NOVELS HUB SPECIAL NOVEL
باب اول : عمر قید
قسط نمبر 1
رات کے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔ کچے اینٹوں کے صحن کے عین وسط میں بچھی اکلوتی چارپائی پر وہ چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا۔ صاف شفاف آسمان پر جگہ جگہ تارے ٹمٹما رہے تھے۔ بارش کے بعد مٹی کی سوندی سوندی خوشبو طبعیت کو بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالی تھی صحن کے ذرا سا پیچھے ہی دو ستون لگے ہوئے تھے جن پر برآمدہ کھڑا تھا۔ برآمدے کے پار دو کمرے تھے جن کے دروازے اس لمحے بند تھے۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تو اس کے پورے وجود میں عجیب سی جھرجھری پیدا ہوگئی۔ اس نے اٹھ کر اپنے پیروں کے نیچے پڑا ہوا کھیس اٹھایا اور خود پر ڈال لیا اس سے پہلے کہ نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوتی سرہانے پڑا ہوا اس کا فون جنگاڑ اٹھا اوپر جگمگاتا نمبر دیکھ کر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تھا۔ جسم ایک دم چوکنا ہوا تھا۔ فون کان سے لگاتے ہی اس کی آواز خود بخود ہی پیشہ ورانہ ہوگئی۔
"ہمم جیسا آپ چاہیں۔"
"نہیں کل نکلوں گا۔"
"موسم کی خرابی کے باعث نکل نہیں پایا۔"
" جی کل ملتا ہوں خدا حافظ۔"
اس نے کہہ کر فون بند کیا اور ایک بار پھر سے جسم ڈھیلا چھوڑ کر نیم دراز ہو گیا۔ فضا میں ہر سو رات کے کیڑے کے چنگاڑنے کی آواز گونج رہی تھی جو فی الحال کے لیے اس کی سوچوں میں مخل ہو رہی تھی۔
*******************
14 ستمبر
کارڈیف ویلز
وسیع و عریض گلاس وال کے پار نظر آتا آسمان اس قدر شفاف تھا کہ اسے دیکھ کر ہی طبعیت خوش ہو جاتی تھی۔ نیلا بادلوں سے بھرا ہوا کارڈیف کا آسمان اسے ہر چیز سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا خاص کر دن میں اور جب وہ گلاس وال سے اس آسمان کو دیکھتی تو بوجھل طبعیت پر خود بخود ہی خوشگوار اثر ہو جاتا۔ گلاس وال کے ساتھ ہی ایزی چئیر رکھی ہوئی تھی جہاں وہ اپنا بیشتر وقت گزارا کرتی تھی۔ اسے اب شاید کسی کی بھی ضرورت نہیں تھی وہ تنہا رہنا چاہتی تھی۔ نہ کسی مددگار کی اور نہ ہی کسی ساتھی کی پھر بھی وہ مجبور تھی۔
"میڈم! آپ کے لیے چائے لاؤں؟" مدہم مگر بھاری آواز پر اس کا تسلس ٹوٹا تو وہ چونک کر اپنے پیچھے دیکھنے لگی۔
" آپ جانتی ہیں روپا دیوی! میں کافی پیتی ہوں بلیک کافی ویداؤٹ شوگر" اس نے پشت پر بکھرے ہوئے بال سمیٹ کر بن میں باندھے اور کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"یہ گلاس وال بند کردینا اور کافی لے آنا میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔" کہتے ہوئے وہ ایک راہداری میں غائب ہو گئی۔ روپا دیوی نے مشقوق نگاہوں سے اس کی پشت کو دیکھا تھا تب تک جب تک وہ غائب نہیں ہو گئی۔ روپا دیوی ایک انڈین بنگالی سانولی سی عورت تھی جس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ،موٹا سا ناک اور بھرواں ہونٹ تھے۔ وہ ہمہ وقت مختلف سکرٹس میں ملبوس ہوتی تھی اس کی پتلی جسامت پر وہ لباس چجتا تھا اس لیے کبھی اس نے روپا دیوی کو وہ لباس پہننے سے منع نہیں کیا تھا۔ روپا دیوی اس کی زندگی میں کب اتنی اہمیت اختیار کر گئی اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا تھا۔
****************
پھولوں کے شہر پشاور میں دسمبر کی خوبصورت صبح اتری تھی۔ خان ہاؤس میں گرم گرم پراٹھوں کی مہک بہت سے لوگوں کی بھوک چمکا رہی تھی۔ وہ کچن میں کھڑی دھڑا دھڑ پراٹھے بنا کر چنگیری میں رکھے جا رہی تھی ساتھ ہی زیبا نے چائے کی پتیلی دھر رکھی تھی۔
"جلدی کرلو زیبی ساتھ والا چولہا خالی ہے انڈے ہی تل لو اور آج آنیہ کیوں نہیں نکلی اپنے کمرے سے یہ کیا آج سبتین کو تھانے تک چھوڑ کر ہی آئے گی؟" اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ اس کے مذاق پر زیبا بھی ہنس دی اس نے زارا کو یونہی دیکھا تھا سالوں سے ہنستے ہوئے،خود کو سنبھالتے ہوئے دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے، مذاق کرتے ہوئے جبرئیل کے ساتھ نے اس کے اندر بہت سی مثبت تبدیلیاں پیدا کر دی تھیں وہ اپنے بچوں کے لیے ایک بہترین ماں اور اپنے شوہر کے لیے ایک عمدہ بیوی تھی۔
"اسلام علیکم بھابھی!" آنیہ نے باسی روکتے ہوئے کچن میں قدم رکھتے کہا تو وہ دونوں اس کی جانب دیکھنے لگیں۔
"خیریت ساری رات کیا کرکٹ کھیل رہی تھی جو اب تک باسیاں لے رہی ہو؟" زیبا نے ذو معنی لہجے میں کہا تو آنیہ جھینپ کر چہرہ جھکا گئی۔
"دیکھ لیں بھابھی کتنے سال بیت گئے اس کی شادی کو مگر اب تک اس نے میری باتوں پر شرمانا نہیں چھوڑا اب تو اس کے بچے بھی کالج پہنچ گئے ہیں پھر بھی یہ سبتے کے نام پر یوں جھینپتی ہے جسے ایک رات کی دلہن ہو" زیبا کی زبان کون روک سکتا تھا وہ جب شروع ہوتی تو پھر اسے روکنا مشکل ہی ہوتا تھا۔
"اچھا بس مت چھیڑو اسے جاؤ یہ ناشتہ لگاؤ میز پر میں ذرا میجر صاحب اور بچوں کو دیکھ لوں۔" وہ کہتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی تھی پیچھے وہ دونوں جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگیں۔
سب سے پہلے وہ میرال کے کمرے میں آئی تھی جو بستر پر لحاف اوڑے دنیا و مافیا سے مگن سوئی ہوئی تھی۔ اس نے میرال کے قریب بیٹھ کر اسے ذرا سا ہلایا تو وہ آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"میرال! اٹھ جاؤ بیٹے تمہارے بابا ناشتہ پر تمہارا انتظار کررہے ہونگے جانتی ہو نا۔" اس نے خاموش لیٹی میرال کے بال پیشانی سے ہٹاتے ہوئے کہا تو وہ بنا کوئی جواب دیے اٹھ کر باتھ روم میں بند ہو گئی۔ وہ اکیس سال کی خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ یونیورسٹی آف پشاور میں لا ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے سال میں زیرِ تعلیم تھی مگر کچھ عرصے سے وہ بہت بدل گئی تھی۔ اس نے ہنسنا بولنا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا وجہ جبرئیل اور زارا بھی سمجھ نہیں پائے تھے وہ میرال کی جانب سے بے حد پریشان تھے وہ بہت کم ان سے اپنی کسی بات کے لیے مخاطب ہوتی تھی اور یہی چیز ان دونوں کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
****************
کازان رشیا
بامن سٹریٹ میں ہمیشہ کی طرح بھیڑ تھی۔پیدل چلنے والے لوگوں کی تعداد ہمیشہ کی طرح زیادہ ہوتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو چیرتے ہوئے گزر رہے تھے کچھ کسی کام سے نکلنے ہوئے تھے تو کچھ محض تفریحی کی غرض سے گھوم رہے تھے۔ سٹریٹ کے دونوں جانب مختلف عمارتیں تھیں جو کازان کی اس سٹریٹ کو باقی علاقوں سے مختلف دکھاتی تھی۔ وہ بھی اس لمحے کازان کی اس بامن سٹریٹ میں ہی گھوم رہا تھا سیاہ اوورکوٹ پہنے،سر پر پی کیپ پہن رکھی تھی کانوں میں آئیر پورڈذ تھے آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے وہ دنیا و مافیا اور وہاں پھیلی ہوئی بھیڑ کو اس طرح سے نظر انداز کیے ہوئے تھا جیسے وہ وہاں بالکل تنہا ہو۔ کانوں میں لگائے ہوئے ائیرپورڈز سے ابھرتی آواز کے مطابق وہ سیاہ چشمے سے نگاہیں گھما کر اطراف کا جائزہ لے رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ ائیرپورڈز سے آتی آواز کی بات کا جواب دیتا ساتھ والے موڑ سے ایک لڑکی نکل کر اس کی جانب آئی تھی۔ چست نیلی جینز پر سفید رنگ کا بے داغ ٹاپ پہنے وہ بھی لمبے کوٹ میں ملبوس تھی۔ گولڈن بالوں اور گرے آنکھوں والی وہ لڑکی اچھی خاصی پرکشش تھی۔ صدام نے دلچسپی سے لڑکی کی جانب دیکھا جو مسکرا کر اس کے بازو میں بازو ڈال چکی تھی۔
" Hi Dazy! How are you?"
صدام کا لہجہ خالصتاً رشین تھا مگر وہ ڈیزی سے انگریزی میں مخاطب تھا کیونکہ ڈیزی ایک امریکن لڑکی تھی جو رشیا میں کیوں تھی یہ تو فی الحال صدام بھی نہیں جانتا تھا۔
"Iam good what about you Master told me about your presence in Russia? What type of goods do you need?"
"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ ماسٹر نے مجھے رشیا میں تمہاری موجودگی کے بارے میں بتایا تھا تمہیں کس قسم کی اشیا درکار ہیں؟" ڈیزی نے ماہرانہ اور پیشہ ورانہ لہجے میں کہا تو وہ مسکرا دیا۔
"I need your precious..."
وہ زومعنی لہجے میں گویا ہوا تو ڈیزی کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اس کے ساتھ ہی پیدل چلنے لگی۔ شام کے سائے آسمان پر گہرے ہو رہے تھے بامن سڑیٹ میں لوگوں کا رش کچھ مزید بڑھ گیا تھا۔ اب لوگ ایک دوسرے کی مستی میں مگن تھے کسی کو کسی کے جلدی میں ہونے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ڈیزی اسے لیتے ہی تیزی سے چلتی ہوئی بامن سٹریٹ سے باہر نکل گئی۔ بامن سٹریٹ کے باہر ہی ایک کالے رنگ کی مرسرڈیز شاید ان دونوں کا ہی انتظار کررہی تھی۔ وہ دونوں جیسے ہی گاڑی میں بیٹھے شوفر نے تیزی سے گاڑی آگے بڑھا دی ۔ تقریباً سات منٹ کے بعد گاڑی سائیم ٹاور کے سامنے ٹھہری تھی۔ سائیم ٹاور کازان میں واقع ایک خوبصورت عمارت تھی۔ تاریکی طرز کا بنا ہوا یہ ٹاور ہمیشہ سیاہوں کی توجہ کھینچتا تھا۔ وہ دونوں گاڑی سے اترے تو صدام نے ایک سرسری نگاہ اس ٹاور پر ڈالی۔
"تم نے اپنا قیمتی سامان یہاں رکھا ہے؟" اس نے قدرے حیرت سے پوچھا تو ڈیزی شانے اچکا کر رہ گئی۔
"میرا رکھنے نہ رکھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے میں صرف حکم کی ماتحت ہوں۔" ڈیزی نے لاپرواہی سے کہا تو صدام نے بھنویں اچکا دیں جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو وہ جہاں مرضی اپنا سامان رکھتے ہوں۔ ڈیزی آگے آگے چل رہی تھی جبکہ صدام اس کے پیچھے تھا سائیم ٹاور کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب کو قدیمی سیڑھیاں اوپر کی جانب جا رہی تھیں۔ پیروں میں سیاہ ہیل والے کوٹ شوز پہننے کے باوجود وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ صدام بھی اس کے مدِمقابل ہی تھا۔ پانچویں منزل پر پہنچ کر وہ ایک راہداری میں مڑ گئی جس کے آخر میں ایک سیاہ دو پنوں والا دروازہ تھا جو اس لمحے بند پڑا ہوا تھا۔ ڈیزی نے کی ہول میں ایک چابی لگائی تو دروازہ چر کی آواز کے ساتھ کھل گیا اندر چاروں اور اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ کمرہ بالکل خالی تھا پہلی نظر میں دیکھنے والا اندازہ لگانے سے قاصر تھا کہ کمرے میں کیا ہے مگر وہ کوئی عام انسان نہیں تھا جو خالی کمرے سے اس کے خالی ہونے کا یقین کر لیتا وہ صدام حیدر تھا جس کی عقاب سی نظر ہر وقت چیزوں کا معائنہ کرتی تھی۔ ڈیزی نے دائیں جانب کی دیوار کے ساتھ ایک سلور رنگ کا کارڈ لگایا تو دیوار دو حصوں میں کھل گئی یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ دیوار مصنوعی بنائی گئی ہو۔ دیوار کے کھلتے ہی چند زینے نیچے کو جا رہے تھے۔ یوں ایسا لگتا تھا جیسے اس منزل کے اس کمرے کو کسی نے آدھا کر کے تہہ خانے کی شکل دی ہو۔ وہ ڈیزی کے پیچھے جب نیچے اترا تو لاتعداد لکڑی کے وسیع و عریض ڈبے دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں مگر چہرے پر مسکراہٹ چمکی تھی جس مقصد کے تحت وہ یہاں آیا تھا کم از کم وہ ادھورا نہیں ریے گا۔ کازان اسے کچھ نا کچھ تو لازمی دینے والا تھا۔
***************
خان ہاؤس میں ناشتے کا میز سج چکا تھا۔ وہ سربراہی کرسی پر بیٹھا سفید ٹی شرٹ ٹراوزر میں ملبوس اخبار دیکھ رہا تھا یوں معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی ورزش کر کے لوٹا ہو۔ ایک جانب کو فریش اورنج جوس کا گلاس دھرا تھا جبکہ دوسری جانب انڈے اور پراٹھے بھی موجود تھے۔
"یہ کیا آپ نے اب تک شروع نہیں کیا ناشتہ؟" زارا نے اسے اب تک یونہی اخبار پڑھتے دیکھ کر کہا تو اس نے اخبار سے نگاہیں ہٹا کر زارا کی جانب دیکھا۔
"باقی سب کو بھی تو آنے دو تم جانتی ہو کہ میں کبھی اکیلے ناشتہ نہیں کرتا سب کو بلاؤ۔" جوس کا گلاس خالی کر کے میز پر رکھتے ہوئے اس نے کہا تو زارا گہری سانس بھر کر واپس باورچی خانے میں غائب ہو گئی۔ کچھ دیر کے بعد کیف اپنے سکول یونیفارم میں زینوں سے نیچے اترا تھا۔
"گڈمارننگ بابا!" کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے اس نے جبرئیل سے کہا تو جبرئیل نے اسے اچھی خاصی گھوری سے نوازا۔
"پاکستان میں رہتے ہو تم سلام کیا کرو یہ گڈمارننگ کیا ہوتا؟" اپنے باپ کی صبح صبح تنقید سن کر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا۔
"اسلام علیکم! "میرال نے اندر داخل ہوتے سنجیدگی سے سلام کیا تو جبرئیل نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔
" زارا! میری بیٹی کو ناشتہ دو۔" اپنی پلیٹ میں آملیٹ نکالتے ہوئے اس نے کہا تو زارا مسکرا کر میرال کی پلیٹ میں مختلف چیزیں ڈالنے لگی۔
"اسلام علیکم تایا جان!" خبیب نے میز پر بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاگیا اسی طرح باری باری امل اور عمائمہ بھی میز پر آ گئی تھیں۔ آرون کسی کیس کے سلسلے میں اسلام آباد گیا تھا جبکہ سبتے کی تھانے میں نائٹ ڈیوٹی کے باعث وہ اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ باقی زیبا اور آنیہ کچن میں چائے ڈال رہی تھیں اور زارا بچو کو ناشتہ دے رہی تھی۔ وہ اسی طرح پرسکون طریقے سے رہتے تھے۔ پہلے عشرت بیگم دنیا سے گئیں تو کچھ سالوں کے بعد ماہ رخ بیگم نے بھی آنکھیں موند لیں اب بس خان ہاؤس میں وہی لوگ رہا کرتے تھے۔
ناشتے سے فارغ ہو کر وہ کمرے میں چلا گیا کام والی ماسی آئی تو زارا اسے کچن سمیٹنے پر لگا کر خود بھی اس کے پیچھے کمرے میں آ گئی۔ وہ الماری کھولے کھڑا تھا۔
"ہٹ جائیں آپ تو ایسے کھڑے ہیں جیسے آپ نے تو اپنے کپڑے خود نکال ہی لینے ہیں۔" وہ اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے گویا ہوئی تو جبرئیل نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔
"مت بھولو کہ میں ایک فوجی ہوں اور فوجی اپنے تمام کام خود کرتے ہیں۔" وہ اترا کر بولا تو زارا قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
"اور جب سے فوجی کی بیوی آئی ہے اس نے ایک بھی اپنا کام خود سے نہیں کیا اور کئی فوجی ان کی قیادت میں کام کرتے ہیں ہیٹس آف میجر صاحب!" تالیاں بیٹتے ہوئے وہ اس کے لیے ایک سفید ڈریس شرٹ نکال چکی تھی ٹراوزر سیکشن میں سے اس نے ایک براؤن پینٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمائی تو اسے اپنی جانب گھورتے ہوئے پایا۔
"کتنی مرتبہ کہا ہے کہ میرا رینک اب بڑھ گیا ہے خدارا مجھے میجر صاحب نہ کہا کرو مگر تمہارے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔" کپڑے اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے جبرئیل نے ہنتھے پھلا کر کہا تو وہ لاپرواہی سے شانے اچکا گئی۔
"پرانی عادت ہے شاید ہی چھوٹے۔" کہتے ہوئے وہ اسے چڑاتی ہوئی باہر نکل گئی پیچھے جبرئیل بس اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گیا۔ وہ عورت کہیں سے دو بچوں کی ماں نہیں لگتی تھی وہ آج بھی وہی تھی ایک کشمیری ڈری سہمی لڑکی جسے اس نے تحافظ فراہم کیا تھا۔ ان دونوں کی کہانی آج بھی اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی آج سے بیس سال پہلے تھی۔
************
پشاور ملٹری ہیڈ کواٹر میں اس لمحے وہ سربراہی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا سامنے ایک پراجیکٹر لگا تھا جس پر مختلف تصویریں چل رہی تھیں۔
"یہ دیکھیں سر! مخبری ہوئی ہے کہ سارا سامان کسی دوسرے ملک سے امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ ارمز یہاں نہیں دیکھے جاتے اور نہ ہی عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں یہ کوئی بہت ہی خاص مینیو فیکچر ہے جو خالصتاً کسی گینگسٹر مافیہ ہی بنا سکتے ہیں۔ " پراجیکٹر کے سامنے کھڑا کیپٹن بلال تیز تیز بریفنگ دے رہا تھا جبکہ سربراہی کرسی پر بیٹھا ہوا عنصب ہونٹوں پر ہاتھ رکھے بغور پراجیکٹر پر بنائی ہوئی اس پریزنٹیشن کو دیکھ رہا تھا جو اس کی ٹیم نے بڑی محنت سے بنائی تھی۔
"کیپ اٹ اپ کیپٹن! اب پتا لگائیں کہ مافیہ دنیا کے کن کن معاملک میں زیادہ پائے جاتے ہیں تاکہ ان کی ایک لسٹ تیار کی جا سکے پھر ہی ہم دیکھ سکیں گے کہ آخر اس قسم کے آرمز کن معاملک میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اگر آرمز کی سپلائی اس ملک میں غیر قانونی طریقے سے بڑھ گئی نا بہت نقصان ہو جائے گا بلال! بہت نقصان ان لوگوں کے ہاتھ میں بھی ہتھیار آ جائیں گے جو انہیں چلانا تک نہیں جانتے اور یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔" اپنی کرسی چھوڑ کر وہ کھڑا ہوا تو بلال کو بغور اپنی جانب دیکھتا پایا۔
"سر یہ انفارمیشن!" بلال کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ وہ تیزی سے اس کی بات کاٹ کر بولا تھا۔
"کانفیڈینشل رہے گی مجھے ابھی اس کی رپورٹ آگے دینی ہے" وہ کہتا ہوا کانفرنس ہال سے باہر نکل گیا۔ میجر عنصب جہانگیر کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ایک ایسا نام تھا جو اپنی پہچان خود تھا۔ وہ ایک انتہائی قابل آفیسر تھا جو دو دن کے بعد واپس سکردو جا رہا تھا اس کی موجودہ پوسٹنگ وہیں پر تھی۔
رات گہری ہوئی تو سیرینا ہوٹل پشاور کی۔ پارکنگ میں وہ گاڑی کھڑی کر کے خود نیچے اتر آیا۔ گرے چیک شرٹ کو نیلی جینز پر پہنے ہوئے وہ اچھا خاصا سمارٹ لگ رہا تھا۔ شفاف رنگت پر ہیزل بھوری آنکھیں جن میں ہر لمحہ کوئی نا کوئی سوچ سمائی رہتی تھی۔وہ آنکھوں سے بولتا تھا۔ اسے سروس جوائن کیے محض چار سال ہی ہوئے تھے مگر چار سالوں میں اس نے اتنی لگن اور محنت سے کام کیا تھا کہ خود بخود ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ ہوٹل کی عمارت میں داخل ہوتے ہی اس نے رسیپشنسٹ سے مطلوبہ معلومات حاصل کی اور لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔ لفٹ نویں فلور پر رکی تو وہ باہر نکل آیا۔ ہاتھ میں گاڑی کی چابیاں اور والٹ موجود تھا۔ کمرہ نمبر 408 کے سامنے ٹھہر کر اس نے بیل بجائی تو کچھ دیر کی تاخیر کے بعد دروازہ کھول دیا گیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو خوشبو اور خنکی نے اس کا استقبال کیا۔ وہ ایک فیملی سوئیٹ تھا جس کے ایک حصے میں کچن اور ڈائینگ ٹیبل موجود تھا۔ جس پر تین افراد پہلے سے ہی موجود تھے۔
"گڈ ایوننگ سر! " ہاتھ ماتھے تک لیجاتے ہوئے اس نے سیلوٹ کیا تو جبرئیل نے اثبات میں سر ہلا کر اس کے سلام کا جواب دیا۔
"کہیے میجر عنصب کیا رپوٹ ہے؟" جبرئیل کے کہنے پر اس کے ساتھ موجود طراب اور اسامہ بھی مکمل طور پر ہمہ تن گوش ہوئے تھے۔
"سر رپوٹ تو یہی ہے کہ آرمز تو سمگل ہو رہے ہیں مگر کہاں سے اب تک ہم یہ پتا نہیں چلا پائے ہیں۔ لیکن جس طرح کے آرمز سمگل کیے جا رہے ہیں میں نے اس کے چند سیمپل دیکھے ہیں وہ بہت ہی عجیب طرح کے ہیں پاکستان یا کسی بھی ایشائی ملک میں اس طرح کے ہتھیار ملنا تقریباً ناممکن ہے دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے یہ معافیہ کے استعمال کیے جانے والے ہتھیار ہوں میں نے بذاتِ خود اس طرح کے ہتھیار ایک ڈاکومینٹری میں دیکھے تھے مگر چونکہ میرے چیک کرنے کے باوجود اس کی مکمل انفارمیشن انٹرنیٹ پر موجود نہیں ہے اس لیے کچھ خاص پتا نہیں چل پایا پر میں نے اپنی ٹیم کو کام پر لگا دیا ہے وہ جلدی رپوٹ پیش کرینگے۔" چار کرسیوں میں سے ایک پر براجمان ہوتے ہوئے وہ تمام قیمتی معلومات اس تک پہنچا گیا تھا۔ وہ جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا ہوا تھا اس کے اتنے پروفیشنل انداز اور ہوم ورک پر مسکرا دیا۔
"سوری سر میں نے کوئی غلطی کردی؟" عنصب نے اس کے مسکرانے پر جھجھک کر پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"ویل ڈن ینگ مین مجھے تم سے یہی امید تھی اسی لیے میں نے اس مشن کے لیے تمہارا انتخاب کیا مگر یاد رکھنا ابھی تو شرواعت ہے ہم نے صرف اس کیس کے سرے تھامے ہیں ان سروں سے ابھی ہمیں لمبا سفر طے کرنا ہے۔" میز پر رکھے ہوئے چائے کے کپ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے کہا تو وہ بھی مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گیا۔
"واپسی کب کی ہے تمہاری عنصب؟" اسامہ نے پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا تو وہ بھی اب کی بار ریلیکس ہو کر بیٹھ گیا۔
"پرسوں کی ہے سر! امی بھی اکیلی ہیں وہاں تو مجھے فکر رہتی ہے ان کی مگر وہ نہیں گھبراتیں ان کے بقول یہ ان کے لیے اعزاز ہے کہ وہ اپنے فوجی بیٹے کا انتظار کرتی ہیں۔" عنصب کے لہجے میں اپنی ماں کے لیے جو محبت اور اپنائیت تھی وہ ان تینوں کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
"ایسا ہی ہے ماؤں کو ہمیشہ اپنے فوجی بیٹوں پر فخر ہی ہوتا ہے اینی ویز اب ہم چلتے ہیں کب سے آپ کا کمرہ مل کر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی آپ کے انتظار میں یہ بچے ہوئے چائے بسکٹ واپس کر دینا کہیں رات بھر یہی نا کھاتے رہنا۔" طراب نے جاتے جاتے بھی پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے اپنے بھرپور ندیدے پن کا مظاہرہ کیا تھا جبرئیل اور اسامہ محض اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔
"شرم کرو اپنا عہدہ دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو۔" جبرئیل نے اس کی کمر میں ایک دھموکا جڑتے ہوئے کہا تو وہ منہ بنا کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"کیا عمر دیکھوں ترتالیس سال ہی ہے کچھ زیادہ تو نہیں جو تم اتنا پرچار کررہے ہو۔" طراب نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا تو وہ بھنویں اچکا کر رہ گیا۔
"صحیح بات ہے کرنی پڑے گی بات تمہاری بیگم سے وہی تمہیں بتائے گی کہ کتنی عمر ہے تمہاری۔۔" وہ تینوں یونہی باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی عمارت سے باہر نکل آئے تھے اس بات سے انجان کہ دو آنکھیں انہیں ہی دیکھ رہی ہیں۔
****************************
کارڈیف میں شام پھیل رہی تھی۔ کارڈیف میں دور دور تک بلند و بالا پہاڑ اور خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی وہ جب بھی اداس ہوتی اپنے گھر کی گلاس وال کے قریب آ کر بیٹھ جاتی ڈھلتا سورج اسے ایک عجیب سا سکون دیتا تھا۔ روپا دیوی اپنے کام نمٹا کر بھاپ اڑاتی کافی کے دو مگ تھامے وہیں اس کے نزدیک آگئی۔ کافی کا کپ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے خود روپا دیوی نے ساتھ والی کرسی سنبھالی تھی۔
"میڈم! آپ کو نہیں لگتا ویلیز کا سورج ڈوبتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے۔" روپا دیوی نے اپنے مگ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"کونسا سورج ہے جو ڈوبتے ہوئے عجیب نہیں لگتا روپا دیوی! مدہم گہرا آنکھوں کو چندھیا دینے والا۔" اب کی بار اس نے بھی اپنے مگ میں سے گھونٹ بھرا تھا۔
"نہیں میڈم! بنگال میں ڈوبتا سورج بڑا خوبصورت لگتا ہے آدھے آسمان کو نارنجی کرتا ہوا وہ سورج فضا میں عجیب پرسوز سا ماحول پیدا کردیتا ہے مجھے تو کھلے میدان میں بیٹھ کر ڈوبتے سورج کو دیکھنا بڑا ہی اچھا لگتا تھا۔" روپا دیوی اسے جوش سے بتا رہی تھی جبکہ وہ مسکرا کر اسے سن رہی تھی۔
"ایک بات پوچھو میڈم؟" روپا دیوی نے مگ خالی کر کے میز پر رکھتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر دوبارہ گلاس وال سے باہر دیکھنے لگی۔
"کیا کبھی آپ نے کسی سے محبت کی ہے؟" اس کے سوال پر لبوں تک مگ لیجاتا ہوا اس کا ہاتھ فضا میں ہی ساکن ہوا تھا۔ چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا۔ آنکھوں میں ڈوبے ہوئے خوابوں کی تصویر ابھر کر معدوم ہوئی تھی،ٹوٹے ہوئے ارمانوں کی کرچیوں نے اس کے دل کو چھلنی کیا تھا۔ مگر وہ جلد ہی خود کو سنبھال گئی تھی۔ چہرہ خود بخود اثبات میں ہلا تھا۔
"کس سے اور پھر ملا کیوں نہیں وہ؟" روپا دیوی کا جوش دیکھنے لائق تھا جبکہ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے محض اسے دیکھ رہی تھی۔
"شاید اس لیے کہ ہر محبت کا ملنا مقدر میں نہیں ہوتا انسان چاہت تو کرسکتا مگر چاہت کو حاصل کرنا کبھی کبھی اس کے بس میں نہیں ہوتا" اب کی بار وہ مگ میز پر رکھ چکی تھی جس میں ابھی بھی کچھ کافی موجود تھی۔
"کیا بہت پیارا تھا وہ؟" وہ پتا نہیں آج کیا سوال لے کر بیٹھ گئی تھی اسے اس کے سوالوں سے اب الجھن سی ہونے لگی تھی۔
"ایک بات بتاؤ روپا دیوی؟" اب کی بار وہ ٹیک چھوڈ کر سیدھی ہو کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی تو روپا دیوی مکمل طور پر ہمہ تن گوش ہو گئی۔
"کیا محبت کے لیے ضروری ہے کہ محبوب خوبصورت ہو؟" ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھتے ہوئے وہ گویا ہوئی تو روپا دیوی قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
"نہ میڈم! محبت تو اندھی ہوتی ہے۔" وہ اپنی ہی بات کا مزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ مطمئن سی ہو کر واپس بیٹھ گئی۔
"تو پھر تمہارا یہ سوال تھا ہی فضول جاؤ کھانا لگاؤ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔" وہ کہتے ہوئے واپس گلاس وال سے باہر دیکھنے لگی جس کا مطلب واضح تھا کہ وہ مزید اب کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہے۔ روپا دیوی اپنا سا منہ لے کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔
***************
خان ہاؤس میں شام اتر رہی تھی۔ لان میں موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی وہ موبائل سکرول کررہی تھی۔ سادی سی ہری شلوار قمیض میں ملبوس دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ تنہا بیٹھی اپنے موبائل میں مگن تھی۔ گیٹ پر ہارن ہوا تو وہ موبائل رکھ کر اس جانب متوجہ ہو گئی۔ جبرئیل کی جیپ اندر داخل ہو رہی تھی۔ وہ شروع سے ہی جیپ استعمال کرتا تھا اب بھی اس کے پاس جیپ تھی اور وہ اسے خود ہی چلانا پسند کرتا تھا۔ جیپ پورچ میں پارک کر کے وہ آنکھوں سے کالے شیڈز اتارتا ہوا اس کی جانب ہی آگیا۔
"اسلام علیکم! " زارا کے سامنے والی کرسی سننھالتے ہوئے اس نے سلام کیا تو زارا جواب دے کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"کیا بات ہے آج تم اکیلے چائے پی رہی ہو آنیہ اور زیبا کہاں ہیں؟" پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے اس نے کہا تو زارا کیتلی میں سے دوسرے کپ میں اس کے لیے چائے نکالنے لگی۔
"اندر ہیں اپنے اپنے کام کررہی تھیں دونوں تو میں ایسے ہی آکر باہر بیٹھ گئی۔" وہ آہستگی سے گویا ہوئی تو جبرئیل نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔
"خیریت کچھ پریشان لگ رہی ہو؟" اپنے کپ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے پوچھا تو زارا گہری سانس بھر کر رہ گئی۔
"میں میرال کی طرف سے بہت پریشان ہوں لڑکی ذات کا اس طرح ہونا کوئی صحیح بات نہیں ہے عجیب سی ہو گئی ہے وہ میں اسے وکالت اس لیے پڑھا رہی ہوں تاکہ وہ عدالت میں اپنے شعبے کے ساتھ انصاف کرسکے مگر وہ تو ہم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی جج کے سامنے کیا کرے گی۔" زارا کا خدشہ غلط نہیں تھا جبرئیل کو بھی اس کی بہت فکر تھی۔
"میں نے ایک سائیکٹریسٹ سے آپائٹمنٹ لی ہے میرال سے کہنا اس کے پاس چلی جائے وہ اس کی مدد کرے گا۔ جو بھی وجہ ہو گی معلوم ہو جائے گی۔" وہ کہتے ہوئے واپس چائے پینے لگا۔ دماغ اس کا عجیب سے تانے بانے بن رہا تھا جبکہ زارا کے چہرے کی فکر اور پریشانی ابھی بھی کم نہیں ہوئی تھی۔
******************
راویریا ایکوا پارک کازان میں واقع وہ منظر کیریلن اپارٹمنٹس بلڈنگ کا تھا۔ جس کے اپارٹمنٹ نمبر 108 میں وہ اس لمحے موجود رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ ایکوا پارک کے وہ اپارٹمنٹ زیادہ تر ایلیٹ کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔ وڈن فلور دو بیڈرومز پر مشتعمل وہ اپارٹمنٹ مکمل طور پر فرنشنڈ تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی وسیع لاونج تھا جہاں بیٹھنے کے لیے صوفوں کے ساتھ ایک جانب کو چھوٹا ڈائینگ ٹیبل تھا جس کےہیچھے ہی مناسب کچن موجود تھا۔ لاونج کے سامنے ہی راہداری میں دو کمرے آمنے سامنے تھے۔ وہ جدید سٹائل کا بنا ہوا اپارٹمنٹ اس کے رہنے کے لیے بالکل موذوں تھا مگر پھر بھی وہ اس سے مطمئن نہیں تھا اسے زندگی میں ہمیشہ ہی کچھ بڑا چاہیے تھا کچھ ایسا جو اس کے معیار کو تسکین دے سکے۔
کھانے کی دو تین ڈشز اس کے سامنے موجود تھیں جن میں سے وہ راغبت سے کھاتا ہوا اپنے فون پر تیزی سے نظر بھی دوڑا رہا تھا۔ نظر دوڑاتے ہوئے اچانک اس کی نگاہ ایک تصویر پر ٹھہر گئی تھی۔ وہ چہرہ اسے کہیں دیکھا دیکھا لگا تھا۔ صدام حیدر نے اس چہرے کو کہاں دیکھا تھا وہ سوچنا چاہ رہا تھا مگر یاداشت کا بھنور ایسا گہرا تھا کہ چاہتے ہوئے بھی اس کے دماغ میں وہ نہیں آرہی تھی۔ وہ عورت کون تھی اس نے کہاں دیکھ رکھی تھی ایسے بہت سارے سوال دل میں مچل کر اسے پریشان کررہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید اس پر سوچتا ڈور بیل نے اس کی تمام توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ کرسی کھسکا کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازہ کھولتے ہی اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی کیونکہ اس کے فلیٹ میں آج سے پہلے کبھی کسی لڑکی کا آنا نہیں ہوا تھا۔
"ہیلو!" وہ خالصتاً رشین لہجے میں گویا ہوئی تو صدام نے بھنویں اچکا کر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا۔ سیاہ پینٹ پر گھٹنوں تک آتا ہوا فراک پہنے وہ سر پر ہم رنگ ہی سکارف لپیٹے ہوئے تھی۔ وہ کوئی بہت خوبصورت لڑکی نہیں تھی مگر اس کے چہرے پر کچھ تو خاص تھا جو صدام حیدر کو مسلسل اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھا۔ صاف رنگت پر سیاہ بڑی بڑی آنکھوں تلے درمیانی سی ناک اور باریک سے ہونٹ البتہ ناک میں ایک ننھی ہیرے کی لونگ چمک رہی تھی۔
"Iam your next door neighbour... My mom send me with this dish."
"میں آپ کی ساتھ والی ہمسائی ہوں میری امی نے مجھے اس ڈش کے ساتھ بھیجا ہے۔" اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈش کی جانب آنکھوں سے اشارہ کیا تو صدام نے فوری اس کے ہاتھ سے ڈش تھام لی۔
"Do you know Urdu?"
"کیا تم اردو جانتے ہو؟" وہ پتا نہیں کیوں اس سے یہ سوال کر بیٹھی تھی شاید اس کی شخصیت سے اسے اس کے ایشین ہونے کا اندازہ ہوا تھا تب ہی وہ اس سے یہ سوال کر بیٹھی تھی۔ صدام کو اس کی زیرک نگاہی پر یقیناً حیرت ہوئی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"شکر ہے یہاں کوئی اردو بولنے والا بھی ملا ورنہ منہ ٹیرا کر کے رشین اور انگلش بول بول کر میں عاجز آچکی تھی۔" وہ خود سے ہی اس سے فری ہوئے جا رہی تھی بنا یہ دیکھے کہ وہ اب بیزاری سے اسے گھور رہا ہے شاید وہ انتظار کررہا تھا کہ وہ باہر جائے تو وہ دروازہ بند کر کے اندر واپس آئے۔
"بائی دا وے میرا نام زرکا ہے میں پاکستان سے آئی ہوں آپ کا نام کیا ہے؟"اردو بولنے والے کو دیکھ کر زرکا کی زبان کو پر لگ چکے تھے۔
" صدام۔۔۔آپ کی ڈش کا بہت شکریہ اپنی امی کو بھی شکریہ کہیے گا خدا حافظ" اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے رسمی جملوں کا تبدلہ کر کے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا یہ سوچے بغیر کہ اس دھان پان سی لڑکی کو برا بھی لگ سکتا ہے مگر صدام حیدر کو کہاں پرواہ تھی۔ اس کی زندگی میں کسی بھی لڑکی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
********
پو پھوٹتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ فضا میں ابھی بھی اندھیرے کے کچھ نشانات باقی تھے۔ اس نے اپنے آپ کو صحن میں بچھی ہوئی اس اکلوتی چارپائی پر پایا تھا جہاں وہ رات بارش کے بعد کھیس لپیٹ کر سویا تھا۔ اس نے کھیس پرے دھکیلا اور چارپائی کے نیچے سے اپنا سفری بیگ نکال کر ایک بار اسے اچھی طرح ٹٹولا۔ اندر برآمدے کے پار موجود دو کمروں میں سے ایک کی بتی جل رہی تھی شاید کوئی جاگ چکا تھا۔ وہ بیگ چارپائی پر چھوڑ کر برآمدہ پار کر کے اندر کمرے میں آگیا جہاں فررزین بی بی نماز سے فارغ ہو کر اب جانماز لپیٹ رہی تھیں۔ اسے یوں دروازے پر کھڑے ہوئے پایا تو مسکرا کر اندر آنے کا اشارہ کیا اور خود قرآن کھول کر ریل میں سجائے بستر پر ایک جانب کو بیٹھ گئیں۔
"کی گل ہے پت پریشان ہے( کیا بات ہے بیٹا پریشان ہو)" فرزین بی بی نے قرآن پاک ابھی کھولا نہیں تھا وہ یونہی ریل میں گلاف سمیت سجا ہوا تھا۔
"اجازت لینے آیا تھا ماں جی! وقت ہو گیا ہے چلنا چاہیے اب" اس کے لہجے میں نرمی کے ساتھ ساتھ عاجزی بھی تھی۔ اس کی آنکھوں کا احترام فرزین بی بی کی آنکھیں بھی نم کر گیا تھا۔
"نہ پتر میں ناشتہ بناندی ہاں( نہ بیٹا میں ناشتہ بناتی ہوں) " قرآن مجید احتیاط سے ایک طرف رکھ کر وہ اس کی سنے بغیر باہر صحن میں آگئیں جہاں ایک جانب کو کچا سا باورچی خانہ بنا ہوا تھا۔
"بیٹھ نا" چھوٹی پیڑھی اس کی جانب کھسکاتے ہوئے انہوں نے اسے اپنے قریب ہی بیٹھنے کو کہا اور خود لکڑیاں اکھٹی کر کے آگ جلانے لگیں۔
"جس کم آیا سی او ہو گیا( جس کام کے لیے آئے تھے وہ ہو گیا؟" آگ جلانے کا کام انہوں نے محض تین منٹ میں کیا تھا یہ شاید ان کا روز کا معمول ہو گا اس لیے انہیں اس میں کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
"جی ماں جی ہو گیا آپ سے جو کہا تھا اس کام کا کیا بنا۔" اس نے آواز اتنی سرگوشیانہ کر لی تھی کہ فرزین بی بی کو بھی شاید بمشکل ہی سنائی دی ہو۔
"اہو میکو سب پتا لگ گیا ہے اے رقعہ رکھ اس وچ سب لکھیا ہے( ہاں مجھے سب پتا چل گیا ہے یہ خط رکھو اس میں سب لکھا ہے)" انہوں نے دوپٹے کے پلو سے ایک گرہ کھول کر اس میں سے ایک سفید کاغذ نکال کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود پراٹھا بیل کر توے پر ڈالنے لگیں۔ وہ انہیں مہارت سے کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا ساتؓ ہی انہوں نے سٹیل کے ایک درمیانے پیالے میں انڈہ پھینڑ کر ڈالا تھا پراٹھا اتار کر چنگیری میں رکھنے کے بعد انہوں نے اسی توے پر پھینٹا ہوا انڈہ ڈالا اور دو منٹ میں انڈہ تل کر پراٹھے کے ساتھ اس کے سامنے رکھ دیا۔
"آپ اکیلی کیوں رہتی ہیں یہاں؟" اسے اب فرزین بی بی میں دلچسپی ہونے لگی تھی وہ تنہا عورت کس طرح سے یہاں رہتی تھی اس کے لیے یقیناً حیرت کی بات تھی۔ اس کے سوال پر دیگچی میں دودھ ڈالتے ہوئے فرزین بی بی کے ہاتھ لحظہ بھر کو تھمے تھے مگر پھر وہ واپس سے اپنے کام میں مگن ہو چکی تھیں۔
"جس دا کوئی نہیں ہوندا اس دا اللہ ہوندا اے اس نوں کلے ہی رہنا پیندا اے پچھڑے( جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا اللہ ہوتا ہے اسے اکیلے ہی رہنا پڑتا ہے بچے" دودھ میں پتی ڈالتے ہوئے انہوں نے انتہائی عام سے لہجے میں کہا تھا مگر اس عام سے لہجے میں چھپی ان کی اذیت اس سے مخفی نہیں رہ پائی تھی۔
"نظام کیسے چلتا ہے آپ کے گھر کا؟" وہ پتا نہیں کیوں ان سے ان کا اگلا پچھلا شجرہ پوچھنے بیٹھ گیا تھا۔ ساتھ ساتھ انڈے پراٹھے سے انصاف بھی جاری تھا جو بھی تھا اس سے زیادہ لذیذ انڈہ پراٹھا اس نے کبھی زندگی میں نہیں کھایا تھا۔
"دو مجاں نے دودھ دیندیا نے اس نو ویچ کے گزارا ہو جاندا( دو بھینسیں ہیں دودھ دیتی ہیں اس کو بیچ کر گزارا ہو جاتا۔" گرما گرم دودھ پتی کا پیالہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے فرزین بی بی نے کہا تو وہ خاموشی سے دودھ پتی پینے لگا۔ انڈہ پراٹھا وہ ختم کر چکا تھا۔
"میں آپ کے گھر آپ کا مہمان بن کر آیا تھا میں کون ہوں اور کس لیے یہاں آیا تھا کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے اور اگر ایسا ہوا تو آپ جانتی ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوسکتا۔" پیالے میں سے تیزی سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے کہا تو فرزین بی بی اثبات میں سر ہلا گئیں۔
"تو فکر نہ تھین بس مینوں ملن آجائیں کدی کدار( تم فکر نہ کرو بس مجھے ملنے آجانا کبھی کبھار)" ان کے نحیف چہرے پر التجا تھی جسے وہ چاہ کر بھی رد نہیں کر پایا تھا۔ ان سے اجازت لے کر اس نے اپنا سفری بیگ تھاما اور اس گاؤں کے اس ننھے گھر سے باہر نکل آیا۔ سفر ابھی بہت لمبا تھا اور منزل کا کوئی نشان تک نہیں تھا نجانے اس کی تلاش اسے کہاں تک لے کر جانے والی تھی۔
*************************
اندھیری رات میں وہ ہوٹل کے اس کمرے میں لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا۔ اسے جلدی جلدی اپنے کام نمٹا کر پھر کل سکردو کے لیے بھی فلائی کرنا تھا۔ ڈائینگ ٹیبل کی کرسی پد بیٹھا ہوا وہ ساتھ ساتھ گرم کافی کے گھونٹ بھی بھر رہا تھا۔ نائٹ سوٹ میں ملبوس اس کا چہرہ تھکاوٹ کے واضح نشان لیے ہوئے تھا۔ وہ اپنی میلز چیک کررہا تھا اسے چند لمحوں میں ایک ضروری ای میل آنا تھی بے وجہ میلز سکرول کرتے ہوئے اس کی نگاہ ایک ای میل پر ٹھہر گئی۔ بھیجنے والے کا ای میل اڈریس کافی عجیب سا تھا اس نے ایسے ہی ای میل کھولی تو اندر لکھی تحریر پڑھ کر چہرے پر الجھن ابھر آئی۔
"جب سے تم کو دیکھا ہے "
کچھ اور نہیں دکھتا
تم وہ ہو جو بھا گئے مجھ کو
اب اور کچھ نہیں دستا"
پیار سے
ڈی۔زیڈ
چھوٹی سی ای میل کافی عجیب سی تھی۔ اس نے ایک بار پھر سے ای میل اڈریس پر غور کیا تھا۔ ڈی زیڈ نائن فائو فائو ایٹ دا ریٹ آف جی میل ڈاٹ کام۔۔۔ اس نے شانے اچکائے اور وہ ای میل بند کر دی تب تک اسے اس کی مطلوبہ ای میل کا نوٹیفکیشن بھی مل چکا تھا۔ اس نے اپنی مطلوبہ ای میل کھولی جہاں پر ایک کاغذ کی جے پیگ فائل تھی اس نے فائل کھولی تو اندر لکھی تحریر پڑھ کر اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔ اس نے اسی طرح فائل جبرئیل کے ای میل آڈریس پر بھیجی اور باقی کی کافی ایک ہی سانس میں ختم کر کے لیپ ٹاب بند کرتا ہوا بستر پر لیٹ گیا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دھیان بار بار بھٹک کر اس نامعلوم رومینٹک ای میل کی جانب جا رہا تھا جسے کرنے والا کون تھا وہ نہیں جانتا تھا شاید کسی نے غلطی سے بھیج دیا ہو یہ وہ پہلا خیال تھا جسے سوچ کر ہی وہ مطمئن ہو گیا تھا ورنہ عنصب کا دماغ جہاں اٹک جاتا وہاں سے اسے ہٹانا پھر مشکل ہی ہوتا تھا مگر فی الحال کے لیے اس کا دماغ اس دوسرے آفیشل ای میل پر اٹکا ہوا تھا جسے صبح سکردو جانے سے پہلے اسے باس کے ساتھ ڈسکس کرنا تھا۔ رات گہری ہوئی تو نیند کی دیوی اس پر خود ہی مہربان ہو گئی۔
****************
نومبر کے آغاز میں پھولوں کے شہر کا موسم ایک دم ہی تبدیل ہوا تھا۔ وہ ہوا جو پچھلے مہینے ہلکی سی گرم تھی وہ اب عجیب سی ٹھنڈک میں بدل گئی تھی۔ موسم کی اس بے روا تبدیلی نے پھولوں کے شہر کے مکینوں پر اچھا اثر ڈالا تھا۔ خان ہاؤس میں بھی موسم کی اس تبدیلی نے مکینوں کے موڈ خاصے خوشگوار کر دیے تھے۔ خبیب اور کیف امل اور عمائمہ کے ساتھ لاونج میں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے جبکہ میرال قریب ہی بیٹھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھی۔ آنیہ کچن کے باہر ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی پالک کاٹنے میں مصروف تھی جبکہ زیبا یونہی سامنے بیٹھی اخبار دیکھ رہی تھی۔
"گوشت نکال کے رکھ آئی ہو؟" آنیہ نے پالک کاٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں اس سے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
"صاریہ آپا کو بھی پتا نہیں پالک سے کیا محبت ہے جب بھی آنا ہو فرمائش کر دیتی ہیں کہ زارا سے بولنا پالک گوشت اور چاول بنا لے اوپر سے جبرئیل بھائی نے آج طراب بھائی اور مائرہ بھابھی کو بھی بلا لیا۔ شمس بھائی اور علینہ رہتے تھے میں نے انہیں بھی کال کردی کہ جب سب اکھٹے ہو ہی رہے ہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں۔" زیبا نے مزے سے اپنا کارنامہ سنایا تو آنیہ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
"تمہیں نہیں پتا ماسی آگے ہی نہیں آرہی ہے اور ہم لوگوں کو تمام ماسیوں والے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔" زیبا نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو آنیہ شانے اچکا کر ہنس دی۔
"پتا ہے جتنے کام تم نے کرنے ہیں ویلی نکمی پالک زارا بھابھی نے بنا لینی ہے چاول میں پکا لونگی ایک مرغی کا سالن بنانا ہے تمہیں اس کے لیے بھی موت آرہی ہے تمہیں کباب ڈی فروسٹ ہیں باقی کچھ بازار سے منگا لینگے آفٹر آل ہمارے بندوں کو بھی پتا ہے کہ ہماری ماسی چھٹی پر گئی ہوئی ہے اور ہم آج کل خود ہی ماسیاں بنے ہوئے ہیں۔" آنیہ نے سارا مسئلہ ہی چٹکیوں میں ہل کیا تھا البتہ زیبا ابھی بھی شش و پنج کا شکار تھی۔
"زارا بھابھی ہیں کہا پتا تو چلے پہلے پھر ہی کچھ پکے گا نا۔" اب کی بار زیبا نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا تو آنیہ نے سر جھٹک کر واپس بالک کاٹنا شروع کردی۔
"لانڈری آئیریا میں ہیں کپڑے دھو رہی ہیں۔" وہ پالک کاٹ کر ٹوکری کچن میں لیجاتے ہوئے گویا ہوئی تو زیبا اثبات میں سر ہلا کر بچوں کی جانب متوجہ ہو گئی جو لڈو میں جتی ستی ہورہے تھے۔
"تم لوگوں کو لڑنے کو نہیں کہا آرام سے کھیلنا ہے تو کھیلو ورنہ سب کے اباؤں کو ان کی شکایت لگا دونگی۔ جب دیکھو ناک میں دم کیے رکھتے ہیں۔ " وہ ڈائینگ ٹیبل سے سلاد کا سامان اٹھا کر کاٹتے ہوئے گویا ہوئی تو کیف کی زبان میں کھجلی ہونے لگی۔
"کیا ہوگیا چچی! ماسی کے نہ آنے کا غم کچھ زیادہ ہی سوار کر لیا ہے آپ نے کوئی نہیں دو دن میں آجائے گی۔" کیف نے خبیب کی جانب دیکھتے ہوئے آنکھ دباتے ہوئے کہا تو زیبا نے اسے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا۔
"تمہارے ابا کو تو پہلی فرصت میں شکایت کرتی ہوں ابا تک کیا جانا اماں تو تمہاری گھر میں ہی ہیں نا پہلے انہی سے تمہیں مار پڑواتی ہوں۔" وہ دانت پیستی ہوئی گویا ہوئی تو کیف خجل سا ہو کر اسے دیکھنے لگا جس کے تیور اسے کچھ صحیح معلوم نہیں ہو رہے تھے۔ تب تک زارا بھی لانڈری ائیریا سے باہر آ چکی تھی۔
"یہ دیکھ لیں بھابھی کیا کہہ رہا ہے آپ کا بیٹا چھیڑ رہا ہے مجھے۔" اس نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا تو اس کی شکل دیکھ کر زارا کو ہنسی آگئی۔
"کیف میں جوتے سے مرمت کرونگی تمہاری چلو اٹھو سمیٹو یہ سب اور جا کر نہاؤ گندے کہیں کے۔" زارا نے اسے تنبیہہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا تو وہ شرافت سے لڈو سمیٹ کر زینوں کی جانب بڑھ گیا۔ وہ خود بھی کچن میں آگئی جہاں آنیہ چاول بگھو رہی تھی۔
"زیبی کو تو زیادہ ہی دکھ ہے رحیمہ بی کے نہ آنے کا عجیب چڑچڑی ہو رہی ہے آج سے پہلے تو کبھی اس نے ایسے نہیں کیا۔" آنیہ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو زارا بھی سوچ میں پڑ گئی جو بھی تھا کہہ تو وہ بالکل ٹھیک رہی تھی آج کل زیبا کچھ بدلی بدلی سی تھی چھوٹی چھوتی باتوں پر چڑ جاتی تھی خبیب کی جانب بھی اس کی توجہ اس طرح سے نہیں تھی جیسے ہمیشہ ہوا کرتی تھی۔ زارا موقع دے کر اس سے بات کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی کچھ تو تھا ایسا جو غلط ہو رہا تھا اس کے ساتھ۔ وہ سر جھٹک کر اُبالی ہوئی پالک گرینڈ کرنے لگی دوسری جانب پریشر کوکر میں اس نے گوشت چڑھا رکھا تھا مگر دماغ اس کا کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا۔
*****************
پشاور ملٹری ہیڈ کواٹر میں اس لمحے عجیب سا سناٹا تھا شاید سب اپنا اپنا کام کررہے تھے وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کچھ ضروری کاغذات کی ورق گردانی میں محو تھا ساتھ ہی لیپ ٹاپ بھی کھلا ہوا تھا جہاں نظر آتی تحریر کب سے اسے الجھائے ہوئے تھی۔ اس نے اس تحریر کا ایک پرنٹ اوٹ لیا اور جیب میں ڈالتا ہوا باہر نکل آیا۔ آفیسر نے اسے دیکھتے ہی سیلوٹ کیا اور اس کی تقلید میں چلتا ہوا اس کی جیپ تک آگیا۔
"سر! اوپر سے آڈر آیا ہے کہ آپ کام کے وقت اپنی ذاتی جیپ استعمال نہیں کرسکتے آپ کو سرکاری سواری ہی استعمال کرنی ہے گاڑی اور ڈرائیور تیار ہے آپ اس میں چلے جائیں آپ کی جیپ آپ کے گھر پہنچا دی جائے گی۔" کیپٹن بلال نے روانی میں کہتے ہوئے اس کا اچھا خاصا موڈ غارت کیا تھا اسے کرنل خاور شدت سے یاد آئے تھے وہ ہر معاملے میں اس کا کتنا ساتھ دیا کرتے تھے اب تو کسی نئے ماتحت کے انڈر کام کرنا اور اسے رپوٹ کرنا اسے بے حد مشکل لگتا تھا۔ گاڑی پشاور کے کینٹ میں داخل ہوئی تو اس کے اعصاب خود بخود ہی ڈھیلے پڑنے لگے وہ کام کے حوالے سے وہاں آیا تھا لہذا اس پر فرض تھا کہ وہ پروفیشنل بی ہیو کرتا۔ گاڑی سیون سیز گیسٹ ہاؤس کے اندر رکی تو ڈرائیور نے نیچے اتر کر اس کی جانب کا دروازہ کھولل دیا وہ نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ وردی میں ملبوس تھا۔ سیون سیز گیسٹ ہاؤس میں ہر جانب سکون اترا ہوا تھا۔ ملازم نے اسے دیکھ کر مہمانوں والے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے انتظار کرنے کے لیے کہا اور خود باہر نکل گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہی ملازم پھر سے اندر داخل ہوا تھا اب کی بار اس کے ہاتھ میں چائے بسکٹ والی ٹرے بھی موجود تھی۔ اس نے ٹرے میز پر رکھی اور صاحب کے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے باہر نکل گیا۔ اس نے ایک نگاہ اپنے اطراف میں ڈالی تھی کمرہ مکمل طور پر پُرآسائش تھا۔ سارے کمرے کی دیواروں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے صوفے نصب تھے دیوار گیر پینٹنگز کمرے کو مزید خوبصورت دکھا رہی تھی۔ ایک کونے میں میز رکھا تھا جس کے اوپر قدم زمانے کی بندوقیں لٹک رہی تھیں۔ چائے کا کپ ابھی بھی میز پر ان چھوا رکھا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید جائزہ لیتا کمرے کا دروازہ کھول کر میجر جنزل غلام عباس اندر داخل ہوئے تھے سفید واشنگ وئیر کی استری شدہ شلوار قمیض میں ملبوس کف کوہنیوں تک موڑے فوجی کٹ میں کٹے ہوئے سیاہ و سفید بال چہرے پر بالوں کے ہم رنگ ہی سیاہ و سفید مونچھیں تھیں جو ان کی شخصیت کو اور بھی بارعب دکھا رہی تھیں۔ گندمی رنگت والے غلام عباس کی شخصیت میں عجیب سا رعب تھا جو دیکھنے والے کو مرعوب کرنے کو کافی تھا۔
"اسلام علیکم سر!" اس نے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا تو وہ جواب دے کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گئے ان کی توجہ مکمل طور پر سامنے بیٹھے ہوئے جبرئیل کی جانب تھی۔
"کہیے کرنل جبرئیل! کیسے آنا ہوا؟" غلام عباس کی توجہ مسلسل جبرئیل کی جانب تھی وہ بری طرح اس کے بولنے کے منتظر تھے۔
"سر! بنووری کے گاؤں میں میں نے اپنا ایک آفیسر بطور مسافر بھیجا تھا جو انفارمیشن وہ اس گاؤں سے اکھٹی کر کے لایا ہے وہ اس کاغذ میں لکھی ہوئی ہے۔" اس نے جیب سے کاغذ نکال کر ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود بھی اٹھ کر ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
"سر یہ بنووری گاؤں سوات کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اتنا مختصر کہ آسانی سے کسی بھی آنے جانے والے کی خبر رکھی جا سکتی ہے۔ اب جس دن میرا آفیسر بنووری گیا اسی روز گاؤں کے ایک گھر میں وہاں کے رہائشیوں کے دور پار کے رشتے دار بھی آئے تھے جن کے ساتھ سامان کے نام پر بڑے بڑے سیاہ سفری بیگ تھے اور ہمارے ریکارڈ کے مطابق اسی روز آرمز کا ایک بڑا کنسائنمنٹ ملک کے شمالی علاقہ جات میں داخل کیا گیا تھا۔" وہ روانی میں بتاتا ہوا چند سانحے کے لیے ٹھہرا تھا۔
"آپ کو کیسے پتا کہ اسی روز آرمز کا کنسائنمنٹ شمالی علاقہ جات میں داخل ہوا ہے؟" غلام عباس سنجیدگی سے سنتے ہوئے گویا ہوئے تو وہ مزید کچھ آگے ہو کر بیٹھ گیا۔
"کیونکہ یہ کنسائنمنٹ ہم نے خود پاس کروایا تھا۔" وہ بولا تو غلام عباس کو لگا جیسے ان پر کوئی بم پھوڑا گیا ہو۔
"واٹ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ اگر یہ آرمز کسی بھی غلط ہاتھوں میں چلے گئے تو کیا ہو گا؟" وہ انتہائی برہمی سے گویا ہوئے تو جبرئیل گہری سانس بھر کر خود کو پرسکون کرنے لگا۔
"ریلیکس سر دی آرمز ور فیک۔ وہ صرف اس جدید ڈیزائن کو کاپی کر کے اس طریقے سے بنوائے گئے تھے کہ کسی کے فرشتے بھی نہیں پہچان سکتے تھے کہ وہ اصلی تھے یا نقلی اور وہ شمالی علاقہ جات میں اس لیے داخل کیے گئے تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ آخر کو کون سے لوگ ہیں یہاں جو باہر سے آنے والے آرمز کلیکٹ کررہے ہیں کیونکہ سپلائی کرنے میں سب سے پہلا مرحلہ کلیکٹ کرنا ہے۔" جبرئیل کے تفصیل بتانے پر ان کے تنے ہوئے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑے تھے۔
"پھر کیا معلوم ہوا آپ کو؟" وہ اب کی بار ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر قدرے ریلیکس انداز میں صوفے پر بیٹھے تھے۔
"معلوم یہی ہوا ہے کہ جو لوگ بھی مال کلیکٹ کررہے ہیں اصل میں وہ وہاں کے مکین ہیں ہی نہیں میرے آفیسر کے مطابق اس ایک دن میں صرف تین گھر ایسے تھے جہاں مہمان نوازی کی گئی تھی یعنی آرمز باہر سے لائے گئے تھے اب وہ کس گھر میں لائے گئے یہ کہنا تھوڑا مشکل ہے کیونکہ اگر ہم وہاں کے لوگوں سے تفتیش کرتے تو یقیناً لوگوں میں خوف و حراس پھیل جاتا اور بات اگر باہر نکل جاتی تو ڈیلرز یقیناً الرٹ ہو جاتے۔" اس نے مزید تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ کسی غیر مرعی نقطے پر مرکوز اس کی جانب دیکھتے رہے۔
"آئی ڈونٹ نو کرنل! اپنی ٹیم سے کہیں مجھے ہر حال میں پتا چاہیے کہ آخر مال آ کہاں سے رہا ہے اور اس کو کلیکٹ کرنے والا کون ہے پھر ہی ہم سپلائیر ڈھونڈ سکیں گے یہ نیٹ ورکنگ ملک میں دن بدن سٹرونگ ہو رہی ہے اور میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہمارے کچھ بھی کرنے سے پہلے کوئی نقصان ہو جائے انڈر سٹوڈ؟" وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے گویا ہوئے تو وہ بھی اپنی جگہ چھور کر کھڑا ہو گیا۔
"سر!" اسے سیلوٹ کرتے ہوئے وہ ان کی اجازت کا منتظر تھا۔
"یو مے لیو ناؤ۔"انہوں نے اسے جانے کے لیے کہا تو وہ تیزی سے چلتا ہوا باہر آگیا جہاں گاڑی اور ڈرائیور اس کے منتظر تھے۔
************
پشاور کے ایک پوش علاقے میں وہ ایک صاف ستھرا دو منزلہ کلینک تھا جس کے باہر ڈاکٹر احمر قیوم کنسلٹنٹ سائیکٹریسٹ کی نیم پلیٹ چمک رہی تھی ساتھ ہی اقات کار بھی درج تھے۔ وہ گاڑی پارک کر کے نیچے اتری تو عجیب سی کیفیات کا شکار ہو گئی۔ دل میں بار بار ایک ہی سوال ابھر رہا تھا۔
" کیا میں پاگل ہوں یا پاگل ہونے والی ہوں یا پاگل ہو چکی ہوں" اس کے دماغ میں ابھرتے ان سوالات کا جواب ندارد تھا۔
"سائیکٹریسٹ کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ خدا نخواستہ آپ پاگل ہو سم ٹائمز آپ کو کوئی ایسا انسان چاہیے ہوتا ہے جس سے آپ وہ بات کہہ سکو جو آپ چاہتت ہوئے بھی اپنے کسی سے نہیں کہہ سکتے کوئی ہوتا ہے جو صرف آپ کو سننے کے لیے موجود ہوتا ہے یہ اس کی جاب ہوتی ہے کہ وہ آپ کو بیٹھ کر سنے آپ کے پرابلمز کا سلوشن ہمیشہ ایک اچھے سائیکٹریسٹ کے پاس ہوتا ہے۔" گزشتہ روز کہی ہوئی جبرئیل کی باتیں اس کے دماغ میں گھومیں تو وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی اپنے شل ہوتے دماغ کو ریلیکس کرنے کی کوشیش کرنے لگی۔
وہ لیمن کلر کی لمبی قمیض کو جینز کے ساتھ پہنے ہوئے تھے۔ شولڈر کٹ بال کیچر میں بندھے ہوئے تھے۔ زارا کی نسبت اس کی رنگت صاف شفاف تھی وہ ایک جازب نظر اور خوبصورت دکھنے والی لڑکی تھی مگر اس میں اعتماد کی اس درجہ کمی تھی کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتی اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا خود پر قابو ہی نہیں ہے۔ وہ جہاں ہوتی ہے وہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے اور اس اندھیرے سے خود کو نکالا جیسے اس کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ سر ایک بار پھر چکرایا تھا آنکھوں کے سامنے اندھیرا گہرا ہوا بھی تو اس نے آنکھیں کھول کر روشنی دیکھنا چاہی قدموں کی رفتار خود بخود ہی تیز ہوئی تھی۔ وہ تیزی سے چلتی ہوئی کلینک کے اندر آگئی۔ نومبر کے مہینے میں باہر خنکی تھی جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی اسے عجیب سے سکون کا احساس ہوا تھا۔ رسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی اسے حواس باختہ دیکھ کر خود ہی پوچھ بیٹھی۔
"اینی پرابلم مس؟" رسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے فائل سے سر اٹھا کر کہا تو وہ خود کو سنبھالتے ہوئے رسیپشن پر آگئی۔
"میری اپائنمنٹ ہے ڈاکٹر احمر کے ساتھ کیا وہ اویلیبل ہیں؟" کندھے پر پہنے ہوئے شولڈد بیگ کا سٹریپ پکڑتے ہوئے اس نے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گئی۔
"مس میرال خان! ڈاکٹر احمر آپ کا ہی ویٹ کررہے ہیں چلی جائیے۔" رسیپشنسٹ کے کہنے پر اسے عجیب سی حیرت ہوئی تھی۔
"میرا ویٹ؟" وہ انگلی اپنی جانب کرتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔ میرال گہری سانس بھر کر اس کے بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔ کلینک اس لمحے تقریباً خالی تھا۔ وہ دروازہ کھٹکا کر اندر سے اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئی تو ڈاکٹر کا آفیس دیکھ کر اس کی طبعیت پر پہلے ہاتھ ہی خوشگوار اثر پڑا تھا۔ لائٹ کریم کلر کے پردے ایک جانب کو کونے میں رکھی ہوئی راکنگ چئیر اور میز باقی پورے کمرے میں چھوٹے چھوٹے ڈیکوریشن پیسز اور گیجٹس تھے۔ میز کے سامنے دو ایزی چئیرز رکھی تھی اور ایزی چئیر کے پیچھے رکھا ہوا ایک ہلکے رنگ کا تھری سیٹر صوفہ موجود تھا۔ ڈاکٹر احمر اس لمحے اپنی راکنگ چئیر پر موجود تھے۔ پینتیس چھتیس سال کا وہ مرد انتہائی جازب نظر تھا۔ سیاہ بال ، ہونٹوں پر گہنی مونچھیں اور داڑھی صاف رنگت والے ڈاکٹر احمر کی پرنسالٹی اسے متاثر کی تھی۔ وہ سفید ڈریس شرٹ کو سیاہ ڈریس پینٹ کے ساتھ پہنے ہوئے تھے۔ اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے قریب آگئے۔
"کیسی ہیں آپ مس میرال؟ آپ کے بابا نے آپ کی آمد کے بارے میں بتایا تھا پلیز بیٹھیں۔" اس نے دو میں سے ایک ایزی چئیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ کچھ جھجھک کا شکار ہوتے ہوئے بیٹھ گئی۔ دوسری کرسی ڈاکٹر احمر نے سنبھالی تھی۔ ان کے ہاتھ میں ایک نوٹ پیڈ اور پین تھا جو فی الحال انہوں نے میز پر ہی رکھ دیا تھا۔
"کیا کرتی ہیں میرال آپ آئی مین کیا ہابیز ہیں کیا پڑھتی ہیں؟"ڈاکٹر احمر کے چہرے پر ایک نرم سا تاثر تھا اور لہجے میں بھی ایک نرمی تھی جو میرال کو کچھ کچھ متاثر کررہی تھی۔ شاید ایک سائیکٹریسٹ کی شخصیت کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ وہ بولنا نہیں چاہتی تھی مگر نجانے کیوں وہ خاموش بھی نہیں رہ پائی تھی
" میں پشاور یونیورسٹی سے لا پڑھ رہی ہوں اور ہابیز کوئی خاص نہیں ہیں۔ آئی مین یونیورسٹی آنے جانے کے علاوہ اور کتابوں کے علاوہ میں دوسری کوئی ایکٹی وٹی نہیں کرتی۔" وہ انتہائی دھیمی آواز میں بولی تو ڈاکٹر احمر تعجب سے اسے دیکھنے لگے اب کی بار انہوں نے پین اور ناٹ پیڈ بھی اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔
"کیوں بھئی آپ تو اتنی ینگ ہیں اور ینگ لوگوں میں انرجی کا لیول بھی زیادہ ہونا چاہیے انہیں تو پڑھائی کے ساتھ موویز دیکھنی چاہیے دوستوں کے ساتھ اوٹنگ پر جانا چاہیے لائف انجوائے کرنی چاہیے ورنہ کیا مزہ۔" وہ شانے اچکا کر اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اس کے ہاتھوں کی حرکات بھی بغور دیکھ رہے تھے۔ وہ بلا وجہ بار بار اپنی ٹانگیں ہلا رہی تھی۔
"آئی ڈونٹ نو بٹ آئی ایم ناٹ انٹرسٹڈ۔" اس کا لہجہ دو ٹوک تھا جیسے اب وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتی ہو۔
"اٹس اوکے میرال ریلکیس قرآن پڑھتی ہیں آپ اور نماز؟" ان کا کیا گیا اگلا سوال میرال کو چونکنے پر مجبور کر گیا تھا وہ شرمندگی سے چہرہ جھکا گئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی قرآن۔ ڈاکٹر احمر کو اس کے خیال میں مایوس ہو کر اسے کچھ سخت ست کہنی چاہیے تھی مگر حیرت انگیز طور پر وہ مسکرا رہے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
"اٹس اوکے آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے نماز اور قرآن خالصتاً انسان اور اللہ کے بیچ کا معاملہ ہے مگر بعض اوقات یہ معاملہ ہمارے بہت سے معاملات کو حل کر جاتا ہے۔" وہ اب کی بار اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے کے ایک کونے میں بنے ہوئے بک شیلف کی جانب بڑھے اور سب سے اوپر والی شیلف سے انہوں نے ایک سیاہ غلاف میں لپٹا ہوا چھوٹا قرآن اٹھا لیا۔ قرآن اٹھائے وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ میرال خاموشی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"یہ دیکھیں یہ قرآن ہے جو میں ہمہ وقت کوشیش کرتا ہوں کہ اپنے پاس رکھوں جب پریشان ہوں اور کوئی گرہ میرے دل کو جکڑے تو میں اسے کھول کر پڑھوں اور پتا میرے ساتھ ایک بہت ہی عجیب چیز ہوتی ہے۔" وہ اپنی بات کہہ کر چند ثانحے ٹھہرے تھے میرال بغور ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے ان کے مزید بولنے کی منتظر تھی۔
"ہمیشہ وہی صفحہ کھلتا ہے جس میں یا تو میری پریشانی کا حل ہوتا ہے یا تو مجھے سکون مل جاتا ہے۔" ڈاکٹر احمر کی بات اس کے لیے بہت حیران کن تھی۔
"کیا آپ آزمانا چاہیں گی؟" وہ اس میں ایک عجیب سا تجسس پیدا کر رہے تھے اور ان کا تیر عین نشانے پر جا لگا تھا۔
"وضو کر لیں پہلے۔" انہوں نے اسے قرآن چھونے سے پہلے واشروم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ معذرت کرتی ہوئی باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔ کچھ دیر بعد باہر نکلی تو چہرہ بھیگا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ بھی موجود تھا۔ وہ خاموشی سے چپ چاپ واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئی۔
"چلیں اپنی مرضی سے قرآن کا کوئی بھی صفحہ کھولیں اور دیکھیں کہ اللہ نے آپ کے لیے کونسی آیت بھیجی ہے۔" ان کے چہرے پر انتہائی پرسکون مسکراہٹ تھی۔ میرال نے کانپتے ہاتھوں سے قرآن مجید کھولا تو اس کے سامنے سورہ کف کھل گئی۔ اس کی نگاہ ایک آیت پر ٹھہر گئی۔
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔"
سورت کف آیت نمبر 5
اس نے آیت پڑھی اور ناسمجھی سے ڈاکٹر احمر کی جانب دیکھنے لگی۔ وہ آنکھیں بند کر کے مسکرائے تھے ایک بار پھر اللہ کی ذات نے انہیں حیران کیا تھا۔
"سورت کف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنے تمام فیصلے اللہ پر چھوڑ دینے چاہیے اس یقین اور بھروسے کے ساتھ کہ جو فیصلے اللہ ہمارے لیے کرتا ہے وہ کبھی غلط نہیں ہوتے۔ انسان جو فیصلے خود کرتا ہے بعض اوقات وہ فیصلے ان کے لیے غلط ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان اکثر بہت سارے فیصلے بنا سوچے سمجھے محض اپنے فائدے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کر لیتا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ اپنے لیے ایک جاہلیت بھرا فیصلہ کررہا ہے اگر یہی انسان صحیح وقت کا انتظار کرے اور اللہ کی ذات پر یقین رکھے تو اللہ سے بہتر حکم کرنے والا اور فیصلہ سنانے والا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ " انہوں نے اسے اس آیت کی تسفیر بتائی تو وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔
"آپ اپنے آپ کو دیکھیں آپ میں ہمہ وقت ایک جنگ چل رہی ہوتی ہے آپ دوسروں کی سننا چاہتی ہیں مگر آپ کے اندر ایک ایسی آواز موجود ہے جو آپ کو خود سے ہٹنے ہی نہیں دیتی اسی لیے آپ ڈوؤل پرسنلٹی کا شکار ہیں۔" ڈاکٹر احمر کی بات نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے تھے۔
"میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔" وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"آپ کی نیکسٹ اپائنٹمنٹ آپ کو ٹیکسٹ کردی جائے گی رسیپشن پر اپنا نمبر چھوڑ جائیے گا پلیز۔" وہ کہتے ہوئے اپنی کرسی کی جانب بڑھے تو وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ڈاکٹر احمر سے میرال خان کی یہ پہلی ملاقات اس کی شخصیت میں عجیب سے در کھول گئی تھی کیا اس کی ذات میں تبدیلی واقع ہونی تھی یہ تو آنے والا وقت ہی بہتر بتانے والا تھا۔ باب اول
عمر قید
قسط نمبر 1
رات کے سائے ہر سو پھیلے ہوئے تھے۔ کچے اینٹوں کے صحن کے عین وسط میں بچھی اکلوتی چارپائی پر وہ چت لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا۔ صاف شفاف آسمان پر جگہ جگہ تارے ٹمٹما رہے تھے۔ بارش کے بعد مٹی کی سوندی سوندی خوشبو طبعیت کو بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالی تھی صحن کے ذرا سا پیچھے ہی دو ستون لگے ہوئے تھے جن پر برآمدہ کھڑا تھا۔ برآمدے کے پار دو کمرے تھے جن کے دروازے اس لمحے بند تھے۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تو اس کے پورے وجود میں عجیب سی جھرجھری پیدا ہوگئی۔ اس نے اٹھ کر اپنے پیروں کے نیچے پڑا ہوا کھیس اٹھایا اور خود پر ڈال لیا اس سے پہلے کہ نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوتی سرہانے پڑا ہوا اس کا فون جنگاڑ اٹھا اوپر جگمگاتا نمبر دیکھ کر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تھا۔ جسم ایک دم چوکنا ہوا تھا۔ فون کان سے لگاتے ہی اس کی آواز خود بخود ہی پیشہ ورانہ ہوگئی۔
"ہمم جیسا آپ چاہیں۔"
"نہیں کل نکلوں گا۔"
"موسم کی خرابی کے باعث نکل نہیں پایا۔"
" جی کل ملتا ہوں خدا حافظ۔"
اس نے کہہ کر فون بند کیا اور ایک بار پھر سے جسم ڈھیلا چھوڑ کر نیم دراز ہو گیا۔ فضا میں ہر سو رات کے کیڑے کے چنگاڑنے کی آواز گونج رہی تھی جو فی الحال کے لیے اس کی سوچوں میں مخل ہو رہی تھی۔
****************
14 ستمبر
کارڈیف ویلز
وسیع و عریض گلاس وال کے پار نظر آتا آسمان اس قدر شفاف تھا کہ اسے دیکھ کر ہی طبعیت خوش ہو جاتی تھی۔ نیلا بادلوں سے بھرا ہوا کارڈیف کا آسمان اسے ہر چیز سے زیادہ خوبصورت لگتا تھا خاص کر دن میں اور جب وہ گلاس وال سے اس آسمان کو دیکھتی تو بوجھل طبعیت پر خود بخود ہی خوشگوار اثر ہو جاتا۔ گلاس وال کے ساتھ ہی ایزی چئیر رکھی ہوئی تھی جہاں وہ اپنا بیشتر وقت گزارا کرتی تھی۔ اسے اب شاید کسی کی بھی ضرورت نہیں تھی وہ تنہا رہنا چاہتی تھی۔ نہ کسی مددگار کی اور نہ ہی کسی ساتھی کی پھر بھی وہ مجبور تھی۔
"میڈم! آپ کے لیے چائے لاؤں؟" مدہم مگر بھاری آواز پر اس کا تسلس ٹوٹا تو وہ چونک کر اپنے پیچھے دیکھنے لگی۔
" آپ جانتی ہیں روپا دیوی! میں کافی پیتی ہوں بلیک کافی ویداؤٹ شوگر" اس نے پشت پر بکھرے ہوئے بال سمیٹ کر بن میں باندھے اور کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"یہ گلاس وال بند کردینا اور کافی لے آنا میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔" کہتے ہوئے وہ ایک راہداری میں غائب ہو گئی۔ روپا دیوی نے مشقوق نگاہوں سے اس کی پشت کو دیکھا تھا تب تک جب تک وہ غائب نہیں ہو گئی۔ روپا دیوی ایک انڈین بنگالی سانولی سی عورت تھی جس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ،موٹا سا ناک اور بھرواں ہونٹ تھے۔ وہ ہمہ وقت مختلف سکرٹس میں ملبوس ہوتی تھی اس کی پتلی جسامت پر وہ لباس چجتا تھا اس لیے کبھی اس نے روپا دیوی کو وہ لباس پہننے سے منع نہیں کیا تھا۔ روپا دیوی اس کی زندگی میں کب اتنی اہمیت اختیار کر گئی اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا تھا۔
****************
پھولوں کے شہر پشاور میں دسمبر کی خوبصورت صبح اتری تھی۔ خان ہاؤس میں گرم گرم پراٹھوں کی مہک بہت سے لوگوں کی بھوک چمکا رہی تھی۔ وہ کچن میں کھڑی دھڑا دھڑ پراٹھے بنا کر چنگیری میں رکھے جا رہی تھی ساتھ ہی زیبا نے چائے کی پتیلی دھر رکھی تھی۔
"جلدی کرلو زیبی ساتھ والا چولہا خالی ہے انڈے ہی تل لو اور آج آنیہ کیوں نہیں نکلی اپنے کمرے سے یہ کیا آج سبتین کو تھانے تک چھوڑ کر ہی آئے گی؟" اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ اس کے مذاق پر زیبا بھی ہنس دی اس نے زارا کو یونہی دیکھا تھا سالوں سے ہنستے ہوئے،خود کو سنبھالتے ہوئے دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے ہوئے، مذاق کرتے ہوئے جبرئیل کے ساتھ نے اس کے اندر بہت سی مثبت تبدیلیاں پیدا کر دی تھیں وہ اپنے بچوں کے لیے ایک بہترین ماں اور اپنے شوہر کے لیے ایک عمدہ بیوی تھی۔
"اسلام علیکم بھابھی!" آنیہ نے باسی روکتے ہوئے کچن میں قدم رکھتے کہا تو وہ دونوں اس کی جانب دیکھنے لگیں۔
"خیریت ساری رات کیا کرکٹ کھیل رہی تھی جو اب تک باسیاں لے رہی ہو؟" زیبا نے ذو معنی لہجے میں کہا تو آنیہ جھینپ کر چہرہ جھکا گئی۔
"دیکھ لیں بھابھی کتنے سال بیت گئے اس کی شادی کو مگر اب تک اس نے میری باتوں پر شرمانا نہیں چھوڑا اب تو اس کے بچے بھی کالج پہنچ گئے ہیں پھر بھی یہ سبتے کے نام پر یوں جھینپتی ہے جسے ایک رات کی دلہن ہو" زیبا کی زبان کون روک سکتا تھا وہ جب شروع ہوتی تو پھر اسے روکنا مشکل ہی ہوتا تھا۔
"اچھا بس مت چھیڑو اسے جاؤ یہ ناشتہ لگاؤ میز پر میں ذرا میجر صاحب اور بچوں کو دیکھ لوں۔" وہ کہتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی تھی پیچھے وہ دونوں جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگیں۔
سب سے پہلے وہ میرال کے کمرے میں آئی تھی جو بستر پر لحاف اوڑے دنیا و مافیا سے مگن سوئی ہوئی تھی۔ اس نے میرال کے قریب بیٹھ کر اسے ذرا سا ہلایا تو وہ آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"میرال! اٹھ جاؤ بیٹے تمہارے بابا ناشتہ پر تمہارا انتظار کررہے ہونگے جانتی ہو نا۔" اس نے خاموش لیٹی میرال کے بال پیشانی سے ہٹاتے ہوئے کہا تو وہ بنا کوئی جواب دیے اٹھ کر باتھ روم میں بند ہو گئی۔ وہ اکیس سال کی خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ یونیورسٹی آف پشاور میں لا ڈیپارٹمنٹ کے دوسرے سال میں زیرِ تعلیم تھی مگر کچھ عرصے سے وہ بہت بدل گئی تھی۔ اس نے ہنسنا بولنا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا وجہ جبرئیل اور زارا بھی سمجھ نہیں پائے تھے وہ میرال کی جانب سے بے حد پریشان تھے وہ بہت کم ان سے اپنی کسی بات کے لیے مخاطب ہوتی تھی اور یہی چیز ان دونوں کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
****************
کازان رشیا
بامن سٹریٹ میں ہمیشہ کی طرح بھیڑ تھی۔پیدل چلنے والے لوگوں کی تعداد ہمیشہ کی طرح زیادہ ہوتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کو چیرتے ہوئے گزر رہے تھے کچھ کسی کام سے نکلنے ہوئے تھے تو کچھ محض تفریحی کی غرض سے گھوم رہے تھے۔ سٹریٹ کے دونوں جانب مختلف عمارتیں تھیں جو کازان کی اس سٹریٹ کو باقی علاقوں سے مختلف دکھاتی تھی۔ وہ بھی اس لمحے کازان کی اس بامن سٹریٹ میں ہی گھوم رہا تھا سیاہ اوورکوٹ پہنے،سر پر پی کیپ پہن رکھی تھی کانوں میں آئیر پورڈذ تھے آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے وہ دنیا و مافیا اور وہاں پھیلی ہوئی بھیڑ کو اس طرح سے نظر انداز کیے ہوئے تھا جیسے وہ وہاں بالکل تنہا ہو۔ کانوں میں لگائے ہوئے ائیرپورڈز سے ابھرتی آواز کے مطابق وہ سیاہ چشمے سے نگاہیں گھما کر اطراف کا جائزہ لے رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ ائیرپورڈز سے آتی آواز کی بات کا جواب دیتا ساتھ والے موڑ سے ایک لڑکی نکل کر اس کی جانب آئی تھی۔ چست نیلی جینز پر سفید رنگ کا بے داغ ٹاپ پہنے وہ بھی لمبے کوٹ میں ملبوس تھی۔ گولڈن بالوں اور گرے آنکھوں والی وہ لڑکی اچھی خاصی پرکشش تھی۔ صدام نے دلچسپی سے لڑکی کی جانب دیکھا جو مسکرا کر اس کے بازو میں بازو ڈال چکی تھی۔
“ Hi Dazy! How are you?”
صدام کا لہجہ خالصتاً رشین تھا مگر وہ ڈیزی سے انگریزی میں مخاطب تھا کیونکہ ڈیزی ایک امریکن لڑکی تھی جو رشیا میں کیوں تھی یہ تو فی الحال صدام بھی نہیں جانتا تھا۔
“Iam good what about you Master told me about your presence in Russia? What type of goods do you need?”
"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ ماسٹر نے مجھے رشیا میں تمہاری موجودگی کے بارے میں بتایا تھا تمہیں کس قسم کی اشیا درکار ہیں؟" ڈیزی نے ماہرانہ اور پیشہ ورانہ لہجے میں کہا تو وہ مسکرا دیا۔
“I need your precious...”
وہ زومعنی لہجے میں گویا ہوا تو ڈیزی کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی اس کے ساتھ ہی پیدل چلنے لگی۔ شام کے سائے آسمان پر گہرے ہو رہے تھے بامن سڑیٹ میں لوگوں کا رش کچھ مزید بڑھ گیا تھا۔ اب لوگ ایک دوسرے کی مستی میں مگن تھے کسی کو کسی کے جلدی میں ہونے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ڈیزی اسے لیتے ہی تیزی سے چلتی ہوئی بامن سٹریٹ سے باہر نکل گئی۔ بامن سٹریٹ کے باہر ہی ایک کالے رنگ کی مرسرڈیز شاید ان دونوں کا ہی انتظار کررہی تھی۔ وہ دونوں جیسے ہی گاڑی میں بیٹھے شوفر نے تیزی سے گاڑی آگے بڑھا دی ۔ تقریباً سات منٹ کے بعد گاڑی سائیم ٹاور کے سامنے ٹھہری تھی۔ سائیم ٹاور کازان میں واقع ایک خوبصورت عمارت تھی۔ تاریکی طرز کا بنا ہوا یہ ٹاور ہمیشہ سیاہوں کی توجہ کھینچتا تھا۔ وہ دونوں گاڑی سے اترے تو صدام نے ایک سرسری نگاہ اس ٹاور پر ڈالی۔
"تم نے اپنا قیمتی سامان یہاں رکھا ہے؟" اس نے قدرے حیرت سے پوچھا تو ڈیزی شانے اچکا کر رہ گئی۔
"میرا رکھنے نہ رکھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے میں صرف حکم کی ماتحت ہوں۔" ڈیزی نے لاپرواہی سے کہا تو صدام نے بھنویں اچکا دیں جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو وہ جہاں مرضی اپنا سامان رکھتے ہوں۔ ڈیزی آگے آگے چل رہی تھی جبکہ صدام اس کے پیچھے تھا سائیم ٹاور کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب کو قدیمی سیڑھیاں اوپر کی جانب جا رہی تھیں۔ پیروں میں سیاہ ہیل والے کوٹ شوز پہننے کے باوجود وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ صدام بھی اس کے مدِمقابل ہی تھا۔ پانچویں منزل پر پہنچ کر وہ ایک راہداری میں مڑ گئی جس کے آخر میں ایک سیاہ دو پنوں والا دروازہ تھا جو اس لمحے بند پڑا ہوا تھا۔ ڈیزی نے کی ہول میں ایک چابی لگائی تو دروازہ چر کی آواز کے ساتھ کھل گیا اندر چاروں اور اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ کمرہ بالکل خالی تھا پہلی نظر میں دیکھنے والا اندازہ لگانے سے قاصر تھا کہ کمرے میں کیا ہے مگر وہ کوئی عام انسان نہیں تھا جو خالی کمرے سے اس کے خالی ہونے کا یقین کر لیتا وہ صدام حیدر تھا جس کی عقاب سی نظر ہر وقت چیزوں کا معائنہ کرتی تھی۔ ڈیزی نے دائیں جانب کی دیوار کے ساتھ ایک سلور رنگ کا کارڈ لگایا تو دیوار دو حصوں میں کھل گئی یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ دیوار مصنوعی بنائی گئی ہو۔ دیوار کے کھلتے ہی چند زینے نیچے کو جا رہے تھے۔ یوں ایسا لگتا تھا جیسے اس منزل کے اس کمرے کو کسی نے آدھا کر کے تہہ خانے کی شکل دی ہو۔ وہ ڈیزی کے پیچھے جب نیچے اترا تو لاتعداد لکڑی کے وسیع و عریض ڈبے دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں مگر چہرے پر مسکراہٹ چمکی تھی جس مقصد کے تحت وہ یہاں آیا تھا کم از کم وہ ادھورا نہیں ریے گا۔ کازان اسے کچھ نا کچھ تو لازمی دینے والا تھا۔
***************
خان ہاؤس میں ناشتے کا میز سج چکا تھا۔ وہ سربراہی کرسی پر بیٹھا سفید ٹی شرٹ ٹراوزر میں ملبوس اخبار دیکھ رہا تھا یوں معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی ورزش کر کے لوٹا ہو۔ ایک جانب کو فریش اورنج جوس کا گلاس دھرا تھا جبکہ دوسری جانب انڈے اور پراٹھے بھی موجود تھے۔
"یہ کیا آپ نے اب تک شروع نہیں کیا ناشتہ؟" زارا نے اسے اب تک یونہی اخبار پڑھتے دیکھ کر کہا تو اس نے اخبار سے نگاہیں ہٹا کر زارا کی جانب دیکھا۔
"باقی سب کو بھی تو آنے دو تم جانتی ہو کہ میں کبھی اکیلے ناشتہ نہیں کرتا سب کو بلاؤ۔" جوس کا گلاس خالی کر کے میز پر رکھتے ہوئے اس نے کہا تو زارا گہری سانس بھر کر واپس باورچی خانے میں غائب ہو گئی۔ کچھ دیر کے بعد کیف اپنے سکول یونیفارم میں زینوں سے نیچے اترا تھا۔
"گڈمارننگ بابا!" کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے اس نے جبرئیل سے کہا تو جبرئیل نے اسے اچھی خاصی گھوری سے نوازا۔
"پاکستان میں رہتے ہو تم سلام کیا کرو یہ گڈمارننگ کیا ہوتا؟" اپنے باپ کی صبح صبح تنقید سن کر وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا۔
"اسلام علیکم! "میرال نے اندر داخل ہوتے سنجیدگی سے سلام کیا تو جبرئیل نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔
" زارا! میری بیٹی کو ناشتہ دو۔" اپنی پلیٹ میں آملیٹ نکالتے ہوئے اس نے کہا تو زارا مسکرا کر میرال کی پلیٹ میں مختلف چیزیں ڈالنے لگی۔
"اسلام علیکم تایا جان!" خبیب نے میز پر بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاگیا اسی طرح باری باری امل اور عمائمہ بھی میز پر آ گئی تھیں۔ آرون کسی کیس کے سلسلے میں اسلام آباد گیا تھا جبکہ سبتے کی تھانے میں نائٹ ڈیوٹی کے باعث وہ اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ باقی زیبا اور آنیہ کچن میں چائے ڈال رہی تھیں اور زارا بچو کو ناشتہ دے رہی تھی۔ وہ اسی طرح پرسکون طریقے سے رہتے تھے۔ پہلے عشرت بیگم دنیا سے گئیں تو کچھ سالوں کے بعد ماہ رخ بیگم نے بھی آنکھیں موند لیں اب بس خان ہاؤس میں وہی لوگ رہا کرتے تھے۔
ناشتے سے فارغ ہو کر وہ کمرے میں چلا گیا کام والی ماسی آئی تو زارا اسے کچن سمیٹنے پر لگا کر خود بھی اس کے پیچھے کمرے میں آ گئی۔ وہ الماری کھولے کھڑا تھا۔
"ہٹ جائیں آپ تو ایسے کھڑے ہیں جیسے آپ نے تو اپنے کپڑے خود نکال ہی لینے ہیں۔" وہ اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے گویا ہوئی تو جبرئیل نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔
"مت بھولو کہ میں ایک فوجی ہوں اور فوجی اپنے تمام کام خود کرتے ہیں۔" وہ اترا کر بولا تو زارا قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
"اور جب سے فوجی کی بیوی آئی ہے اس نے ایک بھی اپنا کام خود سے نہیں کیا اور کئی فوجی ان کی قیادت میں کام کرتے ہیں ہیٹس آف میجر صاحب!" تالیاں بیٹتے ہوئے وہ اس کے لیے ایک سفید ڈریس شرٹ نکال چکی تھی ٹراوزر سیکشن میں سے اس نے ایک براؤن پینٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمائی تو اسے اپنی جانب گھورتے ہوئے پایا۔
"کتنی مرتبہ کہا ہے کہ میرا رینک اب بڑھ گیا ہے خدارا مجھے میجر صاحب نہ کہا کرو مگر تمہارے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔" کپڑے اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے جبرئیل نے ہنتھے پھلا کر کہا تو وہ لاپرواہی سے شانے اچکا گئی۔
"پرانی عادت ہے شاید ہی چھوٹے۔" کہتے ہوئے وہ اسے چڑاتی ہوئی باہر نکل گئی پیچھے جبرئیل بس اپنا ماتھا پیٹ کر رہ گیا۔ وہ عورت کہیں سے دو بچوں کی ماں نہیں لگتی تھی وہ آج بھی وہی تھی ایک کشمیری ڈری سہمی لڑکی جسے اس نے تحافظ فراہم کیا تھا۔ ان دونوں کی کہانی آج بھی اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی آج سے بیس سال پہلے تھی۔
************
پشاور ملٹری ہیڈ کواٹر میں اس لمحے وہ سربراہی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا سامنے ایک پراجیکٹر لگا تھا جس پر مختلف تصویریں چل رہی تھیں۔
"یہ دیکھیں سر! مخبری ہوئی ہے کہ سارا سامان کسی دوسرے ملک سے امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ ارمز یہاں نہیں دیکھے جاتے اور نہ ہی عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں یہ کوئی بہت ہی خاص مینیو فیکچر ہے جو خالصتاً کسی گینگسٹر مافیہ ہی بنا سکتے ہیں۔ " پراجیکٹر کے سامنے کھڑا کیپٹن بلال تیز تیز بریفنگ دے رہا تھا جبکہ سربراہی کرسی پر بیٹھا ہوا عنصب ہونٹوں پر ہاتھ رکھے بغور پراجیکٹر پر بنائی ہوئی اس پریزنٹیشن کو دیکھ رہا تھا جو اس کی ٹیم نے بڑی محنت سے بنائی تھی۔
"کیپ اٹ اپ کیپٹن! اب پتا لگائیں کہ مافیہ دنیا کے کن کن معاملک میں زیادہ پائے جاتے ہیں تاکہ ان کی ایک لسٹ تیار کی جا سکے پھر ہی ہم دیکھ سکیں گے کہ آخر اس قسم کے آرمز کن معاملک میں تیار کیے جاتے ہیں۔ اگر آرمز کی سپلائی اس ملک میں غیر قانونی طریقے سے بڑھ گئی نا بہت نقصان ہو جائے گا بلال! بہت نقصان ان لوگوں کے ہاتھ میں بھی ہتھیار آ جائیں گے جو انہیں چلانا تک نہیں جانتے اور یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہو گا۔" اپنی کرسی چھوڑ کر وہ کھڑا ہوا تو بلال کو بغور اپنی جانب دیکھتا پایا۔
"سر یہ انفارمیشن!" بلال کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے کہ وہ تیزی سے اس کی بات کاٹ کر بولا تھا۔
"کانفیڈینشل رہے گی مجھے ابھی اس کی رپورٹ آگے دینی ہے" وہ کہتا ہوا کانفرنس ہال سے باہر نکل گیا۔ میجر عنصب جہانگیر کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ایک ایسا نام تھا جو اپنی پہچان خود تھا۔ وہ ایک انتہائی قابل آفیسر تھا جو دو دن کے بعد واپس سکردو جا رہا تھا اس کی موجودہ پوسٹنگ وہیں پر تھی۔
رات گہری ہوئی تو سیرینا ہوٹل پشاور کی۔ پارکنگ میں وہ گاڑی کھڑی کر کے خود نیچے اتر آیا۔ گرے چیک شرٹ کو نیلی جینز پر پہنے ہوئے وہ اچھا خاصا سمارٹ لگ رہا تھا۔ شفاف رنگت پر ہیزل بھوری آنکھیں جن میں ہر لمحہ کوئی نا کوئی سوچ سمائی رہتی تھی۔وہ آنکھوں سے بولتا تھا۔ اسے سروس جوائن کیے محض چار سال ہی ہوئے تھے مگر چار سالوں میں اس نے اتنی لگن اور محنت سے کام کیا تھا کہ خود بخود ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ ہوٹل کی عمارت میں داخل ہوتے ہی اس نے رسیپشنسٹ سے مطلوبہ معلومات حاصل کی اور لفٹ کی جانب بڑھ گیا۔ لفٹ نویں فلور پر رکی تو وہ باہر نکل آیا۔ ہاتھ میں گاڑی کی چابیاں اور والٹ موجود تھا۔ کمرہ نمبر 408 کے سامنے ٹھہر کر اس نے بیل بجائی تو کچھ دیر کی تاخیر کے بعد دروازہ کھول دیا گیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو خوشبو اور خنکی نے اس کا استقبال کیا۔ وہ ایک فیملی سوئیٹ تھا جس کے ایک حصے میں کچن اور ڈائینگ ٹیبل موجود تھا۔ جس پر تین افراد پہلے سے ہی موجود تھے۔
"گڈ ایوننگ سر! " ہاتھ ماتھے تک لیجاتے ہوئے اس نے سیلوٹ کیا تو جبرئیل نے اثبات میں سر ہلا کر اس کے سلام کا جواب دیا۔
"کہیے میجر عنصب کیا رپوٹ ہے؟" جبرئیل کے کہنے پر اس کے ساتھ موجود طراب اور اسامہ بھی مکمل طور پر ہمہ تن گوش ہوئے تھے۔
"سر رپوٹ تو یہی ہے کہ آرمز تو سمگل ہو رہے ہیں مگر کہاں سے اب تک ہم یہ پتا نہیں چلا پائے ہیں۔ لیکن جس طرح کے آرمز سمگل کیے جا رہے ہیں میں نے اس کے چند سیمپل دیکھے ہیں وہ بہت ہی عجیب طرح کے ہیں پاکستان یا کسی بھی ایشائی ملک میں اس طرح کے ہتھیار ملنا تقریباً ناممکن ہے دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے یہ معافیہ کے استعمال کیے جانے والے ہتھیار ہوں میں نے بذاتِ خود اس طرح کے ہتھیار ایک ڈاکومینٹری میں دیکھے تھے مگر چونکہ میرے چیک کرنے کے باوجود اس کی مکمل انفارمیشن انٹرنیٹ پر موجود نہیں ہے اس لیے کچھ خاص پتا نہیں چل پایا پر میں نے اپنی ٹیم کو کام پر لگا دیا ہے وہ جلدی رپوٹ پیش کرینگے۔" چار کرسیوں میں سے ایک پر براجمان ہوتے ہوئے وہ تمام قیمتی معلومات اس تک پہنچا گیا تھا۔ وہ جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا ہوا تھا اس کے اتنے پروفیشنل انداز اور ہوم ورک پر مسکرا دیا۔
"سوری سر میں نے کوئی غلطی کردی؟" عنصب نے اس کے مسکرانے پر جھجھک کر پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا گیا۔
"ویل ڈن ینگ مین مجھے تم سے یہی امید تھی اسی لیے میں نے اس مشن کے لیے تمہارا انتخاب کیا مگر یاد رکھنا ابھی تو شرواعت ہے ہم نے صرف اس کیس کے سرے تھامے ہیں ان سروں سے ابھی ہمیں لمبا سفر طے کرنا ہے۔" میز پر رکھے ہوئے چائے کے کپ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے کہا تو وہ بھی مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گیا۔
"واپسی کب کی ہے تمہاری عنصب؟" اسامہ نے پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا تو وہ بھی اب کی بار ریلیکس ہو کر بیٹھ گیا۔
"پرسوں کی ہے سر! امی بھی اکیلی ہیں وہاں تو مجھے فکر رہتی ہے ان کی مگر وہ نہیں گھبراتیں ان کے بقول یہ ان کے لیے اعزاز ہے کہ وہ اپنے فوجی بیٹے کا انتظار کرتی ہیں۔" عنصب کے لہجے میں اپنی ماں کے لیے جو محبت اور اپنائیت تھی وہ ان تینوں کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
"ایسا ہی ہے ماؤں کو ہمیشہ اپنے فوجی بیٹوں پر فخر ہی ہوتا ہے اینی ویز اب ہم چلتے ہیں کب سے آپ کا کمرہ مل کر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی آپ کے انتظار میں یہ بچے ہوئے چائے بسکٹ واپس کر دینا کہیں رات بھر یہی نا کھاتے رہنا۔" طراب نے جاتے جاتے بھی پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے اپنے بھرپور ندیدے پن کا مظاہرہ کیا تھا جبرئیل اور اسامہ محض اسے دیکھتے ہی رہ گئے۔
"شرم کرو اپنا عہدہ دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو۔" جبرئیل نے اس کی کمر میں ایک دھموکا جڑتے ہوئے کہا تو وہ منہ بنا کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"کیا عمر دیکھوں ترتالیس سال ہی ہے کچھ زیادہ تو نہیں جو تم اتنا پرچار کررہے ہو۔" طراب نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا تو وہ بھنویں اچکا کر رہ گیا۔
"صحیح بات ہے کرنی پڑے گی بات تمہاری بیگم سے وہی تمہیں بتائے گی کہ کتنی عمر ہے تمہاری۔۔" وہ تینوں یونہی باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی عمارت سے باہر نکل آئے تھے اس بات سے انجان کہ دو آنکھیں انہیں ہی دیکھ رہی ہیں۔
****************************
کارڈیف میں شام پھیل رہی تھی۔ کارڈیف میں دور دور تک بلند و بالا پہاڑ اور خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی وہ جب بھی اداس ہوتی اپنے گھر کی گلاس وال کے قریب آ کر بیٹھ جاتی ڈھلتا سورج اسے ایک عجیب سا سکون دیتا تھا۔ روپا دیوی اپنے کام نمٹا کر بھاپ اڑاتی کافی کے دو مگ تھامے وہیں اس کے نزدیک آگئی۔ کافی کا کپ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے خود روپا دیوی نے ساتھ والی کرسی سنبھالی تھی۔
"میڈم! آپ کو نہیں لگتا ویلیز کا سورج ڈوبتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے۔" روپا دیوی نے اپنے مگ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"کونسا سورج ہے جو ڈوبتے ہوئے عجیب نہیں لگتا روپا دیوی! مدہم گہرا آنکھوں کو چندھیا دینے والا۔" اب کی بار اس نے بھی اپنے مگ میں سے گھونٹ بھرا تھا۔
"نہیں میڈم! بنگال میں ڈوبتا سورج بڑا خوبصورت لگتا ہے آدھے آسمان کو نارنجی کرتا ہوا وہ سورج فضا میں عجیب پرسوز سا ماحول پیدا کردیتا ہے مجھے تو کھلے میدان میں بیٹھ کر ڈوبتے سورج کو دیکھنا بڑا ہی اچھا لگتا تھا۔" روپا دیوی اسے جوش سے بتا رہی تھی جبکہ وہ مسکرا کر اسے سن رہی تھی۔
"ایک بات پوچھو میڈم؟" روپا دیوی نے مگ خالی کر کے میز پر رکھتے ہوئے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر دوبارہ گلاس وال سے باہر دیکھنے لگی۔
"کیا کبھی آپ نے کسی سے محبت کی ہے؟" اس کے سوال پر لبوں تک مگ لیجاتا ہوا اس کا ہاتھ فضا میں ہی ساکن ہوا تھا۔ چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا تھا۔ آنکھوں میں ڈوبے ہوئے خوابوں کی تصویر ابھر کر معدوم ہوئی تھی،ٹوٹے ہوئے ارمانوں کی کرچیوں نے اس کے دل کو چھلنی کیا تھا۔ مگر وہ جلد ہی خود کو سنبھال گئی تھی۔ چہرہ خود بخود اثبات میں ہلا تھا۔
"کس سے اور پھر ملا کیوں نہیں وہ؟" روپا دیوی کا جوش دیکھنے لائق تھا جبکہ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے محض اسے دیکھ رہی تھی۔
"شاید اس لیے کہ ہر محبت کا ملنا مقدر میں نہیں ہوتا انسان چاہت تو کرسکتا مگر چاہت کو حاصل کرنا کبھی کبھی اس کے بس میں نہیں ہوتا" اب کی بار وہ مگ میز پر رکھ چکی تھی جس میں ابھی بھی کچھ کافی موجود تھی۔
"کیا بہت پیارا تھا وہ؟" وہ پتا نہیں آج کیا سوال لے کر بیٹھ گئی تھی اسے اس کے سوالوں سے اب الجھن سی ہونے لگی تھی۔
"ایک بات بتاؤ روپا دیوی؟" اب کی بار وہ ٹیک چھوڈ کر سیدھی ہو کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی تو روپا دیوی مکمل طور پر ہمہ تن گوش ہو گئی۔
"کیا محبت کے لیے ضروری ہے کہ محبوب خوبصورت ہو؟" ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھتے ہوئے وہ گویا ہوئی تو روپا دیوی قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
"نہ میڈم! محبت تو اندھی ہوتی ہے۔" وہ اپنی ہی بات کا مزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ مطمئن سی ہو کر واپس بیٹھ گئی۔
"تو پھر تمہارا یہ سوال تھا ہی فضول جاؤ کھانا لگاؤ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔" وہ کہتے ہوئے واپس گلاس وال سے باہر دیکھنے لگی جس کا مطلب واضح تھا کہ وہ مزید اب کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہے۔ روپا دیوی اپنا سا منہ لے کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔
***************
خان ہاؤس میں شام اتر رہی تھی۔ لان میں موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھی وہ موبائل سکرول کررہی تھی۔ سادی سی ہری شلوار قمیض میں ملبوس دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ تنہا بیٹھی اپنے موبائل میں مگن تھی۔ گیٹ پر ہارن ہوا تو وہ موبائل رکھ کر اس جانب متوجہ ہو گئی۔ جبرئیل کی جیپ اندر داخل ہو رہی تھی۔ وہ شروع سے ہی جیپ استعمال کرتا تھا اب بھی اس کے پاس جیپ تھی اور وہ اسے خود ہی چلانا پسند کرتا تھا۔ جیپ پورچ میں پارک کر کے وہ آنکھوں سے کالے شیڈز اتارتا ہوا اس کی جانب ہی آگیا۔
"اسلام علیکم! " زارا کے سامنے والی کرسی سننھالتے ہوئے اس نے سلام کیا تو زارا جواب دے کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"کیا بات ہے آج تم اکیلے چائے پی رہی ہو آنیہ اور زیبا کہاں ہیں؟" پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے اس نے کہا تو زارا کیتلی میں سے دوسرے کپ میں اس کے لیے چائے نکالنے لگی۔
"اندر ہیں اپنے اپنے کام کررہی تھیں دونوں تو میں ایسے ہی آکر باہر بیٹھ گئی۔" وہ آہستگی سے گویا ہوئی تو جبرئیل نے بغور اس کا چہرہ دیکھا۔
"خیریت کچھ پریشان لگ رہی ہو؟" اپنے کپ میں سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے پوچھا تو زارا گہری سانس بھر کر رہ گئی۔
"میں میرال کی طرف سے بہت پریشان ہوں لڑکی ذات کا اس طرح ہونا کوئی صحیح بات نہیں ہے عجیب سی ہو گئی ہے وہ میں اسے وکالت اس لیے پڑھا رہی ہوں تاکہ وہ عدالت میں اپنے شعبے کے ساتھ انصاف کرسکے مگر وہ تو ہم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی جج کے سامنے کیا کرے گی۔" زارا کا خدشہ غلط نہیں تھا جبرئیل کو بھی اس کی بہت فکر تھی۔
"میں نے ایک سائیکٹریسٹ سے آپائٹمنٹ لی ہے میرال سے کہنا اس کے پاس چلی جائے وہ اس کی مدد کرے گا۔ جو بھی وجہ ہو گی معلوم ہو جائے گی۔" وہ کہتے ہوئے واپس چائے پینے لگا۔ دماغ اس کا عجیب سے تانے بانے بن رہا تھا جبکہ زارا کے چہرے کی فکر اور پریشانی ابھی بھی کم نہیں ہوئی تھی۔
******************
راویریا ایکوا پارک کازان میں واقع وہ منظر کیریلن اپارٹمنٹس بلڈنگ کا تھا۔ جس کے اپارٹمنٹ نمبر 108 میں وہ اس لمحے موجود رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ ایکوا پارک کے وہ اپارٹمنٹ زیادہ تر ایلیٹ کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے۔ وڈن فلور دو بیڈرومز پر مشتعمل وہ اپارٹمنٹ مکمل طور پر فرنشنڈ تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی وسیع لاونج تھا جہاں بیٹھنے کے لیے صوفوں کے ساتھ ایک جانب کو چھوٹا ڈائینگ ٹیبل تھا جس کےہیچھے ہی مناسب کچن موجود تھا۔ لاونج کے سامنے ہی راہداری میں دو کمرے آمنے سامنے تھے۔ وہ جدید سٹائل کا بنا ہوا اپارٹمنٹ اس کے رہنے کے لیے بالکل موذوں تھا مگر پھر بھی وہ اس سے مطمئن نہیں تھا اسے زندگی میں ہمیشہ ہی کچھ بڑا چاہیے تھا کچھ ایسا جو اس کے معیار کو تسکین دے سکے۔
کھانے کی دو تین ڈشز اس کے سامنے موجود تھیں جن میں سے وہ راغبت سے کھاتا ہوا اپنے فون پر تیزی سے نظر بھی دوڑا رہا تھا۔ نظر دوڑاتے ہوئے اچانک اس کی نگاہ ایک تصویر پر ٹھہر گئی تھی۔ وہ چہرہ اسے کہیں دیکھا دیکھا لگا تھا۔ صدام حیدر نے اس چہرے کو کہاں دیکھا تھا وہ سوچنا چاہ رہا تھا مگر یاداشت کا بھنور ایسا گہرا تھا کہ چاہتے ہوئے بھی اس کے دماغ میں وہ نہیں آرہی تھی۔ وہ عورت کون تھی اس نے کہاں دیکھ رکھی تھی ایسے بہت سارے سوال دل میں مچل کر اسے پریشان کررہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید اس پر سوچتا ڈور بیل نے اس کی تمام توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہ کرسی کھسکا کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازہ کھولتے ہی اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی کیونکہ اس کے فلیٹ میں آج سے پہلے کبھی کسی لڑکی کا آنا نہیں ہوا تھا۔
"ہیلو!" وہ خالصتاً رشین لہجے میں گویا ہوئی تو صدام نے بھنویں اچکا کر اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا۔ سیاہ پینٹ پر گھٹنوں تک آتا ہوا فراک پہنے وہ سر پر ہم رنگ ہی سکارف لپیٹے ہوئے تھی۔ وہ کوئی بہت خوبصورت لڑکی نہیں تھی مگر اس کے چہرے پر کچھ تو خاص تھا جو صدام حیدر کو مسلسل اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھا۔ صاف رنگت پر سیاہ بڑی بڑی آنکھوں تلے درمیانی سی ناک اور باریک سے ہونٹ البتہ ناک میں ایک ننھی ہیرے کی لونگ چمک رہی تھی۔
“Iam your next door neighbour... My mom send me with this dish.”
"میں آپ کی ساتھ والی ہمسائی ہوں میری امی نے مجھے اس ڈش کے ساتھ بھیجا ہے۔" اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈش کی جانب آنکھوں سے اشارہ کیا تو صدام نے فوری اس کے ہاتھ سے ڈش تھام لی۔
“Do you know Urdu?”
"کیا تم اردو جانتے ہو؟" وہ پتا نہیں کیوں اس سے یہ سوال کر بیٹھی تھی شاید اس کی شخصیت سے اسے اس کے ایشین ہونے کا اندازہ ہوا تھا تب ہی وہ اس سے یہ سوال کر بیٹھی تھی۔ صدام کو اس کی زیرک نگاہی پر یقیناً حیرت ہوئی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
"شکر ہے یہاں کوئی اردو بولنے والا بھی ملا ورنہ منہ ٹیرا کر کے رشین اور انگلش بول بول کر میں عاجز آچکی تھی۔" وہ خود سے ہی اس سے فری ہوئے جا رہی تھی بنا یہ دیکھے کہ وہ اب بیزاری سے اسے گھور رہا ہے شاید وہ انتظار کررہا تھا کہ وہ باہر جائے تو وہ دروازہ بند کر کے اندر واپس آئے۔
"بائی دا وے میرا نام زرکا ہے میں پاکستان سے آئی ہوں آپ کا نام کیا ہے؟"اردو بولنے والے کو دیکھ کر زرکا کی زبان کو پر لگ چکے تھے۔
" صدام۔۔۔آپ کی ڈش کا بہت شکریہ اپنی امی کو بھی شکریہ کہیے گا خدا حافظ" اس نے مصنوعی مسکراہٹ سے رسمی جملوں کا تبدلہ کر کے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا یہ سوچے بغیر کہ اس دھان پان سی لڑکی کو برا بھی لگ سکتا ہے مگر صدام حیدر کو کہاں پرواہ تھی۔ اس کی زندگی میں کسی بھی لڑکی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
********
پو پھوٹتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ فضا میں ابھی بھی اندھیرے کے کچھ نشانات باقی تھے۔ اس نے اپنے آپ کو صحن میں بچھی ہوئی اس اکلوتی چارپائی پر پایا تھا جہاں وہ رات بارش کے بعد کھیس لپیٹ کر سویا تھا۔ اس نے کھیس پرے دھکیلا اور چارپائی کے نیچے سے اپنا سفری بیگ نکال کر ایک بار اسے اچھی طرح ٹٹولا۔ اندر برآمدے کے پار موجود دو کمروں میں سے ایک کی بتی جل رہی تھی شاید کوئی جاگ چکا تھا۔ وہ بیگ چارپائی پر چھوڑ کر برآمدہ پار کر کے اندر کمرے میں آگیا جہاں فررزین بی بی نماز سے فارغ ہو کر اب جانماز لپیٹ رہی تھیں۔ اسے یوں دروازے پر کھڑے ہوئے پایا تو مسکرا کر اندر آنے کا اشارہ کیا اور خود قرآن کھول کر ریل میں سجائے بستر پر ایک جانب کو بیٹھ گئیں۔
"کی گل ہے پت پریشان ہے( کیا بات ہے بیٹا پریشان ہو)" فرزین بی بی نے قرآن پاک ابھی کھولا نہیں تھا وہ یونہی ریل میں گلاف سمیت سجا ہوا تھا۔
"اجازت لینے آیا تھا ماں جی! وقت ہو گیا ہے چلنا چاہیے اب" اس کے لہجے میں نرمی کے ساتھ ساتھ عاجزی بھی تھی۔ اس کی آنکھوں کا احترام فرزین بی بی کی آنکھیں بھی نم کر گیا تھا۔
"نہ پتر میں ناشتہ بناندی ہاں( نہ بیٹا میں ناشتہ بناتی ہوں) " قرآن مجید احتیاط سے ایک طرف رکھ کر وہ اس کی سنے بغیر باہر صحن میں آگئیں جہاں ایک جانب کو کچا سا باورچی خانہ بنا ہوا تھا۔
"بیٹھ نا" چھوٹی پیڑھی اس کی جانب کھسکاتے ہوئے انہوں نے اسے اپنے قریب ہی بیٹھنے کو کہا اور خود لکڑیاں اکھٹی کر کے آگ جلانے لگیں۔
"جس کم آیا سی او ہو گیا( جس کام کے لیے آئے تھے وہ ہو گیا؟" آگ جلانے کا کام انہوں نے محض تین منٹ میں کیا تھا یہ شاید ان کا روز کا معمول ہو گا اس لیے انہیں اس میں کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
"جی ماں جی ہو گیا آپ سے جو کہا تھا اس کام کا کیا بنا۔" اس نے آواز اتنی سرگوشیانہ کر لی تھی کہ فرزین بی بی کو بھی شاید بمشکل ہی سنائی دی ہو۔
"اہو میکو سب پتا لگ گیا ہے اے رقعہ رکھ اس وچ سب لکھیا ہے( ہاں مجھے سب پتا چل گیا ہے یہ خط رکھو اس میں سب لکھا ہے)" انہوں نے دوپٹے کے پلو سے ایک گرہ کھول کر اس میں سے ایک سفید کاغذ نکال کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود پراٹھا بیل کر توے پر ڈالنے لگیں۔ وہ انہیں مہارت سے کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا ساتؓ ہی انہوں نے سٹیل کے ایک درمیانے پیالے میں انڈہ پھینڑ کر ڈالا تھا پراٹھا اتار کر چنگیری میں رکھنے کے بعد انہوں نے اسی توے پر پھینٹا ہوا انڈہ ڈالا اور دو منٹ میں انڈہ تل کر پراٹھے کے ساتھ اس کے سامنے رکھ دیا۔
"آپ اکیلی کیوں رہتی ہیں یہاں؟" اسے اب فرزین بی بی میں دلچسپی ہونے لگی تھی وہ تنہا عورت کس طرح سے یہاں رہتی تھی اس کے لیے یقیناً حیرت کی بات تھی۔ اس کے سوال پر دیگچی میں دودھ ڈالتے ہوئے فرزین بی بی کے ہاتھ لحظہ بھر کو تھمے تھے مگر پھر وہ واپس سے اپنے کام میں مگن ہو چکی تھیں۔
"جس دا کوئی نہیں ہوندا اس دا اللہ ہوندا اے اس نوں کلے ہی رہنا پیندا اے پچھڑے( جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا اللہ ہوتا ہے اسے اکیلے ہی رہنا پڑتا ہے بچے" دودھ میں پتی ڈالتے ہوئے انہوں نے انتہائی عام سے لہجے میں کہا تھا مگر اس عام سے لہجے میں چھپی ان کی اذیت اس سے مخفی نہیں رہ پائی تھی۔
"نظام کیسے چلتا ہے آپ کے گھر کا؟" وہ پتا نہیں کیوں ان سے ان کا اگلا پچھلا شجرہ پوچھنے بیٹھ گیا تھا۔ ساتھ ساتھ انڈے پراٹھے سے انصاف بھی جاری تھا جو بھی تھا اس سے زیادہ لذیذ انڈہ پراٹھا اس نے کبھی زندگی میں نہیں کھایا تھا۔
"دو مجاں نے دودھ دیندیا نے اس نو ویچ کے گزارا ہو جاندا( دو بھینسیں ہیں دودھ دیتی ہیں اس کو بیچ کر گزارا ہو جاتا۔" گرما گرم دودھ پتی کا پیالہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے فرزین بی بی نے کہا تو وہ خاموشی سے دودھ پتی پینے لگا۔ انڈہ پراٹھا وہ ختم کر چکا تھا۔
"میں آپ کے گھر آپ کا مہمان بن کر آیا تھا میں کون ہوں اور کس لیے یہاں آیا تھا کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے اور اگر ایسا ہوا تو آپ جانتی ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوسکتا۔" پیالے میں سے تیزی سے گھونٹ بھرتے ہوئے اس نے کہا تو فرزین بی بی اثبات میں سر ہلا گئیں۔
"تو فکر نہ تھین بس مینوں ملن آجائیں کدی کدار( تم فکر نہ کرو بس مجھے ملنے آجانا کبھی کبھار)" ان کے نحیف چہرے پر التجا تھی جسے وہ چاہ کر بھی رد نہیں کر پایا تھا۔ ان سے اجازت لے کر اس نے اپنا سفری بیگ تھاما اور اس گاؤں کے اس ننھے گھر سے باہر نکل آیا۔ سفر ابھی بہت لمبا تھا اور منزل کا کوئی نشان تک نہیں تھا نجانے اس کی تلاش اسے کہاں تک لے کر جانے والی تھی۔
*************************
اندھیری رات میں وہ ہوٹل کے اس کمرے میں لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا تھا۔ اسے جلدی جلدی اپنے کام نمٹا کر پھر کل سکردو کے لیے بھی فلائی کرنا تھا۔ ڈائینگ ٹیبل کی کرسی پد بیٹھا ہوا وہ ساتھ ساتھ گرم کافی کے گھونٹ بھی بھر رہا تھا۔ نائٹ سوٹ میں ملبوس اس کا چہرہ تھکاوٹ کے واضح نشان لیے ہوئے تھا۔ وہ اپنی میلز چیک کررہا تھا اسے چند لمحوں میں ایک ضروری ای میل آنا تھی بے وجہ میلز سکرول کرتے ہوئے اس کی نگاہ ایک ای میل پر ٹھہر گئی۔ بھیجنے والے کا ای میل اڈریس کافی عجیب سا تھا اس نے ایسے ہی ای میل کھولی تو اندر لکھی تحریر پڑھ کر چہرے پر الجھن ابھر آئی۔
"جب سے تم کو دیکھا ہے "
کچھ اور نہیں دکھتا
تم وہ ہو جو بھا گئے مجھ کو
اب اور کچھ نہیں دستا"
پیار سے
ڈی۔زیڈ
چھوٹی سی ای میل کافی عجیب سی تھی۔ اس نے ایک بار پھر سے ای میل اڈریس پر غور کیا تھا۔ ڈی زیڈ نائن فائو فائو ایٹ دا ریٹ آف جی میل ڈاٹ کام۔۔۔ اس نے شانے اچکائے اور وہ ای میل بند کر دی تب تک اسے اس کی مطلوبہ ای میل کا نوٹیفکیشن بھی مل چکا تھا۔ اس نے اپنی مطلوبہ ای میل کھولی جہاں پر ایک کاغذ کی جے پیگ فائل تھی اس نے فائل کھولی تو اندر لکھی تحریر پڑھ کر اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔ اس نے اسی طرح فائل جبرئیل کے ای میل آڈریس پر بھیجی اور باقی کی کافی ایک ہی سانس میں ختم کر کے لیپ ٹاب بند کرتا ہوا بستر پر لیٹ گیا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دھیان بار بار بھٹک کر اس نامعلوم رومینٹک ای میل کی جانب جا رہا تھا جسے کرنے والا کون تھا وہ نہیں جانتا تھا شاید کسی نے غلطی سے بھیج دیا ہو یہ وہ پہلا خیال تھا جسے سوچ کر ہی وہ مطمئن ہو گیا تھا ورنہ عنصب کا دماغ جہاں اٹک جاتا وہاں سے اسے ہٹانا پھر مشکل ہی ہوتا تھا مگر فی الحال کے لیے اس کا دماغ اس دوسرے آفیشل ای میل پر اٹکا ہوا تھا جسے صبح سکردو جانے سے پہلے اسے باس کے ساتھ ڈسکس کرنا تھا۔ رات گہری ہوئی تو نیند کی دیوی اس پر خود ہی مہربان ہو گئی۔
****************
نومبر کے آغاز میں پھولوں کے شہر کا موسم ایک دم ہی تبدیل ہوا تھا۔ وہ ہوا جو پچھلے مہینے ہلکی سی گرم تھی وہ اب عجیب سی ٹھنڈک میں بدل گئی تھی۔ موسم کی اس بے روا تبدیلی نے پھولوں کے شہر کے مکینوں پر اچھا اثر ڈالا تھا۔ خان ہاؤس میں بھی موسم کی اس تبدیلی نے مکینوں کے موڈ خاصے خوشگوار کر دیے تھے۔ خبیب اور کیف امل اور عمائمہ کے ساتھ لاونج میں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے جبکہ میرال قریب ہی بیٹھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھی۔ آنیہ کچن کے باہر ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی پالک کاٹنے میں مصروف تھی جبکہ زیبا یونہی سامنے بیٹھی اخبار دیکھ رہی تھی۔
"گوشت نکال کے رکھ آئی ہو؟" آنیہ نے پالک کاٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں اس سے پوچھا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
"صاریہ آپا کو بھی پتا نہیں پالک سے کیا محبت ہے جب بھی آنا ہو فرمائش کر دیتی ہیں کہ زارا سے بولنا پالک گوشت اور چاول بنا لے اوپر سے جبرئیل بھائی نے آج طراب بھائی اور مائرہ بھابھی کو بھی بلا لیا۔ شمس بھائی اور علینہ رہتے تھے میں نے انہیں بھی کال کردی کہ جب سب اکھٹے ہو ہی رہے ہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں۔" زیبا نے مزے سے اپنا کارنامہ سنایا تو آنیہ نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔
"تمہیں نہیں پتا ماسی آگے ہی نہیں آرہی ہے اور ہم لوگوں کو تمام ماسیوں والے کام کرنے پڑ رہے ہیں۔" زیبا نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو آنیہ شانے اچکا کر ہنس دی۔
"پتا ہے جتنے کام تم نے کرنے ہیں ویلی نکمی پالک زارا بھابھی نے بنا لینی ہے چاول میں پکا لونگی ایک مرغی کا سالن بنانا ہے تمہیں اس کے لیے بھی موت آرہی ہے تمہیں کباب ڈی فروسٹ ہیں باقی کچھ بازار سے منگا لینگے آفٹر آل ہمارے بندوں کو بھی پتا ہے کہ ہماری ماسی چھٹی پر گئی ہوئی ہے اور ہم آج کل خود ہی ماسیاں بنے ہوئے ہیں۔" آنیہ نے سارا مسئلہ ہی چٹکیوں میں ہل کیا تھا البتہ زیبا ابھی بھی شش و پنج کا شکار تھی۔
"زارا بھابھی ہیں کہا پتا تو چلے پہلے پھر ہی کچھ پکے گا نا۔" اب کی بار زیبا نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا تو آنیہ نے سر جھٹک کر واپس بالک کاٹنا شروع کردی۔
"لانڈری آئیریا میں ہیں کپڑے دھو رہی ہیں۔" وہ پالک کاٹ کر ٹوکری کچن میں لیجاتے ہوئے گویا ہوئی تو زیبا اثبات میں سر ہلا کر بچوں کی جانب متوجہ ہو گئی جو لڈو میں جتی ستی ہورہے تھے۔
"تم لوگوں کو لڑنے کو نہیں کہا آرام سے کھیلنا ہے تو کھیلو ورنہ سب کے اباؤں کو ان کی شکایت لگا دونگی۔ جب دیکھو ناک میں دم کیے رکھتے ہیں۔ " وہ ڈائینگ ٹیبل سے سلاد کا سامان اٹھا کر کاٹتے ہوئے گویا ہوئی تو کیف کی زبان میں کھجلی ہونے لگی۔
"کیا ہوگیا چچی! ماسی کے نہ آنے کا غم کچھ زیادہ ہی سوار کر لیا ہے آپ نے کوئی نہیں دو دن میں آجائے گی۔" کیف نے خبیب کی جانب دیکھتے ہوئے آنکھ دباتے ہوئے کہا تو زیبا نے اسے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا۔
"تمہارے ابا کو تو پہلی فرصت میں شکایت کرتی ہوں ابا تک کیا جانا اماں تو تمہاری گھر میں ہی ہیں نا پہلے انہی سے تمہیں مار پڑواتی ہوں۔" وہ دانت پیستی ہوئی گویا ہوئی تو کیف خجل سا ہو کر اسے دیکھنے لگا جس کے تیور اسے کچھ صحیح معلوم نہیں ہو رہے تھے۔ تب تک زارا بھی لانڈری ائیریا سے باہر آ چکی تھی۔
"یہ دیکھ لیں بھابھی کیا کہہ رہا ہے آپ کا بیٹا چھیڑ رہا ہے مجھے۔" اس نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا تو اس کی شکل دیکھ کر زارا کو ہنسی آگئی۔
"کیف میں جوتے سے مرمت کرونگی تمہاری چلو اٹھو سمیٹو یہ سب اور جا کر نہاؤ گندے کہیں کے۔" زارا نے اسے تنبیہہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا تو وہ شرافت سے لڈو سمیٹ کر زینوں کی جانب بڑھ گیا۔ وہ خود بھی کچن میں آگئی جہاں آنیہ چاول بگھو رہی تھی۔
"زیبی کو تو زیادہ ہی دکھ ہے رحیمہ بی کے نہ آنے کا عجیب چڑچڑی ہو رہی ہے آج سے پہلے تو کبھی اس نے ایسے نہیں کیا۔" آنیہ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو زارا بھی سوچ میں پڑ گئی جو بھی تھا کہہ تو وہ بالکل ٹھیک رہی تھی آج کل زیبا کچھ بدلی بدلی سی تھی چھوٹی چھوتی باتوں پر چڑ جاتی تھی خبیب کی جانب بھی اس کی توجہ اس طرح سے نہیں تھی جیسے ہمیشہ ہوا کرتی تھی۔ زارا موقع دے کر اس سے بات کرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی کچھ تو تھا ایسا جو غلط ہو رہا تھا اس کے ساتھ۔ وہ سر جھٹک کر اُبالی ہوئی پالک گرینڈ کرنے لگی دوسری جانب پریشر کوکر میں اس نے گوشت چڑھا رکھا تھا مگر دماغ اس کا کہیں اور ہی الجھا ہوا تھا۔
*****************
پشاور ملٹری ہیڈ کواٹر میں اس لمحے عجیب سا سناٹا تھا شاید سب اپنا اپنا کام کررہے تھے وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کچھ ضروری کاغذات کی ورق گردانی میں محو تھا ساتھ ہی لیپ ٹاپ بھی کھلا ہوا تھا جہاں نظر آتی تحریر کب سے اسے الجھائے ہوئے تھی۔ اس نے اس تحریر کا ایک پرنٹ اوٹ لیا اور جیب میں ڈالتا ہوا باہر نکل آیا۔ آفیسر نے اسے دیکھتے ہی سیلوٹ کیا اور اس کی تقلید میں چلتا ہوا اس کی جیپ تک آگیا۔
"سر! اوپر سے آڈر آیا ہے کہ آپ کام کے وقت اپنی ذاتی جیپ استعمال نہیں کرسکتے آپ کو سرکاری سواری ہی استعمال کرنی ہے گاڑی اور ڈرائیور تیار ہے آپ اس میں چلے جائیں آپ کی جیپ آپ کے گھر پہنچا دی جائے گی۔" کیپٹن بلال نے روانی میں کہتے ہوئے اس کا اچھا خاصا موڈ غارت کیا تھا اسے کرنل خاور شدت سے یاد آئے تھے وہ ہر معاملے میں اس کا کتنا ساتھ دیا کرتے تھے اب تو کسی نئے ماتحت کے انڈر کام کرنا اور اسے رپوٹ کرنا اسے بے حد مشکل لگتا تھا۔ گاڑی پشاور کے کینٹ میں داخل ہوئی تو اس کے اعصاب خود بخود ہی ڈھیلے پڑنے لگے وہ کام کے حوالے سے وہاں آیا تھا لہذا اس پر فرض تھا کہ وہ پروفیشنل بی ہیو کرتا۔ گاڑی سیون سیز گیسٹ ہاؤس کے اندر رکی تو ڈرائیور نے نیچے اتر کر اس کی جانب کا دروازہ کھولل دیا وہ نیچے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔ وہ وردی میں ملبوس تھا۔ سیون سیز گیسٹ ہاؤس میں ہر جانب سکون اترا ہوا تھا۔ ملازم نے اسے دیکھ کر مہمانوں والے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے انتظار کرنے کے لیے کہا اور خود باہر نکل گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہی ملازم پھر سے اندر داخل ہوا تھا اب کی بار اس کے ہاتھ میں چائے بسکٹ والی ٹرے بھی موجود تھی۔ اس نے ٹرے میز پر رکھی اور صاحب کے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے باہر نکل گیا۔ اس نے ایک نگاہ اپنے اطراف میں ڈالی تھی کمرہ مکمل طور پر پُرآسائش تھا۔ سارے کمرے کی دیواروں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے صوفے نصب تھے دیوار گیر پینٹنگز کمرے کو مزید خوبصورت دکھا رہی تھی۔ ایک کونے میں میز رکھا تھا جس کے اوپر قدم زمانے کی بندوقیں لٹک رہی تھیں۔ چائے کا کپ ابھی بھی میز پر ان چھوا رکھا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید جائزہ لیتا کمرے کا دروازہ کھول کر میجر جنزل غلام عباس اندر داخل ہوئے تھے سفید واشنگ وئیر کی استری شدہ شلوار قمیض میں ملبوس کف کوہنیوں تک موڑے فوجی کٹ میں کٹے ہوئے سیاہ و سفید بال چہرے پر بالوں کے ہم رنگ ہی سیاہ و سفید مونچھیں تھیں جو ان کی شخصیت کو اور بھی بارعب دکھا رہی تھیں۔ گندمی رنگت والے غلام عباس کی شخصیت میں عجیب سا رعب تھا جو دیکھنے والے کو مرعوب کرنے کو کافی تھا۔
"اسلام علیکم سر!" اس نے کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا تو وہ جواب دے کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بھی سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گئے ان کی توجہ مکمل طور پر سامنے بیٹھے ہوئے جبرئیل کی جانب تھی۔
"کہیے کرنل جبرئیل! کیسے آنا ہوا؟" غلام عباس کی توجہ مسلسل جبرئیل کی جانب تھی وہ بری طرح اس کے بولنے کے منتظر تھے۔
"سر! بنووری کے گاؤں میں میں نے اپنا ایک آفیسر بطور مسافر بھیجا تھا جو انفارمیشن وہ اس گاؤں سے اکھٹی کر کے لایا ہے وہ اس کاغذ میں لکھی ہوئی ہے۔" اس نے جیب سے کاغذ نکال کر ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود بھی اٹھ کر ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
"سر یہ بنووری گاؤں سوات کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اتنا مختصر کہ آسانی سے کسی بھی آنے جانے والے کی خبر رکھی جا سکتی ہے۔ اب جس دن میرا آفیسر بنووری گیا اسی روز گاؤں کے ایک گھر میں وہاں کے رہائشیوں کے دور پار کے رشتے دار بھی آئے تھے جن کے ساتھ سامان کے نام پر بڑے بڑے سیاہ سفری بیگ تھے اور ہمارے ریکارڈ کے مطابق اسی روز آرمز کا ایک بڑا کنسائنمنٹ ملک کے شمالی علاقہ جات میں داخل کیا گیا تھا۔" وہ روانی میں بتاتا ہوا چند سانحے کے لیے ٹھہرا تھا۔
"آپ کو کیسے پتا کہ اسی روز آرمز کا کنسائنمنٹ شمالی علاقہ جات میں داخل ہوا ہے؟" غلام عباس سنجیدگی سے سنتے ہوئے گویا ہوئے تو وہ مزید کچھ آگے ہو کر بیٹھ گیا۔
"کیونکہ یہ کنسائنمنٹ ہم نے خود پاس کروایا تھا۔" وہ بولا تو غلام عباس کو لگا جیسے ان پر کوئی بم پھوڑا گیا ہو۔
"واٹ آپ کو اندازہ بھی ہے کہ اگر یہ آرمز کسی بھی غلط ہاتھوں میں چلے گئے تو کیا ہو گا؟" وہ انتہائی برہمی سے گویا ہوئے تو جبرئیل گہری سانس بھر کر خود کو پرسکون کرنے لگا۔
"ریلیکس سر دی آرمز ور فیک۔ وہ صرف اس جدید ڈیزائن کو کاپی کر کے اس طریقے سے بنوائے گئے تھے کہ کسی کے فرشتے بھی نہیں پہچان سکتے تھے کہ وہ اصلی تھے یا نقلی اور وہ شمالی علاقہ جات میں اس لیے داخل کیے گئے تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ آخر کو کون سے لوگ ہیں یہاں جو باہر سے آنے والے آرمز کلیکٹ کررہے ہیں کیونکہ سپلائی کرنے میں سب سے پہلا مرحلہ کلیکٹ کرنا ہے۔" جبرئیل کے تفصیل بتانے پر ان کے تنے ہوئے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑے تھے۔
"پھر کیا معلوم ہوا آپ کو؟" وہ اب کی بار ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر قدرے ریلیکس انداز میں صوفے پر بیٹھے تھے۔
"معلوم یہی ہوا ہے کہ جو لوگ بھی مال کلیکٹ کررہے ہیں اصل میں وہ وہاں کے مکین ہیں ہی نہیں میرے آفیسر کے مطابق اس ایک دن میں صرف تین گھر ایسے تھے جہاں مہمان نوازی کی گئی تھی یعنی آرمز باہر سے لائے گئے تھے اب وہ کس گھر میں لائے گئے یہ کہنا تھوڑا مشکل ہے کیونکہ اگر ہم وہاں کے لوگوں سے تفتیش کرتے تو یقیناً لوگوں میں خوف و حراس پھیل جاتا اور بات اگر باہر نکل جاتی تو ڈیلرز یقیناً الرٹ ہو جاتے۔" اس نے مزید تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ کسی غیر مرعی نقطے پر مرکوز اس کی جانب دیکھتے رہے۔
"آئی ڈونٹ نو کرنل! اپنی ٹیم سے کہیں مجھے ہر حال میں پتا چاہیے کہ آخر مال آ کہاں سے رہا ہے اور اس کو کلیکٹ کرنے والا کون ہے پھر ہی ہم سپلائیر ڈھونڈ سکیں گے یہ نیٹ ورکنگ ملک میں دن بدن سٹرونگ ہو رہی ہے اور میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہمارے کچھ بھی کرنے سے پہلے کوئی نقصان ہو جائے انڈر سٹوڈ؟" وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے گویا ہوئے تو وہ بھی اپنی جگہ چھور کر کھڑا ہو گیا۔
"سر!" اسے سیلوٹ کرتے ہوئے وہ ان کی اجازت کا منتظر تھا۔
"یو مے لیو ناؤ۔"انہوں نے اسے جانے کے لیے کہا تو وہ تیزی سے چلتا ہوا باہر آگیا جہاں گاڑی اور ڈرائیور اس کے منتظر تھے۔
***************
پشاور کے ایک پوش علاقے میں وہ ایک صاف ستھرا دو منزلہ کلینک تھا جس کے باہر ڈاکٹر احمر قیوم کنسلٹنٹ سائیکٹریسٹ کی نیم پلیٹ چمک رہی تھی ساتھ ہی اقات کار بھی درج تھے۔ وہ گاڑی پارک کر کے نیچے اتری تو عجیب سی کیفیات کا شکار ہو گئی۔ دل میں بار بار ایک ہی سوال ابھر رہا تھا۔
" کیا میں پاگل ہوں یا پاگل ہونے والی ہوں یا پاگل ہو چکی ہوں" اس کے دماغ میں ابھرتے ان سوالات کا جواب ندارد تھا۔
"سائیکٹریسٹ کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ خدا نخواستہ آپ پاگل ہو سم ٹائمز آپ کو کوئی ایسا انسان چاہیے ہوتا ہے جس سے آپ وہ بات کہہ سکو جو آپ چاہتت ہوئے بھی اپنے کسی سے نہیں کہہ سکتے کوئی ہوتا ہے جو صرف آپ کو سننے کے لیے موجود ہوتا ہے یہ اس کی جاب ہوتی ہے کہ وہ آپ کو بیٹھ کر سنے آپ کے پرابلمز کا سلوشن ہمیشہ ایک اچھے سائیکٹریسٹ کے پاس ہوتا ہے۔" گزشتہ روز کہی ہوئی جبرئیل کی باتیں اس کے دماغ میں گھومیں تو وہ آنکھیں بند کرتی ہوئی اپنے شل ہوتے دماغ کو ریلیکس کرنے کی کوشیش کرنے لگی۔
وہ لیمن کلر کی لمبی قمیض کو جینز کے ساتھ پہنے ہوئے تھے۔ شولڈر کٹ بال کیچر میں بندھے ہوئے تھے۔ زارا کی نسبت اس کی رنگت صاف شفاف تھی وہ ایک جازب نظر اور خوبصورت دکھنے والی لڑکی تھی مگر اس میں اعتماد کی اس درجہ کمی تھی کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتی اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا خود پر قابو ہی نہیں ہے۔ وہ جہاں ہوتی ہے وہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے اور اس اندھیرے سے خود کو نکالا جیسے اس کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ سر ایک بار پھر چکرایا تھا آنکھوں کے سامنے اندھیرا گہرا ہوا بھی تو اس نے آنکھیں کھول کر روشنی دیکھنا چاہی قدموں کی رفتار خود بخود ہی تیز ہوئی تھی۔ وہ تیزی سے چلتی ہوئی کلینک کے اندر آگئی۔ نومبر کے مہینے میں باہر خنکی تھی جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی اسے عجیب سے سکون کا احساس ہوا تھا۔ رسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی اسے حواس باختہ دیکھ کر خود ہی پوچھ بیٹھی۔
"اینی پرابلم مس؟" رسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے فائل سے سر اٹھا کر کہا تو وہ خود کو سنبھالتے ہوئے رسیپشن پر آگئی۔
"میری اپائنمنٹ ہے ڈاکٹر احمر کے ساتھ کیا وہ اویلیبل ہیں؟" کندھے پر پہنے ہوئے شولڈد بیگ کا سٹریپ پکڑتے ہوئے اس نے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلا گئی۔
"مس میرال خان! ڈاکٹر احمر آپ کا ہی ویٹ کررہے ہیں چلی جائیے۔" رسیپشنسٹ کے کہنے پر اسے عجیب سی حیرت ہوئی تھی۔
"میرا ویٹ؟" وہ انگلی اپنی جانب کرتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔ میرال گہری سانس بھر کر اس کے بتائے ہوئے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔ کلینک اس لمحے تقریباً خالی تھا۔ وہ دروازہ کھٹکا کر اندر سے اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئی تو ڈاکٹر کا آفیس دیکھ کر اس کی طبعیت پر پہلے ہاتھ ہی خوشگوار اثر پڑا تھا۔ لائٹ کریم کلر کے پردے ایک جانب کو کونے میں رکھی ہوئی راکنگ چئیر اور میز باقی پورے کمرے میں چھوٹے چھوٹے ڈیکوریشن پیسز اور گیجٹس تھے۔ میز کے سامنے دو ایزی چئیرز رکھی تھی اور ایزی چئیر کے پیچھے رکھا ہوا ایک ہلکے رنگ کا تھری سیٹر صوفہ موجود تھا۔ ڈاکٹر احمر اس لمحے اپنی راکنگ چئیر پر موجود تھے۔ پینتیس چھتیس سال کا وہ مرد انتہائی جازب نظر تھا۔ سیاہ بال ، ہونٹوں پر گہنی مونچھیں اور داڑھی صاف رنگت والے ڈاکٹر احمر کی پرنسالٹی اسے متاثر کی تھی۔ وہ سفید ڈریس شرٹ کو سیاہ ڈریس پینٹ کے ساتھ پہنے ہوئے تھے۔ اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے قریب آگئے۔
"کیسی ہیں آپ مس میرال؟ آپ کے بابا نے آپ کی آمد کے بارے میں بتایا تھا پلیز بیٹھیں۔" اس نے دو میں سے ایک ایزی چئیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ کچھ جھجھک کا شکار ہوتے ہوئے بیٹھ گئی۔ دوسری کرسی ڈاکٹر احمر نے سنبھالی تھی۔ ان کے ہاتھ میں ایک نوٹ پیڈ اور پین تھا جو فی الحال انہوں نے میز پر ہی رکھ دیا تھا۔
"کیا کرتی ہیں میرال آپ آئی مین کیا ہابیز ہیں کیا پڑھتی ہیں؟"ڈاکٹر احمر کے چہرے پر ایک نرم سا تاثر تھا اور لہجے میں بھی ایک نرمی تھی جو میرال کو کچھ کچھ متاثر کررہی تھی۔ شاید ایک سائیکٹریسٹ کی شخصیت کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ وہ بولنا نہیں چاہتی تھی مگر نجانے کیوں وہ خاموش بھی نہیں رہ پائی تھی
" میں پشاور یونیورسٹی سے لا پڑھ رہی ہوں اور ہابیز کوئی خاص نہیں ہیں۔ آئی مین یونیورسٹی آنے جانے کے علاوہ اور کتابوں کے علاوہ میں دوسری کوئی ایکٹی وٹی نہیں کرتی۔" وہ انتہائی دھیمی آواز میں بولی تو ڈاکٹر احمر تعجب سے اسے دیکھنے لگے اب کی بار انہوں نے پین اور ناٹ پیڈ بھی اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا تھا۔
"کیوں بھئی آپ تو اتنی ینگ ہیں اور ینگ لوگوں میں انرجی کا لیول بھی زیادہ ہونا چاہیے انہیں تو پڑھائی کے ساتھ موویز دیکھنی چاہیے دوستوں کے ساتھ اوٹنگ پر جانا چاہیے لائف انجوائے کرنی چاہیے ورنہ کیا مزہ۔" وہ شانے اچکا کر اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اس کے ہاتھوں کی حرکات بھی بغور دیکھ رہے تھے۔ وہ بلا وجہ بار بار اپنی ٹانگیں ہلا رہی تھی۔
"آئی ڈونٹ نو بٹ آئی ایم ناٹ انٹرسٹڈ۔" اس کا لہجہ دو ٹوک تھا جیسے اب وہ مزید بات نہیں کرنا چاہتی ہو۔
"اٹس اوکے میرال ریلکیس قرآن پڑھتی ہیں آپ اور نماز؟" ان کا کیا گیا اگلا سوال میرال کو چونکنے پر مجبور کر گیا تھا وہ شرمندگی سے چہرہ جھکا گئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی قرآن۔ ڈاکٹر احمر کو اس کے خیال میں مایوس ہو کر اسے کچھ سخت ست کہنی چاہیے تھی مگر حیرت انگیز طور پر وہ مسکرا رہے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
"اٹس اوکے آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے نماز اور قرآن خالصتاً انسان اور اللہ کے بیچ کا معاملہ ہے مگر بعض اوقات یہ معاملہ ہمارے بہت سے معاملات کو حل کر جاتا ہے۔" وہ اب کی بار اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے کے ایک کونے میں بنے ہوئے بک شیلف کی جانب بڑھے اور سب سے اوپر والی شیلف سے انہوں نے ایک سیاہ غلاف میں لپٹا ہوا چھوٹا قرآن اٹھا لیا۔ قرآن اٹھائے وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ میرال خاموشی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"یہ دیکھیں یہ قرآن ہے جو میں ہمہ وقت کوشیش کرتا ہوں کہ اپنے پاس رکھوں جب پریشان ہوں اور کوئی گرہ میرے دل کو جکڑے تو میں اسے کھول کر پڑھوں اور پتا میرے ساتھ ایک بہت ہی عجیب چیز ہوتی ہے۔" وہ اپنی بات کہہ کر چند ثانحے ٹھہرے تھے میرال بغور ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے ان کے مزید بولنے کی منتظر تھی۔
"ہمیشہ وہی صفحہ کھلتا ہے جس میں یا تو میری پریشانی کا حل ہوتا ہے یا تو مجھے سکون مل جاتا ہے۔" ڈاکٹر احمر کی بات اس کے لیے بہت حیران کن تھی۔
"کیا آپ آزمانا چاہیں گی؟" وہ اس میں ایک عجیب سا تجسس پیدا کر رہے تھے اور ان کا تیر عین نشانے پر جا لگا تھا۔
"وضو کر لیں پہلے۔" انہوں نے اسے قرآن چھونے سے پہلے واشروم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ معذرت کرتی ہوئی باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔ کچھ دیر بعد باہر نکلی تو چہرہ بھیگا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ بھی موجود تھا۔ وہ خاموشی سے چپ چاپ واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئی۔
"چلیں اپنی مرضی سے قرآن کا کوئی بھی صفحہ کھولیں اور دیکھیں کہ اللہ نے آپ کے لیے کونسی آیت بھیجی ہے۔" ان کے چہرے پر انتہائی پرسکون مسکراہٹ تھی۔ میرال نے کانپتے ہاتھوں سے قرآن مجید کھولا تو اس کے سامنے سورہ کف کھل گئی۔ اس کی نگاہ ایک آیت پر ٹھہر گئی۔
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔"
سورت کف آیت نمبر 5
اس نے آیت پڑھی اور ناسمجھی سے ڈاکٹر احمر کی جانب دیکھنے لگی۔ وہ آنکھیں بند کر کے مسکرائے تھے ایک بار پھر اللہ کی ذات نے انہیں حیران کیا تھا۔
"سورت کف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنے تمام فیصلے اللہ پر چھوڑ دینے چاہیے اس یقین اور بھروسے کے ساتھ کہ جو فیصلے اللہ ہمارے لیے کرتا ہے وہ کبھی غلط نہیں ہوتے۔ انسان جو فیصلے خود کرتا ہے بعض اوقات وہ فیصلے ان کے لیے غلط ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان اکثر بہت سارے فیصلے بنا سوچے سمجھے محض اپنے فائدے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کر لیتا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ اپنے لیے ایک جاہلیت بھرا فیصلہ کررہا ہے اگر یہی انسان صحیح وقت کا انتظار کرے اور اللہ کی ذات پر یقین رکھے تو اللہ سے بہتر حکم کرنے والا اور فیصلہ سنانے والا دوسرا کوئی نہیں ہے۔ " انہوں نے اسے اس آیت کی تسفیر بتائی تو وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔
"آپ اپنے آپ کو دیکھیں آپ میں ہمہ وقت ایک جنگ چل رہی ہوتی ہے آپ دوسروں کی سننا چاہتی ہیں مگر آپ کے اندر ایک ایسی آواز موجود ہے جو آپ کو خود سے ہٹنے ہی نہیں دیتی اسی لیے آپ ڈوؤل پرسنلٹی کا شکار ہیں۔" ڈاکٹر احمر کی بات نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے تھے۔
"میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہیے۔" وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"آپ کی نیکسٹ اپائنٹمنٹ آپ کو ٹیکسٹ کردی جائے گی رسیپشن پر اپنا نمبر چھوڑ جائیے گا پلیز۔" وہ کہتے ہوئے اپنی کرسی کی جانب بڑھے تو وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ڈاکٹر احمر سے میرال خان کی یہ پہلی ملاقات اس کی شخصیت میں عجیب سے در کھول گئی تھی کیا اس کی ذات میں تبدیلی واقع ہونی تھی یہ تو آنے والا وقت ہی بہتر بتانے والا تھا۔
جاری ہے