Share:
Notifications
Clear all

Dehliz k Paar Woh Season 2 Episode 3

1 Posts
1 Users
0 Reactions
250 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  

NOVELS HUB SPECIAL NOVEL

قسط نمبر 3

 

وہ بالکل اس کے سامنے تھا۔ سفید پوری آستین کی ٹی شرٹ نیلی جینز پر پہنے سیاہ لیدر جیکٹ ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔ چہرے پر وہی ازلی سنجیدگی تھی جو اس چہرے کا ہمیشہ سے خاصا تھی۔  ان دونوں کے چہرے حیرت کا شکار تھے۔ صلاح کے چہرے پر جہاں بے بسی تھی وہیں روپا دیوی کا چہرہ عجیب سے تاثرات دے رہا تھا۔ وہ کم از کم آج کے دن اس شخص کو اپنے سامنے دیکھنے کی امید نہیں کررہی تھی۔ وہ قدموں کا فاصلہ عبور کرتے ہوئے ان دونوں کے نزدیک آ گیا۔ چہروں پر پھیلی ہوئی حیرت میں اب یک مشت ہی کمی در آئی تھی گو کہ اس حیرت کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا تھا۔

"کیسی ہیں آپ میڈم صلاح خاور؟ لانگ ٹائم نو سی۔" جیکٹ ہاتھ سے بازو پر منتقل کرتے ہوئے اس نے کہا تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گئی وہ اس شخص سے زیادہ عرصہ تک چھپ نہیں سکتی تھی۔ وہ اس کی گرد پا لیتا تھا وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اس کا ماضی، اس کا حال اور شاید اس کا آنے والا مستقبل بھی اسی کے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا۔

                           *************

سکردو کا موسم ہمیشہ کی طرح یخ سرد تھا۔ نومبر کے وسط میں ہی برف باری کا آغاز ہو چکا تھا۔ تمام سبزہ سفید روئی کے گالوں تلے چھپ گیا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ اسے آج بیس رپوٹ کرنا تھی کہ وہ سکردو واپس آ کر اپنی ڈیوٹی جوائن کر چکا ہے۔ ملٹری جیپ بیس کے احاطے میں ٹھہری تو وہ پیسنجر سیٹ سے نیچے اتر آیا۔ آسمان پر مدہم سا سورج چمک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کالے چشمے تلے چھپی ہوئی تھیں اس لیے ان میں نظر آتا سرد تاثر اس لمحے بالکل پوشیدہ تھا۔ احاطے سے سیدھا جاتے ہوئے وہ دو تین سیڑھیاں چڑھا اور بائیں جانب موجود میجر اختیار الدین کے دفتر کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہو گیا۔ میجر اختیار الدین اپنی راکنگ چئیر پر براجمان کسی نقشے کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔ جا بجا سرخ قلم سے نشان بناتے وہ اس قدر مگن تھا کہ عنصب کی موجودگی بھی اس کی محویت توڑ نہیں پائی تھی۔

"اسلام علیکم میجر!" عنصب نے چشمہ اتار کر میز پر رکھتے ہوئے کہا تو وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔ چہرے پر لمحے کے ہزاویں حصے میں مسکراہٹ ابھری تھی۔

"شکر ہے تمہارا دیدار بھی نصیب ہوا ورنہ مجھے تو لگا تھا اس بار پشاور گئے ہو تو کوئی دل ول ہی لگ گیا ہے جو واپس آنے کا موڈ ہی نہیں بن رہا تھا جناب کا۔" اختیار نے نقشہ بند کر کے ایک جانب کو رکھتے ہوئے شوخی سے کہا تو بلا ترغیب وہ چہرہ ایک بار پھر سے آنکھوں کے پردوں پر لہرایا۔ عنصب نے سر جھٹک کر وہ خیال رد کیا اور ایک بار پھر اختیار کی جانب متوجہ ہو گیا جو زیرک نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ تم اپنا دل ول تو کہیں پشاور ہی چھور آئے ہو میجر صاحب گمشدہ محبت میں گرفتار ہوئے لگتے ہیں۔" اختیار کا لہجہ شرارتی تھا جبکہ عنصب نے اسے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا تھا۔

"اپنی بکواس بند کرلو کچھ بھی بولے جاتے ہو جس کام سے تمہیں یہاں بٹھایا ہے اس کے بارے میں بات کرو بتاؤ نقشے سے کیا ملا ہے؟" وہ اسے گھرکتا ہوا اس کے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا جبکہ اختیار سر جھٹکتا ہوا ایک بار پھر سے نقشے کی جانب متوجہ ہو گیا۔ جہاں اس نے پندرہ جگہ سرخ نشان بنا رکھے تھے۔

"ہاں یہ دیکھو یہ نقشہ ہے ورلڈ میپ یہاں پندرہ جگہ میں نے مارک کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پندرہ ملک ایسے ہیں جہاں گینگسٹر ایگزیسٹ کرتے ہیں آئی مین یہ معمالک کرائم پرابلمز زیادہ فیس کررہے ہیں۔" عنصب کرسی پر بیٹھا ہوا بغور اسے سن رہا تھا جو اپنا کیا ہوا ہوم ورک کھولے اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔

"پہلا ملک ہے اٹلی،یہ دوسرا مَلی پھر موزمبیک،جو نیا،یمن،پیرو،چڈ،کولمبیا،جمائقہ،رشیا۔" یہ دس ملک ایسے ہیں جہاں باقائدہ ہتھیار بنائے جاتے ہیں لیکن جس قسم کے ہتھیار ہمارے ملک میں سپلائی کیے گئے ہیں وہ صرف پانچ ملک بنا رہے ہیں ایک اٹلی،موزبیک، یمن،کولمبیا اور رشیا اب ان پانچ معمالک میں سے وہ کونسا ملک ہے جہاں سے پاکستان سمگلنگ کی جا رہی ہے یہ بتا پانا فی الحال مشکل ہے عنصب! لیکن میں اس پر بھی کام کررہا ہوں انشاءاللہ جلدی پتا چل جائے گا۔" اختیار نے نقشہ تہہ کر کے ایک جانب کو رکھتے ہوئے کہا تو عنصب گہری سانس بھر کر سر اثبات میں ہلا گیا۔

"جلدی پتا لگاؤ اختیار ورنہ چیزیں ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گی۔" عنصب نے آرام دہ انداز میں کمر کرسی کی پشت سے ٹکائی تھی۔ اختیار اثبات میں سر ہلا کر خود بھی آرام دہ انداز میں بیٹھا تھا۔

"اب بتاؤ یہ پشاور والا کیا چکر ہے؟" فون کا رسیور اٹھا کر دو چائے کا آڈر کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر سے اس کے لتے لینے کی بابت سوچا تھا جس پر عنصب نے ایک بار پھر سے کھا جانے والی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔

"تم پشاور کے پیچھے ہاتھ دھو کے کیوں پڑ گئے ہو؟" وہ اب کی بار اچھا خاصا زچ ہوا تھا۔ اختیار کو اس کی حالت نے مزہ دیا تو وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا۔

"کیونکہ تم کچھ ادھورے ادھورے سے لوٹے ہو عنصب جہانگیر میں وہ بات نظر نہیں آرہی جو ہمیشہ ڈیوٹی آورز میں اس میں ہوتی ہے یوں محسوس ہو رہا ہے کسی خواہش نے تمہارے دل میں جنم لیا اور تم اس خواہش کے پورا ہونے کے مطمنی بھی ہو۔" پیون چائے کی ٹرے لیے اندر داخل ہوا تو وہ کچھ دیر کے لیے خاموش سا ہو گیا۔

"خواہشوں کا کیا ہے یہ تو جنم لیتی رہتی ہیں ضروری تھوڑی ہے ہر خواہش پوری ہونے کے لیے ہو کچھ چیزیں وقتی بھی تو ہوتی ہیں۔" وہ ہار رہا تھا اس جنگ سے جو گزشتہ رات سے اس کے اندر چل رہی تھی اور جس کو بارہا وہ جھٹلا کر خود کو تسلیاں دے چکا تھا۔

                         ************

خوف انسان کو اندر سے کھا جاتا ہے بالکل دیمک کی طرح قطرہ قطرہ کر کے دھیرے دھیرے جب تک انسان اپنے اندر کے خوف سے لڑنا نہیں سیکھ لیتا وہ کبھی اسے ہرا نہیں سکتا اور لڑے بغیر ہار مان لینا تو ویسے ہی بزدلوں کی نشانی ہوتی ہے۔ قانون کی ڈھیروں کتابیں اس کے سامنے رکھی ہوئی تھیں اور خود اس کا دماغ ڈاکٹر احمر قیوم کے جملوں میں الجھا ہوا تھا۔ عجیب انسان تھا وہ کبھی لفظوں سے علاج کرتا تو کبھی قرآن کی آیات سے مگر جو بھی تھا اس کے کلینک میں ایک سکون تھا جو میرال کو ہمیشہ اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا تھا۔

"انسان کو لوگوں اور وقت سے لڑنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور طاقت تب میسر آتی ہے جب آپ طاقت کماتے ہیں۔" احمر قیوم کا ایک اور جملہ کانوں میں گونجا تھا۔

"اب طاقت کیسے کمائی جاتی ہے اپنی فیلڈ میں مہارت حاصل کر کے آپ لا پڑ رہی ہیں میرال وکالت بذاتِ خود ایک طاقت ہے جو آپ اپنی محنت سے اور لگن سے ہی حاصل کرسکتے ہیں اس میں کی گئی لاپرواہی آپ کو قانون اور طاقت دونوں سے دور لے جائے گی۔ " یہ اس دن کے سیشن کی آخری گفتگو تھی جو ڈاکٹر احمر اور اس کے درمیان ہوئی تھی اور وہ گفتگو کتنی اثر دار تھی اس بات کا اندازہ میرال کو ہو چکا تھا۔ اس نے گہری سانس بھر کر اپنے اندر کے تمام خوفوں کو پرے دھکیلا اور کتاب تھام کر اپنے سامنے کر لی۔ ابھی وہ پڑھنا شروع کرنے ہی والی تھی کہ زارا دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوئی ہاتھ میں ایک دودھ کا گلاس بھی تھا۔ اسے دروازے میں کھڑے دیکھ کر میرال مسکرائی تھی زارا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔

"یہ میں تمہارے لیے دودھ لائی تھی تم نے ٹھیک سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔" گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا تو میرال گہری سانس بھر کر رہ گئی۔

"آپ میری اتنی فکر کیوں کرتی ہیں معما!" زارا کو ہر وقت اپنے لیے ہلکان دیکھ کر بے ساختہ وہ پوچھ بیٹھی تھی۔ اس کے سوال پر زارا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔ وہ اس کے قریب ہی بستر پر بیٹھ گئی۔

"کیونکہ تم میری بیٹی ہو نا میری پہلی اولاد مجھے تم سے پیار ہے اس لیے تمہاری فکر بھی رہتی ہے۔ شاید میری وجہ سے تمہارے اندر یہ خوف منتقل ہوا ہے میرال میری وجہ سے تم اپنی شخصیت میں کھو گئی ہو جیسے میں ہر وقت تمہارے بابا کو کھو دینے کے خوف میں مبتلا رہتی ہوں شاید اسی طرح اب تم بھی رہنے لگی ہو۔" ڈاکٹر احمر کے مطابق میرال صرف اپنے اس خوف کی وجہ سے اپنی ذات میں الجھ گئی تھی۔ میرال نے نگاہیں جھکائی تھیں۔۔

"نہ میری بیٹی! نگاہیں جھکانے کی ضرورت نہیں ہے انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے کھو دینے کا خوف بھی رکھ لیتا ہے دل میں اگر ایسا کوئی خوف تمہارے دل میں بھی پیدا ہو گیا ہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر اس خوف کو اپنی کمزوری مت بناؤ میرال اسے اپنی طاقت بناؤ تمہارے بابا تمہیں مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں انہیں تمہیں ایسے دیکھ کر بالکل بھی اچھا نہیں لگتا وہ دکھی ہوتے ہیں۔ " زارا نے اس سے کہا تو وہ آہستگی سے اثبات میں سر ہلا گئی بہت ساری باتیں مل کر اس کا دماغ الجھا رہی تھیں اور اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے۔ زارا کب کی کمرے سے باہر جا چکی تھی جبکہ میرال خان ساکن بیٹھی اپنی ہی سوچوں کے تانے بانے بن رہی تھی۔

              ***********************

رات کے سائے پھولوں کے شہر پر اترے تو خان ہاؤس کی بتیاں بھی گل کر دی گئی۔ عشاہ کی نماز سے فارغ ہو کر عمومی طور پر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے تھے اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے عمائمہ کا صبح پیپر تھا جس کے باعث وہ کمرے میں جانے کی بجائے ڈائینگ ٹیبل پر ہی کتابیں پھیلائے بیٹھ کر پڑھنے لگی۔ اس کا کالج میں آخری سال تھا اس کے بعد اسے یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔ امل کالج کے پہلے سال میں تھی دونوں کی عمروں میں صرف ایک سال کا فرق تھا۔ گھڑی نے پونے بارہ کے ہندسے کو چھوا تو پڑھتے ہوئے عمائمہ کو بھی بھوک لگ گئی۔ وہ کتابیں وہیں چھوڑ کر سیدھی کچن میں گئی تھی۔ فریج کھول کر اس نے اپنے لیے رات کے بچے ہوئے چاول نکالے اور پلیٹ میں ڈال کر مائیکرویو اون میں رکھ کر انتظار کرنے لگی۔ اس سے پہلے کہ اون اپنے ٹائم پورا ہونے کا اعلان کرتا اسے اپنی گردن پر ایک سرسراتا ہوا لمس محسوس ہوا تھا کسی کی گرم سانسوں کی تپش اس کی گردن کی جیلد جھلسا رہی تھی۔ وہ جہاں تھی وہیں ساکن ہو گئی اس کے شانوں پر دباؤ بڑھا تو وہ رخ موڑ گئی اپنے سامنے کھڑے شامیر کو دیکھ کر وہ جتنا حیران ہوتی کم تھا۔ شامیر رات کے وقت یہاں کیا کررہا تھا وہ سچ میں نہیں جانتی تھی۔

"شا۔۔شامیر تم یہاں کیا کررہے ہو؟" اپنے حواس قدرے بحال کرتے ہوئے وہ گویا ہوئی تو شامیر مسکرا دیا۔ پیچھے سے سرخ پھولوں کا ایک گلدستہ اس نے عمائمہ کی جانب بڑھایا تھا۔

"ہیپی برتھ ڈے مائی سوئیٹ ہارٹ!" اس کے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے اس نے کہا تو عمائمہ نے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے گھور کر دیکھا۔

"کتنی بار کہا ہے میرے ساتھ یہ چیپ حرکتیں مت کیا کرو یار مجھے۔۔"وہ بولتے بولتے ایک دم خاموش ہو گئی تو وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔

" شرم آتی ہے تمہیں یہی نا؟" اس کا جملہ وہ بڑی رسانیت سے پورا کر گیا تھا۔ جس پر عمائمہ بس خاموشی سے لب کاٹتی رہ گئی۔

"کوئی نہیں جب ہماری شادی ہو جائے گی نا تو تمہیں یاد بھی نہیں رہے گا کونسی شرم اور کونسی حیا۔" وہ مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے گویا ہوا تو عمائمہ نے جھینپ کر نگاہیں جھکا لیں۔

"اف تمہیں پتا تم شرماتے ہوئے کتنی خوبصورت لگتی ہو؟" اس نے سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے کہا تو عمائمہ نے اس کے کندھے پر ایک دھپ رسید کی۔

"ہاں بالکل پتا ہے چلو نکلو تم یہاں سے اس سے پہلے کہ معما آجائیں اور ادھر صاریہ پھوپھو بھی تمہارے کمرے میں چھاپہ مار لیں۔" اسے دھکا دے کر گیٹ کی جانب دھکیلتے ہوئے اس نے کہا تو وہ بیچارہ سا منہ بنا کر دروازے سے باہر نکل گیا جبکہ وہ ہاتھ میں تھاما ہوا سرخ پھولوں کا گلدستہ اور ایک ڈبیہ دیکھتی رہ گئی جسے اب تک اس نے کھول کر نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پھولوں کا گلدستہ میز پر رکھ کر وہ نیلی ڈبیا کھولی تو آنکھیں حیرت سے دنگ رہ گئیں۔ ڈبیہ میں ایک بہت ہی خوبصورت اور نازک سا موتیوں والا بریسلٹ تھا جس کی چمک بری طرح اپنی جانب متوجہ کررہی تھی۔ اس نے بریسلٹ نکال کر کلائی میں پہنا اور موبائل اٹھا کر اس کی تصویر کھینچ کر شامیر کے نمبر پر بھیج دی۔

"ہمیشہ کی طرح تمہاری پسند لاجواب ہے ہر سال کی طرح مجھے تمہارا تحفہ بہت پسند آیا تھینک یو۔" پیغام لکھ کر اس نے بھیجا تو چند لمحوں کے بعد ہی شامیر کا جواب آگیا۔

"تم سے ہمیشہ کی طرح تین لفظوں کا منتظر۔۔"  اس نے جملہ ادھورا چھوڑا ہوا تھا۔ عمائمہ کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری اس نے فون بند کر کے اپنی چیزیں سمیٹیں اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ دل یک دم ہی بہت سارے جذبوں سے بھر گیا تھا۔

                       ****************

کازان کا موسم آج قدرے سہانا تھا۔ صبح سے چیدہ چیدہ ہوتی بارش نے ماحول کو مزید کارساز بنا دیا تھا۔ وہ ڈیزی کے ہمراہ ایک ٹرک کے قریب کھڑا اسے لوڈ کروا رہا تھا۔ وہ کوئی گودام تھا ۔ نیم اندھیرے میں کھڑا ٹرک اپنی ہیڈ لائٹس کی وجہ سے دیکھا جاسکتا تھا۔ تین سے چار بندے گودام کے راستے سے اندرونی عمارت میں آتے جاتے بھاری ڈبے اٹھا کر لاتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ خود کچھ فاصلے پر کھڑا انہیں ڈبے لاتا دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر ہمیشہ کی طرح از حد سنجیدگی تھی۔ آخری ٹرنک اٹھا کر ٹرک میں رکھتے ہی ڈیزی بھی اندر سے باہر نکلی تھی۔ پرپل مینی سکرٹ میں ملبوس وہ کندھوں پر اوورکوٹ ڈالے ہوئے تھی۔ بال ہمیشہ کی طرح اونچی پونی میں بندھے ہوئے تھے۔ چہرے پر میک اپ کیے وہ نک سک سی تیار تھی۔ صدام نے اس کے دعوتِ نظارہ دیتے جسم سے نگاہیں چرائیں اور واپس ٹرک کی جانب متوجہ ہو گیا۔

"تمہارا کام ہو گیا صدام! اب میری باری؟" وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گویا ہوئی تو صدام نے ناگواری سے اس کے اپنے شانے پر رکھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا۔

"Don't touch me and don't try to touch me ever its my first and last warning to you."

"مجھے ہاتھ مت لگاؤ اور کبھی مجھے ہاتھ لگانے کی کوشیش بھی مت کرنا یہ میری تمہیں پہلی اور آخری وارننگ ہے۔" وہ سرخ چہرے سے بولا تو ڈیزی بھنویں اچکا کر رہ گئی۔

"Okay easy cool"

ڈیزی نے لاپرواہی سے کہا تو صدام نے ہاتھ میں تھاما ہوا سیاہ بریف کیس  اس کی جانب بڑھا دیا۔

"یہ اپنے ماسٹر تک پہنچا دینا اور میں دوبارہ تمہیں نہیں دیکھنا چاہتا صدام حیدر ایک انسان کے ساتھ صرف ایک بار کام کرتا دوسری بار نہیں۔" وہ کہتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا جب ڈیزی کی آواز نے اس کے قدم جکڑے تھے۔

"تمہیں ایسا ہی لگے گا صدام حیدر! مگر تم میرے ماسٹر کو پسند آئے ہو اب وہ صرف تمہارے ساتھ ہی کام کرنا چاہتا ہے چاہے تم چاہو یا نہیں۔" ڈیزی کے لہجے میں کچھ عجیب سا تھا صدام نے گہری سانس بھر کر اپنے اندر امڈتے انتشار کو دبایا  اور بڑے تحمل سے رخ موڑ کر اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔

"جب تک میں نہ چاہوں یہ نہیں ہو سکتا۔" اس کا لہجہ حد سے زیادہ سرد تھا جبکہ ڈیزی کے لبوں پر دلخراش مسکراہٹ چمکتی تھی۔

" تمہیں ایسا ہی لگے گا صدام حیدر جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔" ایک ادا سے کہتے ہوئے وہ بریف کیس سمیت اپنی گاڑی میں بیٹھی اور چند لمحوں میں ہی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ جبکہ صدام نے ٹرک ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کردی ٹرک اور صدام دونوں کو مخالف سمتوں میں سفر کرنا تھا مگر کہاں یہ تو خود صدام حیدر بھی نہیں جانتا تھا۔

          **********************

لا کالج کی عمارت پرسکون تھی وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھی کتابوں کا ڈھیر لگائے ہوئے تھی۔ دماغ کہیں اور ہی پہنچا ہوا تھا۔ اس نے کتابیں سمیٹیں اور گیٹ کی جانب بڑھ گئی پارکنگ میں اس کی گاڑی کھڑی تھی۔

"میرال آپا! گھر جا رہی ہیں؟" شامیر نے قریب سے گزرتے ہوئے رک کر پوچھا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہو گئی۔

"نہیں ایک کام سے جا رہی ہوں اس کے بعد گھر جاؤں گی کیوں تم کس پر آئے ہو بائیک کہاں ہے تمہاری؟" اس نے شامیر کو بنا بائیک کے دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ پائی۔

"صبح کالج آتے ہوئے ہی خراب ہو گئی تھی ورکشاپ دے کر آیا ہوں میں تو بس سے جانے کا سوچ رہا تھا چلیں بس سے ہی جاتا ہوں میں آپ جائیں اپنے کام سے۔" وہ کہتے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب میرال نے اسے آواز دے کر روک لیا۔

"صبر کر جاؤ تمہارا گھر میرے راستے میں ہی آنا ہے تمہیں ڈراپ کر کے میں چلی جاؤں گی آجاؤ۔" ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھتے ہوئے اس نے کہا تو شامیر بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا میرال نے گاڑی پارکنگ سے نکال کر مین روڈ پر ڈال دی۔ شامیر مسلسل اس کے خاموش چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس نے تین سالوں سے میرال کو بہت زیادہ خاموش پایا تھا۔ وہ کزنز میں سب سے بڑی تھی مگر ہمیشہ سے سب سے فاصلے پر رہی تھی۔

"آپا! کیا آپ ٹھیک ہیں؟" شامیر نے خاموشی سے ڈرائیونگ کرتی میرال سے کہا تو اس نے رخ موڑ کر اس کی جانب دیکھا۔

"ہاں کیوں تمہیں میں کیوں ٹھیک نہیں لگ رہی؟" اس نے الٹا اس سے سوال پوچھ کر شامیر کو شش و پنج میں ڈالا تھا۔

"پتا نہیں آپا میں جب بھی آپ کو دیکھتا ہوں ہمیشہ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے آپ کا کچھ کھو گیا ہو اور آپ مسلسل اس کی تلاش میں ہلکان ہو رہی ہوں۔" شامیر کے چہرے پر سنجیدگی تھی میرال نے چونک کر اس کی جانب دیکھا پھر واپس سے نگاہیں ونڈ سکرین کی جانب جما دیں۔

" کھوئی ہوئی چیزیں اپنے وقت پر واپس ملتی ہیں شامیر  اور شاید میرا وقت بھی آنے کو ہے۔" چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر اس نے کہا تو شامیر بھی مسکرا دیا۔

" آپ کے اس وقت کا میں شدت سے منتظر ہوں آپ کو کھلکھلا کر ہنستے ہوئے دیکھنا میری خواہشات میں سے ایک ہے۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تو میرال بھنویں اچکا کر اس کی جانب متوجہ ہو گئی۔

" اور تمہاری خواہشات میں کیا کیا ہے ذرا روشنی ڈالو گے؟" گاڑی  گھماتے ہوئے اس نے  پوچھا تو شامیر کھسیانی سی ہنسی ہنس دیا۔

" آپ تو پرسنل حملوں پر اتر آئی ہیں۔" اس نے اپنے گھر کی گلی میں گاڑی داخل ہوتے  دیکھ کر اپنا بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے کہا تو میرال ہنس دی۔

" سنبھل جاؤ بیٹا ورنہ پھوپھو تمہیں سنبھال دینگی وہ بھی بڑے اچھے سے۔" گاڑی گھر کے آگے روکتے ہوئے اس نے کہا تو وہ اپنا سا منہ لے کر نیچے اتر گیا۔

" اندر تو آئیں معما بڑا خوش ہونگی آپ کو دیکھ کر۔" شامیر نے نیچے اترتے ہوئے اسے اندر چلنے کو کہا تو وہ ضروری کام کا کہتے ہوئے رسانیت سے انکار کر گئی۔ شامیر بھی بنا مزید اصرار کیے اپنے گھر کی بیل دینے لگا میرال نے گاڑی تیزی سے نکالی تھی  اس کا رخ اب اپنے گھر کی جانب تھا۔ وہ اب آرام کرنا چاہتی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

راویریا اکیوا پارک  کازان کے ان اپارٹمنٹس میں عجیب سا سناٹا تھا شاید شدید سردی میں راتوں کو اس قسم کے سناٹے وہاں کے معمول کا حصہ ہوتے ہیں مگر جن لوگوں کو ان سناٹوں کی عادت نہیں ہوتی ان کے دل کو ایسی ویرانی بری طرح کھلتی ہے۔ وہ آج اپنے اپارٹمنٹ میں بالکل خالی بیٹھا ہوا تھا پچھلی کنسائنمنٹ کے بعد اب تک اس کا دوبارہ کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہا تھا کبھی کبھی کافی سے زیادہ بھاگ دوڑ کرکے انسان تھک جاتا ہے وہ بھی شاید تھکاوٹ کا شکار ہوچکا تھا س لیے اب سکون کا متلاشی تھا۔ اس نے ایک نگاہ اپنے اردگر د ڈالی تھی۔ خالی ویران زندگی اپنے اندر بہت ساری تبدیلیوں اور خوشیوں کو  سمو سکتی تھی مگر اسے سب کچھ تباہ کردینے کا جو جنون تھا وہ ہر چیز پر بھاری تھا۔ اس سے پہلےکہ وہ مزید کچھ اور سوچتا دروازے پر بجنے والی گھنٹی نے اس کا سارا  جمود توڑ ڈالا تھا وہ گہری سانس بھر کر اپنی جگہ سے اٹھا اور  دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازہ کھولنے پر اسے ایک بار پھر سے وہی چہرہ دکھائی دیا تھا۔ باٹل گرین لمبی فراک پہنے اس کے ہاتھ میں آج بھی ایک ٹرے تھی یقیناً وہ پھر اس کے لیے کچھ لے کر آئی تھی۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا دی۔

" آج میری معما نے پلاؤ بنایا تھا تو انہوں نے سوچا کیوں نا کھانے میں آپ کو بھی شریک کر لیا جائے" گندمی چہرے پر اس لمحے عجیب سی چمک تھی وہ بہکا تھا کسی جذبے نے اسے ورغلایا تھا اکسایا تھا  اس نے مسکرا کر وہ ٹرے اس کے ہاتھ سے تھام لی اور اسے اندر آنے کو کہتے ہوئے ایک جانب کو ہوگیا۔

" آپ کی معما اور آپ کو نہیں لگتا کہ آپ بے جا دوسروں کے پرسنلز میں گھس رہے ہیں؟" کچن ریک سے ایک چمچ اور کانٹا اٹھاتے ہوئےاس نے پلاؤ کھانا شروع کرتے ہوئے کہا تو زرکا ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھنے لگی اس نے پلاؤ اپنے برتنوں میں انڈیلنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔

" ایکسکیوزمی! کیا میں نے آپ سے آپ کی پرسنل انفارمیشن لی ہے یا میری معما نے کھانا آپ کو جانتے ہوئے بھیجا ہے ارے وہ تو شاید یہ بھی نہیں جانتی ہونگی کہ ان کے برابر میں کون رہتا ہے وہ بس پرانے خیالات کی ایک عورت ہیں جنہیں پاکستان والی عادتیں پڑی ہوئی ہیں ہمسائے کو کھانا بھیج کر انہیں سکون ملتا ہے پر شاید وہ بیچاری اس بات سے لاعلم ہیں کہ کچھ ہمسائے اس قابل نہیں ہوتے کہ انہیں کھانے جیسی کوئی بھی چیز بھیجی جائے۔ واپس کریں ہمارے برتن آئیندہ آپ کے گھر کی بجائے میں صرف اس طرف والے ہمساؤں کو ہی یاد رکھوں گی۔ " وہ اچھا خاصا بھڑک گئی تھی اسے یوں آپے سے باہر ہوتا دیکھ کر صدام بھی سٹپٹا گیا تھا پلاؤ والی پلیٹ میز پر رکھتے ہوئے وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔

" دیکھیں  میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" وہ نجانے کیوں اسے صفائی دینا چاہتا تھا مگر زرکا اس کی کسی بھی قسم کی صفائی کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی۔ اس نے اپنی پلاؤ والی پلیٹیں عجلت میں اس سے خالی کرائیں اور برتن پکڑتے ہوئے تیزی سے اس کے فلیٹ کا دروازہ پار کر گئی۔ صدام اسے روکنا چاپتا تھا معذرت بھی کرنا چاہتا تھا مگر یہ سب وہ چاہ کر بھی کر نہیں پایا تھا کیونکہ زرکا اسے بنا موقع دیے تیزی سےنکل گئی تھی اسے یوں ناراض کرکے نجانے کیوں مگر صدام کو اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ پلاؤ والی پلیٹ  واپس شیلف پر رکھ کر ٹیرس میں نکل آیا سگریٹ سلگا کرابھی اس نے لبو ں سے لگایا ہی تھا کہ جیب میں رکھا ہوا اس کا فون  بج اٹھا  اوپر ان نون نمبر دیکھ کر بھی اس نے کال اٹھا لی تھی۔ مقابل کی آواز سن کر وہ بری طرح بدمزہ ہوا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پشاور کا موسم آج عجیب سا ہورہا تھا کچھ خشک سا کچھ سرد سا ایسا جیسے  مہکتا ہوا دل یک مشت ہی ویرانی میں ڈوب گیا ہو۔ شام کے سائے آسمان کی جانب بڑھ رہے تھے ڈوبتا سورج اس کی دنیا مزید ویران کررہا تھا۔ ماضی کے بہت سارے بیتے لمحے کسی فلم کی مانند اس  کی آنکھوں کے پردے پر رقصاں تھے چہرے پر ایک زخمی سی مسکراہٹ تھی۔ سامنے میز پر دھرا ہوا چائے کا مگ قریباً ٹھنڈا پڑچکا تھا جس مگ سے ابھی کچھ دیر قبل دھواں اٹھ رہا تھا وہ دھواں کہیں فضا میں ہی مغلول ہوچکا تھا بالکل اس کے دل کی طرح وہ بھی تو کہیں مغلول ہی ہوچکا تھا نا۔۔۔

" کیا سوچ رہی ہو زیبی! چائے بھی  ٹھنڈی ہوگئی ہے لاؤ میں گرم کر کے لادوں۔" آنیہ نے اس کے سامنے رکھی ہوئی چائے کا مگ اٹھاتے ہوئے کہا تو زیبا خاموشی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔  تقریبا دو منٹ کے بعد وہ دو گرم چائے کے مگ لیے اس کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔

"کیا بات ہے زیبی! بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں تم عجیب چڑچڑی سی ہوگئی ہو بچوں پر بھی غصہ ہوتی رہتی ہو کیا بات ہے سب خیر تو ہے نا؟" آنیہ نے  چائے کے مگ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تو زیبا نے گہری سانس بھرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

" جب  زندگی سے محبت ختم ہوجائے تو انسان یونہی چڑچڑا سا ہوجاتا ہے کسی کام کو جی نہیں چاہتا خالی دل ہو تو کیا جی چاہے گا۔" وہ تمسخر  سے کہتے ہوئے اپنی چائے سے گھونٹ بھرنے لگی۔

" کیوں زیبی! تمہارے پاس تو محبت بھی ہے اور رشتے بھی ہیں پھر تم کیوں اتنا خالی محسوس کررہی ہو؟" آنیہ کو اس کی یہ حالت سمجھ نہیں آرہی تھی۔ زیبا نے گہری سانس بھر کر اس کی جانب دیکھا تھا۔

" میں کمزور نہیں ہوں آنی! بس میرا دل توڑ دیا ہے تمہارے بھائی نے اس نے میرے اس دل کے اتنے ٹکڑے کیے ہیں کہ اب تو مجھے اس کی کرچیاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی ہیں وہ ہرروز میرے پہلو میں ہوتا ہے مگر پھر ہو کر بھی نہیں ہوتا کہتے ہیں مرد کا دل کہیں اور لگ جائے تو سب سے پہلے خبر اسکی  بیوی کو ہوتی ہے تمہارے بھائی کا دل کہیں اور لگ گیا ہے آنی اور اس کی خبر مجھے ہوچکی ہے۔" وہ رو نہیں رہی تھی مگر پھر بھی اس کی آنکھیں پانی چھلکا رہی تھیں۔ آنیہ کے دل کو ایک جھٹکا لگا تھا اور جھٹکا کافی سے زیادہ شدید تھا۔

"کیا بات کررہی ہو زیبی! آرون اور کسی اور سے آفئیر ہو ہی نہیں سکتا اس نے تو زندگی میں صرف تم سے محبت کی ہے کتنی طوفانی قسم کی محبت  ہوا کرتی تھی اسے تو تم سے پھر اب کیسےکسی اور کے ساتھ ۔۔۔ایک بیٹا ہے تم دونوں کا۔" وہ سر تھامتے ہوئے گویا ہوئی تو  زیبا ہنس دی۔

" ہوا کرتی تھی اپنے سوال کا جواب دیکھو تم نے  خود ہی دے دیا۔" وہ اپنے مگ میں سے آخری گھونٹ بھرتے ہوئے گویا ہوئی تو آنیہ  گہری سانس بھر کر رہ گئی۔ زیبا نے تو اس کا دماغ ہلا کر رکھ دیا تھا۔ البتہ کچن کی کھڑکی میں کھڑی زارا  یہ سب سن کر شدید صدمے کی کیفیت سے  دوچار ہوئی تھی یہ گھر میں کیا چل رہا تھا اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

دوپہر کو سورج سوا نیزے پر چڑھا ہوا تھا ایسے میں وہ چھوٹے سے اوپن کچن میں جلدی جلدی ہاتھ چلاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ سر پر دوپٹہ اوڑھے وہ اپنے کام میں مگن تھی۔ جگ میں چھ آٹھ لیموں نچوڑ کر اس نے چمچ سے ہلایا اور ٹھنڈا برف والا پانی ڈال کر ڈھکن بند کردیا۔  کچن کے سامنے ہی ایک مختصر مگر صاف ستھرا ٹی وی لاونج تھاجس کے صوفے پر بیٹھی ہوئی وہ تسبح کے دانے گرانے میں مشغول تھیں۔

" لیں اماں سکنجین پی لیں باہر تو آج بہت ہی گرمی ہے۔" علینہ نے سکینجین کا بھرا ہوا گلاس اپنی ساس شمیم بیگم کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو انہوں نے مسکرا کر اس کے ہاتھ سے گلاس تھام لیا۔

" آروا نہیں آئی ابھی پتر!" ان کے چہرے اور لہجے میں ابھی بھی وہ پہلے والی محبت شفقت اور اپنائیت تھی علینہ نے دیوار گیر گھڑی پر وقت دیکھا آروا کی واپسی کا وقت ہوچکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب  دیتی ڈور بیل کی آواز نے ان دونوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔

" لگتا آگئی آپ سکنجین پئیں میں دیکھتی ہوں۔ سر پر دوپٹہ درست کرتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا تو  سامنے آروا کے ساتھ ساتھ میرال کو بھی کھڑے پایا۔

ارے  واہ آج تو میرے گھر میری بیٹی آئی ہے۔" اس کے چہرے پر میرال کو دیکھ کر نرم تاثرات ابھرے تھے میرال بھی دھیمے سے مسکرائی تھی۔ اس کے ہاتھ میں موجود کتابوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ یونیورسٹی سے سیدھا آرہی تھی۔" آؤ اندر آؤ۔" ان دونوں کو اپنے پیچھے اندر آنے کا بول کر خود وہ کچن میں آئی اور ان دونوں کے لیے سکنجین ڈالنے لگی۔ انہیں سکنجین دے کر وہ واپس کچن میں آئی تھی۔ پورے گھر میں پلاؤ کی اشتہار انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

" آروا تم کپڑے بدل لو اور میرال تم بھی ہاتھ منہ دھو آؤمیں کھانا لگا رہی ہوں۔" میرال اور آروا اپنے بیگ رکھ کر شمیم بیگم کے پاس ہی بیٹھ گئی تھیں علینہ کے کہنے پر دونوں اٹھ کر آروا کے کمرے میں آگئیں۔ جب سے میرال نے ہوش سنبھالی تھی وہ کبھی اس طرح سے ان کے گھر نہیں آئی تھی سوائے ایک دو بار کے  جب جبرئیل ، زارا اور باقی گھر والے بھی آتے تھے۔ آج وہ خود یہاں تھی وہ بھی بنا بتائے یوں اچانک  علینہ فاطمہ کو کافی سے زیادہ عجیب لگا تھا مگر وہ اس کی آمد کی بابت جاننے کے لیے بے چین بھی تھی وہ جاننا چاہتی تھی کہ میرال خان آخر خود سے اس کے گھر میں کیوں آئی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ ایک اونچی مگر خوبصورت بلڈنگ کا منظر تھا۔ شفاف شیشوں والی وہ بلڈنگ بے حد خوبصورت اور پرآسائش تھی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ کمرہ جو صرف ماسٹر سے منسلک تھا۔ وہاں ماسٹر سوتا جاگتا اٹھتا بیٹھتا پایا جاتا تھا۔ سامنے ایک کشادہ خوبصورت سا بستر تھا جس کے دائیں اور بائیں جانب کو پردے لٹک رہے تھے بستر کے سامنے ہی ایک تھری سیٹر صوفہ دھرا ہوا تھا اس کے علاوہ  وہاں ایک دراز قد آئینہ بھی تھا جس میں ماسٹر اپنا دراز قد دیکھتا تھا۔  حیرت کی بات تھی اس کے علاوہ اس کمرے میں دوسری کوئی بھی چیز نہیں تھی مگر پھر بھی یہ کمرہ دیکھنے والے کو اپنی جانب یوں متوجہ کرتا تھا جیسے پتا نہیں کونسا خوبصورت شاہکار ہو۔ اس وقت ماسٹر اس تھری سیٹر صوفے پر ب

راجمان تھا۔  سیاہ سفاری سوٹ میں ملبوس گال پر ہاتھ جمائے وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ اتنے میں  دروازہ کھٹکا کر ڈیزی  اندر داخل ہوئی تھی ماسٹر کو یوں بیٹھے دیکھ کر وہ بھی اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔

"وہ لڑکا نہیں مان رہا مزید کام کرنے کے لیے۔" ڈیزی کے لہجے میں افسوس تھا ماسٹر نے بھنویں اچکا کراس کی جانب دیکھا جیسے سوالیہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہا ہو۔

"کونسا لڑکا؟" سگار کیس سے ایک سگار نکال کر سلگاتے ہوئے اس نے کہا تو ڈیزی کے چہرے پر عجیب سی چمک ابھرنے لگی۔

" صدام حیدر۔۔۔" ڈیزی نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا تو ماسٹر بھنویں اچکا گیا

"کیوں اس کو کیا تکلیف ہے منہ مانگی رقم دے رہے ہیں اس کو پھر وہ انکاری کیوں ہے؟" ماسٹر کو سن کر

" جب انسان اتنا پرکشش ہو اور  اس سے بھی بڑھ کر انتہا کا ڈیرنگ ہو تو نخرہ آہی جاتا ہے۔" اب کی بار ڈیزی نے ماسٹر کا سگار اس سے لے کر اپنے لبوں سے لگایا تھا۔ دھویں کا بھاری مرغولہ فصا میں اُڑ کر تحلیل ہوگیا۔ ماسٹر اب کی بار پُرسوچ دکھائی دے رہا تھا۔  اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا یہ تو ڈیزی بھی نہیں جانتی تھی مگر اس دماغ میں اس لمحے ایسا ضرور چل رہا تھا جو آنے والے وقت میں سب کو ہلا دینے والا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سکردو کا موسم آج بہت ہی خوبصورت تھا ۔ برف باری کل سے بند تھی۔ آج بہت ہی دنوں بعد سورج نے اپنی صورت دکھائی تھی۔ برف سے ڈھکی ہوئی زمین پر جب سورج کی کرنیں پڑتیں تو یوں محسوس ہوتا جیسے سفید  گالوں پر سنہرے موتی اتر آئے ہوں۔ نرم گرم بستر پر وہ ایک بھرپور نیند لے کر  جاگا تھا مگر ابھی بھی کسلمندی  سے بستر پر ہی پڑا ہوا تھا۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر  آنے والی اُونگ کو روکا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل اٹھا کر  ضروری ای میلز چیک کرنے لگا۔ ان ای میلز میں زیادہ تر میلز اس کے آفس کی تھیں کچھ ہیڈ کواٹر کی جانب سے کی گئی تھیں لیکن ان ای میلز میں سے آج بھی ایک میل ایسی تھی جو  اسے تھما گئی تھی وہ ٹھہر گیا تھا۔ ڈی زی وہی نام وہی ای میل اڈریس مگر تحریر مختلف اس نے گہری سانس بھر کر ای میل کھولی اور اسے پڑھنے لگا۔

"سنا ہے کچھ لوگ ایک الگ جہاں میں رہتے ہیں

ایک الگ نگری میں رہتے ہیں

ان کے  دو دل دھڑک رہے ہوتے ہیں

الگ الگ اپنے اپنے سینوں میں

مگر ایک سمت میں ایک منزل کی جانب

اور وہ منزل صرف محبت نہیں ہوتی

عقیدت ہوتی ہے چاہت ہوتی ہے۔

ڈی زی

تحریر ختم ہوچکی تھی ای میل ختم ہوگئی تھی مگر وہ حیرت زدہ تھا کچھ لوگ اجنبی ہوتے ہیں نجانے دنیا کے کس کونے میں ہوتے ہیں پھر بھی گم نام ہو کر بھی آپ کو راستہ دکھاتے ہیں۔ وہ چاہتا تو اس ای میل آڈریس سے  اس گم نام ہستی کا پتا لگا سکتا تھا مگر نجانے کیوں نہیں چاہتا تھا کہ وہ نام  وہ ہستی اس کے سامنے آجائے اور ان ای میلز کا  سلسلہ ختم ہوجائے۔ اس نے سر جھٹکا اور لحاف پرے دھکیل کر اٹھ بیٹھا۔ اتنے میں اللہ داد کی بیوی صفیہ بھاپ اُڑاتی کافی کا مگ لے کر اندر داخل ہوئی۔

" اسلام علیکم صاحب!" صفیہ درمیانی عمر کی نفیس سی لڑکی تھی تین سال سے وہ اوراس کا شوہر اللہ داد عنصب کے ساتھ ہی تھے تب سے جب سے اس کی سکردو پوسٹنگ ہوئی تھی۔

"وعلیکم اسلام صفیہ! کیسی ہو تم ؟" اس کے ہاتھ سے کافی کا مگ تھامتے ہوئے عنصب  نے شائستگی سے مسکراتے ہوئے کہا تو صفیہ مسکرادی۔

" ہم ٹھیک ہے صاحب! اللہ داد ہمارا بہت خیال رکھتا۔" اللہ داد کے نام سے اس کے چہرے پر ابھی بھی ایسے ہی گلال کھلا کرتے تھے جیسے کہ وہ اللہ داد کی ایک دن کی دلہن ہو۔ عنصب کو خود ہی اپنی بات پر ہنسی آئی تھی۔

" آپ فریش ہو کر نیچے آجاؤ اماں جی آپ کا ناشتے پر انتظار کررہا ہے۔" وہ کہتے ہوئے اپنی بڑی سی چادر سنبھالتی ہوئی باہر نکل گئی جبکہ عنصب پُرسوچ انداز میں کافی کے گھونٹ بھر نے لگا دھیان نجانے کیوں بھٹک کر میرال کی  جانب چلا گیا تھا۔ چہرے پر خود بخود ہی مسکراہٹ نمودار ہوگئی وہ جلدی جلدی کافی کے گھونٹ بھرنے لگا راشدہ بیگم ناشتے پر اس کا انتظار کررہی تھیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کارڈیف ویلز

کارڈیف کے اس اپارٹمنٹ میں عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ وہ دونوں صوفوں پر آمنے سامنے بیٹھے دکھائی دے رہے تھے۔ بزنجو کے چہرے پر سنجیدگی تھی جبکہ ایس کے کے چہرے پر بے چینی تہر رہی تھی وہ جتنی بزنجو کی موجودگی سے غیر آرام دہ محسوس کررہی تھی  وہ بتا بھی نہیں سکتی تھی کچن میں کافی بناتی روپا دیوی اس کی کیفیات کو بخوبی سمجھ رہی تھی مگر وہ چا ہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتی تھی۔

" تو آئی ہوپ آپ نے اپنی انڈیپینڈینس انجوائے کی ہوگئی تو کیسا لگا آزاد محسوس کرکے خود کو؟" وہ مزے سے پیچھے ہو کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوا تھا۔ ایس کے نے ایک سرسری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر ایک نگاہ کافی بناتی ہوئی روپا دیوی پر۔

" آزادی کس کو اچھی نہیں لگتی خواہ وہ ایک دن کی ہو یا ایک سال کی شاید اس سےزیادہ آزادی تم مجھے نہیں دے سکتے بزنجو!" آخر میں اس کا نام لیتے ہوئے اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا تھا مگر مقابل کو کہاں پرواہ تھی وہ من موجی تھا مزے لیتا تھا۔ اس کے جملے پر بزنجو  کے لبوں پر دلخراش مسکراہٹ چمکی تھی۔

" اس سے زیادہ آزادی دی تو آپ پُھر کر کے اُڑ جائیں گی میڈم صلاح خاور اگر معلوم ہو کے پرندہ اُڑ سکتا ہے تواس کے پنجرے کا دروازہ نہیں کھولا جاتا اتنا تو نالج آپ کو بھی ہوگا یہ ایسی کوئی مشکل بات تو نہیں ہے۔" اس نے ایک سرسری نگاہ ان دونوں کے درمیان میز پر کافی کے کپ رکھتی روپا دیوی پر ڈالی تھی جو خاموشی سے کپ رکھ کر اب منظر سے غائب ہوچکی تھی جب وہ دونوں موجود ہوں تو اسے رکنے کی اجازت نہیں ہوتی یہ بات وہ اچھے سے جانتی تھی۔

"قید میں رہنے کی اب مجھے اتنی عادت ہوچکی ہے کہ اُڑنا بھول چکی ہوں میں۔" اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی وہ کیا تھی اور  وقت اور حالات نے اسے کیا بنا دیا تھا۔ وہ حکومت کرنے کے لیے بنی تھی مگر محبت نے اسے قیدی بنا دیا تھا۔

" کیا کریں نا کچھ لوگوں کو اگر کھلا چھوڑا دیا جائے تو وہ نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔" کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے مسکراتے لہجے میں کہا تو ایس کے بس لب بھینچے اسے دیکھتی رہی وہ شخص اس کے لیے ہمیشہ سے ناقابلِ برداشت تھا۔

"تمہیں دیر نہیں ہورہی میرا خیال ہے تمہاری فلائیٹ کا ٹائم ہوگیا ہے اب تمہیں جانا چاہیے۔" وہ سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے تلخی سے گویا ہوئی تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

" آپ کبھی مجھے میری فلائیٹ کا وقت یاد کرانا نہیں بھولتیں نائس۔" اس نے کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے کہا اور صوفے کی پشت سے اپنی جیکٹ اٹھا کر پہننے لگا۔

" چلیں پھر چلتے ہیں جلدی ملیں گے اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا اور یہ کچھ پیسے ہیں رکھ لیں آپ کے کام آئیں گے۔" وہ میز پر ایک خاکی لفافہ چھوڑتے ہوئے  ہوئے گویا ہوا تو اس نے ایک سرسری نگاہ لفافے پر ڈالی اور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔ وہ روپا دیوی پر ایک الوادعی نگاہ ڈالتا ہوا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ روپا دیوی نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی تھی۔

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا

دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا

دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے روپا دیوی نے زیرِ لب کہا اور ایک ٹھنڈی سانس بھرتی ہوئی اس کی پی ہوئی کافی کا جھوٹا مگ اٹھانے لگی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گیسٹ ہاؤس پشاور

 صبح سویرے نو بجے ٹھیک میجر جنرل غلام عباس تیس کرسیوں والی ڈائینگ ٹیبل کی سربراہی کرسی پر تنہا بیٹھے ناشتہ کررہے تھے ان کے سامنے آملیٹ ٹوسٹ اور کچھ سوسجز رکھے ہوئے تھے قریب ہی ملازم کھڑا کیتلی میں سے چائے کپ میں انڈیل رہا تھا۔ ابھی انہوں نے کانٹے سے آملیٹ کا ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈالا ہی تھا کہ باہر سے ایک اور ملازم اجازت لے کر  اندر داخل ہوا تھا اس کے ہاتھ میں ان کے لیے کچھ لیٹرز تھے۔

" سر! یہ آپ کے لیے آئے ہیں۔"  سفید شلوار قمیض اور کالی واسکٹ والے ملازم نے  ادب سے وہ لیٹرز ان کے قریب رکھے اور خود اجازت لے کر باہر نکل گیا۔ انہوں نے رومال سے ہاتھ اور منہ پونچھ کر وہ خاکی لفافےاٹھائے اور ایک ایک کر کے چاک کرنے شروع کیے۔ پہلے لفافے میں ورڈ میپ تھا جس میں جگہ جگہ لال مارکر سے نشانات بنائے گئے تھے دوسرے  لفافے میں  مختلف آرمز کی ڈیٹلیز تھیں اور جوں ہی انہوں نے تیسرا لفافہ کھولا ان کا ہاتھ فضا میں ہی کہیں ساکن ہوگیا  ۔ اتنا بڑا سانحہ کیسے ان کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ گیا ملک میں اتنی بڑی کاروائی ہوگئی اور انہیں پتا بھی نہیں چلا۔ انہوں نے قریب رکھا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور ارجنٹ میٹنگ کال کرنے لگے ان کی پیشانی پر ننھی ننھی پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں تھیں ۔ غلام عباس کی سربراہی میں ایسا کیسے ہوسکتا تھا غلام عباس کی غیرت کو ایک زور دار جھٹکا لگا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج پورے ایک ہفتے کے بعد اس کا سیشن تھا۔ پھولوں کے شہر میں اس قدر خوبصورت موسم ہورہا تھا کہ دل چاہ رہا تھا ٹھنڈی ہوا کو مٹھی میں قید کر کے ہمیشہ اپنا ساتھی کر لیا جائے ایسا ہی کوئی دل  اس ٹائم  میرال کا بھی کررہا تھا۔ وہ آج دل سے خوش تھی پرسکون تھی اور ڈاکٹر احمر قیوم کے کلینک جانے کے لیے پہلے سے زیادہ پُرجوش تھی۔

وہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ڈاکٹر احمر قیوم کے کلینک کی جانب بڑھی تھی۔ قریباً کوئی تین بجے وہ کلینک پہنچی تھی۔ اسٹنٹ اسے دیکھ کر مسکرائی اور  ڈاکٹر کے انتظار کرنے کا بتا کر واپس اپنے کام میں مگن ہوگئی۔

وہ اندر پہنچی تو ڈاکٹر احمر قیوم کھڑکی کھولے کھڑے تھے۔ بارش کی بوندیں کھڑکی سے اندر  آرہی تھیں۔ انہوں نے ان دونوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں بھی آج دیوار گیر کھڑکی  کے قریب ہی لگائی ہوئی تھیں۔ بیچ میں ایک ننھی میز تھی جس پر دو گرم بھانپ اُڑاتی کافی کے مگ دھرے ہوئے تھے۔

" آپ کو کیسے پتا کہ میں آنے والی ہوں۔" اس نے خوشگوار حیرت سے کہاتو وہ مڑ کر مسکرا دیے۔

" ڈاکٹر  اور اس کے مریض کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے وہ اپنے مریض کی آہٹ بھانپ لیتا ہے بشرط کہ وہ دل سے اس کا علاج کرنا چاہتا ہو۔ اور میں دل سے آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں میرال!" وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئے تو میرال بھی مسکراتے ہوئے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔

" کیسی ہیں آپ؟" اپنے کپ سے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔

" پہلے سے بہت بہتر بہت ساری گتھیاں ہیں جو اب دھیرے دھیرے سلجھ رہی ہیں بہت سے سوال ہیں جو اب دھیرے دھیرے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔" میرال  نے آرام دہ انداز میں بیٹھتے ہوئے کہا تو ڈاکٹر احمر قیوم مسکرا دیے۔

"جانتی ہیں میرال!  وقت ہمارے حصے میں بہت سارے بل فریب ڈال دیتا ہے ان میں سے کچھ  آسان ہوتے ہیں اور کچھ مشکل آسان ہماری سمجھ میں آجاتے ہیں اور مشکل ہمیں پھنسا دیتے ہیں مشکل چیزیں ہمیں ایک بھنور کی طرح گھما دیتی ہیں ہمارے ذہن کے پردے کو اتنا دھندلا دیتی ہیں کہ ہمیں سیدھی چیزیں بھی صاف دکھائی نہیں دیتی ہیں اور جب سیدھی چیزیں دھندلی ہوتی ہیں نا تب ہی آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ میں کچھ بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے آپ دماغی طور پر کمزور ہیں مگر ایسا بالکل نہیں ہوتا۔" بارش اب قدرے تھم چکی تھی  کافی  کے مگ تقریباً خالی ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر احمر قیوم کے چہرے پر   پُرسکون تاثرات تھے البتہ میرال انہیں الجھی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

" آپ شادی کر لیں میرال! " ان کا جملہ نہیں تھا کوئی دھماکا ہی تھا جو اس پل  میرال کے کانوں میں ہوا تھا۔ وہ حیرت اور الجھی ہوئی نگاہوں سے ان کی جانب دیکھ رہی تھی۔

" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب میں شادی کیسے کرسکتی ہوں؟" وہ حیرت سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئی تو  احمر قیوم مسکرا دیے۔

" کیوں نہیں کرسکتیں آپ پڑھی لکھی ہیں خوبصورت ہیں اور سب سے بڑھ کر شادی کے قابل ہیں پھر کیوں نہیں کرسکتی ہیں؟" باہر بارش کے بعد ٹھنڈی ہوا کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا کھڑکی کے شیشے ہٹے ہونے کے باعث اس کا سکارف بار بار حرکت کررہا تھا۔

" مگر مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے انفیکٹ کبھی بھی نہیں کرنی ہے میں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا۔" وہ شانے اچکاتے ہوئے پریشانی سے گویا ہوئی تو احمر قیوم  گہری سانس بھر کر رہ گئے۔

" شادی کرنے سے آپ کی ذات میں بہت سی تبدیلیاں آئیں گی میرال! کچھ فیصلے ہم وقت کی ضرورت کے تحت کرتے ہیں اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ نارمل ہوجائیں تو اس کے لیے نارمل لڑکیوں جیسے فیل اپنانے پڑیں گے اور شادی بھی انہی میں سے ایک ہے۔" احمر قیوم کی بات پر وہ خاموش سی ہوگئی تھی دماغ مختلف سوچوں میں الجھ سا گیا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے جو بات اس لمحے اس کے سامنے بیٹھا ڈاکٹر بول رہا تھا وہ قدرے عجیب تھی  مگر یہ بھی سچ تھا کہ اسے ٹھیک ہونا تھا۔ اس کے لیے ٹھیک ہونا بے حد ضروری تھا۔ وہ مزید وہاں بیٹھنے کی حالت میں نہیں تھی اس لیے ڈاکٹر احمر قیوم سے اجازت لےکر جلد ہی گھر آگئی مگر اس سارے عرصے میں وہ بُری طرح ڈسٹرب ہوئی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  رات کی سیاہی آسمان پر گہری ہوئی تو خان ہاؤس کی بتیاں بھی دھیرے دھیرے کر کے بجھنے لگی۔ وہ ابھی پانی کی بوتل سائیڈ میز پر رکھ کر بستر پر لیٹی ہی تھی کہ آرون دروازہ  دھکیل کر اندر داخل ہوا۔ وہ نائیٹ گاؤن میں ملبوس تھی سلکی سیاہ بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے ۔ آرون کی آمد کو یکسر نظر انداز کر کے اس نے رخ موڑا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا اپنا موبائل اٹھا کر بلا وجہ سکرول کرنے لگی۔ تقریباً ایک ماہ ہونے کو آیا تھا اس کی اور آرون کی بات چیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ باتھ روم سے کب لباس تبدیل کر کے نکلا اور کب اس کے پہلو میں آکر لیٹا زیبا کو سارا حساب تھا مگر وہ خاموشی سے اپنے موبائل میں گم تھی یوں جیسے آرون کی ذات اس کے لیے کوئی معنی ہی نہ رکھتی ہو۔

" زیبی!" پورے ایک ماہ کے بعد اس کے لہجے میں ایسی پکار تھی ایسی نرمی تھی کہ زیبا کا دل مٹھی میں آگیا تھا۔ وہ پھر بھی بنا جواب دیے اپنے کام میں مگن تھی۔ اب کی بار اس نے زیبا کے ہاتھ سے نرمی سے اس کا موبائل لیا اور اس کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔ بستر پر لیٹے ا ن دونوں نفوس کا فاصلہ انتہائی کم تھا ۔

" کتنے دن ہوگئے تم نے مجھ سے ٹھیک سے بات تک نہیں کی۔" آرون کے لہجے میں شکوہ سن کر بے ساختہ اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی۔

" اوہ تو آخر تمہیں احساس ہو ہی گیا کہ ہمارا رشتہ اب بات چیت کی ضرورت سے بھی گیا ہے۔" اپنے ہاتھ لپیٹتے ہوئے اس نے کہا تو آرون نے بے ساختہ اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

" ہمارا رشتہ کبھی بات چیت کی ضرورت سے نہیں جاسکتا۔۔۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں بات چیت ختم نہیں ہوتی۔" اس کے چہرے پر آئی ہوئی بالوں کی لٹوں کو اپنی انگلیوں سے ہٹاتے ہوئے  وہ سرگوشی میں گویا ہوا تو زیبا نگاہیں جھکا گئی مگر اس کے چہرے پر پھیلا ہوا تمسخر ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔

"اور جہاںمحبت ہی  نہ بچی ہو آرون ! وہاں کیا ہوتا ہے وہاں کوئی ضرورت بھی نہیں بچتی۔" اس کا لہجہ اس قدر تلخ تھا کہ آرون چند ساعتوں کے لیے چپ سا ہوگیا تھا۔ مگر کیا کرتا تھا تو ایک مرد ہی نا ضرورت کے لیے اسے اپنی عورت ہی درکار تھی۔

" تم بیکار میں مجھ پر شک کرتی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے میں آج بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی بیس سال پہلے کرتا تھا یار۔"  اس کی جسارتیں بڑھتی چلی جارہی تھیں زیبا اس کی گرفت میں کسی بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی مگر کیا کرتی بے بس تھی اس شخص کی بانہوں میں تھی جس سے اسے بہت محبت تھی زندگی کا ایک حصہ اس نے اس شخص سے محبت کرتے گزرا تھا۔  باہر رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی تھی زیبا کا وجود بے بس ہوچکا تھا کچھ اور نہ سہی ایسے ہی چند لمحے اسے اس شخص کی محبت مل رہی تھی جس کی محبت کی وہ ہر لمحہ مطمنی رہتی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آج پشاور کا موسم اور طرح کا تھا ساری رات کی بارش کے بعد گلیوں اور سڑکوں پر پانی بھرا ہوا تھا۔ ایسا ہی منظر کچھ میجر شمس کے فلیٹ کی بلڈنگ کے باہر کا بھی تھا۔ پشاور کینٹ میں پانی کھڑا نہیں ہوتا تھا مگر اس بار تو بارش کے حالات ہی کچھ اس طرح کے تھے  کہ کینٹ جیسے علاقے میں بھی پانی کھڑا ہوگیا۔ وہ بائیک پر کیچڑ اُڑاتا ہوا سیدھا اس کی بلڈنگ کے باہر تھا جہاں اروا کے کالج کی وین اسے اتار رہی تھی۔ شاہزل نے اس کی وین سے کچھ فاصلے پر رک کر تسلی سے اسے اترتے ہوئے دیکھا  اور پھر جب اس کی وین آگے بڑھ گئی تو وہ بھی اپنی بنائیک روک کر اتر آیا۔شرٹ کی مڑی ہوئی استینیں کھول کر اس نے نیچے کیں اور گہری سانس بھری۔

ہ بہت خوبصورت تھی یا شاید اسے لگا کرتی تھی وہ کبھی سمجھ نہیں پایا تھا۔ آج وہ یونیورسٹی سے گھر جا رہا تھا تو قدم بے ساختہ اس کے گھر کی جانب مڑ گئے۔ اپنے گھر کے گیٹ کے قریب اندر جاتی ہوئی اس کی پشت دکھائی دی تھی سر پر گہرے مسٹرد رنگ کا سکارف لپیٹ رکھا تھا۔

"بات سنو اروا!" وہ بے ساختہ پکار بیٹھا اروا نے مڑ کر دیکھا تو نگاہیں جھکا گئی۔ وہ اسے یونہی دیکھ کر ہمیشہ نگاہیں جھکا لیا کرتی تھی۔

"آپ یہاں ابا تو گھر پر نہیں ہیں۔" وہ بوکھلا کر گویا ہوئی تو شاہزل بے ساختہ مسکرا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی اس سے جان نکلتی ہے۔""اچھی بات ہے کہ تمہارے ابا گھر پر نہیں ہیں تنہائی میں تمہارے ساتھ تھوڑا وقت مل جائے گا۔" اس نے اس کی شکل دیکھتے ہوئے بمشکل اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے کہا تو وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں چٹخانے لگی۔

"دیکھیں آپ مجھے ڈرانے کی ہرگز کوشیش نہ کریں۔" وہ انگلی دکھاتے ہوئے چار قدم پیچھے ہوئی تھی مگر وہ چار قدموں کا فاصلہ عبور کرتے ہوئے ایک بار پھر سے اس کے سامنے تھا۔ بالکل اس کے قریب۔

"میں کہاں تمہیں ڈراتا ہوں تم تو خود ہی مجھ سے ڈر جاتی ہو جان کیوں نکل جاتی ہے تمہاری مجھے دیکھ کر کھا تھوڑی جاؤں گا میں تمہیں بس پیار ہی تو کرتا ہوں۔" اس نے شانے اچکاتے ہوئے سرگوشی میں کہا تو اس کے چہرے کی رنگت اُڑنے لگی وہ بنا کچھ کہے علینہ کو آواز دیتی ہوئی اندر کی جانب بھاگی تھی۔

"پاگل ڈرپھوک" پیچھے اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور پیروں میں پڑے ہوئے پتھر کو ٹھوکر مارتے ہوئے اپنی بائیک کی جانب بڑھ گیا۔ سچ تو یہ تھا کہ یہ لڑکی ہمیشہ اس کا امتحان لیا کرتی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

آسمان پر رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ وہ بستر پر لیٹا موبائل سکرول کررہا تھا۔ جب ڈاکٹر احمر قیوم کی کال  دیکھ کر حیران ہوگیا۔ جب سے میرال ڈاکٹر احمر قیوم  کے پاس جانا شروع ہوئی تھی جبرئیل کو اس میں واضح تبدیلی محسوس ہوئی تھی اور کچھ نہ سہی  کم از کم اس نے سب کے ساتھ کھانا پینا شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر احمر قیوم سے سلام دعا کے بعد جو بات انہوں نے  جبرئیل سے کہی تھی اسے سن کر چندساعتوں کے لیے تو جبرئیل کچھ بول نہیں پایا تھا مگر جب کچھ بولنے کے قابل  ہوا تو جیسے سارے الفاظ ہی ختم ہوگئے۔

"لیکن ڈاکٹر صاحب وہ ابھی پڑھ رہی ہے ایسے میں  شادی جیسا فعل انجام دینا کہیں ایسا نہ ہو اس کی ذہنی کیفیت پر زیادہ بوجھ پڑ جائے اور ہم اسےاس کیفیت سے باہر نکالنے کی بجائے مزید اس  میں دھکیل دیں اور پھر جو تھوڑی سی امیداجاگر ہوئی ہے کہ میرال نارمل ہوسکتی ہے وہ بھی ختم ہوجائے۔" جبرئیل کے خدشے غلط نہیں تھے وہ اپنی جگہ بالکل ٹھیک سوچ رہا تھا اس بات کا اندازہ ڈاکٹر احمر کو بھی تھا مگر دوسری جانب سے ڈاکٹر احمر نے انہیں تسلی دی اور ساری بات سمجھانے کے بعد فون بند کردیا۔ ابھی وہ فون رکھ کر کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ زارا کافی کا بھاپ اُراتا مگ لیے اندر داخل ہوئی سر پر آج بھی ویسا ہی رومال باندھا کرتی تھی جیسا کشمیر سے آتے ہوئے  باندھا ہوا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کافی کا مگ اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور اپنی سائیڈ پر آکر بیٹھ گئی سر سے رومال کھول کر  اس نے تکیے پر رکھا اور بالوں کا جڑا کھول کر جبرئیل کو دیکھنے لگی وہ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ دیر توزارا   اس کے چہرے کی جانب دیکھتی رہی کہ شاید وہ اسے اپنی پریشانی بتائے گا مگر جب  پھر بھی وہ کچھ نہ بولا تو زارا خود ہی پوچھ بیٹھی۔

"کوئی پریشانی ہے؟" زارا نے اپنے بال سلجھاتے ہوئے کہا تو جبرئیل گہری سانس بھر کر اس کی جانب  دیکھنے لگا۔

" ڈاکٹر احمر کا کہنا ہے کہ ہمیں میرال کی شادی کردینی چاہیے۔" جبرئیل نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تو زارا حیرت  اور ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

"کیا مطلب ہے شادی کردینی  چاہیے میرال تو ابھی چھوٹی ہے پڑھ بھی رہی ہے پھر ایسے میں اس کی شادی کرنا اور پھر جو اس کی ذہنی کیفیت ہے ۔" زارا کی تو بالکل ہی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسی صورتحال میں کیا کہے۔

"پتا نہیں زار ڈاکٹر کے مطابق شادی  میرال کے لیے بہتر ثابت ہوگی اس سے قوی امکان ہیں کہ وہ نارمل ہوجائے گی۔" وہ دو تین گھونٹ میں ساری کافی ختم کرتے ہوئے گویا ہوا  تو زاار پرسوچ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔

" اگر میری میرال اس سے نارمل لڑکیوں کی طرح ہوسکتی ہے تو  ٹھیک ہے نا پھر کوئی رشتہ ڈھونڈیں اچھا سا۔" زارا کے اندر تو فوری سے بیشتر دیسی ماؤں والی روح بیدار ہوگئی تھی۔

" ہاں مگر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ لڑکا بھی کسی سروس میں ہو۔" اب کی بار کافی کا مگ خالی کرکے رکھتے ہوئے اس نے کہا تو زارا نے برا سا منہ بناتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

" بس کردیں میجر صاحب پہلے میں سروس والا بندہ بھگت رہی ہوں اب اپنی بیٹی کو بھی اسی پر لگا دوں نہ بابا نہ۔" زارا نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تو جبرئیل قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔

"کیوں جی وردی والوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے اتنا تو پیار کرتے ہیں ہم آپ سے۔" اسے اپنی جانب کھینچتے ہوئے وہ گویا ہوا تو زارا جھینپ کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔

" ایسے رومینس کی عمر نہیں ہے اب آپ کی سدھر جائیں۔"  اس کی بانہوں کے حصار سے نکلتے ہوئے  اس نے کہا تو جبرئیل کا موڈ مزید بہتر ہونے لگا۔

"ایسا تو آپ کو لگتا ہے زارا جبرئیل! آپ جیسی بیگم سے رومینس کرنے کی کوئی عمر کوئی حد نہیں ہے۔"  ایک بار پھر سے اسے اپنے حصار میں لیتے  ہوئے وہ گویا ہوا تو زارا بے بسی سے نفی میں سر ہلانے لگی وہ ایسے ہی اس کے آگے ہمیشہ بے بس ہوجایا کرتی تھی  اس کی زندگی بھر کی محبتوں نے زارا کو سر تا پیر سرشار رکھا تھا۔ وہ واقعی ہی ایک اچھا شوہر تھا پھر اس کی بیٹی کے لیے  اس جیسا شوہر کیوں نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ اب دھیرے دھیرے کافی حد تک مطمئن ہوچکی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کازان رشیا

راویریا ایکوا پارک کی بلڈنگس ہمیشہ کی طرح  پرسکون تھیں وہاں لوگ رہتے بھی اور کسی کو پتا بھی نہ ہوتا صبح کا سورج اپنی بیداری کی تیاری میں تھا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس  روڈ سائیڈ پر تیزی سے دوڑ لگا رہا تھا۔ کانوں میں ائیر پورڈز تھے وہ ساتھ ساتھ کسی سے محوِ گفتگو بھی تھا۔

" میں تم سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں تم  لوگوں کے ساتھ مزید کام نہیں کرنا چاہتا۔ پھر بار بار فضول قسم کی ڈیلیز لے کر میرا دماغ خراب مت کرو۔" وہ اپنا ٹریک مکمل کر کے اب بیچ کے سامنے لگے بینچ پر بیٹھ گیا تھا۔ وہاں پہلے سے موجود پانی کی بوتل سے دو تین گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے کہا تو دوسری جانب سے ماسٹر کی آواز ابھرئی اب سے قبل ڈیزی اس سے مخاطب تھی۔

"اگر میں تمہیں تمہاری ہی پسند کی ڈیل بنا کر دوں کیا تم پھر بھی میرے ساتھ کام نہیں کرو گے۔" ماسٹر کے لہجے میں اسے جوش سنائی دے رہا تھا اس کے لبوں پر ایک دلخراش مسکراہٹ چمکی تھی سورج اب مکمل طور پر بیدار ہوچکا تھا۔

" تم میرے معیار تک نہیں پہنچ سکتے ماسٹر!"  سامنے سمندر کی اٹھتی ہوئی لہروں کو دیکھتے ہوئے وہ گویا ہوا تو دوسری جانب سے ماسٹر کا قہقہہ سنائی دیا۔

" تم ابھی تک ماسٹر کو ٹھیک سے جانتے ہی نہیں ہو صدام حیدر! ماسٹر کے کئی روپ ہیں کئی چہرے ہیں اور ہر روپ اور ہر چہرہ قلیل معدت کے لیے ہوتا ہے جلدی سے اپنی ڈیمانڈ بتاؤ ایسا نا ہو کہ میرا یہ روپ ڈھل جائے اور اگلے روپ کی تم تاب نہ لاسکو۔" اس کے لہجے میں ایسا کچھ تو تھا کہ صدام اپنی جگہ چپ سا ہو گیا۔

" ٹھیک ہے شام تک ڈیٹیلز ڈیزی کو ای میل کردوں گا۔" اپنی بات کہہ کر مزید اس نے کوئی بھی بات سنے بغیر ائیر بوڈز کان سے نکالے اور ایک گہری سانس بھرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اس کا رخ اب واپس اپنی بلڈنگ کی جانب تھا۔ جیسے ہی وہ بلڈنگ میں داخل ہوا سامنے ہی اسے زرکا بالوں میں پھول لگائے بینچ پر بیٹھی ہوئی دکھائی دے گئی۔ صدام کو دیکھ کر بھی وہ بنا کوئی تاثر دیے اپنے موبائل میں مگن رہی آج وہ فراک کی بجائے نیلی جینز پر گھٹنوں تک آتے سیاہ ٹاپ میں ملبوس تھی البتہ بالوں میں ہمیشہ کی طرح سکارف موجود تھا۔ اس دن کے بعد سے زرکا کے گھر سے صدام کے لیے کچھ بھی نہیں آیا تھا۔ صدام لاشعوری طور پر زرکا کے گھر سے کھانا آنے کا انتظار کرنے لگا تھا مگر زرکا ایسا روٹھ کر گئی دوبارہ کچھ بھی کھانے کے لیے نہیں لے کر آئی۔

" ہیلو!" نہ نہ کرتے بھی وہ اس کے قریب پہنچ ہی گیا تھا زرکا نے سرا ٹھا کر اس کی جانب دیکھا اور سینے پر انگلی رکھ کر اپنی جانب اشارہ کیا۔

" مجھے مخاطب کیا آپ نے۔" وہ اردو میں ہی بولی تو بے ساختہ صدام کو ہنسی آگئی۔

"جی آپ کو ہی مخاطب کیا ہے سنا ہے ہماری پڑوسن روٹھ گئی ہیں اس لیے تو مزے مزے کی کھانے کی چیزیں اکیلی ہی چٹ کررہی ہیں آج کل۔" وہ خاصے خوشگوار موڈ میں تھا زرکا نے اسے ایسے موڈ میں پہلی بار دیکھا تھا ورنہ تو وہ ہمیشہ سڑا ہوا ہی ملتا تھا۔

" جب پڑوسی ہوں ہی کھڑوس کفرانِ نعمت کرنے والے تو ایسے پڑوسیوں کو کھانے کی بجائے نیلے تھوتھے کی پوڑیاں بھیجنی چاہیے۔" وہ غصے میں بھری ہوئی بولی تو  صدام ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا اسے نہیں یاد پڑتا وہ آخری بار اتنا کب ہنسا تھا۔

" یار آپ تو اچھی خاصی فنی ہیں میں تو ایویں آپ کو ہلکے میں لے رہا تھا۔" منہ کے آگے مٹھی بنا کر رکھتے ہوئے اس نے کہا تو زرکا خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

" بھول ہے آپ کی بدتمیز۔" وہ کہتے ہوئے اٹھ کر تیزی سے بلڈنگ کے اندر چلی گئی اور اس نے اپنی رکی ہوئی ہنسی واپس بحال کردی۔

“Oh I laughed after so long just because of this girl.”

وہ کہتے ہوئے اپنی بلڈنگ کی جانب چل دیا اس کا رخ اب لفٹ کی جانب تھا موڈ کافی سے زیادہ خوشگوار ہوچکا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سکردو بیس کیمپ

 اوائل نومبر میں سکردو کا موسم معمول سے زیادہ ٹھنڈا ہونا شروع ہوجاتا  ہے۔ اسے ہم برف باری کا آغاز بھی کہہ سکتے ہیں وہ بیس کیمپ میں بیٹھا تیزی سے کاغذات الٹ پلٹ کررہا تھا۔ وہ تمام کاغذات آرمز اور ڈرگز کی ڈیٹیل کے تھے۔ عمومی طور پر انڈیا میں زیادہ تر ڈرگز سپلائی کیے جاتے ہیں مگر اس بار یہی سازش پاکستان کی حدود کے اندر بھی کرنے کی کوشیش کی جارہی  تھی اس کی اطلاع ابھی کل ہی اس کے مخبروں نے مہیا کی تھی وہ پہلے ہی آرمز کی وجہ سے خاصا پریشان تھا اور اس پر اب ڈرگز کی اطلاع نے اس کا دماغ مزید گھما کر رکھ دیا تھا۔  ملک کو پتا نہیں کون لوگ نقصان پہنچانے کے درپے تھے نوجوان نسل اگر ایک بار نشے کی لت میں مبتلا ہوجاتی تو ان کا سارا مستقبل تباہ ہوجاتا۔ عنصب نے گہری سانس بھر کر کاغذ ایک جانب کو کیے  اور اپنی ٹوپی اتار کر سائیڈ پر ڈال دی ۔

" سر! " کیپٹن سرمد نے اسے سیلوٹ کیا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔

" میجر اختیار آپ سے ملنے آئے ہیں۔" سرمد کے کہنے پر  اس نے سر ہلا یا تو کچھ ہی دیر بعد اختیار اندر داخل ہوگیا۔ اسکے ہاتھ میں کچھ کاغذات کے ساتھ ایک وائیرلیس ٹرانس میٹر بھی تھا۔

" آؤ اختیار کیسے آنا ہوا؟" اختیار کو اپنے سامنے والی کرسی  کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا تو اختیار سر خم کرتا ہوا اس کے بالکل سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

" یہ کاغذات ہیں پتا چل گیا ہے کہ ہتھیار کونسے ملک سے سپلائی کیے جارہے ہیں۔"  اس نے جوش سے کہا تو عنصب بھی اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

" رشیا۔"  رشیا ہی ہے جہاں گینگسٹر طویل تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ ہتھیار بھی ہماری اطلاع کے مطابق وہی سے آرہے ہیں۔" اختیار کا ہوم ورک پورا تھا اس نے کاغذات اس کے سامنے کھول کر رکھے جہاں مختلف معمالک پہلے سے مارک تھے  یہ جو باقی ملک ہیں یہاں گینگسٹر کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ اس قسم کے ہتھیار نہ تو بناتے ہیں اور نہ ہی استعمال کرتے ہیں یہ مافیہ طبقے کے ہتھیار ہیں جو زیادہ تر رشیا میں ہی پائے جاتے ہیں۔" اختیار کے کہنے پر وہ جوش سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔

" ویل ڈن اختیار! میں جانتا تھا کہ تم یہ پتا لگا ہی لو گے اب ہم اپنے مقصد کے ایک قدم اور قریب ہوگئے ہیں۔" اس نے ہاتھوں کی مٹھی زور سے بند کرتے ہوئے کہا تو  اختیار بھی مسکرا دیا۔

" اس کو چھوڑو جبرئیل سر کا تمہارے لیے وائیرلیس پر فون آرہا تھا وہ ابھی پھر کریں گے اسے تم رکھو اور مجھے اجازت دو۔" وہ کہتے ہوئے اپنا پلندہ اور ٹوپی اٹھاتا ہوا کیمپ سے باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی وائیرلیس ایک بار پھر سے بجنے لگا اس نے فوری بٹن دبا کر وائیرلیس کان کے قریب کیا تھا۔

" گڈ ایوننگ سر اسلام علیکم!" عنصب نے خوشگوار لہجے میں کہا تو دوسری جانب سے جبرئیل کی بھی خوشگوار آواز ابھری۔

" کیا بات ہے میجر گڈ ایوننگ اور سلام ساتھ ساتھ۔"  جبرئیل نے بھی مسکراتے لہجے میں کہا تو عنصب بھی ہنس دیا۔

" کیا کریں سر جب بھی آپ کی آواز آتی ہے   موڈ خود بخود ہی خوشگوار ہوجاتا ہے۔" عنصب واقعی ہی بہت خوش تھا۔

" ایک الجھن ہے عنصب!سمجھ نہیں آرہا تم سے کہو یا نہیں مگر تمہارے علاوہ مجھے کوئی بھی ایسا قابلِ اعتبار شخص نہیں یاد آیا۔" وہ تمہید باندھ رہا تھا عنصب کو یہ بات بہت اچھے سے محسوس ہوگئی تھی۔

" جی سر حکم کریں۔" اس نے ہمیشہ کی طرح تابعداری کا مظاہرہ کیا تھا جو کہ جبرئیل جانتا تھا کہ وہ کرے گا۔

" میری بیٹی سے شادی کرو گے۔" الفاظ نہیں تھے عجیب سا کوئی پتھر تھا جو ایک دم سے عنصب کے سر پر گرا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اختتام باب اول عمر قید

 

This topic was modified 9 months ago 2 times by Novels Hub

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?