Share:
Notifications
Clear all

Dehliz K Paar Wo Season 2 Episode 2

1 Posts
1 Users
0 Reactions
154 Views
(@admin)
Member Admin
Joined: 5 years ago
Posts: 58
Topic starter  
 
NOVELS HUB SPECIAL NOVEL
باب اول : عمر قید
 
قسط نمبر 2
 
را ویریا اکیوا پارک کازان میں اس لمحے رات کے سائے پھیلے ہوئے تھے۔ اس ائیریا کی تمام عمارتوں کی بتیاں ابھی روشن ہی تھیں کچھ ہی تھیں جو مدہم ہو چکی تھیں شاید کچھ لوگ جلدی سونے کے عادی ہونگے۔ وہ کھانے سے فارغ ہو کر کچن میں آیا اور اپنے لیے کافی کا کپ بنا کر ٹیرس میں نکل آیا۔ باہر کی تازہ ہوا نے اس کے شل ہوتے اعصاب پر پرسکون اثر ڈالا تھا۔ اس عمارت کے نوویں فلور کے ٹیرس پر کھڑے ہوئے جو احساس اس لمحے چلتی ہوئی تازہ ہوا کو محسوس کرنے کا تھا اس کی تازگی شاید صدام نے آج سے پہلے محسوس نہیں کی تھی۔ بھاپ اُڑاتی کافی کے کپ میں سے اس نے ایک گھونٹ بھرا تو خیال بھٹک کر شام میں آنے والی لڑکی کی جانب چلا گیا۔ عجیب سی لڑکی تھی خود ہی سوال اور خود ہی جواب کرنے والی۔ اس نے اپنی بتیس سالہ زندگی میں کبھی بھی کسی لڑکی کے بارے میں نہیں سوچا تھا مگر آج زرکا کا انداز اسے اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اس کی سوچ کے گھوڑے مزید دور تک جاتے جیب میں رکھا ہوا اس کا فون چیخ اٹھا۔ کافی کا کپ منڈیر پر رکھ کر اس نے موبائل جیب سے نکال کر کان کو لگایا تھا۔
"بولو ڈیزی!" سکرین پر ڈیزی کا نمبر دیکھ کر وہ بری طرح بدمزہ ہوا تھا کیونکہ اس وقت اس کا ڈیزی سے سر کھپانے کا بالکل بھی موڈ نہیں تھا مگر کیا کرتا ڈیزی اس کی زندگی میں آج کل ایک خاص اہمیت رکھتی تھی کیونکہ وہ اس کے ایک بہت ہی خاص مشن کی انچارج بنی ہوئی تھی۔
"کل آرمز لوڈ کر کے شپ مینٹ کروانی ہے ماسٹر کا خیال ہے تمہیں تمام آرمز ایک بار خود چیک کرلینے چاہیے۔" دوسری جانب سے ڈیزی کی پیشہ ورانہ آواز ابھری تو وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
"فائن کل ملتے ہیں کنسائنمٹ ریڈی ہو جائے تو میں وزٹ کر لونگا۔" اس نے سرسری بات کرتے ہوئے فون بند کر دیا۔ دھیان ایک بار پھر بھٹک کر زرکا کی جانب گیا تھا۔
         ******************************
پھولوں کے شہر میں اندھیروں کا راج تھا۔ نومبر کے اختتام پر سردی ویسے بھی بڑھ جاتی تھی۔ راتیں ضرورت سے زیادہ ٹھنڈی لگنے لگتیں۔ ویک اینڈ ہونے کے باعث تمام لوگ گھر پر ہی موجود تھے۔ خان ولا میں آج سب پرانے بیلی اکھٹے ہونے کو تھے مل بیٹھ کر محفل جمنے والی تھی۔ کھانا تیار کرنے کے بعد وہ خود تیار ہونے اپنے کمرے میں آئی تھی۔ الماری سے اپنے لیے ایک سیاہ جار جٹ کا سوٹ منتخب کر کے وہ باتھ روم میں گھس گئی تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلی تو جبرئیل کو بستر کی پائنتی پر بیٹھے ہوئے پایا۔
"کیا بات ہے باہر کیوں نہیں بیٹھ رہے آپ؟" اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اس کے پیچھے ہی آکھڑا ہوا آئینے میں اب ان دونوں کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ تئیس سالہ شادی کے عرصے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے کس قدر قریب تھے یہ انہیں تب پتا چلتا جب وہ اپنی اولاد کے حوالے سے کسی معاملے پر بھیس کرتے۔
"باہر وقت سے پہلے بیٹھ جاتا تو تمہیں تیار ہوتے کیسے دیکھتا۔" وہ آج بھی اتنا ہی شوخ تھا جب وہ زارا پر جملے پھینکتا تو وہ یونہی جھینپتی تھی جیسے پہلی بار میں نکاح کے بعد اس سے ملنے پر شرمائی تھی اور یہی بات ہر بار جبرئیل کو نئے سرے سے مسکرانے پر مجبور کرتی تھی۔
"دل نہیں بھرا آپ کو مجھے تیار ہوتے دیکھ کر تئیس سالوں سے یہی تو کررہی ہوں۔" بالوں کو کیچر میں باندھتے ہوئے اس نے کہا تو جبرئیل بغور اس کے بال دیکھنے لگا جو ویسے تو بھورے ہی تھے مگر ان میں کہیں کہیں سفید بال بھی دکھ رہے تھے۔
"لاسٹ ٹائم تم نے ڈائی کب کیا تھا؟"آئینے میں اس کا عکس دیکھتے ہوئے وہ گویا ہوا تو زارا ہنس دی۔
" کیوں بوڑھی لگنا شروع ہو گئی ہوں؟" وہ اب لبوں پر ہلکا سا گلوز لگا رہی تھی۔
"بال ڈائی نہیں کرو گی تو بوڑھی ہی لگو گی۔" وہ مصنوعی آہ بھرتے ہوئے بولا تو زارا منہ بنا کر رہ گئی۔
"جس کے لیے بوڑھے جوان دکھنا جب اسے میں ہر حال میں پسند ہوں تو کیا فرق پڑتا ڈائی کروں یا نہیں۔" وہ آخری بار آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ اس کے شانے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ہنس دیا۔
"میں چاہتا ہوں کرنل جبرئیل کی بیوی ہمیشہ جوان لگے وہ اب بھی اس کے ساتھ چلے تو لوگ مڑ مڑ کر رشک کی نگاہوں سے ہم دونوں کو دیکھیں۔" سرگوشی میں کہے گئے اس کے یہ جملے زارا کے گال دہکا گئے تھے۔
"ہماری عمر نہیں ہے اب میرال کے لیے سوچیں میحر صاحب! اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے۔" وہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی اور پیچھے کھڑے جبرئیل کے لیے سوچ کا ایک اور دروازہ کھلا تھا۔
                  *****************
ان دونوں کے کمرے میں سامان بکھرا ہوا تھا جسے زیبا جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے سمیٹ رہی تھی۔ اس کے ماتھے پر سلوٹوں کا اب بھی عجیب سا جال تھا۔ آرون باتھ روم سے نہا کر نکلا تو اسے تیزی سے ہاتھ چلاتے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گیا۔
"نیچے مہمان آنے والے ہیں کم از کم کپڑے ہی بدل لو۔" تولیے سے بال خشک کرتے ہوئے اس نے کہا تو زیبا نے پھاڑ کھانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔
"جب مجھے دیکھنے والے کو ہی مجھ میں دلچسپی نہیں رہی تو بھاڑ میں جائے ساری دنیا۔" وہ ایک بار پھر سے جل کر بولی تو آرون نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔
"تمہیں مسئلہ کیا ہے کیا کروں میں ایسا کہ تمہیں لگے کہ میں تم سے اب بھی اتنی ہی محبت کرتا ہوں جتنی پہلے کرتا تھا۔" آرون اس کی روز بروز کی شکایتوں سے اب تنگ آچکا تھا اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ ایسا آخر کیا کرے کہ زیبا کا موڈ اس سے درست ہو جائے۔ اس کے کہنے پر زیبا نے گہری سانس بھری اور چند قدموں کا فاصلہ عبور کرتے ہوئے آرون کے قریب آ گئی اس نے آرون کا بازو تھاما اور نرمی سے گویا ہوئی۔
"مجھے لگتا ہے آرون تم دور ہو رہے ہو مجھ سے مجھے اپنا آپ اکیلا محسوس ہونے لگا ہے جب میں سبتے اور جبرئیل بھائی کو زارا بھابھی اور آنیہ کے ساتھ ہنستے بولتے پیار کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے تم بہت یاد آتے ہو ہمارے وہ لمحات یاد آتے ہیں جو میں نے تمہاری قربت میں گزارے تھے اب تم اتنے مصروف ہو گئے ہو کہ تمہارے پاس میرے لیے وقت ہی نہیں ہے میں ترس جاتی ہوں تم سے کوئی بھی بات کرتے ہوئے تمہیں یاد ہے خبیب کے ساتھ تم آخری بار کب زیادہ وقت کے لیے بیٹھے تھے یا تم ہمیں باہر کب لے کر گئے تھے تمہیں کچھ بھی تو یاد نہیں ہے۔ " وہ اس کے سینے سے لگی اپنے دل کا تمام غبار یونہی نکال رہی تھی۔ اسے کب اور کیسے آرون سے اتنی شکایتیں ہو گئیں اسے خود بھی پتا نہیں چلا تھا۔ اس کے تمام شکووں پر آرون چپ کا چپ رہ گیا تھا جو ساری باتیں وہ کررہی تھی ان میں سے کوئی بھی بات غلط نہیں تھی پھر اس کی اپنی ذات کونسے بھنوروں میں قید تھی اس نے خود کا تجزیہ کیا تو اس کی ذات کے بہت سارے سیاہ پہلو اس کے اپنے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے جن سے وہ نگاہیں چراتا آرہا تھا مگر وہ سب کے سب ایک سالم سچ کی صورت میں اس کے سامنے تھے۔
"تیار ہو کر نیچے آجاؤ مہمان آتے ہی ہونگے۔" اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے وہ نرمی سے کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ پیچھے اس کے دل کی  دھڑکن ڈوب کر ابھری تھی کیونکہ آرون خان کا یہ روپ وہ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہی تھی۔
                       *****************
خان ولا کی تمام بتیاں روشن ہوئیں تو صاریہ اور اسامہ سب سے پہلے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ آن وارد ہوئے۔ بڑا بیٹا شامیر اور چھوٹا بیٹا شاہزل شامیر میرال کے ساتھ ہی لا کررہا تھا جبکہ شاہزل کا یونیورسٹی بی بی اے میں پہلا سال تھا۔ شمس اور علینہ کی ایک ہی بیٹی تھی اروا جو کہ کیف کے ساتھ کالج میں پڑھ رہی تھی۔ طراب اور مائرہ کی سالوں گزرنے کے باوجود بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ وہ دونوں ان سب بچوں کو ہی اپنا سمجھتے ہوئے پیار کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ جبرئیل نے آج کے کھانے پر عنصب کو بھی انوائیٹ کیا تھا کیوں یہ تو شاید وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ خان ولا کے لاونج سے ہنسی مذاق اور قہقہوں کی آوازیں امڈ رہی تھیں۔ زارا زیبا اور آنیہ کے ساتھ مل کر کچن میں کھانا دیکھ رہی تھی جبکہ صاریہ بھی اب ان کے ساتھ ہی کچن میں آ گئی تھی۔
"واہ بھئی خوشبو تو بڑی اچھی آرہی ہے یقیناً زارا کا پالک گوشت آخیر ہی مزے دار بنا ہو گا۔" پتیلے کا ڈھکن اٹھاتے ہوئے صاریہ نے جوش سے کہا تو زیبا نے منہ بنا کر اس کی جانب دیکھا۔
"بس آپا ہر بار تمہارا آنا پالک گوشت سے ہی ہوتا ہے کسی کو کچھ تو اور کھانےکا موقع دو۔" زیبا نے کیبن میں سے پلیٹیں نکالتے ہوئے کہا تو صاریہ نے اس کے شانے پر ایک چت رسید کی۔
"کیونکہ زارا جیسا پالک گوشت مجھ سے بنتا نہیں ہے نا اس لیے اور تمہیں کیا مسئلہ ہے تم کچھ اور پکا لیا کرو اپنے لیے تمہیں بھی تو اب ہڈحرامی کی عادت سی ہو گئی ہے۔" آنیہ کے ساتھ مل کر برتن ڈائینگ ٹیبل کی جانب لیجاتے ہوئے وہ ذرا سا اترا کر بولی تو زیبا محض سر جھٹک کر رہ گئی۔ میز پر کھانا لگانے کے بعد وہ ایک بار پھر سے ڈرائینگ روم میں آئی تھی جہاں مرد حضرات بیٹھے ابھی بھی گپوں میں مصروف تھے۔
"کھانا لگ گیا ہے آجائیں سب۔" زیبا کا پیغام سن کر سب دھیرے دھیرے اٹھ کر ڈائینگ ٹیبل کی جانب آگئے جہاں لگے ہوئے کھانے کی اشتہار انگیز خوشبو سب کے حواسوں پر چھا رہی تھی۔
"آؤ عنصب بیٹھو اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔" جبرئیل نے اپنے برابر والی کرسی عنصب کے لیے کھینچی تو وہ کچھ شرمندہ سا ہو کر بیٹھ گیا۔
"ہمارے ہاں تو بھئی ہم سب لوگوں کی محفلیں ایسے ہی سجا کرتی ہیں جب موڈ ہو سب کو بلا لو اور اکھٹے کھانا کھا لو صحت اور مزاج دونوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔"سالن والا ڈونگا اٹھاتے ہوئے وہ عنصب سے ہی محوِ گفتگو تھا جبکہ طراب اور اسامہ تو حسبِ معمول کھانا دیکھ کر پاگل ہو چکے تھے۔
" میرال نہیں آئی؟" جبرئیل نے نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالتے ہوئے سب سے پہلے میرال کے بارے میں پوچھا تھا جس پر زارا نے جس بے بسی سے اسے دیکھا تھا وہ جبرئیل سے تو کیا عنصب سے بھی مخفی نہیں رہ پائی تھی۔ میرال کون تھی اور کھانے کی میز پر کیوں موجود نہیں تھی یہ دو سوال بڑی شدت سے اس کے اندر اٹھے تھے مگر وہ چاہ کر بھی اپنے ان سوالوں کو زبان نہیں دے پایا تھا۔ جبرئیل اس کا باس تھا اور جو مرضی سہی وہ اس کے ذاتی معاملات میں بولنے کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا اس نے چپ چاپ سے اپنی پلیٹ میں چاول نکالے اور بے دلی سے کھانے لگا مگر میرال کے بارے میں جاننے کی خواہش تو اسے شدت سے ہوئی تھی۔ باقی تمام لوگ کھانے کے ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے جن میں آرون اور سبتین کے ساتھ شمس،طراب اور اسامہ بھی شامل تھے۔ بچے اپنا کھانا لے کر ہال کمرے میں جا چکے تھے اس لیے وہاں صرف بڑے موجود تھے۔
"تم ٹھیک سے کیوں نہیں لے رہے یہ سالن ٹرائی کرو۔" چکن کڑاہی کا ڈونگا طراب نے عنصب کے آگے کرتے ہوئے کہا تو وہ کچھ شرمندہ سا ہو گیا۔
"ارے نہیں سر تھینک یو آپ لیں مجھے جب چاہیے ہو گا میں خود لے لونگا۔" اس نے شائستگی سے معذرت کی تو طراب ڈونگا واپس رکھ کر اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہو گیا۔
"میٹنگ ان سٹڈی آفٹر ڈنر۔" جبرئیل کی سنجیدہ آواز کمرے میں گونجی تو وہ سب اثبات میں سر ہلا کر اپنے کھانے کی جانب متوجہ ہو گئے۔ کھانے سے فارغ ہو کر جبرئیل کی ٹیم اس کی سٹڈی میں جمع ہو گئی جہاں وہ پہلے سے ہی موجود تھا چہرے پر از حد سنجیدہ تاثرات تھے۔ وہ سب اس کی جانب منتظر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
"آپ سب لوگوں کو میں نے یہاں ایک اہم مقصد کے تحت جمع کیا ہے۔" وہ اپنی بات کہہ کر چند لمحے خاموش ہوا تھا۔
"میں میجر جنرل غلام عباس سے ملنے گیا تھا اور میں نے انہیں تمام واقعے کی رپوٹ بھی پیش کر دی تھی جس پر ان کا کہنا ہے کہ جلد از جلد یہ پتا لگایا جائے کہ آخر کو یہ آرمز آ کہاں سے رہے ہیں اور ان کا سپلائیر کون ہے میں نے اس مشن کو سٹارٹ کرنے کے لیے آپ سب کو یہاں بلایا ہے۔
" طراب اور اسامہ تم دونوں اپنی اپنی ٹیم کو تشکیل دو اور ان تمام ملکوں کی فہرست نکالو جہاں گینگسٹر پائے جاتے ہیں۔"وہ ان دونوں کی جانب دیکھ کر کہتے ہوئے دو منٹ کے لیے خاموش ہوا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو اس کے بعد جب بولا تو مخاطب شمس تھا۔
"شمس تمہیں ملک میں داخل ہوتے تمام کنسائنمنٹ پر نظر رکھنی ہے اس کے لیے ٹیم بناؤ یا جو بھی کرنا ہے کرو کیسے بھی کر کے پتا لگاؤ کہ الیگل آرمز سرحد میں کیسے داخل ہو رہے ہیں باڈرز پر کیا ہو رہا ہے۔"  شمس کے بعد اس کی توجہ کا مرکز عنصب تھا جو بغور اسے دیکھ بھی رہا تھا اور اس کی باتوں کا سرا تھامنے کی کوشیش میں ہلکان ہو رہا تھا۔
"عنصب! تم سکردو واپس چلے جاؤ تمہیں وہاں جا کر بیس کو رپوٹ کرنی ہے  یہاں جو بھی حالات پیش آئے وہ سب تمہیں وہاں جا کر بتانے ہیں وہاں کی سرحدوں پر نظر رکھو کچھ بھی چھوٹنا نہیں چاہیے ہم سے۔ یہ مشن ہمارے لیے بہت اہم ہے ورنہ ملک میں ہتھیاروں کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ ہم اس کا استعمال روک نہیں پائیں گے وزیرستان اور صحراؤں میں ڈیرا ڈالے دہشت گردوں کو ملک میں دہشت گردی پھیلانے کا موقع مل جائے گا اور وہ تو ویسے ہی موقعے کی طاق میں ہیں۔" جبرئیل اب کی بار اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے گویا ہوا تو سب نے اس کی تائید کی۔
"راجر سر! انشاءاللہ سچوئشن ہمارے کنٹرول میں ہو گی۔" عنصب بھی کہتے ہوئے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا جیسے وہ اب یہاں سے جانا چاہتا ہو۔
"مجھے اجازت دیں سر بارہ بجے میری واپسی کی فلائیٹ ہے۔" جبرئیل کو سیلوٹ کرتے ہوئے اس نے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا کر اسے جانے کی اجازت دے دی باقی کے لوگ سٹڈی میں ہی بیٹھے چائے پینے میں مصروف تھے جبکہ سبتے اور آرون نیچے لاونج میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
وہ اجازت لے کر سٹڈی سے باہر نکلا اور چلتا ہوا صدر دروازہ عبور کرتے ہوئے باہر لان میں آگیا۔ وہ لان پار کر کے اپنی گاڑی کی جانب جا رہا تھا جب لان چئیر پر بیٹھے ہوئے ہیولے پر اس کی نظر پڑی تھی۔ نیم اندھیرے کے باعث وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا تھا مگر اس کی زیرک نگاہوں کے مطابق وہ ہیولہ کسی لڑکی کا تھا جو بالکل ساکت کرسی پر بیٹھی شاید آسمان میں چمکتے چاند کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خود کو روکنا چاہتا تھا مگر چاہ کر بھی روک نہیں پایا اور آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوا اس کی کرسی کی جانب آ گیا۔
"اسلام علیکم!" اس کے لہجے میں شائستگی تھی۔ میرال نے چونک کر آواز کی جانب دیکھا تو ایک اچھے خاصے لمبے چوڑے مرد کو اپنے سر پر کھڑے پایا جو اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر نرم تاثرات تھے۔
"اگر میں غلط نہیں ہوں تو آپ شاید میرال ہیں۔" اس نے جب اس سے اپنے سلام کا جواب نہیں پایا تو مزید بولے بنا نہیں رہ سکا۔ وہ اب بھی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اب کی بار عنصب کو وہ قدرے عجیب لگی تھی جو بھی تھا مگر اتنی اخلاقیات تو وہ دکھا ہی سکتی تھی کہ کم از کم سلام کا جواب تو دے ہی سکتی تھی عنصب کو اب کی بار حیرت کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا تھا۔
"اتنی تو سینس ہر انسان میں ہوتی ہے کہ اگر کوئی سلام کرے تو سلام کا جواب دیا جائے  مگر آپ کو دیکھ کر مایوسی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی ہے۔" عنصب کا لہجہ ذرا سی سختی اور مایوسی لیے ہوئے تھا میرال نے گہری سانس بھر کر اس کی جانب یوں دیکھا تھا جیسے کسی گہرے جمود کے ٹوٹنے کے بعد کوئی جاگا ہو۔
"آئی ایم سوری وعلیکم اسلام۔" اس کا لہجہ اب بھی حد درجہ بیگانگی لیے ہوئے تھا۔
"کیا آپ ٹھیک ہیں میراطلب ہے کوئی مسئلہ تو نہیں؟" وہ بنا اس کی اجازت کے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا گھڑی ابھی ساڑھے دس بجا رہی تھی یعنی ابھی اس کے پاس میرال کے پاس بیٹھنے کا تھوڑا سا وقت تھا۔
"ہمم میں ٹھیک ہوں شکریہ۔" وہ ایک جملہ کہہ کر پھر سے خاموش ہو گئی اس نے خود سے نہ تو عنصب کے بارے میں جاننے کی کوشیش کی تھی اور نہ ہی اس سے کوئی سوال کیا تھا وہ کرسی پر کسی مومی بت کی طرح بیٹھی یا تو لان کی گھاس کو دیکھ رہی تھی یا تو آسمان پر چمکتے ہوئے چاند کو۔
"آپ کھانے پر کیوں نہیں آئی تھیں میرال سب آپ کا پوچھ رہے تھے۔" اس نے باتوں کا سلسلہ مزید طویل کرنے کی اہک موہوم سی کوشیش کی تھی جو کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکی تھی۔
"میں زیادہ تر کھانا اپنے کمرے میں ہی کھاتی ہوں مجھے بہت لوگوں کے بیچ بیٹھنا پسند نہیں۔"  اس کا لہجہ مدہم تھا انتہائی آہستہ جیسے وہ اپنے کسی جرم کا اعتراف کررہی ہو۔ عنصب نے اچھنبے سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
"بعض اوقات لوگوں کے درمیان بیٹھ کر آپ اپنی ذات کے بہت سے پوشیدہ پہلو تلاش کر لیتے ہو جو تنہائی میں بیٹھ کر آپ سے مخفی رہ جاتے ہیں۔ آپ کے گھر والے شاید آپ کی وجہ سے بہت پریشان ہیں کوشیش کریں ان کے لیے خود کے کمفٹ زون کو چھوڑ دیں۔ چلتا ہوں۔" وہ کہتے ہوئے کرسی چھوڑ کر کھڑا ہوا اور اس کے دیکھتے ہی دیکھتے خان ولا کے گیٹ سے اپنی گاڑی باہر لے گیا پیچھے وہ محض اس شخص کے کہے ہوئے جملے سوچتی ہی رہ گئی۔
                            **********
کارڈیف ویلیز کا موسم آج عجیب سا سرد ہو رہا تھا۔ نومبر میں ہی برف باری شروع ہو چکی تھی۔ روپا دیوی گھر کی تمام کھڑکیاں بند کرتی جا رہی تھیں جبکہ کھڑکیاں بند کرنے سے اسے عجیب سی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
"کچن کی چھوٹی کھڑکی کھلی رہنے دینا روپا دیوی! ورنہ بہت حبس ہو جائے گا میرا دل آگے ہی گھبرا رہا ہے۔" لیونگ روم کے صوفے پر بیٹھی ہوئی وہ عجیب آوازاری کا شکار ہو رہی تھی۔ روپا دیوی بس تاسف سے اس کی جانب دیکھ کر رہ گئی جو چہرے سے ہی کافی الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔
"کیا بات ہے میڈم! باہر اتنی ٹھنڈ کے باوجود بھی آپ کو پسینے آ رہے ہیں۔" روپا دیوی نے پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ آنکھیں بند کر کے خود کو پرسکون کرنے لگی۔
"آج وہ فون کرنے والا ہے۔" اس کے لہجے میں عجیب سی بے بسی تھی،عجیب سا خوف جو شاید کبھی اس کی زندگی کا حصہ نہیں رہا تھا مگر کچھ سالوں سے وہ خوف اسے اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا اس کا ازلی رعب کہیں جا سویا تھا اب تو محض وہ ایک قیدی تھی جو سالوں سے اس کی قید میں تھی فرار چاہتی تھی مگر چاہ کر بھی فرار اسے مل نہیں سکتی تھی۔
"وہ تو آپ کو کچھ بھی نہیں کہتے پھر آپ ان سے ڈرتی کیوں ہیں دیکھیں اپنے اردگرد اس گھر کو اس زندگی کو کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے ہر چیز ہے آپ کی سہولت کے لیے میں ہوں آپ کی خدمت کے لیے پھر بھی آپ ہر وقت اداس رہتی ہیں۔" روپا دیوی کو اس کی اداسی کی وجہ کبھی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ جس طرح کی زندگی وہ گزار رہی تھی ایسے میں کون اداس اور ناشکری کرسکتا تھا۔ اسے تو باہر گھومنے پھرنے کی بھی آزادی تھی ہاں بس وہ کارڈف سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔
"قید قید ہی ہوتی ہے روپا دیوی چاہے پھر وہ سونے کے پنجرے میں ہی کیوں نہ ہو جہاں آپ اپنی مرضی سے آزادی کی سانس نہیں لے سکتے آپ باہر نہیں جا سکتے باہر جاؤ تو آپ کی لوکیشن ٹریس کی جائے وہ قید قید ہی ہوتی ہے گھٹن ہوتی ہے مجھے اس قید میں۔"پانی کا گلاس تھام کر اس نے گھونٹ بھرتے ہوئے بیچارگی سے کہا تو روپا دیوی افسوس سے اس کی جانب دیکھ کر رہ گئی اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی بات کرتی میز پر رکھا ہوا آئی پیڈ بج اٹھا اس کے دل کی دھڑکن ڈوب کر ابھری تھی۔ روپا دیوی نے آئی پیڈ آن کر کے اس کے سامنے رکھ دیا سکرین پر وہ چہرہ نمودار ہو رہا تھا جو  اسے کبھی بھی پسند نہیں تھا مگر شاید اگر وہ اس چہرے کی حقیقت جان لیتی تو وہ چہرہ اسے جان سے زیادہ عزیز ہو جاتا۔
" کیسی ہیں آپ؟" دوسری جانب سنجیدگی سے استفسار کیا گیا تو وہ گہری سانس بھر کر اثبات میں سر ہلا گئی۔
"قید میں کوئی کیسا ہو سکتا ہے بزنجو! میں بھی ویسی ہی ہوں جیسا کوئی قیدی قید میں ہوتا ہے۔" اس کا لہجہ مدہم طنز میں ڈوبا ہوا تھا۔
"کچھ چیزیں قید میں رکھنے کے لیے نہیں بلکہ سنبھال کر رکھنے کے لیے ہوتی ہیں جیسے میں نے آپ کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ " دوسری جانب سے بنا کسی اثر کے دوٹوک جواب آیا تو وہ مسکرا کر رہ گئی اس کی مسکراہٹ کا دورانیہ انتہائی قلیل تھا سکرین پر چمکتے چہرے کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔
"چلیں آج میں آپ کو ڈنر پر بھیجتا ہوں آپ اور روپا دیوی باہر نکلیں سارا دن گھومیں پھریں شاپنگ کریں اور پھر اچھا سا ڈنر کریں آپ بہتر فیل کریں گی۔" سکرین پر چمکتے چہرے نے بڑی پرکشش پیشکش کی تو روپا دیوی کی باچھیں کھل اٹھیں۔
"سچ کہہ رہے ہیں آپ بزنجو! ہم دونوں باہر گھومنے جائیں کیا میں بھی اپنے لیے شاپنگ کروں؟" روپا دیوی کا جوش قابلِ دید تھا سکرین پر چمکتے چہرے کی جانب سے قہقہہ لگایا گیا تو وہ خفگی سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"ظاہر ہے یہ آفر صرف ان کے لیے نہیں ہے تمہارے لیے بھی ہے آخر کو تم ان کا اتنا خیال جو رکھتی ہو جاؤ جو دل کرے خریدو مزے کرو" سکرین اب بجھ چکی تھی جس کا مطلب تھا مقابل کال بند کر کے جا چکا تھا۔ روپا دیوی جوش سے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی تھی۔
" اچھا ہو گیا نا آپ باہر نکلیں گی تو آپ کی طبعیت پر خوشگوار اثر ہو گا۔" روپا دیوی گلاس اٹھا کر ایک بار پھر سے کچن کی جانب بڑھی تھی باہر برف کے ننھے ننھے گولے گرنا شروع ہو چکے تھے۔ وہ بنا کچھ بولے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی جو بھی تھا مسلسل گھر رہنے سے تو باہر گھومنا قدرے بہتر تھا شاید روپا دیوی کو بھی اس ڈوز کی ضرورت تھی۔ اس پورے شہر میں روپا دیوی اس کی واحد ساتھی تھی جو صبح سے شام تک اس کے ساتھ رہتی تھی اس کے کام کرتی اس کے لیے کھانا بناتی اور پھر اس کی بوریت دور کرنے کے لیے بھی جتن کرتی۔ روپا دیوی کو شاید اس کے ساتھ رہتے ہوئے اب محبت ہو چکی تھی وہ چاہ کر بھی اس سے دور نہیں جا سکتی تھی اور نہ ہی وہ اسے اداس دیکھ سکتی تھی وہ جب بھی اداس ہوتی روپا دیوی اسے ہنسانے کے لیے جتن کرتی۔ سچ تو یہ تھا کہ سالوں سے اس کے ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ یہ الجھی ہوئی پہیلی نہیں سلجھا پائی تھی۔
                       ****************
پھولوں کے شہر کا موسم آج بڑا سہانا سا تھا۔  وہ کچن آئیلینڈ پر بیٹھی سبزی کاٹنے میں مصروف تھی جب شامیر یونیورسٹی سے سیدھا کچن میں ہی داخل ہوا تھا۔ بیگ کچن آئیلنڈ کی کرسی پر رکھتے ہوئے اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور گلاس میں انڈیل کر پینے لگا۔
"کتنی بار کہا ہے تم سے پانی بیٹھ کر پیا کرو مگر مجال ہے جو تمہیں اثر ہو جائے۔" کریلے چھیلتے ہوئے اس نے شامیر کے لتے لیے تھے۔
"سوری یار جب پیاس کی شدت ہو تو بیٹھنا یاد ہی نہیں رہتا۔" وہ شانے اچکا کر ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر گیا۔
"یہ کن ہواؤں میں ہو تم آج کل کوئی تو چکر ہے ذرا بتاؤ مجھے بھی۔" صاریہ نے کریلے ٹرے میں رکھتے ہوئے بغور اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ بھنویں اچکا کر ان کی جانب دیکھنے لگا۔
"کیا مطلب ہے آپ کا وکیل میں بن رہا ہوں تفتیش آپ کررہی ہیں۔" وہیں رکھی ہوئی فروٹ باسکٹ میں سے سیب اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے اس نے کہا تو صاریہ نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ اس کے بدلے بدلے رنگ ڈھنگ تو وہ کافی عرصے سے نوٹ کررہی تھی مگر یہ سوچ کر کچھ بولی نہیں تھی کہ شاید وقتی اثر ہے مگر اب گزرتے دنوں کے ساتھ اس کا زیادہ دیر موبائل استعمال کرنا بے جا مسکراتے رہنا اسے عجیب سے شک و شبات میں مبتلا کررہا تھا۔
"یہ جو تم آج کل ضرورت سے زیادہ دانت نکالتے ہو نا اور ہر وقت فون پر لگے رہتے ہو سب سمجھ آرہی ہے مجھے۔" صاریہ نے منہ اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا تو شامیر نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی اپنی ماں کو اس وقت مکمل تفتیش کے موڈ میں دیکھ کر اسے اچھی خاصی ہنسی آرہی تھی۔
"کیا ہو گیا ہے ماما! کیوں بلا وجہ ٹیپیکل امیوں کی طرح شک کیے جا رہی ہیں۔" وہ سیب کھا کر اس کا چھلکا اب کریلوں کے چھلکوں والی ٹرے میں رکھ چکا تھا۔
"پڑھائی پر توجہ دو اپنی ورنہ ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دونگی تمہاری اگر ایسی ویسی کوئی بھی بات نکلی تو ابھی پڑھائی کرنے کی عمر ہے تمہاری عشق و عاشقی نا وکالت کے بعد لڑا لینا نہیں تو تمہارے بابا سے طبعیت درست کراؤں گی تمہاری جاو کپڑے تبدیل کرو جا کر اور ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ پر رکھنا کوئی بھی چیز اپنی جگہ سے ہلی ہوئی تو اچھا نہیں ہو گا۔" ایک بار پھر چھری پکڑ کر اس نے اسے تنبیہہ کی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر کچن سے باہر نکل گیا۔ پیچھے وہ اس کے کرتوتوں کی بابت سوچتی ہی رہ گئی کوئی تو چکر تھا جو یہ لڑکا آج کل ہواؤں میں تھا۔ وہ سر جھٹک کر ایک بار پھر سے سبزی کاٹنے میں مصروف ہو گئی۔
شامیر اپنے کمرے میں داخل ہوا تو بنا کپڑے تبدیل کیے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ سب سے پہلے اسے اپنی ماں کی باتوں پر ہنسی آئی تھی اور پھر اس کے بعد اسے اپنے فون کا خیال آیا تو جیب سے موبائل نکال کر اس نے کال ملائی تھی۔ تقریباً تیسری گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔
"کیسی ہیں محترمہ آپ پتا نہیں کہاں ہوتی ہیں کل بھی تم سے ٹھیک سے بات ہی نہیں ہو پائی۔" شامیر کے چہرے پر دل موہ لینے والی مسکراہٹ تھی دوسری جانب سے ہنسی کی جلترنگ گونجی تو وہ مزید سرشار ہوا تھا۔
"میری ماما کے بقول میں تب تک کوئی چکر نہیں چلا سکتا جب تک سالم وکیل نہ بن جاؤں۔" وہ صاریہ کی بات یاد کرتے ہوئے ایک بار پھر مسکرایا تھا۔ دوسری جانب سے پریشانی کا اظہار کیا گیا تو شامیر قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"تمہیں کیا ٹینشن ہو رہی ہے جب ماما کو تمہارے بارے میں پتا چلے گا تو یقیناً وہ خوش ہی ہونگی پتا نہیں تمہیں کیا ٹینشن ہے ہر بات سر پر سوار کرنے کی۔" اب کی بار شامیر ذرا برہم ہوا تو دوسری جانب سے فوری معذرت کر لی گئی۔
"اچھا میں اب چینج کر لوں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں اپنا خیال رکھنا خدا حافظ۔" اس نے جلدی سے بات سمیٹ کر فون بند کر دیا تھا مگر ایک عجیب سی سرشاری تھی جو اس کے رگ و پا میں اتر گئی تھی۔ اس کے ساتھ کا تصور ہی اتنا حسین تھا جب وہ سالم حقیقت بن کر سامنے آئے گی تو کیا سماں ہو گا۔ یہ تصور ہی شامیر کو گدگدا رہا تھا۔
                       ***************
تقریباً رات ایک بجے اس کی فلائیٹ سکردو ائیرپورٹ پر لینڈ کی تھی۔ ائیرپورٹ کے احاطے سے باہر نکل کر  وہ ابھی تھوڑا سا ہی چل کر آیا تھا کہ اسے اپنی گاڑی اور ڈرائیور اپنے انتظار میں کھڑے دکھائی دے گئے۔ شولڈر بیگ کا اسٹیپ کندھے پر درست کرتے ہوئے وہ تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا گاڑی کی جانب بڑھا تھا۔ اسے آتا دیکھ کر ڈرائیور نے تیزی سے پچھلا دروازہ کھولا تھا۔ اس کے اندر بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کر کے ائیرپورٹ کی حدود سے باہر نکال لی۔  گاڑی تقریباً آدھے گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد شامدان کمپلیکس میں داخل ہوئی تھی۔ شامدان کمپلیکس پہاڑی کے اوپر واقع تھا۔ ڈرائیور نے بڑی احتیاط سے گاڑی پہاڑی پر چڑھائی تھی۔ پہاڑی کے بیچ کٹاؤں میں بنی ہوئی بل کھاتی سڑک  خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ مزید چڑھائی کے بعد گاڑی ایک خوبصورت دو منزلہ لکڑی کے کاٹچ کے احاطے میں داخل ہوئی تھی۔ جہاں اندھیرے کے باعث ایک دو پیلی بتیاں روشن تھیں۔ گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے اس نے چوکیدار اور ڈرائیور کو چند ضروری ہدایات دیں اور خود لکڑی کا دو پنوں والا دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ اس کا گھر ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا صاف ستھرا نفاست سے سجا ہوا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ننھی سی راہداری تھی جس کے دائیں جانب ایک کمرہ تھا وہی راشدہ بیگم کے استعمال میں تھا۔ راہداری کی چھت پر ایک خوبصورت مگر چھوٹا سا فینوس لٹک رہا تھا۔ راہداری سے اندر داخل ہوتے ہی مختصر سا ٹی وی لاونج تھا جہاں ایک ایل شیپ صوفے کے علاوہ دو ایزی چئیرز بھی رکھی ہوئی تھیں۔ لاونج کے بائیں جانب چھوٹا سا اوپن کچن تھا جس کی سلیب کے سامنے ہی چار کرسیوں والا گول ڈائینگ ٹیبل پڑا ہوا تھا۔ کچن کے ایک جانب سے گولائی میں سیڑھیاں اوپر کو جا رہی تھیں۔ اوپر آتے ہی لاونج پڑتا تھا جس کے سامنے ہی دو بڑے بڑے بالکونی والے کمرے تھے جس میں سے ایک اس کا بیڈ روم تھا جبکہ دوسرا گیسٹ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ بیگ اس نے ابھی صوفے پر رکھا ہی تھا کہ راشدہ بیگم اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آ گئیں ان کی آنکھوں سے لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی دروازہ کھلنے پر ان کی نیند ٹوٹی ہے۔
"آگئے تم؟" دوپٹہ اچھی طرح سے سر پر لپیٹتے ہوئے انہوں نے دیوار گیر گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا تو وہ چلتا ہوا ان کے قریب آگیا۔ ان کے دونوں ہاتھ تھام کر اس نے ان کے ہاتھوں کی پشت پر بوسہ دیا اور انہیں لیے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"جی آگیا آپ کیوں اٹھ گئیں دوا کھائی ہے آپ نے؟" وہ ہنوز ان کے ہاتھ تھامے پوچھ رہا تھا جس پر وہ دھیمے سے مسکرائی تھیں۔
"کھا لی تھی پتا تھا تم واپس آرہے ہو اس لیے زیادہ نیند تو آئی ہی نہیں بس ابھی سرسری سی آنکھ لگی تھی پھر دروازے پر کھڑاک ہوا تو مجھے لگا تم آ گئے ہو اس لیے اٹھ کر باہر آ گئی۔" راشدہ بیگم کا لہجہ حد درجہ نرم تھا ان کا لہجہ صرف اپنے بیٹے کے لیے ہی نرم نہیں ہوتا تھا بلکہ تمام لوگوں کے لیے ان کا لہجہ ایسا ہی ہوتا تھا۔
"کچھ کھایا ہے تم نے کھانا لگاؤں؟" اس کے بال ماتھے سے پیچھے ہٹاتے ہوئے انہوں نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"نہیں کھانا میں کھا کر نکلا تھا آپ صرف مجھے چائے کا ایک تگڑا سا کپ پلا دیں تھکاوٹ سی ہو رہی ہے۔ اللہ داد سو گیا ہے کیا؟" اس نے خانسامے کی بابت پوچھتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئیں۔
"ہاں وہ تو دس بجے کا چلا گیا اپنے کواٹر میں کہہ رہا تھا کہ طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے تم جاؤ تازہ دم ہو لو میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔" اسے کہتے ہوئے وہ خود اٹھ کر کچن کی جانب چلی گئیں جبکہ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگیا۔ الماری سے کپڑے نکال کر وہ کچھ ہی دیر میں نہا کر باہر نکل آیا تھا۔ گیلے بال ماتھے سے چپکے ہوئے تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے بالوں میں کنگھی کی اور بنا جیکٹ پہنے بالکونی میں آگیا۔ باہر آکر اسے شدید سردی کا احساس ہوا تھا۔ جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائیٹر نکال کر اس نے سگریٹ لگایا تو دھویں کا بھاری مرغولہ فضا میں رقص کرنے لگا۔ سگریٹ کی تپش اس کے اعصاب دھیرے دھیرے پرسکون کرنے لگی۔ کمرے کے دروازے پر کھڑاک ہوا تو اس نے جلدی سے آدھ پیا ہوا سگریٹ اپنے جوتے تلے مسل ڈالااور بالکونی کی ریلینگ کھولتا اندر آگیا جہاں راشدہ بیگم بیڈ سائیڈ ٹیبل پر چائے سے بھرا ہوا مگ رکھ چکی تھیں۔
"بس بھئی مجھ سے نہیں دی جاتیں اب تمہاری ڈیوٹیاں شادی کرو خود کو بھی سکون دو اور مجھے بھی بہو کا سکھ دو اکیلے رہ رہ کر میں بھی اب تنگ آ گئی ہوں سارا دن اللہ داد اور اس کی بیوی گل بشرہ سے باتیں کر کر کے میرا دن نہیں گزرتا کوئی کام تم مجھے کرنے دیتے نہیں ہو۔" اب کی بار وہ خفگی سے گویا ہوئیں تو عنصب ہنس دیا۔ اپنی ماں کی معصومیت پر اسے ہمیشہ یونہی ہنسی آیا کرتی تھی اسی کے ساتھ ایک دھندلا سا ہیلولہ بھی آنکھوں کے پردوں پر رقص کیا تھا لان چئیر پر بیٹھا ہوا وہ ہیلولہ اس کے تصور میں ابھر کر اسے ایک لمحے کے لیے عجیب سے احساس سے دوچار کر گیا تھا۔
"کچھ کہہ رہی ہوں میں تم سے کوئی دھیان ہے بھی تمہارا یا نہیں۔" وہ ایک بار پھر خفگی سے گویا ہوئیں تو وہ ہنس دیا۔
"اچھا امی کر لیں گے شادی آپ کیوں بلا وجہ میں پریشان ہو جاتی ہیں پہلے ڈیوٹی تو کر لیں پھر شادی بھی ہو ہی جائے گی۔" چائے کے کپ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے کہا تو راشدہ بیگم خفگی سے اس کی جانب دیکھنے لگیں۔
"ہاں اس ڈیوٹی کے چکر میں نا میرے ارمان اور تمہاری شادی یونہی ادھوری رہ جانی ہے تم کب سنجیدہ ہو گے عنصب مجھے گھر میں رونق چاہیے پوتا پوتی چاہیے مجھے۔" وہ بھی اب کی بار ہر قسم کا لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے گویا ہوئیں تو اب کی بار عنصب کا جاندار قہقہہ فضا میں گونجا تھا۔
"توبہ ہے امی آج کل کی ماؤں کی سروس بڑی فاسٹ ہے ویسے شادی ہوئی نہیں ساتھ ہی ان کو پوتا پوتی چاہیے قدرت کا نظام ہے ڈائنلوڈ تھوڑی کرنے ہوتے ہیں جو فوری سے پیش کردیں آپ کو۔" وہ اپنی ہی بات کا مزہ لیتے ہوئے گویا ہوا تو راشدہ بیگم اسے گھور کر رہ گئیں۔
"بس بکواس کرالو تم سے چلو جلدی چائے پی کر سو جانا رات بھر جاگتے مت رہنا اب میں تو چلی سونے کسی بات کا جو اس لڑکے کو اثر ہو جائے۔" گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوتے ہوئے وہ جل کر گویا ہوئیں تو وہ سر جھٹک کر مسکرا دیا تب تک راشدہ بیگم دروازہ بند کر کے جا چکی تھیں۔ ان کے جاتے ہی اس نے بچی ہوئی چائے کے گھونٹ بھرے اور کپ واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لائیٹ بند کرتے ہوئے وہ کمبل اوڑھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ آنکھیں موندتے ہی ایک بار پھر سے وہی دھندلا ہیولہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا مگر اب کی بار تصویر اتنی دھندلی نہیں تھی۔ لبوں نے ہواس گم ہونے سے پہلے ایک ہی نام پکارا تھا۔
"میرال خان۔۔۔"
                     ****************
صبح کا سورج اس قدر روشن اور خوبصورت اترا تھا کہ طبعیت پر خود بخود ہی خوشگوار اثر مرتب ہو رہے تھے۔ نومبر کا اختتام اختتام تھا اس لیے فضا مزید سرد ہو رہی تھی۔ ایسے میں ہلکی سی دھوپ بھی مل جاتی تو طبعیت خود بخود ہی سہل ہو جاتی۔ وہ دونوں لان میں بیٹھے تھے۔ کرنل خاور ویل چئیر پر بیٹھے اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے جبکہ نگہت آرا ان کے پاس ہی کرسی پر بیٹھیں سلائس پر مکھن لگا کر انہیں دے رہی تھیں۔ اب تو وہ بالکل ہی رہ گئی تھیں نحیف ہاتھ بمشکل ہی اپنے کام کر پاتے تھے جبکہ کرنل خاور کو تو بڑا عرصہ ہوا ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ تھا جس کے باعث وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہو چکے تھے۔
"تم کیوں کررہی ہو فاخرہ کو بول دیتی وہ لگا دیتی تم بھی آرام سے ناشتہ کرتیں۔" کرنل خاور نے اخبار تہہ کر کے میز پر رکھتے ہوئے کہا تو نگہت آرا مسکرا دیں۔
"آپ کو پتا تو ہے کہ مجھے آپ کے کام کرنا پسند ہے اتنے سالوں تک میں آپ سے دور رہی آپ کی خدمت نہیں کرسکی اب تو جی چاہتا ہے جب تک بدن میں جان ہے آپ کی خدمت کروں۔" چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے وہ آبدیدہ لہجے میں گویا ہوئیں تو کرنل خاور مسکرا دیے۔
"بچوں کی سناؤ بڑے دنوں سے چکر ہی نہیں لگایا انہوں نے نہ جبرئیل آیا مجھ سے ملنے اور نہ ہی زارا اور بچوں کی کوئی اطلاع آئی۔" اب کی بار وہ پلیٹ میں رکھے ہوئے سلائس دھیرے دھیرے کھا رہے تھے۔
"جی فون پر بات ہوئی تھی کہہ تو رہی تھی کہ وقت ملے گا تو ملنے آئے گی آپ کو تو پتا ہے آج کل بچوں کی پڑھائیاں اور ان کے موڈ دیکھنا پڑتے ہیں اگلوں کے موڈ ہوں تو ہم بوڑھوں کو ملنے آجائیں نہ ہوں تو نہ آئیں۔" چائے کا خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے وہ برتن سمیٹتے ہوئے گویا ہوئیں تو کرنل خاور دھیمے سے ہنس دیے۔
"بہت جلدی مایوس ہو جاتی ہو تم نگہت! وہ دیکھو آگیا ہے جبرئیل۔" جبرئیل کی جیپ گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے ہنس کر کہا تو نگہت آرا جوش سے کھڑی ہو گئیں تب تک وہ ان دونوں کے قریب آچکا تھا۔
"اسلام علیکم!" اس نے یونیفارم کی کیپ اتارتے ہوئے ان دونوں کو سلام کیا تو نگہت آرا نے آگے بڑھ کر اسے پیار دیا تھا۔
"بسم اللہ بیٹا! زارا نہیں آئی تمہارے ساتھ؟" اس کے لیے کیتلی میں سے گرم چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"نہیں انٹی! میں تو دفتر کے کسی کام کے سلسلے میں نکلا تو دل کیا کہ سر کو دیکھتا جاؤں اس لیے سیدھا ہی یہاں آگیا زارا کو تو میرے یہاں آنے کا معلوم بھی نہیں ہے۔" چائے کا کپ اپنے سامنے کرتے ہوئے اس نے کہا تو وہ مایوس ہو کر اٹھ گئیں۔
"ناشتہ کرو گے؟" انہوں نے مسکرا کر پوچھا تو وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد اثبات میں سر ہلا گیا۔
"ناشتہ میں نے کیا تو نہیں ہے کیونکہ میں آج بہت صبح کا نکلا ہوا ہوں اس لیے ناشتہ نہیں کر پایا اگر آپ کے ہاتھ کا گرم گرم انڈہ پراٹھا مل جائے تو قسم سے لطف دوبالا ہو جائے۔" چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے بیچارگی سے کہا تو وہ ہنس دیں۔
"کیوں نہیں ضرور تم بیٹھو میں ابھی بنا کر لاتی ہوں۔" وہ کہتے ہوئے کچھ برتن اپنے ہمراہ لیے اندر کی جانب بڑھ گئیں جبکہ باقی برتن اٹھانے کے لیے فاخرہ اندر سے باہر آرہی تھی فاخرہ ان کی اکلوتی ملازمہ تھی جو ان دونوں کے اوپر تلے کے کافی کام کیا کرتی تھی جس میں کھانا بنانا بھی شامل تھا۔
"ہاں تو برخودار کیسے آنا ہوا؟" کرنل خاور کی زیرک نگاہوں سے اس کا چہرہ مخفی نہیں رہ پایا تھا وہ ہمیشہ ہی جبرئیل کے چہرے سے اس کی پریشانی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔
"آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ مجھے کوئی مسئلہ ہے؟" اس کے چہرے اور لہجے دونوں میں ان کے لیے عقیدت تھی سچ تو یہ تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں ان جیسا جگرے والا آدمی نہیں دیکھا تھا جو شخص اصول اور فرض کے لیے اپنی سگی اولاد تک کی پرواہ نہ کرتا ہو وہ کس قدر عظیم ہو گا یہ اسے کرنل خاور سے مل کر معلوم ہوا تھا۔
"بس جو دل کے قریب ہوتے ہیں ان کے چہرے پڑھ لیے جاتے ہیں۔" اب کی بار وہ سنجیدہ ہوئے تھے چہرے پر محبت کے ساتھ پریشانی بھی واضح تھی۔
"بتاؤ کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے؟" اپنی ویل چئیر کو اس کی کرسی کے نزدیک کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو جبرئیل گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
"ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں سر! مسلسل یہاں آرمز سمگلنگ ہو رہی ہے وہ بھی اس قدر تیزی سے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی روک نہیں پا رہے ہیں۔" اس کے لہجے میں پریشانی تھی کرنل خاور نے اس کی بات سن کر گہری سانس بھری تھی۔
"مشن لیڈ کون کررہا ہے؟" ان کے لہجے میں اس حد تک سنجیدگی تھی کہ وہ پتھریلے تاثرات سے اسے دیکھ رہے تھے۔
"میجر جنرل غلام عباس۔۔" اس کا جواب مختصر سا تھا مگر کرنل خاور کو بہت کچھ باور کرا گیا تھا ماضی کے بہت سے دھندلے باب ان کی نگاہوں کے سامنے کھلنے لگے تھے۔
"اس انسان کو یہ مشن لیڈ نہیں کرنا چاہیے کوشیش کرو جبرئیل اسے کم سے کم انوالو کرو۔" ان کے لہجے کی سنجیدگی اور چہرے کے تاثرات اب بھی جوں کے توں تھے۔
"کیوں سر! ملاقات کرنے میں تو مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ انہیں یہ مشن لیڈ نہیں کرنا چاہیے اور میں روک بھی تو نہیں سکتا میں کیسے مینج کروں یہ سب اسی بات کی تو پریشانی ہے۔" جبرئیل کے چہرے سے پریشانی واضح تھی۔
"فی الحال تو خیر تمہیں اسے معلومات دینا پڑے گی کیونکہ وہ بنا معلومات کے تمہاری کوئی بھی انکوائری پاس نہیں کرے گا۔" کرنل خاور اپنی جگہ بالکل درست کہہ رہے تھے۔ جبرئیل کے ذہن میں بہت سے سوال تھے مگر فی الحال وہ کوئی بھی سوال پوچھنا نہیں چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ صحیح وقت پڑنے پر کرنل خاور اسے خود ہی سب کچھ بتا دینگے۔
"کیا حکمتِ عملی اپنائی جا رہی ہے؟ وہ اب کی بار خاصے سنجیدہ تھے۔ جبرئیل نے اب تک کی ہونے والی ساری کاروائی ان کے گوش گزار کی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر رہ گئے۔
" ٹھیک ہے تو پتا لگاؤ تاکہ معلوم تو پڑے ڈائیرکٹ سپلائی کس ملک سے کی جا رہی ہے۔" اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ مکمل کرتے فاخرہ ناشتے کی ٹرے لیے وہیں چلی آئی ٹرے اس کے سامنے رکھتے ہوئے فاخرہ نے ایک بار پھر سے اس کے خالی کپ میں گرم چائے انڈیلی اور کیتلی لے کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔
"چلو تم ناشتہ تو کرو باقی بعد میں دیکھتے ہیں۔" کرنل خاور کہتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے جبکہ وہ ناشتے کی جانب متوجہ ہو گیا دماغ تو اس کا بھی بہت چل رہا تھا مگر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس سرے کو کہاں جوڑے۔
                 *******************
کوزین لونج کیفے اینڈ گریل میں اس لمحے لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ تھی۔ ویک اینڈ کے بغیر بھی یہاں سے رش ختم نہیں ہوتا تھا۔  وہ ایک دو لوگوں کی میز پر بیٹھا محوِ انتظار تھا۔ بار بار ایک نگاہ کلائی میں بندھی ہوئی گھڑی پر جبکہ دوسری نگاہ دروازے کی جانب اٹھتی اور پھر بے مراد لوٹ آتی۔ اسے اپنی بے چینی کی وجہ خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ موبائل اٹھا کر مطلوبہ ہستی کو فون ملاتا کوزین لونج کیفے اینڈ گریل کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہورہی تھی۔ دراز قد سیاہ سٹائلش سا کُرتا پجامے کے ساتھ پہنے دوپٹہ شانے پر دھر رکھا تھا۔ گردن تک کٹے ہوئے بال مکمل طور پر کھلے ہوئے تھے۔ بالوں پر ٹکایا ہوا سیاہ چشمہ اسے مزید سٹائلش دکھا رہا تھا۔ مناسب جسامت کی مالک وہ لڑکی سیدھا آرون خان کے دل میں اتر رہی تھی۔ اس کی انہی اداؤں کا تو وہ شروع سے دیوانہ تھا۔ سیاہ ہلیز میں قید پاؤں سہج سہج کر اٹھتے اس کی میز کی جانب آرہے تھے۔
"اسلام علیکم!" مدہم مگر کھنکتی ہوئی آواز وہ اپنے معطر ہوتے حواس قابو میں کرتا ہوا سیدھا ہوا تھا۔
"وعلیکم اسلام اتنی دیر؟" نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ زبان سے پھسل گیا تھا جس پر وہ ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر مسکرائی تھی۔
"زندگی بھر انتظار کرنے کا دعوع کرنے والے پندرہ منٹ میں ہی گھبرا گئے۔"شانے پر پہنے ہوئے بیگ کو وہ اپنے پیروں کے قریب رکھتے ہوئے گویا ہوئی تو آرون ہنس دیا۔
" ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم انتظار کی زحمت بھی اٹھا سکتے ہیں اور کوفت بھی جھیل سکتے ہیں مگر ایسے میں آپ سے ملاقات کا وقت قلیل ہو جاتا ہے۔" جذبے لٹاتی نگاہوں سے اس نے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا تو وہ بھنویں اچکا کر رہ گئی جیسے اس کے جملے نے ماہ گل کو متاثر کیا ہو۔ ماہ گل جبار اس کی زندگی میں چار سال سے تھی۔ چار سال ماہ گل جبار سے کیسے وہ اتنا قریب ہو گیا کہ اپنی محبت زیب انساء کو بھی ایسا بھولا کہ چاہتے ہوئے بھی کبھی یاد نہ کر پایا لیکن اس کے مسلسل بدلتے رنگ ڈھنگ اب زیبا کو تشویش میں مبتلا کررہے تھے۔
"تمہاری بیوی کیسی ہے آرون؟" توقع کے برعکس ماہ گل کا سوال سن کر آرون کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
"یہاں اس کا کیا ذکر بلکہ ہم دونوں کے بیچ میں اس کا کیا تذکرہ؟" کھانا لے کر آتے ویٹر کو دیکھ کر وہ ذرا کی ذرا خاموش ہوا تھا۔ ماہ گل کی آمد سے پہلے ہی وہ اس کی پسند کا بیف سمیش برگر آڈر کرچکا تھا البتہ اپنے لیے اس نے اسٹیک وید مشروم ساس منگوائی تھی۔ ویٹر کھانا رکھ کر گیا تو وہ ایک بار پھر سے اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔
"کیوں وہ تمہاری بیوی ہے کیا ہم اس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے؟" برگر والی باسکٹ اپنی جانب کھسکاتے ہوئے اس نے کہا تو آرون گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
"دیکھو ماہ گل میں تم سے زیبا کی باتیں کرنے کے لیے نہیں ملا اپنی باتیں کرنے کے لیے ملا ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی باتیں کریں۔" اس کا موڈ یک مشت ہی آف ہو چکا تھا۔ سامنے بیٹھی ماہ گل کو یہ بات محسوس ہو گئی تھی اس لیے اس نے میز پر دھرا ہوا آرون کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
"اوکے فائن آئی ایم سوری اگر تمہیں برا لگا تو میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔" وہ نرمی سے گویا ہوئی تو آرون گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
"تم نے اپنے نئے کیس پر کام شروع نہیں کیا؟" باسکٹ میں سے فرائز کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے وہ گویا ہوئی تو آرون نے بھی سٹیک والی ڈش اپنے سامنے کر لی۔ وہ اب بیکڈ ویجی ٹیبلز کھا رہا تھا۔
"ہاں بس کچھ دن میں شروع ہو جائے گا ابھی تو تھانے میں رینوویشن چل رہی ہے آفس تیار ہو جائے پھر کام کی صورتحال ذرا بدل جائے گی۔" کانٹے کی مدد سے سٹیک کاٹتے ہوئے اس نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔
"مجھے اپ ڈیٹ کرنا مت بھولنا تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے پولیس والوں اور کرام کیسس کے بارے میں جاننا کتنا مزہ دیتا ہے۔" وہ اپنی ہی بات کا مزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی تو آرون ہنس دیا۔ وہ ایسی ہی تھی وہ چاہ کر بھی اس سے کوئی بات چھپا نہیں پاتا تھا یہ جانے بغیر کہ اس کی یہ عادت مستقبل میں اسے کتنا بڑا نقصان دے سکتی ہے اگر آرون خان یہ بات جان لیتا تو یقیناً ماہ گل جبار کو ہر وہ بات نہ بتاتا جو اس کے لیے ضروری تھی۔
            ****************************
یونیورسٹی میں سارا دن کی کلاسیں لینے کے بعد وہ اچھا خاصا تھک چکی تھی۔ مقرر وقت سے پہلے ہی وہ اپنی کتابیں سمیٹ کر یونیورسٹی سے باہر آگئی۔ کتابیں اور بیگ فرنٹ سیٹ پر رکھ کر خود اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی ڈاکٹر احمر قیوم کے کلینک کی جانب ڈال دی آج اس کی ڈاکٹر احمر قیوم کے ساتھ دوسری اپائنٹمنٹ تھی دل میں بہت سارے سوال ایسے تھے جنہوں نے پہلی ملاقات کے بعد جنم لیا تھا۔ وہ سوچوں کے بھنور میں بہتی ہوئی ڈاکٹر احمر کے کلینک پہنچ گئی۔ گاڑی پارکنگ میں پارک کر کے جب وہ اندر داخل ہوئی تو رسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی اسے دیکھ کر شناسائی سے مسکرائی تھی۔
"ڈاکٹر احمر آپ کا انتظار کررہے ہیں۔" کہتے ہوئے وہ ایک بار پھر سے اپنے کام میں مگن ہو چکی تھی۔ وہ دروازہ کھٹکا کر اندر داخل ہوئی تو ٹھٹھک کر رک گئی۔ ڈاکٹر احمر ایک جانب کو جانماز بچھائے نماز ادا کرنے میں مشغول تھے۔ وہ جزبز کا شکار دیوار کے ساتھ لگے ہوئے تھری سیٹر صوفے پر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے سلام پھیر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور پھر دعا مانگ کر ہاتھ چہرے کے گرد پھیرتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ اسے سامنے بیٹھے دیکھ کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
"کیسی ہیں آپ میرال؟" ایزی چئیر اس کے صوفے کے نزدیک کھینچ کر بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا تو میرال اثبات میں سر ہلا گئی۔
"میں ٹھیک ہوں" میرال کا جواب ہمیشہ کی طرح مختصر تھا۔ ڈاکٹر احمر نے گہری سانس بھری تھی۔
"کیا لیں گی چائے،کافی یا جوس چلیں آج میں آپ کو میرے کلینک کی فیمس کافی پلاتا ہوں۔" ایزی چئیر سے اٹھ کر میز کی جانب جاتے ہوئے انہوں نے کہا اور پھر میز سے لینڈ لائن فون اٹھا کر دو نمبر پریس کر کے دو کپ کافی لانے کو کہا۔
"آپ میرا انتظار کیوں کررہے تھے؟" وہ جب واپس ایزی چئیر پر آ کر بیٹھے تو وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی اس کی بات پر ڈاکٹر احمر دھیمے سے مسکرائے تھے۔
"شاید آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میں تو اپنے ہر پیشنٹ کا اسی طرح بے صبری سے انتظار کرتا ہوں پتا ہے کیوں؟" اپنی بات کہہ کر انہوں نے اس سے پوچھا تو وہ سوالیہ نگاہوں سے ان کی جانب دیکھنے لگی۔
"اسی لیے کہ مجھے اپنے کہے گئے جملوں کا اثر ان کی شخصیت میں دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔" ان کا لہجہ گھمبیر سا تھا میرال کے چہرے پر حیرت تھی۔
"آپ نے گھر جا کر قرآن نہیں کھولا میں جانتا ہوں مگر پھر بھی آپ میرے پاس آج بہت سے سوالوں کے ساتھ آئی ہیں اگر میں غلط نہیں ہوں تو۔" میز سے وہ پہلے ہی نوٹ پیڈ اور پین پکڑ چکے تھے وہ اپنا سر نفی میں ہلانا چاہتی تھی مگر چاہ کر بھی ایسا نہیں کر پائی سر خود بخود اثبات میں ہلا تھا۔
"تو پوچھیں کیا تنگ کررہا ہے آپ کو اپنے آپ کو کھل کر بولنے کا موقع دیں میرال! خاموشی انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔" ان کا لہجہ از حد سنجیدہ تھا۔ میرال نے آنکھیں موند کر جیسے ڈھیروں ضبط اپنے اندر اتارا تھا ایسے میں اسے کتنی اذیت ہوئی تھی یہ اس کے چہرے سے واضح تھی۔
"مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرے بابا کرنل ہیں ان کی زندگی کا دائرہ ان کی نوکری اور فرض کے گرد ہی گھومتا ہے بچپن سے لے کر آج تک میں نے ہر لمحہ انہیں اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ مس کیا ہے مجھے یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے بہت کم وقت میرے ساتھ گزارا ہو مجھے ڈر ہے ڈاکٹر کہ میں اپنی حسرتیں پوری کرنے سے پہلے انہیں کھو نہ دوں یا میں خود ختم نہ ہو جاؤں۔" بولتے ہوئے اس کا لہجہ بھیگ گیا تھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آنسوؤں کا کوئی گولا اس کے حلق میں اٹک گیا ہو۔ ڈاکٹر احمر کا پین تیزی سے نوٹ پیڈ پر حرکت کررہا تھا۔
"دیکھیں میرال آپ تھیناٹو فوبیا کا شکار ہیں یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں آپ اپنی یا دوسروں کی موت کے خوف میں مسلسل رہتے ہیں اسی لیے آپ ضرورت سے زیادہ خاموش ہو جاتے ہیں،بھیڑ میں بیٹھنا چھوڑ دیتے ہیں،چھوٹی چھوٹی چیزیں اور تبدیلیاں آپ کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔" وہ روانی سے بولتے جا رہے تھے ساتھ ساتھ ان کی انگلیاں نوٹ پیڈ پر حرکت کرتی جا رہی تھیں۔
"انسان کو اللہ تعالیٰ نے لاعلم رکھا ہے موت سے کیونکہ اگر وہ یہ جان لیتا کہ اس کی اپنی یا کسی کی بھی موت کب طے ہے تو وہ ایک لمحہ بھی مُسلےسے سر اٹھا کر دنیا داری میں مگن نہیں ہو سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے تو اپنے بندے کو آزمانا تھا اسے دنیا کی بھیڑ میں گم کر کے وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اپنی مصروفیت کے باعث اسے یاد بھی کرتا ہے یا نہیں اس کے لیے وقت نکال پاتا ہے یا نہیں اور پھر یقیناً اللہ کو افسوس ہوتا ہو گا اپنے بہت سے بندوں کو لاپرواہ دیکھ کر بے خبر دیکھ کر کیونکہ نہ تو انہیں موت کا خوف ہے اور نہ ہی اللہ سے جا ملنے کی تڑپ ۔" اپنی بات کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئے تھے۔ دروازے پر دستک دے کر رسیپشنسٹ کافی کے دو کپ ان دونوں کی درمیانی میز پر رکھ کر جا چکی تھی گفتگو کا سلسلہ چند ساعتوں کے لیے تھم گیا تھا مگر میرال کی بے چینی میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
"اب آتے ہیں دوسری قسم کے لوگوں کی جانب جن میں آپ کا شمار بھی ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو صرف موت کے خوف سے اپنی صحت خراب کرتے ہیں مگر اس خوف سے اللہ کی جانب رجوع نہیں کرتے انہیں مرنے کا ڈر تو ہوتا ہے مگر مرنے کے بعد لیے جانے والے حساب سے وہ یکتا بے خبر ہوتے ہیں۔" ان کا لہجہ اب بھی نرم تھا مگر میرال کے چہرے پر حیرت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
"آپ کو پتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے خواہ وہ آپ ہوں میں ہوں آپ کے بابا ہوں یا پھر کوئی اور  تو کیا ہم نے دنیا داری چھوڑ دی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک دن ہم نے مر جانا ہے ہمارے پیاروں نے ہم سے جدا ہو جانا ہے میں کلینک آتا ہوں مریض دیکھتا ہوں گھر والوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں آپ کے بابا بھی اپنی تمام ایکٹیوٹیز کرتے ہیں اور حتی کہ اس ڈر کے باوجود آپ بھی۔" انہوں نے پین سے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو حیرت سے اپنی جانب انگلی کرنے لگی۔
"ہاں آپ بھی یونیورسٹی جارہی ہیں تعلیم حاصل کرنے کی کوشیش کررہی ہیں میرے پاس یہاں کلنک آرہی ہیں بس آپ الگ ہیں دوسروں سے اور دوسروں سے الگ ہونا کوئی بری بات نہیں ہوتی مگر الگ ہونے میں بھی آپ کی ذات پر سب سے پہلا حق آپ کے ماں باپ کا ہوتا ہے آپ دوسروں سے الگ ہوں مگر ان سے نہیں آپ نے کہا کہ آپ کو اپنے بابا کے ساتھ گزارنے کو وقت نہیں ملا کبھی کبھی وقت کو خود ڈھونڈنا پڑتا ہے میرال وہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر ہم اس کا استعمال نہیں کرتے اس لیے کہ ہم اخذ کر لیتے ہیں کہ ہمیں اب اس وقت کی ضرورت ہی نہیں رہی۔" وہ اب نوٹ پیڈ اور پین ایک جانب کو رکھ چکے تھے۔ گرم کافی شاید ٹھنڈی ہو چکی تھی انہوں نے گھونٹ بھر کر کپ ایک جانب کو رکھا ذائقہ ابھی بھی عمدہ تھا۔
"میں اب ان سے بات نہیں کرسکتی مجھے اچھا ہی نہیں لگتا۔" وہ بے بسی سے گویا ہوئی تو وہ مسکرا دیے۔
"کیونکہ عرصہ ہوا آپ نے ان سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا اپنے حصے کے وقت کو آپ نے ادھر اُدھر ضائع کر کے گنوا دیا۔ اپنے حصے کی محبت حق کی طرح مانگنی چاہیے اپنا وقت چھین کر نکالنا چاہیے سمجھ رہی ہیں نا آپ۔" کافی کا مگ اب خالی ہو چکا تھا میرال اور ڈاکٹر احمر دونوں کا۔
"کیا اب میں جا سکتی ہوں؟" وہ شولڈر بیگ سائیڈ سے اٹھاتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گئے۔
"اگلی اپائنٹمنٹ کب کی ہے؟" وہ بے چینی سے گویا ہوئی تو وہ ہنس دیے۔
"کوئی اپائنٹمنٹ نہیں ہے آپ جب چاہیں آ سکتی ہیں بس مجھے کال کر لیجیے گا۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا تو وہ بھی اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ پیچھے وہ بس اس کے بارے میں سوچتے ہی رہ گئے انہیں اس کا مسئلہ سمجھ میں آچکا تھا۔
                    *********************
کارڈیف کا موسم آج بے حد سہانا تھا پہاڑی علاقے میں ابھی تازہ تازہ بارش ہوئی تھی بارش کے بعد پھوٹنے والی خوبصورتی آنکھوں کو خیرا کیے دے رہی تھی۔ وہ سکن ہائی نیک کو بلیک جینز کے ساتھ پہنے ہوئے تھی۔ سیاہ اور بھورے سے بال پشت پر ہی کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ گلے میں سٹولر ڈالے اوپر جیکٹ پہنے وہ روپا دیوی کے ساتھ باہر آئی تھی۔ عرصہ ہوا تھا اس نے میک اپ کرنا چھوڑ دیا تھا۔  روپا دیوی نے اس کے سنجیدہ چہرے کی جانب دیکھا تو پوچھے بنا نہیں رہ پائی۔
"میڈم! کہاں چلنا ہے پہلے؟" روپا دیوی سڑک پر اس کے ہمراہ چلتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ شانے اچکا کر رہ گئی۔
"تمہیں ہی شاپنگ کا شوق تھا پہلے شاپنگ کرلو مارکیٹ ہی چلتے ہیں۔" اس نے کہا اور پھر کچھ فاصلے پر کھڑی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی چند لمحوں کے بعد کوئنز ارکیڈ کی پارکنگ میں رکی تھی۔ وہ اور روپا دیوی اپنے اپنے پرس سنبھاتی ہوئی کوئنز ارکیڈ کے اندر آ گئیں۔ شاپنگ مال میں ہمیشہ کی طرح لوگوں کا رش تھا۔ روپا دیوی اس کا ہاتھ تھامے مختلف دکانوں میں آ جا رہی تھی اس نے اپنے اور اس کے لیے بہت سے کپڑے لیے تھے۔ جب کافی دیر تک بھی وہ باز نہ آئی تو آخر اسے کہنا ہی پڑا۔
"بس کردو روپا دیوی کیا پورا مال خریدو گی چلو کافی پیتے ہیں۔" وہ اب خریداری سے اکتا کر کافی شاپ میں آ چکی تھی جہاں شیشے کے ریک میں مختلف فلیورز کے ڈونٹس بھی رکھے ہوئے تھے۔
"ڈونٹ کھاؤ گی؟" اس نے شولڈر بیگ درست کرتے ہوئے کہا تو روپا دیوی شانے اچکا گئی۔ اس نے اپنے لیے چاکلیٹ اور روپا دیوی کے لیے ایک کیرمیل ڈونٹ آڈر کیا ساتھ دو کپ کافی کے لے کر وہ دونوں چلتی ہوئی ایک میز کی جانب آ گئیں۔
"میڈم! آج کتنا اچھا لگ رہا ہے نا کتنے عرصے کے بعد ہم گھر سے باہر نکلے ہیں۔" وہ ضرورت سے زیادہ ہی ایکسائٹڈ تھی۔
"تم تو آزاد ہو روپا دیوی! پھر بھی قید میں رہتی ہو ایسا کیوں؟" وہ آج اس سے وہ سوال پوچھ ہی بیٹھی تھی جو ہمیشہ اس کے اندر ابھر کر زبان پر آنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا کرتا تھا۔ روپا دیوی اس کے سوال پر مسکرائی تھی۔
"کچھ قیدیں آپ اپنی مرضی سے چنتے ہو کیونکہ وہ آپ کو کسی کی محبت سے باندھے رکھتی ہیں میرے اس چناؤ نے بھی مجھے کسی کی محبت سے باندھ رکھا ہے کبھی کبھی محبت خراج مانگتی ہے اور محبت کرنے والا خراج ادا کیے بغیر اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔" اس کے چہرے کی لو بجھ چکی تھی۔ صلاح نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا وہ ایک بار پھر سے بیس بائیس سال پیچھے چلی گئی تھی غلام بخش کا دھندلا سا چہرہ اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا وہ بھی تو کسی ایسی محبت سے بندھا اپنی جان کی بازی ہار گیا تھا اور اب ایک اور۔۔ اسے عجیب سی جھرجھری آئی تھی۔
"وہ تمہیں کچھ نہیں دے سکتا روپا سوائے اذیت کے اسے بس اذیت دینا آتا ہے۔"وہ کہتے ہوئے کب اور کیوں تلخ ہو گئی اسے خود بھی پتا نہیں چلا تھا۔
" جانتی ہوں پھر بھی مجبور ہوں۔" اس کی آنکھوں اور لہجے دونوں میں بے بسی تھی۔ ماحول ایک دم ہی افسردہ ہو گیا تھا۔
"چھوڑو چلو باہر چلتے ہیں اندھیرا ہو گیا ہے ڈنر کرتے ہیں۔" کافی کے خالی کپ چھوڑ کر وہ دونوں آگے پیچھے چلتی ہوئیں باہر آ گئیں۔ باہر واقعی ہی اندھیرا ہو چکا تھا۔ انہیں مال میں اتنی دیر ہو گئی تھی انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا۔  کارڈیف کی بتیاں روشن ہوئیں تو اس میں کارڈیف اور بھی حسین لگ رہا تھا۔
"ڈنر کہاں کریں؟" وہ ابھی کہتے ہوئے اپنے پرس میں جھانک رہی تھی جب دور کھڑے بزنجو کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سن رہ گئی۔اس کی ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سی سنسناہٹ ہوئی تھی۔ وہ یہاں کیوں آیا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ اس کا ڈنر حرام ہو چکا تھا۔

   
Quote
Share:
Open chat
Hello 👋
How can we help you?