زبردستی۔" وہ چیلنجنگ انداز سے کہتی آئرن سٹینڈ کی طرف بڑھ گئ۔۔
"آئیڈیا اچھا ہے یہ تو۔" ردا نے دات دینے کے انداز میں کہا۔ وہ اب زیادہ خوش تھی اور استری میں مصروف ہو گئ جبکہ ردا واپس سونے کے لیے بستر میں گھس گئ۔
●●●●●●●●●●●●●
احمد صاحب کے گھرپر یہ صبح صبح کا وقت تھاجب سب اپنی تیار یوں میں مصروف تھے۔۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔۔
"ردا یار میری گھڑی کہاں رکھی تھی تم نے؟ ہر جگہ دیکھ لیا میں نے نہیں مل رہی۔" ہلکا گلابی اور سفید رنگ کا گھٹنوں تک آتا فراک ساتھ میں سفید رنگ کا ٹرائوزر اور ہمیشہ کی طرح سفید سنیکرز پہنے بنا میک اپ کیے وہ بالکل تر و تازہ دکھائ دے رہی تھی۔۔
"ذرا ڈریسنگ ٹیبل کا دراز بھی کھول کر دیکھ لیں مہربانی ہوگی۔۔" ردا جو اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنے میں مصروف تھی۔ "منو ذرا جلدی کرو گاڑی والا آگیا ہے یار۔۔۔آپی آپ کیسے جائیں گی؟" ردا کے سوال کے جواب میں انابیہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ فون کی بیپ بجی جس پر تایا ابو کا ٹیکسٹ میسج تھا۔۔
"بچے میں نے تمھارے لیے گاڑی اور ڈرائیور بھجوایا ہے یونیورسٹی آنے جانے کے لیے تاکہ تمہیں کوئ پریشانی نہ ہو ۔ اب سے وہ گاڑی اور ڈرائیور تمھارے زیر استعمال ہوں گے۔" وہ اس میسج کو دیکھتے ہوئے بری طرح چونکی تھی۔
"کیا کسی جن کا میسج آگیا ہے کہاں کھو گئ؟" ردا اسے موبائل میں کھویا ہوا دیکھ کر بولی۔
"تایا ابو نے گاڑی اور ڈرائیور بھجوایا ہے میرے لیے" اب کی بار اس کی حیرت کی زد میں آئی نظریں ردا پر تھیں۔
"واقعی؟؟ مزے۔۔۔اب اتنا حیران کیوں ہورہی ہیں یہ تو اچھی بات ہے۔۔" حیران تو وہ بھی تھی۔
"مزے کی بچی۔۔بابا اور غصہ ہوں گے۔" ڈریسنگ ٹیبل کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی۔۔
"وہ کب غصہ نہیں ہوتے۔ ہمیں دیر ہو رہی ہے ہم چلتے ہیں۔بیسٹ آف لک۔۔" ردا اسکے گلے لگ کر اپنے کالج کے لیے نکل گئ۔ وہ اب اپنے بھورے رنگ کے بالوں کوڈھیلی ڈھالی گت میں باندھ رہی تھی اس کے بعد اس نے سفید رنگ کا ہی شیفون کا دوپٹہ بھی سر پر اوڑھا اور بیگ کندھے پر لٹکائے وہ کمرے سے باہر چل دی ۔ اسکا ارادہ سیدھا باہر جا کر گاڑی میں بیٹھنے کا تھا لیکن نظریں باہر سے آتے ایک شخص سے ٹکرائیں ۔ احمد صاحب اسے سخت نظروں سے گھور رہے تھے اور وہ بغیر پلکیں جھپکائے انہی کو دیکھے جا رہی تھی۔ ماتھے پر ڈھیروں شکنیں لیے وہ شخص خود پر ضبط کرتا اس کے ساتھ سے ہو کر اندر کی جانب چل دیا ۔ انابیہ نے دل پہ ہاتھ رکھ کر گہرا سانس لیا۔۔۔ "ضرور تایا ابونے پہلے ہی سمجھا دیا ہوگا۔" خود کو تسلی دیتے وہ سیدھا پورچ کی جانب بھاگی جہاں ایک نیلے رنگ کیKIA Picanto اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ ساتھ ڈرائیور اپنا یونیفارم پہنے کار کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ کچھ پل وہ ایسے ہی کار کو دیکھتی رہی اور پھر اس چوڑی جسامت والے ڈرائیور کو جو اسے ڈرائیور لگ نہیں رہا تھا۔۔
"حد ہے بیا ایسے نہیں گھورتے کسی کو۔۔" وہ دل میں خود کو کوستے سر جھٹک کر کار میں جا بیٹھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ گئ تھی ۔ وہ عین یونیورسٹی کے سامنے کھڑی تھی ۔
"مت کہنا مجھے بابا۔۔ مجھے باپ ہونے کا حق دیا کیا تم نے؟ جانتی ہو تم جیسی نا فرمان اولاد ہوتی ہے جو اس زمین پر در در کی ٹھوکریں کھاتی ہے۔۔۔"
وہ الفاظ جیسے گونجنے لگے ہوں۔۔۔ وہ قدم اٹھاتی آگے بڑھنے لگی۔
"تمھیں کیا لگتا ہے بھائ جان کو بیچ میں لا کر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائو گی۔۔ نہیں بچے نہیں تمھاری یہ ضد پوری نہیں ہو سکے گی ۔ کیونکہ جس دن عالیان واپس آگیا نا میں تمہیں اسکے ساتھ رخصت کردوں گا ۔ پھر دیکھتا ہوں کسطرح ہوگا تمہارا یہ ڈگریوں کا ارمان پورا۔۔۔"
آنسوؤں کا ایک ریلا تھا جو کسی بھی وقت جاری ہو سکتا تھا۔ وہ مسلسل آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔
"اے ایمان والو ! صبر اور نماز کے ذریعے سے مدد چاہو، اللہ تعالٰی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے (153. 2)"
ایک آنسو اسکی بائیں آنکھ سے ٹپکا جسے اس نے چہرہ تھوڑا نیچے جھکا کر اپنی انگلی کی پشت سے صاف کیا اور چہرہ واپس سے اٹھایا جس پر اب ہلکی سی مسکراہٹ تھی شاید اب وہ پرسکون تھی ۔
"ایکسکیوز می۔۔۔" ایک لڑکی نا جانے کب اسکے ساتھ آکھڑی ہوئ جس نے مہرون ٹاپ اور بلیک جینز پہن رکھی تھی۔ بال کھلے اور چہرہ میک اپ سے لدا ہوا تھا ۔ کوئ شک نہیں کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔
"دکھنے میں تو آپ بھی نیو سٹوڈنٹ لگ رہی ہیں لیکن کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ یہاں بی۔ایس مینیجمنٹ کی کلاسز کہاں ہونی ہیں؟" وہ اسکا سر تا پائوں جائزہ لیتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
"جی بلکل۔۔ بلکہ ساتھ چلتے ہیں میں بھی کلاس کے لیے ہی جا رہی ہوں۔۔" کہتے ہی اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھنے لگی اور پھر ایک نظر اپنے ہاتھ میں پکڑے پیپر پر ڈالی جس میں اس یونیورسٹی سے وابستہ کچھ تفصیلات درج تھیں۔۔
"یعنی آپ میری کلاس میٹ ہیں ۔ مائ نیم از زارا۔۔ یور گڈنیم؟؟" نام بتاتے ہی وہ اپنا ہاتھ انابیہ کی طرف بڑھا چکی تھی بلا جھجک اس نے بھی ہاتھ ملا لیا۔
"انابیہ۔۔"
"نائس نیم۔۔ کین آئ کال یو بیا؟؟" وہ پیار سے اس کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"جی بلکل سب یہی کہتے ہیں آپ بھی کہہ سکتی ہیں۔" زارا مسکرائی اور اس کے ساتھ چلنے لگی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
"دو دن ہو گئے میری ماریہ سے بات نہیں ہوئ۔ لڑکیاں اتنی جلدی کیوں ناراض ہو جاتی ہیں؟ " عاصم نے نہایت غمگین لہجے میں کہا تھا۔ وہ دونوں اس وقت کندھے سے بیگ لگائے یونیورسٹی کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے۔۔
"کون ماریہ؟؟" کبیر نے نا سمجھی سے عاصم کو دیکھا۔ جبکہ عاصم نے نظریں کبیر کی طرف گھمائیں ۔
"شرم کرو کیسے دوست ہو تم؟ اپنے دوست کی محبت کو نہیں جانتے۔" غصے سے کہہ کروہ دوسری جانب پلٹ گیا۔
"اب تمھاری محبتیں روز بدل جاتی ہیں تو میرا کیا قصور؟ اتنی لڑکیوں کے نام کیسے یاد رکھوں؟" ہمیشہ کی طرح بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ نہایت معصومیت سے بولا۔ عاصم نے کبیر کی اس بات پر پھر اسے گھورا۔
"اچھا اب گھورنا بند کرو یہ بتائو کہ یہ وہی انسٹا والی لڑکی ہے نا؟" وہی معصومانہ انداز۔۔
"نہیں منحوس انسان وہ مریم تھی یہ لڈو والی ماریہ تھی۔۔" عاصم کا دل کیا کہ اپنے اس اکلوتے دوست کا قتل ہی کر دے۔
"اففف!! نام بھی ملتے جلتے ۔۔" اس نے برا سا منہ بنا کر عاصم کو دیکھا۔۔"خیر یہ بھی اب "تھی" ہو گئ۔ اگلا نمبر کس کا ہے؟" شرارتی مسکراہٹ اس کے لبوں پر سجی تھی۔ عاصم نے ایک بار پھر کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔"اچھا اچھا یار مارنا مت۔۔۔ سمجھ گیا تمھارے معاملے میں لڑکیاں بڑی بیوفا ہوتی ہیں۔۔" اس نے جیسے ہاتھ ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا۔۔
"ہاں نا معصوم سا دل ہے میرا اور اس پر یوں بےدردی سے پیر رکھ جاتی ہیں ۔" عاصم نے خو پر افسوس کرتے ہوئے نہایت ہی دکھی انداز سے کہا تو کبیرنے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا۔۔
"معصوم نہیں بےغیرت دل بولو میرے بھائ۔۔ بے غیرت دل جو ہر کسی کے قدموں میں بچھ جاتا ہے ۔۔" اس نے ڈانٹنے کے انداز سے کہا تھا لیکن عاصم کو یہ اس کا مذاق اڑانا ہی لگا تھا۔۔
"اچھا یار اب اپنا موڈسیٹ کرلے۔۔" کبیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔ کہتے کہتے وہ چپ ہو گیا کیونکہ اسکی نظر سامنے سے آتی لڑکی پہ رکی تھی۔ وہ نازک سراپے، لمبے قد کاٹھ اور سفید رنگت کی لڑکی اپنی آنکھوں کو ادھر ادھر گھمائے یونیورسٹی کا جائزہ لیتے ہوئے اسکی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔۔ کبیر کے لیے سب کچھ جیسے سلو موشن میں چل رہا ہو اس لڑکی کی موجودگی سب کچھ عدم کر گئ تھی جیسے اس کے علاوہ کوئی نہ ہو بس وہ ہو صرف وہ ۔بس ایک نگاہ اٹھی تھی اس پر جو پھر جھکنا بھول ہی گئ اور وہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ انابیہ نے قریب پہنچ کر ایک سخت نظر اس پر ڈالی جو مسلسل اسے گھورے جا رہا تھا ۔ یہ لو محبت تو دل کے دروازے تک پہنچ گئ۔ اب تو دستک باقی تھی۔
اور پھرعین اسکے ساتھ سے ہوتی ہوئی وہ چلی گئ۔دستک شروع ہو گئی اور ایسی ہوئ کہ آواز صرف اس دل کا مالک سن سکتا تھا۔ اس کا دل پہلی بار اتنی زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ کیا وہ محبت کے لیے دروازہ کھول دے؟؟ کبیر نے مڑ کر اسے جاتے ہوئے دیکھا۔۔
تو لو کھول دیا محبت کے لیے دل کا ہر دروازہ۔۔
ہو جائو قابض اس دل پر۔۔
بن جائو اس دل کے مکین۔۔
"اسکی آنکھیں!!" کبیر جیسے اب تک کھویا ہوا تھا۔
"اسکے کھلے بال!!" اب کی بار آواز مختلف تھی ۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دونوں کی ہنسی چھوٹ گئ۔۔
"مل گیا تمھیں اگلا شکار؟؟" اپنے حواس میں واپس آتے ہوئے وہ پھر اپنے دوست کو چھیڑ رہا تھا۔
"اوووو۔۔ میں ایک نہایت شریف انسان ہوں ۔۔ یہ بتائو تم کس کی آنکھوں کا بول رہے تھے؟" اب تنگ کرنے کی باری عاصم کی تھی۔
"وہ تو میں بس ایسے ہی۔۔۔" کبیر کو سمجھ نہیں آئ کہ کیا کہے ۔ ایک لمحے کے لیے وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو گیا تھا اور اب جیسے ہوش میں آنے لگا تھا۔
"ہاں۔۔۔پتر تو صحیح جا ریا ایں ۔۔ چھچورپن تیرے اندر بھی خوب ہے۔" اس نے استہزائیہ انداز سے کہا تو کبیر نے عجیب سی شکل بنا کر اسے دیکھا۔
" پتر کے باپ۔۔چل کلاس میں چلتے ہیں دیکھیں تو صحیح کون کون سے عجوبے آئے ہیں۔۔" کبیر نے عاصم کے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔ کلاس میں گھستے ہی سامنے انہی دونوں لڑکیوں کو ساتھ بیٹھے دیکھ کر وہ پھر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے جیسے حیران ہوں ۔ پھر اپنے آپ کو کمپوز کرتے ہوئے اپنی نشست پر جا بیٹھے۔۔
"حد ہو گئ ویسے دیکھنے کا کوئی طریقہ ہوتا ہے میرا بس چلے تو اتنا گھورنے والوں پہ سیدھا سیدھا کیس کر دوں۔۔" انابیہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ اسی دوران پروفیسر حمدان کلاس روم میں داخل ہونے۔ سفید بالوں والے وہ دراز قد آدمی تھے۔ یہ انکی مینجمنٹ کی کلاس تھی تھوڑا سا انٹروڈکشن اور کافی لمبا لیکچر دینے کے بعد وہ کلاس سے چلے گئے۔
"کافی اچھا پڑھاتے ہیں یہ سر۔۔۔" سر کی تعریف کرتے ہوئے زارا بولی تو انابیہ نے سر اثبات میں ہلایا۔
" گڈ مارننگ لیڈیز۔۔۔" دونوں نے ٹھٹھک کر سر اٹھایا۔ شروعات عاصم کی طرف سے کی گئ تھی۔ کبیر سر نفی میں ہلاتا ہوا اسے دیکھنے لگا۔۔
"امید ہے آپ دونوں کو یہاں تک پہنچنے میں کوئ دقت پیش نہیں آئ ہوگی۔ " کہہ تو ایسے رہا تھا جیسے وہ دونوں پہاڑوں کو سر کر کے آئیں ہوں۔۔ "میرا نام عاصم چودھری ہے اور یہ جو پیچھے بیٹھا ہے نا یہ میرا بیسٹ فرینڈ ہے بدقسمتی سے۔۔ نام کبیر جہانگیر۔ " عاصم نے اپنا ہاتھ اٹھا کے کبیر کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں بیک وقت پیچھے مڑیں اور وہ انابیہ کی طرف ہی مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسے پھر غصہ آنے لگا تو وہ واپس آگے مڑ گئ۔
"آپ دونوں کا نام؟" عاصم کا رخ کھلے بالوں والی کی جانب تھا ۔
"کتنا بولتےہو تم صبح ناشتے میں طوطے کھا کر آئے تھے کیا؟" زارا نے سیدھا اسکے منہ پر بولا جس پر کبیر کی ہنسی چھوٹی تو عاصم اسے گھور کر دیکھنے لگا۔ "خیر!! میرا نام زارا ہے اور یہ بیا۔۔"
"انابیہ ۔۔۔ انابیہ نام ہے میرا۔۔" اس نے فوری تصحیح کی۔
"ہاں وہی۔۔ اٹھو بیا مجھے بھوک لگی ہے کچھ کھانے چلتے ہیں۔" زارا اپنی نوٹ بک بیگ میں رکھتے ہوئے بولی تو انابیہ سر ہاں میں ہلاتی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئ جیسے اس نے شکر کیا ہو کہ جان چھوٹی کیونکہ عاصم صاحب کا منہ تو بند ہونے سے رہا۔
"ارے ارے آپ زحمت کیوں کرتی ہیں ہم آپ کے لیے کھانا یہیں لے آتے ہیں۔ ۔" یہ تو طہ تھا کہ عاصم جان نہیں چھوڑنے والا تھا۔کوئی اعلیٰ نسل کا چھچھورا لگتا تھا۔
"کیوں تم کیوں لائو گے ہمارے لیے کھانا ہمارے پائوں سلامت ہیں ہم خود جا سکتے ہیں ۔" زارا منہ چڑھاتے ہوئے بولی جبکہ بیا کا دل کیا کہ اس انسان کا سر ہی پھاڑ دے۔
"اچھا اچھا اتنا غصہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ایک آفر ہی تھی ۔ ہم نہایت ہی شریف لڑکے ہیں ایسا ویسا سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔" کبیر جو کب سے تماشا دیکھ رہا تھا اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔۔
"شریف تو خیر نہ ہی بولیں ۔۔ شریف لوگ گھورا نہیں کرتے خاص کر لڑکیوں کو تو بلکل بھی نہیں۔۔" لفظ گھورا پہ زور دیتے ہوئے انابیہ تیوڑیاں چڑھائے کبیر کو سنا رہی تھی جس پر اس نے ایک نظر اس کے تمتماتے چہرے کو دیکھا۔
“ٹو پریٹی!!!" وہ مسکراتے ہوئے زیر لب بڑبڑایا۔۔
"جی؟" اس نے سنا تھا پھر بھی ناجانے کیوں انجان بن گئ۔
"کچھ نہیں۔۔۔" چہرے پہ مسکراہٹ لئے تھوڑا پرے ہٹا اور ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے دوسرے ہاتھ سے انھیں جانے کا اشارہ کیا۔ انابیہ دانت پیستے ہوئے پیر پٹختی وہاں سے چلی گئ۔ زارا بھی ہونہہ کرتے ہوئے اس کے پیچھے چل دی۔ ان کے جاتے ہی کبیر عاصم کی طرف گھوما جو اب تک کھویا ہوا تھا۔ ایک مزیدار سی چت اس کے بازو پر لگائی جو اس کو ہوش کی دنیا میں لانے کے لیے کافی تھی۔
"آئے ہائے کیا ہوا ہے سٹیا گئے ہو کیا؟؟" وہ عجیب سی شکل بنائے اپنا بازو ملتے ہوئے بولا۔۔
"میرا تو نہیں پتہ لیکن تیرا دماغ ضرور سٹیا گیا ہے۔ منحوس انسان لڑکیوں سے بات کرنے کا طریقہ نہیں آتا کیا تجھے؟ اپنے ساتھ ساتھ میری امیج کا بھی کباڑا بنا دیا۔" کبیر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے پورا کا پورا کچا ہی حلق میں اتار لے۔
"اب میں نے ایسا کونسا طریقہ استعمال کر لیا ہے جو تو ایسے آگ بگولہ ہو رہا ہے؟؟"
Cheap moves”جسے ہماری زبان میں چھچھوری حرکتیں کہا جاتا ہے۔ تمہارے اس بھیجے میں عقل پتہ ہے کتنی ہے؟" اس نے دو انگلیوں سے اس کے ماتھے پر مارتے ہوئے کہا۔ "آٹے میں نمک کے برابر۔۔"
"یار کوئی اور مثال دو۔ اب مجھے کیا پتہ آٹے میں کتنا نمک ہوتا ہے میں تھوڑی نا سارا دن آٹا گوندھتا رہتا ہوں۔۔" اس نے کندھے اچکا کر نہایت ہی معصومانہ انداز سے کہا۔۔
"اس کا تو مجھے بھی نہیں پتہ لیکن اتنا بتا دوں حرکتیں ٹھیک نہیں کی نا تو یہ دونوں تجھے ضرور آٹے کی طرح گوندھ دیں گی۔۔" کبیر نے جیسے اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا مگر سامنے والا بھی عاصم تھا دل ہی دل میں اسے سو گالیوں سے نواز کر اب آگے بڑھ گیا تھا۔ کبیر نے ناگواری سے سر جھٹکا اور اس کے پیچھے چل دیا۔۔
●●●●●●●●●●●●●
سارا دن کی کلاسز لینے کے بعد وہ دو بجے کے قریب گھر پہنچی۔ گھر کے اندر داخل ہوتے ہی وہ سب سے پہلے ماما جان کے کمرے میں گئ۔ وہ جانتی تھی کہ بابا اس وقت آفس میں ہوں گے۔ ہلکا سا دروازہ کھول کے اسنے اندر کی جانب جھانکا ناہیدہ اس وقت سو رہی تھیں۔ اس نے آرام سے دروازہ واپس سے بند کیا وہ انکو جگانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے بعد وہ کچن کی طرف گئ۔ فریج کا دروازہ کھول کر اس نے جیم اور پانی کی بوتل نکالی۔ گلاس میں پانی انڈیلنے کے بعد اس نے دو گھونٹ پانی پیا۔
“ٹو پریٹی!!"بریڈ پر جیم لگاتے ہوئے اسے اچانک کبیر کی آواز سنائی دی۔ تیزی سے اس نے آس پاس دیکھا۔ وہ تو اپنے گھر پر تھی وہاں وہ کیسے آسکتا ہے بھلا۔۔
"یہ کیا بکواس ہے۔۔" سر جھٹک کر وہ بریڈ کھانے لگی ۔اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اسے اندر سے ایک لڑکی کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس نے دھڑلے سے دروازہ کھولا سامنے بیڈ پہ بیٹھی ردا منہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے رو رہی تھی اسے روتا دیکھ کر انابیہ کے دل کو کچھ ہوا وہ تیز قدم لیتے اس کے پاس بیڈ پہ آ بیٹھی۔
"ردا کیا ہوا ہے کیوں اس طرح سے رو رہی ہو؟"
"آپی۔۔۔" اسنے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کے انابیہ کو دیکھا اور پھر اسکے گلے لگ کے رونے لگی۔
"خدا کے لیے ردا مجھے بتائو۔۔۔ ماما جان تو ٹھیک ہیں نا۔۔۔ منو کدھر ہے۔۔ بابا بھی ٹھیک ہیں نا؟؟ بولو نا کچھ بول کیوں نہیں رہی تم؟؟" انابیہ کے دل میں مختلف خیالات جنم لینے لگے۔
"آپی وہ مر گیا۔۔۔" اس نے پھر سے چہرہ اٹھا کے اسے دیکھا اور دوبارہ اسکے گلے لگ کے رونے لگی۔
"وہ؟؟ کون وہ؟؟"" وہ اسے ساتھ لگائے پوچھ رہی تھی لیکن ردا بجائے جواب دینے کے بس روتی جا رہی تھی۔ انابیہ اس کی سسکیاں سن ہی رہی تھی تبھی اسکی نظر بیڈ پہ الٹی کی ہوئ کتاب پہ پڑی۔ وہ ضرور کوئ ناول تھا۔ سمجھ لگنے پر اس کا منہ حیرت سے کھلا اور شاک کی حالت میں اس نے پوری قوت سے ردا کو اپنے سے پرے دھکیلا۔
"تمہیں شرم نہیں آتی تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی۔ ایک انسان جسکا اس دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے تم اسکے لیے اتنا رو رہی ہو۔۔ نہایت جاہل قسم کی عورت ہو تم ۔۔۔" وہ بیڈ پر سے کھڑے ہو کر اس پر برسنے لگی۔۔
"وہ وجود رکھتا ہے۔۔" ردا آنسو صاف کرتے بہن کے سامنے کھڑی ہو گئ۔ جو اب تک رو رہی تھی اب اسکے چہرے پہ غصہ تھا۔
"اچھا جی اور کس دنیا میں؟؟" انابیہ ہاتھ باندھے اسے عجیب انداز سے دیکھ رہی تھی۔
"میری دنیا میں۔۔" انگلی اپنے سینے پہ رکھے اس نے میری پر زور دیتے ہوئے بولا۔
"اور تمہاری دنیا کونسی ہے؟؟" جواباً ردا کے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے تمھاری پر زور دیتے ہوئے وہ تھوڑا آگے کی طرف جھک کر بولی۔
“ My own imaginative world!!!” وہ اترا کر سر اٹھا کر بولی۔
“Your own imaginative world?? Hahahahah”غصے سے اسکا چہرہ اب ہنسی میں بدل گیا تھا۔ وہ اسے واقعی اس وقت احمق لگ رہی تھی۔ ردا کو اس کا اس طرح ہنسنا کافی تپا رہا تھا۔
"میری دنیا پہ ہنسنے کی ضرورت نہیں ہے کم از کم وہ اس دنیا سے بہت اچھی ہے۔" ردا نے کچھ طنزیہ انداز سے کہا۔
"کیا خاک اچھی ہے جو تمھیں اتنا رلاتی ہے۔ " اب کی بار انابیہ بھی ہنستے ہوئے طنزیہ انداز سے بولی ۔
"یہ مجھے صرف رلاتی نہیں ہے ہنساتی بھی ہے ، مجھے سنجیدہ بھی کرتی ہے ، مجھے ایموشنل بھی کرتی ہے ، مجھے بہت کچھ سکھاتی بھی ہے ۔ یہی ہے میرے کتابی دنیا۔۔۔ اور سب سے اچھی بات۔۔۔ کہ آپ کے بعد یہ دنیا میری سب سے اچھی دوست ہے۔۔" کہتے ہی وہ اپنی کتاب اٹھا کے الماری میں رکھنے لگی۔ وہ جو اب تک اپنی بہن پر ہنس رہی تھی یک دم سنجیدہ ہو گئ۔۔
"کیوں خود کو رو رو کر ہلکان کرتی ہو۔ اچھے سے جانتی ہو میں نہیں دیکھ سکتی تمہیں ایسے روتے ہوئے۔ تمہیں پتہ ہے کتنا ڈرا دیا تھا تم نے مجھے۔۔عجیب عجیب سے خیال آنے لگے تھے۔"
"اچھا اچھا صحیح اتنا ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جانتی ہوں کتنا خیال ہے آپکو میرا۔۔۔" وہ اسے چڑھاتے ہوئے بول رہی تھی۔ بیا آگے سے ہنس دی۔
"ویسے ایک بتا دوں جن ہیروز کو تم پڑھتی ہو۔۔ آئی مین امیجن کرتی ہو وہ اس دنیا میں نہیں پائے جاتے۔۔" وہ اب بیڈ پر بیٹھے جھک کر اپنے جوتوں کے تسمے کھول رہی تھی۔
"جانتی ہوں۔۔ پرنس چارم اور پرنس فلورین اس دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے۔۔" بات ہی ایسی تھی کہ اسے بولتے ہوئے تھوڑا افسوس ہوا۔۔ "اور میں کسی فیری ورلڈ میں نہیں رہتی۔ میں اس دنیا میں رہتی ہوں۔۔" اس نے دونوں ہاتھ ہوا پھیلاتے ہوئے کہا۔ انابیہ ایک جوتا اتار چکی تھی اور بجائے دوسرا اتارنے کے وہ بیڈ پر دونوں ہاتھ رکھے اسے سن رہی تھی۔۔
"میں جب کسی کتاب کو کھولتی ہوں تو بس اس دنیا کو بھلا کر اس کتابی دنیا میں چلی جاتی ہوں لیکن جب اس کتاب کو بند کرتی ہوں تو کتابی دنیا بھی ساتھ بند کر کے میں اصلی دنیا میں آجاتی ہوں۔۔ میں رئیلٹی اور امیجیینیشن کو کبھی کمپیئر نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتی اور ایک نارمل اور پریکٹیکل لڑکی بن کر رہتی ہوں۔۔" وہ ساتھ ساتھ کچھ کتابوں کو ترتیب سے رکھ رہی تھی۔۔
"پھر تو تمہیں ماننا پڑے گا۔۔ تم خود پر کسی چیز کو حاوی نہیں ہونے دیتی۔۔ " اور یہ تعریف تھی۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خیالی دنیا کا سوچ سوچ کر روزانہ خود کو دکھی نہیں کرتے انہیں اصلی دنیا میں بھی رہنے آتا ہے اور خیالی دنیا میں بھی اور جو لوگ ہر چیز میں توازن رکھتے ہیں ان کا دل مشکل میں نہیں پڑتا۔۔
●●●●●●●●●●●●●
کار پورچ میں گاڑی کھڑی کرکے وہ انگلی میں کی رنگ گھماتے ہوئے گنگناتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا تھا جب اسکی نظر سامنے لائونج میں صوفے پہ براجمان عابس جہانگیر پہ پڑی۔
"کیا حال ہے مسٹر بزنس مین۔۔" صوفے پر ٹک کے بیٹھتے ہوئے اس نے عابس سے پوچھا۔۔ وہ اسے عموماً مسٹر بزنس مین کہا کرتا تھا کیونکہ جس طرح ہر وقت اس کے ڈیڈ یعنی جہانگیر صاحب اس کے بڑے بھائی کے کارناموں کی مثالیں اسے دیتے رہتے تھے تو کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ شاید دنیا میں عابس جہانگیر ہی ون اینڈ اونلی بزنس مین ہے۔۔
"آگئے تم؟" نظروں کا رخ کبیر کی طرف رکھتے ہوئے عابس نے اس سے پوچھا۔
"نہیں میری روح آئ ہے۔۔۔" ڈھٹائی سے جواب دیتے ہوئے اس نے عابس کے آگے پڑا ملک شیک کا گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔۔ عابس کے ماتھے پر سلوٹیں پڑیں۔۔
"کسی کو تو صحیح جواب دے دیا کرو کبیر۔۔۔" آواز آمنہ بیگم کی تھی جو کبیر کو گھورتے ہوئے گلدان میں پھول ڈال رہی تھیں۔
"رہنے دیں امی جان ایک یہی انسان تو ہے جسکے ٹیڑھے میڑھے جواب میں برداشت کرتا ہوں۔۔" عابس نے تھوڑا مسکرا کر کہا۔
"ارے میری ایسی کیا مجال جو میں آپ کے بڑے بیٹے کو ٹیڑھے میڑھے جواب دوں۔۔ میں تو بس مذاق کر رہا تھا۔۔ کیوں برو؟" آنکھ مارتے ہونے اسنے بھائ کی جانب دیکھا۔۔
"ویسے برو۔۔ شادی کا کیا ارادہ ہے آپکا۔۔ عمر نکلتی جا رہی ہے۔۔ کر لیں کہ پھر میری باری آئے۔۔" اب کی بار وہ تھوڑا آگے جھک کے بولا۔۔
"پہلے یہ بتائو شادی کی فکر تمہیں میری ہے یا اپنی؟ اور بائے دا وے یہ آج یونیورسٹی جاتے ہی تمہیں شادی کا خیال کیسے آگیا؟؟" اس نے ابرو اچکاتے ہوئے کبیر کو تفتیشی نظروں سے دیکھا۔۔ کبیر کے سامنے اسی سفید دوپٹے والی لڑکی کا چہرہ لہرایا۔۔ ایک پل کو خاموشی چھا گئ جسکو عابس کی چٹکی نے توڑا۔
"کیا ہوا کہاں کھو گئے؟" کبیر نے سر جھٹک کر بھائ کی جانب دیکھا۔
"کہیں بھی نہیں بس ایسے ہی کچھ یاد آگیا تھا۔۔" اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کبیر اپنے بھائ سے نظریں چرا گیا تھا۔۔
"تم لڑکیوں سے دور بھاگنے والے انسان کچھ تو ہوا ہے تمہیں ورنہ اچانک شادی کا خیال۔۔ ہضم نہیں ہو رہی یہ بات مجھے۔۔" عابس آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔
"جی نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ میں تھکا ہوا آیا ہوں یونیورسٹی سے۔۔ کیا پولیس کی طرح سوال جواب شروع کر دیے۔ شادی کا ہی تو کہا تھا۔ میں اب تھوڑا آرام کرنا چاہوں گا۔۔ رات کے کھانے میں ملاقات ہوگی۔۔" ایک ہی سانس میں کہتے ہوئے وہ گلاس ہاتھوں میں دبائے اٹھ کر چلا گیا۔
"ہونہہ نین مٹکے کر کر کے تھک گیا ہے۔امی جان ذرا نظر رکھیں دال میں کچھ کالا ہے بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے۔۔" صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے وہ کبیر کے جانے کے بعد بولا۔
"اہممم۔۔ اس معاملے میں مجھے کبیر پہ یقین ہے ایسا نہیں ہے میرا بیٹا۔۔" آمنہ بیگم بڑے یقین سے بولی جبکہ عابس سر نفی میں ہلاتے ہوئے اب موبائل پر ای ۔ میلز چیک کرنے لگا۔
●●●●●●●●●●●●●
وہ سیمنٹ کی بنی سیڑھیوں پرخاموشی سے دبے قدم آہستہ آہستہ چڑھتےجا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ٹارچ تھی کیونکہ وہاں مکمل اندھیرا تھا۔ وقتا فوقتا وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے بھی رہتے۔ اوپر پہنچتے ہی انہوں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا اور پھر آگے کی طرف چلنے لگے۔ تھوڑا ہی آگےانہیں ایک کمرے سے کسی کے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں اور ان کے قدم وہیں رک گئے۔
"تمھیں کیا لگا تھا سب کچھ تم لے جائو گے او رجہانزیب ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔۔" اور پھر ایک زوردار قہقہہ۔۔ کمرے کے اس پار کھڑے احمد کی آنکھیں بےساختہ پوری کھلیں۔وہ تیزی سے اندر کی طرف بھاگے اور پھر سامنے کا منظر دیکھ کر رک گئے۔ ان کے چچا ابرار خان زمین پر اوندھے منہ پڑے تھے۔ ان کی گردن میں رسی لپٹی ہوئ تھی جس کے سرے جہانزیب حیوان کے ہاتھوں میں تھے اور اس کا ایک پیر ان کی کمر پر تھا۔ ان کا چہرہ تکلیف سے سرخ ہو رہا تھا اور وہ زمین پر کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہے تھے لیکن اس حیوان کو زرا ترس نہیں آرہا تھا۔
"چھوڑو انہیں بےغیرت انسان چچا ہے وہ ہمارے۔۔" احمد نے آگے ہو کر پوری قوت سے جہانزیب کو پرے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن اس نے رسی نہیں چھوڑی۔ وہ اس وقت حیوانیت کی آخری حد پہ تھا۔۔ احمد نے پھر سے اس کے جبڑے پر گھونسا مارا اتنا زور سے کہ اب کی بار وہ پیچھے کو گرا۔۔ اس کے پیچھے ہوتے ہی وہ نیچے چچا کی طرف جھکے لیکن وہ وجود بےجان ہو گیا تھا۔۔ انہوں نے جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کی لیکن جانے والا تو کب کا چلا گیا تھا۔ ان کا دماغ مائوف ہونے لگا اور کچھ دیر وہ ساکت اور پتھرائ نظروں سے ان کی لاش کو دیکھے گئے۔ کتنا مشکل وقت ہوتا ہے جب آپ کا جان سے پیارا آپ کے سامنے مر رہا ہو اور آپ اسے کچھ بھی کر کے بچا نہ سکے اور تب انسان کو خود بھی مر جانا چاہئے۔
احمد پیچھے ہو کر شاک کی حالت میں اس وجود کے ساتھ اسی طرح بیٹھے رہے۔۔ جہانزیب کہاں تھا کسے پرواہ تھی۔۔ کچھ دیر میں انہیں اسی وجود کے ساتھ کچھ لوگوں کے پیر دکھائ دیے۔ انہوں نے بمشکل زخمی نظریں اٹھا کر ان کے چہرے دیکھے جو ڈھکے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں موٹے اور بھاری ڈنڈے تھے۔ وہ کس نے بھیجے تھے۔۔ وہ کس مقصد سے بھیجے گئے تھے۔۔ احمد جان گئے تھے۔۔ انہوں نے نظریں پھر سے جھکا لیں۔۔ ان کا دماغ سن ہو گیا تھا نہ بھی ہوتا تو وہ اتنے لوگوں سے کبھی نہ لڑ سکتے۔
دفعتاً ان کی آنکھیں کھلیں۔۔ انہوں نے تیز تیز سانس لیتے ہوئے اپنے اردگرد دیکھا وہ کسی گودام میں نہیں بلکہ اپنے نیم اندھیر کمرے میں تھے۔ ان کے برابر میں ہی ناہیدہ مکمل نیند کی وادیوں میں تھی۔ اپنی پیشانی پر آتا پسینہ صاف کرکے وہ دوبارہ لیٹ گئے لیکن وہ جانتے تھے اب انہیں نیند نہیں آنے والی۔۔
●●●●●●●●●●●●
کلاس روم میں ایک چیئر پر بیٹھے زارا چشمہ لگائے اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف تھی۔ آج وہ سیاہ رنگ کی قمیض شلوار میں ملبوس تھی اور بال ایک طرف سے تھوڑے آگے اور باقی پیچھے پھینکے ہوئے تھے ۔
"ہائے زارا۔۔ کیسی ہیں آپ؟؟" اسے دیکھتے ہی عاصم کا دل تو جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا ہو۔۔ جبکہ کبیر کی متلاشی نظریں پوری کلاس میں جسے ڈھونڈ رہی تھیں وہ وہاں تھی ہی نہیں۔
"کیسی لگ رہی ہوں میں تمہیں ؟" اس نے عاصم کو سخت نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔
"بہت حسین!!!" مسکراہٹ لئے وہ زارا کو دیکھتے ہوئے بولا اور وہ سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئ۔۔
"آپکی دوست نظر نہیں آرہی؟" کبیر سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگا ۔
"ظاہر ہے یہاں ہوگی تو نظر آئے گی نا۔۔۔" ٹیڑھے جواب دینے میں کبیر سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ کبیر کی تیوڑیاں چڑھ گئیں ۔
"وہ لائبریری گئ ہے۔۔" کچھ سیکنڈز بعد اس نے خود ہی بتا دیا۔۔ وہ بنا کچھ کہے الٹے پیر وہاں سے چلا گیا۔ زارا اسکو جاتے ہوئے مسکرا کر دیکھنے لگی۔
"تمہارا دوست چلا گیا ہے تو تم کیوں کھڑے ہو میرے سر پر؟؟" اچانک اسکی نظر عاصم پہ گئ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
"وہ تو اپنی محبوبہ کے پاس گیا ہے تو مجھے بھی اپنی محبوبہ کے پاس رہنے دیں ۔۔"
"میرے ساتھ یہ فضول قسم کی بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے سمجھ آئ۔۔" لفظ محبوبہ سن کر اسکا خون کھولنے لگا تو اسکو انگشت شہادت اٹھا کے وارننگ دیتے ہوئے بولی۔
"اچھا اچھا سمجھ گیا آپ غصہ تو نہ کرو۔۔" کرسی آگے گھسیٹ کر وہ بلکل اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور اسکے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو آگے ہو کے دیکھنے لگا۔۔ زارا کو اسکی اس حرکت پہ پھر غصہ آنے لگا۔۔
"میں صرف غصہ نہیں کرتی منہ بھی توڑ دیتی ہوں ۔ تھوڑا دور ہو کر بیٹھو۔۔۔" وہ کاٹ دار لہجے میں بولی جس پر وہ فوراً تھوڑا سا کھسکا۔
"نہیں پلیز منہ مت توڑنا میرے پاس یہی ایک منہ ہے ورنہ تمہیں مجھ سے اور بھی نفرت ہو جائے گی۔۔۔ میں تو بس تمہارا کام دیکھ رہا تھا۔۔۔" وہ معصوم شکل بنائے شرارت سے کہنے لگا۔ زارا ہنس دی۔
"اب اگر یہاں بیٹھنا ہے تو منہ بند کرنا پڑے گا۔" کہہ کر دوبارہ کام میں مصروف ہو گئ۔ سر تابعداری سے اثبات میں ہلاتے ہوئے وہ اسکی کی بورڈ پر چلتی ہوئی لمبی لمبی خوبصورت انگلیوں کو دیکھنے لگا۔
وہ اسوقت لائبریری میں بکس شیلف کے سامنے کھڑی کوئ کتاب ڈھونڈنے میں مصروف تھی جب وہ عین اسکے پیچھے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ آج اسنے برقعہ نما لمبےسے نیوی بلیو فراک کے ساتھ سیاہ دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا ۔ تبھی اس کو محسوس ہوا جیسے اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہو وہ فوراً ایڑیوں کے بل پیچھے کو گھومی ۔ اسکے مڑتے ہی کبیر بھی دھڑلے سے اپنے پیچھے بکس شیلف کی طرف مڑ گیا اور ظاہر کرنے لگا جیسے کوئی کتاب ڈھونڈ رہا ہو۔
"میرا پیچھا کر رہے ہو؟" وہ اسکی یہ حرکت دیکھتے ہوئے اس کے پیچھے کھڑے کھڑے پوچھنے لگی۔
"جی کچھ کہا۔۔۔ ارے تم!!" وہ انابیہ کی طرف مڑتے ہوئے نہایت اداکاری سے بولا جو غصے سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"میں نے پوچھا کہ میرا پیچھا کر رہے ہو؟" وہ دوبارہ اپنا جملہ دہراتے ہوئے بولی۔ نظروں میں ہنوز تپش تھی۔
"نن۔۔نہیں تو میں کیوں کروں گا تمہارا پیچھا۔" اس نے خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کی۔۔
"اچھا جی تو میرے مڑتے ہی تم کیوں مڑ گئے؟"
"میں تو کب سے اپنی مطلوبہ کتاب ڈھونڈ رہا تھا تم الزام لگا رہی ہو۔۔" وہ تھوڑا بوکھلاتے ہوئے بولا ۔ انابیہ نے اسے سر تا پیر دیکھا جو آج سیاہ جینز کے ساتھ سرخ رنگ کی چیک شرٹ پہنے اسکے سامنے کھڑا تھا۔ "مینجمنٹ کے نوٹس بنانے تھے تو اس حوالے سے ہی کتاب ڈھونڈ رہا تھا۔۔" دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ بڑے ڈیشنگ انداز میں کھڑا تھا۔۔
"اہاں ں !!! انگلش فکشن سے تم مینجمنٹ کے نوٹس بنائو گے۔۔ انٹرسٹنگ!!" ہاتھ سینے پر باندھے وہ طنزیہ مسکراہٹ لئے کبیر کو کنفیوژ کر گئ تھی۔۔ کبیر کرنٹ کھا کر کتابوں کے ریک کی طرف گھوما جہاں بڑا بڑا لکھا تھا۔۔ English fiction))۔
"وہ ممم۔میں۔۔۔" انابیہ سے نظریں چراتے ہوئے وہ بمشکل بولنا چاہ رہا تھا۔۔
"ویسے تو بہت گھورتے ہو اب میری آنکھوں میں دیکھ کر جواب دو گے؟"
" فلحال نہیں دیکھ سکتا۔۔" وہ نظریں جھکائے اسکے چمکتے ہوئے سفید سنیکرز کو دیکھ رہا تھا۔
"کیوں نہیں دیکھ سکتے؟" انابیہ کے تیور مزید سخت ہوئے۔
"کیونکہ اس وقت تم اتنی خوبصورت لگ رہی ہو کہ مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا۔۔" اب کی بار کبیر نے اسکے چہرے کی طرف دیکھا جسکو وہ ابھی ایک سیکنڈ پہلے کنفیوژ کر گیا۔
"فلرٹ کر رہے ہو میرے ساتھ؟" اس نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے سے پوچھا۔
"کم از کم یہ فلرٹ تو نہیں ہے ۔۔ ایمان سے مجھے خود بھی نہیں پتہ یہ کیا ہے ؟ جلد پتہ چل جائے گا تمہیں بھی اور مجھے بھی۔" وہ اب تھوڑا آگے جھک کے بولا جس کی وجہ سے انابیہ نے ایک قدم پیچھے کو لیا۔ بس ایک پل کو دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور یہ جا وہ جا۔۔اس کی آواز میں جادو تھا ایسا جادو جو کسی بھی انسان کو فوراً اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ بس اسی طرح لپٹتی چلی جا رہی تھی اس کے برعکس اگر کوئ کبیر سے اس کے بارے میں پوچھتا تو وہ ضرور اس بات کا اعتراف کرتا کہ انابیہ ایک جادوگرنی ہے اور اس کا جادو کبیر پر چل گیا ہے پہلے دن سے ہی اور اب جادو زور پکڑتا جا رہا ہے۔۔
“سوری فور ڈسٹربنگ یو۔۔" ہنستے ہوئے کہہ کر وہ قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔ وہ بت بنے کھڑی اسے دیکھے گئ اور سر جھٹک کر واپس کتابوں کی طرف مڑ گئ۔ "بد تمیز نہ ہو تو!!" ۔۔ محبت کی ابتداء اچھی تھی کاش کہ انجام بھی ایسا ہی ہو۔۔
"عاصم اور کبیر تو مجھے پاگل خانے سے بھاگے ہوئے لگتے ہیں۔۔ مینٹل پیشنٹ ہیں دونوں شاید۔۔" انابیہ اورنج جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی وہ دونوں اس وقت کیفیٹیریا میں بیٹھی تھیں ۔
"ایک تمہارے پیچھے پاگل اور ایک میرے پیچھے۔۔۔" زارا تھوڑا ہنستے ہوئے بولی۔
“بہت دیکھتا ہے وہ یار۔۔" اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نہایت ہی افسوس سے کہا اور سٹرا کی مدد سے جوس پینے لگی۔
“دیکھتا ہی تو ہے۔۔" زارا نے ایسے کہا تھا جیسے کسی کو دیکھنا عام سی بات ہے۔ ہوگی عام بات زارا کے لیے لیکن انابیہ کو کیا معلوم وہ تو گرلز کالج سے سیدھا یہاں آگئ تھی۔۔
“ایک ہوتا ہے دیکھنا۔ ایک ہوتا ہے مسرور ہو کر دیکھنا مسکرا کر دیکھنا ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھنا اور دیکھتے دیکھتے کھو جانا۔۔"
“تو؟؟" زارا نے ناسمجھی سے کندھے اچکائے۔۔
“تو کیا؟؟ ایسے دیکھتا ہے وہ۔۔ پتہ نہیں عجیب انسان ہیں۔۔ چلو عاصم کی تو سمجھ آتی ہے تم ہو بھی تو اتنی پیاری اور اوپر سے تمہارا اسٹائل بھی یونیک ہے۔۔مجھ میں کیا دکھ گیا نہایت سادہ قسم کی لڑکی ہوں فیشن سینس بھی نہیں ہے۔۔" اپنا دوپٹہ سر پر ٹکاتے ہوئے وہ ناگواری سے بول رہی تھی۔۔
"آپکی سادگی!! یو نو نیچرل بیوٹی۔۔" کبیر نا جانے کب اچانک اسکے سامنے والی کرسی پہ آ بیٹھا۔
"تم پھر یہاں۔۔۔ مسئلہ کیا ہے تمہارا؟؟" اس کا دل کیا کہ یہ اورنج جوس اسکے منہ پہ ہی الٹا دے۔
"عاصم چلا گیا کوئ ضروری کام تھا اسے۔۔ اکیلا بور ہو رہا تھا سوچا تم دونوں کی کمپنی جوائن کر لوں۔۔" معصوم سی شکل بنائے وہ انابیہ کو دیکھنے لگا۔
"ایک منٹ یہ نیچرل بیوٹی کا طعنہ مجھے مارا ہے نا۔" زارا نے انگلی کا اشارہ خود کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ "میں بھی کوئی میک اپ کے ٹین نہیں گراتی منہ پہ ۔۔ یہ بھی سافٹ سا میک اپ ہے ہونہہ۔۔۔" کرسی سے تھوڑا آگے ہو کر اس نے لٹھ مار انداز سے کہا۔ کبیر نے غور سے اس کے میک اپ سے بھرے ہوئے چہرے کو دیکھا جو کہیں سے بھی اسے سافٹ سا میک اپ نہیں لگ رہا تھا۔۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے کچھ لوگ میک اپ میں پیارے لگتے ہیں اور کچھ سادگی میں ہی قیامت ڈھاتے ہیں۔۔" نظریں انابیہ پہ مرکوز کیے وہ زارا سے مخاطب تھا۔۔
"میں میک اپ کے بغیر بھی پیاری ہوں۔۔" ہار تو اس نے بھی نہیں ماننی تھی۔
"تو میں کب کہہ رہا ہوں کہ تم کوئی بھوتنی ہو ویسے بھی اب اس چہرے پہ میرا دوست دوبارہ مر مٹا ہے چاہے جیسا بھی ہو۔۔" وہ اس کے چہرے پہ انگلی کے اشارے سے دائرہ بناتے ہوئے بولا۔۔ رہی بات بیا کی تو وہ دونوں کو بحث کرتا دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی اور زارا نے پھر سے منہ پھلا لیا۔۔
"میں بہت اچھا انسان ہوں آپ کو میرے بارے میں رائے بدل لینی چاہیے۔۔" اب کی بار وہ پھر انابیہ کی طرف متوجہ تھا۔
"میری آپ کے بارے میں فلحال کوئ رائے نہیں ہے۔ میں کسی سے ایک دو دفعہ ملنے پر اس کے بارے میں کوئ رائے قائم نہیں کرتی۔۔ میرا ڈرائیور آگیا ہے کل ملیں گے۔۔ بائے۔۔" وہ روانی میں کہتے اپنی جگہ سے اٹھ کر جانے لگی۔۔ کبیر افسوس بھری نگاہوں سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔
"فکر نہ کرو آہستہ آہستہ ہو جائے گی۔۔" زارا اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی۔۔
"کیا؟؟" کبیر نے یکدم ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"محبت۔" وہ یہ کہتے ہی ہنسنے لگی۔
"محبت؟؟" وہ زیرلب بڑبڑایا اور اسے بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا۔۔ زارا نے سٹرا منہ میں دبائے سر اثبات میں ہلایا۔
●●●●●●●●●●●●●
گھر پہ قدم رکھتے ہی انابیہ نے سامنے سے ماما جان اور ڈاکٹر کو آتے دیکھا ۔۔ڈاکٹر کو دیکھتے ہی وہ یک دم پریشان سی ہو گئ ۔ ڈاکٹر اس کے ساتھ سے ہو کر چلا گیا اور ناہیدہ بیگم کی نظر دروازے پہ کھڑی پریشان لڑکی کی طرف رکی۔
"بیا وہاں کیوں کھڑی ہو اندر آئو۔۔" انھوں نے اسکو پکارا۔۔
"ماما جان ڈاکٹر کیوں آیا تھا؟؟" وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔۔
"کچھ نہیں بس تمہارے بابا کو تھوڑا بخار تھا۔۔۔" یہ کہنے کی دیر تھی اور وہ فوراً بابا کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔ دروازہ کھولتے ہی وہ احمد صاحب کے پاس گئ جو اس وقت نیم اندھیر کمرے میں سو رہے تھے۔۔
"بابا جان۔۔۔" اس نے انہیں دھیمی آواز سے پکارا۔ احمد صاحب نے آنکھیں بمشکل کھولیں۔ انکے آنکھیں کھولتے ہی بیا واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئ۔۔
"رکو۔۔۔" انکی آواز سن کے وہ پلٹی۔۔
"معافی چاہتی ہوں بابا میں بس آپکو دیکھنے آئ تھی میرا ارادہ آپکو جگانے کا نہیں تھا۔۔۔ " وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولی۔
"کوئ بات نہیں بیٹھو یہاں۔۔" وہ بس حیرت سے انکو دیکھنے لگی اور پھر انکے برابر بیٹھ گئ۔
"پڑھائی کیسی جا رہی ہے تمھاری؟؟" اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ اس سے پوچھ رہے تھے۔
"جج۔۔ جی اچھی جا رہی ہے۔۔۔" بمشکل اپنے آنسوؤں پہ ضبط کرتے ہوئے وہ بولی۔۔
"چلو اچھی بات ہے ۔۔۔ " کچھ پل خاموشی چھائ۔
"بیا میں تم سے اس دن کے لیے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔۔" انابیہ نے چہرہ اٹھا کے انکی طرف دیکھا۔۔
"نن۔۔ نہیں آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے بابا۔۔" اب وہ شرمندہ بھی ہو رہی تھی۔۔
"میں اس دن کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا نہیں بولنا چاہیے تھا۔۔" وہ رک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔"تم اب جائو آرام کرو میں بھی کرتا ہوں رات کو کھانا اکٹھے کھائیں گے۔۔۔" کہتے ساتھ انہوں نے آنکھیں موند لیں۔۔
"جی بہتر۔۔" کہہ کر وہ اٹھ کر چلی گئ۔۔
کمرے میں جاتے ہی وہ دیوار کے ساتھ لگ کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کو آخر اتنا رونا کیوں آرہا ہے۔کافی دیر رونے کے بعد وہ منہ دھونے چلی گئ۔۔بیسن کا نلکہ کھولتے ہی پانی دھار کی طرح نکلنے شروع ہو گیا۔۔ اس نے دونوں ہتھیلیوں میں پانی بھر بھر کر منہ پر پھینکا۔۔
"واہ بیا واہ ۔۔ کیا قسمت پائ ہے تم نے۔۔ " شیشے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے وہ محض یہی کہہ سکی۔۔ مسلسل رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں سوج چکی تھیں۔ آنسو اور پانی کے قطرے یکجان ہو ہو کر اس کی ٹھوڑی سے ٹپک رہے تھے۔۔
●●●●●●●●●●●●
میں لاہور کی گلیوں میں رہنے والی۔
اک عام سی لڑکی ہوں۔
تم مجھے دیوانی کہہ سکتے ہو۔
کیونکہ عشق میری ذات ہے۔
میری روح تک بس چکا عشق۔
میری جان پر قابض عشق۔
مجھے عشق ہے لفظ عشق سے۔
کیونکہ عشق ایک ایسا ہنر ہے۔
جو میں نے صرف اسے دیکھنے سے ہی سیکھ لیا۔
عشق میں جان دی بھی جا سکتی ہے۔
جان لی بھی جا سکتی ہے۔
عشق میں خود بھی فنا ہوا جا سکتا ہے۔
اور سب بھی فنا کیا جا سکتا ہے۔
کتنی طاقت ہے عشق میں ۔
ہاں تم مجھے عاشق کہہ سکتے ہو۔
کیونکہ مجھے عشق ہے لفظ عشق سے۔
اندھیرا چھانے میں بس تھوڑا وقت باقی تھا اور ایسے میں آسمان کے نیچے کشادہ صحن میں چارپائی بچھائے سائرہ بیگم کپڑے تہہ کر کے ایک دوسرے کے اوپر رکھ رہی تھیں تبھی لکڑی کا بنا بیرونی دروازہ کھلا تو انہوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے ایک چودہ سے پندرہ سال کے درمیان ایک موٹا سا لڑکا اندر داخل ہوا۔۔
"اے نومی تجھے کتنی بار کہا ہے کہ اندھیرا چھانے سے پہلے گھر آجایا کر تو کیوں نہیں سنتا؟؟" انہوں نے غصے سے اس سے پوچھا جو اب سنک کے سامنے کھڑا اپنے ہاتھ دھو رہا تھا۔۔
"اماں کرکٹ کھیل رہا تھا نا۔۔" اس نے نل بند کرتے ہوئے ناگواری سے کہا۔
"بس اس گلی کے لوفر لڑکوں کے ساتھ بلے ہی مارا کر پڑھائی تو تیری دادی کرے گی نا اللہ بخشے ان کو۔۔" وہ مسلسل بولے جا رہی تھیں لیکن ان کی سن کون رہا تھا نومی تو کب کا کمرے میں بھاگ گیا تھا۔ ناگواری سے سر جھٹکتے ہوئے انہوں نے سامنے پڑی قمیض اٹھائی اور اسے تہہ کرنے لگی تبھی ان کے کانوں سے وائلن کی دھن ٹکڑائ جس کی آواز غالباً اوپر کے کمرے سے آرہی تھی۔
"لے پھر سے لے کر بیٹھ گئ اپنا باجا۔۔" وہ اس کے وائلن کو باجا ہی کہتی تھیں جو اپنے کمرے میں بتیاں بجھائے ایک کونے میں بیٹھی آنکھیں بند کیے مسلسل وائلن اپنے کندھے پر رکھے اس کے سرے پر ٹھوڑی ٹکائے اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی سٹک اس پر چلاتے ہوئے ایک دھیمی دھیمی افسردہ سی دھن بجا رہی تھی۔ اس کے لبوں پر پھیلی مسکراہٹ اور بند آنکھیں یہ ثابت کر رہی تھیں کہ وہ اطمینان میں ہے اور پھر دھن تیز ہوتی گئ اس کے ہاتھ تیزی سے چلتے گئے اور پھر آہستہ سے۔۔ تیز اور پھر آہستہ ۔۔ وہ وائلن بجانے میں ماہر ہو چکی تھی۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر صرف ایک شمع جل رہی تھی اور اس کے پاس دیوار سے ٹیک لگائے فلور کشن پر وہ بیٹھی تھی۔ وہ مسلسل کھوئی ہوئی تھی اور کھوئی ہی رہتی اگر کوئی زور زور سے اس کے کمرے کا دروازہ نہ پیٹتا۔۔ دفعتاً وائلن پر چلتا اس کا ہاتھ رکا۔ دھن خاموش ہوگئ تھی۔۔اس نے تیزی سے آنکھیں کھولیں۔۔
"اوہو۔۔ کون ہے بھئ؟ دو منٹ کا سکون نہیں ہے۔۔" اس نے وائلن کو دیوار کے ساتھ رکھا اور اٹھ کر دروازے تک گئ۔۔
"کیا ہے موٹے؟؟ کیوں تنگ کررہے ہو؟؟" اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں غصہ تیر رہا تھا اتنا غصہ تھا کہ سامنے کھڑے لڑکے کو وہ کچا بھی چبا سکتی تھی۔۔
"یہ لو تمہارا فون۔۔" اس نے جویریہ کا فون اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔۔ "کب سے نیچے پڑا بج بج کے پاگل ہو رہا ہے۔۔" فون اس کے ہاتھ میں تھماتے ہی وہ وہاں سے چلا گیا۔ جویریہ نے بڑ بڑ کرتے ہوئے اسے دیکھا اور ایڑیوں کے بل گھوم کر واپس کمرے کے اندر چلی گئ۔ اس سے پہلے وہ دیکھتی کہ کالز کس کی تھیں کال دوبارہ آنے لگی اور اسکرین پر جگمگاتا نام دیکھ کر تو جیسے جویریہ کے چہرے پر ایسی بہار آئ تھی جس کے بعد کوئی خزاں نہیں آتی۔ اس کے چہرے پر ایسی خوشی چھائ تھی جس کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ دل پر ہاتھ رکھتے اس نے تیزی سے کال اٹینڈ کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ فون کان سے لگایا۔۔
"یہ اچھا ہے ویسے۔۔ اسائنمنٹ تم نے صبح سبمٹ کروانی ہے اور ٹینشن مجھے ہے۔۔" اس نے بات کی شروعات ہی خفہ ہوتے ہوئے کی تھی۔ اس آواز کو سنتے ہی جویریہ کے کندھے ڈھیلے پڑ گئے اور جسم سے جیسے روح نکل کر ہوائوں میں اڑنے لگی تھی۔
"تمہارا کیا بنے گا تمہیں بلکل احساس نہیں ہے۔۔ اب کچھ بولو گی بھی؟؟"وہ اپنے کمرے کے وسط میں کھڑا کانوں میں ائیر پوڈز لگائے مسلسل کچھ کاغذات پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھاوہ ضرور جویریہ کی اسائنمنٹ تھی۔
"تم بولو میں سن تو رہی ہوں۔۔" اس نے قدرے دھیمی آواز میں اسے جواب دیا۔ کبیر نے رک کر ٹھنڈی آہ بھری اور پھر ہنس دیا۔ اس کی ہنسی پر جویریہ بھی ہلکا سا مسکرائ۔
"میں نے چیک کر لی ہے اس میں بہت مس ٹیکس تھیں بہرحال میں نے ٹھیک کر کے پرنٹس نکالوا لیے ہیں صبح میرا ڈرائیور تمہارے گھر پہنچا دے گا۔ یاد سے لیتی جانا ساتھ۔۔" اس کی سنتے سنتے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے قریب آئی اور جھک کر جلتی شمع کو دیکھنے لگی۔۔
"تھینک یو سے مچ۔۔" وہ بس یہی کہہ سکی۔ نظریں ہنوز جلتی مشعل پر تھیں۔۔
"ہمم چلو فون رکھتا ہوں۔۔"
"کیوں؟؟" وہ تیزی سے سیدھی ہوئ۔۔ "مطلب بات کرو نا۔۔" وہ جیسے منت کرتے ہوئے بولی کبیر نے گہرا سانس بھرتے کال کاٹ دی۔ وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایسا کرنے پر اسے خاصی شرمنگی بھی ہوئ لیکن اسے یہی مناسب لگا تھا۔ کانوں سے ائیر پوڈز اتار کر اس نے شیشے کے سامنے رکھے اور پل بھر کو شیشے میں اپنا عکس دیکھنے لگا۔ جویریہ اس کی خالہ کی بیٹی تھی جو لاہور میں ہی رہتی تھی بس بد قسمتی سے اسے کبیر کی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملا کیونکہ وہ ایک عام سے سرکاری ملازم کی بیٹی تھی گریڈز بھی کچھ خاص نہیں تھے۔وہ جویریہ کی محبت سے اچھی طرح سے واقف تھا اور کیسے نہ ہوتا کتنی دفعہ تو وہ کھل کر اس سے اعتراف کر بیٹھی تھی لیکن کبیر کے دل نے کبھی اس کے لیے کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اس کا دل کبھی بھی جویریہ کے لیے ویسے نہیں دھڑکا تھا جیسے انابیہ کے لیے دھڑکا تھا۔ اس نے کبھی بھی جویریہ کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تھا لیکن انابیہ کے لیے اس کی سوچ اس سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی تھی۔ محبت بھی عجیب چیز ہوتی ہے یا تو کسی سے ہوتی نہیں ہے یا پھر جس سے ہوتی ہے اس جیسی کسی سے نہیں ہوتی۔ وہ جانتا تھا کہ جویریہ اسے ٹوٹ کر چاہتی ہے پر اب تو وہ خود کسی کو ٹوٹ کر چاہنے لگا تھا۔
"دل نہ مانے تو کیا کروں؟ دل کسی اور کو چاہے تو کیا کروں؟" وہ شیشے میں اپنے عکس سے ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔
●●●●●●●●●●●●●
شام میں وہ اپنے کمرے میں Zero to one)) کتاب سینے پر پھیلائے کائوچ پر لیٹی کبیر کے خیالوں میں کھوئ ہوئ تھی۔
"پتہ نہیں کیوں پیچھے پڑا ہے ؟ شاید یہ لڑکوں کی عادت ہوتی ہے خوامخواہ لڑکیوں کو تنگ کرنے کی ۔۔ لیکن شکل سے تو اچھا بھلا لگتا ہے۔۔ اور پتہ نہیں کیوں چھچھورا بھی نہیں لگ رہا جبکہ حرکتیں تو ہیں ایسی۔۔۔" وہ اپنے دل و دماغ میں سوچے جا رہی تھی۔۔ وہ اس سے پہلے گرلز کالج میں پڑھتی تھی اور سوائے عالیان کے اس نے کبھی کسی لڑکے سے بات تک نہیں کی۔ لیکن عالیان اور اس کا معاملہ مختلف تھا وہ دونوں بچپن سے بہت گہرے دوست تھے۔ انابیہ یہ بھی جانتی تھی کہ جیسے ہی وہ انٹر کر لے گی اس کی شادی عالیان سے ہی ہوگی۔ اس لیے وہ اس رشتے سے کافی حد تک مطمئن بھی تھی اور خوش تو بہت تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی دوستی کمزور ہو گئ اور ایک وقت آیا جب دوستی کا وجود تک مٹ گیا اور اب اسے عالیان سے چڑ ہونے لگی تھی۔ اس کی وجہ بھی عالیان کا بدلا اور بگڑا رویہ تھا۔ اسے کبھی عالیان سے بہت محبت نہیں تھی بس پسندیدگی تھی۔ اگر محبت ہوتی تو وہ اسے ہر عیب کے ساتھ قبول ہوتا لیکن دن بہ دن بڑھتی نفرت نے اسے کم از کم یہ یقین دلا دیا تھا کہ اسے اس شخص سے کبھی محبت نہیں تھی اور صد شکر اس بات کا۔۔۔ وہ کچھ بھی کر کے بس یہ شادی روکنا چاہتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اگر وہ خود نہ روک سکی تو عالیان ضرور روک دے گا کیونکہ وہ واپس نہیں آنا چاہتا۔ اس کا گول ایک کامیاب انسان بننا تھا اسے تایا ابو کی طرح بزنس کی دنیا میں قدم پکے کرنے تھے لیکن اب پھر ایک شخص اس کے دماغ پر حاوی ہونے لگا تھا۔۔ خیر دل ہی تو ہے دل کا کیا کیا جا سکتا ہے۔
"میں سوچ رہی ہوں کمرے کی سیٹنگ تھوڑی چینج کر دوں۔۔ کیا خیال ہے آپی؟" ردا ٹھوڑی پر انگلی رکھے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کھوئ ہوئ لڑکی سے پوچھ رہی تھی۔
"پتہ نہیں میں کیوں اتنا سوچ رہی ہوں اسے؟" وہ اب تک وہیں گم تھی اتنی کہ اسے ردا کی آواز بلکل سنائی نہیں دی۔۔
"آپی میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔۔" جواب نہ پا کر وہ اسکے سر پر جا کر چیخنے لگی۔۔ انابیہ جھٹکے سے خیالوں کی دنیا سے باہر آئ۔
"ہاں کک۔۔ کیا ہوا؟؟" وہ اسے اپنے سر پر کھڑا دیکھ کر ایک دم بوکھلا سی گئ۔
"یعنی آپ نے نہیں سنا ۔۔ کہاں کھوئ ہوئیں ہیں خیر تو ہے نا۔۔" وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے گھورنے لگی۔
"کیا فضول باتیں تمہاری۔۔ میں۔۔۔ ہاں میں کتاب پڑھ رہی تھی۔۔" وہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔
"اچھا جی یہ کتاب سینے پر پھیلائے آپ کس طرح پڑھ رہی تھیں؟؟" اس نے پھر آنکھیں گھما کر مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
"میں جیسے بھی پڑھوں تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ تم بولو کیا کہہ رہی تھی؟" وہ غصے سے بولتے ہوئے نظریں چرا گئ۔۔
"دیکھ رہی ہوں میں ۔۔" ردا نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔۔"خیر کمرے کی سیٹنگ کی بات کر رہی تھی۔۔" انابیہ نے ایک نظر کمرے کو دیکھا۔ اب بھلا اس میں کیا خرابی تھی۔۔
"جیسے مرضی تمہاری بس میری چیزیں ادھر ادھر نہیں ہونی چاہیے۔۔" وہ کہتے ساتھ کتاب رکھنے الماری کی طرف بڑھ گئ۔
"ایک منٹ!! میں اکیلے کچھ نہیں کرنے والی آپ بھی ہیلپ کریں گی اور یہ منو بھی۔۔" اس نے بولتے ہوئے مناہل کو بھی بیچ میں گھسیٹا جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے اپنے گیلے بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔۔
"اچھا اچھا کر دوں گی میں بھی ۔۔ مجھے بھی کچھ خاص پسند نہیں ہے اب یہ سیٹنگ۔۔" مناہل اسی طرح شیشے میں دیکھ کر کھڑے کھڑے بولی۔
"جیسی تم لوگوں کی مرضی میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔" انابیہ بھی انکی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ایک دفعہ پھر کبیر اس کے سوچوں کے اردگرد گھومنے لگا۔
●●●●●●●●●●●●●●
وہ کھڑکی کھولے آسمان پر چمکتے ہوئے چاند میں اتنا کھوئی ہوئی تھی کہ کب ردا اس کے ساتھ آ کھڑی ہوئی اسے بھنک تک نہ پڑی۔
"لڑکی چاند کے سامنے کھڑی ہے۔۔لڑکی کے بال کھلے ہیں۔۔ لڑکی کا دماغ کہیں اور ہے۔۔ لڑکی کی آنکھیں مسکرا رہی ہیں۔۔ ماننا پڑے گا لڑکی زیادہ خوبصورت ہونے لگی ہے۔۔ سنو لڑکی!!" ردا کی آواز پر وہ کرنٹ کھا کر اس کی طرف گھومی۔
"کر بیٹھی ہو نا ظلم خود کے ساتھ؟؟" وہ کھڑکی کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگائے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"کونسا ظلم؟؟" انابیہ نے اپنے چہرے سے زمانے کی لاتعلقی ظاہر کی۔
"ارے وہی ظلم جو نہیں کرنا تھا۔۔" وہ بولی تو وہ اس کی بات کو اگنور کرتے وہاں سے ہٹ گئ۔
"محبت یار محبت۔۔ بولو کر بیٹھی ہو نا؟؟" ردا فوراً اس کے پیچھے لپکی اور پھر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی جبکہ انابیہ وہیں تھم گئ۔۔ رک گئ۔۔
"پرے ہٹو۔۔" جھرجھری لے کر اس نے ناگواری سے ردا کو ہاتھ سے پیچھے کیا اور بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گئ۔۔
"اب تو سب کو ہی پرے ہٹائیں گی نا۔۔ سمجھ گئ میں۔۔ ہم کتابی لوگ ہیں ہم سے محبت کے قصے چھپے نہیں رہ سکتے۔۔ کب تک چھپائیں گی۔۔۔" اس نے بھی پیچھا کب چھوڑنا تھا اس لیے اس کے سر پر جا کھڑی ہوئ۔۔
"تو جائو کتابیں پڑھو میرا چہرہ نہیں۔۔"
"اس وقت آپ کا چہرہ دنیا کی ہر کتاب سے خوبصورت لگ رہا ہے۔ اور مجھے تو بس اسی کو پڑھنا ہے ہر حال میں۔۔" ردا اس کے سامنے فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ۔ انابیہ نے افسوس سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو بلا چمٹ ہی گئ ہے۔۔
"معاف کرو بی بی پیچھا چھوڑو میرا۔۔" اس نے دونوں ہاتھ ردا کے سامنے باندھتے ہوئے التجائیہ انداز میں کہا۔۔
"چلو چھوڑ دیتی ہوں۔۔ ویسے بھی محبت تو پیچھے پڑ گئ ہے۔ وہ پیچھا نہیں چھوڑے گی۔۔" کہتے ہی وہ تیزی سے اٹھی اور اس کے ساتھ سے ہوتی بیڈ کے دوسری طرف لیٹ گئ جبکہ انابیہ اس کی آخری بات سے ڈر گئ تھی سہم گئ تھی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
"کیا یہ محبت ہے آسیب ہے یا کچھ اور ؟؟" اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹے وہ چھت کو دیکھ رہا تھا۔۔۔کمرے کی ساری لائٹس آن تھیں۔۔
"نہیں یہ محبت نہیں ہو سکتی؟؟ مجھے کسی سے محبت نہیں ہو سکتی یہ میرا وہم ہے۔۔۔" وہ بیڈ پر بیٹھے اپنی ڈائری لکھتے لکھتے رکی۔۔ کمرے میں صرف سائڈ لیمپ کی روشنی تھی۔۔
"اسکا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹتا ہی نہیں ہے تو یہ محبت ہی تو ہوئ۔۔" کبیر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔وہ جیسے خود سے اعتراف کر رہا تھا۔
"تو اسکا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹتا کیوں نہیں ہے کیا یہ محبت ؟؟نہیں یہ میرا وہم ہے ہاں ۔۔ میں شاید کچھ زیادہ ہی سوچتی ہوں۔۔" ڈائری گود میں پیبک کر اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیا تھا۔
"لیکن محبت ایسے اچانک۔۔۔ کیا ایسے محبت ہو جاتی ہے؟؟ کیا کوئی ایسے اچانک ہماری سوچوں پر ہاوی ہو جاتا ہے؟؟" وہ اب اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔۔
"نہیں ایسے محبت نہیں ہوتی۔۔ اچانک نہیں ہوتی۔۔" ڈائری گود سے اٹھا کر اب وہ سائڈ ٹیبل پہ رکھ رہی تھی۔۔وہ دونوں ہی اب اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کھڑکی کی جانب بڑھ گئے۔
انابیہ نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا۔۔ چاند آسمان پر چمک رہا تھا۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔۔
"نہیں وہ تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔۔" کبیر نے چاند کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔۔"بس بہت جلد میں اظہار کردوں گا۔" کوئ چمک تھی اسکی آنکھوں میں کوئی امید تھی کوئی خوشی کی رمق تھی۔۔
"اگر اس کو محبت ہے بھی تو بس وہ کبھی اظہار نہ کرے وہ بھول جائے۔۔میں یہ سب افورڈ نہیں کر سکتی۔" اسکی آواز لڑکھڑا گئ خوف سے بےچینی سے پریشانی سے۔
"یا اللہ !! اگر مجھے واقعی اس سے محبت ہے تو اسے میرا کردے اسکی محبت میرے دل میں ڈال کے اسے مجھ سے دور نہ کرنا شاید میرا دل برداشت نہ کر سکے۔ اسکے دل میں بھی میری محبت ڈال دے۔۔" آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ دعا کر رہا تھا۔۔
"یا اللہ اسکے دل سے یہ خیال نکال دے۔۔ اسکو مجھ سے دور کردے مجھے اس سے محبت ہے یا نہیں میں نہیں جانتی لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ میں مزید دکھ نہیں اٹھا سکتی ۔۔ آمین۔۔۔" اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پہ پھیرتے ہوئے اس نے آمین کہا۔ دونوں نے اپنے حصے کی دعا کی لیکن دعا کس کی قبول ہوگی قربت کی یا دوری کی؟
محبت جیتے گی یا مجبوری؟
مسکراہٹ جیتے گی یا اذیت؟
خوشی جیتے گی یا دکھ؟
عمر بھر کا ساتھ ہوگا یا روگ؟
محبت کا حصول ہوگا یا اسکی تڑپ؟
●●●●●●●●●●●●●
"نام کیا ہے اسکا؟؟" دونوں بہنیں فجر کی نماز کے لیے اٹھی تھیں ۔۔ انابیہ کے سلام پھیرتے ہی ردا نے اس سے پوچھا۔ اس کا انداز تفتیشی تھا۔ اس نے نظریں اٹھا کے ردا کو حیرت سے دیکھا جو اسے ہی گھور رہی تھی۔۔
"کون؟ کس کی بات کر رہی ہو؟" وہ انجان بنتے ہوئے بولی۔ ایک دم سے ردا کے دماغ کو پڑھنا اس کے لیے مشکل کام تھا بلکہ ناممکن۔۔
"وہی جس کے اظہار سے آپ ڈرتی ہیں ، وہی جس سے آپ دور ہونا چاہتی ہیں۔۔ وہی جو آپ سے محبت کرتا ہے ۔۔ " ردا بغیر بریک لگائے بول رہی تھی۔ انابیہ نے تیزی سے نظریں چرائیں۔ گلے میں کچھ اٹک گیا تھا۔
"تم کیا کہہہ۔۔۔"
"اہممم ۔۔ میں بتاتی چلوں کہ میں رات کو جاگ رہی تھی اسی لیے سچ بتائیں کون ہے وہ جس نے لمحہ بھر کی دیر نہیں لگائی آپ کا دل چرانے میں۔۔" اس کی بات کو کاٹتے ہوئے وہ اب اسکا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ انابیہ نے گہرا سانس بھرا اور جائے نماز تہہ کرکے دراز میں رکھا اور ردا کے برابر آکے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گئ۔
"نہیں نہیں آپی منہ میری طرف کریں میں آپکی آنکھیں پڑھنا چاہوں گی کہ آپ مجھ سے جھوٹ نہ بولیں۔۔۔"
اس کے کہنے پر انابیہ ٹانگیں اوپر کر کے اس کے سامنے ہو کر بیٹھ گئ ۔۔ ایک نظر ساتھ سوتی ہوئ مناہل پر ڈالی جو مکمل طور پر نیند کی وادیوں میں تھی۔ وہ اسکو سب شروع سے بتانے لگی۔۔
"ایک لڑکا ہے میری یونیورسٹی میں بلکہ میری ہی کلاس میں ۔۔" ردا ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھے اسے غور سے سن رہی تھی۔ "مجھے لگتا ہے شاید اسے مجھ سے محبت ہے۔۔"
"ایک منٹ!! شاید؟؟؟" ردا نے ہاتھ کے اشارے سے اس کی بات کاٹی۔۔
"ہاں شاید کیونکہ اسنے ابھی صاف لفظوں میں کچھ نہیں بتایا۔۔ بس وہ بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے اور آج تو میرے پیچھے لائبریری میں بھی آگیا۔۔ میں نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سیریس نہ ہو خوامخواہ مجھے تنگ کر رہا ہو۔۔لیکن یقین جانو ردا میرے دل میں اسکے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔۔"
"خیر دل میں تو آپکے بہت کچھ ہے ورنہ آپ ساری رات سوچ سوچ میں نہ گزارتی۔۔ تبھی تو میں کہوں میڈم آج کل کہاں کھوئ کھوئ ہوتی ہیں اب پتہ چلا محبت دل کے دروازے پر کھڑی ہے۔۔"وہ تھوڑا پیچھے ہوتے ہوئے مزے سے بولی۔۔
"اسکی آنکھیں!! اسکی آنکھوں میں کچھ ہے جس کو میں پرکھ نہیں پا رہی۔۔ اسکا دیکھنے کا انداز۔۔۔ ردا وہ مجھے پاگل کرنے لگتا ہے۔۔ مجھے لاجواب کر دیتا ہے۔۔میں ہر گز دھوکا نہیں کر رہی لیکن میں کیا کروں سب کچھ وہ کرتا ہے۔۔" انابیہ اپنی انگلیوں کو آپس میں مسلنے لگی۔ وہ کافی بےبس دکھائی دے رہی تھی۔
"نہیں آپی اس نے تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں۔۔ کیا اس نے اظہار کیا؟؟ بقول آپ کے نہیں نا تو آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ سب وہ کرتا ہے۔۔ سب انسان کا اپنا دل کرتا ہے سب آپکے اپنے دل نے کیا ہے۔۔ آپ پہلے دن سے ہی اس کے بارے میں سوچنے لگی تھیں۔۔ آپکو شاید سمجھ نہیں آئ لیکن ایسا ہی ہوا ہے۔آپ اسکو اگنور نہیں کر سکتی ہینا۔۔ آپ وہاں سے آکر بھی اسکو یاد کرتی ہیں ہینا؟" وہ تیز تیز بولتی گئ اور ایسے بولتی گئ جیسے اس نے محبت کے مضمون میں پی-ایچ-ڈی کی ہو۔۔
"تمھارا مطلب ہے کہ مجھے محبت ہے؟؟" اس کی آواز جیسے کسی کھائ سے آئ تھی۔۔
"اس میں کوئی برائی نہیں ہے ۔۔ محبت تو بہت خوبصورت احساس ہے اگر وہ خالص ہو بغیر کسی ملاوٹ، دھوکے اور جھوٹ کے۔۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپکی محبت میں بہت دشواریاں ہیں۔"اسی بات کا تو خطرہ تھا اسے۔
"محبت میرے لیے نہیں بنی میں قسمت سے نہیں لڑ سکتی۔۔ میں اسے کیسے سمجھائوں؟؟ مجھے ڈر ہے وہ کبھی بھی اقرار کر سکتا ہے۔ میں اپنے دل کو قابو میں رکھ سکتی ہوں لیکن اسکا دل میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔۔ میں اپنا نام اپنا مقام بنانا چاہتی تھی میں سب سے جیتنا چاہتی تھی لیکن اب لگتا ہے میں ہار جائوں گی۔۔۔ میں کیا کروں ردا مجھے بتائو پلیز؟؟" وہ خود کو بےبسی کی انتہا پر کھڑا سمجھ رہی تھی۔۔
"غلط آپ اپنے دل کو بھی قابو میں نہیں رکھ سکیں گی۔ اس سے پہلے وہ اظہار کرے آپ اسےسب بتا دیں کیا پتہ وہ پیچھے ہٹ جائے یا پھر اسے چانس دے دیں لیکن اگر اس کی محبت سچی ہے تو۔۔ خود کو کسی غلط انسان کے لیے تباہ مت کیجیے گا۔۔میں آپکو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی آپی۔۔۔" ردا اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے بہت نرمی سے بول رہی تھی۔ " رہی بات قسمت کی تو اس سے آپ واقعی نہیں لڑ سکتی لیکن آپ دعا تو کر سکتی ہیں نا ۔۔ صرف ہمارا رب جانتا ہے کہ اس نے آپ کے لیے کس کو چنا ہے ۔ کیا پتہ اس نے اسی شخص کو چنا ہو۔۔ اگر اس نے آپ دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت ڈالی ہے تو کوئی تو وجہ ہوگی نا۔۔ بس میں اتنا جانتی ہوں کہ آپ عالیان جیسے گھٹیا انسان کو ڈیزرو نہیں کرتیں۔۔" وہ بلکل اسے کسی سمجھدار بڑے انسان کی طرح سمجھا رہی تھی۔۔ "بس آپ زیادہ نہیں سوچیں جو ہوگا دیکھا جائے گا اب مجھے بڑی نیند آ رہی ہے باقی لیکچر صبح۔۔۔" انگڑائی لیتے ہوئے وہ پیچھے کو ہوئ۔
"آئ بڑی لیکچر دینے والی!!" انابیہ نے اسکے کندھے پر زور سے مارا۔۔
"حد ہے ویسے۔۔ " کہتے ہوئے وہ چادر کھینچ کر لیٹ گئ۔۔ اب اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آگے کیا کرے۔ وہ اپنی حدود جانتی تھی اور اپنی قسمت بھی۔ ردا سو چکی تھی اور وہ کافی دیر ایسے ہی بیٹھی رہی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
صبح صبح کے وقت نیلے آسمان کے نیچے جویریہ اپنے ہاتھ میں چائے کا کپ لیے چھت میں ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی ۔ بار بار اپنے ٹیبل پہ پڑے فون کو بھی دیکھ رہی تھی جیسے کسی کال کا انتظار ہو ۔ آخرکار فون بجنے لگا اس نے برق رفتاری سے فون اچک کے کان سے لگایا۔۔"کب سے انتظار کر رہی ہوں میں اور تم نے اب کال کی ہے؟؟" فون اٹھاتے ہی وہ جیسے برس پڑی ہو۔۔"اب بتائو گی کیا خبر ہے؟؟"
"فلحال تو بس وہ اسکے آگے پیچھے گھوم رہا ہے لیکن وہ تو جیسے اسے گھاس ہی نہ ڈالتی ہو۔۔" دوسری طرف سے ایک لڑکی کی آواز گونجی۔۔ یہ فائزہ تھی جویریہ کی بچپن کی دوست جو اچھے گریڈز کی وجہ سے کبیر کی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔
"کیا مطلب شاید؟ مجھے کنفرم بتائو سمجھی۔۔" اسکا غصہ ساتویں آسمان پہ تھا۔
"دیکھو جو مجھے پتہ چل رہا ہے میں بتا رہی ہوں تمہیں مجھ پر غصہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔" دوسری طرف سے لڑکی خفگی سے بولی۔۔
جویریہ اپنا سر پکڑے کھڑی تھی۔۔۔ " اوکے آئ ایم سوری۔۔۔ تم جانتی ہو نا میں بہت محبت کرتی ہوں کبیر سے۔ جب سے تم نے مجھے بتایا ہے وہ کسی لڑکی میں انٹرسٹڈ ہے میری جان پہ بنی ہوئی ہے یار۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔۔" اس کی آواز جیسے رو دینے والی ہو گئ تھی۔۔
"تم پریشان نہ ہو میں سمجھ سکتی ہوں۔ میں پوری کوشش کروں گی کہ کبیر صرف تمہارا ہو۔۔ لیکن پلیز گھر بیٹھنے سے کچھ نہیں ہوگا جائو اسکے گھر جایا کرو ملا کرو اس سے وہ ویسے بھی جانتا ہے کہ تم اس سے محبت کرتی ہو۔۔ تم سن رہی ہو نا؟" دوسری طرف سے فائزہ اسے تسلی اور مشورے دیتے ہوئے بولی۔۔
"ہاں سن رہی ہوں۔۔ جائوں گی میں انکے گھر۔۔ ابھی ممکن نہیں ہے۔۔ بس تم اس لڑکی پہ نظر رکھو جتنا ہو سکے اسکی انفارمیشن مجھے اکٹھی کر کے دو وہ کہاں رہتی ہے کس کی بیٹی ہے کیا کرتی ہے۔ ایچ اینڈ ایوری تھنگ ابائوٹ ہر۔۔ “وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی جو نا جانے کب اسکی آنکھوں سے نکلنے لگے۔۔
"ایسا ہی ہوگا اب میں فون رکھتی ہوں۔۔ بائے۔۔" دوسری جانب سے فون رکھ دیا گیا۔ "اففف کہاں پھنس گئ میں بتانا ہی نہیں چاہئیے تھا اسے۔ نوکر ہی سمجھ لیا ہے جیسے مجھے اور کوئ کام نہ ہو۔۔" وہ خاصا بدمزہ ہوئ۔۔ جویریہ اب لاچاری سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے دبی دبی سسکیوں سے رو رہی تھی۔۔ جس محبت پر وہ صرف اپنا حق سمجھتی تھی اس پر کوئی اور قابض ہو رہا تھا۔ کبیر نے کبھی اس سے نہیں کہا کہ اسے اس سے محبت ہے۔ اسے لگتا تھا وہ کبھی نا کبھی اس کے دل میں جگہ بنا ہی لے گی لیکن اب اسے یہ کام مشکل لگ رہا تھا۔ وہ کیسے آرام سے ایسا ہونے دے سکتی تھی۔۔
●●●●●●●●●●●●●●
انابیہ سر حمدان کے آفس سے باہر نکل رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر سجی مسکراہٹ اس بات کی عکاسی کررہی تھی کہ وہ بہت خوش تھی اور اس خوشی کی وجہ یہی تھی کہ سر کو باقی سب سٹوڈنٹس کے علاوہ اسکی بنائ ہوئ اسائنمنٹ بہت پسند آئ تھی۔۔ کبیر اسے دیکھتے ہوئے سامنے سے ہی آرہا تھا۔۔ وہ ابھی چل ہی رہی تھی کہ ایک لڑکی بھاگتی ہوئ اسکے کندھے سے زور سے ٹکرائی اور وہ زور سے زمین پر گری ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ ٹکر جان کر ماری گئ یا غلطی سے بس وہ لڑکی وہاں سے بھاگ گئ۔۔
"آہ ہ ہ !!" وہ درد سے کراہ کر رہ گئ کیونکہ اسکے پائوں میں شدید چوٹ آئ تھی۔۔اس سے پہلے کہ کوریڈور میں کھڑے سب سٹوڈنٹس اسکے آس پاس جمع ہوتے کبیر دور سے بھاگتے ہوئے اسکی طرف آیا ۔
"تم ٹھیک ہو؟؟" کبیر نے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا جو اپنا پیر پکڑے بیٹھی تھی۔
"ہاں۔۔" درد کی وجہ سے وہ محض اتنا ہی کہہ سکی۔ و ہ اب ادھر ادھر سے اسکی چیزیں اور موبائل اٹھانے لگا۔۔ "کیا زیادہ لگی ہے۔میں دیکھ سکتا ہوں تمھارا پائوں ؟؟" وہ پھر اسکی طرف متوجہ تھا۔
" نن نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔" اس نے یکدم اپنا پائوں پیچھے کیا۔۔
"اچھا ٹھیک ہے اٹھو یہاں سے تھوڑا چلو صحیح ہو جائے گا۔۔" وہ اب اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اپنا ہاتھ انابیہ کی جانب بڑھا کر کہنے لگا۔ اس نے پہلے اسکا اپنی طرف بڑھتا ہاتھ دیکھا پھر اسکا چہرہ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے ہاتھ کو وہ نظرانداز کرتے خود اٹھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن نہیں اٹھ سکی۔
"تم میرے ہاتھ کا سہارا لے کر اٹھ سکتی ہو یقین جانو اس پر کانٹے نہیں لگے جو تمہیں چبھیں گے۔۔"کبیر کے چہرے پر بےپناہ سنجیدگی تھی۔۔کوئی اور آپشن نہیں تھا مجبوراً وہ اسکے ہاتھ کا سہارا لیتے بمشکل کھڑی ہوئ۔ وہ اب اسکا ہاتھ پکڑے باہر کی جانب لے جا رہا تھا۔
"افففف یہ کہاں سے آگیا ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔۔" فائزہ اپنے سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے کوفت سے کہا۔ انکو ساتھ جاتا دیکھ کر اسکو پھر غصہ آنے لگا۔
"یہاں بیٹھ جائو۔۔ اگر درد زیادہ ہو رہا ہو تو ڈاکٹر کے پاس لے جائوں؟؟" کبیر نے اسے بینچ پر بٹھاتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔
"نہیں اتنا بھی کچھ نہیں ہوا بس ہلکا سا پائوں مڑا ہے ابھی صحیح ہو جائے گا۔۔" وہ کہہ تو رہی تھی لیکن اسے واقعی بہت تکلیف محسوس ہورہی تھی۔۔
"بہتر۔۔ تو میں زارا کو بھجواتا ہوں۔ تمہیں کچھ چاہیے تو نہیں؟" وہ پھر فکرمندی مگر سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔۔ اس نے سر نفی میں ہلایا اور کبیر اس کا سامن اس کے ساتھ ہی بینچ پر رکھ کر الٹے پیر وہاں سے چلا گیا۔
"عجیب انسان ہے کبھی تو پیچھا ہی نہیں چھوڑتا اور آج جب مجھے چوٹ آئ ہے تو اکیلے چھوڑ کر چلا گیا۔ ہونہہ۔۔" اس کے جاتے ہی وہ ناک چڑھائے بڑبڑانے لگی۔ اس کے یوں چلے جانے سے اسے دکھ ہوا تھا۔
"نہیں یار تماشا بنانا تھا اسکا لیکن تمھارا ہیرو وہاں بھی ٹپک پڑا۔۔۔" فائزہ کان سے فون لگائے بولے جا رہی تھی پھر سامنے کھڑے شخص کو دیکھتے ہی چپ ہو گئ۔
"میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔" فون کان سے ہٹا کر وہ آگے بڑھی۔ کبیر دیوار سے ٹیک لگائے سرد نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔ بلیو ڈینم شرٹ اور بلیو ہی پینٹ پہنے وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔
"او ہائے۔۔ کیسے ہو کبیر بڑے دنوں۔۔۔۔"
"شششش!! میں یہاں تم سے ہیلو ہائے کرنے نہیں آیا ۔۔" کبیر نے ہاتھ اٹھا کر درشتی سے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ "بیا کو دھکا کیوں دیا تھا؟" اسکے لہجے میں سختی تھی۔۔
"میں نے۔۔۔" وہ مکرنے ہی والی تھی کہ کبیر دو قدم آگے آیا اور اس کو بولتے ہوئے پھر سے ٹوک دیا۔ "کوئی جھوٹ کوئی بکواس نہیں۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں پہچانتا نہیں ہوں۔۔ میں چاہتا تو اسی وقت تمہارے پیچھے آتا مگر مجھے بیا کی فکر تھی۔۔" وہ سردمہری سے بول رہا تھا۔ "اسے نقصان پہنچانے کی کوشش تمہیں بہت مہنگی پڑے گی فائزہ ۔ جس کے کہنے پر تم یہ سب کر رہی ہو نا اسکو تو میں دیکھ لوں گا۔۔" سرد لہجے میں وہ اسے تنبیہ بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے اور جویریہ کی کوئی غلطی نہیں ہے وہ تو بس تم سے محبت کرتی ہے۔۔" بولتے بولتے وہ پھر رکی۔۔
"ایک منٹ۔۔ جویریہ کا تو میں نے نام بھی نہیں لیا۔۔" ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی اسکے چہرے پر۔۔ "خیر جو بھی ہے آئندہ بیا کے آس پاس بھی مت نظر آنا ۔۔ فلحال تم صرف ایک کام کر سکتی ہو۔۔"
"کیسا کام؟؟" وہ تھوڑا اچنبھے انداز سے پوچھنے لگی۔
" گو اینڈ اپولوجائز ٹو ہر۔۔" اسکا انداز نہایت سپاٹ تھا۔
"میں اور معافی!!" ایک قہقہہ گونجا تھا فائزہ کا۔۔ کبیر کے ابرو تن گئے۔
"کبھی بھی نہیں۔۔کبیر میں نے آج تک کسی سے معافی نہیں مانگی ہیں۔۔ تمہیں کیوں لگتا ہے کہ میں تمھاری یہ فضول بات مانوں گی؟" اپنے ہاتھ سینے پہ باندھے وہ اسے طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔ جواباً کبیر نے بھی مسکراتے ہوئے سر نفی میں ہلایا اور اپنی جیب سے موبائل نکالا۔۔ موبائل کی اسکرین روشن کر کے فائزہ کے سامنے کی۔۔ جسے دیکھتے ہی فائزہ کے پیروں تلے سے مانو زمین نکل گئ ہو۔۔اسکی آنکھیں حیرت سے پھیلیں کیونکہ اسکرین میں ایک ریسٹورنٹ کی ویڈیو تھی جس میں فائزہ اور ایک لڑکا آمنے سامنےبیٹھے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے تھے۔ دونوں میں بےتکلفی واضح تھی۔ دیکھنے سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ ڈیٹ پہ ہی گئ تھی ۔ یک دم کبیر نے موبائل اسکے سامنے سے ہٹایا۔
" چچ چچ۔۔ شرم نہیں آتی تمہیں اپنے منگیتر کو دھوکہ دیتے ہوئے۔۔۔" وہ سر کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے جویریہ کے چہرے کی ہوائیاں اڑا گیا تھا۔
"یہ ۔۔یہ۔۔ کیا بکواس ہے کبیر؟؟" وہ قدرے بوکھلا کر رہ گئ۔
"بکواس نہیں ہے یہ تمہارے کرتوت ہیں ایک کلک کی دیر ہے اور یہ تمھارے فیانسی تک پہنچ جائے گی۔ تمہیں کیا لگتا ہے تم نے مجھ پر نظر رکھی ہوئ ہے اور میں پاگل ہوں جو سمجھتا نہیں ہوں۔۔ بہتری اسی میں ہے کہ جائو اور بیا سے معافی مانگو۔۔ " اس کا انداز فاتحانہ تھا۔۔
"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو ہاں۔۔۔" خوف سے اس کی آواز کپکپا گئ۔۔
"کبیر جہانگیر نام ہے میرا اور میں صرف دھمکیاں نہیں دیتا کر کے بھی دکھاتا ہوں۔۔ کہو تو کر کے بتاؤں؟؟" وہ اس کی اڑتی ہوئے رنگت دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔
"اوکے اوکے میں مانگوں گی معافی مگر پلیز اسکو ڈیلیٹ کردو میری زندگی تباہ ہو جائے گی۔۔" جو اب تک اکڑ دکھا رہی تھی ایک دم سہم گئ۔ اسے لوگوں کو زمین پر پٹخنے آتا تھا۔۔
"نو وے۔۔ڈیلیٹ تو میں کبھی نہیں کروں گا سیفٹی کے لیے ضروری ہے۔۔۔ کیا ہے نا مجھے تمہارا اور جویریہ کا ذرا بھروسہ نہیں ہے۔۔ لیکن تم فکر نہ کرو یہ میرے پاس سیف رہے گی۔۔ میں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے والا انسان نہیں ہوں یہ کام تم لوگوں پہ ہی جچتا ہے مگر۔۔۔" انگلی اٹھا کے وارننگ دیتے ہوئے وہ بولا۔۔ "بیا کو نقصان پہنچانے والوں کی میں جان لینے سے بھی انکار نہیں کروں گا۔سمجھی۔۔اب بلکل سیدھا چلو شاباش وہ گراونڈ میں ہے۔۔" فائزہ نے ہار مان لی تھی اور اترا ہوا چہرہ لیے وہ بوجھل قدموں کے ساتھ آگے کو چلنے لگی۔۔
"حد ہی ہو گئ ہے ویسے اتنی بھی کیا قیامت آئ ہوئ تھی جو تمھیں دھکا ہی مار گئ۔۔" زارا اس کا ہاتھ پکڑے اسے گراونڈ میں چلا رہی تھی۔۔
"چھوڑو بھی ویسے بھی دیکھو اب میں ٹھیک ہوں۔۔" زارا کا ہاتھ چھوڑ کے وہ اب خود چلنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
"ایکسکیوز می۔ " انابیہ کو اپنے پیچھے کسی کی آواز آئی تو وہ فوراً مڑ گئ۔۔ "ہیلو۔۔" فائزہ اسکو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
"ہیلو۔۔ ایم سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔۔" وہ بھی مسکرا کر اسے انجان نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
"وہ دراصل میں آپ سے اپولوجائز کرنے آئ تھی۔۔" اسی دوران کبیر بھی انکے ساتھ آ کھڑا ہوا۔
"مگر کس لیے؟؟" وہ تھوڑا حیران ہو کر پوچھنے لگی۔
"وہ میں ذرا جلدی میں تھی تو غلطی سے آپ کو دھکا مارتے نکل گئ ۔۔ میں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔۔ آئ ہوپ آپ مجھے معاف کر دیں گی۔۔" وہ نہایت اداکاری سے کہے جا رہی تھی۔
"جھوٹی!!" کبیر دل ہی دل میں بڑبڑایا۔۔ "افسوس کی بات ہے کہ آپکو اتنی بڑی لڑکی نظر نہیں آئ مانا کہ چاول کے دانے جتنا اسکا وزن ہوگا مگر ہائٹ میں تو اچھی خاصی ہے۔۔۔" کبیر نے انابیہ کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔۔ جبکہ وہ اپنے وزن کی بے عزتی سنتے ہی دانت پیس کر اسے گھورنے لگی۔ وہ اب اتنی بھی پتلی اور کمزور نہیں تھی ہونہہ۔۔
"نہیں کوئی بات نہیں آپ نے سب جان کے تو نہیں کیا غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے۔۔" اب کی بار وہ فائزہ کی طرف متوجہ تھی۔
"میں جانتی تھی آپ مائینڈ نہیں کریں گی تھینکس اب چلتی ہوں۔۔" اس نے بیا کو مسکرا کر دیکھا اور پھر ایک غصیلی نظر کبیر کو دیکھا جو پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اطمینان سے کھڑا تھا۔اسکے جانے کے بعد انابیہ مکمل طور پر کبیر کی جانب گھومی۔
"ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم۔۔ چاول کے دانے جتنا وزن۔۔ ہاں۔" وہ سینے پر ہاتھ باندھے غصے سے بولی۔جواب دینے کے بجائے کبیراپنے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔
"میرے خیال سے کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے چلنا چاہیے۔۔" وہ اسکے پاس سے ہو کر جانے ہی والا تھا کہ انابیہ نے یکدم اسکی کلائ سختی سے پکڑ لی۔۔۔ "میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔۔ جواب دیے بغیر نہیں جا سکتے تم۔۔"
کبیر نے ایک نظر اپنی کلائ کو دیکھا اور پھر اسی طرح سے مسکراتے ہوئے انابیہ کو۔
"اس چاول کے دانے کے برابر وزن کی لڑکی کی گرفت تو بڑی مضبوط ہے۔۔" بیا نے اپنے ہاتھ کو دیکھا اور ایک دم کرنٹ کھا کر پیچھے ہوئ وہ واقعی غصے میں تھی اسے سمجھ ہی نہیں آئ کب اسنے اسکی کلائ پکڑ لی۔ وہ اسے مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے بغیر اسے دیکھے وہاں سے چلا گیا اور وہ وہیں بت بنے کھڑی رہی۔
"اہمم اہمم۔۔ لڑکی کہاں کھو گئ؟؟" زارا اپنا گلہ کھنکارتے اسکی طرف آئ۔
"کک کہیں نہیں۔۔" وہ سر جھٹک کے رہ گئ۔
"یہاں لوگوں کو محبتیں ہو رہی ہیں اور میرے تو مسئلے ہی ختم نہیں ہو رہے۔۔" زارا اپنے چشمے کے شیشے صاف کرتے ہوئے افسوس سے بولی۔
"کسے ہو رہی ہیں محبتیں ذرا تفصیل بتانا پسند کروگی اور یہ تمھارے کونسے مسئلے ہیں جو ختم نہیں ہو رہے؟؟"
"میری نظر دن بہ دن خراب ہو رہی ہے یار اور رہی بات محبتوں کی تو میں تھوڑی اندھی ضرور ہوں لیکن بچی نہیں ہوں سمجھتی ہوں سب۔۔" اسے گھور کر وہ دوبارہ اپنے چشمے کی طرف متوجہ ہو گئ۔
"ایسی بات نہیں ہے وہ تو بس میں غصے میں ۔۔۔"
"ہاں وہ تو بس تم غصے میں لوگوں کی کلائ پکڑ لیتی ہو بلکہ نہیں ۔۔ لیٹ می کریکٹ مائ سینٹینس۔۔صرف کبیر کی کلائ پکڑ لیتی ہو ہینا۔۔۔" کہتے ساتھ اس کی ہنسی چھوٹی۔
"مجھے نہیں پتہ بس کیا مسئلہ ہے؟ چلو کلاس کے لیے جانا ہے۔۔" زارا کا ایک قہقہہ تھا جو ہوا میں گونجا تھا پھر وہ بھی بیا کے پیچھے چل دی۔
●●●●●●●●●●●●●
وہ اپنی کار میں بیٹھی گھر جا رہی تھی اسی دوران اسکا فون بجنے لگا اور تبھی اس نے دیکھا کال ردا کے کالج سے تھی۔ اس نے پریشان ہوتے ہوئے کال آنسر کر کے فون کان سے لگایا۔
"ہیلو یار آپی کہاں ہیں آپ اسوقت؟" ردا کندھے سے بیگ لگائے پرنسپل کے آفس میں کھڑی تھی مناہل بھی اسکے پیچھے ہی صوفے پر بیٹھی تھی۔
"میں گھر جا رہی ہوں خیریت اتنی پریشان کیوں ہو کیا ہوا؟"
"جی بس خیریت ہے آپ ہمیں لینے آ سکتی ہیں ہماری وین والا نہیں آیا۔۔ باقی میں آپ کو بعد میں بتاتی ہوں۔۔" وہ نہایت عجلت میں بول رہی تھی۔۔
" ہاں میں آجاتی ہوں۔۔ ۔" کال کاٹتے ہی اسنے ڈرائیور سے گاڑی کالج کی طرف لے جانے کو کہا۔۔
کالج پہنچتے ہی وہ خود گاڑی سے نکلی اور اپنی دونوں بہنوں کو بلوایا۔۔ ردا اور مناہل دونوں ساتھ باہر نکلی تبھی مناہل خوشی سے انابیہ کے گلے لگی۔ اسنے منو کا بیگ لیا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا جبکہ ردا کا میٹر بہت گھوما ہوا تھا رہی سہی کسر بائک والے نے نکال دی۔۔
"دیکھ رہی ہیں آپی منحوس مارا کیسے گندی نظروں سے گھور رہا ہے جیسے کوئی شو پیس ہوں میں۔ دل تو کر رہا ہے جا کر اسکی ٹانگیں توڑ دوں۔ڈھیٹ نہ ہو تو۔۔" وہ دانت پر دانت جمائے غصے سے اس بائیک والے کو گھورتے ہوئے بولی۔
"انسان بنو ردا تم مت دیکھو اسے اور گاڑی میں بیٹھو۔۔۔" اسے اب اپنی بہن پہ غصہ آنے لگا ۔ردا ناک چڑھاتے گاڑی میں بیٹھ گئ۔
"ہاں تو اب بتائو وین والا کیوں نہیں آیا؟؟" گاڑی جب سڑک پر چلنے لگی تب انابیہ نے ردا سے پوچھا۔
"صاحب جی بیمار پڑ گئے اچانک ۔۔ گاڑی چلانے کے قابل نہیں تھے تو نہیں آئے۔۔" ردا اب تک غصے میں تھی۔۔
"ایسے نہیں کہتے کیا پتہ زیادہ بیمار ہو۔۔" وہ اسے ٹوکتے ہوئے بولی۔
"ہاں تو انسان ٹائم پر بتاتا ہے نا کہ میں آج نہیں آ سکوں گا موت کا فرشتہ انتظار کر رہا ہے میرا۔۔ تاکہ ہم کوئ بندوبست کر لیتے ٹائم پر۔۔ حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی بھی۔۔" اصل غصہ اسکا یہی تھا کہ وہ آدھا گھنٹہ لیٹ تھی۔
"توبہ توبہ!! ردا تم کتنی بدتمیز ہو۔۔" انابیہ سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے افسوس سے بولی۔
"کیا کہا میں بدتمیز ہوں؟؟ آپی ہم آدھا گھنٹہ اسکا انتظار کرتے رہے ہیں تب جا کے اسکی فون آئ۔۔ سوچیں اگر آپ فارغ نہ ہوتی تو کیا ہم اندر ہی بیٹھے رہتے۔۔" اس نے سخت نظروں کا رخ انابیہ کے چہرے کی طرف کیا۔۔
"ہاں تو میں چاہے کتنا بھی بزی ہوتی تم لوگوں کو لینے ضرور آتی ایسے اکیلا نہ چھوڑتی اور ایک اور بات ردا تم اچھی خاصی بڑی لڑکی ہو کوئ دیکھ بھی رہا ہو تو اسے آگے سے گھورتے نہیں ہیں ۔" اس کا اشارہ اب اسی بائک والے کی طرف تھا۔۔
"اور وہ جو پوری کی پوری آنکھیں نکال کر مجھے دیکھ رہا تھا اس کا کیا؟ اور ویسے بھی میں نے کونسا سچ میں اسکی ٹانگیں توڑ دی مجھے بس اس پر غصہ آرہا تھا۔۔" وہ سینے ہر ہاتھ باندھے رخ کھڑکی کی طرف موڑتے ہوئے بولی۔
"کسی کی ٹانگیں توڑنا آسان کام نہیں ہے۔۔ اللہ نہ کرے تمہارا کبھی ایسے لوگوں سے پالا پڑے۔۔"
"ایک دن توڑ کے دکھائوں گی آپکو۔ ردا سب کر سکتی ہے ۔۔" اپنا حجاب سیٹ کرتے ہوئے وہ لٹھمار انداز سے بولی۔ وہ چاہے کچھ بھی کہے کرنی ردا نے اپنی ہی منمانی ہے۔ سر نفی میں ہلا کر وہ مناہل کی طرف مڑی جو کب سے باہر دیکھ رہی تھی۔۔
"منو کیا دیکھ رہی ہو باہر؟؟" اسکی آواز سنتے ہی مناہل نے اپنا رخ انابیہ کی جانب موڑا۔۔
"آپی آئسکریم والے کو ڈھونڈ رہی ہوں۔۔" مناہل تھی تو میٹرک کی سٹوڈنٹ لیکن انداز کیا معصومانہ تھا۔ یہ تینوں بہنیں ایک دوسرے کی فوٹوکاپیاں تھیں تینوں ہی بہت خوبصورت بس مناہل اور انابیہ ذرا دکھنے میں پتلی تھیں جبکہ ردا صحت میں دونوں سے اچھی تھی اور قد میں تو تینوں ہی برابر تھیں۔
"بھائ کہیں آئسکریم پارلر دکھے تو روک دیجئے گا۔ میں ذرا ماما جان کو بتا دوں وہ بہت پریشان ہونگی۔" کہتے ساتھ اس نے موبائل پر ان کا نمبر ملایا۔گاڑی ہنوز سڑک پر چل رہی تھی۔۔
●●●●●●●●●●●●●
"آپ کیا کر رہی ہیں؟؟" شام کے پانچ بجے کا وقت تھا
۔ ناہیدہ اپنے کمرے کی الماری میں کپڑے ترتیب سے رکھ رہی تھیں تبھی انابیہ ہاتھ میں دو کپ چائے کے لیے کمرے میں داخل ہوئ تو ماما جان کو کام کرتا دیکھ کے پوچھنے لگی۔
"کچھ نہیں تمہارے بابا کے کپڑے سمیٹ رہی ہوں۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" انکی اس کی طرف پشت تھی اور وہ اسی طرح مصروف انداز میں بولیں۔
"کیوں میں نہیں آسکتی کیا؟" کپ ٹیبل پہ رکھ کر وہ بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گئ۔۔
"آسکتی ہو ۔۔ تم کم ہی آتی ہو نا آجکل تو ویسے بھی بزی ہوتی ہو تم اس لیے کہہ رہی تھی۔۔" اسے لگا شاید وہ شکوہ کر رہی ہیں۔
"ایسا نہیں ہے ۔۔ میں اتنی بھی بزی نہیں ہوتی۔۔" اس نے سادگی سے جواب دیا جس پر ناہیدہ نے کچھ نہیں کہا۔ کچھ پل خاموشی چھا گئ۔۔
"اگر آپ کام کر رہی ہیں تو میں چلی جاتی ہوں بعد میں آجائوں گی۔۔"
"نہیں بیٹھو یہیں۔۔ ایک تو تم ناراض جلدی ہو جاتی ہو۔۔"وہ مکمل طور پر اس کی طرف گھومی تبھی انکی نظر صوفے کے پاس ٹیبل پہ پڑی چائے کی طرف گئ۔ " اور بتا تو دیتی چائے لائ ہو بڑا دل تھا میرا۔۔۔" بولتے بولتے وپ صوفے پر جا بیٹھیں۔
"اب آجائو بیا چائے ٹھنڈی ہو جائے گی۔۔" ان کی آواز پر وہ قدم اٹھاتی انکے پاس جا بیٹھی۔۔
"ردا اور منو کدھر ہیں؟؟ " وہ اب ساتھ ساتھ چائے کے گھونٹ بھر رہی تھیں۔
"ردا تھکی ہوئ تھی تو سو گئ اور منو اوپر چھت میں پڑھنے گئ ہے میں بور ہو رہی تھی سوچا چائے بنا کے آپ کے پاس ہی لے آئوں۔۔"
"اچھا کیا بہت ۔۔۔" کچھ دیر خاموش رہ کر وہ ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔۔
"ماما جان۔۔" وہ تھوڑا رکی۔۔ " ایک بات پوچھوں؟"
"بلکل پوچھو۔۔" انکی نظریں اب اس کے چہرے پر تھیں۔ گہرا سانس بھر کر اس نے بولنے کے لیے ہمت مجتمع کی۔
"بابا مجھ سے اب اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ وہ پہلے تو ایسے نہیں تھے۔۔" اسکے چہرے پر کرب آسانیے پرکھا جا سکتا تھا۔ جبکہ ناہیدہ اسکی بات پر کافی حیران ہوئیں۔
"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟؟ ایسا نہیں ہے بیا وہ تم سے نفرت نہیں کرتے بیٹی ہو تم ان کی۔۔" آواز میں نرمی تھی البتہ حیرت کا وجود ویسا ہی تھا۔
"یہی تو مسئلہ ہے کہ میں انکی بیٹی ہوں بیٹا نہیں۔ انہیں اب میں بوجھ لگتی ہوں نا ایسا ہی ہے نا؟" وہ زخمی انداز سے مسکرائ۔
"اب تم غلط بات کر رہی ہو۔۔۔ وہ تھوڑے سخت ضرور ہیں مگر نفرت نہیں کرتے۔۔" ناہیدہ کے لیے اس بار نرمی برتنا تھوڑا مشکل ہو گیا تھا۔
"ایک ہی بات ہے۔۔۔" بےزاری سے کہتے ہوئے اس نے ٹیبل پر پڑا اپنا کپ اٹھایا۔
"ایک ہی بات نہیں ہے۔ سخت ہونے اور نفرت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ وہ تھوڑی سختی کرتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ تم لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں وہ فکر کرتے ہیں کہ کوئ اونچ نیچ نہ ہو جائے۔۔اگر نفرت کرتے ہوتے تو پرواہ نہ کرتے۔ اور تمہارے دماغ میں یہ باتیں کہاں سے آتی ہیں؟؟ کم یوز کیا کرو موبائل کم دیکھا کرو ڈرامے۔۔۔" ان کی سخت نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ انابیہ کو ان کی آخری بات بری لگی تھی کیونکہ اس کے مطابق وہ بھی اچھے سے جانتی تھیں کہ وہ زیادہ ڈراموں کی شوقین نہیں ہے۔
"تو ان سب کا پڑھنے سے کیا تعلق ہے ماما جان؟تعلیم تو ہمیں مضبوط بناتی ہے حالات سے لڑنا سکھاتی ہے خودمختار بناتی ہے۔۔" وہ چائے کا گھونٹ بھر کر اب کی بار تھوڑا اونچی آواز میں بولی۔
" پڑھو لیکن دنیا کی نظروں میں آئے بغیر۔بس تمھارے بابا چاہتے ہیں جس طرح میں نے اور باجی نے چار دیواری میں عزت سے زندگی گزاری ہے تم لوگ بھی گزارو۔۔" ان کے بولتے ہی وہ فوراً سے تیزی سے بولی۔
"نہیں ماما مجھے نفرت ہے چار دیواری سے مجھے گھٹن ہوتی ہے۔ میں عام لڑکی بن کر نہیں رہنا چاہتی۔ میں یہ دیواریں توڑنا چاہتی ہوں اور میں توڑوں گی۔۔" اس نے اپنا لہجہ مضبوط کرتے ہوئے سختی سے کہا۔ ناہیدہ آنکھیں چھوٹی کیے غصے سے اسے دیکھے گئیں۔
"اب توڑ دی نا دیواریں ہو گیا نا یونیورسٹی میں پڑھنے کا خواب پورا۔۔ اب پڑھو اور بنو خاص لڑکی۔فضول باتیں مت سوچا کرو تم کچھ نہیں جانتی۔۔۔" اب کی بار وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دوبارہ الماری کی طرف بڑھ گئیں ۔ انابیہ نے خفگی سے ان کے کپ کو دیکھا جس میں چائے اب بھی باقی تھی۔
"کیا نہیں جانتی میں آپ بتا دیں نا۔۔ " وہ بھی اٹھ کر ان کے پیچھے چل دی۔۔"ہمارے ہاں رواج نہیں ہے حد سے زیادہ پڑھنے کا کہاں ہیں وہ لوگ جنھوں نے یہ رواج رکھا ہوا ہے؟ کس کا ڈر ہے کہاں ہے ہمارا خاندان؟؟" وہ روانی میں ان سے سوال کرتی گئ۔
"ہمارا خاندان صرف ہم ہیں اور کوئ نہیں آئندہ مجھ سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھنا میرے پاس جواب نہیں ہے ہمت ہے تو جائو اپنے بابا سے پوچھو۔۔" وہ اسے سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے بولیں۔
"ٹھیک ہے نہ بتائیں پھر مجھ سے مت کہا کریں کہ کیا فضول سوچتی ہوں مجھے جو صحیح لگتا ہے وہی سوچتی ہوں۔۔"
"تو تم یہاں مجھ سے باتیں نہیں اپنا دفاع کرنے آئ ہو۔۔" انھوں نے پلٹ کر ایک بار پھر چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
"میں اپنا دفاع کرنے نہیں آئ۔۔ میں۔۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے رکی اور ایک گہری سانس لیتے دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئ۔ناہیدہ سر جھٹک کر دوبارہ الماری کی طرف متوجہ ہو گئ۔
"میں عالیان سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔" اسکی یہ بات سنتے ہی ناہیدہ تیزی سے دوبارہ اسکی طرف گھومی۔
"تمھارے ساتھ کیا مسئلہ ہے بیا؟ کیوں ایک کے بعد ایک نیا دھماکہ کرتی ہو ہمارے سر پر؟؟ اب عالیان میں کیا برائی دکھ گئ تمہیں؟؟" وہ ایک ہی سانس میں بولے جا رہی تھیں۔۔
"بس مجھے نہیں کرنی ماما وہ بھی نہیں کرنا چاہتا اسے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے مجھ میں ۔۔ وہ اپنی زندگی میں خوش ہے۔۔" نظریں فرش پہ ٹکائے وہ بول رہی تھی۔۔
"یہ سچ نہیں ہے۔۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ جانے سے پہلے تم سے منگنی کرکے نہ جاتا۔۔ اور تمہیں تو وہ پسند تھا اب کیا ہو گیا؟؟؟ ایک بات یاد رکھنا تمھاری شادی اگر ہوئ تو اسی سے ہوگی سمجھی۔" ان کا انداز تنبیہی تھا۔۔
"پہلی بات تو یہ کہ کوئ منگنی نہیں ہوئ تھی بس بات ہوئ تھی آپ تینوں بڑوں کی۔۔ دوسری بات وہ میرا بچپنا تھا صحیح غلط انسان کی پہچان نہیں تھی مجھے۔۔ تیسری بات وہ ایک نہایت گھٹیا انسان ہے نہایت گندے کام کرتا ہے۔۔۔۔ چوتھی اور آخری بات میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔ سمجھی آپ؟" یہ سب غصے میں کہتے ہی وہ رکی نہیں اور تیز تیز قدم لیتے وہ وہاں سے چلی گئ۔ ناہیدہ الماری کے دروازے کا سہارا لیے پریشان کھڑی رہی۔ کمرے کے باہر دیوار کے اس پار کھڑا شخص سب سن چکا تھا۔ احمد صاحب ایک ضروری فائل لینے گھر آئے تھے اندر کمرے سے ان دونوں کی آوازیں سنتے ہی وہ اوٹ میں کھڑے ہو کر ان کی گفتگو سننے لگے تھے۔ ایک گہرا سانس لیتے دوبارہ باہر کی طرف جانے لگے۔ وہ کیا لینے آئے تھے سب بھول گئے تھے دماغ میں کچھ چل رہا تھا تو وہ صرف انابیہ کی باتیں تھیں۔
"افف۔ مجھے اتنی اونچی آواز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی ماما جان سے۔۔" اپنے کمرے میں آتے ہی وہ سر پہ ہاتھ رکھے چکر کاٹنے لگی۔۔ تبھی مناہل سیڑھیاں پھلانگتے نیچے آئ۔
"یہ موٹی ابھی تک سو رہی ہے۔۔ شرم آنی چاہئے اسکے پیپرز ہیں۔۔۔" مناہل ہاتھوں میں کتابیں پکڑے اپنی بہن کو سوتا ہوا دیکھ کے بولی۔۔
"منو!! وہ بڑی ہے تم سے۔۔" پھر رک کر ردا کی طرف دیکھا۔ " اچھا تو اسکے پیپرز بھی ہیں؟ اور دیکھو کیسے گدھے گھوڑے بیچ کے سوئ ہوئ ہے۔۔۔"
"وہی تو کوئی ٹینشن ہی نہیں ہے۔۔ اور دیکھنا آدھی رات کو اٹھ کے شور کرے گی کہ مجھے تو کچھ یاد ہی نہیں ہے۔۔۔" مناہل منہ چڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔
"تم دونوں کی بہتری اسی میں ہے کہ چپ ہو جائو کیونکہ میں جاگ رہی ہوں سمجھ آئ؟" ردا منہ پر چادر لیے بغیر ان دونوں کو دیکھے تھوڑا غصے سے بولی جبکہ انابیہ اور مناہل کا منہ کھل گیا۔۔
"اچھا تو میڈم جاگ رہی ہیں ڈرامے باز۔۔۔" بیا کمر پہ ہاتھ رکھے اسے گھورنے لگی جو کروٹ دوسری طرف لیے لیٹی ہوئ تھی۔۔۔
"ہا ہا ہا ۔۔۔ چھوڑیں آپی ذرا مجھے یہ سوال تو سمجھا دیں میتھس کا۔۔" مناہل ڈانت نکالتے ہوئے بولی۔۔۔
"لائو سمجھاتی ہوں۔۔" اس نے حامی بھرتے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔
●●●●●●●●●●●●
"فلحال تو میرا مشورہ یہی ہے کہ تم ابھی اس سے نہ ملو۔۔" وہ دونوں لائونج میں صوفے پر بیٹھی تھیں۔۔ جویریہ ہاتھوں میں کشن رکھے آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی اور فائزہ اسکی طرف منہ کیے صوفے سے پشت لگائے بیٹھی تھی۔۔۔
"کیوں نہ ملوں؟؟ میں ملوں گی اس سے پوچھوں گی کہ آخر کیا ہے اس لڑکی میں؟؟ کیوں اسے میری محبت نہیں دکھتی؟" اسکی آواز تھوڑی اونچی تھی۔۔
"اور اس سب سے کیا ہوگا؟ وہ جب تک خود نہیں چاہے گا وہ تمہارا نہیں ہو سکتا وہ شاید محبت کرنے لگا ہے اس سے۔"
"میں محبت کرتی ہوں اس سے سمجھی تم وہ صرف میرا ہے اسے ہونا ہوگا۔۔" وہ غصے سے دھاڑنے لگی۔۔
"کیا ہو گیا ہے پرسکون ہو جائو۔۔" فائزہ اسے سنبھالتے ہوئے بولی۔۔
"کچھ کرو نا یار تم ہی کچھ کر سکتی ہو۔۔" وہ فائزہ کی طرف چہرہ موڑتے ہوئے بےبسی سے بولی تھی۔۔ اسکی یہ بات سنتے فائزہ نفی میں سر ہلانے لگی۔۔
"نہیں۔۔ میں کچھ نہیں کر سکتی اب۔۔ جانتی ہو نا کہ وہ ویڈیو اب بھی اسکے پاس ہے بہت چالاک ہے وہ۔۔ میرا ذرا سا قدم میرے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔۔ میرا باپ تو مجھے جان سے ہی مار دیگا۔۔ شاید اسے ہم پر پہلے سے ہی شک تھا سب کچھ ایڈوانس میں تیار کر رکھا ہے۔۔"
"یعنی تم ہار مان رہی ہو۔۔ اپنی دوست کو اکیلا چھوڑ دو گی تم؟؟" جویریہ کے چہرے پر زخمی سا تاثر تھا۔۔
"نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے لیکن تم بھی تو سمجھنے کی کوشش کرو نا یار میں اب اس لڑکی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔۔" وہ پھر ناامیدی سے بولی۔۔ جویریہ نے اپنا چہرہ واپس کشن پر جھکا لیا۔۔
"اوکے فائن میں ایک کام کر سکتی ہوں اور وہ یہ کہ میں تمہیں اس لڑکی کی سب انفارمیشن لا کر دونگی اسکو کس طرح استعمال کرنا ہے کیا کرنا ہے یہ سب اب تم خود سوچو گی۔۔" وہ اب اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بول رہی تھی۔۔ " اسے کبیر کی زندگی سے کیسے نکالنا ہے سب کچھ تم ہی کر سکتی ہو لیکن خیال رکھنا کہ نہ تمھارا نام آئے نہ میرا سمجھی۔۔"اسے دیکھتے ہوئے جویریہ نے محض سر اثبات میں ہلایا۔لیکن شاید وہ یہ نہیں سمجھتی تھی کہ دو لوگوں کو جدا کر کے انسان کبھی اپنی جگہ نہیں بنا سکتا کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔
●●●●●●●●●●●●●●●